سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


درس قرآن سورئہ جمعہ (۲)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

قُلْ یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَـآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o (الجمعۃ ۶۲: ۶-۷) اِن سے کہو، اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

یھود کا باطل زعم

یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ دعویٰ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے:

وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّـآؤُہٗ ط (المائدہ ۵:۱۸) یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں۔

وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ط (البقرہ ۲:۸۰) اور وہ (یہودی) کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلا.ّ یہ کہ چند روز کی سزا     مل جائے تو مل جائے۔

آج بھی یہودی اپنے آپ کو خدا کے چہیتے (chosen people) کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی چُنیدہ مخلوق ہیں۔ اسی طرح وہ خود کو children of Godبھی کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی اولاد ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا کہ اگر تمھارا یہ زعم درست ہے کہ صرف تم اللہ کے ولی ہو اور کوئی دوسرا اللہ کی ولایت نہیں پاسکتا ہے اور جو قرب تمھیں اللہ کا حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے تو پھر تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔

موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب ہو، اور وہ بھی تمھیں چاہتا ہے تو پھر تمھیں موت سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ پھر تو تمھیں تمنا کرنی چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے خدا کے ہاں پہنچو تاکہ تم اس کا حقیقی قرب حاصل کرسکو اور اُن انعامات سے بھی محظوظ ہوسکو جو اس نے اپنے چنیدہ بندوں کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ جو آدمی حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے قرب رکھتا ہو اور فی الواقع اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو وہ موت سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں۔ اس کے لیے تو موت ایسی ہے جیسے اس کو وصالِ محبوب کا موقع مل رہا ہو۔ اس لیے یہ فرمایا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر تمھارے اندر موت سے گھبراہٹ کیوں ہے؟موت سے بھاگتے کیوں ہو؟ تمھیں تو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے رب کے پاس پہنچو لیکن اس کے برعکس قرآن کے الفاظ میں ان کا حال یہ ہے کہ: وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ، یعنی یہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے، ان اعمال کی وجہ سے جو وہ اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ اُن کے کرتوتوں کی بنا پر ان کے دلوں میں کبھی موت کی تمنا پیدا نہیں ہوسکتی۔ دوسرے الفاظ میں جو آدمی دنیاپرستی میں مبتلا ہو اور دنیا کے فوائد اور لذتوں کی طلب میں غرق ہو اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو، ایسا آدمی کبھی موت کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ تو موت کے تصور ہی سے بھاگے گا، کجا یہ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرے، کیوں کہ موت اس کے لیے وصالِ محبوب نہیں ہے بلکہ ہجرِ محبوب ہے۔ وہ دنیا کی محبت میں مرا جاتا ہے، وہ وصالِ محبوب کی طرف توجہ اور اس کی تمنا کیسے کرے گا۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o ’’اور اللہ تعالیٰ (ان) ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔

قُلْ اِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (۸) ان سے کہو، جس موت سے   تم بھاگتے ہو، وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔ پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

گویا تم موت سے خواہ کتنا ہی بھاگو اور کتنا ہی گھبرائو، اس کو تو اپنے مقررہ وقت پر لازماً آنا ہے، اور تم لازماً اپنے اُس رب کے سامنے پیش ہونے والے ہو جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، اور اپنے جن اعمال کی وجہ سے تم موت سے گھبراتے ہو، وہ سارے اعمال تمھارے رب کے علم میں ہیں۔ وہ تمھارے سارے اعمال تمھارے سامنے لاکر رکھ دے گا۔ اس وقت تمھارا کوئی باطل زعم اور جھوٹا دعویٰ تمھارے کسی کام نہ آئے گا۔ اس وقت تمھاری قسمت کا فیصلہ سراسر تمھارے اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔

نمازِ جمعہ کی فرضیت

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا ط الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم جانو۔

یہاں سے سورئہ جمعہ کا دوسرا رکوع شروع ہو رہا ہے۔ پہلے رکوع میں یہودیوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہلِ عرب کو وحشی اور جاہل سمجھتے ہیں، اُن کو اُمّی کہتے ہیں۔ وہ عام اہلِ عرب کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذباللہ) حقیر سمجھتے تھے۔ ان کے زعمِ باطل میں حضوؐر کو نبوت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پر فرمایا گیا: ہاں، ہم نے اسی قوم کے اندر اپنا نبیؐ مبعوث کیا ہے جو ان کے سامنے کتاب اللہ کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمھارے اس زعمِ باطل کے برعکس کہ عرب کے لوگ جاہل اور غیرمہذب ہیں اور تم حاملِ کتاب ہو لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ تم نے اس کتاب کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، اس لیے تمھاری مثال اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ خبر نہ ہو کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ دوسری طرف تمھارے اخلاق کا حال یہ ہے کہ تم دنیا پر مر مٹتے ہو، موت کے تصور ہی سے گھبراتے ہو اور دعویٰ یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے برگزیدہ اور چُنیدہ لوگ ہو، اور تم اللہ کو بہت محبوب ہو۔

ان کو حقائق کا آئینہ دکھانے کے بعد اب خطاب کا رُخ مسلمانوں کی طرف ہو رہا ہے اور نمازِ جمعہ کے حوالے سے ان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اللہ کی یاد کی طرف دوڑو۔

نماز کے لیے پکارے جانے سے مراد اذان ہے۔ قرآن مجید میں دو مقامات پر اذان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے۔ اس زمانے میں جن الفاظ میں لوگوں کو نماز کے لیے پکارا جاتا تھا اور آج بھی پکارا جاتا ہے، وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان نہیں کیے گئے ہیں، البتہ ان کی طرف دو مقامات پر اشارہ موجود ہے۔ ایک تو یہ مقام ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، اور دوسری جگہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا:

اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ط (المائدہ ۵:۵۸) جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ (اہلِ کتاب اور کفار) اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں۔

گویا قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کے لیے منادی کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسلمانوں کو سکھائے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریعت کے نظام میں کیا مقام ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایک طریقہ مقرر کرتے ہیں اور قرآن مجید میں اس کا ذکر کر کے اس طریقے کی صحت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ گویا وہ ایک مسلّمہ چیز اور شریعت میں طے شدہ امر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اس کا پورا قصہ احادیث میں موجود ہے، چنانچہ اذان حضوؐر کے حکم سے جاری ہوئی اور اب اس کو شرعی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ وہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فعل نہیں تھا۔

یہ نِدا جس کا ذکر یہاں نمازِ جمعہ کے لیے کیا گیاہے، دوسری اذان ہے جو خطبے کے وقت دی جاتی ہے۔ پہلی اذان حضوؐر کے زمانے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں رائج نہیں تھی۔ اس کو حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانے میں اس لیے رائج کیا کہ مدینے کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور مسجد کے اندر خطبے کے وقت جو اذان دی جاتی تھی وہ پوری آبادی تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس سے لوگ بروقت خبردار ہو جائیں کہ نماز کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے مدینۂ طیبہ کے ایک اُونچے مکان کے اُوپر خطبے سے کافی دیر پہلے اذان دلوانے کا طریقہ مقرر کیا تاکہ پوری آبادی کو بروقت اطلاع ہوجائے کہ نمازِ جمعہ کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہوجائے۔

سنت اور بدعت کا فرق

اس واقعے سے بدعت کے مفہوم پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بدعت ہر اُس چیز کو نہیں کہتے جو نئی نکالی گئی ہو۔ ہر چیز جو پہلے سے شریعت میں موجود نہ ہو اور بعد میں مفادِ اُمت کے لیے رائج کی جائے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔ دراصل بدعت اور سُنت کے درمیان ایک بڑا نازک اور لطیف فرق ہے۔ اگر ایک آدمی شریعت کے قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شریعت کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے کوئی ایسا نیا کام کرے (جو شریعت کے ان مقاصد کو جو شریعت میں اہمیت رکھتے ہیں) پورا کرنے میں مددگار ہوتا ہو تو وہ کام نیا ہونے کے باوجود بدعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی چیز ایسی ہے جو شریعت کے نظام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کی ضد میں پڑتی ہے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کے بجاے اُن مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کو اُٹھا کر مسلمانوں کی زندگی میں رائج کر دیا جائے، تو یہ بدعت ہے۔

دوسرے لفظوں میں ایک چیز شریعت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور ایک چیز مناسبت نہیں رکھتی۔ چنانچہ جو چیز مناسبت نہیں رکھتی، وہ بدعت ہے اور جو چیز مناسبت رکھتی ہے وہ بدعت نہیںہے۔ جمعہ کے وقت پہلی اذان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ حضوؐر کے زمانے میں رائج نہیں تھی اور شیخین حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں کے زمانے میں بھی نہیں تھی۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے اس کو جاری کیا۔ اب یہ بھی معلوم ہے کہ صحابۂ کرام نے اس وجہ سے اس کو قبول کیا اور اس پر اعتراص نہیں کیا، کیونکہ یہ اس مقصد کے خلاف نہیں بلکہ اُس مقصد کو پورا کر رہی تھی، جس مقصد  کے لیے اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ آپ یہ کیا بدعت نکال رہے ہیں۔

یہ دوسری اذان ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اور یہ وہ ا ذان ہے جس کے سننے کے بعد پھر خرید و فروخت حرام ہوجاتی ہے۔ پہلی اذان کو سننے کے بعد خرید و فروخت حرام نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا اہتمام اس لیے کیاگیا ہے کہ اگر کوئی اُس کو سن کر غسل کرنا چاہے، یا اپنے کام سمیٹ کر اور وضو کرکے نماز کے لیے چلنا چاہے تو اسے اس کا موقع مل جائے اور وہ اس کے لیے تیار ہوکر نکل سکے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دوسری اذان سن کر، جب کہ خطبہ شروع ہونے والا ہو، اس وقت کوئی کاروبار کرے اور کسی قسم کے دنیوی کام میں لگا رہے تو پھر یہ ایک حرام فعل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ کے وقت کاروبار اور بیع و شراء (خرید وفروخت) کا ممنوع ہوجانا خود جمعہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔

جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف پہنچنے کے بعد شروع کی تھی۔ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے جو ابتدائی کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے جمعہ کی اقامت کا اہتمام شروع فرما دیا۔ پہلے اس دن کو (جس کو اب جمعہ کہتے ہیں) یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ یہ اس کا قدیم نام تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص کیا اور پوری آبادی کے لیے جمع ہوکر باجماعت نماز پڑھنے کا حکم جاری کیا، تو اس وجہ سے اس دن کا نام یوم الجمعہ قرار پا گیا۔

اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑنے سے مراد

نمازِ جمعہ کی اذان سن کر ’’اللہ کی طرف دوڑو‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ دوسری اذان سن کر بھاگنا شروع کردیں۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ آپ سڑکوں پر بھاگتے ہوئے نماز کے لیے جائیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ نماز کے لیے وقار اور سکینت کے ساتھ جائو۔ پس فَاسْعَوا کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی طرف جانے میں جلدی کرو، تساہل سے کام نہ لو۔ چنانچہ سَعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں ہے، بلکہ اہتمام کرنا ہے، جلدی کرنا ہے تاکہ آدمی دوسرے کاموں میں مشغول رہ کر نماز سے غافل نہ ہوجائے، اس میں دیر نہ کردے۔

ذِکْرُ اللّٰہِ سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز دونوں ہیں___ دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف، یعنی اتنی جلدی کرو کہ خطبہ کے موقع پر پہنچ کر اسے سن سکو۔

احادیث میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت جو شخص خطبے سے پہلے جائے اس کی کیا حیثیت ہے، جو شخص خطبے کے دوران میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے، اور جو خطبہ کے آخر میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھرجب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنا بند کردیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)

حکم ہے کہ ہرمسلمان جمعہ کا خطبہ سنے، چنانچہ یہ طے کر دیا گیا کہ جس وقت امام جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے نکل آئے، اس وقت کوئی کام جائز نہیں ہے سواے اس کے کہ آدمی اس کو توجہ سے سنے، حتیٰ کہ آدمی نفل نماز بھی نہ پڑھے اور کسی سے کوئی بات بھی نہ کرے۔ صرف خطبے کی طرف توجہ رکھے ___ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کے لیے جو عبادت مقرر کی گئی ہے اس وقت وہی سب سے اہم ہے۔ اس وقت کوئی دوسری عبادت کرنا، خواہ کتنی ہی بڑے درجے کی ہو، غلط ہوگا۔ چونکہ نمازِ جمعہ کے وقت مقصود یہ ہے کہ خطبہ سنا جائے، اس لیے حکم دیا گیا کہ خطبے کے دوران میں بالکل خاموش رہا جائے۔ کوئی کسی قسم کی آواز نہ نکالے اور اگر کوئی شخص بولے تواس کو زبان سے منع بھی نہ کرے، صرف اشارے سے منع کرے۔ اگر خطبے کے دوران میں کوئی شخص بول رہا ہو اور آپ نے اس کو خاموش رہنے کے لیے کہا تو آپ نے بھی وہی کام کیا جو وہ کر رہا ہے۔ اس وجہ سے خطبے کے موقع پر مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کے بعد فرمایا گیا: وَذَرُوا الْبَیْعَ ،’’اور بیع کو چھوڑ دو‘‘۔ بیع سے مراد محض خریدوفروخت نہیں ہے بلکہ تمام دنیوی کام ہیں۔ لوگوں کی توجہ صرف اس طرف ہونی چاہیے کہ جلدی سے جلدی تیار ہوکر خطبے کے وقت مسجد میں پہنچ جائیں۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ’’یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔

اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ جمعہ فرض ہے مگر کچھ شرائط کے ساتھ۔ ہر آزاد، عاقل و بالغ مرد کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا اور اس کا خطبہ سننا فرض ہے۔ وہ کسی حالت میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا، اِلا.ّ یہ کہ وہ مسافر ہو۔ گویا مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ عورت اور بچے کے اُوپر بھی فرض نہیں ہے۔ مریض پر بھی فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بیمار کی تیمارداری میں لگا ہوا ہو تو اس پر بھی فرض نہیں ہے۔ اپاہج اور معذور پر بھی فرض نہیں ہے، لیکن فرض نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ جاکر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ نہیں، وہ ادا ہوجائے گی اور پھر جمعہ کی جگہ اس کے لیے ظہر کی نماز پڑھنی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح غلام کے اُوپر نمازِ جمعہ فرض نہیں ہے۔ اگر وہ نماز کے لیے نہ جائے تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر نماز کے لیے چلا جائے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔

نماز کے بعد کاروبار کا غلط مفھوم

فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (۱۰) پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔

یہ جو فرمایا کہ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کرنا لازم ہے، یعنی یہ کوئی حکم نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہی لوگ نکلیں اور جاکر اپنا کاروبار شروع کر دیں۔ اس کو لازم نہیں کیا گیا بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ کاروبار پر پابندی صرف جمعہ کی نماز تک تھی۔ اس کے بعد آزادی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا: وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول دو اور احرام سے نکل آئو تو اس کے بعد شکار کرو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولتے ہی پہلا کام آدمی یہ کرے کہ جاکر شکار کرے۔ گویا یہ فرض ہے کہ احرام کھول کر   شکار کرو، نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے تم کو حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن اب، جب کہ تم احرام سے نکل آئے ہو تو شکار کرسکتے ہو۔

بعض لوگ اس آیت کو بنیاد بناکر یہ حکم نکالتے ہیں کہ دیکھیے صاحب، جب یہ فرمایا گیا ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کے لیے زمین میں پھیل جائو تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہونا چاہیے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم تو آگیا ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا دن ہے، البتہ جمعہ کے روز چھٹی کرنا جائز نہیں ہے۔ ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ قدیم ترین زمانے سے جو تین الہامی کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان کو ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اپنا مذہبی دن ہفتہ کو قرار دے رکھا ہے اور وہ ہزاروں برسوں سے اس کی پابندی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جب پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ کی ایک سازش کے تحت اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو سب سے پہلے جو کام یہودیوں نے کیے، ان میں سے ایک یہ تھاکہ انھوں نے سبت (ہفتہ) کا دن ہفتہ وار چھٹی کے لیے مقرر کیا۔ اسی طرح انھوں نے عبرانی زبان کو اپنی قومی زبان اور سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیا۔ انبیا اور رسولوں کو ماننے والی جو دوسری قوم ہے، یعنی عیسائی، تو وہ اپنا مذہبی دن اتوار کو مانتے ہیں۔ تیسری قوم جو انبیا اوررسالت کو ماننے والی ہے، یعنی مسلمان، تو اس کا مذہبی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جمعہ کا دن قرار دیا تھا۔ جمعہ کا دن اس لیے رکھا گیا کہ اس روز اہلِ ایمان باقی کاموں سے فارغ اور آزاد رہ کر نہائیں، صفائی کریں، غسل کر کے نماز کے لیے جائیں اور جب نماز سے فارغ ہوکر نکلیں تو شریعت نے آپ کو اجازت دی ہے کہ آپ اپنا کاروبار کرسکتے ہیں، جیساکہ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) کے الفاظ سے احرام کی پابندی ختم ہونے کے بعد شکار کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت کو حکم کے معنوں میں ثابت کرنے سے جمعہ کو چھٹی قرار دینے کی بات تو غلط ہوگئی، البتہ دورِ غلامی میں انگریزوں نے مسلمانوں میں پہلے سے رائج جمعہ کی رخصت کر کے جب اپنے مذہب کے مطابق اتوار کا دن چھٹی کے لیے مخصوص کرلیا تو اب وہ ہمیشہ کے لیے فرض ہو گیا۔

انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر اور خیر سے آزاد ہوجانے کے باوجود یہ حماقت کی باتیں یہاں کی جاتی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں جمعہ ہی ہفتہ وار چھٹی کے دن کے طور پر رائج ہے۔ جب کبھی ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ سواے ترکی کے باقی تمام ملکوں میں جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہوتا ہے اورترکی کا حال آپ کو معلوم ہے کہ وہاں مصطفی کمال نے اپنی قوم کے ساتھ اور مسلمانوں کے مسلّمہ عقاید اور شعائر کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا۔ چنانچہ آج اگر ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل کا دن جمعہ ہونا چاہیے تو اس پر اعتراض بے معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ جمعہ کے روز ان کو اس غرض کے لیے کافی وقت دیا جائے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ نماز کے لیے تیار ہوسکیں۔

دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں یہی شعار رائج رہا ہے، حتیٰ کہ جیسے پہلے اشارہ کیا گیا، انگریزی حکومت کے زمانے میں تمام ہندستان میں اگرچہ اتوار کو چھٹی ہوتی تھی لیکن تمام مسلمان ریاستوں میں چھٹی کا دن جمعہ ہی تھا۔ ریاست بہاولپور، بھوپال اور حیدرآباد دکن میں بھی جمعہ چھٹی کا دن تھا۔ بھوپال اور رام پور جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اس آیت کے الفاظ ’’جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کرو‘‘ سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہونی چاہیے۔

کثرت سے ذکر

وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پائوگے۔

اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر جب تم اپنے کاروبار پر لگو تو اس مصروفیت کے دوران میں اپنے اللہ کو یاد رکھو اور کثرت سے اس کا ذکر کرو۔ جمعہ کے دن تم کو ذکر کے لیے بلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو تھوڑا ساوقت نماز کے لیے مقرر ہے وہ اللہ کے ذکر کے لیے رکھو اور باقی وقت میںتم اللہ سے غافل ہوسکتے ہو۔ نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کے لیے نکلو تو اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ اس وقت بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ پھر اس ذکرسے مرادکوئی خاص قسم کا ذکر نہیں ہے کہ آپ، مثلاً سبحان اللہ، سبحان اللہ ہی پڑھتے رہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، کاروبار بھی کرے تو اللہ کو یاد رکھے۔ ویسے بھی ایک مسلمان کی زبان سے اپنے دن رات کے اوقات میں، الحمدللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کے جو الفاظ نکلتے ہیں، یہ سب اللہ کا ذکر ہی ہے۔ زندگی کے مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے جب آدمی کسی نہ کسی طرح اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کو بھولا نہیں، اس سے غافل نہیں ہوا۔

تجارتی قافلے کی آمد پر صحابہؓ کا رویہ

وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (۱۱) اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

جیساکہ آغاز میں بیان کیا گیا، یہ بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ تشریف آوری کے بعد نمازِ جمعہ کا طریقہ مقرر کیا تو مدینہ میں لوگ ابھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور جمعہ کا طریقہ نیا نیا مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے لوگ ابھی پوری طرح اس کے آداب اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں چونکہ اہلِ مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ دے کر تمام کفارِ عرب سے دشمنی مول لے لی تھی، اس لیے عرب کے لوگوں نے مدینہ کے لوگوں کا ایک طرح سے معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کر رکھا تھا۔ ان سے کاروباری تعلقات کاٹ لیے تھے جس سے مدینہ کے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ مہاجرین جو مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے حصوں سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اُن کی اکثریت اس حال میں آئی تھی کہ اپنے گھربار،    مال اسباب سب کچھ چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں نکل آئے تھے اور ان کے لیے کوئی ٹھکانہ یہاں نہیں تھا۔ ان کی معاشی حالت بھی بہت خراب تھی اور مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایسے خستہ حال مہاجرین کے آنے سے، اور یہاں کے لوگوں پر اُن کا بار پڑ جانے سے دونوں کی معاشی حالت پر اس کا بُرا اثر پڑا تھا۔ پیش نظر آیات میں جس واقعے کا ذکر آیا، وہ اسی زمانے میں پیش آیا تھا۔

احادیث میں یہ قصہ اس طرح آیا ہے کہ ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں آیا۔ تجارتی قافلوں کا جو طریقہ اُس زمانے میں رائج تھا وہ یہ تھا کہ جب قافلے والے کسی بستی میں پہنچتے تھے تو ڈھول تاشے بجاتے تھے، اور ان کے ساتھ کچھ حبشی غلام وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ وہ اس ڈھول تاشے کے ساتھ کچھ اُچھل کود کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ اس طرح گویا بستی کے لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ آگیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عین جمعہ کی نماز کے وقت ایک تجارتی قافلہ باہر سے آیا اور اس نے آکر ڈھول تاشے بجانے شروع کیے، تو وہ لوگ جو اس وقت مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے جمع تھے، اپنی پرانی عادت کی بنا پر ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ان کی توجہ اس قافلے کی طرف ہوگئی۔ اس کے ساتھ ان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ جو لوگ جمعہ کے لیے نہیں آئے ہیں، وہ اچھااچھا مال خرید کر لے جائیں گے اور خرید و فروخت کا ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ابھی تک مدینہ میں غیرمسلم بھی موجود تھے۔ یہودی بھی تھے اور منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جس کی بنا پر ان کو یہ پریشانی ہوئی کہ اگر ہم یہاں بیٹھے رہے تو دوسرے  لوگ آکر اچھا اچھا مال خرید کر لے جائیں گے۔ دوسری طرف ہم اپنا مال قافلے والوں کے ہاتھ اچھے داموں بیچ بھی نہیں سکیں گے، اس طرح دوہرا نقصان ہوگا۔

تربیت کی حکمت

دراصل اس زمانے میں تجارتی قافلے اس غرض کے لیے آتے تھے کہ باہر کا مال لاکر مقامی آبادی کے ہاتھ بیچیں اور ان کے ہاں اگر کوئی چیز خریدنی ہے تو خرید کر ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ جو لوگ مسجد میں جمع تھے، وہ بالکل بے ساختہ، عین خطبے کے دوران میں اُٹھ کر مسجد سے باہر نکل گئے اور حضوؐر کھڑے رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف آٹھ آدمی مسجد میں رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف ۱۲ آدمی مسجد میں رہ گئے، اور بعض روایات میں ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۴۰ کی بتائی گئی ہے۔ اگر ۴۰ کی تعداد کو بھی مان لیا جائے تب بھی بڑی اکثریت جو وہاں موجود تھی وہ اُٹھ کر چلی گئی۔ کیونکہ ظاہر بات ہے کہ مدینے میں مسلمانوں کی تعداد محض اتنی کم تو نہیں تھی۔ مہاجرین کے علاوہ انصار کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس لیے صورتِ واقعہ یہی نظر آتی ہے کہ ایک بڑی اکثریت اُٹھ کر چلی گئی اور بہت تھوڑے سے لوگ مسجد میں باقی رہ گئے۔ اب چونکہ یہ ایک اضطراری حرکت تھی اور لوگ بھی غیر تربیت یافتہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اُوپر سخت گرفت نہیں فرمائی بلکہ صرف اس کا ذکر کردینے پر اکتفا کیا۔ اگر کہیں لوگ تربیت یافتہ ہونے کے بعد اور ایک کافی مدت اسلام میں گزار لینے کے بعد اس طرح کی حرکت کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انتہائی شدید گرفت کی جاتی، چونکہ یہ ابتدائی حالت تھی اس وجہ سے اس انداز میں توجہ دلائی گئی ہے، اور یوں ذکر کیا گیا کہ جن لوگوں نے تجارت اور لَہو کو دیکھا، یعنی وہ کھیل تماشا دیکھا جو قافلے والے کرر ہے تھے، اور تجارت کا موقع دیکھا تو حضوؐر کو خطبہ دیتے ہوئے کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر تعلیم و تربیت کے انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی گئی کہ:

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ    (اے نبیؐ!) ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس لہو اور کھیل تماشے سے اور اس تجارت سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ تم اس خیال سے کہ رزق حاصل کرنے کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا، اللہ کے رسولؐ کو کھڑے چھوڑ کر قافلے کی طرف نکل بھاگے لیکن یہ نہ سوچا کہ رزق تو اللہ کے پاس ہے،اور بہترین رزق دینے والا وہی ہے۔ اگر یہ موقع نکل بھی جاتا، تو کیا ہوتا، تمھارا رزق تو ختم نہ ہوجاتا۔

اب دیکھیے کہ ان الفاظ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہاں انداز عتاب کا نہیں ہے، غضب اور غصے کا بھی نہیں ہے، بلکہ اس طریقے سے لوگوں کی تربیت فرمائی گئی، کیوں کہ ان سے یہ غلطی اضطرار کی بنا پر، اور تربیت یافتہ نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی تھی۔ محض اسلام کا ابتدائی عہد ہونے کی بناپر ان سے جو قصور ہوا تھا، وہ نعوذ باللہ کوئی ارتداد کا فعل نہیں تھا، یا دین سے بے پروائی کا، یا رسولؐ اللہ کے ساتھ نعوذ باللہ بے احترامی کا برتائو کرنے کا کوئی تصور دُور دُور تک ان کے ذہن میں نہیں تھا، نہ ہوسکتا تھا۔ اگر وہ رسولؐ اللہ سے معاذاللہ بے پروا ہوتے تو صرف چند ماہ قبل (ہجرت کے وقت) وہ اتنا عظیم خطرہ مول ہی کیوں لیتے کہ خود جاکر مکہ سے حضوؐر کو ساتھ لے کر آئے تھے، اور ایسے ایسے پکے عہدوپیمان کیوں کرتے کہ اگر سارا عرب بھی ہمارا دشمن ہوگا اور ہم سے لڑے گا تو ہم آپ کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔

ظاہر بات ہے کہ انصارِ مدینہ کی طرف سے ایسی کوئی کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا  نہیں ہوتا تھا۔ یہ کوتاہی سراسر اُن سے اضطراری حالت میں اور تربیت میں کمی کی بنا پر ہوئی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب اور غضب کا اظہار کرنے کے بجاے ان کی بڑی شفقت کے ساتھ تربیت فرمائی اور سمجھایا کہ یہ کام تم سے درست نہیں ہوا۔ تم کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس تجارت اور کھیل کود سے زیادہ بہتر ہے جس کی طرف تم چلے گئے تھے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے کوئی چیز افضل نہیں اور یقین رکھو کہ اللہ ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

درس قرآن سورئہ جمعہ (۱)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ o (الجمعۃ ۶۲: ۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے___ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔

سورئہ جمعہ مدنی ہے اور اس کے دو رکوع ہیں۔ پہلے رکوع کے مخاطب یہودی ہیں، جب کہ دوسرے رکوع کے مخاطب مسلمان ہیں۔ دونوں رکوعوں کا زمانۂ نزول مختلف ہے لیکن ایک حکمت کے تحت ان کو ایک ہی سورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ پہلا رکوع فتحِ خیبر (۷ ہجری) کے بعد کسی وقت نازل ہوا، جب کہ دوسرا رکوع ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوا۔

اس سورہ میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی ایک کوتاہی پر گرفت کی گئی ہے جس کا ظہور ان کی طرف سے نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران میں ہوا۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں    پیش آیا۔ نمازِ جمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعدہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قائم کر دی گئی تھی اور جس واقعے کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ بھی ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔

مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد کچھ ابتدائی خطابات ہوئے ہیں جو سورئہ بقرہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ سورئہ بقرہ کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد یہودیوں کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی تھیں۔ بعد کی سورتوں میں بھی یہود کو جگہ جگہ خطاب کیا گیاہے۔ سورئہ جمعہ کے پہلے رکوع کا خطاب، غالباً یہودیوں سے اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے۔ قبائلِ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوششوں میں اپنے بُرے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ ان کا ایک قبیلہ (بنوقریظہ) تو بالکل برباد ہوگیا (اس کے تمام مرد حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق قتل کردیے گئے) اور دوسرے دو قبائل (بنوقینقاع اور بنونضیر) اُجڑ کر دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ خیبر ان کا سب سے بڑا گڑھ تھا جو ۷ہجری میں فتح ہوا اور اس کے بعد اُن کے دوسرے شہر بھی اسلامی حکومت کے زیرنگیں آگئے۔

اس سورت کی یہ شانِ نزول سمجھ لینے سے اس کے پہلے رکوع کا مطلب آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔

خدا کی تسبیح

فرمایا گیا کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس خدا کی تسبیح جو بادشاہ ہے اور قدوس ہے اور زبردست ہے اور حکیم ہے۔

تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے، خواہ زبانِ حال سے خواہ زبانِ قال سے، اس بات کا اظہار اور اعلان کر رہی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور اس کا پروردگار ہر عیب، نقص، کمزوری اور خطا سے پاک ہے۔ کوئی غلطی اس سے سرزد نہیں ہوتی اور کوئی عیب اور نقص اس کے اندر نہیں ہے___ اور وہ بادشاہِ حقیقی ہے۔ زبردست ہے اور حکیم ہے۔

بادشاہ ہے، یعنی ساری کائنات کا اکیلا فرماں روا ہے اور قُدوس ہے، یعنی تمام کمزوریوں اور عیوب سے بالکل پاک ہے۔ مقدس اور مُنزّہ ہے۔ بادشاہ کے ساتھ جب لفظ قُدوس آتا ہے   تو اس میں واضح طور پر یہ مفہوم آتا ہے کہ اس ہستی کو اقتدار اعلیٰ (sovereignty) حاصل ہے۔ اس کو کوئی ایسی کمزوری لاحق نہیں جس کی وجہ سے اس کے اقتدارِ اعلیٰ میں کوئی دخل دیا جاسکتا ہو۔ اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے، یعنی ایسا بادشاہ ہے جو تمام کمزوریاں اور عیوب سے مُنزّہ ہے، دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے، وہ زبردست اور غالب ہے اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، حکمت رکھتا ہے___ ان دونوں چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ بادشاہی اس چیز کا نام ہے کہ جو ہستی بھی بادشاہ ہو، اس کو اپنی رعیت پر کامل اقتدار حاصل ہو۔ کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا یارانہ ہو۔ اس کی زبان قانون ہو۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ کوئی اس کے حکم پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو۔ یہ ہے بادشاہی کا تصور___ موجودہ زمانے میں بھی، جن لوگوں نے پولیٹیکل سائنس (political science) پر لکھا ہے، یہی بات کہی ہے کہ جہاں بھی حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ ہے، بادشاہی پائی جاتی ہے، وہاں لازماً کامل اقتدار ہوگا، ایسا اقتدار جس کے مقابلے میں کسی کو  چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو۔

اب آپ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس ہستی کے متعلق بھی اس طرح کے کامل اقتدار کا تصور کیا جائے اس کے بارے میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعتا غلطی سے پاک ہے؟ کیا وہ حقیقتاً بے خطا اور بے عیب ہے؟ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جو بے خطا نہ ہو اور پھر اس کو کامل اقتدار حاصل ہو اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو اور کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو، اس کی زبان سے جو نکلے وہ قانون ہو، کوئی اس کے قانون پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو تو پھر اس سے بڑا ظلم اس کائنات کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ جس کو ایسا اقتدار اعلیٰ حاصل ہو اس کو لازماً مقدس ہونا چاہیے___ اگر وہ مقدس نہیں ہے تو اس کا اقتداراعلیٰ سراسر ظلم کے ہم معنی ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف میں یہ فرماتا ہے کہ وہ الملک القدّوس ہے، بے خطا بادشاہ ہے جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔

پھر دوسری چیز یہ فرمائی کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔

عزیز اس کو کہتے ہیں جس کے حکم کو نافذ ہونے سے کوئی دوسری طاقت روک نہ سکتی ہو۔ جو اس کا فیصلہ ہو، لازماً نافذ ہوکر رہے۔ کسی میں یہ طاقت نہ ہو کہ اس کے فیصلے کی مزاحمت کرسکے___ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ اقتدار ایسازبردست ہو کہ اس کی مرضی ہرحال میں نافذ ہوکر رہے اور کسی میں مزاحمت کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس کے ساتھ وہ نادان بھی ہو، تو اس سے بڑا ظلم پھر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ وہ عزیز ہے اور اس کے ساتھ   حکیم ہے، زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ اپنے اقتدار کو، اور جو زور اس کو حاصل ہے اس کووہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، کیونکہ بادشاہی کی اصل یہ ہے کہ وہ بے خطا اور بے عیب ہو۔

انسان بادشاہی کے ساتھ بے عیبی کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ جہاں بھی وہ بادشاہی فرض کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ لازماً یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ بالکل بے خطا ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا (king can do no wrong)، حالانکہ بادشاہ غلطی کرتا ہے۔  اس کے باوجود ان کو یہ فرض کرنا پڑا کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ کسی کو بادشاہ بھی مانیں اور  یہ بھی مانیں کہ وہ غلطی کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے ایک ظالم کو شاہی کا مالک مان لیا۔   اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ کی یہ دو تعریفیں بیان فرمائی گئیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے اور دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔

اب یہ بات کہ اس سورہ کی یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی ہے، وہ آگے کے مضمون سے واضح ہوتی ہے۔

بعثتِ رسولؐ کی حکمت

ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o  وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۲-۳)وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود اُنھی میں سے اٹھایا، جو اُنھیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور (اس رسولؐ کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔

فرمایا گیا کہ اللہ نے اُمّیوں کے درمیان انھی میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا۔ یہودی تمام غیریہودی لوگوں کو gentile کہا کرتے تھے۔ عربی زبان میں اسی مفہوم کو اُمّی کا لفظ ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ یہودیوں کے ہاں اس کے معنی یہ تھے کہ سارے عرب جاہل ہیں، وحشی اور ناشائستہ ہیں، غیرمہذب ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مہذب انسانوں کا سا برتائو کیا جائے۔ یہودیوں کا یہ تصور دنیا کے تمام غیریہودی لوگوں کے لیے تھا اور اسی بنا پر ان کا یہ قول تھا کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْل (جسے قرآن مجید نے نقل کیا ہے)، یعنی اُمّیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہم ان کا مال کھائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہودی عدالتوں میں جو قوانین نافذ تھے، ان کے اندر ایک یہودی کے حقوق اور اُمّی کے حقوق الگ الگ رکھے گئے تھے۔ اگر یہودی کسی اُمّی کا مال چرا لے تواس کے لیے قانون اور تھا، اور اگر کوئی اُمّی یہودی کا مال چرا لے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ ایک اُمّی دوسرے اُمّی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ لیکن اگر یہودی، یہودی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اَور تھا۔ یہ ان کے تصورات تھے۔ قرآن میں یہ بات یہودیوں کے اسی طرزِعمل کے بارے میں آئی ہے۔ اسی خودساختہ تفوق کی وجہ سے یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی کیسے ہوسکتے ہیں___ کہاں یہ اُمّی قوم اور کہاں یہ نبوت اور عالم گیر ہدایت کا مقام۔ یہ شخص رسول ہو ہی نہیں سکتا، نہ ہمارے سوا کسی قوم میں رسول آسکتا ہے اور نہ ہمارے سوا کسی قوم میں اللہ کی کتاب آسکتی ہے۔ یہ ان کے غرور کا حال تھا اور اسی غرور کی بناپر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ماننے کو تیار نہیں تھے۔

ان کے اسی زعمِ باطل کو توڑنے کے لیے فرمایاگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے والا اللہ ہے۔ وہ بادشاہ ہے اور عزیز ہے، اس کو یہ اقتدارِاعلیٰ حاصل ہے اور وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ جہاں چاہے اپنا رسول بھیجے اور جس کو چاہے اپنا رسول بنائے۔ تم نہیں مانو گے تو اپنی شامت بلائوگے۔ تم اس کے حکم اور فیصلے کو جھٹلاکر اس کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ وہ قُدوس ہے اور ایسا بادشاہ ہے جو غلطی سے مبّرا ہے۔ اس نے اگر اُمّیوں میں رسول بھیجا ہے تو کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ تم نہیں مان رہے ہو تو تم غلطی کر رہے ہو۔ وہ زبردست ہے اور اس کی مزاحمت تم نہیں کرسکتے۔ جس رسول کو اس نے بھیجا ہے اس کی رسالت چلے گی تمھاری مزاحمت نہیں چلے گی۔ وہ زبردست ہے اور   اس کے ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس نے یہ کام حکمت کے ساتھ کیا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں کیا ہے۔  اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ اور عزیز ہے۔ اس کے فیصلے کی مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔اور یہ سراسر اس کی حکمت ہے کہ اس نے اُمّیوں کے اندر یہ رسولؐ پیدا کیا ہے۔

اب آگے اس حکمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ رسول بھیجا گیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ یہ قوم اس سے پہلے ضلالت میں پڑی ہوئی تھی مگر ہمارے رسولؐ کی آمد کے بعد تم دیکھ لو کہ اب اس کا کیا حال ہے:

یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ(۲) ہمارا رسولؐ ان کو    اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

تلاوتِ آیات

اللہ تعالیٰ کی آیات سنانے سے مراد یہ ہے کہ وہ انھیں قرآن سنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے، یعنی ان کے دلوں میں اخلاص کی صفت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا بگڑا ہوا تمدّن، ان کی بگڑی ہوئی معاشرت اور ان کی زندگی کا بُرا ہنجار، ان سب چیزوں کو وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے درست کر رہا ہے۔ یہ اُمّی قوم جس ضلالت میں پڑی ہوئی تھی وہ بھی تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے، اور جن لوگوں نے اس نبی سے آیاتِ الٰہی کو سن کر اپنی اصلاح کی اور اس کے تزکیے سے فائدہ اٹھایا وہ بھی تمھارے سامنے ہیں۔ ان کے اخلاق بھی تمھارے سامنے ہیں اور ان کے معاملات بھی تمھارے سامنے ہیں۔ اس طرح ان کا جو تزکیہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کررہے تھے، وہ اندھے کو بھی نظرآرہا تھا۔ اس رسولؐ کی بعثت سے پہلے جاہلیت کی سوسائٹی کی جو کیفیت تھی، اور اس معاشرے میں، جو اَب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے قائم ہورہا تھا، دونوں میں جو فرق واقع ہوا ہے، وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے۔

تزکیہ و تربیت

تزکیہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کے اندر جو برائیاں ہیں ان کو دُور کیا جائے اور جو بھلائیاں ہیں ان کو نشوونما دی جائے۔ اس طرح تزکیہ کا کام دوہرا کام ہے، برائیوں کو دُور کرنا اور بھلائیوں کو ترقی دینا۔ یہ دونوں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آیاتِ الٰہی کی تعلیمات کے مطابق اس وقت علانیہ ہورہے تھے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی۔ صرف یہ بتانا کافی تھا کہ دیکھو ہمارا رسول لوگوں کو فقط آیات الٰہی ہی نہیں سنا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ بھی کر رہا ہے۔

حکمتِ دین

اس کے بعد فرمایا:

وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (۲) وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

یہاں الکتاب کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ تمام کتب ِ آسمانی کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنی کتابیں آئی ہیں وہ قرآنِ مجید کی زبان میں الکتاب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک ہی کتاب ہے جس کے بہت سے ایڈیشن بہت سی زبانوں میں آتے رہے ہیں۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تعلیم اور ایک ہی ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس طرح لفظ الکتاب کے استعمال سے مقصود یہاں یہودیوں کو یہ بتانا تھا کہ ہمارا رسول کوئی نئی اور نرالی چیز لے کر نہیں آیا ہے بلکہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک جتنی کتب ِآسمانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں، ان سب کا علم وہ اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو دے رہا ہے۔

جو شخص بھی کتب ِ آسمانی سے واقفیت رکھتا ہو وہ بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے، اور آج بھی یہود و نصاریٰ اس بات کو مانتے ہیں، لیکن وہ یہ بات ایک دوسری زبان میں کہتے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اس بات کو مانیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی تعلیم لے کر آئے جو تمام انبیا کی تعلیم تھی، وہ اس کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سب کچھ یہود و نصاریٰ سے چرایا ہے اور اب اسے اپنی طرف سے پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کو نہیں مانتے کہ جو کچھ اسلام میں ہے وہ وہی کچھ ہے کہ جو تمام انبیا علیہم السلام اور تمام کتب ِ آسمانی کی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ یہاں بیان فرمایا گیا کہ یہ اُمّی قوم جس کو کبھی کتب ِ آسمانی کی ہوا نہیں لگی تھی ان کا علم اب اس کو اس نبیؐ کے ذریعے سے حاصل ہو رہاہے۔ اس قوم کے اندر وہی تعلیم پھیل رہی ہے جو ساری کتب ِآسمانی لے کر آئی تھیں۔

اس کے بعد چوتھی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ ہمارا رسولؐ ان لوگوں کو حکمت کی تعلیم دے رہا ہے۔ حکمت کی تعلیم کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم میں یہ دانائی پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی کے معاملات کو چلانے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت آتی ہے وہ تفصیلات (details) میں نہیں آتی، وہ جزئیات کے بجاے کلیات اور اصول پیش کرتی ہے۔ تاہم، بعض بڑے بڑے اہم معاملات میں جزئی احکام اس غرض کے لیے دیتی ہے تاکہ نشاناتِ راہ متعین ہوجائیں۔ اب جو چیز آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کتب ِ آسمانی کی ہدایات سے اصول اور کلیات اور قواعد کو سمجھ کر روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ معاملات کے اُوپر ان کا انطباق کرے اور یہ معلوم کرے کہ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کے مطابق صحیح طرزِعمل کیا ہونا چاہیے، کیا چیز غلط ہے اور کیا چیز صحیح ہے، یہ وہ حکمت ہے جو کسی قوم کو صرف باقاعدہ تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت سے ایک قوم اس قابل ہوسکتی ہے کہ جس وقت بھی اس کے سامنے دنیا کا کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اس کے بارے میں خدا کی کتاب کی ہدایات اور اس کے رسولؐ کی سنت کو سامنے رکھ کر فوراً یہ راے قائم کرلے کہ اس معاملے میں جو کئی مختلف طریق کار ہوسکتے ہیں ان میں سے کون سا طریقِ کار ایسا ہے جو دینِ الٰہی کے مزاج کے مطابق ہے اور کون سا طریق کار اس کے مطابق نہیں ہے۔

یہ وہ حکمت ہے جو اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو سکھائی تھی اور یہ اسی حکمت کا یہ نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اُمّی قوم کے یہ صحابہ کرامؓ جنھوں نے کسی یونی ورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی، کسی کالج میں نہیں گئے تھے، ان میں سے بہت سے تو کتاب خواں بھی نہیں تھے، لیکن یہ لوگ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کے حکمران بنے اور اتنی بڑی سلطنت کے جو عظیم الشان اور ہمہ پہلو مسائل ان کو پیش آئے ان سب کو انھوں نے کتابِ الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق حل کر کے اور چلا کر دکھایا۔ یہ وہی حکمت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے ایک روحِ اسلامی ان کے اندر ایسی اُتار دی تھی کہ جس کی بدولت زندگی کے جو معاملات بھی انھیں پیش آئے انھوں نے بے تکلف ان کا حل معلوم کرلیا۔

اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ اُسی کی حکمت ہے کہ اس نے ایک اُمّی قوم کے اندر اپنے رسولؐ کو بھیجا اور اس رسولؐ سے یہ کام لیا، جب کہ اس اُمّی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑی ہوئی تھی۔ علم و دانش سے بہرہ وَر ہر شخص ایک نظر میں اس قوم کو دیکھ کر یہ معلوم کرسکتا تھا کہ یہ قوم سخت گمراہی میں پڑی ہوئی لیکن اُسی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اس نبی کے ذریعے سے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے ایک مہذب اور غالب و حکمران قوم بنا دیا۔

پھر فرمایا: وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۳) ’’اور جو لوگ ابھی آکر ان سے نہیں ملے ہیں اُن کے لیے بھی اس کو رہنما اور ہادی بناکر بھیجا، اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے‘‘۔ گویا اس امر کا فیصلہ کہ خدا کس شخص کو نبی بنائے، اس پر نظرثانی کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو بدلوا سکے اور وہ حکیم ہے۔ جو کچھ اس نے کیا ہے نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ کیا ہے۔

یھود کا حسد اور اس کا جواب

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (۴) یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

یہ اس حسد کا جواب ہے جو یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ حسد کی بنا پر یہ کہتے تھے کہ جاہل، وحشی اور غیرمہذب قوم کے اندر نبوت اور رسالت کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ تو صرف ہم بنی اسرائیل کے اندر ہونی چاہیے تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں ان کے حسد کا ذکر کیے بغیر فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے، اس کو اختیار ہے جس کو چاہے عطا کردے۔ اس کے فضل کے تم ٹھیکے دار نہیں ہو اور نہ اس پر تمھاری کوئی اجارہ داری ہے۔

تورات کے ساتھ یھود کا سلوک

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط  بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵) جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو  اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

یہودی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم کتب ِ آسمانی کے حامل ہیں۔ عرب قوم جاہل اور اُمّی ہے، اس کے اندر رسول آنے کا کیا کام ہے۔ اگر رسالت ہوگی تو ہمارے اندر ہوگی۔ ان کے اس فخر کا ان کو جواب دیا گیا کہ تمھارے بقول عرب کے لوگ تو اُمّی ہیں لیکن تم جو حاملِ کتاب بنے ہوئے ہو اور اس پر فخر کرتے ہو، تمھاری حالت تو جاہلوں سے بھی بدتر ہے، تم پر کتاب کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی لیکن تم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔ اس لیے اس وقت تمھاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر محض کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ اس پر کیا چیز لدی ہوئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے پاس کتابِ الٰہی موجود ہو لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتا کہ یہ کتاب اسے کیا ہدایت دیتی ہے، کس چیز سے وہ اس کو روکتی ہے اور کس راستے پر چلانا چاہتی ہے، کس راستے کو وہ انسان کی بربادی کا سبب قرار دیتی ہے اور کس راستے کو وہ فلاح کا راستہ بتاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا کتاب اُٹھائے پھرنا ایسا ہی ہے جیسے گدھا کتاب اُٹھائے پھرتا ہو۔ گدھے پر کتابیں رکھی ہوں تو اس کے اُوپر بوجھ تو ہوگا لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ان کتابوں میں کہا کیاگیا ہے۔ ایسا ہی تمھاراحال ہے کہ تم بوجھ تو اللہ کی کتاب (تورات) کا اُٹھائے پھرتے ہو اور اس پر تمھیں فخر بھی ہے لیکن درحقیقت تم کو اس کتاب سے کچھ حاصل نہیں، تم اس کتاب کے اندر کوئی بصیرت نہیں رکھتے، تمھیں کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ کتاب تم سے کیا چاہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:

بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۵) اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ گدھے کی مثال سے بھی بدتر مثال اُن لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور یہی کام اُس وقت یہود کر رہے تھے۔

جب واقعہ یہ ہے کہ جو تورات کی تعلیم تھی اسی کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہی ان کے سامنے پیش کی اور وہ یہ بات خود بھی مانتے تھے کہ یہ آیات تورات کی تعلیم کے مطابق ہیں، پھر بھی انھوں نے ان کو جھٹلایا۔ ایک تو ہے آدمی کا کسی چیز سے ناواقف ہونا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے اندر بصیرت، ایمان اور اخلاص کا ایسا فقدان ہونا کہ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اس کا انکار کردے۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ کتب آسمانی کا منشا کیا ہے،اور یا وہ اتنے خبیث اور بدطینت تھے کہ یہ جان لینے کے بعد کہ یہ رسولؐ وہی بات پیش کر رہا ہے جو ہماری کتابوں میں ہے، اس رسول کو انھوں نے جھٹلایا۔ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آکر، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے سے آئے، وہ باتیں پیش کرے جو قرآن میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ اس کی بات کو جھٹلاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔ گویا ان کا حال یہ تھا کہ جو تعلیمات تورات کے اندر  موجود تھیں اور انھیں قرآن میں پیش کیا جا رہا تھا، ان کو انھوں نے جھٹلایا۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ بدترین مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ مزید فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۵)’’اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

گویا جو شخص جان بوجھ کر، ایمان اور حق اور راستی اور انصاف کے خلاف چلتا ہے وہ ظالم ہے، اور جو لوگ یہ ظلم کریں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت انھی لوگوں کو دیتا ہے جو راہِ راست سے ناواقف ہوں لیکن اخلاص کے ساتھ راہِ راست معلوم کرنا چاہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کے لیے تیار ہوں کہ جب راہِ راست ان کے سامنے واضح ہوجائے تو بلاکسی تعصب کے اس کو قبول کرلیں، کیونکہ ان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ     راہِ راست پر چلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک طرف تو راہِ راست پر خود نہ چلے اور دوسری طرف جو شخص اس کے سامنے راہِ راست پیش کرے، اس سے لڑنے کو آئے اور اس کے خلاف لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلائے، اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرے اور ہرطریقے سے اس کے راستے میں کانٹے بچھائے تووہ ظالم ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ بدطینت اور خبیث ہے۔ پھر ایسے آدمی کو راہِ راست دکھانا اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہدایت کو لیے پھرتا رہے۔ ایک شخص جب اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عداوت اور دشمنی پر اُتر آتا ہے، تو اللہ بھی پھر ایسے ظالم کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے بھٹکتا پھرے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیا ؑ اور خلفاے راشدینؓ، اورصلحاے اُمت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے، اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں ہمیشہ اپنے رفقا کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے اور آیندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔ اور فی الجملہ ہماری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ   اور سعی و جہد میں رضاے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھرخصوصیت کے ساتھ   یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اُٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتنا ہی کمزور ہوگا جتنا، خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔

ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دُنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے، اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دل چسپی میں گہرائی اورگرمجوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا، اورنفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے، اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ    خوش حال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا ملک و قوم کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصان اٹھاتا ہے،  قید وبند کی سختیاں جھیلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے، اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔ اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں، نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیش نظر ہے، بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اُسی کا کام سمجھ کر  ہم نے اسے اختیار کیا ہے، تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آ سکتی ہے تو اسی وقت، جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلاے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں، بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہیے، اورانھیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔

اس معاملے میں ہمارے درمیان دورائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق، الحمد للہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔ البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے؟ ان سوالات کاکوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں جہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان کی منزل مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے کتنا راستہ طے کیا اور  اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے، کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں، کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کاتعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا بلکہ اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

تعلق باللّٰہ کے معنی

تعلق باللہ سے مراد، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ آدمی کا جینا اورمرنااور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لیے ہوں:

اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنo (الانعام۶:۱۶۲) میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر، اپنے دین کو بالکل اللہ کے لیے خالص کرکے اس کی بندگی کرے:

وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵) انھیں نہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے دین خالص کرکے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضوؐر کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں:

خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَاتِیَۃِ، کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا۔

اور یہ کہ

اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ اَوْثَقَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ، اپنے ذرائع و وسائل کی     بہ نسبت تیرا بھروسا اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو۔

اور یہ کہ

مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ، آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔

پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حدکو پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے اور اللہ کی خاطر ہو، اور نفسانی رغبت و نفرت کی آگ اس کے ساتھ لگی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کرلی:

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانِ، جس نے اللہ کے لیے دوستی کی، اور اللہ کے لیے دشمنی کی، اور اللہ کے لیے دیا اوراللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔

پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دُعاے قنوت میں پڑھتے ہیں، اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اللہ کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ انَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ  ،نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکُ ط اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنْسْجُدُ وَاِلْیکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخَشْیٰ عَذَابَک اِنَّ عَذَابَکَ الْجِدَّ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق، خدایا، ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا رکھتے ہیں، اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں ‘ کفرانِ نعمت کر نے والے نہیں ہیں۔ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقینا تیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔

پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دُعا میں پائی جاتی ہے جو نبیؐ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ اللہ کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنْبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ حَاکَمْتُ، خدایا! میں تیرا ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اورتیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔

تعلق باللّٰہ بڑہانے کا طریقہ

یہ ہے ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔

اس کو پیدا کرنے کی صورت ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہٗ  لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الہٰیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے، اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔

رہا اس تعلق کا نشوو نما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔

  • فکری طریقہ: فکر و فہم کے طریقے سے اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ آپ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی مدد سے ان نسبتوں کو تفصیل کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھیں جو آپ کے اور خدا کے درمیان فطرتاً ہیں اور بالفعل ہونی چاہییں۔ ان نسبتوں کا ٹھیک ٹھیک احساس و ادراک اور ذہن میں ان کا استحضار صرف اسی طریقے سے ممکن ہے کہ آپ قرآن اور حدیث کو سمجھ کر پڑھیں، اور بار بار اس مطالعے کی تکرار کرتے رہیں، اور ان کی روشنی میں جو جو نسبتیں آپ کے اور خدا کے درمیان معلوم ہوں ان پر غور و فکر کرکے اور اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ ان میں سے کس کس نسبت کو آپ نے بالفعل قائم کر رکھا ہے، کہاں تک اس کے تقاضے آپ پورے کر رہے ہیں، اور کس کس پہلو میں کیا کمی آپ محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس اور یہ استحضارجتنا جتنا بڑھے گا، ان شاء اللہ اسی تناسب کے ساتھ اللہ سے آپ کا تعلق بھی بڑھے گا۔

مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لاکر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے، اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہورہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انھی نسبتوں کو سمجھنے محسوس کرنے، یاد رکھنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب ترہونا موقوف ہے۔ آپ جس قدر ان سے غافل ہوں گے اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہوگا اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے اسی قدر آپ تعلق گہرا اورمضبوط ہوگا۔

  • عملی طریقہ:لیکن یہ فکری طریقہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا، بلکہ زیادہ دیر تک نبھایا بھی نہیں جاسکتا جب تک کہ عملی طریقے سے اس کو مدد اور قوت نہ پہنچائی جائے۔ اور وہ     عملی طریقہ ہے احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت، اور ہر اس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہوجائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکامِ الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو بادل نخواستہ نہیں بلکہ اپنے دل کی رغبت اورشوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے ان سے قلبی نفرت و کراہت کے ساتھ خفیہ اور علانیہ پرہیز کریں، اوراس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔ یہ طرز عمل آپ کو تقویٰ کے مقام پر پہنچا دے گا۔ اور اس کے بعد دوسرا طرزِ عمل آپ کو احسان کی منزل پر پہنچائے گا، یعنی یہ کہ آپ دنیا میںہر اس بھلائی کو فروغ دینے کی کوشش کریں جسے اللہ پسند فرماتا ہے، اور ہر اس برائی کو دبانے کی کوشش کریں جسے اللہ ناپسند فرماتاہے، اور اس کوشش میں جان، مال، وقت، محنت اور دل و دماغ کی قابلیت، غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی آپ کریں اس پر کوئی فخر آپ کے دل میں پیدا نہ ہو، نہ  یہ خیال کبھی آپ کے دل میں آئے کہ آپ نے کسی پر احسان کیا ہے، بلکہ بڑی سے بڑی قربانی کرکے بھی آپ یہی سمجھتے رہیں کہ آپ کے خالق کا جو حق آپ پر تھا وہ پھر بھی ادا نہیں ہوسکا ہے۔

تعلق باللّٰہ کی افزایش کے وسائل

اس طرز عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں:

۱- نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسب استطاعت نوافل بھی۔ دیگر یاد رکھیے کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ پڑھنے چاہییں تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو… نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کار یا اور کبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے جونفس مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔

۲- ذکر الٰھی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضوؐر کے تعلیم کردہ اذکار اور دُعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے، اورمعافی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔

۳- روزہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے، اور ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل حقیقت بتاتا ہے۔

۴- انفاق فی سبیل اللّٰہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی، جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسایشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کرکے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ ان اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کرکے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو توآپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوںکا موازنہ کرکے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اوربرے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔

یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے بغیر ہی آپ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے اپنے خدا سے تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

تعلق باللّٰہ کو ناپنے کا پیمانہ

اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے، اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنے اوقات، اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میںجا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اورجذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب اﷲ کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جوآپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں۔ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے، اور اس میں کمی ہور ہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکرمیں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر چلنے سے ملتی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمْ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o (حٰم السجدۃ ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (روداد جماعت اسلامی، ششم)

 

(کتابچہ دستیاب ہے، ۳۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)

 

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱: ۱۰-۱۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کووہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو، اللہ اور اُس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو بشارت دے دو!

سورئہ صف کی ان آیات سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو، کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتائوں جو تمھیں عذابِ الیم سے نجاتق دے دے۔ یہاںعذابِ الیم سے نجات دلانے والے عمل کے لیے تجارت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تجارت اُس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنا سرمایہ، اپنا وقت، اپنی محنت، اپنی ذہانت اور اپنی قابلیت، غرض سب کچھ اس لیے کھپاتا ہے کہ ان کے بدلے میں اس کو نفع حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ اس استعارے کو استعمال کرکے فرماتا ہے کہ ایک تجارتیں تو وہ ہیں جوتم دنیا میں کرتے ہو اور دنیاوی منافع کے لیے اپنی محنت، اپنے سرمایے، اپنی قابلیتوں اور اپنے اوقات کو صرف کرتے ہو۔ دنیا کی ان تجارتوں کے مقابلے میں ایک تجارت ہم تمھیں بتاتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں تم ان کاموں میں کھپائو جن کو آگے بیان کیا جارہا ہے اور ان کے نتیجے میں تمھیں ایک اور طرح کا نفع حاصل ہوگا۔ ان کاموں کی تفصیل ان الفاظ میں بیان کی گئی:

تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ (۶۱:۱۱) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ۔

حقیقی ایمان

ایک ایمان تووہ ہے جس کا آدمی اپنی زبان سے اقرار اور اعلان کرتا ہے، اور ایک ایمان وہ ہے جو آدمی پورے خلوص اور صداقت کے ساتھ اپنے دل میں رکھتا ہے اور اس کے مطابق اس کی پوری سیرت اور پورا کردار تشکیل پاتا ہے۔ الفاظ کے اعتبار سے یہ دونوں چیزیں مختلف نہیں ہیں، لیکن اپنی روح اور اپنے معنی کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ الفاظ کے اعتبار سے تو ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، کیونکہ جو زبانی اقرارِ ایمان کرتا ہے وہ بھی مومن ہے، اور وہ بھی مومن ہے جو سچے دل سے ایمان قبول کرتا ہے اور جس چیز کو مانتا ہے اس کے لیے جان، مال، محنت سب کچھ کھپاتا ہے۔ اس طرح لفظِ ایمان اگرچہ دونوں کے درمیان مشترک ہے، یعنی معنی اور حقیقت کے اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔

جب بات کا آغاز یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر فرمایا اور کہا گیا کہ ہم تمھیں وہ تجارت بتاتے ہیں جو عذابِ الیم سے بچانے والی ہے، تو یہاں یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد اگرچہ وہ سارے لوگ ہیں جو ایمان کے مدعی ہوں، چاہے وہ محض زبانی اقرارِ ایمان کر رہے ہوں اور چاہے سچے دل سے ایمان لائے ہوں، لیکن آگے جو الفاظ آتے ہیں کہ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر)، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی زبان سے تم جس چیز کو مان رہے ہو، اس کو سچے دل سے مانو، اور اخلاص کے ساتھ مانو۔ اس ماننے کے اندر کوئی منافقت نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی ضعفِ ارادہ اور کوئی ضعفِ ایمان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ماننا ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے کمربستہ ہوجائو۔ گویا سچے ایمان کے بعد جس چیز کا ظہور تمھاری طرف سے ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، اللہ کی راہ میں جہادکرو (اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے)، یعنی جس حقیقت کو تم مان رہے ہو، اس حقیقت کو دنیا میںسربلند کرنے کے لیے اُس کے مقابلے میں جتنے جھوٹ دنیا میں چل رہے ہیں، ان سب کو نیچا دکھانے کے لیے تم اپنی جانیں اور اپنے مال کھپائو۔ یہی مفہوم ہے تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کا۔

جھاد اور قتال کا فرق

اگر آپ غور فرمائیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں جہاد کے معنی لازماً قتال کے نہیں ہیں۔ دراصل جہاد، قتال کے مقابلے میں زیادہ وسیع لفظ ہے۔ کسی مقصد کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ کسی مقصد کے لیے اپنی جان لڑا دینے (جیسے ہم اُردو زبان میں بھی جان لڑا دینا کہتے ہیں) کا مقصد لازماً یہی نہیں ہوتا کہ آدمی جاکر مارنے پیٹنے ہی کا کام کرے۔ نہیں،   جان لڑانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دے۔ یہاں اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں اپنی پوری محنت اور قوت صرف کرو، نہ اپنا مال اس راہ میں کھپانے سے دریغ کرو اور نہ اپنی جان اس معاملے میں کھپانے سے دریغ کرو۔ چنانچہ جہاد بالنفس، یعنی نفس کے ذریعے جہاد کرنے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ آدمی جاکر اللہ کی راہ میں کٹ مرے۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ آدمی اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے میں کھپا دے۔ اس کے لیے سفر کرے، محنتیں کرے تکلیفیں اُٹھائے اور اس راہ میں اپنے آپ کو پوری طرح فنا کردینے کے لیے تیار ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر خداکی راہ میں لڑنے کی ضرورت پیش آئے تو لڑے بھی۔ مرنے کی نوبت آئے تو جان بھی دے دے۔ نفس کے ذریعے جہاد کرنے میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔

اللّٰہ سے تجارت اور انعامات

دیکھیے یہاں تُجَاھِدُوْنَ کے الفاظ آئے ہیں جن کا مصدر مُجَاھَدَۃ ہے، اور مجاہدہ لازماً مقابلے میں پیش آتا ہے۔ اکیلا آدمی مجاہدہ نہیں کرسکتا۔ مجاہدہ اس صورت میں ہوگا، جب کہ مقابل میں کوئی ایسی طاقت موجود ہو جو اس مقصد کی راہ میں مزاحم ہو۔ اس کے مقابلے میں جدوجہد کرنا، مجاہدہ کہلائے گا۔ راہِ خدا میں مقابل کی طاقت شیطان بھی ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہے، معاشرہ بھی ہے، دنیا کے کفار اور دنیا بھر کے گمراہ لوگ بھی ہیں۔ وہ خود اپنی قوم کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں۔ اس طرح تمام وہ طاقتیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں اور اللہ کے کلمے کے بلند ہونے میں مانع ہوں، ان تمام طاقتوں کے مقابلے میں محنت اور کوشش کرنا، مسلسل جدوجہد کرنا اور ہمہ پہلو جدوجہد کرنا، یہ مجاہدہ ہے۔ اس کے اندر دعوت وتبلیغ سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائو اور خدا کی راہ میں مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یعنی اس مجاہدے کے اندر اپنا مال بھی کھپائو اور اپنی جان بھی کھپائو۔ یہ چیز دراصل وہ تجارت ہے جس کے منافع آگے بیان کیے گئے۔ گویا ایک تجارت تو وہ ہے جس میں آدمی دنیاوی منافع کے لیے کوشش کرتا ہے اور ایک یہ تجارت ہے کہ جس کے کچھ دوسرے منافع ہیں جو تمھیں حاصل ہوں گے۔

  • عذابِ الیم سے نجات: ان منافع میں سے پہلا نفع یہ بتایا گیا ہے کہ تم کو عذابِ الیم سے نجات ملے گی:

ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (۶۱:۱۰) یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ اگر تم اس تجارت میں اپنا مال کھپائو تو لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ تم عذابِ الیم سے بچ جائوگے۔

عذابِ الیم سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ وہ ایسا عذاب ہے کہ اگر آدمی کو دنیا میں ساری عمر بڑے سے بڑا عیش بھی میسر رہے لیکن آخرت میں اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی جہنم کا عذاب ایک لمحے کے لیے بھی بھگتنا پڑے تو وہ ایک لمحے کا عذاب اس کے عمربھر کے عیش کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ آدمی بڑا احمق ہوگا اگر وہ جہنم کے ایک بھی لمحے کے عذاب کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائے جو درحقیقت اس دنیا میں ساری عمر کے عیش کے مقابلے میں بھاری ہے۔ لہٰذا اس تجارت کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے عذابِ الیم سے بچ جائے گا۔

دنیا کی دوسری تجارتوں میں سے یقینا بعض ایسی ہیں جن کے اندر آدمی کے لیے   مبتلاے عذاب ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن بہت سی تجارتیںایسی ہیں جن میں آدمی انتہائی نفع حاصل کرلیتا ہے، یہاں تک کہ ارب پتی بن جاتا ہے، لیکن آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ اس بنا پر اس سے بڑی کوئی احمقانہ تجارت نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا میں اربوں روپیہ کمائے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرے۔

  • آسان حساب: دوسرا فائدہ جو اس تجارت میں جان و مال کھپانے کا بتایا گیا ہے وہ  یہ ہے کہ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ اور قصور معاف کر دے گا۔

دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے، خواہ کتنا نیک، صالح اور کتنا ہی بڑا ولی کیوں نہ ہو، جس سے کبھی کوئی غلطی، قصور اور گناہ سرزد نہ ہوتا ہو۔ جب تک انسان ہے اس سے قصور ضرور سرزد ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت محاسبہ ہو___ سخت محاسبے کا معنی یہ ہے کہ آدمی سے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا___ تو دنیا کاکوئی آدمی بھی اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ اگر ایک ایک فعل کی سزا دی جائے تو اس کے بعد کوئی آدمی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ہلکا حساب لیتا ہے۔ اس چیز کو حسابِ یسیر کہتے ہیں۔

حسابِ یسیر یہ ہے کہ آدمی کی بحیثیت مجموعی پوری زندگی کو دیکھا جائے گا کہ آیا یہ ایک مومن صالح کی زندگی ہے اور یہ ایک ایسے آدمی کی زندگی ہے جس نے اپنی حد تک اطاعت کی کوشش کی ہے، تو ایسے آدمی کی سب کوتاہیاں معاف کر دی جائیں گی۔ اس کی خطائوں کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ صرف یہ دیکھا جائے گاکہ اگر وہ اپنے رب کا ایک وفادار بندہ ہے اور اس کا باغی نہیں ہے، اس کے ساتھ غداری کرنے والا نہیں ہے، اس نے اپنی حد تک وفاداری کی کوشش کی ہے اور جان بوجھ کر اطاعت سے منہ نہیں موڑا ہے تو اس کے بعد اس کے سارے قصور معاف، اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں اور خطائوں کا جو زیادہ سے زیادہ نتیجہ ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جتنے بڑے مراتب کا مستحق وہ ہوسکتا تھا، اتنے اُونچے مراتب اس کو نہ دیے جائیں، اگر وہ یہ قصور نہ کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے وفادار بندے کو اس کی خطائوں کی سزا دے کر چھوڑ دے۔ چنانچہ پہلے تو اس کو عذابِ الیم سے نجات کی خوش خبری دی گئی، پھر اس کے بعد اسے دوسری خوش خبری یہ دی گئی ہے کہ تمھاری فرماں برداری کے انعام میں تمھارے سارے کے سارے قصور معاف کردیے گئے ہیں۔

  • جنت جیسی نعمتِ عظمٰی: اب تیسری چیز یہ فرمائی گئی کہ :

وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ (۶۱:۱۲) اللہ تعالیٰ تم کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ایسی جگہیں رہنے کے لیے دے گا جو جناتِ عدن ہیں، ایسی جنتیں جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہیں (وہ خود بھی ہمیشہ قائم رہیں گی اور تم بھی ان کے اندر ہمیشہ رہو گے)۔

دائمی اور ابدی زندگی میں آدمی کا جنتی ہونا اور دائمی اور ابدی طور پر جنت میں داخل ہونا اور وہاں رہنا، یہ وہ نعمت ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی نفع بخش تجارتیں ہیچ ہیں۔ اگر ایک آدمی دنیا کی بڑی سے بڑی دولت حاصل کرلے اور آخرت کی جنت سے محروم رہ جائے تو درحقیقت وہ بڑے خسارے میں ہے۔ غور فرمایئے کہ دنیا کی زندگی زیادہ سے زیادہ کتنی طویل ہوسکتی ہے۔ بہت ہوگی تو سَو، سوا سَو سال ہوجائے گی۔ اس طویل سے طویل زندگی کے اندر دنیا کی جو بڑی سے بڑی دولت ہوسکتی ہے، وہ کتنی ہے۔ اگر آدمی کے پاس اربوں روپیہ بھی ہو تو اس کی اپنی ذات پر اس میں سے زیادہ سے زیادہ کتنا خرچ ہوتا ہے۔ وہ ہیرے جواہرات بھی کھائے تو کتنے کھا لے گا (حالانکہ آدمی ہیرے جواہر تو کھا بھی نہیں سکتا)۔ مراد یہ ہے کہ اس کا روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھنے    کے لیے ہوسکتا ہے، بنکوں میں جمع کرنے کے لیے ہوسکتا ہے لیکن وہ روپیہ اس کی اپنی ذات پر کتنا خرچ ہوگا۔ کتنا وہ کھا لے گا، اور کتنا وہ پی لے گا، کتنی سواریاں رکھ کر وہ ان پر سوار ہوگا اور کتنی عمارتیں بناکر وہ ان کے اندر رہ لے گا، اور پھر یہ سب کچھ کتنی مدت کے لیے ہوگا۔ ساٹھ ستّر، اسّی نوے،    سَو، سوا سَو سال کے لیے۔

اب اس کے مقابلے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جنت میں رہنا ایک ایسی عظیم ترین نعمت ہے جس کے ساتھ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی نعمت کی کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ایک آدمی اگر دنیا کی تجارتوں کے بجاے آخرت کی تجارت میں اپنا سرمایۂ محنت کھپاتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ ابدی جنت حاصل کرتا ہے تووہی آدمی دراصل کامیاب ہے۔ وہ شخص کامیاب نہیں جو اس جنت سے محروم رہ جائے اور دنیا کی تجارتوں میں لگایا ہوا اس کا سارا مال یہیں رہ جائے۔ اس لیے فرمایا: ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے، یعنی دنیا میں تم جو تجارت کرتے ہو اس کے مقابلے میں اس تجارت کا نفع بہت زیادہ ہے۔ اسی بات کو اُوپر ان الفاظ میں فرمایا: ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ گویا اس تجارت میں جان، مال، محنت اور وقت کھپانا زیادہ نفع کا سودا ہے، اگر تم کو فہم ہو اور علم ہو اور یہ جانو کہ اس تجارت کی حیثیت کیا ہے۔

اللّٰہ کی نصرت اور کامیابی

وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ (۶۱: ۱۳) گویا گناہوں کی معافی اور جنتوں کے قیام کی نعمت ِعظمیٰ کے علاوہ ایک اور چیز اللہ تعالیٰ تم کو عطا کرے گا جس کی طلب تم رکھتے ہو، وہ یہ ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح تم کو نصیب ہوگی۔ عنقریب سے مراد ہے اس دنیا میں۔ اس سارے سلسلۂ کلام میں آخرت کے فوائد کو پہلے بیان کیا ہے، کیونکہ وہ اہم تر ہیں اور دراصل مقصود ہیں۔ اس کے بعد اس چیز کا ذکر کیا گیا جو دنیا میں حاصل ہوگی۔ اس طرح گویا مسلمانوں کی ایک فطری کمزوری کی بھی نشان دہی کردی کہ: اُخْرٰی تُحِبُّونَھَا… اگرچہ آخرت میں ملنے والی چیز بہت بڑی ہے لیکن چونکہ تم انسان ہو، اس لیے تم دنیا کی کامیابی کو زیادہ عزیز رکھتے ہو۔ تم اپنی جگہ یہ سوچتے ہو کہ اگر اس دنیا کے اندر اللہ کا کلمہ ہمارے ہاتھوں سے بلند نہ ہوا، اور اس کا دیا ہوا نظام یہاںقائم نہ ہوا، تو ہم تو گویا دنیا سے یہ منظر دیکھے بغیر ہی چلے جائیں گے کہ یہاں  اللہ کا قانون جاری ہو رہا ہے، اس کادیا ہوا نظام نافذ ہو رہا ہے، اور یہاں وہ بھلائیاں فروغ پا رہی ہیں، جن کی اللہ کے دین کی بدولت حاصل ہونے کی توقع دلائی جاتی تھی، تو ہم تو اس نعمت اور خوشی سے محروم ہی رہ جائیں گے۔ ایک نیک سے نیک آدمی کے اندر بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ آخرت تو یقینا ہونی ہے اور چاہے ہم دنیا میں ناکام بھی مرجائیں تب بھی آخرت کی کامیابی تو ہمیں حاصل ہوگی ہی، مگر پھر بھی دلوں میں فطری طور پر یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دین حق کے قیام اور اس کے نتائج کو دیکھ لیں۔ اس لیے اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو چیز یہاںدنیا میں تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں ملے گی۔ اگر تم اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرو گے، اپنی جان و مال کھپائو گے تو اس دنیا کے اندر بھی تم کو نصرت اور فتح حاصل ہوگی۔

فَتْحٌ قَرِیْبٌ کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہیں کہ وقت کے لحاظ سے عنقریب یہ فتح جلدی تم کو مل جائے گی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اسی دنیا میں (یعنی عاجلہ میں) تم اپنی آنکھوں سے اس نظام کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ لو گے جس کو لے کرتم کھڑے ہوئے ہو اور جس کے لیے تم سے مجاہدہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

اھلِ ایمان کو بشارت

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (۶۱:۱۳) اور اے نبیؐ، مومنوں کو بشارت دے دو۔

یہاں اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہ خوش خبری ایک امرواقع ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے اطمینان اور تسلی کے لیے ایک ضرورت بھی تھی۔ یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دراصل یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی  مٹھی بھر جماعت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش کر رہی تھی اور اس کے مقابلے میں سارا عرب کفر میں مبتلا تھا، اور خود مدینہ طیبہ میں منافقین اور یہود اسلام کی شمع کو بجھانے کے درپے تھے۔ اس زمانے میں دُور دُور تک اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے کہ مدینے میں پائی جانے والی مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کفر کے اس سیلابِ عظیم کا منہ پھیرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس وقت بظاہر مسلمانوں کو بھی یہ محسوس ہو رہاتھا اور کفار و مشرکین بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ سارے ملک کے کفروشرک کے مقابلے میں اس مٹھی بھر جماعت کا کامیاب ہونا بڑا مشکل ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اگر کفار کا زبردست دبائو اور نرغہ اس کے خلاف ہوجائے تو یہ جماعت ختم ہوجائے۔

اس موقع پر یہ فرمایا :’’اے نبیؐ! مومنوں کو بشارت دے دو تاکہ ان کے دلوں میں مایوسی اور کمزوری نہ پیدا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ان کو امیدوار بنائو، اور ان کو یقین دلائو کہ تم اگر اللہ کی راہ میں صحیح معنوں میں مجاہدہ کرو گے اور اپنی جان اور مال کھپائو گے تواللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ آخرت میں تم کو کامیابی عطا کرے گا بلکہ اس دنیا میں بھی تم کو فتح سے نوازے گا، جب کہ حال    یہ ہے کہ تم مٹھی بھر لوگ ہو، اور کفر وشرک کی طاقتیں تمھارے مقابلے میں ہزاروں گُنا زیادہ ہیں۔ گویا ایک بستی کا مقابلہ پورے عرب کے باشندوں سے ہے۔ اس حالت میں بھی یقینا تمھی کامیاب ہو گے بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ادا کرو‘‘۔

ایک اصولی بات جو قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک گروہ اللہ کے دین کے لیے مجاہدہ کرنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی اغراض کے لیے لڑنے والا ہے اور اس کا مقابلہ بھی انھی لوگوں سے ہے جو دنیوی اغراض کے لیے لڑنے والے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کو ان کے درمیان مداخلت کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنی تائید کافروں میں سے کسی ایک گروہ کو دے بلکہ اس کے برعکس وہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں گروہوں کا مقابلہ ان کے دنیوی ذرائع و وسائل اور کامیابی کے دوسرے اسباب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ بات فیصلہ کن ہوتی ہے کہ کس کے اندر زیادہ اجتہادی قوت اور مقصد کے لیے زیادہ لگن ہے۔ کس کے اندر زیادہ تنظیم ہے۔ کون ایسا گروہ ہے کہ جب قوت اور مقابلہ درپیش ہو تووہ لڑنے مرنے کے لیے میدان میں آتا ہے، اور کون ایسا گروہ ہے جو اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور پھر یہ کہ کس کے پاس آلاتِ جنگ اور مادی ذرائع زیادہ ہیں۔ ایسے گروہوں کے درمیان فیصلہ انھی باتوں پر موقوف ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنی تائید کسی کافر یا مشرک یا فاسق کے حق میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس کے مقابلے میں اگر ایک گروہ دنیا میں ایسا ہو جو اللہ کے لیے جہاد کرنے والا اور   اس کی راہ میں اپنی جان ومال اور محنت کھپانے والا، اس کے مقابلے میں دوسرا گروہ ایساہو جو دنیا کے لیے لڑنے والا ہو، تو وہاں پھر اللہ تعالیٰ کا براہِ راست تعلق اس گروہ کے ساتھ ہوتا ہے جو اللہ  کے لیے لڑنے والا ہو۔ اس جگہ اگر اہلِ ایمان کے اخلاق ویسے ہی ہوں جیسے کہ ان کے ہونے چاہییں اور جو ہدایات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے اس کو دی ہیں ان کے مطابق وہ گروہ کام کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی تائید اس کو حاصل ہوتی ہے۔ پھر اس تائید کے لیے اس پورے گروہ یا جماعت کا بحیثیت مجموعی صالح ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ایک آدمی تو صالح ہو لیکن جماعت ہونے کی حیثیت سے ان میں وہ خرابیاں موجود ہوں جو منافقین کی جماعت میں ہوسکتی ہیں، تو پھر اس گروہ کو اللہ کی تائید حاصل نہیں ہوسکتی۔ جماعت ہونے کی حیثیت سے اگر وہ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے ہوئے ہوں، تواس طرح کے لوگ فی الواقع صالح جماعت نہیں ہیں۔ ایک صالح جماعت کے صالح افراد اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرنے والے ہوں، توپھر کفار کے مقابلے میں اگر ان کے پاس ۵ فی صد ذرائع بھی ہوں تو تب بھی وہ کامیاب ہوں گے، بلکہ بعض حالات میں تو ایک فی صد ذرائع بھی کامیابی کے لیے کافی ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ان کو حاصل ہوتی ہے۔

ان حالات میں فرمایا گیا کہ باوجود اس کے کہ اہلِ ایمان اس وقت کمزوری کی حالت میں ہیں، ان کی تعداد کم ہے،ان کے ذرائع کم ہیں اور پورے ملک کے کفار و مشرکین کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے، مگر اے نبیؐ! تم ان کو بشارت دے دو کہ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور سچے اور مخلص مسلمانوں کی طرح کرو تو تمھی کامیاب ہوگے۔ عنقریب تمھیں فتح حاصل ہوگی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو بات اس وقت کہی گئی تھی وہ جوں کی توں پوری ہوئی۔ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی وہ غالباً تین چار ہجری کا زمانہ تھا۔ سورت کے مضامین خود بتا رہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی سورت ہے، جب کہ مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت وقت تھا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں کو عرب کے اندر پوری کامیابی حاصل ہوئی اس میں بمشکل پانچ یا چھے سال لگے۔ ان پانچ چھے برسوں کے اندر بساط بالکل اُلٹ گئی، جو کمزور تھے وہ غالب آگئے اور جو بظاہر بڑی تعداد اور بڑے سازوسامان والے تھے، مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوگئے۔ ان کے بڑے بڑے سردار بیش تر مارے گئے۔ اس کے بعد نیا مضمون شروع ہوتا ہے:

اللّٰہ کے مددگار

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَرِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّـآئِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ o (۶۱: ۱۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،    اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا: ہم ہیں  اللہ کے مددگار۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کے پیروؤں کی تاریخ سے ایک سبق دیا ہے۔ فرمایا کہ: اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے جب حواریوں کو پکارا تھا کہ کون  اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہے تو حواریوں نے کہا تھا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بعثت کے بعد نبی اسرائیل میں اپنی دعوت شروع کی تو جیساکہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ بنی اسرائیل دراصل ایک ایسے مسیح کے منتظر تھے جو تلوار کے ساتھ آئے اور طاقت کے زور سے فلسطین کا ملک فتح کرکے ان کے حوالے کرے، اور بنی اسرائیل کو پھر ایک فرمان روا قوم بنادے۔ اس طرح وہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے کئی صدیاں پہلے ایک ایسے مسیح کی آمد کے منتظر تھے۔ جب سے، یعنی تقریباً سات سو قبل مسیح کے زمانے سے بنی اسرائیل کی شامت آنی شروع ہوئی تھی، بار بار ان کا علاقہ فتح ہو رہا تھا اور دنیا کی قومیں ان کو مسلسل پیس رہی تھیں اور ان کو مار مار کر دوسرے ملکوں میں لے جایا جارہا تھا، یہاں تک کہ چودہ صدیوں کے بعد ان کے ۱۰ قبیلے دنیا سے اس طرح مٹ گئے کہ ان کے بارے میں آج کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئے، تو اس زمانے میں بنی اسرائیل کو ایک بشارت دی گئی کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس مصیبت سے بچائے گا۔ اس بشارت سے وہ یہ سمجھے کہ جو مسیح آئے گا وہ شمشیر بکف ہوگا اور کافروں سے جنگ کرے گا۔ حالانکہ اللہ کی بشارت کے یہ الفاظ نہیں تھے۔ بس انھوں نے اپنی جگہ یقین کرلیا کہ وہ مسیح آکر ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں تلوار کے زور سے فتوحات حاصل کرے گا اور فلسطین کی سرزمین پھر ہمیں دلادے گا۔ لیکن جب حضرت عیسٰی ؑتشریف لائے اور انھوں نے ان کو دین کی دعوت دینی شروع کی تو بنی اسرائیل کو اس پر سخت غصہ آیا کہ ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت نہیں تھی، ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت تھی جو ہمیں ہتھیار دے اور دشمنوں کے خلاف ہم سے جنگ کروائے، لیکن یہ مسیح تو آکر  ہم سے یہ کہتا ہے کہ تم اخلاص اختیار کرو، ایمان داری اختیار کرو، ریاکاری سے بچو، جو بے ایمانیاں تم کرتے ہو اور طرح طرح سے ناجائز طریقے سے لوگوں کے مال کھاتے ہو، ان سب چیزوں کو چھوڑ دو۔ اس طرح یہ مسیح تو ہمیں ہمارے ملک کی واپسی اور غلبے کی راہ دکھانے کے بجاے ہمیں اخلاق کا راستہ دکھا رہا ہے۔ یہ ہمیں اس کٹھن راستے پر چلنے کے لیے کہہ رہا ہے کہ جس سے گریز کرنے کے لیے ہم نے اپنے انبیا کو ستایا تھا اور ان کو قتل تک کیا تھا۔

اس ذہنیت کو لے کر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن ہوگئے۔ پوری قوم نے آپ ؑ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس حالت میں حضرت عیسٰی ؑبحرطبریہ کے کنارے گئے۔ وہاں کچھ مچھیرے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ نے مخاطب کر کے اللہ کی راہ کی دعوت دی تو ۱۲آدمی   ان میں سے نکل کر آگئے۔ دوسری روایات کے مطابق یہ لوگ کپڑے دھونے والے، یعنی دھوبی تھے اور غریب لوگ تھے۔ دن بھر کی محنت پر گزارا کرتے تھے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ انھی میں سے ۱۲ آدمی نکل کر آپ کی طرف آگئے اور آپ کے جاں نثار ساتھی بن گئے۔ دوسری طرف پوری قومِ بنی اسرائیل آپ کا انکار کر رہی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ اس واقعے کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے: حواری اگرچہ ایک مٹھی بھر جماعت تھے جو ایمان لائے تھے، اور دوسری طرف بنی اسرائیل کی پوری قوم منکر ہوگئی تھی۔ ان کے علاوہ رومی بھی آپ کے مخالف تھے۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے سچے اہلِ ایمان کی اسی مختصر جماعت کوکامیابی دی اور جوان کے مخالف تھے، وہی آخرکار ناکام ہوئے۔

دوسرے الفاظ میں اُوپر جو بشارت دی گئی ہے کہ بَشِّرْ الْمُؤْمِنِیْنَ تو اس بشارت کے ساتھ یہ تاریخی نظیر پیش کی گئی کہ دیکھو جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا، آخرکار غلبہ انھی کو حاصل ہوا۔ وہ مٹھی بھر آدمی تھے، ان کو مارا کھدیڑا گیا، طرح طرح کے مظالم ان پر کیے گئے، لیکن ان کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ ان کی دعوت اور تبلیغ کا سلسلہ برابر جاری رہا اور پھر انھی کے پیرووں نے فلسطین، شام، مصر اور دوسرے ملکوں میں اپنی تبلیغ کا سلسلہ دو اڑھائی صدیوں تک جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی رومی سلطنت جو ان کو مٹا دینے پر تلی ہوئی تھی۔ آخرکار وہ حضرت عیسٰی ؑکی رسالت پر ایمان لے آئی، ان کی دعوت کی مددگار ہوگئی، اور جو ظلم و ستم حضرت عیسٰی ؑ کے متبعین پر ہو رہا تھا وہ آپ کے مخالفوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اسی رومی سلطنت نے مشرکین کے مذہب کو مٹایا اور پھر یہودیوں کی ایسی خبر لی کہ رومی سلطنت کے نکالے ہوئے وہ دو ہزار برس کے لیے منتشر ہوگئے۔ انھوں نے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین سے اس طرح نکالا تھا کہ بیت المقدس میں ان کا داخلہ بند تھا۔ فلسطین کی سرزمین میں وہ گھِس لگانے کو نہیں ملتے تھے۔

اللہ تعالیٰ اس تاریخی نظیر سے یہ بتا رہا ہے کہ اب بھی یہی صورت پیش آنی ہے کہ جو لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے آخرکار وہی اس سرزمین پر باقی رہیں گے، وہی کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، وہ عرب کی سرزمین پر نہیں رہ سکیں گے، ختم ہوجائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے اگرچہ اس وقت مٹھی بھر ہیں، وہی کامیاب ہوں گے اور عرب و عجم کے حکمران بنیں گے۔ ان دونوں گروہوں میں فرق یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ کے ماننے والوں کو آپ کی زندگی میں وہ کامیابی نہیں ہوئی جس کو دنیا میں کامیابی کہتے ہیں۔      یہ کامیابی ان کو دو اڑھائی سو برس کے بعد حاصل ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  پیرووں کو اللہ تعالیٰ نے جس زمانے میں یہ بات فرمائی تھی اس کے بعد پانچ چھے سال کے اندر ہی وہ نتیجہ دکھا دیا جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔

دین  کی سربلندی کے لیے جدوجھد

یہاں جو کُونُوا اَنْصَارَ اللّٰہِ کے الفاظ ہیں اور پھر یہ جو فرمایا کہ حواریوں نے یہ کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، اس کی تشریح میں پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکا ہوں، یہاں پھر مختصراً بیان کیے دیتا ہوں۔

آدمی جس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طور پر نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، حج کرتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور دوسری نیکیاں کرتا ہے تو یہ ساری اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ہیں۔ لیکن جب آدمی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اپنی جان و مال اس غرض کے لیے کھپاتا ہے کہ کفر کے مقابلے میں اللہ کا کلمہ بلند ہو، اس کا دین دنیا میں سربلند ہو، اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقام سے اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی مددگاری کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اللہ کے کلمے کو بلند ہونا اور کفر کے مقابلے میں دین اسلام کا فروغ پانا، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا مشن ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے آدمی جو کام بھی کرے گا، خواہ وہ اپنی زبان سے تبلیغ کر رہا ہو، خواہ وہ اپنی جان، مال اور محنتیں کھپا رہا ہو، اور خواہ وہ جنگ کر رہا ہو، ان تمام حالتوں میں وہ اس مشن میں، جو دراصل اللہ کا اپنا مشن ہے، اللہ تعالیٰ کی رفاقت کرتا ہے۔ اس طرح دوسری تمام چیزیں تو عبادتیں ہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت ہے، اس لیے یہ ان عبادات کی بہ نسبت زیادہ اُونچے مرتبے کا کام ہے۔ ایک آدمی جو گوشے میں بیٹھا ہوا اللہ کی عبادت کرتا رہا، وہ واقعی عبادت کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صالح آدمی ہے اور اپنا اجر پائے گا۔ لیکن جو آدمی اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور کفر کے مقابلے میں جدوجہد کر رہا ہے تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت اختیار کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، کیونکہ اللہ کے کلمے کو بلند کرنا عام عبادات سے زیادہ اُونچے مرتبے کا کام رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے مددگار ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے اپنے نبی کو بھیجا ہے، وہ اس مقصد میں آکر اس کا مددگار بنتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ طاقت سے اپنے دین کو غالب نہیں کرتا، بلکہ انسانوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اسے قبول کریں یا قبول نہ کریں۔ وہ ایسا نہیں کرتا کہ کفار کی گردنیں زبردستی جھکا دے اور اہلِ ایمان سے کہے کہ آئو اور آکر ان کی جگہ تم تخت شاہی پر بیٹھ جائو، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکروعمل کی آزادی عطا فرمائی ہے۔ اس وجہ سے وہ ان کو مخاطب کرتا ہے کہ آئو اور اپنی رضا سے خود اپنی خواہش اور ارادے سے میری اطاعت اختیار کرو۔ اب جو شخص اپنی مرضی سے اور اپنی خواہش سے اللہ کی اطاعت اختیار کرتا ہے، وہ اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) میں آجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی خواہش اور مرضی سے اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ شیطان کی پارٹی (حزبُ الشیطان) میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں پارٹیوں میں جو جدوجہد اور کش مکش ہوتی ہے تو اس جدوجہد اور پیکار میں حزبُ اللہ کا آدمی اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، اور حزبُ الشیطان کا آدمی اس جدوجہد میں شیطان کا رفیق ہے۔ یہ ہے اصل پوزیشن جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بتایا گیا کہ تم اللہ کی مدد کرو اور اس کے مددگار بنو۔ پھر جب تم اللہ کے مددگار بن جائو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی تائید سے نوازے گا اور کفر کی راہ اختیار کرنے والوں پر تمھیں غالب کردے گا۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہو سکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔ دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی میں حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دی تھی:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور وہ جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمّہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔

بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت و فرماںبرداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیع فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیع فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس طریقے کو چھوڑ کر جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے۔ اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کر دے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان کش مکش برپا ہے۔ اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار، اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں) سب امتحان گاہ میں اپنااپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کر دے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاں تک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے    منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے    پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام رہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ    اپنے دین کی مغلوبیت کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے    اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے، اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ    خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو   اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیںہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی الجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہتے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں  فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، حصہ پنجم، ص ۳۲۷- ۳۳۱)

مولانا مودودیؒ ایک مدت تک لاہور میں مسجدمبارک میں باقاعدگی سے درسِ قرآن دیتے رہے۔ ان دروس میں تفہیم القرآن کے علاوہ بھی فہم قرآن کے نکات سموئے ہوئے ہیں۔ یہ درس کیسٹ میں محفوظ کر لیے گئے تھے لیکن کتابی صورت میں شائع نہ ہوپائے۔ سورئہ صف، رکوع اول کا درس     پیش ہے۔ جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن۔(ادارہ)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (الصف ۶۱:۱) اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔

یہ سورئہ صف کی ابتدائی آیت ہے اور یہی اس سورت کی مختصر تمہید ہے۔ فرمایا گیا: اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، یعنی زمین، آسمان کی تمام چیزیں اور دراصل پوری کائنات اس بات کا اظہار اور اعلان کرر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص، عیوب اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ کوئی عیب اور کمزوری اس کے اندر نہیں ہے، وہ منزہ ہے تمام نقائص سے___  اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔

وہ عزیز ہے___ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا زبردست ہے کہ کوئی چیز اس کے احکام کے نافذ ہونے میں مانع نہیں ہے۔ جو حکم وہ دے وہ نافذ ہوکر رہتا ہے، کوئی طاقت اس کے کسی حکم کی راہ میں مزاحم نہیں ہے___ اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی وہ جو کچھ فیصلہ کرتا ہے اور جو حکم بھی وہ دیتا ہے وہ حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کی فرماں روائی میں نادانی نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام جو وہ کرتا ہے سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اللہ کی صفت عزیز کے ساتھ حکیم یا علیم کی صفت آتی ہے۔ یہ اس بات کو ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ کسی شخص کا ایسا زبردست اور طاقت ور ہونا کہ اس کے احکام نافذ ہو کر رہیں، اگر نادانی یا بے علمی کے ساتھ ہو، تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ اگرچہ اس کا ہر حکم نافذ ہوکر رہتا ہے اور کسی مخلوق کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کے حکم کے آگے سر جھکا دے لیکن اس غیرمعمولی اختیار اور قدرت کے ساتھ ساتھ وہ حکیم بھی ہے۔ اپنی طاقت کو وہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں___  اور وہ علیم ہے، یعنی جو کچھ کرتا ہے علم کی بنا پر کرتا ہے، جہالت کی بنا پر نہیں کرتا۔

اس پوری سورت میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو نفاق سے پاک ہونا چاہیے اور جس چیز پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے معاملے میں ان کا اخلاص غیرمشتبہ ہونا چاہیے۔ انسان کے لیے اس سے بدتر اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی چیز کو ماننے کا دعویٰ کرے اور پھر اس کے معاملے میں مخلص نہ ہو۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی اس چیز کو ماننے سے انکار کر دے لیکن ماننا اور پھر خلوص کے ساتھ نہ ماننا، یہ بدترین صفت ہے اور یہی نفاق ہے۔

قول و فعل میں تضاد

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o (۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ (قابلِ غضب) حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ہو۔

ایک آدمی کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں مانتا، لیکن اس کے بعد اس کا اپنے نفس کو خدا بنانا، اپنی سوسائٹی اور برادری کو خدا بنانا، اپنی قوم کو خدا بنانا، حکومت کے بڑوں کو، مال داروں کو، اپنے پیرووں، پیشوائوں اور لیڈروں کو خدا بنانا___  یہ سب سراسر کفر کے مترادف ہے۔ جب ایک آدمی کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ اللہ ہی کو اپنا خدا اور معبود مانتا ہے تو اس کے بعد اسے دنیا میں کسی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، چاہے اس کی اپنی ذات کی ہو، یا خاندان، یا برادری یا وطن کی۔ کوئی فرد یا گروہ یا قوت اس کی اطاعت کی مرکز نہیں بننی چاہیے۔

اس طرح کسی آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ میں آپؐ  کو خدا کا رسولؐ مانتا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو ہدایت آپؐ اس کو دے رہے ہیں، اس کے بارے میں وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔حضوؐر جس چیز سے منع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع کر رہے ہیں۔ جس چیز کا حکم آپؐ  دے رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے دے رہے ہیں۔ اس طرح حضوؐر کو اللہ کا رسول ماننے کے بعد پھر آپؐ  کے احکام کی خلاف ورزی بھی کرنا اور آپؐ  کی ہدایات سے انحراف بھی کرنا اور جس چیز کو آپؐ  کہیں کہ یہ سخت ناپسندیدہ فعل ہے، اس کو بڑے اصرار کے ساتھ کرنا، اور جس چیز کا آپؐ  حکم دے رہے ہیں، اس سے فرار اختیار کرنا اور کہنا کہ یہ رجعت پسندی ہے، آج کل کی ثقافت کے خلاف ہے___  دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ آدمی سخت منافق اور جھوٹا اور بے ایمان ہے۔

کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں اللہ کے رسولؐ کو عزیز رکھتا ہوں، لیکن پھر وہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے مفاد کے خلاف کام کرتا ہے، کسی شخص کا اس دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کرنا اور اللہ اور رسولؐ کے دشمنوں کے ساتھ جاکر ملنا اور ان کے منشا کے مطابق کام کرنا ___  یہ سراسر منافقت ہے۔ یہ روش اختیار کرنے سے زیادہ اللہ کے غضب کے قابل کوئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ تم جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہو، اگر تم اس کے خلاف عمل کرتے ہو تو یہ نہایت ناپسندیدہ فعل ہے، اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔

اھلِ ایمان کی روش

اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

یہ دوسری بات ہے جو یہاں مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ کی راہ کے سوا کسی اور راہ میں لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں نہ لڑنا بھی تمھارا کام نہیں ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور جب میدانِ جنگ میں دشمنوںسے سابقہ پیش آئے تو مضبوط صف باندھ کر لڑو۔ اس طرح یہاں طریق جنگ کے بارے میں بھی ہدایت کردی گئی۔

قدیم زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ قبائل ایک دوسرے پر مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ آور ہوتے تھے اور جواب میں دوسرے لوگ بھی منتشر گروہ کی شکل میں دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کو اپنی جنگ میں صف باندھ کر لڑنا چاہیے۔ اس طرح اس زمانے میں مسلمانوں کو جو طریق جنگ سکھایا گیا، بعد میں پھر ساری دنیا نے اس کی پیروی کی۔ عرب میں اور بیرونِ عرب لڑائیوں میں مسلمانوں کو جو کامیابی ہوئی ہے اس کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ عرب کے لوگ چونکہ صف بستہ ہوکر لڑنا نہیں جانتے تھے اور منتشر گروہوں کی شکل میں لڑتے تھے، اس وجہ سے جو گروہ صف بستہ ہوکر لڑتا تھا، وہ آسانی سے مخالف گروہ کو دبا لیتا تھا۔

یہ دراصل ایک ضمنی ہدایت ہے جو اس آیت کے اندر دی گئی ہے۔ لیکن اصل بات جو ذہن نشین کرانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ گروہ ہے جو اس کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو۔ اس کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگائے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو پیٹھ نہ دکھائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی راہ میں لڑتا ہے تو وہ ایک حرام فعل کرتا ہے، اور اگر اللہ کی راہ میں لڑائی کا مرحلہ پیش آجائے لیکن وہ میدان میں نہیں آتا، تب بھی وہ گناہِ عظیم کا ارتکاب کرتا ہے۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر کبھی دارالاسلام پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو اوّلین فرض اس بستی کے لوگوں کا ہے کہ وہ اس کی مدافعت کریں۔ اس کے بعد یہ فرض آس پاس کی بستیوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ بھی اس کی مدافعت کے قابل نہ رہیں، تو پورے ملک کے لوگوں پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ پوری دنیاے اسلام پر، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، سب کے اُوپر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے۔ جب اس طرح کا کوئی مرحلہ درپیش ہو اور لوگوں کو لڑائی کے لیے پکارا جائے اور وہ نہ آئیں تو وہ ایسے ہی گناہ گار ہیں جیسے کہ نماز کی پکار بلند ہونے کے باوجود اس کے لیے نہ آنا، اور جیسے روزے کا حکم ماننے سے انکار کرنا۔ گویا فرضیت کے اعتبار سے ایسے مواقع پر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ، نماز اور روزے کی طرح فرض ہے۔ اس فرض سے منہ موڑنے والے سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور اس فرض کو ادا کرنے والوں سے بڑھ کر اللہ کو محبوب کوئی نہیں۔

یھود کا طرزِعمل

اب اس کے بعد تیسری بات ارشاد فرمائی گئی، یعنی ایک ہی سلسلے میں ایک ہی موضوع پر الگ الگ ہدایات مسلمانوں کو دی گئی ہیں۔ یہ تیسری ہدایت ایک خاص تاریخی حوالے سے ہے:

وَاِِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِی وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ ط فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶۱:۵) اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) کی وہ بات جو انھوں نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ ’’اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو، حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟‘‘ پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس ارشاد سے مقصود یہ ہے کہ تم اپنے رسول کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اپنے نبی ؑ کے ساتھ اختیار کی تھی۔ فرمایا گیاہے کہ حضرت موسٰی ؑ کی قوم اُن کو اذیت دیتی تھی۔ اس سلسلے میں بعض باتوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور بعض کا ذکر بائبل میں آیا ہے۔ بہرحال یہود خود اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنگ کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سلسلے میں بہت سی باتوں کی خبر دی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ان کا ذکر موجود ہے۔

قرآنِ مجید میں متعدد واقعات اس سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ جس زمانے میں مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور آلِ فرعون کو خدا کی بندگی اختیار کرنے کی طرف دعوت دے رہے تھے، اس زمانے میں بنی اسرائیل کے نوجوانوں نے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا لیکن باقی پوری قوم آپ کا ساتھ دینے سے کتراتی رہی، صرف اس خوف سے کہ کہیں ہم فرعون کے غضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو دیکھ کر اس امر میں  کسی شک کی کوئی گنجایش نہیں تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن صرف اس وجہ سے کہ کہیں فرعون کی حکومت کا غضب اُن کے اُوپر نازل نہ ہوجائے، انھوں نے اللہ کے رسول کا ساتھ نہیں دیا۔ نوجوانوں کی ایک مختصر تعداد جن کو یہ لوگ سرپھرے کہا کرتے تھے، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ پھرایک طویل کش مکش اور ابتلا کے بعد جب وہ مصر سے نکلے تو مصر سے نکلنے کے بعد جس پہلی منزل پر جاکر رُکے وہاں انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کر دیا کہ گردوپیش    کی بت پرست قوموں کے جس طرح کے معبود ہیں، ایسا ہی ایک معبود ہمارے لیے بھی بنا دیں۔ اس سے آپ اندازہ کیجیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انھوں نے کیسی اذیت پہنچائی ہوگی کہ جس قوم کو سالہا سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد مصر سے ظالموں کے چنگل سے بچاکر وہ لائے تھے، اور جس قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فرعون کو اور اس کے لشکروں کو غرق کیا اور ان سے ان کو نجات بخشی، اس کے بعد شاید ۲۴ گھنٹے سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے بت پرستوں کی طرح کا ایک مصنوعی خدا مانگ لیا اور کہا:

اجْعَلْ لَّنَـآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ(اعراف ۷:۱۳۸) ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔

اس کے بعد قرآن مجید میں کچھ اور نظیریں بیان کی گئی ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کا حکم دیا کہ تم حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں یہاں ٹھیرو اور میں جاکر   کوہِ طور سے تمھارے لیے اللہ کی ہدایات لے کر آتا ہوں تو یہ لوگ آپ ؑ کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنابیٹھے۔ اسی طرح آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب چلو تاکہ فلسطین کا علاقہ فتح کیا جائے تو انھوں نے کہا کہ وہاں تو بڑے بڑے جبار ہیں۔ ہمارے اندر ان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ تم اور تمھارا خدا جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جب تم اس ملک کو فتح کرلو گے تو پھر ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔

ان سارے واقعات کی طرف یہاں صرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بات کو یاد کرو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ کہا تھا کہ تم مجھے اس طرح کے افعال سے کیوں اذیت پہنچاتے ہو، جب کہ تم کو معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس طرح اس واقعے کا ذکر کرکے دراصل مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کرنا جو یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اختیار کی تھی۔

دلوں میں ٹیڑھ

فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(الصف ۶۱:۵) جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

دوسرے الفاظ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ تم اگر اپنے رسولؐ کی تکریم سے انکار کرو گے، اس کی اطاعت سے منہ موڑو گے اور غلط راستوں پر جانے کی کوشش کرو گے، تو اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا کردے گا۔

دلوں میں ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم پھر سیدھی بات سوچنے کے قابل نہیں  رہو گے۔ جب سوچو گے، ٹیڑھی بات سوچو گے۔ جب تم نے اللہ کے رسول سے منہ موڑ لیا تو پھر تمھیں کبھی صحت فکرونظر نصیب نہیں ہوگی۔ ہر معاملے کو اُلٹی نگاہ سے دیکھو گے۔ جب کرو گے  اُلٹے فیصلے کرو گے۔ کسی قوم کے اُوپر اس سے بڑا اللہ تعالیٰ کا کوئی غضب نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس کو سیدھی طرح سوچنے کی توفیق سے محروم کردے۔ ایسی قوم دشمنوں سے شکست کھاجانے کے بعد بھی اپنی ٹیڑھ پر قائم رہتی ہے۔ شکست کھا جائے، پٹ جائے، جوتے کھا لے لیکن اس کے بعد بھی وہ اُلٹی بات ہی سوچے گی، کبھی سیدھی بات سوچنا اس کو نصیب نہیں ہوگا۔ یہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہونے کی علامت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ یہ اللہ کا رسول ہمارے درمیان موجود ہے کوئی قوم اس کی اطاعت سے انحراف کرتی ہے تو پھر اللہ اس کو کبھی توفیق نہیں دیتا کہ وہ سیدھے طریقے سے سوچے، صحیح نگاہ سے کسی معاملے کو دیکھے اور سیدھے راستے پر قائم رہے۔

وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶۱:۵) اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ وہ فاسق لوگوں کو ہدایت دے۔

فاسق کہتے ہیں اطاعت سے نکل جانے والے کو۔ اگر کوئی شخص اطاعت کو چھوڑ کر نافرمانی کی راہ اختیار کرے تو وہ فاسق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر قبولِ حق کے تقاضے ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو میں کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ جس کو ہدایت نہ دے اس کو کہیں سے یہ ہدایت نہیں مل سکتی، اس کی تفسیر یہ آیت کرتی ہے۔ اللہ کا کسی کو ہدایت نہ دینا، کسی کو گمراہی میں ڈال دینا، یہ اس کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہے کہ وہ تو ہدایت اختیار کرنا چاہتا تھا لیکن   اللہ تعالیٰ نے اس کو زبردستی گمراہی میں مبتلا کردیا۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے، دینِ حق سے انحراف کرتا ہے، ہدایت کے دائرے سے نکل جاتا ہے تو اس کے بعد پھر اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ ہدایت لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے پھرے اور کہے کہ لے لے یہ ہدایت۔ نہیں، بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ اگر تمھیں ہدایت کی ضرورت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھاری خوشامد کر کے تمھیں ہدایت دے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص فسق اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ پھر اس کی رہنمائی کرنا شیطان کا، اس کے اپنے نفس کا کام ہے، یا دنیا کے دوسرے گمراہوں کا کام ہے۔ اس کی رہنمائی کرنا اللہ کا کام نہیں۔ اللہ کبھی ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

نصاریٰ کا رویـہ

وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ o (۶۱:۶) اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم ؑکی وہ بات جو اُس نے کہی تھی کہ ’’اے بنی اسرائیل ، میں تمھاری طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔ مگر جب وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا: یہ تو صریح دھوکا ہے۔

اُوپر یہ فرمایا گیا تھا کہ اہلِ کتاب کی سی روش اختیار نہ کرو، اب اس کی مزید توضیح میں یہ بات فرمائی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل کا رویہ اپنے رسول (حضرت موسٰی ؑ) کے ساتھ درست نہیں تھا اور انھوں نے صحیح رویہ چھوڑ کر اپنے رسول کو طرح طرح اذیتیں دیں، اس کے بعد ان کا یہی رویہ حضرت عیسٰی ؑ کے ساتھ رہا۔

وہ رویہ یہ تھا کہ جب حضرت عیسٰی ؑاُن کے پاس آئے اور انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا اور راہِ ہدایت اختیار کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ آپ کے کھلے دشمن بن گئے۔

پہلی چیز میں صرف بنی اسرائیل مجرم ہیں اور دوسری چیز میں یہود و نصاریٰ دونوں مجرم ہیں۔ گویا اہلِ کتاب کی اس ساری روش کو اس ایک آیت میں بیان کر دیا گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوکر آئے اور انھوں نے    بنی اسرائیل کو یہ دعوت دی کہ گمراہی کو چھوڑ کر راہِ راست اختیار کرو، اللہ تعالیٰ کی بندگی کو اپنا شعار بنائو، اور جن اخلاقی برائیوں میں تم مبتلا ہو، ان کو چھوڑ دو، تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسٰی ؑکو رسول ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان کی دشمنی پر اُتر آئے اور رومی حکومت سے کہہ کر ان کے اُوپر مقدمہ چلوایا اور رومی عدالت سے آپ کو سزا دلوائی۔ پھر سزاے موت دلوانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ جس روز حضرت عیسٰی ؑکو سزا دی جانے والی تھی اس روز رومی عدالت کی طرف سے ایک ڈاکو  کے لیے بھی موت کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ رومی حکومت کا قاعدہ یہ تھا کہ اگر سزا کا دن بنی اسرائیل کی عید کا دن ہوتا تو ان کو یہ پیش کش کی جاتی تھی کہ تم سزاے موت کے ملزموں میںسے جس کو چاہو چھڑوا لو۔ چنانچہ دستور کے مطابق رومی گورنر نے انھیں پیش کش کی کہ آج دو آدمیوں کی پھانسی کا دن ہے، جن میں ایک حضرت عیسٰی ؑ ہیں اور دوسرا بَرّ ابا ڈاکو، تم بتائو کہ تم کس کو چھڑوانا چاہتے ہو؟  اس پر انھوں نے کہا کہ ہم اس ڈاکو کو چھڑوائیں گے۔ اس طرح انھوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام جیسی شخصیت پر ایک ڈاکو کو ترجیح دی اور یہ چاہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام تو صلیب پر چڑھا دیے جائیں، لیکن بَرّابا ڈاکو کو چھوڑ دیا جائے۔

یہود کا یہ سارا غصہ کس بنا پر تھا؟ ان کا یہ سارا غصہ اس بنا پر تھا کہ بنی اسرائیل کے علما جن مکاریوں اور فریب کاریوں میں مبتلا تھے،اور جس طرح خدا کی شریعت کو تھوڑی قیمت پر بیچ رہے تھے اور اپنے مادی مفاد اور نفسانی خواہشات کی بنا پر بڑے لوگوں کے ہاتھ فتویٰ بیچتے تھے، ان کی اغراض کے مطابق خدا کی شریعت میں تحریف کرتے تھے، ان کی ان سب حرکات پر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو ٹوکا اور ان سے باز آنے کے لیے کہا تو ان کو خدا کا رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ ان کے جانی دشمن بن گئے۔ چونکہ تورات ان کے قبضے میں تھی اور وہ عام آدمی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے تھے، اس لیے اس کی من مانی تاویلات کرتے تھے۔ حد یہ تھی کہ بنی اسرائیل تورات کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی جو خاص علما کی جماعت (priest class) تھی، تورات صرف اس تک محدود تھی، اور وہ بھی غلافوں کے اندر لپٹی رہتی تھی۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کے عام لوگوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ تورات کے احکام کیا ہیں۔ جو کچھ ان کے مذہبی پیشوا ان کو بتاتے تھے کہ تورات کے احکام یہ ہیں وہ ان کو اسی طرح مان لیتے تھے۔ پھر وہ خاص یہودی علما تورات کے احکام کے اندر اپنی اغراض کے مطابق تغیر و تحریف کرتے رہتے تھے۔ جو حکم وہ چاہتے تھے اس کو بیان کرتے تھے اور بنی اسرائیل اس کو تسلیم کرتے تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے آکر ان لوگوں کو ان چیزوں پر ٹوکا اور ان سے یہ کہا کہ تم جس اخلاقی مرض میں مبتلا ہو، یہی تمھارے نفاق کا سبب ہے۔ اس کو چھوڑ دو، اس پر وہ سب آپ کے دشمن ہوگئے۔

بنی اسرائیل کے اندر، جو حضرت عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے پانچ چھے سو برس سے مارے کھدیڑے جا رہے تھے، عجیب توہمات رائج تھے۔ اسی زمانے سے ان کے ہاں پیشین گوئیاں چلی آرہی تھیں کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس عذاب سے نجات دلائے گا جس میں تم دنیا میں مبتلا ہو۔ بنی اسرائیل نے ان پیشین گوئیوں سے یہ سمجھا کہ وہ مسیح تلوار لے کر آئے گا اور جو قومیں ہم پر غالب اور حکمران ہیں ان کو مار کر ہمارا ملک ہمیں واپس دلائے گا اور ہم کو پھر حکمرانی کے تخت پر بٹھا دے گا۔ اس لیے جب انھوں نے حضرت عیسٰی ؑکو دیکھا کہ بجاے اس کے کہ یہ تلوار سے ہمیں ہمارے دشمنوں سے نجات دلائیں اور ہمیں پھر فلسطین کے اُوپر قابض ہونے کا موقع دیں، یہ تو اُلٹا ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم اپنے اخلاق درست کرو، حرام کو چھوڑو اور حلال کو اختیار کرو، یہ انھوں نے ہمیں کس چکر میں ڈال دیا۔ اس وجہ سے وہ حضرت عیسٰی ؑکے دشمن ہوگئے اور ان کو ماننے سے انکار کر دیا۔

یہ ان کا پہلا جرم تھا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ حضرت عیسٰی ؑنے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی جو بشارت دی تھی اس کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عیسٰی ؑ کی یہ بشارت عیسائیوں کی تمام تحریفات کے باوجود اب بھی انجیل کے اندر موجود ہے۔ اگرچہ سب انجیلوں میں اب یہ بشارت موجود نہیں ہے، لیکن بعض انجیلوں کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ صراحت موجود رہی ہے۔ اب ان کو عیسائیوں نے مستند انجیلوں سے خارج کر دیا ہے، تاہم اب بھی ان کے نزدیک جو مستند انجیلیں موجود ہیں، ان کے اندر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی بشارت موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بشارت کے صریح الفاظ میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ بہرکیف اس بشارت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہود و نصاریٰ نے آپؐ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس تکذیب کا الزام    بنی اسرائیل پر کم آتا ہے اور عیسائیوں پر زیادہ آتا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل نے تو حضرت عیسٰی ؑ کو سرے سے رسول ہی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے انھوں نے ان کی دی ہوئی بشارت اور  پیش گوئی کو بھی ماننے سے انکار کر دیا لیکن عیسائی جو حضرت عیسٰی ؑ کو مانتے تھے، انھوں نے بھی ان کی بتائی ہوئی پیشین گوئی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

اس پیشین گوئی کے بارے میں موجود زمانے میں ہمارے اپنے ملک (متحدہ ہندستان و پاکستان) کے اندر ایک گروہ نے صریح تحریف کی ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکی پیش گوئی کے مصداق حضوؐر نہیں تھے بلکہ نعوذ باللہ ایک اور شخصیت ہے کیونکہ رسولؐ اللہ کا تو نام ہی احمدؐ نہیں تھا۔ ان کا نام تو محمدؐ تھا۔ اس لیے جس نبی کی آمد کی خوش خبری دی گئی تھی اس کا نام اب غلام احمد ہے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ ان کے باپ نے جب ان صاحب کا نام غلام احمد رکھا تھا تو کس احمد کے غلام کی حیثیت سے رکھا تھا؟ اگر رسولؐ اللہ کا اسم گرامی احمد نہیں تھا تو اس جعلی نبی کے والد نے ان کا نام کس احمد کے غلام کے طور پر رکھا تھا؟ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر بددیانت ہیں کہ ان کے اپنے تجویز کردہ نبی کا نام ہی جب غلام احمد ہے، احمد نہیں، تو اس کے باوجود وہ پھر انکار کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد نہیں تھا، اور یہ پیشین گوئی حضوؐر کے بارے میں نہیں تھی۔

صریح بھتان

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِِلَی الْاِِسْلاَمِط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، حالانکہ اُسے اسلام (اللہ کے آگے سرِاطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جارہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

یہ بات جو فرمائی گئی کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، اُس پر جھوٹ گھڑے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو جو یہ جان لینے کے بعد کہ فلاں صاحب اللہ کے نبی ہیں، خواہ پچھلے انبیا کی پیشین گوئی کے مطابق، خواہ اپنی تعلیم کے مطابق، وہ ان کی نبوت کا انکار کرے، ان پر الزام رکھے کہ وہ جادوگر ہیں اور خود ایک کتاب تصنیف کر کے اس کو خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں، اس سے بڑا افترا کوئی نہیں اور اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ اس کے برعکس اگر دعوت دینے والا لوگوں سے یہ کہتا ہے کہ تم میری بندگی کرو تو آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کے خلاف لڑیں لیکن اگر دعوت دینے والا یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور آپ اس سے لڑنے جارہے ہیں تو اس کے کیا معنی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی بندگی کی دعوت دینے والے کے خلاف لڑنا اللہ کی بندگی سے لڑنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ خدا کے رسول سے تمھاری دشمنی اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے کھڑا ہوا ہے، اس لیے تم اس کے مخالف ہو۔ نہیں، بلکہ تمھاری دشمنی اس بنا پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے اور تم اللہ کی بندگی کی طرف آنا نہیں چاہتے۔ اور پھر صرف یہی نہیں کہ  تم اسے خدا کا نبی ماننے سے انکار کررہے ہو بلکہ اس کے اُوپر جھوٹے الزام لگا رہے ہو، بیہودہ بہتان گھڑ رہے ہو، اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۶۱:۷) ’’اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا، یہاں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی فسق اور ظلم سے بچے۔ اگر کوئی شخص فسق اختیار کرتا ہے، یعنی جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اس کے پیچھے پیچھے ہدایت لے کر پھرے کہ تو اس کو قبول کرلے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظلم پر اُتر آتا ہے___  اور ظلم کے معنی یہاں صداقت پر ظلم کرنا ہے___  ان معنوں میں کہ آدمی کے سامنے صداقت پیش کی جائے لیکن پھر وہ اس کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ انکار کا راستہ اختیار کرے بلکہ اُلٹا صداقت پیش کرنے والے کادشمن ہوجائے اور اس پر الزام اور بہتان لگانا شروع کر دے، تو یہ ظلم ہے اور جو لوگ اس طرح کا ظلم اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پھر کبھی ان کو ہدایت نہیں دیتا۔ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف ظلم کی روش اختیار کی تو پھر اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے پیچھے ہدایت لیے لیے پھرے۔

باطل کی حقیقت

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلاکر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

یہ مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ سورئہ توبہ میں بھی آیا ہے۔ یہاں پھر اسی کو دُہرایا گیا ہے۔ گویا یہ لوگ اگر باتیں بناکر، الزامات لگاکر، بہتان گھڑ کر اور جھوٹے پروپیگنڈے کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، اللہ کا نور بجھنے والا نہیں ہے۔ ہمیشہ دنیا میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی خود سیدھی راہ پر چل رہا ہو، اور دوسرے لوگوں کو بھی سیدھا راستہ دکھا رہا ہو اور ایمان داری کے ساتھ اپنے طریقے کو معقول انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہو، لیکن دوسرا شخص اس کے مقابلے میں طرح طرح کی غلط کارروائیاں کرتا ہے، اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتا ہے، اس پر الزامات رکھتا ہے، بہتان لگاتا ہے، آخرکار وہ ناکام ہوکر رہتا ہے اور راست باز آدمی کو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کا جھوٹا پروپیگنڈا، اس کے الزامات، اس کے بہتانات اس آدمی کو زک پہنچا دیںگے جو سیدھے سیدھے طریقے سے اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے، لیکن یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں، اور وہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مار لیا، میں نے ہزاروں آدمیوں میں غلط فہمیاں پھیلا دیں اور داعی الی اللہ کو بدنام کردیا، لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ جب ایک آدمی کسی پر جھوٹا الزام رکھتا ہے تو اس کا جھوٹ کبھی نہ کبھی کھل کر رہتا ہے، اور جس وقت دنیا کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا تھا اور اس نے جھوٹے الزامات لگائے اور بے بنیاد بہتان گھڑے تھے تو اس کے بعد اس شخص کی صرف اسی بات کا اعتبار نہیں جاتا بلکہ اس کی ساری باتوں کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔ دوسری طرف جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ جس شخص کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس سے دشمنی کی جارہی ہے لیکن وہ ان حرکتوں کے مقابلے میں شرافت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کسی نازیبا بات کا جواب نہیں دیتا، جھوٹ کے جواب میں جھوٹ نہیں بولتا اور الزامات کے جواب میں الزام نہیں لگاتا تو لوگوں کے دلوں میں اس آدمی کی عزت خود بخود قائم ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ہے۔   اللہ تعالیٰ اس طریقے سے جھوٹ کو نیچا دکھاتا ہے اور سچائی کو سربلند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اپنے منہ سے جھوٹ کا جو طوفان اُٹھاتے ہیں، اُلٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اللہ کے نور کو بجھا دیںگے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، خدا کے دین کی روشنی پھیل کر رہے گی اور جھوٹے پروپیگنڈے آخرکار بالکل ناکام ہوکر رہیںگے۔ جھوٹ پر مدار رکھنے والوں کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی۔

وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (۶۱:۸) خواہ انکار کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

دین غالب ھونے کے لیے آیا ھے!

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت میںاُوپر والے مضمون کو دوسرے الفاظ میں مزید زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے، ایک سورئہ فتح میں اور دوسرے سورئہ توبہ میں۔ فرمایا یہ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے، ایک ہدایت اور دوسرے دینِ حق۔ درحقیقت یہ دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی چیز کے  دو phase (مراحل) ہیں۔

دین حق سے مراد وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو انسانی زندگی کے لیے دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ حلال و حرام کیا ہے، کس چیز میں انسان کی بھلائی اور کس چیز میں خرابی ہے۔ اور کیا چیزیں ہیں جوانسان کی ہلاکت اور تباہی و بربادی کی موجب ہوتی ہیں اور کیا چیزیں فلاح کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے فرائض کیا ہیں، ان کو کس طرح انجام دینا چاہیے۔ اس طرح زندگی کے مختلف دائروں میں جو قوانین اور احکام دیے گئے ہیں، خواہ وہ انسان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہوں، خواہ خاندانی اور قومی زندگی کے متعلق ہوں، وہ سب کے سب خدا کا دین ہیں۔ معاشرہ، معیشت، قانونِ جنگ، سیاست، غرض زندگی کے ہرشعبے کے متعلق جو ضابطے اور اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ سب دین ہیں۔ ایک ایسا دین جو سراسر حق کے مطابق ہے۔

دوسری چیز ہدایت ہے، یعنی ان احکام و فرامین پر عمل درآمد کے طریقوں کی طرف رہنمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ رہنمائی دے کر بھیجا کہ وہ دین حق کو غالب کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے۔ یہ بتایا کہ اس دین کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتائیں تاکہ وہ اس کے مطابق کام کرے۔ اس طرح   اللہ تعالیٰ نے یہ دو چیزیں دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ وہ دنیا کو سیدھے راستے پر چلائے اور دینِ حق کو پورے دین پر غالب کردے۔دوسرے الفاظ میں دنیا جس طریقے پر چل رہی ہے، ان کے مجموعے کا نام دین ہے۔ پورے کے پورے دین سے مراد یہ ہے کہ جس جس شکل میں کوئی اپنی زندگی گزار رہا ہے، وہ اس کا دین ہے۔ اگر کوئی یہودیت پر چل رہا ہے تو یہودیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی نصرانیت پر چل رہا ہے تو نصرانیت اس کا دین ہے۔ اگر کوئی دہریت پر چل رہا ہے تو دہریت اس کا دین ہے۔ اگر کسی نے اپنے ہاں سیکولر نظام قائم کیا ہے تو وہ نظام اس کا دین ہے، اور اگر کسی نے کسی طرح کا مذہبی نظام قائم کیا ہے تو وہ مذہبی نظام اس کا دین ہے۔ یہ سارے کے سارے دین جو دنیا میں چل رہے ہیں ان سب کے لیے اَلدِّیْن کُلِّہٖ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

رسول کے آنے کا جو منشا اور جس غرض کے لیے اللہ نے رسول کو اپنا دین دے کر اور اس کے ساتھ اپنی ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے دین چل رہے ہیں، وہ ان سب کے اُوپر اللہ کے دین کو غالب کردے۔

یہ بات واضح رہے کہ دنیا میں کوئی بھی رسول کبھی اس لیے نہیں آیا ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں اور خدا کے رسولؐ کا لایا ہوا دین ان کے تابع بن کر رہے۔ اگر کوئی احمق    یہ سمجھتا ہے کہ رسول بھی اس کام کے لیے آتا ہے کہ دنیا میں کفر اور کفار کا غلبہ رہے اور اسلام ان کے تابع بن کر رہے اور وہ بھی وہی طریقے اختیار کرے جو دنیا کے طریقے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتا کہ خدا کیا ہے، اس کا دین کیا ہے، اور اس کا رسول کیا ہے۔ خدا اس ساری کائنات کا مالک ہے تو اُسی کے دین کو یہاں غالب ہوکر رہنا چاہیے۔ دنیا کے کسی اور دین کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ رب کائنات کی اس سلطنت کے اندر جاری اور قائم رہے۔

اللہ جب اپنے رسول کو بھیجتا ہے تووہ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے دین کو غالب کرے گا، نہ اس لیے کہ دوسرے دین غالب ہوں اور اللہ کا دین مغلوب بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات اور سلطنت کے اس حصے کا، جس کا نام زمین ہے، تنہا مالک ہے، اور مالک اپنے رسول کو اس لیے نہیں بھیجے گا کہ وہ دوسروں کی مرضی کے مطابق چلے اور جو لوگ خدا کی زمین پر مالک بن بیٹھے ہیں، وہ جاکر ان کا ماتحت بن جائے۔ نہیں، بلکہ وہ اللہ کا نمایندہ بن کر آئے گا اور ان کو اس بات کی دعوت دے گا کہ وہ اللہ کے مطیع بن کر رہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق دنیا میں کام کریں۔ اس کو ہدایت ہی اس غرض کے لیے دی گئی ہے کہ وہ دنیا سے یہ کہے کہ جن طریقوں پر تم چل رہے ہو، وہ غلط ہیں اور جو ہدایات میں اپنے رب کی طرف سے تمھیں دے رہا ہوں، وہ صحیح ہیں اور انھی کی پابندی کرنا تمھارا فرض ہے۔

قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نبی کسی قوم میں مبعوث ہوکر آیا تو اس نے لوگوں سے خطاب کرکے کہا: فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(الشعرا ۲۶:۱۵۰) ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ کوئی نبی کبھی یہ بات لے کر نہیں آیا کہ تم حکومت کرو اور میں تمھاری اطاعت کروں گا۔ نہیں، بلکہ اس نے یہی کہا کہ میں خدا کی طرف سے اس کا نمایندہ بن کر آیا ہوں،    اس لیے تم میری اطاعت کرو۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے رسولؐ کو اس غرض سے بھیجا کہ  وہ اس دین کو پورے کے پورے دین پر غالب کر دے۔

وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۶۱:۹) خواہ یہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

ظاہر بات ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے ساتھ کسی دوسرے دین کو ملائے بیٹھے ہوں گے اور خدا کے احکام چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی اطاعت کر رہے ہوں گے، ان کو یہ بات سخت ناگوار ہوگی کہ باقی سب کی اطاعت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی اطاعت کی جائے۔ لیکن قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ بات ان کو ناگوار ہو تو ہوا کرے،اللہ کے رسولؐ کا کام یہ ہے کہ ان کی تمام ناگواری کے باوجود اور ان کی ساری مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔

مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

۱- اسلام کے علاوہ جتنے بھی نظریات ہیں ان سب کو دورِحاضر میں جانچ اور پرکھ کر دیکھا جاچکا ہے اوروہ سب ناکام رہے ہیں۔ باطل قوتوں کے پاس آج کوئی نظریہ باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا اب ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں فی الواقع لوگوں کے لیے کشش ہو۔ ہم اِس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انھیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آنا پڑتا ہے۔ ان کے کھوکھلے پن کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہوگا۔

۲- اِس ملک میں جتنے بھی گروہ اور جتنی بھی قوتیں موجود ہیں، وہ ایک ایک کر کے آزمایش کے مقام پر آتا چلا جا رہا ہے، اور اپنی نااہلی اور نالائقی ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔ خواہ آپ سیاسی گروہوں کو لیں، خواہ دوسرے طبقات کو، ہر ایک آزمایش کی کسوٹی پر کھوٹا ثابت ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم ان میں سے ایک ایک سے مایوس ہوتی جارہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سے بالکل مایوس ہوجائے گی۔ اور قوم میں خود ہی کسی قابلِ اعتماد عنصر کے لیے پیاس پیدا ہوگی، بلکہ ان حضرات کی کارگزاریوں کی وجہ سے پیدا ہونی شروع بھی ہوگئی ہے۔   جیسے جیسے یہ پیاس بڑھے گی___ اور اسے لازماً بڑھنا ہے ___ ویسے ہی ویسے ان شاء اللہ  تحریکِ اسلامی کے لیے مواقع پیدا ہوتے جائیں گے۔

۳- باطل کی قوتیں اگر متحد ہوتیں تو پھر شاید کچھ خطرناک ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دوسرے کا حریف اور دشمن بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی طاقت کو توڑنے اور اس کے اعتماد کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ان کی مخالفت میں بہت سا کام جو تعمیری قوتوںکو کرنا تھا یہ حضرات خود اپنے ہی ہاتھوں کر رہے ہیں۔ اس نے تحریکِ اسلامی کی قوت کو بڑھا دیا ہے۔

۴- جن حالات سے آج ہمیں سابقہ پیش ہے اور جس سمت میںاس ملک کو لے جایا    جا رہا ہے، وہ ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے معاشرے میں جو بگاڑ راہ پارہا ہے اور جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہمارے پاس اس وقت وہ ذرائع موجود نہیں جن سے ہم اس کو روک سکیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ان شاء اللہ اس بگاڑ کے باوجود تحریکِ اسلامی کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ ہم اس مفروضے پر تو کام کر نہیں رہے کہ شیطان کو معزول کردیا جائے اور ہمیں کھلی چھٹی مل جائے گی، یا تحریک اسلامی کے لیے کوئی ایسا مخصوص میدان ہے جہاں شیطان کا عمل دخل نہ ہو۔ ہم اِس قسم کی کوئی توقع نہیں رکھتے اور انھی حالات میں اپنے لیے راہ نکال رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس میں کامیاب ہوں گے۔

جو لوگ حالات کے بگاڑ سے مایوس ہوجاتے ہیں، مَیں ان سے کہتا ہوں کہ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اِس سے بدرجہا زیادہ خراب حالات کے باوجود اور انتہائی جبروتشدد کے استعمال کے باوجود آج تک [اشتراکی] روس سے اسلام کو خارج نہیں کیا جاسکا [بلکہ آج وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں روس کے چنگل سے نکلنے کے بعد آزاد ریاستیں ہیں]۔ ترکی میں اسلام کو غیرمؤثر بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہاں آج بھی اسلام کے ساتھ دل چسپی اسی طرح ہے۔ یہ ان قوموں کا حال ہے جہاں دین سے انحراف اور معاشرتی بگاڑ کے خلاف کوئی جوابی چیز موجود نہ تھی، جہاں لوگوں کے لیے دُور دُور تک اُمید کی کوئی شعاع نہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام سے وابستہ رہے اور کوئی طاقت اسلام کو مٹا نہ سکی۔ ہمارے ملک میں ایک مثبت جوابی تحریک موجود ہے۔ یہ مسلسل کام کر رہی ہے۔ لوگوں کو ایک سہارا نظر آتا ہے۔ اس لیے بگاڑ کی رفتار خواہ کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو مجھے مایوسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، بلکہ جب خود اسلامی تحریک کی ترقی اور اس کے اثرات کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سر خدا کے حضور شکر سے جُھک جاتے ہیں۔ میرے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی مایوسی کے جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ مَیں حالات کو ہر لحاظ سے اُمیدافزا سمجھتا ہوں۔

۵- پھر مجھے اِس بات پر مکمل یقین ہے کہ اگر کسی حق بات کے لیے موزوں طریقے پر  کام کیا جائے، اور کام کرنے والے بھی موزوں ہوں، اور کام بھی حکمت و دانش مندی کے ساتھ  کیا جائے تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں بلکہ کامیابی ناگزیر ہے۔ حق کی فطرت میں کامیابی ہے۔  ضرورت جس امر کی ہے وہ موزوں طریقے پر صحیح آدمیوں کے ذریعے اور حکمت و تدبر کے ساتھ  کام کرنا ہے اور الحمدللہ یہ کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہا ہوں اور آج بھی پُرامید ہوں۔ ان شاء اللہ اسلام غالب ہوکر رہے گا۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو، اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۴)

 

آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند، سورج اور دوسرے سیّارے اس کے خدا تھے اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا، وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔

ایسے زمانے، ایسی قوم اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا ہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ، اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا، کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور  خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔ وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے، وہ بجاے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج، چاند، زُہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے، اور آخرکار یہ بے لاگ راے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں، خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیداکیا ہے۔

پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’میں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے، میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں___ یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جو اس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر، خاندانی اور قومی تعصبات پر، اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پر چلی جارہی ہے۔

اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب، اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں، انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھا ہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔ وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدّی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھر گیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کر دے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا، اپنے باپ کو، اپنے خاندان کو، اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی، اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ، ملک، برادری، خاندان، حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہرطرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو    حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا، اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔

نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی، جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے، بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے، مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔ اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یوں ہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کو دنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو، اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہر مفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔

اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کو پالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا، پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا، اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورت حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا، مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خدا کے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔ ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندۂ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں، محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا، کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا، محض محبت کی آزمایش مقصود تھی، لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا___ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان، اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔

آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں، اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کر کے مناتے ہیں۔ اس یادگار کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔ وہاں تو جو چیز مطلوب ہے  وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے، وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب، کوئی دل چسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دبائو اور لالچ، کوئی خوف اور نقصان، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کر دینا آسان ہو، مگر اُس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے(اکتوبر ۱۹۴۷ء)۔ (نشری تقریریں، ص ۹۷-۱۰۴)

 

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات کیا ہیں؟ ....[اس] سوال کے دو جواب ہیں:

تدبر و قربانی سے یہ کام ممکن ھے

ایک جواب یہ ہے کہ انسان پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے، بیوقوفوں کی طرح نہیں، سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ نکال سکتا ہے، سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے، وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے، اور اس کام کو وہ لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتے دیکھیں، اس لیے کہ نہ معلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی، اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتے دیکھیں گے، دنیا پر غالب ہوتے دیکھیں گے تو دنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ ہمارا فرض ہے، ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا اور ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں، لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ ایسا دین غالب کیا کہ دنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا، تو امکان یہ بھی ہے۔

دوسرا پھلو

اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر یہ نظام نافذ نہ ہو، اور اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی، اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو آپ کی بھی کمزوری نہیں ہوگی، وہ [اُس] قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم     اپنے آپ کو فساق وفجار کے لیے تیار کرے اور اس پر راضی ہوجائے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی     ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کو صالحین اور متقی نہیں دیں گے۔ یہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپا دیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی تو وہ ناکام نہیں تھے۔ وہ قوم ناکام تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے قصے  میں آتا ہے کہ جس وقت فرشتے قومِ لوط پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا:        فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ___ پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا۔ اس کے لوگوں سے کہا، نکل جائو اور حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ بیوی کو چھوڑ جائو۔ یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے، تو ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خدا ترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام وہ قوم ہے۔

امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں

اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے، اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کیا امکان ہے، تو ان سے میں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں۔ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے     جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدراعظم بن جانا بھی کامیابی نہیں، کھلی ناکامی ہے۔

آپ کا فرض

اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے تو جو آدمی طہارت کی ذرہ برابر بھی حِس رکھتا ہو تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔  وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچے دل سے قائل ہے وہ یہ سوچ نہیں سکتا کہ دوسرے جن راستوں میں آسانیاں ہیں، جن راستوں میں سہولتیں ہیں، عیش ہے،لذتیں ہیں، فائدے ہیں ان کی طرف جائے کہ ان کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں۔ وہ کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا ان کے محلات پر، ان کی کوٹھیوں پر، ان چیزوں پر، وہ کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ کاش! یہ دولت میرے پاس آئے۔ اس وجہ سے صرف وہ لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں جو ’امکان ہے‘ کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے۔ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہر مصیبت اور ہر مشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کردیے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیراسلامی نظام کو چلاتے ہیں وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

نظامِ باطل کہوکہلا ھوتا ھے

واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں ان کی حالت کیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی پر مبنی نہیں، بے لوثی پر مبنی نہیں،قلبی محبت پر نہیں مفاد پر مبنی ہیں، جس کے ساتھ ہیں اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ وہ اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں جب دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ ان مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔ باطل نظام بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے ٹھوس نہیں ہوتا۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے تو ایسے لوگوں کو موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، وہ  اس راستے کو بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اکھڑتے ہیں۔ اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ آدمی بدلیں گے وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔ صرف اشخاص بدلتے چلے جائیں گے۔

حالات اھلِ حق کے منتظر ھیں!

آپ دیکھیے یہاں جو نظام [برسوں] سے چلا آرہا ہے اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورت حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں۔ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں، اور یہ مسلسل انقلابات کے لیے زندہ بھی رہ سکے گی۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچاسکتی ہے تو یہی نظامِ حق ہے، وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ قبل اس کے کہ خدا کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ (جمعیت اتحاد العلما کے زیراہتمام راولپنڈی میں منعقدہ نفاذِ شریعت کانفرنس سے خطاب۔ ہفت روزہ   ایشیا ،۱۴ مارچ ۱۹۷۶ء)

 

اسلام کے شیدائی نوجوانوں کی یہ ہری بھری لہلہاتی فصل دیکھ کر میرے اُوپر اس طرح کا اثر ہوتا ہے جس کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ [الفتح ۴۸:۲۹] ___ کسانوں کو اس کی بہار پسند آتی ہے اور کفار کا دل کڑھتا ہے۔ اس آیت میں ایک لطیفہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کافر کا لفظ عربی زبان میں کسان کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ زرّاع کے مقابلے میں کافر کا لفظ ذومعنی استعمال کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ بھلائی کی فصل بونے والے خوش ہوتے ہیں اور بُرائی کی فصل بونے والے کڑھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا۔ اب مجھے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآنکی تکمیل پر صرف کر دی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کر رہا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی ہے اور اس کے اندر یہ مقبول ہو رہی ہے۔

اس موقع پر میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں گا کہ اس تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں، میں نے جو طرزِ استدلال توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ درحقیقت میری اس ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد کی ہے۔ اگرچہ میں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوا تھا، میرے والد مرحوم اور میری والدہ مرحومہ دونوں دین دار تھے اور میں نے ان سے پوری مذہبی تربیت پائی۔ لیکن جب میں ہوشیار ہوا اور جوانی کی عمر میں داخل ہوا تو میرا طرزِفکر یہ تھا کہ کیا میں صرف اس وجہ سے مسلمان ہوں کہ مسلمان کا بیٹا ہوں۔ اگر اس وجہ سے میرا مسلمان ہونا برحق ہے تو جو شخص ایک عیسائی کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا عیسائی ہونا برحق ہوگا اور جو ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا ہندو ہونا برحق ہوگا۔ اس لیے مجھے تحقیق کرنی چاہیے کہ حق   فی الواقع کیا ہے۔ چنانچہ اس حالت میں، مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ یہ نہیں ہے کہ میں دہریہ ہوگیا تھا یا ملحد ہوگیا تھا، دراصل میں تحقیقات کے بعد ایک مستقل فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔

اس غرض کے لیے میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بہ لفظ پڑھے، گیتا لفظ بہ لفظ پڑھی، ہندو مذہب کے فلسفے اور ہندو مذہب کی تاریخ کو پڑھا، بدھ مذہب کی اصل کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کو پڑھا۔ اسی طرح بائیبل پوری کی پوری پڑھی اور پادری دومیلو کی تحقیق کی نظر سے پڑھی تاکہ یہ نہ ہو کہ میں کوئی متعصبانہ مطالعہ کروں۔ میں نے اپنے دماغ کے ہرتعصب کو نکال کر پوری دیانت داری کے ساتھ تحقیق کی کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ عیسائیت اور یہودی مذہب دونوں کے متعلق میں نے وسیع معلومات حاصل کیں۔ عیسائیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں اور یہودیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں۔ تلمود کے جتنے حصے مجھے مل سکے، میں نے پڑھے۔پھر میں نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے اور جن لوگوں نے سائنس کے نام سے دنیا میں دہریت پھیلائی ہے، ان کو پڑھا۔ نہ صرف پڑھا بلکہ جن مغربی مفکرین کے پیچھے دنیا چل رہی ہے، ان کے حالات بھی پڑھے تاکہ یہ معلوم کروں کہ یہ لوگ معتدل مزاج اور سوبر ہیں بھی کہ نہیں۔کیونکہ ایک انسان ایک نظریہ پیش کرتا ہے اور بعض اوقات وہ نظریہ یہ پتا دیتا ہے کہ اس کے پیش کرنے والے کے دماغ میں کچھ نہ کچھ عدم توازن پایا جاتا ہے۔ میں نے ان لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھیں تاکہ یہ معلوم کروں کہ فی الواقع ان کی زندگیاں کیا ہیں۔ اس سارے مطالعے کے بعد پھر میں نے قرآن مجید کو پڑھا۔ بچپن سے میری تعلیم عربی کی تھی، اس لیے مجھے اس کی ضرورت نہ تھی کہ میں اسے ترجمے سے پڑھتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو اصل کتابیں ہیں (بعد کے لوگوں کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ اصل ماخذ) ان کو پڑھا اور احادیث کو پڑھا۔

اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس سے زیادہ معقول اور اس سے زیادہ مدلل مذہب اور کوئی نہیں ہے جیساکہ قرآن پیش کرتا ہے، اور اس سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ مفصل اور صحیح پروگرام کہیں نہیں پیش کیا گیا جیساکہ قرآن وحدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوں، بلکہ تمام مذاہب ِ عالم کا اچھی طرح مطالعہ کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد میں نے یہ راے قائم کی ہے۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے دلائل کے ساتھ اس راے کا بھی اظہار کرتا ہوں۔ یہ وہ استدلال ہے جس سے میں نے درحقیقت اسلام حاصل کیا ہے۔ جس سے میں توحید کا قائل ہوا، جس سے میں رسالت کا قائل ہوا، جس سے میں وحی کا قائل ہوا، جس سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے کا قائل ہوا، جس سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہر زمانے کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ میں قرآن مجید کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھائوں کہ اسلام حقیقت میں ہے کیا....

میری خواہش یہ تھی کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھوں گا اور ایک حدیث کا مجموعہ مرتب کروں گا اور اس کی شرح بھی کروں گا لیکن ۳۰ سال تفہیم القرآن ہی لکھنے میں گزر گئے___ تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کرکے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن مجید کی کون سی آیت اور کون سی سورہ کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں۔ یوں تفہیم القرآن ہی میں سیرت پر بھی خاصا مواد جمع ہوگیا ہے اور اگر کوئی شخص اس کو مرتب کرے تو سیرت پر ایک کتاب مکمل ہوسکتی ہے۔ احادیث کا مجموعہ بھی اگرچہ میں مرتب نہیں کرسکا، لیکن جہاں جہاں بھی موقع ہوا ہے، میں نے احادیث سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے تو احادیث کا مجموعہ بھی اس سے مرتب کرسکتا ہے۔ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قرآن اور حدیث کے درمیان باہم کیا تعلق ہے اور قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث کتنی ضروری ہے۔ حدیث اگر نہ ہو تو قرآن سمجھنے میں آدمی کو کتنا نقص واقع ہوتا ہے۔

میں اپنے تجربے اور مطالعے کی روشنی میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ لوگ بھی صرف اس وجہ سے مسلمان نہ بنیں کہ مسلمانوں کی اولاد ہیں بلکہ شعوری طور پر ایمان لائیں۔ شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ اللہ ہے اور یقینا وہ ایک ہے اور ساری کائنات اسی کی ہے۔ اور شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ آخرت ہے اور یقینا مرنے کے بعد ہمیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو جواب دینا ہے۔ اور شعوری طور پر یہ بات تسلیم کریں کہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی تھے اور آپؐ پر وحی آتی تھی۔ اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ خالص اسلام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب آدمی شعوری طور پرسوچ سمجھ کر ایمان لائے اور جانے کہ جس چیز کو میں مانتا ہوں، اس کے ماننے کے تقاضے کیا ہیں، اس کے ماننے کے بعد کیا چیز لازم آتی ہے۔ پھر آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس کی زندگی میں تضاد ہو اور تناقض ہو، وہ کہے کچھ، کرے کچھ۔ اس کے اخلاق کچھ اور ہوں اور اس کے اعمال کچھ اور ہوں اور نماز وہ مسجد میں جاکر ادا کر رہا ہو۔ یہ صورت حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے۔ جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کان حنیفًا مسلمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا۔

میں اپنی اس تقریر کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان نوجوانوں کو سچا مسلمان بنائے اور ان کو اسلام کے لیے جان، مال،محنت، قابلیت، ہر چیز قربان کرنے کی توفیق عطافرمائے، اور وہ سرزمین جو اسلام کا گھر تھی اور اسلام کے لیے بنائی گئی تھی، اس سرزمین کو گمراہ کرنے والوں سے پاک کرے، اور ان لوگوں کی توفیق اور تائید فرمائے اور ان لوگوں کی مدد فرمائے جو اس سرزمین کودارالاسلام بنانا چاہتے ہیں___ وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین۔ (اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام تکمیل تفہیم القرآن کی تقریب سے خطاب ،بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء)

 

پاکستان میں [جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں   ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ  ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے۔

وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی  فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔

اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔

ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔

[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....

۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس   کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....

اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....

۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے  تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے  جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)

 

اسلام کی نشاتِ ثانیہ اسی چیز کا نام ہے جس چیز کا نام دعوتِ اسلامی ہے۔ دعوتِ اسلامی ایک فرد سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قومیں گزری ہیں ان کے اندر ایک نبی آیا۔ اس نے دعوتِ اسلامی شروع کی، اس دعوت کو جن لوگوں نے سمجھا اور سمجھ کر اس پر ایمان لائے اور جو اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت اور محنت کی قابلیتیں صرف کرنے کو تیار ہوگئے، ان سے وہ دعوت شروع ہوئی۔ اب اس میں یہ کہنا کہ کتنے فی صد امکانات ہیں تو بعض انبیا ایسے گزرے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ایک دو آدمیوں کے سوا ان پر کوئی ایمان نہیں لایا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً حضرت عیسٰی ؑکی ۳ سالہ تبلیغ پر کُل ۱۲ آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور ان میں سے بھی ایک وہ غدار تھا، جس نے انھیں پکڑوا دیا۔ اس لیے سارا انحصار اس بات پر ہے کہ اس دعوت کو اور اس کی سچائی کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ تیار ہو جائیں تو جتنی بڑی تعداد میں وہ تیار ہوں گے اتنے ہی زیادہ امکانات اس دعوت کے دنیا میں پھیلنے کے پیدا ہوجائیں گے۔ جتنے کم آدمی تیار ہوں گے، تو وہ درحقیقت اس دعوت کی ناکامی نہیں بلکہ اس قوم کی ناکامی ہے جس کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اس سے منہ موڑے۔

اگر حق کو پیش کرنے میں کوتاہی حق کو پیش کرنے والوں کی طرف سے ہو اور وہ اس کو واضح طور پر لوگوں کے سامنے ان کی عقل، ان کی فہم اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق پیش نہ کرسکیں تو یہ ان کی طرف سے قصور ہے، اور اگر اس صورت میں نشاتِ ثانیہ نہیں ہوتی تو اس کا الزام ان کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اگر انھوں نے کھول کر، وضاحت کے ساتھ ایک ایک پہلو کو پیش کر دیا کہ یہ حق ہے اور یہ ہیں اس کے تقاضے، اور یہ ہیں اس کے مطالبات، اور کس طرح سے اس حق کو زندگی کے اندر نافذ کیا جاسکتا ہے، اور زندگی کے ہر پہلو کی تعمیر ان اصولوں کے اُوپر کیسے ہوسکتی ہے___ اگر یہ کام انھوں نے کر دیا تو اس کے بعد ساری ذمہ داری اس قوم پر عائد ہوتی ہے جس قوم میں یہ کام پیش کیا گیا۔ اگروہ قوم اس کو قبول نہیں کرتی تو ناکام وہ ہے اور وہ لوگ ناکام نہیں ہیں جو اس دعوت کو پیش کریں۔

اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں خدا کے فضل سے اس وقت   تعلیم یافتہ طبقے کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑی حد تک حق کو حق سمجھ رہا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ توحید کیا چیز ہے۔ وہ یہ جان گیا ہے کہ توحید کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ جان گیا ہے کہ توحید کے مطالبات کیا ہیں۔ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی جان لڑانے اور خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی وہ ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو ایمان لانے کے بعد دکھانی چاہیے۔ یہ اس کی طرف سے کوتاہی ہے۔ جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے وہ جانتے ہی نہیں کہ اسلام کس چیز کا نام ہے، کیا اس کے مطالبے ہیں اور کیا اس کے تقاضے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو خبردار کریں، ان کی جہالت دُور کریں، ان کو سمجھائیں، ان کے دین سے ان کو آگاہ کریں تاکہ ان میں اسلامی شعور پیدا ہو۔ اس کے لیے لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تبلیغ جو ہوئی تھی وہ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے سے نہیں ہوئی تھی، زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔ اب بھی جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، جو دین کو سمجھ چکے ہیں، ان کا کام ہے کہ عوام کے اندر جائیں اور جاکر زبانی تلقین کریں۔ ان کو بتائیں کہ تمھارا دین کیا ہے۔

رہا یہ سوال کہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ میں کتنی مدت درکار ہے تو اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کامیابی کے امکانات کتنے فی صد ہیں اور کتنے فی صد نہیں ہیں۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اپنی حد تک جہاں تک بھی ہمارے بس میں ہے کوشش میں ہم کوتاہی کریں تو ہم قصوروار، لیکن اگر ہم کوشش کا حق ادا کرتے رہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فرض سے سبکدوش ہیں۔ آگے جو کچھ بھی نتیجہ ہو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو اس کو قبول نہ کریں۔(۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو   وکلا سے گفتگو بحوالہہفت روزہ ایشیا، ۱۲نومبر ۱۹۷۲ء)