سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


پاکستان میں [جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں   ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ  ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے۔

وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی  فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔

اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔

ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔

[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....

۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس   کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....

اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....

۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے  تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے  جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)

 

اسلام کی نشاتِ ثانیہ اسی چیز کا نام ہے جس چیز کا نام دعوتِ اسلامی ہے۔ دعوتِ اسلامی ایک فرد سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قومیں گزری ہیں ان کے اندر ایک نبی آیا۔ اس نے دعوتِ اسلامی شروع کی، اس دعوت کو جن لوگوں نے سمجھا اور سمجھ کر اس پر ایمان لائے اور جو اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت اور محنت کی قابلیتیں صرف کرنے کو تیار ہوگئے، ان سے وہ دعوت شروع ہوئی۔ اب اس میں یہ کہنا کہ کتنے فی صد امکانات ہیں تو بعض انبیا ایسے گزرے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ایک دو آدمیوں کے سوا ان پر کوئی ایمان نہیں لایا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً حضرت عیسٰی ؑکی ۳ سالہ تبلیغ پر کُل ۱۲ آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور ان میں سے بھی ایک وہ غدار تھا، جس نے انھیں پکڑوا دیا۔ اس لیے سارا انحصار اس بات پر ہے کہ اس دعوت کو اور اس کی سچائی کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ تیار ہو جائیں تو جتنی بڑی تعداد میں وہ تیار ہوں گے اتنے ہی زیادہ امکانات اس دعوت کے دنیا میں پھیلنے کے پیدا ہوجائیں گے۔ جتنے کم آدمی تیار ہوں گے، تو وہ درحقیقت اس دعوت کی ناکامی نہیں بلکہ اس قوم کی ناکامی ہے جس کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اس سے منہ موڑے۔

اگر حق کو پیش کرنے میں کوتاہی حق کو پیش کرنے والوں کی طرف سے ہو اور وہ اس کو واضح طور پر لوگوں کے سامنے ان کی عقل، ان کی فہم اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق پیش نہ کرسکیں تو یہ ان کی طرف سے قصور ہے، اور اگر اس صورت میں نشاتِ ثانیہ نہیں ہوتی تو اس کا الزام ان کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اگر انھوں نے کھول کر، وضاحت کے ساتھ ایک ایک پہلو کو پیش کر دیا کہ یہ حق ہے اور یہ ہیں اس کے تقاضے، اور یہ ہیں اس کے مطالبات، اور کس طرح سے اس حق کو زندگی کے اندر نافذ کیا جاسکتا ہے، اور زندگی کے ہر پہلو کی تعمیر ان اصولوں کے اُوپر کیسے ہوسکتی ہے___ اگر یہ کام انھوں نے کر دیا تو اس کے بعد ساری ذمہ داری اس قوم پر عائد ہوتی ہے جس قوم میں یہ کام پیش کیا گیا۔ اگروہ قوم اس کو قبول نہیں کرتی تو ناکام وہ ہے اور وہ لوگ ناکام نہیں ہیں جو اس دعوت کو پیش کریں۔

اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں خدا کے فضل سے اس وقت   تعلیم یافتہ طبقے کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑی حد تک حق کو حق سمجھ رہا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ توحید کیا چیز ہے۔ وہ یہ جان گیا ہے کہ توحید کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ جان گیا ہے کہ توحید کے مطالبات کیا ہیں۔ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی جان لڑانے اور خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی وہ ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو ایمان لانے کے بعد دکھانی چاہیے۔ یہ اس کی طرف سے کوتاہی ہے۔ جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے وہ جانتے ہی نہیں کہ اسلام کس چیز کا نام ہے، کیا اس کے مطالبے ہیں اور کیا اس کے تقاضے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو خبردار کریں، ان کی جہالت دُور کریں، ان کو سمجھائیں، ان کے دین سے ان کو آگاہ کریں تاکہ ان میں اسلامی شعور پیدا ہو۔ اس کے لیے لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تبلیغ جو ہوئی تھی وہ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے سے نہیں ہوئی تھی، زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔ اب بھی جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، جو دین کو سمجھ چکے ہیں، ان کا کام ہے کہ عوام کے اندر جائیں اور جاکر زبانی تلقین کریں۔ ان کو بتائیں کہ تمھارا دین کیا ہے۔

رہا یہ سوال کہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ میں کتنی مدت درکار ہے تو اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کامیابی کے امکانات کتنے فی صد ہیں اور کتنے فی صد نہیں ہیں۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اپنی حد تک جہاں تک بھی ہمارے بس میں ہے کوشش میں ہم کوتاہی کریں تو ہم قصوروار، لیکن اگر ہم کوشش کا حق ادا کرتے رہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فرض سے سبکدوش ہیں۔ آگے جو کچھ بھی نتیجہ ہو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو اس کو قبول نہ کریں۔(۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو   وکلا سے گفتگو بحوالہہفت روزہ ایشیا، ۱۲نومبر ۱۹۷۲ء)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات [سورئہ اعراف، آیات ۱۹۹-۲۰۲ میں] بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:

متحمل مزاجی اور عالی ظرفی

داعیِ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپؐ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپؐ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے‘‘۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

سیدہی اور عام فھم دعوت

دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعیِ حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپؐ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔

اُلجہنے سے احتراز

اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اشتعال سے اجتناب

[گذشتہ] ہدایت… کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعیِ حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعیِ حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعیِ حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم  نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔

بُرے خیال کی کہٹک

اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۱۱-۱۱۳)

حکمت اور عمدہ نصیحت

دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں: ایک حکمت، دوسرے عمدہ نصیحت۔

حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔

عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں:

ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت سے ہی ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدایشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھارا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔

بحث و مباحثہ

[دعوت میں اگر مباحثے کی نوبت آجائے تو] اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کرا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو، اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ.َ  [ضد] اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔ (ایضاً، ص ۵۸۱-۵۸۲)

مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ‘ مہذب و شایستہ زباں میں‘ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اُتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتاہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے‘ اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے‘ مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔مثلاً:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل ۱۶:۱۲۵)  دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں(مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو‘ تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹۶) تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمھارے خلاف ) بناتے ہیں۔

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ (الاعراف۷:۱۹۹-۲۰۰) درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمھیں اُکسائے تواللہ کی پناہ مانگو۔

یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت، ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ‘ شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ج۳:۷۰۸-۷۰۹)۔ (انتخاب و ترتیب: پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ترمذی)

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ آدمی کی نماز، جماعت کے ساتھ ۲۵ درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے، بمقابلہ اس نماز کے جو گھر یا بازار میں پڑھے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ جب وضو کیا، اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا خالص نماز کی نیت سے تو ہرقدم جوو ہ مسجد کی طرف اٹھاتا ہے، اس قدم کی بدولت ثواب کے ذریعے اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو جب تک وہ نماز میں مشغول رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے دعاے رحمت و مغفرت کرتے ہیں، اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں رہتا ہے اس کا وہ وقت نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک وہ کسی کو مسجد میں ایذا نہ دے اور جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

اس حدیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا حساب لگا کر بتا دیا ہے کہ باجماعت نماز کا اجر انفرادی نماز سے ۲۵ گنا کیوں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے نمازی نے وضو کیا پھر مسجد کی طرف روانہ ہوا،  تو چونکہ یہ سارا اہتمام اس نے نماز کی خاطر کیا، اس لیے گویا اس کا حساب کھل گیا۔ اب اس کے ہر قدم پر جو نیکی کی جانب اُٹھ رہا ہے اس کا ایک گناہ معاف ہوتا ہے، اور ایک درجہ اس کا بلند کردیا جاتا ہے۔ مسجد میں آیا، ابھی جماعت میں دیر ہے تو جتنی دیر وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے گا اس کا یہ سارا وقت بھی نماز کے حساب میں لکھا جائے گا۔ پھر جب نماز پڑھے گا تو فرشتے اس پر رحمت بھیجیں گے۔ اس طرح یہ ساری چیزیں مل کر نماز باجماعت کے اجر کو بڑھا دیتی ہیں، بہ نسبت اس نماز کے جو گھر میں  ادا کی جائے۔

اس روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ ’’جب تک وہ کسی کو مسجد میں ایذا نہ دے اور جب تک اس کا  وضو نہ ٹوٹے‘‘ یعنی اگر مسجد میں جاتا ہے اور وہاں جھگڑتا ہے، دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچاتا ہے،دھکے مار کر اور دوسروں پر سے پھلانگ کر اپنا رستہ بناتا ہے تو وہ اپنے اجر کو ضائع کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی نے وضو توڑ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز میں نہیں۔ وضو کے ساتھ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ نماز کے لیے تیار ہے۔


حضرت انسؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ مسجدیں بنانے میں لوگ فخر کیا کریں گے‘‘۔ (ابوداؤد، دارمی، نسائی، ابن ماجہ)

مطلب یہ ہے کہ ہر گروہ یہ چاہے گا کہ میری مسجد زیادہ شان دار اور زیادہ اُونچی ہو اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان باہم مقابلہ شروع ہوجائے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ بھی قربِ قیامت کی ایک علامت ہے۔ جب ایسا ہو تو دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خیر کم ہورہی ہے اور مسجدوں کو بھی لوگوں نے ایک دوسرے پر تکبر کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تکبر کا اظہار محلات بنانے میں ہو تو یہ بھی گناہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا گناہ یہ ہے کہ لوگ مسجدوں کے ذریعے اپنے تکبر کا اظہار کریں۔


حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمھارے بچے ۷ سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب ۱۰ سال کے ہوں (اور نماز نہ پڑھیں) تو ان کو مار مار کر نماز پڑھائو ۔اور علیحدہ کردو ان کی سونے کی جگہ (یعنی ان کو تنہا سلائو)۔ (ابوداؤد)

عام طور پر لوگ اس حدیث کا جو مطلب لیتے ہیں وہ اس حکمتِ مطلوب کے خلاف ہے جسے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کون سا حکم کس موقع پر عمل میں آنا چاہیے، اگر آدمی اس کو نہ سمجھے تو عموماً غلطی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی مسئلے کو لے لیجیے۔ جب یہ حکم دیا جارہا تھا تو عہدِ رسالتؐ میں لوگوں کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ کوئی شخص نماز پڑھے بغیر مسلمانوں میں سے نہیں ہوسکتا۔ ترکِ صلوٰۃ کا عمل اسلامی نظام جماعت سے علیحدہ ہوجانے کی علامت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین تک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی۔ یہ بات کسی مسلمان کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ نماز کے بغیر بھی آدمی کا ایمان و اسلام سلامت رہتا ہے۔ ایک مسلمان بچہ اس معاشرے میں اپنے گھر والوں اور اہلِ محلہ کو نماز پڑھتے دیکھ کر ۷ سال کی عمر سے پہلے ہی نمازی ہوچکا ہوتا تھا۔ نماز نہ پڑھنے پر اگر ۱۰ سال کی عمر میں اسے سزا دی جاتی وہ اسے ایک امر معقول تصور کرتا تھا، وہ جانتا تھا کہ نماز نہ پڑھنا ایک جرم ہے۔جس طرح چوری کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے اسی طرح جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ مگر آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔

آج ایک مسلمان بچہ آنکھ کھولتا ہے تو مسلمانوں میں سے بمشکل ۵ فی صد افراد کو نمازی پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں ایک شخص نماز پڑھے بغیر بڑی سے بڑی اعلیٰ پوزیشن بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مسلمان ہی نہیں کہلاتا مسلمانوں کا رہنما اور حکمران بھی بن سکتا ہے۔ اس کے گھر کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ اگر اس کی ماں نماز پڑھتی ہے تو باپ نہیں پڑھتا، اور اگر باپ پڑھتا ہے تو بڑا بھائی نہیں پڑھتا۔ یہ منظر دیکھ دیکھ کر اس کی ذہنیت ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ ۱۰ برس کی عمر تک پہنچتا ہے تو تین چار جماعتیں بھی پڑھ چکا ہوتا ہے۔ اسکول میں وہ دیکھتا ہے کہ اس کے استاد نماز نہیں پڑھتے۔ اس سلسلۂ واقعات میں سے گزرنے کے بعد اگر آپ اسے نماز نہ پڑھنے پر سزا دینی شروع کردیں تو وہ اسے زیادتی تصور کرے گا اور اس کے ذہن میں بغاوت پیدا ہوجائے گی۔ مار کے ڈر سے اس کا جسم نماز پڑھ بھی لے مگر دل نمازی نہیں بنے گا، اور بڑا ہوجانے پر اسے جب بھی باپ سے جدا ہونے کا موقع ملے گا وہ پہلا کام یہی کرے گا کہ نماز چھوڑ دے گا۔

آپ کا فرض یہ ہے کہ بچے کے دل میں نماز اُتارنے کی کوشش کریں۔ مارنے سے پہلے اسے دل سے نمازی بنائیں اور اس کا سینہ نورِ ایمان سے منور کریں۔ احساسِ فرض پیدا کرنے کے بعد آپ اسے جو نماز پڑھائیں گے وہ اسے عمر بھر جاری رکھے گا۔ اور اگر آپ چاہیں کہ یہ سب کچھ کیے بغیر انھی بگڑے ہوئے حالات میں اسے نماز نہ پڑھنے پر سزا دیں تو یہ نسخے کا غلط استعمال ہوگا۔ یہ کام اناڑی کیا کرتے ہیں کہ نسخہ پڑھ لیا اور اس کے بعد نہ موسم کو دیکھا نہ مریض کے خصوصی حالات کو، بلا سوچے سمجھے اس کا استعمال شروع کردیا۔


حضرت عبدؓاللہ ابن عمرو بن العاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک روز آپؐ نے نماز کا ذکر کیا اور فرمایا کہ جو شخص نماز کی محافظت کرتا ہے تو نماز اس کے لیے نور کا سبب اور برہان ہوگی، اور قیامت کے دن نجات کا سبب ہوگی۔ اور جو نماز کی محافظت نہ کرے تو اس کے لیے نہ یہ نور ہوگی، نہ برہان اور نہ نجات، اور وہ قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور  ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا‘‘۔(احمد، دارمی، بیہقی)

نماز کی محافظت سے مراد یہ ہے کہ دائماً اوقات کی پابندی اور اس کی جملہ شرائط کے ساتھ اس کی ادایگی۔ نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ وقت آیا اور جانے کو ہے مگر آپ کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو وضو بے وضو ہی ٹرخا دی۔ صلوٰۃ کی محافظت یہ ہے: کپڑوں کا پاک صاف ہونا، کامل احتیاط کے ساتھ وضو کرنا اور نماز کے وقت پر اسے ادا کرنا، یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔ حضوؐر فرما یہ رہے ہیں کہ جو شخص نماز کو اوقات و شرائط کے ساتھ ادا کرے گا تو یہ نماز اس کے لیے نور بن جائے گی۔ دنیا میں اسے روشنی نظر آئے گی اور وہ صاف دیکھ لے گا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے اور غلط کون سا؟ اس دنیا کی روشنی پر قیامت کے دن کی روشنی کا انحصار ہے۔ وہاں نماز ادا کرنے والے خلقِ خدا میں الگ چمکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ نور اس کا پتا دے گا کہ نیک کون ہے؟ پھر آپؐ نے فرمایا کہ نماز برہان ہوگی، یعنی اس بات کی دلیل کہ نماز ادا کرنے والا نجات کا مستحق ہے۔ نماز کی پابندی اس کے لیے معافی کے مستحق ہونے کی دلیل ہوگی اور اس کے نتیجے میں وہ قیامت کے دن نجات سے ہم کنار ہوگا۔ اور جو لوگ نماز کی محافظت نہیں کریں گے تو آخرکار ان کا انجام ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کا ذکر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ غافل ہوکر زندگی گزارتے رہے اور انجامِ کار اللہ کے عذاب سے دوچار ہوئے، اس طرح وہ شخص جو غفلت سے زندگی گزارے گا اس کی عاقبت بھی بالآخر انھی جیسی ہوگی۔


حضرت عبداللہ ابن شفیق کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اعمال میں سے کسی عمل کو ترک کرنے کو کفر خیال نہیں کرتے تھے مگر نماز کو‘‘۔ (ترمذی)

قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین تک نماز پڑھنے پر مجبور تھے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ منافقین نماز نہیں پڑھتے، بلکہ یہ ہے کہ شوق و رغبت سے نہیں پڑھتے: وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی (النساء ۴:۱۴۲) ۔ گویا وہ مجبوراً نماز اس لیے ادا کرتے تھے کہ ان کو مسلمان سمجھا جاتا رہے۔ صحابہؓ کی راے یہ تھی کہ نماز کا ترک، کفر ہے۔ جو شخص نماز ادا نہیں کرتا یا تو اس کا تعلق دین سے ٹوٹ گیا یا ٹوٹنے کے قریب ہے۔ دنیا میں یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو کہتی ہیں کہ اگر ان کا کوئی رکن چار اجلاسوں میں شریک نہ ہو تو اسے رکنیت سے خارج کردیا جائے گا۔ یہ اخراج کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ غیرحاضر رکن نے مسلسل غیرحاضر ہوکر جماعت سے اپنی عدم دل چسپی کا ثبوت فراہم کردیا۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانچ وقت کی نماز مقرر کی ہے تاکہ یہ معلوم ہوتا رہے کہ دین سے آپ کا سرگرم تعلق ہے یا نہیں۔ اگر آپ نماز ادا نہیں کرتے تو یہ گویا اس کا ثبوت ہے کہ یا تو دین کے ساتھ آپ کا تعلق ٹوٹ گیا یا پھر ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن، لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر اکثر درود بھیجتا ہے‘‘۔ (ترمذی)

المرء مع من احب، جس کو جس سے محبت ہوتی ہے، اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم اگر دو آدمیوں کو ہروقت ساتھ دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہے۔ اسی طرح حضور نبی کریمؐ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا اس بات کی علامت ہے کہ درود بھیجنے والے کو آپؐ سے محبت ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپؐ میرے سب سے بڑے محسن ہیں اور خدا کے بعد آپ ہی کے حقوق مجھ پر سب سے زیادہ ہیں۔ میرا سب سے زیادہ تعلق حضوؐر کے ساتھ ہے۔ حضور نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ جس طرح درود بھیج بھیج کر دنیا میں اس نے مجھے سے قریب ہونے کا ثبوت دیا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی وہ مجھ سے قریب ہوگا۔ یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ آپؐ سے حقیقت میں تعلق ہو اور زبان سے درود بھیجا جائے، یہ نتیجہ تب برآمد ہوگا۔ محض زبان سے درود بھیجنے کا یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔


حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳مرتبہ الحمدللہ اور ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر کہے، یعنی کُل ۹۹ مرتبہ اور ۱۰۰ کی تعداد پوری کرنے کے لیے یہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ پڑھے تو اس کی خطائیں بخشی جائیں گی، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔ (مسلم)

خطائوں کو سمندر کے جھاگ سے اس لیے تشبیہہ دی کہ یہ کوئی ٹھوس اور مستقل چیز نہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جس طرح جھاگ اُڑ جاتا ہے اسی طرح اس آدمی کی خطائیں معاف کردی جاتی ہیں، جو ہر نماز کے بعد یہ ذکر کرتا ہے۔

بعض لوگوں کو اس طرح کی روایات سن کر طرح طرح کے شکوک لاحق ہونے لگتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ زبان میں چند مرتبہ حرکت ہو، اس سے فضا میں لہریں پیدا ہوجائیں، تواس کا یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ اصل میں یہ نتیجہ محض زبان سے چند الفاظ نکال دینے سے ظاہر نہیں ہوتا، دل سے تسبیح و تحمید و تکبیر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ جو آدمی ان کلمات کا مفہوم دماغ میں بٹھا لے، ذہن میں پیوست کرلے، اس سے خطائیں ہی کہاں سرزد ہوں گی؟ ہوں گی تو اس کا امکان نہیں کہ وہ خطا پر مصر ہو اور اللہ کے ہاں آدمی وہی پکڑا جاتا ہے جو اپنی غلطی پر اصرار کرے، لیکن اگر خطا کے بعد نادم ہو تو اسے معاف کردیا جاتا ہے۔ جو آدمی دل سے یہ کلمات کہتا ہے وہ ہیکڑی نہیں دکھا سکتا، کبھی نہ کبھی ضرور اسے توبہ کی توفیق ہوگی، اور توبہ سے ہر خطا معاف ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ شرک بھی جو سب سے بڑا جرم ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ نماز کو مشتبہ کردے، یہاں تک کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ جب تم میں سے کوئی اس صورت حال کو محسوس کرے تو بیٹھ کر دو سجدے کرے‘‘۔ (بخاری، مسلم )

یعنی نماز میں شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ بندہ نماز نہ پڑھنے پائے۔ دوسری چیزیں تو وہ پھر بھی کسی طرح برداشت کرلیتا ہے، لیکن اس کے لیے نماز سے بڑھ کر ناگوار کوئی چیز نہیں۔ پہلے تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ سرے سے نماز ہی نہ پڑھے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو پھر نماز میں خلل ڈالتا ہے۔ مختلف شبہات پیدا کرتا ہے تاکہ بددل ہوجائے، اسے یہ یاد ہی نہ رہے کہ میں اب تک کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمھیں بھول لاحق ہوجائے تو نماز سے بددل ہونے کے بجاے دو سجدے کرلو۔ یہ اس کے لیے کافی ہے کہ شیطان جو تم پر غالب آگیا تھا اس کا اثر ختم ہوجائے۔ یہ سجدے ان وسوسوں کا علاج ہیں جو تمھارے دل میں پیدا ہوگئے تھے۔ یہ سجدے ایک طرف اللہ کے حضور معافی چاہنا ہے، دوسری طرف شیطان کو یہ بتانا ہے کہ تو نے سارا زور لگا دیا، مگر کچھ نہیں کرسکا۔ یہ دو سجدے اور کر رہا ہوں۔ یہ دو سجدے گویا ارشاد رسولؐ کے مطابق شیطان کے چہرے پر دو دھپ یا دو چانٹے ہیں۔ (انتخاب: افاداتِ مودودیؒ، نماز کے متعلق احادیث، مشکوٰۃ کی تشریح، مؤلف: میاں خورشید انور)

 

اے لوگو! جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، اس شخص نے تمھیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمھیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پرکیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمھاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بُغض وہ اس خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں، اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجائو، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ  تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیرخواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے  ربِّ دوجہاں! جس طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر   بے حدوبے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے بلند کر اور آخرت میں بھی انھیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔(جلد ۴، حاشیہ ۱۰۷، صفحہ ۱۲۴)


اِس جامع فقرے [مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں] کے کئی مطلب ہیں:

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں، میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے، اوروہ ہے سراسر عدل وانصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے، میں اس کا ساتھی ہوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمھارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر، بڑے اور چھوٹے، غریب اور امیر، شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اور جو جرم ہے، وہ سب کے لیے جرم ہے، اِس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی دانست کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں، اور اُن بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کروں جوتمھاری زندگیوں میں اور تمھارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمھارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔(ج ۴، ح ۲۸، ص ۴۹۵-۴۹۶)


جس سیاق و سباق میں یہ آیت (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) ارشاد ہوئی ہے، اس کے لحاظ سے رسولِؐ پاک کے طرزِعمل کو اس جگہ نمونے کے طور پر پیش کرنے سے مقصود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنھوں نے جنگ ِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسولؐ کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیرووں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کااس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدّم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کے پیرووں کی طرف سے اِن کمزوریوں کااظہارمعقول ہوسکتا ہے مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہرمشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصہ لیا۔ کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپؐ ہر وقت محاذِ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔   بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوںکے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِعظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کررہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپؐ کے اتباع کا مدعی تھا، اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اُس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہرمعاملے میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔(ج ۴، ح ۳۴، ص ۸۰-۸۱)


شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً اُن کے سربرآوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر اُن کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اُونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انھوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کارروائی کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہرطرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں، مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہوجائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہوجاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے...

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخرکار جناب صدیقؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور انھوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ اُن کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضوؐر پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرئہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپؐ فوراً اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اُٹھ کر آپؐکے پیچھے ہولیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپؐ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہوگئے؟ فرمایا: ’’جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمھارے ساتھ رہا اور تمھاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں  بیٹھ سکتا تھا‘‘۔ (ج ۴، ح ۴۰،ص ۴۵۹)


 

حضرات! اتنی تفصیل مَیں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت، نزاکت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے، اس سے چند باتیں بخوبی واضح ہوجاتی ہیں:

اول: یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور اُن کی اس روش میں آیندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پُشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔

دوم: یہ کہ اشتراکی بلاک  سے کوئی اُمید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور    وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میںڈالیں اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔

سوم: یہ کہ اقوامِ متحدہ ریزرولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔

چہارم: یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے۲۲ سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔

ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک   عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ۶۰لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ۷۰، ۷۵ کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی ۳۰-۳۲ حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔

اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجداقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے، اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفر سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انھیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبروظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بناکر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجاے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالمِ اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پُرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں، اور باہر سے آئے ہوئے اُن غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکا، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر، اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے،    تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کوصاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش  اگر اسی طرح جاری رہی تو روے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں   اُس کے لیے کوئی ادنیٰ درجے کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ  اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔ (سانحۂ مسجداقصٰی، ص ۱۸-۲۰، ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)

 

دنیا میں ہر طریقِکار مقصد کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے۔ جب مقصد متعین ہوجاتا ہے تو پھر تمام وسائل حصولِ مقصد کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور آدمی جو بھی محنت اور مشقت کرتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد کو اس کے قریب تر کر دے۔ اسی طرح ہمارا بھی ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طریقِکار ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، محنتوں اور وسائل کو اس میں صرف کردیں۔

ھمارا مقصد

ہمارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارا مقصد اقامتِ دین ہے، یعنی پورے کے پورے دین کو عملاً نافذ کرنا۔ اور یہ نفاذ صرف اپنے ہی ملک تک مقصود نہیں ہے بلکہ تمنّا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں نافذ ہو اور پورا کرۂ ارضی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔ لیکن اس کی ترتیب یہ ہے کہ یہ پہلے پاکستان میں نافذ ہو۔ اس کے بعد اس کے وسائل کو دین کی عالمی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔

تبلیغ

تبلیغ کامفہوم اسلام کی تعلیمات کو فقط پہنچا دینا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق، اعمال اور معاملات میں کیا کیا ہدایات دی ہیں، بندگانِ خدا کو ان چیزوں سے آگاہ کر دینے کا نام تبلیغ ہے۔ یہ سب امور واضح کر دینے کے بعد مبلغ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ لیکن اقامتِ دین کے کام کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے، جہاں تبلیغ کا کام ختم ہوتا ہے۔ تبلیغ اقامتِ دین کی تمہید ضرور ہے، لیکن یہ ختم ہو جاتی ہے، جب تعلیماتِ دین پہنچ جائیں۔ ہمارا مقصد صرف تبلیغ نہیںبلکہ اقامتِ دین ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے از خود نہیں لی، بلکہ ہم پر  ڈالی گئی ہے، جیسا کہ قرآن میں آتا ہے: اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) کہ اس دین کو قائم کرو۔ چونکہ ہم انبیا کے وارث ہیں اس لیے یہ مقصد از خود ہمارا مقصد بن جاتا ہے۔

اقامتِ دین اور تبلیغِ دین

اگر ہم اپنے ذمے صرف تبلیغِ دین ہی کا فرض رکھتے تو ہمارا کا م بہت ہلکا تھا۔ تبلیغ کی   ذمہ داریاں زیادہ گراں نہیں ہیں۔ ایک شخص نماز کی تبلیغ کرتا ہے، وہ لوگوں کو ارکانِ نماز اور   طریقۂ نماز سے متعارف کراتا ہے اور مسجد کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے اس کا کام یہاں ختم ہو گیا، کیونکہ تبلیغ کی حدود تلقین سے آگے نہیں بڑھتیں۔ لیکن جس شخص نے اپنے ذمے صرف تبلیغِ صلوٰۃ نہ لے رکھی ہو، بلکہ اقامتِ صلوٰۃ بھی ہو، اس کے کام کی حدود اس سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ذمے یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ مسجد بنائے بھی اور اس کا انتظام و انصرام بھی کرے اور اس کی تعمیر کے لیے اینٹ چونا سیمنٹ بھی فراہم کرے۔ یہ سارے کام جب وہ کر رہا ہوتا ہے تو دور سے دیکھنے والا اسے شاید کسی دُنیوی شغل میںمنہمک سمجھتا ہو اور یہ جان سکتا ہو کہ یہ شخص عمارت کے لیے جو عمارتی سامان فراہم کر رہا ہے، وہ اقامتِ صلوٰۃ کا ضروری حصہ ہے اور اقامتِ صلوٰۃ اس وقت تک ہو نہیں سکتی، جب تک مسجد نہ بنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ اینٹ، پتھر اور چونا بہم پہنچایا جائے۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی اور اس کی شکل و صورت ہر نگاہ کو دکھائی دینے لگی، تب معلوم ہوگا کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہے۔ کچھ لوگ شاید عمارت کا قبلہ رخ ہونا   دیکھ کر اندازہ کرلیں کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہو رہا ہے لیکن عام لوگ اس کی نوعیت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب کام پورا ہو چکتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ اقامتِ دین کا ہے۔ لوگ اقامتِ دین کے بنیادی تقاضوں کو جب نہیں سمجھتے تو وہ متعجب ہوتے ہیں کہ یہ اقامتِ دین کاکیسا کام ہو رہا ہے۔ درآں حالیکہ یہ ساری ضروریات فریضہ اقامتِ دین کی ہیں جو پوری ہوں گی تو اقامتِ دین کاکام ہوگا۔ لوگ عام طور پر تبلیغ کوتو سمجھتے ہیں لیکن اقامتِ دین کی اصطلاح اُن کے لیے اجنبی ہوتی ہے اور وہ اس کے مفہوم اور تقاضوں کو کماحقہ نہیں سمجھ پاتے۔

جماعتِ اسلامی کا مقصد

اقامتِ دین، جماعت ِاسلامی کا صرف اجتماعی مقصد نہیں بلکہ اس کے ایک ایک رکن کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ تبلیغ انفرادی طور پر بھی ہو سکتی ہے مگر اقامت کے لیے جدوجہد اجتماعی اور منظم ہونی چاہیے۔ جو لوگ اقامتِ دین کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عملی کام ہے، جس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام منظم محنت کامحتاج ہے اور منتشر اور غیر منظم افراداسے ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔

دنیا میں بعض ایسے اجتماعی ادارے بھی ہیں، جہاں ایک فرد اپنا ذاتی مقصد الگ رکھتے ہوئے بھی ان کے محدود مقاصد کی تکمیل میں شریک ہو سکتا ہے، مثلاً کوئی کلب ہے جو بالکل محدود مقاصد کے لیے وجود پذیر ہوا ہے، لوگ اس کے رکن بنتے ہیں اور کلب کے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن کلب کا مقصد ان کی اپنی شخصی زندگیوںکا مقصد نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا ہر رکن جس کو اپنا اجتماعی یا جماعتی مقصد جانتا ہے وہ اس کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دین کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے، اپنی انفرادی زندگی میںبھی اور اجتماعی زندگی میںبھی، وہ اپنی ہر سعی اور اپنی محنت کی ہر رمق اس میںکیوں نہ لگائے، وہ ضرور لگائے گا۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اچھی طرح سے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے، یہ دین ان کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنا کوئی مقصد زندگی مقرر کر لیا ہے تو پھر اس کے لیے فطری اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنے تمام ذرائع، وسائل اور اپنا تمام وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس میں لگا دے، کیونکہ وہ مقصد اس کا مقصدِ زندگی ہے اور وہ اسی کے لیے جیتاہے۔ اور اگر کوئی شخص اقامتِ دین کو اپنا مقصد زندگی قرار دے کر کام نہیں کرتا تو کہنا پڑے گا کہ وہ اس کا مقصد زندگی ہی نہیں۔ اگر اقامتِ دین اس کا مقصد زندگی ہوتا اور وہ اس کا شعور بھی رکھتا تو حضرت صدیق اکبرؓ کے طرز عمل کی یاد اسے ضرور بے چین کیے رکھتی ۔

اقامتِ دین : انفرادی تقاضے

  •  دین کا فھم: اِس مقصدِ زندگی کے کچھ تقاضے اور ضروریات ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مقصدِ زندگی قرار دے لینے کے بعد اس کا علم وفہم ضروری ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا علم حاصل نہیں کرتا اور نہ اس کی فکر کرتا ہے، وہ اپنے مقصد کے شعور سے تہی دامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کا علم و شعور حاصل کرے اور اس کے مطابق اپنے اندر استعداد پیدا کرے۔
  •  مطلوبہ اخلاقی اوصاف: دوسری چیز ہے، اپنے مقصد کے مطابق اپنے اندر اخلاق پیدا کرنا۔ مبلّغ کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ لیکن اقامتِ دین کے لیے اس سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے۔ یہاں قدم قدم پر مخالف ہوائوں اور مزاحم قوتوں کا سامنا ہوتاہے، چپے چپے پر رکاوٹوں کی باڑیں کھڑی ملتی ہیں اور مقابلہ ہوتا ہے۔ پھر اس راہ میں صرف مزاحمتوں ہی سے سابقہ نہیں پڑتا، زیادتیوں سے واسطہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہاں گالیاں بھی ملتی ہیں اور بہتانوں کی غلاظت بھی اپنے اوپر برداشت کرنی پڑتی ہے، اور جیل بھی دیکھنی پڑتی ہے اور لالچ اور ترغیب کی وادیاں بھی قطع کرنی پڑتی ہیں۔
  •  حکمت: تیسری ضرورت اس راہ میں حکمت کی ہے۔ اس مقصد کے حامل میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ہر بلا کا سامنا حکمت سے کر سکے۔ راستے کا کوئی کانٹا اگر اس کا دامن کھینچتا ہے تو وہ اس سے اپنا دامن چھڑائے۔ اگر وہ دامن نہیں چھوڑتا تو اپنے دامن کا اتنا ٹکڑا پھاڑ کر پھینک دے اور اپنی منزل کو چل کھڑا ہو۔ یہ مقصد نوعیت میں خالص علمی ہے اور اس کا تقاضا ہے  کہ وقت ضائع نہ ہو، یکسوئی ہو اور صرف ایسی چیزوں کی جانب توجہ ہو جو حصولِ مقصد میں معاون و مددگار ہو سکتی ہیں۔ اس مقصد کا حامل بیکار بحثوں میں نہیں الجھتا۔ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور  نہ گالی کا جواب گالی سے دیتا ہے۔ یہ تقاضے مقصد کو ذاتی حیثیت میں اختیار کرنے کے تھے۔ اب اس کے جماعتی حیثیت میں تقاضوں کو بھی سمجھ لیجیے۔

اقامتِ دین: اجتماعی تقاضے

  •  موعظۂ حسنہ اور اس کے تقاضے: اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ موعظۂ حسنہ کو اختیار کیجیے۔ اقامتِ دین کرنے والوں کو حکمت کے ساتھ جائزہ لینا پڑے گا کہ عہد جدید کی کون کون سی گمراہیاں ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک طبیب ِحاذق کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گمراہی کے کیا اسباب ہیں۔ فرد اور معاشرے کے امراض کی  تشخیص کرنی پڑے گی کہ بگاڑ کے کیا محرکات ہیںاور لوگ دین کی جانب کیوں رغبت نہیں کرتے، اس سے رکنے کی کیا وجوہ ہیں؟ان تمام انحرافات کے عوامل معلوم کرنے ہوں گے تاکہ انھیں   معلوم کرکے ان کا سدباب اور استیصال کیا جائے۔ موعظۂ حسنہ کا مطلب صرف شیریں بیانی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اصلاح کیسے ہو؟ مناظرہ بازی نہیں بلکہ مرض کو دور کرنے کی کوشش ہے تاکہ مریض صحت یاب ہوجائے۔ مریض حکیم کو گالی دے گا تو حکیم بُرا نہیں مانے گا، نہ اپنا مقصد ترک   کرے گا۔ اسی طرح اقامتِ دین کرنے والے کی نگاہ اپنے مقصد پرلگی رہتی ہے اور وہ راہ کے کانٹوں اور ان کی چبھن کی کبھی پروا نہیں کرتا۔
  •  تنظیم و تربیت اور دعوت: اس مقصد کی راہ کا دوسرا کام تنظیم و تربیت اور دعوت ہے۔ اقامتِ دین ٹھنڈے ٹھنڈے وعظوں سے انجام نہیں پا جاتا۔ اس کے لیے جہاد کی پتّا ماری کی ضرورت ہے اور جہاد کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم ہو۔ جو لوگ اس مقصد کے حامل ہوں انھیں ایک رشتۂ نظم میں پرو دیا جائے۔ ان کے اندر فوج کا سا ڈسپلن اور ویسا ہی نظم ہو۔ پھر وہ باطل کی قوتوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ڈھیلے نظم والی فوج کبھی فتح نہیں پا سکتی۔ اقامتِ دین کی سعی کامیابی سے کبھی ہم کنار نہیں ہو سکتی، جب تک یہ منظم اور باسلیقہ نہ ہوگی۔ واضح رہے کہ اقامتِ دین کا مسئلہ ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دین بے چارگی کی حالت کو پہنچ چکا ہو اور باطل نظریات کا غلبہ ہو چکا ہو،  اب ان غالب اور طاقت ور نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کوئی ڈھیلی ڈھالی قوت کار آمد نہیں ہوگی۔ اقامتِ دین کے لیے اجتماعیت کی نہ صرف مضبوط تنظیم ہونی چاہیے بلکہ اس کی تربیت بھی مسلسل ہونی چاہیے۔ جو مخالف قوتیں میدان میں اتری ہیں وہ رہنے کے لیے آئی ہیں، جانے کے لیے نہیں آئیں۔ اس لیے ان کا مقابلہ طاقت ور اور مضبوط تنظیم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ نظم کی جانب سے جو ہدایات جاری ہوں ان پرپوری پابندی سے عمل کیا جائے اور کوئی کام خود سری سے  نہ کیا جائے۔ تنظیم کے استحکام کا یہی راز ہے۔ یہ تنظیم و تربیت انتہائی ضروری ہے، چاہے اس قافلے میں مٹھی بھر آدمی ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ تنظیم و تربیت ہی کی برکت ہے کہ مٹھی بھر آدمی لاکھوں کی بھیڑ پر غالب آئے۔
  •  توسیع دعوت: تیسرا کام اس سلسلے کا توسیع دعوت ہے۔ جو جماعت قائم ہوگی، ناگزیر ہے کہ وہ اپنی دعوت بھی پھیلائے اور عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ توسیع دعوت کا ایک راستہ اقتدار بھی ہے، لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ کسی کو اقتدار مل جائے۔ یہ راستہ کوئی پایدار نہیں ہے اور اس کے بہت سے لوازمات ہیں، مثلاً اگر آپ کے ہاتھ میں اقتدار آتا ہے اور اقتدار کی مشینری آپ کی ہم نوا نہیںہوتی تو آپ اپنی تمام کوشش اور اخلاص کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پایدار راستہ صرف عوام کے ساتھ رابطے کا ہے۔ ایک ایک فرد تک دین کا پیغام پہنچایا جائے۔ وہ فرد زندگی اور مملکت کے جس بھی شعبے میں ہوگا، وہ بجاے خود دین کے لیے قوتِ نافذہ بن جائے گا۔ جب ملک کی فضا اور راے عامہ میں یہ نظریات رچ بس جائیں گے تو اس کے بعد کوئی مخالف قوت، وہ چاہے کتنی ہی مقتدر کیوں نہ ہو، ٹکنے نہ پائے گی، اور نہ دین کی راہ میں مزاحم ہو سکے گی۔ اس غرض کے لیے بڑی محنت اور جان ماری کی ضرورت ہے۔

توسیعِ دعوت کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اسلامی نظام یہاں قائم ہو بھی جاتا ہے توکیا ایسے بداخلاق لوگ اس کی غیر معاون رعایا ثابت نہ ہوں گے؟ معاشرے میں جتنی اخلاقی خرابیاں رونما ہوں گی، دین کی اقامت میں اتنی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لیے آپ دعوت بھی پھیلائیں اور اخلاق کو بگڑنے سے بھی روکیں۔

  •  نـفاذِ اسـلام کے لیے تبدیلیِ اقتدار: اقامتِ دین کا چوتھا تقاضا تبدیلی ِاقتدار بہ حقِ اسلام ہے۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں آپ کا مقصد معروف کا فروغ اور منکر کا استیصال ہے۔ مثال کے طور پر آپ قرآن میں سود کو حرام پاتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں جب آپ کوئی کاروبار کرتے ہیں تو آپ کو جگہ جگہ سود سے سابقہ در پیش آتا ہے۔ شریعت میں بدکاری اور فحاشی ممنوع ہے، آپ گھر سے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسے ہر جگہ کھلی چھٹی ہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ حرام کو فروغ اور حلال کی راہ میں بندشیں ہیں۔ ایک حالت یہ ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ ملک کی پوری انتظامی مشینری زور لگا دے کہ زنا بند ہو، سود ممنوع ہو، معروف پھیلے، منکر سکڑے۔ ان دونوں حالتوں میں کون سی حالت مطلوب ہے؟ ظاہر ہے دوسری حالت ہی مطلوب ہے۔

اب اگر دوسری حالت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تو کیا یہ سیاست ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیرات پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری حالت کو مطلوب جانتا ہے، تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حالت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر یہ حالت خود بخود پیدا ہونے والی ہوتی تو حضوؐر کو معرکہ ہاے بدروحنین در پیش نہ آتے۔ کوئی نہر کبھی دعائوں سے نہیںکھودی جاتی، اس کے لیے ہاتھ پائوں ہلانے پڑتے ہیں۔ دعائوں سے علم دین حاصل ہو سکتا تو دینی مدرسے قائم نہ ہوتے۔ سعی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو گا۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے: لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ، انسان کو بہرحال سعی کرنی پڑتی ہے۔ آج تک کسی کو یہ پھل انعام میں نہیں ملا۔

موجودہ حالات میں طریقِ کار

پاکستان بظاہر اس جماعت کو منتقل ہوا تھا جس نے مطالبہ پاکستان پیش کیا تھا، لیکن  بہ باطن یہ افسر شاہی [بیوروکریسی] کے ہاتھوں میںپہنچ گیا، اور بعد میں یہ بات بالکل کھل گئی کہ سب کچھ اتفاق سے نہیں ہوگیا بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے تحت یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔ مصر میںلارڈ کرومر نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’ہم مسلمانوں کو آزادی تو دے دیں گے، لیکن اگر وہ اسلام کی طرف پلٹنا چاہیں گے، تو اسے ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ انگریزوں نے اسی پالیسی کے تحت جب اس امر کا پورا اطمینان کر لیا کہ وہ جن کو اقتدار دے رہے ہیں کیا وہ ان کے رنگ میں پورے رنگے جا چکے ہیں، تو اسی اطمینان کی بنا پر انھوں نے اقتدار کو اس بیوروکریسی کی طرف منتقل کیا تھا جو ان کے رنگ میںپوری طرح رنگی ہوئی تھی۔

یہ لوگ درپردہ مملکت کو لادینی بنانے کے لیے زور لگاتے رہے اور ملی بھگت میں بعض سیاست دان بھی ان کے ہم نوا تھے۔ ہم نے جب اسلامی دستور کا مطالبہ کیا تو ان لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اس مطالبے کے اندر اپنی خواہشات کے خلاف ایک زبردست خطرہ پایا۔ لیکن وہ ابھی اس پوزیشن میںنہ تھے کہ اپنے آپ کو پوری طرح نمایاں کرکے میدان میں اتر آتے۔ سیاست دانوں میں بیش تر ایسے شریف النفس بھی تھے جنھوں نے اسلامی دستور کی پوری پوری حمایت کی۔ یہ کش مکش ۱۹۵۳ء تک اسی طرح جاری رہی۔ اس کے بعد اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ سے چھن کر سول سروس کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ ۱۹۵۴ء میں دستوریہ توڑ دی گئی۔ پھر۱۹۵۶ء میں دستور بنا، تو اس حلقے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جب مسلسل ٹال مٹول کے بعد عام انتخابات کی تاریخ مقرر ہوئی تو [اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان صاحب کا] فوجی انقلاب آگیا۔ یہ فوجی انقلاب اسلامی دستور کا راستہ روکنے کے لیے آیا تھا۔ اگر یہاں سیکولرزم ہوتا تو غالباً یہ انقلاب نہ آتا۔

اس کے بعد آمریت آئی، پریس اور پلیٹ فارم پر پہرے بٹھا دیے گئے اور ادارہ تحقیقات اسلامی جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ ان سب چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ اپنے سامنے رکھ کر دیکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسلام اگر اب آسکتا ہے تو صرف جمہوریت کے راستے سے آسکتا ہے۔ اقتدار عوام کے نمایندوں کو ملے گا تو اسلام آئے گا۔ لیکن آمریت ہرگز پسند نہیں کرتی کہ یہاں اسلام آئے۔ یہ اس راہ میں ایک سدِّگراں ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹے گی، نفاذِ اسلام کے تمام مواقع بند رہیں گے۔(رحیم یار خان میں اجتماعِ کارکنان سے خطاب، ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء، بہ شکریہ ایشیا ۱۹مئی ۱۹۶۸ء، ص ۷-۹)

 

ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں سُن لو! تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے۔ بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے، جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کردے، اور بے شمار نسلوں اورقوموں کو ایک خدا پرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا۔ مگر تم نے اِن نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی، کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو، جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور اسے کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟

میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ

خرِ عیسٰی اگر بمکّہ رَود

چوں بیاید ہنوز خر باشد

یعنی گدھا خواہ عیسٰی ؑ جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سُدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کوحاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں، مگر وہ شکل رُوح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔

تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزارہا زائرین مرکز ِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کرکے اسلام کی عزت کو بٹّہ لگاتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو، حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔

کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھنچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں وہاں اپنی تحریک کے اُصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے، بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا، ہزاروں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے ... اس ذکر سے میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہیں ہے بلکہ صرف آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں نے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غلط فہمی کسی کے دل میں نہ رہنی چاہیے کہ اسلام میں اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔ نہیں، کوتاہی دراصل اُن لوگوں میں ہے جو اسلام کی صحیح پیروی نہیں کرتے۔ یہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کو انسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے اور جن پر ٹھیک ٹھیک عمل کر کے تم تمام دنیا کے مصلح اور امام بن سکتے تھے، ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہر نہیں ہورہا ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک طبیب حاذق چند بہترین تیربہ ہدف نسخے مرتب کر کے چھوڑ گیا ہو اور بعد میں اس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بیکار بھی ہو رہے ہوں اور بدنام بھی۔ نسخہ بجاے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو، مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہوجائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔ (خطبات، ص ۲۵۱ -۲۵۶)

 مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قماربازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو مَیں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر  اُٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے، اور نفسانیت میں کیا کمی آجاتی ہے؟

عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ

سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پر بھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامّل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا  رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے، اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اُس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہرطرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں۔

 یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور اُن صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کردے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ توروزہ رکھنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اُگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اُس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس اُن کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اُسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اُترنے اور خیال، نیت ، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔

روزہ، متقی بننے کا ذریعہ

یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، یعنی  تم پر روزہ فرض کیا جاتاہے، شاید کہ تم متقی وپرہیزگار بن جائو۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور     متقی و پرہیزگار بن جائو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید نہیں۔ (خطبات، ص ۱۹۶-۱۹۸)

اجتماعِ عام ۲۰۰۸ء کی مناسبت سے سید مودودی رحمہ اللہ علیہ کی ایک اہم تحریر پیش کی جارہی ہے جو روایت کا تسلسل بھی ہے اور جامع رہنمائی بھی۔ (ادارہ)

اس سے پہلے جتنے اجتماعات ہوتے رہے ہیں ان میں مَیں نے آغاز ہی میں اپنے رفقا کو اور شرکاے اجتماع کو کچھ نہ کچھ ضروری ہدایات دی ہیں، لیکن چونکہ کافی مدت گزر چکی ہے اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ بہت سے لوگوں کو وہ ہدایات یاد نہ ہوں اور بہت سے نئے لوگ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس لیے میں چند ضروری باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں:

  • زمانۂ اجتماع میں ہمارے رفقا،ہمارے ارکان اور متفقین اور دل چسپی رکھنے والے جو باہر سے یہاں تشریف لارہے ہیں اور اس جگہ مقیم ہیں، ان کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ یہ تین چار دن جو ہم کو ملے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہاں اپنا مال اور وقت صرف کرکے جو اصحاب تشریف لائے ہیں انھیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کسی تفریحی سفر پر نہیں آئے ہوئے ہیں۔ ان کو اس وقت کا ایک ایک لمحہ اس مقصد پر غور کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کی تدابیر پر غوروفکر کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کے لیے باہمی تبادلۂ خیال اور باہمی گفت و شنید کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق باتوں سے بچیں، جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق فکر تک سے بچیں۔ پوری کوشش کیجیے کہ جس نصب العین کے لیے یہ جماعت بنی ہے اور جس   نصب العین کے لیے اس جماعت میں شامل ہونے کا خطرہ آپ نے مول لیا ہے، صرف اس کی کامیابی پر آپ کی توجہ مرکوز ہو۔ اس کو آگے بڑھانے کی تدابیر پر آپ غوروفکر کریں، اس کی مشکلات، اس کے اندر پیدا ہونے والی خرابیاں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے کانٹوں کو ہٹانے کے لیے غور کریں۔ یہ پہلی چیز ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں تمام لوگوں کو بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین رویے کا اظہارکرنا چاہیے۔ نہ اس لیے کہ کوئی دیکھے تو تعریف کرے، بلکہ اس لیے کہ جس دین کے خادموں کی حیثیت سے آپ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، اس دین کے خادموں کا کوئی برا نمونہ آپ کے سامنے نہ آئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بُرے نمونے کو دیکھ کر دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھنے والے رک جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نمونے کو دیکھ کر کوئی غیرمسلم یہ راے قائم کرے کہ جس دین کے خادموں کا یہ اخلاق ہو، جس دن کے خادموں کا یہ رویہ ہو وہ کیا انسان بناتا ہوگا! اس لیے پوری کوشش کریں کہ ایک سچے مسلمان گروہ کا جو رویہ نشست و برخاست میں،   رہنے سہنے، کھانے پینے میں، میل جول اور گفتگوؤں میں ہونا چاہیے، وہی آپ کا ہو۔ کسی مجمع پر ایک نظر ڈال کر آدمی یہ معلوم کرسکتا ہے کہ یہ مجمع کس قسم کا ہے۔ اس مجمع کی ایک ایک ادا یہ بتا دیتی ہے اور ایک آدمی کے قلب پر فوراً یہ اثر ڈالتا ہے۔ اگر وہ کوئی تفریحیں کرنے والا مجمع ہے تو اس کے ٹھٹوں اور قہقہوں سے فوراً ایک آدمی یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ دل لگی کرنے والے خوش باش لوگ ہیں۔ اگر وہاں سے جھگڑوں کی آوازیں آرہی ہوں، بحثوں اور مناظروں کی آوازیں آرہی ہوں تو فوراً ایک آدمی کے کان اس کی یہ خبر دے دیتے ہیں کہ یہاں کچھ جھگڑالو لوگ ہیں، یہاں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو الجھنے اور الجھانے والے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مجمع لوگوں کو سنجیدہ اور متین اور بااخلاق اور مہذب نظر آئے تو فوراً دلوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ معقول لوگ ہیں، یہ شریف لوگ ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی شخص آپ کے مقصد سے اتفاق کرے یا نہ کرے، لیکن آپ کا رویہ اس کے دل میں احترام بھی پیدا کرسکتا ہے اور اس کے دل میں بے احترامی بھی۔ یہ دوسری بات ہے جسے آپ کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
  • تیسری چیز یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں ان تین چار دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ایثار سے پیش آنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا مددگار اور ہمدرد ہونا چاہیے۔ ہرشخص اس امر کی کوشش کرے کہ میں خود تکلیف اُٹھا لوں لیکن میری ذات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ ہرشخص جو دوسرے کے قریب رہتا ہو اس کو ان ہدایات کا لحاظ رکھنا چاہیے جو قرآن اور حدیث میں ہمسایوں کے لیے آئی ہیں۔ ہمسایہ صرف اسی کو نہیں کہتے جو آپ کے مکان کے ساتھ رہتا ہو بلکہ ہمسایہ اس کو بھی کہتے ہیں کہ جو چند لمحوں کے لیے آپ کے ساتھ راستے میں ہو، یا کسی مسافر گاڑی میں، یا کسی عارضی قیام گاہ میں ہو۔ ہمسائے کے حقوق اچھی طرح سے سمجھئے اور ان کو پوری طرح ادا کیجیے۔ وہ بہت بُرا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے اس کے ہمسایوں کو تکلیف پہنچے اور وہ بہت اچھا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے ہمسائے کو آرام پہنچے اور اس کے ہمسائے اس بات پر مطمئن ہوں کہ میرا مال اگر اس کے قریب پڑا رہ جائے گا، یا میرا راز اگر اس کے کان میں پڑ جائے گا تو یہ خیانت کرنے والا نہیں ہے۔ اس سے اس کا ہمسایہ پوری طرح مطمئن ہے۔
  • چوتھی چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں باہر سے آنے والے لوگ محض مہمان بن کر نہ رہیں۔ یہ ایک مشترک کام ہے۔ ایک مشترک مقصد کے لیے ہے۔ یہاں کے منتظمین اور باہر سے آنے والے دونوں اس مقصد میں شریک ہیں۔ اس لیے یہاں کے منتظمین جو زحمت اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں ان کی میزبانی میں اس کا احساس کیجیے۔ حتی الامکان کوشش کیجیے کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے خود کریں اور منتظمین کو تکلیف نہ دیں۔ منتظمین اگر تھکے ہوئے نظر آئیں تو آگے بڑھ کر ان کی ڈیوٹی خود سنبھال لیں اور ان کو کہیے کہ ذرا آرام کرلیں۔ منتظمین اگر آپ سے درخواست کریں کسی مدد کی تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیجیے الا یہ کہ واقعی کوئی عذر مانع ہو۔ بہرحال میری یہ درخواست ہے کہ باہر سے آنے والے حضرات منتظمین کو کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ ایسا رویہ اختیار کریں کہ منتظمین کا دل ان کا شکریہ ادا کرے۔
  • پانچویں چیز یہ ہے کہ زمانۂ قیام میں نظم و ضبط کا، ڈسپلن کا اور قواعد کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیں۔ جو اوقات جن کاموں کے لیے مقرر ہیں ان کاموں کو انھی اوقات پر کیجیے اور کسی قسم کی بدنظمی یہاں نہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہماری ساری کامیابی کا انحصار جن اخلاقی اوصاف پر ہے ان میں سے ایک نظم و ضبط ہے۔ تمام بہتر سے بہتر اوصاف بھی اگر آپ جمع کرلیں لیکن آپ کے اندر ڈسپلن نہ ہو تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ وہ موقع ہے کہ سارے پاکستان سے جماعت کی طاقت سمٹ کر یہاں جمع ہوگئی ہے، اس موقع پر اگر آپ کسی اِن ڈسپلن (indiscipline) کا، کسی بے ضبطی اور بدنظمی کا اظہار کریں گے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پوری جماعت کو بے نظمی کی بیماری لگ گئی ہے۔ اس لیے یہاں میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کامل ڈسپلن پایا جائے۔ ڈسپلن دیکھوں گا تو میری ہمت بڑھے گی اور میں زیادہ کام کرنے کی ہمت پائوں گا، اور بدنظمی دیکھوں گا تو میری ہمت ٹوٹ جائے گی اور میں کچھ زیادہ کام کرنے کی نہیں سوچوں گا۔

اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ اجتماع کی کارروائیوں کے دوران میں لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں میں پڑے نہ رہ جائیں۔ باہر ٹہلتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ غیرمتعلق گفتگوؤں میں جاکر مشغول نہ ہوجائیں بلکہ یہاں آکر پوری دل چسپی کے ساتھ سنیں۔ دل چسپی نہ بھی لے رہے ہوں تو بھی خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ اجتماع کی کارروائیوں کے درمیان میں کسی شخص کو اجتماع گاہ سے باہر نہ پایا جانا چاہیے، الا یہ کہ اسے کوئی شدید ضرورت ہو۔ (روداد جماعت اسلامی،ہفتم، ص ۳۵-۴۰)

آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِّ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں… یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو .ُ اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے     ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک  پورے ۲۳سال یہی کتاب ایک عظیم الشان تحریک کی راہ نمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس  طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر ودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔

اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقین اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سلوک‘ ہے، جس کو میں ’سلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اِس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔

پھر اسی کُلیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول وقوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کر رکھا ہو اور نہ وہ  قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، ج ۱، ص ۳۳-۳۴)

… عموماً سب مسائل کو لپیٹ کر صرف ایک بڑا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کا عنوان ہے: ’پاکستان کا دفاع اور استحکام‘۔ اور اس کا حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب پاکستانی مل کر ایک ہوجائیں اور فوجی حیثیت سے مضبوط ہوں۔ لیکن تھوڑا سا تجزیہ کرنے ہی پر یہ بات کُھل جاتی ہے کہ پاکستان کا دفاع و استحکام کوئی ایک سادہ سا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے، اور اس کا حل بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ایک ملک جس کے اخلاق کو   گھن لگا ہوا ہو، محض اسلحے اور فوجی تربیت کے بل پر کھڑا ہوسکتا ہے؟

کیا ایک ملک جس کے عناصرِ ترکیبی کو ایک دوسرے سے پھاڑنے اور باہم متصادم کرنے کے لیے بہت سے طاقت ور اسباب موجود ہوں بس ’ایک ہوجائو‘ کی تسبیحیں پڑھنے سے واقعی ایک ہوسکتا ہے؟ پس بجائے اس کے کہ ہم سادگی اور سادہ لوحی سے خود کام لیں یا دوسروں کو سادہ لوح فرض کر کے ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور فرضی مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں، ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ فی الواقع پاکستان کی بقا و تحفظ اور اس کا استحکام کن مسائل سے وابستہ ہے اور ہم کس طرح انھیں حاصل کرسکتے ہیں۔

l اخلاقی انحطاط: اولین مسئلہ ملک کے اخلاق کا ہے جو تشویش ناک حد تک گر چکے ہیں۔ ہماری تمام مشکلات میں سب سے زیادہ اخلاق ہی کی خرابیاں کارفرما ہیں۔ اس بگاڑ کا  زہر اتنے وسیع پیمانے پر ہماری سوسائٹی میں پھیل گیا ہے اور اتنا گہرا اُترچکا ہے کہ اگر ہم اسے  اپنا قومی دشمن نمبر ایک قرار دیں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ کوئی بیرونی خطرہ ہمارے لیے اتنا  خوف ناک نہیں ہے جتنا یہ اندرونی خطرہ ہے۔ یہ ہماری قوتِ حیات کو کھا گیا ہے اور کھائے چلا جا رہا ہے...

یہ حقیقت اب کھل چکی ہے کہ ہمارے اخلاق کے جوڑبند بُری طرح ڈھیلے ہوگئے ہیں۔  ہم میں ہزارہا آدمی ایسے موجود ہیں جو قتل و خون کے مشّاق ہوچکے ہیں، ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو موقع ملنے پر بد سے بد تر جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اور نیچے سے لے کر اُونچے طبقوں تک کم از کم ۹۵ فی صد تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حرام کا مال سمیٹنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے بشرطیکہ انھیں قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا اطمینان ہو۔

ان حالات میں ہمارے لیے یہ کوئی وجہِ تسلی نہیں ہے کہ اس سے بدرجہا زیادہ بدتر اخلاقی صفات کا ظہور [گذشتہ برس] ہندستان میں ہندوئوں اور سکھوں سے ہوا ہے۔ جو زہر انھوں نے کھایا اس کی فکر انھیں ہو یا نہ ہو، ہمیں تو اُس زہر کی فکر ہے جو ہماری رگوں میں اُتر گیا ہے۔ کیا مشّاق مجرموں اور بے باک خائنوں کی اتنی کثیر تعداد اپنے اندر لیے ہوئے ہم اپنی قومی زندگی کو مستحکم بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ بداخلاقیاں جو کل غیروں کی جان، مال اور عصمت کے معاملے میں برتی گئی تھیں، ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور اپنا کوئی پایدار اثر ہماری سیرت و کردار پر نہیں چھوڑ گئیں؟ کیا یہ بگڑے ہوئے اخلاق اب خود اپنوں پر ہاتھ صاف کرنے سے رُک جائیں گے؟

ایک سال کا تجربہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جس اخلاقی زوال کی خبر گذشتہ فسادات نے دی تھی وہ وقتی اور محدود نہ تھا۔ دراصل وہ ایک نہایت خوفناک مرض کی حیثیت سے ہمارے اندر اب بھی موجود ہے اور ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو دشواریاں فطرتاً ایک نئی مملکت کو پیش آیا کرتی ہیں وہ تو ہمیں پیش آنی ہی تھیں، اور جو مصائب انگریز، ہندو اور سکھ کی باہمی سازش سے ہم پر نازل ہوئے وہ بھی اپنی جگہ تھے، لیکن یہ سب کچھ بڑی آسانی سے انگیز کیا جاسکتا تھا۔ اگر ہمارے عوام و خواص اور ہمارے سربراہ کاروں کے اخلاق اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔ یہ واقعہ ہے، اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ اخلاق کی خرابیوں نے ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو، جتنی کہ وہ تھیں، اصل سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا۔

مثال کے طور پر ’مہاجرین‘ کے مسئلے کو لیجیے جو پاکستان بنتے ہی ایک پہاڑ کی طرح ہم پر نازل ہوا۔ بلاشبہہ ایک ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں کہ اس پر ۶۰، ۷۰ لاکھ    بے سروسامان آدمی یک لخت لا کر ڈال دیے جائیں۔ لیکن غور سے دیکھیے کہ اس طرح جو مشکلات حقیقتاً رونما ہوئی تھیں ان پر کتنا اضافہ ہماری اپنی اخلاقی خرابیوں نے کردیا۔۱؎ ہندوئوں اور سکھوں نے جو عمارات، سامان، اموال، دکانیں، کارخانے، زمینیں اور دوسری چیزیں پاکستان میں چھوڑی تھیں، اگر ان پر خود پاکستان کے باشندے، حکومت کے عُمّال اور قومی کارکن قبضے کر کے نہ بیٹھ جاتے تو کیا مہاجرین کو بسانے میں ہم کو وہی دقتیں پیش آسکتی تھیں جن سے اب ہم دوچار ہیں؟ مغربی پنجاب اور سرحد اور سندھ کی حکومتوں سے پوچھیے کہ جانے والوں نے کیا کچھ چھوڑا تھا، اور اس کا کتنا حصہ آنے والوں کو دیا گیا اور کتنا حصہ کن کن غیرمستحقین کو پہنچا؟ اگر یہ اعداد وشمار روشنی میں آجائیں تو دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ جائے کہ مہاجرین کے مسئلے کا جو زخم غیروں نے ہم کو لگایا تھا اسے سرطان کا پھوڑا بنا دینے والے دراصل کون لوگ ہیں۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حمام میں آپ کس کس کو برہنہ دیکھیں گے۔

پھر جو لوگ کل تک ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگا رہے تھے، جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا… ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں، یہ خیانتیں، یہ غبن، یہ قومی خرچ پر اقربا پروریاں اور دوست نوازیاں، یہ فرائض سے غفلت، یہ ڈسپلن سے گریز، یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں، جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظامِ حکومت کے لیے ہر شعبے میں برپا ہے اور جس میں بکثرت چھوٹے اہل کاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزرا تک آلودہ ہیں___کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم، جس کی بدولت ملک کی صنعت و تجارت کا بڑا حصہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا اور ان سے بچنے کے لیے، نیز دوسرے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازموں کو رشوتیں دینا، اور جہاں بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہو پبلک فنڈ کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی تامّل نہ کرنا، کیا یہی وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟

ملک کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی ہے کہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اور کیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا اس وقت ۱۲، ۱۳ لاکھ مسلمانوں کے شہر میں سے چند ہزار نہیں، چند سو آدمی بھی ایسے    نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اٹھاتے۔ متعدد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں کہ کوئی مہاجر مرگیا ہے اور اس کے عزیزوں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے اُجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں۔ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے کہ سرحد کے قریب کسی گائوں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلا کر ان پر حملہ کرا دیا تاکہ یہ بھاگ جائیں اور زمین ہمارے قبضہ میں رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں___ اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں، اور ان شرم ناک جرائم کے مرتکب صرف عام شُہدے ہی نہیں تھے___ کیا اِتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ چلنے دے گا؟

تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو جانے دیتے ہیں کہ ہماری قیادت نے سیاسی تحریک کے ساتھ قوم کی اخلاقی طاقت کو سنبھالنے کی فکر کیوں نہ کی؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اب وہ اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اخلاق بنانے اور سنوارنے کا کیا سروسامان اس کے پاس ہے؟ کیا تدابیر اس کے پیشِ نظر ہیں؟ کیا لائحۂ عمل اس نے بنایا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا واضح جواب ہمیں ملنا چاہیے۔ اگر اس کے جواب میں اُن نصائح کی طرف اشارہ کیا جائے جو کبھی کبھی ریڈیو اور سرکاری پریس اور تقریروں کے ذریعے سے پبلک کو اور حکومت کے چھوٹے اہل کاروں کو کی جاتی رہتی ہیں، تو ہم پہلے ہی کہے دیتے ہیں کہ اس طرح کی طفل تسلیوں سے ہمیں معاف رکھا جائے۔ اس لیے کہ بداخلاقی کے اصل سرچشمے تو خود قصرِقیادت کے ستونوں میں شامل ہیں۔ کارفرمائی اور کارپردازی کی باگیں تو اِس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن کی بڑی اکثریت ہی کے دم قدم سے بداخلاقی کا بازار گرم ہے۔ پھر بھلا خیانت کی زبان سے امانت کا سبق، خودغرضی کی زبان سے ایثار کا وعظ اور گناہ کی زبان سے نیکی کا درس انسانی فطرت نے کب قبول کیا ہے کہ یہاں اس کے کارگر ہونے کی توقع کی جائے!

l ملکی وحدت و سلامتی : دوسرا مسئلہ جو پاکستان کی زندگی، اس کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے، انھیں کس طرح جوڑ کر ایک بنیانِ مرصوص بنایا جائے؟ یہ عناصر اِس وقت شدت کے ساتھ مائلِ انتشار نظر آرہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کے عناصرِ ترکیبی ہی اگر مُجتمع اور باہم پیوستہ نہ ہوں تو اِس کے وجود کا برقرار رہنا سخت دشوار ہوتا ہے___لہٰذا اگر یہ واقعہ ہے، اور کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہو،    کہ پاکستان کے ترکیبی عناصر میں جمع و تالیف کے بجاے کچھ انتشار و پراگندگی کے رُجحانات پائے جاتے ہیں اور کچھ قوتیں اُن کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بندِ استحکام، بلکہ عین ہماری بندشِ وجود ہی میں ایک خطرناک رخنہ موجود ہے، جسے دُور کیے بغیر ہم اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے ان میں تین تفریقیں اس وقت بالکل نمایاں ہیں:

m پہلی تفریق مہاجرین اور غیرمہاجرین کے درمیان ہے۔ ہماری آبادی میں مہاجرین کی تعداد اس وقت ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور یہ تعداد روزافزوں ہے، کیونکہ ہندستان کے ہرحصے سے مسلمان اُکھڑ اُکھڑ کر برابر پاکستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ مشرقی ہند کے لوگوں کا رُخ مشرقی پاکستان کی طرف ہے اور باقی ہندستان کے لوگ مغربی پاکستان کی راہ لے رہے ہیں۔۲؎ یہ نیا عنصر اب ہماری آبادی کا ایک مستقل عنصر ہے اور تعداد کے لحاظ سے کوئی معمولی عنصر نہیں ہے۔ لیکن متعدد اسباب ایسے ہیں جو نئے اور پرانے عناصر کو مل کر ایک قوم بننے سے روک رہے ہیں۔ کچھ تو زبان، تہذیب، معاشرت اور عادات و خصائل کے قدرتی اختلافات ہیں جوبہرحال ایک مدت تک یگانگت میں مانع ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ان پر غیرمعمولی اضافہ جس چیز نے کردیا ہے وہ  یہ ہے کہ مہاجرین اور غیرمہاجرین دونوں میںجاہلیت کے تعصبات اور نفسانی خود غرضیاں کارفرما ہیں۔ یہ چیز ہر جگہ ان دونوں عناصر کو پھاڑ رہی ہے، ان کو مخالف جتھوں کی شکل میں منظم کر رہی ہے، ان کے درمیان آویزش کی صورتیں پیدا کر رہی ہے اور دونوں طرف کے تنگ نظر اور خود غرض مفسدین ان کو باہم لڑا رہے ہیں۔۳؎

m دوسری تفریق جغرافی، نسلی اور لسانی ہے۔ پاکستان اول تو دو ایسے خطوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ پھر یہ خطے بھی اپنی اپنی جگہ اندرونی وحدت نہیں رکھتے بلکہ مختلف اجزا سے مرکب ہیں اور ہر جز دوسرے جز کے خلاف تعصب رکھتا ہے۔ اس وقت درحقیقت ہم ایک قوم نہیں ہیں، پانچ مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں، یعنی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور بنگالی۔ ان میں سے ہر ایک قوم کے اندر علیحدگی کا رُجحان شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بعض نادان گروہ اس کو شدید تر کرنے کی پیہم جدوجہد کررہے ہیں۔۴؎

m تیسری تفریق معاشی ہے۔ امیر اور غریب، زمین دار اور کاشت کار، مزدور اور سرمایہ دار، بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہل کار، یہ مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے سے پھاڑ دیا ہے۔ ان کے درمیان اخوت اور ہمدردی کا تعلق نہیں ہے بلکہ حسد اور بُغض کا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے رفیق اور حامی و ناصر نہیں ہیں بلکہ حریف اور مدِّمقابل ہیں۔ ان کی کش مکش بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے اندر ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا مستقل فلسفہ ہی یہ ہے کہ انھیں ملا کر ایک کر دینے کا خیال باطل ہے اور حق صرف یہ ہے کہ ان کو باہم لڑا دیا جائے۔۵؎

سوال یہ ہے کہ یہ مختلف تفریقیں، جو ہماری قوم اور ریاست کو پارہ پارہ کردینے پر تلی ہوئی ہیں، جن کو نشوونما دینے کے لیے گہرے داخلی اسباب بھی موجود ہیں، اور جنھیں بھڑکانے کے لیے خارجی محرکات کی بھی کمی نہیں ہے، آخر کس طریقے سے مٹائی جاسکتی ہیں؟ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے، مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ پھٹے ہوئے دل اور کھنچے ہوئے ہاتھ  نہ تعمیر میں تعاون کرسکتے ہیں اور نہ مدافعت ہی میں بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ قومیت کا پرچار بھی اس معاملے میں بے بس ہے۔ ہندستان میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ مغربی تصورات کے مطابق قومیت کی تبلیغ و تلقین وہاں جتنی بڑھتی گئی، اس نے ملک کی آبادی میں وحدت پیدا کرنے کے بجاے ان تمام گروہوں میں اپنے امتیازی وجود کا احساس جگا دیا جو اپنے اندر قومیت کے عناصر رکھتے تھے۔ پھر معاشی اغراض کا تصادم تو وہ چیز ہے جس کے زہر کا تریاق فراہم کرنے میں قومیت جگہ جگہ ناکام ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری موجودہ قیادت کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے اور وہ کہاں تک اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟

کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم اُن دوسرے مسائل کی اہمیت سے غافل ہیں جو اس وقت پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہیں۔ بلاشبہہ وہ مالی، صنعتی، انتظامی، دفاعی اور خارجی مسائل بھی اپنی جگہ کافی اہم ہیں جن سے ہم اس مملکت کی پیدایش کے بعد دوچار ہوئے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، نہ ان واقعی خدمات کا انکار کرنا قرین انصاف ہے جو اس سلسلے میں موجودہ قیادت نے انجام دیں۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حیات قومی کے لیے اِس وقت سب سے بڑے مسئلے یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے، اور قیادت کا اصل مِحکِّ امتحان [کسوٹی] یہ ہے کہ وہ انھیں صحیح طور پر حل کرنے کی اہلیت، فکری اور اخلاقی حیثیت سے کہاں تک اپنے اندر رکھتی ہے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۸ئ، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۳۱۷-۳۲۵)