حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے۔ آپؐ نے تراویح میں ہمارے ساتھ قیام نہ کیا، یہاں تک کہ صرف سات دن رہ گئے۔ ۲۴رمضان کی رات کو حضوؐر نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ جب چھے راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب پانچ راتیں رہ گئیں تو حضوؐرنے پھر قیام فرمایا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کاش! آپؐ اس سے زیادہ قیام فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا : آدمی جس وقت امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے اپنے گھروالوں کو جمع کیا اور اپنی عورتوں کو اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر ہمیں فلاح کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہوا (یعنی سحری کھانے سے رہ جانے کا خوف ہوا)۔ پھر بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اس سے پہلے ایک روایت حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھی۔ اس طویل روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے ۲۴ دن ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں دو مختلف رمضان کا ذکر کرتی ہیں۔ حضرت ابوذرؓ جس رمضان کا ذکر کر رہے ہیں وہ بعد کا واقعہ ہے۔ اس روایت میں حضرت ابوذرؓ نے حضوؐر سے درخواست کی کہ کاش! آپؐ زیادہ قیام فرماتے جس پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے جب امام سلام پھیرے، تو اس شخص کے لیے رات بھر کا قیام لکھا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت اپنے بندوں پر ایسی ہے کہ رات کی نماز جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں، یعنی فرض ادا کرتے ہیں تو اس کا اجر رات بھر کے قیام کے برابر لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے کرم سے جتنا چاہے عطا فرما دے۔ اس کا اصول ہے کہ سزا دیتا ہے تو صرف جرم کے مطابق، اور انعام دیتا ہے تو اپنی رحمت کے مطابق، یعنی آدمی کی خدمت سے کئی گنا زیادہ۔ اس لیے حضوؐر نے فرمایا کہ آدھی رات تک ہم نے تمھیں نماز پڑھائی، یہی کافی ہے، اجر تو اللہ ساری رات کے قیام کا دے گا۔ پھر حضرت ابوذر غفاریؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آں حضوؐر نے اپنے گھر والوں، بیویوں، بچوں اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور تراویح کی نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ ہم فلاح سے رہ جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ فلاح کیا ہے تو حضرت ابوذرؓ نے جواب دیا: اس سے مراد سحری کا کھانا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ راوی جس نے حضرت ابوذرؓ سے سوال کیا کہ فلاح کیا ہے کوئی دوسرا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے بتایا کہ قیام اتنا طویل ہوا کہ خدشہ ہوگیا کہ آج سحری کا کھانا مشکل ہی سے کھایا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثبوت بھی ملا کہ یہ پہلے رمضان کی طرح نہیں کہ جس میں آں حضوؐر نے تراویح کا انتظام کیا تھا، تو لوگ آپ کی آواز سُن کر جمع ہوگئے تھے اور اوائل رمضان میں تراویح پڑھی تھی، بلکہ اس بعد کے رمضان میں آپؐ نے اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور گھر کے بال بچوں کو بھی جمع کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے اس بات کا ثبوت بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کا جو انتظام کیا تھا وہ خلافِ سنت نہ تھا۔ حضور اکرمؐ نے نہ صرف خود نماز پڑھی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ دیگر لوگوں کو جمع بھی کیا۔
حضور اکرمؐ نے باقی دن جو تراویح نہیں پڑھائی تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تراویح فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ حضوؐر نے لوگوں کو جمع بھی کیا ہے اور نہیں بھی۔ لوگوں کو ازخود جمع ہوجانے سے روکا بھی نہیں، تراویح پڑھائی بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس طرح آں حضوؐر نے اپنے عمل سے یہ بتا دیا کہ فرض، واجب، سنت اور نفل کیا ہیں۔ تراویح نفل ہے جس پر آں حضورؐنے خود عمل کیا ہے مگر اس کو لازم نہیں کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ خلیفہ دوم نے اپنے دوسرے نصف دورِ خلافت میں نمازِتراویح کو مساجد میں باجماعت ادایگی کی شکل میں اختیار فرمایا جو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے۔ چونکہ آں حضوؐر نے اپنے ساتھ لوگوں کے جمع ہونے کو ناپسند نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے موقع پر لوگوں کو قیام کے لیے جمع بھی کیا، تو ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ نے جو انتظام قیامِ رمضان کے سلسلے میں کیا وہ خلافِ سنت نہیں ہے۔
حضرت اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورئہ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو ۱۲ رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انھوں نے نماز میں تخفیف کی ہے (ایضاً)۔حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیامِ لیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تاکہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر (صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے۔ (ایضاً)
نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ لیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کا دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تاکہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد پر کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔(افاداتِ مودودی، درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ، مرتبین: میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان،ص ۳۱۵-۳۲۰)