اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اوروہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی اُن لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے [لوگ] اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۷۹-۲۸۳)
فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام، مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں، اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کریں۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پاکی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کررہے تھے، اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے لوگ لے کر کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم وستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہر حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رونما ہوتے ہیں:
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلندرکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۰۳-۳۰۷)
[خیال رہے کہ] دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔(رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۸)۔(انتخاب وترتیب: امجد عباسی)
آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کی سرگرمیاں کچھ عقیدوں کو محض نہاں خانۂ دماغ کی زینت بنادینے تک محدود نہ تھیں بلکہ اِن عقیدوں کو ایک ریاست کی بنیاد بنادکھانے کا مطالبہ بھی آپؐ سے تھا۔ آپؐ کا منصب نجی زندگی کے لیے چنداخلاقی نصیحتیں کرنے تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاملہ ایک نظامِ سیاست وتمدن کو برپا کرنے کا درپیش تھا۔
مطلوب محض ایک دین کو مان لینا اور اس پر کاربند ہو جانا نہیں ہے، بلکہ تقاضا یہاں اَقِیْمُوْا الدِّیْنَکا ہے۔ مہم درپیش صرف خدا کی کتاب کو پڑھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی نہیں ہے، بلکہ ’اقامت ِکتاب‘ کی ہے۔ سوال حدود کو مان لینے اور ان کی پابندی اختیار کرلینے تک کا نہیں، بلکہ ’اقامت ِ حدود‘ کا ہے۔ رُسل و انبیا ؑکا فریضہ لوگوں کو تعلیمِ قسط دینے ہی کا نہیں، بلکہ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (لوگ کاربند ہوجائیں نظامِ قسط پر) کی حالت پیدا کردینا ہے۔
پس رسولوں اور انبیا ؑ کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی قوت پیدا کر کے معاشرے کے نظام کی مکمل تبدیلی کے لیے ایک انقلابی تحریک چلائیں۔ خیالات کو خیالات سے، نظریات کو نظریات سے، مقاصد کو مقاصد سے ٹکرا دیں۔ حق اور باطل کے درمیان سوسائٹی نے جو سمجھوتے قائم کرائے ہوں اور غلط اور صحیح کے اجزا میں جو جوڑ لگا دیے ہوں، ان کو توڑ کر اضداد میں کھلا کھلا تصادم پیدا کردیں۔ خبیث اور طیّب چھٹ کر الگ ہوجائیں، کھوٹے اور کھرے میں علیحدگی ہوجائے، فساد اور صلاح میں منافات عملاً پیدا ہوجائے، یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ (اللہ حق کو باطل سے ٹکرا دیتا ہے) کا سماں سامنے ہو، اور نتیجہ یہ نکلے کہ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْض، یعنی وہی اصول و نظام زمین پر قائم رہ جائے جو انسانیت کے لیے موجب ِ فلاح ہو۔(’نظامِ اسلامی اور اطاعت رسولؐ ،، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۱۳۶)
پاکستان میں [جس انتشار اور صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔
وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔
اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔
ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔
[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....
۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔
۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....
اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہرایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔
۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....
۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔
ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔
یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)
دوسرے تمام معاملات سے بڑھ کر جو چیز ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ ہماری قوم کی دینی حالت ہے۔ اس حالت کا جب ہم جائزہ لے کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دینی حیثیت سے ہم مسلسل انحطاط کی طرف جارہے ہیں اور پاکستان بننے کے بعد یہ رفتارِانحطاط کم ہونے کے بجاے کچھ اور زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے نزدیک خطرہ نمبر۱ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ___ بہت بڑا حصہ ___ احکامِ الٰہی سے بُعد رکھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ایسے نازک وقت میں بھی لوگ اُس سے باز نہیں آتے، جب کہ ہم اپنے آپ کو چاروں طرف سے خطرات میں گھِرا ہوا پاتے ہیں اور خدا سے نصرت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں فرنگیت اور فسق و فجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے اور آج وہ کچھ ہو رہا ہے جو انگریز کے زمانے میں بھی نہ ہوتا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی اسی طرح بے بس ہے جس طرح انگریز کے زمانے میں تھا، بلکہ اِس کے اُصول اور قوانین اور احکام اُس وقت سے کچھ زیادہ پامال کیے جارہے ہیں، جرأت اور جسارت کے ساتھ کیے جارہے ہیں، کھلم کھلا کیے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر کیے جارہے ہیں۔ ان کے خلاف چلنے کی علانیہ تبلیغ ہورہی ہے اور عوام الناس کو ان کے خلاف چلانے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔
اِس کے سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو دو ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری ملازمتوں سے، فوج اور سول دونوں قسم کی ملازمتوں سے،اُن لوگوں کو چُن چُن کر نکالا جارہا ہے جن کے اندر ایمان اور دین داری کی کچھ بھی رمق پائی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کی مشینری روز بروز اسلامی رُجحانات رکھنے والے عناصر سے خالی ہوتی جارہی ہے اور اُس پر کمیونسٹ اور دوسرے مخالف ِ دین عناصر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ فرنگیت کی اِس تبلیغ اور اس کو رواج دینے کی اِس منظم کوشش کا نشانہ خاص طور پر ہماری عورتیں بنائی جارہی ہیں۔ زور لگایا جارہا ہے کہ اسلامی تہذیب و اخلاق کے اُس آخری حصار کو بھی توڑدیا جائے جہاں ہر طرف سے پسپا ہوکر اُس نے پناہ لی تھی۔ طرح طرح سے تدبیریں کی جارہی ہیں کہ اس گہوارے کو بھی گندا کر کے رکھ دیا جائے جہاں ایک مسلمان بچہ سب سے پہلے آنکھ کھولتا ہے اور جہاں اسے مذہب، اخلاق، آدمیت اور اجتماعی برتائو کا پہلا سبق ملتا ہے۔
یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا اور جن کے اظہار و اعلان ہی کے طفیل اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکار ہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکیں، اسلام کو پھر سے زندہ اور تازہ کرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدّن اور اپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھاسکیں۔ مگر جب خدا نے وہ خطہ دے دیا تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں اور اُس تہذیب و اخلاق و تمدّن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے جس کی ِنیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔
اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبر۱ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ صریح طور پر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ اپنے رب کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔
اس میں خطرے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل، زبان، جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دین ہے جس نے اِن عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایا ہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا، اور وہ جتنی کمزور ہوں گی اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔
اس میں خطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اور عقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پھیلا دینا جس قدر آسان ہے ، ان کے دلوں سے اسلامی عقائد کو نکال پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب اگر صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان عقیدتاً فرض کو فرض، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ہی سمجھتے رہیں مگر ان میں روز بروز ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے جو فرض کو فرض جانتے ہوئے ادا نہ کریں، حکم کو حکم مانتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کریں، اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس میں خفیہ اور علانیہ مبتلا ہوں، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی آبادی کو روزبروز زیادہ منافق بنارہے ہیں، اس کے کیرکٹر کی بنیادیں ڈھیلی کررہے ہیں، اس کے اندر سے فرض شناسی اور پابندیِ قانون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، اور اس کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف عمل کرنے کی خُوگر ہوجائے۔ کیا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ تپ دق کی بیماری جو ہماری مذہبی زندگی میں پھیلائی جارہی ہے، صرف مذہب کے دائرے تک ہی محدود رہ جائے گی؟ ہماری پوری قومی عمارت کو کھوکھلا کرکے نہ رکھ دے گی؟ جو مسلمان خدا اور رسولؐ کے ساتھ مخلص نہ رہے اُس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ قوم، وطن ، ریاست اورکسی دوسری چیز کے لیے مخلص ثابت ہوسکے گا؟
اس میں خطرے کا یہ پہلو بھی ہے کہ غیراسلامی اخلاق و اطوار کو رواج دینے کی کوششیں جتنی زیادہ بڑھ رہی ہیں، ملک کے دین پسند عناصر میں اُن کے مقابلے اور مزاحمت کا جذبہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھتا جارہا ہے، اور اس چیز نے ملک کو صریح طور پر دو کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلامی کیمپ اور دوسرا غیراسلامی کیمپ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وقت ،جب کہ ہماری نئی مملکت ابھی ابھی قائم ہوئی ہے آیا اس بات کا متقاضی تھا کہ ہم اس کی تعمیروترقی میں مل جل کر اپنی ساری قومی طاقت صرف کردیتے، یا اس بات کا کہ ہم دو کیمپوں میں بٹ کر اپنی طاقتیں آپس کی کش مکش میں صَرف کرتے؟ کچھ سوچیے کہ یہ کش مکش ہمیں کدھر لے جارہی ہے اور آخر کہاں پہنچا کر چھوڑے گی؟
ملک کے تمام طبقے کیرکٹر کے بودے پن اور بے ضمیری میں مبتلا ہیں۔ اخلاقی خرابیاں ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہیں۔ تمام اخلاقی حدود توڑ کر رکھ دی گئی ہیں اور عام طور پر لوگوں کے دلوں سے یہ احساس مٹتا جارہا ہے کہ اخلاق بھی کوئی چیز ہے جس کے تقاضوں کا کچھ لحاظ آدمی کو کرنا چاہیے۔ عوام ہوں یا تعلیم یافتہ حضرات، سرکاری افسر اور اہل کار ہوں یا سیاسی لیڈر اور پارٹیوں کے کارکن، اخبارنویس ہوں یا اہلِ قلم، تاجر ہوں یا اہلِ حرفہ، زمین دار ہوں یا کسان، جس طبقے کو دیکھیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھول چکا ہے اور کسی ایسی حد سے واقف نہیں رہا ہے جس پر وہ اپنی اغراض و خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہوئے رُک جائے۔ ہرشخص اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہر بدتر سے بدتر ذریعہ اختیار کرنے پر تُلا ہواہے۔ حرام اور حلال کی تمیز اُٹھ چکی ہے۔ گناہ اور ثواب کا احساس مٹ گیا ہے۔ بُرائی اور بھلائی کے فرق سے نگاہیں بند کرلی گئی ہیں۔ لوگوں کے ضمیر نے ان کے ذاتی مفاد کے آگے سپرڈال دی ہے۔ فرائض کو لوگ بھول چکے ہیں اور حقوق سب کو یاد ہیں۔ جھوٹ اور فریب اور چال بازی کام نکالنے کے مقبول ترین ہتھیار بن گئے ہیں۔ رشوت اور خیانت اور حرام خوری کے دوسرے ذرائع شیرمادر کی طرح حلال ہوگئے ہیں۔ مال والوں کے مال ضمیروں اور عصمتوں اور شرافتوں کے خریدنے میں صَرف ہورہے ہیں اور بیچنے والے دھڑلّے سے اخلاق کے وہ سارے جوہر بیچ رہے ہیں جو اُن کی نگاہ میں روپے سے کم قیمت رکھتے ہیں۔
مَیں اِس کو اِس ملک کے لیے خطرۂ عظیم سمجھتا ہوں۔ کیرکٹر ہی وہ اصل طاقت ہے جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے اور ترقی کرسکتی ہے۔ اگر اس طاقت سے ہم محروم ہو جائیں، اگر ہمارے اخلاق کی جان نکل جائے اور ہم بالکل حدود سے ناآشنا ہوکر رہ جائیں، تو ترقی کرنا تو درکنار ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، ششم، ص ۶۱-۶۶)
جہاں تک قربانی کے سنت اور مشروع ہونے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ ابتدا سے اُمت میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔
سب سے بڑا ثبوت اس کے سنت اور مشروع ہونے کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک مسلمانوں کی ہرنسل کے بعد دوسری نسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ دوچار یا دس پانچ آدمیوں نے نہیں بلکہ ہر پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنے سے پہلی پشت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے اس طریقے کو اخذ کیا ہے اور اپنے سے بعد والی پشت کے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں تک اسے پہنچایا ہے۔ اگر تاریخِ اسلام کے کسی مرحلے پر کسی نے اس کو ایجاد کر کے دین میں شامل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ تمام مسلمان بالاتفاق اس کو قبول کرلیتے اور کہیں کوئی بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرتا؟ اور کس طرح یہ بات تاریخ میں چھپی رہ سکتی تھی کہ اس طریقے کو کب کس نے کہاں ایجاد کیا؟ آخر یہ اُمت ساری کی ساری منافقوں پر ہی تو مشتمل نہیں رہی ہے کہ حدیثوں پر حدیثیں قربانی کی مشروعیت پر گھڑ دی جائیں اور ایک نیا طریقہ ایجاد کرکے رسولِؐ خدا کی طرف منسوب کردیا جائے اور پوری اُمت آنکھیں بند کر کے اسے قبول کربیٹھے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہماری پچھلی نسلیں ایسی ہی منافق تھیں تو معاملہ قربانی تک کب محدود رہتا ہے۔ پھر تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بلکہ خود رسالت ِ محمدیہ اور قرآن تک سب ہی کچھ مشکوک و مشتبہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ جس تواتر کے ساتھ پچھلی نسلوں سے ہم کو قربانی پہنچی ہے اُسی تواتر کے ساتھ انھی نسلوں سے یہ سب چیزیں بھی پہنچی ہیں۔ اگر ان کا متواتر عمل اس معاملے میں مشکوک ہے تو آخر دوسرا کون ایسا معاملہ رہ جاتا ہے جس میں اسے شک سے بالاتر ٹھیرایا جاسکے۔
افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگ نہ خدا کا خوف رکھتے ہیں نہ خلق کی شرم۔ علم اور سمجھ بوجھ کے بغیر جو شخص جس دینی مسئلے پر چاہتا ہے بے تکلف تیشہ چلا دیتا ہے۔ پھر اسے کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس ضرب سے صرف اسی مسئلے کی جڑ کٹتی ہے یا ساتھ ہی ساتھ دین کی جڑ بھی کٹ جاتی ہے۔
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے ، اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِ فکرسے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ [ترکی] کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں___ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (تفہیمات، دوم، ص ۲۵۹-۲۶۲)
میں آپ کو اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں!
عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی فکر کی، اِس کو پڑھا، سمجھا، اُس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اُس تربیت کا فائدہ اُٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) ، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
دوسری یہ کہ مسلمان اُس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآنِ مجید نازل کر کے ان کو عطا کی ہے:
لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۵) ، تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اُس ہدایت پر جو اُس نے تمھیں دی ہے۔
دنیا میں اللہ جل شانہ ٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگرکوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے ، اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں، مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے، مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کے لیے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کے لیے، اُس کے اخلاق کے لیے اور درحقیقت اُس کی اصل انسانیت کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں صحیح طور پر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اِس کے دیے ہوئے رزق پر بھی شکر اداکرے اور اُس کی دی ہوئی اِس نعمت ہدایت کے لیے شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اُس کو دی گئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے قرآن ہمیں دیا، بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اُٹھائیں۔
قرآنِ مجید آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح سے ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے گھر کی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیا ہو؟ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے؟ آپ کا قانون کیا ہو؟ آپ کی معاشرتی زندگی کا نظام کیسا ہو؟ کن طریقوں سے آپ اپنی روزی حاصل کریں؟ کن راہوں میں آپ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں نہ کریں؟ آپ کا تعلق اپنے خدا کے ساتھ کیسا ہو؟ آپ کا تعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیا ہو؟ آپ کا تعلق خدا کے بندوں کے ساتھ کیسا ہو؟ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ، حتیٰ کہ جمادات اور حیوانات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان سارے معاملات کے لیے قرآنِ مجید آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اُس کو اصل سرچشمۂ ہدایت مانے، رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اُن احکامات و ہدایات اور اُن اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور اُن کے خلاف جو چیز بھی ہو، اُس کو رد کردے خواہ وہ کہیں سے آرہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اِس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اِس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اُس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے، تو اِس نے واقعی اِس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارک باد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اُس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔
رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اُس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اِسی چیز کی مشق کراتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہرحال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمھارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اُتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اُس کی طرف اِس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اُس سے رُکنے کی، اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔
اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی ۱ ۱ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔
آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ [قے]کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی ۱۱ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اِس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اُس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔(تفہیمات، چہارم، ص ۱۶۶-۱۷۰)
حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چونکہ ہرطرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں، اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا....
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْــلًا ط وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔
اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس کی شرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے: مَنْ مَلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ اَنْ یَّمُوْتَ یَھُودِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا، ’’جوشخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو، جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتاہو اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے‘‘۔ مَنْ لَّمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَۃٌ ظَاہِرَۃٌ اَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ اَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآئَ یَھُوْدِیًّا وَّاِنْ شَآئَ نَصْرَانِیًّا،’’جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے،اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر‘‘۔
اور اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی جب کہا کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسولؐ و خلیفۂ رسولؐ کی تشریح سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجیے اور نہ چاہے تو ٹال دیجیے بلکہ یہ ایسا فرض ہے کہ ہراس مسلمان کو جو کعبے تک جانے آنے کا خر چ رکھتا ہو اور ہاتھ پائوں سے معذور نہ ہو، عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہیے، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو اور خواہ اس کے اُوپر بال بچوں کی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی کیسی ہی ذمہ داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمربھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں اگر مسلمانوں کا درد اُٹھتا ہے تو اُٹھا کرے، اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہرحال ان کے دل میں نہیں ہے....
لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ(الحج ۲۲:۲۸)’’تاکہ لوگ یہاں آکر دیکھیں کہ اس حج میں ان کے لیے کیسے فائدے ہیں‘‘۔ یعنی یہ سفر کرکے اور اس جگہ جمع ہوکر وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں کہ یہ انھی کے نفع کے لیے ہے اور اس میں جو فائدے پوشیدہ ہیں ان کا اندازہ کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ آدمی یہ کام کرکے خود دیکھ لے۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انھوں نے حج نہ کیا تھا، انھیں اس معاملے میں تردد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے، مگر جب انھوں نے خود حج کر کے ان بے حدوحساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں تو بے تامل پکار اُٹھے کہ یقینا حج سب سے افضل ہے۔
دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسموں کے سفروں سے واقف ہیں: ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے، دوسرا جو سیروتفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے۔ لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں ہے مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ اور سب سفروں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت نہ ہو، اس کا خوف نہ ہو، اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔ پس جو شخص اپنے گھربار سے ایک طویل مدت کے لیے علیحدگی، اپنے عزیزوں سے جدائی، اپنے کاروبار کا نقصان، اپنے مال کا خرچ، اور سفر کی تکلیفیں گوارا کر کے حج کو نکلتا ہے، اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبت ِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی، اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں اُٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور اپنی راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کرسکتا ہے۔
پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفر کے لیے تیار ہوتے ہیں تو اس کی طبیعت کا حال کچھ اور ہی ہوتا ہے، جس دل میں خدا کی محبت کا شوق بھڑک اُٹھا ہو اور جس کو ادھر کی لَو لگ گئی ہو اس میں پھر نیک ہی نیک خیال آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتا ہے۔ کسی کا حق اس پر آتا ہو تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے۔ بُرائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہوسکے کرے۔ بدکلامی و بیہودگی ، بے حیائی، بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود اس کی اپنی طبیعت اندر سے رُکتی ہے کیونکہ وہ خدا کے راستے میں جا رہا ہے۔ حرمِ الٰہی کا مسافر اور پھر بُرے کام کرتا ہوا جائے، ایسی شرم کی بات کسی سے کیسے ہو؟ اس کا تو یہ سفر پورے کا پورا عبادت ہے۔ اس عبادت کی حالت میں ظلم اور فسق کا کیا کام؟ پس دوسرے تمام سفروں کے برعکس یہ ایسا سفر ہے جو ہردم آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے ، اور یوں سمجھو کہ یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازماً ہراس مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے....
اس میں وقت کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، آرام و آسایش کی قربانی ہے، بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے، بہت سی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی قربانی ہے.... اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے۔ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیزگاری و تقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق و عشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنھوں نے اللہ کی بندگی و اطاعت میں اپنا سب کچھ قربان کیا، دنیا بھر سے لڑے، مصیبتیں اُٹھائیں، جلاوطن ہوئے، ظلم پر ظلم سہے، مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کر کے چھوڑا اور ہر اس باطل قوت کا سرنیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سواکسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔ ان آیاتِ بینات اور ان آثارِ متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم و ہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزدین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑدھوپ، کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے، اسے اگر آپ نماز اور روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہراُس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو، حج لازم کردیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہرزمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزرچکے ہوں۔ (حقیقت حج سے ماخوذ)
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔
دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھرجو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔
اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّہ ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)
حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے۔ آپؐ نے تراویح میں ہمارے ساتھ قیام نہ کیا، یہاں تک کہ صرف سات دن رہ گئے۔ ۲۴رمضان کی رات کو حضوؐر نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی۔ جب چھے راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب پانچ راتیں رہ گئیں تو حضوؐرنے پھر قیام فرمایا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کاش! آپؐ اس سے زیادہ قیام فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا : آدمی جس وقت امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔ جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہ کیا۔ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپؐ نے اپنے گھروالوں کو جمع کیا اور اپنی عورتوں کو اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر ہمیں فلاح کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہوا (یعنی سحری کھانے سے رہ جانے کا خوف ہوا)۔ پھر بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اس سے پہلے ایک روایت حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھی۔ اس طویل روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے ۲۴ دن ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں دو مختلف رمضان کا ذکر کرتی ہیں۔ حضرت ابوذرؓ جس رمضان کا ذکر کر رہے ہیں وہ بعد کا واقعہ ہے۔ اس روایت میں حضرت ابوذرؓ نے حضوؐر سے درخواست کی کہ کاش! آپؐ زیادہ قیام فرماتے جس پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے جب امام سلام پھیرے، تو اس شخص کے لیے رات بھر کا قیام لکھا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت اپنے بندوں پر ایسی ہے کہ رات کی نماز جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں، یعنی فرض ادا کرتے ہیں تو اس کا اجر رات بھر کے قیام کے برابر لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے کرم سے جتنا چاہے عطا فرما دے۔ اس کا اصول ہے کہ سزا دیتا ہے تو صرف جرم کے مطابق، اور انعام دیتا ہے تو اپنی رحمت کے مطابق، یعنی آدمی کی خدمت سے کئی گنا زیادہ۔ اس لیے حضوؐر نے فرمایا کہ آدھی رات تک ہم نے تمھیں نماز پڑھائی، یہی کافی ہے، اجر تو اللہ ساری رات کے قیام کا دے گا۔ پھر حضرت ابوذر غفاریؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آں حضوؐر نے اپنے گھر والوں، بیویوں، بچوں اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور تراویح کی نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ ہم فلاح سے رہ جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ فلاح کیا ہے تو حضرت ابوذرؓ نے جواب دیا: اس سے مراد سحری کا کھانا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ راوی جس نے حضرت ابوذرؓ سے سوال کیا کہ فلاح کیا ہے کوئی دوسرا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے بتایا کہ قیام اتنا طویل ہوا کہ خدشہ ہوگیا کہ آج سحری کا کھانا مشکل ہی سے کھایا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثبوت بھی ملا کہ یہ پہلے رمضان کی طرح نہیں کہ جس میں آں حضوؐر نے تراویح کا انتظام کیا تھا، تو لوگ آپ کی آواز سُن کر جمع ہوگئے تھے اور اوائل رمضان میں تراویح پڑھی تھی، بلکہ اس بعد کے رمضان میں آپؐ نے اور لوگوں کو بھی جمع کیا اور گھر کے بال بچوں کو بھی جمع کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے اس بات کا ثبوت بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کا جو انتظام کیا تھا وہ خلافِ سنت نہ تھا۔ حضور اکرمؐ نے نہ صرف خود نماز پڑھی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ دیگر لوگوں کو جمع بھی کیا۔
حضور اکرمؐ نے باقی دن جو تراویح نہیں پڑھائی تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تراویح فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ حضوؐر نے لوگوں کو جمع بھی کیا ہے اور نہیں بھی۔ لوگوں کو ازخود جمع ہوجانے سے روکا بھی نہیں، تراویح پڑھائی بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس طرح آں حضوؐر نے اپنے عمل سے یہ بتا دیا کہ فرض، واجب، سنت اور نفل کیا ہیں۔ تراویح نفل ہے جس پر آں حضورؐنے خود عمل کیا ہے مگر اس کو لازم نہیں کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ خلیفہ دوم نے اپنے دوسرے نصف دورِ خلافت میں نمازِتراویح کو مساجد میں باجماعت ادایگی کی شکل میں اختیار فرمایا جو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے۔ چونکہ آں حضوؐر نے اپنے ساتھ لوگوں کے جمع ہونے کو ناپسند نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے موقع پر لوگوں کو قیام کے لیے جمع بھی کیا، تو ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ نے جو انتظام قیامِ رمضان کے سلسلے میں کیا وہ خلافِ سنت نہیں ہے۔
حضرت اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورئہ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو ۱۲ رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انھوں نے نماز میں تخفیف کی ہے (ایضاً)۔حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیامِ لیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تاکہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر (صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے۔ (ایضاً)
نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ لیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجاے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کا دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تاکہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد پر کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔(افاداتِ مودودی، درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ، مرتبین: میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان،ص ۳۱۵-۳۲۰)
اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اُس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ اِن صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اِس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میںلے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگیِ حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیںکہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہرچیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو اُن کے اِس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اِس نے قرآن کی ایک آیت۱؎ کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اور اسلام کی
۱- ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (النور ۲۴:۵۵)
کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لامحالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنھوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق وفجور کی ان تمام آلایشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنھیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اِس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبیعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت وسیاست میں خوب ترقی کی جائے؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی وجہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد وضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ایمان اور عملِ صالح اور دین حق اور عبادتِ الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں؟
یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتاہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے، وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح وصاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمان داری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑسکتا ہے جن میں آیت ِ استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حلانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انھوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے،قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔
قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق وسباق سے پتا چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بولا گیا ہے:
اس کے ایک معنی ہیں:’’ خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘۔ اس معنی میں پوری اولادِ آدم زمین میں خلیفہ ہے۔
دوسرے معنی ہیں:’’ خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امرتکوینی ) کے تحت اختیاراتِ خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میںصرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافروفاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔
تیسرے معنی ہیں: ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’نیابت‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی ’ جانشینی‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت ِعرب میں معلوم ومعروف ہیں۔
اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت ِاستخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں۔ اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جارہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چورا ہے پر لے پہنچنا اور امریکا سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو،ا س کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، الانبیاء حاشیہ ۹۹)
اِس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجودتھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت ِ خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت ِخوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدایش کی زمین ہی میں نہیں، کرئہ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سید نا علی کرم اللہ وجہہٗ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمرؓ کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت وقلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ توا للہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائیدو نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اِس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ… اللہ اس وعدے کو پوار کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیّم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے، اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور نوبت یہ آجائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہوگی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈآئے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں، بلکہ اللہ کی تائید ونصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے۔
دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت ِاستخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔(تفہیم القرآن، سوم، ص ۴۱۷-۴۲۰)
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ انَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (التحریم ۶۶:۶-۷) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوںگے، جس پر نہایت تندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوںگے، جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم بھی انھیںد یا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ایسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے۔
واقعۂ تحریم اور ازواجِ مطہراتؓ کے واقعات بیان کرنے کے بعد اب تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرشخص کو اپنی ذات ہی کی نہیں بلکہ اپنے گھروالوںکی بھی فکر کرنی چاہیے۔ آگے چل کر جو بات فرمائی گئی ہے اُس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کوبیان کرنے سے مقصود ازواجِ مطہراتؓ کو لوگوں کی نگاہ سے گرانا نہیں ہے، بلکہ ان واقعات کے بیان سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وجہ سے معافی نہیںپاسکتا کہ اس کی نسبت کسی بڑے آدمی کے ساتھ ہے۔گویا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑھ کر محبوب ہوتا ہے، اس کی اولاد بھی ہو، اس کی بیوی بھی یا ماں بہن بھی ہو، صرف اس وجہ سے معاف نہیں کردی جائے گی کہ اس کا رشتہ نبی کے ساتھ تھا۔ میزانِ آخرت میں اس کے اپنے اعمال ہی اس کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلے کرنے والے ہوں گے اور اس کے اعمال ہی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اس کے مستقبل کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ اس کا رشتہ کس کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں صاف صاف فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کا یہ کام ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فکر کریں بلکہ وہ اپنے گھروالوں کی بھی فکر کریں، نیز اپنی اولاد،بیویوں اور بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کی بھی فکر کریں کہ کہیں وہ آگ کے مستحق نہ ہوجائیں۔ اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو خدا کے غضب سے بچانے کی کوشش کریں۔
یہ جو فرمایا کہ اس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، یہ بات سورئہ بقرہ میں بھی کہی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے پتھروں سے مراد بت لیے ہیں لیکن بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر پتھروں سے مراد بت نہیں ہوسکتے۔
سورئہ بقرہ کے اندر جو سلسلۂ بیان آیا ہے اس میں اس سے مراد بت بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں چونکہ مشرکین کا ذکر نہیں ہے بلکہ اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور گھروالوںکو آگ سے بچائو، تو ظاہر بات ہے کہ وہ پتھروں کو پوجنے والے نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن پتھروں کی نوعیت کا ہوگا، جیسے آپ کے ہاں پتھر کا کوئلہ ہوتا ہے جو عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جلتا ہے اور آگ کو زیادہ تیز کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا:
عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ ، دوزخ پر ایسے ملائکہ مامور ہیں جو نہایت تندخُو اور سخت مزاج ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس کو جس کام کے لیے پیدا کیا ہے اُسے اس کام کے لیے موزوں ترین ساخت عطا فرمائی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ملائکہ چونکہ نوری ہیں اس لیے وہ تمام یکساں صفات کے حامل ہوںگے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جس قسم کی خدمات جس فرشتے کے سپرد ہیں، اس کے اندر ویسی ہی صفات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر جو فرشتے جنت کے لیے مقرر ہیں وہ نہایت متواضع، نرم مزاج اور بہت ادب اور لحاظ کرنے والے ہوں گے۔ اس کے برعکس جو فرشتے دوزخ کے لیے مقرر ہوں گے وہ جلّاد قسم کے فرشتے ہوں گے۔ ان کے ہاں رحم کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو تو اس کے دل میں رحم آجائے کہ مَیں ذرا اس کی آگ کو ہلکا کردوں۔ نہیں، ان فرشتوں کے ہاں رحم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح، مثلاً جو فرشتے لوگوں کو موت دینے کے لیے مقرر ہیں ان کے اندر یہ نفسیات اور یہ جذبات پیدا نہیں کیے گئے کہ کسی آدمی کی روح قبض کرتے وقت وہ یہ دیکھیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اس کی جوان بیوی ہے، یا اس کے جوان والدین ہیں، ان کا دل صدمے سے پھٹ جائے گا۔ ان فرشتوں کے ہاں ایسی کسی بات کا کوئی سوال نہیں۔ ان کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں کی روح قبض کرو، وہ فرشتہ جائے گا اور اس کی روح قبض کرے گا۔ اس کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہوگی کہ اس کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔
اس بات کو اس طرح فرمایا کہ: لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ، ’’اللہ ان کو جس بات کا حکم دے وہ اس کی حکم عدولی کبھی نہیں کرتے‘‘۔ اگر اللہ کا حکم ہے کہ فلاں پر رحم نہ کھائو، اس پر سختی کرو تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کے سپردکام ہی یہ کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا: وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ، ’’جو کچھ حکم اُن کو دیا جاتا ہے وہی کچھ وہ کرتے ہیں‘‘۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِبلیس بھی فرشتہ تھا تو یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ فرشتوں کی توفطرت ہی یہ ہے کہ ان کو جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا اُن کی فطرت ہی میں نہیں ہے لیکن ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ قرآنِ مجیدہی میںبیان کیا گیا ہے، اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلیس پہلے فرشتوں میں سے تھا۔
پھر فرمایا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (اس وقت کہا جائے گاکہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
جب کافروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اس وقت ان سے یہ بات فرمائی جائے گی ۔ یہ اس لیے کہ عُذر کرنے کے جتنے مواقع تھے وہ دنیا میں موت آنے سے یا خدا کا عذاب آنے سے پہلے پہلے تھے۔ اب اس کے بعد جب جزا کا دور شروع ہورہا ہے، اس وقت معذرت کا کوئی سوال نہیں۔ اب تمھیں اپنے اعمال کی جزا کا سامنا ہے۔ اب عُذرخواہی کا کوئی موقع نہیں۔
یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لا یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (۶۶:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ جو فرمایا کہ توبۃ النصوح کرو، اس سے مراد ہے خالص توبہ، ایسی توبہ جو سچے دل کے ساتھ کی جائے۔ یہ لفظ نصیحت سے ماخوذ ہے جو عربی زبان میں خیرخواہی اور اِخلاص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (اُردو میں اس کا استعمال مختلف ہے)۔
نصوح وہ شخص ہے جو اپنا خیرخواہ ہے، اپنا بدخواہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سے کوئی قصور سرزد ہو، اور اس کے بعد وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا، اُس سے معافی نہیں مانگتا، توبہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ خود اپنا بدخواہ ہے۔ پہلے اس نے گناہ کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس نے اپنے ساتھ بدخواہی کی۔ دوسری طرف وہ اپنے رب کے سامنے توبہ بھی نہیں کرتا، ا س سے معافی بھی نہیں مانگتا، یہ اپنے ساتھ اس کی گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑی بدخواہی ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ کو خود خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص قصور کرتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے تو جس کا وہ قصور کرتا ہے وہ لامحالہ اس کو اس کے قصور کی سزا دے گا۔ اس طرح وہ شخص خود اپنی شامت کو بلاتا ہے۔ چنانچہ توبۃ النصوح کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اپنا خیرخواہ ہو اور اپنی شامت نہ بلانا چاہتا ہو، بلکہ اپنی بھلائی چاہتا ہو،اس کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد اس پر نادم ہو، اور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اس سے معافی چاہے۔
حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس طرح توبہ و استغفار کر رہا ہے کہ جلدی جلدی اپنی زبان چلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’الٰہی مجھے معاف کر، الٰہی مجھے معاف کر‘‘۔ حضرت علیؓ نے اس سے فرمایا کہ یہ توبۂ کذابین ہے کیونکہ ایک آدمی، جس کو واقعی اپنے گناہ کا احساس ہو، اور وہ اپنے قصور کا اعتراف کر رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگے گا، نہ یہ کہ مارا مار زبان ہلاتا جائے۔ یہ تو توبۂ کذابین ہے۔ ایسے شخص کے دل میں نہ کوئی شرمندگی اور ندامت کا احساس ہے اور نہ وہ سچے دل سے توبہ کر رہا ہے۔اس طرح ایک آدمی کا لہجہ بتا دیتا ہے کہ وہ کس قسم کی توبہ کر رہا ہے۔
اس طرح جب نماز میں لوگ جلدی جلدی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے ہیں تواس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا عرض کر رہے ہیں اور کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں۔ بس چند الفاظ ہیں جو وہ بے سوچے سمجھے بولتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے ہی توبۃ النصوح میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی کا لہجہ، اس کا چہرہ، اس کا اندازِ بیان، یہ ساری چیزیں یہ بتارہی ہوں کہ وہ واقعی اپنے خدا کے سامنے شرمندہ ہے اور اس سے معافی مانگ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بس کچھ لگے بندھے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرکے یہ سمجھ لے کہ اس نے سچ مچ توبہ کرلی ہے۔
اس کے بعد یہ جو بات فرمائی گئی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے تمھاری بُرائیاں دُور کرے گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ توبہ کرنے سے آدمی کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ شرک جس سے بڑا تو کوئی گناہ نہیں ہے اس سے بھی آدمی سچے دل سے توبہ کرے اور توحید پر کاربند ہوجائے تو اگر اس نے ساری عمر بھی شرک کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے___ توبہ کرنے کے بعد اگر آدمی کو گھنٹہ بھر بھی زندہ رہنے کا موقع نہ ملا ہو، تب بھی جو کچھ اس نے کیا ہوگا وہ سب معاف ہوجائے گا۔ قرآن مجید میں توبہ کی یہ خاصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کو ساقط کردیتی ہے۔اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کوئی ضد نہیں ہے کہ ضرور اُن کو سزا دے کر ہی چھوڑنا ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے غلط رویّے کا احساس ہوگیا ہے اور وہ آیندہ ٹھیک چلنے کا عہد کر رہا ہے تو جس وقت بھی وہ ایسا کرے گا، اسی وقت اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسی کے تو پیدا کیے ہوئے اور اُسی کے تو پالے ہوئے ہیں۔ وہی ان سے محبت نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ چنانچہ یہ فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرلو گے تو میں تمھاری تمام بُرائیاں تم سے دُور کردوں گا، ان کو تمھارے حساب سے ساقط کردوں گا، وہ تمھارے نامۂ اعمال میں موجود ہی نہیں رہیں گی بلکہ مٹادی جائیں گی۔
اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے (اور جن کی توبہ قبول ہوجائے گی)، اس روز اُن کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر اس بات کی جو تفصیلات ملتی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز میدانِ حشر میں کامل تاریکی ہوگی، روشنی صرف ان لوگوں کو ملے گی جن کے پاس ایمان اور ایمان کے مطابق ڈھالے ہوئے اعمال اور اخلاق ہوں گے۔ اُس روز سایہ بھی ملے گا تو اُن لوگوں کو جن کو اللہ اپنے سایے میں پناہ دے، اور روشنی بھی ملے گی تو ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کے پاس ایمان کا سرمایہ لے کر آئیں گے۔ وہی ایمان اُن کے لیے وہ نور بن جائے گا جس کے ذریعے سے وہ اپنے گردوپیش دیکھیں گے اور اپنا راستہ پائیں گے۔ جب ایک طرف اہلِ ایمان جنت میں جارہے ہوں گے تو دوسری طرف کفار اور مشرکین اور منافقین کامل تاریکی میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے جہنم کی طرف جارہے ہوں گے۔
احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ میدانِ حشر میں کسی آدمی کی روشنی کا انحصار وہاں اس بات پر ہوگا کہ کیسا کچھ مخلصانہ ایمان اور کیسا کچھ مخلصانہ عمل اس کے پاس تھا۔ نیز یہ کہ اُس نے دنیا میں اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کیا کچھ کام کیا تھا۔ اِسی پر اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ وہاں جاکر اس کو کیسی روشنی ملے گی، یعنی کتنی طاقت کا بلب اس کی ٹارچ میں لگا ہوا ہوگا اور یہاں دنیا میں اس نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے کتنی بجلی پیدا کی تھی جس کی طاقت کے مطابق اُتنا نور اس کو ملے گا۔
احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی شخص کا نور وہاں اتنا پھیلے گا کہ جیسے مدینہ سے صنعا تک کا فاصلہ ہے، یعنی ہزار میل کے لگ بھگ فاصلے تک اس کا نور پھیلے گا۔ گویا وہ کسی زبردست سرچ لائٹ کی طرح ہوگا جس کی روشنی دُور تک پھیلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص ایسا ہوگا کہ اس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہیں جائے گا، لیکن بہرحال وہ نور سے محروم نہیں ہوگا۔ جس درجے کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے سرمایے کے ساتھ وہ میدانِ حشر میں پہنچے گا، اس کے پاس اسی درجے کا نور ہوگا، خواہ اپنے قدموں تک ہو اور خواہ ہزار میل تک ہو۔ پھر فرمایا کہ جب اہلِ ایمان کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا تو وہ کہہ رہے ہوں گے:
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ، اے ہمارے رب ہمارے نور کو ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما۔
یعنی اگر یہاں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں کم نور ملا ہے تو اے پروردگار! ہمارے نور کو بڑھا دے، ہم سے درگزر فرما اور ہماری کوتاہیاں معاف کردے۔ گویا ہرآدمی یہ دیکھے گا کہ میرے پاس کتنا کم نور ہے اور مجھے کتنا زیادہ نور درکار ہے، اور اس کے لحاظ سے وہ اپنے رب سے اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی درخواست کرے گا، اور یہ بھی دعا کرے گا کہ: وَاغْفِرْلَنَا، ’’ہمیں بخش دے‘‘۔
یہ بات وہ اس وجہ سے کہے گا کہ اس کے نور میں جو کچھ بھی کمی ہے وہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ اس کے عمل میں کمی تھی۔ اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ تو مجھ سے درگزر فرما اور اس کمی کی تلافی فرما کر میرے نور کو میرے لیے مکمل کردے۔
یاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۶۶:۹)، اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
یہاں کفار کے ساتھ منافقین کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان دونوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں لازماً جہاد کو قتال کے معنی میں نہ لیا جائے۔ قتال اور چیز ہے اور جہاد اور چیز ہے۔ منافقین سے قتال اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ وہ حربی کافروں سے نہ جاکر مل جائیں، یعنی ان کافروں کے ساتھ جو برسرِ جنگ ہوں۔ چنانچہ جب تک قتال کی ضرورت نہ پیش آجائے۔ ان کے خلاف صرف جہاد کیا جائے گا۔
منافقین کے ساتھ جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کا زور توڑا جائے گا۔ اُن کو ذلیل و خوار اور بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اُن کی بات نہ چلنے دی جائے گی، اور اگر اُن کی کوئی مالی یا اخلاقی طاقت ہے تو اس کو توڑا جائے گا۔ اگر معاشرے میں ان کی دولت و امارت اور ریاست و سیادت کے اثرات پائے جاتے ہیں تو وہ توڑے جائیں گے۔ غرض یہ ہے کہ منافقین کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد کی جائے گی تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں۔ اگر کسی معاشرے میں منافقین کا اثرورسوخ پایا جاتا ہو تو وہ اس معاشرے کو خراب کر کے رہتے ہیں۔ منافقین کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ ان کو بُرائی سے محبت اور بھلائی سے نفرت ہوتی ہے۔ اگر کہیں بھلائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہوتو منافقین کے حلقے میں ایک کہرام مچ جاتا ہے کہ کیا اب ہمارے ہوتے ہوئے اس معاشرے میں بھلائی بھی پھیلے گی! کیا اب لوگ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، مردوں عورتوں کے آزادانہ میل جول کو روکیں گے۔ کاروبار میں دیانت داری اور ایمان داری اختیار کریں گے۔ اس کے برعکس اگر کہیں برائی کا کوئی کام ہورہا ہو تو ان کو بڑی مسرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں ’روشن خیالی‘ عام ہورہی ہے، آرٹ سوسائٹیاں قائم ہورہی ہیں، مصوری اور موسیقی کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس طرح ان کے دل کھِل جاتے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں بُرائی کو پھیلانے اور بھلائی کو دبانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی بھلائی پنپ رہی ہو تو بیٹھ بیٹھ کر کانفرنسیں کریں گے، باہمی مشورے کریں گے کہ اس بھلائی کا کیسے سدّباب کیا جائے۔ آغاز ہی میں اس کی سرکوبی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ منافقین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس جہاد سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی ایسا رویّہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہو اور اُن کی ہمتیں بڑھیں۔ ان کے مقابلے میں اگر کوئی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تو اس سخت کارروائی سے اپنی نرم مزاجی کی بنا پر گریز نہ کیا جائے۔ جو وقت سختی کرنے کا ہے اس میں سختی ہی کرنی چاہیے۔ اس وقت اگر آدمی نرمی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلامی اخلاق نہیں ہے۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ جو مقام نرمی کرنے کا ہے وہاں نرمی کی جائے اور جو مقام سختی کرنے کا ہے وہاں سختی ہی کی جائے۔ جس مقام پر اللہ کے رسولؐ نے سختی کی ہے وہاں ہماری طرف سے نرمی کا مظاہرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ منافقین کے ساتھ سخت برتائو کرو وہاں نرمی کیسے برتی جاسکتی ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیرکردہ مسجد ’مسجدِضرار‘ کیسے گرا دی تھی اور منافقین کو کس طرح سے مسجدوں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ منافقین کا زور توڑنے کے لیے جو سختی کرنی ضروری ہے اس میں کمی نہ کرو۔ منافقین کا انجام یہ ہے کہ: وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ، ’’اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَo (۶۶:۱۰)، اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے کہ وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے اِن شوہروں سے خیانت کی، اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی نہ کام آسکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جائو آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جائو۔
یہاں جو چیز ذہن نشین کرائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے لیے یہ بات ذرّہ برابر بھی نافع نہیں ہے کہ اس کا رشتہ داری کا تعلق اللہ کے کسی نبی ؑسے یا کسی دوسرے نیک بندے سے ہے۔ یہاں جو چیز بھی نافع ہے وہ انسان کا اپنا عمل اور اس کا اپنا ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان اور عمل سے خالی ہو، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بن جائے، تو اس کے بعد وہ صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہے، یا کسی نبی سے اس کی رشتہ داری ہے۔ اس گرفت سے نبی کی بیویاں بھی نہیں بچ سکتیں۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کا ذکر ہے، اور سورئہ ہود میں حضرت نوحؑ کے بیٹے کا ذکر ہے۔ وہاں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایاگیا ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو طوفان میں ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تو کشتی کنارے پر جالگنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ تو میرے بیٹے کو بچا لے کیوں کہ وہ میرے اہل میں سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ بجاے اس کے کہ اُن کی دعا قبول کر کے ان کے بیٹے کو بچالیا جاتا، اس بات پر سرزنش فرمائی گئی کہ وہ تیرا اہل نہیں ہے، وہ ایک بگڑا ہوا کام ہے، اُس کے لیے بخشش نہیں ہے، کیونکہ یہ موقع فیصلے کا ہے۔ جو موقع کفر اور ایمان کے فیصلے کا ہو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا رشتہ دار ہے۔
سورئہ بقرہ میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ ۲:۱۲۴)، ’’میں تمھیں تمام دنیا کے انسانوں کا امام بناتا ہوں‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط (۲:۱۲۴)، ’’میری نسل کے متعلق کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا کہ: لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ o (۲:۱۲۴)، ’’میرا عہد ظالموں سے نہیں ہے‘‘۔تمھاری اولاد ہے تو ہو، لیکن جو ظالم ہوگا اس کے لیے میرا عہد نہیں۔
قریشِ مکہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔ عرب میں قریش کی پیری اور مشیخت چل ہی اس بل پر رہی تھی کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی اولاد ہیں۔ لیکن سورئہ بقرہ میں دراصل قریش کو یہ سنایا گیا ہے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ تمھاری نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارے لیے فخر اور عزت کا کوئی مقام پیدا نہیں کرتی، جب تک کہ تم خود ایمان پر قائم نہ ہوجائو۔
اسی طرح اہلِ کتاب، یعنی یہود اور نصاریٰ، حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ فخر تھا کہ ہم انبیا کی اولاد ہیں۔ ان سے صاف طور پر فرما دیا گیا کہ: تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک اُمت تھی جو گزر گئی جو کچھ اُس نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمھارے لیے ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی کمائی کا کوئی فائدہ تمھیں پہنچے۔ تمھیں جو کچھ بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اپنی کمائی کا ہوگا۔
احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے خاندان والوں کو پکار پکار کر فرمایا کہ ’’اے فاطمہؓ بنت محمدؐ ،اپنی عاقبت کی فکر کرلے، میں تیرے کسی کام نہیں آئوں گا‘‘۔ اپنی پھوپھی کو مخاطب کر کے فرمایا: اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اپنی عاقبت کی فکر کرو، میں تمھارے کسی کام نہیں آسکوں گا۔
اسی مضمون کو یہاں بیان کیا گیا کہ نوح اور لوط علیہما السلام دونوں کی بیویاں اگرچہ نبی ؑکی بیویاں تھیں لیکن چونکہ اُنھوں نے خیانت کی اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ان کو کوئی چیز بچانے والی نہ تھی۔ خیانت سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے نعوذباللہ کوئی بدکاری کی تھی۔ نہیں، بلکہ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کی بیویاں ہوکر، نبی کے گھر میں بیٹھ کر نبی کے مشن کی مخالفت کرتی تھیں۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی کافر قوم سے ملی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم اس بستی سے نکل جائو، تو صاف طور پر ہدایت کردی کہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جانا۔ اور وہ اس طرح اپنی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی جس طرح ساری قوم مبتلا ہوئی۔ حضرت نوحؑ کی بیوی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس نے ساری عمر اُن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا اور نبی ؑکے اُس مشن کی مخالفت کی جس کے لیے انھوں نے اپنی ساری زندگی کھپا دی تھی۔
پھر یہ جو فرمایا کہ: وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ، ’’دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جائو‘‘۔ یہ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ کے الفاظ غیرضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں واضح طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں، اُسی طرح سے تم بھی چلی جائو۔ دوسرے لوگوں سے اللہ کی کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے، اور تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو جہنم میں دھکیلا جا رہا ہو لیکن تمھیں اس وجہ سے بچالیا جائے، جب کہ تم نبی ؑ کی بیویاں ہو۔ نہیں، بلکہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں اسی طرح تم بھی جہنم میں داخل ہوجائو۔ [العیاذ باللّٰہ]
وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (۶۶:۱۱)، اور اہلِ ایمان کے معاملے میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے، جب کہ اُس نے دعا کی:’’اے میرے رب، میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے بچا لے، اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے‘‘۔
اُوپر پہلے کافروں کی مثال دی گئی تھی، اب یہاں ایمان لانے والوں کے لیے مثال دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی کو پیش کرتا ہے، جب کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’خدایا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے، اور ظالم قوم سے نجات عطا فرما‘‘۔
فرعون جیسا دشمنِ دین اور دشمنِ خدا تھا، اس پر قرآنِ مجید میں نہایت سخت الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ہے اور اس کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ حضرت آسیہ فرعون کے گھر میں تھیں لیکن چونکہ ایمان لائی ہوئی تھیں اور اُس قوم کے عمل سے بیزار تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی مثال دیتا ہے کہ ان کو دیکھو کہ وہ کس گھر میں تھیں۔ لیکن ان کے لیے فرعون کی بیوی ہونا کسی نقصان کا مُوجب نہیں ہوا کیونکہ وہ ایمان لائی ہوئی تھیں۔ اس طرح اس بات کی پوری طرح صراحت کردی گئی کہ اگر کوئی عورت غلط راستے پر جائے تو نبی ؑ کی بیوی ہوتے ہوئے بھی سزا سے نہیں بچ سکتی لیکن اس کے برعکس ایک عورت کسی بدترین کافر اور دشمنِ خدا کے گھر میں رہتے ہوئے بھی مبتلاے عذاب نہیں ہوسکتی۔ مزیدبرآں ایمان کی وجہ سے اور اپنے عمل کی وجہ سے وہ ظالموں کے عمل سے بھی محفوظ رہے گی۔
پھر ارشاد فرمایا گیا:
وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o (۶۶:۱۲)، اور [اللہ] عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اُس نے اپنے رب کے ارشادات اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی۔
حضرت مریم علیہا السلام کو یہاں کس وجہ سے بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے؟ حضرت مریم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شدید آزمایش میں ڈالا تھا جس میں دنیا کی کسی دوسری عورت کو نہیں ڈالا گیا۔ حضرت مریم ؑکا قصہ سورۂ آلِ عمران میں بھی گزرچکا ہے، اور سورئہ مریم ؑمیں بھی بیان ہوا ہے۔اس میں جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی والدہ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ جوانی کی عمر کو اس حال میں پہنچیں کہ ان کی زندگی نہایت پاکیزہ تھی۔ ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتی تھیں۔ غیرشادی شدہ اور کنواری تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اُن کے بطن سے حضرت عیسٰی ؑکو پیدا کرے۔
یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کے رحم پر اپنی خاص روح پھونکی۔ بغیر اس کے کہ ان کی شادی ہو، اُن کے ہاں اولاد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک روح ان کے اندر پھونک دی اس طرح حضرت عیسٰی ؑپیدا ہوئے۔
سورئہ مریمؑ میں یہ قصہ آتا ہے کہ جس وقت وہ حاملہ ہوئیں تو ان کی جان اِس وجہ سے گھلی جاتی تھی کہ میں یہاں اس عبادت گاہ کے اندر رات دن عبادت میں مشغول ہوں۔ کنواری لڑکی ہوں، شادی میری ہوئی نہیں ہے۔ اب یکایک میرا حمل ظاہر ہوا تو مجھ پر کیا گزرے گی، اور میری قوم کیا کہے گی۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے باخبر کردیا تھاکہ ہم تمھیں ایک عظیم آزمایش میں ڈالنے والے ہیں۔ تمھارے بطن سے ایک لڑکا پیدا کریں گے جو ایسا اور ایسا ہوگا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی، میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِسی طرح ہوگا۔ اللہ کی طرف سے جب یہ فیصلہ اُن کو سنایا گیا تو انھوں نے سرتسلیم خم کردیا۔یہ نہیں کہا کہ میں اپنے آپ کو اس آزمایش میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوں، بلکہ عرض کیا کہ اگر میرے رب نے مجھے اس آزمایش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے منظور ہے۔
اس کے بعد سورئہ مریم ؑمیں یہ سارا قصہ آیا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ حمل کے آثار ظاہرہو رہے ہیں تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر نکل گئیں اور بیت المقدس میں جاکر پناہ ڈھونڈ لی۔ وہاں جب ان پر زچگی کا وقت آیا تو اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا، بالکل تن تنہا تھیں، نہ کوئی پانی پلانے والا تھا اور نہ کوئی غذا دینے والا۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پانی کا یہ انتظام کیا کہ ایک چشمہ جاری کیا، اور ان کے بالکل سر کے اُوپر جو کھجور کا درخت اُگا ہوا تھا، اس کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ اس درخت کو ہلائو، تمھارے لیے تازہ کھجوریں گریں گی۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایک مومنہ عورت کو اتنا بڑا مقام صرف اس وجہ سے ملا کہ اُس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے submit کردیا۔ وہ اللہ کی رضا کے سامنے بالکل سپرانداز ہوگئیں کہ میرا رب مجھ سے جو کام لینا چاہتا ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وہ چیز تھی جو اُن کے لیے اتنے بلند مرتبے پر پہنچنے کا باعث بنی۔
اس سے پہلے آغاز میں جو مضمون گزرا ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہراتؓ کی بعض غلطیوں پر تنبیہہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ یہ تین قسم کی عورتیں تمھارے سامنے بطور مثال ہیں۔ دو عورتیں نبی ؑ کی بیویاں تھیں لیکن غلط راستے پر گامزن ہوگئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی ؑ کی بیوی ہونا اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوا۔ دوسری طرف ایک عورت جو بدترین دشمنِ دین کے گھر میں تھیں لیکن جب انھوں نے ایمان اور عملِ صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لیے جنت میں مکان بنایا گیا۔ ان تین عورتوں کے ساتھ ایک یہ حضرت مریمؑ ہیں جنھوں نے اللہ کی مرضی کے آگے سرجھکا دیا اور سخت ترین آزمایش سے گزرتے ہوئے بھی اُن کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اس کا ثمر اُن کو یہ ملا کہ اُن کو وہ مقام حاصل ہوا جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگرچہ اس سارے بیان میں بعض عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے لیکن اس لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے نتائج دونوں کے حق میں ایک جیسے ہیں۔ عورتوں کی طرح یہ اصول مردوں کے لیے بھی ہے کہ کسی نبی ؑ یا کسی اور برگزیدہ ہستی کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ اور تعلق بجاے خود نافع نہیں ہے، بلکہ دراصل جو چیز فیصلہ کن ہے وہ آدمی کا اپنا ایمان اور اس کا اپنا عمل ہے۔(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے، اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں، لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے، جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں، جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔
اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں، اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا، بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے، اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے، لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا، اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے، ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے، ان کے مال برباد کریں گے، مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔
اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبا کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی راے تیار کی جاسکتی تھی، جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے، ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے، اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی، بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔
تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی، بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔
لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اُٹھیں، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے، اور وہی چیز پیدا ہوئی۔
بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان، بنگالی تہذیب، بنگالی ثقافت، ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی، مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجۂ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب، وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....
آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے، جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے، نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان، بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر، مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا، اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا، کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا، تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی، اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے، پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی، نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا، اس لیے یہاں بھی الحاد، دہریت، سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔
اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا، اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب، ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ، ص ۶-۱۰)
خرم مراد: حیات و خدمات کا نیا ایڈیشن ان شاء اللہ جلد شائع ہوگا
ھمارے قارئین یا ان کے جاننے والوں کے پاس محترم خرم مراد کے بارے میں کوئی مشاھدہ، کوئی تاثر، کوئی جذبہ محفوظ ھو تو اسے لکھ بہیجیے۔
ایسے بہت سے واقعات ہمارے رفقا کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اسے تاریخ کو منتقل کردیں تاکہ ان کی طرح دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنیں اور انھیں بھی اُس صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ لینے کا موقع ملے جو محترم خرم مراد کو مل رہا ہے۔ مختصر کی شرط نہیں، آپ جو بھی ان کے بارے میں لکھنا چاہیں، لکھیں۔ آپ جو کچھ بھیجنا چاہتے ہیں ۲۰دسمبرسے پہلے بھیج دیں۔
عالمی ترجمان القرآن
منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- 54790
ای -میل: tarjumanq@gmail.com مسلم سجاد