جولائی ۲۰۱۳

فہرست مضامین

قلب کی اصلاح: اہمیت و ضرورت

محمد مقصود عالم رشادی | جولائی ۲۰۱۳ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

 یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث اہم، قیمتی اور انسا نوں کے لیے بالخصوص مومنوں کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے لیکن بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جو بہت زیادہ  اہمیت کی حامل ہیں۔ با لخصوص تین حدیثیں جن کے بارے میں علماے کرام نے فر مایا ہے کہ  اسلام کی تمام تر تعلیمات ان میں داخل ہیں۔ گویا دین اسلام کا مدار ان تین حدیثوں پر ہے۔ ان میں پہلی حدیث یہ ہے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: سنو !انسانی جسم میں ایک گو شت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ ہوجائے گا۔ جان لو کہ یہ قلب ہے‘‘ (بخاری، مسلم )۔ دوسری حدیث یہ ہے کہ اعما ل کی قبو لیت کا دارو مدار اخلاصِ نیت پر ہے ۔ تیسری حدیث یوں ہے کہ مومن کے اسلام کے حسن کی خوبی یہ ہے کہ وہ    بے کار اور فضول با توں سے اور بے کار کاموں سے اپنے آپ کو بچا ئے رکھے۔

یہ تینوں حدیثیں اپنے اندر جا معیت رکھتی ہیں۔ ان میں پہلی حدیث اس وقت موضوعِ تحریر ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح قلب کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر ؓ ہیں۔ یہ انصاری صحابی ہیں۔ نبی اکرمؐ کے مدینہ منورہ رونق افروز ہونے کے بعد سب سے پہلے بچے ہیں جو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اور ان کے والدین دونوں ہی صحابی ہیں۔ کو فہ جو عراق میں واقع ہے، وہاں رہتے تھے اورملک شام کے ایک شہر حمص کے گورنر بنا ئے گئے، اور سب سے اہم بات یہ کہ مذکورہ حدیث انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں رسولؐ اللہ  سے سما عت فر ما ئی اور جب بالغ ہوئے تو ممبر پر بیان کی جس کو صحابہ کرام ؓ نے قبول فر ما لیا ۔

قلب کی اھمیت

 اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ دل اگر چہ چھو ٹا سا گو شت کا لوتھڑا ہے لیکن پورے قالب، یعنی جسم کی اصلاح اس قلب کی اصلاح پر موقوف ہے۔ اس لیے کہ قلب جسم کا بادشاہ ہے، جب با دشاہ صحیح ہو گا تو سا ری رعایا بھی صحیح ہوگی۔ قلب کے ٹھیک ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ جب قلب نور ایمان سے منور ہو جائے اور اس میں نور عرفان اور نور ایقان آ جا ئے تو سمجھ لو کہ قلب کی اصلاح ہو گئی اور جسم کے تمام اعضا سے بھی اعمال ِصالحہ ، اخلاقِ حمیدہ اور احوالِ جمیلہ ظاہر ہوں گے، لیکن جب قلب کفر و شرک کی ظلمتوں، شکوک و شبہات اور نفاق کی برا ئیوں سے خراب ہوجا ئے گا تو پھر جسم کے اعضا سے بھی برے اعمال ہی صادر ہوں گے۔ چنا نچہ ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ اپنے قلب کی نگرا نی کرے اور اس کو خواہشات نفسا نی میں مشغول و مصروف ہو نے سے روکے رکھے۔ اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے کہ نہا یت اہم امور میں سے ہے کہ قلب کی اصلاح اور نگرا نی ہو، ورنہ یہ کبھی بھی بدل سکتا ہے۔ قلب کے معنی ہی بدلنے کے ہیں۔ دل کو عر بی میں قلب اس لیے کہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت بدلتا رہتا ہے، چنانچہ ہر وقت نگرا نی کی ضرورت ہے کہ یہ قلب حق سے باطل کی طرف نہ پھر جائے یا اچھا ئی سے برا ئی کی طرف رُخ نہ پھیر لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اُم سلمہ ؓ روا یت فر ما تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا مانگا کر تے تھے:’’اے اللہ ہما رے قلوب کو اپنے دین حق پر ہمیشہ ثابت قدم رکھ‘‘(بخاری)۔ اگر قالب سے گناہ سر زد ہو جا ئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قلب میں فسادہے۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم ؑ کے تذکرے میں ایک جگہ ارشاد فر مایا: ’’اے میرے رب، مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کرکے اُٹھائے جائیں گے، جب کہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء ۲۶:۸۷-۸۹)۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ جس انسان کا قلب ’قلب سلیم‘ ہو گا وہ نجات پا ئے گا ۔ قلب جب صالح ہو جاتا ہے، اس کو قلب سلیم کہاجاتا ہے۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں قلب ِ سلیم کے پانچ پہلو بیان کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ قلب جو غلط قسم کے عقیدوں، کفر و شرک، نفاق و بد عت سے خالی ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ قلب سلیم وہ ہے جو اپنی اولاد کو حق کی رُشد و ہدایت کی طرف راہ بتاتاہے ، چو تھی تفسیر یہ کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں ایسی شہوت اور خواہشاتِ نفس نہ ہوں جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہوں۔ حضرت سفیان کی طرف سے پانچویں تفسیر یوں ہے کہ قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں اللہ کے علاوہ کو ئی اور نہ ہو ۔ اس حدیث سے اصلاحِ قلب کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ جس طرح بدن بیمار ہوتا ہے اور اس کے لیے علاج کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح قلب بھی بیمار ہوجاتا ہے اور اس کا علاج کروانے اور اصلاح کی ضرورت پڑتی ہے ۔

دل اور قرآن مجید

 دل کی بیما ریاں کیا ہیں اور ان کاعلاج کیسے ہو ؟اس سے قبل یہ جان لیجیے کہ دل کی اہمیت اتنی ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس کا بارہا تذکرہ فر مایا ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کو وسوسوں اور بے کار خیالات سے بچانے اور اس کی اصلاح کی طرف متو جہ فر مایا ہے۔ قلب کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں کے اعتبار سے ۱۵ مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے، جن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسا نی قلب کی کیفیات اور اس میں پیدا ہونے والے حالات کی اصلاح کیسے کرنی چاہیے۔

 سخت دل

 سورۂ بقرہ میں فر مایا گیا: ’’ آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیو نکہ پتھروں میں سے تو کو ئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کو ئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اور کو ئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے‘‘ (البقرہ۲:۷۴)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ ان کو جیسے چا ہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد رسولؐ اللہ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطا عت کی طرف پھیر دے‘‘۔ (مسلم)

انسا نی قلب زمین کے مانند ہیں۔ انسان اگر ایک عر صے تک زمین پر محنت نہ کرے، کاشت نہ کرے تو وہ سخت اور بنجر ہو جا تی ہے اور اس زمین سے پیدا وار بھی متا ثر ہوجاتی ہے۔    اسی طرح انسان جب دل پر محنت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ سخت ہوتا چلاجاتا ہے اور جب انسان کا دل گنا ہوں کے سبب سخت ہوجاتا ہے، اس میں خوفِ خدا نہیںہوتا، تو پتھر بھی دل کی اس سختی سے شر ما جا تے ہیں۔ دل انسان کے پاس بڑا سرمایہ ہے۔ اس پر محنت کر کے اس کا تزکیہ کرلے تو کامیاب، ورنہ آخرت کے اعتبار سے اسے ناکارہ اور ناکام انسان کہا جائے گا۔

 زنگ آلود دل

گناہوں اور بد کا ریوں کی وجہ سے انسانی دل زنگ آلود ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ چنا نچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے‘‘۔ (المطففین ۸۳:۱۴)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’مومن جب گناہ کر تا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر اگر وہ تو بہ کر لیتا ہے، ڈر جاتا ہے، استغفار کر لیتا ہے تو دل کا وہ سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے لیکن بجاے تو بہ کے اور گناہ کر تا ہے تو وہ نقطہ اور بڑھ جا تا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے‘‘(ترمذی)۔ یہی ہے وہ رَانَ  جس کا تذکرہ مذکورہ آیت میں فر مایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیان کر نے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، اس لیے کہ دل ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ ہم اس دھبے کو نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھبے کو دھونے اور دل کو صاف کر نے کا طریقہ بیان فرما دیا ہے، چنانچہ بند گان مومن کو چاہیے کہ نا فر مانی یا گناہ کر نے کے بعد فوراً رجوع الی اللہ اور انابت الی اللہ کا ثبوت دیں ،تو بہ و استغفار کے ذریعے دل کو بر باد ہو نے سے بچا لیں، بصورتِ دیگر دل کی بر بادی ایمان کی بربادی کے مترا دف ہے اور ایمان کی بر بادی دا ئمی نقصان و خسران کا سبب بن سکتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ ۔

گنھگار دل

قرآن مجید میں ہے کہ’’جو شہا دت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہوتا ہے اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ‘‘(البقرہ۲:۲۸۳)۔ اس آ یت میں صاف طور سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی فرماں بر دا ری سے انحراف دل کو گنہگار بنا دیتا ہے۔ گنہگار دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُلفت نہیں آ تی، بلکہ نا فر ما نی اور شہوات کی محبت ہی جگہ پکڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ہی فر مایا ہے کہ دل نیک ہو تو سارا جسم نیک ہو تا ہے، اور یہ گنہگار ہو جا ئے تو دل مسخ ہوجاتا ہے ۔

 ٹیڑہا دل

ٹیڑھے دل کا بھی قرآن مجید میں تذکرہ ہے۔ فرمایا: ’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشا بہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنا نے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کو ئی نہیں جانتا‘‘ (اٰل عمران ۳:۷)۔  اللہ تعالیٰ دل کے اس ٹیڑھ پن سے حفا ظت فر ما نے والی ہے ۔ اس لیے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں دعا سکھا ئی ہے:’’اے ہمارے پر ور دگار، جب کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر لگاچکا ہے پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ فر ما، اپنے خزا نۂ فیض سے رحمت عطا فر ما کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے‘‘۔ یہ دعا جس میں دل کی سلا متی کی دعا مانگنا خود قرآن کریم نے سکھایا ہے، اس کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ اس میں دو چیزیںمانگی گئی ہیں، دین و ایمان پر استقامت اور دوسری چیز حسن خاتمہ۔ یہ دونوں نعمتیں اس دعا میں شامل ہیں۔ ربنا لا تزغ قلوبنا، میں دین و ایمان پر استقامت کا مانگنا سکھایا اور وھب لنا من لدنک رحمۃ، میں حسن خا تمہ یا خاتمہ بالخیر۔ جو اس کو مانگے گا وہ دل کے ٹیڑھ پن سے بھی محفوظ رہے گا اور آخری گھڑیوں میں بھی اللہ تعالیٰ دستگیری فرما ئیں گے اور حسن خا تمہ نصیب ہو گا۔ وہ لوگ دانش مند ہیں جو اپنے دل کی حفا ظت کے لیے یہ دعا ہمیشہ استحضار کے ساتھ مانگتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی لمحے میں یہ دعا قبول ہو جائے تو بیڑا پار لگ جا ئے گا ۔

 غور و فکر نہ کر نے والے دل

کچھ دل ایسے بھی ہو تے ہیں جو غافل اور کبھی غور و فکر نہ کر نے والے ہو تے ہیں۔ یہ بھی ناکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہیں‘‘ ( اعراف۷:۱۷۹)۔ گویا ان کے پاس دل، آنکھ، کان سب ہیں لیکن   اللہ کی آیتوں پر غور و فکر نہیں کرتے، یہ جانوروں سے بدتر ہیں۔ یہ انسان ہو کر جانوروں کی طرح زندگی گزارنا چا ہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان سے بہتر جانور ہیں کہ وہ اپنے اعضا سے اتنا فائدہ ضرور حاصل کر لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے، زیادہ کی ان میں استعداد نہیں ہے، لیکن ان لوگوں میں روحانی وعر فانی تر قیات کی جو فطری قوت و استعداد ودیعت کی گئی ہے، اسے غفلت اور بے راہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع ومعطل کردیتے ہیں (تفسیر عثمانی)۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ کے الفاظ سے اسی غفلت کی طرف اشا رہ ہے کہ غفلت بے حد خطر ناک ہے۔ اس کا اثر انسانی قلب پر پڑتا ہے، اور دل اس قابل نہیں رہ جاتا کہ اس میں کو ئی حق بات اثر کرے یا اللہ تعالیٰ کی طرف انابت و رجوع کی کیفیت اس میں آ ئے جس کو قرآن مجید میںفر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی اور ان کانوں پر بھی اور ان کی آنکھوں پر پر دے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخر آیت میں اس کی سزا بھی بیان فر ما دی ہے کہ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ، انھیں عذاب الیم ہوگا۔

 لرزنے والا دل

کچھ دل ایسے ہو تے ہیں جو اللہ کا نام سن کر لرز جا تے ہیں اور قرآن کریم کی آیت کو سنتے ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے۔ یہ قابل تعریف دل ہیں۔ ان کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جا تے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جا تا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘ (الانفال ۸:۲)۔ قرآنی آ یات کا اور اللہ پاک کے نام کو سن کر اثر لینا راست طور پر انسا نی قلب سے ہے۔ لہٰذا قرآن کریم سے فا ئدہ حاصل کر نے کے لیے اس دل کا صحیح ہونا لازم ہے جس کے لیے ہمیشہ اس کی اصلاح کی فکر کر نے کی ضرورت ہے ۔

 مھر لگے ھو ئے دل

 قرآن مجید میں کچھ دلوں کا تذکرہ یہ بھی ہے کہ ان دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ان دل والوں کے غلط اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنا نچہ فر ما یا: ’’اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگادیتے ہیں‘‘ (یونس ۱۰:۷۴)۔ یہاں مہر لگنے کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے ، یعنی نافرمانی میں حد سے گزرنا اور کفر و شرک میں بڑھتے چلے جانا۔ یہ سب مہر لگنے کا ذکر ہے۔ دلوں پر مہر کیسے لگتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا: انسان گناہ کر تا ہے تو اس کے دل پر ایک دا غ لگا دیا جاتا ہے۔ پھر گناہ کر تا ہے تو پھر ایک داغ لگا دیاجاتا ہے۔ اس طرح دا غ لگتے رہتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اس پر مہر لگادی جا تی ہے۔ پھر یہ انسان کبھی نیکی اور حق کی طرف متو جہ نہیں ہو تا۔ وہ صلا حیت بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ ہماری حفا ظت فرمائے۔

 مطمئن دل

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:’’ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۲۸)۔ گویا دولت، حکومت، منصب، جاگیر یا انسانی ہوس، کو ئی ایسی شے نہیں ہے جس سے انسان کے دل کو اطمینان مل سکے۔ اگر سکونِ قلب جیسی     دولت و نعمت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی یاد اور اس کی عبا دت و اطا عت سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے دل کو مطمئن دل کہتے ہیں، جو ایک سچے مومن کو حاصل ہوتا ہے ۔

اندہے دل

اللہ پاک فر ما تے ہیں کہ کچھ دل اندھے ہو تے ہیں، چنانچہ فر مایا: کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو تے۔حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں بلکہ دل اندھے ہو جا تے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ گویا آنکھوں نے دیکھا اور دل نے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے، باوجود یکہ ظا ہری آنکھیں کھلی ہو ئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اندھا پن سب سے زیا دہ خطر ناک وہی ہے جو دل کا اندھا پن ہے۔ العیاذ باللّٰہ۔

 دل کا اندھا پن جتنا گہرا ہو تا جا تا ہے اتنا ہی اس شخص پر بڑے بڑے گناہ ہلکے معلوم ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کفر و شرک جیسے گناہ بھی معمولی معلوم پڑتے ہیں۔ ایک قوم ایسی گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پو ری قوم کے بارے میں فر مایا: وہ پوری قوم اندھی تھی۔ مطلب یہ نہیں کہ ظا ہری آنکھیں اندھی تھیں یا نا بینا تھے۔ نہیں، بلکہ دل کے اندھے تھے کہ اپنے نبی کے مقام کو نہ پہچا نا اور ایمان قبول نہ کیا۔ یہ اندھا پن ہے۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے:’’اور جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چشم پوشی کر تا رہا، نظر انداز کر تا رہا، اور اس کے حکموں سے اندھا بنا رہا، اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی بینا ئی چھین لیں گے۔ ’’اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ’’پروردگار، دنیا میں تو مَیں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ، جب کہ وہ تیرے پاس آئیں تھیں،  ُتو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۶)

 سلامتی والے دل

قرآن مجید میں قلب سلیم سے مراد اچھا بھلا چنگا دل ہے جو کفر و نفاق اور فا سد عقیدوں سے پاک ہو وہی قیامت میں کام آ ئے گا، اور نجات نصیب ہو گی۔ قلب سلیم سے مراد شرک و شک اور نفاق سے پاک دل ہے۔ گناہ تو ہر کسی سے ہو تے ہیں اور اس کی تو بہ سے وہ پاک ہو جاتے ہیں۔

 ایمان سے محروم دل

سورہ ٔ زمر میں آیت نمبر۴۵ میں ہے کہ: ’’جب اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ‘‘۔ یہ بے ایمانوں کا دل ہے جنھیں اللہ کے نام سے چڑ ہے یا پسند نہیں کرتے لیکن اللہ کے علاوہ کسی اور کا تذکرہ ہو تو یہ ان کے لیے با عث مسرت ہوتا ہے۔ اس دل میں کوئی خیر نہیں۔

 تکبر والا دل

ایک دل وہ بھی ہے جس میں تکبر اور غرور کی بیماری بھری ہو ئی ہو تی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپّہ لگادیتا ہے‘‘۔ (المومن ۴۰:۳۵)۔ تکبر بہت ہی بڑی برا ئی ہے، جس دل میں تکبر جڑ پکڑ لے اس دل کا خدا ہی محافظ ہے ۔ آدمی کو ہمیشہ متوا ضع رہنا چاہیے۔ یہ اچھے انسان اور مومن کی علامت ہے۔ بڑائی تو اللہ کے لیے ہے۔ فرمایا: بڑا ئی میری چادر ہے، جو تکبر کرے گا گو یا وہ میری چادر کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، وہ سمجھنا آسان ہے۔ صوفیاے کرام اور اولیا اللہ اپنے سروں کو سب سے پہلے اللہ کے آگے جھکاتے ہیں اور دل کی اس بیماری کا علاج کر تے ہیں۔ کو ئی علم والا علم کی وجہ سے، یا کو ئی مال والا مال کی وجہ سے، یا کو ئی بھی شخص اپنی کسی خو بی کی بنا پربڑا ئی نہ کرے۔ اس لیے کہ ہر قسم کی خو بی کسی کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے، تو اس پر تکبر کر نا کیا معنی رکھتا ہے۔ اپنے دل کی حفا ظت کر نا چاہیے کہ اس میں کب تکبر آجا ئے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہر موقع کے لیے دعا سکھا ئی ہے کہ کسی بھی وقت اللہ کو نہ بھلا ئے اور نعمت اس کی طرف سے سمجھے اور شکر و امتنان کے جذبات قلب میں پیدا کرے تو یہ قلب متوا ضع ہو گا۔ قلب متکبر اللہ کو پسند نہیں، اس لیے آیت مذکور میں فر مایا کہ متکبر دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں کہ وہ کو ئی حق بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، اللہ بچائے رکھے۔

 ایمان والے دل

’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کر دہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ئیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہو ئے ہیں؟‘‘(الحدید ۵۷:۱۶)۔ یہی وہ آیت تھی جسے سن کر حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے تو بہ کی تھی اور بہت بڑے اللہ والے بن گئے۔ انسان جب تو بہ کر تا ہے تو دل کی سیا ہی دُور ہوجاتی ہے، دل کی ظلمت دور ہوجاتی ہے اور دل کی سختی ختم ہوجا تی ہے۔ تو بہ و استغفار سے   دل دُھل جاتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابرا ہیمؑ کو وحی کی گئی کہ اپنے دل کو دھو لیا کرو، آپ کہنے لگے: اے اللہ! پانی تو وہاں پہنچتا ہی نہیں میں اس کو کیسے دھوؤں ؟ اللہ تعالیٰ نے فر مایا: یہ دل پانی سے نہیں، یہ تو میرے سامنے رونے سے دُھلتا ہے، یعنی تو اگر میرے سامنے عا جزی اور آہ وزاری کرے گا تو ان آنسوؤں کے گر نے سے تیرے دل کو صاف کر دیا جائے گا۔ دل اس طرح دھلتا ہے ۔

 قرآن مجید صاحب ِقلب کے لیے نصیحت ہے :’’بے شک اس سورہ یا قرآن مجید میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کا قلب ہو یا وہ کان لگا کر پو ری حا ضر دما غی کے ساتھ سن رہا ہو‘‘۔ اس لیے علما نے لکھا ہے جتنے احکام انھیں ملے ہیں، ان کا مخاطب قلب ہی ہے اور دل ایمان کی جگہ ہے اور ہاتھ اور پیر اسلام کی جگہ ہیں۔ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے، جو دل میںرہتا ہے۔ اس لیے حدیث میں فر مایا گیا کہ ایمان چھپی ہو ئی شے ہے جس کو دل لیے ہو ئے ہے اور اسلام کھلی ہوئی شے ہے جو ہاتھ پاؤں سے ظا ہر ہو تی ہے، تو سب جگہ قلب ہی مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قیمت لگا دی ہے۔انسان کے نفس کو اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ نفس کی قیمت جنت لگا دی لیکن دل کی قیمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے، لہٰذا جو انسان اپنا دل اللہ تعالیٰ کے حوا لے کردے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنا دیدار عطا فر ما ئیں گے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اُس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘  (القیامۃ۷۵:۲۲-۲۳)۔    یہ کیسے خوش نصیب لوگ ہوں گے کہ جو قیامت کے دن اچھے حال میں کھڑے ہوں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے جنت کو بنایا تو اس کی کنجی رضوان کے ہا تھ دے دی، اور جہنم بنایا تو اس کی کنجی اللہ تعالیٰ نے جہنم کے دارو غہ کو دے دی، اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو اپنا گھر بنایا اور اس کی کنجی بنی شیبہ نامی خاندان کو دے دی کہ قیامت تک ان کے پاس رہے گی، کسی اور کے پاس نہیں جا سکتی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کا دل بنایا مگر اس کی کنجی اپنے دستِ قدرت میں رکھی، وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہ جسے چاہتا ہے اُلٹ پھیر کر دیتا ہے۔ گو یا ہمارے دل کا تالا اگر کھل سکتا ہے تو اللہ رب العزت کی رحمت کے ساتھ کھل سکتا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اللہ رب العزت کے حضور دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ سے طلب کریں اور فریاد کریں کہ رب کریم جب ہمارے دلوں کا معا ملہ آپ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے تو دل کے تا لے کو خیر کے لیے کھول دے تا کہ ہم بھی   آپ کی محبت بھری زندگی کو اختیار کرسکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا کریں، یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، ’’ اے دلوں کے پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ‘‘۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓفر ما تے ہیں کہ جس پر نصیحت اثر نہ کرے وہ جان لے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ حضرت امام شافعی ؒ فر ما تے ہیں کہ دل کو روشن کر نا ہو تو غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرو ۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اللہ پاک کے نا موں میں ایک نام ’ النور‘ ہے، اس کا ذکر کثرت سے کر نے سے قلب کو نور حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قلب ِ سلیم سے نوازے، آمین!