’انتخابی مرحلے کے بعد‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں سیّد منور حسن صاحب نے حالیہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور موجودہ نظامِ انتخاب کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے جماعت کی سیاسی حکمت عملی بظاہر ناکام معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلے بڑی سیاسی جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی،ایم ایم اے کا نہ بننا، ۲۰۰۸ء کے الیکشن کا بائیکاٹ، پی پی کے جیتنے کا خوف اور میڈیاوار میں نوازلیگ اور پی ٹی آئی کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری چند بڑے بڑے اسباب ہیں۔ اب جماعت کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ اگلے انتخابات کی تیاری شروع کرنی چاہیے۔
’تحریکِ اسلامی اور اجتماعی تبدیلی‘ (جون ۲۰۱۳ء) اہم مقالہ ہے جس میں اقامت ِ دین اور تبدیلی نظام کے لیے اسلامی تحریک کے پانچ مراحل کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کے لیے اہم خطوط کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اسلامی تحریک کو منصوبۂ عمل اور حکمت عملی کی تیاری میں ان اُمور کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
’کچھ حسن البناؒ کے بارے میں‘ (جون ۲۰۱۳ء) امام حسن البنا شہیدؒ کی بیٹی کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر خانگی معاملات، اولاد کی نگہداشت اور تربیت اور عوام الناس سے روابط کے پہلو ہر دور کی تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
’اسلام اور جنسیت‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں عملِ قومِ لوطؑ کو لواطت تحریر کرنا ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر کی شان میں نادانستہ طور پر گستاخی کے مترادف ہے۔ اگرچہ یہ غلط اصطلاح اب تک مستعمل ہے لیکن ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بجاے ’ہم جنسیت‘ یا ’ہم جنس پرستی‘ کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ (مئی ۲۰۱۳ء) میں ہمارے نظامِ تعلیم کی خامیوں کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ تحریک سے تعلق رکھنے والے ملغوبہ تعلیم پر مبنی سکول (hybrid school) ہماری ذہنی غلامی کے عکاس ہیں۔ پنجاب میں انگلش بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیے جانے سے طلبہ اور اساتذہ کرب کا شکار ہیں، اور تعلیم سے دل برداشتہ ہورہے ہیں۔ ہماری آیندہ نسل کو دانستہ جاہل رکھنے کا منصوبہ پورے صوبے میں جاری ہے۔ ماہرین تعلیم کی متفقہ راے ہے کہ بچہ غیرزبان میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا لیکن تحریکی اور غیرتحریکی حلقے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج لارڈ میکالے کی روح اپنی ۱۸۳۵ء کی خواہش کو اہلِ پاکستان کے ہاتھوں پایۂ تکمیل پاتے دیکھ کر خوش ہورہی ہوگی۔ بقول ریاض زیدی ؎
واے نادانی کہ اپنے ہاتھوں سے کھودی ہے قبر
ہم کہ ٹھیرے گورکن اور آپ ہی مدفن بھی ہیں
مئی کے شمارے میں ’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ میں ایک جملے پر مَیں کھٹکا : مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے لیے استاد رومی خاں (م:۱۵۳۰ء) نے توپیں تیار کیں (ص ۶۷)۔ظہیرالدین بابر مغل نہیں تھا (وقائع بابر از محمد ظہیرالدین بابر، مترجم فارسی: عبدالرحیم خان خاناں، مترجم اُردو: یونس جعفری، حواشی و جزیات حسن بیگ، مطبوعہ شہربانو پبلشرز، ۱۷-میتھیون روڈ کریکاڈی، برطانیہ، سال اشاعت ۲۰۰۷ء)۔ یہ کتاب جناب حسن بیگ کے سخن ہاے گفتنی سے مزین ہوکر نہایت خوب صورت انداز میں چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں ص ۷، آخری پیراگراف میں لکھا ہے: بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندانِ مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں کیونکہ بابر ترک تھا، اور اپنے ترک ہونے پر فخر بھی کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندانِ بابری کہنا چاہیے۔