مولانا سید جلال الدین عمری برعظیم پاک و ہند کی ایک معروف دینی شخصیت ہیں اور اسلام کی جدید تفہیم قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کرنے والے اصحابِ علم میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت میں جس نوعیت کا علمی اور تحقیقی ذوق ہونا چاہیے اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ دین مطالبہ کرتا ہے کہ جو لوگ اس کی دعوت کو لے کر دنیاکو بدلنے کے لیے نکلیں، وہ کم از کم دین کے بنیادی ماخذ: قرآن کریم اور سنت رسولؐ سے براہِ راست واقفیت رکھتے ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ دعوتِ دین ایک اجتہادی عمل ہے۔ یہ ایک میکانکی عمل نہیں ہے کہ چند تعلیمات کو یادداشت میں محفوظ کرلیا اور انھیں جہاں چاہا دہرا دیا، بلکہ یہ ہرہرصورت حال میں جائزہ لینے، تحقیق کرنے اور مرض کی جڑ تلاش کرنے کے بعد قلب و دماغ میں پائے جانے والے غیرصالح تصورات و عقائد کی اصلاح اور عمل کی تطہیر کا نام ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکن ہوں یا قائدین، دعوتِ دین دیتے وقت انھیں اسلام کے ان دو بنیادی ذرائع سے اپنے آپ کو اس حد تک وابستہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ قرآن و سنت کی نگاہ بن جائے اور ان کے معاملات صرف قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہوں۔
تجلیاتِ قرآن مولانا عمری صاحب کے تحریکی لیکن تحقیقی مضامین کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جو ایک طویل عرصے میں مختلف علمی رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں مضامین کا تعلق قرآن کریم کے نزول، عظمت، تلاوت کے آداب، قرآن کریم کے علمی اعجاز اور اس کے عالمی طور پر اثرانگیزی (impact) سے ہے۔ اس حصے میں اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بھی پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں قرآنِ مجید کی بنیادی اصطلاحات اور ان کے ذریعے قرآن کے نزول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے بحث کی گئی ہے۔ آخری باب میں قرآن کریم کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا تذکرہ ہے کہ وہ قرآن پر غور اور تدبر کرنے والے افراد کی پہلی جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کتاب کا سب سے اہم حصہ باب دوم ہے جس میں قرآن کریم کے بنیادی تصورات کو جن کا تعلق براہِ راست فرد، معاشرے اور ریاست کے حوالے سے قرآن کی اہم اصلاحات کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم پر اصطلاحات کے زاویے سے تحقیق اور ان کے مفہوم کا تعین ضمناً تو بے شمار علمی تحریرات میں کیا گیالیکن بقول علامہ محمد قطب، سید مودودی نے پہلی مرتبہ اس زاویے سے سوچنے کی مثال قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کی شکل میں ایک کتاب کے ذریعے پیش کی جس نے قرآن کریم میں جستجو و تحقیق کا ایک نیا اسلوب دورِحاضر میں رکھا۔ یہ بات محمدقطب نے بذاتِ خود ایک نجی گفتگو میں میرے ایک سوال کرنے پر بطور مولانا مودودی کے اعترافِ عظمت کے فرمائی، جو میرے خیال میں خود محمد قطب کی علمی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔
اس باب میں قرآن کریم میں حکمت کا تصور، تصورِ تزکیہ، تقویٰ کی صفت، اللہ کے ذکر کا بلند کرنا، ذکر کے طریقے، انابت الی اللہ، دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس، اقامت ِ دین اور قلب مرکزخیروشر ، کُل ۱۰ مختصر مگر جامع مضامین ہیں۔ ان میں سے ہر مضمون ایک مستقل کتاب کی شکل میں مناسب اضافوں کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۰اصطلاحات اور مولانا مودودی کی قرآن اور چار بنیادی اصطلاحات، ایک حیثیت سے دین کے اُس تصور کی وضاحت کرتی ہیں جو نہ صرف قرآن و سنت سے قریب ترین بلکہ ایک حرکی تصور ہے۔ یہ دین کو pro-active سمجھتے ہوئے اس کی انقلابی تعلیمات کو مختصر طور پر پیش کرتا ہے۔ اس باب کا تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو خصوصاً مطالعہ کرنا چاہیے۔
ان مضامین کو تحریکِ اسلامی کے تربیتی نصاب میں شامل ہونا چاہیے اور قرآن اور چار بنیادی اصطلاحات کے ساتھ ملا کر مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس علمی اور تحریکی کاوش کو قبولیت عطا فرمائے اور محترم مولانا کو اس پر اجرعظیم سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
تکفیر اور خروج کی دونوں اصطلاحیں بالعموم یک جا ذکر کی جاتی ہیں۔ عملی صورت حال کے لحاظ سے یہ ترتیب درست ہے مگر علمی اعتبار سے اوّل الذکر کا تعلق علم الاعتقاد اور دوسری کا تعلق علمِ سیاست و حکومت کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں قضیے اپنی نزاکت کے باعث اہلِ علم کے ہاں ہمیشہ توجہ کے قابل رہے ہیں۔ فی الاصل کفرپر قائم کسی شخص کو کافر کہنے میں کوئی کلام نہیں۔ اصل نزاع کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں ہے۔ یہی عمل علمی اصطلاح میں ’تکفیر‘ کہلاتا ہے۔ البتہ ’خروج‘ کا مرحلہ تکفیر کے بعد شروع ہوتا ہے۔
سیاست شرعیہ کی رُو سے ارباب حل و عقد کوکافر قرار دے کر اُن کی اطاعت سے دستکش ہونا اور اُن کے خلاف اعلانِ جنگ ، دراصل ’خروج‘ کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کی عام اجتماعیت اس کا ہدف نہیں ہوتی بلکہ صرف حکمران یا اولی الامر ہی اس کی زد میں آتے ہیں۔ بات سمجھنے کے لیے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر خروج کے لیے تکفیر ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تکفیر کے بعد خروج کا ہونا لازمی نہیں۔ اگرچہ اعتقادی حیثیت سے تکفیر کا تعلق نجاتِ اُخروی کے ساتھ ہے، مگر حیاتِ دنیوی میں سماجی حقوق اور اجتماعی رویوں کی تشکیل سے بھی اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ پھر معاشرے میں پایا جانے والا کم علم غیرمعتدل مزاج اور تعصبات، ایمان و کفر کے اس نزاع کو منفی رُخ دے دیتے ہیں جس کا نتیجہ ایک دوسرے پر گمراہی یا کفر کے فتوئوں اور بالآخر خون خرابے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ آج کا مسلمان معاشرہ بالعموم، اور پاکستانی سماج بالخصوص، اس مرض میں گرفتار نظر آتا ہے، اور نفرت و ہیجان کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ اس موضوع پر لب کشائی گوناگوں خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ بات خوش آیند ہے کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے مسئلہ تکفیر وخروج کے عنوان سے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ادارے کے زیراہتمام اس موضوع پر ہونے والے تین مذاکروں کی رُوداد ہے جو ملک بھر کے جیّد اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما اور محققین کے درمیان منعقد ہوئے۔ مرتب نے ان رُودادوں کو کتابی شکل میں اشاعت کے لیے مرتب کیا ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مرتب نے تقاریر کو تحریری اور نثری اسلوب میں ڈھالنے سے گریز کیا ہے۔ اسی بنا پر کتاب کے لوازمے پر رُوبرو گفتگو کا رنگ زیادہ نمایاں معلوم ہوتا ہے۔
ان سیمی نارز کی علمی وقعت کا اندازہ ان میں شریک معروف علما اور معتبر اہلِ تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان شخصیات میں: مولانا زاہد الراشدی (مہتمم الشریعۃ اکیڈمی)، مفتی محمد ابراہیم قادری (رکن اسلامی نظریاتی کونسل)، ڈاکٹر قبلہ ایاز(وائس چانسلر پشاور یونی ورسٹی)، ڈاکٹر علی اکبر الازہری (ڈائرکٹر ریسرچ منہاج القرآن،لاہور)، ڈاکٹر اعجاز صمدانی (دارالعلوم، کراچی)، علامہ عمار خان ناصر (نائب مدیر ماہنامہ الشریعۃ)، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (نائب مدیر ماہنامہ محدث)، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈائرکٹر علما اکیڈمی لاہور)، ڈاکٹر سید محمد نجفی (ڈائرکٹر تقریب مذاہب اسلامی، اسلام آباد)، ڈاکٹرخالد مسعود (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) اور ممتاز صحافی خورشید ندیم شامل ہیں۔
کتاب میں تکفیر وخروج کی فقہی تعبیر کے ساتھ اس کے فرقہ وارانہ اور ریاست کے خلاف بغاوت کے پہلوئوں کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں چند اہم اور بنیادی سوالات قائم کیے گئے ہیں لیکن شرکا کی گفتگو میں ان سوالات کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔ شاید ہرشریکِ گفتگو ان سوالات پر اپنی پوری توجہ قائم نہیں رکھ سکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ کتاب اس موضوع پر بلامبالغہ سیکڑوں ضخیم صفحات کا نچوڑ ہے۔ کتاب میں تکفیروخروج کے تناظر میں حالیہ متشددانہ رویوں پر علمی محاکمہ اور تنقید تو موجود ہے مگر اُن عموماتِ شریعت کی متعین تشریح و توضیح نہیں ملتی جن سے استدلال کر کے آج کئی گروہ انتہاپسندی کو اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح آج کی اسلامی ریاستوں میں حکمرانوں کا وہ طرزِ عمل بھی نقدو جرح سے بالکل رہ گیا ہے جس کے باعث کئی سخت گیر حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان حکمرانوں کی دین و انصاف سے دُوری اور خدا بیزاری کا علاج صرف ان کے خلاف جنگ ہے۔
یہ کتاب اس موضوع پر جمود اور خاموشی کو توڑنے، نئے زاویوں سے غوروفکر کرنے اور جدید مباحث پر دعوتِ تحقیق دینے کی ایک کامیاب کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والے اور بالخصوص دینی مدارس کے طلبہ کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کالج اور یونی ورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے تو اس کا مفید ہونا بہت واضح ہے۔ (عبدالحق ہاشمی)
قرآن کے اہم موضوعات میں سے ایک انبیا کے واقعات ہیں جن میں عبرت کا بہت سامان اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اُردو میں اس حوالے سے معروف نام اور کتاب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن ہے۔ ترجمہ کار کے بیان کے مطابق زیرتبصرہ کتاب عبدالوہاب النجار المصری کی جس کتاب کا ترجمہ ہے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب بھی اسی پر مبنی تھی۔ غالباً اس لیے اس کتاب کا انتساب ان ہی کے نام کیا گیا ہے۔
حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ تک ۲۰ انبیاے کرام ؑ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ آیا ہے اسے مرتب کرکے پیش کردیا گیا ہے۔ ہرنبی ؑکے حال کے آغازمیں ایک جدول کی شکل میں متعلقہ سورتوں اور آیات کے نمبر دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی روایات سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے لیکن ان کا خرافات اور من گھڑت ہونا بتانے کے لیے تذکرہ ہوگیا ہے (یعنی قاری اس سے محروم نہیں رہتا)۔ عصرحاضر کے سائنسی انکشافات سے قرآن کی تصدیق و تائید کا بھی ذکر ہے۔ آخر میں عبرت و موعظت کے پہلو بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب تفصیل سے تبصرے کی متقاضی ہے۔ حضرت آدم ؑ میں نظریۂ ارتقا کا بیان آگیا ہے۔ کیا آدم پہلے انسان تھے؟ اس پر بھی بحث ہے۔ قومِ ثمود میں ناقہ پر پوری بحث ہی تبصرہ نگار کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی۔ غرض اس طرح ہرمقام پر متعلقہ اُمور پر علمی گفتگو کی گئی ہے۔
اصل تعریف تو مصری عالم کی،لیکن ترجمے کے لیے جن افراد نے، خصوصاً مولانا آصف نسیم نے جو محنت کی ہے ، اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ چھے خصوصی صفحات رنگین تصاویر سے مزین ہیں، مثلاً ہابیل کا مزار، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت لوطؑ کے مزار، وہ جگہ جہاں حضرت موسٰی ؑ کو آگ نظر آئی تھی، وادیِ مدین، کوہِ طور وغیرہ وغیرہ۔ قیمت کے بارے میں یہ لکھا دیکھ کر ’براے مہربانی قیمت پر بحث نہ کریں‘ بحث کرنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن احتراماً نہیں کی جارہی۔ اتنی قیمتی کتاب کی جو بھی قیمت ہو، کم ہے۔ (مسلم سجاد)
انسانی جسم کو سہولتیں پہنچانے کے لیے دورِحاضر کی سائنس و ٹکنالوجی آج جتنی سرگرم ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ دوسری طرف مغربی تہذیب کے تصورِ آزادی، مساوات اور ترقی نے انسانی خواہشات کو جتنا بے لگام کیا ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ لیکن مغرب کی سائنسی فکر اور تہذیبی بالادستی کیا انسان کو واقعی روحانی و ذہنی لحاظ سے بھی آسودہ کرسکے گی؟ اس کا جواب اثبات میں دینا ناممکن ہے۔ انسان آج جتنا بے چین و مضطرب اور نفسیاتی لحاظ سے معذور ہے، اتنا کبھی نہ تھا۔ یورپ میں دماغی و نفسیاتی امراض کی جتنی کثرت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عصرحاضر کی بالادست تہذیب انسان کی جسمانی و ذہنی آسودگی کو تو اہمیت دیتی ہے لیکن اس کے روحانی و قلبی تقاضوں کا اِدراک کرنے سے قاصر ہے۔ جرائم و تشدد کی شرح آج مغرب میں کہیں زیادہ ہے۔ معاشی لحاظ سے فلاحی سیکنڈے نیوین ریاستیں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک اور مشرق میں ترقی کی علامت جاپان میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح کا ہونا بقول اقبال ع تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، کا منظر پیش کر رہی ہے۔
مولانا سلطان احمد اصلاحی ہندستان کے معروف اسکالر ہیں جن کی اسلامی معاشرت پر بیسیوں تحقیقی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے مغربی تہذیب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی و اخلاقی بحران، بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کی اُلجھنیں،انفرادیت پسندی، تشددپسندی، نشہ، کرپشن اور تعیش پسندی جیسے مسائل کا ذکر کر کے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل بتایا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ معاصر دنیا کی اخلاقی اساس کیا ہے اور اس کے برعکس اسلامی معاشرت کی اخلاقی اساس کس نوعیت کی ہے۔ نفسیاتی اُلجھنوں کا حل اسلام کے نزدیک ایک طرف ذکروتلاوت اور مراسمِ عبودیت کی بجاآوری ہے، اور دوسری طرف اسلام انسانی زندگی کا مقصود و مطلوب معاشی ترقی کے بجاے رضاے الٰہی کو ٹھیراتا ہے۔ اس طرح بندے کا خدا سے مخلصانہ اور پُرجوش تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ صبروقناعت، صلہ رحمی، بروقت شادیوں کا انعقاد، خاندانی نظام کا استحکام اور عورتوں مردوں کا مخلوط ماحول سے بچائو، وہ چیزیں ہیں جو افراد کو ذہنی و نفسیاتی عوارض سے بچانے میں ممدومعاون ہوتی ہیں۔ صاف ستھری کتابت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ یہ ایک اچھی علمی و فکری کاوش ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
اس کتاب میں علامہ اقبال کی علمی و فکری زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ کتاب کے حرفِ اوّل میں ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ اسلامی فکر کو عالم گیر تناظر میں پیش کرنے کی طرف سب سے پہلے علامہ اقبال نے توجہ مبذول کرائی تھی (ص۹)۔ آج فکرِاقبال کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسلام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور تحفظ اور اس کی عملی تشکیل کی خاطر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ مصنف نے متعدد مقامات پر اقبال کو مغرب کا مداح قرار دیا ہے اور ساتھ ہی صوفیت کا علَم بردار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اس طرزِفکر کے ساتھ پاکستان ترقی کی کس منزل تک پہنچے گا؟
اقبال اکیڈیمی کے ناظم محمدسہیل عمرنے پیش لفظ میں صحیح لکھا ہے کہ ’’علامہ کی علمی اور فکری سطح بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اسلامی تہذیب سے تعلق پختہ ہوتا گیا اور قرآنِ مجید کو سرچشمۂ حیات قرار دینے کا میلان بڑھتا گیا‘‘۔ مصنف نے اقبال کی فکر کو نوجوانوں میں راسخ کرنے کی ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی تعلیمی سرگرمیوں، ان کی مغرب پر تنقید اوراسلامی افکارونظریات کی حیات افروز رہنمائی پر نہایت مؤثر انداز میں، اقبال کے اشعار اور نثر کے حوالوں سے ان کی زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ جذبہ لائق تحسین ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو فکرِاقبال سے قریب کیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی تعمیر ان افکارونظریات کے مطابق کرسکیں جو علامہ اقبال نے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں پیش کیے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں اقبال کے سوانحی حالات، ان کے افکارونظریات، ان کی تعلیمات اور نثرادِ نو کے لیے پیغام، عصرحاضر کے مسائل سے نبٹنے کے لیے ہدایات اور دیگر موضوعات پر شگفتہ انداز میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔
یہ کتاب نوجوانوں کی فکری تطہیر کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اسلوبِ بیان سادہ اور لفظی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ کتاب کی قیمت نوجوانوں کے لیے نہیں، بزرگوں کے لیے بھی ہوش ربا ہے۔ (ظفر حجازی)
سید مودودیؒ کی شخصیت ، سوانح اور خدمات پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے مولانا مودودی پر پہلی تصنیف کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۵۳ء میں اس وقت سامنے آیا جب فوجی عدالت کی طرف سے مولانا کو سزاے موت سنائی گئی ۔
مصنف معروف صحافی ہیں اور وجۂ تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا مودودی کی عجیب و غریب شخصیت ہی تھی جس نے مجھے ان کی زندگی کے بارے میں جستجو پر اُکسایا۔ ایک مولوی جو مولویوں سے قطعی مختلف ہو، ایک لیڈر جو لیڈروں کی محفل میں نمایاں معلوم ہو، ایک پڑوسی جس پر اس کے ہمسایے فخر کریں، ایک باپ جو اپنی اولاد کے لیے باعث ِ رحمت ہو، ایک شوہر جو اپنی بیوی کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہو،ایک حاکم جو اپنے ماتحتوں کی آنکھ کا تارا ہو، یہ تمام خصوصیات مولانا مودودیؒ ہی میں پائی جاسکتی ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔
مولانا کی شخصیت کے ان گوشوں کو مولانا کی اہلیہ، صاحب زادے عمرفاروق، پڑوسی اور رفقا کے تاثرات سے واضح کیا گیا ہے۔ ’حاشیے اور یادداشتیں‘ کے تحت مولانا کے مطالعے کا انداز، تقریر کی تیاری کے نوٹس دیے گئے ہیں۔ ’مکاتیب‘ کے تحت مولانا کی خطوط نویسی کو زیربحث لایا گیا ہے اور غیرمطبوعہ خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ اسلوبِ بیان بہت دل چسپ ہے کہ قاری پڑھتا چلاجاتا ہے۔ مولانا مودودی کو جاننے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (امجد عباسی)
اندرونی سرورق پر ضمنی عنوان (ترکی کے تین سفر) سے مصنف کے خوابوں کا موضوع واضح ہوجاتا ہے۔ پہلا سفر ستمبر ۱۹۸۰ء میں، دوسرا جنوری ۱۹۸۱ء، اور تیسرا ۱۹۸۳ء میں پیش آیا۔ یہ سفر انھوں نے ریڈیو پاکستان کے نمایندے اور رپورٹر کی حیثیت سے اور سربراہانِ مملکت کے دوروں میں شامل رہ کر کیے۔ پہلی بار ترکی گئے تو چند روز پہلے جنرل ایورن کی سرکردگی میں فوج نے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کو برطرف کر کے حکومت پر انقرہ اور استنبول کے علاوہ قبضہ کرلیا تھا۔ اس دورے میں مصنف نے ترکی کے حالات، فوجی حکومت کے عزائم اور جنرل ایورن کی اعلان کردہ پالیسیوں کی تفصیل لکھ بھیجی۔ انقرہ کے بعد استنبول کی سیر بھی کی۔ دوسری اور تیسری مرتبہ وہ صدرضیاء الحق کے ساتھ جانے والے صحافیوں میں شامل تھے۔ اس بار قونیہ اور ازمیر جانے کا موقع بھی ملا۔ رپورٹنگ کے بعد مصنف نے ہرمرتبہ بڑے ذوق و شوق سے تاریخی مقامات دیکھے اور بازاروں کی سیر کی۔ تیسری مرتبہ واپسی پر انھیں عمرہ ادا کرنے کی سعادت بھی میسر آئی۔
تین اسفار کی اس مختصر مگر جامع داستان میں زبیری صاحب نے بہت کچھ بتا دیا اور کہہ دیا ہے جو اُن کی حب الوطنی، اخوتِ اسلامی، ملّی دردمندی اور خلوص کا عکاس ہے۔ عراق کی فضائوں سے گزرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں ۱۵ لاکھ جانوں کے ضیاع اور سات سو بلین ڈالر کے نقصان پر اُن کا دل بھر آتا ہے۔ سعودی عرب کی فضائوں میں اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ مقدس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت بھی جلد نصیب ہو۔ استنبول میں جگہ جگہ انھیں مصطفی کمال کی مذہب دشمنی یاد آتی ہے۔ وہ اتاترک کے بعض اقدامات پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’خلافت کا خاتمہ اگرچہ مصطفی کمال کے ہاتھوں ہوا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے پیچھے استعماری اور صہیونی عزائم کارفرما تھے اور اس کا مقصد عالمِ اسلام کی مرکزیت کو ختم کرنا تھا جس کی نشانی خلافت تھی‘‘ (ص۴۴)۔سادہ اسلوب میں یہ رُوداد ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
جدید ہتھیار میربابرمشتاق کی تازہ کتاب ہے۔ اس میں سب کو اور بطور خاص نوجوانوں کو ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو جدید ٹکنالوجی، یعنی موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب کے ذریعے ہمارے معاشرے میں زہر گھولتے جارہے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہوئے کہ جدید ٹکنالوجی سے دُور نہیں رہا جاسکتا، اس سازش کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ مصنف نے بالکل درست کہا کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں مگر مغرب کی ترقی اور چکاچوند کے اثرات ہمارے قلب و ذہن پر تیزی سے مرتب ہورہے ہیں۔ ان اثرات کی کہانیاں روز اخبارات اور دیگر ذرائع سے ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ میربابر نے بھی بہت سی کہانیاں سنادی ہیں۔ اگر کوئی عبرت پکڑنا چاہے تو یہی بہت ہیں۔
کتاب کو کئی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ ہماری اعلیٰ اقدار کو دھندلانے کے لیے کیا کیا سازشیں کی جارہی ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ صرف امریکا میں کتنے سو ریڈیو اسٹیشن محض عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ۲۴گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ صرف خطرات سے ہی آگاہ نہیں کیا گیا بلکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بہتر استعمال اور دیکھ بھال کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ زبان رواں اور سادہ ہے۔ پروف خوانی مزید توجہ چاہتی ہے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)
قرآنِ پاک کا مکمل ترجمہ یقینا ایک نہایت گراں بار ذمہ داری کا نازک کام ہے۔ حافظ عمران ایوب لاہوری نے اس کی ضرورت سمجھ کر ہی اس جواں عمری میں یہ کام انجام دیا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ حسن مدنی، حافظ محمود اختر اور دیگر پانچ معروف اسکالروں کی راے میں: اس کی زبان سادہ، مفہوم کامل اور اسلوب دل نشین ہے۔ مختصر حواشی بھی ہیں جن کے لیے مستند کتب تفسیر جیسے: تفسیر طبری، ابن کثیر، قرطبی، فتح القدیر،جلالین، ایسرالتفاسیر اور تفسیر سعدی وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ایک کالم میں عربی آیات، ہر آیت نئی سطر سے اور سامنے کالم میں اس کا ترجمہ درج ہے۔ خوب صورت معیاری پیش کش ہے۔ (مسلم سجاد)