جس شخص کے دل میں ایمانِ راسخ موجود ہوگا اور جو اللہ سے ایسا ڈرنے والا ہوگا جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اُس کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے اور اُسے راہِ حق کی دعوت نہ دے۔ کہیں بدی کا وجود پائے اور اُس کو مٹانے کی کوشش نہ کرے۔ طبیعت ِ مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مُشک، کہ رائحہ [خوشبو]ایمان اُس کے جِرمْ [جسم]تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی ہے جہاں تک پھیلنے کا اُسے موقع ملے، یا چراغ کہ نورِ ایمان سے جہاں وہ منور ہوا، اور اُس نے آس پاس کی فضا میں اپنی شعائیں پھیلا دیں۔ مُشک میں جب تک خوشبو رہے گی، وہ مشامِ جان کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا، روشنی کرتا رہے گا۔ مگر جب مُشک کی خوشبو قریب سے قریب سونگھنے والے کو بھی محسوس نہ ہو، اور چراغ کی روشنی اپنے قریب ترین ماحول کو بھی روشن نہ کرے، تو ہر شخص یہی حکم لگائے گا کہ مُشک، مُشک نہیں رہا اور چراغ اپنی چراغیت کھو چکا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے، کہ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے، نیکی کا حکم نہ دے، بدی کو برداشت کرے اور اِس سے روکے نہیں، تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ اُس میں خوف ِ خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہو گئی ہے....
ایک وقت وہ آئے گا کہ کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہوں گے مگر اُن کی شمعِ ایمان میں اتنی روشنی بھی نہ ہو گی کہ اپنے قریبی ماحول ہی کو منور کرسکیں، بلکہ ظلمت ِ کفر کے غلبے سے خود اُن کے اپنے نور کے بجھ جانے کا خوف ہوگا۔ لہٰذا ایسی حالتوں کے لیے اُس نے فرمایا کہ تمھارے اندر کم از کم ایک ایسی جماعت تو ضرورہی موجود رہنی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دینے والی اور بدی کا مقابلہ کرنے والی ہو۔ کیونکہ اگر تمھارے اندر ایک ایسی جماعت بھی نہ رہے، تو پھر تم کو عذاب ِ الٰہی اور قطعی ہلاکت و تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔(’اشارات‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ، ستمبر۱۹۵۳ء، ص ۷-۹)