لکھنے پڑھنے والوں کو کسی خاص موضوع پر کتابوں اور مضامین کی تلاش میں بالعموم دقت پیش آتی ہے، مثلاً ترجمان میں پروفیسر نجم الدین اربکان پر پروفیسر خورشیداحمد کا مضمون چھپا تھا؟ کب؟ یا صحیفہ میں ڈاکٹر وحید قریشی کے چند مضامین چھپے تھے؟ کن کن شماروں میں؟ یا قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے کا ذکر رسالہ الحق میں آیا تھا؟ کس ماہ و سال کی بات ہے؟___ فوری طور پر ایسے سوالات کے صحیح جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ بسااوقات اُن رسائل کے مدیرانِ کرام بھی فوری جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہاں، اگر متعلقہ رسائل کے اشاریے بن چکے ہوں تو صحیح جواب مل سکتا ہے___ کسی خاص تحریر کو تلاش کرنے کے لیے اشاریوں کی یہ افادیت اور اہمیت مسلّمہ ہے اور اسی لیے علمی دنیا میں اشاریہ، ایک بنیادی ذریعۂ تحقیق (tool) کی حیثیت رکھتا ہے۔
ترجمان کے انھی صفحات میں متعدد رسائل و جرائد کے مطبوعہ اشاریوں پر تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ محمدشاہدحنیف ہرسال عالمی ترجمان القرآن کے ۱۲مہینوں کا موضوع وار اشاریہ تیار کرتے ہیں جو قارئین کو عندالطلب مہیا کیا جاتا ہے۔
موصوف نے حالیہ برسوں میں متعدد رسائل و جرائد کے چھوٹے بڑے اشاریے تیار کیے ہیں، مثلاً: حکمت قرآن(لاہور)، منہاج(لاہور)، ادبیات(لاہور)، میثاق(لاہور)، لولاک (ملتان)، انشاء(کراچی)، اقبالیات (لاہور)، اقبالیات(سری نگر)، اقبال ریویو (حیدرآباد دکن)۔ بعض رسائل کی اشاریہ سازی میں محمد سمیع الرحمن اور محمد زاہد حنیف نے ان کی معاونت کی ہے۔
ہر اشاریے کے آغاز میں متعلقہ رسالے کا مختصر تعارف شامل ہے اور اشاریے سے استفادہ کرنے کا طریقہ بھی واضح کیا گیا ہے۔ الحق اور صحیفہ کے اشاریے نسبتاً ضخیم ہیں۔ اس ضخامت کی ایک وجہ حوالوں کی تکرار بھی ہے۔ مذکورہ کتابوں میں تین طرح کے اشاریے بنائے گئے ہیں: ۱-شمارہ وار ۲-موضوعاتی اور ۳-مصنف وار۔ ہمارے خیال میں اشاریہ مصنف وار اور موضوع وار ہو تو کافی ہے ۔ اگر موضوع وار ہے تو آخر میں اشاریہ مصنفین (+مترجمین+مبصرین) بنادیا جائے۔
جملہ اشاریوں کے مرتب محمد شاہد حنیف داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑا کام انجام دیا ہے۔ ان کے اشاریہ سازی کے اسلوب اور طریقہ کار پر کہیں کہیں اختلاف ہوسکتا ہے (ہمیں بھی ہے) لیکن ان کی محنت بہرصورت قابلِ داد ہے۔ ان اشاریوں کی افادیت لکھنے پڑھنے والوں اور تحقیق کاروں، یونی ورسٹی کے اساتذہ اور تحقیقی مقالہ نگاروں کے لیے ہے۔ اس لیے ہرلائبریری کو کوشش اور اہتمام کرکے یہ سارے اشاریے اپنے ہاں محفوظ رکھنے چاہییں۔ جن اداروں نے یہ اشاریے تیار کرائے ہیں اگر وہ انھیں انٹرنیٹ پر بھی دے دیں تو خلقِ خدا کو فائدہ اور انھیں ثواب ملے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر خاص نمبر، ماضی بعید اور ماضی قریب کی ۳۵مسلم شخصیات کے علمی اور فکری کارناموں پر مشتمل ہے، ہر شخصیت پر ایک مقالہ۔ عالمِ اسلام کی ان مایہ ناز شخصیتوں میں سے، ماسوا امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور علامہ محمد حسین طباطبائی، باقی تمام کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے ہے۔ ان مقالات کی تحریک سہ ماہی التفسیر کے مدیراعلیٰ نے کی تھی۔ بیش تر مقالے ان کے متعلّمین کی قلمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ جو کمی رہ گئی، اسے اَوج صاحب کی فرمایش اور تدبیر سے ان کے حلقۂ علم و دانش کے احباب نے پورا کر دیا۔
مقالات کا مرکزی موضوع اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے مگر اس سلسلے میں سیّد جمال الدین افغانی، سیّد قطب، علی شریعتی اور روح اللہ خمینی پر کوئی مقالہ شامل نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ شاید ’صفحات کی تنگ دامنی‘ ہو، تاہم اُمید ہے جلددوم میں مذکورہ شخصیات پر بھی مضامین لکھوا کر شامل کیے جائیں گے۔
چند شخصیات ایسی ہیں جو نسبتاً غیرمعروف ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ لوازمہ نہیں ملتا، جیسے قاضی بدر الدولیٰ (۱۷۹۲ء-۱۸۶۳ء) جو جنوبی ہند کے ایک معزز اور مشہور خاندان نوائط سے تعلق رکھتے تھے۔ حدیث، سیرت اور فقہ پر عربی فارسی اور اُردو میں ۵۳کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ اسی طرح مولانا عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۷۳ء-۱۹۴۸ء) جو اپنی بلندپایہ کتاب الصحّ والسیر کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ یا صوفی عبدالحمید سواتی (۱۹۱۷ء-۲۰۰۸ء) جنھوں نے معالم العرفان فی دروس القرآن کے نام سے ۲۰جلدوں میں تفسیرقرآن شائع کی۔ وہ اپنی تفسیر میں شاہ ولی اللہ اور عبیداللہ سندھی سے متاثر نظر آتے ہیں۔
بعض مقالات نسبتاً زیادہ محنت سے لکھے گئے ہیں، جیسے ڈاکٹر محمد رفیع الدین پر انجینیرنویداحمد کا مقالہ یا سیدابوالاعلیٰ مودودی پر محمد شکیل صدیقی صاحب کا مقالہ، مگر محمد اسد پر سیّدمحمدکاشف کا مقالہ مختصر اور تشنہ محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہ جیسی نابغۂ روزگارشخصیت پر مضمون بھی بھرپور اور جامع نہیں ہے۔ اس سے ان کے حالات کا تو کچھ اندازہ ہوتا ہے لیکن ان کے علمی کارناموں کا خاطرخواہ تعارف سامنے نہیں آسکا۔
غالباً ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضابطے کے مطابق، انگریزی میں ہرمضمون کا خلاصہ بھی شامل ہے۔بحیثیت مجموعی زیرنظر نمبر ایک بہت عمدہ، اچھی اور کامیاب پیش کش ہے اور مدیراعلیٰ اور مدیرانِ معاون مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کچھ وقفے کے بعد اور مناسب تیاری کے ساتھ رسالے کا شخصیات نمبر دوم (اور اگر ہوسکے تو حصہ سوم بھی) پیش کیا جائے تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
امام حسن البنا شہیدؒ کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کامیاب داعی اور مردم ساز شخصیت تھے، اس لیے آپ نے کتابیں نہیں لکھیں سواے چند یادداشتوں اور رسالوں کے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام البنا کا علمی ورثہ ہزارہا صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مضامین ہیں جو رشیدرضا کے رسالے المنار، محب الدین الخطیب کے مجلے الفتح، مجلہ اخوان المسلمون، النذیر، الاعتصام اور الشہاب نامی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ اس علمی ورثے کو یک جا کرنے، مرتب کرنے اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ جہاں امام البنا کے افکار کو عام کرنے کا ذریعہ ہوگا وہاں اسلامی تحریک کے لیے مفید فکری رہنمائی کا سامان بھی ہوگا۔
افکارِ رمضان رمضان کے موضوع پر امام البنا کے مضامین کا اُردو ترجمہ ہے جنھیں خواطر رمضانیہ کے نام سے مصر میں عربی میں شائع کیا گیا تھا۔ امام البنا کے ان مضامین میں رمضان المبارک کے مختلف پہلوئوں کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ جہاں تزکیۂ نفس کا سامان ہے وہاں قرآن سے حقیقی تعلق اور رمضان کے عملی تقاضوں کے لیے رہنمائی بھی ہے۔ روزہ شکنی کے مرتکب اور ماہِ صیام سے غفلت برتنے والوں کے لیے شفقت بھرا پیغام ہے۔ عصرحاضر کے مسائل اور رمضان اور دیگر متفرق موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ ’فقہ صیام‘ کے تحت روزے کے مختلف مسائل اور ان کی حکمتیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ امام البنا نے اُمت کو پوری دل سوزی سے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ماہِ رمضان کا خیرمقدم رب سے تعلق کو مضبوط کر کے اور اللہ سے اپنے کیے گئے عہدوپیمان کی تجدید سے کرے۔ یہ جہاں حصولِ تقویٰ کا ذریعہ ہوگا وہاں اُمت کے مصائب کے خاتمے اور سربلندی کا سبب بھی بنے گا۔ البدر پبلی کیشنز اس مفید کاوش پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ (عمران ظہورغازی)
Living in Allah's Presence [اللہ کو حاضرو ناظر مانتے ہوئے زندگی گزارنا]، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: اسلامک فائونڈیشن، لسٹر(برطانیہ)، تقسیم کار: Kube پبلشنگ لمیٹڈ۔ فون: ۲۴۹۲۳۰-۱۵۳۰-۰۰۴۴۔ ای-میل : info@kubepublishing.com
اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے رفیق عبدالرشید صدیقی نے اس سے پہلے Lift up Your Hearts! کے نام سے دو جلدوں میں جمعہ کے ۵۲خطبات پیش کیے ہیں۔ وہ تین عشروں سے، پہلے یونی ورسٹی آف لسٹر کی مسجد میں اور وہاں سے ریٹائر ہوکر اب اسلامک فائونڈیشن لسٹر کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ یہ ۲۵خطبات دوسرے دور کا انتخاب ہیں۔ تزکیۂ نفس کی ذیل میں نیت،اخلاص، تقویٰ، یقین، توکل، تواضع، استقامت اور حکمت جیسے موضوعات لیے گئے ہیں۔ کچھ دوسرے موضوعات: صبر، شکر، دعا، خشوع فی الصلوٰۃ، حسنِ خلق، حیا، امربالمعروف نہی عن المنکر۔خطیب محترم نے خطبہ دینے والوں کو کچھ گُر کی باتیں بھی بتائی ہیں اور کتاب کے آخر میں عربی میں خطبۂ ثانی (مع انگریزی ترجمہ ) اور خطبۂ اوّل کی ابتدا عربی میں (مع انگریزی ترجمہ )، جس کے بعد انگریزی خطبہ پڑھا جائے گا، یا خطیب اس کے نکات اپنی زبان میں ادا کرے گا۔
ہرموضوع کے نظری اور عملی پہلوئوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤثرانداز سے بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ان کی افادیت ان اہم تربیتی موضوعات پر مختصر، مؤثر، مستند تحریروں کی ہے، جو جامعات، کالجوں اور اسکولوں کے مجلات، اخبارات کے مذہبی کالموں اور جمعہ ایڈیشنوں میں کام آسکتے ہیں۔ یہ ان تک پہنچیں کیسے؟ ای میل کو کام میں لائیں۔ (مسلم سجاد)
ڈاکٹر امیرفیاض کی یہ تازہ کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کی نو کتب شائع ہوچکی ہیں جو قرآن کے ساتھ محبت اور تعلق استوار کرنے والی ہیں۔ اس میں ۴۰ موضوعات پر اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ گویا یہ ایک گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے قرآن سے شیفتگی، ذوق و شوق اور محبت و تعلق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ غیرملکی مشاہیر کے مضامین اور قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کا دل نواز اور خوب صورت تذکرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اور مغربی تہذیب کا مقابلہ قرآن کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ دور میں روشن خیالی کے نام نہاد علَم برداروں کے لیے فکرانگیز واقعات جمع کر کے قرآن کے ساتھ جوڑنے کے لیے یہ اہم کاوش ہے۔ مولانا حالی، ماہرالقادری اور اقبال کے اشعار جابجا نگینے کی طرح جڑے ہیں اور اثرآفرینی میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ قرآن کے ساتھ وابستہ کرنے اور اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں یہ کتاب بہت معاون ہے۔ قرآن کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے ایک رہنما کتاب۔ (عمران ظہورغازی)
علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ اتنا پُرکشش ہے کہ آج تک اس کی تفہیم کا کام جاری ہے۔ نئے نئے زاویوں سے فکراقبال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان کے شاعرانہ کمالات، شعری خصوصیات اور ان کے کلام کی فنی باریکیوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں کلامِ اقبال کے تراجم ہورہے ہیں۔ ان کی فکری گہرائی اور وسعت پر علمی کانفرنسیںہورہی ہیں۔ اقبال صدی کے موقع پر اور اس کے بعد مختلف جامعات میں اقبال پر متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اذانِ اقبال مصنف کی ۲۹عنوانات پر کراچی میں قائم بزمِ اقبال کے نیازمندوں کے حضور ’اقبال نشستوں‘ میں گفتگوئوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے ہرموضوع پر اپنے موقف کی تائید میں اقبال کی نظم اور نثر سے استشہاد کیا ہے۔ مرتب پروفیسر مقصود پرویز نے لکھاہے کہ پروفیسر خیال آفاقی کو اقبال سے ایسا روحانی تعلق ہے جیسا خود اقبال کو مولانا روم سے تھا۔ (ص۶)
مصنف نے جن ۲۰عنوانات پر گفتگو کی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ’لب پہ آتی ہے دعا‘۔ لفظیاتِ اقبال، اقبال ترانہ، اقبال بت شکن، مشاہدات و مکالماتِ اقبال، آخری انیسواں عنوان ’اقبال کے حضور‘ مصنف کا اقبال کے حضور منظوم خراجِ عقیدت ہے۔ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کے بارے میں مصنف کہتے ہیں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظم صرف بچوں کے لیے ہے، جب کہ ان کے خیال میں یہ نظم ہرآدمی کے لیے دستور کردار کی حیثیت رکھتی ہے(ص۷)۔ ’اقبال‘ کے عنوان سے نہایت پُرمغز، بصیرت افروز اور حقیقت پسندانہ گفتگو ہے۔ کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنی فکر اور شاعری سے اُردو ادب میں ایک ایسا انقلاب پیدا کردیا جس کی نظیر کسی دوسرے ادب میں ملنی مشکل ہے۔ اقبال نے اپنے دور کی شاعری سے قطعی مختلف لب و لہجے میں اس انداز سے بات کی جیسے کوئی صحرا میں اذان دے۔ اقبال کی شاعری اور فکری بلندیوں کو کوئی دوسرا شاعر نہیں پہنچتا۔ آپ روایت پسندوں کی مخالفت کے باوجود اپنی لَے میں نغمہ سرائی کرتے رہے۔ اقبال عمل کے شاعر تھے، انھیں ہر وہ بات ناپسند تھی جس پر عمل نہ کیا جائے۔ (ص۱۷)
مصنف کا اسلوبِ بیان شگفتہ، دل نشین اور مؤثر ہے۔ وہ فکرِاقبال کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور نئی نسل کو اقبال کا پیغامِ عمل عطا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ علامہ اقبال کا فکربلند اور ان کا نورِ بصیرت عام کرنے میں اس کتاب کو کامیابی حاصل ہوگی۔(محمد ظفر حجازی)
عام طور سے احادیث کی تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، خود ہی واضح ہوتی ہیں۔ ۱۷۳صفحے کی اس کتاب میں ایک ترتیب سے اہم موضوعات پر ۱۰۲ احادیث پیش کی گئی ہیں۔ عربی متن ایک کالم میں، سامنے دوسرے کالم میں ترجمہ، پڑھنے میں، سمجھنے میں آسانی، تشریح بہت مختصر، اکثر نصف صفحے کی۔ صفحے سے زیادہ شاید ہی کوئی ہو۔ احادیث ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے کی بھی ہیں۔ سات ابواب میں سے چند: علم نافع، مآل کار، حلال و حرام، فہم دین۔ وجہِ انتخاب اس کا دلیل یا مثال ہونا ہے۔ محمد جلیل خان نے اس سے پہلے قرآنی دلائل و امثال مرتب کی ہے۔ اب صدیقی دلائل و امثال مرتب کررہے ہیں، اور فاروقی، عثمانی، علوی تک کے ارادے ہیں۔ اللہ مکمل کروائے۔ افتخار بلخی کی جواہر رسالت یاد آئی۔ (مسلم سجاد)
کیا کتاب ہے! اشتہار میں کہا گیا: سیکڑوں کتابوں کی درس گاہ، اور سرورق پر لکھا گیا: ’ہزاروں صفحات کا نچوڑ‘ ایسا غلط بھی نہیں۔ مرتب ابوعثمان نے زندگی بھر جو کچھ بھی پڑھا اس میں سے کام کی باتیں نوٹ کرتے رہے۔ اب مرتب کر کے یہ مفید واقعات، معلومات، اقتباسات پیش کردیے ہیں۔ جلددوم کچھ نئے عنوانات کے ساتھ زیرطباعت ہے۔
کتاب کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ احاطہ مشکل ہے، جھلکیاں ہی دکھائی جاسکتی ہیں۔ سب سے پہلے کتاب پڑھنے کی دعا ہے، پھر والدین کی قدر کیجیے کتاب بہترین ساتھی ہے کچھ کرلو نوجوانو! اُٹھتی جوانیاں ہیںصحت مشاہیر کی نظر میں نو صحت مند عادات ارشاداتِ اکابر اقوالِ زریں آگے بڑھیے،ہر عنوان کے تحت اتنے واقعات، اتنے مؤثر انداز سے کہ لخت ِ جگر کو عمل کرنا ہی کرنا ہے۔
یہ کتاب صرف لخت ِ جگر کے لیے نہیں بلکہ ’جگر‘ (بلکہ نورِ چشم کہیں تو چشم) کے لیے بھی ہے۔ خود بھی سیکھیں، اور بچوں کو مناسب رہنمائی دیں۔ اساتذہ کو بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے اور اس پر چلانے کے لیے، اسکول و کالج کے مجلے نکالنے والوں کے لیے لوازمہ ہی لوازمہ ہے۔ اخبارات کے ایڈیشن نکالنے والوں کے لیے بھی۔ غرض جو بھی نئی نسل کا خیرخواہ ہے،اسے کسی ذریعے سے کوئی بات پہنچا سکتا ہے، یہ کتاب اس کے لیے بغیر محنت کے، دوسرے کی برسوں کی محنت کا ثمر پیش کررہی ہے۔ ہرمدیر کے میز کی ناگزیر ضرورت ہے۔(مسلم سجاد)