سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


ہر عبادت کا ایک ’ظاہر‘ ہوتا ہے اور ایک ’باطن‘۔

ظاہر سے مراد وہ عملی شکل ہے، جو کسی عبادت کو ادا کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور باطن سے مراد وہ معنی ہیں، جو اس عملی شکل میں مضمر ہوتے ہیں اور جن کے اظہار کی خاطر عمل کی وہ خاص شکل مقرر کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر نماز کا ظاہر یہ ہے کہ آدمی قبلہ رُخ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، بیٹھے اور اِن ظاہری افعال سے نماز کی جو شکل قائم کی جاتی ہے، اُس سے مقصود دراصل اس معنی کا اظہار ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے حضور بندگی کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں اپنی انانیت سے دست بردار ہورہا ہے، اس کی بڑائی اور اپنی عاجزی تسلیم کر رہا ہے، اور اس کے آگے اپنے وہ معروضات پیش کر رہا ہے، جو اس کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔

اب دیکھیے جو شخص نماز کی ظاہری شکل کو ٹھیک ٹھیک احکام و ہدایات کے مطابق قائم کردے، وہ بلاشبہہ ادائے نماز کی قانونی شرائط پوری کردیتا ہے۔ اس کے متعلق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی، یا اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا۔ لیکن آپ غور کریں گے تو خود محسوس کریں گے کہ نماز کا پورا پورا فائدہ وہی شخص اُٹھا سکتا ہے، جو نماز کے اعمال میں سے ہرعمل کرتے وقت اُس کی روح کو بھی نگاہ میں رکھے، اور نماز کے اذکار میں سے ہر ذکر کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ رہے۔(’خطباتِ حرم‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۱، اکتوبر۱۹۶۳ء، ص ۳۴)

سوال : موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے، جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟

جواب :یہ بات اسلامی تصورِ عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کے معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے، تو امیر یا صدرِ حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت مرافعہ قائم کی جاسکتی ہے، جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے، جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں۔ مگر مجرد ’رحم‘کی بناپر عدالت کے فیصلوں میں رد و بدل کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شانِ خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔(ترجمان القرآن، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)

اسلامی نظام تعلیم

سوال :  پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟

جواب : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینے سے ہوسکتا ہے کہ ملک و قوم کی قیادت ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اَن پڑھ یا نیم خواندہ طبقے اپنے قائدین ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے بنائو اور بگاڑ میں نظامِ تعلیم کو جو مقام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)

امام [ابوحنیفہؒ] کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا [عدالت]کی آزادی کے ساتھ آزادیٔ اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیت تھی، جس کے لیے قرآن و سنت میں ’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

محض ’اظہارِ رائے‘ تو نہایت ناروا بھی ہوسکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہوسکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن بُرائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا، ایک صحیح اظہاررائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِرائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھیراتا ہے۔

امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کرلیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں ایک طرف مُرحِبَہ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ ’حکومت کے مقابلے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر ایک فتنہ ہے‘، اور تیسری طرف بنی اُمیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے، مسلمانوں کی اِس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امراء کے فسق و فجور اور ظلم و جور کے خلاف آواز اُٹھائیں۔

اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔الجصاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ(خراسان کے مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امامؒ نے فرمایا کہ ’امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے‘۔ اور عِکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ ’’افضل الشہداء ایک تو حمزہؓ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اُٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اِس قصور میں مارا جائے‘‘۔ابراہیمؒ پر امامؒ کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م:۱۳۶ھ/ ۷۵۴ء) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خوں ریزی پر برملا ٹوکا اور باربار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کردیا۔ (خلافت کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۶۰، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۳ء، ص ۲۳-۲۴)

سوال : آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’عنقریب میری اُمت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا، جو میری اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘ (بلکہ شیعہ حضرات تو ’اصحاب‘ کی جگہ ’اہل بیت‘ کو لیتے ہیں)۔اب غور فرمایئے کہ جتنے فرقے موجود ہیں، سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اوردوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیراللہ کی بقا کی گارنٹی ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔

جواب :جس قسم کاسوال آپ نے کیا ہےاس پر اگر آپ خود اپنی جگہ غور کرلیتے تو آپ کو آسانی سے اس کا جواب مل سکتا تھا۔ احادیث میں مسلمانوں کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہونے کی خبردی گئی ہے ، جس سے مقصود اہل ایمان کو فتنوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے کے لیے تاکید کرنا تھا، لیکن وہ شخص کس قدر گمراہ ہوگا جو صرف اس لیے فتنہ برپا کرنا یا فتنوں میں مبتلا رہنا ضروری سمجھے کہ احادیث میں جو خبر دی گئی ہے اس کا مصداق بننا ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے انسان جہنمی ہیں، تو کیا اب کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنائیں تاکہ یہ خبر ان کے حق میں سچی نکلے؟(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۴۶ء)

یہی شہر مکّہ ہے ، جس سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کا آغاز فرمایا تھا، اور یہی صفا کی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہوکر حضورؐ نے سب سے پہلے قریش کے خاندانوں کو نام بہ نام پکار کر اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی تھی۔اس شہر کے سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس دعوت کو دبادینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر دیا۔ یہ حرم کی زمین، یہ ابوقبیس کا پہاڑ،اور یہ مکہ کی گھاٹیاں، سب اس ظلم و ستم کے گواہ ہیں جو ۱۳سال تک حضورؐ اور آپؐ کے اصحابؓ پر توڑا گیا تھا۔ مگر آخرکار اُن سب لوگوں نے نیچا دیکھا، جنھوں نے دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ دیکھ لیجیے، آج یہاں ابوجہل اور ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے، اور اس حرم کے میناروں سے پانچوں وقت اشھد انَّ محمدًا رسول اللہ کی آواز بلند ہورہی ہے....

یہی شہر مکّہ ہے، جس کے لوگوں سے حضوؐر نے اپنی دعوت کے ابتدائی زمانے میں فرمایا تھاکہ میں ایک ایسا کلمہ تمھارے سامنے پیش کر رہا ہوں، جسے اگر تم مان لو گے تو عرب اور عجم سب اس کی بدولت تمھارے تابع فرمان ہوجائیں گے، کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَا  تَـمْلِکُوْنَ بِھَا الْعَرَبُ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِھَا الْعَجَمُ۔قریش کے لوگ اس کے برعکس اپنی جگہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کلمے کو ہم نے قبول کرلیا تو تمام عرب ہم پر ٹوٹ پڑے گا اور ہماری ریاست تو کیا، ہمارا وجود بھی یہاں باقی نہ رہ سکے گا۔ وہ کہتے تھے کہ اِنْ نَتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفُ مِنْ اَرْضِیْنَا ، ’اگر ہم تمھارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو ہم اپنی جگہ سے اُچک لیے جائیں گے‘۔ لیکن اللہ کے رسولؐ کی زبانِ مبارک سے جو کچھ نکلا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہوکر رہا۔ قریش کے جن لوگوں نے حضوؐر کی یہ بات اپنے کانوں سے سنی تھی، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند سال کے اندر عرب اور عجم سب خلافت ِ اسلامیہ کے تابع فرمان ہوگئے اور قریش ہی کے خلفاء اس عظیم الشان سلطنت کے فرماںروا ہوئے۔(’خطباتِ حرم‘ ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۵، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۰-۴۲)

یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً یہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔

شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امرِواقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔

شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اُس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں ، جو یک زوجی کوبطورِ قانون لازم کردینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعدّد اَزواج کو حلال قرار دیا ہے۔(’مسئلہ تعدّد اَزواج‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۴، جولائی ۱۹۶۳ء، ص۴۳)

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے، مگر اس پر عمل کرنے میں آدمی کو حکمت ملحوظ رکھنی چاہیے۔موقع و محل کو دیکھے بغیر ہرجگہ ایک ہی لگے بندھے طریقے سے اس کام کو کرنے سے بعض اوقات اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا طریقہ بتادینا مشکل ہے، جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل کرسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ خود آہستہ آہستہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اپنے اندر اتنی حکمت پیدا کریں کہ ہرموقع اور ہرآدمی اور ہرحالت کو سمجھ کر امربالمعروف یا نہی عن المنکر کی خدمت انجام دینے کا ایک مناسب طریقہ اختیار کرسکیں۔

اس کام میں اوّل اوّل آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی، اور بعض مواقع پر غلطی آپ کی نہ ہوگی، مگر دوسرے شخص کی طرف سے جواب نامناسب ہوگا۔ لیکن یہی تجربات آپ کو صحیح طریقہ سکھاتے چلے جائیں گے بشرطیکہ آپ بددل ہوکر اس کام کو چھوڑ نہ دیں، اور ہرتجربے کے بعد غور کریں کہ اس میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کیا ہے اور دوسرے نے اگر ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے تو اسے راہِ راست پر لانے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

یہ بھی خیال رکھیے کہ یہ کام بڑا صبر چاہتا ہے۔ جہاں آپ بُرائی دیکھیں اور محسوس ہو کہ اس وقت اس پر ٹوکنا مناسب نہیں ہے تو ٹال جایئے اور دوسرا کوئی مناسب موقع اس کے لیے تلاش کرتی رہیے۔ اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ ایسی کوئی بُرائی ہو کہ اس کو ٹوکنا آپ کے لیے مشکل ہو تووہاں سے ہٹ جایئے اور اگر کوئی صحبت یا تقریب اس قسم کی ہو تو اس سے الگ رہیے۔ ایسے مواقع پر لوگ بالعموم خود آپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھیں گے۔ اس وقت آپ کو یہ موقع مل جائے گا کہ بڑی نرمی کے ساتھ وجہ بیان کریں اور یہ کہہ دیں کہ ’آپ لوگوں کو روکنا تو میرے بس میں نہیں ہے، مگر احکامِ خدا و رسولؐ کی خلاف ورزی میں شریک ہونے کی جرأت بھی میرے اندر نہیں ہے‘۔(’رسائل و مسائل‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۳، جون ۱۹۶۳ء، ص۵۸)

رسولؐ اللہ کی رکعاتِ نماز کی تعداد

سوال : کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح مؤطا، کتاب الصلوٰۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔ ان خیالات و شکوک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ  نماز وہ نہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہوگی۔ خدارا میری اُلجھن کو دُور فرمایئے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایئے۔ مجھے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔

جواب :جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل، جب کہ نماز کے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھا کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔ (فروری ۱۹۶۱ء)

صحابۂ کرامؓ اور تزکیۂ نفس

سوال : کیا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور انھیں عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

جواب :صحابۂ کرامؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردئہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دُنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دُنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کردیں، جو بُرائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔( جولائی-اگست ۱۹۴۵ء)

تفسیرِقرآن کے اختلافات

سوال : قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے، وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟

جواب :قرآن پاک کا جو فہم، دین کے حقائق اور اس کے احکام جاننے کے لیے ضروری تھا، اس کی حد تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشادات اور اپنے عمل سے اس کی تفسیر فرما گئے ہیں۔ لیکن ایک حصہ لوگوں کے غوروخوض اور فکروفہم کے لیے بھی چھوڑا گیا ہے تاکہ وہ خود بھی تدبر کریں۔ اس حصے میں اختلافات کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا منشا اگر یہ ہوتا کہ دُنیا میں سرے سے کوئی اختلاف ہو ہی نہیں تو وہ تمام انسانوں کو خودہی یکساں فہم عطا فرماتا، بلکہ عقل و فہم اور اختیار کی قوتیں عطا کرنے کی ضرورت نہ تھی، اور اس صورت میں آدمی کے لیے نہ کوشش کا کوئی میدان ہوتا، اور نہ ترقی و تنزل کا کوئی امکان۔(اگست۱۹۵۹ء)

سیکولرزم یا دہریت کا ترقی میں کردار

سوال : کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی ما دّی ترقی کی معراج نصیب کراسکتی ہے؟

جواب :سیکولرزم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔ معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے ، وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی، بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بناپر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہوسکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے، جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں، جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے، وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کرکے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ و فوائد کا طالب بنادیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا ، وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خودغرضی، ایک دوسرے کے خلاف کش مکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں،جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔ (اکتوبر ۱۹۶۱ء)

نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب

سوال : نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں، اس کا مقصداورمخاطب کون ہے؟

جواب :کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کر عبادت کر رہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیرکر اس عمل کو ختم کردیں۔ اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق کے لیے سلامتی کی دُعا کرتے ہوئے منہ پھیریں۔ آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟(فروری ۱۹۶۱ء)

یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ بلکہ معجزہ ہے کہ آٹھ برس کی مختصر سی مدت میں ایک قصبے کی چھوٹی سی ریاست، جو چند مربع میل اور چند ہزار انسانوں پر مشتمل تھی، پورے عرب پر چھا گئی۔ صرف آٹھ برس کے اندر۱۰، ۱۲ لاکھ مربع میل کا پورا ملک مسخر ہوگیا، اور مسخر بھی اس طرح ہواکہ لوگ محض ایک سیاسی نظام ہی کے تابع نہیں ہوگئےبلکہ ان کے نظریات تبدیل ہوگئے، ان کی قدریں بدل گئیں، ان کے اخلاق بدل گئے، ان کے معاشرتی طورطریقوں میں عظیم الشان اصولی تغیر رُونما ہوگیا۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی روح اور شکل دونوں میں ایک ایسی انقلابی تبدیلی واقع ہوئی، جس نے عرب ہی کی نہیں بلکہ دُنیا کی تاریخ کا رُخ بدل ڈالا۔ ان کے افرادنے فرداً فرداً اور ان کی قوم نے بحیثیت مجموعی سوچنے کا ایک نیا انداز، برتائو کا ایک نیا طریقہ اور زندگی کا ایک نیا مقصد اختیار کرلیا، جس سے وہ اپنی صدہابرس کی تاریخ میں کبھی آشنا نہ ہوئے تھے۔

اگرچہ صدیوں کی طوائف الملوکی ختم کرکے اس ملک کوایک سیاسی نظام کے تحت لے آنا بھی کوئی چھوٹا کارنامہ نہ تھا، مگر اس سے ہزاروں درجہ زیادہ بڑا کارنامہ یہ فکری و اخلاقی اور تہذیبی و تمدنی انقلاب تھا۔

افسوس ہے کہ تاریخ نگاری کے ایک غلط طریقے نے اس عظیم تغیر کو محض غزوات کے نتیجے کی حیثیت سے پیش کر دیا ، اور فرنگی مستشرقین نے اس پر خوب ڈھول پیٹا کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے‘، حالانکہ وہ تمام لڑائیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئیں، ان میں مجموعی طور پر دونوں طرف کے بمشکل ۱۴سو آدمی مارے گئے تھے۔ کسی کے پاس عقل ہو تو وہ خود غور کرے کہ اتنی کم خوںریزی کے ساتھ اتنا بڑا انقلاب کہیں تلوار کے بل پر بھی ہوسکتا ہے؟ (’اسلام عصرِحاضر میں‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۲، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵

کسی فعل کو بدعت ِ مذمُومہ قرار دینے کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔ لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہرنیا کام بدعت ہے۔ مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لیے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو___  جس کا نکالنے والااسے خود اپنے اُوپر یا دوسروں پر اس اِدعا کے ساتھ لازم کرے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بنا پر کہ فلاں کام آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے ’بدعت‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔

عہد ِ رسالتؐ اور عہد ِ شیخینؓ میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا، لیکن اسے بدعت ِ ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا بلکہ تمام اُمت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔ بخلاف اس کے انھی حضرتِ عثمانؓ نے منیٰ میں قصر کرنے کے بجائے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ صلوٰۃ ضحی کے لیے خود بدعت اور اِحداث کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اِنَّھَا لَمِنْ اَحْسَنِ مَا اَحْدَثُوْا  (یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں)، بِدْعَۃٌ وَنِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ (بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے)، مَا اَحْدَثَ النَّاسُ شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْہَا (لوگوں نے کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا ہے، جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو)۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں، اور پھر فرماتے ہیں: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ (یہ اچھا نیا کام ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت ِ مذ مُومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمُومہ بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۱، اپریل ۱۹۶۳ء، ص۵۸-۵۹)

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ  رَمَضَانَ  اِیْمَانًا  وَّ اِحْتِسَابًا   غُفِرَ  لَہٗ  مَا تَقَدَّمَ  مِنْ ذَنْبِہٖ  وَمَنْ  قَامَ  رَمَضَانَ اِیْمَانًا  وَّاِحْتِسَابًا  غُفرَ  لَہٗ  مَا  تَقَدَّمَ  مِنْ  ذَنْبِہٖ(متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔

’احتساب‘ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اجر کا اُمیدوار ہو اور خالصتاً اسی کی رضاجوئی کے لیے کام کر ے۔

اس حدیث میں گناہوں سے معافی کی جو خوش خبری سنائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی بازپُرس سے بے خوف ہیں ان کو اس بات کا لائسنس دیا جارہا ہے کہ میاں رمضان کے روزے رکھ لو، تراویح پڑھ لو اور لیلۃ القدر میں کھڑے ہوکر عبادت کرلو، تو پچھلا حساب صاف اور آگے پھر گیارہ مہینے تمھیں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہنا۔ رشوتیں کھائو، لوگوں کے حق مارو، جو ظلم و ستم چاہو کرو، رمضان میں آگے پھر عبادت کے لیے کھڑے ہو جانا، روزے رکھ لینا اور نمازیں پڑھ لینا اور پھر پہلے کا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا۔

اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں؟ ان کے مخاطب وہ صلحاء و ابرار ہیں جو اپنی زندگیاں ہروقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہوجاتا تھا، تو ان کی نوعیت ایسی ہرگز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر ڈٹا رہے، بلکہ وہاں صورت اس سے یکسر مختلف تھی۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا اور وہ ہروقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے۔

’توبہ‘ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ایک آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے اس سے توبہ کرلی تو یہ بات بھی گناہ کی معافی کا ایک ذریعہ ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے قصور سرزد ہوا اور پھر وہ دوسرے کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ توبہ کرنا بھول گیا، تو اس کے بعد اس نے جو نماز پڑھی وہ نماز اس کے لیے پہلے کی لغزش کو اس کے حساب سے صاف کردے گی۔ اسی طرح اگر اس نے روزہ رکھا تو وہ بھی اس کے گناہ کو صاف کردے گا۔دراصل ’توبہ‘ اسی چیز کا نام تو ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک قصور کا مرتکب ہوا تھا، لیکن اس کے بعد وہ پھر اپنے ربّ کی طرف پلٹ آیا۔جیسے ایک نوکر اگراپنی کسی غلطی کی وجہ سے اپنے مالک کی اطاعت سے نکل جائے، لیکن پھر معافی مانگ لے اور خدمت پر حاضر ہوجائے، تو اس سے ایک دفعہ قصور سرزد ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالک اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی نوکری سے نکال دے گا، بلکہ جس وقت وہ آکر معافی مانگتا ہے اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگتا ہے، تو مالک اس سے درگزر کرے گا اور اس کی گذشتہ وفاداری کی وجہ سے اس پر پہلے کی طرح مہربان ہوجائے گا۔

ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بوجھ کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ہے، تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہوجاتا ہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا۔ کیونکہ اس کا طرزِعمل یہ بتاتا ہے کہ وہ ٹھوکرتو کھا گیا تھا ، لیکن اپنے ربّ سے بھاگا نہیں تھا۔ اس کا باغی نہیں ہوگیا تھا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ رمضان میں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح اگر وہ لیلۃ القدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو اُس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے قصوروں کی معافی کا سبب بن گیا۔

روزے کی جزا

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ  یُضَاعَفُ  الْحَسَنَۃُ بِعَشْـرِ اَمْثَالِھَا  اِلٰی  سَبْعِ  مِائَۃِ  ضِعْفٍ قَالَ اللہُ تَعَالٰی  اِلَّا  الصَّوْمُ  فَاِنَّہٗ  لِیْ   وَاَنَا  اَجْزِیْ  بِہِ  ، یَدَعُ  شَھْوَتَہٗ وَطَعَامَہٗ  مِنْ  اَجْلِیْ  ،  لِلصَّائِمِ  فَرْحَتَانِ  فَرْحَۃٌ  عِنْدَ  فِطْرِہٖ  وَفَرْحَۃٌ  عِنْدَ   لِقَاءِ  رَبِّہٖ  ، وَلَخُلُوْفُ  فَمِ  الصَّائِمِ  اَطْیَبُ  عِنْدَ اللہِ  مِنْ رِیْحِ  الْمِسْکِ  وَالصِّیَامُ  جُنَّۃٌ  وَّ اِذَا کَانَ  یَوْمُ  صَوْمِ  اَحَدِکُمْ  فَلَا  یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ  فَاِنْ  سَآبَّہٗ   اَحَدٌ  اَوْ قَاتَلَہٗ  فَلْیَقُلْ   اِ نِّیْ امْرءٌ صَائِمٌ  (متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنی تک اور دس گنی سے سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دوفرحتیں ہیں: ایک فرحت افطار کے وقت کی اور دوسری فرحت اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت کی___ اور روزے ڈھال ہیں، پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اُسے چاہیے کہ نہ اُس میں بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی مَیں روزے سے ہوں۔

یہ جو فرمایا کہ دوسری نیکیاں تو دس گنی سے لے کر سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں لیکن روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں اُس کی جزا دوں گا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری نیکیاں اللہ کے لیے نہیں ہیں اور اللہ ان کی جزا نہیں دے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روزہ اس کے لیے خاص ہے اور وہ اس کی جتنی چاہے گا، جزا دے گا۔ جب یہ فرمایا کہ دوسری نیکیاں سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں استثنیٰ کے ساتھ روزے کے متعلق فرمایا کہ مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔

روزے کی غیرمعمولی فضیلت

بات دراصل یہ ہے کہ دوسری تمام نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے، مثلاً نماز ایک ظاہری فعل ہے۔ نماز پڑھنے والا نماز میں اُٹھتا اور بیٹھتا ہے، رکوع اور سجدہ کرتا ہے۔ اِس طرح حج اور زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے، جو فقط آدمی اور اس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک منفی شکل ہے، مثلاً نہ کھانا نہ پینا اور اسی طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا۔اس منفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے یا اُس کا ربّ، کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ منفی فعل اس نے کیا ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی چھپ کر کھاپی لے تو کسی کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ روزہ نہ رکھتے ہوئے بھی کہہ سکتا ہے کہ میں روزے سے ہوں اور کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ آیا وہ روزے سے ہے یا نہیں۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اس بات کو صرف وہ جانتا ہے اور اگر روزے سے نہیں ہے تو اس کو بھی اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔

اسی وجہ سے روزے کا معاملہ صرف خدا اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بناپر اس میں ریا کا امکان نہیں ہوتا۔ ایک آدمی دُنیا کو دکھانے کے لیے بے شک یہ کہتا پھرے کہ میں روزے سے ہوں لیکن حقیقت ِ صوم کے اندر اس ریاکاری کی کوئی گنجایش نہیں کیونکہ وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ روزہ خاص میرے ہی لیے ہے، وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ، ’’مَیں ہی ان کی جزا دوں گا‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دے گا۔ جتنے گہرے اخلاص کے ساتھ آپ روزہ رکھیں گے، اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے، روزے سے جتنے کچھ روحانی و دینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان فوائدکو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے،  اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔روزے کی اس غیرمعمولی فضیلت اور مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور کھانے پینے کو صرف اللہ ہی کی خاطر چھوڑتا ہے، اس لیے وہ بھی اسے آخرت میں بے حدو حساب اجر سے نوازے گا۔

میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہروہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدہ و عمل میں شرک پایا جائے، اس کو نہ اصطلاحاً ’مشرک‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے، جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے ، اور وحی و نبوت اور کتاب اللہ کو سرے سے ماخذ ِ دین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ اُن لوگوں کو ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ اُن کے ساتھ کیا جائے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں، قرآن کو کتاب اللہ اور سندوحجت مانتے ہیں، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتے، شرک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار ، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں، اور تاویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑگئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد و اعمال عقیدئہ توحید کے منافی نہیں ہیں۔

اس لیے ہمیں ان پر کوئی بُرا لقب چسپاں کرنے کے بجائے حکمت اور استدلال سے ان کی یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ خود سوچیں کہ جب آپ اس طرح کے کسی آدمی کے سامنے اس کے کسی عقیدے یا عمل کو توحید کے خلاف ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن و حدیث کو سند و حجت مانتا ہے؟ کیا یہ استدلال آپ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں؟ پھر جب آپ اس سے کہتے ہیں کہ ’دیکھو، فلاں بات شرک ہے‘۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تو کیا آپ اُس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ شرک کے گناہِ عظیم ہونے کا قائل ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آخر آپ اس کو شرک سے ڈرانے کا خیال ہی کیوں کرتے؟ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۶، مارچ ۱۹۶۲ء، ص۵۷-۵۹)