سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


کام کی راہیں

سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا ‘ اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا‘ ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدے و مسلک کی      علم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگروہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو‘ جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں‘ زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جوانڈونیشیا اور ملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کوئی اورکرشما دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔

آزاد مسلم ممالک کی حالت

اب اسی مفروضے پر کہ دنیاے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے‘ ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں‘ اور جس حال میں یہ ہیں‘ اس کے اسباب کیا ہیں؟

آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود‘ عقلی انحطاط‘ اخلاقی زوال اور مادّی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دوچار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔   مگر پے درپے شکستیں کھا کھا کر اُن کا حال غلاموں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔

مغربی استعمار کے ثمرات

مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے‘ تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں‘ یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا‘ خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور ۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف‘ اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ‘ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی‘ اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔

مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں‘ ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں‘ یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ ء عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے‘ مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے‘ ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ‘ ان کی ثقافت کے اطوار‘ حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی‘ الحاد‘ عصبیت ِ جاہلیہ‘ قوم پرستی‘ اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا‘ اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے‘ اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ  نہیں ہیں۔

مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں‘ اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے انھی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔

اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں‘ کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے‘ یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے‘ اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی‘ کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا‘ سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔

چند نمایاں پہلو

استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ انھیں نظرانداز کر کے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھاجاسکتا۔

اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے‘ اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا‘ لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی  من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص   نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے اُن کی پشتیں گزر چکی ہیں‘ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لاچکی ہو‘ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں‘ کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں۔ اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور    زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے‘ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی‘ اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے ‘ لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔

چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی‘ اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑاہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہو رہی ہے بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی‘ وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدّن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار‘ آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں‘ مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہرادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔

یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں‘ ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ  وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔

حکمرانوں اور عوام کی کش مکش کا نتیجہ

اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت ‘ جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے‘ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔

ابتداًء کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں‘ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں‘ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروںپر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپرآتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علم بردار ہوتا ہے۔

اُمید کی کرن

ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیںمجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کاکید ] چال[ ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں‘ وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں‘ اور اس امرکے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔

کام کی راہیں

اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے…

اسلام کا صحیح علم :

ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔

اپنی اخلاقی اصلاح:ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے‘ اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے ‘ نہ مخلص مانا جاسکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے‘ اُن پر عامل ہونے کی‘ اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے‘ ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔

مغربی تہذیب و فلسفہ پر تنقید:

اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے‘ اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے‘ اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کواختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروںسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر‘ جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے‘ اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ ایک کثیرتعداد اُن لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے‘ آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے ‘ اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔

تنظیم:

دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں‘ ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔

عمومی دعوت:

اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا‘ اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے‘ بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں‘ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔

صبروحکمت:

انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے‘ اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی‘ اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ اُمید کی جا تی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں‘ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔

مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب:

اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی اصل میں بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔

ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخرکیجیے‘ اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔

یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱-۳۶۳)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یہ مضمون آج سے ۸۲ سال پہلے ۲۲ جون ۱۹۲۰ء کے روزنامہ زمیندارلاہور میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت برطانوی استعمار مسلم دنیا کے حصے بخرے کرنے میں مصروف تھا۔ آج پس کردار امریکہ (برطانیہ کے تعاون سے) انجام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس خطرناک کھیل کا سب سے عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ سامراجی قوتیں مسلمانوں کو بانٹنے اور ان میں سے کچھ کو دوسروں کے تعاون یا کم از کم خاموش تائید سے مغلوب کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ یہ کھیل ۵۰۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور جو بڑے دانش ور بنتے ہیں وہ یہ فلسفہ بگھارنے سے نہیں تھکتے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ ہم ’’دوستوں‘‘کی پناہ میں رہیں گے۔ تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ اس سے کم ہی لوگ سبق سیکھتے ہیں۔ جو سبق سیکھ لیتے ہیں وہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آج شرق اوسط کے نئے نقشے (restructuring) کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے وہ اس سے مماثل ہے جو سو سال پہلے دولت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے لیے کیا گیا تھا‘ افغانستان اور عراق اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہیں۔ سید مودودیؒ کا یہ مضمون ان کی بالغ نظری اور تاریخی فہم کا شاہکار ہی نہیں آج کی اُمت مسلمہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی ایک تازیانے سے کم نہیں۔ یہ مضمون سید مودودیؒ نے اس وقت لکھا تھا جب وہ ۱۷ سال کے نوجوان تھے۔ (مدیر)

ایک ترک مدبر کا یہ قول کتنا صحیح اور مبنی برحقیقت ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حُسنِ ظن نے پہنچایا‘‘۔

۱۵۸۷ء میں جب اسپین کا بادشاہ فلپ ثانی اپنا عظیم الشان بیڑہ لے کر انگلستان پر  حملہ آور ہو رہا تھا تو ملکہ الزبتھ نے سلطان مراد سے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ مدد کی درخواست کی تھی۔

’’اگر حضور والا اپنی عظیم الشان سلطنت کی پوری بحری طاقت بھیجنے پر تیار نہیں تو خدارا ساٹھ ستر ہی جنگی جہاز بھیج دیجیے تاکہ اسپین کے اس بت پرست بادشاہ کو سزا دے جو پوپ اور تمام بت پرستوں کی مدد کے غرور پر انگلستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور پھر اس کا ارادہ ہے کہ انگلستان کو فتح کرکے جناب کی مملکت پر حملہ کرے اور دنیا کا بادشاہ بن جائے۔ اگر آلِ عثمان کا پرشکوہ فرماں روا اور انگلستان کی ملکہ‘ اسپین کی بڑھتی ہوئی ہوس کو دبانے کے لیے متحد ہوجائیں تو نہ صرف اس کا مغرور بادشاہ‘ بلکہ روما کا بت پرست پوپ اور اس کے تمام گمراہ ساتھی تباہ ہو جائیں گے۔ خداوند اپنے نیک بندوں کا محافظ ہے اور وہ ضرور دولت ِ عثمانیہ اور انگلستان کے ذریعے سے دنیا کو بت پرستوں کے وجود سے پاک کر دے گا‘‘۔

اس واقعہ سے تین صدی بعد ہی جب آلِ عثمان کے اس پُرشکوہ بادشاہ کی اولاد کی حالت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو خدا کی قدرت کا عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ اسی آلِ عثمان کے شہنشاہ کو اسی ملکہ الزبتھ کے فرزند درئہ دانیال لے کر‘تھریس لے کر‘ آبنائے باسفورس لے کر اگر قسطنطنیہ میںرہنے کی اجازت دیتے ہیں تو لارڈ چمسیفرڈ کے نزدیک یہ بھی ’’ان کا ایک احسان ہے‘‘۔

کیا ہم سامراجیوں کو اپنا دوست سمجھ سکتے ہیں؟

ترکی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا وتعزّمن تشاء وتزلّ من تشاء کی صداقت پر سب سے زیادہ مضبوط ایمان رکھنے والا ہوگا۔ ترکی کی بدقسمتی کا آغاز تو اٹھارہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا۔ اور اس ’’مردبیمار‘‘ کے لیے ڈیڑھ دو سو برس پہلے سے ہی یورپ سے نکل جانے کا نسخہ تجویز کیا گیا مگر واقعہ یہ ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا‘ جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حسنِ ظن نے پہنچایا ہے‘‘۔

پیٹراعظم اور نکولس تو ترکوں کو یورپ سے نکل جانے کی نصیحت کرتے مرگئے۔ مگر آج الزبتھ کے فرزندوں نے محب ِ شفیق اور رفیقِ صمیم بن کر انھیں نہ صرف یورپ سے بلکہ دنیا سے نکل جانے کا پیام سُنا دیا ہے۔

لیکن یہ عجیب معمّہ ہے کہ ترکوں کی عظیم الشان سلطنت کو ریاستِ نظام بنا کر بھی انگریز اپنے آپ کو ترکوں کا دوست کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ اینگلو انڈین کو تو جب کبھی اس لڑائی اور اس تباہی کا الزام ترکوں پر رکھنا ہوتا ہے تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ دیتا ہے کہ ’’ہم ترکوں کے ہمیشہ دوست بنے رہے۔ مگر انھوں نے ہم سے دشمنی پیدا کی‘‘--- لیکن صداقت اور سچائی کے جنازے پر مجھے بہت آنسو بہانے کی ضرورت ہوئی جب میں نے لارڈ چمسیفرڈجیسے ذمہ دار شخص کی زبان سے یہ سُنا کہ ’’اس جنگ سے پہلے انگریزوں کے تعلقات ترکوں سے نہایت دوستانہ رہے ہیں‘‘۔ تعجب ہے انگلستان کا اتنا بڑا آدمی جسے ملکِ معظم نے ہندوستان پر اپنا نائب بناکر بھیجنے کے لائق سمجھا‘ اس تہذیب و تمدن کے زمانے میں ایسی شدید بے باکی سے اتنا صاف جھوٹ بول سکا۔میں یقین نہیں کرسکتا کہ لارڈ چمسیفرڈ نے دوستی کا لفظ اسی مفہوم کے لیے استعمال کیا ہے جو اس لفظ کے لیے ہمارے دماغوں میں ہے۔ کیا کریمیا میں ساتھ دینے کے ایک دو سال بعد ہی جدّہ پر گولہ باری کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا عہدنامہ سین سٹی فانو کی سختیوں کو کم کرانے کا وعدہ کرکے خود قبرص لینے اور آسٹریا کو بوسنیا اور ہرذی گونیا دلوانے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا محمدعلی والی ٔ مصر کی بغاوت میں اسکندریہ پر گولہ باری کرانے اور تمام مصر پر قبضہ کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہماری مصطلحاتِ سیاست سے ناآشنا زبان میں دوست اور دوستی کی تعریف اس سے جدا ہے۔ مگر برطانوی لغت میں دوست اسی کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا    ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

اس دوستی کا مفہوم ہمیشہ کے لیے سمجھ لیجیے

انگریزوں کی اسی دوستی کی حیرت انگیز تاریخ اگر لکھنا چاہوں تو شاید کئی جلدوں میں تیار ہو۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ وثائق و حقائق کے دفتر سے انگریزی دوستی کی پوری تشریح کر دوں‘ تاکہ آیندہ اگر کسی انگریز کے منہ سے ’’دوستی‘‘ کا لفظ نکلے تو لوگوں کو اس کے سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔

یہاں میں اٹھارہویں صدی سے آخری جنگ روس تک کے چند واقعات پیش کرتا ہوں۔

ہر شخص جانتا ہے کہ روس ابتدا سے ترکوں کا جانی دشمن رہا ہے۔ اس دشمنی کا جوش پیٹر کے بعد اس کی بیوی کتھرائن میں بہت زیادہ موجزن تھا۔ اس کو مشیروں نے مشورہ دیا کہ اب تک تو ترکوں پر بّری حملے کیے گئے تھے۔ مگر اب ایک بحری حملہ بھی کرنا چاہیے۔ چنانچہ تجویز ہوئی کہ بحیرئہ بالٹک سے یورپ کا چکر کاٹ کر بحیرئہ روم میں جہاز داخل کیے جائیں اور درّۂ دانیال پر حملہ کرکے قسطنطنیہ چھین لیا جائے۔ انگریز اس تجویز کے حامی تھے اس لیے یہ رائے قرار پائی کہ روسی بیڑہ انگلستان کی بندرگاہ میں جاکر جملہ سازوسامان سے آراستہ کیا جائے اور کپتان اور ملاح بھی وہیں سے حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ فوراً تیاریاں شروع ہوئیں اور روسی جہاز انگلستان پہنچ گئے۔ یہاں بیڑہ تیا رکیا گیا۔ امیرالبحر انفنسٹن اور بہت سے انگریزی کپتان اس پر سوار ہوئے اور انگریزوں ہی کی مدد سے یہ جہاز اتنا طویل سفرطے کر سکے۔

انگریزی حکومت نے اسپین اور فرانس کی حکومتوں کو لکھ دیا کہ اگر ترکوں کی حمایت میں تم نے اس بیڑے کو کوئی نقصان پہنچایا تو پہلے سے اعلانِ جنگ قبول کرلو--- آخر انگریزوں کی کوشش سے یہ بیڑہ ۱۷۶۹ء میں بحیرئہ روم میں داخل ہوا۔ اور ۱۷۷۰ء کی ابتدا میں شام کے سواحل پر پہنچ گیا۔ قسطنطنیہ پر حملہ نہ کیا جا سکا۔ لیکن محض انگریز افسروں کی ہوشیاری سے نہ صرف یہ بیڑہ بچ کر نکل گیا بلکہ بندرچشمہ پر تمام ترکی بیڑہ صرف انھی کی چالاکی سے تباہ ہو گیا۔ ورنہ روسی امیرالبحر اورلوف تو تمام بیڑے کو خطرے میں ڈال چکا تھا۔

تمھارا معبود صرف پیسہ اور تمھارا مذہب صرف طمع ہے

اس جنگ کا سلسلہ عرصہ تک جاری رہا۔ فرانس ترکوں کی مدد کرنا چاہتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح ترکی کی حمایت کا موقع مل جائے مگر انگلستان کی مخالفت کا ڈر تھا اس لیے مجبوراً خاموش رہا۔

لڑائی میں برابر نقصان اٹھانے اور زیادہ طویل عرصہ تک سلسلہ جنگ جاری رہنے سے بیزار ہوکر وزراے عثمانیہ نے خفیہ طریقہ سے آسٹریا سے مصالحت کرانے کی درخواست کی۔

آسٹریا نے ابھی کچھ جواب نہ دیا تھا کہ انگریز فوراً حَکم بننے کے لیے تیار ہو گئے اور ثالث بننے کی درخواست کر دی۔ انگلستان کی اس درخواست پر وزیراعظم ترکی نے جو جواب دیا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ وزیراعظم نے لکھا:

’’باوجودیکہ انگریزی جہاز اور فوجیں روسی بیڑے میں شامل ہیں انگریزوں کو ثالث بنتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ثالث بن کر وہ ہم کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔

اس سلسلہ کے ایک طویل مراسلہ میں وزیراعظم نے لکھا:

’’دوسری عیسائی قومیں تو کچھ نہ کچھ سچی بھی ہیں۔ مگر انگریزوں کے قول و فعل کا توکسی طرح اعتبارہو ہی نہیں سکتا‘‘۔

اس مراسلہ کے آخر میں اس نے لکھا ہے:

’’تمھارا معبود صرف پیسہ ہے۔ تمھارا مذہب صرف طمع ہے اور بس--- تم نے عیسائیت کو محض دھوکابازی کے لیے ایک آڑ بنایا ہے جو تمھاری مکّاری و بدنیتی کی پردہ دری کر رہی ہے‘‘۔

اس حملہ کی تجویز روسیوں کی تھی اور جہاز بھی زیادہ تر روسی تھے‘ اس لیے مجبوراً اسے روسیوں ہی سے منسوب کرنا پڑتا ہے لیکن درحقیقت اسے انگریزی مہم کہنا چاہیے۔ کارآمد افسر انگریز تھے۔ اس زمانہ کا بہترین سامان جنگ انگریزی تھا۔ پورا سفر صرف انگریزی کوششوں سے ہوسکا اور کامیابی محض انگریزوں کی بدولت ہوئی۔ پھر اس حملہ کو انگریزی حملہ کہنے میں کون سی چیز مانع ہے۔

اعلانِ جنگ کے بغیرآغازِ جنگ کی مثالیں

سرویا کے معاملات میں دل چسپی لینے اور برابر غاصبانہ ارادوں سے دلاشیا اور مالڈیویا کے حکام اعلیٰ سے بغاوت کراتے رہنے کی وجہ سے روس اور ٹرکی کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔ روس نے جو مطالبات پیش کیے تھے وہ دلاشیا اور مالڈیویا سے ٹرکی کے اقتدار کا بالکل خاتمہ کرنے والے تھے--- انگریز اس وقت بھی روس کے ساتھی تھے یعنی لارڈ چمسیفرڈ کی زبان میں ترکوں کے ’’دوست‘‘ تھے اور روسی سفیرکے ساتھ معاملات طے کرانے کے لیے انگریزی سفیرآرتھ ناٹ بھی قسطنطنیہ آیا ہوا تھا۔ سفراء بابِ عالی سے گفتگو کر رہے تھے اور ابھی کوئی تصفیہ نہ ہوا تھاکہ روس نے بلااعلانِ جنگ دلاشیا اور بالڈیویا پر حملہ کر دیا اور باقی صوبوں پر تصرف کرکے بلغاریہ کی طرف بڑھنے لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ حرکت بالکل خلافِ آئین اور سخت وحشیانہ تھی۔ روسی سفیرنے بہت افسوس کا اظہار کیا اور قسطنطنیہ سے چلا گیا۔ مگر انگریزی سفیرنے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دولت ِ عثمانیہ کے سامنے چند عجیب و غریب شرطیں پیش کیں۔ مثلاً:

۱- نپولین کے سفیرکو (جو روس کے مقابلہ میں دولت ِ عثمانیہ کو بہت ہمت دلا رہا تھا) قسطنطنیہ سے نکال دو۔

۲- مالڈیویا اور دلاشیا روس کو دے دو۔

۳-  درّہ دانیال کے قلعے اور توپ خانہ ہمیں دو۔ ورنہ ہم قسطنطنیہ پر حملہ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔

باب عالی کے وزیرخارجہ نے نہایت ضبط و تحمل کے ساتھ ان شرائط کو سُنا اور جواب دیا:

’’آپ کو انصاف سے کام لیناچاہیے۔ روس نے بلااعلانِ جنگ ہمارے ملک پر حملہ کر دیا اور برابر خلاف آئین و خلافِ تہذیب حرکات کررہاہے۔ مگر ہم صرف امن کی خاطر یہ سب ذلّتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جلالت سلطانی نے دلاشیا اور مالڈویا کے باغی گورنروں کو محض امن کی خاطر بحال کرنے کی بھی ذلّت گوارا کر لی ہے۔ مگر پھر بھی روس اپنی حرکات سے باز نہیں آتا۔ لہٰذا اب ہم اعلانِ جنگ پر مجبور ہیں۔ اور ہمارے اُوپر فرض ہے کہ اپنی حفاظت کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ انگریز ہماری امن پسندی اور صبروتحمل کی ضرور قدر کریں گے۔ لیکن اگر وہ اس صریح خلافِ آئین ظلم کے بعد بھی روس کی مدد پر آمادہ ہیں تو ہم مدافعت کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اور اگر ترکی کی قسمت میں بربادی ہی ہے تو یقین رکھو کہ وہ آخر وقت تک اپنی عزت کے لیے لڑتا رہے گا‘‘۔

اس کے بعد مزید نامہ و پیام نہایت تہدید آمیز انداز میں ہوتا رہا اور آخرکار جنوری ۱۸۰۷ء کو انگریزی بیڑہ امیرالبحرڈک ورتھ کے ماتحت طمنی ڈرس پہنچ گیا۔ ۱۹ فروری کو عین عیدالفطر کے دن جب کہ ترک عید کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ انگریزی بیڑہ کسی اعلانِ جنگ کے بغیر درّہ دانیال میں داخل ہو گیا۔ یہ وقت دولت ِ عثمانیہ کے لیے بہت نازک تھا۔ انگریزی بیڑہ جزائر شہزادگان تک پہنچا۔ وہاں ٹھہر کر انگریزی سفیرآرتھ ناٹ نے دوبارہ اپنے مطالبات باب عالی کے پاس بھیجے اور دھمکی دی کہ انھیں قبول کرلو ورنہ قسطنطنیہ پر گولہ باری کی جائے گی۔ سلطان کو وزرا نے مشورہ دیا کہ فرنچ سفیرکو دارالخلافہ سے چلے جانے کا حکم دیا جائے۔ مگر فرنچ سفیر نے اس کی نہایت شدومد کے ساتھ مخالفت کی اور سلطان کے سامنے ایسی پُرجوش تقریر کی کہ سلطان نے فوراً مدافعت کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور دیکھتے دیکھتے تمام سامان تیار ہو گئے۔ انگریزی امیرالبحر نے جب دیکھا کہ قسطنطنیہ تو خطرے سے نکل گیا مگر ہم مصیبت میں پھنس گئے تو وہ فوراً درّہ دانیال سے بھاگا۔ مگر پھر بھی اس کے چند جہاز غرق کر دیے گئے۔ درّہ دانیال میں کافی نقصان اُٹھا کر انگریزی بیڑہ مالٹا چلا گیا اور کوشش شروع کر دی کہ ترکوں کے کسی اور صوبہ پر حملہ کا موقع ہاتھ آجائے۔

اس زمانہ میں محمدعلی پاشا اور مملوکیوں کے درمیان مصر میں لڑائی ہو رہی تھی۔ انگریزوں کی تاریخ میں ایسے موقعوں پر فائدہ نہ اُٹھانے کی منحوس مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ وہ فوراً پانچ ہزار سپاہی لے کر اسکندریہ اور اسے فتح کرکے قاہرہ کی طرف بڑھے۔ محمد علی پاشا مقابلہ کے لیے نکلا اور پے درپے شکستیں دیتا ہوا اسکندریہ تک پسپا کرتا چلا گیا۔ وہاں چند مہینے محصور رہے اور بصد حسرت و یاس ڈیڑھ ہزار جانیں لے کر رخصت ہو گئے۔

عدن پر قبضہ

۱۸۴۱ء میں محمد علی پاشا نے خود سلطان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور اس کی فوجیں قسطنطنیہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر رہ گئیں۔ سلطان محمد مرحوم نے مجبوراً بہت کمزور شرائط پر صلح کرلی۔ دوبارہ چند ہی برسوں کے بعد اس نے پھر ۱۸۳۹ء میں بغاوت کی اور خراج دینے سے انکار کر دیا۔ اور روضہ نبوی پر سے ترکی محافظین و خدام کو علیحدہ کرکے مصریوں کو مقرر کیا۔ سلطان عبدالمجید مرحوم حرم کا تصفیہ کرنے اور تمام حرکات سے چشم پوشی کرنے پر تیار ہو گئے تھے کہ دول عظمیٰ نے انھیں روکا اور مدد کا وعدہ کیا--- دول کے ساتھ انگریزوں نے بھی فوجی مدد کا وعدہ کیا تھا لیکن فوراً ہی اپنے اس وعدے کی قیمت میں عرب کی بہترین بندرگاہ عدن پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہ واقعہ ایک روسی جنرل نے عجیب و غریب لکھا ہے:

’’انگریزوں کو ہندوستان کے راستہ میں ایک بحری مستقرکی ضرورت تھی۔ اس کے لیے عدن سے بہترین مقام اور کون سا ہو سکتا تھا۔ اس کے حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے جو تدبیر استعمال کی‘ اس کی نظیر صرف انھی کی تاریخ میں مل سکتی ہے۔ انھوں نے ایک انگریز کمپنی کے جہاز کو عدن کے قریب سمندر میں غرق کر دیا۔ اور پھر فوراً اس کی حمایت کے لیے پہنچ گئے۔ جہاز کے غرق ہونے کا الزام عدن کے عربوں پر لگایا اور شیخ یمن کو گولہ باری کی دھمکی دی۔ وہ بے چارہ اس آفت سے سہم گیا اور مجبوراً تاوانِ جنگ جیب میں رکھ کر ان حضرات نے شیخ کو عدن کی فروخت پر آمادہ کر لیا اور بہت سی رقم کا لالچ دے کر بیع نامہ لکھوا لیا۔ جب قیمت ادا کرنے کا وقت آیا توشیخ کی خاص مُہرکسی طرح چُرا کر یا چوری کرا کے رسید پر لگا لی اور قانوناً شیخ کو ایک پیسہ دیے بغیر عدن پر قبضہ کر لیا۔ سلطان ترکی اس وقت اپنی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے‘ عدن کی کیا فکر کرتے‘‘۔

اس واقعہ کی صحت و عدم صحت کا ذمّہ دار تو جنرل فیڈروف ہے لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عدن پر انگریزی قبضہ آج بھی موجود ہے۔

متحدہ مجلس عمل کے ایوانِ حکومت میںپہنچنے سے کارکنوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ منشورِ عمل ہر سطح پر بہترین کوششوں اور موثر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ (ادارہ)

تمام جماعتوں‘ حلقہ ہاے متفقین اور دوسرے کارکنانِ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسب ِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔

۱-  جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا: اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے‘ عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا‘ آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا‘ خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا‘ اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر‘ تقریر‘ تعلیم‘ زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔

۲- مساجد کی اصلاحِ حال: اس میں مسجدوں کی تعمیر‘ ان کی مرمت‘ ان کے لیے فرش‘ پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی‘ نیز اذان‘ نماز باجماعت‘ امام‘ درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔

۳- عوام میں علمِ دین پھیلانا: ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں‘ مذاکرات‘ تقاریر‘ خطبات‘درس‘ اجتماعی مطالعہ‘ تعلیمِ بالغاں‘ دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴-  نیکی کی قوتوں کو منظم کرنا: غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا‘ عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا‘ شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔

صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم‘ بے باک‘ جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار‘ پست ہمتی‘ بزدلی اور کمزوری کے  ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم‘ بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔

۵-  عوامی مسائل کی داد رسی: سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرنا۔

۶- بستی کے یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور      بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔

۷-  دیہات اور محلوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادے کا شوق پیدا کرنا۔

۸-  فواحش کی روک تھام : ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔  فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے‘ مثلاً قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ ]ٹیلی ویژن پر فحش گانے اور بے ہودہ پروگرام[‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔

۹-  سرکاری اداروں اور حکام و کارکناں کی بہتری کے لیے اقدام: رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی ‘فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔

اس غرض کے لیے ان حلقوں میں  اسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمہ داریاں ا ور اوصاف ]از مولانا امین احسن اصلاحی[کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں‘ تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ‘ احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔

۱۰-  مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد: اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔

۱۱-  بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش: اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو‘ اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ‘ ص ۲۰-۲۴)

 

سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……

اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔

یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔

اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔

ذرائع ابلاغ کی اصلاح

سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور   بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔

اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔

عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔

پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔

پہلے اصلاح پھر سزا

اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِ کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلے محلے ‘ بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرز زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہوگا۔

اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور  غم گسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنا پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو‘ زکوٰۃ فرض ہو‘ حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان‘ اخلاق‘ تعلیم‘ انصاف‘ اصلاح معیشت‘ اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔

لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتاہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام ‘ ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جا تا ہے--- اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے (نبیؐ کا نظام حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ‘ ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو: ناصر قریشی‘ ص۱۷-۲۱)۔

 

اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصرکو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے۔ کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے‘ مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تومایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے‘ مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے‘ مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جوصالح عناصر اس اخلاقی وباسے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بہ ظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں‘ اگران کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی‘ انصاف‘ حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو‘ اور اگر وہ مسائل زندگی کا ایک بہتر حل اور دُنیا کے معاملات کو درست طریقے پرچلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں‘ تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیاجا سکتا ہے‘ اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے‘ اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں‘ اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اوربدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انھیںاپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیںاور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم بردارانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں‘ اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ‘ ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی‘ اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے‘ آخری جیت بہرحال سچائی ‘ پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دُنیا اس قدر بے حِس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔ (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۸۵-۲۸۸)

 

]مخلوط انتخاب کے نفاذ کے لیے[اگر کسی مصلحت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا طریقہ رائج کرنے سے مختلف عناصرآبادی کے احساسِ اختلاف کو دبانا‘ ان کے امتیازی نشانات کو مٹانا‘ اور انھیں بتدریج ایک قومیت میں تبدیل کرنا مطلوب ہو۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز اوّل تو ہمیں مطلوب ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے تو اُس طریقے سے مطلوب نہیں ہے جس سے مخلوط انتخاب کے حامی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ اختلاف جس چیز کا نتیجہ ہے وہ دین کا اختلاف ہے۔ اسی چیز نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان    خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی نے ان کے اصول‘ مقاصد‘ نظریات اور طرزِ حیات ایک دوسرے سے جدا کیے ہیں۔ اسی نے ان کے معاشرے الگ کیے ہیں اور ان کو الگ ملتوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم ہم وطن مسلم ملّت میں جذب ہو جائیں۔ یہ بلاشبہ ہمیں مطلوب ہے‘ مگر اس مقصد کو ہم مخلوط انتخاب جیسے سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرسکتے۔ کسی شخص کو اسلام کے اصول پسند ہوں تو وہ سیدھے طریقے سے آئے اور ہماری ملّت میں شامل ہو جائے۔ ورنہ جس ملّت میں بھی رہنا چاہے‘ رہے‘ ہم اس کے تمام وطنی حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کریں گے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی چال بازیوں سے کام لینا ہمارے لیے حرام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مخلوط انتخاب کے حامی بھی اس کو حلال تسلیم نہ کریں گے۔

اب رہ جاتی ہے اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی دوسری صورت اور وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے اسلام اور غیر اسلام کے فرق ہی کو مٹا دیا جائے اور دین کو تہذیب و تمدن سے بے دخل کر کے ایک ایسے مشترک لادینی کلچر کو نشوونما دیا جائے جو ایک متحدہ وطنی قومیت کی بنیاد بن سکے۔ یہ چیز اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے مخلوط انتخاب محض پہلا قدم ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد لازمی طور پر دوسرا قدم لادینی دستورِ مملکت ہی ہونا چاہیے۔ اور پھر آیندہ اس مملکت کی ساری پالیسی یہ قرار پانی چاہیے کہ وہ عقیدے اور عبادات کے سوا زندگی کے باقی تمام شعبوں سے دین کے ایک ایک نشانِ امتیاز کو محو کر دے‘ حتیٰ کہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادی بیاہ تک کی ہمت افزائی کرے تاکہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے درمیان وہ معاشرتی علیحدگی باقی نہ رہے جو عملاً ان کو الگ الگ ملتوں میں منقسم کرتی ہے۔    ہم پوچھتے ہیں‘ کیا یہی چیز مخلوط انتخاب کے حامیوںکو مطلوب ہے؟ اگر یہ انھیں مطلوب ہے تو وہ اس کا صاف صاف اقرار و اعلان کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چند لادینی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو مستثنیٰ کرکے پاکستان کا ہر مسلمان اس تخیل پر لعنت بھیجے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر مجھے یہی کچھ کرنا ہوتا تو میرے لیے    اکھنڈ ہندستان کیا برا تھا۔ یہ مقصد تو وہاں بھی پورا ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے جان و مال کی اتنی قربانیاں دے کر   ایک الگ مملکت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ (مخلوط انتخاب‘ ص ۷-۱۱)

آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہِ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اُگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے‘ جن مادّوں سے یہ مرکب ہے اُن کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:

اولاً‘ زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادّوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔

ثانیاً‘ زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادّے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں۔

ثالثاً‘ اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے‘ جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں۔

رابعاً‘ سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔

یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزیدبرآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاری گری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حدوحساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ اُن بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا‘ دوا‘ لباس اور اَن گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنھیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا۔

اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم کی مناسبتیںنباتات کے ساتھ‘ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوش مند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثے کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خدائوں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ‘ ہوا‘ پانی‘ سورج‘نباتات‘ حیوانات اور نوعِ انسانی‘سب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع‘ ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔

توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے‘ اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنھوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ (آیت:  وَاٰیَۃٌ لَّھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ج ( یٓس ۳۶:۳۳)کی تفسیر‘  تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)

 

دستور میںدینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام ان کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصرہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بہ یک وقت کام کریں اور توازُن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر و تطہیر ‘ صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ و اثر بھی بڑھتا جائے‘ اور سیاسی نظام میں حامی ٔ دین عنصر کانفوذ و اثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر و تعمیرافکار اور تنظیم عناصرِ صالحہ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دیا جائے----

یہ لائحۂ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازُن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے‘ اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی‘ اور اس کے اجزا کے درمیان توازُن برقرارنہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔

کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اُسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اُتنا ہی بڑھاتے چلے جایئے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوتا جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اُس کے مطابق واقعی تغیررُونما ہو سکے۔

ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔ اِن میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں‘ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو‘ یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اِسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنا یا ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل‘ ص ۱۶۶- ۱۶۷‘  ۱۹۹-۲۰۰)


خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیا کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیںہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘تقویٰ صرف خدا سے ہو‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلّم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دُنیا میں اُن خرابیوں کااستیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔

یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے ‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضاے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صُدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘ ص ۵۲-۵۳)

 

۱- صداقت اور باہمی انصاف

اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے‘ وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو‘ دلائل کے ساتھ ہو‘ اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے‘ تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں‘ تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے‘ اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے‘ اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو مُتَّہَم ]برباد[کر ڈالے‘ اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔

اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے‘ بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں۔ اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔ اس سے معاشرے کی فضا میں تکدّر پیدا ہو جاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو  تو ہو‘ مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے جو اختلاف کے اس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو‘ ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری

دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے‘ اختلافات میں رواداری ‘ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش‘ اور دوسروں کے حق رائے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے‘ لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کر لینا‘ انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری رائے سے مختلف کوئی رائے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جا سکتی‘ لہٰذا جو بھی کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کر دیتی ہے‘ اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کر دیتی ہے‘ اور معاشرے کے مختلف عناصر کو جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے‘ اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک مدّتِ دراز تک معاشرے کے عناصر ترکیبی آپس کی کش مکش میں مبتلا رہیں اور اس وقت تک کوئی تعمیری کام نہ ہو سکے جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کر دے‘ یا پھر سب لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے۔

بدقسمتی سے ناروا داری اور بدگمانی اور خود پسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وباے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اس کے اربابِ اقتدار اس میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اس میں مبتلا ہیں۔ مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں۔اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں۔ اس کا مداوا صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں‘ اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعتِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجائے مثبت طرزِعمل

تیسری چیز جسے تمام اُن لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں‘ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجائے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے‘ مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیرہو‘ اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کر دی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں‘ اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اُس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے۔ یہ ایک نہایت غلط طریق کار ہے اور اس سے بڑی قباحتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے تعصبات اُبھرتے ہیں۔ اس سے عام بے اعتباری پیدا ہو جاتی ہے‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے عوام کو تعمیری طرز پر سوچنے کے بجائے تخریبی طرز پر سوچنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

یہ روش خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت میں تو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے‘ کیا کچھ بنانا چاہتا ہے‘ اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کر سکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجائے دوسروں کا اعتمادختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگاکہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہو سکے گا اور ساری قوم بن سری ہو کر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجائے دلائل

ایک اور بات جسے ایک قاعدئہ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے‘ یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں  پر زبردستی مسلّط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے‘ اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجائے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے‘ اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش‘ مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے‘ خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی‘ وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘بس طاقت کا استعمال کافی ہے۔ لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے‘ ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں‘ اور ان کو پرُامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔

پاکستان کے بااثر لوگ اگر واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو انھیں دھونس کے بجائے دلیل اور جبر کے ساتھ ترغیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘ اور اسی طرح پاکستان کے عام باشندے بھی اگر اپنے بدخواہ نہیں ہیں تو انھیں اس بات پر متفق ہو جانا چاہیے کہ وہ یہاں کسی کی دھونس اور زبردستی کو نہ چلنے دیں گے۔

۵- انفرادی عصبیّت کے بجائے‘ ملّی مفاد

اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہوناچاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا‘ یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا‘ یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے۔ مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہو جائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے برے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جس فرقے‘ قبیلے‘ نسل ‘ زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی‘ تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کر دیتا ہے‘ اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہو سکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

سیاسی جماعتوں کا مطلوبہ کردار:  ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہو کر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ’’ملک کی بھلائی‘‘ ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنا بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہر طرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجائے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطر کیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

اہم ترین بنیاد

یہ پانچ اصول تو وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کر لیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہو سکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو ‘ یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے تو وہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکے۔ اس کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ بنیادیں کیا ہو سکتی ہیں جن پر ایک صحیح مصالحانہ فضا میں زیادہ سے زیادہ اتفاق کے ساتھ ملک کا نظامِ زندگی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

ان میں ]اہم ترین بنیاد[ یہ ہے کہ قرآن و سنت کو ملک کے آیندہ نظام کے لیے منبع ہدایت اور اوّلین مآخذ قانون تسلیم کیا جائے۔ اس کو بنیادِ اتفاق ہم اس لیے قرار دیتے ہیں کہ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ اس بنیاد کے سوا کسی اور چیز پر راضی اور مطمئن نہیں ہو سکتے۔ اُن کا عقیدہ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی تہذیب اور قومی روایات اس کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور ان کی ماضی قریب کی تاریخ بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے لیے یہ گوارا کرنا سخت مشکل بلکہ محال ہے کہ جس خدا اور جس رسول پر وہ ایمان رکھتے ہیں‘ اس کے احکام سے وہ جان بوجھ کر منہ موڑ لیں اور اس کی ہدایات کے خلاف دوسرے طریقے اور قوانین خود اپنے اختیار سے جاری کریں۔ وہ کبھی اُن طریقوں کو جاری کرنے میں سچے دل سے تعاون نہیں کر سکتے اور نہ اُن قوانین کی برضا ورغبت پیروی کر سکتے ہیں جن کو وہ عقیدۃً باطل اور غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر آزادی کا جذبہ جس چیز نے بھڑکایا اور جس چیز کی خاطر انھوں نے جان و مال اور آبرو کی ہولناک قربانیاں دیں وہ صرف یہ تھی کہ انھیں غیر اسلامی نظام زندگی کے تحت جینا گوارا نہ تھا اور وہ اسے اسلامی نظام زندگی سے بدلنا چاہتے تھے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا بالکل بے جا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ بہ خوشی اُس اصل مقصد ہی سے دست بردار ہو جائیں گے جس کے لیے انھوں نے اتنی گراں قیمت پر آزادی خریدی ہے۔ بلاشبہ یہ ضرور ممکن ہے کہ اگر کوئی جابر طاقت زبردستی ان کے اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے اور اُن پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطہ ء حیات مسلط کر دے تو وہ اُسی طرح مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کر لیں جس طرح انگریزی تسلط واقع ہو جانے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا‘ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے اسے کامیابی کے ساتھ چلایا بھی جا سکتا ہے وہ یقینا سخت نادان ہے۔

(ترجمان القرآن‘ جولائی ۱۹۵۵ء)

ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی چیز سے منع کرتا ہے‘ یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی‘ اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ابتداً آدمی صرف کلمہ ٔ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو‘ بلکہ اس میں تنزل اور ارتقا دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اُس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے۔ اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو‘ اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سربلندی کے لیے لگن اور دُھن جتنی بڑھتی چلی جائے ‘ ایمان اُسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ یہاںتک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے‘ اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار و تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے‘ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پائو‘ یا یہ دگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ‘ اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابوحنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لایزید ولا ینقص ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۸۲-۸۳)۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o (الانفال ۸:۲)  سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔

یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سراطاعت جھکا دے‘ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف‘ اس کی رائے اور تصورات و نظریات کے خلاف‘ اس کی مانوس عادتوں کے خلاف‘ اس کے مفاد اور اس کی لذت و آسایش کے خلاف‘ اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا اور رسولؐ کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر لے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے‘ اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا ‘ اور اگر ا س نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔اور اسی طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقا بھی ہو سکتا ہے اور تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے‘ خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۳۰-۱۳۱)۔

]صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کیفیت کو یوں واضح کیا گیا:[

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِھِمْ ط (الفتح ۴۸:۴) وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔

’’سَکِینَت‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثباتِ قلب کو کہتے ہیں‘ اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اُس کے نازل کیے جانے کو اُس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اُس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اُتاری گئی اور کیسے وہ اِس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لیے مکۂ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا‘ اگر مسلمان اُس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے‘ یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفارِ قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں‘ اُس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی سازوسامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے‘ اور اِس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی‘ تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رُونما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رونما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا‘ اور جب انھوں نے چھاپے اور شب خون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی‘ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی‘ اور جب ابوجندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے‘ ان میں سے ہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آکر اُس نظم و ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں‘ اُس وقت اگر وہ حضورؐ کی نافرمانی کرنے پر اُتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر‘ دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا۔ اسی کی بنا پر انھوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔ اسی کی بنا پر وہ خوف‘ گھبراہٹ‘ اشتعال‘ مایوسی‘ ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میںپورا نظم و ضبط برقرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انھوں نے شرائطِ صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سرتسلیم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اُتاری تھی‘ اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔

]ایمان بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ[ ایک ایمان تو وہ تھا جو اِس مہم سے پہلے اُن کو حاصل تھا‘ اور اُس پر مزید ایمان اُنھیں اِس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمایشیں پیش آتی چلی گئیں اُن میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص‘ تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ اُن آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے‘ بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمایشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان‘ مال ‘ جذبات‘ خواہشات ‘ اوقات‘ آسایشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمایش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے‘ اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب

وہ ابتدائی سرمایۂ ایمان بھی خطرے میںپڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا  تھا  (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۴۵-۴۶) ‘ ( ترتیب و تدوین: امجد عباسی)۔

 

کامیاب زندگی کا کوئی تصور قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زندگی کا کوئی تصور قائم کر لیا جائے‘ کیونکہ اسی پر کامیابی کا تصور مبنی ہو سکتا ہے۔ ایک تصورِ حیات کے لحاظ سے ایک زندگی انتہائی کامیاب قرار پاتی ہے‘ تو دوسرے تصور حیات کے لحاظ سے وہی زندگی انتہائی ناکام ٹھہرتی ہے۔ دنیا کو ایک چراگاہ یا خوانِ یغما سمجھیے تو وہ شخص بہت کامیاب ہے جو اس تھوڑی سی مہلتِ عمر میں خوب عیش کرلے‘ اور وہ بڑا ہی نامراد ہے جو نفس و جسم کے ابتدائی مطالبات بھی اچھی طرح پورے نہ کر سکے۔ دنیا کو ایک رزم گاہ سمجھیے تو کامیاب آدمی وہ ہے جو اس کش مکش کے میدان میں سب کو روندتا کچلتا آگے بڑھتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ اس مقام پر جا پہنچے جہاں اس کے جیتے جی کوئی حریف اس کی آرزوئوں کی تکمیل میں مزاحم ہونے والا نہ رہ جائے اور اس کے برعکس وہ آدمی بالکل ہی ناکام بلکہ نکمّا ہے جو اپنی اغراض کے لیے کسی ایک بندئہ خدا سے بھی چھین جھپٹ نہ کرے اور سفرحیات میںکبھی دو ہمراہیوں کو بھی کہنی مار کر آگے نہ نکلے۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ حیات ان تصورات سے مختلف ہو تو کامیابی و ناکامی کے متعلق بھی آپ کا تصور ان سے مختلف ہو جائے گا۔ اتنا مختلف کہ آپ ان لوگوں کو سخت ناکام و نامراد سمجھیں گے جو ان تصورات کے لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں‘ اور ایسے لوگوں کو انتہائی کامیاب قرار دیں گے جو ان کے لحاظ سے قطعی ناکام ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کا کوئی ایک متعین معیار نہیں ہے جو دنیا بھر میں مسلّم ہو‘ بلکہ مختلف لوگوں کی نگاہ میں اس کے مختلف معیار ہیں اور ان معیاروں کے متعین کرنے میں فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو‘ اور اس دنیا کو جس میں وہ رہتا ہے‘ اور اس مہلت عمل کو جو اسے یہاں حاصل ہے‘ کیا سمجھتا ہے؟

طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔

زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدروقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں‘وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے‘ اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی بند‘ رشتے دار‘ دوست‘ ہمسائے‘ قوم‘ وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے‘ ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے‘ یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں‘ جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں‘ جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے‘ ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے‘ جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے‘ اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے‘ جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہواہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔

اس امتحان گاہ میں اصلی اہمیت اس چیز کی نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر‘ کس حیثیت میں امتحان دے رہے ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یہاں مزدور کی حیثیت سے اٹھ کر ایک بڑا کارخانہ دار‘ یا رعیّت کے مقام سے بلند ہو کر ایک بڑا فرماں روا بن گیا ہے‘ اس نے درحقیقت کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے بلکہ امتحان کے بہت سے زاید پرچے اس نے لے لیے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت وہ بہت زیادہ سخت پرچے لے کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں نمبر زیادہ پانے کے جتنے امکانات ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ناکامی کے خطرات بھی ہیں۔

یہ امتحانی تصورِ حیات جس شخص کا بھی ہو‘ اس کا معیار کامیابی و ناکامی لازماً دوسرے تصورات حیات رکھنے والوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی خدا کے اس امتحان میں ایک بندئہ وفادار و شکرگزار ثابت ہونا ہے۔ ایک ایسا بندہ ثابت ہونا ہے جس نے خدا کے اور بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک سمجھے اور ادا کیے ہوں۔ جس نے دل اور نگاہ‘ کان اور زبان‘ پیٹ اور جنسی قوتوں کو بالکل پاک رکھا ہو۔ جس کے ہاتھوں نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو‘ جس کے قدم بدی کی راہ پر نہ چلے ہوں‘ جس نے کم کمایا ہو یا زیادہ‘ مگر جو کچھ بھی کمایا ہو‘ حق اور راستی کے ساتھ کمایا اور جائز راستوں میں خرچ کیا ہو۔ جو امانتوں کا محافظ‘ قول و قرار میں سچا اور عہد و پیمان میں راسخ رہا ہو۔ جو بھلائی کا دوست اور برائی کا دشمن ثابت ہوا ہو۔ جسے اس کے خدا نے جس حیثیت میں بھی رکھا ہو وہاں اس نے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ سمجھا اور ادا کیا ہو۔ جس کا یہ حال نہ رہا ہو کہ بقول ظفر:

ع   جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

یہ کامیابی جس کو نصیب ہو گئی ‘ وہ بہرحال فائز المرام ہے‘ خواہ دنیا میں وہ نانِ جویں تک کو محتاج رہا ہو اور اس کا کوئی کارنامہ تاریخ کے صفحات پر ثبت نہ ہو۔ اس کے برعکس جو اس کامیابی سے محروم رہ گیا‘ وہ سخت نامراد ہے خواہ وہ دنیا کے سرمایہ داروں کی صفِ اوّل میں پیشوائی کا مقام حاصل کرگیا ہو‘ یا فاتحین عالم کا سرخیل ہی کیوں نہ ہو (۲ جولائی ۱۹۵۸ء)‘  (کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ:پروفیسر انوردل‘ مکتبہ جدید‘ لاہور‘ مارچ ۱۹۶۴ء‘ ص ۲۳-۲۷)۔