سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


قریب ترین رشتہ داروں کے حق [وراثت] ادا ہوچکنے کے بعد، یا ان کی غیرموجودگی میں حقِ میراث ان قریب تر جدی رشتہ داروں کو پہنچے گا، جو ایک آدمی کے فطرتاً پشتی بان اور حامی و ناصر ہوتے ہیں۔ یہی معنی ہیں ’عصبات‘ کے ، یعنی آدمی کے وہ اہلِ خاندان جو اس کے لیے تعصب کرنے والے ہوں۔ اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر یہ حق ’ذوی الارحام‘ (رحمی رشتہ داروں،مثلاً: ماموں، نانا، بھانجے اور بیٹی یا پوتی کی اولاد) کو دیا جائے گا۔ یہاں بھی نہ تو قائم مقامی کا اصول کام کرتا ہے اور نہ یہ اصول کہ جو محتاج اور قابلِ رحم ہو اس کو میراث دی جائے، بلکہ قرآن کے بتائے ہوئے چاراصول اس معاملے میں کارفرما ہیں: 

  • ایک یہ کہ قریب ترین کے بعد حصہ قریب تر کو پہنچے گا اور قریب تر کی موجودگی میں بعید تر حصہ نہ پائے گا (مِـمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ)
  • دوسرے یہ کہ ’غیر ذوی الفروض‘ کو وارث قرار دینے میں یہ دیکھا جائے گا کہ میت کے لیے نفع کے لحاظ سے قریب تر ، یعنی اس کی حمایت و نصرت میں فطرتاً زیادہ سرگرم کون ہوسکتے ہیں (اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ  نَفْعًا)۔
  • تیسرے یہ کہ عورتوں کی بہ نسبت مرد فطرتاً عصبہ ہونے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن ماں اور باپ میں سے عصبہ باپ کو قرار دیتا ہے اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’فرض حصے ادا کرنے کے بعد مابقی ترکہ قریب ترین مرد کو دو‘۔ لیکن بعض حالات میں عورت بھی عصبہ ہوسکتی ہے، مثلاً یہ کہ میت کی وارث بیٹیاں ہی ہوں اور کوئی مرد عصبہ موجود نہ ہو، تو بیٹیوں کا حصہ فرض ادا کرنے کے بعد مابقی میت کی بہن کو دیا جائے گا، کیوںکہ وہ اس کی پشتی بان ہوتی ہے۔
  •  چوتھا اصول قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ   (رحمی رشتہ داراجنبیوں کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں)۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ  لَہٗ  (جس کا کوئی اور وارث نہ ہو اس کا وارث اس کا ماموں ہے)۔

یہ ہیں تقسیمِ میراث کے اسلامی اصول، جن کو سمجھنے میں کوئی ایسا شخص غلطی نہیں کرسکتا، جس نے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو اور اس کے مضمرات پر غور کیا ہو۔ (’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۴، جنوری ۱۹۵۹ء، ص۳۴-۳۵)

جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔

تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی    اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔

۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔

حج سے فارغ ہوتے ہی مدینے جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتاہے، وہاں تو جذبات کاوفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔

مجھے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد ِ نبویؐ میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزارِ پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔

صرف مسجد نبویؐ کو مقصودِ سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزارِ مبارک نہ ہوتا، تو کم ہی  کوئی شخص وہاں جاتا۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصیٰ کی بھی بہت ہیں، مگروہاں کتنے لوگ جاتے ہیں؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ وہاں آں حضوؐر کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضوؐر کا مزارِمبارک بھی ہے۔

جس حدیث سے امام ابن تیمیہؒ نے استدلال کیا ہے، اس کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو انھوں نے سمجھا۔ بلاشبہہ آں حضوؐر نے فرمایا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ہے۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: ’دُنیا میں کوئی سفر جائز نہیں سواے ان تین مسجدوں کے‘ اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ: ’تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں ہے کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے‘۔

اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی، دُنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا، خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو، اور ظاہر ہے کہ اس معنی کا کوئی قائل نہیں، خود ابن تیمیہؒ بھی اس کے قائل نہیں تھے۔

اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے، غیرمساجد سے نہیں۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبویؐ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے، لیکن دُنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کر کے وہاں جائے۔ لیکن اس کو خواہ مخواہ زیارتِ قبرِ رسولؐ پر لے جاکر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں۔

مدینہ پہنچ کر مسجد نبویؐ میں حاضری دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخینؓ کے مزارات کی زیارت کی۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجدحرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ    میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔

مسجد نبویؐ اب جدید توسیع کے بعد بہت شان دار اور نہایت خوب صورت بن گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں۔ اصل مسجد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں، اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی۔

٭  مسعود عالم ندویؒ

چہارشنبہ، ۴ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح کو مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا۔ مغرب کے بعد موٹر چلتی رہی۔ یہ راستہ کویت اور ریاض کے درمیانی راستے سے اچھا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس راہ میں پانی جابجا ملتاہے۔ عاجز صحرا کے سفر کا خاصا عادی ہوچکا ہے۔ کھانسی کی تکلیف نہ ہوتی تو یہ سفر ایک گونہ دل چسپ اور نشاط انگیز ہوتا۔ قلب و روح کی حد تک تو اب بھی نشاط انگیز ہے۔ مدینے کی قربت خود بخود مُردہ جسم میں جان ڈال رہی ہے۔ سانس کی تکلیف کے باوجود گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ رات مفرق کے مقام پر بسر ہوئی۔

جمعرات ، ۵ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح ہوئی ، قافلہ روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کی قربت طبیعت کو اُکسانے لگی۔ ابھی تین چار گھنٹے کی مسافت باقی ہے، لیکن دل ابھی سے لرزنے لگا ہے۔ مدتیں گزریں، زمانہ بیت گیا، مدینے کی حاضری کا شوق دل میں چٹکیاں لیتا رہا۔ بارہا  فرطِ شوق میں آسی غازی پوری کا یہ پُرکیف مطلع پڑھتا رہا ہوں:

صبا تو جا کے یہ کہنا مرے سلام کے بعد

کہ تیرے نام کی رَٹ ہے خدا کے نام کے بعد

وہ کیا ساعت ہوگی جب یہ گنہگار، رُو بہ رُو حضرت عالیؐ میں سلام عرض کرے گا۔ جب کبھی یہ خیال آتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، درود پڑھتا اور اُردو، عربی کے مناسب حال شعر زبان پر جاری ہوجاتے۔

کچھ دیر کے لیے مسیجید کے اسٹیشن پر موٹر رکی، پھر قافلہ آگے روانہ ہوا۔ اب یہ گنہگار  ہمہ تن شوق ہے۔ ’وہابیت‘ کی خشکی کے باوجود دل پسیج رہا ہے۔ جانے ان راستوں پر حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گزر ہوا ہو۔موٹر نہ ہوتی تو گردِ راہ سے پوچھتا، شایدنقش پا کے کھوئے ہوئے اثرات کا سراغ لگتا۔ شاعر کی زبان میں محبوب کے گزرنے سے تمام وادی نعمان معطر ہوگئی تھی تو کیا سرورِ عالم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی گزرگاہ میں ہوائیں مشک آفریں اور عنبربیز پسینے کی خوش بُو سے خالی ہوں گی؟ مدینہ پاک کی سرزمین قریب ہوتی جارہی ہے اور خاکسار کھانسی کے حملوں سے چور کھویا ہوا،گنگناتا اور درود پڑھتا چلا جا رہا ہے۔

اتنے میں شور ہوا، ’ذوالحلیفہ آگیا‘۔ سن کر دل بَلّیوں اُچھلنے لگا۔ یہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے۔ یہاں سے مدینہ چار پانچ میل سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے یہیں سے حج کا احرام باندھا ہوگا۔ جی چاہا غسل کر کے کپڑے بدل لیے جائیں اور یہاں سے پیدل چلیں۔ عرصے سے تمنا تھی کہ مدینہ پاپیادہ داخل ہوں۔ امام مالکؒ مدینہ منورہ میں سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ کہتے: ’’جہاں رسولِ کریم ؐکی قبر ہے،اس زمین کو کسی جانور کے ٹاپوں سے روندنا حرام سمجھتا ہوں‘‘۔عربی کا ایک دل آویز شعر بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا:

وَاِذَا الْمَطِیُّ بِنَا بَلَغْنَ مُحَمَّدًا

فَظُھُورُھُنَّ عَلَی الرِّجَالِ حَرَامٗ

[جب سواریاں ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے کر پہنچیں گی تو اس وقت ان کی پیٹھیں مسافروں پر حرام ہوں گی، یعنی وہ اب پیدل چلنے لگتے ہیں، اور سواریاں چھوڑ دیتے ہیں۔]

مگر جب اس تمنا کے پورا ہونے کا وقت آیا تو مرض نے بے بس کر دیا۔ واے ناکامی! عاصم [الحداد] صاحب سے راے طلب کی کہ صرف کپڑے ہی بدل لیے جائیں؟ گردوغبار کی وجہ سے ان کی راے نہ ہوئی۔ آخر صبر کر کے بیٹھ رہا۔ لیکن دل کے اندر سے ایک آواز آرہی تھی:

نگاہیں فرشِ راہ ہوں، حمیدؔ سر کے بل چلو

ادب! ادب! یہ کوچۂ حبیب کردگار ہے

مگر سنے کون؟ مسعود و بے نوا تو [دمے اور]کھانسی سے چُور، قہوہ خانے میں بیٹھا اپنے ساتھیوں کو اُمیدبھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک قہوہ خانے میں چائے پی اور پہلی بار مدینہ کے انگور کھائے۔ انگور اچھے اور لذیذ تھے، شوقِ محبت نے انھیں اور لذیذ بنا دیا۔

ذوالحلیفہ سے قافلہ آگے بڑھا۔ ڈرائیور نے کچھ دیر کے بعد پکارا: ’وہ دیکھو!‘ نگاہیں   اُٹھ گئیں اور دیدئہ نم نے دھندلی عمارتوں کو سلام کیا۔ جوں جوں منزل قریب ہوتی گئی، تحیر اور ذہول کی حالت طاری ہونا شروع ہوئی۔درود و سلام کے علاوہ ابن جبیر اندلس کے مشہور قصیدے کے اشعار ورد زبان تھے۔آخر مدینے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔

پہلا مرحلہ مسجد نبویؐ میں حاضری کا تھا۔ [عبدالعزیز] شرقی صاحب نے گرم پانی کا انتظام کرایا۔ ہم لوگوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اورشرقی صاحب کی رہنمائی میں حرم پہنچے۔ دو منٹ کی بھی راہ نہیں ہوگی۔ دروازے پر پہنچے تو مکہ مکرمہ کی خشونت اور مسجد ِحرام کی سادگی کے برعکس ساری فضا لطیف اور مسجد عروس المساجد معلوم ہوئی۔ جدھر نظر اُٹھے خطاطی اور فن کاری کے بہترین نمونے نظر آئیں۔ لیکن اس وقت خطاطی اور فن کاری پر نگاہ ڈالنے کی کسے فرصت؟  ایک مرعوبیت اور تاثیر کے عالم میں روضہ میں تحیۃ المسجد ادا کی۔ ہجوم اور شور میں دلِ پُرشوق کیا کہے۔ نماز کے بعد شباکِ نبوی (جسے عام طور پر مواجہہ شریفہ کہتے ہیں) کے پاس مؤدبانہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے۔ سلف کے معمول کے مطابق اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود پڑھ کر آگے بڑھا اور شیخینؓ کی قبروں کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَبَـابَکرِ یَاخَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہ ِ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ  یَا اَیُّھَا الْفَارُوْقُ یَاعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کہتا ہوا آگے بڑھ کر ایک طرف قبلہ رُخ کھڑا ہوگیا اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے حسب ِ توفیق دُعا کی۔

چہارشنبہ، ۲۵محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۶؍نومبر ۱۹۴۹ء: ارادہ سفر کا ہے، مدینہ منورہ میں بیس دن ہوگئے، پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ابھی اس سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ در و دیوار سے انس و محبت کی خوشبو آتی ہے اور جب کبھی دُور سے سبزگنبد کی طرف نگاہ اُٹھ جاتی ہے، دل دھڑکنے لگتا ہے۔    بس میں ہوتا تو اس دَر کی جاروب کشی کرتا۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس دیارِ محبت و اُلفت میں رہتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں:

خاک طیبہ از دوعالم خوش تر است

اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست

[طیبہ کی خاک دونوں جہانوںسے بہتر ہے۔ اے پیارے شہر (مدینہ) تو کتنا اچھا ہے کہ یہاں محبوب ہے]

جمعہ ۲۷محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۸؍نومبر ۱۹۴۹ء: معلّم صاحب نے بھی نماز کے بعد فوراً تیار ہوجانے کا حکم دیا، پر اس دیارِ محبت سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ سردی کا موسم سر پر نہ ہوتا تو غالباً دوچار مہینے کا عزم ضرور ہی کرلیتا، مگر آج نماز کے بعد جی کڑا کر کے رخت ِ سفر باندھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور پھر اپنے محبوب کے محبوب شہر میں رہنے اور دن گزارنے کی توفیق اور موقع عنایت فرمائے۔ سفر کی تیاریاں ہیں مگر مدینۃ الرسول کا پُرمحبت ماحول اپنی طرف رہ رہ کر کھینچتا ہے۔  مدینہ کی بہار، سدابہار ہے۔ آخر کیوں نہیں؟___ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر، محبوب اور دل نواز نہ ہو تو پھر کون سی جگہ دل نواز اور روح پرور ہوگی؟ جانے کو جارہا ہوں، پر دیدۂ دل میں مدینہ ہی مدینہ بسا ہوا ہے:

نظر نظر پہ چھا گئی ، دلوں میں یہ سما گئی

مدینہ کی بہار کیا ، بہار در بہار ہے

نمازِ جمعہ سے کچھ پہلے ہی حرم آیا۔ ’روضہ‘ تو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جمعہ کی تقریب سے نمازی بہت پہلے آگئے تھے اور ہر طرف تلاوتِ قرآن کی ہلکی، مگر سامع نواز گونج سنائی دیتی تھی۔ عاجز نے ایک کنارے تحیۃ المسجد ادا کی۔ دل متاثر تھا۔ شاید اس حسین و جمیل اور مقدس مسجد میں آخری تحیہ ہو۔ پھر کشاں کشاں بارگاہِ نبوتؐ کی طرف گیا۔ اپنی جرأت پر نازاں اور بادشاہوں کے درباروں میں بے محابا جانے والا، یہاں ششدر اور مبہوت تھا۔ کیا کہے اور کیا عرض کرے؟ قدم حدودِ نبوت سے آگے بڑھنے نہ پائے، ادب و وقار کا دامن بھی ہاتھ میں رہے۔ ایک گنہگار و شرم سار اپنے آقا و مولا اور ساری انسانیت کے محسنِ اعظم (محمد سیّدالکونین من عرب و من عجم) کے حضور کھڑا کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ   اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ سے زیادہ نہ کہہ سکی۔ بڑی ہمت کی تو ماثور درُود پڑھ کر آگے بڑھ گیااور شیخین رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا ہوا ایک کنارے قبلہ رُخ ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض مدعا کی: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ بِمَسْجِدِ نَبِیِّکَ ’’اے اللہ، اس دیارِ شوق و محبت میں پھر آنے کی توفیق عطا ہو۔   اس پاک سرزمین میں بار بار آنا نصیب ہو!‘‘

آخر وہ گھڑی آگئی۔ عصر کے بہت بعد موٹر روانہ ہوئی۔ یوں تو دل دیر سے لرزاں اور تراساں تھا، مگر جب گاڑی حرکت میں آئی تو عجب حال ہوا۔ نگاہ سبزگنبد کی طرف جمی ہوئی اور زبان پر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد۔ایک حسرت کے ساتھ سارے ماحول پر نظر ڈال رہا تھا۔ اس شہر خوباں میں بائیس دن ہوگئے، مگر ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ جوں جوں موٹر آگے بڑھتی جاتی، پلٹ پلٹ کر نگاہیں ڈالتا،تاآنکہ وہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور یہ گنہگار دیر تک ایک ذہول کے عالم میں اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ   اِلٰی  بَیْتِ  رَسُولِکَ کا ورد کرتا رہا۔

  ٭عبدالماجد دریا بادیؒ

طور کی چوٹیاں جن کی تجلیاتِ جمال کی جلوہ گاہ بننے لگیں تو پاکوں کے پاک اور دلبروں کے دلبر موسٰی کلیم تک تاب نہ لاسکے اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ معراج کی شب جب کسی کا جمال بے نقاب ہونے لگا، تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت وہ عبدکاملؐ جو فرشتوں سے بھی بڑھ کر مضبوط دل اور قوی ارادے کا پیدا کیا گیا تھا، اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا، اور ضرورت ہوئی کہ رفیق غارؓکا مثل سامنے لاکر آب و گل کے بنے ہوئے پیکرنورانی کی تسلی کا سامان کیا جائے ۔ یہ سرگزشت ان کی تھی، جو قدسیوں سے بڑھ کر پاک اور نُورانیوں سے بڑھ کر لطیف تھے۔ پھر وہ مشت ِ خاک جو ہمہ کثافت اور ہمہ غلاظت ہو، جس کا ظاہر بھی گندا اور باطن بھی گندا، اگر رسولؐ کی مسجد اَقدس میں قدم رکھتے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کا قدم رسولؐ کے روضۂ اَنور کی طرف بڑھتے ہوئے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں جواب دینے سے جواب دے رہی ہو، اگر اس کا دل اس وقت اپنی بے چارگی اور درماندگی کے احساس سے پانی پانی ہوا جا رہا ہو، تو اس پر حیرت کیوں کیجیے؟ خلافِ توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ و آوارہ، بے چارہ و درماندہ کے اس حالِ زار کی ہنسی کیوں اُڑایئے؟

مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ دھڑکتا ہوا دل کچھ تھما،اور ڈگمگاتے ہوئے پیر کسی قدر سنبھلے۔ ادھر اذان کی آواز ختم ہوئی، ادھر قدم دروازے سے باہر نکالے، مکان کے   جس سے بابِ جبریل اگر چند فٹ نہیں تو چند گز پر ہے، اتنا فاصلہ بھی خدا معلوم کے منٹ میں طے ہوا۔ اس وقت نہ وقت کا احساس ،نہ فاصلے کا ادراک، نہ زمان کی خبر، نہ مکان کی۔

کہتے ہیں کہ داخلہ بابِ جبریل ہی سے افضل ہے، یہ فضیلت بلاقصد خود بخود حاصل ہوگئی۔ حرم کے اندر قدم رکھتے ہوئے یہ دُعا پڑھی جاتی ہے:

اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے کھول دے اور اپنے رسولؐ کی زیارت مجھے نصیب کر جیسی کہ تُو نے اپنے اولیا کو نصیب کی، اور اے ارحم الراحمین، میری مغفرت کردے اور میرے اُوپر رحم فرما۔

لیکن پہلی مرتبہ قدم رکھتے وقت ہوش و حواس ہی کب درست تھے جو یہ دُعا یا کوئی اور دُعا قصدو ارادہ کر کے پڑھی جاتی۔ ایک بے خبری اور نیم بے ہوشی کے عالم میں درود شریف کے الفاظ  تو محض بلاقصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتے رہے، باقی بس۔ ہوش آیا تو دیکھا کہ نماز کو شروع ہوئے دوچار منٹ ہوچکے ہیں اور امام پہلی رکعت کی قرأت ختم کر کے رکوع میں جارہے ہیں۔ جھپٹ کر جماعت میں شرکت کی ، اور جوں توں کر کے نماز ختم کی۔ یہ پہلی نماز وہاں ادا ہورہی ہے جہاں کی ایک ایک نماز پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اللہ اللہ شان کریمی اور بندہ نوازی کے حوصلے دیکھنا! کس کو کیا کیا مرتبے عطا ہورہے ہیں:

اس مرتبے کو دیکھیے اور ہم کو دیکھیے!

وقت نمازِ مغر ب کا تھا اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر پڑھی جاتی ہے۔ لیکن جس کی نصیبہ دری کا آفتاب عین اسی وقت طلوع ہو رہا ہو ، جس کی سربلندیوں اور سرفرازیوں کی ’فجر‘     عین اسی وقت ہورہی ہو،کیاوہ بھی اس وقت کو مغرب ہی کا وقت کہتا اور سمجھتا رہے! لیجیے نماز ختم ہوگئی۔ فرض ختم ہوگئے اور روضۂ اطہر کے دروازے پر ہر طرف سے صلوٰۃ و سلام کی آوازیں آنے لگیں، جس پر اللہ خود درود بھیجے، اللہ کے فرشتے درود بھیجتے رہیں، اس کے آستانے پر بندوں کے صلوٰۃ و سلام کی کیا کمی ہوسکتی ہے؟

جسے دیکھیے مواجہ شریف [روضۂ رسولؐ کے سامنے کے حصے]کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ اس وقت رُخ قبلہ کی جانب نہیں، پتھر سے تعمیر کیے ہوئے کعبہ کی جانب نہیں بلکہ اس کے دَرِ اَقدس کی جانب ہے، جو دلوں کا کعبہ اور روحوں کا قبلہ ہے،کسی کا نالہ جگرگداز، کسی کے لب پر آہ و فریاد، ہرشخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، ہرمتنفس اپنے اپنے کیف میں سرشار، گنہ گاروں اور خطاکاروں کی آج بن آئی ہے، آستانۂ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی ہے:

سجدوں سے اور بڑھتی ہے رفعت جبیں کی

یہاں بھی نہ پائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ آج بھی نہ گڑگڑائیں گے تو کدھر سر ٹکرائیں گے: وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ ……(النساء۴:۶۴) [اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کربیٹھے تھے تو تمھارے پاس آجاتے…] وعدہ پورا ہونے کے لیے ہے۔ محض لفظ ہی لفظ نہیں ہیں۔

ادھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے، رند و پارسا، فاسق و متقی، سبھی اس دُھن میں لگے ہوئے ہیں، ادھر ایک ننگ ِ اُمت حیران و ششدر ، فرطِ مہیب و جلال سے گنگ و مضطر، حواس باختہ ، چپ چاپ سب سے الگ کھڑا ہوا ہے۔ نہ زبان پر کوئی دُعا ہے اور نہ دل میں کوئی آرزو۔سر سے پیر تک ایک عالمِ حیرت طاری، یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری؟ کہاں ایک مشت خاک، کہاں یہ عالم پاک، جل جلالہ جہاں ابوبکرؓ و علیؓ آتے ہوئے تھراتے ہوں، جہاں عمرؓ آواز سے بولتے ہوئے لرزتے ہوں، جہاں کی حضوری جبریل ؑ کے لیے باعث ِ فخر اور شرف کا سبب ہو، آج وہاں عبدالقادردریا بادی کا فرزند عبدالماجد اپنے گندا دل اور گندا تر قلب کے ساتھ بے تکلف اور بلاجھجک کھڑا ہوا ہے۔ دماغ حیران، عقل دنگ، زبان گنگ، ناطقہ انگشت بدنداں۔ نہ زبان یاوری کرتی ہے، نہ لب کسی عرض معروض پر کھلتے ہیں۔نہ دُعائوں کے الفاظ یاد پڑتے ہیں، نہ کسی نعت گو کی نعت خیال میں آتی ہے۔ چلتے وقت دل میں کیا ولولے اور کیسے کیسے حوصلے تھے! لیکن اس وقت سارے منصوبے یک قلم غلط، سارے حوصلے اور ولولے یک لخت غائب۔ لے دے کے جو کچھ یاد پڑ رہا ہے وہ محض کلامِ مجید کی بعض سورتیں ہیں، یا پھر وہی عام و معروف درود شریف، اور زبان ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غوروفکر کیے انھی الفاظ کو رَٹے ہوئے سبق کی طرح اضطراراً دُہرائے چلی جارہی ہے۔

٭  ماہر القادریؒ

اب ہم بالاخانہ سے اُتر کر نیچے آچکے ہیں۔ ہماری معلّمہ کا مزدور ہمارے ساتھ ہے۔ قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے  ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھر ی ہوئی ہے، کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے؟ اے آلودۂ گناہ، اے سرتا بقدم معصیت، اے غفلت شعار، ان کے حضور جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس انھی کو سزاوار ہے، کس منہ سے روضۂ اَقدس کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ  کہے گا۔اس زبان نے کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں، ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے، ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام، اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے؟

ان کی اطاعت سے کس کس طرح گریز کیا ہے، ان کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے، ان کے اسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کی کوئی دُور کی بھی نسبت رہی ہے!

کیسے ہی نافرمان اور بلاتوفیق سہی مگر نام لیوا تو انھی کے ہیں۔ کلمہ تو انھی کاپڑھتے ہیں۔ درود تو آپؐ ہی پر بھیجتے ہیں۔ ہم لاکھ کم ظرف اور نالائق سہی ، لیکن جن کے ہم غلام ہیں وہ تو سب کچھ ہیں۔ جس نے خون کے پیاسے دشمنوں کو معافی دے دی، اس کی وسعت ظرف، مروت، عفو وکرم اور درگزر کی بھلا کوئی حد و نہایت ہے؟ مدینہ کی طرف اپنے کو متقی، نیکوکار اور پرہیزگار سمجھ کر ہم کب چلے تھے؟ اور اپنی پارسائی کا دعویٰ کسے ہے؟ یہاں تو بھاگے ہوئے غلاموں کی طرح حاضر ہوئے ہیں۔ ایک ایک آنسو کی بوند میں پشیمانی اور ندامت کے طوفان بند ہیں۔

اسی عالم خیال و تصور میں باب السلام سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ یہ سروقامت ستون، یہ مصفا جھاڑ فانوس، یہ نظرافروز نقش و نگار،ایک ایک چیز آنکھوں میں کھبی جارہی ہے۔ اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی، جیسے مسجد نبویؐ کے دَر و دیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں:

دامان نگہ تنگ و گل حُسن تو بسیار

گل چین بہار توز داماں گلہ دارد

[نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حُسن کے پھول بے شمار ہیں۔ تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے]

کی معنویت آج سمجھ میں آئی۔ تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے اَنوار کا کیا پوچھنا، یہ آفتاب جہاں تاب بے چارہ اس جلوہ گاہ کے ذرّوں کا ادنیٰ غلام ہے۔ دائیں بائیں، اُوپر نیچے، اِدھر اُدھر روشنی ہی روشنی مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔

جب ہم مسجد نبوی ؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ سنتوں کے بعد جماعت سے نماز ادا کی۔ کہاں؟ مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی؟

نماز کے بعد اب روضۂ اَقدس کی طرف چلے، حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں ۔ مواجہ شریف میں حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر:

وہ سامنے ہیں ، نظامِ حواس برہم ہے

نہ آرزو میں سکت ہے، نہ عشق میں دَم ہے

زائرین بلندآواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں، مگر اس کمینے غلام کے شوقِ بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دُور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سےمختلف، آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کررہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں:

اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ

اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہِ

اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللہِ

زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے [اور یہ اشعار ڈھل گئے]:

پاک دل ، پاک نفس ، پاک نظر ، کیا کہنا

بعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا

جیسے جنّت کے دریچوں سے جھلکتی ہو بہار

پہلی منزل ہی کے اَنوارِ سحر کیا کہنا

تپش شوق بھی ہے، گرمیِ موسم بھی ہے

اور پھر اس پہ مرا سوزِ جگر کیا کہنا

راہ طیبہ کے ببولوں پہ مچلتی ہے نگاہ

مرحبا! دیدۂ فردوس نگر کیا کہنا

خشک آنکھوں کو مبارک ہو یہ طغیانی شوق

ہیں رواں اَشک بہ انداز دگر کیا کہنا

سنگریزے ہیں کہ جاگی ہوئی قسمت کے نجوم

خارِ منزل ہیں کہ انگشت خضر کیا کہنا

 

ترتیب : سلیم منصور خالد

اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔

 بیسویں صدی میں تنقید ِمغرب کے علمی موضوع نے مسائل و مشکلات کے نئے ابواب رقم کیے اور زیر تشکیل علم کلام ترقی، استحکام اور پھیلائو کی جانب گام زن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء- ۱۹۱۴ء)، علّامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء)، اکبر الٰہ آبادی (۱۸۴۶ء- ۱۹۲۱ء) مولانا سیّد سلیمان ندوی (۱۸۸۴ء- ۱۹۵۳ء)، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے اکابر نے مغربی فکر و فلسفہ کی تاریخ و تہذیب پر علمی و استدلالی انداز میں تنقید کی اور اس کی فسوں کاری کو طشت از بام کیا۔ ۱

سیّد مودودی نے تیسرے اور چوتھے عشرے میں جو مقالات و مضامین تحریر کیے ان میں تنقید ِ مغرب، اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم اور اس کے بطن سے جنم لینے والے مسائل ان کے علم کلام کے خاص موضوعات ہیں۔ انھوں نے تخریب و تطہیر کے پہلے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسلامی فکر کی مؤثر اور جان دار تشکیلِ جدید اور تعمیرِ نو کا فریضہ انتہائی مؤثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا۔ یہ ان کی تشکیلِ فکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔ تب، ان کے اسلوب میں علامہ شبلی اور مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء- ۱۹۵۸ء) کا حسن بیان، رعنائی خیال، فکر کی پختگی و استحکام، اظہار ِخیال کی دل کشی نظر آتی ہے، اور اسی طرح سرسیّد احمد خان کی سادگی و صراحت اور علمی و سائنسی اندازِ تحقیق بھی۔ وہ دل اور دماغ دونوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور دونوں پر یکساں اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے یہاں تدبر و تفکر بھی ہے اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی۔ دونوں کے حسین امتزاج سے ابھرنے والا توازن اور اعتدال ان کی فکر کا خاصّا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں مرتب کردہ کتاب الجہاد فی الاسلام، مولانا مودودی کی علمیت، پُرمغز استدلال، مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے اور جدید قوانین و دساتیر پر گہری نظر کی واضح مثال ہے۔ ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب ، ۱۶۰۰ء سے ۱۹۲۴ء تک کے ہندستان کے اقتصادی و تمدنی حالات پر ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصاد یات کی طرح پختہ فکر اور مستحکم استدلال کی واضح مثال ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کا یہ تبصرہ برمحل ہے کہ ’’حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیّد مودودی سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ  تاریخ میں پوری صراحت سے نظر آتا ہے‘‘۔۲

فکری و علمی اعتبار سے تطہیر و تعمیر افکار کے میدان میں مولانا مودودی کا یہ علم کلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء) کی روایت کا تسلسل ہے۔ سیّد مودودی نے اس علمی روایت میں کئی پہلوؤں سے خاصا اضافہ کیا ہے۔۳ اگر اُس فکری و تہذیبی ماحول کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے، جس میں انھوں نے تجدید و احیا کا کام کیا ہے، تو ان کے علم کلام کی معنویت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسو سال کا فکری جمود، مغرب میں نشاتِ ثانیہ، عقلیت پرستی، لبرل ازم، نسل پرستی اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ___ پھر صنعتی انقلاب، مغربی استعمار اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا   عالمی کردار، مسلم دنیا پر ان کا عسکری و سیاسی اور فکری و ثقافتی تسلط، یہ ہے وہ وسیع ترین پس منظر،  جس میں مسلم دنیا میں دورجحانات رُونما ہوئے:

                ۱-            تحفظ ودفاع اسلام کی خاطر روایت پسندی پر انحصار اور جدت سے گریز یا اجتنا ب کا رویہ۔

                ۲-            اپنے تشخص سے بے نیاز ہو کر غالب فکر و تہذیب سے ہم آہنگی کا رویہ، یعنی:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ بساز

علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح سیّد مودودی نے ان دونوں نقطۂ ہاے نظر کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کو بالکلیہ مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ ستیز

اور مغرب کی ترقیات اور ایجادات کو اپنی تہذیبی روایات و اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرْ (جو صاف ستھرا ہے اسے لے لو اور جو گندا ہے اسے چھوڑ دو) کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سیّد مودودی کے اس معتدل و متوازن علم کلام کا خاص میدان مغرب پر ان کی تنقید ہے۔

’جاہلیتِ خالصہ‘

اس علمی و فکری تنقید کے مرحلے میں سیّد مودودی نے مغرب کے فلسفہ و سائنس اور علمی و فکری نظام کو ’جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی بنیاد الحاد و تشکیک اور وحی ورسالت کے انکار اور بغاوت پر ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا، ان میں سے بعض کسی مستقل تہذیب سے محروم تھیں اور بعض اقوام اپنی تہذیب تو رکھتی تھیں، مگر اپنی تہذیبی خصوصیات کھو چکی تھیں، اس لیے ان کے ہاں کسی تصادم کی نوبت ہی نہ آسکی۔ ان کے برعکس مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک تھے اوران کی تہذیب فکری وعملی دونوں حیثیتوں سے مغربی تہذیب سے متصادم تھی ۔ اس کش مکش کے دوران مسلمانوں کی اعتقادی و عملی زندگی کے ہرشعبے پر نہایت تباہ کن اثرات پڑے۔۴  ’جاہلیت خالصہ‘ وہ نظریۂ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا جواب حسّی مشاہدے پر دیاگیاہے۔

انسانی زندگی میں ’جاہلیت خالصہ‘ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے آخر تک خود مختارانہ اورغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے اوراس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اخلاقی احساس، ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو،جو اسے شتربے مہار بننے سے روکتا ہو۔ اس طرزِ فکر سے  جو معاشرہ استوارہوگا، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہوگی، اس مملکت کے تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی اور مصلحت پسندی ہی کے لحاظ سے تمام پالیسیاں بنائی اور بدلی جائیں گی۔ اس معاشرے کا تمدن اور معاشرت نفس پرستی پر استوار ہوگی اور لذات نفس کی طلب ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوگی۔ اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے۔ ان کے اندر عریانی و شہوانیت کے عناصر کی کارفرمائی ہوگی۔ اس معاشرے کا نظام تعلیم وتربیت بھی اسی تصور حیات اور اسی رویے کے مناسب حال ہوگا۔یہ خالص جاہلیت شب وروز کی زندگی میں اظہر من الشمس ہے۔ اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں ، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں اور مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے، اوربڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال و استعمار، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویہ ہے۔۵

سیّد مودودی نے جاہلیت کی دوسری قسم ’شرک‘ کو قرار دیاہے، یعنی یہ عقیدہ اور فکر کہ کائنات کے نظام کو چلانے والا ایک خدا نہیں، بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ، کام یابی وناکامی، نفع و نقصان، بہت سی ہستیوں کی مہربانی و نامہربانی پر منحصر ہے۔۶سیّد مودودی رہبانیت کو مشاہدہ اورقیاس و وہم کے باہم اختلاط والتباس کا فطری نتیجہ مانتے اور شرک کی طرح اسے بھی جاہلیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ سیّد مودودی ’راہبانہ جاہلیت‘ کی درج ذیل خصوصیات شمارکراتے ہیں:

                ۱-            انسان کے تمام رجحانات اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔

                ۲-            نیک دل لوگ دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہاے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیںاور دنیاکے معاملات بدکار اور شریر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔

                ۳-            تمدن میں سلبی اخلاقیات،مخالفِ تمدن اور انفرادیت پسندانہ رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے تابع فرمان بنانے میں جادوکی تاثیر رکھتاہے۔

                ۴-            انسانی فطرت سے رہبانیت کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتاہے، عشق مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتاہے اور کہیں ترکِ دنیا کے پردے میں بدترین مادہ پرستی جنم لیتی ہے۔۷

سیّد مودودی ’ہمہ اوست‘ اور ’وحدت الوجود ‘کے نظریے کوبھی مشاہدے اور قیاس کی آمیزش بتاتے ہوئے جاہلیت سے موسوم قرار دیتے ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی تمام چیزیں بجاے خود غیر حقیقی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے، دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کررہاہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا خارجی ظہور ہیں اور دراصل موجود وہی ہے ، باقی کچھ نہیں۔۸ اس طرز خیال کے نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ’راہبانہ جاہلیت‘ کے ہیں، بلکہ بعض حالات میں اس راے کو اختیار کرنے والے کا طرز عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتاجلتاہے، جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں ،کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتاہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلاجاتاہے کہ: ’جانے والا وجود کلّی ہے نہ کہ میں‘۔۹

عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے رہ نما ، مؤثر اور دل میں اترجانے والے ادیب سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء)بھی تہذیب ِمغرب کو عہد حاضر کی جاہلیت قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس کا نظریۂ حیات و کائنات اور فلسفہ و سائنس خدا کے اقتدار اعلیٰ پردست درازی اور اس کی حاکمیت سے بغاوت پر استوار ہواہے۔ اس جاہلیت نے حیرت انگیز مادی سہولیات، آسایشوں اور بلند پایہ ایجادات کے قصر پر خیمہ زنی کررکھی ہے ۔ دور قدیم کی جاہلیت سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں تھی، مگر جدید جاہلیت اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ: ’انسانوں کویہ حق پہنچتاہے کہ وہ خود افکار و اقدار کی تخلیق کریں، شرائع و قوانین وضع کریں اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے لیے جوچاہیں نظام تجویز کریں‘۔ سیّد قطب کہتے ہیں:

اس باغیانہ انسانی اقتدار اور بے لگام تصورِ حاکمیت کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ خلق اللہ   ظلم و جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہورہی ہے، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں، وہ دراصل اسی بغاوت کا ایک شاخسانہ ہے، جو زمین پر خداوند تعالیٰ کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطاکیاہے، انسان اسے خود اپنے ہاتھوں پامال کرکے نتائج بدسے دوچار ہے۔۱۰

سیّد قطب شہید بہت واشگاف انداز میں کہتے ہیں کہ: جاہلی قیادت سے انحراف لازم ہے اور مسلمان محض نظریاتی مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ وہ عملی مسلمان ہوتاہے۔ جس لمحے کوئی شخص کلمۂ شہادت اداکرتاہے وہ بالفعل جاہلی اجتماع سے اپنی وفادریوں کا رشتہ کاٹ لیتاہے۔ اس کا فرض بن جاتاہے کہ وہ جاہلی قیادت سے بغاوت کرے، خواہ وہ قیادت کسی بھیس میں ہو ، کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، معاشی اور معاشرتی قیادت ہو، جیسا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی، اسے اپنی تمام تر وفاداریاں    نئی اسلامی جماعت، خدا شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔ مسلم معاشرہ اس انقلابی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔۱۱

عیسائیت سے تصادم

سیّد مودودی کا نقطۂ نظر مغرب کے متعلق بالکل واضح ہے۔ وہ مغرب کی مادہ پرستی اور الحاد کی تاریخ کو مذہب کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ صراحت کرتے ہیں کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی نے ہی اس تہذیب کو پیداکیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کلّی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غور وفکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و بُرہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے، مگر سوے اتفاق سے نشاتِ جدیدہ کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رُونماہوئی تو اس تحریک کا مقابلہ     ان عیسائی پادریوں سے ہوا، جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ وحکمت کی بنیادوں پر قائم کررکھاتھا۔ جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہوجائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر   انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں، جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔۱۲

سیّد مودودی لکھتے ہیں کہ: آغاز میں لڑائی حریتِ فکر کے علم برداروں اور مذہبی پیشوائوں کے درمیان تھی، مگر بہت جلد یہ لڑائی مسیحیت اور آزاد خیالی کے درمیان ٹھن گئی۔اس کے بعد نفسِ مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِّمقابل قرار دیاگیا اور نئے دور کے اہل ِحکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعیت کے خلاف ایک تعصب پیداہوگیا،جو عقل واستدلال کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کانتیجہ تھا۔

’’مغربی فلسفہ اور سائنس دونوں نے ابتداے سفر میں ’نیچریت‘ کو خدا پرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم طبیعیت سے بالا ہر فکر اور نظریہ ان سے غائب ہوگیا اور سائنس، نیچریت کا ہم معنی قرار پاگئی‘‘۔۱۳ سترھویں صدی میں فلسفہ اور سائنس نے کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیاتھا۔ کوپرنیکس (Copernicus)، کپلر(Kepler)،گیلیلیو(Galileo)سب خدا کے منکر نہ تھے ، مگر الٰہی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اٹھارہویں صدی میں مادہ پرستی، الحاد اور بے دینی سکہ رائج الوقت بن گئی۔   جان ٹولینڈ(Toland)،ڈیوڈہارٹلے(Hartley)،جوزف پریسٹلے(Priestley)، والٹیر (Voltaire)،لامیٹری (La Matrie) ،ہول باخ (Holback) ،کیبانیس(Cabanis) ، ڈینس ڈائیڈیرو(Denis Diderot)،مانیٹسکو (Montesquieu)، روسو (Rousseau) وغیرہ فلاسفہ و حکما نے علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا ، یا اگر تسلیم کیابھی تو اس کی حیثیت محض ایک دستوری فرماں رواے حکومت سے زیادہ نہ سمجھی ، جو نظام کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا۔۱۴

سیّد مودودی اٹھارہویں صدی کے معروف فلاسفہ کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کرتے ہیں۔   ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت(Empiricism)اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism)سے  عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اور مشاہدے و تجربے ہی کو معیار ماننے پر زور دیا۔ برکلے نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا، مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل(Hegel)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism)کو فروغ دینا چاہا ، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant)نے بیچ کی راہ نکالی کہ خدا کی ہستی، روح کی بقا اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میںسے نہیں ہیں، جو ہمارے علم میں آسکیں۔سیّد مودودی کہتے ہیں کہ ’’یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی۔ کیوں کہ عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حدسے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا، تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا، اس سے ڈرنااور اس کی خوش نودی چاہنا، سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا‘‘۔۱۵  اس طرح اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریقِ فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا، وہ لامذہبیت تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔

ڈارون کا نظریۂ ارتقا

سیّد مودودی، ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘کو نیچریت و مادیت کو فروغ دینے والا سب سے مدلل و منظم علمی نظریہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و فلسفہ میں مادہ پرستی اپنے اوج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ فوگت(Vegt)، بوخنر(Buchner)، سولیے (Czelle)، کومت(Comte)، موبشات (Mobechoute)وغیرہ حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کو مرکزی حیثیت دی تھی اور اس کے سواہر شے کے وجود کو باطل قرار دے دیاتھا۔ جان اسٹورٹ مل فلسفے میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utilitarianism)کا وکیل اور ترجمان ہے۔ اسپنسر (Spencer)فلسفیانہ ارتقا اور نظام کائنات کے خود بخود پیداہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رُونما ہوجانے کے نظریے کا مؤید ہے ۔ حیاتیات(Biology)، عضویات (Physiology)، ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشاف ، عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کردیاتھا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے اور آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے اور آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے ،مگر ڈارون کی کتاب ’اصل الانواع‘(Origin of Species)  ۱۸۸۹ء میں پہلی بار شائع ہوئی تو اس نے مغربی فکر و سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکردیا ۔۱۶ سیّد مودودی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے، جو انیسویں صدی کے سائنٹی فک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا، اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی، تنازع للبقا، بقاے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۷

قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت سیّد مودودی بار بار تخلیق انسانی کے قرآنی نظریے کی تشریح کرتے اور ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا رد کرتے ہیں۔ سورۂ اعراف آیت ۱۱ کی تفسیر میں وہ تخلیق انسانی کے خدائی منصوبے کے مراحل بیان کرتے ہیں: ابتداے تخلیق، صورت گری اور پھر فرشتوں کو حکم کہ آدم کو سجدہ کریں۔۱۸  اس کے بعد وہ صراحت کرتے ہیں کہ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کاپوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری کیسے ہوئی؟ اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟:

لیکن بہرحال، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے، جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین، سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رُوسے انسان، غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتاہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچاہے، اور اس تدریجی ارتقاکے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ’نوع انسانی‘ کا آغاز تسلیم کیاجائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔ وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا، اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔۱۹

سورۂ حجر میں تخلیق انسانی کے مراحل کا بیان اس طرح ہے:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸ فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۲۹ (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹)  پھر یاد کرو اس موقعے کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیداکررہاہوں۔ جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتاہے کہ ’’انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتاہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیاہے، جیسا کہ ڈاروینیت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا   براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُونٍ کے الفاظ میں بیان فرمایاہے‘‘۔ حمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اٹھ آیاہو۔ مسنون  کے دو معانی ہیں: ایک معانی ہیں متغیر، منتن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی مٹی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیداہوگئی ہو۔ دوسرے معانی ہیں مصور اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی، جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں، جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایاگیا تھا، جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی‘‘۔۲۰ قرآن کی یہ صراحت اس نظریۂ ارتقا سے براہ راست متصادم ہے، جو ڈارون نے تخلیق کی ہے۔

زور آور ہی کے جواز کا   نظریہ

سیّد مودودی نے ترجمان القرآن محرم،صفر ۱۳۶۳ھ / جنوری ، فروری ۱۹۴۴ء میں ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘ کی علمی اور عقلی حیثیت سے کم زوریاں واضح کیں اور ثابت کیا کہ فلسفے، اخلاق اور علوم تمدن واجتماع میں جب یہ تخیّل برگ و بار لایا تو اس نے انسان کو برباد کرنے کے لیے شدید فتنے پیداکیے۔ تمام انسان دشمن نظریات میں ڈاروینیت کی حیثیت سرتاج کی ہے۔ اس نظریے نے: ’’انسان کے سامنے پورے نظام کائنات کو ایک رزم گاہ کی حیثیت سے پیش کیاہے، اور اس کو بتایاہے کہ نزاع، جنگ اور کش مکش ہی اصل تقاضاے فطرت ہے۔ اس کش مکش میں جو  زورآور ہے وہی زندہ ، صالح اور کامیاب ہے اور جو کم زور ہے وہی غیر صالح ہے اور اس کا مٹنا اور  فنا ہوجانا قوانینِ فطرت کا ایک ایسا نتیجہ ہے جس کو برحق ہونا ہی چاہیے۔ آج یہ اسی طرزِ فکر کی ’برکات‘ ہیں کہ انسانی افراد سے لے کر طبقات، اقوام اور ممالک تک، سب کے سب دنیا کو حقیقت میں ایک رزم گاہ بنائے ہوئے ہیں اور فطرت کا تقاضا انھوں نے یہی سمجھا ہے کہ جو طاقت ور ہے  وہ کم زور کو فنا کردے۔۲۱

سیّد مودودی ’نظریۂ ارتقا‘ کو واقعہ اور حقیقت سے دور قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے علمی واستدلالی مرتبے کو چیلنج کرتے ہیں۔ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ علم الحیات کا مشکل ترین مسئلہ ،جس میں سائنس کے علما اُلجھ رہے ہیں ، وہ دراصل یہ سوال ہے کہ زندگی کا مبدأکیاہے؟ قرآن زندگی کا مبدأ،    حکم خداوندی کو قراردیتاہے ، لیکن مغرب کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کے تمام فلاسفہ اور سائنس داں کسی   فوق الفطرت ہستی کی کارفرمائی اور کاری گری کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اس کارگاہِ فطرت کے اندر ہی انھیں اس کی کارفرما طاقت کا بھی کہیں سراغ مل جائے۔ اس کے نتیجے میں انھیں قیاس آرائیوں سے کام لینا پڑا۔ قیاس آرائی ہی سے انھوں نے اس سوال کو بھی سلجھانا چاہا کہ حیات میں اس تنوّع کی وجہ کیاہے؟ اور مختلف انواع کے درمیان تفاضل کا سبب کیاہے؟ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ ڈارون نے اگر قرآن کے دیے ہوئے نقطۂ آغاز سے تحقیق و تجسّس کے سفر کی ابتداکی ہوتی تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ زندگی کی شکلوں میں تنوّع ، جو ایک بے نظیر ترتیب کے ساتھ واحد الخلیہ بھنگے(Unicellular Molecule) سے لے کر انسان تک میں نظر آرہاہے ، یہ ایک حکیم کے منصوبے کا نتیجہ ہے ، جو مختلف انواع کی زندگی کے لیے مناسب ماحول اور سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد انھیں ان کی مخصوص نوعی خصوصیات کے ساتھ بتدریج وجود میں لاتا چلاگیاہے اور جن انواع کی ضرورت اس کے خاکے میں باقی نہیں رہی ہے انھیں مٹاتابھی رہاہے۔

قرآن کے نظریۂ ابتدئے تخلیق سے اعراض و انکار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ: ’’یورپ نے، جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلارہاتھا، لپک کر [ڈارون کے] یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صر ف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں، بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا۔ حالاں کہ علمی و عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں  اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو منظر(Phenomena) کی ممکن توجیہات میں ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔۲۲ سیّد مودودی کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے ایک سنجیدہ قاری کے سوال کے جواب میں لکھاگیا تھا ،جو ’ڈارون کا نظریۂ ارتقا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔۲۳

فلسفۂ جدلی مادیت

جدلی مادیت کا بانی ہیگل  (۱۷۷۰ء-۱۸۳۱ء) ہے، جس کا فلسفۂ تاریخ، تہذیب جدید کی گم راہیوں اور فکری و نظری فتنوں کا سر چشمہ ہے، سیّد مودودی کی دل چسپی اور مطالعے کا موضوع ان کے عہد نوجوانی میں بنا۔’ہیگل اور مارکس کا فلسفۂ تاریخ‘ ان کا وہ مضمون ہے جو ترجمان کے شمارے جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸ھ؍ اگست ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔

سیّد مودودی نے ہیگل کے فلسفۂ تاریخ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور، تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتاہے اور تاریخ کا ہردور ایک وحدت ، ایک کل اور ایک زندہ جسمانی نظام ہوتاہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی ، معاشی،تمدنی واخلاقی، علمی و عقلی اور مذہبی تصورات میں ایک ہم آہنگ کلّیت ہوتی ہے۔ جب   ایک دور ترقی کے آخری مدارج کو پہنچ جاتاہے اور اس دور کے اصول و نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچادیتے ہیں، تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پاکر نئے افکار و نظریات اسی رُوبۂ زوال کے طبیعی تقاضے سے پیداہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ایک مدت تک قدیم و جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے، بالآخر کسر وانکسار کے بعد ایک نئی عنصری تہذیب وجود میں آتی ہے اور تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ باہمی کش مکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ارتقائی عمل کو ہیگل اپنی اصطلاح میں جدلی عمل (Dialectical Process) کہتاہے۔اس مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ کے عمل میں دعویٰ (Thesis)، جواب دعویٰ (Antithesis) اور پھر ایک مرکب (Synthesis)کا ظہور اس فلسفے کی رُو سے  ایک کُلّی اجتماعی عمل ہے ،جس میں تاریخ کے بڑے سے بڑے آدمی ، نام ور ترین تاریخی اشخاص تک اس جدلی کھیل، اس کل کی کش مکش باخود میں شطرنج کے پیادوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دریا کے طوفانی بہائو میں ’خیالِ مطلق‘ ایک شاہانہ شان کے ساتھ بے روک ٹوک تاریخ کی شاہراہ پر خود ہی ’دعویٰ‘ اورخود ہی ’جواب ِدعویٰ‘ اور بالآخر خود ہی ’امتزاج بین الاضداد‘ کرتاہوا بڑھتا چلاجارہاہے۔’عقلِ کُل‘ یا ’جانِ جہاں‘ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اشخاص اور گروہوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہے کہ اس تاریخی ڈرامے میں وہ رہ نمایانہ اور کارفرمایانہ پارٹ اداکررہے ہیں، حالاں کہ دراصل ’جانِ جہاں‘ انھیں خود اپنی تکمیل ذات کے لیے استعمال کررہی ہے‘‘۔۲۴

سیّد مودودی یہاںایک حاشیے کا اضافہ کرتے ہیں کہ: ہیگل دراصل خدا کو ’عقل کُل‘ (World Reason) ’جانِ جہاں‘ (World Spirit)، ’روحِ مطلق‘ (Absolute Spirit)اور ’فکرمطلق یا خیالِ مطلق‘(Absolute Idea)وغیرہ ناموں سے یاد کرتاہے۔ اس کے نزدیک انسانی تمدن کے ارتقا میں دراصل رُوحِ کل، یعنی ذات خداوندی خود ترقی کررہی ہے۔ خدا اس پر دے میں آپ اپنی نمایش کررہاہے، اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے، تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کررہاہے۔رہا انسان تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کہتے ہیں کہ کارل مارکس(۱۸۱۸ء-۱۸۸۳ء)نے ہیگل کے جدلی فلسفے کو تو تسلیم کرلیا ،مگر روح یا فکر کے تصور کی جگہ اس نے معاشی اسباب و محرکات کو دے دی۔۲۵

سَوَاءَ السَّبِیْل کی تفسیر

سیّد مودودی سورئہ مائدہ، آیت ۱۲ کی تفسیر کرتے ہیں تو سَوَاءَ السَّبِیْلِ‘ کی بڑی ایمان افروز تشریح کرتے ہیں ۔ زندگی کے بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رجحانات کے ساتھ، اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ اور    اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیاگیاہو۔ اسی کو قرآن صراط مستقیم اور  سَوَاءَ السَّبِیْلِ کہتاہے۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک  بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے اور جس نے اس راہ کو گم کردیا، وہ یہاں غلط ہے، غلط رو اور غلط کار ہے اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے۔ سیّد مودودی اس دل نشیں تفسیر کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:

’’موجودہ زمانے کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے درپے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جارہی ہے، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ’جدلی عمل‘ (Dialectical Process)انسانی زندگی کے ارتقا کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis)اسے ایک رُخ پر بہالے جائے، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے ’امتزاج‘ (Synthesis) سے ارتقاے حیات کا راستہ بنے ۔ حالاں کہ دراصل یہ ارتقا کی راہ نہیں ہے، بلکہ بدنصیبی کے دھکے ہیں، جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقا میں بار بار مانع ہورہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتاہے اور اسے کھینچے لیے چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ  سَوَاءَ السَّبِیْلِ سے بہت دُور جاپڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بے انصافی ہورہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کردیتی ہیں، اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کرکے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کرتی ہے۔جوں جوں سَوَاءَ السَّبِیْلِ قریب آتی ہے، ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیںوجود میں آتی ہیں، جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاءَ السَّبِیْلِکے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا، بلکہ اپنے زور میں اُسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہوجاتی ہے، اور نتیجے میں ایک دوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انھوں نے سَوَاءَ السَّبِیْلِکو دیکھ لیاہوتا تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ انسان کے لیے ارتقا کا صحیح راستہ یہی سَوَاءَ السَّبِیْلِ ہے ،نہ کہ خطِ منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا‘‘۔۲۶

مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ

ہیگل کی جدلی مادیت کے فلسفے کو کارل مارکس نے معاشیات پر منطبق کیا اوروہ فلسفہ تراشا جسے تاریخی مادیت(Historical Materialism) کہا جاتاہے۔ سیّد مودودی نے اس معاشی جبریت کے فلسفے پر کاری ضرب لگائی۔ اس فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ: ’’مارکس کے نزدیک تاریخ کے دوران میں جدلی عمل اس طرح رونما ہوتاہے کہ جب ایک معاشی نظام کے تحت ایک طبقہ اسباب زندگی کی تیاری و فراہمی اور ان کی تقسیم پر قابض ہوکر دوسرے طبقوں کو اپنا دست نگر بنالیتاہے، تو رفتہ رفتہ ان دبے ہوئے طبقوں میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔وہ معاشی پیداوار اور اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات کے ایک نئے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ان کے مفاد سے زیادہ مناسبت رکھتاہو۔اب دونوں میں کش مکش شروع ہوتی ہے اور اس کش مکش میں حاضر الوقت نظام کے قوانین، مذہب ، اخلاق اور تصورات کا پورا مجموعہ اسی نظام کی حمایت کرتاہے، جو اس دور میں پہلے سے قائم تھا۔ ایک مدت تک طبقاتی نزاع (class struggle) برپارہتی ہے۔ آخر کار اس نزاع کے نتیجے میں معاشی نظام بدل جاتاہے اور اس کے ساتھ ہی پرانے قانونی، مذہبی، اخلاقی اور فلسفیانہ تصورات کو بھی نئے تصورات کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے‘‘۔۲۷

سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی اس مادی تعبیر تاریخ میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا اور تاریخ کے تمام تغیرات کا محور اسباب ِمعیشت کی فراہمی اور تقسیم کے سوال کو قرار دیاگیاہے۔اس میں مذہب ، اخلاق اور انسانی تہذیب و تمدن کے لیے مستقل اور ازلی وابدی صداقتوں اور اصولوں کا انکار کیاگیاہے۔ خود غرضانہ کش مکش کو تقاضاے فطرت قرار دے کر باہم آویزش، قتال و فساد، کی معاشی توجیہہ کی گئی ہے اور انسانی تاریخ کے ارتقا کا بس یہی ایک راستہ بتایاگیاہے۔

سیّد مودودی صاف کہتے ہیں کہ جو لوگ [اس فکر پر مبنی] سوشلزم اور اسلام میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے ہیں: ’’ان سے عرض کروں گا کہ ایک مرتبہ وہ مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ اور اس کے منطقی نتائج پر اچھی طرح غور کریں، اور پھر سوچیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنے کے بعد کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی کون سی گنجایش باقی رہ جاتی ہے؟ ہرشخص کو عقیدے کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ وہ اگر مارکسی نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں تو اسے ضرور اختیار کریں، مگر انھیں کم از کم اپنے دماغ کو تو صاف رکھنا چاہیے‘‘۔۲۸

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:

اگر ہیگل اور مارکس نے قرآن کو پڑھا ہوتا، تو انھیں انسان کی حقیقت کو سمجھنے اور ارتقاے تہذیب انسانی کے اساسی قانون کو دریافت کرنے میں وہ ٹھوکریں نہ لگتیں، جو انھوں نے خود گمان اور قیاس کے تیر تکے لڑانے کی وجہ سے کھائی ہیں۔ قرآن کا علم الانسان اور فلسفۂ تاریخ ان تمام مسائل کو نہایت صحیح اور تشفی بخش طریقے سے حل کرتاہے، جن میں یہ لوگ اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔۲۹

اس کے بعد سیّد مودودی بتاتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے انسان محض اُس حیوانی وجود کا نام نہیں ہے جو بھوک ، شہوت، حرص، خوف،غضب وغیرہ داعیات کا محل ہے ، بلکہ دراصل انسان وہ روحانی وجودہے جو اس اوپر کے حیوانی خول کے اندر رہتا ہے اور اخلاقی احکام کا محل ہے۔ اسے دوسرے حیوانات کے برعکس عقل ، تمیز، اکتسابِ علم اور فیصلے کی قوتیں دے کر ایک حدتک خوداختیاری عطاکی گئی ہے۔ باہر کا حیوان اس اندرونی انسان کو خادم اور آلۂ کار کے طور پر دیاگیاہے۔ یہ خادم جاہل ہے اور اس کے پاس صرف جسمانی مطالبات اور خواہشات ہیں۔ یہ اندر کے انسان کو اپنا خادم اور آلۂ کار بناناچاہتاہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان کش مکش ہوتی ہے اور پوری انسانی تاریخ اسی کش مکش کا مرقع ہے۔ باہر کا حیوان اندر کے انسان کو اپنا تابع بناکر ظلم و عدوان، فحشا و منکر، شہوت ولذتِ نفس کی راہ پر لگانا چاہتاہے۔ اس کی خاطر کچھ ٹیڑھے راستے بھی پیداکرلیتاہے، جیسے رہبانیت، ترکِ دنیا، نفس کشی اور فطری ضروریات سے انحراف، تمدن اور اجتماعی زندگی سے فرار وغیرہ۔

تاریخ کے دوران میں انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا ایک ایسے خطِ منحنی کی شکل میں ہوتا رہاہے جو بار بار ایک خطِ مستقیم کے گرد چکر کاٹتاچلاجاتاہے۔ اس فطری راستے کو قرآن نے صراطِ مستقیم، رشد ، ہدایت،سَوَاءَ السَّبِیْلِ اور سبیلِ ربّ وغیرہ سے تعبیر کیاہے۔ انسانیت ابتدا میں فطری حالت پر تھی، پھر انسانوں میں اپنی جائز حد سے گزرنے کے میلانات پیداہوئے:

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا  ط  (یونس ۱۰:۱۹)ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے۔

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  ۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ ۝۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ ۝۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳)ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے،(پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رُونماہوئے)۔تب اللہ نے نبی بھیجے ،جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے۔ اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے،ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رُونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا)___ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنھیں حق کا علم دیاجاچکاتھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑکر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے___ پس، جو لوگ انبیا ؑپر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیاتھا۔ اللہ جسے چاہتاہے راہِ راست دکھادیتاہے۔

آگے سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ: ’’ہیگل جن کو ’دعویٰ‘ اور ’جواب دعویٰ‘ کہتاہے وہ وہی انتہا پسندانہ میلانات ہیں، جو کبھی خط مستقیم کے اِس طرف اور کبھی اُس طرف انسان کو کھینچ کرلے جاتے ہیں، اور وہ جسے ترکیب و امتزاج سے تعبیر کرتاہے، وہ بعینہٖ وہ نقطے ہیں، جہاں یہ خطِمنحنی صراطِ مستقیم کو کاٹتاہے۔ ہیگل اور مارکس دونوں کو تاریخ میں یہ خطِ منحنی تو نظر آگیا، مگر وہ اس خطِ مستقیم کو نہ دیکھ سکے، جو اَزل سے ابد تک سیدھا کھینچا ہواہے اور اس خطِ مستقیم کا علم صرف انبیا علیہم السلام کو حاصل تھا۔ انھوں نے اس سیدھے خط پر انسانی تہذیب کو عملاً قائم کرکے دکھادیا‘‘۔۳۰

مغربی تعلیم کا بنیادی نقص

سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا ایک اہم پہلو جدید نظام تعلیم اور اس کے اثرات کا تجزیہ ہے۔ ان کے یہ تنقیدی مضامین کتاب تعلیمات میں شامل ہیں۔ اگست۱۹۳۶ء میں ان کا معرکہ آرا مضمون ’ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص‘ ترجمان القرآن میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے سالانہ اجلاس اپریل ۱۹۳۶ء میں زیر بحث ایک اہم مسئلے کے سنجیدہ تجزیے پر مشتمل تھا۔ اے ایم یو کورٹ نے دینیات کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح اور طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیداکرنے کی ضرورت پر مفصّل گفتگو کی تھی۔ سیّد مودودی نے جدید تعلیم کے بنیادی نقص پر انگلی رکھی اور کہا کہ دینیات کی کچھ کتابیں نصاب میں داخل کردینے سے یونی ورسٹی، مسلم یونی ورسٹی نہیں بن سکتی۔ یونی ورسٹی کے قیام کے بعد اس کے ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیاتھی ؟اور ان کا رہرو پشت بہ منزل جا کدھر رہاہے؟ انھوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:

اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیرکٹر ، اسلامی اسپرٹ ، اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعدادشاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں، اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیداکی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قواے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے، یاکم از کم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔۳۱

انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اربابِ حل وعقد کو ۱۹۳۶ء میں متنبہ کیا کہ جدید [غیرمنقسم] ہندستان میں ایک بالکل غیر متوقع اور ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا پرانا جہاز، دورِ جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں‘‘۔۳۲پس، اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرایے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں، جس کے آلات اور کُل پرزے جدید ترین ہوں، مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو، مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینیر اور کپتان اور دید بان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں‘‘۔۳۳

علی گڑھ تحریک کا وقتی مقصد ، سیّد مودودی کے الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہوجائیں اور تعلیم جدید سے بہرہ مندہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں: ’’ مگر اس تحریک نے ایک حدتک ہماری دنیا تو ضرور بنادی، مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑدیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیداکیے۔  اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’اینگلو انڈین‘ پیداکیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’محمڈن‘ اور’انڈین‘ کا تناسب بس براے نام ہی ہے‘‘۔۳۴

سیّد مودودی نے مشورہ دیا کہ: ’’اگر فی الواقع علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بناناہے تو :

                ۱-            مغربی علوم و فنون پر نظر ثانی کیجیے اور طلبہ کے سامنے انھیں تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نقطۂ نظر سے ہو ، تاکہ وہ ہر قدم پر ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔

                ۲-            علوم اسلامیہ سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کیجیے اور اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کی تعلیم دیجیے۔ ان کی اصل اسلامی اسپرٹ دلوں میں اتاریے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیداکیجیے۔

                ۳-            اساتذہ میں سے جو ملحد اور مغرب زدہ ہیں، انھیں یونی ورسٹی سے رخصت کیجیے۔۳۵

 ایم اے او کالج امرتسر کے جلسۂ ’تقسیم اسناد‘ (قدیم اصطلاح کے مطابق ’جلسۂ دستاربندی‘) میں سیّد مودودی کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی ،تو اپنے خطبے میں فاضل مدبر نے بڑی صراحت اور سنجیدگی و دل سوزی کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں کو ’قتل گاہ‘ قراردے دیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں، بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیمی کو ’درس گاہ‘ کے بجاے ’قتل گاہ‘ سمجھتاہوں۔ میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں  قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں، جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جارہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کرچکاہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگارہنے نہیں دیاہے۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں ۔ میں یہاں اس صداقت نامۂ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیاہوں، بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتاہوں، وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل عام ہوچکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہاہے‘‘۔۳۶

ضرورت ہے کہ سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا مطالعہ اس کے وسیع پس منظر میں کیا جائے اور سیاسیات، سماجیات اور معاشیاتِ مغرب پر ان کی وقیع تحریروں کو بھی موضوع گفتگو بنایاجائے۔

حواشی و مآخذ

۱-            برصغیر سے باہر عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں مغربی فکر و فلسفہ اور نظام حیات کو جن مفکرین و مصلحین نے نشانۂ تنقید بنایا ان میں: مصر کے امیر شکیب ارسلان(۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)،الجزائر کے امیر عبدالقادر (۱۸۰۷ء-۱۸۸۳ء)، ترکی کے بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۰ء-۱۹۶۰ء)، ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) اور آیت اللہ روح اللہ خمینی( ۱۹۰۲ء-۱۹۸۹ء) بہت اہم ہیں۔ اخوان المسلمون عالم عرب کی طاقت ور اور مؤثر ترین تحریک اسلامی بن کر ابھری۔ اس کے مؤسس حسن البنا شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) اور مفکرسیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) اور جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائر کے بانی شیخ عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء- ۱۹۴۰ء) نے مغربی استعمار کے خلاف منظم تحریکیں چلائیں اور اپنے زیر اثر علاقوں میں مسلمانوں کو مغرب کی فکری و علمی غلامی سے نکالا۔ مالک بن نبی (۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء) نے فرانسیسی استعمار پر کاری ضرب لگائی۔

۲-            دیکھیے: پروفیسر خورشید احمد کا مضمون’سیّد مودودی :مفکر ، مصلح اور مدبر‘،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،   ربیع الاول ۱۴۲۵ھ؍مئی ۲۰۰۴ء، ص ۱۸۷۔۲۳۲(اشاعت خاص ۲ ، بہ سلسلہ صد سالہ یوم ولادت   مولانا مودودی ۱۹۰۳ء-۲۰۰۳ء) مدیر اشاعت خاص : سلیم منصور خالد۔پروفیسر خورشید احمد نے اس مضمون میں سیّد مودودی کے علمی وتحریکی کاموں کے تین اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے: (الف)فکر اسلامی کی تشکیلِ نو(ب) اُمت کی کم زوری اور زوال کے اسباب کا تعیین اور اصلاحِ احوال کے لیے خطوطِ کار کی نشان دہی(ج)اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرِنو کی جدوجہد کا عملی آغاز۔ اوّلین پہلو کی مزید وضاحت ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء)کے مضمون’مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب‘ سے ہوتی ہے، اور وہ ہے فکر اسلامی کی تشکیل سے پہلے غیر اسلامی افکار و رجحانات پر تنقید و تطہیر۔ سیّد مودودی نے مغربی افکار و نظریات کا وسیع مطالعہ کیاتھا، لیکن جن پہلوئوں کا انھوں نے زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیاتھا وہ پانچ تھے:(الف) سیاستِ مغرب(ب) معاشیاتِ مغرب(ج) مغربی قانون (د)مغربی فلسفہ (ہ)مغربی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ۔دیکھیے: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد، ادارہ معارف اسلامی لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۲۳۸-۲۵۷

۳-            دیکھیے: ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری (۱۹۳۱ء-۲۰۱۲ء)کا مضمون’کلامی مسائل میں مولانا مودودی کا موقف‘ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ، اپریل۔ جون ۱۹۹۷ء۔ فاضل مضمون نگار نے امام غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے تجدیدی کارناموں کا مولانا مودودیؒ سے تقابل کیاہے۔ بعض پہلوئوں سے اسلاف کا علم کلام مودودی کی خدمات پر حاوی اور بھاری ہے، مگر مولانا مودودی کے افکار و عطیات کے بعض پہلو نئے ہیں اور اسلاف سے زیادہ وقیع اور قابل قدر ہیں، جیسے اسلام کے اجتماعی فکر کی تشکیل کی تفصیلات اور مغربی افکار و نظریات واقدار پر تنقید کا میدان، تفسیر میں تفہیم القرآن کی منفرد کاوش، وحی و نبوت کے تصورات کی وضاحت اور انبیا و رسل کے مشن کی تشریح اور اسلامی نظام زندگی کی دعوت و شہادت اور اقامت کے لیے ایک تحریک کا برپاکرنا۔

۴-            ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘کے عنوان سے مولانا مودودی کا یہ معرکہ آرا مقالہ پہلے ترجمان القرآن جمادی الاخریٰ ۱۳۵۳ھ؍ستمبر ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ بعد میں اسے مصنف کے مجموعۂ مضامین تنقیحات میں شامل کیاگیا۔ پیش نظر تنقیحات  کی اشاعت ۱۹۶۵ء ، ناشر:اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۶-۲۲

۵-            سیّد مودودی، اسلام اور جاہلیت(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اسلامیات، اسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھاگیا۔) ماہ نامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۱ء

۶-            ایضاً ، ص۲۳                          ۷- ایضاً ، ص۲۶

۸-            ایضاً ، ص۲۶، ۲۷                 ۹-  ایضاً ، ص۲۷

۱۰-         سید قطب شہید، معالم فی الطریق،[جادہ و منزل: اُردو ترجمہ خلیل احمد حامدی] ۱۹۸۰ء، ص۷۴

۱۱-         ایضاً ، ص۱۵۳                       ۱۲- تنقیحات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱-۱۲

۱۳-         تنقیحات، ص۱۳،مولانا مودودی مثالیں دیتے ہیں۔ ڈیکارٹ (Descartes، م:۱۶۵۰ء) مغربی فلسفے کا باوا آدم سمجھاجاتاہے۔ وہ ایک طرف خدا کا زبردست قائل ہے، مگر دوسری طرف عالم طبیعیت کے آثار کی میکانکی توجیہہ کی ابتدا اسی نے کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس(Hobbes،م: ۱۶۷۹ء) فوق الطبیعیت کی کھلم کھلا مخالفت کرتاہے اور کسی ایسی نفسی، روحی  یا عقلی قوت کا قائل نہیں جو مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو۔ اسپائنوزا(Sponiza،م: ۱۶۷۷ء) سترھویں صدی میں عقلیت کا سب سے بڑا علَم بردار تصور کیاجاتاہے۔ اس نے مادہ، روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا۔ خدا اور کائنات کو ملاکر ایک کُل بنادیا اور اس کل میں خدا کے اختیارِ مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لایبنز(Leibniz،م: ۱۷۱۶ء) اور لاک(Locke، م:۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے، مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔

۱۴-         تنقیحات،ص۱۴-۱۵      ۱۵-ایضاً،ص۱۵، ۱۷      ۱۶-ایضاً، ص ۱۶-۱۷                 ۱۷-ایضاً، ص ۱۷

۱۸-         قرآن کریم، سورہ اعراف۷:۱۱۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتداکی، پھر تمھاری صورت بنائی،پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو)۔ مولانا مودودی نے تخلیق آدم کے مراحل کی توضیح کے لیے درج ذیل آیات سے بھی استدلال کیا ہے: ص۷۱-۷۲،حجر:۲۸-۲۹،

۱۹-         سیّد مودودی،تفہیم القرآن، جلد دوم، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور ،ص۱۱              ۲۰-ایضاً، ص ۵۰۴

۲۱-         سیّد مودودی،تفھیمات، حصہ دوم، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ڈھاکہ، نومبر ۱۹۶۸ء، ص ۲۸۴

۲۲-         تفھیمات، ص۲۸۰۔ سیّد مودودی علمی و عقلی حیثیت سے نظریۂ ارتقاء کی کج فہمی کو واضح کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ اس نظریے کی حمایت میں تیار کردہ لٹریچر کی ساری بنیاد ’ہوگا‘ پر ہے (یعنی امکانات پر ہے، بجاے حقائق کے)، حالاں کہ سائنس میں اصل قابل اعتبار چیز ’ہے‘ ہے نہ کہ ’ہوگا‘۔ میں پوچھتاہوں کہ اگر سائنس میں ’ہوگا‘ بھی کوئی اہمیت رکھتا ہے تو ایک ’ہوگا‘ اور دوسرے ’ہوگا‘ میں فرق کیوں ہو؟ خصوصاً، جب کہ ایک ’ہوگا‘ دوسرے ’ہوگا‘ سے کچھ زیادہ ہی لگتاہوا ہوگا۔ جب آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ مشہودات کی توجیہہ میں ’ہوگا‘ کو بھی مان لیں تو ڈارون کے ’ہوگا‘ سے میرا یہ ’ہوگا‘ کچھ زیادہ ہی لگتاہواہے کہ زندگی کا آغاز اور زندہ اشیا کا تنوع اور ان کا تفاضل سب کا سب ایک حکیم کے امر اور حکیمانہ تدبر سے ہوا ہوگا۔ میرا یہ ’ہوگا‘ ڈارون کے ’ہوگا‘ سے زیادہ بہتر طریقے پر تمام مشہودات کی توجیہہ کرتا ہے،کسی سوال کو لاجواب نہیں چھوڑتا۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے حق میں وجہ ترجیح یہ ہے کہ  اُس طرف تو آدمی صداقت کے ساتھ ’ہوگا‘ سے زیادہ کچھ کہنے کے قابل نہیں ہے، مگر اس طرف بکثرت صالح ترین انسان ،جو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پائے گئے، پورے زور کے ساتھ اس حقیقت کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ ’ہے‘۔ تفھیمات، دوم،ص ۲۸۳۔

۲۳-         تفھیمات، دوم،جنوری، فروری ۱۹۴۴ء،ص۲۷۷-۲۸۴۔               ۲۴- ایضاً، ص۲۶۴-۲۶۵

۲۵-         قرآن کریم، سورۂ مائدہ۵:۱۲ کا آخری حصہ ہے: فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ  (مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سَوَآءَ السَّبِیْلِ گم کردی۔)

۲۶-         تفہیم القرآن ، جلد اوّل ،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۴۵۳-۴۵۴

۲۷-تفھیمات، دوم، ص ۲۶۶   ۲۸- ایضاً،ص۲۶۹            ۲۹-ایضاً،ص۲۷۲

۳۰-         ایضاً، ص۲۷۵، ۲۷۶۔یہاں فاضل مصنف نے درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے :  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) (ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) اُتاری، تاکہ لوگ عدل کے طریقے پر قائم ہوں۔)

۳۱-         تعلیمات، مکتبہ جماعت اسلامی ہند، رامپور، طبع دوم، مئی ۱۹۵۰ء، ص۹

۳۲-         ایضاً، ص ۱۶-۱۷                   ۳۳- ایضاً ،ص۱۷   ۳۴-  ایضاً،ص۱۸

۳۵-         تعلیمات، ص۲۰-۲۱۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ’مجلس اصلاح نصاب دینیات‘ نے سیّد مودودی سے ایک جامع نصاب بنانے کی گزارش کی ۔ اس کے جواب میں سیّدمودودی نے’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے مضمون ترجمان القرآن میں شائع کیا۔ جس میں اسلامی تعلیمی پالیسی کی وضاحت کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ تجاویز دیں۔ تفصیل دیکھیے: ص ۳۳-۴۳

۳۶-         سیّد مودودی، تفھیمات، دوم، ص ۲۸۶-۲۸۷

سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔

بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک میں جو لیڈرشپ قائم ہے، وہ کسی عنوان سے بھی مسلم عوام کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حکومتیں اگر سو برس بھی زور لگائیں تو بھی مَیں ان سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ مسلم عوام کے عقائد اور ان کے تصورات، تہذیب و تمدن اور ان کی اخلاقی قدروں کو تبدیل کرسکیں گی، اور یہ توقع بھی نہیں رکھتا کہ مزید سو برس میں وہ کسی دوسری تہذیب کی قدروں اور تصورات پر قوم کی تعمیرِ سیرت کرسکیں گی۔

اس ڈگر پر چلنے کا نتیجہ اس سے زائد کچھ نظر نہیں آتا کہ مسلمان قوم کی کوئی سیرت اور کردار نہ بن پائے اور اخلاقی اعتبار سے وہ بالکل دیوالیہ ہوجائے اور کوئی مادی ترقی بھی نہ کرسکے۔ ایک بے سیرت قوم خواہ کتنے ہی ذرائع و وسائل رکھتی ہو ، درحقیقت کوئی مادی ترقی نہیں کرسکتی اور کسی حکومت کی کوئی پالیسی خواہ وہ خارجی ہو یا داخلی، ایسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی، جب کہ پوری قوم کا ضمیر پورے اطمینان کے ساتھ اس کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان ملکوں کے مستقبل کا انحصار صرف ایک صحیح قسم کی اسلامی لیڈرشپ پر ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ قیادت میسر نہ آئی تو ہم سب کو بہت ہی بُرا دن دیکھنا پڑے گا۔


سوال : اس لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟

جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی۔ اس کو زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے، تو بالکل ایک فطری ارتقا کے طور پر مسلمان ملکوں میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلمان ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا، تو آخرکار اقتدا ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔


سوال : یہ صاف نظر آتا ہے کہ مسلمان جمہور خود اسلام کے راستے سے بہت دُور ہیں۔ انھیں اسلام سے جذباتی لگائو تو ہوسکتا ہے مگر غالباً تربیت کی کمی کی وجہ سے ان میں    وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے، تو پھر جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروے کار آسکے گی؟

جواب :ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اگرچہ ان میں جہالت بھی بہت پھیلی ہوئی ہے، لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں۔ کسی بُرے سے بُرے اور بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں (values) ابھی وہی ہیں، جو ایک مسلمان کی ہونی چاہییں۔ اپنی تمام بدکرداریوں کے متعلق اسے یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے بُرا کر رہا ہے، بُرائی کو بھلائی کہنے والے آدمی مسلم معاشروں میں آپ کو بہت ہی مشکل سے ملیں گے۔

اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں، اور ان کا فلسفۂ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو بُرا کہتا ہے، وہ انھیں اچھا سمجھتے ہیں اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ ’’انسانی تاریخ میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا‘‘۔ ایسے استاد بھی ہماری درس گاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیاے کرام ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی   حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اُونچے سرکاری مناصب پر بلاتامل ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں، جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رقص و سُرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے درمیان کوئی بھی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو تو مسلمان عوام کے انداز و اطوار کو بغیر کسی جبر کے، صرف چند برسوں میں بالکل تبدیل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں، صرف ان کو اُبھار کر عملی شکل میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔


سوال : خدا کرے! آپ کا حُسنِ ظن درست ہو ، حالات تو ایسے نہیں۔

جواب : ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقامت ِ دین اور ظہورِ مہدی


سوال : کیا اقامت ِ دین ایک فرض ہے کہ جسے ہر زمانے اور ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟

جواب : قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میںاس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بس اسی حد تک ہے کہ مہدی آئیں گے اور دنیا کو، جو  ظلم سے بھر چکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے۔اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں، اس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے دین قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔

یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمد سے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یااسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمے سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتا کہ ہم دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔

رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کر رہیں۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاؑ کا فرض یہ بیان کیا گیا کہ: اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط ’’اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ پورے دین پر اسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نبی برحق کے مقصد بعثت سے مختلف بھی ہوسکتا ہے؟(ہفت روزہ آئین)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱)  خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔

یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا   نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:

وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔

حضورؐ کی بعثت کے وقت دُنیا کا نقشہ

 تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اِس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اِس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔

پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رُومی اثر کے زیرنگیں۔ پوری عرب دُنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکا اور روس کی ہے۔

اِس حالت میں، جب کہ دُنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کر رہے تھے، بٹی ہوئی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اُٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا۔ ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔

جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو دوسری تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔

توحید کی دعوت ،  آخرت کی جواب دہی

آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے  سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عرب کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یاایھا الناس کہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی کوئی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ، یعنی توحید خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ: اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے، اور اصل اصلاح یہ ہےکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اگر یہ خرابی دُور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔

دوسری بات جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو توجہ دلائی، وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا تاکہ ہرفرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔

اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شُتربے مہار بنے رہے؟

آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھاکھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ: اگر خدا اور آخرت کا تصور اِنسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں ، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔

زندگی کا عملی پروگرام

  • نماز: عملی پروگرام میں سب سے پہلی چیز نماز ہے۔ اس کی سب سے اوّل تاکید کی گئی۔ نماز سے مقصودیہ تھا کہ انسان کے دل و دماغ میں یہ چیز رچ بس جائے کہ وہ اللہ کا مخلص بندہ ہے، اسے صرف اللہ ہی کے سامنے جھکنا اوراُس کی اطاعت کرنی ہے۔
  • زکوٰۃ :پھر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی ہدایت کی گئی تاکہ آدمی کے دل میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہو۔ روزے کی ہدایت بعد میں آئی ہے۔ نماز کے بعد جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑا فتنہ مال کی محبت ہے۔ قرآن میں اِسی لیے آیا ہے:

اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ O حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ O (التکاثر۱۰۲:۱-۲) تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا اُترو گے۔

یعنی آدمی کا دل دُنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اِسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔ اگرچوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔ اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ و ہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیوں کہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے:

وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO(الذّٰریٰت۵۱:۱۹) اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔

یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ اِنسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دُنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔

اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اِصلاح ہونہیں سکتی اور دُنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ، اُن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ اور آخرت پر یقین اور جواب دہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اُٹھے گی وہ اصلاح کے بجاے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ درستی کے بجاے اُلٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔ جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا۔ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذکے لیے جس قسم کے انسان درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں گے۔

ایمان اور اخلاق کی طاقت

قانون کی پوزیشن بھی یہی ہے کہ جیسے کوئی شخص نماز پر اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہے لیکن جب اذان ہو تو وہ نماز کے لیے اُٹھے نہیں۔ زکوٰۃ کا مُدعی ہو لیکن جب طلب کی جائے تو کہے:  ع

گر زر طلبی سخن دریں است

 ایسے شخص کے لیے کون سی تحریک ہوگی جو اس کو اصلاح پر آمادہ کرسکے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں کوئی خوف نہ ہوگا تو اس میں کبھی دین کے لیے حرکت نہ پیدا ہوسکے گی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھی نکات پر مکّی دور میں لوگو ں کی اصلاح کی۔ جب آپؐ نے مکّے سے ہجرت فرمائی تو ان اصلاح یافتہ لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد بدر کے معرکے کے وقت ۳۱۳ تھی اور جب یہ اُحد میں گئے تو ان کی کُل تعداد ۷۰۰ تھی۔ یہ تعداد مادی اعتبار سے کوئی اُمیدافزا نہ تھی لیکن چونکہ یہ گروہ اِصلاح یافتہ تھا، ان کو  اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقینِ کامل تھا، اِس لیے وہ اپنے سے کئی گنا مخالفین پر غالب آئے اور نوسال کی مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ وہ پورے خطۂ عرب پر چھا گئے۔

یہ خیال نہ کیجیے کہ ان کی تلوار کی کاٹ بڑی سخت تھی کہ عرب اس کی مزاحمت نہ کرسکا اور مسخر ہوگیا۔ درحقیقت یہ ان کے ایمان و اخلاق کی طاقت تھی، جو سب کو مسخر کرگئی۔ جہاں تک جنگوں اور معرکوں کا تعلق ہے، ان میں کام آنے والوں کی کُل تعداد تاریخ سے صرف ۱۲۰۰ ملتی ہے۔ گویا تسخیر کا یہ عمل میدانِ کارزار میں نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ساری تاثیر، ساری طاقت اور ساری قوت اس کیریکٹر کی تھی جو حضوؐر نے اپنے صحابہؓ کے اندر چار بنیادوں (توحید، آخرت، نماز اور زکوٰۃ) پر استوار کیا تھا۔ یہ اسی کیریکٹر کا نتیجہ تھا کہ عین لڑائی کے وقت بھی انھوں نے حق و انصاف کا دامن نہ چھوڑا۔ انھوں نے یہ لڑائیاں لُوٹ اور مالِ غنیمت کے لیے نہ کی تھیں بلکہ ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لیے کیں۔ یہ سارے کرشمے اس سیرت کے تھے جو حضوؐر نے بڑی محنت سے تیار کی تھی۔ انھوں نے اگر کبھی کسی جگہ حکومت بھی کی تو لوگ ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے کردار سے متاثر ہوئے۔

انسان کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی بوریا نشین حاکم نہ دیکھے تھے جنھوں نے اپنے آرام اور ٹھاٹ باٹ کی بجاے خلقِ خدا کو آرام پہنچایا۔ وہ جاگتے تھے تو لوگ سکون سے سوتے تھے۔ ان کی حکومت جسموں سے زیادہ دلوں پر تھی۔

غلبۂ دین کی راہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم آج بھی موجود ہے۔ مسلمان آج بھی اسے اپنالیں تو ان کی حکمرانی آج بھی اسی طرح کرئہ ارض پر قائم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ O (الانبیا ۲۱:۱۰۷)اے رسولؐ، ہم نے تجھے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک انسان کے لیے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لیے ایک تقریر کیا، سیکڑوں تقریریں اور سیکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوئوں کا شمار نہیں کرسکتا۔ اِس لیے میں آ پ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اِکتفا کروں گا۔ اِس زاویے سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہستی ہے جو انسان کے لیے حقیقتاً رحمت ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج کے لیے وہ اصول پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انھی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State) بھی معرضِ وجود میں آسکتی ہے، اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہوسکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول

اِس نکتے کی وضاحت کے لیے میں پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول بتائوں گا تاکہ تقابلی مطالعے سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اصول پیش کیے تھے۔ دُنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں ، انھوں نے جو بھی اصول پیش کیے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انھیں درندہ بنانے والے ہیں۔

آریائی تہذیب

مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ وہ ایران میں رہے تب بھی اِسی تصور کے ساتھ رہے اور ہندستان میں آئے تب بھی ان کے ساتھ یہی تصور تھا۔ ان کے نزدیک برہمن سب ذاتوں سے بلندوبرتر تھا اور باقی جتنے بھی طبقات یا ذاتیں معاشرے میں پائی جاتی تھیں، سب ان سے فروتر اور کم حیثیت تھیں۔ آریہ تہذیب نے واضح طور پر انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدایش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودربرہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دُوسری ذات میں منتقل ہوسکتی تھی۔    ان کے نزدیک کچھ انسان پیدایشی طور پر برتر پیدا ہوئے تھے اور کچھ ازل ہی سے کم تر اور نیچ تھے۔

ہِٹلر کا دعویٰ

اسی اصول کو جرمنی کے قوم پرست ڈکٹیٹر ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ اور نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدایشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہودیوں کے لیے انصاف کا ترازو اور ہے اور غیر یہودیوں کے لیے اور۔ چنانچہ تالمود میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ: ’اگر کسی اسرائیلی اور غیراسرائیلی کے درمیان تنازع ہوجائے تو اسرائیلی کی بہرصورت رعایت کی جائے‘۔اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں :’تمام غیریونانی گھٹیا اور پست تھے‘۔

مغرب کی پست ذہنیت

 دوسری طرف آپ دیکھیے تو یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ مغربی دُنیا سفید نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رنگ دار نسل سے برتر ہیں۔ اسی زعمِ باطل کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا ظلم و فساد میں سرتاپا ڈوبی ہوئی ہے اور صرف رنگ کی بنا پر   بے حدوحساب ظلم دنیا میں توڑا جارہا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک اس تصور کا جائز ہونا تھا جس نے اُنھیں اُکسایا کہ وہ سیاہ فاموں کو افریقہ سے غلام بناکر لائیں اور بیچیں اور ان پر جس طرح چاہیں ظلم ڈھائیں، ان کے لیے حلال ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلی صدی میں کم از کم ۱۰کروڑ انسان غلام بنائے گئے اور ان کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ ان میں سے صرف ۴کروڑ جاں بر ہوسکے۔

یہی ظلم مختلف علاقوں میں آج بھی انسان، انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔

علاقائی قومیّت کا نشّہ

اِسی قبیل سے علاقائی قومیّت (Territorial Nationalism) کا ایک نشّہ بھی ہے۔ دُنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصّب کی بنیاد پر چھڑیں۔ لیکن جیساکہ اس عصبیت نے اپنے عملی مظاہرے سے دکھا دیا ہے کہ یہ آدمیوں کو جمع کرنے والی نہیں پھاڑنے والی اور ان کو درندہ بنانے والی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوسکتا اور کوئی غیرملکی ملکی نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی اپنی وطنیت کو تبدیل کرسکے۔ وہ جہاں پیدا ہوا ہے بہرحال اسی مقام کا باشندہ ہوگا۔

یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہرقبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے کے مقابلے میں برتروفائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک بُرا آدمی رکھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مسیلمہ کذّاب اُٹھا، تو اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہماری نگاہ میں ہمارا جھوٹا آدمی بھی قریش کے سچّے آدمی سے بہتر ہے۔

نبیؐ کی پکار

جس سرزمین میں اِنسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکارانسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلندکرنے کے لیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:

اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:

اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اِس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اُس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔(الحجرات ۴۹:۱۳)

آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اِس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔

تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔ یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصو د تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سواکچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں توایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بُغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔

اسلام میں برتری کا تصوّر

اب دُنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بناپر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر لیکن اِس بناپر برتری نہیں کہ کون بُرائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔    خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے۔ لیکن د ُور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر  خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔

اُمت وسط کا قیام

حضوؐر فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔آپؐ نے اس بنیاد پر ایک اُمت بنائی اور اسے بتایا کہ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)۔  اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہرلحاظ سے غیرجانب دار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانب دار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھو دے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامّل نہیں کرے گا۔ جج کی یہی حیثیت پوری اُمت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم اُمتِ عادل ہے۔

اب یہ اُمتِ عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتاہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سیّد اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اِس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضوؐر نے اسی لیے فرمایا تھا:

کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔

اسلامی عدل کی ایک مثال

اِسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔

غزوئہ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اِتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہوکر فرمایا:

یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے؟ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔(مسلم:۴۷۸۸)

اِس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری اُمت ِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصاردونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اُٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے: کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ (النساء۴:۱۳۵)’’عدل کو قائم کرنے والے بنو‘‘۔

تسخیرِ انسانیت کا وصف

اس اُمت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دُنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا۔ خلافت ِ راشدہ کے عہدمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اِس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اُونچ نیچ کا فرق تھا جیساکہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فی صد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ۹۹فی صد کام کیا۔

آج دنیا کا کون سا خطّہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے۔ حج کے موقعے پر ہرملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکا کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا: ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دُنیا کے تمام اِنسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں پر زوال کیوں آیا؟

مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی ۸۰۰ برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔

اِسی طرح ہندستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں اُبھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ  وہ پہلے مرہٹوں سے پِٹے، پھر سکھوں سے پِٹے، اور آخر میں چھے ہزار میل دُور سے ایک غیرقوم آکر  ان پر حاکم بن گئی۔

اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کر رہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنت ِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔

آج مسلمان مسلمان کو کھائے جا رہا ہـے!

اور یہی معاملہ آج بھی ہے۔ عرب عرب کو کھائے جارہا ہے۔ یمن میں اڑھائی لاکھ عرب خانہ جنگی میں مارے گئے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی شکست کی یہی بڑی وجہ تھی۔ ایک زبان اور ایک نسل رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اُردن، شام اور لبنان پہلے ۱۹۴۸ء میں پِٹے، پھر ۱۹۵۶ء میں پِٹے اور پھر ۱۹۶۷ء میں پِٹے، حالانکہ یہ سب اورمصر جمع ہوجائیں تو اپنی تعداد اور رقبے کے لحاظ سے اسرائیل سے کئی گنا بڑے ہیں۔

میں نے آپ کو تاریخ سے بتادیا ہے کہ مسلمان جب اپنے کلمے پر جمع ہوئے تو غالب آئے لیکن جب وہ رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر جمع ہوئے تو کٹے اور مٹے۔ اسپین جیسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں سے اِسی وجہ سے چِھنی۔ ہندستان میں وہ اِسی وجہ سے مغلوب ہوئے، اور اسی وجہ سے انھیں شرق اوسط میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

حضوؐر کی سیرت کو اختیار کیجیے

آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکرِ رسولؐ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور lip service ہوکر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولؐ کے لیے مقدّر ہے۔ حدیث میں اِسی لیے آیا ہے: اَلْقُرْانُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (مسلم:۳۵۴)’’قرآن تم پر حجت ہے، تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف‘‘۔

کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے، جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف وزری کرتا ہے۔ اِس کلمے کو لے کراُٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہوگا بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہوجائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی۔

میری دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:

  •  ایک طرف باطل کے اصلی علَم بردار ہوتے ہیں، جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔
  •  دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا [بھی] ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے، جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت ِ حق کی سعی کو غیرواجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے، کسی نہ کسی طرح درست ثابت کردے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسرِ باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے، جو اُن کی دعوتِ اقامت ِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔
  •  تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں، جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخرکار اُسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے، جس کا پلّہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔

اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہرخامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:

  •  پہلا گروہ کہتا ہے کہ: حق ہمارے ساتھ تھا، نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے۔
  •  دوسرا گروہ کہتا ہے کہ: دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔
  • تیسرا گروہ فیصلہ کردیتا ہے کہ: حق وہی ہے جو غالب رہا۔

اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہاے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔

پس یہ بڑی معنی خیز دُعا تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ:

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔

 یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۳۰۶-۳۰۷)

جماعت اسلامی کو کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور غیرجمہوری ذرائع کے استعمال کی مخالف ہے؟ اس کو چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے اَخلاق، لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ساتھ اور جھوٹ اور اسی طرح کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اُکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ آپ نے [فیلڈمارشل] ایوب خاں صاحب کا دور دیکھا کہ کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس شخص کو کوئی ہٹاسکے گا، لیکن جب وہ ہٹے تو یہ معلوم ہوا کہ ان کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ اس طرح سے جن لوگوں نے ناجائز ذرائع سے انتخابات جیت کر بظاہر جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کیا ہے، ان کی بھی حقیقت میں کوئی جڑ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایسے نہیں ہیں جو ایک دوسرے کے مخلص ہوں۔ ان کو اغراض نے ایک دوسرے کے ساتھ جمع کیا ہے اور اغراض ہی ان کو ایک دوسرے سے پھاڑتی ہیں۔

اب دوسرا کام جو آپ کے سامنے ہے اور بہت بڑا کام ہے، وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کے خیالات کو تبدیل کیا جائے۔ عام لوگوں کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو بٹھایا جائے، اور لوگوں کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔   اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ پچھلے [برسوں] میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کے اختیارات رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں، خواہ وہ معاشی اختیارات ہوں، خواہ وہ تعلیمی اختیارات ہوں، جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی ملک کو چلانے کے اختیارات رہے ہیں، انھوں نے قوم کے ذہن کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے، اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخرکار مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہوگیا۔ وہاں یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں اور جو بنگالی نہیں بولتا وہ دوسری قوم ہے۔ اور اب یہاں اس کفر کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں ملک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جارہا ہے، اور زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ پٹھان ہے، یہ بلوچی ہے، یہ سندھی ہے اور یہ پنجابی ہے۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ وہ مسلمان ہونے کے سوا بھی کچھ ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انھوں نے کوشش کی اور متحدہ مطالبہ کیا، تب پاکستان وجود میں آیا۔ اگر گجراتی، مدراسی، سندھی، پٹھان اور پنجابی الگ الگ قوم رہتے اور الگ الگ اپنی قومیتوں کا تصور رکھتے تو پاکستان کبھی نہیں بن سکتا تھا۔

اس موقعے پر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقے سے جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں، وہ انتہائی بے ایمانی اور تشدد، اور انتہائی بددیانتی کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پوری جدوجہد کرنی ہوگی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں سے یہ کام لیا جارہا ہے، ان کے ذہن کو تبدیل کیا جائے۔ ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ انتخابات کے مراکز پر اگر کچھ لوگ بے ایمانیاں کرنا چاہیں بھی تو نہ کرسکیں۔

ایک وقت ایسا آتاہے جب یہ خیالات ملک کے اندر پوری طرح سے مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور قوم کے اندر پورا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے، تو پھر کوئی طاقت انقلاب آنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ہر راستے سے آتا ہے۔ ایسے راستے سے آتا ہے کہ جس کے بند کرنے کا خیال کوئی سوچ تک نہیں سکتا۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ انقلاب کس راستے سے آئے گا۔ آپ صرف کام کریں۔ اپنی سیرت کو درست کریں۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے اُٹھیں گے تو لوگ یہ دیکھیں گے کہ یہ دعوت دینے والے کیسے لوگ ہیں۔ (ہفت روزہ، ایشیا، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

[تعارفی نوٹ از مدیر] : پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔

بظاہر سات سال پر محیط تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں جو ملکِ عزیز قائم ہوا، الحمدللہ، اس نے سارے مصائب اور خطرات، دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں کے باوجود اپنی آزادی کے ۷۰ سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب ملنے والا یہ الٰہی تحفہ، ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوں گے۔

اللہ کے شکر اور جو کچھ حاصل ہے، اس کی قدر کے پورے احساس کے ساتھ یہ تاریخی لمحہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ خلوص اور دیانت سے جائزہ لیں کہ ان ۷۰ برسوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کیا تھے؟ اور پاکستان کا وہ تصور اور وژن کیا تھا جس کے حصول کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اور آج ہم اس سے کتنا قریب ہیں اور کتنا  اس سے دُور ہو گئے ہیں؟ یہ جائزہ دیانت داری سے لیا جانا چاہیے کہ ہماری مثبت کامیابیاں کیا ہیں اور منفی پہلو کون کون سے ہیں اور ان سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیز ایک نئے عزم کے ساتھ اصل وژن کا ادراک اور تفہیم اور اس کے حصول کے لیے صحیح لائحہ عمل کا شعور، اور اس کے لیے مؤثر اور فیصلہ کن جدوجہد کا عزم اور تیاری وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی ترجمان القرآن کے موجودہ شمارے سے اس مقصد کے لیے ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے،جو تحلیل و تجزیے اور تفہیم و تذکیر کے ایک سلسلے کا آغاز ہے، اور یہ ان شاء اللہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

راقم اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس بحث میں بھرپورشرکت کی سعادت سے محروم ہے، لیکن اس کمی کی تلافی، عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے داعی، ہمارے محسن اور قائد مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک بصیرت افروز خطبے کو ’اشارات‘ کی شکل میں پیش کر کے کی جا رہی ہے۔ یہ تقریر مولانا محترم نے نومبر۱۹۷۰ء میں کی تھی۔ پاکستان کے پہلے انتخابات کے موقعے پر قوم کو پاکستان کے اصل تصور، تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد اور ان مقاصد کے حصول اور اس منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جس لائحۂ عمل کی ضرورت ہے، مولانا مرحوم و مغفور نے تب بڑے خوب صورت اور مؤثر انداز میں اس کی نشان دہی فرمائی تھی اور قوم کو اس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی تھی۔

اس تقریر میں مولانا مودودی lنے ان چھے چیزوں کو بڑے واضح الفاظ میں پیش کر دیا ہے، جو آج بھی پاکستان کی ویسی ہی ضرورت ہیں، جیسی کہ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۰ء میں تھیں۔ اسلام کے تصورِ دین، حکمتِ انقلاب اور زندگی کو تبدیل کرنے کے لائحہ عمل کی اس سے واضح، جامع اور مؤثر ترجمانی مشکل ہے۔ یہ تقریر مولانا کی سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے، اور آج ۴۷سال کے بعد بھی صبحِ نو کی طرح تروتازہ ہے۔ ہم یہ تقریر درج ذیل معروضات کے ساتھ ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمرہ ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:

  •  اولاً، عسکری قوت سے سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ اور مسلم اقتدار کی بحالی۔
  •  ثانیاً، سیاسی جدوجہد کا آغاز اور برعظیم کے تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی آزادی کی ایسی جدوجہد کہ جس میں مسلمان اپنا نظریاتی،دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور غیر مسلم اکثریت میں ضم نہ ہو جائیں۔ علاقائی قومیت کے مقابلے میں دو قومی نظریے کا ارتقا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا سیاسی انتظام، جو کثیر قومی (State of Nationalities)کا متبادل ’مثالیہ‘ (paradigm) پیش کر سکے۔ ۳۹-۱۹۳۸ء تک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جو دراصل ابتدا سے آج تک برہمنوں ہی کی گرفت میں رہی ہے، اس تصور کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، نہ ہے۔ اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ عملاً ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
  • اس پس منظر میں مسلمانوں کی تحریک کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ علمی اور عملی دونوں میدانوں میں اور دو قومی نظریے کو سیاسی حقائق کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کی جس نئی سیاسی منزل کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ تقسیم ہند اور پاکستان کا آزاد اسلامی ریاست کی حیثیت سے قیام تھا۔ تحریک پاکستان کے دو ناقابل تفریق و تنظیم (Indivisible and Inseperable) پہلو تھے۔ ایک سیاسی آزادی اور دوسرا اس آزادی کی بنیاد اور منزل اسلامی نظریہ اور تہذیب و ثقافت۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد، مزاج اور شناخت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دستایزات کا مطالعہ ضروری ہے:   { FR 1004 }

                ۱-            علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبۂ صدارت،

                ۲-            ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور ،

                ۳-            قائداعظم کا خطبۂ صدارت، ۷؍اپریل ۱۹۴۷ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر ،

                ۴-            ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقعے پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔)

اس پس منظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے چھے چیزیں ضروری ہیں:

۱-            پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔ یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت (clarity) اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف لاکھوں انسانوں کے جان و مال اور آبرو کی قربانی دی گئی، بلکہ بھارت میں  رہ جانے والے مسلمانوں نے اسلام اور اپنے مسلمان بھائیوں کی آزادی کی خاطر اپنے کو بھارت میں ہندوئوں کے غلبے میں رہ جانے کی عظیم ترین قربانی دی۔

                ۲-            آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے علاقے (Territory) کا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی مقابلے کی قوت کی حیثیت سے ضروری ہے۔ اس میں ضُعف ، ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سیاسی و معاشی استحکام، اندرونی امن و امان ، بیرونی خطرات سے تحفظ اور آبادی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے وسائل کے بھرپور استعمال کا راستہ دکھاتا ہے۔

                ۳-            تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے صحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہادرجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔

                ۴-            ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں کی مؤثر تنفیذکے لیے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجاآوری ممکن ہے۔

                ۵-            ان مقاصد کے حصول کے لیے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہرشعبے کے لیے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی اور صلاحیت کار کی ترقی کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے، پھر اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت اور استحکام کے ذریعے اس ترقی کو زیادہ ثمرآور بنایا جاسکتا ہے۔ ماحول، معاشرہ اور تہذیب و ثقافت ہر میدان کی صورت گری میں اس کا حصہ ہے۔

                ۶-            آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے مؤثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔

یہ چھے چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض پہلوئوں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی حسب ذیل تقریر میں ان چھے پہلوئوں کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل پیش کیا ہے، جو آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ہم تخلیقِ پاکستان کے ۷۰سال کی تکمیل پر آیندہ اصلاحِ احوال اور تعمیر کے عزم کی تجدید کے ساتھ، رہنمائی کے ان زریں اصولوں کو قوم کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ ہمارا خطاب پوری قوم سے ہے  اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس خطبے پر کھلے دل و دماغ سے غوروفکر کریں اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ہر تعصب سے بالا ہو کر نئے عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہوں۔

خورشید احمد

o

سیّدابوالاعلیٰ مودودیo

o

جماعت اسلامی، پاکستان میں اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے کہ یہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر دیانت اور انصاف کے ان اصولوں پر کی جائے، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:

  •  جو خلافت ِ راشدہؓ کے نمونے پر کام کرے۔ ظلم، استحصال اور اخلاقی بے راہ روی کی ہرشکل کو مٹائے اور زندگی کے ہرپہلو میں عدل قائم کردے۔
  •  جو ایک خادم خلق ریاست ہو، ہر شہری کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی ضمانت دے۔ تمام جائز ذرائع سے ملک کی دولت بڑھائے اور اس دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرے۔
  •  جو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ریاست ہو۔ عوام اپنی آزاد مرضی سے جن لوگوں کو اس کا اقتدار سونپنا چاہیں، وہی انتخابات کے ذریعے سے برسرِاقتدار آئیں اور جنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہیں، ان کو انتخابات کے ذریعے سے بآسانی ہٹاسکیں۔

انھی مقاصد کے لیے جماعت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

oملک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے اور یہ قربانیاں انھوں نے اس غرض کے لیے دی تھیں کہ یہاں وہ اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے یہاں کسی نظریاتی کشمکش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیشہ کے لیے طے شدہ سمجھی جانی چاہیے کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔

پاکستان کا قیام اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ مسلمانوں نے نسل، علاقے، زبان اور طبقات کے تمام تعصبات کو دل سے نکال کر ،محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے قیام کے لیے متحدہ جدوجہد کی تھی۔ اسی اتحاد کی بدولت وہ علاقے مل کر ایک ملک بن گئے جن کے درمیان نہ زبان ایک تھی، نہ رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اور نہ کوئی جغرافی اتصال پایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی اتحاد کامل ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے واحد ضمانت ہے۔

ملک کی آبادی کے مختلف عناصر میں یگانگت کے احساس کو برقرار رکھنے اور نشوونما دینے کے لیے یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اس اسلام پر عمل کیا جائے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے، اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی حیثیت سے مکمل انصاف قائم کیا جائے، جس سے ملک کے تمام علاقے اور باشندگانِ ملک کے تمام گروہ اور طبقے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔

o  ملک کو جس آئینی بحران کاسامنا ہے، اس کام کو مکمل اور آسان بنانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی نئے سرے سے کوئی آئین بنانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ ۱۹۵۶ء کے آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چار ضروری ترمیمات کرنے کے بعد اس کو ملک کا آئین قرار دے دے، تاکہ اقتدار جلدی عوام کے نمایندوں کو منتقل ہوجائے اور ایک جمہوری حکومت ملک میں کام کرنا شروع کر دے۔ باقی جو تغیر و تبدل بھی اس آئین میں کرنا مطلوب ہو، وہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ چار ترمیمیں جو ۱۹۵۶ءکے آئین میں ہم کرنا چاہتے ہیں: آبادی کی بنیاد پر نمایندگی، ون یونٹ کی تنسیخ، مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں کو پاکستان میں پوری طرح ضم کرلینے ،اور ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری دینے کے بارے میں ہیں۔{ FR 1000 }

o  ہم نے ملک کے قانونی نظا م کی اصلاح کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں خاص طور پر چار چیزوں کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے: lایک یہ کہ اسلام کے ان تمام احکام کو قانونی حیثیت دینا، جو ایک اسلامی مملکت میں رائج ہونے چاہییں اور خاص طور پر ان اخلاقی بُرائیوں کو ممنوع قرار دینا، جنھیں اسلام ازروے قانون روکنا چاہتا ہے۔ mدوسرے، عورتوں کو شریعت کے     عطا کردہ حقوق دلوانے کے لیے قانون بنانا۔ oتیسرے، شخصی آزادی اور اظہار راے کی آزادی پر ناراو پابندیوں کو ختم کرنا۔oچوتھے انصاف کو آسان اور سستا بنانا۔

  •  اسلامی تعلیمات کا فروغ:مسلمانوں کوا سلامی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے ہمارا پروگرام یہ ہے کہ تمام ذرائع نشروابلاغ اور ذرائع تعلیم سے کام لے کر مسلم عوام میں اسلامی عقائد اور تعلیمات کا ضروری علم پھیلایا جائے۔ مساجد کو مسلم معاشرے میں مرکزی حیثیت دی جائے، اور ان کے لیے تربیت یافتہ امام اور خطیب تیار کیے جائیں۔’اوقاف‘ کا صحیح انتظام کیا جائے۔ مسلمانوں کو دینی فرائض کی ادایگی کے لیے ترغیب بھی دی جائے اور تمام ممکن سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بحیثیت مجموعی ملک کی اخلاقی اصلاح کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کیا جائے۔ ان اسباب کو رفع کیا جائے جن سے جرائم اور بداخلاقیوں کو فروغ نصیب ہوتا ہے، اور عوام میں اتنا اخلاقی شعور پیدا کیا جائے کہ وہ شہریوں کی حیثیت سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگیں۔
  •  اسلامی نظامِ تعلیم :معاشرے کی تعمیر میں ہم تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے [ہمارے] مفصل پروگرام کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
  • ملک میں اس وقت جو کئی کئی تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کو بہ تدریج ختم کر کے ایک ہی نظامِ تعلیم رائج کیا جائے گا ، جس میں تعلیم صرف علوم و فنون پڑھانے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ ہرشعبے میں لازمی طور پر اخلاقی تربیت بھی شامل ہوگی، تاکہ معاشرے اور ریاست کے لیے خداترس اور فرض شناس کارکن تیار ہوسکیں۔
  •   کم سے کم مدت میں ملک سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت اور ثانوی تعلیم مفت کر دی جائے گی، اور تعلیم کو سستا کیا جائے گا، تاکہ کوئی باصلاحیت نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔
  •  استادوں کے لیے معقول معاوضے، بہتر شرائط کے ساتھ مقرر کیے جائیں گے۔ ان کی تربیت کے لیے بہتر انتظامات کیے جائیں گے، تاکہ وہ نہ صرف اچھے معلّم ہوں بلکہ شاگردوں کے لیے بھی اخلاق کا اچھا نمونہ بن سکیں۔ اور ان کے تقرر میں ان کی علمی اسناد ہی کا خیال نہیں رکھا جائے گا بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا، کہ وہ اپنے افکار اور سیرت و کردار کے لحاظ سے ہماری نئی نسلوں کو تعلیم دینے کے اہل ہیں۔
  •  تعلیمی اداروں میں آزاد فضا پیدا کی جائے گی اور یونی ورسٹیوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے حدود کے اندر پوری طرح خودمختارانہ حیثیت دی جائے گی۔
  •   قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے گا اور عربی زبان ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔
  •  تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ نوجوان ملک کے دفاع کے لیے تیار ہوسکیں۔
  •  انتظامیہ کی تربیت: [ہم نے] نظم و نسق کی اصلاح کو بھی خاص اہمیت دی ہے، کیوں کہ ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اچھے سے اچھا پروگرام بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو چلانے کے لیے ایک دیانت دار، فرض شناس اور عمدہ اہلیت رکھنے والی انتظامیہ موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے جو تدابیر ہم نے تجویز کی ہیں ان میں سے چند نمایاں تدبیریں یہ ہیں:
  •     کوئی سرکاری ملازم جو اپنی جائز مالی حیثیت سے زیادہ بلند معیارِ زندگی اختیار کرے یا جایداد پیدا کرے، اس کا بلاتاخیر محاسبہ کیا جائے۔
  •        ایک ایسا اعلیٰ اختیارات رکھنے والا محکمہ قائم کیا جائے جو سرکاری افسروں کے ظلم اور اختیارات کے بے جا استعمال کی شکایات سنے اور ان کے فوری تدارک کا اہتمام کرے۔
  • جن اداروں میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کارکنو ں کی تربیت کی جاتی ہے، ان میں اخلاقی و دینی تربیت لازمی طور پر شامل کی جائے، تاکہ اہلیت کے ساتھ ساتھ حکومت کے افسروں میں دیانت داری اور فرض شناسی پیدا ہو۔
  • نظم و نسق پر کسی ایک سروس کی اجارہ داری قائم نہ رہنے دی جائے اور حکومت کے مخصوص فنی شعبوں کی سربراہی پر انھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقرر کیا جائے۔

ملک کے معاشی نظام کی اصلاح کے لیے ہمارا پروگرام چار بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے: زراعت، صنعت و تجارت، مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازموں کے حقوق اور عام معاشی اصلاحات۔

  •  زرعی اصلاحات: زراعت کے معاملے میں جو اہم اصلاح ہم نے تجویز کی ہے،   وہ یہ ہے کہ: جاگیرداریوں ، خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی، ان کو قطعی ختم کر دیا جائے۔ اور جہاں تک ان زرعی املاک کا تعلق ہے جو [انگریزی اقتدار سے] پہلے سے لوگوں کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں،  وہ اگر ایک خاص حد سے زائد ہوں تو زائد حصے کو منصفانہ شرح پر خرید لیا جائے۔ یہ حد مغربی پاکستان کے زرخیز علاقوں میں ۱۰۰ اور ۲۰۰؍ایکڑ کے درمیان ہوگی۔ کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں کے لیے اسی معیار کے لیے مختلف حدیں مقرر کی جائیں گی۔ اس طریقے سے جو زمینیں حاصل ہوں گی، انھیں غیرمالک کاشت کاروں اور اقتصادی حد سے کم زمین کے مالکوں کے ہاتھ آسان اقساط پر فروخت کر دیا جائے گا اور یہی طریقہ سرکاری املاک اور نئے بیراجوں کے ذریعے سے قابلِ کاشت ہونے والی زمینوں کے معاملے میں بھی اختیار کیا جائے گا۔ ہرممکن کوشش کی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو گزارے کے قابل زمین حاصل ہوجائے۔

پچھلی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے بعد ہم کلیتہً شرعی قوانین پر ہی اعتماد کریں گے کہ ان کے نفاذ کی وجہ سے آیندہ کوئی زمین داری ناجائز یا مشتبہ طریقوں سے پیدا نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح جب بٹائی اور ٹھیکے کے بارے میں شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرائی جائے گی اور تمام ناجائز طریقوں کو بند کر دیا جائے گا تو کوئی زمین داری ظلم کی شکل اختیار نہ کرسکے گی۔

۱۰؍ ایکڑ تک اراضی کے مالکوں کو مال گزاری سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے کہ انکم ٹیکس کے معاملے میں تو ایک حد مقرر کر دی جائے اور گزارہ سے زمین   کم رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مال گزاری کی تشخیص کے معاملے میں بھی ہم انکم ٹیکس کا  یہ اصول نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی رکھنے والوں پر نسبتاً کم اور زیادہ آمدنی والوں پر نسبتاً زیادہ مالیہ عائد کیا جائے۔

اس امر کا پورا انتظام کیا جائے گا کہ کاشت کاروں کو ان کی پیدا کردہ اجناس کی معقول قیمت ملے اور ان کے حصے کا فائدہ بیچ کے لوگ نہ لے اُڑیں، خصوصاً تجارتی فصلوں کے معاملے میں ہربے جااستحصال کا سدباب کیا جائے گا۔

دیہی علاقوں میں ایسی صنعتوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی، جن سے بے روزگاری بھی دُور ہو اور زراعت پیشہ آبادی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکے۔

 صنعت  و تجارت کا فروغ: صنعت و تجارت کے معاملے میں دولت کا جو بے تحاشا ارتکاز ہوا ہے، اس کو توڑنے اور مرتکز شدہ دولت کو پھیلانے اور آیندہ ارتکاز کو روکنے [اور] معاشی زندگی [کو] اس بیماری سے پوری طرح نجات [دلانے کے لیے] چند اہم تجاویز یہ ہیں:

O سود، سٹہ، جوا اور دولت حاصل کرنے کے تمام ان طریقوں کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے، جن کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام کو اسلامی اداروں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ ناجائز اور حرام طریقوں سے جو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے، اس کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور اسے واپس لینے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی تدابیر کی جائیں۔ کمپنیوں کی ملکیت میں ایک شخص یا خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ حصوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے اور اس سے زائد حصص کو عام فروخت کے لیے کھول دیا جائے۔

O مینیجنگ ایجنسی کا طریقہ بند کر دیا جائے۔ بنکوں ، انشورنس کمپنیوں، بازار حصص اور سرکاری مالیاتی اداروں پر سے سرمایہ داروں کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ صنعتوں، اجارہ داریوں اور کاروباری جتھہ بندیوں کو توڑا جائے۔ قرض دینے کی پالیسی تبدیل کی جائے، تاکہ چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی قرض مل سکیں۔ بونس اسکیم پر نظرثانی کی جائے اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے لائسنسوں کے اجرا کا طریقہ بھی بدلا جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ صنعت کار اور بڑے تاجر ایک معقول حد سے زیادہ منافع نہ کما سکیں۔

Oہم قومی ملکیت کے نظام کو بطورِ اصول اختیار کرنا صحیح نہیں سمجھتے، البتہ جن صنعتوں کو حکومت کے انتظام میں قائم کرنا یا چلانا فی الواقع ضروری ہو، ان کے بارے میں عوام کی نمایندہ اسمبلی اس طریقے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، اور ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ ان صنعتوں کا انتظام بیوروکریسی کی معروف خرابیوں کا شکار نہ ہونے پائے۔

O مزدوروں اور ملازمین کے حقوق:مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازمین [کی حالت دیکھیں تو] ملک میں معاوضوں کا فرق اس وقت ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ اسے گھٹاکر ہم ایک اور بیس پر، پھر بتدریج کم کرکے ایک اور دس کی نسبت پر لانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم معاوضہ ہمارے نزدیک [اِس وقت] مصارف زندگی کے لحاظ سے ۱۵۰ اور ۲۰۰ کے درمیان ہونا چاہیے اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے۔ کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب سہولتیں ملنی چاہییں اور مزدوروں کو نقد بونس کے علاوہ بونس شیئرز کے ذریعے سے صنعتوں کی ملکیت میں حصہ دار بھی بنایا جانا چاہیے۔ [ہم نے] یہ مقصد بنیادی طور پر پیش نظر رکھا ہے کہ ہماری معیشت میں صنعت کار اور محنت کار کے درمیان طبقاتی نزاع برپا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور اس کی جگہ انصاف کے اصولوں پر تعاون کا خوش گوار تعلق قائم ہو۔

O نظامِ زکوٰۃ کا نفاذ: ملک کی عام معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے زکوٰۃ کی تنظیم کو ہم نے اپنے پروگرام میں سب سے مقدّم رکھا ہے۔ جس کے ذریعے سے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ پورے ملک میں کوئی شخص اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس فنڈ میں   نہ صرف جمع شدہ رقوم، تجارتی اَموال، زرعی پیداوار اور مویشیوں وغیرہ پر فرض زکوٰۃ وصول کی جائے گی بلکہ عام خیراتی رقوم اور فی سبیل اللہ اعانتیں بھی جمع کی جائیں گی، اور ان سے بوڑھوں، اپاہجوں، معذوروں اور یتیم و غریب بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک وظائف دیے جائیں گے، غریبوں کا علاج کیا جائے گا۔ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا جائے گا اور ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی، جو تھوڑے سرمایے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں۔

اس کے علاوہ [ہم نے] یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے گا تاکہ عوام پر سے ٹیکس کا بار کم ہوسکے۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایے پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے اور سابق قرضوں سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سرکاری خزانے کا مال بے جا مصارف پر صرف کرنے کا سدباب کیا جائے گا۔ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور ان تجارتی کاموں سے جو حکومت کے انتظام میں چل رہے ہیں ، بے جا نفع اندوزی کو روک دیا جائے گا۔

Oقومی صحت کے لیے ہمارا پروگرام آٹھ تجاویز پر مشتمل ہے، جن میں: سستی قیمت پر دوائوں کی فراہمی، علاج کے مصارف میں تخفیف، شفاخانوں اور دایہ گھروں کی توسیع، وبائی اور متعدی امراض کی روک تھام، شفاخانوں کے عملے کی اخلاقی اصلاح، غذا اور دوائوں میں آمیزش کا سدباب اور وسیع پیمانے پر حفظانِ صحت کے انتظامات شامل ہیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں علاج کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے یونانی طب اور ہومیوپیتھی کے شفاخانے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔

Oہم نے اسلامی فرقوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ انھیں حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کی اپنی فقہ کے مطابق کیے جائیں گے، اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت آزادی کے ساتھ کرسکیں گے۔

Oغیرمسلم اقلیتوں کو بھی ہم نے اسی طرح تمام شہری اور قانونی حقوق اور مذہب اور عبادت، تہذیب و ثقافت اور پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔

O[اپنی] خارجہ پالیسی کے اصول و مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں: ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ دنیا میں ہمارا قومی وصف نمایاں ہونا چاہیے کہ ہم راست باز اور عہدوپیمان کے پابند ہیں۔ حق وانصاف کے حامی اور ظلم و زیادتی کے مخالف ہیں۔ ہم بین الاقوامی امن چاہتے ہیں، مگر بین الاقوامی عدل کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ سامراجیت اور استعمار خواہ مغربی ہو یا مشرقی، ہماری نگاہ میں یکساں قابلِ مذمت ہے اور ہماری ہمدردی ہمیشہ ان مظلوم قوموں کے ساتھ ہوگی جو اس کی شکار ہوں۔ خصوصاً مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ہم ان کی لازماً حمایت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔

ہم دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی دوستی کے قائل نہیں ہیں، جس سے ہمارے نظریۂ حیات یا ہماری آزادی پر آنچ آتی ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔  دنیا کی بڑی قوموں کے بلاکوں کی کش مکش سے ہم اپنے ملک کو بالکل الگ رکھیں گے۔ کشمیر اور ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وہ بنیادی مسائل ہیں، جنھیں انصاف کے ساتھ حل کیے بغیر ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہم قریب ترین برادرانہ تعلقات رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہوگی کہ اپنے مشترک مفادات کے لیے ان کے درمیان گہرا تعاون ہو۔

Oمرکز یا صوبوں میں جہاں بھی جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی، وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ایمان داری کے ساتھ اپنے منشور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دے گی۔ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت وہ صرف اس صورت میں بنائے گی، جب کہ اسے یہ توقع ہو کہ اس حکومت میں اپنے اصول اور مقاصد کے مطابق کام کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے کام کرے گی۔ لیکن، جماعت اسلامی کبھی اختلاف براے اختلاف کی قائل نہیں رہی ہے۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، جماعت اس کے صحیح کاموں میں اس کا ساتھ دے گی اور غلط کاموں کی بہرحال مخالفت کرے گی۔

یہ ہے جماعت اسلامی کے منشور کا خلاصہ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہرپہلو کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام [پیش کر رہے] ہیں۔ کسی ایک پہلو پر ہم نے اتنا زور نہیں دیا ہے کہ دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کر دیا ہو ___ پاکستان پائندہ باد!

(ہفت روزہ آئین، لاہور، اشاعت ِ خاص، نومبر ۱۹۷۰ء، ص ۱۶-۱۹)

کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی  سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔

دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر  ظاہر نہیں کیے جاتے۔

ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔

اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس  اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔

اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس  کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔

اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔

دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :

                ۱-            صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔

                ۲-            تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔

                ۳-            سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔

                ۴-            دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

                ۵-            لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔

                ۶-            رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔

                ۷-            معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔

                ۸-            خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔

                ۹-            انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔

                ۱۰-         یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

                ۱۱-         عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

                ۱۲-         تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔

                ۱۳-         جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔

                ۱۴-         نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔

یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں   یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں       یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ اُوحِیَ اِلیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا o یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا o (الجن۷۲ :۱-۲) اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ   ِجنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: ’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو      راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور  اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔

سورۂ جِن کے متعلق جہاں تک مَیں تحقیق کرسکا ہوں یہ سورت غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حضوؐر کا سفرِ طائف سنہ ۱۰ نبویؐ میں ہوا تھا، یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ سورئہ قٓ میں یہ آتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جنوں نے نبی کریمؐ کی زبان سے کلامِ مجید سنا۔ اہلِ طائف کے ظلم و ستم کے رویے کی وجہ سے جب حضوؐر واپس ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر جہاں نخلستان تھا ٹھیرے تھے۔وہاں آپؐ رات کی نماز اور فجر کی نماز میں تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے تو جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا اور آپؐ کی آواز سن کر وہ ٹھیرا اور غور سے قرآنِ مجید کو سنتا رہا۔ تفاسیر اور احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ طائف کے سفر سے واپسی کے موقع پر پیش آیا تھا۔ انھی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے اور اس قصے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ جنوں نے حضوؐر سے قرآنِ مجید سنا۔ بعد میں یہ واقعات بہ کثرت احادیث میں ملتے ہیں لیکن سفرِطائف سے پہلے کوئی روایت نہیں ملتی۔ اس لیے غالباً یہ سورہ سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔

یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح معلوم ہوئی؟ اس سفر میں آپؐ نے جنوں کو نہیں دیکھا نہ آپ کو یہ محسوس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ بعد میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن انسانی شکل میں بھی حضوؐر کے پاس آئے تھے۔ لیکن اس موقعے پر آپ نے جنوں کو نہیں دیکھا تھا بلکہ وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ جنوں نے آپؐ کی زبان سے قرآنِ مجید سنا ہے۔

اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب جنوں کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ وہ جنوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک زمین کا ہرخطہ جنوں سے بسا ہوا تھا۔ ایک ایک خطے کا مالک گویا ایک جن تھا۔ سفر میں اگر کہیں جاتے تھے اور جس وادی میں ٹھیرتے تھے اور اگر وہاں رات گزارنی ہو تو وہ کہتے تھے کہ اعوذ بہ رب ھذا الوادی،میں پناہ مانگتا ہوں اس وادی کے مالک کی۔ یعنی ان کے نزدیک ہروادی کا مالک کوئی جن ہوتا ہے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بیماری اور تندرستی اور بہت سی مصیبتیں جنوں کی وجہ سے حاوی ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں جن ہی ایمان کی خبریں پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا کلام کہتا ہے تو گویا کہ اس کے قبضے میں ایک جِن ہے جو اس کو آکر یہ کلام سناتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور بہترین کلام کہتا ہے اور اس کے بعد ایک مدت تک وہ شعر نہیں کہہ سکا، یا اس نے کوئی ایسا شعر کہہ دیا جو اس کے مرتبے سے گرا ہوا ہوتا تو کہتے تھے کہ اس کا جِن فرار ہوگیا ہے۔ اس نے اپنا جِن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اس پر شعر کا نزول نہیں ہوتا ہے، یا اس کی شعر کہنے کی قابلیت اس سے نکل گئی ہے۔ یہ ان کے تصورات تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے اپنے آپ کو اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآنِ مجید سنانا شروع کیا تو قرآنِ مجید کی بہترین بلاغت و فصاحت اور  اس کے اعلیٰ درجے کے مضامین کو سن کر قریش کے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ بھی  جِن القا کرتے ہیں۔ وہ جنوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے۔ اس لیے حضوؐر کے بارے میں ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر یہ ہمارے خدائوں کی اسی طرح توہین کرتے رہے تو ہمارے دیوتا اور معبود اِن کا  تختہ اُلٹ دیں گے ۔ ان کی یہ بات کہ قرآنِ مجید کو جِن القا کرتے ہیں اگرچہ اس بات کی تردید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کر کرتے تھے، تاہم ایک طرف وہ جنوں کو خدائی میں شریک قرار دے رہے تھے اور انھیں خدا کی اولاد بھی قرار دیتے تھے ، اور دوسری طرف وہ شرک کی بھرپور تردید رسولؐ اللہ کی زبان سے سنتے تھے۔ اس پر ان کے معقول آدمی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ کلام جِن لاتے ہیں تو وہ اپنی ہی تردید کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جِن اپنے ہی خلاف تردید کرنا شروع کردیں؟ تاہم، عام لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا دھوکا اور فریب تھا کہ جِن یہ کلام لے کر آتے ہیں۔

اس وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ جِن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ قرآن بھی نازل کرتے ہیں، یہ جِن اس قرآن کو سن کر خود اس پر ایمان لے آئے۔ پھر آگے چل کر ان جنوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے آپس میں کیا گفتگو کی۔ اس سے خود بخود اس بات کی تردید ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جِن قرآن لے کر آتے ہیں۔ جِن خود اس کلام کو کیسے نازل کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں۔ پھر انھوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور ہم آخرت پر ایمان لے آئے ہیں۔

یہ ساری چیزیں اس وجہ سے سنائی گئی ہیں کہ کفارِ مکہ کے اس غلط عقیدے کی تردید ہوجائے اور انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ جِن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیسے انسان ہیں۔ ان کے اندر بھی کافر اور مومن ہیں۔ ان کے اندر بھی راہِ راست پر چلنے والے اور گمراہ جِن ہیں اور یہ بھی اسی طرح سے قرآنِ مجید کے مخاطب ہیں جس طرح انسان ہیں اور قرآنِ مجید سن کر جس طرح انسان ایمان لائے ہیں اسی طرح سے بعض جِن بھی ایمان لاتے ہیں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ:

قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (۷۲:۱) اے نبیؐ، ان لوگوں کو خبر دو کہ مجھے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہے کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے اس قرآن کو کان لگا کر سنا۔

سمعنا کے معنی توجہ سے سننا ہے۔ ایک سننا ہوتا ہے اور ایک غور سے سننا، یا کان لگا کر سننا، یا یہ کہ سن گن لینا۔ اس کے لیے سمعنا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جنوںمیں سے ایک گروہ نے قرآنِ مجید کو کان لگا کر سنا اور پھر اپنے گروہ میں واپس جاکر انھیں یہ خبر دی کہ اِنَّاسَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا، ہم ایک عجیب چیز سن کر آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ، یہ ایسی چیز ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ فَاٰمَنَّا بِہٖ ،اور ہم اس پر ایمان لے آئے۔ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا،اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

’قرآن‘ کا لفظ یہاں پڑھی جانے والی کتاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں  قرآنِ مجید کے معنی کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسی چیز مراد ہے جو پڑھی جارہی ہو۔

معلوم ہوا کہ انسان تو جنوں کو خدا کی اولاد بنا رہے تھے لیکن جِن خود کسی اور کو خدا بنارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور مخلوق کو شریک نہ کرنا، اس سے خودبخود کفار اور تمام مشرکین مکہ کے عقیدۂ شرک کی تردید ہوگئی کہ جن کو تم معبود اور خدا کی خدائی میں شریک اور خدا کی اولاد قرار دے رہے تھے وہ خود کسی دوسری ہستی کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور اس پر ایمان لاچکے ہیں۔

وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًاo  (۷۲:۳) اور یہ کہ ’’ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے‘‘۔

یہاں پھر کفارِ مکہ کے اس عقیدے کی تردید آگئی کہ جِن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد۔ تم ان کا نسب خدا سے ملاتے ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

وَّاَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاo  (۷۲:۴) اور یہ کہ ’’ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں‘‘۔

سَفِیْہُنَاکا لفظ اگر واحد کے طور پر آئے تو اس کا مطلب شیطان ہے۔ اگر یہ لفظ اسمِ جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم میں سے جو جو بھی بے وقوف، احمق اور نادان ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کرتا ہے اور خلافِ حق بات کرتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔ اس لیے کہ جنوں کا وہ گروہ جو انھیں گمراہ کرتا ہے یا ابلیس جس نے انسانوں کو گمراہ کیا اور اس نے جنوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے،  ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا o  (۷۲:۵)اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے‘‘۔

یعنی ایمان لانے کے واقعے سے پہلے جن گمراہیوں میں جِن مبتلا تھے اس کی توجیہہ وہ یہ کرتے ہیں کہ اب تک جن غلط فہمیوں میں جِن مبتلا ہوئے یا گمراہیوں میں پھنسے ہمارا یہ گمان تھا کہ انسان اور جِن اتنی جرأت نہیں کرسکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات بیان کریں اور منسوب کریں۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہمارا رب جواتنی بلند تر ہستی ہے، اور جس کی اتنی بلندشان ہے، اور اتنی زبردست اس کی سلطنت ہے اگر کوئی انسان یا جِن اس کی طرف غلط بات منسوب کرے یا جھوٹ بولے گا تو اللہ تعالیٰ کی مار اس پر پڑے گی اور اس کو عذاب ہوگا۔ اس وجہ سے ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی گرفت نہیں ہوتی تو ضرور یہ باتیں سچ ہوں گی۔ اس غلط فہمی میں آکر ہم نے یہ غلط باتیں مان لیں۔ اب ان کا یہ کہنا تھا کہ  قرآنِ مجید کو سن کر ہماری یہ غلط فہمیاں رفع ہوگئیں، اور یہ پتا چل گیا کہ یہ کس قسم کی غلط فہمیاں ہیں۔ اس لیے ہم اس قرآن پر ایمان لے آئے ورنہ پہلے ہم اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے تھے یا ہمارا یہ خیال تھا کہ انسان اور جِن یہ جرأت نہیں کرسکتے کہ خدا کی طرف غلط باتوں کو منسوب کریں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے ایک قول پر اضافہ کرتا ہے۔ یہ گویا جملۂ معترضہ ہے جو ان کے کلام کے بیچ میں آگیا ہے۔

وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَہَقًا o وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۶-۷) اور یہ کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگو ں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح انھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس بات کو ادا کیا جا رہا ہے کہ میری طرف  یہ بات وحی کی گئی ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ کچھ جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے جس وجہ سے جنوں کا تکبر کچھ اور بڑھ گیا، اور انھوں نے بھی یہ سمجھا اور جیساکہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو کبھی دوبارہ زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا۔

یہاں قرآنِ مجید نے جنوں کی غلط فہمی اور گمراہی کی ایک وجہ بیان کی ہے۔ ایک وجہ تو جنوں نے اپنی گمراہی کی یہ بیان کی ہے کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جِن اور انسان اتنی بڑی جسارت نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات منسوب کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ جنوں کی گمراہی کی ایک اور وجہ مزید بیان کرتا ہے کہ انسان جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے جنوں کا تکبر اور بڑھ گیا، یعنی جنوں کا دماغ اور خراب ہوگیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم تو ایسی بڑی ہستی ہیں کہ وہ انسان جو زمین پر خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ہماری پناہ مانگنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی سرکشی بھی بڑھی اور ان کے دماغ بھی خراب ہونے لگے۔

اس جگہ ایک اور بات کو بھی نگاہ میں رکھیے۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے یہ کہا جاتا ہے کہ جِن کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں بلکہ انسان ہی جِن ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ پہاڑوں، صحرائوں اور غاروں میں رہنے والے ہیں، ان کا نام جِن ہے۔ پچھلی صدی کے آخر سے یہ خیال پیش کیا گیا تھا اور اب تک اسے مسلسل لکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے اور اب یہ ایک تھیوری بنادی گئی ہے کہ پہاڑی، صحرائی اور دیہاتی مخلوق جِن تھی۔ یہاں صاف طور پر قرآن جِن اور انسان کو دو الگ مخلوق کہہ رہا ہے، اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انسانوں نے جنوں کی پناہ مانگنا شروع کردی جس کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوگیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی مقام ہے اور ہم کوئی بڑی ہستی ہیں۔ اب کوئی ان احمقوں سے پوچھے جو یہ باتیں کرتے ہیں کہ کب انسانوں نے دیہاتی اور کوہستانی لوگوں سے پناہ مانگی ہے اور کب ان کی عبادت کی ہے۔ کب انھیں خدائی میں شریک قرار دیا ہے۔ اس پوری سورت کو دیکھ لیجیے۔ جنوں کے متعلق قرآنِ مجید جو چیزیں بیان کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح سے انسانوں پر چسپاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ ایک ایسی مخلوق پر چسپاں ہوتی ہیں جو انسانوں سے بالکل الگ ہے اور جس کے متعلق انسانوں کے اندر عجیب عجیب تصورات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷) اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

یہاں ’تم‘ کا خطاب کفارِ مکہ اور تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے کہ تم نے جس طرح سے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی مُردوں کو زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا، اسی طرح سے جِن بھی یہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد نہیں اُٹھنا ہے۔

اس سے پہلے بارہا میں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی گمراہی کی بنیادی وجوہ میں سے، بلکہ بہت بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو کوئی جواب نہیں دینا ہے، تو وہ اور دنیادار ہوجاتا ہے اور اس کے نزدیک ہدایت اور ضلالت کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔ ہدایت اور ضلالت دونوں کا عقیدہ ہو کہ مرکر مٹی نہیں ہونا ہے تو کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں ہے۔   اس لیے آدمی اس معاملے میں serious ہی نہیں رہتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ چونکہ     وہ منکرین آخرت تھے اس لیے انکارِ آخرت نے انھیں بنیادی طور پر گمراہی میں ڈال دیا تھا۔ یہ اس بات سے بے پروا ہوگئے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اس وجہ سے غیرذمہ دارانہ طریقے سے انھوں نے غیرذمہ دارانہ اور بے بنیاد عقیدے گھڑ لیے تھے۔ وہ جس طرح اپنے متعلق یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم یہ کچھ ہیں، اسی طرح وہ حقیقت کے متعلق بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یہ کچھ ہے۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷)، اس فقرے کے  دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔ دوسرے یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بناکر نہ بھیجے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پایا جاتا تھا۔ آگے کے مضمون کی مناسبت سے بعد والا مضمون زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔ اسی لیے آسمان پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر جنوں کا کلام شروع ہوتا ہے۔ یہ چونکہ جملۂ معترضہ تھا اس لیے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔

وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْنٰھَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًاo  (۷۲:۸) اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹاپڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہورہی ہے‘‘۔

اب وہ یہ بتا رہے ہیں کہ جنوں میں یہ جستجو کیوں پیدا ہوئی تھی اور کیا واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے ہم تلاش میں نکلے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب عالمِ بالا کی طرف گئے اور وہاں ہم نے سن گن لینے اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو ہم نے دیکھا کہ عالمِ بالا تمام طرف سے نگرانی میں ہے۔ بہت زبردست پہرے دار لگے ہوئے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور کسی کو بھی آگے نہیں جانے دے رہے کہ کوئی سن گن ہی لے لے، اور بے تحاشا شہاب ثاقب ہیں جن کی بارش ہورہی ہے تاکہ کوئی چیز اُوپر نہ جاسکے۔

وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِھَابًا رَّصَدًاo  (۷۲:۹) اور یہ کہ ’’پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے‘‘۔

ہم عالمِ بالا میں سن گن لینے کے لیے پہلے گھات لگایا کرتے تھے اور کہیں چھپ چھپا کر عالمِ بالا کی خبریں لایا کرتے تھے ، مگر اب حالت یہ ہے کہ جو کوئی بھی اس کی کوشش کرتا ہے تو ایک شہابِ ثاقب اس کی گھات میں لگا ہوتا ہے تاکہ اسے ماربھگائے۔

وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًاo (۷۲:۱۰)اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیاگیا ہے یا اُن کا رب انھیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔

یہ چیز تھی جس کی وجہ سے جِن تلاش میں نکلے تھے۔ وہ اس تحقیق میں نکلے تھے کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔

یعنی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ ہم عالم بالا میں جاتے تھے وہاں پر   سُن گن لینے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر جب کوئی خبریں ہمارے ہاتھ لگتی تھیں تو ہم اپنے اولیا کو سنایا کرتے تھے اور پھر وہ ان سے اپنی فال گیری کا ڈھونگ رچاتے تھے، خبریں دیتے تھے اور سفلی اعمال کرنے والوں کو خبریں دیتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف زبردست پہرے لگے ہوئے تھے اور کوئی کسی بھی قسم کی سُن گن لینے نہیں دے رہا تھا۔ اسی وجہ سے اب ہمیں پریشانی ہوئی کہ کیا واقعہ ہونے والا ہے؟ یہ زبردست تیاریاں آخر کس چیز کی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پہلے اس طرح کا کوئی موقع نہ تھا کہ ہمیں مار مار کر بھگا دیا جاتا بلکہ اب قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جا رہا ہے؟ ہمیں یہ فکر ہوئی کہ زمین پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے کسی بھلائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ یہ جاننے کے لیے نکلے کہ زمین میں کیا بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جب وہ وہاں سے گزر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے اور قرآنِ مجید کو سن کر انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

آگے چل کر بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے اور اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات لوگوں کو سمجھائی ہے کہ اس قرآن کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ شیاطین اس کو القا کرتے ہیں اور شیاطین کا اس میں دخل ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیاطین کو اس کے قریب پھٹکنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی ؑ تک اپنا کلام بھیجنے کا آغاز کرتا ہے تو اتنے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ اس کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے۔ انھیں مار مار کر بھگا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے  کان میں بھی یہ آواز نہ پڑنے پائے کہ رسولؐ کی طرف کیا خبر بھیجی جارہی ہے۔ اگر وہ اس کو ذرہ برابر بھی سن لیں تو پہلے سے جاکر لوگوں کو خبردار کردیں کہ اب یہ آیت اُترنے والی ہے، اب یہ خبر تمھیں سنائی جانے والی ہے۔ اس طرح کی شرارت وہ تب کرتے جب اس کے لیے اتنے زبردست انتظامات نہ کیے جاتے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی ؑ کو مقرر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور نبی ؑ کے درمیان پیغام پہنچانے کے لیے اتنے زبردست انتظامات کیے جاتے ہیں کہ کسی قسم کی کہیں کوئی  خلل اندازی نہیں ہوسکتی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام بھیجا ہے تاکہ یہ اپنی صحیح جگہ پر جائے۔ نہ کسی کو یہ پتا چلنے پائے کہ نبی کو کیا خبر آنے والی ہے، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کون وحی لارہا ہے، اور نہ کوئی اس میں کسی قسم کی دراندازی کرسکے اور کوئی لفظ بڑھا سکے یا گھٹا سکے یا کسی مضمون کا اضافہ یا کمی کرسکے۔    اس طرح اللہ تعالیٰ نہایت محفوظ طریقے سے نبی تک اپنا کلام پہنچاتا ہے۔

وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًاo   (۷۲:۱۱) اور یہ کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔

یہاں جنوں کی زبان سے یہ حقیقت لوگوں کو بتائی جارہی ہے کہ سارے کے سارے جِن باکمال ، اولیا یا نیک ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ جن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیساکہ انسان ہیں۔ ان میں بھلے بھی ہیں اور بُرے بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی،ایمان دار بھی ہیں اور بے ایمان بھی۔ ہرطرح کی مخلوق ہے۔ جِن یہ خود بتا رہے ہیں کہ ہم میں سے کچھ صالح تھے اور کچھ بُرے تھے۔ اس طرح سے ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُعْجِزَ اللّٰہَ فِی الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًاo  (۷۲:۱۲) اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ ہمارے اسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے  بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سنا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جرأت نہ کرسکے کہ حق معلوم ہوجانے کے بعد بھی انھی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے۔

(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد  الرحمٰن ، امجد عباسی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے لیے جو دین بھیجا ، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہےاتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔

اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔

آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

نئی شیرازہ بندی

اس امرِواقعی سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو ان کو ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس راے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلّط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبردآزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لُوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیںاور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ (الانفال ۸:۶۲) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی  ایک ایک کر کے دُور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہرہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں اُبھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دُنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔

اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد

اس تنظیم وتالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اُٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبّر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضوؐر بھی ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا،بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہرفتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔

آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف ، اعلاے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دُنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین اُمت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ( ٰ الِ عمرٰن ۳:۱۱۰)’’تم دنیا کی بہترین اُمت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اُٹھائے گئے ہو‘‘۔

ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ  جن اصولوں کے داعی بن کر اُٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کے دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبّروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبّر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کر سکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کر دیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضوؐر کو دیوانہ کہتے تھے لیکن حضوؐ ر نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضوؐر کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔

صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے لیکن اصولوں کی ہرحال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہرقیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمت ِعملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاںبات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔

اصولی سیاست

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دُنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔

آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میںمکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہدشکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبّر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں بھی اس کے اس طرح کے کارناموں پر اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بناپر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی لوگ اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحب ِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں ،جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔

آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہدشکنی کرنے والو ں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوئوں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہرشخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دُنیا کے مدبّرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضوؐر کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبّر کہیے یا حکمت ِ نبوت۔

خوں ریزی سے پاک انقلاب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفّار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقعے پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کر دیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید ان نفوس کی تعداد چندسو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔

پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکارہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اس تہذیب وتمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجاے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رُونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔

دنیوی کرّوفر کے بجاے فقر و درویشی

اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ ان کے پورے کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَری و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔

اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحب ِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحب ِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمدؐ رسول اللہ کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضوؐر کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی اُمور کے فیصلے فرماتے۔

یہ نہ خیال فرمایئے کہ اس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہواہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجاے خلافت الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا لیکن اس سادگی اور اس فقرودرویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوے کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔

اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبّر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کر کے تیار کر دی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرئہ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرئہ عرب سے اُٹھ کر ان کو ان کی جڑوں سے اس طرح اُکھاڑ پھینکا گویا زمین میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور ان کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔

دنیا کے تمام مدبّرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہوجو اس کے فکروفلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔

نبیِ خاتم    ؐ اور پیغمبر عالم    ؐ

آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا   اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتم  ؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبّر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبّر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔

نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف  اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کرنہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبّر اور کون ہوسکتا ہے لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔

مُردار، خون، لحم خنزیراور جو کچھ اللہ کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اس کے حرام ہونے کے  احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ یَـئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْـنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (المائدہ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔

    کبھی الیوم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔

کفار و مشرکین کی مایوسی

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص دور ،مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔

کفّار کے مایوس ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔     اس اُمید پر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اور اسی اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔

ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور    دینِ اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔

 یہ بات کس وقت پیش آئی؟

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔  صلح حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر وہ صاف صاف اور کھلم کھلا احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ وہ اسلام قبول کرلے اور کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا بھی آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہاں حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔

جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلائے نہیں ہلتے، اب ان کی ایک مضبوط ریاست قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ: اب وہ وقت گیا کہ یہ تم پر    چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے، اور ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔

تکمیلِ دین کا تقاضا

جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو، دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں اور ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں، ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہ ہو، اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں، ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں، تو ان کے لیے عذر ہے۔

ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طاقت ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے:

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔

’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں    مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہے، اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔ اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔

یہودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ گویا جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے اس کا انتظام کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ اس وقت انگلستان میں ۳ لاکھ مسلمان ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں ۵ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے؟ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔

یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل میں تامّل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔

اس کے بعد فرمایا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

یہاں ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقعے پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا تو یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جار ہا ہے۔ جب نبی اکرمؐ کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے، اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔

دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔

وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔

اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں، یعنی ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کردی۔ تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

اضطرار کی کیفیت

فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ لا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  o  (۵ :۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخمصے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔

معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو، ان چاروں چیزوں کو حلال کرنے والی وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے  تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔

بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔

اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہو، اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔

یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ کی شرط لگائی گئی ہے، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیوں کہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ اگر گناہ کی طرف مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ سیر دو سیر سور کا گوشت حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔ یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔

اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔

اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے، تو یہ اس شخص کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب  تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے   نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔اب تمھیں کیا اضطرار لاحق ہے یا کون سی مجبوری اور پریشانی لاحق ہے کہ تم حرام کی طرف جارہے ہو۔ ایسی صورت میں کسی آدمی کا  یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے، یہ اس آدمی کا کام ہے جو   اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔

اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبۂ دین کی راہ بھی یہی ہے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن ،مرتبین:  ارشاد الرحمٰن ؍  امجد عباسی)