۱۵ جون کو انقرہ میںاور ۱۶ جون کو استنبول میں بلا مبالغہ لاکھوںافراد جمع تھے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوگان ان سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے یکم جون سے یہ ہنگامہ آرائی کیوں شروع کی...؟ اس لیے کہ ہم نے مئی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی تھیں.... ترکی اور ترک عوام کے دشمنوں کو یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہورہیں اور انھوں نے ایک بڑی سازش کے حصے کے طور پر میدان تقسیم سے شوروشغب کا آغاز کردیا۔ ہم نے مئی کے مہینے میں....، اور پھر وزیراعظم اردوگان نے اپنی تازہ کامیابیوں کی طویل فہرست بیان کرنا شروع کردی۔ لیکن اس فہرست کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا غور کیجیے کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکی میں لاکھوں افراد کے عظیم الشان پروگرام ہوئے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت دنیا میں ان کی کوئی خبر نمایاں نہیں کی گئی۔ کیا یہ امر بلا سبب ہے کہ استنبول کے میدان تقسیم میں چند سو افراد کی ہنگامہ آرائی اور پھر خیمے لگاکر بیٹھ جانے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اور تصویریں تو الیکٹرانک میڈیا بھی دے اور پرنٹ میڈیا بھی، لیکن لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور اس کی کوئی تصویر، کوئی خبر دکھائی، سنائی نہ دے۔ عین اسی روز کہ جب دار الحکومت انقرہ میں لاکھوں افراد طیب اردوگان کا خطاب سن رہے تھے، ایک پاکستانی ٹی وی چینل استنبول کے میدان تقسیم سے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس کی طرف سے واٹر گن استعمال کیے جانے کے مناظر دکھا رہا تھا، انقرہ مظاہرے کا نہ کوئی ذکر ہوا اور نہ کوئی جھلک دکھائی دی۔ ذرائع ابلاغ کا یہ بھینگا پن اتفاقیہ یا عارضی نہیں، قصداً اور مستقل ہے۔
آئیے اس کے اسباب کا ذکر کرنے سے پہلے طیب اردوگان کی بات مکمل کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے: انھوں نے یکم جون سے اس لیے ہنگامہ آرائی شروع کی کیوں کہ ہم نے مئی میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی آخری قسط (۴۱۲ ملین ڈالر) بھی ادا کردی۔ ہم جب برسراقتدار آئے تھے تو ترکی پر آئی ایم ایف کا ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر (تقریباً ساڑھے ۲۳ کھرب روپے) کا قرض تھا۔ ہم نے نہ صرف وہ تمام قرض چکا دیا، بلکہ اب آئی ایم ایف ہم سے قرضہ مانگ رہا ہے۔ ہم جب برسراقتدار آئے تو سود کی شرح ۶۳ فی صد ہوچکی تھی۔ اب یہ شرح ۶ء۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یہ تمام سود عوام کی جیب سے ادا ہوتا اور مخصوص سودی لابی کی جیبوں میں جاتا تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ان کے یہ ذرائع آمدن مسدود کردیے ہیں، تو ان سب کو تشویش اور تکلیف ہورہی ہے کہ ترکی ان کی گرفت سے آزاد ہوگیا ہے۔ ہم نے استنبول میں ۴۶ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک تیسرے اور عظیم الشان ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ ہم نے گذشتہ ماہ انقرہ میں جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق ترکی میں ۲۲ ارب ڈالر کی مالیت سے ایک ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا۔ ہم نے براعظم ایشیا اور یورپ کو ملانے کے لیے آبناے باسفورس کے اوپر ایک تیسرے پل کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے جس پر اڑھائی ارب ڈالر لاگت آئے گی، لیکن اس سے استنبول میں ٹریفک کا نظام مزید بہتر ہوجائے گا۔ اس پر پر سڑک کے علاوہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی۔ ترکی میں اقتصادی ترقی کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے گذشتہ ماہ استنبول اسٹاک ایکسچینج نے تجارت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب برسر اقتدار آئے تھے تو ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف لڑھک رہا تھا۔ تب ملکی خزانے میں صرف ۲۷ ارب ڈالر باقی رہ گئے تھے۔ ملک بھاری قرضوں تلے سسک رہا تھا۔ ساڑھے ۲۳؍ ارب ڈالر تو صرف آئی ایم ایف ہی کے ادا کرنا تھے۔ اب ہم نے نہ صرف قرضوں سے نجات پالی ہے بلکہ گذشتہ ماہ ملکی خزانہ ۱۳۵؍ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ ہماری درآمدات کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے ملک میں قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی نئے اور حقیقی معاہدے کیے ہیں....‘‘۔
اردوگان اپنے تازہ کارناموں اور کارکردگی کی تفصیل سنا رہے تھے، لیکن باقی فہرست کو چھوڑ کر ذرا اسی آخری نکتے کا جائزہ لیجیے۔ ۸۰ ملین افراد پر مشتمل ترک آبادی میں سے کرد نسل سے تعلق رکھنے والے ۲۰فی صد بتائے جاتے ہیں۔ پوری ترک تاریخ میں کردی النسل اور ترکی النسل کا اختلاف شدت سے اٹھایا گیا ہے۔ ایک ہی ملک کے شہری اور مکمل دینی و تاریخی وحدت کے باوجود اقلیت کو ہمیشہ اکثریت سے شاکی رکھا گیا۔ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی تحریکیں اٹھانا اور انھیں ہوا دینا استعمار کا قدیم ہتھیار ہے۔ ’کرد‘ کا ایک لفظ دماغوں میں بٹھا دینے سے صرف ترکی ہی میں نہیں، چار اہم مسلم ممالک میں فتنے کی آبیاری ہوتی ہے۔ ترکی کے علاوہ شام، عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ کسی ایک ملک میں علیحدہ کرد ریاست کا وجود ان سب ممالک میں فتنہ جوئی کا ذریعہ اور سبب بنایا جاسکتا ہے۔ ان تمام پڑوسی ممالک میں کرد تحریک نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
ترکی میں پی کے کے (PKK) کے نام سے برسہا برس سے مسلح تحریک فعال تھی۔ اغوا، قتل، دھماکے اور مار دھاڑ ان کا اہم ہتھیار تھی۔ انھوں نے کم و بیش ہر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ طیب اردوگان نے اس چیلنج کو ہمہ پہلو انداز سے حل کرنے کا سفر شروع کیا۔ ۱۹۹۹ء میں پی کے کے، کے سربراہ عبداللہ اوجلان کو کینیا سے گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں ہے اور اس پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ہر دور میں نظر انداز کیے جانے والے کرد علاقوں میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع کردیا گیا۔ حال ہی میں ترکی، چین اور عراق کے مابین معاہدہ ہوا کہ عراق سے ایک تیل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ اگلے ماہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونا ہے، جس کے نتیجے میں روزانہ ۲۰ لاکھ بیرل تیل عراق سے کرد اکثریتی آبادی کے شہر دِیار بکر پہنچا کرے گا۔ خود اوجلان نے تین ماہ قبل ترکی کے خلاف تمام تر مسلح کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترک حکومت نے ہتھیار رکھ دینے والے تمام افراد کے لیے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جو ہتھیار ڈالنے کے بجاے ملک سے نکل جانا چاہے، اسے نکل جانے کی بھی اجازت ہے۔ اس ساری پالیسی کے نتیجے میں صرف ترکی ہی میں نہیں ان چاروں ممالک میں کرد مسئلے کے حل کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ گویا کہنے کو تو یہ طیب اردوگان کی تقریر کا ایک جملہ ہے کہ ’’ہم نے وحدت اور قومی یک جہتی کی خاطر جنوب مشرقی علاقے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دوررس معاہدے کیے‘‘، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو یہ ترکی ہی نہیں پورے خطے سے اس نسلی اختلاف کا ناسور ختم کرنے کا آغاز ہے۔
یکم جون سے شروع ہونے والے مظاہروں کی بظاہر وجہ تو یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت استنبول کے قلب میں واقع معروف چوک ’تقسیم‘ کا نقشہ تبدیل کرکے وہاں واقع تاریخی غازی (یا جیزی Gezy) پارک ختم کررہی ہے اور اس کے پودے اُکھاڑ رہی ہے۔ پورے چوک کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کرکے وہاں ایک تجارتی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے۔ لیکن ان تمام ہنگاموں کی اصل وجہ حکومت کی یہی سابق الذکر دُوررس اور بتدریج اصلاحات ہیں۔ تقسیم چوک کے نئے منصوبے میں وہاں موجود اتاترک کلچرل سنٹر کے قریب ایک شان دار جامع مسجد کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اتاترک سنٹر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کمال اتاترک کی روح کو تازیانے لگانے کے مترادف ہے۔
طیب اردوگان پرایک الزام یہ لگایا جارہا ہے، خود کئی پاکستانی ’شہ دماغ‘ بھی اسے دہرا رہے ہیں کہ وہ ترک قوم کو تقسیم کررہا ہے۔ یہ طعنہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ ملک کو سیکولر اور بنیاد پرستوں میں تقسیم کررہا ہے۔ اب ذرا ایک نظر دوبارہ انقرہ و استنبول کے مظاہروں کو دیکھیے جن میں لاکھوں افراد نے اپنی منتخب قیادت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ ان مظاہروں میں ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ اردوگان اس کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’آج اس مظاہرے میں پورے ترک معاشرے کی نمایندگی ہے۔ صرف مرد ہی نہیں بڑی تعداد میں خواتین بھی ہیں۔ صرف باحجاب ہی نہیں حجاب کے بغیر بھی ہیں اور سب شانہ بشانہ کھڑی ہیں‘‘۔ جسٹس پارٹی کو جن ۵۱فی صد عوام نے ووٹ دیے ہیں وہ سب بھی اسلام پسند نہیں۔ ان میں معاشرے کے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں لیکن کچھ لوگ آفتاب روشن کو انگلیوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔
بے انصاف ناقدین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اردوگان ڈکٹیٹر ہے، کسی کی نہیں سنتا، جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ طیب اردوگان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ اس کے کئی معاندین ہی نہیں بہت سارے دوستوں کا شکوہ بھی یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے۔ سیکولر دستور ختم کرنے اور ملک سے فحاشی ختم کرنے کے لیے جو کام دو ٹوک انداز سے پہلے ہی روز کرگزرنا چاہییں تھے وہ آج تک نہیں کیے۔ اردوگان ڈکٹیٹر ہوتا تو جس طرح اتاترک نے بیک جنبش قلم پردے، مسنون داڑھی، اذان اور قرآن کریم کا اصل متن تلاوت کرنے پر پابندی لگا دی تھی، وہ بھی سیکولر دستور ختم کردیتا۔ شراب پر مکمل پابندی لگا دیتا، پہلے ہی دن سکارف پر پابندی ختم کردیتا۔ لیکن وہ ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا کرتے ہوئے عوام کو ذہناً آمادہ کرتے ہوئے، انتہائی حکمت و احتیاط سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اقتدار کے بعد انھوں نے گذشتہ مئی ہی میں شراب پر چند پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت اب مساجد، تعلیمی اداروں، یوتھ ہاسٹلز کے قریب شراب فروشی اور علانیہ شراب نوشی پر پابندی ہوگی۔ رات ۱۰ بجے کے بعد اور شاہراہِ عام پر شراب نوشی ممنوع ہوگی۔ نوعمر بچوں کو شراب فروشی منع ہوگی۔
اردوگان لاکھوں افراد کے حالیہ مظاہروں سے خطاب میں کہہ رہے تھے:’’ہم نے مسلسل صبر کیا۔ تم نے ہماری بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا ... ہم نے صبر کیا، تم نے ہمیں گالیاں دیں .... ہم نے صبر کیا۔ تم نے مساجد کی بے حرمتی کی .... ان کے اندر غلاظت پھینک دی.... مسجدوں میں داخل ہوکر شراب نوشی کی، ہم نے صبر کیا... لیکن صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے .... اب ہم عدالت و قانون کے ذریعے ان زیادتیوں کا جواب دیں گے۔ ان کے ناقدین کی نگاہ میں شاید یہی بات ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اپنے اللہ کو منانے اور انسانیت کو بچانے کے لیے ۱۰سال کے صبروتدریج کے بعد اُٹھائے جانے والے یہ معمولی اقدامات بھی سیکولر لابی کو ہضم نہیں ہورہے ۔
طیب اردوگان، جسے بعض پاکستانی اخبارات میں بھی ڈکٹیٹر اور آمر کہا جارہا ہے، کی ڈکٹیٹر شپ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے پرتشدد مظاہرہ کرنے والوں کو بھی وزیراعظم ہاؤس بلاکر ان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر واقعی آپ لوگوں کے مطالبات مبنی برحقائق ہوئے تو وہ انھیں فوراً قبول کرلیں گے۔ ڈکٹیٹر اردوگان نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر تمھیں اپنے مطالبے پر اصرار ہے تو آؤ ہم استنبول کے شہریوں میں اس پر ریفرنڈم کروالیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔
تقریباً آٹھ ماہ بعد فروری ۲۰۱۴ء میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اردوگان نے اس کی مہم انتخابات سے چند ہفتے پہلے چلانا تھی لیکن ہنگاموں کی حالیہ لہر کے بعد انھوں نے ابھی سے بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم شروع کردی ہے۔ انقرہ و استنبول کے بعدانھوں نے جمعہ ۲۱ جون سے ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پروگرامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ قرآن کریم کی حقانیت قدم قدم پر اپنی سچائی منواتی ہے: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، ’’ہوسکتا ہے کہ کوئی بات تمھیں بری لگ رہی ہو اور اسی میں تمھارے لیے بہتری ہو‘‘۔
حسنی مبارک کی باقیات اور ان کے عالمی سرپرستوں نے پورا سال مصر میں اُودھم مچائے رکھا۔ ’مرسی کا پہلا سال‘ کے عنوان سے قائم ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ایک سال میں اپوزیشن نے ۲۴ ملین مارچ کیے، یعنی اوسطاً ہرماہ دو۔ ۵ہزار سے زائد مظاہرے اور پُرتشدد ہنگامے کیے۔ ۵۰پروپیگنڈا مہمات چلائی گئیں اور ۷ہزار سے زائد احتجاجی دھرنے ہوئے۔ اور اب ۳۰جون کو کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا جا رہا ہے: تَمَرُّد (بغاوت) کے نام سے مظاہروں اور ہنگاموں کی تیاری ہورہی ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے مل کر ایسی فضا بنا دی ہے کہ گویا کوئی خطرناک آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اپوزیشن پُرامن مظاہرے کرنا چاہے تو خواہ روزانہ کرے لیکن اس کا اصل ہتھیار خوں ریزی اور جلائو گھیرائو ہے۔ ریہرسل کے طور پر ۱۹جون کو بھی اخوان کے مختلف دفاتر پر حملے کرتے ہوئے ۳۰۰کارکنان لہولہان کردیے گئے۔ اسی طوفان میں فوج کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دے۔ فوج کے سربراہ اور وزیردفاع عبدالفتاح سیسی نے ۲۳جون کو صدرمرسی سے ملاقات و مشورے کے بعد بیان کردیا کہ ’’فوج خاموش تماشائی نہیں رہے گی‘‘۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ’’ہنگامہ آرائی کے بجاے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائے‘‘ لیکن پاکستانی اخبارات سمیت پورے عرب اور عالمی میڈیا نے ان کا یہ بیان اس انداز سے نمایاں کیا کہ ’’فوج نے اخوان کو تنبیہہ کردی‘‘۔ دوسری طرف حسنی مبارک کے تعین کردہ جج ایک کے بعد دوسرا متنازعہ فیصلہ صادر کیے جارہے ہیں۔ تازہ ترین فیصلے میں دستور ساز اسمبلی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کا الیکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا ہے اور صدرمرسی پر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام لگاکر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ترکی اور مصر میں یہ سب اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہو رہا۔ بیرونی آقا، فرعونی دور کی باقیات بعض مسلمان ممالک اور عالمی سرمایہ سب اس الائو پر تیل چھڑک رہے ہیں۔
دوسری جانب اردوگان کی طرح اخوان اور اس کی حلیف جماعتوں نے بھی رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے۔ ۲۱جون کو قاہرہ میں لاکھوں افراد نے ’تشدد نامنظور‘ کے عنوان سے مظاہرہ کیا ہے۔ قاہرہ کے اس عظیم الشان مظاہرے کی کوئی تصویر، کوئی خبر بھی دنیا کو دکھائی نہیں دی لیکن اخوان پُرعزم ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ دکھائیں یا نہ دکھائیں، اگر اللہ کی رضا اور عوام کی تائید اسی طرح شاملِ حال رہی تو ’آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا‘۔