سوال: کچھ عرصہ ہوا، ایک دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی۔ سوال یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور ہے تو وہ کہاں سے آیا؟ ہم دونوں اس معاملے میں علم نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی میں سوال کے پہلے جزو کی حد تک اپنے مخاطب کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن دوسرے جز کا کوئی جواب مجھ سے بن نہیں آیا۔ چنانچہ اب یہ سوال خود مجھے پریشان کر رہا ہے۔ایک موقع پر میری نظر سے یہ بات گزری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ باتیں انسان کے سوچنے اور سمجھنے سے باہر ہوتی ہیں ، اور یہ سوال بھی انھی میں شامل ہے۔میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ آنحضرتؐ کے اس فرمودہ سے اطمینان حاصل کروں، لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ براہِ کرم آپ میری مدد فرمائیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے؟
جواب: آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اُٹھانے سے پہلے اپنے علم کے حدود (limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہ پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ آثارِکائنات پر غور کر کے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’علم‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’علم‘ کی حد تک پہنچا سکے۔
اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’علم‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلندوبرتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’زندگی‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس دان کہتے ہیں کہ اسی نے مادہ کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’کیوں‘ اور ’کیسے‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غوروفکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کے بجاے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔ یہ سوال تو بے شک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں، اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں، اور اس کے ساتھ ہمار ے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی راے اختیار کرنا ضروری ہے۔کیونکہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے۔ اور اس معاملے میں ایک راے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔
آپ کا دوسرا سوال کہ ’’انسان کو انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے‘‘ ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب ایک خط میں دیا جاسکے۔ میں اپنی کتابوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر مفصل لکھ چکا ہوں۔ آپ ان کو ملاحظہ فرمائیں۔ مثلاً اس کے لیے میرے مضامین سلامتی کا راستہ، اسلام اور جاہلیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر اور دین حق کا مطالعہ مفید رہے گا۔ نیز رسالہ دینیات سے بھی آپ کو اس معاملے میں کافی رہنمائی حاصل ہوگی۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، دوم، ص ۲۷۳-۲۷۴)
س: اسلام میں بچیوں کی بروقت شادی کی کیا اہمیت ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟ میری ایک سہیلی جس کی عمر ۲۸سال ہوچکی ہے لیکن اس کے والدین اس کی شادی کے بارے میں سنجیدہ نہیں دکھائی دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی سنت ہے، خواہ اسے اپنایا جائے یا نہ اپنایا جائے، یہ فرض نہیں ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ اچھا رشتہ نہیں ملتا۔ جب کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ شادی کرسکیں، حالانکہ اس کے والد وفاقی حکومت کے گریڈ۱۸ کے ملازم ہیں۔ وہ مختلف اوقات میں مختلف بے بنیاد جواز پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے آپ کو اچھا مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ وہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور حرام سے بچتے ہیں۔ براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل جواب دیجیے، نیز یہ بھی واضح کریں کہ آیا شادی جیسے مذہبی فریضے کی ادایگی کے لیے پیسہ لازمی عنصر ہے؟
ج: آپ نے اپنے سوال میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلے کی طرف متوجہ کیاہے۔ بعض اوقات لڑکیاں خود یہ رویہ اختیار کرتی ہیں کہ ابھی شادی کی جلدی ہی کیا ہے، بہت عمر پڑی ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کی جائے، پھر ملازمت کی جائے اور جب کوئی مناسب رشتہ آئے تو اس پر بھی غور کرلیا جائے۔ ایسے ہی بعض والدین عاقبت نااندیشی اور بعض مادیت کے زیراثر یہ انتظار کرتے ہیں کہ کسی زیادہ مال دار فرد کی طرف سے رشتے کی پہل ہو تو اس پر غور کریں۔ ایک تیسرا زیادہ خطرناک تصور جو مغربی تہذیب اور ہندوازم کے ساتھ طویل عرصے کے تعامل (interaction) کے نتیجے میں بعض حضرات کے ذہنوں میں اُبھر آیا ہے وہ بجاے خود شادی اور خاندانی زندگی کی اہمیت کو محسوس نہ کرنا اور تجرد کی زندگی گزارنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرنے کا ہے۔
جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں حکم دیا ہے کہ: وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْ ط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۳۲)،’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان سے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں دو انتہائی اہم اصول تعلیم کیے گئے ہیں۔ اوّلاً یہ حکم کہ مجرد افراد مرد ہوں یا عورت، ان کا نکاح کردیا جائے، کیونکہ نکاح ایک ایسا حصار ہے جو نہ صرف ایک فرد کو بلکہ پورے معاشرے کو بُرائی سے محفوظ رکھنے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ پھر یہ بات فرمائی گئی کہ نہ صرف مجرد افراد بلکہ اگر لونڈی غلام بھی شادی کی عمر کے ہوں تو ان کا بھی نکاح کردیا جائے۔ اس سلسلے میں مال کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا بنیاد نہ بنائی جائے۔ چنانچہ فرمایا: اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو ہم انھیں غنی کردیں گے۔ قرآن کریم نے اپنے اس حکم کے ذریعے ان تمام معاشی دلائل کو رد کردیا ہے جن کی بناپر لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کو مؤخر کرتے رہتے ہیں۔
رہا سوال شادی کی فرضیت کا تو اُوپر درج کی گئی آیت مبارکہ سے بڑھ کر فرضیت کا حکم اور کون سا ہوسکتا ہے۔ اسی پہلو کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح میں یوں فرمایا گیا کہ ’’نکاح میری سنت ہے‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا گیا: ’’نکاح میری سنت ہے، اور جس نے نکاح پسند نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ اس حدیث نے اصولی طور پر یہ بات طے کردی کہ اگر ایک شخص نکاح کا انکار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے اپنے عمل کی بناپر خارج کرلیتا ہے۔ ہاں، ایک فرد مسلسل کوشش کر رہا ہو اور باوجود کوشش کے نکاح نہ کرپائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔
یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ قرآن ہو یا سنت ِ رسولؐ دونوں کا نام شریعت ہے، ان میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ نکاح کے معاملے میں دونوں کے واضح احکام ہیں۔ اس لیے جان بوجھ کر اور محض مزید بہتر کا غیرمتعین انتظار کرنے کی بنا پر نکاح نہ کرنا شریعت کے منافی ہے۔ والدین کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچانے کے لیے جب شادی کی عمر ہوجائے تو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ شادی ایک دینی فریضہ ہے اور اس کو بلاعذر شرعی مؤخر کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرے پاس کچھ زمین ہے۔ کچھ زمین مَیں نے بچوں کی تعلیم کے لیے فروخت کردی ہے اور باقی فروخت کر کے حج کرنا چاہتا ہوں۔ پنشن میں میری گزراوقات ہوجاتی ہے۔ میری اہلیہ کا اصرار ہے کہ وہ بھی حج پر ساتھ جائیں گی، جب کہ اتنی رقم نہیں ہے کہ انھیں ساتھ لے کر جائوں لیکن وہ بضد ہیں۔ میری رہنمائی فرمادیں۔
ج: آپ پر حج فرض نہیں ہے اور عمرہ تو نفلی عبادت ہے۔ اس لیے آپ اپنی زمین فروخت کر کے حج یا عمرہ پر جانے کا پروگرام ترک کردیں۔ نفلی عبادات جو بآسانی اپنے گھر پر رہ کرکرسکتے ہیں کریں اور دعوتِ دین کا کام پورے جذبے اور شوق سے کریں اور اس میں اگر کچھ خرچ کرسکتے ہوں تو کریں۔ حسب ِ استطاعت لٹریچر خرید کر عوام میں تقسیم کریں کہ یہ کام تو فرض ہے۔ فرض کو ادا کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ اتنے وسائل عطا فرما دیں کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ کرسکیں تو پھر عمرہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اس طرح آپ عمرہ بھی کرلیںگے اور اپنی بیوی کی خواہش کو بھی پورا کردیں گے۔(مولانا عبدالمالک)
س: خاندان کے ایسے اجتماع میں شرکت کے بارے میں کیا حکم ہے جو مخلوط ہو اور مردوخواتین بآسانی مل جل رہے ہوں؟ کچھ لوگوں کی راے ہے کہ ہم صلۂ رحمی کے جذبے سے جاتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہم باپردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ہم دوسروں کے ذمہ دار نہیں۔ کیا گناہ پر مبنی یہ مجلس اللہ کے حکم کا مذاق اُڑانے کے مترادف نہیں ؟
ج: ایسی مجلس میں جو مخلوط ہو ، مردو زن بآسانی مل سکتے ہوں، جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ محض اتنی بات وجۂ جواز نہیں ہوسکتی کہ آپ باپردہ ہوں۔ دوسرے بے پردہ لوگ مجلس میں ہوں اور آپ ان پر نکیر نہ کریں تو آپ باپردہ ہونے کے باوجود بے پردہ لوگوں کے گناہ میں شریک ہوں گی۔ اس لیے یا تو وہاں مناسب اور معقول انداز سے مجلس کو فحاشی اور عریانی سے پاک کرنے میں کردار ادا کریں ورنہ جانے سے معذرت کرلیں، اور دعوت دینے والے پر واضح کردیں کہ مجلس میں شرعی آداب کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، اس لیے میں شرکت سے معذور ہوں۔ (مولانا عبدالمالک)