جولائی ۲۰۱۳

فہرست مضامین

آٹو رکشا کے ذریعے دعوتِ دین ___ ایک دعوتی تجربہ

| جولائی ۲۰۱۳ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

سلام سنٹر بنگلور، بھارت اس لحاظ سے معروف ادارہ ہے کہ دعوتِ دین کے لیے مختلف طبقوں میں حکمت کے ساتھ تعارف و تقسیم قرآن اور تعارف سیرتِ رسولؐ کے لیے منفرد انداز میں کام کررہا ہے۔ حال ہی میں آٹورکشا کے ذریعے دعوتِ دین کا تجربہ کیا گیا۔ اس کی رپورٹ بہ شکریہ دعوت، دہلی (اگست ۲۰۱۲ء) پیش ہے۔ (ادارہ)

گذشتہ دنوں سلام سنٹر کی جانب سے بنگلور شہر میں آٹورکشا کے ذریعے دعوت کا کام  ایک نئے انداز میں شروع کیاگیا۔ اس کے تحت آٹورکشا ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے ایک اسٹینڈ لگایا گیا ہے جس میں تین خانے ہیں۔ ان میںفولڈرز کے علاوہ ایک مشہور کتاب کنڑا اور تمل زبان میں رکھی گئی ہے: ’اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ‘۔ اس پراجیکٹ کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے آٹورکشا ڈرائیوروں کے ایک گروپ سے چیئرمین سلام سنٹر سیدحامد محسن نے کہا کہ دعوتِ دین کا کام ایک عظیم سنتِ رسولؐ ہے۔ انبیاے کرام ؑ خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچایا کرتے تھے۔ اب دعوتِ دین کا کام اُمت مسلمہ کو کرنا ہے۔ اسکالر، علما، قائدین، بزنس میں اور طلبہ، یعنی اُمت کے ہرفرد پر غیرمسلموں تک دین کی دعوت پہنچانا فرض ہے۔ اس کے لیے خدا کا آخری پیغام قرآنِ مجید اور سیرتِ رسولؐ ان غیرمسلمین تک پہنچانے کی آج سخت ضرورت ہے۔ یہ وہ عظیم کام ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا۔ اب وہی کام آپ لوگ کرنے جارہے ہیں۔

اس تقریر کا پس منظر یہ تھا کہ بدلے ہوئے حالات میں دین کی دعوت لوگوں تک کیسے پہنچائی جائے؟ سلام سنٹر بنگلور نے اس سے قبل اخبارات میں اشتہار دے کر، ہورڈنگز لگا کر، قرآنِ مجید اور اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے غیرمسلمین کے لیے راہ ہموار کی۔ جس سے کئی غیرمسلم قرآنِ مجید پڑھنے لگے اور اسلام سے قریب ہوئے۔ دہلی اور بنگلور بک فیسٹیول میں حصہ لے کر ہزاروں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام قرآنِ مجید بندگانِ خدا تک پہنچایا گیا۔ اس کے بعد ریاستی     ہائی کورٹ اور دیگر علاقوں کے سول کورٹ کے وکیلوں اور ججوں کو ہزاروں کی تعداد میں قرآنِ مجید کے نسخے پہنچائے گئے۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بنگلور، میڈیکل اسٹوڈنٹس، طلبہ و طالبات اور مختلف کالجوں میں پہنچ کر قرآنِ مجید، دینی کتابیں اور ڈی وی ڈی دی گئیں۔ اسی طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ تک بالخصوص افسرانِ بالا میں قرآنِ مجید پہنچانے کا عظیم کام انجام دیا گیا۔ اسی طرح برادرانِ وطن کی تقریبات میں کئی اہم دانش ور غیرمسلم افسران کو بھی قرآن مجید پہنچائے گئے، الحمدللہ!

ان تمام کوششوں کے بعد اب آٹو ڈرائیوروں کے ذریعے مسافروں تک دعوتِ دین پہنچانے کا نیا منصوبہ سلام سنٹر بنگلور نے شروع کیا ہے۔ اس کے لیے ۵۰آٹو ڈرائیوروں کو منتخب کرکے انھیں اس بات کی تربیت دی گئی کہ سب سے پہلے نمازوں کی پابندی کریں، لوگوں سے بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ عجزوانکسار کے ساتھ ساتھ صبر کا دامن کسی بھی حالت میں نہ چھوڑیں۔ چاہے کیسے بھی حالات درپیش آئیں، اللہ سے مدد مانگتے رہیں۔ سوشل سروس، یعنی مسافروں کا سامان خود اُٹھائیں وغیرہ۔ نیز انھیں غیرمسلموں کے تاثرات کی وڈیو دکھائی گئی جو قرآنِ مجید اور سیرتِ رسولؐ پر کتاب حاصل کرنے کے بعد لی گئی تھی۔

سلام سنٹر بنگلورنے ان ۵۰ آٹوز میں ڈرائیور کی نشست کے عقب میں جو اسٹینڈ بنایا ہے، انگریزی اور کنڑا زبان میں خوب صورت، رنگین اور دیدہ زیب فولڈر توحید، اسلام اور حضور اکرمؐ کا تعارف، خواتین کے حقوق، حجاب، شدت پسندی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں، جہاد، اسلام اور دہشت گردی اور آخرت جیسے عنوانوں پر رکھے گئے ہیں اور ان باکسوں پر لکھا گیا ہے کہ ’’آپ اپنا تحفہ مفت حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔ ایک اور خوب صورت باکس میں یہ کتابچے غیرمسلم مسافر مفت حاصل کرسکتے ہیں، اور اگر کوئی مسافر ترجمۂ قرآن کا طلب گار ہے تو وہ ڈیٹافارم پُر کرکے حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے پتے پر آٹو رکشا ڈرائیور خود لے جاکر قرآن پہنچا دیتے ہیں۔ یہ عظیم سنت ِ رسولؐ    ادا کرتے ہوئے انھیں بہت ہی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ الحمدللہ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد  اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ غیرمسلموں میں قرآن پڑھنے کی خواہش کا بڑے پیمانے پر اظہار ہورہا ہے۔ خود ان آٹو رکشا ڈرائیوروں کے پاس ایسی پچاسوں کہانیاں ہیں جن میں حق کے پیاسے لوگوں نے ان سے قرآن طلب کیا اور قرآن پڑھ کر اپنی روح کی پیاس بجھائی۔ اس کام کو انجام دیتے ہوئے خود آٹوڈرائیور بھی اپنی زندگی میں تبدیلی اور اپنی کمائی میں برکت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آٹو ڈرائیوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیرمسلم قرآنِ مجید کا حددرجہ احترام کرتے ہیں۔ ۱۵دن کے اندر اندر ۱۰۰غیر مسلموں تک قرآنِ مجید کے ۱۰۰ نسخے ان آٹوڈرائیوروں نے پہنچائے ہیں۔ چند ایک مثالیں یہاں درج کی جارہی ہیں۔

سب سے پہلے ہم ڈی جے ہلی کے نثاراحمد آٹو ڈرائیور کا ذکر کرنا پسند کریں گے، جس نے سب سے پہلے سلام سنٹر کے اس کام کو کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ پھر ان کے تمام دوستوں نے دعوتِ دین کے کام کو کرنے کی ٹھانی۔ نثاراحمد کو ایک بہترین آٹو ڈرائیور کا ایوارڈ بنگلور سٹی پولیس کمشنر کے ہاتھوں  اس سے قبل حاصل ہوچکا ہے۔ ایک اور آٹو ڈرائیور قادر پاشا کہتے ہیں کہ اس کام سے میری روزمرہ کی زندگی میں کافی فرق واقع ہوا ہے۔ مسافروں سے زیادہ رقم لینا میرا معمول تھا لیکن اب غیرمسلموں تک قرآن پہنچانے کا کام کرتے ہوئے زیادہ رقم لینے میں عار محسوس کرتا ہوں۔ حافظ محمد صادق بھی آٹو رکشا ڈرائیور ہیں۔ ایک دفعہ ایک ہندو پجاری نے ان کے آٹو میں سفر کیا۔ دورانِ سفر آٹو میں رکھے ہوئے پمفلٹ پڑھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور ڈرائیور سے کہا کہ آج اچانک میری کار خراب ہونے کے باعث میں آٹو میں سفر کر رہا تھا کہ اسلام کے پیغام کو پڑھنے کا موقع ملا جس کا میں بہت ہی متلاشی تھا۔ پھر اس نے کنڑا ترجمۂ قرآن کا نسخہ حاصل کرلیا۔ قادر پاشا کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ مسافر نے قرآن طلب کیا تو دوسرے دن انھوں نے خوشی خوشی اس شخص کے گھر جاکر قرآن کا نسخہ پہنچایا۔ اس نے ایک ہزار روپے بخوشی دینا چاہے،  اس پر پاشا نے کہا: جناب! میں اپنے خدا سے اپنے اس کام کا اجر طلب کرلوں گا۔ میری تو آپ سے بس یہ مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ اس قرآن کو پڑھیں، سمجھیں اور اس کے پیغام کو اپنی فیملی اور  اپنے دوستوں تک پہنچائیں۔

ایک اور آٹو ڈرائیور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جب میں سنا کرتا تھا کہ سلام سنٹر قرآن غیرمسلموں کو پہنچا رہا ہے تو میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ غیرمسلم قرآنِ مجید کا احترام نہیں کریں گے اور اس کی بے حُرمتی کریں گے۔ لیکن جب سے میں خود قرآنِ مجید کو غیرمسلموں تک پہنچانے لگا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیرمسلم ہم سے زیادہ قرآنِ مجید کا ادب و احترام کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کو حاصل کرتے وقت ان کی حالت یہ رہتی ہے کہ سرجھکائے ہوئے قرآنِ مجید کو پلکوں سے لگا لیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ قرآنِ مجید کو فوراً پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور ساتھ ہی ہماری بڑی تکریم کرتے ہیں (واضح رہے کہ سلام سنٹر قرآن عربی متن کے بغیر صرف ترجمۂ قرآن سات مختلف زبانوں میں غیرمسلموں تک تحفتاً پہنچا رہا ہے)۔

ایک اور آٹو ڈرائیور عبدالسبحان کہتے ہیں کہ اکثر آٹو رکشا میں بیک سیٹ پر یا تو فلمی ہیرو اور ہیروئین کی تصاویر ہوتی ہیں یا پھر ٹیپ ریکارڈر ہوتے ہیں جن میں فلمی گانے بجتے ہیں۔ لیکن اب سلام سنٹر کے طفیل ہم ان کے بجاے قرآن اور دینی لٹریچر رکھتے ہیں۔

ایک دفعہ سرکل انسپکٹر کی کار نے نثاراحمد ڈرائیور کے آٹو کا پیچھا کیا اور ان کا آٹو رُکوا دیا۔ ڈرائیور نثار احمد کئی خدشات میں گھراہوا تھا۔ اس نے پولیس انسپکٹر کو دیکھتے ہی اپنے بے قصور ہونے کی دہائی دی تو پولیس انسپکٹر نے کہا کہ تمھارے آٹو رکشا میں ’تپوکلپنے گڑو‘ نامی کتاب دیکھ کر میں نے اس کو حاصل کرنے کے لیے تمھارے آٹو کو رُکوایا ہے۔ اس کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں تھا۔ پھر اس پولیس انسپکٹر نے اس سے کتاب حاصل کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس اچھے کام کو کرنے پر مبارک باد بھی پیش کی۔ یہ منظر دیکھ کر نثاراحمد کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور دلی مسرت ہوئی۔

یہ اور اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیرمسلم آج پوری دل چسپی اور دل جمعی کے ساتھ خدا کے آخری پیغام قرآنِ مجید کو پڑھنا اور اس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اُمت مسلمہ ان تک اپنے رب کا پیغام پہنچائے۔ واضح رہے کہ سلام سنٹر بنگلور کا یہ کام وقتی طور پر نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کو مستقل بنیادوں پر کام کرنے کا عزم اور منصوبہ ہے۔ یہ رنگین فولڈرز ہر مہینے تبدیل کردیے جاتے ہیں تاکہ مسافروں کی دل چسپی برقرار رہے۔