جولائی ۲۰۱۳

فہرست مضامین

رمضان ___ماہِ جود و سخا

امام حسن البنا شہیدؒ / ترجمہ: محمدظہیرالدین بھٹی | جولائی ۲۰۱۳ | رمضان کریم

Responsive image Responsive image

میں چاہتا ہوں کہ آج آپ کو یہ بتاؤں کہ ماہِ رمضان ماہ جود و سخا ہے، ماہِ کرم و عطا ہے، خرچ کرنے کامہینہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اس موقف کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور اسی نتیجے تک پہنچیں جس تک میں پہنچا ہوں مگر ایک علمی طریق کار سے، ایک سائنٹی فک ریسرچ کے ذریعے ، ایک خالصتاً تحقیقی و علمی زاویۂ نظر سے اور باریک بینی پر مبنی تجزیاتی نقطۂ نظر سے۔

اے عزیز گرامی قدر! آپ رمضان کے دنوں میں کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ خوردونوش سے بچتے ہیں، آپ جسمانی لذات و شہوات کے خلا ف لڑتے ہیں۔ آپ اپنے پروردگار کے حضور روزے، نماز، عبادت اور تلاوت قرآن کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی لذیذ غذا ہے، یہ روح کی من بھاتی لذیذخوراک ہے، پاکیزہ نفس اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس سے فکرونظر میں جلا پیدا ہوتی ہے، اس سے نور بصیرت میں چمک دمک پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ نماز و روزہ اور عبادت و تلاوت کی برکت سے آپ حقائق کو ان کی اصل شکل میں دیکھیں گے اورہرشے کو   اس کے درست مقام پر رکھیں گے، جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔

رمضان کے روزوں کے فوائد و ثمرات سے متاثر ہو کر، آپ اس حقیقت تک پہنچیں گے کہ یہ دنیوی سازو سامان اور یہ فنا پذیر اموال محض ذرائع ہیں، ان کی لذتیں مقصود نہیں اور نہ ان کی بذات خود کوئی قدر و قیمت ہی ہے۔ یہ مال و دولت اور یہ سازو سامان دنیا، یہ مال و متاع جہاں اس وقت اعلیٰ و اشرف ہے جب آپ اسے بھلائی کے کاموں میں خرچ کریں، جب کہ یہی مال و منال گھٹیا، ہیچ اور حقیر و معمولی ہے، جب آپ اسے حقیر کاموں میں ضائع کریں ۔

رمضان خرچ کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر آپ روزے کی اصل روح سے سرشار ہو جائیں اور روزے آپ پر مثبت اثرات ڈالیں تو آپ محسوس کریں گے کہ بہت سے لوگ بھوکے ہیں، ان کے حلق پیاسے ہیں، ان کی آنتیں قل ھو اﷲ پڑھ رہی ہیں، جب کہ آپ میں اتنی استطاعت ہے کہ آپ ان کی بھوک کا ازالہ کر سکتے ہیں، ان کے پیاسے حلق تر کر سکتے ہیں، ان کی بھوک پیاس مٹانے کی سکت آپ میں ہے۔ اب روزہ آپ کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ آپ ان بھوکے پیاسے انسانوں کے لیے مال و متاع دنیا خرچ کریں۔ روزے کی برکات و سعادات کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ آپ خوشی و مسرت بلکہ فخر سے اﷲ کی راہ میں خرچ کریں گے۔

ماہ رمضان جود و سخا اور بذل و عطا اور داد و دہش کا مہینہ ہے۔ آپ جب اس کے روزوں کے تجربات سے گزریں گے تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ آپ کے دل میں ایک نازک جذبہ جاگزیں ہو چکا ہے۔ ایک دقیق ورقیق احساس نے آپ کی ذات کا احاطہ کر لیا ہے۔ ایک نرم و نازک،  رقت آمیز شعور مگر انتہائی طاقت ور سوچ نے آپ کے دل و دماغ اور حواس پر قبضہ کر لیا ہے۔     یہ جذبہ ، یہ احساس، یہ شعور یہ سو چ کیا ہے؟ لوگ اسے نرم دلی، رحمت اور شفقت و ہمدردی کا نام دیتے ہیں۔ اسے آپ خواہ کوئی سا بھی نام دیں، رحمت و شفقت کہیں یا محبت و الفت، مگر آپ    یہ ضرور محسوس کریں گے کہ آپ کی ذات میں کسی ایسے جذبے نے جگہ بنا لی ہے جو آپ کو مجبور کرتا ہے کہ آپ پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کریں۔ آپ محروم لوگوں کو عطا کریں۔ آپ اپنے عطیات سے غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے آنسو پونچھیں۔

معلوم ہوا کہ رمضان بذل و عطا کا مہینہ ہے۔ آسان لفظوں میں دینے دلانے کا مہینہ ہے،خرچ کرنے کا مہینہ ہے۔ روزوں کی عملی تربیت سے اگر آپ کی ذات میں یہ جذبہ پیدا ہو، یہ خیال ابھرے اور یہ سوچ پیدا ہو کہ یہ مال و متاعِ دنیا سب بتانِ و ہم وگمان ہیں۔ انسانوں کو آزمایش پر آمادہ کرنے والی فانی شے ہے۔ لوگ جسے مال و منال کہتے ہیں، یہ دراصل وبال ہے۔ اسی مال کی حرص و آز نے انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ میں یہ جذبہ جنم لے گا کہ جس مال کا آپ کو جانشین بنایا گیا ہے، اسے آپ نے بھوکی پیاسی انسانیت کی خاطر خرچ کرنا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ اس مال میںسے آپ کے لیے صرف وہی ہے جسے آپ نے کھا لینا ہے اور یوں اسے اپنے ذاتی تصرف میں لے آنا ہے، یا اس مال میں سے لباس تیار کروا کر اسے پہن لینا ہے اور پھر اسے پرانا اور بوسیدہ کر دینا ہے، یا صدقہ کر کے اپنے مال کو بقاے دوام دینا ہے۔

قارئین محترم، ذرا اس ارشاد الٰہی کا مطالعہ کیجیے: اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط (الحدید ۵۷:۷) ’’ایمان لاؤ اﷲ اور اس کے رسولؐ پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘۔ آپ بلاشک و شبہہ اﷲ کے راستے میں، نیکیوں اور بھلائیوں کے کاموں میں ہنستے مسکراتے، بطیب خاطر اپنا مال و دولت خرچ کریں گے۔ آپ کو اس کار خیر تک کس نے پہنچایا، صحیح شرعی روزے نے…!

اس ساری تمہید ِطولانی کے بعد، اب آپ میں یہ صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ آپ درج ذیل حدیث نبویؐ کے بھید کو پا سکیں اور اس میں مضمر راز کی تہہ تک پہنچ سکیں۔

امام بخاریؒ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے ، فرمایا: ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپؐ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے جب حضرت جبرائیل ؑ آپ سے ملتے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑ آپؐ سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے تھے، اور آپؐ سے مل کر قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ حضوؐر اکرم خیر و بھلائی کی سخاوت کرنے میں تند و تیر آندھی سے بھی زیادہ سخی تھے‘‘۔ (بخاری)

کیا آپ نے غور کیا:رسولِؐ انور کی ذات گرامی روحانی درجات میں کس قدر بلند و بالا تھی۔ پھر اس پر حضرت جبریل ؑ سے ملاقات کی روحانیت۔پھر تلاوت قرآن کی روحانیت۔ماہِ رمضان کے روزوں کی روحانیت۔ ان تمام روحانیتوں نے یک جا ہو کر یہ کیا کہ مادیت کا غلبہ کمزور پڑ گیا اور فتنے کے اثرات غائب ہو گئے۔ چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام مال و متاع دنیا کی سخاوت اس طرح کرتے تھے، جیسے تندوتیز ہوا ہو کہ وہ ہر چیز پر سے گزرتی ہے، ہر شے کو سرفراز کرتی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ خالص عبادت، عبادت گزاروں کے نفوس پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس مالی بحران کے دور میں، مسلمانوں کو اپنا مال خرچ کرنے کے لیے کہنا، ہمارے قارئین محترم کو کچھ عجیب سا لگے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ پر اعتراض کریں کہ جب لوگ معیشت کی تنگی میں مبتلا ہیں اور مالی بحران نے ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے، تو ایسی حالت میں انھیں انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب دینا غیر موزوں ہے۔ اس کا فائدہ کیا؟

میں آپ سے کہوں گا: عزیز محترم، ذرا رُک جایئے:

آپ بنکوں کی عمارات دیکھیے، عوام کی ان بنکوں میں آمدورفت اور بھیڑ بھاڑ پر نظر ڈالیے۔ آپ بدکاری و عیاشی کے اڈوں کو جو شاہراہ عماد الدین پرواقع ہیں،دیکھیے ، اس سڑک پر جوے خانوں پر نگاہ ڈالیے، آپ سمعان کی دکانوں کو ملاحظہ کیجیے۔ آپ شکورہل وغیرہ کی مارکیٹوں اور بازاروں میں خریداروں کے ہجوم کو دیکھیے۔ آپ بڑی بڑی آرام دہ گاڑیوں اور کاروں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ آپ بلند و بالا کوٹھیوں اور بنگلوں سے کیسے صرف نظر کر سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے دنیا کی زندگی کی چمک دمک ہے، دنیا کا پھول خوب کھلا ہوا ہے۔ دنیوی امارت اور  شان و شوکت کے مظاہر کے اثرات آپ کو ہمارے سرمایے پر اور ہمارے نوجوانوں پر نظر آئیں گے۔ آپ ذرا سی دیر کے لیے ہی، یہ سب کچھ دیکھیے اور پھر بتایئے کہ غربت کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں، نہ کوئی بحران ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم لوگ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے میں کنجوس و بخیل واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے نفوس میں بخل ہی بخل ہے۔ ہم لوگ اپنے اموال ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں، جو اﷲ کو پسند نہیں۔ ہم اعلیٰ و برتر اُمور کے طلب گار نہیں ، ہم معمولی و حقیر اورگھٹیا قسم کے کاموں میں الجھتے ہیں، معمولی باتوں کی طرف لپکتے ہیں، چھوٹے درجے کے کاموں میں ہمارا دل لگتا ہے۔ ہم ہر ردی اور خراب چیز کی طرف لپکنے والے ہیں،ہم دنیا کی ظاہری چکاچوند پر ریجھنے والے ہیں، ہم انھی سے لطف اندوز ہونا زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔

اگر مسلمانوں میں ’خیر‘ کی محبت رچی بسی ہوتی، مقاصدِ عالیہ کی طلب و جستجو ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوتی اور وہ اس سلسلے میں قرارواقعی جدوجہد کرتے، تو آپ دیکھتے کہ ہر مسلمان اس بات کی استطاعت رکھتا ہے کہ وہ میانہ روی سے کام لے اور اپنی آمدنی میں سے غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کی مدد کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ کر دے۔ وہ تمباکو نوشی اور سگار پینے پر جو خرچ کرتا ہے،    جس رقم سے گانوں کی کیسٹ خریدتا ہے، وہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا۔ وہ رقم جو وہ قہوہ خانے میں رات گزارنے میں خرچ کرتا ہے، یا وہ رقم جو وہ شراب نوشی کی دعوت کرکے محض ریا کاری اور شہرت کے لیے اڑا دیتا ہے، یا وہ رقم جو وہ مہنگی نکٹائی خریدنے میں ضائع کردیتا ہے یا دستی رومال کی خریداری پر ، پھر اپنے مہنگے مشروبات پر، عطر کی شیشی پر اور دیگر فضولیات اور غیر ضروری اشیا کے خریدنے پر اڑا دیتا ہے۔ کاش! وہ ان تمام اُمور میں میانہ روی سے کام لیتا اور پھر اس سے جو زائد رقم بچتی___ اور یہ بہت ہوتی___  اسے مسلمان خیر کے منصوبوں اور اسلام کی خدمت میں صرف کرتے تو کتنا اچھا ہوتا، کتنی اُمیدیں پوری ہوتیں اور کتنے ہی فلاحی کام پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتے!

مسلمان کو یہ سب باتیں ماہ جود و سخا کے موقع پر یاد رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے اُمور میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لے گا تاکہ وہ شرافت، عزت اور خیر کے راستے میں خرچ کرے، تو اس کے دشمن کی قوت کمزور پڑجائے گی۔ وہ دشمن جو مسلمانوں کے مال و دولت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مسلمانوں کے اموال پر   سرمایہ کاری کر کے خوب مال کماتا ہے اور پھر اسے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں خرچ کرتا ہے۔ دشمن مسلمانوں سے حاصل شدہ سرمایے کو اپنے علاقے کی آبادکاری اور ترقی میں لگاتا ہے۔

کاش! مسلمان اس نیک جذبے کو بروے کار لاتے۔ کاش! انھیں معلوم ہوتا کہ ہمارے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ کاش! انھیں احساس ہوتا کہ انھیں ترقی کرنا ہے، انھیں آگے بڑھنا ہے۔ اگر یہ جذبہ واحساس ہوتا، تو ہم ’مانولی‘شراب سے بے پروا ہوتے، ’ماتوسیان‘ سگریٹ کے پیکٹ سے بے نیاز ہوتے اور ’البون مارشے‘ کی زیب و زینت اور ڈیکوریشن کے محتاج نہ ہوتے۔

آج مسلمانوں کا معاملہ عجیب ہے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی معمولی چیزوں میں اڑا دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اعلی مقاصد اور اغراض کے لیے معمولی رقم بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جب انھیں خرچ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ اقتصادی بحران کا بہانہ کرتے ہیں اور کساد بازاری کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ معاشی بحران سے بڑھ کر خطرناک چیز یہ ہے کہ مال و دولت کو بے جا اڑایا جائے اور مال و دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہو۔

کاش! لہو ولعب میں گلچھڑے اڑانے والے، ذرا دیر کے لیے چشم تصور سے ہی سہی ان کسانوں اور مزدوروں کا خیال کرتے جو سخت تنگی و ترشی میں رہ کر روزی روٹی کماتے ہیں، انھیں ناکافی غذا، بے آرامی اور تھکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ محرومی و بدبختی ان کا مقدر ہے۔ جو لوگ صرف ایک رات میں ہزاروں کی رقم اڑا دیتے ہیں، کاش کہ انھیں معلوم ہوتا کہ وہ جو خرچ کر رہے ہیں یہ انھی کے ہم وطن اور ہم مذہب محنت کش بھائیوں کی خون پسینے کی کمائی ہے، اور انسانیت و وطن کے رشتے میں منسلک ان غریب بھائیوں نے یہ رقم کمانے میں کئی دن صرف کیے ہیں۔

اے مال دارو! اے سرمایہ دارو! اے اصحاب ثروت! آپ لوگوں سے اس مال کے بارے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ پوچھے گا: تم نے یہ مال کہاں سے کمائے؟ تم نے یہ مال کن کاموں میں صرف کیے؟___ خواہ تمھیں یہ سوال پسند ہو یا نا پسند، بہر حال یہ تم سے پوچھا ضرور جائے گا۔  ابھی سے اس سوال کا جواب تیار کر لو!

بہر حال یہ ماہ رمضان ہے___ سخاوت کا مہینہ، راہ خدا میں اپنے مال و دولت کو خرچ کرنے کا مہینہ! ہمارے سامنے بہت سے منصوبے ہیں۔یہ ہمیں خرچ کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ تو کیا ماہِ رمضان کے روحانی موسم میں، اس پاکیزہ فضا میں، اس کیف انگیز ماحول میں ہم اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی تربیت و تجربہ کا موقع دیں گے؟

ھٰٓـاَنْتُمْ ھٰٓـؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج فَمِنْکُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ ج وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ ط وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ ج وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْo (محمد۴۷:۳۸)

دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پرتم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں،حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اﷲ تو غنی ہے،تم ہی اس کے محتاج ہو۔اگر تم منہ موڑوگے تو     اﷲ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گااور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

(افکارِ رمضان، البدر پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور، ص ۱۱۶-۱۲۵)