حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کے حسن میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بے فائدہ کام چھوڑ دے۔ (ابن ماجہ، ترمذی)
لایعنی اور بے مقصد، بے فائدہ کام اور سرگرمیاں ہماری قومی زندگی اور مشغولیت کا کتنا بڑاحصہ بن چکی ہیں، نئی نسل کی ترجیحات کیا ہیں؟ ہرشخص جائزہ لے کر دیکھ سکتا ہے۔ وقت ضائع کرنے میں تکلف کرنے والے بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے بڑے پیارے انداز سے بتایا ہے کہ جتنا انسان لایعنی مشاغل سے پرہیز کرے، اس کا اسلام اتنا ہی خوب صورت یعنی بہتر ہوتا ہے، زیادہ اجر دلاتا ہے اور یہاں کی زندگی بھی عزت اور سکون سے گزرتی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں بطور خاص کوشش کرنا چاہیے کہ زندگی کو ___ اپنے وقت کو___ مثبت مقاصد کے لیے منظم کر کے گزاریں اور اپنے اسلام کے حسن کو خوب سے خوب تر کریں۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی حسن کو بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اس مہینے میں ذکرواذکار، تلاوتِ قرآن پاک، خدمت ِ خلق، دین کی اشاعت، دروس قرآن و حدیث اور اشاعت لٹریچر کے ذریعے اپنے حسن کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ٹی وی ڈراموں، فحش فلموں اور لغو قسم کے ناولوں سے اپنے ایمان و عمل کو برباد نہ کیا جائے۔
اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے؟ جانتے سب ہیں۔ مسئلہ تو بُرے کو چھوڑنا اور اچھے کو اختیار کرنا ہے۔ اس رمضان میں اس ارادے کو مضبوط اور توانا کیجیے کہ نیکی اختیار کریں گے، بُرائی سے بچیں گے، وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا پر عمل کریں گے۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں: ان میں سے ایک دروازہ ’ریان‘ ہے۔ سیر کرنے والا دروازہ، اس سے نہیں داخل ہوں گے مگر روزے دار۔ (متفق علیہ)
روزہ دراصل اپنی خواہشات اور دوسرے لوگوں کی خواہشات اور شیطان کے احکام کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی تربیت حاصل کرنا ہے۔ اس بات کو یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہوں۔ حلال کھانا، حلال پینا اور حلال طریقے سے شہوت پورا کرنا، سب اس وقت ممنوع ہوجاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت آجائے۔ ساری حلال چیزیں صبحِ صادق سے لے کر غروبِ شمس تک حرام ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ احکم الحاکمین نے حرام کردی ہیں، اور یہی حلال چیزیں رات کے وقت حلال ہوجاتی ہیں، اس لیے کہ رب تعالیٰ نے انھیں رات کو حلال قرار دے دیا ہے۔ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں مسلمان اس بات کو تازہ کرتے ہیں۔ رمضان المبارک جب ختم ہوجاتا ہے، عیدالفطر آتی ہے تو اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس دن روزہ رکھنے والا شیطان کا پیروکار ہوتا ہے اور کوئی مسلمان اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا کہ اس دن روزہ رکھے۔ روزے میں زیادہ تکلیف پیاس کی ہوتی ہے۔ اس لیے روزے دار کے لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی دروازہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ ریان کا دروازہ ہے، یعنی وہ دروازہ جس سے گزرنے والے کو ٹھنڈے اور میٹھے جاموں سے سیراب کیا جائے گا۔
روزے کی یہ حقیقت تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان معاشرے میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو اور وہ تمام قوانین جو خلافِ شرع ہوں بلاتاخیر ختم کردیے جائیں اور احکم الحاکمین کے نازل کردہ نظام کو نافذ کردیا جائے۔ جب تک روزے کے اس تقاضے کو پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک روزہ بے اثر رہے گا اور اس سے وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو روزے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی روزہ دار بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان شریف کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں اور سرکش جن بھی بند کردیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا۔ بلانے والا بلاتا ہے، اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے شر کے طلب گار! رُک جا، اور اللہ تعالیٰ ہر رات لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیں۔ (ترمذی،ابن ماجہ)
ماہِ رمضان چونکہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی تربیت کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں شیطان جو تمام لادینی نظاموں کا سربراہ ہے، کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور مسلمان اپنے نفس کو اپنی خواہشات سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں روک دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری تذکیر کے لیے پورا مہینہ رکھ دیا اور اس مہینے میں عبادت ہمارے لیے آسان بنا دی کہ شیطان کو بیڑیاں پہنا دیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں مسجدیں آباد ہوتی ہیں، خواتین مسجدوں میں تراویح پڑھنے آتی ہیں تاکہ قرآن پاک مردوں سے آکر سن لیں۔ خواتین اپنے گھروں میں نماز، تلاوتِ قرآنِ پاک اور ذکر کا زیادہ اہتمام کرتی ہیں۔ یوں بندگیِ رب کا ایک موسم بہار آجاتا ہے جو پورے معاشرے کو دین کی خوشبو سے معطر کردیتا ہے۔ یہ مہینہ اس حال میں گزرنا چاہیے کہ ہم اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں اور آیندہ کے لیے بندگیِ رب کے فریضے کے لیے تازہ دم ہوجائیں کہ یہی اس مہینے کا مقصود ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے ایمان کی بنیاد پر ثواب حاصل کرنے کے لیے رکھے تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان کے جذبے اور ثواب کی خاطر قیام کیا اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور جس نے لیلۃ القدر میں جذبۂ ایمانی اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے تمام گذشتہ زمانے کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، کتاب الصوم)
ایک مسلمان اگر پاک صاف ہونا چاہے تو اس کے لیے رمضان المبارک کے مہینے میں دوہرا نہیں بلکہ کئی گنا کا انتظام موجود ہے۔ اللہ رب العالمین کی ذات کتنی زیادہ مہربان ہے۔ اس نے بندوں کے تزکیے کا کس قدر وسیع انتظام فرما دیا ہے۔ دن کو روزہ رکھ کر، رات کو تراویح پڑھ کر اور لیلۃ القدر میں بیدار رہ کر انسان گناہوں کے میل کچیل کو پوری طرح صاف کرسکتا ہے بشرطیکہ ایمانی جذبہ موجود ہو اور اسے ثواب حاصل کرنے اور تزکیے کی فکرمندی نے بے قرار کیا ہوا ہو۔
بلاشبہہ رمضان المبارک تزکیے اور تطہیر کا مہینہ ہے اور اس میں تزکیے کا پورا پورا سامان کیا گیا ہے۔ انسان چاہے تو اپنے آپ کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کرے، روحانی قوت کو اوجِ کمال پر پہنچا کر بندگیِ رب میں مصروف ہوجائے اور قربِ الٰہی کی منازل برق رفتاری سے طے کرنا شروع کردے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے ہرعمل کی نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر روزہ، وہ میرے لیے ہے اور میں براہِ راست اس کی جزا دوں گا، وہ اپنے کھانے اور شہوتوں کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزے دار کے منہ کی مہک اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہے اور روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے ایک آدمی کا روزہ ہو تو وہ فحش بات نہ کرے اور شوروغوغا نہ کرے۔ اگر اس سے کوئی آدمی گالی گلوچ سے پیش آئے یا لڑائی لڑے تو وہ جواب میں یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ (مشکوٰۃ، متفق علیہ)
شہوت سب سے بڑا بت ہے۔ روزے کے ذریعے اسے توڑا جاتا ہے۔ اس لیے روزہ دار کی جزا بے حساب ہے۔ اسے اللہ رب العالمین براہِ راست جزا عنایت فرمائیں گے کہ اس نے سب سے بڑھ کر عبادت کی ہے اور اس بت کو توڑا ہے جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کے مدمقابل ہے۔ اس شہوت کو شیطان ذریعہ بناتا ہے، اسی کو طاغوتی قوتیں آلۂ کار بناتی ہیں۔ جب یہ ٹوٹ جائے تو پھر شیطان بھی مایوس ہوجاتا ہے اور طاغوتی قوتیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں لیکن یہ اس وقت ہوگا جب ایک انسان حقیقی معنی میں روزہ دار ہو۔ اس نے اس عزم کے ساتھ روزہ رکھا ہو کہ مجھے اپنی خواہشات کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نظام کی حکمرانی قائم کرنی ہے اور تمام حکمرانیوں اور نظاموں کو مٹا کر اللہ کے نظام کو قائم اور نافذ کرنا ہے۔ ایسا شخص اللہ کا پیارا ہے۔اس کے منہ کی مہک بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہے۔ پھر اس کے لیے روزہ ڈھال بھی ہے۔ گناہوں سے بچانے والا ہے اور روزہ افطار کرتے وقت بھی اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ پانی اور کھانے سے سیراب ہوتا ہے، یہ جسمانی خوشی ہے۔ حکم الٰہی کو سرانجام دینے کی خوشی نصیب ہوتی ہے، یہ ایمانی خوشی ہے۔ پھر آخرت میں رب سے ملاقات کے وقت اس کی رضا سے سرفراز ہونے کی خوشی جو سیدھا جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ روزہ دار اپنی تمام منازل سے شاداں و فرحاں ہوکر آخری منزل پر پہنچ کر خوشیوں اور راحتوں میں مگن ہوگا۔ آیئے! اپنے روزے کو حقیقی روزہ بناکر دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائیں۔