ہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے رہنما ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات ہے جوکسی انسان کے متعلق کہی جاسکتی ہے مگر جس بلندپایۂ ہستی کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کے لیے یہ قول مُبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔
دنیا کے رہنما میں اولین صفت یہ ہونی چاہیے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں، جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب انسان یکساں ہوں۔ وہ سب کا خیرخواہ ہو اور اپنی رہنمائی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ صفت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ آپؐ کی زندگی کسی قوم پرست یا وطن پرست کی زندگی نہ تھی بلکہ ایک محبِّ انسانیت کی زندگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے عہد میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی اُسی طرح آپؐ کے رفیق کار بلکہ جاں نثار بنے جس طرح عرب۔ آپؐ کے بعد بھی دنیا کے ہر ملک اور ہرنسل کے لوگ آپؐ کے متبعین میں شامل ہوتے چلے گئے اور مل کر ایک ملّت بن گئے۔
دوسری اہم صفت رہنماے عالم میں یہ ہونی چاہیے کہ اس کے پیش کردہ اُصول عالم گیر اور ہمہ گیر ہوں، تمام دنیا کے انسانوں کی یکساں رہنمائی کرتے ہوں، اور ان میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اس معاملے میں بھی کامل ہے۔ آپؐ نے کسی مخصوص قوم یا ملک کے مسائل سے بحث کرنے کے بجاے پوری انسانیت کے مسائل کو لیا ہے، اور ان میں ایسی رہنمائی دی ہے جس پر بنی نوع انسان بحیثیت مجموعی تمام دنیا میں عمل کرکے دنیا اورآخرت کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
تیسری بنیادی صفت جس کے بغیر کوئی شخص سارے جہاںکا رہنما نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ وہ ہرزمانے میں صحیح اور قابلِ عمل ہو۔ عالم گیر رہنما وقتی وزمانی نہیں ہوسکتا۔ یہ لقب تو اسی کو زیب دیتا ہے جس کی رہنمائی رہتی دنیا تک کارآمد رہے۔ اس کسوٹی پر بھی اگر کسی کی تعلیم و ہدایت پوری اُترتی ہے تو وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔ وہ ایک روشنی کا مینار تھے جوصدیوں سے دنیا کو راہِ راست دکھا رہا ہے اور زمانہ جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے اس کی روشنی اور زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔
دنیا بھر کا لیڈر ہونے کے لیے چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اُصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھا دیا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کردی ہو۔ محض اُصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکّر ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشے پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی، اور۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے سامنے سراطاعت جھکا دینے پر آمادہ کردیا۔ ایک نیانظامِ اخلاق، نیا نظامِ تمدن، نیا نظامِ معیشت اور نیا نظامِ سلطنت پیدا کر کے تمام دنیا کے سامنے یہ عملی مظاہرہ کردیا کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح زندگی وجود میں آتی ہے۔
یہ ہے وہ کارنامہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت پوری دنیا کے رہنما ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں۔ آپؐ کی تعلیم کسی خاص قوم کی جایداد نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس میراث سے فائدہ اٹھائے اور جو چاہے فائدہ نہ اُٹھا کر ابدی محرومی میں مبتلا رہے۔ (بنام ایڈیٹر اتحاد، جولائی ۱۹۶۲ئ)۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص۳۳-۳۵)
موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اخلاقی، تمدنی،سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے دراصل [جن] تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے، ان میں سے پہلا اصول سیکولرزم یعنی لادینی یا دنیاویت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صواب دید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے‘‘۔ ابتداء ً یہ طرزِعمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خودساختہ دینیات (Theology) سے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان کے لیے زنجیرِپا بن کر رہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزِعمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور تہذیب.ِ جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا کہ ’’مذہب ایک پرائیویٹ معاہدہ ہے خدا اور بندے کے درمیان‘‘۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب.ِ حاضر کا ’کلمہ‘ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تووہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس ’کلمہ‘ کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اُٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوئوں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثروبیش تر افراد کے معاملے میں نری دنیاوی (سیکولر) ہی ہوکر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے۔ خصوصاً جو لوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما اور کارکن ہیں ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے...
یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عمل داری (jurisdiction) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک___ دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے۔ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خودمختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اجزا کا مجموعہ غیربندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصورصرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی راہ نمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں، تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری راہ نمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی؟
یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظامِ تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انھی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ اور وہ صرف خدا ہی ہے جو انسانوں کو ان روابط کے لیے صحیح اور منصفانہ اور پایدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خودمختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی راہ نمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان راہ نمائی کے لیے رجوع کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینی یا دنیاویت کے اصول پرچلتا ہے، اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی ، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خودغرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ پروا کرنے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے، اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے، صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پائوں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے، وہ دوسروں کو صرف اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑنا چاہیے،بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ پس لادینی اور دنیاویت کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا، بے لگام، غیرذمہ دار اور بندۂ نفس ہوکر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔ (اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت، ص ۱۱-۱۲، ۱۵-۱۸)
فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کر رہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۲۰-۳۲۴)
اس لائحہ عمل [تطہیر افکار و تعمیر افکار‘ صالح افراد کی تلاش‘ تنظیم اور تربیت‘ اجتماعی اصلاح کی سعی‘ اور نظامِ حکومت کی اصلاح] کو اگر آپ اس نصب العین [اقامت دین‘ حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام] کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ بیک نظر محسوس کرلیں گے کہ یہ لائحہ عمل اس نصب العین کا فطری تقاضا ہے اور اس کا ایک ایک جز اس کے ایک ایک گوشے پر ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس جماعت کا وہ نصب العین ہو‘ اس کا یہی لائحہ عمل ہونا چاہیے اور یہی ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور لائحہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔
اس کے چاروں اجزا آپس میں ایسا منطقی ربط رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرتا ہے‘ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے‘ اور جس کو بھی ساقط کردیا جائے‘ اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہوجاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اورمتوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کردیںگے‘ باقی اجزا کا کام نہ صرف کمزور اور بے اثر ہوجائے گا‘ بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہوکر رہ جائے گی۔
اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخرکار جس کام کے ذریعے سے حاصل ہونا ہے‘ وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے‘ اور انھیں کر کے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ و تلقین اور اصلاح اخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رُکا تھا‘ نہ اب رُک سکتا ہے۔
اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس نتیجۂ مطلوب کے لیے جماعت اسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی‘ وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آپ کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر‘ یا اس میں کمی و بیشی کر کے‘ یا ان میں سے بعض کو مقدم اور بعض کو مؤخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۴۴-۴۶)
سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب سنت ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔ دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو مبعوث کیا تھا۔ اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبیؐ نے بہ حیثیت ایک انسان ہونے کے یا بہ حیثیت ایک ایسا شخص ہونے کے جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا‘ اختیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ فرق و امتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز‘ سنت ہے اور کون سا جز عادت‘ بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
اصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا علیہم السلام انسان کو اخلاقِ صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیںجو فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا [الروم ۳۰:۳۰] کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل و روح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب و مظہر کی حیثیت۔بعض امور میں روح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبی اپنے قول و عمل سے ان کو واضح کرتا ہے اور بعض امور میں روح اخلاق و فطرت کے لیے نبی اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتاد مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق و فطرت کو اختیار کرلیں‘ رہا وہ عملی قالب جو پیغمبر نے اختیار کیا تھا تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے معاملات میں سنت روح اور قالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے‘ اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ روحِ اخلاق و فطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحبِ شریعت نے اس کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے‘ مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘زکوٰۃ وغیرہ اور بعض طریقے آپ نے ایسے اختیار کیے جن کی روح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہوبہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے‘ بلکہ ہم کو آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس روح کے ظہور کے لیے جو عملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کریں‘ مثلاً دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضوؐر وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انھی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضوؐر مانگتے تھے‘ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں‘ ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کی روح موجود ہو۔
اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتارہے‘ اس سے استعاذہ کرے‘ اس سے مدد مانگے‘ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضوؐر نے اپنی عملی زندگی میں اُن مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں۔ اگرکوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کر کے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کواچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلاف ورزیِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی حالات میں بھی ہے‘ مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنا نبیؐ کے مقاصدبعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو‘ اس میں اسراف نہ ہو‘ اس میں تکبر کی شان نہ ہو‘ اس میں تشّبہ بالکفار نہ ہو‘ وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق و فطرت کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس لباس میں کیااُس میں بعض چیزیں توایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے‘ جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز‘ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضوؐر کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرزِ معاشرت اور آپ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا‘ نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتاہے کہ حدیث کی رُو سے اس طرزِ خاص کا لباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے تھے‘ اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخصِ خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن‘ یا کسی خاص زمانے کے رسم و رواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنا دیں۔
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاحِ شرعی میں سنت نہیں ہیں ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا مِن جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ اوّل‘ ص ۱۹۶-۱۹۷)
اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی‘ اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔
آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ پڑھ کر اسلام کو سمجھیں ‘ اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا‘ وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا‘ اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے‘ اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔
اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دین فطرت ہے۔ انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں‘ کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں‘ اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔
لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے‘ بلکہ آپ کے اندر جذبہ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (ترجمان القرآن‘ جلد ۸۳‘ عدد ۳‘ مئی ۱۹۷۵ء‘ ص۱۳۶-۱۳۷)
یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں‘ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت کرتے ہیں‘ مدح و ثنا کرتے ہیں اور ان پر سلام بھیجتے ہیں۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ہم یہ مقامات پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (حٰم السجدۃ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘ یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ’’ نہ ڈرو‘ نہ غم کرو‘ اور خوش ہو جائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہلِ ایمان اُنھیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں۔ اگرچہ اللہ جل شانہ‘ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے‘ لیکن بالعموم‘ اہلِ ایمان پرخصوصاً سخت وقتوں میں جب کہ دشمنانِ حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں‘ ان کا نزول غیرمحسوس طریقے سے ہوتا ہے‘اور اُن کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجاے دل کی گہرائیوں میںسکینت و اطمینانِ قلب بن کر اُترتی ہیں۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اِس نزول کو موت کے وقت‘ یا قبر‘ یا میدانِ حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر اُن حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملے کو بیان کرنے کااصل مقصد اِس زندگی میں دین حق کی سربلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے‘ تاکہ انھیں تسکین حاصل ہو‘ اور ان کی ہمت بندھے‘ اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہوجائیں کہ وہ بے یارومددگار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہلِ ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں‘ اور قبر ( عالمِ برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ‘ اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس روز بھی ابتداے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر اُن کے ساتھ لگے رہیں گے‘ لیکن ان کی یہ معیت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے ۔ سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین واشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہلِ ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوش نمابنا کر دکھاتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو‘ یہی تمھاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انھی سے دنیا میں تمھاری سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسری طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آکر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔
یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہلِ ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالادست اور چیرہ دست ہوں‘ اُن سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمھیں سہنی پڑیں‘ ان پر کوئی رنج نہ کرو‘ کیونکہ آگے تمھارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں توان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جارہے ہو وہاں تمھارے لیے کسی خوف کا مقام نہیں ہے‘ کیونکہ وہاں جنت تمھاری منتظر ہے‘ اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جارہے ہو ان کے لیے تمھیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیوں کہ یہاں ہم تمھارے ولی و رفیق ہیں۔ عالمِ برزخ اور میدانِ حشرمیں جب فرشتے یہی کلمات کہیں گے تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں تمھارے لیے چین ہی چین ہے‘ دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو‘ اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والاہے‘ ا س کا خوف نہ کھائو‘ اس لیے کہ ہم تمھیں اُس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۵۴-۴۵۶)
ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا o تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ وَ اَعَدَّ لَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا o(الاحزاب ۳۳:۴۳-۴۴)وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمھارے لیے دُعاے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے‘ وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا باعزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔
اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمھارے اُوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعے سے ایمان کی دولت تمھیں نصیب ہوئی‘ کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے‘ اور تمھارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسولؐ پر نکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محروم ہو جائو۔ صلٰوۃ کا لفظ جب علٰی کے صِلیکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت‘ مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعاے رحمت کے ہوتے ہیں‘ یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اور اپنی عنایات سے انھیں سرفراز کر۔ ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکرالجمیل فی عباد اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے بندوں کے درمیان نام وری عطا فرماتا ہے اور تمھیں اس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمھاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمھاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ، ’’ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلا م ہو گا‘‘۔ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا‘ جیسا کہ سورئہ یٰسٓ میں فرمایا: سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (۳۶:۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ نحل میں ارشاد ہوا : اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ،’’ جن لوگوں کی رُوحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے‘ اُن سے وہ کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر‘ داخل ہوجائو جنت میں اپنے اُن نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے‘‘ (۱۶:۳۲)۔ تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ یونس میں فرمایا: دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّہُتُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،’’وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا‘ پاک ہے تیری ذات‘ ان کا تحیّہ ہو گا سلام‘ اور اُن کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے‘‘ (۱۰: ۱۰)۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج (المومن ۴۰: ۷) عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کررہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعاے مغفرت کرتے ہیں۔
یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت ِکے ستون ہیں اور جنھیں فرماںرواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دل چسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دل چسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔(ایضاً، ص ۳۹۴)
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مصر میں شیخ حسن البناشہید نے جس وقت احیاے اسلام کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا،قریب قریب وہی زمانہ تھا،جب اس برعظیم پاک و ہند میں بھی ٹھیک اسی مقصد کے لیے کام شروع کیا گیا۔دونوں کے درمیان شاید ایک دو برس کا فرق ہو،لیکن زمانہ تقریباً یکساں ہے۔سالہا سال تک ان سے ہم اور ہم سے وہ بے خبررہے۔حالاں کہ ایک ہی راستے پر چل رہے تھے۔ایک مدت دراز کے بعد جا کر ہمیں پتا چلاکہ مصرمیں اخوان کی تحریک انھی مقاصد کے لیے چل رہی ہے، اور اسی طرح سے سالہا سال بعد ان کو بھی یہ معلوم ہواکہ برعظیم پاک و ہند میں اسی طرح کی ایک تحریک کام کر رہی ہے۔اب یہ خدا کی مشیت ہے کہ وہاں پہلے اس کے مرشداوّل شہید ہوئے پھر مرشد ثانی بھی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، اور یہاں اس کام کو جس نے شروع کیاتھاوہ دونوں کا غم سہنے کے لیے آج بھی زندہ ہے۔
اخوان کی تحریک کی قدر و قیمت کا اندازہ اس ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے ۔مگر جاننے والے جانتے تھے کہ عرب ممالک میں خصوصاًاور دنیا کے دوسرے ممالک میں عموماً احیاے اسلام کے لیے جو کام ہوا،مسلمانوں میں دینی،اخلاقی بیداری پیدا کرنے کی جو خدمت انجام دی گئی اور عوام و خواص کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے اور خلوص کے ساتھ اسے سربلند کرنے کی جو کوشش کی گئی، وہ زیادہ تر اخوان ہی کی اس تحریک کا ثمرہ ہے،جسے شیخ حسن البنا نے شروع کیا،اور شیخ عبدالقادر عودہ شہید،سید قطب شہیداور حسن الہضیبی مرحوم نے پروان چڑھایا۔
عرب ممالک میںآپ عراق سے مراکش تک چلے جائیں،ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو بھی اسلام سے گہرا اور قلبی تعلق ہے، وہ زیادہ تر اخوان ہی کے آدمی ہیںیا ان کی تحریک سے متاثر ہیں۔اسی طرح امریکا اور یورپ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ جو عرب نوجوان اسلامی جذبے سے سرشار ہیں،وہ اکثر و بیش تراخوانی ہیں۔حتیٰ کے اخوانیت ایک طرح سے اسلامیت کا نشان بن گئی ہے ۔کوئی آدمی تعلیم یافتہ ہو اور پھر دین دار بھی ہوتو لوگ آپ سے آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ضرور اخوان میں سے ہے، یا کم سے کم اس تحریک سے متاثرہے۔حتیٰ کہ جب اسلام دشمنی کا روگ بعض عرب ممالک کو لاحق ہواتو ہر اس نوجوان کے پیچھے سی آئی ڈی لگ جاتی تھی، جو نماز پڑھتا نظر آتاتھا۔یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس فتنے کے دور میں اخوان کی تحریک بر وقت برپا ہوگئی اور یہ تحریک نہ اٹھی ہوتی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب ممالک لادینیت،قوم پرستی اور سوشلزم کے طوفان میں کس حد تک پہنچ چکے ہوتے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ۲۵‘ ۳۰ سال پہلے عرب ممالک میںجو لوگ بھی اسلامی جذبے سے عاری تھے اور جن پر سیکولرزم اور قوم پرستی کا شیطان مسلط تھا،وہ سب انڈین نیشنل کانگریس کے حامی اور تصور پاکستان کے مخالف تھے۔صرف اخوان ہی کا گروہ ایسا تھاجو پاکستان کا حامی تھا۔آج بھی وہاں وہی پاکستان کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔مگر یہ عجیب بات ہے کہ جب اخوان پر پے در پے مظالم ہوئے تو یہاں[پاکستان میں] ان سے ہمدردی کرنے والے بہت کم تھے اور دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان پر الزام لگانے والے اور تہمتیں گھڑنے والے بہت زیادہ پائے گئے۔حتیٰ کہ جب انصاف کی مٹی پلید کرکے اخوان کو بدترین سزائیں دی گئیںاور ان کے بہترین آدمیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیاتو یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جنھوں نے اس پر احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں۔افسوس کہ لوگوں کو دوست اور دشمن کی تمیز بھی نہیں رہی۔بے شعوری میں یہ احساس تک نہیں کیا گیاکہ ہم اپنے دوستوں کو برا کہہ رہے ہیں اور دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔
ہم خلوص دل سے دعا کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ شیخ حسن الہضیبی کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے،ان کو بلند مرتبے عطا فرمائے، ان کی قربانیوں اور خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے اور ۲۰ سال تک مسلسل ظلم و ستم ڈھاتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے عدل کے مطابق ان سے انتقام لے اور جس صبر و استقامت کے ساتھ مرحوم نے دین کی راہ میں ہرتکلیف کو برداشت کیااور اسلامی تحریک کی خدمت قید کی حالت میں بھی کرتے رہے، اس کا اجرجزیل انھیں عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان اخوان کو بھی بلند مرتبے عطا فرمائے، جنھوں نے فلسطین میںیہودیوں کے خلاف جنگ کی اور ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ یہودی مصر اور دوسری عرب ریاستوں کی باقاعدہ افواج سے بڑھ کراخوانیوںسے ڈرتے تھے۔ان میں سے جو اس لڑائی میں شہید ہوئے، اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے اور جو اس لڑائی میں لڑے اور زندہ بچے اللہ تعالیٰ ان کو مجاہد اور غازی ہونے کا اجر عطافرمائے۔
یا اللہ! شیخ حسن البنا کو بلند مرتبے عطافرما۔ان کو اپنے مقربین میں جگہ دے۔ہم گواہ ہیں کہ یہ وہی تھے جنھوں نے احیاے اسلام کی اس تحریک کو اٹھایا۔لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل کیںاور اس میں وہ روحِ جہاد پھونکی ،جس کی بدولت اس وقت تک بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کے باوجودمصر کی سرزمین سے اسلامی تحریک کے اثرات نہیں مٹائے جاسکے۔
یا اللہ! ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی قبو ل فرماجن کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔ شیخ عبد القادر عودہ اور سید قطب شہید کے دوسرے ساتھیوں کو وہ اجر دے جو تونے اپنی راہ میں شہید ہونے والوںکے لیے مقرر کررکھا ہے۔
یااللہ! ان لوگوں کو بھی بلند مرتبے عطا فرما جنھوں نے ظالموں کی جیلوں میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کیںاور ایسے بدترین مظالم سہے جن کے تصور سے بھی انسان کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے، لیکن ان کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئی اور ان میں سے کسی نے ظالموں کے آگے سر نہیں جھکایا، حالاں کہ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تیرے دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، شخصیات، ص ۳۰۷-۳۱۰)
مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کے بارے میں مولانا مودودی نے فرمایا تھا کہ وہ: ’’اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا کے ذاتی دوست تھے۔ انھوں نے اخوان کی دعوت کے بارے میں کہا تھا کہ جہاں میرا کام ختم ہوتا ہے وہاں سے اخوان کا کام شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد اخوان نے رضاکار بھرتی کرکے یہودیوں کے خلاف جہاد شروع کیا، تو مفتی صاحب ان کے شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ جب ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کا دور آیا تو انھوں نے اخوان کے ساتھ صدر ناصر کے سلوک پر شدید احتجاج کیا تھا۔ پھر جب [۱۹۵۴ء میں] اخوان کے نام ور قائدین کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا تو انھوں نے اسے ذاتی طور پر تار دیے تھے کہ سزا نافذ نہ کی جائے۔ ۱۹۶۶ء میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی انھوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اخوان کا جذبۂ جہاد ان کے ابتلا کا باعث بنا، کیونکہ اسرائیل اور یہودیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی اصل مخالف قوت دنیاے عرب میں کون سی ہے۔ اس لیے امریکا اور [اشتراکی] روس دونوں کی خواہش یہ تھی کہ اسلام کی اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو کچل ڈالا جائے۔ افسوس کہ یہ مقصد تو کفار کا تھا، مگر پورا مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ (رفیق ڈوگر، ہفت روزہ استقلال، لاہور، ۱۴جولائی ۱۹۷۵ء۔ مولانا مودودی کے انٹرویو، دوم، ص ۲۸۶- ۲۸۷)
پاکستان کی موجودہ جرنیلی حکومت کی کشمیر ’پالیسی‘ (جسے پالیسی کہنا لفظ پالیسی کے ساتھ ناانصافی ہے کہ یہ پالیسی نہیں صرف ’پسپائی ہی پسپائی‘ ہے) نے پاکستان اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ایک خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے اس اصولی پالیسی سے انحراف نہیں کیا کہ کشمیر پر بھارت کا تسلط ناجائز اور غاصبانہ ہے اور مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست کے عوام کی آزاد راے سے (عالمی نگرانی میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے) اپنے مستقبل کو طے کرنے کے سوا کوئی نہیں۔ پاکستانی قوم اپنے اس موقف پر جو ایک قومی عہد (national covenant) کی حیثیت رکھتا ہے‘ قائم ہے جس کا بھرپور اظہار اس سال ۵فروری کے یوم یک جہتی پر ایک بار پھر ہوا ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی بھارت کے تسلط کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی آزادی کے لیے اب تک ۵لاکھ سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کرچکی ہے اور اب بھی مقبوضہ کشمیر کی عوامی جدوجہد پر تھکاوٹ اور اضمحلال کا کوئی سایہ نظر نہیں آتا‘ بلکہ پاکستان کی طرف سے شدید مایوسیوں کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد اور قربانیاں پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم سے اب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اعتراف بھارت کے موقر مجلے Economic & Political Weekly نے اپنے ۲۷جنوری ۲۰۰۷ء کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ:
’’دونوں طرف خودمختار مملکتوں کے بغیر لائن آف کنٹرول کو نرم کرنا کوئی قابلِ عمل تجویز نہیں ہے۔ یہ امر اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان نے تو اپنے مقاصد کے لیے لائن آف کنٹرول کی حوصلہ افزائی کی اور اس سے فائدہ اٹھایا‘لیکن ۱۹۸۹ء سے وادی میں جو جنگجویانہ شدت ظاہر ہوئی‘ وہ دراصل ریاست میں جاری طرزِحکمرانی کے خلاف مضبوط کشمیری مخالفت کا نتیجہ تھی۔ اسی وجہ سے دہشت گردی نے ریاست میں جڑیں پکڑلیں۔ جوں ہی سری نگر جنسی اسیکنڈل یا افضل گوروکی سزاے موت جیسے مسائل سامنے آتے ہیں‘ احتجاج کا سلسلہ وادی کو ہلا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیگانگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ‘‘۔
کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا مسئلہ نہیں اور نہ اس کا تعلق سرحدوں کو تسلیم کرنے یا نرم کرنے سے ہے۔ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا ہے۔ موجودہ حکومت اس سے دست بردار ہونے کی تاریخی غلطی کر رہی ہے جسے نہ پاکستانی قوم تسلیم کرے گی اور نہ جموں و کشمیر کے مسلمان۔ موجودہ حکومت وہی بات کہہ رہی ہے جو بھارت چاہتا ہے اور بھارت ابھی اس سے بھی زیادہ پاکستان کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ Economic & Political Weekly اپنے اس اداریے (۲۷ جنوری ۲۰۰۷ء) میں جنرل پرویز مشرف کی کشمیرپسپائی کا پول اس طرح کھولتا ہے کہ گو ابھی تک:
’’کوئی بھی واضح بات طے نہیں ہوئی ہے‘ جیساکہ وزیرخارجہ پرتاپ مکرجی کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے میں ظاہر ہوا‘‘۔
لیکن پھر بھی امیدوں کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔
’’تاہم بھارت پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں ایک نئی تقریباً ناقابلِ محسوس اُمید کی کیفیت ہے‘‘۔
لیکن اس کی وجہ اصل مسئلے کے حل کی کوئی راہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے دل و دماغ اور عزائم اور اہداف کی تبدیلی ہے۔ اس اداریے میں کہا گیا ہے کہ:
’’یہ بنیادی طور پر لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر پاکستان کی رضامندی اور بھارت کی طرف سے اس لائن کو نرم کرنے اور جموں و کشمیر میں خودمختار حکومت کی خواہش کے لیے گنجایش پیدا کرنے پر آمادگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اُمت کے لیے خودمختاری اور لائن آف کنٹرول کے حوالے سے مجوزہ تبدیلیاں مستقل لیکن ___سرحد کو تسلیم کرنا‘ دونوں باتیں بھارت کے مفاد میں ہیں‘‘۔
اس خطرناک پس منظر میں قوم کو ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کا اصل حل کیا ہے۔ ہم اس موقع پر ذیل میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہ تقریر شائع کر رہے ہیں جو انھوں نے ۲۵ نومبر ۱۹۶۵ء کو مظفرآباد (آزادکشمیر) کے کالج گرائونڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اس جلسے کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے کی اور مولانا کا استقبال ان الفاظ میں کیا:’’میں حاضرین جلسہ کی طرف سے امیرجماعت اسلامی پاکستان مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہاں آنے کی تکلیف فرمائی۔۱؎ ان کی آمد ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے۔ کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش کام کیا ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی خدمات تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے‘ اسے ہم کبھی نہیں بھول سکتے‘‘۔
مولانا مودودی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے متاثرین سے ہمدردی اور ان کی پامردی پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد جو کچھ فرمایا وہ آج ۲۰۰۷ء میں بھی مشعلِ راہ ہے۔(مدیر)
حضرات! یہ سوال آج ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کشمیر کے اس مسئلے کا ‘جو ہمیں درپیش ہے آخر حل کیا ہے؟ ہر پاکستانی خواہ وہ مغربی پاکستان میں ہو یا مشرقی پاکستان میں‘ پوچھ رہا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ اور جلدی سے جلدی کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو مظالم سے کیسے نجات دلائی جائے؟ میں جہاں کہیں بھی جاتاہوں‘ جن لوگوں سے بھی ملتا ہوں وہ بار بار اس سوال کو اُٹھاتے ہیں اور یہاں بھی جب سے آیا ہوں بار بار یہی سوال سامنے آیا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی زیادہ سے زیادہ چار صورتیں ہیں۔ اگر یہ حل ہوسکتا ہے تو ان میں سے کسی ایک صورت سے حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان صورتوں میں سے کون سی صورت اپنے اندر کتنا کچھ امکان رکھتی ہے:
فی الواقع یہ بددیانتی ہی تھی جس نے اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تقسیم کے وقت اپنے ہمسائے کے ایک حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ پھر اُن کے اندر اتنی انسانیت اور اتنا اخلاق بھی موجود نہیں تھا کہ اپنے قول و قرار کا پاس کرتے۔ کیوں کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو خود انھوں نے جس چیز کا اقرار کیا تھا وہ ڈوگرہ راج کی دستاویز الحاق کو قبول کرتے وقت ان کا اپنا یہ اعلان تھا کہ ہم اسے عارضی طور پر قبول کر رہے ہیں اور اس کا آخری فیصلہ جموں اور کشمیر کے باشندوں کی راے پر ہوگا۔ یہ خود ان کا اپنا قول و قرار تھا‘ ان کا اپنا اعلان تھا جس سے وہ منحرف ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ جو قوم اتنی بدعہد ہے اور جس کے لیڈر اس قدر انسانی اخلاق سے عاری ہیں کہ اپنے قول و قرار سے پھر جانے اور اپنی بات کو نگل جانے میں بھی انھوں نے کوئی تامّل نہیں کیا‘ ان سے بات چیت کس بات پر کی جائے؟ تمام دنیا کی قوموں کے سامنے بیٹھ کر اُنھوں نے یہ عہد کیا تھا اور ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں مجلس اقوامِ متحدہ میں انھوں نے اس بات کو قبول کیا تھا کہ کشمیر کے باشندوں کو راے شماری کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اس طرح وہ خود فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کو بھارت نے خود مانا اور ۱۹۵۸ء تک برابر اس کو مانتا رہا لیکن آج اس کے لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ کشمیر بھارت کا غیرمنفک حصہ ہے۔ آج وہ اس کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتے ہیں اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔ نہ ان کا فلسفی صدر اس پر شرماتا ہے اور نہ ان کے شاستری صاحب (صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور شاستری وزیراعظم) اس پر شرماتے ہیں۔
سوال یہ ہے جس قوم کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک فرد جانتا ہے کہ کشمیر پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور خود تقسیمِ ہند کی رُو سے اسے پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے اور پھر وہ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے قول و قرار اس معاملے میں کیا ہیں‘ اس کے باوجود وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں___ سوال یہ ہے کہ ان سے بات کرنے کا آخر کیا فائدہ ہے اور ان سے بات کرنے میں وقت آخر کیوں ضائع کیا جائے؟
جو لوگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آئو اور ان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ طے کرو ان سے ہمیں یہ کہنے کے بجاے کہ صاحب آپ بلاتے ہیں تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں‘ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے دوسرے فریق سے اس بات کا اقرار تو کرا لو کہ کشمیر کے متعلق واقعی کوئی جھگڑا ہے۔ آخر جب بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کوئی متنازع فیہ علاقہ ( disputed territory) ہے ہی نہیں‘ کشمیر میں نزاع کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کشمیرکے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے تو بتایا جائے کہ اس طرح کی بات چیت سے مسئلہ کشمیر کیوں کر حل ہوسکتا ہے۔
اس معاملے میں مجلسِ اقوام متحدہ کی بے حسی بلکہ اس کی بداخلاقی کا حال یہ ہے کہ پہلے جن چیزوں کا فیصلہ وہ کرچکے ہیں اور جو فیصلے لکھتے ہوئے بھی دستاویزی صورت میں ان کے سامنے موجود ہیں آج ان فیصلوں کا اعادہ کرنے اور ان کا نام لینے میں ان کو تامّل ہے۔ انھوں نے اسی سال ۴ستمبر اور ۲۰ستمبر اور اس کے بعد اب ۵نومبر کو جتنے ریزرولیوشن پاس کیے ہیں ان میں سے کسی میں ان فیصلوں کا حوالہ تک موجود نہیں ہے۔ ان کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلے کرچکے ہیں چنانچہ اس امر کا ذکر کرنا چاہیے کہ ان فیصلوںکے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن سرے سے اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اقوام متحدہ کو خود اپنے فیصلوں کا بھی کوئی احترام نہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر بھارت کے وزیرخارجہ صاحب علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ کشمیر تو بھارت کا ایک حصہ ہے‘ کشمیر کے متعلق ہم سرے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ نہ اقوام متحدہ کو یا کسی اور کو کشمیر کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق پہنچتا ہے کیونکہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے ___ یعنی ایک قوم اس قدر بے حیائی کے ساتھ خود اقوام متحدہ میں بیٹھ کر تسلیم کیے ہوئے سارے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردے اور سلامتی کونسل کے ممبروں میں سے کوئی نہیںجو کھڑے ہوکر اسے ٹوکے اور کہے کہ تم یہ کس طرح اور کس زبان سے کہہ سکتے ہو کہ کشمیر کا معاملہ تمھارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے___ اگر کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے تو ۱۹۴۸ء میں یہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیسے ہوا اور آج بھی اس کے ریکارڈ پر کیوں موجود ہے؟ اگر یہ کوئی مابہ النزاع مسئلہ نہیں تھا تو یہ یہاں کیسے آیا؟ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کا آنا خود اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ یہ ایک مابہ النزاع مسئلہ ہے۔
لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز اُن مہذب اقوام کے پلیٹ فارم سے سنائی نہیں دی۔ اسی سے آپ اندازہ کیجیے کہ اقوام متحدہ کی اخلاقی حالت کیا ہے اور کس حد تک ان کے ہاں دیانت اور امانت اور انصاف موجود ہے اور یہ بھی کہ کس حد تک وہ خود اپنے فیصلوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں___ میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح ہندستان سے بات چیت کرکے اس مسئلے کے طے ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرانے کی کوئی اُمید نہیں۔ یہ بالکل ہماری نادانی ہوگی‘ اگر ہم آیندہ بھی اس اُمید پر بیٹھے رہیں جس طرح ۱۷ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان بڑی طاقتوں میں سے ایک برطانیہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پیدا ہی برطانیہ کی بددیانتی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے تقسیم اتنے غلط طریقے سے کرائی اور ریڈکلف اوارڈ میں ایسی تحریف کی کہ اس کے نتیجے میں ایک مستقل تنازع پاکستان اور ہندستان کے درمیان پیدا ہوگیا۔ اگر یہ تقسیم غلط طریقے سے نہ ہوتی اور ہندستان کوکشمیر تک پہنچنے کا وہ راستہ ناجائز طور پر نہ دیا جاتاجو اُسے کسی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتا تھا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ جس طاقت نے اپنی بددیانتی سے‘ اور اس بنا پر کہ اس کے اندر کسی اخلاقی ذمہ داری کا احساس موجود نہیں تھا‘ خود اس مسئلے کو پیدا کرنے کے اسباب فراہم کیے اور اس سارے فساد کی بنیاد ڈالی‘ اس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب کوئی کوشش اس مسئلے کوحل کرنے کی کرے گی؟ اگر اس قوم کے اندر ذمہ داری کا احساس موجود ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی کیسے ہوتا؟
ایک دوسری بڑی طاقت روس ہے۔ میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنانے میں بہت بڑا دخل روس کاہے۔ جب تک روس نے ہندستان کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان کو کبھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ کشمیر کا سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ‘ کشمیر تو ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ یہ باتیں بھارت نے اس وقت سے شروع کی جب روس نے مستقل اپنا ویٹو استعمال کر کے بھارت کو اس امر کا اطمینان دلا دیا کہ تم اب کشمیر پر آسانی سے قبضہ برقرار رکھ سکتے ہو۔ روس کے وزیراعظم نے خود کشمیر میں آکر کھلم کھلا اس ظلم کا اعلان کیا کہ ہم کشمیر کو ہندستان کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ فی الحقیقت اس مسئلے کو اس حد تک الجھا دینے میں اس ظلم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ روس کا ویٹو استعمال ہونے سے پہلے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اس حیثیت سے آتا رہا کہ استصواب کیسے کرایا جائے اور کیا کیا انتظامات کیے جائیں۔ لیکن جب سے روس نے ویٹو استعمال کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے استصواب کا لفظ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے غائب ہوگیا ہے۔
اب ایک ایسی بڑی طاقت سے ہم کیا اُمید قائم کرسکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ہمیں بلائے تو ہمارے اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہم دعوت کو قبول کریں لیکن دعوت اگر کسی زہریلے پلائو کے کھانے کی ہو توایسی دعوت کو قبول کرنا مسنون نہیں ہے۔۱؎
ایک اور بڑی طاقت امریکا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد دوست شاید ہی کوئی ہوگا۔ اس قوم نے جس کمال کا مظاہرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے یک طرفہ دوستی چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ہر ایک اُس کے کام آئے مگر وہ کسی کا ساتھ نہ دے۔ بلکہ جب بھی موقع پیش آئے تو اپنے دوست کے ساتھ بے وفائی کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا ہی کی وجہ سے پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی۔ اگر ہم سیٹو اور سنٹو میں امریکا کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو شاید روس ہمارا اس قدر دشمن نہ بنتا کہ بار بار ویٹو استعمال کر کے کشمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیتا ۔ پاکستان نے امریکا کی دوستی میں اس حد تک نقصان اٹھایا لیکن جب ہمارا معاملہ آیا تو اُس وقت اُس نے کھلم کھلا ہمارے ساتھ بے وفائی کی۔ جب اس کا حال یہ ہے تو ہم سے زیادہ نادان کون ہوگا اگر ہم یہ اُمید باندھیں کہ امریکا دبائو ڈال کر اس مسئلے کو حل کرے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر امریکا پر اعتماد کریں اور اس اُمید پر بیٹھے رہیں کہ وہ اسے حل کرائے تو وہ اسے ایسے طریقے سے حل کرائے گاکہ کشمیر کو حق خود ارادیت تو درکنار خود پاکستان کی آزادی و خودمختاری بھی باقی نہیں رہے گی۔ جو کچھ اُن کے ارادے سننے میں آتے ہیں اور جس طرح کے مضامین کھلم کھلا ان کے ہاں لکھے جاتے ہیں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں‘ اُن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسکیم کشمیر کے مسئلے کو ایسے طریقے سے حل کرانے کی ہے کہ خود پاکستان کی آزادی وخودمختاری بھی ضم ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ہمارے نزدیک اس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہے کہ امریکا پر اعتماد کیا جائے اور اس کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کرانے کی اُمید باندھی جائے۔
لیکن جہاں تک اس حل کا تعلق ہے‘ بعض لوگوں کے ذہنوں میں’حساب‘ کے مختلف سوال پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان اور ہندستان کی طاقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہ کئی گنا بڑی طاقت ہے‘ اس وجہ سے ہم لڑ کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ کچھ لوگ یہ بات کھل کر کہتے ہیں اور بعض لوگ دبے دبے الفاظ میںاس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ زندگی اور موت کا ہے‘ غیرت اور بے غیرتی کا ہے‘ عزت اور ذلّت کا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ کشمیر کے معاملے میں دبتے ہیں تو یہ ایک مرتبہ کا دبنا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد ہم کو مسلسل دبتے چلے جانا پڑے گا۔ یہاں تک کہ ہماری آزادی بھی چھن جائے گی۔ یعنی اب پاکستان کا باقی رہنا بھی اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان دنیا میں اس بات کو ثابت کرے کہ یہ ایک باعزت قوم کا ملک ہے‘ ایک زندہ قوم کی سرزمین ہے اور یہ قوم اپنی عزت کے لیے مرمٹ سکتی ہے‘ لیکن جھک نہیں سکتی۔
میرے بھائیو! جب تک ہم اپنے عمل سے اس بات کو ثابت نہیں کریں گے ‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ صرف یہ کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہم ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔
جہاںتک حساب لگانے کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان کو بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طاقت پر اعتماد کرتے ہیں وہ اپنے سے دس گنا طاقت سے بھی لڑکر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ کم من فئۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہِ [یعنی] ایک قلیل تعداد‘ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک کثیرتعداد کے اُوپر غالب آجاتی ہے۔
اور آج تو یہ محض ایمان بالغیب کی بات بھی نہیں رہی۔ پچھلے ۱۷ روز کی جنگ میں مسلسل اور پے درپے اس بات کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس بات کو کیسے باور کرسکتا ہے کہ تین رجمنٹ فوج تین ڈویژن سے بھڑجائے اور وہ تین ڈویژن اس پر غالب نہ آسکیں۔ ایک بٹالین فوج پوری کی پوری تین ڈویژن کو روکے رکھے اور وہ لاہور کی طرف نہ بڑھنے پائے۔ اگر’حساب‘ کرکے دیکھاجائے تو ہماری فضائی طاقت کتنی تھی اور ہندستان کی طاقت کتنی۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی گنا زیادہ تھے اور صرف یہی نہیں کہ وہ بہت زیادہ تھے بلکہ ان کے ہوائی جہاز ہمارے ہوائی جہازوں سے زیادہ بہتر نوعیت کے تھے لیکن تجربے نے آپ کو بتا دیا کہ اگر اللہ کی تائید شاملِ حل ہواور مسلمان اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں تو اللہ کی تائید معجزے دکھا سکتی ہے اور اس زمانے میں بھی اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ ہم سب اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کے بھروسے پر اُٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ___لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجیے۔
یاد رکھیے کہ اللہ سے تائید کی اُمید رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نافرمانیاں کرنا‘ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چلا کرتیں۔ اس جنگ سے پہلے سترہ اٹھارہ سال جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہا ‘ جو فسق و فجور بپارہا‘ جس طرح اسلامی تہذیب کے گلے پر چھری چلائی جاتی رہی اور غیراسلامی ثقافت کو رواج دیا جاتا رہاوہ سب کو معلوم ہے‘ اس کی داستان کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ قوم اللہ کا نام لیتی تھی اور اس قوم کے اندر خدا سے بغاوت کا ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ فسق و فجور اس پر زبردستی مسلّط کیا جا رہا تھا‘ اللہ نے ہم پر رحم کیا اور اس آزمایش کے موقع پر اللہ کی ایسی غیرمعمولی تائید آئی کہ دشمن بھی ششدر رہ گیا۔ لیکن جان لیجیے کہ اپنے خدا کے ساتھ یہ کھیل ہم بار بار نہیں کھیل سکتے۔ اگر ہمیں اس سے تائید چاہنی ہے‘ اگر ہم یہ اُمید لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے گا تو ہمیں اس کے ساتھ بغاوت کا رویّہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کہ لڑنے کے وقت کلمے پڑھے جائیں‘ جنگ میں اس کی مدد کے بھروسے پر اطمینان ظاہر کیا جائے اور لڑائی ختم ہوتے ہی فوراً پھر وہ سابق فسق و فجور شروع ہوجائیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آج ہماری فوجوں کو ورائٹی شو دکھانے شروع کر دیے جائیںاورورائٹی شو اس طرح سے کہ عین فرنٹ کے اُوپر لے جاکر آدھے سپاہیوں سے کہا جائے کہ تم مورچوں میں بیٹھو اور آدھے جاکر ورائٹی شو دیکھیں۔ گویا صلوٰۃ خوف کی طرح اب یہ آدھے جاکر وہاں رقص دیکھیں‘ العیاذ باللہ!
یہ چیزیں خدا کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔اگر ہمیں خدا کی مدد حاصل کرنی ہے تو پھر خدا کی اطاعت کی طرف آنا پڑے گا۔ اُس سے بغاوت کی راہ چھوڑنا پڑے گی۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم خدا کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کریں تو جتنی تائید پچھلے سترہ روز میں خدا نے کی ہے‘ اس سے بدرجہا زیادہ تائید اس کی طرف سے پھر ہوگی اور بہت جلدی نہ صرف یہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے متعلق بھی ہمیں پوری طرح سے اطمینان حاصل ہوجائے گا جیساکہ سردار عبدالقیوم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اب مسئلہ صرف کشمیر کا نہیں ہے‘ مسئلہ پاکستان کا ہے اور اس بات کا کہ پاکستان کو عزت کے ساتھ جینا ہے یا نہیں؟
تو اس مسئلے کو صرف خدا کی تائید ہی حل کرسکتی ہے۔ اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹاکر ایک خدا سے اُمیدیں باندھی جائیں۔ نہ روس کی طرف سے آپ کو کوئی امداد ملنی ہے نہ امریکا کی طرف سے‘ نہ برطانیہ کی طرف سے اور نہ اقوام متحدہ کی طرف سے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹا کر ایک خدا کے بندے بن جایئے اور خدا کے بھروسے پر اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی آخری راستہ ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اتنی ہمت اور اتنا عزم عطا کرے کہ وہ اُس کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اس مسئلے کو حل کرلیں۔ میں تمام مسلمانوں کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا فرماں بردار بنائے‘ ان کو اپنی اطاعت کی توفیق بخشے اور ان کے اُوپر رحم فرمائے۔ (۵-اے ذیلدار پارک‘ جلد دوم‘ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی‘ ص ۵۳-۶۳)
[قرآن مجید نے ان موانع رکاوٹوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے لوگ ایمان قبول نہیں کرتے‘ یا اگر مسلمان ہوں تو پوری طرح ایمان کی راہ پر چل نہیں پاتے۔ ان کا مطالعہ کئی حوالوں سے مفید ہے۔]
وَمِنْھُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہٖ ط وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَo (یونس ۱۰:۴۰) ان میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا رب اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ’’خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے‘‘، یعنی وہ دُنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے‘ لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخض کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے‘ اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا‘ اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا‘ اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا‘ اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا‘ سن کر نہ سنا‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلے میں اپنے تعصّبات کو ‘ اپنے دنیوی مقاصد کو‘ اپنی باطل سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ’معصوم گمراہ‘ نہیں ہیں بلکہ درحقیقت مفسد ہیں۔(تفھیم القرآن‘ ج ۲‘ سورئہ یونس‘ ص ۲۸۷)
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ ط اَفَانْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَط اَفَانْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۲-۴۳) ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں‘ مگر کیا تو بہروں کو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں‘ مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟
ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میںمعنی کی طرف توجہ ہواو ر یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں اور جنھوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دل چسپیوں کے خلاف کوئی بات‘ خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو‘ مان کر نہ دیں گے‘ وہ سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دُنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے‘ یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انھیں اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے سب لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔
یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے جو اُوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں‘ ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیزوں کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جارہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ او ر اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا نہیں ہے بلکہ طنز کا تیرونشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ‘ تاکہ معقول بات اور دردمندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہو جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیرخواہا نہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جب کہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی اَن سنی کیے جا رہے ہوں‘ اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو‘ ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ہِیّے [دل] کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔(ایضاًص ۲۸۷-۲۸۸)
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُوْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ o (یونس ۱۰:۷۴) پھر نوحؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے‘ مگر جس چیز کو انھوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔
حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھراپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیںاسے پھر کسی فہمایش‘ کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخرکار خدا کی ایسی پھٹکار پڑتی ہے کہ انھیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۱)
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّـآ اَنْزَلْنَــآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ o وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (یونس ۱۰:۹۴-۹۵) اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے‘ لہٰذا توشک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے‘ ورنہ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر دراصل بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے‘ ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی‘ مگر اہلِ کتاب کے علما میں سے جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔ (ایضاً‘ ص۳۱۱)
اَنْ تُؤْمِنَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۰۰) اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا‘ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
یعنی جس طرح تمام نعمتیں اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے‘ اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ کوئی شخص یہ اس نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پا سکتا ہے ‘ اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کر دے۔ پس نبی اگر سچّے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بناسکتا۔ اس کے لیے اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔
یہاں صاف بتا دیا گیا کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیرکسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں‘ اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں‘ یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے‘ تواُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انھی نجاستوں کا اہل بناتے ہیںاور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔ (ایضاً‘ ص ۳۱۴-۳۱۵)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ النَّارُ ز وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
اس سلسلۂ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانے میں ردکر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دُنیا پرستی چھائی ہوئی ہے۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس افکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا اور اس کے مادّی فائدوں سے بالاترکوئی شے قابل قدر نہیں ہے‘ اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔
یعنی جس کے پیش نظر محض دُنیا اور اس کا فائدہ ہو‘ وہ اپنی دُنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائے گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دُنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دُنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی نافع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شان دار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بناکرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے اِنکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اِس دُنیا میں چھوڑدینا پڑے گا۔ (ایضاً‘ ص ۳۲۹)
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ ئَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ئَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (الرعد۱۳:۵) اب اگر تمھیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے توکیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیںگے۔
یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیرممکن ہے‘ بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذ اللہ وہ خدا عاجز درماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے‘ اپنی ہٹ دھرمی کے‘ اپنی خواہشاتِ نفس کے‘ اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیربنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غوروفکر نہیں کرسکتے۔ اِنھیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے‘ اور انکارِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے۔(ایضاً‘ ص ۴۴۶)
(انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)
آج سے ۴ ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند‘ سورج اور دوسرے سیارے اس کے خدا تھے‘ اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔ ایسے زمانے ‘ ایسی قوم‘ اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا قہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ‘ اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا‘ کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔
وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے‘ وہ بجاے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج‘ چاند‘ زُہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے۔ اور آخرکار یہ بے لاگ رائے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں‘ خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’مَیں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے‘ میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں۔
یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جواس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر‘ خاندانی اور قومی تعصبات پر‘ اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پرچلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب‘ اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں‘ انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھاہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔
وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھرگیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کردے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔
یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا۔ اپنے باپ کو‘ اپنے خاندان کو‘اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی‘ اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ‘ ملک‘ برادری‘ خاندان‘ حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی‘ جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے‘ بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔ مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔
اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں‘ کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یونہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کودنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہرمفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کوپالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دھوڑدھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا۔ پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا‘ اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں‘ جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورتِ حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا۔ مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خداکے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔
ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندئہ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں‘ محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا‘ کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا‘ محض محبت کی آزمایش مقصود تھی‘ لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا۔ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان‘ اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دُنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دُنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔
اس یادگار کے منانے کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح‘ اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہوا جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔
وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمۂ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندئہ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب‘ کوئی دل چسپی‘ کوئی ذاتی مفاد‘ کوئی دبائو اور لالچ‘ کوئی خوف اور نقصان‘ غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹاسکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کردینا آسان ہو‘ مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کرلیا ہے___ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے‘ اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے (اکتوبر ۱۹۴۷ئ)۔ (نشری تقریریں‘ ص ۹۷- ۱۰۳)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی پہلی نظربندی کے دوران ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ایک خط اپنی اہلیہ محترمہ کو لکھا۔ یہ خط سنسر میں روک لیا گیا۔ اب ایک کرم فرما کے توسط سے دستیاب ہوا ہے۔ ہم یہ خط قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
ایک مدتِ دراز کے بعد آپ کا خط ملا۔ مگر اس کی کچھ شکایت نہیں۔ میں خود بھی زیر نگرانی خط و کتابت سے بیزار ہوں۔ گھر کا حال بچوں کے خطوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔
آپ کا یہ خیال صحیح ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پاس ہو جانے کے بعد اصولی حیثیت سے‘ ہماری یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گئی ہے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ میں بھی یہی چاہتا تھا، لیکن آپ کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ پھر حکومت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کیوں نظر بند کررکھا ہے۔ میں اس کے وجوہ سے پہلے بھی لا علم تھا اور اب بھی لاعلم ہوں۔ قرار داد مقاصد کے بعد تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہو گیا ہے کہ اب اس ریاست کی وفاداری و خیر خواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہو گئی ہے، لیکن میں نے تو اُس سے پہلے بھی یہ بات اچھی طرح واضح کر دی تھی کہ اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پر امن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے اور کوئی ایسا طریق کار ہرگزا ختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے، آخر کون مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ہندستان میں ہم پر جو تباہی آ چکی ہے، وہی اب پاکستان میں بھی ہم پر اور ہمارے بال بچوں پر نازل ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی گرفتاری ہی کے راز کو جانتے تھے اور نہ اس معمے ہی کو کچھ سمجھ سکے ہیں کہ قرار داد مقاصد کے بعد ہماری نظر بندی میں پہلی توسیع کیوں ہوئی تھی اور اب یہ دوسری توسیع کیوں ہوئی ہے۔ ممکن ہے حکومت ہمارے متعلق کچھ ایسی باتیں جانتی ہو جو ہم خود اپنے متعلق نہیں جانتے۔ میں نے براہِ راست مغربی پنجاب کی حکومت کو بھی اس بارے میں ایک چٹھی لکھی ہے۔
یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ آپ کی صحت برابر گرتی جا رہی ہے۔ میں آپ کی تکلیف کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، سواے اس کے کہ رضا بقضا اور توکل علی اللہ کی نصیحت کروں۔ یہ چیز جس قدر زیادہ آدمی میں موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ وہ ہر حال میں مگن اور مطمئن رہے گا۔ اس میں سے میں نے تھوڑا ہی حصہ پایا ہے اور اس کا فیض یہ ہے کہ میرے اطمینان قلب میں ذرا فرق نہیں آنے پایا ہے۔ ایک سال کی قید کے بعد‘ اس وقت میری صحت اتنی اچھی ہے کہ پچھلے ۱۵سال میں کبھی ایسی اچھی نہیں رہی۔
آدمی اپنی جہالت سے سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانی منصوبے پورے ہو رہے ہیں، حالاں کہ یہاں دراصل ایک ہی منصوبہ پورا ہوا کرتا ہے اور وہ خدا کا منصوبہ ہے۔ دانش مند انسان خدائی منصوبے کے اچھے پہلوؤں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ نادان اس کے برے پہلوؤں میں کام کرنا انتخاب کرتے ہیں اور سیہ روئی مول لیتے ہیں۔یوسف کے حق میں جو کچھ مقدر تھا، وہی ہو کر رہا۔ بردران یوسف اور زلیخا اور عزیز ِمصر جو جو کچھ کرتے گئے، خدا اسی کو اپنے منصوبے کی تکمیل ]کا[ ذریعہ بناتا گیا اور خود اُن کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ انسان کی دانائی کا سارا امتحان بس ا س میں ہے کہ وہ خدائی منصوبے کے کون سے پہلو میں کام کرنا اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر خدا کے دیے ہوئے علم و عقل سے کام لے کر اچھے پہلو کو پہچان لیا ہے اور اسے اختیار کر لیا ہے تو انجام بہر حال بہتر ہے خواہ بیچ میں کتنی ہی برائیوں سے اس کو سابقہ پیش آئے۔ آخر دنیا میںکسی انسان کے ساتھ اس سے زیادہ کیا برائی ہوسکتی ہے جو حسین ابن علی، ابو حنیفہ، امام احمد، ابن تیمیہ، مجدد سرہندی اور سید احمد بریلوی کے ساتھ ہوچکی ہے۔ لیکن کسی کو ان کے انجام کا ہزارواں حصہ بھی میسر آجائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔
میری طرف سے گھر میں سب کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار۔
(ابوالاعلٰی مودودی‘ علمی و فکری مطالعہ‘ مرتبین: رفیع الدین ہاشمی/سلیم منصورخالد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۶۴۸)