ستمبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

مصری فوج کے مظالم اخوان کی جمہوری جدوجہد

عبد الغفار عزیز | ستمبر ۲۰۱۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

ذرا مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ انھوں نے یہ بیان گذشتہ مصری انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے عوام کی لمبی لمبی لائنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مصری عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ۱۵،۱۵ گھنٹے بھی لائنوں میں لگنا پڑے تو یہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے زیادہ بہتر ہے کہ جس سے مصر ایک بار پھر ۳۰ سے ۴۰ سال پیچھے چلا جائے‘‘۔ الجیش المصری أسد بجد و الأسد ما بیأکلش أولادہ، ’’مصری فوج حقیقی شیر ہے اور شیر کبھی اپنے بچے نہیں کھاتا‘‘۔ جمہوری نظام کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرمایا: ’’مصری عوام کے سر پہ آج تک کسی نے شفقت کا ہاتھ ہی نہیں رکھا تھا___ ہم کبھی بدعہدی یا خیانت نہیں کریں گے‘‘۔ سچ فرمایا آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘‘۔

جنرل سیسی کے یہ ’ارشادات‘ اخوان المسلمون کے اس بیان میں بھی نقل کیے گئے ہیں جو ۱۴؍ اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان میں لاکھوں عوام کے پُرامن دھرنوں کے خلاف سفاکانہ فوجی کارروائی کے بعد جاری ہوا ہے۔ یہ دھرنے دورِحاضر کا ایک نیا ریکارڈ تھے۔ بلامبالغہ لاکھوں مردوزن مسلسل ۴۸ روز تک سخت گرمی اور حبس کے عالم میں، دن رات سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ پورا ماہ رمضان یہیں بیٹھ کر اللہ سے مناجات کیں۔ عید بھی یہیں گزاری۔ اسی دوران جنرل سیسی کے شیر جوانوں نے فائرنگ کرکے سیکڑوں افراد شہید کردیے، جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں۔ کارتوسوں اور گولیوں سے دو ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے، لیکن عوام نے دھرنا ختم نہیں کیا۔

اگر اس موقع پر فوجی ڈکٹیٹر کا تسلط قبول کرکے گھر بیٹھ جاتے تو ملک ایک بار پھر ۶۰،۷۰سال کے لیے فرعونی پنجوں میں چلا جاتا۔ مصری عوام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور صرف قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان ہی میں نہیں، پورے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ دھرنا طویل، موسم دشوار تر اور جلاد حکمرانوں کی سفاکیت بڑھی تو کچھ افراد دھرنا چھوڑ کر گھروں کو بھی لوٹ گئے۔ اگلے ہی روز سیکورٹی فورسز نے انھیں گرفتار کرتے ہوئے اور ان پر قتل اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات قائم کرتے ہوئے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا۔ مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ ۳ جولائی کو منتخب صدر کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد سے جاری ہے۔ صدر محمد مرسی، حریت و عدالت پارٹی کے سربراہ اور منتخب سپیکر ڈاکٹر سعد الکتاتنی، نائب مرشد عام انجینئر خیرت الشاطر اور دوسرے نائب مرشد عام ڈاکٹر رشاد البیومی سمیت بہت سے اسیر اسی روز سے گرفتار ہیں۔

دھرنے کے دوران بیرونی سفارت کاری کا ڈراما بھی رچایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ، یورپی یونین کی وزیر خارجہ اور بعض خلیجی ریاستوں کے ذمہ دار قاہرہ پہنچے۔ جان کیری قاہرہ جانے سے پہلے اسلام آباد میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران یہ بیان دے گئے تھے کہ مصری فوج نے ملک میں جمہوریت بحال کردی ہے۔ اسی بیان سے اندازہ لگا لیجیے کہ انھوں نے وہاں کیا سفارت کاری اور کیا مذاکرات کیے ہوں گے۔ واضح طور پر جانب دار مصالحت کاروں کا تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مظاہرین دھرنا ختم کردیں اور فوجی انقلاب تسلیم کرلیں۔ رہے عوام کے یہ مطالبات کہ ۶۵ سالہ  فوجی اقتدار کے بعد منتخب ہونے والا صدر بحال ہو، ۶۴فی صد عوام کی تائید سے بنایا جانے والا دستور بحال کیا جائے، انقلاب کے وقت تحلیل کی جانے والی منتخب سینیٹ بحال کی جائے___ تو یہ تینوں مطالبات شاید اتنے ’نامعقول‘ تھے کہ فوجی جنرل اور مصالحت کار ان پر کوئی بات ہی کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر بیرونی سفارت کار واپس چلے گئے اور فوجی حکومت نے اعلان کردیا کہ ’اخوان‘ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے اور حکومت نے قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گویا یہ دھمکی دینے سے پہلے تو فوجی حکومت عوام پر پھول برسا رہی تھی اور اب قوت استعمال کی جائے گی۔

  •  درندگی و سفاکیت کی انتھا:۳ جولائی ۲۰۱۳ء کو تختہ الٹنے کے ۳ روز بعد ۶ جولائی کو جیسے ہی امام نے نماز فجر کی دوسری رکعت میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہا، مظاہرین پر فائر کھولتے ہوئے ۱۲۰ نمازی شہید کردیے گئے۔ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ ۲۴ جولائی کو اسی طرح کی سفاکیت کا مظاہرہ دوبارہ کیا گیا۔ ایک بار پھر عین نماز فجر کے دوران فائرنگ کی گئی، ۲۵۰ سے زائد نمازیوں نے جام شہادت نوش کیا اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ دوہفتے کے دوران میں یہی ۴۰۰ کے قریب نہیں، وسط جون سے مختلف شہروں میں اخوان اور حریت و عدالت پارٹی کے دفاتر پر حملوں کے دوران بھی درجنوں افراد شہید کیے جا چکے تھے۔ پھر ۱۴ اگست کو خوں ریزی کی بدترین تاریخ رقم کی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع پُرامن مظاہرین پر جن کی اکثریت شوال کے روزے سے تھی اور رات بھر تلاوت و تہجد میں گزار کر ذرا سستا رہی تھی، صبح ۳۰:۶ بجے چاروں اطراف سے بلڈوزروں، بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے موت مسلط کردی گئی۔ گردونواح کی اُونچی اُونچی عمارتوں پر تعینات نشانہ بازوں نے دُوربین لگی گنوں (sniper guns) کے ذریعے گولیوں کی بارش کردی۔ تاک تاک کر لوگوں کے سینوں اور سروں کو نشانہ بنایا گیا، یعنی مظاہرین کو منتشر کرنا مقصود نہیں تھا، ہلاک کرنا ہی اصل ہدف تھا۔ حملہ ہونے پر خواتین اور معصوم بچوں کو میدان کے کنارے تنی چادروں اور چھولداریوں میں بھیج دیا گیا تو ہیلی کاپٹروں سے ان پر ایسا آتش گیر مادہ پھینکا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے خیموں کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ بڑی تعداد میں بچے اور خواتین جل کر راکھ ہوگئے۔ میدان کے کونے میں اور رابعہ بصری مسجد میں قائم دوعارضی ہسپتالوں کا گھیراؤ کرکے انھیں جمع شدہ لاشوں اور زخموں سے چور زندہ انسانوں سمیت جلاکر راکھ کردیا۔ مسجد بھی اندر سے جل کر کوئلہ بن گئی اور سب اندرونی و بیرونی دیواریں جل کر سیاہ ہوگئیں۔

اس روز صرف رابعہ میدان کے ۲۶۰۰ شہدا کی فہرستیں بنیں، زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز تھی، گرفتار شدگان بھی ہزاروں میں ہیں۔ اس قیامت صغریٰ کے خلاف دو ہی روز بعد ۱۶؍اگست کو پورے ملک میں پھر مظاہرے ہوئے۔ شہر کی ۲۸ مساجد سے عوامی جلوس آکر قاہرہ کے میدانِ رعمسیس میں جمع ہوئے۔سیسی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر اسی فرعونیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مزید شہادیتں ہوئیں سیکڑوں مردو خواتین نے زخمی حالت میں لاشیں اٹھا کر قریبی تاریخی مسجد الفتح میں پناہ لی، تو انھیں ہر جانب سے محصور کردیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے کے محاصرے کے بعد لال مسجد اسلام آباد جیسی کارروائی کرتے ہوئے مزید بے گناہوں کا خون سر لے لیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے سے جن کے حلق سے پانی کا قطرہ تک نہیں اُترا تھا، انھیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے خواتین سمیت بڑی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا۔ پھر اگلی ہی صبح گرفتار شدگان سے بھری ایک پولیس بس پر گولیاں اور جلا دینے والی گیس پھینک کر ۳۸قیدیوں کو شہید کردیا گیا۔ کس قیامت در قیامت کا ذکر کیا جائے۔ مصر کی حالیہ تاریخ میں ایسی درندگی اور سفاکیت کی مثال نہیں ملتی۔

  •  انوکہے دھشت گرد: اس ساری سفاکیت اور قتل عام سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ  مصر اور دیگر کئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے قاتلوں کو ہیرو اور بے گناہ شہدا کو دہشت گرد قرار دیا جارہاہے۔ یہ کیسے دہشت گرد تھے کہ جو ۴۸ روز تک مسلسل ملک بھر کے میدانوں میں  بیٹھے تلاوت قرآن کرتے، تراویح اور تہجد پڑھتے رہے اور عین دوران سجود قتل ہوتے رہے۔ لاکھوں کی تعداد میں تھے، چاہتے تو اسلحہ اٹھا کر پورے ملک میں مخالفین کے خون کی نہریں بہادیتے، لیکن    ان کے ہاتھوں کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ دہشت گری کا الزام لگانے والوں کو ان لاکھوں دہشت گردوں سے ایک بھی ہتھیار برآمد نہیںہوا۔ وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے رابعہ بصری میدان میں ’بھاری اسلحہ‘ ہونے کی گواہی دی ہے۔ اگلے ہی لمحے ان کی طرف سے پُرزور تردید آگئی کہ ہم نے اشارتاً بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ یہ توفیق اتنے بڑے عالمی ادارے کو بھی نہیں ہوئی کہ اتنا سنگین الزام لگانے والے وزیر داخلہ کو کسی عالمی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی۔

ان انوکھے دہشت گردوں سے البتہ ایک خطرناک اسلحہ بڑی تعداد میں ضرور برآمد ہوا۔ ان میں سے ہر ایک نے سینے سے قرآن لگا رکھا تھا۔ کتنے ہی ایسے شہدا کی میتیںملیں کہ جان دے دی، لیکن قرآن سینوں سے الگ نہیں ہوا۔ انوکھے دہشت گرد تھے کہ جن کے نوجوان بیٹے ہنستے مسکراتے اپنے بازوؤں پر اپنے نام اور وارثوں کے فون نمبر لکھ رہے تھے، تاکہ شہادت کے بعد میت تلاش کرنے میں دشواری نہ ہو۔ کتنے ہی ایسے تھے کہ پورا رمضان میدان میں گزارا، ضروری سامان پر مشتمل ساتھ اٹھائے اپنے تھیلے میں اپنا کفن بھی اٹھا رکھا تھا۔ اس پر اپنامکمل نام پتا بھی لکھ رکھا تھا۔ یہی ان دہشت گردوں کی عید کی تیاری تھی۔ کتنی ہی مائیں ایسی ہیں کہ جیسے ہی اطلاع ملی’بیٹا شہادت کی مراد پاگیا‘ فوراً سجدے میں گرگئیں کہ پروردگار! اپنی سب سے قیمتی متاع پیش کردی، قبول فرمالے۔ عجیب دہشت گرد تھے کہ تحریک کے ساتھ وابستگی کے پہلے روز سے دہرانا شروع کردیتے تھے کہ : ’’اللہ ہمارا مقصود رسول ؐ ہمارے رہنما، قرآن ہمارا دستور، جہاد ہمارا راستہ، و الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ أسمی أمانینا، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلند پایہ آرزو ہے۔ رابعہ بصری اور مصر کے دیگر میدانوں میں ان دہشت گردوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ خالی خولی نعرے نہیں لگاتے، مخلصانہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا اور ان پر الزام لگانے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے، آئیے بعض دیگر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

  •  صدر مرسی کا اصل قصور: اس ساری قتل و غارت اور تباہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حسنی مبارک کا بت گرجانے کے باوجود بھی گذشتہ ۶۴ سال (۱۹۵۲ء) سے مصر پر مسلط فوجی ڈکٹیٹر شپ ہی ملک کی اصل حکمران رہی۔اس نے وعدہ تو کیا کہ وہ انتخابات کے بعد زمامِ اقتدار منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کو سونپ دے گی لیکن عملاً ایک دن کے لیے بھی اقتدار نہیں چھوڑا۔ مجبوراً جو انتخابات اور ریفرنڈم کروانا بھی پڑے، تو اس کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ریفرنڈم کے ذریعے عبوری دستور منظور ہوا جس کے تحت پہلے قومی اسمبلی پھر سینیٹ اور پھر صدارتی انتخابات ہونا تھے۔ منتخب پارلیمنٹ کو دستور وضع کرنا تھا اور ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کے بعد سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں زمام ریاست سنبھال لینا تھی۔ لیکن مارچ ۲۰۱۱ء میں عبوری دستور پر ریفرنڈم ہوتے ہی تحریک شروع کروادی گئی کہ انتخابات نہیں، پہلے دستور، یعنی گھوڑے کو تانگے کے پیچھے باندھا جائے۔ اس تحریک کے پیچھے اصل خوف یہ تھا کہ انتخابات پہلے ہوئے تو اخوان جیت جائیں گے اور پھر وہی دستور بنائیں گے۔ اخوان نے مسلسل میدان میں رہ کر فوج کو انتخابات پر مجبور کیا۔ کئی ماہ کے طویل انتخابی عمل اور بیش بہا وسائل صرف ہونے کے بعد اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے، صدارتی انتخابات ہونے لگے تو اس سے ۱۲ گھنٹے قبل نومنتخب اسمبلی توڑ دی گئی۔ اخوان نے احتجاج کرنے یا مایوس ہونے کے بجاے مکمل یکسوئی سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور مخالفین کو کئی ممالک سے ملنے والی بھاری مالی اور ابلاغیاتی امداد کے باوجود اللہ کی توفیق سے کامیاب ہوئے۔

۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی حلف اٹھا لینے کے بعد مشکلات و مصائب کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ پہلا جھٹکا تو حلف کے وقت ہی دیا گیا۔ منتخب صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھانے کے بجاے، اسی دستوری عدالت کے سامنے جا کر حلف اٹھائے جس نے چند ہفتے قبل قومی اسمبلی توڑی تھی۔ ماہرین قانون چیختے رہے کہ قومی اسمبلی ناجائز طور پر تحلیل کردی گئی، لیکن سینیٹ تو موجود ہے، اس کے سامنے حلف ہوجائے۔ لیکن منتخب صدر کو اس کی حیثیت باور کروانا تھی۔ حلف اٹھانے کے لیے قاتل ججوں کے سامنے ہی لاکھڑا کیا گیا (صرف عدالت کے سربراہ نہیں تمام ۱۵ ججوں کے سامنے)۔ پھر آئے روز نئے سے نیا بحران سنگین ہوتا چلاگیا۔ مصر جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا، اچانک دار الحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔ منتخب حکومت نوٹس لیتی تو جواباً وہی حساب کتاب سنایا جاتا کہ ملک میں ۲۲ہزار۳سو میگا واٹ بجلی بن رہی ہے، جب کہ کھپت ۲۴ہزار ایک سو میگاوٹ ہے اور اس طرح ۱۸۰۰میگاواٹ کی کمی ہے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن پھر وہی انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی کہ جیسے ہی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا، تیسرے روز نہ صرف لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوگئی بلکہ کہا جانے لگا ہمارے پاس ۲۱۰ میگا واٹ بجلی فالتو ہوگئی ہے۔ یہی عالم پٹرول اور گیس کا تھا۔ منتخب حکومت آنے کے چند ہفتے بعد ہی پٹرول پمپوں پر طویل طویل قطاریں لگنے لگیں اور پٹرول نہ ملتا۔ حکومت آئے روز چوری شدہ پٹرول پکڑتی۔ لاکھوں گیلن پٹرول برآمد کرکے بازار میں لاتی اور چند ہی روز بعد غائب ہوجاتا۔

اب خبریں چل رہی ہیں کہ پٹرول پمپ والے گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ امن و امان ناپید ہوتا چلا گیا۔ وزیر داخلہ خود ہی جرائم کے لیے تاویلیں ڈھونڈ کر لاتا، وہی پولیس اور خفیہ ادارے جو آج ملک بھر کے کونے کونے سے حکومت مخالفین کو گرفتار کرکرکے لارہے ہیں اس وقت کہیں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہ دیتے۔ ایک فٹ بال میچ کے دوران تماشائیوں کے مابین جھگڑا ہوگیا اور پھر حیرت انگیز طور پر دونوں طرف سے ۸۴ افراد جاں بحق ہوگئے، پھر اسی بنیاد پر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے___ بعد ازاں انھی عدالتوں نے جن کے سامنے حسنی مبارک اور اس کے گماشتوں کے خلاف سیکڑوں مقدمات سماعت کے منتظر ہیں، چند ماہ میں میچ کے جھگڑے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک فریق کو پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ کمرہء عدالت سے براہِ راست نشر ہونے والے فیصلے سے پہلے ہی تیاری مکمل تھی۔ جیسے ہی فیصلہ آیا، اس کے خلاف پہلے ایک شہر اور پھر پورے ملک میں خونی مظاہرے شروع کروادیے گئے۔ ملک کے رگ و ریشے پر گذشتہ ۶۴ سال سے قابض مقتدر قوتیں خود ہی یہ سب بحران پیدا کرتیں اور پھر اپنے درجنوں ٹی وی چینلوں سے پروپیگنڈا کرتیں کہ حکومت نااہل ہے، ملک نہیں چلاسکتی۔

ان خود ساختہ بحرانوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ حکومت کو سازشی عناصر کا علم بھی تھا اور  اسے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ تھا کہ ۶۴ سالہ اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ کر یہ عناصر یہی کچھ کریں گے۔ صدرمحمد مرسی نے عوام کی مدد سے خرابیوں کا مداوا کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ شخصی اقتدار مستحکم کرنے کے بجاے اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی۔ تمام بحرانوں کے باوجودملک میں پہلا آزادانہ دستور بنوایا۔ دستور ساز اسمبلی میں خود اپنے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے اپنے مخالفین کو منتخب کروایا، تاکہ متفق علیہ دستور بنے جس میں فرد واحد کے بجاے ریاست کا اقتدار مستحکم کیاجائے۔ اس موقع پر بھی اصل حکمرانوں اور بیرونی آقاؤں کی ہلہ شیری سے کیا کیا اعتراضات اور احتجاج نہیں کیے گئے۔ قصر صدارت تک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخر ریفرنڈم ہوا اور ۶۴ فی صد عوام نے دستور کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملک کو پہلا جمہوری دستور قرار دے دیا۔ دستور بن گیا تو اُمید کی جارہی تھی کہ مشکلات کے باوجود سب بے مہار مقتدر طبقات کو دستوری دائرے میں لانا ممکن ہوجائے گا۔

منتخب حکومت نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے بھی دور رس اقدامات اٹھائے۔ بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانے والی اور عالمی اقتصادی نظام میں شہ رگ کی حیثیت اختیار کرجانے والی نہر سویز اور اس کے ملحق علاقوں کے لیے مختصر عرصے میں ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کروایا گیا کہ آج بھی مکمل ہوجائے تو ملک کو سالانہ ۱۰۰ ارب ڈالر دینے کے علاوہ پورے علاقے کا تجارتی و مواصلاتی مرکز بن جائے۔ سوڈان کے ساتھ مل کر ایک ایسے زرعی منصوبے کی بنیاد رکھ دی کہ مکمل ہوجائے تو ۲۰لاکھ ایکڑ بے آباد سوڈانی زمین، مصر کے لیے غلہ اُگانے لگے۔ ۶ لاکھ ۶۰ہزار ایکڑ کا ایک اور ۳لاکھ ۶۶ ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا گیا، جس کے تحت بے زمین کاشت کاروں کو ۵ سے ۱۰ ایکڑ زمین مل جاتی۔ اس طرح کے درجنوں منصوبے ایسے تھے کہ جن کے لیے بیرونی سرمایہ کار بھی    آنا شروع ہوگئے تھے اور کئی ایک پر کام بھی شروع ہوگیا تھا لیکن مخالفین کے لیے شاید یہی امر  سوہان رُوح تھا کہ اگر چار سال کا عرصہ کام کرنے کے لیے مل گیا تو مصر اپنے عوام ہی نہیں خطے کے لیے ایک ایسی مثال بن جائے گا کہ پھر منتخب حکومت کو ہرانا یا ہٹانا ممکن نہ رہے گا۔

  •  بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈا: مار دھاڑ اور ایک کے بعد دوسرا خود ساختہ بحران ہی نہیں درجنوں ٹی وی چینل اور اخبارات منتخب حکومت کے لیے وہ پروپیگنڈا اور الزام تراشی  کرتے رہے کہ امام احمد بن حنبل کو لگنے والے کوڑے یاد آنے لگتے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ایک بھی کوڑا کسی ہاتھی کی پشت پر لگتا تو بلبلا اٹھتا۔ ایسے ایسے الزامات اور بہتان کہ الامان الحفیظ،مثلاً یہ کہ حکومت نے صحراے سینا حماس کو دینے کا معاہدہ کرلیا۔ سوڈان سے متصل حلایب کی پوری پٹی سوڈان کو دے دی۔ اہرامات مصر اور ابو الہول کو مزار اوربُت قرار دے کر ڈھانے کا فیصلہ کرلیا۔ نہر سویز کو کرایے پر دے دیا۔ خیر یہ تو ایسے مضحکہ خیز الزامات تھے کہ ہر ذی شعور انھیں مسترد کردیتا لیکن کئی الزامات ایسے تھے کہ کئی دانا بھی لاعلمی اور پروپیگنڈے کی قوت کے باعث ان سے متاثر ہوجاتے۔

کہا گیا کہ حکومت نے حکمت کے بجاے ضرورت سے زیادہ عجلت برتی،ہر جگہ اپنے لوگ لا بٹھانے کی کوشش کی۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجاے ملک میں اخوانائزیشن شروع کردی۔  ویسے اگر منتخب صدر اپنے منشور کے نفاذ کی خاطر ہرجگہ اپنے لوگ لے بھی آتے تو انھیں اس کا حق تھا اور جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن حقائق بالکل برعکس ہیں۔ منتخب صدر نے قومی یکجہتی کی خاطر نائب صدر، وزیر اعظم اور صدارتی مشیروں سے لے کر وزیرداخلہ، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر توانائی، ۲۷ صوبوں میں سے ۲۳ صوبوں کے گورنروں اور عدلیہ کے تمام ذمہ داران تک تمام افراد یا تو وہی رہنے دیے یا پھر ان معروف قومی شخصیات میں سے لیے جن کا اخوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ذرا موجودہ حکومت کے پہلے دو ماہ بھی ملاحظہ ہوں۔ ۲۷ میں سے ۲۰ گورنر  تبدیل کردیے جن میں سے ۱۷ حسنی مبارک کے دور کے فوجی جنرل ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ مصر میں اپنے صوبے کے تمام اُمور گورنر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔اسی طرح جنرل سیسی کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صدرمحمد مرسی سینیر افسروں کو نظرانداز کرتے ہوئے انھیں نیچے سے اُوپر لائے حالانکہ صدر نے صرف یہ کیا تھا کہ حسنی مبارک دور سے چلے آنے والے جرنیلوں کی توسیع ختم کر کے جس کی باری تھی، اسے فوج کی قیادت سونپ دی۔ لیکن بدقسمتی سے سیسی نے ’’ربِ عظیم کی قسم کھاکر اقرار کرتا ہوں کہ میں دستور کا پابند رہوںگا‘‘ والے اپنے عہد سے خیانت کی۔ آج پورا مصر اسے ’خائن‘ کے لقب سے جانتا ہے۔

الزام لگایا گیا کہ صدر مرسی نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرلی۔ مصری قوانین کے مطابق تمام رسائل و جرائد کے مدیران کا تعین سینیٹ کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ اس بہانے حکومت ہمیشہ اپنی مرضی کے صحافی مسلط کردیتی ہے۔ اتفاق سے صدر محمد مرسی کے دور میں مدیران کا انتخاب کیا جانا تھا۔ انھوں نے سینیٹ کے ذریعے ۱۰۰ فی صد انھی افراد کو متعین کیا جن کی تجویز خود جرائد و رسائل کی طرف سے دی گئی تھی۔ اپنی مرضی یا پسند کا ایک بھی فرد مقرر نہیں کیا۔ صدر مرسی کے ایک سالہ عہد میں صرف ایک ٹی وی چینل کو عارضی طور پر بند کیا گیا اور تین صحافیوں پر مقدمات چلائے گئے جنھوں نے ٹی وی پر ننگی گالیاں دی تھیں اور صدر کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس چینل کو بھی جلد بحال اور صحافیوں کو جلد رہا کردیا گیا۔ لیکن اب جنرل سیسی نے آتے ہی ۱۲ ٹی وی چینل بند کردیے جن کا قصور صرف یہ بتایا گیا کہ وہ صدر محمد مرسی کے حامی تھے۔ صدر مرسی پر تنقید کرنے والے صحافی حضرات ذرا جگر تھام کر یہ واقعہ بھی سن لیں کہ میدان رابعہ کے قتل عام کے بعد سرکاری اخبارات الاھرام اور الجمہوریہ کے دو سینئر صحافی ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ فوجی چیک پوسٹ تھی۔ افسر نے دونوں کو گاڑی سے اتارا، شناختی کارڈ دیکھے اور حکم دیا کہ آگے نہیں جاسکتے واپس جاؤ۔دونوں صحافی ہزاروں افراد کا قتل عام دیکھ چکے تھے، ایک لفظ بولے بغیر واپس چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ پیچھے سے فائرنگ کردی گئی، ایک صحافی شہید اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔ بعد ازاں زخمی کو ہسپتال لے جایا گیا۔ اس نے ہوش آنے پر یہ داستان سنائی جو وہاں موجود ایک دوسرے صحافی نے ریکارڈ کرکے ایک عرب ٹی وی پر نشر کروادی۔ جیسے ہی اس کا یہ بیان نشر ہوا اسے ہسپتال سے گرفتار کرکے غائب کردیا گیا اور الزام لگا دیا گیا کہ اس نے حکومت پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اب کسی کو آزادیِ اظہار یاد نہیں آتی۔ یہ تو دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔

ایک طرف تو یہ زخمی صحافی ہزاروں قیدیوں کی طرح لاپتا ہوگیا لیکن دوسری طرف ۱۴؍اگست کی قیامت صغریٰ کے دوہفتے کے اندر اندر حسنی مبارک کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ عدالت کے اس فیصلے کو کسی جگہ چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال حفاظتی نقطۂ نظر سے ایک پنج ستارہ ہسپتال میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ جنرل سیسی اور ججوں نے حقِ نمک ادا کیا اور قدرت نے یہ حقیقت طشت ازبام کروا دی کہ حسنی مبارک دور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آیا ہے۔

الزامات کا شرم ناک سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قتلِ عام کے بعد سینا کے ایک علاقے میں ۲۶ رضاکاروں کے قتل کا افسوس ناک واقعہ ہوا اور پھر ملک بھر میں درجنوں گرجاگھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ ان دونوں واقعات کا الزام بھی اخوان پر لگایا جا رہا ہے۔ رضاکاروں کے بارے میں خود وزیرداخلہ نے تین بیان بدلے ہیں۔ پہلے کہا کہ فوجی قتل ہوئے۔ یاد دلایا گیا کہ ایمرجنسی کے باعث فوجیوں کی تمام چھٹیاں منسوخ ہیں تو بیان دیا کہ نہیں، رضاکار تھے، چھٹی پر جارہے تھے۔ پوچھا گیا کہ رضاکاروں کو مکمل سیکورٹی میں رخصت کیا جاتا ہے، یہ اکیلی گاڑی میں کیسے سوار تھے؟ تو کہا کہ نہیں، چھٹیوں سے واپس آرہے تھے اور اتفاقاً سب ایک دن پہلے آگئے، اس لیے سیکورٹی کا انتظام نہیں ہوسکا۔ اس مسلسل جھوٹ سے آخر کیا فرق پڑتا ہے۔ اخوان پر الزام تو لگ گیا اور وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ رہے گرجاگھر تو خودمسیحی لیڈر بیان دے رہے ہیں کہ اخوان کے کارکنان گرجاگھروں پر پہرے دے رہے ہیں۔

  •  آیندہ حکمت عملی: چند ہفتوں میں ہزاروں پاکیزہ نفوس کی قربانی دے کر بھی اخوان جرأت کے ساتھ میدان میںکھڑے ہیں۔ روزانہ اکثر شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس یقین کے باوجود کہ اس وقت سڑکوں پر نکلنا شہادتوں کی وادی میں اُترنا ہے۔ ہرمظاہرے میں مردوخواتین اور پیروجوان سب نکلتے اور فوجی انقلاب مسترد کرتے ہوئے دستور کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام تر قتل و غارت کے باوجود اخوان نے پہلے روز سے پُرامن رہنے اور پُرامن جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوجی انقلاب کے دوسرے روز مرشد عام نے پوری تحریک کے دوران میں اپنے واحد خطاب میںاعلان کیا تھا: نظل سلمیین و سلمیتنا أقویٰ من الرصاص، ’’ہم پُرامن رہیں گے اور ہمارا پُرامن راستہ گولیوں سے زیادہ طاقت ور ہے‘‘۔تمام تر قتل عام کے بعد اور اپنی گرفتاری سے چار گھنٹے پہلے لکھے جانے والے اپنے ہفتہ وار پیغام میں بھی انھوں نے اسی مؤقف کا اعادہ کیا کہ: ’’سلمیتنا سر قوتنا ہماری قوت کا راز ہمارا پُرامن رہنا ہے‘‘۔ آیات و احادیث سے مرصع بیان میں اسی حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے‘‘۔ ’’فرعون کے نقش قدم پر چلنے والے باغی حکمران نوجوانان اُمت کو بالعموم اور اسلامی تحریک کے نوجوانوں کو بالخصوص تشدد کے بھنور میں پھانسنا چاہتے ہیں۔ وہ انھیں پُرامن جدوجہد سے ہٹا کر تشدد اور جوابی تشددکے جوہڑ میں دھکیلنا چاہتے ہیں لیکن اے آزاد منش انقلابی نوجوانو! تمھارا تعلق کسی بھی دینی اور قومی گروہ سے ہو، ہمیں دشمن کی اس چال سے خبردار رہنا ہے۔ ہمیں پُرامن جدوجہد کے پرعزم راستے پر ہی آگے بڑھتے رہنا ہے۔ قربانیاں جتنی بھی زیادہ ہوجائیں ہمیں خونی حکمرانوں کے مقابلے میں اسی پُرامن راستے پر رواں دواں رہنا ہے۔ کسی مایوسی یا شک کو قریب نہ پھٹکنے دو۔ اللہ کی توفیق سے ہمارا پُرامن انقلاب ان کے ہر اسلحے کو شکست دے کر رہے گا کہ یہی پروردگار کا وعدہ ہے:  وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم ۳۰:۴۷)’’سچے اہل ایمان کی نصرت ہمارے ذمے ہے‘‘۔ یہ اور اس طرح کے پالیسی بیانات راہِ عمل بھی واضح کررہے ہیں اور قیادت و کارکنان کو شہادتوں اور گرفتاریوں کی باوجود میدان میں ثابت قدم بھی رکھے ہوئے ہیں۔

رب ذوالجلال کی حکمت دیکھیے کہ اخوان یہ تحریک اکیلے نہیں ایک قومی اتحاد کی صورت چلارہے ہیں۔ التحالف الوطنی لدعم الشرعیۃ (National Alliance to Support The Legitimacy) کے نام سے کئی اہم جماعتیں یک آواز تھیں۔ اب حسنی مبارک کی رہائی نے مزید عوام اور کئی گروپوں کو سیسی انقلاب کی حقیقت سے آشنا کردیا ہے۔ البرادعی جیسے مغرب کے گماشتے بھی ملک کو آگ و خون کی دلدل میں دھکیلنے کے بعد اپنا کردار کھوچکے اور اب فوجی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک سے فرار نہ ہوتے تو اب تک یقینا گرفتار ہوچکے ہوتے۔ فوجی سرپرستی میں صدرمرسی کے خلاف ’تمرد‘ (بغاوت) تحریک چلانے والا نوجوانوں کا اہم گروہ ’۶؍اپریل‘ بھی اب حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کرنے پر مجبور ہے۔ گویا ہر گزرنے والا دن مصری عوام کو فوجی انقلاب کے خلاف یک سُو کر رہا ہے۔

اسی ضمن میںایک اہم ترین اور جامع تجزیہ ایک ممتاز تحریکی عالمِ دین اور اسکالر ڈاکٹر محمداحمد الراشد کا بھی ہے۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنے ۱۰۴ صفحات پر مشتمل یہ تجزیہ ۲۰ رمضان کو کیا تھا، یعنی میدان رابعہ بصری میں وقوع پذیر قیامت سے دو ہفتے پہلے۔ لکھتے ہیں: ’’میں جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی فوری ناکامی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رابعہ میدان میں بیٹھے لاکھوں اہل ایمان کو کچل ڈالے، جیلوں میں ٹھونس دے، عوام کی مکمل زباں بندی کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ وہ اپنے پیش رو ڈکٹیٹروں کی طرح اپنے اقتدار کو ہرگز طول نہیں دے سکے گا۔ اب عوام نے عرب بہار کے ذریعے ایک بار آزادی کی جھلک دیکھ لی ہے‘‘۔ اسی تحریر میں وہ اپنے ایک سابقہ تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تحریف شدہ تلمود کے جو چند حصے اپنی اصل حالت میں باقی رہ گئے ہیں، ان کے مطابق اسرائیل کی ’ناجائز‘ ریاست اپنے قیام کے ۷۶قمری سال بعد زوال پذیر ہو جائے گی۔ اس حساب سے یہ تاریخ ۲۰۲۲ عیسوی بنتی ہے‘‘۔ انھوں نے اس ضمن میں بسام جرار کی کتاب زوالُ اسرائیل ( اسرائیل کا زوال) اور سفر الحوالی کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے خود اسرائیل میں کی جانے والی ان بحثوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ کیا اسرائیل اپنا وجود باقی رکھ سکے گا؟ محمد الراشد نے غیب دانی کے دعوے کی بار بار نفی اور اللہ أعلم کی تکرار کے ساتھ بہت سے حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ مصر میں وقوع پذیر حالیہ واقعات پورے خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس عرصے میں اہل فلسطین بالخصوص اہل غزہ پر بھی مصائب کے مزید پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے جہاد اور اہل مصر اپنی ملک گیر پُرامن تحریک اور قربانیوں کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ سرخرو ہوں گے۔ معزول صدر محمدمرسی پر ابھی تک کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ الزام ہے تو صرف یہ کہ انھوں نے حماس کے ساتھ خفیہ بات چیت کی ہے۔ یہ الزام اور بات بے بات اہلِ غزہ پر الزامات، کیا اسی اسٹیج کی تیاری ہے؟

ایک اور مجاہد صفت عالم دین اور مصر کی سپریم کونسل براے دینی اُمور کے سابق سربراہ ڈاکٹر صلاح سلطان جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے، قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں کہ حَتّٰیٓ اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ نَصْرُنَا  (یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔یوسف ۱۲:۱۱۰)، اہل ایمان کو یاد دلارہے ہیں کہ بعض اوقات مصائب اور تکالیف اس درجے کی ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کے مطابق خود رسول ؑ مایوس ہونے لگے اور سمجھے کہ وہ اور ان کی دعوت جھٹلا دی گئی، لیکن جب جبر و جور اور تکالیف عروج تک جا پہنچیں تو اللہ کی نصرت آن پہنچی۔

حریت و عدالت کے قائم مقام صدر محمد البلتاجی کی ۱۷ سالہ صاحبزادی اسماء بلتاجی بھی رابعہ میدان میں سینے پر گولی کھاکر شہید ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر محمد بلتاجی خود اس وقت روپوش رہ کر قیادت کر رہے ہیں، ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے۔ تدفین کے بعد شہید بیٹی کے نام اپنے طویل خط میں لکھتے ہیں: ’’عزیز از جان بیٹی! میں تمھیںخدا حافظ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ کل جنت میں ملیں گے۔ بیٹی، تم طاغوت کے سامنے سربلند کھڑی رہیں اور بالآخر اس اُمت کے احیا کے لیے جان قربان کردی۔ بیٹی! تمھیںہمیشہ شکوہ رہا کہ میں تمھیں وقت نہیں دے سکا___ میدان رابعہ میں آخری ملاقات کے دوران بھی تم کہہ رہی تھیں:’’ بابا ہمارے ساتھ رہ کر بھی آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ بیٹی یہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں باہم ملاقاتوں سے ہم سیر ہوہی نہیںسکتے۔ دُعا کرو   ہم جنت میں اکٹھے ہوجائیں___ پھر جی بھر کے باتیں کریں گے۔ وہاں ہم کبھی نہیں بچھڑیں گے۔

جانِ پدر!میں نے تمھاری شہادت سے دو روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ تم نے دلہنوں کا لباس پہنا ہوا ہے، انتہائی نفیس اور انتہائی خوب صورت___ تم خاموشی سے آکر میرے پاس لیٹ گئیں۔ میں نے پوچھا کیا آج رات تمھاری شادی ہورہی ہے؟ تم نے جواب دیا: ’’نہیں بابا رات کو نہیں، دوپہر کو‘‘۔ پھر دو روز بعد جب مجھے تمھاری شہادت کی خبر دی گئی، تو معلوم ہوا تم ظہر کے وقت شہید ہوئی ہو۔ مجھے تمھاری شہادت کی قبولیت کا یقین ہوگیا اور میرا یہ یقین مزید راسخ ہوگیا کہ ہم حق پر ہیںاور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور حق یقینا غالب ہوکر رہے گا‘‘۔

مصر کے خونی حکمرانو! اس کی سرپرستی اور پشتیبانی کرنے والو! کیا اس جذبۂ ایمانی اور  حق کی جدوجہد کو شکست دے سکو گے۔ پروردگار کا یہ فرمان بھی کان کھول کر سن لو: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس انجام کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘۔


مصر کے بارے میں تحریک مکمل ہوچکی تھی کہ شام میں بھی قتل عام کی نئی خبریں آنے لگیں۔ کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعے ۲ہزار سے زائد بے گناہ شہری شہید کردیے گئے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ شام کا خونی درندہ گذشتہ تقریباً اڑھائی سال میں ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں  تہِ خاک کرچکا ہے۔ مصر میں ہزاروں جانوں کے قتل عام پر زبانی جمع خرچ کرنے والی مسلم اور عالمی برادری خون کی اس ہولی پر بھی گونگا شیطان بنی ہوئی ہے۔ بشار اور سیسی جیسے خوں خوار ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ بشار کا خاتمہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا لیکن دنیا کو اصل خطرہ یہ ہے کہ ’اسرائیل‘ کے پڑوس میں اس کے وجود کے لیے خطرہ بننے والی کوئی حکومت نہ آجائے۔ قرآنی صدا بلندتر ہورہی ہے:

وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط  وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے، جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o(الانعام ۶:۱۲۳) دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔