سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی    اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے‘ کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے‘ اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے‘ اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔

[۵۸] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اقدار کے تسلط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے‘ افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہو سکی۔ ہماری درسگاہیں‘ ہمارے دفاتر‘ ہمارے بازار‘ ہماری سوسائٹی‘ ہمارے گھر‘ حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلَّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ شائستگی‘ ہر شے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔

سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی راہنما اور قوموں کی اِمام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقّلِد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے‘ تمام دُنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلِّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح‘ شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگرجب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی راہنمائی سے استعفا دے دیا۔ دُوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیںدنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔

اب اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی‘ وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان کے لیے  یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اصولوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔

اگر ہم دوبارہ دُنیا کے راہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکِّر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں‘ ایک نئی حکمتِ طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ حصہ اوّل‘ ص ۲۴۲-۲۴۶)

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَـآئُ مُتَشٰکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍط ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاط  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِج بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۲۹)

اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟___ الحمدللہ‘ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کواس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں‘ اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو‘ اور وہ مالک بھی ایسے بدمزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو‘ اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا نہ کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو‘ اس کی زندگی لا محالہ سخت ضِیق میں ہوگی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے  غورو تامل کی حاجت نہیںہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خدائوں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقائوں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقائوں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں ۔    پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقائوں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتاہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انھیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں‘ خاندان میں‘ برادری میں‘ قوم اور ملک کے معاشرے میں‘ مذہبی پیشوائوں میں‘ حکمرانوں اور قانون سازوں میں‘ کاروبار اور معیشت کے دائروں میں‘ اور دنیا کے تمدّن پرغلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہروقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرۂ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتاہے۔ کوئی نکو بناتا ہے۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے۔ کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اِس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اُتار پھینکے ۔

توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔

ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خداے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گردوپیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے‘ لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آجائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکامِ الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے  پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔وہ خاندان‘ برداری ‘ قوم‘ حکومت‘ مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی کسی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں‘ بلکہ لازماً پہنچیںگی لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں‘ اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجالائوں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑجائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوانہ ہوگا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خدائوں کے آگے سرجھکا کر اپنی جان بچالی۔

دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اِسی توحید کی نبیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق ‘ تمدّن‘ تہذیب ‘ تعلیم‘ مذہب ‘ قانون‘ رسم ورواج‘ سیاست‘ معیشت ‘ غرض ہر شعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خدا وندِعالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعے سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ‘ قانون اسی کو جرم قرار دے‘ حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے‘ تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے‘ منبر ومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو‘ معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ‘ قانون اس کی حمایت کرے‘ انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں‘ تعلیم وتربیت کا    پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے‘ منبر ومحراب  اسی کی تلقین کریں‘ معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم رواج اُس پر قائم کر دے‘ اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی وروحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں‘ کیونکہ اس میں بندگی ٔ رب اور بندگی ٔ غیرکے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو‘ بہر حال   وہ توحید ہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات ومشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرناہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امتِ مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو‘ یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیا علیہم السلام کی سعی وجہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے‘ اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذو قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے…

[مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں]، یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقائوں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خدائوں کی بندگی کا فرق جب سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج۴‘ ص۳۶۹-۳۷۲)

اس کتاب [قرآن حکیم] کا لانے والا‘ ذاتی طور پر کس قسم کے اخلاق کا انسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں‘ قرآن مجید نے دوسری رائج الوقت کتابوں کی طرح‘ اپنے لانے والے کی تعریف کے پُل نہیں باندھے ہیں‘ نہ آپؐ کی تعریف کو ایک مستقل موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ البتہ آمدِ سخن میں محض اشارتاً‘ آنحضرتؐ کی اخلاقی خصوصیات ظاہر کی ہیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وجودِ مسعودؐ میں کمالِ انسانیت کے بہترین خصائص موجود تھے۔

۱- اعلٰی اخلاق:  وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘اخلاق کے نہایت بلند مقام پر تھا:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم۶۸:۴)

اور اے محمدؐ! یقینا تم اخلاق کے بڑے درجے پر ہو۔

۲-  عزمِ راسخ :وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ ایک ایسا راسخ العزم‘ مستقیم الارادہ اور اللہ پر ہر حال میں بھروسا رکھنے والا انسان تھا کہ جس وقت اس کی ساری قوم‘ اسے مٹا دینے پر آمادہ ہوگئی تھی اور وہ صرف ایک مددگار کے ساتھ‘ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تھا‘ اُس سخت مصیبت کے وقت بھی اُس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عزم پر قائم رہا۔

اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا - (التوبہ ۹:۴۰)

یاد کرو جب کہ کافروں نے اس کو نکال دیا تھا‘ جب کہ وہ غار میں صرف ایک آدمی کے ساتھ تھا‘ جب کہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

۳-  فراخ حوصلہ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ ایک نہایت فراخ حوصلہ اور فیاض انسان تھا جس نے اپنے بدترین دشمنوں کے لیے بھی بخشش کی دُعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ کو اسے اپنا  یہ قطعی فیصلہ سنا دینا پڑا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بخشے گا:

اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ - (التوبہ ۹:۸۰)

چاہے تم ان کے لیے معافی مانگو چاہے نہ مانگو‘ اگر تم ستّربار بھی ان کے لیے معافی مانگو گے‘ تب بھی اللہ ان کو معاف نہ کرے گا۔

۴- نـرم خُـو: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کا مزاج نہایت نرم تھا۔ وہ کبھی کسی کے ساتھ درشتی سے پیش نہیں آتا تھا اور اسی لیے دنیا اس کی گرویدہ ہوگئی تھی:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ - (اٰل عمران ۳:۱۵۹)

یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے ساتھ نرم ہو‘ ورنہ اگر تم زبان کے تیز اور دل کے سخت ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چَھٹ کر الگ ہوجاتے۔

۵- دعوت کی تڑپ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ بندگانِ خدا کو راہِ راست پر لانے کی سچی تڑپ‘ دل میں رکھتا تھا اور ان کے گمراہی پر اصرار کرنے سے‘ اُس کی روح کو صدمہ پہنچتا تھا‘ حتیٰ کہ وہ اُن کے غم میں گھلا جاتا تھا:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا - (الکھف۱۸:۶)

اے محمدؐ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم اُن کے پیچھے‘ رنج و غم میں اپنی جان کھو دو گے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔

۶-  بہلائی کا حریص:  وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کو اپنی اُمت سے بے حد محبت تھی‘ وہ ان کی بھلائی کا حریص تھا‘ اُن کے نقصان میں پڑنے سے کُڑھتا تھا‘ اور ان کے حق میں سراپا شفقت و رحمت تھا:

لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹:۱۲۸)

تمھارے پاس خود تم ہی میں سے ایک ایسا رسول آیا ہے جسے ہر وہ چیز شاق گزرتی ہے جو تمھیں نقصان پہنچانے والی ہو‘ جو تمھاری فلاح کا حریص ہے اور اہلِ ایمان کے ساتھ نہایت شفیق و رحیم ہے۔

۷-  رحمتِ عالم: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ صرف اپنی قوم ہی کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام عالم کے لیے اللہ کی رحمت تھا:

وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ - (الانبیاء  ۲۱:۱۰۷)

اے محمدؐ! ہم نے تو تم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۸-  زھد و عبادت: وہ بتاتا ہے کہ اس کالانے والا راتوں کو گھنٹوں ‘اللہ کی عبادت کرتا اور خدا کی یاد میں کھڑا رہتا تھا:

اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ - (المزمل۷۳:۲۰)

اے محمدؐ! تمھارا رب جانتا ہے کہ تم رات کو تقریباً دو تہائی حصے تک‘ اور کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی حصے تک نماز میں کھڑے رہتے ہو۔

۹-  صدق و ثبات: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا ایک سچا انسان تھا‘ نہ کبھی اپنی زندگی میں راہِ حق سے بھٹکا‘ نہ فاسد خیالات سے متاثر ہوا اور نہ کبھی اُس نے ایک لفظ خواہشِ نفس کی پیروی میں حق کے خلاف زبان سے نکالا:

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی - (النجم۵۳:۲-۳)

لوگو! تمھارا صاحب نہ کبھی سیدھی راہ سے بھٹکا اور نہ صحیح خیالات سے بہکا اور نہ وہ خواہشِ نفس سے بولتا ہے۔

۱۰-  اسوۂ کامل: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کی ذات ‘تمام عالم کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ تھی اور اس کی پوری زندگی کمالِ اخلاق کا صحیح معیار تھی:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ - (الاحزاب۳۳:۲۱)

تمھارے لیے رسولؐ اللہ کی ذات میں ایک اچھا نمونہ ہے۔

قرآن مجید کا تتبّع کرنے سے‘ صاحبِ قرآن کی بعض اور خصوصیات پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن اس مضمون میں تفصیل کی گنجایش نہیں۔ جو کوئی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ بخلاف دوسری موجود الوقت مذہبی کتابوں کے‘ یہ کتاب اپنے لانے والے کو جس رنگ میں پیش کرتی ہے وہ کس قدر صاف‘ واضح اور آلودگی سے پاک ہے۔ اس میں نہ اُلوہیّت کا کوئی شائبہ ہے‘ نہ تعریف و ثنا میں مبالغہ ہے‘ نہ غیر معمولی قوتیںآپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں‘ نہ آپ کو خدا کے کاروبار میں شریک و سہیم بنایا گیا ہے‘اور نہ آپ کو ایسی کمزوریوں سے متہم کیا گیا ہے جو ایک ہادی اور داعی الی الحق کی شان سے گری ہوئی ہوں۔ اگر اسلامی لٹریچر کی دوسری تمام کتابیں‘ دنیا سے ناپید ہوجائیں اور صرف قرآن مجید ہی باقی رہ جائے‘ تب بھی رسول ؐاکرم کی شخصیت کے متعلق کسی غلط فہمی‘ کسی شک و شبہہ اور کسی لغزشِ عقیدت کی گنجایش نہیں نکل سکتی۔ ہم اچھی طرح معلوم کرسکتے ہیں کہ اس کتاب کا لانے والا ایک کامل انسان تھا‘ بہترین اخلاق سے متصف تھا‘ انبیاے سابقین کی تصدیق کرتا تھا‘ کسی نئے مذہب کا بانی نہ تھا اور کسی فوق البشر حیثیت کا مدعی نہ تھا۔ اس کی دعوت‘ تمام عالم کے لیے تھی‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے چند مقرر خدمات پر مامور کیا گیا تھا اور جب اس نے خدمات کو پوری طرح انجام دے دیا‘ تو نبوت کا سلسلہ اس کی ذات پر ختم ہوگیا۔ (تفہیمات‘ حصہ دوم‘ ص ۳۵-۳۸)

 

 

ایک انتباہ!

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سید مودودی علیہ الرحمہ کے ایک اہم خطاب سے اقتباس۔ یومِ پاکستان پر یہ ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (ادارہ)

اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے۔ اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں‘ لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے‘ جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں‘ جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔

اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا‘ اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں‘ پنجابی ہیں‘ بنگالی ہیں‘ گجراتی ہیں‘ پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا‘ بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔

پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے‘ اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے‘ لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا‘ اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے‘ ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے‘ ان کے مال برباد کریں گے‘ مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔

اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبہ کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے‘ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی رائے تیار کی جاسکتی تھی‘ جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے‘ ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے‘ اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی‘ بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔

تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا‘ وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی‘ بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔

لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اٹھیں‘ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی‘ سندھی‘ پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے‘ اور وہی چیز پیدا ہوئی۔

بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان‘ بنگالی تہذیب‘ بنگالی ثقافت‘ ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی‘ مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجہ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب‘ وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....

آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے‘ جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے‘ نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی  مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان‘ بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔

ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر‘ مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا‘ اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا‘ کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا‘ تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی‘ اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔

اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے‘ پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں  دی گئی‘ نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا‘ اس لیے یہاں بھی الحاد‘ دہریت‘ سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔

اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا‘ اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر‘ مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب‘ ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ‘ ص ۶-۱۰)

خالص علمی حیثیت سے ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیرمسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوںکا سراغ ملتا ہے۔

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے--- دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔

ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلے کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کر کے رکھ دی ہے۔

’مذہب‘کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریئے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے‘ جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک’مذہب‘قرار دے لیں اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔

اسی طرح ’قوم‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیرتلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتمائوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔

جھاد کی حقیقت

پس اگر اسلام ایک ’مذہب‘ اور مسلمان ایک ’قوم‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے  کہ اسلام کسی ’مذہب‘ کا اور ’مسلمان‘ کسی ’قوم‘ کا نام نہیں ہے۔ دراصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے‘ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور  اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔

تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کردیے اور ان کی جگہ ’جہاد‘ کا لفظ استعمال کیا جو struggle کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جا سکتا ہے:

To exert one's utmost endeavour in furthering a cause

اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کر دینا۔

سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’جنگ‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہو رہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے وہ اس سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا‘ اس کی دل چسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔

اس کا مدعا اور اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑنی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے--- زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرئہ زمین--- اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے‘ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہیے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’اسلام‘ ہے‘ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہو سکتی ہیں‘ اور ان سب طاقتوںکے استعمال کا ایک جامع نام ’جہاد‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے ۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے‘ اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

فی سبیل اللّٰہ کی لازمی قید

لیکن اسلام کا جہاد نرا ’جہاد‘ نہیں ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے۔ ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’راہِ خدا میں‘۔اس ترجمے سے   لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگو ں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا    جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ کیوں کہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’راہِ خدا‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سماسکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو‘ اسلام ایسے کام کو ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں‘ اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے  کہ ایک غریب انسان کی مدد کر کے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہو کر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے‘ اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

’جہاد‘ کے لیے بھی ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق  نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اُس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہو کہ قیصرکو ہٹا کر وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و نام وری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مّدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضے میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔ (اسلامی نظام اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۴۰-۲۴۵)

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سید مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ہے جسے ان کی فکر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں رب‘الٰہ‘ عبادت اور دین ان چار الفاظ کی لغوی تحقیق اور حقیقی مفہوم کی بنیاد پر کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے نئے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اس کے مطالعے سے اسلام کا انقلابی تصور اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے۔ آج جب اسلام پر مغرب کے حملوں کے دفاع میں بعض عناصر دین اور سیاست کے جداگانہ تصور کو پیش کر رہے ہیں‘ ہم مذکورہ کتاب سے ’’دین‘‘ کا باب پیش کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ قارئین مکمل کتاب کا مطالعہ کر کے اپنے علم کو تازہ کریںگے۔ (ادارہ)

الہ‘ رب‘ دین اور عبادت‘ یہ چار لفظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب و الٰہ ہے‘ اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے نہ رب‘اور نہ الوہیت و ربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے‘ لہٰذا اسی کواپنا الٰہ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الہٰیّت و ربوبیت سے انکار کر دو‘ اس کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘ اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہر دوسرے دین کو رَد کر دو…

اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لیے ان چاروں اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا بالکل ناگزیر ہے۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ الٰہ اور رب کا مطلب کیا ہے؟ عبادت کی کیا تعریف ہے؟ اور دین کسے کہتے ہیں؟ تو دراصل اس کے لیے پورا قرآن بے معنی ہوجائے گا۔ وہ نہ توحید کو جان سکے گا‘ نہ شرک کو سمجھ سکے گا‘ نہ عبادت کو اللہ کے لیے مخصوص کر سکے گا‘ اور نہ دین ہی اللہ کے لیے خالص کر سکے گا۔ اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں ان اصلاحوں کا مفہوم غیر واضح اور نامکمل ہو تو اس کے لیے قرآن کی پوری تعلیم غیرواضح ہوگی اور قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود اس کا عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل رہ جائیں گے۔ وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا رہے گا اور اس کے باوجود بہت سے اربابٌ من دون اللّٰہ اس کے رب بنے رہیں گے۔ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا‘ اور پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا۔ وہ پورے زور کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے دین میں ہوں‘ اور اگر کسی دوسرے دین کی طرف اسے منسوب کیا جائے تو لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ مگر اس کے باوجود بہت سے دینوں کا قلاوہ اس کی گردن میں پڑا رہے گا۔ اس کی زبان سے کسی غیراللہ کے لیے ’’الٰہ‘‘ اور ’’رب‘‘ کے الفاظ تو کبھی نہ نکلیں گے‘ مگر یہ الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس کے بہت سے الٰہ اور رب ہوں گے اور اس بیچارے کو خبر تک نہ ہوگی کہ میں نے واقعی اللہ کے سوا دوسرے ارباب و الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اس کے سامنے اگر آپ کہہ دیں کہ تو دوسروں کی ’’عبادت‘‘ کر رہا ہے اور ’’دین‘‘ میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ پتھر مارنے اور منہ نوچنے کو دوڑے گا مگر عبادت اور دین کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے واقعی وہ دوسروںکا عابداور دوسروں کے دین میں داخل ہوگا اور نہ جانے گا کہ یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ حقیقت میں دوسروں کی عبادت ہے اور یہ حالت جس میں مبتلا ہوں یہ حقیقت میں غیراللہ کا دین ہے…

پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم‘ بلکہ اس کی رُوح نگاہوں سے مستور ہوگئی ہے‘ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائدو اعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے۔(ص ۷-۱۳)

دین: لغوی تحقیق

کلامِ عرب میںلفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

۱-  غلبہ و اقتدار‘ حکمرانی و فرمانروائی‘ دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا‘ اس پر اپنی قوتِ قاہرہ (sovereinty) استعمال کرنا‘ اس کو اپنا غلام اور تابع امر بنانا۔ مثلاً کہتے ہیں دَانَ النَّاسَ، اَیْ قَھَرَھُمْ عَلَی الطَّاعَۃِ (یعنی لوگوں کو اطاعت پر مجبور کیا)۔ دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کیا اور وہ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الْقُوْمَ اَیْ ذَلَّلْتُھُمْ وَاسْتَعْبَدْتُّھُمْ (میں نے فلاں گروہ کو مسخرکرلیا اور غلام بنالیا) دَانَ الرَّجُلُ اِذَا عَزَّ (فلاں شخص عزت اور طاقت والا ہوگیا) دِنْتُ الرَّجُلَ حَمَلْتُہٗ عَلٰی مَا یَکْرَہُ۔ (میں نے اس کو ایسے کام پر مجبور کیا جس کے لیے وہ راضی نہ تھا)۔ دِیْنَ فَلانٌ - اِذَا حَمَلَ عَلٰی مَکْرَوْہٍ (فلاں شخص اس کام کے لیے بزور مجبور کیا گیا)۔ دَنْتُہٗ اَیْ سُسْتُہٗ وَمَلَکْتُہٗ (یعنی میں نے اس پر حکم چلایا اور فرمانروائی کی) دَیَّنْتُہُ الْقَوْمَ وَلَّیْتُہٗ سَیَاسَتَھُمْ (یعنی میں نے لوگوں کی سیاست و حکمرانی فلاں شخص کے سپرد کردی) اسی معنی میں حطیّہ اپنی ماں کو خطاب کر کے کہتا ہے    ؎

لَقَدْ دَیَّنْتِ اَمْرَ بَنِیْکِ حَتّٰی

تَرَکْتِھِمْ اَدَقَّ مِنَ الطَّحِیْنِ

تو اپنے بچوں کے معاملات کی نگراں بنائی گئی تھی۔ آخرکار تو نے انھیں آٹے سے بھی زیادہ باریک کر کے چھوڑا۔

حدیث میں آتا ہے: اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمُوْتِ ، یعنی   عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مغلوب کر لیا اور وہ کام کیا جو اس کی آخرت کے لیے نافع ہو۔ اسی معنی کے لحاظ سے دیّان اس کو کہتے ہیںجو کسی ملک یا قوم یا قبیلے پر غالب و قاہر ہو اور اس پر فرماں روائی کرے۔ چنانچہ اعشی الحرمازی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے کہتا ہے: یَاسَیِّدَ النَّاسِ وَدَیَّانَ الْعَرَبِ۔ اور اسی لحاظ سے مَدْیَنْ کے معنی غلام اور مَدِیْنَہ کے معنی لونڈی‘ اور ابن مدینہ کے معنی لونڈی زادے کے آتے ہیں۔ اخطل کہتا ہے ربت وربانی حجرھا ابن مدینۃ۔ اور قرآن کہتا ہے:

فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْـنِیْنَ o تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o  (الواقعہ: ۵۶: ۸۶-۸۷)

یعنی اگر تم کسی کے مملوک ‘ تابع‘ ماتحت نہیں ہو تو مرنے والے کو موت سے بچا کیوں نہیں لیتے؟ جان کو واپس کیوں نہیں پلٹا لاتے؟

۲-  اطاعت‘ بندگی‘ خدمت‘ کسی کے لیے مسخر ہوجانا‘ کسی کے تحتِ امر ہونا‘ کسی کے غلبہ و قہر سے دب کر اس کے مقابلے میں ذلّت قبول کرلینا۔ چنانچہ کہتے ہیں: دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کرلیا اور وہ لوگ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الرَّجَلَ، ای خَدِمْتُہُ (یعنی میں نے فلاں شخص کی خدمت کی) حدیث میں آتا ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اُرِیْدُ مِنْ قُرَیْشٍ کَلِمَۃً تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ اَیْ تُطِیْعُھُمْ وَتَخْضَعُ لَھُمْ (میں قریش کو ایک ایسے کلمے کا پیرو بنانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو تمام عرب اُن کا تابع فرمان بن جائے اور اُن کے آگے جھک جائے)۔ اسی معنی کے لحاظ سے اطاعت شعار قوم کو قومِ دیّن کہتے ہیں۔ اور اس معنی میں دین کا لفظ حدیثِ خوارج میں استعمال کیا گیا ہے‘ یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیّۃ-۱؎

۳-  شریعت‘ قانون‘ طریقہ‘ کیش و ملت‘ رسم وعادت۔ مثلاً کہتے ہیں: مَازَالَ ذٰلِکَ دِیْنِیْ وَوَیْدَنِیْ ، یعنی یہ ہمیشہ سے میرا طریقہ رہا ہے۔ یُقَالُ دَانَ ’ اِذَا اعْتَادَ خَیْرًا وَشَرًّا، یعنی آدمی خواہ بُرے طریقہ کا پابند ہو یا بھلے طریقہ کا‘ دونوں صورتوں میں اس طریقے کو جس کا    وہ پابند ہے دین کہیں گے۔ حدیث میں ہے: کَانَتْ قُرَیْشٌ وَمَنْ دَانَ بِدِیْنِھِمْ، ’’قریش اور وہ لوگ جو اُن کے مسلک کے پیرو تھے‘‘۔ اور حدیث میں ہے اِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ عَلٰی دِیْنِ قَوْمِہٖ-نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے۔ یعنی نکاح‘ طلاق میراث اور دوسرے تمدّنی و معاشرتی امور میں انھی قاعدوں اور ضابطوں کے پابند تھے جو اپنی قوم میں رائج تھے۔

۴-  اجزاء عمل‘ بدلہ ‘ مکانات‘ فیصلہ‘ محاسبہ۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے: کمَا تدین تدان، یعنی جیسا تو کرے گا ویسا بھرے گا۔ قرآن میں کفار کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے: اَئِ نَّا لَمَدِیْنُوْنَ ’’کیا مرنے کے بعد ہم سے حساب لیا جانے والا ہے اور ہمیں بدلہ ملنے والا ہے‘‘۔ عبداللہ ابن عمرؓ کی حدیث میں آتا ہے: لَا تَسُبُّوا السُّلْطٰنَ فَاِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ دِنْھُمْ کمَا یدینون، ’’اپنے حکمرانوں کو گالیاں نہ دو۔ اگر کچھ کہنا ہی ہو  تو یوں کہو کہ خدایا جیسا یہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ویسا ہی تو ان کے ساتھ کر‘‘۔ اسی معنی میںلفظ دیّان بمعنی قاضی و حاکمِ عدالت آتا ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے جب حضرت علیؓ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا : کان دیان ھذہ الامّۃ بعد نبیّھا،’’ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اُمت کے سب سے بڑے قاضی تھے‘‘۔

قرآن میں لفظ دین کا استعمال

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں‘ یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:

۱-  غلبہ و تسلط‘ کسی ذی اقتدار کی طرف سے‘

۲- اطاعت ‘ تعبد اور بندگی صاحب ِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے‘

۳- قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے‘

۴- محاسبہ اور فیصلہ اور جزا و سزا۔

انھی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہلِ عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے‘ مگر چونکہ ان چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلندبھی نہ تھے۔ اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پاکر بالکل واضح و متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنالیا۔ قرآنی زبان میںلفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے:

۱- حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ‘

۲- حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم و اطاعت‘

۳- وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیرِاثر بنے‘

۴- مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی و بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔

قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی ٔ اوّل و دوم پر کرتا ہے‘ کبھی معنی ٔ سوم پر‘ کبھی معنی ٔچہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے حسب ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں:

دین بمعنی غلبہ و تسلط اور اطاعت و بندگی

اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآئَ بِنَـآئً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ - ھُوَ الْحَیُّ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المومن ۴۰: ۶۴-۶۵)

وہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس پر آسمان کا قبہ چھایا‘ جس نے تمھاری صورتیں بنائیں‘ جس نے پاکیزہ چیزوں سے تم کو رزق بہم پہنچایا‘ وہی اللہ تمھارا رب ہے اور بڑی برکتوں والا ہے‘ وہ رب العالمین ہے‘ وہی زندہ ہے‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا تم اسی کو پکارو‘ دین کو اسی کے لیے خاص کر کے‘ تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ … قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہُ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ … وَالَّذِیْنَ اجْتَنَـبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی - (الزمر ۳۹: ۱۱-۱۷)

کہو‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خاص کر کے اسی کی بندگی کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود سرِاطاعت جھکائوں… کہو میں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا۔ تم کو اختیار ہے اس کے سوا جس کی چاہو بندگی اختیار کرتے پھرو۔ اور جو لوگ طاغوت کی بندگی کرنے سے پرہیز کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ ان کے لیے خوش خبری ہے۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَo  اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ - (الزمر  ۳۹: ۲-۳)

’’ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق نازل کر دی ہے لہٰذا تم دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کی بندگی کرو۔ خبردار! دین خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے۔

وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا ، اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ (النحل ۱۶: ۵۲)

زمین اورآسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کے لیے ہے اور دین خالصتاً اسی کے لیے ہے۔ پھر کیا اللہ کے سوا تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟ (یعنی کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جس کے حکم کی خلاف ورزی سے تم بچو گے اور جس کی ناراضی سے تم ڈرو گے؟)

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَـہٓٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ( اٰل عمرٰن۳:۸۳)

کیا یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کادین چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی مطیعِ فرمان ہیں اور اسی کی طرف ان کو پلٹ کر جانا ہے۔

وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵)

اور ان کو اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ یکسو ہوکر دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی کریں۔

ان تمام آیات میں دین کا لفظ اقتدارِاعلیٰ اور اُس اقتدارکو تسلیم کرکے اُس کی اطاعت و بندگی قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حاکمیت‘ فرمانروائی‘ حکمرانی اللہ کے سوا کسی کی تسلیم نہ کرے‘ اور اپنی اطاعت و بندگی کو اللہ کے لیے اس طرح خالص کر دے کہ کسی دوسرے کی مستقل بالذّات بندگی و اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریک نہ کرے۔۲؎

دین بمعنی قانون و شریعت اور نظامِ فکروعمل

قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ              مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ- (یونس ۱۰:۱۰۴-۱۰۵)

کہو کہ اے لوگو! اگر تم کو میرے دین کے بارے میں کچھ شک ہے (یعنی اگر تم کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرا دین کیا ہے) تو لو سنو! میں ان کی بندگی و عبادت نہیں کرتا جن کی بندگی و اطاعت تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو‘ بلکہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمھاری روحیں قبض کرتا ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوجائوں جو اسی کے ماننے والے ہیں‘ اور یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ تو یکسو ہوکر اسی دین پر اپنے آپ کو قائم کر دے اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔

اِنِ الْحُکْمُ  اِلاَّ  لِلّٰہِط اَمَرَ  اَلاَّ  تَعْبُدُوْٓا  اِلَّا ٓ اِیَّاہُط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(یوسف۱۲:۴۰)

حکمرانی اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو‘ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ … ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَـلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْط ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَـآئَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ تَخَافُوْنَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْط … بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَھْوَآئَ ھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ … فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (الروم ۳۰:۲۶-۳۰)

زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کے مطیعِ فرمان ہیں… وہ تمھیں سمجھانے کے لیے خود تمھارے اپنے معاملہ سے ایک مثال پیش کرتا ہے۔ بتائو یہ غلام تمھارے مملوک ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ان چیزوں میں جو ہم نے تمھیں دی ہیں تمھارا شریک ہے؟ کیا تم انھیں اس مال کی ملکیت میں اپنے برابر حصہ دار بناتے ہو۔ کیا تم ان سے اپنے ہم چشموں کی طرح ڈرتے ہو؟… سچی بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ علم کے بغیر محض اپنے تخیلات کے پیچھے چلے جارہے ہیں… پس تم یکسو ہوکر اپنے آپ کو اس دین پر قائم کر دو۔ اللہ نے جس فطرت پر انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی کو اختیار کرو۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلا نہ جائے۔۳؎ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اَلزَّانِیْۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)

زانی اور زانیہ دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر رحم نہ آئے۔

اِنَّ  عِـدَّۃَ  الشُّھُوْرِ  عِنْدَ  اللّٰہِ  اثْـنَا  عَـــشَرَ  شَـــھْرًا  فِــیْ  کِــتَابِ اللّٰہِ یَـوْمَ  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(التوبہ ۹:۳۶)

اللہ کے نوشتے میں تو اس وقت سے مہینوں کی تعداد ۱۲ ہی چلی آتی ہے۔ جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے ۴ مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

کَذَالِکَ کِــدْنَا لِــیُوْسُفَ مَــا کَـانَ لِیَأْخُذَ  اَخَــاہُ  فِـیْ دِیْنِ الْــمَلِکِ (یوسف ۱۲:۷۶)

اس طرح ہم نے یوسف ؑ کے لیے تدبیر نکالی۔ اس کے لیے جائز نہ تھا کہ اس بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو پکڑتا۔

وَکَذٰالِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَـآؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ ط  (انعام ۶:۱۳۷)

اور اس طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں۴؎ نے اپنی اولاد کے قتل کو ایک خوش آیند فعل بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں ڈالیں اور ان کے لیے ان کے دین کو مشتبہ بنائیں۔۵؎

اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـھُمْ مِّـنَ الـدِّیْنِ مَالَمْ یَـاْذَنْم بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱)

کیا انھوں نے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کی قسم سے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کا اللہ نے اذن نہیں دیا ہے؟

لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ  (الکافرون۱۰۹: ۶ )

تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین۔

ان سب آیات میں دین سے مراد قانون‘ ضابطہ‘ شریعت‘ طریقہ اور وہ نظامِ فکروعمل ہے جس کی پابندی میں انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر وہ اقتدار جس کی سند پر کسی ضابطہ و نظام کی پابندی کی جاتی ہے۔ خدا کا اقتدار ہے تو آدمی دین خدا میں ہے ۔ اگر وہ کسی بادشاہ کا اقتدار ہے تو آدمی دین بادشاہ میں ہے۔ اگر وہ پنڈتوں اور پروہتوں کا اقتدار ہے تو آدمی انھی کے دین میں ہے۔ اور اگر وہ خاندان‘ برادری‘ یا جمہورِ قوم کا اقتدار ہے تو آدمی ان کے دین میں ہے۔ غرض جس کی سند کو آخری سند اور جس کے فیصلے کو منتہاے کلام مان کر آدمی کسی طریقے پر چلتا ہے اسی کے دین کا وہ پیرو ہے۔

دین بمعنی محاسبہ اور جزا و سزا

اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذاریات ۵۱:۶)

وہ خبر جس سے تمھیں آگاہ کیا جاتا ہے (یعنی زندگی بعد موت) یقینا سچی ہے اور دین یقینا ہونے والا ہے۔

اَرَ ئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنٍ o  (الماعون ۱۰۷ : ۱-۳)

تم نے دیکھا اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اُکساتا۔

وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ o ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَـوْمُ الدِّیْنِ o یَـوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ - (انفطار ۸۲: ۱۷-۱۹)

تمھیں کیا خبر کہ یوم الدین کیا ہے۔ ہاں تم کیا جانو کیا ہے یوم الدین۔ وہ دن ہے کہ جب کسی متنفس کے اختیار میں کچھ نہ ہوگا کہ دوسرے کے کام آسکے‘ اس روز سب اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان آیات میں دین بمعنی محاسبہ و فیصلہ و جزائے اعمال استعمال ہوا ہے۔

دین ایک جامع اصطلاح

یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھی مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل تھا لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا اور اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی مراد لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کر کے اس کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلے‘ اس کے حدود و ضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے‘ اس کی فرمانبرداری پر عزت‘ ترقی اور انعام کا امیدوار ہو اور اس کی نافرمانی پر ذلّت و خواری اور سزا سے ڈرے۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے نظام پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانے کا لفظ ’’اسٹیٹ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن ابھی اس کو ’’دین‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔

حسبِ ذیل آیات میں ’’دین‘‘ اِسی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ - (توبہ۹:۲۹)

اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدراعلیٰ تسلیم نہیں کرتے) نہ یومِ آخرت (یعنی یوم الحساب اور یوم الجزائ) کو مانتے ہیں نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے‘ اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

اس آیت میں ’’دین حق‘‘ اصطلاحی لفظ ہے جس کے مفہوم کی تشریح واضح اصطلاح جل شانہ نے پہلے تین فقروں میں خود کو دی ہے۔ ہم نے ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کر دیا ہے کہ لفظ دین کے چاروں مفہوم ان فقروں میں بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے مجموعے کو ’’دین حق‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَن یُّـبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ (المومن۴۰: ۲۶)

فرعون نے کہا چھوڑو مجھے ‘ میں اس موسٰی ؑ کو قتل ہی کیے دیتا ہوں اور اب پکارے وہ اپنے رب کو۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تمھارا دین نہ بدل دے‘ یا ملک میں فساد نہ کھڑا کر دے۔

قرآن میں قصۂ فرعون و موسیٰ کی جتنی تفصیلات آئی ہیں ان کو نظر میں رکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہاں دین مجرد ’’مذہب‘‘ کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ریاست اور نظامِ تمدن کے معنی میں آیا ہے۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو اسٹیٹ بدل جائے گا۔ جو نظامِ زندگی اس وقت فراعنہ کی حاکمیت اور رائج الوقت قوانین و رسوم کی بنیادوں پر چل رہا ہے وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا اور اس کی جگہ یا تو دوسرا نظام بالکل دوسری ہی بنیادوں پر قائم ہوگا‘ یا نہیں تو سرے سے کوئی نظام قائم ہی نہ ہوسکے گا بلکہ تمام ملک میں بدنظمی پھیل جائے گی۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین تو دراصل ’’اسلام‘‘ ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ - (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اور جو ’’اسلام‘‘ کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ - (التوبہ ۹:۳۳)

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو صحیح رہنمائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اگرچہ شرک کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ - (انفال ۸:۳۹)

اور تم ان سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکلیہ اللہ ہی کا ہوجائے۔

اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ o وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا o فَسَبِّحْ بِحَـمْدِ رَبِّکَ وَاسْـتَغْفِرْہُط اِنَّـہٗ کَانَ تَـوَّابـًا o (النصر ۱۱۰:۱-۳)

جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہوچکی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اب اپنے رب کی حمد وثنا اور اس سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔

ان سب آیات میں دین سے پورا نظامِ زندگی اپنے تمام اعتقادی‘ نظری‘ اخلاقی اور عملی پہلوئوں سمیت مراد ہے۔

پہلی دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صحیح نظامِ زندگی صرف وہ ہے جو خود اللہ ہی کی اطاعت و بندگی (اسلام) پر مبنی ہو۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام‘ جس کی بنیاد کسی دوسرے مفروضہ اقتدار کی اطاعت پر ہو‘ مالکِ کائنات کے ہاںہرگز مقبول نہیں ہے‘ اور فطرۃً نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ انسان جس کا مخلوق‘ مملوک اور پروردہ ہے‘ اور جس کے ملک میں رعیت کی حیثیت سے رہتا ہے‘ وہ تو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ انسان خود اس کے سواکسی دوسرے اقتدار کی بندگی و اطاعت میں زندگی گزارنے اور کسی دوسرے کی ہدایات پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔

تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اسی صحیح و برحق نظامِ زندگی‘ یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کر کے رہے۔

چوتھی آیت میں دین اسلام کے پیروئوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ‘ یعنی اُن نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظامِ اطاعت و بندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہوجائے۔

پانچویں آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر خطاب کیا گیا ہے جب کہ ۲۳سال کی مسلسل جدوجہد سے عرب میں انقلاب کی تکمیل ہوچکی تھی‘ اسلام اپنی پوری تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی و فکری‘ اخلاقی وتعلیمی‘ تمدنی و معاشرتی اور معاشی و سیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہوگیا تھا‘ اور عرب کے مختلف گوشوں سے وفد پر وفد آکر اس نظام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور کیا گیا تھا تو آپؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنے لگنا‘ نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمھارے رب ہی کی ہے‘ لہٰذا اس کارِعظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمدوثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک! اس ۲۳ سال کے زمانۂ خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہوں انھیں معاف فرما دے۔ (ص ۱۲۱-۱۳۶)


حواشی

۱؎  اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوارج دین بمعنی ملت سے نکل جائیں گے کیونکہ حضرت علیؓ سے جب ان کے متعلق پوچھا گیا: اَکُفّارٌھُمْ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا: من الکفر فروا، کفر ہی سے   تو وہ بھاگے ہیں۔ پھر پوچھا گیا: افمنافقون ھم، کیا یہ منافق ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: منافق تو خدا کو کم یاد کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسی پر یہ متعین ہوتا ہے کہ اس حدیث میں دین سے مراد اطاعتِ امام ہے۔ چنانچہ ابن اثیر نے نہایہ میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں: اراد بالدین الطاعۃ ، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض الطاعۃ وینسلخون منھا، جلد۲‘ ص ۴۱-۴۲)

۲؎  یعنی اللہ کے سوا جس کی اطاعت بھی ہو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اُس کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو۔ بیٹے کا باپ کی اطاعت کرنا‘ بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا‘ غلام یا نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا اور اسی نوع کی دوسری تمام اطاعتیں اگر اللہ کے حکم کی بنا پر ہوں اور ان حدود کے اندر ہوں جو اللہ نے مقرر کردی ہیں تو یہ عین اطاعتِ الٰہی ہیں۔ اور اگر وہ اس سے آزاد ہوں‘ یا بالفاظِ دیگر بجاے خود مستقل اطاعتیں ہوں‘ تو یہی عین بغاوت ہیں۔ حکومت اگر اللہ کے قانون پر مبنی ہے اور اس کا حکم جاری کرتی ہے تو اس کی اطاعت فرض ہے اور اگر ایسی نہیں ہے تو اس کی اطاعت جُرم۔

۳؎  یعنی اللہ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا کیا ہے وہ تو یہی ہے کہ انسان کی تخلیق میں‘ اس کی رزق رسانی میں‘ اس کی ربوبیت میں خود اللہ کے سوا کوئی دوسرا شریک نہیں ہے‘ نہ اللہ کے سوا کوئی اس کا خدا ہے‘ نہ مالک اور نہ مطاعِ حقیقی۔ پس خالص فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی بس اللہ کا بندہ ہو اور کسی کا بندہ نہ ہو۔

۴؎  شریک س مراد ہے خداوندی وفرماں روائی میں اور قانون بنانے میں خدا کا شریک ہونا۔

۵؎  دین کو مشتبہ بنانے سے مطلب یہ ہے کہ جھوٹے شریعت ساز اس گناہ کو ایسا خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے عرب کے لوگ اس شبہہ میں پڑ گئے ہیں کہ شاید یہ فعل بھی اس دین کا ایک جز ہے جو ان کو ابتداًء حضرت ابراہیم و اسماعیل سے ملا تھا۔

دنیا میں جہاں جو خرابی بھی پائی جاتی ہے اُس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا۔ یہی اُمُّ الخبائث ہے۔ یہی اصل بِس کی گانٹھ ہے۔ اِسی سے وہ شجرِخبیث پیدا ہوتا ہے جس کی شاخیں پھیل پھیل کر انسانوں پر مصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔ یہ جڑ جب تک باقی ہے‘ آپ شاخوں کی جتنی چاہیں قطع و برید کرلیں‘ بجز اِس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہو جائے اور دوسری طرف سے شروع ہو جائے۔

ڈکٹیٹرشپ یا مطلق العنان بادشاہی کو مٹایا جائے گا توحاصل کیا ہوگا؟ یہی نا کہ ایک انسان یا ایک خاندان خدائی کے مقام سے ہٹ جائے گا اور اس کی جگہ پارلیمنٹ خدا بن جائے گی۔ مگر کیا فی الواقع اس طریقے سے انسانیت کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے؟ کیا ظلم اور بغی اور فساد فی الارض سے وہ جگہ خالی ہے جہاں پارلیمنٹ کی خدائی ہے؟

امپریلزم کا خاتمہ کیا جائے گا تو اس کا حاصل کیا ہوگا؟ بس یہی کہ ایک قوم پر سے دوسری قوم کی خدائی اُتر جائے گی۔ مگر کیا واقعی اس کے بعد زمین پر امن اور خوش حالی کا دَور شروع ہوجاتا ہے؟ کیا وہاںانسان کو چین نصیب ہے جہاں قوم آپ اپنی خدا بنی ہوئی ہے؟

سرمایہ داری کا استیصال ہوجائے گا تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ صرف یہ کہ محنت پیشہ عوام مال دار طبقوں کی خدائی سے آزاد ہو کر خود اپنے بنائے ہوئے خدائوں کے بندے بن جائیں گے۔ مگر کیا اس سے حقیقت میں آزادی‘ عدل‘ اور امن کی نعمتیں انسان کو حاصل ہوجاتی ہیں؟ کیا انسان کو وہاں یہ نعمتیں حاصل ہیں جہاں مزدوروں کے اپنے بنائے ہوئے خدا حکومت کر رہے ہیں؟

اللہ کی حاکمیت سے منہ موڑنے والے زیادہ سے زیادہ بہتر نصب العین جو پیش کرسکتے ہیں وہ بیش ازیں نیست کہ دنیا میں مکمل جمہوریت قائم ہوجائے‘ یعنی لوگ اپنی بھلائی کے لیے آپ اپنے حاکم ہوں۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ یہ حالت واقعی دنیا میں رونما ہوبھی سکتی ہے یا نہیں(تجربات شاہد ہیں کہ حقیقی جمہوریت آج تک دنیا میں کبھی قائم نہیں ہوسکی اور عقلی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ہونا عملاً محال ہے)‘ غور طلب سوال یہ ہے کہ ایسی حالت اگر رونما ہوجائے تو کیا اُس فرضی جنت میں انسان خود اپنے نفس کے شیطان‘ یعنی اُس جاہل اور نادان ’’خدا‘‘ کی بندگی سے بھی آزاد ہوجائے گا جس کے پاس خدائی کرنے کے لیے علم‘ حکمت‘ عدل‘ راستی کچھ بھی نہیں‘ صرف خواہشات ہی خواہشات ہیں‘ اور وہ بھی اندھی اور جابرانہ خواہشات۔

غرض دنیا کے مختلف گوشوں میں انسانی مصائب اور پریشانیوں کے جتنے حل بھی سوچے جارہے ہیں ان سب کا خلاصہ بس اتنا ہی ہے کہ خدائی یا حاکمیت بعض انسانوں سے سلب ہوکر بعض دوسرے انسانوں کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور یہ مصیبت کا ازالہ نہیں ہے بلکہ صرف اُس کا اِمالہ ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ سیلابِ بَلااب تک جس راستے سے آتا رہا ہے اُدھر سے نہ آئے بلکہ دوسرے راستہ سے آئے۔ اِس کو اگر حل کہا جا سکتا ہے تو یہ ایسا ہی حل ہے جیسے دق کی بیماری کو سرطان سے تبدیل کر لیا۔ اگر مقصود محض دِق کو دُور کرنا تھا تو بے شک آپ کامیاب ہوئے‘ لیکن اگر اصل مقصد جان بچانا تھا تو ایک پیامِ اجل کو دوسرے پیکِ اجل سے تبدیل کرکے آپ نے کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کی۔

خواہ ایک انسان دوسرے کا خدا بنے‘ یا دوسرے کی خدائی تسلیم کرے‘ یا آپ اپنا خدا بن جائے‘ بہرحال ان تمام صورتوں میں تباہی اور خسران کا اصل سبب جوں کا توں باقی رہتا ہے۔ کیونکہ جو فی الواقع بادشاہ نہیں ہے وہ اگر بادشاہ بن بیٹھے‘ جو حقیقت میں بندہ اور غلام ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو خواجگی و خداوندی کے مقام پر متمکن سمجھ لے‘ جو دراصل ذمہ دار اور مسئول رعیت ہے وہ اگر غیرذمہ دار اور خودمختار حاکم بن کر کام کرنے لگے‘ تو اِس اِدّعا کی اور ایسے اِدّعا کو تسلیم کرنے کی حقیقت ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اصلیت جو کچھ ہے وہ تو بہرحال وہی کی وہی رہے گی۔حقیقت میں تو جو خدا ہے وہ خدا ہی رہے گا اور جو بندہ ہے وہ بندہ ہی رہے گا۔ مگر جب بندہ اس عظیم الشان بنیادی غلط فہمی پر اپنی زندگی کی ساری عمارت اٹھائے گا کہ وہ خود حاکمِ اعلیٰ ہے یا کوئی دوسرا بندہ اِس کا حاکمِ اعلیٰ ہے‘ اور جب وہ یہ سمجھ کر کام کرے گا کہ اس سے بالاترکوئی حاکم نہیں ہے جس کے سامنے وہ جواب دہ ہو اور اپنے امرونہی میں جس کی رضا لینے کا محتاج ہو‘ تو یقینا اس کی زندگی کی عمارت ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی اور اس میں راستی و صحت کو تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

یہ بات آخر کس طرح انسان کی عقل قبول کر لیتی ہے کہ خلق کسی کی ہو اور امر کسی اور کا ہو؟ پیدا کرنے اور پالنے والا کوئی ہو اورحکم کسی اور کا چلے؟ ملک کسی کا ہو اور بادشاہت کسی اور کی ہو؟

جس نے انسان کو بنایا‘ جس نے انسان کے لیے زمین کی قیام گاہ بنائی‘ جو اپنی ہوا‘ اپنے پانی‘ اپنی روشنی اور حرارت‘ اور اپنے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے انسان کی پرورش کر رہا ہے‘ جس کی قدرت انسان کا اور اُس پوری زمین کا‘ جس میں انسان رہتا ہے‘ احاطہ کیے ہوئے ہے‘ اور جس کے حیطۂ قدرت سے انسان کسی حال میں نکل ہی نہیں سکتا‘ عقل اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہی انسان کا اور اس زمین کا مالک ہو‘ وہی خدا اور رب ہو‘ اور وہی بادشاہ اور حاکم بھی ہو۔ اُس کی بنائی ہوئی دنیا میں خود اُس کے سوا اور کس کو حکومت و فرمانروائی کا حق پہنچتا ہے؟ کس طرح ایک مملوک یہ کہنے کا حق دار ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے مملوکوں کا مالک ہے؟ صانع اور پروردگار کے سوا اپنی مصنوعات اور اپنے پروردوں کی ملکیت اور کس کے لیے جائز ہوسکتی ہے؟ کون اتنی قدرت رکھتاہے‘ کس کے پاس اتنا علم ہے‘ کس کا یہ ظرف ہے کہ اس سلطنت میں فرمانروائی کرسکے؟ اگر انسان اس سلطنت کے اصلی سلطان کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اُس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت مانتا ہے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا اِدّعا کرتا ہے تو یہ صریح واقعہ کے خلاف ہے‘ بنیادی طور پر غلط ہے‘ ایک عظیم الشان جھوٹ ہے۔ سب سے زیادہ سفید جھوٹ‘ ایساجھوٹ جس کی تردید زمین و آسمان کی ہر شے ہر وقت کر رہی ہے۔ ایسے بے بنیاد دعوے اور ایسی غلط تسلیم و اطاعت سے حقیقتِ نفس الامری میں ذرّہ برابر بھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو مالک ہے وہ مالک ہی رہے گا‘ جو بادشاہ اور حاکم ہے وہ بادشاہ اور حاکم ہی رہے گا‘ البتہ خود اُس انسان کی زندگی ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی جو واقعہ کے خلاف دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرکے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا مدّعی بن کر کام کرے گا۔ حقیقت اِس کی محتاج نہیں ہے کہ تم اس کا ادراک کرو تب ہی وہ حقیقت ہو۔ نہیں! تم خود اس کے محتاج ہو کہ اس کی معرفت حاصل کر کے اپنی سعی و عمل کو اس کے مطابق بنائو۔ اگر تم حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور کسی غلط چیز کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہو تو اس میں نقصان تمھارا اپنا ہے۔ تمھاری غلط فہمی سے حقیقت میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے کہ جس چیز کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہو اس کو جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے کبھی درست نہیں کیا جاسکتا۔ ایک جھوٹ کے ہٹ جانے اور اس کی جگہ دوسرے جھوٹ کے آجانے سے حقیقت میں کوئی فرق بھی واقع نہیں ہوتا۔ اس قسم کی تبدیلی سے طفل تسلی تو ہوسکتی ہے مگر غیرحق پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کا جو نقصان ایک صورت میں تھا وہی دوسری صورت میں بھی علیٰ حالہٖ باقی رہتا ہے۔

اس نقصان کو دُور کرنے اور انسانی زندگی کو حقیقی فلاح سے ہمکنار کرنے کی کوئی صورت اِس کے سوا نہیں ہے کہ غیراللہ کی حاکمیت سے کلیتاً انکار کیا جائے اور اُس کی حاکمیت تسلیم کی جائے جو فی الواقع مالک الملک ہے۔ ہر اُس نظامِ حکومت کو ردّ کر دیا جائے جو انسانی اقتدارِ اعلیٰ کے باطل نظریات پر قائم ہو اور صرف اُس نظامِ حکومت کو قبول کیا جائے جس میں اقتدارِ اعلیٰ اُسی کا ہو جو فی الحقیقت مقتدرِ اعلیٰ ہے۔ ہر اُس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا جائے جس میں انسان بذاتِ خود حاکم اور صاحبِ امرونہی ہونے کا مدّعی ہو‘اور صرف اُس حکومت کو جائز قرار دیا جائے جس میں انسان اصلی اور حقیقی حاکم کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔ یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی‘ جب تک انسان کی حاکمیت‘ خواہ وہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو‘  جڑ پیڑ سے اُکھاڑ کر نہ پھینک دی جائے گی‘ اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیر واقعی تصور کی جگہ خلافتِ الٰہی کا واقعی (realistic) تصور نہ لے لے گا‘اُس وقت تک انسانی تمدّن کی بگڑی ہوئی کَل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے‘ یا ڈکٹیٹرشپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے‘ یا امپریلزم کی جگہ قوموں کی حکومت ِخود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہو جائے۔

صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے‘ اُسی سے ظلم مٹ سکتا ہے اور عدل قائم ہو سکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کرکے انسان اپنی قوتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی و جہد کا صحیح رخ پاسکتا ہے۔ ربُّ العالمین اور عالم الغیب والشہادۃ کے سوا اور کوئی انسان تمدّن و عمران کے لیے ایسے اصول اور حدود تجویز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو بے لاگ ہوں‘ جن میں جانب داری‘ تعصب اور خودغرضی کا شائبہ تک نہ ہو‘ جو ٹھیک ٹھیک عدل پر قائم ہوں‘ جن میں تمام انسانوں کے مفاد اور حقوق کا یکساں لحاظ کیا گیا ہو‘ جو گمان و قیاس پر نہیں بلکہ حقائق فطرت کے یقینی علم پر مبنی ہوں۔ ایسے ضابطے کی نعمتوں سے انسان صرف اسی طرح بہرہ ور ہو سکتا ہے کہ وہ خود صاحبِ مراد اور قانون ساز بننے کے زعم سے دست بردار ہو جائے‘ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے قانونِ زندگی پر ایمان لائے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اُس ضابطے کو دنیا میں قائم کرے۔

اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے۔ اس کو کسی ایک قوم سے   دل چسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں ہے کہ ایک کو چڑھانا اور دوسری کوگرانا اُس کا مقصود ہو‘ بلکہ اُسے تمام نوعِ انسانی کی فلاح و سعادت مطلوب ہے جس کے لیے وہ ایک عالمگیر کلیہ و ضابطہ پیش کرتا ہے۔ وہ ایک تنگ زاویہ سے کسی خاص ملک یا کسی خاص گروہِ انسانی کو نہیں دیکھتا بلکہ وسیع نظر سے تمام روے زمین کو اُس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتا ہے‘ اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث و مسائل سے بالاتر ہوکر اُن اصولی و بنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات و مقامات میں سارے فروعی و ضمنی مسائل آپ سے آپ حل ہو جاتے ہیں۔ اسے ظلم کی شاخوں اور فساد کی فروعی شکلوں سے بحث نہیں ہے کہ آج ایک جگہ ایک شاخ کو کاٹنے پر زور صرف کرے اور کل دوسری جگہ کسی دوسری شاخ سے طبع آزمائی کرنے لگے‘ بلکہ وہ ظلم کی جڑ اور فساد کے سرچشمے پر براہ راست حملہ کرتا ہے تاکہ اِن شاخوں کی پیدایش ہی بند ہو جائے اور جگہ جگہ آئے دن کی کاٹ چھانٹ کا جھگڑا ہی باقی نہ رہے۔

یہ چھوٹے چھوٹے ضمنی مسائل جن میں آج دنیا کی مختلف قومیں اور جماعتیں الجھ رہی ہیں‘ مثلاً یورپ میں ہٹلر کا طغیانِ ناز‘ یا حبش میں اٹلی کا فساد‘ یا چین میں جاپان کا ظلم‘ یا ایشیا و افریقہ میں برطانیہ و فرانس کی قیصریت‘ ] اسی طرح موجودہ عالمی مسائل کو قیاس کرلیجیے[ اسلام کی نگاہ میں اِن کی اور ایسے تمام مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک ہی سوال اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تمام دنیا سے پوچھتا ہے:

ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (یوسف۱۲:۳۹)

متفرق چھوٹے چھوٹے خدائوں کی بندگی اچھی ہے یا اُس ایک اللہ کی جو سب پر غلبہ و تسلّط رکھتا ہے۔

جو لوگ پہلی صورت کے پسند کرنے والے ہیں اسلام اُن سب کو ایک سمجھتا ہے‘ خواہ وہ آپس میں کتنے ہی مختلف شعبوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ اُن کی ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد‘ اسلام کی نظر میں ایک فساد کے خلاف دوسرے فساد کی جدوجہد ہے۔ ان میں سے کسی کی دشمنی بھی نفسِ فساد سے نہیں ہے بلکہ فساد کی کسی خاص شاخ سے ہے اور اس لیے ہے کہ جس فساد کا جھنڈا ایک فریق نے بلند کر رکھا ہے‘ وہ سرنگوں ہو اور اُس کی جگہ وہ فساد سربلند ہو جس کا جھنڈا دوسرا فریق اُٹھائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی اُس کا اشتراکِ عمل نہیں ہو سکتا جو اصل فساد کا دشمن ہو۔ اُس کے لیے تو ایک جھوٹے رب کے پرستاروں اور دوسرے جھوٹے رب کے بندوں میں ترجیح کا سوال ہی نہیں۔ اس کی تو بیک وقت سب سے لڑائی ہے۔ وہ تو اپنا سارا زور صرف ایک ہی مقصد پر صرف کرے گا اور وہ یہ ہے کہ انسان کو متفرق غیرحقیقی ربوں اور الٰہوں کی بندگی سے نکالا جائے اور اُس اللہ واحد قہار کی حاکمیت تسلیم کرائی جائے جو فی الحقیقت رَبُّ النَّاس، مَلِکَ النَّاس اور اِلٰہُ النَّاس ہے۔

لفظ ’’مسلمان‘‘ اگر کوئی بے معنی لفظ ہے اور محض علم کے طور پر انسانوں کے کسی گروہ کے لیے استعمال ہونے لگا ہے‘ تب تو مسلمانوں کو پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ اپنی زندگی کے لیے جو مقصد چاہیں قرار دے لیں اور جن طریقوں پر چاہیں کام کریں۔ لیکن اگر یہ لفظ اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کو بطورِ مسلک و مشرب قبول کیا ہے تو یقینا مسلمانوں کے لیے کوئی نظریہ‘ کوئی مقصد اور کوئی طریق کار اسلام کے نظریہ‘ مقصد اور طریق کار کے سوا نہیں ہو سکتا۔ غیر اسلامی نظریہ اور پالیسی اختیار کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ اور مقتضیاتِ وقت کا بہانہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاں جس ماحول میں بھی ہوں گے ان کو وقتی حوادث اور مقامی حالات و معاملات سے بہرحال سابقہ پیش ہی آئے گا۔ پھر وہ اسلام آخر کس کا اسلام ہے جس کا اتباع صرف مخصوص حالات ہی میں کیا جائے اور جب حالات دگرگوں ہوں تو اسے چھوڑ کر   حسبِ سہولت کوئی دوسرا نظریہ اختیار کر لیا جائے؟

دراصل تمام مختلف حالات میںاسلام کے اساسی نظریہ اور بنیادی مقصد کے مطابق طرزِعمل اختیار کرنا ہی مسلمان ہونا ہے‘ ورنہ اگر مسلمان ہر حادثے اور ہر حال کو ایک جداگانہ  نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور ہمیشہ موقع و محل دیکھ کر ایک نئی پالیسی وضع کر لیا کریں جس کو اسلام کے نظریہ و مقصد سے کوئی لگائو نہ ہو تو ایسے مسلمان ہونے میں اور نامسلمان ہونے میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ ایک مسلک کی پیروی کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ جس حال میں بھی ہوں آپ کا   نقطۂ نظر اور طریق کار اُس مسلک کے مطابق ہو جس کے آپ پیرو ہیں۔ ایک مسلمان‘ سچا مسلمان اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ زندگی کے تمام جزئی معاملات اور وقتی حوادث میں اسلامی نقطۂ نظر اور اسلامی طریقہ اختیار کرے ‘ جو مسلمان کسی موقع و محل میں اسلامی پہلو چھوڑ کر غیر اسلامی پہلو اختیار کرتا ہے اور یہ عذر پیش کرتا ہے کہ اِس موقع اور اِس محل میں تو مجھے غیراسلامی طریقے ہی پر کام کرلینے دو‘ بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو مسلمان بن کر کام کرنے لگوں گا‘وہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اسلام کو وہ بجاے خود کوئی ایسا ہمہ گیر    نظامِ زندگی ہی نہیں سمجھتا جو زندگی کے ہر معاملے اور زمانے کی ہر گردش پر یکساں حاوی ہوسکتا ہو‘ یا پھر اس کا ذہن اسلام کے سانچے میں پوری طرح نہیں ڈھلا ہے جس کی وجہ سے اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اسلام کے کلُیات کو جزئی حوادث پر منطبق کرسکے اور یہ سمجھ سکے کہ مختلف احوال میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔…

تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اُس تحریک سے ہے جس کے رہبر و رہنما انبیا علیہم السلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظامِ فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔ اسلام کا نظامِ فکر اور طریق کار وہ ہے جو ہم کو انبیا علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں ہوں‘ اور ہمارے گردوپیش زندگی کے مسائل و معاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں‘ ہمارے لیے مقصد و نصب العین وہی ہے جو انبیا کا تھا‘ اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیا ہر زمانے میں چلتے رہے۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہ (الانعام ۶:۹۰)’’وہی لوگ تھے جن کی اللہ نے رہنمائی کی تھی‘  لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کرو‘‘۔ ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اُسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے اُنھوں نے دیکھا۔ ہمارا معیارِ قدر وہی ہونا چاہیے جو اُن کا تھا۔ اور ہماری اجتماعی پالیسی اُنھی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انھوں نے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرزِعمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔ یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اُس تنگ زاویے سے معاملاتِ دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند‘یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیںان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘ انھی کی زبان میں باتیں کریں گے‘ اور اُنھی گھٹیا درجے کے مقاصد پرزور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تو اپنی وقعت کو ہم خود ہی خاک میں ملا دیں گے۔ شیر اگر بکری کی سی بولی بولنے لگے اور بُزغالوں کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دست بردار ہوگیا۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کر سکتا ہے کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ حیثیت تسلیم کریں گے جو شیر کی ہونی چاہیے؟

… خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کر تمام دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔ یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ہیں‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر‘ شیر نہیں ہے جو اگر پنجرے میں بند ہو تو بکری کی طرح مِمیانے لگے‘ اور شیر وہ بھی نہیں جو بکریوں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریّت بھول جائے۔ (انتخاب: تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴-۱۰۸)

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَo وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۹۹-۲۰۲)

اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُراخیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیںاور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔

ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے۔

۱-  داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی ’’جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے‘‘۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ،یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)

۲-  دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپاکرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صد اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔

۳-  اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔

۴-  نمبر۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں  بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میںشیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔

اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔

(تفہیم القرآن‘ ج۲‘ص ۱۱۰-۱۱۳)

مسلم یا غیر مسلم سے قطع نظر محض ایک قوم ہونے کی حیثیت سے کسی قوم کے آزاد ہونے کا مطلب محض غیروں کی غلامی سے آزاد ہونا نہیں ہے‘ بلکہ اس لحاظ سے آزادی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم کو خود اپنے معاملات چلانے کے اختیارات حاصل ہوں۔ ایک قوم خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہو کہ کن کے ہاتھوں میں وہ اپنے معاملات دے اور کن کے ہاتھوں میں نہ دے‘ اور یہ کہ جن کو وہ اس قابل نہ سمجھے انھیں وہ ہٹا سکے اور ان کی جگہ اپنے درمیان سے دوسرے لوگوں کو اُٹھا کر سامنے لاسکے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کو جانے اور سمجھے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں آزادانہ بحث مباحثہ کر کے رائے قائم کرے اور کوئی اس کے اس حق کو سلب نہ کر سکے۔ اس کی رائے ہوا میں      اُڑ جانے والی چیز نہ ہو‘ بلکہ اس کی رائے کا وزن ہو اور وہ ایک فیصلہ کُن چیز ہو۔

اس لحاظ سے آپ دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ۲۱ سال٭ کے دوران میں عملاً ایک دن کے لیے بھی آزادی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ یہ آزادی آپ نے لڑ کر‘ اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے حاصل کی تھی۔ قاعدے کے مطابق یہ آزادی آپ کو انگریز سے منتقل ہوگئی تھی۔ لیکن دستوری طور پر وہ آپ کی مجلس دستورساز کے پاس رہن رہی۔ انگریزی اقتدار کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ مجلسِ دستور ساز کا کام تھا کہ وہ آپ کے ملک کا دستور بناکر اس آزادی کو عملی طور پر آپ کی طرف منتقل کرتی۔ یہ آزادی نو سال تک اس کے پاس رہن رہی۔ نوسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں فکِّ رہن ہوا۔ لیکن عملاً آپ اس وقت تک اس آزادی کو استعمال نہیں کر سکتے تھے جب تک ملک میں عام انتخابات نہ ہوجاتے۔ جب عام انتخاب سے اسمبلی وجود میں آتی تو عملاً آپ کی آزادی آپ کو منتقل ہوجاتی۔ اس کے بعد اگر آپ کے نمایندے آپ کی مرضی کے مطابق کام کرتے تو انھیں آپ کی تائید حاصل رہتی لیکن اگر وہ آپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کرتے تو دوسرے انتخاب میں آپ ان کو ہٹا دیتے اور زیادہ بہتر اور اہل تر آدمیوں کو منتخب کرتے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ اس طریق کار کے آغاز کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ انتخاب کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ فروری ۱۹۵۹ء میں انتخابات ہونے والے تھے لیکن قبل اس کے کہ وہ وقت آتا اور آپ ان کے ذریعے سے بحیثیت ایک قوم کے اپنی آزادی کو استعمال کرتے آپ کی اس آزادی کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں آپ سے چھین لیا گیا‘ اور اس کے بعد پونے چار سال تک ملک پر مارشل لا مسلّط رہا۔

اس طرح وہ آزادی جسے دستورساز اسمبلی سے آپ کی طرف منتقل ہونا تھا‘ مارشل لا کے نفاذ اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی تنسیخ کی بدولت ختم ہوکر رہ گئی۔ ملک کی دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا کے دوران میں ایک اور دستور بنایا گیا‘ پھر مارشل لا کی حالت ہی میں انتخابات کرائے گئے‘ اور مارشل لا ہی کی حالت میں جب اس اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوگیا‘ تب مارشل لا اٹھایا گیا۔ دوسرے الفاظ میں آپ کو اس وقت تک باندھے رکھا گیا جب تک نیا دستور آپ پر پوری طرح مسلّط نہ ہوگیا۔ یہ دستور آپ کے لیے آزادی کا پروانہ نہیں بلکہ مستقل طور پر غلام بنائے رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس میں جیسی کچھ آزادی آپ کو ملی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ مجلسِ قانون ساز میں جو حضرات آپ کے نمایندے قرار دیے جاتے ہیں وہ بجٹ کے ۹۰ فی صد حصے بلکہ اس سے بھی زیادہ حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ جتنا روپیہ آپ سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اس میں سے ۹۰ فی صد یا اس سے زائد پر آپ کے نمایندے کہلانے والے کسی فیصلے کے مجاز نہیں ہیں۔ اگر آپ سے ۱۰۰ روپے وصول کیے جاتے ہیں تو ۹۰ روپے یا اس سے زائد رقم کے متعلق آپ کے ’نمایندوں‘ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اس رقم کا استعمال کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جو ایک قوم کو اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے معاملات چلانے کے لیے حاصل ہوتی ہے۔ پھر اسمبلیوں میں جن لوگوں پر آپ کے نمایندے ہونے کی تہمت رکھی جاتی ہے ‘کیا آپ ان کو براہِ راست یہ دیکھ کر منتخب کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں؟ نہیں‘ بلکہ گلی اور کوچے کے معاملات کے لیے جو آدمی موزوں ہو سکتا ہے آپ صرف اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ملک کے معاملات چلانے والوں کو آپ منتخب نہیں کر سکتے‘ ان کو وہ لوگ منتخب کرتے ہیں جنھیں آپ نے گلی کوچوں کے انتظام کے لیے چُنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ملک کے معاملات پر براہِ راست اثرانداز ہونے کے حق سے آپ محروم کیے جا چکے ہیں۔

اب دیکھیے کہ آپ کی آزادی کو مُقید کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ ہم نے انگریزی دور بھی دیکھا ہے اوربرسوں دیکھا ہے لیکن کبھی دفعہ ۱۴۴ کو اس کثرت سے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ انگریز خود اس دفعہ کا موجد تھا لیکن اس کے خالق نے اپنی اس مخلوق کو کبھی اس طرح بے تحاشا استعمال نہیں کیا جس طرح آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی دور میں پریس پر ایسی پابندیاںنہیں تھیں۔ اگرچہ وہی ان پابندیوں کا ایجاد کرنے والا تھا اور چاہتا تھا کہ پریس کو زیادہ سے زیادہ مقید رکھے۔ لیکن وہ بھی پریس کو اس حد تک مقید نہ کرسکا جس طرح وہ آج مقید ہے۔ اور ’پریس ٹرسٹ‘ کی بات تو انگریز کو بھی نہیں سُوجھی تھی۔

اسی طرح یہ بھی ایک امرواقعہ ہے کہ ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کسی زمانے میں کبھی اتنا فروغ نہیں پا سکا جتنا اس زمانے میں پا رہا ہے۔ ایک خوشامدی اورضمیرفروش نسل تیار کی جا رہی ہے۔ صلاے عام ہے کہ ضمیربیچو اور لائسنس لو‘ رُوٹ پرمٹ لو‘ تمغے لے لو۔ اور اگر تمھارا ضمیر بِک نہیں سکتا تو تم یہاں خیر سے جی بھی نہیں سکتے۔

یہ جتنی چیزیں بھی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملک کے باشندوں کی آزادی کو برقرار رکھنے والی نہیں بلکہ اسے چھیننے والی ہے۔

آج ہمارا ملک ۲۰ ارب روپے کا مقروض ہے۔ ہمارا بال بال بیرونی قرضوں میں  بندھ چکا ہے۔ غیروںسے ہم نے جو آزادی حاصل کی تھی وہ اب پھر ان قرضوں کے ذریعے سے ان کی طرف منتقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی قوم کی آزادی ہرگز باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر ہر وقت اس کے ہاتھ میں بھیک کا ٹھیکرا ہو اور وہ ہرقوم کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتی پھرے--- آپ دیکھیں کہ باہر سے کسی ملک کا وزیراعظم یا کوئی دوسرا سربراہ آتا ہے تو ہم پہلے ہی سے دنیا کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس کے آنے پر ہم اس سے یہ اور یہ مانگیں گے۔ ابھی اس نے ملک کے اندر قدم نہیں رکھا ہوتا اور یہاں پہلے سے یہ اسکیمیں سنا دی جاتی ہیں کہ جب ہمارے گھر میں یہ مہمان آئے گا تو ہم اس سے یہ یہ کچھ مانگیں گے۔ اسی طرح جب کبھی ہم باہر جاتے ہیں تو باہر جانے سے پہلے دنیا کو سنا دیتے ہیں کہ ہم یہ یہ کچھ مانگنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے طرزعمل کے ساتھ کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت کب تک کر سکتی ہے۔ جب عالم یہ ہو کہ ایک ایک چیز کے لیے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہو اور بڑی بڑی اسکیموں کے لیے ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی باہر سے روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ ائرپورٹ بنانا ہو تو اس کے لیے باہر سے روپیہ آئے‘ ہوٹل بنانے ہوں تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ یونی ورسٹی کیمپس بنانا ہو تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ غرض ایک ایک چیز کے لیے الگ الگ روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ تو اس کے بعد آزادی کب تک اور کیونکر باقی رہ سکتی ہے۔

اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتی اگر اس نے اپنے آپ کو معاشی حیثیت سے غلام بنا لیا ہو۔ اور دنیا کی کوئی قوم ایسی آنکھ کی اندھی اور گانٹھ کی پوری نہیں ہے جو آپ کو روپیہ دیتی چلی جائے لیکن روپے کے بدلے میں اپنا کوئی مفاد حاصل نہ کرے۔ وہ مفاد آپ سے سود کی شکل میں بھی حاصل کرتی ہے اور وہ اپنے مفاد کے لیے آپ پر طرح طرح کی قیود بھی عاید کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ماہرین ہمارے ہوں گے اور انھیں تم بھاری سے بھاری تنخواہ دو گے۔ مال ہم سے خریدنا ہوگا اور ہماری طے کی ہوئی قیمت پر خریدنا ہوگا‘ چاہے وہ چار گنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔ اور نہ معلوم اندر ہی اندر کیا کیا پابندیاں عاید کی جاتی ہیں جن کی ہم کو خبر تک نہیں ہوتی‘ کیونکہ ہمیں سرے سے یہ حق ہی حاصل نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھ سکیں کہ جناب‘ آپ دوسروں سے کیا معاملات کر رہے ہیں اور کن شرائط پر کر رہے ہیں۔

پشاور میں امریکا کو جاسوسی کا جو اڈا دیا گیا تھا‘ ایک طویل مدت تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ کب دیا گیا اور کن شرائط پر دیا گیا۔ چند سال قبل جب جاسوسی کے لیے امریکا کا یوٹو جہاز پشاور سے اُڑ کر روس گیا اور روس نے اس پر دھمکی دی کہ ہم پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ تب ہم کو پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ایک غیر ملک کا جاسوسی کا اڈا بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگرہمیں بیچ بھی ڈالا جائے تو ہمیںاس وقت خبر ہوگی جب دوسرا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر ہمیں لیے جا رہا ہوگا۔

یہ ہے اپنے ملک کے معاملات میں قوم کو شامل کرنے کا وہ نقشہ جو ہمارے ہاں بنا ہے‘ اور یہ ہیں وہ حالات جو آج کے دن اگر ایک طرف ہماری اس مسرت کی بنیاد بنتے ہیں کہ ہم نے غیرملکی استعمار سے آزادی پائی ‘ تو دوسری طرف ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے ملک میں اپنے معاملات کو چلانے کی آزادی بھی حاصل کریں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جن کی تاریخ پر نگاہ ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں آزادی کی بیشتر لڑائیاں غیروں کے مقابلے میں آزادی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے لڑی گئی ہیں‘ اور یہ آزادی کی لڑائی اب ہم کو بھی لڑنی پڑے گی۔ اس لڑائی کو    ہم نے شروع کر دیا ہے۔ آپ بھی ہمت کریں‘ آگے بڑھیں اور تحریک جمہوریت کے پلیٹ فارم سے لڑی جانے والی اس لڑائی میں حصہ لیں۔ (آزادی‘ ص ۵-۱۱)

۱- شرح صدر

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِط اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الزمر ۳۹:۲۲)

اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

کسی بات پر آدمی کا شرحِ صدر ہو جانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی کے دل میں اُس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہہ باقی نہ رہے ‘ اور اُسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اُس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو‘ بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیزحق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہوجائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسول کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا ورغبت مانتا ہے۔    کتاب وسنت میں جو عقائد وافکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انھیں اِس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی ناجائزفائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں‘ اُلٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل ِخدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرے سے بچنے کے لیے اُدھر نکل جائوں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔

شرحِ صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک        ضیقِ صدر(سینہ تنگ ہوجانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں کچھ نہ کچھ گنجایش اس بات کی رہ جاتی ہے کہ حق اُس میں نفوذ کر جائے‘ اور دوسری قساوتِ قلب ( دل کے پتھر ہوجانے) کی کیفیت‘ جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص‘ خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی‘ ایک مرتبہ قبولِ حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے‘ کیونکہ آیت کا اصل مقصود اُن لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور   ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے اور فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انھیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابلِ فخر چیز سمجھ رہے ہو‘ مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی او ربدنصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی    طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجاے اور زیادہ سخت ہوجائے۔(ج ۴‘      ص ۳۶۷-۳۶۸)

۲- رضا اور مشیتِ الٰہی

اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْقف وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَج وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْط (الزمر ۳۹:۷)

اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے‘ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا‘ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسندکرتا ہے۔

یعنی تمھارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ‘ اور نہ مانو گے تب بھی وہ خداہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے‘ تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَاعِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔’’اے میرے بندو‘ اگر تم سب کے سب اگلے‘ اور پچھلے انسان اور جنّ اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جائو تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔(مسلم)

]وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا[‘ یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں‘ کیونکہ کفر خود انھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا‘ مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا‘ چوروں اور ڈکوائوں کا پایا جانا‘ قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظامِ قدرت میں اِن برائیوں کے ظہور اور اِن اُشرار کے وجود کی گنجایش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی وہی دیتا ہے اور اُسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے مواقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے اِن کاموں کی گنجایش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میںکبھی کوئی بُرائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بربناے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعے سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعے سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری‘ ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرمارہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو‘ ہم تمھیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو‘ کیونکہ یہ تمھارے ہی لیے نقصان دہ ہے‘ ہماری خدائی کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ۔

کفرکے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجاے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے  خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر درحقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے اور ایمان     فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جل شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہوگا وہاں ایمان ضرور ہوگا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ (ج ۴‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)

۳- کھلا دیوالہ

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَلَا ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنَ o (الزمر ۳۹:۱۵)

کہو‘ اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنھوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن رکھو‘ یہی کھلا دیوالہ ہے۔

دیوالہ عرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اُس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ اپنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآنہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفارو مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی‘ عمر‘ عقل‘ جسم ‘ قوتیں اور قابلیتیں‘ ذرائع اور مواقع ‘ جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں‘ ان سب کا مجموعہ دراصل سرمایہ ہے جسے وہ حیاتِ دنیا کے کاروبار میںلگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے‘ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں‘ اورکسی کومجھے حساب نہیں دینا ہے‘ یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا آکر مجھے بچالے گا‘ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبودیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔

دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آیندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے‘ مگر اُس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز واقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خُسرانِ مبین قرار دے رہا ہے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۴-۳۶۵)

۴- عذابِ قبر

اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴)

دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔

یہ آیت اُس عذابِ برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذابِ قبرکے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے‘ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آلِ فرعون کو اب دیا جا رہا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہَول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انھیں وہ اصل اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے‘  یعنی وہ اس دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انھیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف  فرعون و آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیںہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے قیامت تک وہ انجامِ بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے‘ اور تمام نیک لوگوں کو اُس    انجامِ نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری ‘ مسلم اور مُسند احمد میں حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ ، اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ‘ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ‘ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔’’ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے‘ خواہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اُس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اُٹھا کر اپنے حضور بلائے گا‘‘۔ (ج ۴‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)

۵- برزخ میں خواہشات کی تکمیل

لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط (الزمر ۳۹:۳۴)

انھیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔

یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فِی الْجَنَّۃِ (جنت) نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کرہی نہیں‘ بلکہ مرنے کے وقت سے دخولِ جنت تک کے زمانے میں بھی مومنِ صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذابِ برزخ سے‘ روزِ قیامت کی سختیوں سے‘ حساب کی سخت گیری سے‘ میدانِ حشر کی رسوائی سے‘ اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذے سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ ‘ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ (ج ۴‘ ص ۳۷۳)

۶- اہلِ ایمان کے لیے فرشتوں کی دعا

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ o رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المومن ۴۰: ۷-۸)

عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کے حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب‘ تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہرچیزپرچھایا ہوا ہے‘ پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب‘ اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے‘ اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ توبلاشبہ قادرِمطلق اورحکیم ہے۔

یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھاے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ پر فرشتوں کے ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں۔ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ (ج ۴‘ ص ۳۹۴)

ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے حدوحساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن بلاشبہہ اُس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہم کو خالص توحید اور بے آمیز توحید کی تعلیم دی جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اورحقوق میں کسی دوسرے کی  ادنیٰ سے ادنیٰ شرکت کے لیے بھی کوئی گنجایش نہیں ہے اور تمام حیثیتوں سے خدائی صرف ایک معبودِ برحق کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کی صحیح قدر آپ صرف اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب توحید اور شرک کے فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔

شِرک کا لازمی خاصّہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دُنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر‘ یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ ساری دنیا تو درکنار‘ زمین کے ایک خطّے میں بسنے والے مشرک بھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔ قبیلوں اور قبیلوں کے معبود الگ الگ رہے ہیں اور یہ جُدا جُدا بھی ہمیشہ معبود نہیں رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے ہیں۔ اس طرح شِرک کبھی کسی دَور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور وہ صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا۔ اُس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اُس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات اُبھار دیتے ہیں۔ پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کے محرک بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار انھی کی بدولت دُنیا میں خونریزیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور شّروفساد سے خدا کی زمین بھرجاتی ہے۔ آج تک جتنی لڑائیاں بھی انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوئی ہیں‘ آپ ان کے اسباب کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب کے پیچھے شرک کسی نہ کسی صورت میں کارفرما رہا ہے یا اُس کی پیدا کردہ خباثتوں میں سے کوئی خباثت اُن کی محرک ہوئی ہے۔

اس کے برعکس توحید اگر شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہو‘ تو اُس کا لازمی خاصّہ انسانیت کو بانٹنے اورانسانوں کو انسانوں سے پھاڑنے کے بجاے ان کو باہم جوڑنا اور ایک رب العالمین کی بندگی و اطاعت پر جمع اور متحد کرنا ہے۔ جتنے لوگ بھی مخلوقات کی خدائی کے ہر تصور سے اپنے ذہن کو پاک کر کے صرف ایک خدا کو معبودِ برحق مان لیں گے اور خداوندعالم کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کی شرکت کے باطل خیال کو اپنے دل و دماغ کے ہر گوشے سے نکال باہر کریں گے‘ وہ لازماً ایک اُمت بنیں گے۔ یقینا ان میں وحدت پیدا ہوگی۔ ضرور وہ ایک دوسرے کے رفیق اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں گے۔ تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک اللہ کی وحدانیت کے سوا کوئی دوسری چیز انسانوں کو جمع کرنے والی پائی گئی ہو۔ اگر انسان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف اُس ایک معبود پر جو حقیقتاً ساری کائنات کا معبود ہے۔ اُسی کوماننے پر اُن کے اندر اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اُسی کی بندگی پر اتفاق اُنھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا سکتا ہے۔ توحیدِالٰہ کا نتیجہ توحیدِ اُمت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جو کبھی     غلط ثابت نہیں ہوئی ہے نہ غلط ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجودہے ‘ لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی اُمت میں وحدت موجود نہیں ہے‘ بلکہ اُلٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں‘ تو چشمِ بصیرت سے اُن کا جائزہ لے کر آپ بآسانی معلوم کرلیں گے کہ اُس اُمت میں شرک گھس آیا ہے اور اُس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔ یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کے ماننے والے دس متحارب گروہوں میں بٹ نہیں سکتے۔

وحدت اُمت کے لیے بنیادیں

اب دیکھیے کہ تمام انسانوں کو ہر زمانے اور ہر دور میں ایک اُمت کے اندر جمع کرنے کے لیے توحید کی بنیاد فراہم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وحدت کو دائم و قائم رکھنے کے لیے مزید کیا اہتمام فرمایا ہے۔

ہدایت کا واحد ماخذ: اس نے ایک رسول بھیج کر اور ایک کتاب نازل کر کے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے لیے ایک ایسی رہنمائی عطا فرما دی جس سے باہر جاکر انسان کو کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک اُمت میں جمع ہوجانے کے بعد انسان اگر متفرق ہوسکتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان کو کسی ایک ماخذ سے پورا    نظامِ زندگی نہ ملے اور وہ مختلف حالات‘ مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں دوسرے ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورت میں تو بلاشبہہ انسان ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے لازماً ان کے اندر تفرقہ برپا ہوگا‘ لیکن جب ہرزمان و مکان کے لیے ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ذریعے سے ہدایت مل جائے تو وحدتِ معبود پر جمع ہونے والی اُمت کے لیے تفرقے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اِلا یہ کہ لوگ یا تو جہالت کی بنا پر اس کی ہدایت سے واقف ہی نہ ہوں یا پھر ذہن و فکر کی کجی کے باعث اصل ہدایت میں اپنی طرف سے کچھ گھٹائیں اور کچھ بڑھائیں‘ اور اس طرح کی کمی و بیشی کرنے والا ہرگروہ یہ دعویٰ کرے کہ اُس کا تیار کردہ دین ہی اصل دین ہے جس کی پیروی نہ کرنے والا گمراہ  یا فاسق یا کافر ہے۔

صرف خدا کے سامنے جواب دہی: دوسری اہم چیز جو وحدتِ اُمت کے استحکام اور راہِ راست پر اس کے ثابت قدم رہنے کے لیے فراہم کی گئی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ انسان صرف ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہی ایک خدا دنیا میں بھی اُس کی قسمت بنانے اور بگاڑنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے اور وہی ایک خدا روزِ جزا کا بھی مالک ہے۔ اُس کے سوا نہ کوئی انسانوں کے اعمال کی بازپرس کرنے والا ہے نہ کسی کے ہاتھ میں سزا یا جزا دینے کے اختیارات ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ عقیدہ نہ صرف وحدتِ اُمت کا ضامن ہے بلکہ اِسی پر انسانی سیرت و کردار کے راست و درست رہنے کا انحصار ہے۔ اِس عقیدے کے اِن لازمی نتائج کو ضائع کر کے اگر کوئی چیز انسانوں کو پراگندہ اور بے راہ رو بنانے والی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگ دنیا میں خدا کے سوا دوسری مختلف ہستیوں کو حاجت روا قرار دینے لگیں‘ اور آخرت کے بارے میں یہ سمجھنے لگیں کہ وہاں خدا کے انصاف میں مداخلت کرنے کے اختیارات کچھ دوسری ہستیوں کو حاصل ہوں گے۔

پنج وقتہ نماز کا اہتمام: اس کے بعد دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی چیزیںہم پر لازم کی ہیں جو وحدتِ اُمت کو عملاً قائم اور دائماً سرگرم رکھنے والی ہیں۔ اُن میں اوّلین چیز نماز ہے جو روزانہ پانچ وقت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض کر دی گئی ہے۔ اُس کے لیے ایک قبلہ مقرر ہے جس کی طرف ہرنماز کے وقت مشرق اور مغرب‘ شمال اور جنوب اور اِن مختلف سمتوںکے درمیان رہنے والے سب مسلمانوں کو رُخ کرنا ہوتا ہے۔ اِس نقشے کو ذرا چشمِ تصور کے سامنے لاکر تو دیکھیے کہ خانۂ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے والے تمام لوگ ایک ہالہ بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور پھر یہی دائرہ پھیلتے پھیلتے تمام روے زمین پر محیط ہوجاتا ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت کا عمل ہے۔ اس سے بڑھ کر وحدت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے اور اسلام کے سوا یہ مظاہرہ آپ اور کہاں پاتے ہیں؟

اس پنج وقتہ نماز کو فرض کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازم کیا ہے اِلا یہ کہ کوئی مسلمان اپنی جگہ تنہا ہو اور اسے جماعت نہ مل رہی ہو۔ اللہ کی عبادت کا مقصد تو فرداً فرداً نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو سکتا تھا‘ مگر وحدت اُمت کا مقصد نماز باجماعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔اسی لیے لازم کیا گیا کہ جہاں دو مسلمان بھی موجود ہوں وہاں ایک امام اور دوسرا مقتدی بنے اور دونوں مل کر باجماعت نماز ادا کریں۔

نماز کے لیے لوگوں کو بُلانے کا طریقہ بھی اسلام میں ایسا بے نظیر مقرر کیا گیا ہے جو دنیا کے کسی مذہبی یا لامذہب گروہ کو اپنے کسی اجتماع کی دعوتِ عام دینے کے لیے میسرنہیں ہے۔ نماز کا بلاوا دینے کے لیے روے زمین پر ہر جگہ ہر روز پانچوں وقت ایک ہی زبان میں اذان کی آواز بلند کی جاتی ہے‘ قطع نظر اِس سے کہ بلانے والوں اور بلائے جانے والوں کی اپنی زبان خواہ کچھ بھی ہو۔ اِس مشترک زبان کی اذان دُنیا میں جہاں بھی بلند ہوگی اسے سننے والا ہر مسلمان جان لے گا کہ یہ نماز کا بلاوا ہے اور فلاں مقام سے بلند ہو رہا ہے جہاں مجھے اپنے برادرانِ ملت کے ساتھ جمع ہوکر خداے واحد کی عبادت بجا لانی ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ اذان صرف نماز کا بلاوا ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے عقیدے کا اعلان بھی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ اور میری فلاح اُسی ایک خدا کی عبادت سے وابستہ ہے جس کی طرف آنے کے لیے مجھے پکارا جا رہا ہے۔ کیا اِس سے بہترطریق دعوت کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے؟ یہ دعوت دُنیا میں ہر جگہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع بھی کرتی ہے اور ایک ہی عقیدے پر متفق بھی۔

پھر نماز کے اوقات‘ اُس کو ادا کرنے کے طریقے اور اس میں پڑھی جانے والی چیزیں تمام دنیا میں یکساں ہیں۔بعض جزوی چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی افریقہ کا مسلمان شمالی امریکہ میں یا جاپان کا مسلمان مراکو یا فرانس میں جاکر یہ محسوس کرے کہ یہاں نماز کے بجاے کوئی اور عبادت کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ نماز خداپرستی کے جذبے کو تازہ بھی کرتی ہے اور خدا پرستوں میں عالم گیر برادری کا احساس زندہ و متحرک بھی رکھتی ہے۔

روزوں کا اہتمام: ایسا ہی معاملہ روزوں کا بھی ہے۔ اگر صرف روزے کی عبادت ہی مقصود ہوتی تو ہر مسلمان کو بس یہ حکم دے دینا کافی تھا کہ وہ سال میں ۳۰ روزے جب چاہے رکھ لے۔ لیکن خداے واحد کی عبادت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمت ِ واحدہ بھی بنانا مقصود تھا‘ اس لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ ہرسال روزے رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ سب کا روزہ ایک ساتھ شروع اور ایک ہی ساتھ ختم ہو۔ روزے کے احکام بھی یکساں رکھے گئے تاکہ تمام مسلمان عمربھر ہر سال پورے ۳۰ (یا ۲۹) دن کے روزے ایک ہی طریقے سے ایک ہی طرح کی پابندیوں کے ساتھ رکھتے رہیں۔ اس سے لازماً دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور زندہ اور تازہ رہتا ہے کہ وہ ایک ہی شرع کی پابندی کرنے والی اُمت ہیں۔ اس پر مستزاد تراویح کی نماز ہے جو پنج وقتہ فرض نماز کے علاوہ ساری دنیا میں رمضان کی ہر رات کو باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اس میں بالعموم پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہ عبادت بھی ہے‘ خدا کے کلامِ پاک کی تبلیغ اور تذکیر بھی ہے اور وحدتِ اُمت کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے والی چیز بھی۔ قرآن کو ہر سال مہینہ بھر تک روزانہ سننے والے خواہ اُس کی زبان سے واقف ہوں یا نہ ہوں‘ اُس کو سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں‘ بہرصورت اُن سب میں یہ مشترک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور وہ کتاب اُن کے رب کی کتاب ہے۔

فریضۂ حج: اب ذرا حج کو دیکھیے جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے ایک عالم گیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اُس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو‘ یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اِس فریضے کو انجام دے اور یہ فریضہ صرف چند مقررہ تاریخوں ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے جو سال بھر میں صرف ایک بار آتی ہیں۔ اس طرح روے زمین پر جہاں بھی مسلمان آباد ہوں وہاں سے ایک ہی زمانے میں تمام ذی استطاعت مسلمانوں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونا پڑتا ہے۔

آپ غور کیجیے یہ وہ چیز ہے جو ہر سال دُنیا کے ہر گوشے سے عام انسانوں کو کھینچ کر ایک جگہ لاتی ہے۔ صرف سیاسی مدبرین کو نہیں لاتی‘ جیسے اقوامِ متحدہ میں جمع ہوتے ہیں۔ صرف قوموں کے لیڈروں کو نہیں لاتی‘جیسے بین الاقوامی کانفرنسوں میںآیا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک اور ہر قوم کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں کھینچ لاتی ہے اور اس غرض کے لیے لاتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ ایک ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں‘ ایک ساتھ مکہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ کی طرف کوچ کریں۔ ایک ساتھ قربانیاں کریں‘ ایک ساتھ رمی جمار کریں‘ ایک ساتھ عرفات میں وقوف اور منیٰ میں چند روز قیام کریں۔ ایک ہی زبان میں سب لبیک لبیک کی آوازیں بلند کریں۔ ایک ساتھ اُس قبلے کے گرد نمازیں ادا کریں جس کی طرف رُخ کر کے ہر روز پانچ مرتبہ وہ اپنی اپنی جگہ نماز پڑھتے رہے ہیں۔

اُن میں ہر نسل‘ ہر قوم‘ ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ ہر زبان بولنے والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں۔ اُن میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی۔ مگر وہاں یہ سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ حرم کے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی سب کے لباس اُتروا کر ایک ہی طرح کا فقیرانہ لباسِ احرام پہنوا دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ تمیز نہیں کرسکتا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اس کے اُونچے مقام سے اُتار کر عام انسانوں کی سطح پر لے آیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب و تمدن رکھنے والوں کو بھی تمدن کی بالکل نچلی سطح پر رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کے ہجوم میں طواف و سعی کرتے ہوئے ایک رئیس کو بھی اُسی طرح دھکّے کھانے پڑتے ہیں جس طرح کوئی عام آدمی دھکّے کھاتا ہے۔ خداوندعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خنّاس نکال دیا جاتا ہے‘ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے تعصبات ختم کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک اُمت ہونے کا احساس اِس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کا اثر کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ دُنیا کے کسی مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیرووں کو اس قدر عالم گیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کی تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اُس خدا کی حکمت کا کرشمہ ہے جس کی وحدت کو مان کر‘ جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے‘ جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک اُمت بنتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہے کہ اُس نے حج کی اِن برکات کو بھی صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں رکھا جو اِس عبادت کے مناسک ادا کرنے کے لیے مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں‘ بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع پیدا کر دیا کہ حج ہی کے زمانے میں وہ اپنی اپنی جگہ حاجیوں کے شریکِ حال بن سکیں۔ یہ عیدالاضحی کی نماز اور یہ قربانی جو ان تین دنوں کے اندر زمین کے ہر گوشے میں کی جاتی ہے اِسی غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جس روز (یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو) حج ادا کرنے کے لیے حاجی منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں‘ اُسی روز صبح سے وہ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند اللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ واللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبر وَللّٰہِ الْحَمدکا ورد شروع کر دیں اور ان تکبیرات کا سلسلہ مزید چار روز تک جاری رکھیں تاکہ منیٰ میں حاجیوں کے قیام کا پورا زمانہ دنیا میں اِن تکبیرات کو بلند کرتے ہوئے گزر جائے۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے وہی ۱۰ ذی الحجہ کی تاریخ رکھی گئی ہے جو حاجیوں کے لیے یَومُ النّحْر(قربانی کا دن) ہے۔ حکم ہے کہ اس نماز کے لیے جاتے وقت بھی اور واپس ہوتے وقت بھی یہی تکبیرات بلند کی جائیں۔ اسی دن ساری دنیا میں نمازِعید کے بعد وہی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں جو منیٰ میں حاجی کرتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ میں اُسی اُمت کا ایک فرد ہوں جس اُمت کے لاکھوں آدمی اس وقت حج کر رہے ہیں‘ اور حج کے پورے زمانے میں وہ تکبیرات کہتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے ‘گویاحاجیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی میں اگرچہ حج جیسا عظیم اور عالم گیر اجتماع نہیں ہوتا‘ مگر اپنے اپنے مقام پر مسلمان ہر جگہ بڑے سے بڑا اجتماع کرکے نمازادا کرتے ہیں اور مجموعی طور پر تمام روے زمین پر ایک ہی زمانے میں اس عید کا منایا جانا ایک دوسرے انداز میں اُمت کی عالم گیر وحدت کا مظاہرہ بن جاتا ہے۔

اختصار کے ساتھ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید‘ رسالت‘ کتاب اور آخرت کے عقائد سے وہ بنیاد فراہم کر دی جس پر قوم‘ وطن‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے تمام تعصبات ختم کرکے دنیا کے سارے انسان ایک عالم گیر اُمت بن سکتے ہیں۔ پھر عبادات کے ایسے طریقے مقرر فرما دیے جو اس اُمت میںمحض وحدت ہی نہیں‘ بلکہ پاکیزہ وحدت‘ اور سطحی و ناپایدار وحدت نہیں‘ بلکہ نہایت مضبوط عملی وحدت پیدا کرتے ہیں‘ اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آخری رسولؐ اور اپنی آخری کتاب کے ذریعے سے اُس نے وہ مکمل نظامِ زندگی عطا فرما دیا جو پوری انسانیت کے لیے ہر زمان و مکان میں ایسا جامع قانون ہے کہ اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی کسی جگہ اور کسی دور کے انسانوں کو ہدایت کی طلب میں کسی دوسرے ذریعۂ رہنمائی کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔

اب اس کے بعد اس سے بڑی بدقسمتی اور شرم ناک بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس اُمت کو   اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع و مکمل نظامِ حیات دیا‘ جس اُمت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اُس نے اِتنا بڑا انتظام کیا‘ اور جس اُمت کے سپرد اس نے یہ کام کیا کہ وہ دنیا میں اِس دین توحید کو پھیلائے تاکہ پوری انسانیت اِس پر جمع ہو جائے‘ وہ اپنے اصل کام کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اِس وحدت ہی کے ٹکڑے اُڑا دینے پر تل گئی ہے۔ وہ مامور تواِس خدمت پر تھی کہ دُنیا سے اُن اسباب کو ختم کر دے جس کی وجہ سے انسان انسان کو ہیچ سمجھتا ہے‘ اچھوت سمجھتا ہے‘ قابلِ نفرت سمجھتا ہے‘ حقیر و ذلیل سمجھتا ہے‘ اور خدا کی زمین کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے جہنم بنا دیتا ہے۔ اُس کا مشن تو یہ تھا کہ دُنیا کو ایک خدا کی بندگی‘ ایک قانونِ برحق کی پیروی‘ اور ایک عالم گیر برادری میں جمع کرکے ظلم کی جگہ عدل‘ جنگ کی جگہ امن‘ نفرت و عداوت کی جگہ خیراندیشی اور محبت قائم کرے اور نوعِ انسانی کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائے جس طرح اس کے ہادی و رہنما محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے‘ لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی قوتیں آپس کے تفرقے برپا کرنے پر صرف کر رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے دل چسپ مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اس کے افراد اور گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور مخالفت کو بڑھا کر نفرت و عداوت کی حد تک لے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ رائے اور علم و تحقیق کا اختلاف تو رحمت بن سکتا ہے اور سلف صالحین میں وہ رحمت ثابت بھی ہوا ہے‘ لیکن اب اس اُمت میں اختلاف کے معنی مخالفت کے ہوگئے ہیں اور کسی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوجانے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ آدمی پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جائے‘ یہاں تک کہ اُس کی تحقیروتذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اور جو کہیں اختلاف مذہبی نوعیت کا ہوجائے تو پھر اسے جہنم کے دروازے تک پہنچائے بغیر دم لینا حرام ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جن کے لیے وحدت کا اِتنا بڑا سامان کیا تھا اُن کے لیے اب تفرقے کے سارے دروازے کھل گئے ہیں اور وحدت کے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسجدیں الگ ہوگئی ہیں۔ ایک مسجد میں دوسرے مسلک کا آدمی نماز پڑھ لے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو۔ ایک گروہ کا آدمی دوسرے گروہ کے آدمی سے مصافحہ تک کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ گندا نہ ہو جائے۔ اناللّٰہِ وانا الیہ راجعون!

یہ سب کچھ اُسی چیز کا نتیجہ ہے جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں کہ مختلف لوگوں نے توحید اور دین و شرع میں نئی نئی چیزوں کی آمیزش کی ہے‘ اصل دین کے عقائد و احکام میں کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا ہے۔ جو چیزیں اہم نہ تھیں اُنھیں اہم ترین بنایا ہے اور جو اہم تھیں انھیں غیراہم بنا دیا ہے اور پھر انھی آمیزشوںاور اِسی کمی وبیشی کو مدارِ ایمان قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف گروہ آپس ہی میں برسرِپیکار ہوگئے ہیں۔ اس حالت میں ہدایت سے بیگانہ انسانوں کو حق کی دعوت دے کر‘ اِس عالم گیر برادری میں شامل کرنا تو الگ رہا جو اس برادری میں پہلے سے شامل ہیں خود انھیں بھی اس سے خارج کرنے کا کام کارِثواب سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں غیرمسلموں کے لیے ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مستشرقین کو  یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ یہ اُمت سرے سے کوئی اُمت ہی نہیں ہے۔ اِس وقت اشاعت ِ اسلام کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری یہی حالت ہے۔ خدا ہم پر رحم فرمائے  اور ہمیں راہِ راست دکھائے۔ آمین! (عیدالاضحی کے موقع پر تقریر‘ ۲ دسمبر ۱۹۷۶ئ‘ منصورہ‘ لاہور)

اللہ کا دین اوّل تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیّہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے‘ اُن منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں۔ اِن تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اِس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمۂ کفروضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیروصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدّعا حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو دین کا اصل مدّعا ہے۔

اسی لیے دین میں امامت ِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان     اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے‘ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خرُوج اختیار کرے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت ِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے‘اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے‘ لہٰذاجو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتاہے؟ جہاد‘ نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے۔ اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے‘ پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟…

اسلام کے نقطۂ نظر سے امامت ِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو‘ اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اِس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے‘ اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد ِاعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ایسی جماعت صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے‘ باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دُنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔

رُوے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیںہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہوجائے یا اہون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘ بلکہ اُس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اُس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سُن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اِس سے لاکھ درجہ بہترہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دُنیا کو مرغوب ہوں‘ اور اُن راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصد ِعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کردے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔

حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعے سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے‘ اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ ص ۹-۱۳)