انتخابی نظام کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں اور انتخابی عمل میں رُونما ہونے والی تمام بدعنوانیوں کے باوجود، قوم نے بحیثیت مجموعی ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے ذریعے کم از کم تین پیغام بڑے صاف انداز میں ملکی قیادت اور متعلقہ عالمی قوتوں کو دیے ہیں:
اوّل: گذشتہ پانچ برسوں میں جو افراد اور جماعتیں برسرِاقتدار رہیں انھوں نے ملک کی آزادی، سالمیت اور نظریاتی تشخص ہی کو مجروح نہیں کیا ملک کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیا اور ذاتی مفاد کی قربان گاہ پر قومی مفاد کو بے دردی سے بھینٹ چڑھایا، بدعنوانی اور کرپشن کا طوفان برپا کیا، عوام کے جان و مال اور آبرو کو بڑے پیمانے پر پامال کیا اور اس طرح اس اعتماد کو پارہ پارہ کردیا جو عوام نے ان پر کیا تھا۔ حکمرانی کی اس ناکامی کی وجہ سے قوم نے اس قیادت کو رد کردیا اور متبادل سیاسی قوتوں کو حالات کو سنبھالنے کا موقع دیا۔ برسرِاقتدار آنے والے لوگوں کا اصل امتحان اس میں ہے کہ وہ ملک کو ان دگرگوں حالات سے کیسے نکالتے ہیں، محض ماضی کا نوحہ کرنے سے کوئی خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔
دوم: عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تبدیلی محض جزوی اور نمایشی نہیں بلکہ حقیقی اور ہمہ جہتی ہونی چاہیے۔ انھوں نے لبرل سیکولر قوتوں کو رد کردیا ہے اور ان قوتوں کو ذمہ داری سونپی ہے جو آزاد خارجہ پالیسی ، دہشت گردی سے نجات ، معاشی ترقی، تعلیم اور صحت کے باب میں بہتر سہولتوں کی فراہمی، توانائی کے بحران کی دلدل سے ملک کو نکالنے اور معاشی اور سماجی خوش حالی اور سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف قوم کو رواں دواں کرسکیں۔
سوم: عوام نے ملک کو معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش میں نہیں ڈالا۔ نہ تو کسی پارٹی کو ایسی اکثریت فراہم کی جس کے بل بوتے پر اسے من مانی کرنے کا موقع مل جائے اور نہ ایسی بے بسی کی حالت والا اقتدار ہی دیا کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تائید کی ایسی محتاج ہو کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو، اور ان کے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہو۔
عوام کے اس پیغام کا تقاضا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا بجٹ ایسا بنائے جو عوام کی توقعات اور ضروریات پر پورا اُترتا ہو اور ملک کی ترقی اور استحکام کے باب میں ایک واضح وژن، مناسب پالیسیاں اور ایسا نقشۂ کار (روڈمیپ) فراہم کرے جس سے تبدیلی کا سفر مؤثر ہو اور اس حالت میں شروع ہوکہ سب کو نظر آئے ۔ عوام کسی معجزے کے طالب نہیں لیکن وہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ تبدیلی کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا جائے اور خوش نما الفاظ اور سیاسی شعبدہ گری سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ عوام اس کے عملی اثرات دیکھ سکیں۔ بلاشبہہ یہ قیادت کے لیے بڑی آزمایش ہے لیکن وقت کا یہی تقاضا ہے اور اسی میزان پر حکومت کے بجٹ، اس کی پالیسیوں اور اس کے عملی اقدامات کو تولا اور پرکھا جائے گا۔
۱۲جون ۲۰۱۳ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو اس اعتراف کے باوجود کہ نئی حکومت کو ورثے میں جو معیشت اور سوسائٹی ملی، وہ بڑے بُرے حال میں تھی اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ بُری طرح متاثر تھی، وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ میں عوام کی خواہشات کے مطابق نیا باب کھولنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن اور اس تبدیلی کے آغاز کا سامان کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے عوام خواہش مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج کی روشنی میں انتقالِ اقتدار اور نئے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے جو وقت وزیرخزانہ کو ملا وہ بہت کم تھا اور انھیں عبوری دور کی ٹیم کے کیے ہوئے ہوم ورک ہی کی بنیاد پر رواں سال کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی معاشی ٹیم نے تو انتخاب سے قبل محنت اور تیاری کرلی تھی۔ اس کا مظہر وہ مفصل منشور ہے جو انھوں نے انتخاب سے کئی مہینے قبل قوم کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ اب جو مینڈیٹ حکمران جماعت کو حاصل ہوا ہے وہ اسی منشور کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔ نیز یہ بھی عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس زیادہ لائق اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے اور اس سے بجاطور پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق اور اس کے اپنے منشور میں رکھے گئے پروگرام کی روشنی میں ایک ایسا بجٹ پیش کرے گی جو قوم کو نئی اُمید دلا سکے، جو عوام کو ان کی مشکلات کی دلدل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکے اور جسے وہ نہ صرف خوش دلی کے ساتھ قبول کریں بلکہ اس پر عمل کے لیے بھی کمربستہ ہوجائیں۔ ہم کسی جماعتی تعصب کی بناپر یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں، ملک اور ملک کے باہر بیش تر نقاد اس احساس کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت عوام کی توقعات کے مطابق حالات کے چیلنج کا مؤثر جواب دینے والا بجٹ پیش نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس صوبہ خیبر پختونخوا کی نئی حکومت اپنی تمام تر ناتجربہ کاری اور صوبے میں ہونے والی جنگ و دہشت گردی اور سابقہ حکومت کی نااہلی، بدعنوانی اور بُری حکمرانی کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادہ گمبھیر صورت حال کے باوجود ایک نسبتاً بہتر اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مرکزی وزیرخزانہ ایک اچھے انسان، ایک لائق ماہر حسابیات اور ایک تجربہ کار مالی منتظم ہیں اور اپنی جماعت میں بھی ان کا ایک اہم مقام ہے۔ وقت کی کمی کے باوجود ان سے ایک بہتر بجٹ کی توقع تھی جو بدقسمتی سے پوری نہیں ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی پانچ سالہ وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک پاکستان کی معیشت کی سالانہ اوسط رفتار ترقی (growth rate) ۵ فی صد سے کچھ زیادہ رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے اس دور میں اوسط رفتار ترقی ۳ فی صد رہی ہے جو سب سے کم ہے۔ غربت کی شرح ان پانچ برسوں میں آبادی کے ۲۹ فی صد سے بڑھ کر ۴۹ فی صد تک پہنچ گئی اور جو افراد خوراک کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کی تعداد ۵۸ فی صد تک پہنچ گئی۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات اور ادایگیوں کا عدم توازن دونوں کا خسارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور اس طرح بجٹ کا خسارہ ۱۳-۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۰؍ ارب روپے تک پہنچ گیا جس کا پیٹ بھرنے کے لیے اندھادھند قرضے لیے گئے۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک ۶۰برسوں میں ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل بوجھ ۶۰۰۰؍ارب روپے تھا جو ان پانچ برسوں میں بڑھ کر ۱۴۰۰۰؍ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت کے نتیجے میں ۵۰ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی، اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور ساتھ ہی ملک کی معیشت کو بھی ۱۰۰؍ارب ڈالر ، یعنی ۱۰ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا۔
ان حالات میں نیا بجٹ بنانا آسان نہیں تھا۔ ایسے ہی حالات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح گرداب سے نکلنے کا راستہ قوم کو دکھاتی ہے اور ایک قابلِ عمل پروگرام کی شکل میں نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اور اس کی معاشی ٹیم اس بازی کو سر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ کا فریم ورک وہی پرانا فریم ورک ہے اور جس نئے فریم ورک اور مثالیے (paradigm) کی ضرورت تھی اس کی کوئی جھلک اس میں نظر نہیں آتی۔ بلاشبہہ چند اچھے اقدام بھی اس میں تجویز کیے گئے ہیں اور ان کا کریڈٹ وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم کو دیا جانا چاہیے۔ ان کی مشکلات اوروقت کی قلّت کا اعتراف بھی ضروری ہے لیکن ان مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ اس امر کا اظہار اور اِدراک بھی ضروری ہے کہ بجٹ معیشت کو ایک نیا رُخ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، ان سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں جو خطوطِ کار پیش کیے گئے تھے، بجٹ ان کا احاطہ نہیں کرسکا ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کو چھلانگ لگاکر آغاز (jump start) کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی، کرپشن اور وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے اور ٹیکس چوری کی وبا سے نجات کے لیے جس نوعیت کی حکمت عملی اور کارفرمائی درکار تھی، اس کا کوئی سراغ بجٹ میں نہیں ہے۔ مہنگائی کو قابو میں کرنے، پیداوار اور روزگار کو بڑھانے، غربت کو ختم نہیں تو بڑی حد تک کم کرنے کے لیے جو اقدام ضروری تھے اور جن میں سے کچھ کا ذکر مسلم لیگ کے منشور میں موجود تھا، ان کی طرف پیش قدمی کی کوئی سبیل اس میں نظر نہیں آئی بلکہ ہر وہ اقدام کیا گیا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو۔ خسارہ اور قرضوں کے کم ہونے کا کوئی امکان دُور دُورتک نظر نہیں آرہا۔
ہم اس سلسلے میں بجٹ کے چند اہم پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ بجٹ کا ایک اُمیدافزا پہلو یہ ہے کہ معیشت کے بارے میں حکومت کے وژن کو چھے نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو ایک خوش آیند کوشش ہے۔ اس طرح سے یہ ایک کسوٹی بھی بن جاتی ہے جس پر پورے بجٹ کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اس میں پہلا نکتہ پاکستان کی خودمختاری کا حصول اور تحفظ اور محکومی اور مانگے کی معیشت سے نجات ہے۔ لیکن پورے بجٹ میں حقیقی خودانحصاری کے حصول کے لیے کوئی مؤثر پالیسی اور نقشۂ کار موجود نہیں۔ یہ بجٹ ۱۵۰۰؍ارب روپے سے زیادہ خسارے کا بجٹ ہے ، اور یہ بھی اس وقت جب ایف بی آر ۲ہزار۵سو ۹۸ ارب روپے کے ٹیکس محصولات وصول کرے اور امریکا کولیشن سپورٹ فنڈ، نج کاری، جی-۳ کی فروخت اور کے ای ایس سی کی فروخت کے سلسلے کی پھنسی ہوئی رقوم مل جائیں۔ یہ سب محکومی کی زنجیریں ہیں، خودانحصاری کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین معاشیات کی ایک تعداد نے اس بجٹ کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے اور ان میں سے بیش تر چیزیں اپنے کارنامے کے طور پر شامل کرلی گئی ہیںجو دراصل آئی ایم ایف کے مطالبات تھے۔ خصوصیت سے بجٹ کے خسارے میں قومی پیداوار کے ۵ء۲ فی صد کی کمی کا دعویٰ اور جنرل سیلزٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں اضافہ جن کے نتیجے میں مہنگائی میں اور بھی اضافہ ہوگا اور بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد یہ عمل شروع ہوگیا۔ اس نوعیت کی معاشی پالیسیوں کی موجودگی میں خودانحصاری ایک خواب بلکہ سراب سے زیادہ نہیں۔
دوسرا، تیسرا اور پانچواں نکتہ نجی سرمایہ کاری اور معیشت میں حکومت کے کردارکے بارے میں ہے اور اس کا پورا جھکائو سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل معیشت کی طرف ہے۔ یہ تجربہ ہمارے اپنے ملک میں اور ترقی پذیر دنیا کے بیش تر ممالک میں ناکام رہا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروباری معیشت کے جان دار مثبت پہلو ہیں لیکن متوازن معاشی ترقی اور عوام الناس کی خوش حالی کے دوگونہ مقاصد کو بیک وقت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں نجی سرمایہ کاری کو ضروری مواقع فراہم کیے جائیں، وہیں ریاست کا بھی ایک مثبت اور مؤثر کردار ہو جو قومی مفادات اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف اور معاشرتی عدل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کی شرکت کو سیاسی دراندازی سے محفوظ رکھنا ضروری ہے مگر ریاست کے مثبت کردار کے بغیر غربت کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی، اجتماعی عدل کا حصول اور معاشی ناہمواریوں سے نجات اور علاقائی عدم مساوات کا تدارک ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی سرمایہ کاری تو مطلوب ہے مگر سرمایہ دارانہ فریم ورک میں نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے فریم ورک میں۔ بدقسمتی سے اس کی کوئی جھلک بجٹ میں دیے گئے وژن میں نظر نہیں آتی بلکہ چوتھے نکتے میں تو کھل کر بات کہہ دی گئی ہے کہ ریاست عوام کی جو خدمات انجام دیتی ہے، اسے حق ہے کہ ان کی لاگت وصول کرے۔ یہ خالص سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے، ورنہ ریاست کا تو تصور ہی یہ ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن امن و امان کے قیام، دفاعِ وطن، عوام کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے۔ ’’ٹیکس کے ساتھ خدمات کا معاوضہ بھی وہ وصول کرے‘‘ یہ ریاست کے بنیادی تصور اور خاص طور پر اسلام کے تصورِ حکمرانی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
بلاشبہہ وژن کے آخری نکتے میں آبادی کے کمزور اور غریب طبقات کی دادرسی کی بات کی گئی ہے لیکن یہ اس وژن کا مرکزی تصور نہیں،ایک ضمیمہ ہے اور وہ بھی بڑا کمزور اور خام۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ بجٹ کی اس تقریر میں اگر کسی چیز کا ذکر نہیں تو وہ اسلام اور اس کے دیے ہوئے معاشی عدل اور خدمت ِ خلق کے نظام کا ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں اسلام کے ذکر کے علاوہ، قرآن پاک کی دو آیات اور دو احادیث نبویؐ سے استشہاد کیا گیا ہے۔ جناب اسحاق ڈار نے سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی طرف سے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ۴جون ۲۰۱۲ء کو اپنی تقریر میں کہا تھا: ملک کی اوّلین ترجیح غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور غربت کی لکیر کو بھی ایک نہیں، دو سے ڈھائی ڈالر ہونا چاہیے، اس لیے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور مہنگائی کی صورت حال کی روشنی میں خطِ غربت کے بارے میں نئی سوچ رُونما ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنی اسلامی روایت کا مؤثرانداز میں یوں اظہار کیا:
اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اب وہاں دو سے اڑھائی ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ آج سے چار سال پہلے بات کی تو یہاں کالم بھی لکھے گئے۔ اس کو عالمی سطح پر acknowledge [تسلیم]کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ سن کر تکلیف ہوگی کہ اگر two dollar a day والی آبادی [یومیہ دو ڈالر]پاکستان کو focus [مرتکز]کیا جائے تو آج تقریباً ۷۳یا ۷۴ فی صد آبادی کی یہ آمدن ہے۔ وہ poverty line [خط ِ غربت] سے نیچے رہ رہے ہیں، یعنی وہ تقریباً ماہانہ چھے ہزار روپے سے کم پر گزارا کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مسلمان بھی ہماری یہ ذمہ داری ہے ۔ ہمارے اُوپر ایک بہت بڑی مذہبی ذمہ داری ہے through Quran and Hadiths [قرآن و حدیث کی رُو سے]کہ اس issue [مسئلے] کو ہم tackle کریں [نبٹیں]۔ زکوٰۃ اور عشر کا concept [تصور] یہی ہے۔ ایک وقت آیا کہ کوئی لینے والا نہیں تھا۔ مدینہ منورہ کی poverty [غربت] غائب ہوچکی تھی اور انھوں نے اسلامی مملکت کو consistently [مستقل طور پر] ایمان داری اور شفاف پالیسی کے ساتھ چلایا۔
اسی طرح سینیٹ نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۲ء تک جو سفارشات دی ہیں اور ان میں راقم الحروف اور جناب اسحاق ڈار اور مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے نمایندے یک زبان تھے کہ ملک میں اسلامی نظامِ بنکاری اور مالیات کو فروغ دینا چاہیے اور ربٰو کو اس کی ہرشکل میں ختم کرنا چاہیے۔ ہرسال ہم نے متفقہ طور پر یہ سفارش دی کہ:
سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کہ اسٹیٹ بنک اسلامی بنکاری اور مالیات کی ترویج کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرے تاکہ دستور کی دفعہ ۳۸-الف میں درج معاشی استحصال اور ربٰو کا خاتمہ کیا جاسکے۔
ہماری مشترکہ تحریک کے ذریعے سینیٹ نے درج ذیل مطالبات بھی ہرسال کیے۔ کم از کم جنرل سیلزٹیکس کے بارے میں تو ایک سال حکومت کو مجوزہ اضافے کو واپس لینے پر مجبور کردیا۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۹ء سے پہلے جنرل سیلز ٹیکس ۱۵ فی صد تھا جسے ۱۶ فی صد کیا گیا اور سینیٹ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی(ڈارصاحب اس میں ہمارے ساتھ تھے)۔ پھر ۲۰۱۰ء میں آئی ایم ایف کے اصرار پر اسے بڑھا کر ۱۷ فی صد کیا گیا لیکن ہماری، قومی اسمبلی اور عوام کی مخالفت کے باعث اس اضافے کو واپس لیا گیا۔ ستم ظریفی ہے کہ آج خود جناب اسحاق ڈار کے ہاتھوں وہی ردشدہ اضافہ قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:
قومی اسمبلی میں زیرغور RGST بل کی منظوری کے بعد سیلزٹیکس کم کرکے ۱۵ فی صد کردیا جائے گا۔
سینیٹ نے ہماری مشترکہ کوششوں سے یہ بھی سفارش کی کہ بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس بڑھایا جائے اور اسے ۳۵ فی صد سے بڑھا کر ۴۰ فی صد کیا جائے، مگر اب وزیرخزانہ صاحب نے تمام کارپوریٹ سیکٹر کے ٹیکس کو ۳۵ فی صد سے کم کرکے ۳۴ فی صد کردیا ہے اور وعدہ کیا گیا ہے کہ پانچ سالوں میں اسے برابر کم کرکے ۳۰ فی صد کردیا جائے گا۔ گویا سیلزٹیکس کے ذریعے تمام باشندوں خاص طور پر غریبوں کے لیے، جن پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ پڑتا ہے، زیادہ ٹیکس ادا کرنے اور نتیجے میں افلاس کے بڑھنے اور مہنگائی میں اضافے کا سامان کیا جائے اور امیروں کو ٹیکس پر چھوٹ دی جائے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:
سفارش : کمیٹی نے سینیٹ کو سفارش کی بنکاری سیکٹر پر انکم/کارپوریٹ ٹیکس بڑھا کر ۴۰فی صد کردیا جائے۔
سینیٹ نے ہماری مشترکہ مساعی کے نتیجے میں صرف بنکنگ سیکٹر پر ہی ٹیکس بڑھانے کی بات نہیں کی، ہم نے یہ بھی تجویز دی کہ مالیاتی سیکٹر کو آمادہ کیا جائے کہ اپنے منافع کا کم از کم ۵فی صد تعلیم، صحت اور سپورٹس کے فروغ کے لیے وقف کرے۔
موجودہ بجٹ میں بلاشبہہ کچھ خوش گوار پہلو بھی ہیں۔ VVIP کلچر کو ختم کرنے کے جو اقدام کیے گئے ہیں، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں جو کمی کی گئی ہے، وزارتوں کی تعداد میں جس کمی کی بات کی جارہی ہے، صواب دیدی اختیارات کو جس حد تک ختم یا کم کیا گیا ہے، تعلیم کے لیے جو بھی وسائل دیے گئے ہیں، نوجوانوں کی تربیت اور روزگار کی فراہمی کے باب میں جو بھی پروگرام ہیں، ہم ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے کیسے صرفِ نظر کرسکتے ہیں کہ کئی درجن نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور ان میں سے بیش تر ایسے ہیں جن کی زد عوام پر پڑتی ہے، جن کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور عوام کے لیے مشکلات دوچند ہوجائیں گی، حالانکہ مسلم لیگ نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے تھے وہ اس سے بہت مختلف تھے۔ منشور میں عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ:
۱- تمام آمدنیوں پر منصفانہ ٹیکس لگاکر زیادہ آمدنی حاصل کی جائے گی اور بالواسطہ ٹیکس (indirect tax) پر انحصارکم سے کم کیا جائے گا (ص ۲۰)
۲- ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ جب ٹیکس کا اصلاحاتی پروگرام پوری طرح سے نافذ ہوجائے گا تو کچھ عرصے کے بعد ٹیکس کی شرحیں کم کردی جائیں گی (ص ۲۱)
۳- پُرتعیش اور غیرضروری اشیا کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر بھاری ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ (ص ۲۱)
۴- برآمدات پر ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔
ایک طرف عوام کو جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور withholding tax کی شکل میں مختلف تجارتی اور صنعتی دائروں پر ٹیکس کا سامنا ہے جس سے مہنگائی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کا نفاذ مسلم لیگ کے منشور اور سینیٹ میں ہمارے مشترکہ موقف کی کھلی خلاف ورزی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس چوری کے تباہ کن کاروبار کو بند کرنے اور ان متمول طبقات کے بارے میں جن کے لیے منشور میں کہا گیا ہے کہ سب سے ٹیکس وصول کیا جائے گا، کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق Tax Gap، یعنی جو ٹیکس واجب ہے اور جو ملتا ہے ۵۰ فی صد ہے، یعنی جو ٹیکس جمع ہوا ہے وہ اگر ۲۰۰۰؍ارب روپے ہے تو وہ جو واجب ہے مگر نہیں ملا، یعنی ٹیکس چوری ۱۰۰۰؍ارب روپے کی ہے۔ اس کے برعکس ورلڈبنک کا تخمینہ یہ ہے کہ یہ گیپ ۵۰ فی صد نہیں، ۷۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ۱۳-۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کی روشنی میں جو رقم کسی نئے ٹیکس کے لگائے بغیر صرف اس گیپ کو پُر کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے وہ تقریباً ۱۵۰۰؍ارب روپے ہوگی۔ اسے وصول کرنے کی تو کوئی فکر نہیں لیکن ۶۲؍ارب کے لیے ایک فی صد سیلزٹیکس لگاکر ۱۸کروڑ انسانوں کی کمر توڑنے میں کوئی باک نہیں، اور صرف ۳؍ارب روپے کے لیے تعلیم پر ایک نہیں تین ٹیکس ایک ہی سانس میں لگادیے گئے ہیں۔
بلاشبہہ جو لوگ ٹیکس چوری کر رہے ہیں، ان کی گرفت ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کرنا جو انسانوں کو نجی زندگی کے تحفظ کے حق سے محروم کرے اور بدعنوانیوں کے لیے دروازہ چوپٹ کھول دے بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ نجی زندگی کے تحفظ کے اسلامی آداب کے بھی خلاف ہے۔ اس بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو اختیار دیا جارہا ہے کہ ہروہ شخص جس کے بنک میں ۱۰لاکھ روپے سے زیادہ ہوں، یا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈ پر ایک لاکھ روپے تک کی خریداری کی ہو، ان تک ایف بی آر کو بلاواسطہ رسائی حاصل ہوگی۔ یہ نہایت خطرناک تجویز ہے اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو حقوق کی پامالی ہی نہیں ملکی معیشت کی بربادی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں documentation (تحریری شواہد) میں کمی ہوگی اور cash economy (نقد معیشت) بڑھ جائے گی اور ملک سے سرمایے کی منتقلی کا خطرہ پیدا ہوگا۔ مزید یہ کہ اس سے کرپشن اور بلیک میل کے دروازے کھلیں گے اور ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں ان حالات میں جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کہیں زیادہ معقول ہے۔ وہ یہ ہے کہ جن افراد کے بارے میں قرائنی شہادت موجود ہو، ان کے معاملات کی ایک خصوصی عدالت کے ذریعے تحقیقات کی جاتی ہیں اور معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں مرکزی بنک کے ذریعے کام انجام دیا جاتا ہے۔ براہِ راست بنک کے عملے اور ایف بی آر کے عملے کے درمیان ربط نہیں ہوتا۔ حقیقی مسائل کے حل کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں جو معقول ہوں۔ انصاف کے اندر خود ایسے راستے موجود ہیں، انھیں چھوڑ کر ایسا راستہ اختیار کرنا جس سے ایف بی آر کا اختیار اس خطرناک حد تک بڑھ جائے، ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس کے مشورے پر وزیرخزانہ نے یہ خطرناک تجویز پیش کی ہے۔
نادرا کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں کم از کم ۷۰ لاکھ افراد کو بلاواسطہ ٹیکس دینا چاہیے اس لیے کہ ان کی آمدنی کم سے کم آمدنی کی حد سے زیادہ ہے، اور ان میں سے ۳۵ لاکھ کے بارے میں نادرا کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ان کے اثاثوں، عالمی دوروں، پُرتعیش ہوٹلوں میں رہایش، پاکستان میں ان کی شان دار جایدادوں، کاروں، ٹیلی فون، بجلی اور گیس کے بل، نہ معلوم کیا کیا معلومات موجود ہیں جن کی روشنی میں ان کو ٹیکس کی خطیر رقوم ادا کرنی چاہییں۔ لیکن وہ ٹیکس کے جال سے بالکل باہر ہیں، دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی گرفت کرنے والا نہیں۔ اس وقت انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۹لاکھ کے قریب ہے اور باقی سب کا حال یہ ہے کہ ع
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
بجٹ میں ان کو ٹیکس کے جال میں لانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔ ہاں، عام آدمی پر ٹیکس لگادیا گیا ہے، اس وعدے کے باوجود کہ بالواسطہ نہیں لگایا جائے گا اور بلاواسطہ کے نظام کو فروغ دیا جائے گا۔
انتظامی اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں بھی بڑے دعوے کیے گئے تھے اور مسلم لیگ کی قیادت کا عزم تھا کہ انتظامی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی۔ لیکن اگر بجٹ کا بغورمطالعہ کیا جائے تو آخری صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ VVIP کلچر اور مراعات اور پروٹوکول کے خاتمے کے تمام اقدامات کے باوجود خالص انتظامی اخراجات میں ۹فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وہ ۱۰ فی صد اضافہ شامل نہیں ہے جو مجبور ہوکر بجٹ کے بعد کیا گیا ہے حالانکہ سینیٹ میں متفقہ تجاویز میں بنیادی تنخواہ میں اضافے کا بار بار مطالبہ کیا گیا۔ جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ میں یہ موجود ہے کہ جب خود مسلم لیگ کی بنیادی تنخواہ کے طور پر ۹۰۰۰ کی حد مقرر کیے جانے کی تجویز کو کمیٹی کے اصرار پر واپس لیا گیا، تو اس سے اختلاف کرنے والے واحد معزز رکن جناب اسحاق ڈار تھے۔ ۱۲جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:
سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کم سے کم تنخواہ ۹ہزار روپے تک بڑھا دی جائے، واپس لے لی گئی۔ سینیٹرمحمداسحاق ڈار نے اصل سفارش کے واپس لینے پر اپنا اختلافی نوٹ درج کیا تھا۔
۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ کے لیے کم سے کم تنخواہ کا باب خاص تھا۔ یہ اور بات ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے نہ صرف ۱۰ہزار روپے کم سے کم تنخواہ مقرر کی بلکہ اس کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیا۔ خود مسلم لیگ کے منشور میں کم سے کم تنخواہ کی مد ۱۵ہزار روپے تجویز کی گئی ہے، گو اس پر عمل کا یقین نہیں۔
۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ میں قرضوں سے نجات کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے پالیسی اعلان ہیں مگر ان پر عمل درآمدکے لیے کوئی نقشۂ کار اور ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا۔ محترم وزیرخزانہ کو یاد ہوگا کہ خود انھوں نے سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ جب کسی غیرملکی معزز مہمان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے تین بڑے مسائل کیا ہیں تو اس نے کہا: نفاذ، نفاذ اور نفاذ!
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رُسوائی کی!
بجٹ میں ایک بڑا اہم خلا برآمدات میں اضافے اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے پالیسی پہل کاری اقدامات (initiatives) کی عدم موجودگی ہے۔
بجٹ میں توانائی کے بحران کو بجاطور پر اہمیت دی گئی ہے مگر اس کے حل کے لیے جو اقدام تجویز کیے گئے ہیں، وہ بہت ناکافی ہیں۔ قرض لے کر گردشی قرض اُتارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ گردشی قرضے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہیں گو، اب ان کا حجم غفلت اور مناسب اقدام نہ کرنے کے سبب بہت بڑھ گیا ہے اور ۵۰۲؍ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ۶۰ دن میں اُسے اُتارنے کی کوشش سرآنکھوں پر، لیکن مسئلے کی جڑ بلوں کی عدم ادایگی ہے جس کے ۴۰ سے ۵۰ فی صد کا تعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور ان کے تحت کام کرنے والے اداروں سے ہے۔ جب تک ادایگی کے نظام کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ بار بار سر اُٹھاتا رہے گا۔ پھر مسئلہ توانائی کی رسد بڑھانے ہی تک محدود نہیں۔ توانائی کی مسلسل فراہمی اور اس کی لاگت کو کم کرنے کا ہے جس کا انحصار توانائی کے ذرائع کے درمیان نئی مساوات (equation) پر ہے۔ پن بجلی کُل رسد کا ۷۰ فی صد فراہم کرتی تھی اور یہ بجلی سب سے سستی ہے۔ اب یہ حصہ صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے اور تھرمل بجلی کی لاگت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرکے ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں ایک اہم تجویز یہ تھی کہ توانائی سے متعلق تمام وزارتوں کو مدغم کرکے ایک وزارت بنائی جائے گی۔ توانائی کے باب میں سب سے پہلی تجویز ہی یہ تھی کہ: ’پانی و بجلی‘، اور ’پٹرولیم و قدرتی وسائل‘ کی وزارتوں کو مدغم کر کے ’وزارت براے توانائی و قدرتی وسائل‘ کے نام سے ایک وزارت بنائی جائے گی (ص ۲۸)۔ لیکن جب وزارتیں بنیں تو وہی ڈھاک کے تین پات! دونوں وزارتیں آج بھی الگ الگ ہیں اور بات ایک انرجی پالیسی کی ہورہی ہے۔
منشور میں اور بھی کئی بڑے اہم پہل کاری اقدامات کا وعدہ ہے مگر بجٹ تو ایک تاریخی موقع تھا کم از کم ان اقدامات کی طرف پہلا قدم اُٹھانے کا، لیکن بجٹ اس باب میں خاموش ہے۔ چند تجاویز ریکارڈ کی خاطر پیش خدمت ہیں:
واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے تعلیم اور صحت کے سلسلے میں قومی ایمرجنسی کا اعلان اپنے پہلے بجٹ میں کیا ہے اور اس کے لیے خطیر رقم بھی مختص کی ہے۔
منشور میں ان کے علاوہ بھی کئی پہل کاری اقدامات کا ذکر ہے لیکن وفاقی حکومت کا پہلا بجٹ اس باب میں خاموش ہے حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا، تبدیلی کا پیغام دینے کا۔
بجٹ اور بجٹ تقریر کے معروضی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ میں جو وژن پیش کیا گیا ہے، اس کے چند حصے درست ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس میں نمایاں خامیاں اور خلا ہیں اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پھر جو بھی وژن پیش کیا گیا ہے اس میں اور بجٹ میں خاصا تفاوت ہے۔ بجٹ میں پیش کردہ تجاویز اور قانونی ترامیم وژن سے ہم آہنگ نہیں بلکہ کچھ پہلو تو ایسے ہیں جو کھلے کھلے متصادم ہیں۔ بجٹ بڑی حد تک macro-stabilization model ہی کے فریم ورک میں بنایا گیا ہے جو آئی ایم ایف کا مقبول ماڈل ہے۔ کہیں کہیں growth model سے کچھ مستعار لیا گیا ہے مگر وہ ناکافی بھی ہے اور پوری طرح مربوط بھی نہیں۔ پھر سب سے اہم پہلو فلاح و بہبود اور اخلاقی زاویے کا ہے جو بجٹ کا کمزور ترین پہلو ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ stagflation ہے، یعنی وہ کیفیت ہے جس میں افراطِ زر اور جمود (stagnation) بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس بڑی رکاوٹ کو توڑنے کے لیے جس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے وہ بجٹ میں موجود نہیں۔ بجٹ میں وسائل کو متحرک کرنے کے تمام طریقے استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔سروسز سیکٹر یعنی خدمات کا شعبہ جس کا اس وقت مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں ۵۶ فی صد حصہ ہے اس کا حصہ کُل ٹیکس آمدنی میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے ملک میں بمشکل ۱۵،۱۶ سروسز ہیں جو ٹیکس نیٹ ورک میں آتی ہیں۔ بھارت میں یہ تعداد ۱۷۰ ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ بجٹ میں ان تمام پہلوئوں کے اِدراک کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
زراعت اور خاص طور پر لائیوسٹاک کو جو اہمیت دینی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی ہے۔ غیرضروری اشیا کی درآمد کو روکنے کے بارے میں بھی کوئی مؤثر پالیسی نہیں، حالانکہ تجارتی خسارہ اب ۱۵؍ارب ڈالر سے متجاوز ہے جو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ایک تحقیقی رپورٹ کی روشنی میں اس وقت درآمدات کا صرف ۶۰ فی صد ضروری اشیا پر مشتمل ہے، ۴۰ فی صد غیرضروری اشیا کی نذر ہورہا ہے۔ اس بارے میں مؤثر پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
معاشی ماہرین اور عوام الناس سب کو یہ سوال پریشان کر رہے ہیں کہ:
یہ ہے وہ کسوٹی جس پر بجٹ اور معاشی پالیسیوں کو جانچا اور پرکھا جانا چاہیے۔