جولائی ۲۰۱۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۱۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

نیکی کے عمل کے دوران ریاکاری

سوال: کیا انسان کو ایسے عمل پر اجروثواب ملتا ہے جو ریاکاری اور دکھاوے کی نیت سے شروع کیا گیا مگر دورانِ عمل نیت تبدیل ہوکر خالص اللہ کے لیے ہوگئی؟ مثال کے   طور پر میں نے تلاوتِ قرآن ختم کی اور میرے اندر ریاکاری کا جذبہ پیدا ہوگیا۔    اگر میں اس سوچ کو دُور کرنے کی کوشش کروں اور اللہ کی عظمت کا خیال اپنے دل میں پیدا کروں، تو کیا مجھے اس تلاوت کا اجر ملے گا یا ریاکاری کی وجہ سے وہ ضائع ہوجائے گا، اگرچہ ریاکاری کا یہ جذبہ عمل کرنے کے بعد ہی پیدا ہوا؟

جواب:  عبادت میں ریاکاری اور دکھلاوے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ عبادت یا نیکی کا کوئی کام کرنے کے پیچھے بنیادی طور پر لوگوں کو دکھلاوے کا جذبہ ہی ہو، جیسے کوئی نمود و نمایش کے لیے نماز پڑھتا ہو تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ اس سے وہ نیکی اور عبادت رائیگاں چلی جاتی ہے۔

دوسرے یہ کہ پہلے خالص اللہ کے لیے عبادت شروع کی ہو مگر بعد میں عبادت کرنے کے دوران میں دکھلاوے کا جذبہ شامل ہوجائے، تو اس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی شکل یہ کہ اس نیکی اور عبادت کے دو الگ الگ حصے ہوں۔ اس صورت میں یہ پہلا حصہ درست ہوگا اور دوسرا باطل۔ جیسے ایک شخص کچھ رقم صدقہ و خیرات کرنا چاہتا تھا۔ کچھ رقم اس نے خالص جذبے سے صدقہ کی۔ پھر باقی رقم میں اس کے اندر ریاکاری کا خیال پیدا ہوا توپہلی رقم کا صدقہ درست اور ان شاء اللہ مقبول ہوگا، جب کہ دوسری کا باطل۔ اس لیے کہ اخلاص میں ریا کی آمیزش ہوگئی۔

دوسری شکل یہ کہ عبادت کے دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہوں کہ ان کو الگ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس صورت میں بھی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ریاکاری کے جذبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے اور اسے ٹکنے نہ دے، اسے ناپسند کرے، تو ایسی صورت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے نفسانی وسوسوں اور خیالات کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان پر عمل نہ کرنے لگیں یا اُنھیں اپنانے نہ لگیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس دکھلاوے کے جذبے کو قبول کرلے اور اس کا مقابلہ نہ کرے تو اس صورت میں وہ پوری عبادت باطل اور رائیگاں ہوکر رہ جائے گی۔ جیسے ایک آدمی نے نماز کا آغاز اللہ کے لیے سچی نیت سے کیا مگر دوسری رکعت میں اس کے دل میں ریاکاری کا جذبہ پیدا ہوگیا، اس سے اس کی وہ پوری نماز ضائع ہوجائے گی۔

ریاکاری اور دکھلاوے کی تیسری صورت یہ ہے کہ وہ عبادت ختم کرنے کے بعد پیدا ہو۔ اس کا عبادت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، عبادت درست رہتی ہے۔ یہ بات بھی ریاکاری اور دکھلاوے میں نہیں آتی کہ کسی کی عبادت کا لوگوں کو علم ہو تو اسے خوشی محسوس ہو، اس لیے کہ یہ چیز عبادت ادا کرنے کے بعد پیدا ہوگی۔اس طرح یہ بات بھی ریاکاری کے زمرے میں نہیں آتی کہ آدمی کو نیکی اور عبادت کا کوئی کام کرنے سے خوشی ہو، اس لیے کہ یہ بات تو اس کے ایمان کی نشانی ہے۔  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس کو نیکی کرکے خوشی ہو اور گناہ کرکے رنج ہو، تو ایسا شخص مومن ہے۔ اس بارے میں آپؐ سے پوچھا گیا: اگر کسی کی عبادت اور نیکی کے بارے میں لوگوں کو    علم ہوجائے تو اسے خوشی ہو، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: یہ مومن کو ملنے والی نقد بشارت ہے۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

روحانی امراض کا علاج

س: دل کو روحانی امراض، جیسے حسد،بُغض و کینہ، تکبر، ریاکاری وغیرہ سے پاک کرنے کے لیے مجاہدہ کرنا زیادہ بہتر ہے یا نماز، روزے اور اس طرح کی دیگر نیکیوں والے ظاہری نفلی اعمال ادا کرنے میں لگ جانا، جب کہ دل کے روحانی امراض اسی طرح دل کو گھیرے رہیں؟

ج:  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں: ظاہری اعمال اس وقت تک درست اور قابلِ قبول نہ ہوں گے جب تک دل کا عمل درمیان میں نہ آئے، اس لیے کہ دل بادشاہ ہے اور اعضا اس کے سپاہ اور لشکر۔ اگر بادشاہ بگڑا ہوا ہو تو سپاہ بھی بگڑے ہوں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’آگاہ رہو، جسم میں ایک ٹکڑا ہے۔ اگر یہ تندرست ہو تو پورا بدن تندرست ہوگا اور اگر یہ بگڑا ہوا ہو تو پورا بدن بگڑا ہوگا، اور یہ ٹکڑا دل ہے‘‘۔ دل کے اعمال بدن اور اس کے اعضا کے اعمال پر اثرانداز ہوکر رہتے ہیں، جس کو باطن کا عمل کہا جاتا ہے، بعض اوقات وہ زیادہ ضروری ہوتا ہے جیسے حسد اور تکبر کا ترک کرنا۔ یہ باطن کا عمل نفل روزوں وغیرہ سے زیادہ ضروری ہے۔ بعض اوقات ظاہری عمل زیادہ مؤثر ہوتا ہے، جیسے قیام اللیل اور تہجد نماز کے لیے اُٹھنا۔ گویا باطن اور ظاہر کے اعمال ایک دوسرے کے لیے مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور خشوع و خضوع اور انکساری پیدا کرتی ہے۔

امام ابن تیمیہ کی بات سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ باطن کی اصلاح اور ظاہر کی اصلاح کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ انسان اگر ظاہر کی عبادات ادا کرتا ہے، اور ان سے اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے، تو یقینا یہ اس کے باطن پر اثرانداز ہوکر رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ملاحظہ ہو، فرمایا: کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتائوں جس سے دل کا کینہ اور حسد جاتا رہے اور وہ ہے ہر ماہ تین دن کے روزے۔ (نسائی)

دل کے امراض کا ایک اچھا علاج یہ بھی ہے کہ بندہ ان آیات و احادیث پر غوروفکر کرتا رہے جن میں یہ امراض رکھنے والے شخص کے لیے وعیدیں آئی ہیں۔ جیسے ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘ (مسلم)۔حدیث میں جہنم کی زبانی کہا گیا ہے کہ ’’متکبر لوگ میرا ایندھن بنیں گے‘‘۔ نیز ارشاد نبویؐ ہے: ’’قیامت کے دن دنیا میں تکبر کرنے والے لوگ انسانوں کی شکل میں چیونٹیاں بنا کر اُٹھائے جائیں گے‘‘۔ نیز فرمایا: ’’حسد اور بُغض و کینہ انسان کی دین داری کو مونڈ دیتا ہے‘‘۔

دل کے امراض کے بارے میں یہ اور اس طرح کی جو دیگر وعیدیں آئی ہیں، ان پر اگر کوئی غوروفکر کرے گا تو وہ لازماً اپنے دل کو ان سے پاک کرنے کی کوشش کرے گا، مجاہدہ کرے گا اور اس سلسلے میں ظاہری عبادات سے بھی مدد لے گا اور اللہ سے دُعا کرتا رہے گا کہ وہ اس کے دل کو حسد اور بُغض سے پاک کردے (ولا تجعل فی قلوبنا غلًّا للذین آمنوا) تو وہ روحانی و باطنی امراض پر بالآخر قابو پالے گا۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

قضا روزوں کی ادایگی: چند فقہی پہلو

س: ۱-رمضان کے کچھ روزے کسی شرعی عذر کی بنا پر قضا ہوگئے۔ کیا شوال کے چھے مسنون روزے رکھنے سے پہلے رمضان کے قضا روزوں کی ادایگی کی جائے یا قضا روزوں کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے جائیں؟

اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ شوال میں قضا روزے ادا کر رہا ہوں اور ماہِ شوال کے مسنون روزوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟کچھ علما کا یہ خیال ہے کہ چونکہ عبادات میں نیت بہت ضروری ہے، اس لیے فرض عبادت کو نفل عبادت سے ملایا نہیں جاسکتا، مثلاً دو رکعت فرض نماز میں فرض ہی کی نیت کی جائے گی، نفل کی نہیں۔ اسی طرح اگر فرض حج ادا کر رہے ہیں تو وہ فرض حج ہے، نفلی حج نہیں ہوسکتا۔  کیا روزے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے؟

۲-اگر کسی شرعی عذر کے باعث کسی خاتون کے ذمے کئی ماہ کے روزے ہوں اور ان کی ادایگی کے لیے کوشاں بھی ہو، لیکن وہ شوال اور ذوالحجہ کے نفلی روزوںکا ثواب بھی لینا چاہے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟رمضان کے قضا روزے اگر تسلسل کے ساتھ رکھنا مشکل ہو، اور کوئی خاتون یہ معمول بنالے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر اپنے ذمے فرض روزوں کو ادا کرے گی، تو کیا ان دو دنوں کی نسبت سے اس کو سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا؟

ج:  آپ کے سوالات کے مختصر جوابات حسب ذیل ہیں:

۱-شرعی عذر کی بنا پر ماہِ رمضان کے جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان کی فوری قضا لازم نہیں، اگرچہ مستحسن یہی ہے کہ جلد رکھ کر اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرلی جائے، کیونکہ انسان کو زندگی کے اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں۔ پھر یہ کہ نیکیوں کے حصول میں پہل کرنے اور عجلت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے (فاستبقوا الخیرات)۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ روزے فوری نہ رکھے جاسکیں تو تاخیر سے گناہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے (جیسے شوال کے چھے روزے وغیرہ) بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور میں وہ شعبان ہی میں رکھ پاتی تھی، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ آپ سال کے دوران میں دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔ حافظ ابن حجر اس روایت کی شرح میں کہتے ہیں: اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر یا اس کے بغیر بھی آیندہ رمضان تک روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے (فتح الباری، ج۴، ص ۲۳۹، حدیث ۱۹۵۰)۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۱۲ء)

۲- اصل تو یہ ہے کہ عبادات کو الگ الگ ادا کیا جائے، لیکن اگر ایک عمل سے دو طرح کی عبادات کی ادایگی کی بیک وقت نیت کی جائے، تو اس بارے میں فقہا کی راے مختلف ہے۔ حنفی فقہا کے ہاں ایک ہی عمل میں فرض اور نفل عبادت کو جمع نہیں کیا جاسکتا، البتہ دو نفل عبادات کی نیت ایک عمل میں کی جاسکتی ہے، جیسے اگر کسی نے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد اور ساتھ ہی فجر کی سنت کی نیت سے پڑھا ہے تو دونوں ادا ہوجائیں گی۔ شافعی فقہا کے نزدیک فرض نماز اور تحیۃ المسجد ایک ہی نیت سے ایک ہی عمل میں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عبادت مقصود بالذات نہ ہو تو اسے دوسری عبادت کے ضمن میں ادا کیا اور دونوں کو ایک ہی عمل میں جمع کیا جاسکتا ہے،  جیسے مذکورہ مثال میں تحیۃ المسجد مقصود بالذات نہیں، بلکہ اصل مقصد اس وقت اور مقام کو نماز کے عمل سے معمور کرنا ہے۔ اس لیے وہ دوسری مقصود بالذات عبادت کے ضمن میں ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں عبادتیں اور اعمال مقصود بالذات قسم کے ہوں تو انھیں ایک ہی عمل میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ (الموسوعۃ الفقیھۃ، کویت ، ج۱۲، ص ۲۴، ج۴۲، ص ۹۱، بحوالہ متعدد کتب حنفیہ و شافعیہ)

ہمارے نزدیک، اگر ان اقوال کو سامنے رکھا جائے تو پیر اور جمعرات، نیز شوال کے  چھے روزوں کی بھی یہی صورت بنتی ہے کہ وہ (بقول شافعیہ) مقصود بالذات کی قبیل سے نہیں بلکہ مقصد ان ایام اور اوقات کو روزے سے آباد کرنا ہے۔ اس لیے اگر قضا روزے انھی دنوں میں رکھے جائیں تو اُمید ہے کہ قضا روزوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر پیر اور جمعرات اور شوال کے روزوں کی فضیلت بھی ان شاء اللہ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی شانِ کریمی و فیاضی سے یہی اُمید رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندے کے ساتھ اس کی نیت و ارادے، تڑپ اور لگن کے مطابق برتائو کرتا ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

گذشتہ برسوں کی زکوٰۃ اور دورانِ سفر قضا نماز کی ادایگی

س: ۱- ایک خاتون کچھ زیورات کی گذشتہ تین برس کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہیں۔ کیا وہ تینوں سالوں کی زکوٰۃ کا حساب موجودہ مارکیٹ کے نرخ کے مطابق کریں گی یا گذشتہ دوسالوں کے لیے اُس وقت کے نرخ معلوم کر کے زکوٰۃ ادا کریں گی؟

۲-دورانِ سفر کسی شخص کی نماز قضا ہوگئی۔ طویل سفر کے باعث نماز قصر تھی۔ منزل پر پہنچ جانے کے بعد وہ اس نماز کی قضا قصر پڑھے گا یا پوری نماز پڑھی جائے گی؟

ج:  ۱- سونے چاندی اور ان کے زیورات کی جن کی برسوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاسکی اور  اب ادا کرنے کا ارادہ ہے، تو اُس وقت کا نرخ معلوم کر کے اس کے لحاظ سے ادایگی کی جائے، موجودہ نرخ کے مطابق نہیں۔ اس لیے کہ ان برسوں کی زکوٰۃ تب واجب ہوئی تھی، نہ کہ آج۔

۲- دورانِ سفر جو نماز رہ گئی، منزل پر پہنچ جانے کے بعد اس کی قضا بھی قصر ہی ہوگی، پوری نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ جس طرح اگر اپنے شہر میں مقیم ہونے کے دوران میں جو نماز قضا ہوجائے، اگر دورانِ سفر اس کی قضا پڑھی جائے تو وہ پوری پڑھنی ہوتی ہے۔(ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)