مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۲۲

یہ جملہ ’’ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے‘‘ اتنی کثرت سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت تقریباً کھو چکا ہے، مگر ’’شدید بحران‘‘ کا لفظ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔

قومی زندگی کے صبح و شام پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ قوم اور ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں ، اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حساس دل و دماغ تو زیرزمین زلزلے کی گہری زیریں لہروں کو محسوس کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ قومی قیادت اور خود قوم، قریب آتے ہوئے تباہ کن مستقبل سے بالکل بے خبر ہے۔ سطحیت ہر سطح پر حاوی ہے، جذباتیت کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی زندگی ہیجان اور انتشار کا شکار ہے، کہ صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن کے بیانات سے کم علمی اورکج فہمی جھلکتی ہے۔ جاہلیت، اسلامی تہذیب کے خرمن کو جلا رہی ہے۔

تاریخ کا یہ سبق یاد رہنا چاہیے کہ ایسے طوفانوں کے نتیجے میں محض حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ماضی کی تہذیبی قدریں اور تعلقات و معاملات کا پورا نظام اپنی جگہ سے ہل کر رہ جاتا ہے جس کے اثرات دیر تک قومی وجودکو چاٹتے رہتے ہیں۔ گویا کہ چند افراد کی نادانی کے نتیجے میں معاشرے کو بہت قربانی دے کر پھر کہیں بہت مشکل سے راستی اور درستی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے ۷۵ویں سال، یہ منظر ایک بدقسمتی ہے۔ تاہم، اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود ملک و ملّت کو سنبھالنے والے دماغ موجود تو ہیں، مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر رہنمائی دینے کے لیے آگے بڑھنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے فی الحقیقت سب سے بڑا ادارہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہے، لیکن افسوس کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ بگاڑ اور عاقبت نااندیشی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے مخصوص علاقائی مسائل کے باعث، پارلیمانی جمہوریت کی صورت میں، ملک کے لیے ایک مفید راستہ تجویز کیا گیا تھا، اور اس پر کم و بیش ہر زمانے میں اتفاق رائے پایا گیا۔ تاہم حکومتوں، انتظامیہ اور مقتدر طبقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اچھی تعلیم و تربیت سے پہلوتہی اور شرح خواندگی کی حددرجہ کمی نے ملک کی جمہوری اور پارلیمانی زندگی کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، برادریوں اور لسانی و علاقائی تفریقوں کی دلدل میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انتخابات میں تقریباً ۷۰فی صد یہی لوگ کامیاب ہوکر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ یوں جمہوریت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔

’منتخب ہونے کے قابل ناموں‘ (electables) نے جمہور عوام کی رائے کو بے وزن بناکر، پارلیمنٹ کی قوتِ کار کو گھن لگا دیا ہے۔ لوگ پارٹیوں کو تبدیل کر کے یا اپنے شخصی رسوخ کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر نہ انھیں قانون سازی سے کچھ دلچسپی ہوتی ہے، نہ ملک کی پالیسی سازی میں کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ان کے اندر کاروبارِ ریاست کا فہم حاصل کرنے کی کوئی اُمنگ ہے۔ اس طرح پارلیمان، کچھ خاندانوں، چند لوگوں اور طاقت ور افسروں کی یرغمال بلکہ غلام نظر آتی ہے۔ایسی پارلیمان کہ جسے جب چاہے کوئی میڈیا ہائوس رام کرلے یا کوئی این جی او زیردام لے آئے۔ سیاسی پارٹیوں کی موروثی قیادتیں، جمہور عوام کے ان نمایندوں کو اپنے تابعِ مہمل کارندوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔

اجتماعی اور تمدنی زندگی کی شیرازہ بندی کے لیے ایک دستوری معاہدے کے تحت جس بندوبست نے ملک کی تمام قوتوں کو متحد و متفق کیا ہے، اور جس کے تحت قومی ادارے وجود میں آئے ہیں، افسوس کہ اسی دستوری معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق حکومت چلانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ سب فساد، اسی انکار کے نتیجے میں قومی وجود کو ڈس رہا ہے۔ اس زہر کے تریاق، یعنی دستور کو کچھ وقعت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب کسی طبقے، گروہ یا فرد کو اپنے مفاد کے لیے اسے محض ایک عارضی وسیلے کے طور پر برتنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ چند روز دستور کی حُرمت اور احترام کا واویلا ضرور کرتا ہے، اور پھر اسے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کر دُور پرے پھینک دیتا ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے دوران، رائے عامہ کی بے توقیری سے یہ مرض شروع ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے کی ریل پیل سے انتخابی مہمات چلتی ہیں، ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ امیدواری کے لیے دستوری پابندیوں (دفعہ ۶۲، ۶۳) کے پُرزے اُڑائے جاتے ہیں۔ کہیں انتظامیہ سے  مل کر اور کہیں براہِ راست دھاندلی اور انتخابی انجینئرنگ کا ہتھیار استعمال کر کے، زہریلے دودھ سے  خالص زہریلا مکھن تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد یہ ہوگی تو خیروبرکت، دیانت و امانت، عدل و توازن کے پھول وطن عزیز کے آنگن میں کب اور کہاں کھِل سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف پھولوں کے بجائے کانٹے اُگتے اور جسد ِ قومی کو لہولہان کرتے ہیں۔

پھر معلوم نہیں کیوں اور کس اختیار کے تحت مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ملکی سیاست اور کاروبارِ ریاست کی نشست و برخواست کو ’درست کرنا‘ یا انھی کی مرضی کے تحت منظم کرانا، مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ایسی کسی ذمہ داری کی نہ گنجایش دیتا ہے اور نہ اس کا کوئی روزن ہی کھلا رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یقینا بعض سیاسی قوتیں، اپنی باری پانے کی غرض سے اس غیرآئینی کھیل کے لیے راستہ بناتی اور اپنے مفاد کے لیے اس قومی ادارے کو استعمال کرنے اور اس کا آلۂ کار بننے کا غیرقانونی فعل انجام دیتی ہیں۔ جسے ملازمینِ ریاست خوشی سے انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

سرحدوں پہ اور پھر داخلی سطح پر ملکی دفاع سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں سرحدوں کے ان مایہ ناز فرزندوں کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ پوری توجہ دفاعی اُمور پر مرکوز رکھیں، لیکن صدافسوس کہ بعض اعلیٰ عسکری افسران کے ہاں سیاسی مداخلت کےذوق کی تسکین کے لیے سرگرمی دکھائی جاتی ہے۔ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سیاسی قوت برسرِعام دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اپنی باری آنے پر دوسری سیاسی قوت، مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ تنقیدو دشنام کا ہدف بناتی ہے، جس کا مجموعی نتیجہ دفاعی حصار میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔  اب پیمانہ سنگین خطرات کی حدود کو چھو رہا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ ہو یا نچلی سطح کی عدالتی تنظیم___ اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ دستور کی پامالی اگر طاقت ور طبقے کریں تو ان کے ہاتھ روکے۔معاشرے کو اعتماد ہو کہ اُن کی داد رسی کے لیے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظامِ کار کی بے عملی ہے کہ برسوں تک مقدمات عدالتوں کی فائلوں، اہل کاروں کی آوازوں، وکیلوں کی بے نیازیوں اور جج حضرات کی طویل طویل پیشیوں کے وقفوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس اذیت ناک منظرنامے کو  تبدیل کرنے کی جانب عدالت، وکلا اور قانون سازادارے توجہ دینے پر آمادہ نہیں نظر آتے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں براہِ راست تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو عدلیہ نے ایک جانب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ دینے سے بے نیازی کا رویہ اختیار کیا، مگر دوسری جانب مداخلت کرکے ایک راستہ نکالا، جسے بعض حلقے پارلیمانی روایت سے ٹکراتا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ارکانِ پارلیمان نے کس طرح اور کب، پارلیمانی روایات کی پاس داری کی ہے؟ یہ خود سیاست دان ہی ہیں، جو بعض اوقات دولت کے لالچ میں یا مقتدر قوتوں کے اشارے پر اپنی وفاداریوں کا سودا کرتے ہیں۔

برسوں سے ہماری برسرِاقتدار پارٹیوں نے پارلیمنٹ کو پتلی تماشے کی طرح چلایا ہے۔ نہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور نہ اس کی کارروائی سنجیدگی سے چلائی جاتی ہے۔ کوئی اہم فیصلہ اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر نہ زیربحث لایا جاتا ہے اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے اجلاسوں کے انعقاد پر صرف ہوتے ہیں، مگر یہ اجلاس زیادہ تر سماجی میل جول، پکنک یا سرپھٹول کا سرکس بننے سے آگے نہیں بڑھتے۔ فیصلے پارٹی کے چند مرکزی لوگ یا اپنے اپنے مراکز میں طاقت ور طبقے کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ محض ان فیصلوں کی توثیق کا ربڑسٹمپ ثابت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوریت کہا جائے یا محض ’جمہوری تماشا؟‘۔ ایسے جعلی نظام پر جمہوریت کی حُرمت کا غلاف چڑھانا اپنی جگہ ایک بدمذاقی ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں تصادم کی سمت بڑھ رہی ہے۔ شعلہ بار تقریریں اور آتشیں بیانات اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ جذباتی طرزِ تکلم اور دشنام طرازی نے اداروں کے ڈسپلن ہی نہیں ،خود گھروں کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اختلاف، اختلاف رائے سے بڑھ کر نفرت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے بہتان اور الزام، تہمت جیسے تیروتفنگ سے کام لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت بُری طرح آزمایا جارہا ہے۔ دُور دُور تک کوئی مردِ دانش نہیں کہ جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھائے۔ دشمن اس بھڑکتی آگ پر خوش ہیں اور نادان ہم وطن اس آگ کو پھیلانے میں سرگرم۔

اس فضا میں مسئلے کا واحد اور فوری حل یہ ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں منصفانہ انتخابات منعقد کرائے جائیں، اور جو لوگ منتخب ہوں، انھیں باہم مل کر حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس حوالے سے ایک اصول پرسختی سے عمل کیا جائے کہ انتخابات سے پہلے یا انتخابات کے دوران کسی صورت فوج کی جانب سے مداخلت کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات ہو جائیں تو حکومتیں بنوانے کے لیے بھی فوج کو کسی سیاسی گروہ کی سرپرستی سے سختی سے باز آناچاہیے۔

ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مارکیٹ پر نہ ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ صنعت و تجارت کے کارپردازوں کو ریاست کی قوت اور احتساب کا کوئی ڈر۔ اس صورتِ حال میں عام شہری بُری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ بیماری، بے روزگاری، ملاوٹ اور مہنگائی قہر بن کر ہرگھر پر برس رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو نئی منتخب حکومت آنے تک ٹالے رکھنا سفاکیت ہوگی۔ معاملات کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے سول اور مالیاتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

دوسری جانب بڑی خاموشی کے ساتھ کشمیرکے مسئلے پر ایک سرگرمی جاری ہے۔ ’ماضی کو بھلا کر‘ جیسے ناسمجھی کے ’ڈاکٹرائن‘ کی پیشوائی میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت کو بحال کرنے اور کشمیر کی وحدت کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی کج فہمی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے جارحیت اور بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پامال کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے درست تسلسل سے جواب دینے کے بجائے، رفتہ رفتہ اسی راستے پر خود چل پڑنے کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔

ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مقتدر حلقے اور سیاسی قائدین عبرت پکڑیں گے۔ اپنی ذات، گروہ یا قول کو ضد اور اَنا کو پرستش کا محور بنانے سے اجتناب کریں گے اور قوم سے زیادتی کاارتکاب نہیں کریں گے۔ انھیں تاریخ سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ آج سے پہلے انھی کی طرح اقتدار و اختیار سے چمٹے محض چند لوگوں کی حماقت نے ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچایا اور ایسے کرداروں کے نام تاریخ میں ذلّت کی علامتوں کے سوا کوئی مقام نہ پاسکے: فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ  !

زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ انسانوں کی طبائع ، اُن کے افکار اور اُن کے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا تیوہاروں کے منانے کے طریقے اور مراسم بھی ہمیشہ متغیر ہوتےرہتے ہیں، اور اُن سے استفادے کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیےکہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریں، اورجو تبدیلیاں افکارکے تغیرات سے ہونی لازم ہیں، اُن کو مدِنظر رکھیں۔

مِن جملہ اُن مقدس ایام کے، جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، ایک میلاد النبیؐ کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک، انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اُن کے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو، وہ ہروقت اُن کے سامنے رہے۔

چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوئہ رسولؐ کو مدِنظر رکھیں، تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔یہ جذبات قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں:

پہلا طریق تو درُود و صلوٰۃ ہے، جو مسلمانوں کی زندگی کا جزوِلاینفک ہوچکا ہے۔ وہ ہروقت درُود پڑھنے کے موقعے نکالتے ہیں۔

عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑپڑتے ہیں، تو تیسرا بآوازِ بلند اللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی سیّدنا محمدٍ وبارک وسلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رُک جاتی ہے اور متخاصمین ایک دوسرے پر ہاتھ اُٹھانے سے فوراً باز آجاتے ہیں۔ یہ درُود کا اثر ہے، اور لازم ہے کہ جس پر درُود پڑھا جائے، اُس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے۔

پہلا طریق انفرادی ہے اور دوسرا اجتماعی___ یعنی مسلمان کثیرتعداد میں جمع ہوں، اور ایک شخص جو حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو، آپؐ کے سوانح زندگی بیان کرے، تاکہ آپؐ کی تقلید کا ذوق شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔  اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہم سب آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔

تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے، لیکن بہرحال اُس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ ہے کہ یادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے، کہ انسانی قلب، نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر ہوجائے، یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے کی جو کیفیت حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مقدس سے ہویدا تھی، وہ آج، ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔

حضرت مولانا رومؒ [۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء]فرماتے ہیں:

آدمی دید است، باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است

یہ جوہرِ انسانی کا کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا اور کسی چیز کی دید سے مطلب نہ رہے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے۔ کتابوںکو پڑھنے یا میری تقریر سننے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوںاور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی اَنوار حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لیے یہی طریقہ غنیمت ہے، جس پر ہم آج عمل پیرا ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس طریق پر عمل کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟

پچاس سال سے شور برپا ہے کہ ’مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے‘، لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے، تعلیم سے زیادہ اس قوم کی تربیت ضروری ہے اور ملّی اعتبارسے یہ تربیت علما کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے۔ صدرِ اسلام میں اسکول نہ تھے، کالج نہ تھے، یونی ورسٹیاں نہ تھیں، لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہرچیز میں ہے۔

 خطبۂ جمعہ، خطبۂ عید، حج، وعظ، غرض تعلیم و تربیت ِ عوام کے لیے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں، لیکن افسوس کہ علما کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم نہیں رہا، اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کا طریقِ عمل ایسا رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہوگئے اور علما کے درمیان، جنھیں پیغمبرؐاسلام کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا، سر پھٹوّل ہونے لگی۔ مصر، عرب،ایران، افغانستان ابھی تہذیب و تمدن میں ہم سے پیچھے ہیں۔لیکن وہاں علما ایک دوسرے کا سر نہیں پھوڑتے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اخلاق کے اس معیارِ اعلیٰ کو پالیا ہے، جس کی تکمیل کے لیے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اور ہم ابھی اس معیار سے بہت دُور ہیں۔

دُنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیلِ اخلاق ہے۔ چنانچہ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بَعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاِخْلَاق[ترمذی:۱۴۲۵]یعنی ’میں نہایت اعلیٰ اخلاق کے اتمام کے لیے بھیجا گیا ہوں‘۔ اس لیے علما کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کریں، تاکہ ہماری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ کی تقلید سے خوش گوار ہوجائے، اور اِتباعِ سنتؐ زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری ہوجائے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ [۸۰۴ء-۸۷۴ء]کے لیے خربوزہ لایا گیا، تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا، اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں، رسولؐ اللہ نے اس کو کس طرح کھایا ہے، مبادا میں ترکِ سنت کا مرتکب ہوجائوں‘‘:

کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد

افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی موجود نہیں، جن سے ہماری زندگی خوش گوار ہوجائے اور ہم اخلاق کی فضا میں زندگی بسر کرکے ایک دوسرے کے لیے باعث ِ رحمت ہوجائیں۔ اگلے زمانے میں مسلمانوں میں اِتباعِ سنّتؐ سے ایک اخلاقی ذوق اور مَلکہ پیدا ہوجاتا تھا، اور وہ ہرچیز کے متعلق خود ہی اندازہ کرلیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارویّہ اس چیز کے بارے میں کیا ہوگا۔

حضرتِ مولانا رومؒ بازار جارہے تھے۔ اُنھیں بچوں سے بہت محبت تھی۔ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ اُن سب نے مولاناؒ کو سلام کیا اور مولانا ایک ایک کا سلام، الگ الگ قبول کرنے میں دیر تک کھڑے رہے۔

ایک بچہ کہیں دُور کھیل رہا تھا۔اُس نے وہیں سے پکار کر کہا کہ ’’حضرت، ابھی جایئے گا نہیں، میرا سلام لیتے جایئے‘‘ تو مولانا نے بچّے کی خاطر توقف فرمایا اور اُس کاسلام لے کر گئے۔

کسی نے پوچھا: ’’حضرت آپ نے بچّے کے لیے اس قدر توقف کیا‘‘۔

آپ نے فرمایا کہ ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا واقعہ پیش آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی یونہی کرتے‘‘۔

گویا ان بزرگوں میں تقلید ِ رسولؐ اور اِتباعِ سنت سے ایک خاص اخلاقی ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔علما کو چاہیے کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کریں۔ قرآن اور حدیث کے غوامض [رُموز، بعض مشکل مسائل]بتانا بھی ضروری ہے، لیکن عوام کے دماغ ابھی ان مطالب ِ عالیہ کے متحمل نہیں۔ اُنھیں فی الحال صرف اخلاقِ نبویؐ کی تعلیم دی جانی چاہیے۔

دُنیا پرستوں کی طرف سے یوں تو ہر زمانے میں مذہب کے خلاف ایک جذبۂ نفرت موجود رہا ہے، مگر دورِ جدید میں لبرلزم، کیپٹل ازم، سیکولرزم اور سوشلزم کے فروغ کے ساتھ اس جذبے میں غیرمعمولی شدت پیدا ہوئی ہے۔ بعض لوگ جذبۂ نفرت کے مختلف پہلوئوں اور اس کے منطقی نتائج پر غور کیے بغیر یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’آخر انسان مذہب کے اثرات سے آزاد ہوکر کیوں بہتر اور شاد کام زندگی بسر نہیں کرسکتا؟‘‘

جن لوگوں نے کبھی کسی مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا، وہ تو خیر اسی راہ پر گامزن رہیں گے، اور اُس وقت تک اپنے دل میں مذہب کے خلاف نفرت کے جذبات پالتے رہیں گے، جب تک کہ لادینیت اور مادہ پرستی اپنی ساری ہولناکیوں کے ساتھ دُنیا پر مسلط ہوکر انسانی زندگی کو پوری طرح جہنّم نہ بنادے۔ لیکن وہ حضرات جو وقتی نعروں سےفوراً اثر قبول کرنے کے عادی نہیں ہیں، اور آنے والے حالات و واقعا ت پرغوروفکر کرنے کے خوگر ہیں، اُنھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا مذہب کے بغیر انسانیت زندہ رہ بھی سکتی ہے؟ اور اگر مذہب دُنیا سے رخصت ہوجائے تو پھر انسانیت ناگزیر طور پر کس خوف ناک انجام سے دوچار ہوگی؟

اس مسئلے پر بحث سے پیش تر چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

       ۱-    ہمیں مذہب کی بگڑی ہوئی صورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر بعض چالاک اور عیّار لوگوں نے دُنیوی مفادات کی خاطر مذاہب کا حلیہ بگاڑا ہے، تو یہ اُن کی عیاریاں ہیں۔ مذہب کو اس سلسلے میں کسی طر ح بھی موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔

       ۲-    دُنیا کے مذاہب نے اپنی اپنی جگہ فکروعمل کا جو نظام دیا ہے، یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ہمیں نفسِ مذہب کی ناگزیرضرورت اور اس کی غیرمعمولی افادیت سے بحث کرنا ہے کہ اگر دُنیا سے مذہبی افکار و احساسات بالکل ختم ہوجائیں، تو پھرانسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا نقشہ اور انداز ہوگا، اور کیا اُس نقشے اور انداز کو متمدن اور تہذیب یافتہ زندگی کہا جاسکے گا؟

مادیت اور دھن دولت کے پرستاروں نے مذہب کو بے وزن اور بے کار ثابت کرنے کے لیے جس انداز سے اس کے ارتقا کی داستان مرتب کی ہے، وہ بڑی غلط ہے۔ اُن کا چونکہ سارا زور اس بات پر ہے: ’’اصل چیز مادہ ہے اور خدا بھی چونکہ مادے کی اس خارجی دُنیا کا انسان کے ذہن میں عکس ہے، اس لیے خدا کے بارے میں انسانی تصورات خارجی حالات کی تبدیلی سے بدلتے رہتے ہیں۔ آغاز میں جب انسان کے علم اور مشاہدے کا دائرۂ محدود تھا تو وہ لاتعداد مظاہر قدرت کو خدا مان کر اُن کی پرستش کیا کرتا تھا۔ اس کے بعدجب اُس کے علم کا دائرہ وسیع ہوا اور اُس کے اندر مظاہر کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو خدائوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور پھر ایک خدا کا تصور باقی رہا اور اب اس خیالی پیکر سے بھی انسان کو نجات ملنی چاہیے، کیونکہ یہ بھی محض واہمہ ہی ہے‘‘۔

خدا کے بارے میں اس من گھڑت فلسفے کا حقیقت سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ خدا کا وجود خارجی حالات کا عکس نہیں بلکہ وہ ایک ایسی زندہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے، جسے تسلیم کیے بغیر اس کائنات میں انسانی زندگی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ انسان کی فطرت اور اس کے قلب و دماغ میں خدا کے وجود کا احساس اسی وقت ودیعت کردیا گیا تھا، جس وقت ابوالبشرکی تخلیق کی گئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ذات کے شعور و احساس کی بنا پر ہی اس کے اندر اخلاقی احساس پیدا ہوتا ہے، جو اُسے دوسرے جان داروں سے ممیز اور ممتاز کرتا ہے۔ ’توحید‘ کا تصور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان کے قلب و دماغ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ اوّل روز ہی سے موجود ہے۔ یہی تصور صحیح اور برحق ہے، اور اسی تصور سے انسان کے اندر صحیح اخلاقی شعور جنم لیتا ہے۔ لہٰذا، یہ بات کہ ’’انسان نے مدت دراز کے بعد توحید کے تصور کو اپنایا‘‘، بالکل غلط مفروضہ ہے۔

  • قدیم قبائل میں تصورِ توحید:عہد ِ حاضر میں علمِ بشریات کے ماہرین نے بعض قدیم قبائل کے افکار و اعمال کا جائزہ لیا ہے اور اس جائزے کے لیے ایسے قبائل کو منتخب کیا گیا ہے، جو آج کی متمدن دُنیا سے بالکل الگ تھلگ ہیں، جن کا اندازِ زیست پتھر اور لوہے کے اَدوار سے ملتا جلتا ہے، لیکن وہ ہرمظاہر قدرت کی پرستش کے بجائے خالص توحید کے قائل اور ایک خدا کے پرستار ہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو بہت سے محققین نے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، مگر ۱۹۳۱ء میں ویلہلم شمیٹ (Schmidt) اور ایچ جے روز (Rose) دو جرمن اہلِ قلم کی تصریحات قابلِ غور ہیں۔ اُنھوں نے افریقہ اور آسٹریلیا کے متعدد قدیم قبائل کے حالات کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا، اور پھر اپنی تحقیقات کو ایک کتاب The Origin and Growth of Religion: Facts & Theories [مذہب کا آغاز اور اُس کا نشوونما] کی صورت میں مدوّن کیا ہے۔ اُنھوں نے صاف طور پر یہ کہا ہے:

قدیم تمدن میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ذات خدائے واحد کی ہے، اور جو مذہب ایک خدا کو تسلیم کرتا ہے، وہ ’توحیدی مذہب‘ کہلاتا ہے۔ اس موقف پر بہت سے مصنّفین نے اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے جواب میں مَیں یہ کہتا ہوں کہ بہت سے قبائل ایسے ہیں، جن کے ہاں ایک ارفع و اعلیٰ ذات پر ایمان اُن کے توحیدی مزاج کی واضح علامت ہے۔ یہ حقیقت بہت سے پگمی قبائل (Pygmy)، قدیم بُش من (Bushmen)، کرنائے (Kurnai)، کیولن (Kulin) اور جنوب مشرق کے یون قبیلے کے متعلق وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔(ص ۲۶۲)

ان نیم متمدن قبائل کے ہاں، جنھیں علم کی ہوا تک بھی نہیں لگی، توحید کا تصور اُس حقیقت پر شاہد ہے، جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے، کہ انسان کی فطرت کو صحیح مذہب پربنایا گیااور پھر اوّل روز ہی سے اُس کے لیے ہدایتِ الٰہی کا سامان کیا گیا۔ لہٰذا، وہ ابتدائے آفرینش ہی سے خدا، وحی، حشرونشر، اور رسالت کے بارے میں صحیح قسم کے احساسات رکھتا ہے۔ اگر وہ اس فطری حالت سے الگ ہوکر کوئی دوسری روش اختیار کرتا ہے تو یہ گمراہی کی راہ ہے، جسے اُس نے خود اختیار کیا ہے۔

مذہب کے مطالعے سے اصل صورتِ حال یہ سامنے آتی ہے کہ قادرِ مطلق نے جب انسان کو مادّی اور روحانی احتیاجات کے ساتھ اس کرئہ ارضی پر اُتارا، تو ان دونوں قسم کی احتیاجات کی تسکین کا سامان بھی فراہم کیا۔ جس طرح اُس نے انسان کی بھوک، پیاس اور صنفی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خوراک، پانی اور اُس کے لیے جوڑے کا انتظام کیا۔ بالکل اسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کے لیے اُسے ایک واضح نظامِ ہدایت بھی عطا فرمایا، تاکہ اس کی روح تشنہ نہ رہے۔

مثال کے طور پر ہرانسان میں جبلّی طور پر یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ یہ جانے کہ ’’اس عالمِ محسوسات سے ماورا کیا ہے؟‘‘ اس کا جواب اسے یہ دیا گیا کہ ’’اس عالمِ محسوسات سے ماورا ایک ارفع و اعلیٰ روحانی نظام موجود ہے، جو برابر انسان پر اثرانداز ہوکر اُس کے اندر اخلاقی احساسات پیدا کرتا ہے‘‘۔ پھر انسان اپنے متعلق یہ جاننے کے لیے بھی آرزو مند رہتا ہے کہ ’’وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟‘‘ اس کا جواب بھی اُسے یہ دیا گیا کہ ’’اُس کا آغاز بھی اُس قادرِ مطلق ذات نے کیا ہے اور انجامِ کار بھی وہ اُس کے حضور میں حاضر ہوگا‘‘۔ پھردُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے اندر  ؎

دیکھے بھالے، بن سوجھے
جانے پہچانے ، بن بوجھے

وجود کا احساس موجود نہ ہو۔ ہرفرد، کائنات کی اس بنیادی حقیقت کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلے۔ دُنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں، جو اس احساس سے خالی ہو۔ یہ احساس انسان کے اندر اسی طرح ایک گہری خلش پیدا کرتا ہے، جس طرح کہ بھوک اور پیاس یا دوسری جبلّی خواہشات خلش پیدا کرتی ہیں۔ یہ احساس وقتی طور پر دب تو سکتا ہے مگر مٹ نہیں سکتا اور ہلکی سی لَے کی طرح ہروقت موجود رہتا ہے۔

انسان اس حقیقت سے تو بہرحال واقف ہے کہ اس کی شعوری اور جذباتی کیفیت کے لیے ایک معروض (objective) کا ہونا ضروری ہے۔ اگر غصہ آجائے تو کسی بات یا شخص پر ہوگا۔ خوشی پید ا ہوگی مگر کسی چیز یا خیال سے پیدا ہوگی۔ اب اگر دوسری نفسی کیفیات کے لیے معروض کا وجود ضروری ہے،تو انسان کی اس سب سے بڑی اہم کیفیت کے لیے معروض کیوں نہ ہو؟ اس کا جواب بھی مذہب نے یہ دیا ہے کہ ’’یہ کیفیت انسان کی روحانی اور اخلاقی اساس ہے اور اس کا معروض دُنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جو خارجی دُنیا میں سورج سے زیادہ روشن اور داخلی طور پر اس کی اپنی زندگی، یعنی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

 قَالَتْ رُسُلُہُمْ اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ (ابراہیم۱۴:۱۰) رسولوںؑ نے کہا: ’’کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟‘‘

یہ سارے احساسات جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، انسانی نفس کے بنیادی احساسات ہیں، جن سے کسی صورت میں مفر نہیں۔ پھر ان کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی انسان محض مادّی زندگی کے شواہد اور حقائق سے ان کی تسکین نہیں کرسکتا۔ آخر سوچیے کہ اس عالمِ محسوسات سے ماورا حقیقت ِ کبریٰ (Ultimate Reality) کو جاننے اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کو ہم آہنگ کرنے کی آرزو کو یہ کہہ کر کس طرح پوراکیا جاسکتا ہے کہ ’’یہ محض وہم ہے؟‘‘

یہ سارے احساسات تو کسی گہری روحانی اور وجدانی کیفیت کے ترجمان ہیں، جن کی تسکین روحانی وسیلے ہی سے ممکن ہے۔ اگر ہم ان کی نفی کردیں تو یہ احساسات مٹ تو نہیں سکتے، یہ اپنی تسکین کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرلیں گے۔ ہم یہاں اس راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس پر گامزن قافلۂ انسانیت کے مصائب اور دشواریوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ مذہب کے دشمن جھٹ سے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ’’مذہب انسانوں کے لیے افیون اور سامراج کے ہاتھ میں ظلم کا ہتھیار ہے، مگر اُنھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مذہب کے بغیر انسانیت کی کس طرح مٹی پلید ہوتی ہے؟

بعض سادہ لوگ اس فریب میں بھی مبتلا ہوتے ہیں کہ ’’دُنیا کی بعض قوموں نے مذہب کو تیاگ کر بھی ایک اجتماعی زندگی کی بنیاد رکھی ہے، اور یہ اس بات کی شہادت ہے کہ مذہب کے بغیر بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے‘‘۔

یہ صورتِ حال کا بالکل سطحی مطالعہ ہے۔ مذہب سے انسان چونکہ ہزاروں سال سے مانوس چلا آرہا ہے، اس لیے اس کے لاشعور میں بھی ابھی تک اخلاقی احساسات موجود ہیں، اور اِن کی وجہ سے وہ ابھی تک بعض ایسی بنیادی انسانی صفات سے یکسر محروم نہیں ہوا، جن کے ناپید ہونے سے اُس کی زندگی پوری طرح درندگی کا نمونہ بن جائے۔ انسان کا حشر اُس وقت دیکھنے کے قابل ہوگا، جب وہ ان اخلاقی احساسات سے یکسر تہی دامن ہوجائے گا۔

دوسرے یہ کہ ابھی تک یہ قومیں دورِ تعمیر سے گزر رہی ہیں، اس لیے ان کے سامنے لادینیت کے منطقی نتائج اُبھر کر سامنے نہیں آئے۔ پھر دوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جو بے پناہ جذبۂ نفرت و حقارت پیدا کر دیا گیا ہے، اس سے بھی ان کے اندر ایک مصنوعی قوتِ عمل پیدا ہوئی ہے، جس نے ان کے اخلاقی شعور کو وقتی طور پر اس حد تک مفلوج کردیا ہے کہ ان کے اندر احساسِ زیاں باقی نہیں رہا، مگر انسانوں کے اخلاقی شعور یا دوسرے لفظوں میں ان کی انسانیت کو دیر تک اس حالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وہ ترقی کے اس طلسم کے ٹوٹتے ہی بیدارہوگی اور اس وقت اسے یہ احساس ہوگا کہ اُسے ان احساسات سے محروم کرکے اس کے ساتھ شرمناک کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس بناپر مذہب دشمن قوتوں کی موجودہ صورتِ حال کو لادینیت کے حق میں وجۂ جواز نہیں ٹھیرایاجاسکتا، کیونکہ اس صورتِ حال کے نتائج ابھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ مذہب کے بغیر انسانیت کا حلیہ کس طرح بگڑے گا؟ موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا ایک ہلکا سا ادراک کیا جاسکتا ہے۔

  • انکارِ خدا کی حقیقت:اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے انکارِ خدا ہی کو لیتے ہیں:

خدا کی ہستی کا شعور و ادراک ، جیساکہ ہم پہلے گزارش کرچکے ہیں، انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ انسان اس احساس سے ایک لمحے کے لیے بھی دست کش نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ اس احساس کی تسکین کے لیے صحیح راہ نہیں پاتا، تو وہ نہ صرف انسانیت کے سب سے شیریں عنصر سے محروم رہتا ہے بلکہ بڑی غلط راہوں پر چل نکلتا ہے۔

چنانچہ، دیکھیے کہ جن قوموں نے خدا کا انکار کیا اُنھوں نے قومیّت، نسل پرستی، یا ریاست جیسے جھوٹے خدائوں کی پرستش اختیار کی اور اپنے جذبۂ روحانی کی تسکین کے لیے ان کے ساتھ اس طرح کا والہانہ جذبۂ عقیدت استوار کیا، جس طرح کہ ایک خدا پرست انسان، اپنے سچے خالق اور مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ایک فلسفی نے کس قدر صحیح کہا ہے کہ ’’خدا کے ساتھ روحانی تعلق انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔وہ اگر اس تعلق کے لیے خدا کو نہیں پہچانتا تو پھر شیطان کے ساتھ رشتۂ عبودیت استوار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے‘‘۔

قوم، وطن یا مملکت کی پرستش کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس ایک معبود کے سامنے دوسرے معبودوں کا انکار کیا جائے۔ اس احساس کے تحت جارحانہ قوم پرستی کا نظریہ پیدا ہوا، جس کی رُو سے دُنیا کی ہرقوم، دوسری قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُل گئی۔ پھر اپنے گھر کے اندر قوم کے سارے افراد نے اُسے خدا سمجھ کر اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کی اور اسی کو زندگی کا کمال خیال کیا۔

ظاہر بات ہے کہ قومی مطالبے قوم اور وطن کے سربراہوں کی زبان ہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سربراہوں کو معاشرے میں اسی بلند مقام پر فائز کردیا گیا، جس مقام پر کہ مذہب میں خدا کے پیغمبر ؑ فائز کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے روحانی احساسات کی تسکین کے لیے جو مادی مذہب اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے، اور اس میں خدا کی جگہ قوم کی پرستش اور رسول کی غیرمشروط اور خوش دلانہ اطاعت کی جگہ اربابِ اختیار کی بے چون و چرا اطاعت موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس اندازِ فکر اور طرزِعمل سے انسان کی روح کوتسکین حاصل ہوسکتی ہے؟‘‘

قوم اور وطن دونوں ’اُلوہیت‘ کے اس لطیف اور شیریں عنصر سے عاری ہیں، جو انسان حق تعالیٰ کی بلندو بالا اور ارفع ذات میں پاتا ہے۔انسان فطری طور پر عالمِ محسوسات سے ماورا کسی اعلیٰ و ارفع ذات سے رشتۂ عبودیت استوار کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے، اور اسے جب کسی پیکر ِ محسوس کی پرستش پر آمادہ کیا جائے تو وہ لازمی طور پر اپنی زندگی میں ایک خوف ناک خلا محسوس کرتا ہے۔ پھر اس کے قلب و دماغ کو یہ دیکھ کر بھی شدید اذیت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو وہ اس جھوٹے خدا کے ترجمان اور اس کے احکام کے شارح قرار دے کر اُن کی غیرمشروط اطاعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے، وہ بھی اپنے اندر کوئی ایسی روحانی اور اخلاقی کشش نہیں رکھتے جس سے انسان کی روح تسکین حاصل کرے، اور اسے یہ محسوس ہو کہ ان مقدس ہستیوں کی پیروی سے وہ اپنے آپ کو ایک روحانی نظامِ اخلاق سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔

جارحانہ قوم پرستی کے ان رہنمائوں کی اطاعت سے انسانوں کی رُوحیں مجروح ہوتی ہیں، کیونکہ اُنھیں ہرقدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جبرواستبداد ، مکروفریب، خودغرضی اور دُنیا پرستی کی راہ پر گامزن ہیں، اور ان کی زندگی لطیف احساسات سے یکسر تہی دامن ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ قوم یا مملکت کی خدائی کا نقش دلوں پر مستقل طورپر قائم رکھنے کے لیے اور عوام کو اربابِ اختیار کا پرستار بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی حمدوثنا میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ اُنھیں ایسی غیرمعمولی اور مافوق البشر صفات کا مظہر قرار دیا جائے، جن کی بنا پر ان کے اندر اُلوہیّت کی شان پیدا ہو۔ اس احمقانہ اور خطرناک رجحان نے پوری دُنیا کی اخلاقی حالت کو جس طرح متاثر کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور اس سے جو مزید فتنے پیدا ہونے کا امکان ہے، ان کا تصور بھی کچھ مشکل نہیں۔

  • مذہب سے محرومی کے نتائج:مذہبی احساسات سے محروم ہوکر انسان اپنی انسانیت کو بھی برقرار نہ رکھ سکےگا۔ آپ غور کریں کہ انسان اگر حیوان سے ممیز و ممتاز ہے، تو اس کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ اخلاقی احساسات رکھنے کی بناپر اپنی حسّی اور مادی خواہشات کو اخلاقی حدود کے اندر رہ کر پورا کرتا ہے، اور ان احساسات کی وجہ ہی سے وہ مادی سود و زیاں سے بلند تر ہوکر اچھے اور پاکیزہ مقاصد کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اگر انسان کا اخلاقی شعور، جو مذہبی احساس کی وجہ سے قائم ہے، ختم ہوجائے تو پھر انسان کے اندر حسّی لذات اور مادّی مفادات سے بلندتر ہوکر سوچنے اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کی خاطر زندہ رہنے کی کوئی تمنّا باقی نہیں رہتی ، اور انسان زندگی کا وہی نہج اختیار کرلیتا ہے جو حیوانوں کا ہے۔

اخلاقی احساس کی عدم موجودگی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ’انسانی عمل کا محرک کیا ہے؟‘

اس کا ایک ہی جواب ممکن ہے کہ ’’جب روحانی اور اخلاقی احساس موجود نہ رہے تو پھر حسّی لذت کی تسکین، مادّی منفعت کی چاٹ اور نفع کی اُمید ہی کو عمل کا سب سے بڑا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کے اندر کسی بلند روحانی نصب العین کے حصول کی خواہش نہ ہوتو لامحالہ وہ حسّی خواہشات کی تکمیل ہی کے لیے سرگرمِ عمل ہوگا۔ انسان کے لاشعور میں مذہب کے بچے کھچے اثرات موجود ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک درندگی کی اُس سطح پر نہیں اُترا، اندریں حالات جس پر اُسے فی الواقع اُتر جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر مذہب کے خلاف نفرت کا یہی جذبہ پرورش پاتا رہا، تو پھر دُنیا کی کوئی قوت اسے اس پست سطح پر اُترنے سے نہیں بچاسکتی۔

وہ لوگ انسانی فطرت کے بارے میں شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’وہ انسان کو مذہب کے بغیر بھی انسانیت کے وسیع تر مفادات کے لیے ایثار و قربانی پر اُبھار سکتے ہیں‘‘۔

یہ لوگ غلطی سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ایک مخصوص قسم کے نظامِ تعلیم و تربیت کے ذریعے عوام کے اندر اجتماعی مفادات کی محبت پیدا کرکے اُنھیں غیرمعمولی ایثار پر آمادہ کرسکیں گے، مگر یہ لوگ شاید ایثار کی نفسانی کیفیت سے یکسر ناواقف ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مفادات کو وسیع تر مفادات کی خاطر قربان کرتا ہے، تو وہ یہ عظیم قربانی بھی روحانی احساس کے تحت کرتا ہے۔ ورنہ حسّی لذات اور مادّی خواہشات تو انسان کے اندر خود غرضی اور نفس پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔

انسان کے اندر اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ایثار، بنی نوع انسان سے بے لوث محبت، دوسروں کے دُکھ درد میں ان سے تعاون، مصیبت کے وقت ان کی معاونت اور دستگیری، کمزوروں  اور بے بسوں پر رحم، یہ سب روحانی احساسات کے مختلف مظاہرہیں۔ اگر یہ احساسات مٹ جائیں تو پھر انسان خود غرضی اور شقاوتِ قلبی کا پیکر بن جاتا ہے، اور اپنے طرزِ عمل میں درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں کیا کسی تہذیب کا نام و نشان باقی رہ سکتا ہے؟

اگر اخلاقی حس ناپید ہے توپھر انسان کو اس بات کی آخر کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کو آرام اور سکون فراہم کرنے کا التزام کرے، اور کمز وروں اور بے بسوں کو دُنیا سے مٹا کر اپنے وسائل میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے اُن سے تعاون کرے، اور اُنھیں زندہ رکھ کر ان وسائل میںا ُنھیں شریک ٹھیرائے؟

سوچیے کہ آخروہ کون سا جذبہ ہے، جس کے تحت نوجوان اپنے بوڑھے والدین کا ہنسی خوشی بوجھ اُٹھاتے ہیں، حالانکہ ان سے نفع کی کوئی اُمید باقی نہیں ہوتی۔ مادّی نقطۂ نظر سے تو یہ لوگ خاندان اور معاشرے پر بار ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اچھا مصرف یہی ہے کہ ان کے نحیف اور بیکار وجود سے دُنیا کو پاک کیا جائے۔

ایک نہیں، بہت سے ایسے قواعد و ضوابط جن کی پابندی لادینی عناصر اور معاشرے بھی کرتے ہیں، ان کی تہ میں دراصل مذہب کے پیدا کردہ اخلاقی احساسات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی سے نکاح کو جو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی مذہبی احساس ہی ہے، ورنہ خالص مادّی نقطۂ نظر سے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ان رشتوں میں ایک خاص نوعیّت کی جو تقدیس پائی جاتی ہے، وہ صرف مذہب کی رہینِ منت ہے۔ انسان خواہ زبان سے مذہب کا مخالف اور دشمن ہو، مگر اس کے لاشعور میں بہن اور بیوی کے درمیان یا بیوی اور ماں کے درمیان جو ایک واضح امتیاز ہوتا ہے، وہ مذہب کا پیدا کردہ ہے۔ خالص حیوانی نقطۂ نظر سے اس تفریق اور امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔

  • مذہب کی افادیت انسانی زندگی میں:آپ غورکریں کہ اگر انسان اپنے حسّی محرکات کے تحت ہی زندگی بسر کرسکتا تھا تو انسان کی ہدایت کے لیے آخر اتنے لاتعداد انبیاؑ کیوں بھیجے گئے؟

کائنات کی ان مقدّس ہستیوں کی جدوجہد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُن کا کام اگرچہ دُنیا کا سب سے سخت ترین اور صبر آزما کام ہے، مگر انسانوں کے کرنے کا یہی کام ہے، کیونکہ انسانیت کا حقیقی جوہر اسی کام کے ذریعے کھلتا ہے، اور اُس جوہر کی بدولت انسان نہ صرف حیوانوں کی سطح سے بلند ہوتاہے بلکہ اخلاقی اور روحانی رفعتوں میں فرشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ فرشتوں میں تو حیوانیت کا کوئی عنصر سرے سے ہوتا ہی نہیں، اس لیے وہ حسّی خواہشات کی لذت سے یکسر محروم ہوتے ہیں ، اور اس بناپر یہ خواہشات ان کے عمل کا کسی صورت بھی محرک نہیں بن سکتیں۔

انسان کی اصل انسانیت بلکہ اس کی حقیقی عظمت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ حسّی خواہشات اور مادّی تمنائوں کی قوت کو اپنے اندر محسوس کرنے کے باوجود اُنھیں اپنے آپ پر غالب نہ ہونے دے بلکہ اُنھیں اخلاقی احساسات کا پابند بنا کر تعمیروترقی کی راہ پر لگائے۔ انسانیت درحقیقت انسان کی اپنی حیوانیت پر اس کی اخلاقی حس اور اس کی رُوح کی فتح کا دوسرا نام ہے اور یہ فتح و کامرانی مذہبی تعلیمات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مذہب نے اخلاقی احساس کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اس کی پرورش کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس احساس کے تحت انسان خاکی ہونے کے باوجود وطن کا پرستار نہیں بنتا بلکہ انسانیت کی وسیع تر برادری سے رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے۔ اسی احساس کی بدولت وہ مادی سود و زیاں سے بے پروا ہوکر زندگی کے بیش تر معاملات اخلاقی بنیادوں پر طے کرتا ہے۔ وہ اسی احساس کے تحت والدین کی عزّت و تکریم کرتا ہے۔ کمزوروں اور ناداروں پر دست ِ شفقت رکھتا ہے۔ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے، حالانکہ مادّی نقطۂ نظر سے یہ سراسر گھاٹے کے سودے ہیں۔

اسی احساس سے اس کے اندر استغناء، تحمل، بُردباری، ایثار جیسی بلندواعلیٰ صفات پرورش پاتی ہیں۔ پھر یہی احساس اس کے اندر اخلاص اور بے لوثی کی ایسی متاعِ عظیم پیدا کرتا ہے، جس کی رُو سے وہ اپنی ساری خدمات اور قربانیوں کے بدلے میں کسی دُنیوی فائدے یا شہرت یا عزّت کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سارے کام خدا کی رضاجوئی کے مقدس جذبے سے کرتا ہے۔ خدا کی رضا کے لیے جینے اور مرنے کا عزم انسان کی پوری زندگی کو خداترسی کا نمونہ بناتا ہے اور انسان زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام کو بڑے اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔ اس مقدس جذبے کی موجودگی انسان کے اندر دو رنگی اور منافقت ختم کردیتی ہے، اور انسان سراپا اخلاص بن جاتا ہے۔

مذہب،مذہبی احساسات و معتقدات انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہیں۔ مگر افسوس کہ انسان ان کی اصل قدروقیمت سے ناآشنا ہوتا جارہا ہے۔ چونکہ مادّی ذرائع ووسائل کی فراوانی نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے، اس لیے وہ اُس متاعِ عزیز سے غافل ہوگیا ہے، جس سے اس کی انسانیت وابستہ ہے۔

ہوا اور روشنی ہماری مادّی زندگی کے لیے جس قدر ضروری ہیں، اس سے سب واقف ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان کی پوری طرح قدر نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمیں بغیر کسی تکلیف اور محنت کے میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح مذہب جو انسانیت کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، اور جس پر اس کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا سارا انحصار ہے، ہم اس کی غیرمعمولی اہمیت پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جس طرح ہوا اور روشنی کی اصل قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب انسان اس سے محروم ہوجائے۔ اسی طرح مذہب کی حقیقی قدروقیمت کا انسانیت کو اس وقت اندازہ ہوگا، جب انسان اس گنجِ گراں مایہ سے بالکل تہی دست ہوجائے گا۔ اس وقت اُسے معلوم ہوگا کہ اس محرومی سے وہ درندگی کے کس پست مقام پر پہنچ چکا ہے۔

حیوانوں میں تو بعض ایسی جبلّتیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے وہ مل کر زندگی بسر کرلیتے ہیں، مگر انسان میں یہ جبلّتیں بڑی کمزور ہیں اور ان کے مقابلے میں خود غرضی کے جذبات زیادہ طاقتور ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اگر اخلاقی اور مذہبی احساسات باقی نہ رہے، تو وہ درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوگا۔ خدا وہ دن نہ دکھائے کہ انسان مذہب کے شیریں اور حیات آفریں عنصر سے محروم ہوکر درندہ بن جائے، کیونکہ اگر اس مقام پر پہنچ گیا تو پھر دُنیا میں خیروبھلائی کا نام و نشان نہ رہے گا۔

مدّوجزر اسلام جسے عرفِ عام میں مسدّس حالی  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء]کی وہ طویل نظم ہے، جس کا پہلا حصہ ۱۸۷۹ء اور دوسرا ۱۸۸۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں مسدس کے ساڑھے چار سو سے زائد بند ہیں۔ یہ طویل نظم خواجہ صاحب کی صلاحیتِ شعرگوئی کی شہادت بھی ہے، ان کے دل کی دھڑکنوں کا نغمہ بھی ہے، اور اس کے توسط سے مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا قصیدہ بھی ہے، اور مسلمانوں کی پستی و ضلالت کا مرثیہ بھی، اور ان تغیرات کی طرف واضح اشارہ بھی۔ نظم میں شاعرانہ تکلفات سے قطعاً کام نہیں لیا گیا۔

جنابِ حالی نے نظیر اکبرآبادی [م:اگست ۱۸۳۰ء]کے سے ہلکے پھلکے، رواں دواں انداز میں حالات کو جوں کا توں بیان کردیا ہے۔ نہ فلسفہ ہے نہ تصوف، نہ وصال کی پیش دستی، نہ ہجر کی رقت اور زبان سادہ و عام فہم ہے۔ اندازِ شعر ہرقسم کے مصنوعی پن سے پاک ہے۔ کہیں کہیں الفاظ، بندش کی سُستی اور غیرضروری تعقید سے بوجھل بھی ہیں۔ کئی جگہ اجنبی الفاظ کے استعمال سے لہجے کی روانی ٹوٹ جاتی ہے، مگر جب خیال کے جوہر اپنی چمک دکھانے لگتے ہیں تو ہرآواز میں بازگشت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ نظم کا خاکہ ہے، اصل نہیں۔ مسدّس کی روح تک پہنچنے کے لیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا کہ ’’آخر حالی نے یہ نظم کیوں لکھی؟ بزمِ سخن میں موہوم دھڑکنوں کی نغمہ سرائی کرتے کرتے اچانک ان کو ٹوٹے ہوئے دلوں کی دھڑکنوں کا حساب کرنے کا خیال کیسے آیا؟ وقت کے کینوس پر وہ کون سی تصویریں تھیں ، جن کے خط وخال تلاش کرتے ہوئے حالی مسدّس لکھ بیٹھے؟‘‘ اس کے لیے جناب الطاف کے عہد کے مروجہ رجحانات اور اس پر چوٹ کرنے والے عناصر کی نشان دہی کرتے ہوئے، مصنف کے ذہن پر اُن اثرات کی پرچھائیاں تلاش کرنی ہوں گی، جو اس نظم کو وجود میں لانے کا باعث ہوئے کہ اس کے بغیر نہ حالی کو سمجھا جاسکتا ہے، نہ ان کی اس عظیم الشان نظم کو!

درّئہ خیبر سے بحرعرب کے ساحل تک کسی ایمان والے کے پہلے قدم سے آج تک، ہندستان کی سرزمین پر گزرنے والے واقعات کی بازگشت اگر سنی جاسکے تو یہ زمین انقلابات کی آماج گاہ کہلائے گی۔ تاریخ کے اس وسیع و عریض کینوس پر لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی زندگی، اور اس کی قدروں کے درمیان، انقلابات کے باوجود، توازن کی حالت قائم رہی۔ جب تک ملّت کے افراد میں قوتِ احتساب اور حرکت باقی رہی ،ہرتغیر، کم نقصانات کےساتھ زیادہ فائدے دے گیا۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں: علاء الدین خلجی [م:جنوری ۱۳۱۶ء] کے عزائم نے بہکنا چاہا تو اس کی فکر کی جولانیوں کو نئے میدان دیے گئے اور زمین کا پہلازرعی بندوبست ہوا۔ ایک نئی زبان ایجاد ہوئی، تیز رفتاری سے خبررسانی کا کام لیا گیا۔ سلطان محمد بن تغلق [م: مارچ ۱۳۵۱ء]نے دلّی کی آبادی کو دولت آباد منتقل کیا تو دکن کی سنگلاخ چٹانیں علم و فن کی گلکاریوں سے سرسبز ہوئیں۔ ظہیرالدین بابر [م: دسمبر ۱۵۳۰ء] مَے کے خم لنڈھاتا ہوا آیا اور اسے توبہ کرنی پڑی۔ اکبر [م: اکتوبر۱۶۰۵ء]نے ’دین الٰہی‘ کے نام سے فکر اسلامی کے سامنے ایک چیلنج پیش کیا، تو شیخ احمد سرہندی [م:دسمبر۱۶۲۴ء]کا ردعمل اتنا فوری اور اتنا متوازن تھا کہ اکبر کی سانسیں ابھی باقی ہی تھیں کہ ’دین الٰہی‘ کا خاتمہ ہوگیا، یہاں تک کہ خود اکبر بھی اس سے تائب ہوا۔

یہ سب نتیجہ تھا زندگی کے تحریکی شعور سے وابستگی کا، جس نے علم و عمل میں حرکت کو مقدم رکھا تھا۔ لیکن اٹھارھویں صدی کی آمد سے اورنگزیب عالم گیر [م:مارچ ۱۷۰۷ء]کی وفات کےساتھ انتشار کا جو دور شروع ہوا تھا، اس نے بڑھتے بڑھتے جمود کی شکل اختیار کرلی۔ تاہم، احمد شاہ ابدالی [م: اکتوبر ۱۷۷۳ء] کی بروقت مدد، سیّداحمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید دہلوی [م:مئی ۱۸۳۱ء] کی تحریک احیائے اسلام اپنی تمام قوت، خلوص اور جانفشانی کے باوجود ہند کے وسیع کینوس پر بہتری کی کوئی شکل و صورت نہ پیدا کرسکی۔

اٹھارھویں صدی کی آمد جس زوال کی ابتدا تھی، ۱۸۵۷ء کا انقلاب اس کی انتہا ثابت ہوا۔ وقت کی پیشانی پر لکھی ہوئی وہ سب عبارتیں اگر پڑھی جاسکیں، تو ان میں وہ تمام معرکے درج ہیں، جن کی ابتدا آزادی کے متوالوں کی سرفروشی سے شروع ہوکر بہادرشاہ ظفر [م:نومبر۱۸۶۲ء] کی گرفتاری و جلاوطنی، اور اس کی انتہا ذہن و دل کے تمام دروازوں پر کڑی پہرے داری اور فکرو تہذیب، زبان و ادب کے تمام مندرجات پر سوالیہ نشان لگانے سے ہوئی۔ یہ حملہ اچانک نہ تھا، نہ اس میں بہکے ہوئے قدموں کی کوئی آہٹ تھی اور نہ فکروعمل میں کوئی اُلجھائو۔ یہ انتہائی منظم، دھیمی لیکن بے حد گہری سازش کا نتیجہ تھا کہ ردعمل کو عمل کے لیے زمین تلاش کرنے اور پھر اپنی راہ نکالنے میں خاصا وقت لگا کہ جذبوں کے لیے ذہن و دل کے سوا اور کہیں جائے پناہ نہ تھی۔ کسی صف میں کہیں کوئی صورت شناسا نہ تھی۔ چہرے، لباس، زبان، حتیٰ کہ گالیاں تک اجنبی تھیں۔

لیکن ۱۸۵۷ء کا یہی اُفق اسلامی زندگی کا وہ عجیب نقطۂ اتصال ہے، جہاں خواب و بیداری ایک ساتھ ملتے ہیں۔ یہ غفلت کی انتہا بھی ہے اور ہوش کی ابتدا بھی، جہاں زندگی اپنی جدلیاتی قوتوں کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے خود اپنے تضادات سے لوازمہ حاصل کرتی ہے۔ زندگی کی نامیاتی قوت ایک جہت کی کمی کو دوسری بہت سی جہتوں میں پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی اسلامی نشاتِ ثانیہ کی وہ ابتدا ہے، جس کی رفتار سُست اور راہیں گردِ کاررواں سے محروم ہی سہی، لیکن دھیمے دھیمے قدموں کی چاپ سے یقینا محروم نہیں تھیں۔ قدموں کو رفتار کے لیے سمت کی تلاش تھی، اور سمت ابھی موہوم تھی، دلوں میں خوف بھی تھا اور تذبذب بھی۔ جن آنکھوں نے اپنوں کو بیگانہ بنتے دیکھا تھا، وہ ہراپنے کو چھلاوہ سمجھنے پر مصر تھیں۔

 جاگیردارانہ نظام کے شیدائی، دہلی مرحوم کا مرثیہ پڑھتے ہوئے نئی انگریزی حکومت کی عطا کردہ رعایتوں کی ریت میں سر چھپا چکے تھے۔ دل زخمی تھے لیکن سر بچ جانے کا شکر ادا کرتے ہوئے مال گزاری، طوائف، شطرنج، پرندوں کے شکار، مرغوں اور بٹیروں کی لڑائیوں، غرض کسی نہ کسی گوشۂ فرار میں پناہ لےچکے تھے۔ اہلِ علم اپنے محدود علم پرتکیہ کیے مابعد الطبیعاتی فلسفوں کی بحثوں میں اُلجھے اسی کو علم و دانش کی انتہا سمجھ بیٹھے تھے۔ خانقاہیں مجاوروں کا اکھاڑہ تھیں۔ شاعر اپنے تصوراتی عشق کی قافیہ پیمائیوں سے کچھ ذرا مہلت پاتے تو تصوف کی نکتہ دانیوں کے طول و عرض کی پیمایش میں مصروف ہوجاتے۔ گویا زندگی سے فرار ہی جینے کا واحد سہارا تھا۔

 لیکن وہ لوگ جنھوں نے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنی فردوس گم شدہ کی تلاش میں نئے راستوں کے متلاشی تھے۔ حکومت ختم ہوچکی تھی اور اس کی واپسی کی سردست کوئی صورت نہ تھی۔ نئی راہیں کھولنی تھیں یا ان راہوں کو پھر ڈھونڈنا تھا، جو نقش پا سے محروم ہوتے ہوئے اپنا سراغ کھو چکی تھیں۔

اس کش مکش نے تلاش و جستجو کے جذبے کو نئی زندگی دی کہ ’’محکومیت میں عزّت و وقار کس طور پر ممکن ہے؟‘‘ یہ وہ سوال تھا جس کی گونج ہرذہن میں تھی اور اس کا جواب ضروری تھا، ورنہ بے یقینی کی یہ کیفیت بے دلی اور بے حوصلگی میں مزید اضافہ کرسکتی تھی۔ قوم جبلّی سطح پر توجیتی رہتی، لیکن انسانی اور جذباتی سطح پر جینے سے بہت جلد محروم ہوجاتی۔ خیال پیدا ہوجائے تو اسے متحرک ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ دارالعلوم دیوبند[۱۸۶۶ء]،علی گڑھ تحریک[۱۸۷۵ء]، ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘ [۱۸۸۶ء]،  انجمن حمایت اسلام لاہور [۱۸۸۴ء]، دارالعلوم ندوۃ العلما [۱۸۹۸ء]، غرض مختلف عنوانوں سے اصلاح کا کام شروع ہوا۔ سرسیّد احمد خاں [م:مارچ ۱۸۹۸ء] نے انگریزی تعلیم کا بگل بجایا۔ شبلی نعمانی [م: نومبر۱۹۱۴ء]نے ’محکومیت میں زندگی کیوں کر بسر ہو؟‘ غیرقوموں کی مشابہت جیسے عنوانات پر مضامین لکھے۔ مسجدوں میں تقریریں ہوئیں، مدرسوں کی بنیاد ڈالی گئی۔ اُٹھتے ہوئے قدموں کو سمت ملی تو زندگی نے اپنی رفتار تیز کردی۔

خواجہ الطاف حسین اسی پُرآشوب دور میں ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی آنکھوں نے دیکھنا سیکھا تو ان کے سامنے کھلتی ہوئی کلیوں کی شبنمی پنکھڑیاں نہ تھیں، گزرتی ہوئی بہاروں کا غبار تھا۔ ان کے دامن سے جس حالی نے جنم لیا، اس کے خمیر میں سعدی کا سرور نہیں غالب کی فکر، شیفتہ کی سادگی و سلاست، آزاد کی جدت اور علم کا شوق شامل ہوا۔ اس مرکب نے جب سرسیّد کی تحریک سے جلاپائی تو ملّت کو ایک ہمدرد اور اُردو کو وہ قیمتی ہیرا مل گیا، جس کے ذکرکے بغیر نہ سوانح نگاری کی تاریخ مکمل ہوسکتی ہے، نہ اُردو تنقید کی۔

میرزا اسداللہ خاں غالب [م: ۱۸۶۹ء] نے ان کے متعلق کہا تھا: ’’اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنے آپ پر ظلم کرو گے‘‘۔ اگر حالی شعر نہ کہتے تو اُردو پر بھی ظلم ہوتا۔ غالب نے ذہن رسا پایا تھا، وہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے پہلے اس کی دستک سن چکے تھے، لیکن ان کےسامنے کوئی مشن نہ تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری اور خطوط کے ذریعے زندگی کے مروجہ رجحانات اور اس کی بدلتی ہوئی قدروں سے متعلق اشارے کیے تھے اور سوال اُٹھائے تھے، مگر حالی کے سامنے ایک مشن تھا۔ انھوں نے غالب کے اشاروں کو سمجھا اور ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ انھوں نے تاریخ سے سند لی اور ان عوامل کی تشریح کی، جو گذشتہ عظمتوں کا باعث ہوئے تھے۔ اُن خامیوں کو اُجاگر کیا، جو موجودہ تنزل کا سبب تھیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اُن راہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جو کھو چکی تھیں۔ حالی، قدیم و جدید کے درمیان کی انتہائی اہم کڑی ہیں۔ یہ کہنے کی جسارت کی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال کو اقبال بننا محال ہوتا اور اُردو والوں کی غالب شناسی کے پہلے محرک حالی ہیں اور اقبال فکری عظمت کا ہمالہ ۔

حالی بیس برس کی عمر سے شعر کہہ رہے تھے، لیکن اپنی شاعری سے مطمئن نہ تھے۔ اسی عالم میں سرسیّد نے قوم کو بیدارکرنے کے لیے نظم کی فرمایش کی، تو حالی کی فکر کو مقصد مل گیا۔ مسدس کے پیرائے میں لفظوں کا ایک آئینہ بنایا اور ملّت کو ترغیب دی کہ اس میں اپنی تصویر دیکھو، اور آپ اپنا محاسبہ کرو کہ اس کے بغیر نہ عیبوں پر نظر جائے گی، نہ درستی کی خواہش پیدا ہوگی۔

مسدّس کا موضوع بارہ صدیوں پر محیط وہ داستان ہے، جو اپنے آپ میں سادہ بھی ہے، رنگین بھی اور اتنی دلچسپ بھی کہ زیب داستاں کے لیے لفظوں میں تراشے ہوئے کسی طلسم کی ضرورت نہیں۔ یہ بُت گری نہیں، بُت شکنی کے حوصلوں کی کہانی ہے، جسے حالی نے جوں کا توں بیان کردیا ہے۔

مسدّس کو انھوں نے عوام کے خوابیدہ شعور کو جگا کر ہوشیار کرنے کا ذریعہ بنایا۔ ماضی کی طرف حسرت بھری نظریں، حالی کی اپنی کڑھن اور ان زنجیروں سے نکل بھاگنے کا جذبۂ بے اختیار___ غرض اُمیدوبیم کی وہ تمام کیفیات جو اگر اصلاح کی طرف نہیں تو کم از کم خود احتسابی کی طرف ضرور مائل کریں۔ ماضی کا قصیدہ ہو یا حال کا مرثیہ، اس کا دردوکرب اور ان کا شوق ہرہرلفظ میں مجسم ہوجاتا ہے۔ جہاں آورد ہے تو وہ بھی ان کے قول کی صداقت کو مجروح نہیں کرتی۔ وہ اسلام کے تحریکی شعور سے آشنا تھے اور اسی کے داعی بھی۔ اس سے الگ جو بھی ہے، وہ مسدّس کا موضوع نہیں۔

  • مسدّس__ ایک نظر میں:نظم کی ابتدا اس تمہید کے ساتھ ہوتی ہے کہ مرض لاعلاج نہیں ہوتا، اگر اس کی تشخیص اور علاج میں لاپروائی نہ برتی جائے۔ یہ ایک اشارہ ہے ملّت کے لیے کہ موجودہ امراض کا علاج بھی ممکن ہے اگر اس کی کوشش کی جائے۔ پھر ایامِ جاہلیت میں عربوں کی زندگی کا خاکہ ہے، جس میں ان کی جغرافیائی حالت، علم اور تمدن سے ان کی دُوری، دلوں کی شقاوت اور وحشت، حد سے بڑھے ہوئے فخروغرور کے باعث مسلسل اور بے وجہ خانہ جنگیاں، بیٹیوں کا قتل اور بدقماشی، غرض ان عیوب کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو کسی قوم کے نیکی سے دُور اور بدی سے قریب ہونے کا پیمانہ ہوتے ہیں:

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہراِک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

اس عالم میں غیرتِ حق جوش میں آئی اور  ؎

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دُعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

اسی کے ساتھ رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا۔ بعثت ِ نبوی کے ساتھ حالت بدلنے لگی۔ یہاں حالی کا قلم ان کے قلب سے تحریک پاتا ہے، کہیں آورد نہیں ہے، آمد ہی آمد ہے:

وہ نبیوںؑ میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی ، غلاموں کا مولیٰ

ان تمام نعمتوں کا ذکرہے جو اسلام کی برکتوں کا نتیجہ تھیں۔ ایمان، امانت، صداقت، اخوت، بندگی، غیراللہ کا انکار، بندگانِ خدا سے محبت و شفقت، معیشت و معاشرت کے آداب، علم و تمدن سے رغبت، اور ان تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے بعد عرب کے وہی صحرا نشین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سرگرم ہوئے تو:

لیے علم و فن اُن سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے

ادب اُن سے سیکھا صفا ہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے

ہراِک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دُنیا میں تاریک چھوڑا

مسدّس کے صفحات میں سیاسی عروج و زوال کو اہمیت حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ ان اسباب و عوامل کا ذکر کرتے ہیں، جو قلعوں اور شہروں کی تسخیر کے بجائے ان کی فضا کو مسخر کرتے ہیں۔ افراد کی بہتری ان کے اخلاق کی رہینِ منّت ہے۔ مساوات، اخلاق کا پیمانہ ہے۔ علم تمام خزانوں کی کنجی اور مشقت زندگی کا رخت ِ سفرہے۔ بنائو کا ذکر ہو یا بگاڑ کا تذکرہ، یہی ان کی فکر کا محور ہے۔

جب تک ملّت کے افراد اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین پر عمل پیرا رہ کر اپنے ایمان، اخلاق اور علم کو بڑھانے میں سرگرم رہے، جب تک خدا کے لیے مٹنے کا دم بھرتے رہے، زندگی ان کی چوکھٹ پر پہرے دیتی رہی۔ ہرگزرنے والی رات نے ان کی شانِ اطاعت کی گواہی دی، اور ہر روز طلوع ہونے والا سورج ان کی عظمتوں کی روشنی پھیلاتا رہا۔ ان کی حکومت، عادلانہ حکمرانی کا سبق تھی۔ لیکن جب صدق و صفا کا یہ چشمہ گدلا ہوا اور دین سے ان کا رشتہ کمزور ہونے لگا:

ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت

کیے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آکر

اور یہیں سے وہ ملّتِ بیمار کا مرثیہ شروع کرتے ہیں:

چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پَر ہیں

تمام نعمتیں ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگیں۔ جستجو کی جگہ سہل پسندی نے لے لی، قناعت کی جگہ ہوس دَر آئی۔ فراغت کے بجائے افلاس اُمڈ آیا۔ غرور نے انکسار کی مسند سنبھالی۔ کج بحثی نے علم کے شوق پر گہن لگایا۔ سرفروشی کی جگہ سرچھپانے میں عافیت نظر آئی۔ حکومت گئی تو سب کچھ چلا گیا، گویا یہ سب طلسمات ہی کا ایک کارخانہ تھا۔طلسم ٹوٹا تو نہ زمین اپنی تھی نہ آسماں اپنا، اب حاصل کریں تو کیسے، مانگیں تو کس سے؟ نہ لینے کا ہنر آتا ہے اور نہ مانگنے کی ادا یاد ہے۔ زندگی کیا، بس چلتی ہوئی سانسوں کا ایک سلسلہ ہے، نہ مقصد کی خبرہے، نہ منزل کا پتہ:

جہاں آگ کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آ کے کرتا ہے رو اَبرِ نیساں

تردّد سے جو اور ہوتا ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں

یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغِ ویراں یہی ہے

غرض حالی نے ملّت کی ہر رگ کو جھنجھوڑا ہے، زخموں کو اتنی بے رحمی سے چھیڑا کہ قلم چلتے چلتے رُک گیا، غم اُٹھانے کی تاب نہ تھی، یا آہ کا اثر دیکھنا چاہتے تھے۔ پھر ان کی آہ نے اثر دکھایا۔   چھے سات برس میں کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ کسی نے سراہا اور نقد ِ جاں بنایا۔ واعظوں نے زورِ بیان کے لیے استعمال کیا، شاعروں نے اسی انداز کی نظمیں لکھیں۔ کسی نے طنز کے تیر چھوڑے، کسی نے اسے بیماری کا نتیجہ سمجھا اور کسی نے مزید بیماری۔ غرض اس کی گونج ہراس گوشے تک پہنچی، جہاں شبلی کے مقالے، سرسیّد کے مضامین اور ارباب علی گڑھ کی تقریریں نہ پہنچی تھیں۔ اس پذیرائی نے حالی پر بھی اثر کیا اور قلم کی چپ ٹوٹی، کرب کی جگہ تحریک نے لی اور وہ اُمید کا دامن تھامے ایک بار پھرصدا دینے نکل پڑے۔ اب ان کو احساس ہوچکا تھا کہ بھیڑ میں کچھ اہلِ نظر بھی ہیں۔ ضرورت ہے فکر کو بیدار کرنے کی، جو حرکت کو جنم دے کر جمود کو دُور کردے۔ اس نمی کی جو مٹی کے ساتھ مل کر بیج کی قوتِ نمو کو تقویت دیتی ہے اور زندگی کی نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں:

تمھی اپنی مشکل کو آساں کرو گے
تمھی درد کا اپنے درماں کرو گے

تمھی اپنی منزل کا ساماں کرو گے
کرو گے تمھی کچھ اگر یاں کرو گے

چھپا دستِ ہمت میں زورِ قضا ہے
مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

یہاں پہنچ کر حالی کی آواز خود اپنی بازگشت بن جاتی ہے، جس کی تکرار ان کے عہد سے آج تک جاری ہے۔ حالی اپنے عہد میں بھی جدید تھے، آج بھی ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔ مسدّس کے وسیلے سے انھوں نے اپنے آپ کو زمانے کی گرفت سے محفوظ کرلیا۔ مسدّس  کے بند ہرشکست خوردہ کےلیے آئینہ بھی ہیں، مشعلِ راہ بھی کہ کوئی شکست مقدر نہیں بن سکتی اگر سپر نہ ڈال دی جائے!

تحریک پاکستان کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر زعمانے پاکستان کی مسلم ریاست کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے ابدی اصولوں سے رہنمائی لینے اور قرآن و سنت کو اس مملکت کا دستور بنانے سے متعلق بیانات و اعلانات کے باوجود مجوزہ اسلامی ریاست کی وضع و ہیئت اور خط و خال واضح نہ کیے جاسکے۔  ایک بھرپور جدوجہد، بعض مؤثر مسلم علما اور سیاسی لیڈروں کی جانب سے مزاحمت اور چاروں طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے مجوزہ ریاست کے دستور اور اس کے سیاسی نظام العمل کی تدوین کی طرف سیاسی قیادت خاطر خواہ توجہ نہ دے سکی۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص پر بھی ایک اسلامی مملکت کے دستور اور اس کے سیاسی نظام کا نقشہ واضح نہ ہوسکا، بلکہ اس معاملے میں بعض ذہنوں میں فکری ابہام پایا جاتا تھا۔ جے ونڈرؤ سویٹ مین نے اس وقت پاکستان میں ریاست کی تشکیل کے بارے میں پائے جانے والے اس فکری الجھاؤ کے بارے میں لکھا ہے:

…there is wide interest in rethinking and reshaping the form of the state, nevertheless there is, for the most part, no clear definition of what an Islamic State in fact is.

[مملکت پاکستان] کی تشکیل و تعمیرنو کے بارے میں بہت وسیع حلقوں میں دلچسپی پائی جاتی ہے، لیکن ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خط و خال کیاہوں، اس سے بہت سے حلقے شناسا نہیں ۔

اسلامی دستور سے متعلق فکری ابہام کے بارے اشتیاق حسین قریشی کا بیان ملاحظہ ہو:

What is an Islamic constitution?? Than, if we take up the question of an Islamic constitution,  what do we mean by it?? Are we thinking of the principles on which an Islamic polity should be based, or of the corpus of the rulings and principles built up by the jurists of Islam and based on the analogy of the Caliphate as it existed in its primeval and classical forms, or of the constitutions of such modern nation states as call themselves Muslim?? There is so much confusion in the minds of the Muslim peoples themselves on these questions.

اسلامی دستور سے کیا مراد ہے؟ کس نوع کے دستور کو اسلامی کہا جائے؟ جب ہم اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اس سے ہماری مراد ایسے اصول و ضوابط ہیں، جن پر ایک اسلامی نظام مملکت و حکومت کو استوار ہونا چاہیے یا پھر اس سے مراد وہ فقہی و قانونی ذخیرہ مراد ہے، جو ہمارے فقہا نے زمانۂ قدیم کے نظامِ خلافت کے اَطوار و اوضاع پر قیاس کرتے ہوئے وضع کیا یا اسے دورِ جدید کی مسلمان ریاستوں کے دساتیر پر استوار ہونا چاہیے؟ اس بارے میں مسلمانوں کے ذہنوں میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔

اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی و معاشی اور تعلیمی و معاشرتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے آزادی سے قبل جو چند ایک اقدامات اٹھائے گئے تھے، وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ’صوبہ جات متحدہ‘ (UP) مسلم لیگ نے اٹھایا تھا۔ جس نے [غالباً] ۱۹۳۹ء کے اواخر میں نواب محمد اسماعیل خان (۱۸۸۶-۱۹۵۸ء) کی صدارت میں یہ تحریک منظور کی کہ منتخب علما کی ایک مجلس سے ایک مستند ومفصل ’نظام نامہ حکومتِ اسلامی‘ مرتب کرایا جائے۔ چنانچہ نواب سر محمداحمد سعید خان چھتاری (۱۸۸۸ء-۱۹۸۲ء) کی صدارت میں چند علما و اہل دانش پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، مولانا آزاد سبحانی (۱۸۸۲-۱۹۵۷ء) مولانا شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۵ء-۱۹۴۹ء)، مولانا عبدالحامد بدایونی (۱۹۰۰- ۱۹۷۰ء)، ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۹۷ء-۱۹۶۹ء) اور مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۸۹۲-۱۹۷۸ء) وغیرہ شامل تھے۔ علّامہ سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳ء) کو اس کمیٹی کا داعی (کنوینر) مقرر کیا گیا۔

یہ کمیٹی ’مجلس نظام اسلامی‘کہلاتی تھی۔ مجلس کے داعی سیّد سلیمان ندوی نے مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۸۴-۱۹۴۸ء)، ڈاکٹر سید ظفرالحسن (۱۸۷۹ء-۱۹۴۹ء)، صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، مولانا مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲-۱۹۵۶ء) اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو خطوط لکھے اور ان کو اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی غرض سے تجاویز پیش کرنے کا کہا۔

سید صاحب نے جن اصحاب علم و نظر کو خطوط لکھے تھے، ان میں سے صرف چار افراد، مولانا عبدالماجد دریابادی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد سبحانی نے دستوری خاکے مرتب کرکے ارسال کیے۔ ان خاکوں کی مدد سے مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے ایک مسودہ ۱۹۴۵ء میں تیار کیا جو سید سلیمان ندوی اور نواب محمد احمد سعید چھتاری کی دلچسپی اور خواہش کے باوجود ۱۹۵۷ء سے قبل چھپ کر منظر عام پر نہ آسکا۔

پاکستان کی مسلم ریاست کے لیے مرتب کیے گئے، اس اسلامی دستور و سیاسی نظام نامہ سے منسوب کتاب اسلام کا سیاسی نظام پر سید مودودی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:

زیر نظر کتاب [میں] …اصل مسئلہ کی تحقیق بہت حد تک صحیح ہے، لیکن سائنٹی فک نہیں ہے… ایک بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ اسلامی اسٹیٹ کے نظام اور دستور العمل پر کس قدر تفصیلی نگاہ [تو] ڈالی گئی ہے، لیکن ہر پہلو تشنہ، غیر مرتّب اور غیر مدلّل ہے۔ تیسری کمی یہ ہے کہ اصطلاحات کے استعمال اور طرز بیان میں علم السّیاست کی زبان سے کافی مدد نہیں لی گئی ہے، اس کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ مجموعی طور پر کتاب اچھی، پر از معلومات اور قابل مطالعہ ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا اہم اقدام جو تحریک پاکستان کے دنوں میں مستقبل کی مجوزہ مسلم ریاست ’پاکستان‘ کے لیے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور دستوری و سیاسی نظام مرتب و مدوّن کرنے کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے اٹھایا گیا، وہ اس کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی (دسمبر ۱۹۴۳ء) میں ایک ’پلاننگ کمیٹی‘ کا قیام تھا۔ تاہم، اس کمیٹی کی ترکیب و تشکیل اور اس کی کارگزاری کبھی سامنے نہ آسکی۔ اس سے قبل مسلم لیگ کے تیسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۶؍اپریل ۱۹۴۳ء ، بمقام دہلی، کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں قرار پایا تھا کہ چند مستند ماہرین اسلام کی ایک مجلس ’مجلس تعمیر ملّی‘ قائم کی جائے، جو قرآن شریف کو سامنے رکھ کر قومی زندگی کے مسائل پر نظر ڈالے اور ایک اسلامی ریاست کا خاکہ بنائے لیکن یہ مجلس قائم نہ ہوسکی تھی۔

 آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیٹی آف رائٹرز (مسلم لیگ کے رکن اور حامی دانش وروں کی کمیٹی) نے بھی ۱۹۴۶ء میں مجوزہ مسلم مملکت پاکستان کو مستقبل میں درپیش مسائل کے جائزے، اس کے سیاسی نظام کی تدوین اور اس کی صنعتی و اقتصادی اور تعلیمی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی سعی کی تھی اور مختلف اُمور و مسائل پر کتابچے (۱۲ عدد) شائع کیے تھے۔ اس کمیٹی کے ایک ممتاز رکن ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (۱۹۰۲-۱۹۸۱ء)، جو بعد میں وزیر تعلیم اور کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے، انھوں نے اپنے کتابچے The Future Development of Islamic Polity میں پاکستان کی ریاست و حکومت کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے کردار و حیثیت کی وضاحت کی سعی کی تھی۔  تاہم، ڈاکٹر قریشی اس ضمن میں کوئی مربوط اسکیم پیش نہ کرسکے۔ خالد بن سعید کی رائے ہے کہ اس کتابچے میں کوئی گہرائی موجود نہ تھی اور شاید یہ بڑی عجلت میں لکھا گیا تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے علاوہ آل انڈیا سنّی کانفرنس (بریلوی مکتب فکر کے علما کی تنظیم، قائم:۱۹۲۵ء) نے اپنے اجلاس بنارس (۲۷-۳۰؍اپریل ۱۹۴۶ء) میں اسلامی حکومت کے لیے ایک مکمل و مفصل لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھیاس کی کارگزاری بھی منظرعام پر نہ آسکی۔ البتہ آل انڈیا سنی کانفرنس نے ۱۳، اکابر علما پر مشتمل ’اسلامی حکومت کے مکمل لائحہ عمل‘ مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کے ایک سربرآوردہ رکن مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی(۱۸۸۳-۱۹۴۸ء) نے ۱۹۴۸ء میں اسلامی دستور کے خاکہ کے لیے چند دفعات مرتب کی تھیں۔

یہ مجوزہ دستوری خاکہ ایک حقیقی شورائی اسلامی حکومت کی بنیاد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ اس میں امیر کو مطلق العنان کی سی حیثیت تجویز کی گئی تھی۔

اسلامی دستور کی تدوین  میں مشکلات

اسلامی دستور کی تدوین میں تاخیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اہل علم و فکر کو بھی یہ کام دِقّت طلب دکھائی دیتا تھا۔ یوپی مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے قائم کی گئی، ’مجلس نظام اسلامی‘ کے صدر سید سلیمان ندوی نے اس مجلس کے ایک رکن مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ایک خط (۹جنوری ۱۹۴۰ء) میں لکھا:آپ کے ذہن میں سیاسیاتِ اسلامی کا جو نقشہ ہو، اس کو قلم بند فرما کر عنایت فرمائیں۔ کام بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

یہ مشکلات کس نوعیت کی تھیں؟ اس کی نشان دہی اسلام کے نظام سیاست و حکومت کی توضیح و تشریح کرنے والے دو ممتاز علما مولانا حامد الانصاری غازی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کی ہے۔ مولانا حامد الانصاری کی رائے میں مشکل یہ تھی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام کے نظام حکومت کا کوئی مکمل خاکہ مرتب نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں نے سالہاسال سے اجتماعی میدان کو دوسری طاقتوں کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔

 علمی دائرہ میں الہٰیات کی درس و تدریس علما کا نصب العین تھا۔ اس کے لیے انھوں نے قابل تعریف کوشش کی، لیکن ان کے افکارو اعمال کی جولانگاہ میں اجتماعیات کو وہ درجہ حاصل نہ ہوسکا جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں (خلفائے راشدین) کے جہادِ حق سے حاصل ہوا تھا۔

 خلافت راشدہ ؓکے بعد مسلمانوں کے دور حکومت نے فرماںروائی کا جو نقشہ تیار کیا، اس نے اسلامیت کی حقیقت پر پردہ ڈال دیا۔ علما کو جزئی قوانین کا وسیع میدان ملا، جس میں انھوں نے شاندار، قابل تعریف اور یاد گار کارنامے کرکے دکھائے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت و سلطنت کے متعلق خلافت نبوی اور ریاستِ عامہ کے جو اصول و احکام تھے، وہ آنکھوں سے اوجھل اور علم و تحقیق کی دسترس سے باہر ہوگئے۔ یہاں تک کہ صدیوں سے اس طرف کافی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ چنانچہ اس زمانے تک کسی کتب خانہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں، جس کو گزشتہ چند صدیوں کے مطالبہ کے جواب میں پیش کیا جائے اور جس کو اسلام کے مکمل دستور حکومت کا نام دیا جاسکے۔

جہاں تک اسلامی دستور کے مآخذ (قرآن مجید، سنت ِرسولؐ ، تعامل خلفائے راشدین، اجماع اور مجتہدین امت کے فیصلے) کا تعلق ہے تو بلاشبہہ یہ سب تحریری شکل میں موجود تھے، تاہم ان مآخذ سے قواعد اخذ کرکے ان کو دستور کی شکل دینے میں چند مشکلات اور دِقّتیں حائل تھیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ان مشکلات کا جائزہ ان الفاظ میں پیش کیا:

۱-    اصطلاحات کی اجنبیت: سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، وہ اب بالعموم لوگوں کے ناقابل فہم ہوگئی ہیں، کیونکہ ایک مدت دراز سے ہمارے ہاں اسلام کا سیاسی نظام معطل ہوچکا ہے، اور ان اصطلاحوں کا چلن نہیں رہا ہے۔قرآنِ مجید میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن کی ہم روز تلاوت کرتے ہیں، مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ دستوری اصطلاحات [بھی] ہیں، مثلاً: سلطان، ملک، حکم، امر، ولایت وغیرہ۔

۲-    قدیم فقہی لٹریچر کی نامانوس ترتیب: دوسری دقت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں، بلکہ دستور اور قوانین ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ پھر ان کی زبان اور اصطلاحات آج کل کی رائج اصطلاحوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ جب تک کوئی شخص قانون کے مختلف شعبوں، اور ان کے مختلف مسائل پر کافی بصیرت نہ رکھتا ہو، اور پھر عربی زبان سے بھی بخوبی واقف نہ ہو، اس کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کہاں قانونِ ملکی کے درمیان قانونِ بین الاقوام کا کوئی مسئلہ آگیا ہے، اور کہاں پرسنل لا کے درمیان دستوری قانون کے مسئلے پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ پچھلی صدیوں کے دوران میں ہمارے بہترین قانونی دماغوں نے غایت درجہ بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس چھوڑی ہوئی میراث کو چھان پھٹک کر ایک ایک قانونی شعبے کے مواد کو الگ الگ کرنا اور اسے منقح صورت میں سامنے لانا ایک بڑی دیدہ ریزی کا کام ہے۔

۳-    نظام تعلیم کا نقص: تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم ایک کافی مدت سے بڑی ناقص ہورہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں دینی علوم پڑھتے ہیں، وہ موجودہ زمانے کے علم السیاست اور اس کے مسائل اور دستوری قانون اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات سے بے گانہ ہیں۔ ان کے لیے اس وقت کے سیاسی و دستوری مسائل کو آج کل کی زبان اور اصطلاحوں میں سمجھنا اور پھر ان کے بارے میں اسلام کے اصول و احکام کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو زندگی کے جدید مسائل سے تو واقف ہیں، مگر وہ دستور اور سیاست اور قانون کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں، مغربی تعلیمات اور مغرب کے عملی نمونوں ہی کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ قرآن اور سنت اور اسلامی روایات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے، جو ایک صحیح اسلامی دستور کی تدوین میں حارج ہورہی ہے۔

غرض یہ کہ اس وقت وہ مذہبی طبقہ جو اسلامی نظام کی فکری اساس کے لیے قرآن و حدیث سے حوالے پیش کرسکتا تھا وہ تو موجود تھا، عوام میں اس نظام کے لیے جذبہ اور خواہش بھی موجود تھی لیکن وہ طبقہ جو دور جدید کے لیے اسلامی نظام کی عملی، آئینی، سیاسی و معاشی اور انتظامی صورت متعین کرسکتا، وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ چنانچہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت نہ تو اسلامی دستور مرتب شدہ حالت میں کہیں موجود تھا اور نہ اس وقت کی سیاسی قیادت ہی کو اس کی فوری ضرورت و اہمیت کا کوئی شعور و ادراک تھا۔ سیاسی قیادت کی غفلت و کوتاہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ’’معاصر دنیا کے تقاضوں اور خود اسلام کی حقیقی تعلیمات کے حوالے سے لیگی قیادت ذہنی افلاس کی گرفت میں تھی اور وہ ان امور و مسائل میں علمی و فکری سطح پر کوئی معقول موقف اختیار کرنے کی اہلیت سے عاری تھی‘‘۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص کے ذہنوں میں بھی اسلامی دستور اور نظام حکومت کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا۔

محمد اسد نے اسلامی دستور اور نظام حکومت کے بارے میں خواص و عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے فکری ابہام کے بارے میں لکھا:

At that time, I was Director of the Department of Isamic Reconstruction.... among the problems which preoccupied me most intensely was, naturally enough, the question of the future constitution of Pakistan. The shape which that constitution should have was then, as it is now, by no means clear to everybody. Although the people of our country were, for the most part, imbued with enthusiasm for the idea of a truly Islamic State - that is a state based (in distinction from all other existing political groupments) not on the concept of nationality and race but solely on the ideology of Qur'an and Sunnah - they had as yet no concrete vision of the methods of government and of the institutions, which would give the state a distinctly  Islamic character and would, at the same time, fully correspond to the exigencies of the present age. Some elements of the populaton naively took it for grauted that, in order to be genuinely Islamic, the government of Pakistan must be closely modeled on the forms of the early caliphate, with an almost dictatorial position to be accorded to the head of the state, utter conservatism to all social forms (including a more or less complete seclusion of women), and a patriarchal economy, which would dispense with the complicated financial mechanism of the twentieth century and would resolve all the problems of the modern welfare state through the sole instrumentatity of the tax known as Zakat. Other sectors - more realistic but perhaps less interested in Islam as a formative element in social life - visualised a development of Pakistan on lines indistinguishable from those commonly accepted on valid and reasonable to the parliamentary democracies of the moder West, with no more that than a formal reference to the wording of the constitution to Islam as the "religion of the state" and possibly, the establishment of a "Ministry of Religious Affairs" as a concession to the emotions of the overwhelmin majority of the population.

اس زمانے میں [۱۹۴۷-۱۹۴۸ء] جو مسائل میرے دل و دماغ پر حد درجہ چھائے ہوئے تھے، طبعاً ان میں سے ایک مسئلہ پاکستان کے آئندہ دستور کا بھی تھا۔ اس زمانے میں اکثروبیشتر لوگوں پر یہ امر واضح نہ تھا کہ [اسلامی] دستور کی وضع و ہیئت کیا ہونی چاہیے؟ اگرچہ ہمارے ملک [پاکستان] کے باشندوں کی اکثریت حقیقی اسلامی مملکت کے تصور سے سرتاپا متأثر تھی، یعنی چاہتی تھی کہ ایک مملکت نسل و قومیت کے تصورات پر نہیں بلکہ خالصتاً قرآن و سنت کے نظریات پر تعمیر کی جائے۔ تاہم، وہ اپنے ذہنوں میں ایک ایسی مملکت جو عملاً واضح طور پر اسلامی ہو اور ساتھ ہی دور حاضر کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک طور پر پورا کرسکے، کی حکومت اور اس کے اداروں کے اوضاع و اطوار کے بارے میں کوئی واضح تصوّر نہ رکھتے تھے۔ آبادی کے بعض عناصر سادہ لوحی سے سمجھے بیٹھے تھے کہ حقیقی اسلامی مملکت بننے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا نظام ابتدائی عہد کی خلافت کے عین مطابق ہو۔ رئیس مملکت کو تقریباً وہی کُلّی اختیارات سونپ دیے جائیں۔ ویسا ہی بالکل ابتدائی اسلامی دور کا اقتصادی نظام بیسویں صدی کے پُرپیچ سلسلۂ نظم و نسق مالیات و معیشت کی جگہ لے لے اور یہ کہ دور حاضر کی فلاحی مملکت کے تمام مسائل صرف ایک محصول (Tax) یعنی محصول زکوٰۃ کی بنا پر حل ہوجائیں گے۔ دوسرے طبقے کے لوگ جنھیں اسلام کو اجتماعی زندگی میں ایک کارفرما عامل بنالینے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ پاکستان کے سیاسی و دستوری نظام کا نشو و ارتقا ان اصولوں پر ہوگا، جنھیں دور حاضر کے مغرب کی پارلیمانی جمہوریتوں میں مشترکاً درست و معقول مانا جاتا ہے اور ان دونوں میں بجز اس کے کوئی فرق نہ ہوگا کہ ہمارے دستور میں رسماً لکھ دیا جائے گاکہ ’’مملکت کا مذہب اسلام ہے‘‘ اور آبادی کی بہت بڑی اکثریت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ایک وزارتِ مذہبی امور قائم کردی جائے گی-

غرضیکہ اس وقت ضرورت ایسے دستوری خاکے کی تھی جو ایک طرف حقیقی معنی میں اسلامی ہوتا، دوسری طرف عصر حاضر کے تمام عملی تقاضوں کو اس میں پیش نظر رکھا جاتا اور جس میں افراط و تفریط کے مذکورہ دو نظریوں کے درمیان توافق پیدا کیا جاتا۔ اس اہم علمی و فکری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بانی جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور محمد اسد نے قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں مفکرین نے اسلام کے سیاسی نظریے کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابل فہم ہوسکے۔ دونوں نے اسلامی دستور کے بنیادی اُصول کو منقح کرکے پیش کیا اور موجودہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ان کے عملی طور پر اطلاق و انطباق کی صورتوں کی نقشہ گری بھی کی۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تو، جو اقامتِ دین و حکومتِ الٰہیہ کی دعوت لے کر اٹھے تھے، ۱۹۳۹ء سے ہی اسلامی ریاست /حکومتِ الٰہیہ کے نظریے کی توضیح و تشریح اور اس کے عملاً قیام کی دعوت کو اپنی علمی و فکری جدوجہد کا خصوصی میدان بنالیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریروں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ افراد کے اجتماعات سے اپنے خطابات میں ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ (جلسۂ انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈ، لاہور، اکتوبر ۱۹۳۹ء)، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ (اسٹریچی ہال، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۱۲؍ستمبر ۱۹۴۰ء)، ’’اسلامی قانون اور پاکستان میں اُس کے نفاذ کی عملی تدابیر‘‘ (لاء کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۶جنوری و ۱۹فروری۱۹۴۸ء)، ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ (ریڈیو پاکستان، لاہور، فروری۱۹۴۸ء) اور ’’اسلامی دستور کے بنیادی اُصول‘‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن، ۲۴نومبر ۱۹۵۲ء) جیسے موضوعات و مسائل پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔

مولانا مودودی نے ان تقریروں اور خطبات میں اسلامی ریاست کے بنیادی نظریے اور اُس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا تاکہ وہ اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ سید مودودی کا مطمح نظر ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلامی ریاست کے نظریے سے محض واقف کرانا ہی نہیں بلکہ انھیں اس کے عملاً قیام کا قائل اور طالب بنانا تھا۔ ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء کو لا کالج (پنجاب یونی ورسٹی، لاہور) میں اپنی تقریر میں انھوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں آواز اٹھائی اور ملک کی مجلسِ دستور ساز سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ مجلس دستور ساز ایک قرارداد کے ذریعے واضح طور پر یہ اعلان کرے کہ:

       ۱-    پاکستان کی بادشاہی [حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ] اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور حکومتِ پاکستان کی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی اس کے ملک میں پوری کرے۔

       ۲-    پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔

       ۳-    وہ تمام قوانین جو اسلامی شریعت کے خلاف اب تک جاری رہے ہیں، منسوخ کیے جائیں گے اور آیندہ ایسا قانون نافذ نہ کیا جائے گا جو شریعت کے خلاف ہو۔

       ۴-    حکومتِ پاکستان اپنے اختیارات اُن حدود کے اندر استعمال کرے گی جو شریعت نے مقرر کردی ہیں۔

سید مودودی نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے مطالبۂ دستورِ اسلامی کو نقطۂ آغاز کی حیثیت سے منتخب کیا تھا۔ چنانچہ اپریل ۱۹۴۸ء سے انھوں نے اس مطالبہ کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز کیا۔ سید مودودی کی اس دستوری جدوجہد اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈاکٹر عمر حیات ملک جیسے ارکانِ مجلس دستور ساز کی مساعی کے نتیجے میں مجلس دستور ساز نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد منظور کی، جسے بعد میں پاکستان کے دستور کے رہنما اصولوں اور اُس کے دیباچہ (Preamble) کی حیثیت حاصل ہوئی۔ مطالبہ دستورِ اسلامی کے حق میں سید مودودی کی عملی سیاسی جدوجہد نے ۱۹۵۶ء کے دستور میں اسلامی اصولوں کو منوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسلامی دستور کے خاکے کی تدوین

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی سیاسی تعلیمات کی توضیح و تشریح کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، بلاشبہہ وہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ مملکتِ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کے خاکہ کی تدوین کے معاملے میں محمد اسد کو تقدّم و سبقت حاصل ہے۔ محمد اسد نے ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے منصوبہ کے اعلان کے ساتھ ہی مجلہ عرفات (Arafat) میں اسلام کے نظریۂ ریاست اور اسلامی دستور کے بنیادی اُصول پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب وہ محکمۂ احیائے ملتِ اسلامیہ (Department of Islamic Reconstruction)، کے ناظم مقرر ہوئے تو پاکستان کی اسلامی تشکیل کے لائحہ عمل بالخصوص ایک اسلامی دستوری خاکہ کی تدوین ان کی علمی و فکری کارگزاریوں کا ہدف ٹھیرا۔ چنانچہ ایک ایسے وقت میں ،جب کہ اسلامی دستور کا کوئی نمونہ موجود نہ تھا محمد اسد نے اس اہم اور مشکل و دقَّت طلب کام کا از خود بیڑا اٹھایا اور اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی نظام کا ایک مفصل خاکہ مرتب کیا، جسے مارچ ۱۹۴۸ء میں محکمۂ احیائے ملت اسلامیہ کی طرف سے شائع کراکے عوام کے سامنے پیش کیا۔

محمد اسد کو مغرب کے سیاسی نظاموں،دستوری و قانونی اصول و تصورات اور دستوری زبان و اصطلاحات کے علاوہ اسلام کے سیاسی اُصول و مبادی سے بھی گہری واقفیت حاصل تھی۔ چنانچہ انھوں نے قرآن و سنت کی نصوص سے عمومی دستوری اصول اخذ کرکے ان کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابلِ فہم ہوسکیں۔

محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کی تدوین میں صرف قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے نصوص کو بنیاد بنایا ہے۔ خلافت راشدہ کے تعامل و نظائر اور فقہاء و مجتہدین امت کے دستوری و سیاسی مسائل میں آراء سے انھوں نے اعتناء نہیں برتا ہے۔ ان کے نزدیک ان دونوں کی تقلید و پیروی امت پر لازم و واجب (binding)نہیں ہے، جب کہ قدیم فقہاء و مجتہدین کے ہاں سے اس بارے میں مناسب رہنمائی بھی نہیں ملتی۔ محمد اسد کی رائے میں دستوری و سیاسی مسائل و معاملات کے بارے میں اسلامی کتب کا جو ذخیرہ اس وقت موجود تھا، اس میں اس مشکل کے لیے رہنمائی کا کوئی سامان نہ تھا۔ کیونکہ گذشتہ صدیوں کے بعض علمائے اسلام نے خصوصاً عباسیوں کے عہد حکومت میں اسلام کے سیاسی قانون پر جو چند کتابیں مرتب کی تھیں، ان میں ان مسائل کے متعلق ان کا طریق فکر و نظر ان کے عہد کے ثقافتی ماحول اور اجتماعی و سیاسی تقاضوں پر مبنی تھا۔ یوں ان کی سعی و نشاط کے نتائج بیسویں صدی کی ایک اسلامی مملکت کی ضرورتوں کا جواب نہیں بن سکتے تھے۔

محمد اسد نے دور حاضر کے مغرب زدہ مسلمان مصنّفین و مفکرین کے دستوری وسیاسی مسائل سے متعلق افکار و خیالات کو بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ ان کی رائے میں ’’دور حاضر میں مغرب سے مرعوب و متأثر مسلمانوں نے عموماً یورپ کے ایسے سیاسی تصوّرات و ادارات اور حکمرانی کے طور طریقے بے تکلفی سے قبول کرلیے اور انھیں دورِ حاضر کی مسلم مملکت کا معیار بنالیا جو اسلامی نظریات کے حقیقی تقاضوں سے بالکل متناقض تھے۔ غرض یہ کہ محمد اسد کی رائے میں ان کے معاصرین یا پیشروؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں کہ جس پر پاکستان کی نئی مملکت کے دستور کی عمارت قائم کی جاتی۔ دریں صورت انھوں نے قرآن و سنت کی طرف راست طور پر رجوع کرکے ان کے نصوص سے دستوری اصول اخذ کرکے اس مملکت کے سیاسی و حکومتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی۔ اسد کے الفاظ میں:

Thus, neither the works of our predecessors nor those of our contemporaries could furnish a satisfactory conceptual basis on which the new state of Pakistan should be built up. Only one way remained open to me: to turn to the original sources of Islamic Law, Qur'an and Sunnah, and to work out on their basis the concrete premises of the future constitution of Pakistan independently of all that has been written on the subject of the Islamic State.

غرض یہ کہ ہمارے پیش روؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں، جس پر پاکستان کی نئی مملکت کی عمارت تعمیر کی جاتی۔ میرے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ قانونِ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوتا۔ اس طرح قدما نے امامت و خلافت (سیاست و حکومت) کے بارے میں جو تصنیفی سرمایہ چھوڑا ہے، اسے ایک طرف رکھتے ہوئے اور آزادانہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے آیندہ دستور کے لیے مثبت اصول اخذ کرتا، جو اسلامی مملکت کے موضوع پر مرتبہ کتابوں سے بالکل مختلف ہوتے۔

ڈاکٹر منظور الدین احمد کی رائے میں پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف اہل علم کی طرف سے جو دستوری خاکے منظر عام پر آئے، ان میں سے محمد اسد کا مرتب کردہ یہ خاکہ زیادہ واضح اور جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم تھا۔

محمد اسد کے دستوری خاکہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت سے دستوری اصول اخذ کرتے ہوئے، معاصر مغربی دستوری و سیاسی نظاموں سے اخذو اکتساب کی راہ بھی نکالی ہے۔ اسلام کے سیاسی اصول اور مغرب کے سیاسی تجربات و اجتہادات میں ایک گونہ تطبیق قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ محمد اسد نے گویا اس دستوری خاکہ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قرآن و سنت کے اصول و تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے کس طرح سے عصرحاضر میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی ہے۔ محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کو، مملکت پاکستان کے سیاسی نظام اور ریاستی اداروں کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل و تنظیم کی غرض سے، ایک منشور اور دستور العمل کے طور پر پیش کیا ہے۔

محمد اسد نے اسلامی دستور کا مربوط و مفصل خاکہ پیش کرکے بعض اہل سیاست و اہل دانش کے اس اعتراض کو بے اصل ثابت کردیا کہ ’’اسلام دستور سازی اور نظام حکومت و سیاست کے بارے میں قطعاً کوئی رہنمائی نہیں کرتا، اور نہ اصول و مبادی تجویز کرتا ہے‘‘۔

محمد اسد کا تجویز کردہ دستوری خاکہ نوزائیدہ مملکت کے دستور کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں ایک مؤثر بنیاد فراہم کرتا تھا، تاہم حکومت وقت کے مصالح اور سیاسی قائدین کی ذاتی اغراض نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ محمداسد کو اس بات کا قلق رہا کہ دستور سازی کے سلسلے میں ان کی تجاویز سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

تاہم محمد اسد کی یہ کاوش بے اثر نہ رہی اور تحریک پاکستان میں سرگرم عمل علماء اور بعض اہل دانش کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی دستور ساز مجلس نے ۱۹۴۹ء میں مملکت کے دستور کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے جو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کی تھی یا پھر مختلف مکاتب فکر کے علما نے اسلامی دستور تشکیل دینے کے لیے جنوری ۱۹۵۱ء میں جو بائیس نکاتی دستوری فارمولا مرتب  کیا تھا، اس میں کسی حد تک محمد اسد کے دستوری خاکہ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔(جاری)

؍اپریل ۲۰۲۲ءکو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، باقی مدت کے لیے شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان مبارک باد کے برقی پیغامات کے بعد باضابط خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں لیڈروں نے پُرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ایسا پُرامن اور بااعتماد اشتراک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے پُر عزم ہے‘‘۔ اس سے قبل نریندرا مودی نے اپنے خط میں اُمید ظاہر کی کہ ’’پاکستان کے نئے حکمران بھارت کے مرکزی ایشو، یعنی دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے میں مدد کریں گے‘‘۔ خطوط کے ان تبادلوں کو نئی دہلی کے حکومتی حلقے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ چندر شیکھر ، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت بھارت کے سبھی وزرائے اعظم کے دلوں میں نواز شریف کے لیے ہمیشہ ایک نرم گوشہ رہا ہے، جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفد گجرال صاحب سے ملا، تو انھوں نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر ان کو خوب سنائیں اور ناراضی کا اظہار کیا۔

واجپائی نے بھی ایک بار بتایا تھا کہ ’’۱۹۹۸ءمیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے مجھ کو بتایا تھا کہ ’’پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں‘‘۔ ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان کے جوابی طور پر جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کے اسی یقین نے واجپائی کو لاہور بس سے سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمدسعید ملک، گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں ۱۹۹۷ء میں ملاقات کے وقت بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔انھوں نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ــ’’ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں ہم صحافیوں نے گجرال صاحب سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ایک مطالبہ جو نواز شریف صاحب نے نہایت ہی زورو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو‘‘۔اس جواب کا سننا تھا کہ کسی بھی صحافی نے بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر کوئی مزید سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکی، جب کہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘‘۔

 خود نریندرا مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’’۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں میری بطور وزیراعظم ہند کی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کرکے نوازشریف نے اعتماد سازی میں پہل قدمی کی‘‘۔ بلکہ بعد میں ۲۰۱۵ء میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا، تو اس میں پہلی باربھارت اور پاکستان کی کسی دستاویز سے ’کشمیر‘ غائب تھا۔ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ ’’نریندرا مودی کو سکون دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد ان کو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے‘‘ ۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں لیڈروں نے پیرس میں اور پھر لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔

اس کے برعکس، بھارتی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، اگرچہ  بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور ان کی فیملی کے ساتھ سماجی تعلقات بڑھانے کی بہت کوششیں بھی کی تھیں۔ ’بھٹو،زرداری خاندان‘ اپنے آپ کو ایک طرح سے بھارت کی’ نہرو،گاندھی فیملی‘ کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر بھارت میں کوئی بھی سیاسی رہنما، اپنے دفترخارجہ اور دفاعی اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔

دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران بے نظیربھٹو کو بھارت کے حوالے سے کبھی معاف نہیں کیا ہے۔ وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا پاکستان کے دورے پر آئے بھارتی خارجہ سیکرٹری جے این ڈکشت کو ملاقات کے لیے وقت نہ دینا اور پھر ۱۹۹۵ء میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی عدم شمولیت ایسے گہرے زخم ہیں، جن کے لیے بھارتی قومی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔ بے نظیر نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انھوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کی، اس طرح بھارت پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر کے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈالنے کا جرأت آمیز قدم اُٹھایا۔

 ۲۰۰۷ء میں ’انڈیا ٹوڈے سمٹ‘ کے موقعے پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم ڈاکٹر  من موہن سنگھ سے ملاقات کی، تو ذرائع کے مطابق انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’آمریت کے خلاف پیپلزپارٹی کی جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا ہے، جب کہ بھارت خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے‘‘۔ بعد میں اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’پیپلز پارٹی، حزبِ اختلاف میں ہو؟ تو بھارت سے خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر بھارت مخالف ایجنڈے کو ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ تنائو رہتا ہے، اسی لیے پیش رفت بھی نہیں کرپاتی ہے‘‘۔

خیر، پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ کا بھارت میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کو کشمیری عوام کی مشکلات آسان کرنے کے لیے استعمال کریں، تو بہت اچھا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل ’فکر مند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group)نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے، جس میں لوگ آپس میں سرگوشی تک کرنے سے بھی گھبراتے ہیں‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر اس وقت جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ءاورآرتھر کوسٹلر کے ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میںاس گروپ کو بتایا کہ ’’کشمیر کی نئی نسل کے سامنے بھارتی جمہوریت کے گن گنوانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے‘‘۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات روز بروز مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب معاشرے میں پھیلا دی گئی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔

اگرچہ بھارتی سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۰ سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے ساتھی مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ ’’وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں‘‘۔ ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ ’’ہم کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کیفیت کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے‘‘۔

کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی زمینی حقائق کے بالکل برعکس فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بارے میں وادیٔ کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ ’’اس فلم سے ان کو فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصا ن ہورہا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے بھارت میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہے ہیں، نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں ۱۹۹۰ءمیںکشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکتوں کے لیے ان کو بھی ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو طبقے میں نفرت پھیلائی گئی ہے‘‘۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومتی منصوبے پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت [مئی ۲۰۰۴ء- مئی ۲۰۱۴ء] کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادیٔ کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ ۱۹۹۰ءکے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے ان کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد، اقتدار کے لیے ہرحد پار کر سکتے ہیں ، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔

۲۰۱۶ء میں اس گروپ کی تشکیل کے بعد ،گروپ کا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہم واضح طور پر ماحول میں تناؤ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ ’حد بندی کمیشن‘ کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی بنیادوں پر دُوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس ’کمیشن‘ نے حدبندی کے لیے آبادی کو معیار بنایا ہے اور نہ جغرافیہ کو۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے ہندو اکثریتی علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تو وادیٔ کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادیٔ کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ ۔راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوں گے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڑ بند ہوتا ہے، تو امیدوار کو ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کے لیے جانے کے لیے اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری۔ پونچھ پہنچنا ممکن ہوگا۔ یہ کیسی حد بندی ہے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق: ’’اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لیے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ لگتا ہے کہ ۲۰۲۲ء کے آواخر میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اس ’کامیابی‘ کو پورے بھارت میں ’کارنامے‘ کے طور پر بتایا جائے۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور ان کو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ گوجر آبادی کوپس ماندہ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ اسی طرح پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے‘‘۔

وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھے،کہ کہیں ان کو بعد میں تختۂ مشق نہ بنایا جائے‘‘۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’[انڈین]آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینیر صحافی کو بتایا: ’’ اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں، آپ یہ بتائو کہ اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے ہو یا نہیں؟‘‘ ایک دوسر ے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ ایم M یعنی: ماسز، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا کا معاملہ ہے۔ ہم نے مسجد، مولوی اور ماسز (عوام) کو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘‘۔ میڈیا سے متعلق عوام میں اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر، میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر بھارتی علاقو ں میںبھی اس کا اطلاق کیا جائے گا‘‘۔

رپورٹ کے مطابق: ’’بھارتی حکومتیں، کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ان کو مراعات و د ھونس دباؤ کے ذریعے خریدنے پر اصرار کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے بھارتی حکومتیں، کشمیر کو باقی ملک [بھارت]کے ساتھ انضمام کے لیے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اس کے وجود اور شناخت ہی کو مٹانے کے درپے ہے‘‘۔

اس لیے اگر شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی یہ حکومت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کے لیے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کرتی ہے، تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی ساکھ کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکے، تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین کہلوانے کے حقدار ہوں گے۔ ورنہ ان دونوں پارٹیوں کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔

بین الاقوامی قانون میں کسی ریاست کو تسلیم کرنے میں چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن  افغانستان کا مسئلہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ تاہم، یہاں حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔

اس ضمن میں تین چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں: ایک یہ کہ جو بھی ریاست موجود ہو، اس کا پوری سرزمین پر مؤثر قبضہ (effective control ) ہو۔ دوسرا یہ کہ وہاں کوئی آبادی موجود ہو،  اس حکومت کو عوام کی تائید حاصل ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ حکومت کام کرنے کے قابل بھی ہو۔ جب کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی قانون میں انھی چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

عام حالات میں تو حکومتیں پُرامن طریقے سے تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جہاں خانہ جنگی ہو یا اس ملک کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں جیساکہ افغانستان میں تھا، تو پھر ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جیساکہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو یہ سوال پیدا ہوا: ’افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟‘ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا، جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اس کو تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل تھے۔ طالبان کی حکومت نے اس وقت بھی تقریباً پانچ سال پورے کیے،مگر اس کے باوجود دُنیا نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ میں بھی ان کو نمایندگی نہیں دی گئی۔ لیکن اُس زمانے میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک سے طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے اورمعاملات چلتے رہتے تھے۔

کسی حکومت کو تسلیم کرنے میں یہ بات اہم ہوتی ہے کہ Defacto (فی الواقع) ہے، یا Dejure (حقیقی)۔ Defacto (فی الواقع) کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔Dejure (حقیقی)کا مطلب ہے کہ قانونی طور پر کسی حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دُنیا نے طالبان کی حکومت کو حقیقت میں تسلیم نہیں کیا، لیکن فی الواقع تمام ممالک ان سے رابطہ بھی کر رہے ہیں، مل بھی رہے ہیں اور کابل میں بہت سے ممالک کے سفارت خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکا سمیت بہت سے دیگر ممالک ان سے رابطے میں ہیں۔خود طالبان حکومت سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے لیے افغانستان میں رابطے کے لیے طالبان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔

بین الاقوامی تعلقات میں اصل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات دیکھیں تو نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ پچھلی صدی سے افغانستان میں گریٹ گیم چلتی رہی ہے، اور یہ گریٹ گیم ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ گریٹ گیم امریکا،برطانیہ اور روس کے درمیان تھی، لیکن اب یہ کھیل امریکا اور چین کے درمیان کھیلا جارہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اسی تزویراتی کش مکش کا حصہ ہے۔ پھر اس گریٹ گیم کا حصہ  تین اہم ممالک پاکستان، ایران اور بھارت بھی ہیں۔

پاکستان سے ایک اہم سفارتی غلطی ہوئی ہے۔ جب ہم طالبان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کریں اور ان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بن سکیں۔ اسی کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ اس موقعے پر حکومت پاکستان کو کچھ چیزیں طے کرنی اور طے کرانی چاہییں تھیں، جب کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان کی حکومت بننے والی ہے۔ چاہے وہ خانہ جنگی سے آئے یا پُرامن طریقے سے!

گذشتہ چار برسوں کے دوران اسلام آباد میں پس پردہ اجلاس ہوتے رہے، جن میں پاکستان نے شرکت کی۔ افغان حکومت کے پارلیمنٹیرین ان اجلاسوں کا حصہ ہوتے تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’آپ طالبان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور طالبان بھی آپ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اگر طالبان نے آپ کے ساتھ مفاہمت کرلی تو ان کی پوری جدوجہد اور تحریک ختم ہوجائے گی۔ وہ ایک نظریاتی اساس رکھتے ہیں اور وہ اپنی اساس کو کبھی چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کا جو مزاج ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’کچھ لو اور دو‘ کی بنیاد پر مصالحت کریں اور پھر ایک قومی حکومت بنائیں، یہ ہو نہیں سکتا‘‘، مگر انھیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔

ہمارے دفترخارجہ کے بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ ’’اب ۹۰ کے عشرے والی بات نہیں ہے۔ اب ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج بہت مضبوط ہوگئی ہے، اور بیوروکریسی بھی موجود ہے۔ ایسے حالات نہیں ہیں کہ طالبان آئیں گے اور قبضہ کرلیں گے‘‘۔ مگر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ۱۴؍اگست ۲۰۲۱ء کو جب امریکی حمایت سے قائم صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوئے تو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔

ابتدا میں پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہیے تھا کہ طالبان ہی کو بہرحال حکومت بنانی ہے۔۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء سے پہلے ہم نے جو اقدامات کیے، مثال کے طور پر احمدشاہ مسعود کے بھائی کو ایک ماہ قبل اسلام آباد میں آنے کی دعوت دی اور ان کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اسی طرح اور بہت سے لوگوں کو بلایا گیا۔ حکومت، دفترخارجہ کے کچھ افراد اور دفاعی حلقے کے صلاح کار پریشان فکری کا شکار تھے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اگر ’’ہم شمالی اتحاد یا جسے ’قومی مزاحمتی فوج‘ کہتے ہیں کو رابطے میں لائیں گے تو طالبان پر دبائو بڑھا سکیں گے اور شاید طالبان افغان حکومت سے مفاہمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن غالباً ان سب لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ برادرانہ دبائو کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ دبائو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج کرنے لگے گا تو پھر مؤثر نہیں رہے گا۔

ہمیں چاہیے تھا کہ ہم امریکا سے یہ طے کرلیتے کہ اگر طالبان کی حکومت آگئی، تو ہمیں ان کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟ صرف امریکا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی خاص طور پر ہمیں کچھ چیزوں کا تعین پہلے سے کرلینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو طالبان نے حکومت کا کنٹرول سنبھالا تو اسلام آباد میں حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ یہ بالکل اسی طرح معاملہ ہوا ،جو ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا، جب بھار ت نے کشمیر پر غیرآئینی اقدامات کیے تو حکومت کو سمجھ نہیں آئی کہ اب ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا، لیکن ہم شاید سوئےرہے اور اس بوکھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔

۲۰دسمبر ۲۰۲۱ء کو ہم نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ یہ انسانی تناظر میں ایک اچھی کوشش تھی، کیونکہ اگر افغانستان بحران سے دوچار ہوتا ہے یا معاشی تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو مسائل کا سب سے زیادہ تباہ کن بوجھ پاکستان ہی پر آنا ہے۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہماری افغانستان کے ساتھ ۲۶ سوکلومیٹر طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں جو بھی صورتِ حال ہے، اس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، افغانستان کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے چل رہا ہے۔ اُس زمانے میں ہرروز پشاور میں دھماکے ہوتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی کوتاہی سے نہیں سیکھا، اور طالبان کی حکومت کے لیے پیش بندی نہ کی۔ اور نہ یہ جاننا چاہا کہ طالبان کس فکر، کس عزم اور سوچ کے علَم بردار ہیں۔

اگلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے یہ کہہ کر اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ لیے کہ ’’ہم علاقائی سوچ کے ذریعے آگے بڑھیں گے‘‘۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے لیے گنجایش بہت کم رہ گئی۔ ڈپلومیسی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی محدود تصور کا پابند کرلیں۔ اس طرح آپ کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے علانیہ یہ کہہ دیا کہ ’’ہم طالبان کی حکومت کو اکیلے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ بے شک حکومت کو تسلیم نہ کرتے، لیکن علانیہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ہم چیزوں میں کچھ گنجایش رکھتے تو پھر دُنیا بھی یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور یوں وہ بھی آگے بڑھ کر قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ ہمارے اس عاجلانہ اور غیرحکیمانہ موقف نے ہمارا اثرورسوخ ختم کردیا اور افغانستان کے مسئلے پر ہماری جو کلیدی پوزیشن ہونی چاہیے تھی وہ ہم نے خودختم کردی۔

بلاشبہہ پاکستان تنہا افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہماری مخدوش معاشی صورتِ حال، ایف اے ٹی ایف کامعاشی دبائو اور بہت سی مجبوریوں کا ہمیں سامنا ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے سے ہمارے متبادل اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ا س وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ یوکرین کے مسئلے پر زیادہ اور افغانستان کی صورتِ حال پر کم ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے مسائل اور بڑھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلانے سے افغان بھائیوں کے لیے ہم کچھ فنڈز جمع کرلیں گے، لیکن وہ بھی نہیں ہوپایا، اور نہ ہم اس کے لیے کوئی طریق کار ہی وضع کرسکے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات یاد رکھیے کہ بھارت نے افغانستان سے اپنے ہاتھ کھینچنے نہیں ہیں۔ پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نے وہاں بہت سے اثاثے (assets ) بنائے ہیں۔ بھارت اور امریکا کا ایک مشترکہ ہدف یہ ہے کہ وہ اس خطے اور افغانستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امریکا یہاں سے بظاہر چھوڑ کر تو چلاگیا، لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان اسی طرح انگارہ بنا رہے اور پاکستان بھی مسائل سے دوچاررہے۔ صرف بھارت اور امریکا ہی یہ نہیں چاہتے کہ گوادر نہ بنے، سی پیک آپریشن بند ہوجائے، بلکہ ہمارے کچھ قریبی دوست ممالک بھی نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ تعمیر ہو، کہ اس طرح ان کی اپنی بندرگاہوں کے معاملات متاثر ہوجائیں گے۔

اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے کوئی یک طرفہ فیصلہ کرسکے۔ ہمیں طالبان کو قائل کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ایک وسیع تر حکومت نہیں بناسکتے، تو کم از کم ’لویہ جرگہ‘ ہی بلایا جائے تاکہ حکومت کے لیے کوئی قانونی جواز پیدا ہوسکے۔دُنیا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کررہی۔ ان کا یہ ایک بے تُکا اور غیرمنصفانہ اعتراض ہے کہ ’’طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے‘‘۔ اگر دُنیا کی تاریخ پڑھیں تو بیرونی جارحیت کے خلاف حکومتیں اسی طرح بنتی ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پشتون اکثریتی نسلی گروہ ہے۔ افغانستان میں ۲۷ فی صد تاجک رہتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے باقی نسلی گروہوں کو بھی نمایندگی دی ہے، مگر تاجکستان اور ازبکستان  کو اس پر پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں ان برادر ممالک کی پریشانی کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دوچیزوں پر طالبان کو کچھ نہ کچھ نرمی دکھانی پڑے گی۔ اگرچہ وہ عبداللہ عبداللہ یا حامد کرزئی کو حکومت میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن اپوزیشن کی دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کو توشامل کیا جاسکتا ہے اور ایسے افراد کو لیا جاسکتاہے جو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج نہ کریں۔دوسرا معاملہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے مواقع کا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس مسئلے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن اس میں مزید گنجایش پیدا کریں تو مناسب ہوگا۔

ان حالات میں پاکستان پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آج کل یوکرین کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ہمیں تو افغانستان کی فکر کرنی ہے کہ اس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، تاکہ یہاں استحکام پیدا ہو۔ البتہ یہ مسئلہ اب راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگلے ایک دو سال تک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا، جو اپنی جگہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔

روس اس وقت یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، لیکن پاکستان، چین اور ایران، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور طالبان کو اس بات پر تیار کرسکیں کہ وہ کچھ نرمی دکھائیں تو اس طرح معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جاسکے گا۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں ایک طویل مدت کے بعد امن کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس بار پورے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کی طرح کی صورتِ حال نہیں ہے کہ جب طالبان کے پاس مزارشریف اور وادیِ پنج شیرنہیں تھی۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں ہے کہ دُنیا انھیں تسلیم نہ کرے۔

اب تک اقوام متحدہ میں افغانستان کے حوالے سے دو قراردادیں منظورہوئی ہیں۔ ایک ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء کو قرارداد ۲۵۹۳ منظور ہوئی، جب بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صرف ایک دن پہلے جب اس کی صدارت ختم ہورہی تھی، وہ ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں وہ تمام مطالبات میں شامل ہیں، جو دُنیا کہہ رہی ہے۔ پھر ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء کو ایک اور قرارداد ۲۶۱۵ منظور ہوگئی۔ اس میں بھی اسی قسم کے مطالبات ہیں۔ ان حالات میں سفارتی عمل مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہرمسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن اگر ہم اہداف متعین کرکے مسلسل کوشش کریں تو کامیابی مل سکتی ہے۔

بھارت میں روز بروز حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں، جس سے بھارت میں بسنے والا ہرمسلمان مضطرب اور ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے خطرناک مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ ایک افسوس ناک واقعے پر کچھ لکھتے ہوئے، سیاہی خشک نہیں ہوتی، کہ دوسرا اُس سے بھی بڑھ کر الم ناک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسے صبح و شام میں کسی تبصرہ نگار کے لیے جم کر بات کرنے کی ہمت ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ترتیب اور متعین مذموم مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل آف انڈیا کے سربراہ ارکار پٹیل نے مدھیہ پردیش کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کو کھرگون انتظامیہ نےغیر قانونی طور پر منہدم کیا ہے‘‘۔

پتھر بازی کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنے کی ہندستان میں پرانی روایت ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت میں ہونے والے ۱۴ ہزار بڑے مسلم کش فسادات میں اکثر یہی پتھرائو والا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہبی جلوس اور یاتراؤں کو پہلے پولیس و انتظامیہ مسلم علاقوں سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں، پھر چند بدمعاشوں کو مسلمانوں کےسادہ لباس میں ملبوس کرا کے ان جلوسوں پر کچھ پتھر پھینکوائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ نعرے بازی ، آتش زنی، قتل و خون ریزی، لُوٹ مار، مسلم عورتوں کی بے حُرمتی___  فساد شروع ہوجاتا ہے ۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں اس طرح مسلط کردہ فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان ہلاک کیے جاچکے ہیں۔

یوں پتھراؤ یا پتھر بازی کا بہانہ کرکےفساد بھڑکائے جاتے ہیں ۔ فسادی غنڈے پولیس کی مدد، سرپرستی اور تائید سےمسلمانوں کے قتل، ریپ اور انھی کی املاک کو نذرِ آتش کرنے میں معاون بن کر یک طرفہ کارروائی کرتے ہیں، اور پھر انھی متاثرہ مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو فسادی قرار دے کر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ بظاہر ’توازن‘ رکھنے کے لیے ہندو آبادی سے پکڑے چند لوگ بہت جلد باعزّت بری ہوجاتے ہیں، مگر مسلمان نوجوان جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔

آنجہانی جنرل بپن راؤت ۲۰۱۷ء سے کشمیری مائوں کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ ’’اپنے بچوں کو روکے رکھو ورنہ جو پتھر اُٹھائے گا وہ کچل دیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد پتھرائو کے الزام میں گرفتار کم عمر بچوں کی بڑی تعداد کشمیر میں ہے۔ ان بچوں پر جیل میں کیا گزرتی ہے، اس باب میں کوئی نہیں لکھتا۔

مذہبی جلوسوں میں ہزاروں غنڈے تلوار،خنجر،لاٹھیاں، سلاخیں، آتشیں اسلحہ و کیمیکل بھری بوتلوں کے ساتھ مسلم بستیوں اور گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اپنی اور اپنے گھر کی عورتوں، بزرگوںکی مدافعت میں بے ساختہ پتھراؤ کے ذریعے حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کی آخری کوششیں کی جاتی ہیں، جو ایک انسان کی بقا کاآخری حق ہے۔ اب اسے بھی چھینا جارہا ہے۔

مظفر نگر۲۰۱۳ء اور پھر ۲۰۲۰ء کے دہلی کے فسادات کے دوران ہزاروں حملہ آوروں کی یلغار سے بچنے اور چھتوں سے مدافعت کے لیے جب مسلمانوں نے اپنی چھتوں پر کچھ پتھر اکٹھے کیے تو ان جمع شدہ پتھروں کی ویڈیو فوٹیج لے کرUAPA ایکٹ کے تحت ’ملک سے غداری‘ جیسے خطرناک قوانین میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر دیئے گئے اور جن کے گھر والے فسادات میں ہلاک ہوئے، ان پر بھی سخت ترین مقدمات درج کیے گئے۔۲۰۲۰ء کے دہلی فساد میں ہندوئوں کے بالمقابل ۴۳ مسلم شہید ہوئے۔ پھرمسلمانوں کی بڑی تعدادبھی دو،دو سال سے جیلوں میں پتھراؤ کے گھناؤنے الزام کے تحت سڑ رہی ہے، نہ سماعت اور نہ رہائی!

  • ۱۰؍اپریل ۲۰۲۲ء کو راجستھان کے شہر قرولی میں مذہبی ریالی شوبھا یاترا کے نام پر نہایت ذلت آمیز نعرے بازی کے ذریعے حالات کو خراب کیا گیا، اور ساتھ ہی پتھراؤ کے نام پر  چُن چُن کر نشاندہی کے ساتھ بڑی تعداد میں مسلمانوں کی دکانوں، پھل اور سبزی فروشوں کے ٹھیلوں کو لوٹ کر جلا دیا گیا ۔ انتظامیہ کی موجودگی میں پٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی اور پولیس گھروں میں گھس گھس کر بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرکے انتہائی بے دردی سے زد وکوب کرتے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلتی رہی، اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔
  • جھاڑکھنڈ میں مساجد کے سامنے مسلمانوں کے نام لے لے کر ڈی جے موسیقی کے شور میں مسلمانوں کو فحش گالیاں دی جاتی رہیں۔ گجرات میں ٹوپی، داڑھی والوں پر فحش طنزیہ، دھمکی آمیز گانے بنائے گئے۔ شرپسند شراب کے نشے میں دھت بدمست ہاتھیوں کی طرح مسلم گھروں پر حملہ آور ہورہے تھے۔ جلوس میں مسلم خواتین پر جنسی حملے کرنے کی ترغیب پر مبنی کھلے عام نعرے لگائے جارہے تھے۔ اس طرح گجرات کے چار شہروںمیںمسلمانوںپرحملےکرکےگھرجلادیئے گئے۔
  • مسلم محلوں کی مساجد کے سامنے یہ فسادی ننگی تلواروں، بھالوں کے ساتھ گھنٹوںخوب ہنگامہ آرائی کرتے رہے تا کہ مسلمانوں میں خوف اوراشتعال پیدا ہو۔ دھمکیاں دی گئیں اور جلوس ’مہابھارت‘ کے جنگ و جدال کا منظر پیش کر رہا تھا۔مسلمانوں پر حملے، گرفتاریاں، املاک پر تسلط یا مسمار کرنے پھر ان کا قتل عام کرنے کی سازش منصوبہ بندی سے کی جارہی ہے ۔

فسادیوں کے مسلم مخالف نعروں اور ہنگامہ آرائی میں ہوسکتا ہے کہیں مسلمانوں نے اپنی مزاحمت میں پتھر پھینکے ہوں۔ اتنی بڑی کھلے عام اور منظم یلغار کے جواب میں بے ساختہ چندپتھر پھینکنا کیا اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ کھر گون میں ریاست کی پوری مشنری حرکت میں آگئی اور پولیس بندوبست کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں مسلمانوں کے ۱۷مکانات اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ یہ مسلمان پتھرائو کر رہے تھے۔ بے شرمی کا عالم دیکھیے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان اوروزیر داخلہ نروتم مشرا برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے پتھر بازی کی ہے ہم ایک ایک کوسخت سزا دیں گے اور ان کی جائیدادوں کو بلڈوزر سے ڈھیر کرکے بطور جرمانہ بلڈوزوروں کا کرایہ بھی لیں گے، وغیرہ۔ NDTV کے اینکر نے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے انٹرویو میں اصرار کرکے پوچھا کہ ’’یہ انتقامی کارروائی آپ کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟‘‘ جواب میں بار بار نروتم مشرا دُہراتے رہے کہ ’’ہم سب کچھ قانون کےمطابق کررہے ہیں‘‘وغیرہ۔

سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا قانون میں اس طرح کے انتقام لینے کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ یہ سراسر منصوبہ بند پیمانے پر سرکاری غنڈا گردی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جب تک کسی مقدمے میں کارروائی سے عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں ملزم نے پتھراؤ کیا تھا، اس وقت تک کوئی بھی کارروائی  کرنے کا حکومت یا پولیس اور انتظامیہ کو اختیار حاصل نہیں ‘‘۔

کسی غیرقانونی گھر بار کو منہدم کرنے سے پہلے انتظامیہ پر لازم ہے کہ نوٹس دے کر پہلے مقدمہ دائر کرے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ دے اور پھر جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا، اس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں عرضی داخل کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو بستیوں کی بستیاں ڈھائے جارہی ہیں اور مسلمانوں کے گھر بار مسمار کرنے کے لیے مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہماچل پردیش میں مسلمانوںکی ایک پوری بستی اس الزام کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین پر قابض تھے۔ اس طرح ہزاروں خاندانوں کے گھرزمین بوس کردیئے گئے۔

بھارت میں پتھراؤ سے جائیدادوں کو زمین بوس کرنے کا ایک نیا وحشیانہ طریق کار دنیا کے سامنے ہے۔گذشتہ چند برسوں سےتجرباتی طور پر پہلے یہ عمل کشمیر میں اورپھر آسام میں بڑے پیمانے پر کیا گیاتھا۔ ہندو بریگیڈ نے دیکھ لیا کہ مسلمان بے بس اور کمزورہیں اور ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ حقوق کو پامال کرنے والے وہ خودساختہ منصف درندے جو راتوں رات بدترین یلغار کرتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کو ڈھیر بناتے ہیں، وہ کون سی مہذب سوسائٹی کا حصہ ہیں اور اس طریق کار کی کون اجازت دے سکتا ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟

چیف منسٹر مدھیہ پردیش چوہان سنگھ نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم ان کی جائیدادیں مسمار کرکے قرق کریں گےبلکہ مسلمان بستیوں پر اجتماعی بھاری جرمانے بھی عائد کریں گے‘‘۔فلسطین میں اسرائیلی پولیس کا فلسطینیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بات بات پر قتل، گرفتاری اور غریب معصوم فلسطینی باشندوں کےگھروںکوبلڈوزکردیاجاتاہے۔ ایسالگتا ہے کہ بی جے پی نے اسرائیلی حکومت سے انتقامی کارروائی کے درس حاصل کیے ہیں ۔

چند مٹھی بھر مسلمانوں کی مزاحمت پر بی جے پی ؍ آر ایس ایس غصے میں آپے سے باہر ہورہی ہے ۔ انتقام اور بدلے کے جنون اور پاگل پن میں مبتلاہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست کرنے کے لیے یک طرفہ معاندانہ انتقامی کارروائیاں حکومت کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔ زندگی کو بچانے کے لیے مزاحمت کا جو بنیادی حق قانون دیتا ہے، اسے بھی اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ظلم و درندگی اور نسل کشی کا نشانہ بننے اور موقعے پر مارے جانے والے بے قصور مسلمان آہ تک نہ کریں ۔ خود یہ جلتے، کٹتے، مرتے مسلمان اپنی مسلم قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ کس دن کے انتظارمیں آپ حضرات سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں؟

بھارت میں مسلم ملّی، مذہبی، سیاسی قیادت کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ گذشتہ برس بابری مسجد کے مایوس کن فیصلے، قانون طلاق ثلاثہ، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی برخواستگی کے بعد سے نرسمہا آنند سرسوتی کی مسلمانوں کی نسل کشی ’ بولی بائی ڈیل ‘، پھر ۱۱ مارچ ۲۰۲۲ء کو انتہائی اشتعال انگیز فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ریلیز سے لے کر ۱۱؍اپریل ۲۰۲۲ء کو شوبھایاترا تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مسلم قائدین، علما کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ متحدہوکر ایک بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کریں، اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ دُنیا کے تمام انسانی حقوق کے فورم اورحکومتوں تک مظلوموں کی آواز پہنچ سکے۔اس دوران میں ایک جماعتی وفد نے راجستھان کے حالیہ فساد زدہ گائوں قرولی کا دورہ کیا۔

مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دعوتی اور رفاہی کاموں میں مصروف حضرات کے سامنے تو اب اُمت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ مسلط کردہ لڑائی کا ہرسطح پر آغازہوچکا ہے ۔ دین دار، سیکولر اورعام مسلمان طبقے کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں ، گروہی، مسلکی اختلافات سے اُونچا اُٹھ کر دستور کے دائرے میں اُمت کے تحفظ و بقا کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔

اسرائیل کا اصرار ہے کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ حملے ایک خاص علاقے جنین پناہ گزین کیمپ سے منسوب ہیں، جو شمالی مغربی کنارے میں واقع ہے‘‘۔ دراصل یہ زور دے کر اسرائیلی حکومت جنین میں ایک اور جان لیوا ملٹری آپریشن کا حکم دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ درحقیقت ۹؍اپریل ۲۰۲۲ء کو اسرائیلی فوجیوں نے جنین پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی ہلاک ہوگیا اور دیگر دس افراد زخمی ہوگئے۔ تاہم، اسرائیل کا مسئلہ جنین سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

اگر ہم واقعات کا جائزہ لیں جو ۲۲مارچ سے جنوبی شہر بیرالصباح میں خنجروں کے حملوں سے شروع ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کا خاتمہ تل ابیب میں تین اسرائیلیوں بشمول دو آرمی افسران کی ہلاکت سے ہوا تھا، تو ہم واضح طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان حملوں کا باہم ربط ہے۔فلسطینیوں کا اسرائیل کے تشدد کے جواب میں اس طرح کا فوری حملہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بیرالصباح کے علاوہ تمام حملوں میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا تھا۔ گولیاں چلانے والے بہت ماہر تھے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کر رہے تھے جیساکہ کچھ ویڈیوز اور اسرائیلی عینی شاہدوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے۔

۲۷مارچ ۲۰۲۲ء کو ہدیرا پر حملہ اس کی مثال ہے، جو دو بھائیوں نے کیا تھا، جن کے نام ایمان اور ابراہیم تھے اور ان کا تعلق اسرائیل کے اندر واقع عرب بستی اُم الفہم سے تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے حملہ آوروں کی مہارت کا تذکرہ کیا تھا جو اسلحہ سے مسلح تھے۔ اسرائیلی نیوز ایجنسی  تازپٹ (Tazpit) پریس کے مطابق حملہ آوروں کے پاس ۳۰ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کا اسلحہ تھا۔

دوسرے انتفاضہ (۰۵-۲۰۰۰ء) میں جس طرح سے فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف حملے کیے تھے، اس کے برعکس موجودہ حملوں میں عموماً واضح ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پولیس اورملٹری اہل کاروں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر اسرائیل کی سیکورٹی کی ناکام حکمت عملی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بنی بارک حملہ میں جو ۲۹مارچ کو ہوا، ایک اسرائیلی خاتون نے جو وہاں موجود تھی، صحافیوں کو بتایا کہ ’’مسلح حملہ آوروں نے ہمیں کہا کہ وہ اس جگہ سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ عورتوں اور بچوں کو ہدف نہیں بنانا چاہتے‘‘۔

بیرالصباح حملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے، مگر اس الزام نے جلد اہمیت کھو دی،اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی حملہ آوروں کی دیگر جماعتوں سے سیاسی وابستگی ہے، یا جیساکہ بنی بارک معاملے میں کوئی واضح وابستگی سامنے نہیں آئی۔

 تل ابیب حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے مبینہ طور پر بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک حملہ آور نزدیکی عمارت میں سے پکڑا گیا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہ تھی، اس لیے کہ صرف ایک ہی حملہ آور تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں بعد ایک دوسرے شہر میں مارا گیا۔

تل ابیب میں بہت سے فلسطینی ورکروں کو حملہ آوروں کے شبہہ میں تیزی سے گرفتار کرلیا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ عرب دکھائی دیتے تھے۔ درحقیقت ہرواقعے کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے اور اسرائیلیوں کے مسلح ہجوم گلیوں میں نکل آتے ہیں تاکہ عرب دکھائی دینے والے افراد کو پکڑ لیں اور انھیں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنائیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم نے امن و امان کا مظاہرہ کرنے پر زور دینے کے بجائے ۳۰مارچ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’جس کسی کے پاس لائسنس یافتہ بندوق ہے، یہی وقت ہے کہ وہ اسے لے کر آئے‘‘۔ تاہم، اگر اسرائیل کے نزدیک فلسطینیوں کی مزاحمت کا حل مزید اسلحہ ہے، تو فلسطینی ایک عرصے سے امن کے قیام کے خواہش مند ہیں۔مشتعل اسرائیلیوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے جنین شہر پر متعدد مرتبہ حملہ کیا۔ ہرمرتبہ بہت سےفلسطینی ہلاک اور بہت سے زخمی ہوگئے۔ ان میں ایک پندرہ سالہ نوجوان عماد بھی شامل ہے جو۲۴؍اگست کو اس وقت مارا گیا جب وہ اپنے موبائل فون سے اسرائیلی حملہ آوروں کی فلم بنا رہا تھا۔ ایسا ہی ایک منظر ۱۹؍اپریل کو بھی دیکھنے میں آیا۔تاہم، یہ ایک فضول مشق ہے، اس لیے کہ جنین کے کیمپ میں برسوں سے جاری اسرائیلی ظلم و تشدد کے نتیجے میں ہی مسلح مزاحمت کا صدور ہوا ہے۔ فلسطینی خواہ جنین میں ہوںیا کہیں اور، وہ مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر نام نہاد عالمی برادری کے رویے سے مایوس ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس عوام سے لاتعلق ہیں۔ ان کے بیانات سے اسرائیلی ظلم و تشدد، فوجی قبضہ اور فلسطین میں نسلی امتیاز سے لاتعلقی نظر آتی ہے۔ تاہم، انھوں نے تل ابیب پر حملے کی فوری مذمت کی۔سوال یہ ہے کہ محمود عباس کس استحکام کی بات کر رہے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کی مشکلات میں آبادکاروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد، غیرقانونی آبادکاری میں توسیع، زمینوں پر قبضہ، غذائی قلت اور حالیہ پُرتشدد واقعات نے مزید اضافہ کر دیا ہے؟

اسرائیلی حکام اور میڈیا ایک بار پھر جنین ہی کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، جو کہ ایک تنگ اور کثیرآبادی جگہ ہے۔ اس بات سے اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے ایک مخصوص جگہ تک محدود ہیں، جو کہ اسرائیل کی سرحد کے قریب ہے۔ جنین کیمپ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن اسرائیلی وزیراعظم کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو قوت کی برتری کا احساس دلاتا ہے لیکن یہ سب ایک عارضی مرحلہ ہے۔ جنین پر حملے سے آیندہ بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپریل ۲۰۰۲ء میں بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوجانے کے بعد بھی جنین کیمپ کے مکین ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ فلسطینیوں کے مزاحمتی حملے آج زیادہ وسیع علاقے میں پھیل گئے ہیں جن میںنکب، اُم الفہم اور مغربی کنارہ شامل ہیں۔ ان علاقائی حملوں کی بنیاد گذشتہ مئی میں اسرائیلی جنگ سے پڑی اور اس کے نتیجے میں فلسطینی بغاوت جو فلسطین کے ہرحصے میں بشمول اسرائیل میں پائی جانے والی فلسطینی آبادیوں تک میں پھوٹ پڑی ہے۔ دراصل اسرائیل اس مسئلے کو جلداز جلد فوجی قوت کے بل پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں پر فوجی قبضے کے لیے نسلی امتیاز کو گہرا کرے گا تو فلسطینی لازماً اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دو کردار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں :

  • ایک وہ لوگ جو موجود حالات پر مطمئن رہتے ہیں اور وقت کے دھارے کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ اس طرح انھی افراد کے خیالات، نمونے اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہیں، جو اس راستے کی ترغیب دیتے اور اس کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔
  • دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو موجود حالات کو چیلنج کرتے ہیں اور غالب خیالات اور روّیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں ، ان کی جگہ متبادل خیالات پیش کرتے اور روشن راستے تلاش کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس طرح وہ مثبت تبدیلی کے نقیب بن جاتے ہیں۔

ممکن ہے کہ مؤخرالذکر افراد، تعداد میں کم، بظاہر غیرمؤثر اور بے اختیار ہوں، بلکہ ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہو، لیکن بالآخر یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے، اور تہذیبی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسی تبدیلی کہ جس سے انسانی خیالات، معاشرے، ثقافت اور تاریخ کی صحت مند صورت گری ہوتی ہے۔

برادرم اسماعیل راجی الفاروقی، اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اسلامی فکرودانش کے آسمان پر جلوہ افروز ہوئے۔ نوجوانی ہی میں انھوں نے اسلامی علوم میں اعلیٰ فراست رکھنے والے ایک دانش ور اور بلندپایہ عالم کی حیثیت سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایسے بلندمرتبت فاضل تھے، جو ایک طرف اسلامی فکر، تہذیب اور ثقافت کے قدیم اور جدید مستند مآخذ سے واقف تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو انھوں نے خداداد صلاحیت کے بل پر مغربی فلسفے، معاشرتی علوم کی ترتیب، تقابل مذاہب اور تاریخ کے میدان میں گہری تجزیاتی بصیرت بھی حاصل کی تھی۔ یہ چیز فی الحقیقت ایک نادر خوبی ہے۔

اسماعیل فاروقی زبان و بیان پر مضبوط گرفت رکھنے، جذبات کے غلبے سے آزاد اور  متحمل و منصف مزاج مقرر تھے۔ وہ ایسے مؤثر نثرنگار تھے، جنھوں نے اپنے نتائجِ فکر اور خیالات سے بڑی وضاحت اور مضبوط استدلال کے ساتھ عہدِحاضر کی فکرودانش کو مخاطب کیا۔ ان کی تقریروں اور تحریروں نے علمی پختگی، سائنسی اپروچ، معقولیت پسندی، ادبی چاشنی اور ہوش مندی سے آراستہ جوش و جذبے کے بل پر نوجوانوں اور حق کی متلاشی دو نسلوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک علمی شخصیت، ایک شفیق استاد، ایک راست فکر مفکر اور ایک مستقبل بین مبلغ کی حیثیت سے اپنے اعلیٰ فکروفن کا لوہا منوایا۔ الفاروقی کی جامع علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے میں انھیں امریکا اور یورپ میں اسلامی احیا کا معمار سمجھتا ہوں۔ اس امتیازی حیثیت اور رہنمائی کے منصب تک پہنچنے کے لیے انھیں ایک بڑا طویل سفر کرنا پڑا۔

اسماعیل راجی الفاروقی، یکم جنوری ۱۹۲۱ء کو فلسطین کے تاریخی اور ثقافتی شہر جافا کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے گہوارے میں حاصل کی۔ ان کے والد گرامی فلسطین میں ایک قابلِ احترام شخصیت اور عالم فاضل قاضی تھے۔ الفاروقی کی شخصیت پر والدصاحب کی عظمت نے پہلا اور گہرا تاثر قائم کیا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تربیت کے روایتی دانش کدوں، یعنی مسجد اور مدرسے نے نوجوانی میں اسلامی اقدار سے اُن کی وابستگی پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دُنیوی تعلیم کا آغاز ایک فرانسیسی کیتھولک تعلیمی ادارے ’کالج ڈیسس الفریر [تاسیس: ۱۸۸۲ء] سے ہوا، جب کہ اعلیٰ تعلیم امریکن یونی ورسٹی بیروت [تاسیس: ۱۸۶۶ء]، اور پھر امریکا کی انڈیانا یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۸۲۰ء] اور ہارورڈ یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۶۳۶ء] سے تکمیل کو پہنچی۔

الفاروقی نے علومِ اسلامیہ کی تعلیم الازہر یونی ورسٹی قاہرہ [تاسیس:۹۷۲ء]سے بھی حاصل کی۔ بعدازاں میکگل یونی ورسٹی، مانٹریال [تاسیس: ۱۸۲۱ء] کی علومِ الٰہیات فیکلٹی میں عیسائیت اور یہودیت پر ایک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس طرح انھوں نے دونوں طرح کے نظام ہائے تعلیم (مغربی اور اسلامی) سے یکساں طور پر استفادہ کیا۔ فلسفہ، مذاہب اور تاریخ کا تقابلی موازنہ اور اسلامی علوم میں تحقیق، ان کی زندگی کا مقصد اور ان کی مہارت کے شعبے بن گئے۔ امریکا میں انھوں نے ۶۴-۱۹۶۳ء تک شکاگو یونی ورسٹی میں، ۱۹۶۴-۱۹۶۸ء کے دوران سایراکیوز یونی ورسٹی اور آخر میں [۱۹۶۸-۱۹۸۶ء] ٹیمپل یونی ورسٹی فلاڈلفیا میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

اسماعیل الفاروقی نے فلسفہ اور تقابل مذاہب اور تاریخ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے انسانی افکار سے آگہی اور ثقافت کے مطالعے کو یہ سمت عطا کرنے کی کوشش کی کہ، اسلام کے اعلیٰ مقاصد، بہترین اقدار اور اصولوں کی روشنی میں ثقافتی تشکیل نو کی جانی چاہیے، تاکہ دنیا میں امن اور عدل کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس منزل کے حصول کے لیے انھوں نے نظامِ عالم (World Order) کو اسلامی تصور میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کی۔ عظیم مہم جوئی پر مبنی یہ کام انھوں نے ایک اسلامی اسکالر کی حیثیت سے کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور پورے عزم سے وہ جانب ِ منزل رواں رہے۔

اسلامی احیا کے لیـے فکرمند

برادرم الفاروقی کے ساتھ میرا شعوری ربط و تعلق ۱۹۶۱ء میں اس وقت قائم ہوا، جب انھوں نے ایک نوجوان اسکالر اور ایک مہمان فیلو کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۲۶جولائی ۱۹۸۸ء] کے ساتھ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، کراچی سے وابستگی اختیار کی۔

اسلامک آئیڈیالوجی کونسل کے قیام [۱۹۶۲ء] سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی [م: ۲۳جنوری ۱۹۸۱ء] کی سربراہی میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کراچی یہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ قریشی صاحب کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اور میں اس وقت وہاں معاشیات کی تدریس سے وابستہ تھا۔ ڈاکٹر قریشی ہی کی دعوت پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ پھر یہ رابطہ زندگی بھر شعوری تعاون، ذاتی دوستی بلکہ صحیح معنوں میں حقیقی برادرانہ رشتے میں ڈھل گیا۔ الحمدللہ، ۳۵  برس سے زیادہ عرصے تک پھیلا رہا۔

کراچی میں الفاروقی کا قیام ۱۹۶۱ء سے۱۹۶۳ء تک رہا۔ تب ہم تقریباً ہرہفتے ملاقات کرتے، جو اکثر ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں ہوتی۔ ہم دونوں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود، مسلسل شعوری رابطے، باہمی اعتماد، احترام اور ہم نشینی میں یہ زمانہ بسر کیا۔  ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب تو تیزی سے اس سمت میں رواں دواں رہے، جس کو مستشرقین ’اسلامی جدیدیت‘ کہتے ہیں۔ دوسری جانب اسماعیل الفاروقی معقولیت اور جدیدیت کے طاقت ور اثر میں سانس لینے کے باوجود، اسلامی احیا کے شان دار دور کی بازیافت کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ یہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ خود کو دو دنیائوں کے درمیان بٹا ہوا پاتے ہیں۔

اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے، کہ اسلام ہمارا مشترکہ بندھن ہے، مگر برسرِ زمین دیکھیں تو اُمت کا حال اور مستقبل: پریشانی، بدحالی اور انتشار کا عکس پیش کرتا ہے۔ اس لیے فطری سی بات تھی کہ عصرِحاضر میںمسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے مختلف مظاہر، علمی، سماجی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی پہلو ہمارے بحث مباحثوںکے مرکزی موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اسماعیل الفاروقی اپنی تعمیر کے اس شعوری مرحلے میں اسلامی  مآخذ سے پختہ وابستگی کے باوجود وہ ’عربیت‘ (Arabism) اور ’مسلم جدیدیت‘ کی لہر کے زیراثر بھی تھے۔ ایک طرف اسلام کے ساتھ ان کی وفاداری ظاہر تھی، اور دوسری طرف اُمت مسلمہ کی حالت زار کا منظرنامہ انھیں تڑپاتا تھا۔ تاہم، وہ محض نوحہ خوانی کرنے اور پھر مایوسی کی چادر اُوڑھ کر سوجانے والوں میں سے نہ تھے، بلکہ مسلم ملت کے شعوری دیوالیہ پن اور روحانی تنزل کے اس کہرام کی تشخیص کے لیے فکرمند تھے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے، مغربی سوچ اور خیالات کے مقابلے میں قابلِ عمل متبادل پیش کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ مسلم دانش وروں اور رہنمائوں کی ناکامی پر کڑھتے اور مضطرب رہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ سماجی اور مکالماتی مجلسیں انھی موضوعات کے دائرے میں گھومتیں۔ ہم ان اُمور اور ان سے پیدا ہونے والی تشویش پر مدلل منطقی اسلوب میں اور بعض اوقات جذباتی انداز میں بھی بحث کرتے۔ الفاروقی، مسلم عرب پس منظر اور نوجوانی کے جوش و ولولے میں، اور مَیں تجدید ِاسلام کے ایک صورت گر اور آج کی نام نہاد اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ کے رُوپ میں اس مکالمے کا حصہ دار ہوتا تھا۔ الفاروقی کے ’عروبہ‘ کا تصور مغربی سیکولر قومیت سے مغلوب نہیں تھا۔ یہودیت اور عیسائیت کے مطالعے نے ان کو اسلامی سوچ کے ساتھ مربوط کردیا تھا۔ تاہم، محسوس ہوتا کہ بعض اوقات ’عرب ازم‘ کا حوالہ ان کے جذبات کو گرفت میں لے ہی لیتا تھا۔ ان پُرجوش بحثوں میں مجھے، جو ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب اور الفاروقی بھائی سے عمر میںچھوٹا تھا، نہ صرف برداشت کیا جاتا بلکہ بعض مواقع پر بحث میں میرے رویّے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ فکری اختلاف نے ہمارے شعوری رابطوں کو کبھی ختم نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ بحث مباحثے کا ٹکرائو بھی ہمارے دوستانہ اور نیازمندانہ تعلقات کو شاہراہ سے نہ اُتار سکا۔ ان فکری پنجہ آزمایوں نے درحقیقت ہماری دوستی کے بندھن کو مزید مضبوط بنایا، اور مختلف زاویۂ نظر رکھنے کے باوجود ہمیشہ مکالمہ جاری رکھنے کو خوشی خوشی قبول کیا کہ ہمارے درمیان زیربحث موضوعات پر بہت مشترک اور وسیع بنیادیں تھیں۔

کچھ عرصہ گزرا تو برادرم اسماعیل الفاروقی واپس کینیڈا چلے گئے۔ ڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب اسلام آباد منتقل ہوگئے اور جدیدیت کی طرف آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ تقریباً ۱۰سال تک میرا اور الفاروقی کا آپس میں براہِ راست رابطہ نہ رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں تریپولی (لیبیا) میں مسلم نوجوانوں کے بارے میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر اچانک ہماری ملاقات ہوگئی۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر محبت اور یگانگت کے جذبات میں بے قابو ہوگئے۔ میں دوسرے مندوبین کے ساتھ تریپولی کے اس ہوٹل کی راہداری اور استقبالیے کے درمیان کھڑا تھا، جہاں ہم نے ٹھیرنا تھا۔ اچانک مَیں نے دیکھا کہ برادرم اسماعیل الفاروقی میری طرف چلے آرہے ہیں اور مجھے دیکھ کر وہ خوشی سے بلندآواز میں پکار اُٹھے: ’برادر خورشید‘ اور پھر وہ بغل گیر ہونے کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ ایک ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ ہم دونوں کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ گرم جوشی اور خوشی کے اس بے ساختہ اور والہانہ اظہار نے راہداری میں موجود سبھی مندوبین کو بہت متاثر کیا۔ شیخ احمد صلاح جمجوم [م:۲۰۱۰ء] اس جذباتی مِلن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ میں بعدازاں جب بھی ان سے ملا، انھوں نے ہمیشہ ’بھائی الفاروقی‘ کے الفاظ اور ’برادر خورشید‘ کو ان کے جذباتی لہجے کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے دہرایا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ الفاظ میرے دل میں پیوست ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ ایک خزانے کے طور پر میری یادداشتوں میں موجود رہے گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہماری اس جذباتی ملاقات کے چند منٹ بعد قریبی مسجدسے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ خاص طور پر ہم میں سے ان لوگوں کی، جو یورپ اور امریکا سے آئے تھے، خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی، جنھوں نے دل کو پگھلا دینے اور نماز کی طرف دعوت دینے والی اس دل آویز آواز کو برسوں کے بعد سنا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ الفاروقی زاروقطار رو رہے ہیں۔ میری طرف دیکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں پکار اُٹھے: ’’اللہ کی قسم،اگر میں امریکا کا طویل سفر کرکے صرف یہی آواز سننے کے لیے آتا تو محسوس کرتا کہ مجھے اس مشقت کا بہت زیادہ پھل مل گیا ہے‘‘۔اس جملے کی ادائی، الفاظ کی ترتیب اور روحانی تڑپ نے اصل الفاروقی کے باطن کو ظاہر کردیا تھا۔ یہ تھی اسلام کے ساتھ ان کی گہری وابستگی اور اسلامی شعائر کے لیے ان کا جوش، ولولہ اور کشش۔ آنسوئوں کی برکھا میں ان کی آنکھیں روشنی اور خوشی سے دمک رہی تھیں۔ ان کا چہرہ روحانی مسرت سے جگمگا رہا تھا۔ اذان کا ہرلفظ ہمارے دلوں میں خوشبو اور زندگی کی طرح رَچ گیا تھا۔ کیسی یادگار تھی ہماری باہم ملاقات، اور اسی لمحے اذان کی اس پکار کا بلند ہونا، اللہ اکبر!

وہ چند دن جو تریپولی میں گزارے۔ انھوں نے ہمارے تعلق کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اب ہم دونوں اسلامی احیا کے ایک ہی دھارے پر رواں دواں تھے۔ الفاروقی اُس مشکل دوراہے سے آگےنکل آئے تھے، اور اسلام کی وکالت میں ہم سے بھی آگے تھے۔ بعد کے برسوں میں ہمارا یہ قریبی تعلق ایک مشترک فکروعمل کی صراطِ مستقیم پر استوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبۂ اسلام کی تاریخی جدوجہد میں حقیقی شراکت دار اور ایک دوسرے کا مددگار بنادیا تھا۔ الفاروقی کا جو شعوری، روحانی اور نظریاتی سفر ’مسلم عرب‘ کی حیثیت سے شروع ہوا تھا، اس نے انھیں تاریخی تبدیلی کے ذریعے ’اسلامی عرب‘ میں بدل دیا تھا۔ امریکا میں ان کے قیام کے زمانے اور مغرب میں پھیلے ہوئے اسلاموفوبیائی تلخ مباحثوں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، الحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔ (جاری)

(  انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف /  سلیم منصور خالد)

ياأيها الرجل المُحَوِل رَحله

 هلا نَزِلت بآل عبد منافِ

الآخذون العهد من آفاقهم

 والراحلون برحلة الإيلافِ

یہ جاہلی دور کے شاعر مطرود بن کعب الخزاعی کے اشعار ہیں۔ اس میں مطرود نے ایک ایسی اصطلاح کا ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قرآنی آیت لِاِيْلٰفِ قُرَيْـــشٍ۝۱ۙ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ۝۲ۚ [قریش ۱۰۶: ۱-۲]کا ایک جز ہے، اور قبل اسلام کے ایک بڑے اور تاریخی واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے اور اس پر گفتگو کو تازہ کرنے کی افادیت کیا ہے؟

تاریخی پس منظر

’ایلاف‘ پر گفتگو کے آغاز میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان تاریخی حالات کا سرسری جائزہ پیش کر دیا جائے، جن حالات میں یہ نظامِ ’ایلاف‘ [اُلفت و محبت پر مبنی نظام]عمل میں آیا تھا۔ جزیرۂ عرب اس وقت سیاسی اعتبار سے تین حصوں میں بٹا ہوا تھا: جنوب میں مملکت حِمیَر تھی، جس پر، دَر آنے والے حبشیوں نے مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ شمال کی جانب عراق میں بلادِ فارس کی تابع مملکت ’الحیرہ‘ اور بازنطینیوں کی مملکت غساسنہ تھی۔ جنوب اور شمال کے مابین وہ علاقہ تھا کہ جس میں وہ قبائل آباد تھے جو کسی ایک شاہی نظام یا بیرونی حکومت کے تابع رہنے پر مجبور تھے۔ مثال کے طور پر مکہ میں قریش کا قبیلہ تھا، مدینہ میں اوس اور خزرج وغیرہ کے قبائل تھے یا پھر بدؤوں کے وہ گروہ آباد تھے، جو تنگ حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور تنگ دستی نے ان میں سے بیش تر کو چوری، ڈکیتی اور قافلوں کی لُوٹ مار کے پیشے میں ملوث کر دیا تھا۔

جنوبی عرب حمیریوں اور حبشی حکومت (ایتھوپیا) کے درمیان جنگی کش مکش کی وجہ سے سلگ رہا تھا کیو ں کہ حبشہ، یمن پر حملہ آور تھا۔ شمالی عرب فارسیوں اور بازنطینیوں کے درمیان جاری جنگ کی آگ میں جھلس رہا تھا، جو دونوں کے درمیان یا تو براہِ راست ہو رہی تھا یا ان کے آلۂ کاروں، یعنی الحیرہ اور غساسنہ کے توسط سے جاری تھی۔ قطع نظر اس سے کہ تجارتی قافلوں پر اس صورتِ حال کے کیا منفی اثرات پڑ رہے تھے، اس صورتِ حال کی وجہ سے تجارت و خرید و فروخت کے سامان بعض علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہے تھے، کیو ں کہ کسی ایک جنگجو فریق نے اس کے راستوں پر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ یہ صورتِ حال خاص طور سے ان سامانوں کے ساتھ تھی، جو ہندستان اور وسطی ایشیا سے آتے تھے۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا فریق ہو، جو ان تمام فریقوں سے دوستی کے رشتے سے بندھ جائے تاکہ تجارتی نقل و حمل جاری رہنے کی ضمانت فراہم ہو سکے اوراس کش مکش کا مجموعی صورتِ حال پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ انھی حالات کے پیش نظر ’ پانچویں صدی عیسوی کے نصف میں نظامِ ’ایلاف‘ کا تصور عمل میں آیا۔

تصوّر کے بانی:  ہاشم بن عبدمناف

ہاشم بن عبد مناف بن قصی کو سرداری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا قصی وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے مکہ پر قریش کی سرداری قائم کی تھی۔ قصی سے یہ سرداری مناف کو ملی اور مناف سے ہاشم کو ملی تھی۔ ہاشم مکہ کی محدود تجارت سے خوش اور مطمئن نہیں تھے جس کا انحصار ان مقامی بازاروں پر تھا، جو حُرمت کے مہینوں کے دوران لگا کرتےتھے۔ حُرمت کے مہینو ں کے دوران بازار لگنے کی وجہ یہ تھی کہ دشمنوں کے حملوں اور قبضے سے محفوظ رہ سکیں۔ ان بازاروں کی تجارت بازاروں میں شریک ہونے والے قبائل کی ذاتی مصنوعات تک ہی محدود رہتی تھی۔

یہ تو واضح تھا کہ مکہ کوئی صنعتی شہر نہیں تھا، لیکن اس کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ ’بیرونی تجارت کے لیے کارآمد شہر‘ بن جائے۔ اس کے بہت سے اسباب تھے، مثلاً: یہ شہر شمال اور جنوب کے تجارتی راستوں کے عین درمیان واقع تھا۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ حج کے ایام میں عربوں کا یہاں اجتماع ہوتا تھا اور اہل عرب قریش کو’اہل اللہ‘ ہونے کے ناتے ’بزرگ‘ مانتے تھے، کیوں کہ وہ کعبہ کے خادم تھے اور عربوں کے مقدس ترین قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

ایک بار جب مکہ زبردست اقتصادی بحران اور غذا کی شدید کمی سے دوچار ہوا، تو ہاشم بن عبدمناف نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر (مکہ) کے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہاشم کا معمول شام کے تجارتی اسفار پر جانے کا تھا۔ وہ ’غزہ‘ کے بازار میں بھی جاتے تھے اور کبھی کبھی شمال کے بازاروں، مثلاً ’بصرہ‘ کے بازاروں میں بھی جایا کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ ہاشم، شام کے بازاروں میں داخل ہوتے تو ہر روز ایک جانور ذبح کر کے ہر قافلے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل عام لوگوں کی نگاہوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے والا تھا۔ آخرکار ان کے اس عمل کی خبر قیصر روم تک پہنچی اور اس نے ہاشم کو حاضرکرنے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ قیصر سے چند ملاقاتوں کے بعد، جن کے دوران قیصر ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا تھا، ہاشم نے بازنطینی حاکم کے سامنے تجویز پیش کی کہ وہ انھیں ایک خط لکھ کر دے، جو مکہ سے آنے والے تجارتی قافلوں کے لیے شام کے دروازے کھول دے اور شام کے جو علاقے بازنطینیوں کے ماتحت ہیں، ان سے مکی تاجروں کو آنے جانے کی سہولت بھی فراہم کر دے۔ اسی طرح ان پر جو ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس میں بھی رعایت دے اور بازنطینی لوگ بھی اپنے تجارتی سامان کے ساتھ عرب کے بازاروں میں اس ضمانت پر آنے جانے لگیں کہ ہاشم بن عبدمناف مکہ اور شام کے درمیانی راستوں کو ان بازنطینی تاجروں کے لیے مامون و محفوظ بنا دیں گے۔قیصر سے ہاشم بن عبدمناف کی گفتگو کے الفاظ یہ روایت ہوئے ہیں: ’’بادشاہ سلامت، میری قوم کے لوگ تجارت پیشہ ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ایک خط لکھ دیں، جو ان کی تجارت کو مامون بنا دے۔ اس کے بدلے میں وہ آپ کو حجاز کا بہترین چمڑا اور کپڑا پیش کریں اور آپ کے یہاں ا سے بیچا جائے۔ یہ آپ کے لیے بہت آسان ہوگا‘‘۔

’ایلاف‘ کا پہلا مرحلہ

ان روایات میں اختلاف سے قطع نظر کہ ہاشم نے براہِ راست قیصر سے ملاقات کی تھی یا اس کے کسی شامی گورنر سے؟ بہر حال، وہ یہ خط لے کر واپس آئے۔ یہ خط انھوں نے ان تمام قبائل کو دکھایا، جو شام اور مکہ کے درمیان تجارتی راستوں پر آباد تھے۔ انھوں نے ہر قبیلے کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ ’’شام کی طرف جانے والا [تجارتی] قافلہ ان کے زائد از ضرورت [سامانوں] کھجوروں اور کھالوں وغیرہ کو کوئی کرایہ لیے بغیر (شام کے بازاروں میں) لے جائے گا۔ اس سامان کو شام میں بیچے گا، پھر اصل سرمایے اور مکمل منافع کے ساتھ انھیں لوٹا دے گا۔ اس کے بدلے میں ان کے زیر اثر علاقوں سے گزرتے ہوئے ہر قبیلے کو [تجارتی] قافلے کی حمایت و خدمت کی ذمہ داری اپنے سر لینی ہوگی۔ اور اگر قبیلے کے پاس تجارت کرنے کے لیے کوئی سامان نہیں ہوگا، تو وہ قبیلہ مال کے بدلے اس قافلےکی حفاظت کرے گا۔‘‘

چنانچہ ہاشم کو اس معاہدے پر قبائلی سرداروں کی منظوری حاصل ہو گئی، جسے عربوں کی زبان میں ’حصل علی حبل منہم‘ کہا جاتا ہے۔ جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک معاہدہ قائم ہو چکا ہے۔یہیں سے مکہ کے اس دور کا آغاز ہوا جس میں وہ جزیرۂ عرب کے اندر شامی تجارت کا اہم مرکز بن گیا، بلکہ بازنطینی تاجر مکہ کی طرف جوق در جوق آنے لگے اور مکہ کے سردار کو یہاں کے بازاروں میں اپنی تجارت اور حمایت و خدمت کے حصول کے بدلے میں دسواں حصہ ٹیکس کے طور پر ادا کرنے لگے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بازنطینی اس معاہدے کو محض تجارتی فائدے کی نظر سے ہی نہیں دیکھتے تھے، بلکہ بازنطینی حکومت نے جزیرۂ عرب کے عین درمیان اپنی تجارت کے راستے کھولنے کو ان جاسوسوں کے لیے بھی استعمال کیا، جنھیں وہ ان علاقوں کی خبریں حکومت تک منتقل کرنے کے لیے بھیجا کرتی تھی۔اس طرح وہ خاص طور سے فارسیوں [ایرانیوں]کی جانب سے پیش آنے والی تشویش کن حرکتوں سے آگاہ رہتی تھی۔

’ایلاف‘ کا دوسرا مرحلہ

شہر ’غزہ‘ کی جانب اپنے ایک سفر کے د وران ہاشم کا انتقال ہو گیا تو ان کے بقیہ بھائیوں، بنو عبد مناف، یعنی عبد شمس، نوفل اور مُطَّلب نے ہاشم کے اس اہم منصو بے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس سلسلے میں عبدشمس نے حبشہ کا رخ کیا اور نجاشی سے ملاقات کرکے اس کے سامنے وہی پیش کش رکھی، جو ہاشم نے قیصرِ روم کے سامنے رکھی تھی۔ نتیجے کے طور پر انھیں بھی اسی طرح کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیابی مل گئی اور مکی تاجروں کے لیے بازارِ حبشہ کے دروازے کھل گئے۔ نوفل نے بلادفارس کا سفر کیا اور کسریٰ اور ملوکِ ’الحیرہ‘ سے اسی طرح کا معاہدہ کرکے عراقی بازاروں کے دروازے کھول دیے۔ رہے مُطّلب، تو وہ یمن کے قبائلی سرداروں کے درمیان سرگرم تھے، اور  اُن سرداروں نے مطلوبہ معاہدے پر اپنی رضامندی دے دی۔ مُطَّلب کے اس قدم میں یمن کے تغیرپذیر حالات کی مناسبت سے ان کے فہم و فراست کی جھلک نظر آتی تھی۔کیو ں کہ اس خطے میں مقامی سرداروں کے اثر ورسوخ کے مقابلےمیں مرکزی اقتدار ڈھل مل کی سی حالت میں تھا۔ ہربھائی نے جب پڑوسی ممالک کی حکومتوں سے معاہدہ کر لیا تو اس متعلقہ ملک اور مکہ کے درمیان پڑنے والے تجارتی راستوں پر قابض قبیلوں سے ملاقاتیں کرنے اور اسی طرح کا ’حبال‘ حاصل کرنے میں لگ گئے، جیسا اس سے پہلے ہاشم نے حاصل کیا تھا۔

یہیں سے قریش نے یہ رسوخ حاصل کرلیا تھا کہ تجارت کے لیے ان کے دو قافلے روانہ ہوتے تھے: ایک گرمیوں میں جس کا رخ شام کی طرف ہوتا تھا اور دوسرا سردیوں میں جس کا رخ یمن کی جانب ہوتا تھا۔اور انھی دو تجارتی اسفار کی طرف قرآنی آیت’رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ‘ میں اشارہ کیا گیاہے۔چنانچہ بیرونی اموال تجارت مکہ میں آکر جمع ہوتے تھے۔ پھر وہیں سے وہ موسم کے لحاظ سے جنوب یا شمال کی جانب لے جائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قریشیوں کے روایتی بازاروں مثلاً عکاظ میں بھی وہ سامان رکھا جاتا تھا۔ ایک تجارتی قافلہ ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ اونٹوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا، جو جزیرۂ عرب کے اندرونی سامان تجارت، مثلاً اون، کپڑے، اسلحے اور کھالیں یا باہر سے برآمد کیا ہوا سامان، مثلاً عطر، ہندستانی بخور، مصر کے بُنے ہوئے لائنن کے کپڑے اور شام کی شرابیں وغیرہ لے کر عراق، شام، یمن تک جایا کرتے تھے۔

’ایلاف‘ قریش کے نتائج

اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان تمام بھائیوں نے اپنی مذکورہ کوششیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ہی وقت میں انجام دی تھیں، یا ایک بھائی کی موت کے بعد دوسرے بھائی کو جب سرداری ملی تو اپنی سرداری کے زمانے میں ہر بھائی نے اپنے حصے کا کام انجام دیا تھا؟ بہرحال، اس نظامِ ایلاف نے جزیرۂ عرب میں تجارت کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا تھا۔ اس نظام نے یہ ضمانت فراہم کر دی تھی کہ جنگوں اور جھڑپوں کی وجہ سے سامانِ تجارت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا، کیو ں کہ مکہ باہم برسرپیکار تمام قوتوں کے درمیان مرکز (mediator) بن گیا تھا، جس کا کام سیاسی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر ایک کا مالِ تجارت، دوسرے تک پہنچانا تھا۔

اسی طرح تجارتی راستوں پر قابض قبائل نے بھی ’’اس ’رشتۂ معاہدہ‘ کی پاس داری کی، جس نے عبدمناف کو اپنے اندر پوشیدہ فائدوں سے مالا مال کیا، بلکہ اس کے پھیلائو اور سرمایے میں بھی اضافہ کیا، جس کی وجہ سے قافلوں میں شراکت سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی اضافہ ہوا۔

اس کےعلاوہ جزیرۂ عرب میں یمنی، فارسی اور بازنطینی تجارت کی وجہ سے ان کی کرنسیاں رائج ہوگئیں، جس سے زرِمبادلہ کی سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں۔ اس طرح اہل مکہ زرمبادلہ کے کاموں سے واقف ہوئے اور اس سے کافی کچھ سیکھا۔ اس چیز نے جزیرۂ عرب کے باہر سے آنے والے اموال تجارت کو یہاں کے بازاروں کے اندر رائج کرنے میں آسانی پیدا کر دی۔ چنانچہ مصر کے اموال تجارت، شام کے راستے سے آنے لگے، حبشہ کے اموال تجارت بحراحمر کے راستے سے آنے لگے، اور ہندستان سے آنے جانے والا مالِ تجارت یمن کے راستے سے پہنچنے لگا۔ اس طرح بحر احمر کی بندرگاہوں، مثلاً ینبع اور جدہ کی بندرگاہوں پر بھی تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

بیرونی تجارت میں شرکت کے سلسلے میں اہل مکہ کی دلچسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ بیرونی تجارت میں ان کی شرکت، مکہ کے اہل ثروت لوگوں تک ہی محدود نہیں رہی تھی، بلکہ وہ چھوٹے گروہ بھی اپنی جمع پونجی کے ساتھ، یا سود پر قرض لے کر اس میں حصہ لے رہے تھے، جو دولت مندی کے اعتبار سے بہت کم تر تھے۔ اس طرح یہ چیز سودخوروں کے منافع میں بھی اضافے کا سبب بن رہی تھی۔ بعض قبائل نظامِ ایلاف میں داخل ہونے کے لیے زور لگانے لگے، خواہ وہ ان راستوں پر  آباد نہ رہے ہوں جو تجارت کے عام راستے تھے۔ اس کا محرک منافع حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ’ایلافی‘ خطوں سے اپنے قافلوں کے گزرنے کی صورت میں ان کی حمایت و حفاظت سے استفادہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے تجارت کے نئے راستے اور نئے بازاروں کے دروازے کھلے۔ ان حالات میں قریشیوں کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھا کہ قافلے کے آگے چلنے والے کسی مسافر کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہوتا تھا کہ اس کا تعلق ’اہل حرم‘ سے ہے یا راستے میں کسی بھی قسم کی پریشانیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے یہ کافی ہوتا تھا کہ وہ اپنی گردن میں ایک قلادہ ڈال لے جس پر شہر حرم (مکہ) کے کسی درخت کا ٹکڑا لگا ہوا ہو۔

نظامِ ایلاف کے وسیلے نے قبیلوں اور خاندانوں کے درمیان باہمی تعامل اور بعض مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دوسرے جزوی معاہدوں کی راہ آسان کر دی تھی۔ عرب کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ ’ایلاف‘ کا نظام ایک وسیع اُبھار کا سرچشمہ تھا، کیوں کہ اس کا آغاز فریقین کے درمیان ایک ایسے منصوبے کے طور پر ہوا تھا، جس کا ہدف ایک واحد ملک کے اندر، ایک واحد قبیلے کی خدمت تھا۔ پھر اس منصوبے نے ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک اور ایک عظیم انسانی سرگرمی کی شکل اختیار کرلی، جس کا عمل دخل اقتصادیات، سیاسیا ت اور سماجی و ثقافتی زندگی میں بہت گہرا ہو گیا تھا۔ چنانچہ نظامِ ایلاف سے پہلے عرب زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ اور بعد کے حالات زندگی سے اس کا موازنہ ہمیں اس موقف تک پہنچا دیتا ہے کہ اس نظام کے اثرات بہت عظیم تھے، جنھیں ہم اس زمانے کے لحاظ سے اختراعی اور ایسا نظام کہہ سکتے ہیں جس نے مکہ کی ثقافت و تہذیب کو پورے علاقے تک پھیلا دیا تھا۔(انٹرنیٹ ویب: رصیف:۲۲)

غیرت یا عزت کے نام پر ہونے والا قتل کسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کا قتل ہوتا ہے، جو عموماً اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ ایسا قتل کرنے والے فرد یا افراد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ مقتول کی کوئی حرکت، خاندان کی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنی، یا اس نے خاندانی روایات سے بغاوت کی ہے۔ اس قتل کی عام طور پر جو وجوہ بتائی جاتی ہیں، ان میں طلاق، علیحدگی، جبری شادی سے انکار، خاندان سے باہر شادی کی خواہش، ناجائز جنسی تعلقات، ہم جنسیت، عصمت دری یا جنسی حملے کا نشانہ بننا وغیرہ شامل ہیں۔

مرد اور عورت دونوں ہی غیر ت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرتے ہیں اوراس کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ جب اس جرم کا ارتکاب کوئی عورت کرتی ہے اور شکار مرد ہوتا ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی، لیکن جب کسی مرد مجرم کے ہاتھوں کوئی عورت متاثر ہوتی ہے تو فیمنسٹ تنظیموں کی طرف سےالزام لگایا جاتا ہے کہ ’’یہ صنفی امتیاز کا نتیجہ ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ سب مرد ظالم ہوتے ہیں اور نہ سب عورتیں مظلوم۔ کچھ شقی القلب افرد ان مسائل کا سبب بنتے ہیں اور وہ دونوں اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مردوں میں ایسے افراد کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے افراد عورتوں میں پائے ہی نہیں جاتے۔مثلاً ۲۰۱۱ء میں کراچی میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کی لاش کے سیکڑوں ٹکڑے کرکے سالن میں پکا کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی۔ ۲۰۱۸ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون نے اپنے بوائے فرینڈ کو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے ایک عرب پکوان میں پکا کر گھر کے قریب ورکرز کو کھلا یا۔ اسی طرح ۲۱ نومبر ۲۰۲۱ء کو بہاولنگر میں بیوی نے اپنے شوہر کو قتل کرکے لاش چھت پر لٹکا دی۔ ۲۲نومبر ۲۰۲۱ءکو جے پور، راجستھان میں ایک گرل فرینڈ نےلڑکے کو نشہ آور کھانا کھلایا اور اس کے بے ہوش ہونے کے بعد چھری سے اس کے اعضاء کاٹ ڈالے۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۲۱ء کو کراچی صدر میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے دوران اس کے سر پر لوہے کا راڈ مار کر زخمی کیا، پھر اس کے ہاتھ کاٹ کر کھڑکی سے باہر روڈ پر پھینک دیئے۔ پھر اس نے خاوندکو قتل کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے مختلف کمروں میں چھپادئے۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات بھی وقتاً فوقتاً اخبارات میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

غیرت کے نام پر صرف پاکستان یا مسلم دنیا ہی میں قتل نہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (UNPF:  ۱۹۶۹ء) کے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کم ازکم ۵ہزار خواتین سالانہ غیر ت و ناموس کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ، افریقہ یا جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں بنگلہ دیش، برطانیہ، برازیل، ایکواڈور، مصر، بھارت، اسرائیل، اٹلی، اردن، پاکستان، مراکش، سویڈن، ترکی، یوگنڈا، ایران، عراق، شام، کویت، لبنان، فلسطین، یمن، افغانستان، یورپ کے کئی ممالک مثلاً البانیا، بلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، ناروے، سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا میں تقریبا ً پچاس سے زائد ممالک میں ہوتی ہیں۔

کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا جیسے ممالک بھی ان وارداتوں سے محفوظ نہیں، لیکن ان ممالک میں غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کا صحیح ریکارڈ بتانا آسان نہیں کیونکہ وہاں عام قتل اور غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل میں واضح تمیز نہیں کی جاتی، اور عام طور پر حکام اس کا الگ ریکارڈ نہیں رکھتے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مجموعی اعداد و شمار سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ وہاں ہرسیکنڈ میں ایک عورت کو پیٹا جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی سرجن جنرل نے ۱۵ سے ۴۴ سال کی خواتین کی جسمانی چوٹوں کی بڑی وجہ ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز کی طرف سے مارپیٹ کو قرار دیا۔ اسی طرح امریکا میں بے گھر بچوں اور خواتین میں سے ۵۰ فی صد گھریلو تشدد کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ سٹی یونی ورسٹی، نیویارک کے کالج آف کریمنل جسٹس کے پروفیسر رک کرٹس کی ایک تحقیق کے مطابق: ’’امریکا میں ہر سال ۲۳ سے ۲۷ خواتین کا قتل غیر ت کے نام پر ہوتا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ جہیز کے نام پر بھی قتل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر وینڈی براؤن کا کہنا ہے کہ ’’لاطینی امریکا میں اسی جرم کو Crime of Passion (جذباتی جرم)کہا جاتا ہے جس کے وہی محرکات ہوتے ہیں جو بھارت میں جہیز کے محرکات ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ہندستان میں وقوع پذیر ہونے والے اس نوعیت کے واقعات میں گذشتہ برسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وہاں ان جرائم کی تعداد ۴ہزار۸سو۳۴ تھی، جب کہ ۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۸ہزار۳ سو ۸۳  ہو گئی۔ حکومتِ ہند نے جہیز کےلین دین پر پابندی لگا دی اور قاتلوں کو مجرم قرار دیا جانے لگا مگر ان اقدامات کے باوجود ان جرائم کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔

  • قتل غیرت کا تاریخی پس منظر:غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تاریخ کوئی چند سو سالہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ قدیم رومن زمانے سے ہی غیر ت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کا نام جاناجاتا ہے۔ رومن سلطنت میں رومن قانون جسے آگست سیزر کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا، کے تحت ’’گھر کے سربراہ کو اپنی زناکار بیوی، اس کے آشنا، ناجائز جنسی تعلقات رکھنے والی غیر شادی شدہ بیٹی اور اس کے عاشق کو قتل کرنے کا حق تھا‘‘۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں بھی یہ قانون، رومن قانون کاہی تسلسل تھا۔

عزّت، ناموس، غیرت اور شرمندگی کے تصورات اور انھیں تشدد اور قتل کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان محض کسی ایک ثقافت یا کلچر سے نسبت نہیں رکھتا بلکہ دنیا کی تقریباً تمام ثقافتوں میں یہ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح کے واقعات کےثبوت نہ صرف اقوام عالم کی تاریخ بلکہ لٹریچر سے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ میں، زنا کے الزام میں، ہنری ہشتم کی پانچویں بیوی کا سرقلم کر دیا گیا تھا۔ تمام بادشاہوں اور سورمائوں کے اعزازات کی بنیاد بھی عزت، ناموس اور غیرت ہی ہوتی تھی۔ شیکسپیئر کے کردار ڈیسڈمونا کو بے وفائی کے الزامات کے تحت ہلاک کیا گیا تھا۔ رومیو اور جولیٹ نے ایک قدیم خاندانی جھگڑے کو غیر ت کے نام پر تلاش کیا تھا۔

لاطینی امریکی معاشروں میں بھی اسی طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ پیرو کے ابتدائی ادوار میں، ان کے قانون کے تحت شوہروں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو زنا کے ارتکاب کی سزا کے طور پر اس وقت تک بھوکا رکھیں، جب تک ان کی جان نہ نکل جائے۔ میکسیکو میں اسی جرم کی سزا کے طور پر عورتوں کا گلا دبا کر انھیں مارا جاتا تھا۔ غیرت کے اسی تصور پر کئی جنگوں میں سب سے مشہور ’ٹروجن جنگ‘ ہے، جس کے آغاز کی وجہ ہیلن کی ناموس تھی۔

  • قانون سازی:اسی طرح ’نپولین کوڈ‘ کے مطابق خواتین کو بے وفا شوہر کے قتل کی اجازت نہیں تھی لیکن شوہروں کو اجازت تھی کہ وہ بے وفا بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک جو فرانس کے زیر اثر رہے۔ انھوں نے ۱۸۱۰ء کے پینل کوڈ آرٹیکل ۳۲۴ کو منظور کیا جو نپولین نے منظور کیا تھا۔ نپولین کے قانون کے زیراثر اردن کا آرٹیکل ۳۴۰ پاس ہوا، جس میں شوہروں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ناجائز جنسی عمل میں ملوث بیوی اور اس کے آشنا کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیں توقتل کر سکتے ہیں۔ فرانس کے ۱۸۱۰ء کے تعزیراتی ضابطہ ۳۲۴ سے ہی متاثر ہو کر ۱۸۵۸ء میں عثمانی تعزیرات کا آرٹیکل ۱۸۸ بنا، اور دیگر عرب ممالک مثلاً الجزائر، مصر، عراق، اُردن، کویت، شام، تیونس اور لبنان میں بھی اسی آرٹیکل سے متاثر قوانین بنائے گئے۔

اسی طرح کی صورت حال پاکستان کے تعزیراتی ضابطے میں بھی پائی جاتی ہے، جو نوآبادیاتی ہندستان پربرطانیہ کی حکمرانی کے لیے برطانیہ سے درآمد کردہ ضابطہ ۱۸۶۰ء کے چربے پر مبنی ہے۔ اور اس قانون کے تحت ’’اگر کوئی شخص شدید اور اچانک اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے تو اسے نرم سزا دی جائے گی‘‘۔

ان کے برعکس پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۰ء میں اس قانون میں اصلاح کرنے کے لیے کہا کہ ’’اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اشتعال انگیزی، خواہ وہ کتنی ہی سنگین اور اچانک کیوں نہ ہو وہ قتل کے جرم کی شدت کو کم نہیں کر سکتی اور نہ نرمی کا جواز بن سکتی ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود انگریز قانون سے متاثر بہت سے جج آج بھی غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں قاتل کو نرم سزا سناتے ہوئے مذکورہ برطانوی قانون کا حوالہ دیتے اور اسے جائز قرار دیتے ہیں۔

 ۱۹۴۸ء میں نائیجیریا میں برطانوی راج کے دوران، شرعی عدالت میں ایک مقدمہ لایا گیا، جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے آشنا کو قتل کر دیا تھا۔ شرعی عدالت نے مجرم کو سزائے موت سنا دی، مگر آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ برطانوی عدالت عظمیٰ نے شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو نامنظور قرار دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ یہ ’’جرم برائے محبت‘‘ ہے، لہٰذا مجرم کو سزائے موت نہ دی جائے۔ یعنی شرعی عدالت اس ’جرم برائے محبت‘ سے بالکل متاثر نہ ہوئی، البتہ برطانوی عدالت عظمیٰ اس سے ضرور متاثر ہوئی چنانچہ شرعی عدالت کی تجویز کردہ سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جاسکا۔

یورپ و امریکا کے سیاسی و مالیاتی اداروں کے دبائو اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے زیراثر حکومت پاکستان نے غیر ت کے نام پرقتل کے جرائم پر پہلے سے موجود قوانین میں کئی تبدیلیاں کیں۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۴ء کو پاکستان نے ایک ایسا قانون نافذ کیا، جس کے تحت غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل کے سلسلے میں سات سال قید کی سزا اور انتہائی مقدمات میں سزائے موت کی سزا دی گئی۔ حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اس سے خوش نہیں تھیں،کیونکہ اس قانون کے تحت اس بات کی اجازت تھی کہ مقتول کے ورثا قاتل سے صلح کرلیں، اور معاوضہ (خون بہا) لے کر معاف کردیں۔ چونکہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کا مجرم اور مقتول عموماً ایک خاندان کے اندر ہی ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ تر معاملات میں صلح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۶ء میں ’پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ میں فوجداری ترمیم کی گئی، اور صلح کے اصول کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا۔

اس قانون میں عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اغوا کرنے یا شادی کے لیے آمادہ کرنے کی صورت میں عمر قید اور جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی۔ اسی قانون میں تیسری ترمیم ۲۰۱۱ء میں کی گئی، جس میں عورت کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنے کے حوالے سے مزید سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ خواتین کے تحفظ کے نام پر ’پنجاب پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ ۲۰۱۶ء‘ منظور کیا گیا جس میں خواتین کو تشدد کے خلاف تحفظ، وکالت کے اخراجات، امداد اور بحالی کا مؤثر نظام (یعنی میکے کا متبادل حکومتی نظام ) قائم کیا گیا۔ غیر ت کے نام پر جرائم سے متعلق ترمیمی ایکٹ ۲۰۱۶ء منظور کرتے ہوئے اس جرم کو اسٹیٹ کے خلاف جرم قرار دیا،اور فریقین کے درمیان معاوضہ دے کر صلح کرنے کا قصہ ہی ختم کر دیا اور اس قانون کو اسلامی قانون قصاص و دیت کی عملداری سے بالکل باہر کر دیا گیا، لیکن حقوق نسواں کے ادارے اور فیمنسٹ تنظیمیں اس پر بھی مطمئن نہ ہوسکیں۔

ان تنظیموں کے نزدیک قانونی اصلاحات تو ہو گئی ہیں، لیکن عوام اس جرم کے خلاف نفرت اور مذمت کااظہار نہیں کرتے۔ جب تک عوام ان جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لہٰذا، اس مسئلے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ان تنظیموں نے مہمات شروع کر دیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے میڈیا پر بڑے منظم انداز سے ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھائی جا رہی ہیں، جن کا موضوع صرف عشق و محبت، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، محرمات کے ساتھ جنسی تعلقات، جذباتی، ہیجانی اور جنسی ارتکاز ہیں۔ تعلیمی اداروں کا آزاد ماحول اس عمل کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔

عدالتیں اور قانون ساز ادارے بھی اس ایجنڈے سے متاثر نظر آتےہیں۔ ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ افراد خانہ کی طرف سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے معمولی رکاوٹ و مزاحمت کا امکان بھی باقی نہ رہے۔ اور اگر کسی غیر اخلاقی حرکت پر کوئی بزرگ سرزنش کی بھی جرأت کر بیٹھے تو وہ المناک سزائوں کا مستحق قرار پائے۔ یعنی قانون کی نظر میں بے راہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان پر معمولی روک ٹوک کرنے والوں پر عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کڑی گرفت ہو۔ زنا کا مقدمہ اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اب یہ ایس پی اورعدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر درج ہی نہیں ہوپاتا، لیکن اس کے مقابلے میں بچیوں پراہل خانہ کی طرف سے معمولی مزاحمت یا روک ٹوک کا مقدمہ فوراً درج ہو جاتا ہے۔

  • حقوقِ نسواں تنظیموں کی منافقت:یورپ اور امریکا میں یہ سب تجربات کیے جا چکے ہیں، مردوں کی اکثریت کو ’فیمنائزڈ مین‘ [نسوانیت زدہ مرد]بنایا جا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود جنسی جرائم میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ وہاں ان جرائم کو غیرت کے نام پر جرم کی بجائے گھریلو تشدد اور جنسی پارٹنر کے ساتھ جرائم کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے باربراکے (Barbara Kay) اپنے مضمون ’’غیرت کے نام پر قتل اور فیمنزم کی منافقت‘‘ میں لکھتی ہیں:

'پہلے فیمنسٹ تحریک کے ایکٹوسٹ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ غیرت کے نام پر قتل، رشتہ داروں کی طرف سے تشدد اور جنسی پارٹنرکے ساتھ جرائم ایک ہی نوعیت کے جرائم ہیں، لیکن اب جنسی تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد حقوقِ نسواں کے فعال علَم برداروں نے اپنے سابقہ موقف پر بالکل منافقانہ خاموشی اختیارکر لی۔ اب وہ اس جرم کو غیرت کے نام پر ہونے والا جرم نہیں کہتے۔ وہ معصوم خواتین جنھوں نے حقوقِ نسواں تحریک کے لیے جدوجہد کی اوراس ثقافت کواپنانے میں اپنا خاندان اورسب کچھ دائو پر لگایا، انھیں بالکل اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان خواتین کو اب نہ صرف جان کا خطرہ ہے بلکہ وہ ہر روزجنسی تشدد کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ (دی نیشنل پوسٹ، ۲۹؍اگست ۲۰۲۱ء)

 باربرا کے نے جس منافقت کا ذکر یورپ اور امریکا کی حقوقِ نسواں تنظیموں کے حوالے سے کیا ہے، اس سے زیادہ گھمبیر صورتِ حال پاکستان میں ہے۔ یہاں کی حقوقِ نسواں لیڈران، بیورو کریسی اورکچھ ممبران پارلیمنٹ، روشن خیالی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور آئے روز نئے قوانین بنا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ انھوں نے آقائوں کے ایجنڈے پر کام مکمل کر لیا۔ یہ قانون سازی اسلام، نظریۂ پاکستان، آئین اور قومی ضروریات و تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتی، بلکہ عجلت میں تیار کیے گئے پلندے امریکی قوانین کےچربے ہوتے ہیں۔ ان قوانین میں جس ’سماجی انقلاب اور تبدیلی‘ کی نوید سنائی جاتی ہے عملی طور پر وہ پاکستانی معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتی۔

پاکستانی معاشرہ علاقائی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ مجموعی طورپر اسلامی روایات سے بھی نسبت رکھتا ہے۔ یہاں رہنے والے غیر مسلم بھی روایتی معاشرتی اقدار کے حامی ہیں۔ حقوق نسواں تنظیموں کے پُرکشش نعروں سے متاثر ہونے والی بے خبر ماڈرن خواتین روایات سے بغاوت کرکےاپنے لئے کئی مشکلات پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ جب بھی کوئی انتہائی قدم اٹھاتی ہیں تو ان کے خاندان کے لوگ روایتی معاشرتی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ دوسری طرف فیمنسٹ لیڈر بھی اس وقت تک ان کی مدد نہیں کرتے جب تک ان کے نام پر کچھ فنڈز ملنے کی توقع نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں وہ بیچاری خواتین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شیلٹر ہومز کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ پرورش کرنے والے والدین اور خاندان کے جان نچھاور کرنے والے پیاروں کو چھوڑ کر، اپنے آپ کو پولیس کے کرپٹ افراد اورمافیا کے حوالے کرنا کس قدر نادانی ہے!

حقوقِ نسواں کی لیڈران کے جھانسے میں آنے والی یہ نادان خواتین سمجھتی ہیں کہ وومن ایمپاورمنٹ  یا ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین، قوانین نافذ کرنے والے ادارے اورفیمنسٹ تنظیمیں ان کی آزادی کے محافظ ہیں۔ یہ ادارے شایدانھیں سابقہ خاوندوں اور خاندان کے بزرگوں کی کارروائی سے تو بچا لیتے ہیں، لیکن ان اہلکاروں کی طرف سے ہونے والے بے رحمانہ سلوک سےانھیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ پولیس افسران کی سفاکی اور فیمنسٹ لیڈران کی بے حسی دیکھ کر انھیں اپنے رشتہ داروں کی یاد بری طرح ستانے لگتی ہے۔ ان خواتین کے دردبھرے خطوط اور ای میلز جب اداروں تک پہنچتے ہیں تو پاکستانی فیمنسٹ تنظیموں سے جواب طلبی ہوتی ہے۔ یہ جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے حکم کے مطابق قوانین بنوا دیئے گئے ہیں، ا ن پر عمل درآمد کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں لیکن عوام ان پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ اس پر حکم آتا ہے کہ ’کچھ اور کرو‘۔ چنانچہ کچھ نئے قوانین بنائے جاتے ہیں، فنڈز کی بندربانٹ ہوتی ہےاور یہ سلسلہ جاری ہے۔

 اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے:پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کو نہ روک سکنے کی سب سےبڑی وجہ پاکستان کا بدعنوان سیاسی نظام ہے۔ سیاسی، انتظامی، تحقیقاتی اور عدالتی ادارے اس حوالے سے ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے اور مجرموں کو سزائیں دلانے کے سلسلے میں بُری طرح ناکام ہیں اور موجودہ سیاسی، انتظامی اور عدالتی نظام کی ناکامی کی وجہ سے ایک بحران کی کیفیت ہے، جس میں شہری مجبور ہو کر روایتی قبائلی نظام، جرگہ اور دوسرے متبادل ماڈلز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 جو سادہ لوح خواتین این جی اوز کو خواتین کے حقوق کی ضامن سجھتی ہیں وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سول سوسائٹی، کرپٹ حکومتی عہدے داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز (حصے دار)کے بدعنوان عناصر پرمشتمل بدعنوانی کی ایک مثلث بن چکی ہے، جو ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین کے حقوق‘ کے نام پر ایک معاشرتی دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے۔ این جی اوز فنڈز کے استعمال کی اصل معلومات ظاہر نہیں کرتیں اور جو معلومات ان کی ویب سائٹس پر جاری کی جاتی ہیں وہ گمراہ کن ہوتی ہیں۔ ان اُمور سے متعلقہ پاکستانی حکام جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس طرح ملی بھگت سے یہ عطیات دینے والوں کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

پیشہ ورانہ مالی شماریاتی خدمات سے منسوب عالمی تنظیم KPMG انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق این جی اوز کی دھوکا دہی سے متعلق ۷۷ فی صد تحقیقات کبھی عوامی سطح پر نہیں پہنچتیں اور ۵۴ فی صد تحقیقات کے بارے میں تو داخلی طور پر بھی اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔

حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے وسیع لٹریچر اور بیانات کے تناظر میں عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب صرف روایتی مذہبی رجحانات رکھنے والے غیر تعلیم یافتہ لوگ ہی کرتے ہیں، لیکن جولائی ۲۰۰۸ء میں ترکی کے کرد علاقہ، اناطولیہ میں غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ڈیکل یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس جرم کا تعلق صرف جاگیردارانہ معاشرتی ڈھانچے سے نہیں بلکہ اس میں ایسے مجرم بھی ہیں جو بہت پڑھے لکھے اور یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور ان میں سے ۶۰ فی صد وہ لوگ ہیں جنھوں نے کم ازکم ہائی اسکول یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔

  • اسلام کا  نقطۂ نظر:حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور روایتی تہذیب نہ غیرت کے نام پر قتل کی وجہ ہیں اور نہ اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات سے ناآشنائی اور عورتوں پر تشدد کی اصل وجہ کو نہ جاننا بہت سے سنگین نتائج کو جنم دیتا ہے۔ اوّل یہ کہ اسلام کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھیرانا مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر مشتعل کرنا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں اس پروپیگنڈا کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کےجھنڈے تلے مغربی ثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے۔

حقوقِ نسواں کی تنظیمیں عام طور پر الزام لگاتی ہیں کہ مسلم ممالک میں ہونے والے یہ واقعات وہاں کے نرم قوانین کی وجہ سے ہیں۔ خاص طور پر مراکش، کویت، لبنان، شام، یمن، عمان اور  متحدہ عرب امارات کے قوانین اس حوالے سے بہت نرم ہیں اور وہ مجرم کو معمولی سزا یا جرمانہ وغیرہ تک ہی محدود ہیں، لیکن ان قوانین کی وجہ سے مسلمانوں یا اسلام کو مورد الزام ٹھیرانا قطعی طور پر درست نہیں کیونکہ ان علاقوں میں جابرانہ حکومتیں بھی استعمار کی طرف سے مسلط کی گئی ہیں اور قوانین بھی استعمار کے ہی دیئے ہوئے ’تحفے‘ ہیں اور ان قوانین کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں اسلامی شرعی قانون کا موقف بہت واضح ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے:’’اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اوراس کے آشنا کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر قتل کیا تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے‘‘۔ اس اصول کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر قائم ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ وہ شخص اپنی بیوی کو قتل نہیں کر سکتا اور مزید یہ کہ کسی کو بھی اس وقت تک قابل سزا نہیں ٹھیرایا جاسکتا جب تک چار گواہ نہ پیش کیے جائیں جنھوں نے اس گھنائونے فعل کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھا ہو۔

قرآن مجید ان افراد کے لیے بھی ایک عملی طریقہ پیش کرتا ہے، جن کو اپنے شوہر یا بیوی پر بے وفائی کا شک ہوتا ہے یا پھر وہ ان کو رنگے ہاتھوں دھوکا دیتے ہوئے پکڑ لیتے ہیں، مگر کوئی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کا بتایا ہوا طریقہ یہ ہے کہ ایسا جوڑا جج کے سامنے پیش ہو۔ الزام لگانے والا پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اس نے جو الزام لگایا ہے وہ درست ہے۔ اگر ملزم میاں یا بیوی بھی پانچ دفعہ اللہ کی قسم کھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلا دے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور کوئی فرد بھی قابل سزا نہیں ٹھیرایا جائے گا۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے قدیم وجدید علما کا ان تعلیمات کی تعبیر و تشریح پر کوئی اختلاف نہیں۔

انیسویں صدی کے مشہور یمنی فقیہہ امام شوکانی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ’’جو مرد عورتوں پر غیرت کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ سزائے موت کے مستحق ہیں‘‘ اور وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس قتل کے بدلے میں ملنے والی سزائوں میں سختی نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی زندگی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے‘‘۔ تمام بڑے علما خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبۂ فکر سے ہو، اسی موقف کے قائل ہیں۔

قابلیت کا تعلق انسان کی وراثت اور پیدایش سے ہے، یعنی یہ ’ودیعتی‘ ہے، جب کہ مہارت کا تعلق انسان کے سیکھنے سے ہے،یہ ’کسبی ‘ہے۔ ہماری زبان میں ’قابلیت‘ اور ’مہارت‘ اس قدر گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ دونوں کے لیے ’صلاحیت‘ کا لفظ استعمال ہوجاتا ہے۔خلاصہ یہ ہے:

  • صلاحیتیں فطری ہوتی ہیں، جب کہ مہارتیں سیکھی جاتی ہیں یا حاصل کی جاتی ہیں۔
  • ’قابلیت‘ کو کچھ کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ،جب کہ ’مہارت‘ کو کچھ اچھی طرح سے کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

ترقی کس چیز کا نام ہـے ؟

ترقی، اپنے نصب العین کی جانب مقاصد کے حصول میں پیش رفت کا نام ہے۔ اس میں عقل، فہم اور مسلسل کوشش شامل ہوتی ہے۔ دین نے کوشش کی ترغیب دی ہے۔ اس محنت اور کوشش میں رفتار کے جائزے کا نام ’احتساب‘ ہے۔ کامیابی کے لیے حکمت عملی، منصوبہ بندی، محنت اور جائزے کے ساتھ دعا اور استعانت ِخداوندی بھی شامل ہے۔

فریضہ اقامت دین کے لیے ، ہمارے دین نے جو تعلیم اور ترغیب دی ہے، اس میں ان صلاحیتوں ، قابلیتوں اور مہارتوں کی بڑی اہمیت ہے۔انسان اگر قابل ہوں اور انھوں نے دورِ حاضر میں جینے اور ترقی کرنے اور اقامت دین کا کام کرنے کی مہارتیں حاصل کرلی ہوں، تو وہ ان مشترکہ عناصر کے ساتھ دین کے لیے مفید فرد ثابت ہوسکتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ سونے، چاندی کی کانوں کی طرح مختلف کانیں ہیں۔ { FR 896 } جو کفر میں اعلیٰ تھے وہ اسلام میں بھی اعلیٰ ہیں، جب کہ عالم بن جائیں۔(مسلم)

عمومی طور پر قابلیتوں اور مہارتوں کو تین بڑی اقسام میں تقسیم کرکے ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:

  • ذاتی نوعیت
  • افراد کے ساتھ معاملات
  • فکری اور تصوراتی

ہم نے اس انداز کی تقسیم سے قطع نظر، اہمیت اور ضرورت کےحوالے سے ان صلاحیتوں کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔

 گفتگو، رابطہ، اظہار خیال یا مواصلات

  • اپنی بات دلائل اور اعتماد کے ساتھ ،ناخوشگوار ماحول پیدا کیے بغیر پیش کرنا۔
  • لوگوں کو سلام کرنا اور اپنی بات اچھے انداز سے پیش کرنا۔
  • مصنوعات یا خدمات کو اچھے انداز سے ایمانداری کے ساتھ پیش کرنا۔
  • موبائل فون، اور سوشل میڈیا پر شائستگی کے ساتھ بات کرنا۔
  • دوسروں کے خیالات کو جاننا ،سمجھنا اور معلومات کی جانچ کرنا۔
  • زبان کے استعمال میں مہارت کا مظاہرہ کرنا، منطقی انداز اور دل نشین طریقے سے بات پیش کرنا۔
  • تحریری شکل میں خیالات کا اظہار، ترمیم، نظر ثانی، مختصر تیاری اور مؤثر تحریری مواد تیار کرنا۔
  • رسمی اور بے ساختہ گفتگو دونوں کے لیے مؤثر طریقے سے خیالات کو منظم اور پیش کرنا۔
  • تقریر کرنا، گروپ میں گفتگو کرنا اور آن لائن میٹنگز میں شرکت کا فن آنا۔

باہمی معاملات

  • ساتھیوں، اعلیٰ افسران اور معاونین کے ساتھ مؤثر طریقے سے بات چیت کرنا۔
  • دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، احترام کرنا، خیال رکھنا مگر کام کو متاثر نہ کرنا۔
  • مختلف ماحول اور حالات میں سماجی روایات کا احترام کرتے ہوے مؤثر اور متوازن رہنا۔
  • گروپ کے تعاون اور باہمی تعاون کو برقرار رکھنا، اور کیے گئے وعدوں کو نبھانا۔

ٹیم ورک کی مہارتیں

  • مختلف عمروں، جنس، نسل، مذہب یا سیاسی فکر کے لوگوں کے ساتھ مؤثر طریقے سے کام کرنا۔
  • ٹیم کے ارکان کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرنا، اپنی کمزوریوں اور حدود کو پہچاننا۔
  • ٹیم کا کردار واضح کرنا اور متفقہ کاموں کو انجام دینا۔
  • مناسب قیادت کا مظاہرہ کرنا،دوسروں کی کوچنگ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا۔
  • تعمیری آراء دینا اور لینا، اور اختلاف رائے کو حل کرنا۔

موافقت اور ہم آہنگی پروان چڑھانا

  • اکیلے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیم میں بھی کام کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔
  • ایک ہی وقت میں کئی کاموں یا منصوبوں پر کام کرنا اور کنٹرول کرنا۔
  • اختراعی صلاحیت بڑھانا (مختلف طریقوں کی نشاندہی کرنا اور تجویز کرنا)، مشکلات کا حل نکالنے کی صلاحیت ہونا۔
  • تبدیلی کو قبول کرنا اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا۔
  • رائے قبول کرنا اور اپنی غلطیوں سے سیکھنا ، اور غیر یقینی صورتِ حال کا مقابلہ کرنا۔

مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت

  • حقائق کا تجزیہ کرنا، مفروضوں کی جانچ کرنا، اور معاون عوامل کو پہچاننا۔
  • تخلیقی، اختراعی اور عملی حل تیار کرنا۔
  • مسائل کی نشاندہی اور حل کرنے میں پہل دکھانا اور اس کے لیے مختلف حکمت عملیوں کا اطلاق کرنا۔
  • اختیارات کی حدود کو متعین کرنا اور ان کا جائزہ لینا۔
  • مسائل کو حل کرنے کے لیے بجٹ اور مالیاتی انتظام کرنا،اور نتائج کا اندازہ لگانا۔

منصوبہ بندی اور تنظیم سازی کی مہارت

  • واضح اور قابل حصول پروجیکٹ کے اہداف متعین اور عمل درآمد کا نظام بنانا۔
  • ہنگامی منصوبہ بندی،وقت اور ترجیحات کا انتظام، سنگ میل طے کرنا۔
  • کام تفویض کرنا، رابطہ کاری کرنا، نگرانی کرنا۔
  • نظم و نسق، تربیت، ترقی، حوصلہ افزائی، رائے دینا، نگرانی کرنا، غلطیوں کی نشاندہی اور رہنمائی۔
  • معلومات جمع کرنا، تجزیہ کرنا، منظم کرنا،وسائل سے بھرپور ہونا، پہل کرنا اور فیصلے کرنا۔

تنظیمی صلاحیت

  • مکمل کیے جانے والے کاموں کی نشاندہی کرنا۔
  • عناصر کو منظم، فعال، اور مکمل طور پر ایک ساتھ لے کر چلنا۔
  • ذہن سازی کی سرگرمیوں کو آسان بنانا۔
  • دوسروں کے کام پر تعمیری رائے دینا، ایمان دارانہ اور مثبت انداز سے فیڈ بیک دینا۔
  • کاموں کی ترتیب بنانا، انھیں ترجیح دینا اور اہم اور ضروری کاموں کو اوّلیت دینا۔
  • واقعات اور خیالات کے باہمی تعلقات کا کئی زاویوں سے تجزیہ کرنا۔
  • کسی فرد کی موزونیت کا اندازہ لگانے کے لیے معقول معیارات کی نشاندہی کرنا۔
  • عام اصولوں کی نشاندہی کرنا جو باہم مربوط واقعات کی وضاحت کرتے ہوں۔
  • حکمت عملی اور ایکشن پلان کی سمجھ اور ان پر مناسب معیارات کا اطلاق کرنا۔

قیادت

  • دوسروں کو مشترکہ وژن اور مقصد سمجھانا اور اس کی تکمیل کی طرف ترغیب دینا۔
  • ٹیم کے ہر رکن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سمجھنا اور کام کرنا۔
  • ٹیم کے وسائل کو جاننا، استعمال کرنا، اور مناسب طریقے سے مختص کرنا۔
  • ٹیم کی سرگرمیوں کی مؤثر طریقے سے منصوبہ بندی کرنا۔
  • ٹیم کے تنازعات سے جلد، منصفانہ اور مؤثر طریقے سے نمٹنا۔
  • فرائض اور ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے تفویض کرنا۔
  • مسائل کے پیش آنے سے پہلے ان کا اندازہ لگانا اور مناسب ترین حل کا انتخاب کرنا۔
  • پیچیدہ مسائل کے اختراعی یا تخلیقی حل نکالنا اور نئے حل نافذ کرنے کے منصوبے تیار کرنا۔
  • اپنے خیالات اور طرز عمل کو بدلتے ہوئے رواج اور قواعد کے مطابق ڈھالنا۔
  • فیصلہ کرتے وقت اہم مسائل کی فوری اور درست نشاندہی کرنا اور مسئلے کا حل نکالنا۔

سیلف مینجمنٹ  ___   تنظیم ذات کی مہارتیں

  • ذاتی وژن اور اہداف کا ہونا۔اپنی کارکردگی کا اندازہ لگانا اور نگرانی کرنا۔
  • اپنے خیالات اور وژن کو بیان کرنے کی صلاحیت ہونا اور ان پر قائم رہنا۔
  • تخلیقی طور پر کام کرنا۔کام ٹرخانے اور غیر اخلاقی شارٹ کٹ سے بچنا۔
  • دباؤ میں کام کرنے کی صلاحیت ہونا اور اسے تواتر کے ساتھ چلانا۔
  • لچک کا مظاہرہ کرنا۔ مفاہمت کی صلاحیت ہونا۔

مثبت رویہ اور برتاؤ

  • یقین اور اعتماد سے آپ اجتماعی معاملات میں مثبت حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اللہ کریم نے مجھے صلاحیتیں، قوتیں، نعمتیں اور عزائم عطا فرمائے ہیں، وہی میری مدد کرے گا۔ اس سوچ کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کرنا کہ اللہ کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں، جنھیں شُکر کے جذبے سے استعمال کرنا۔
  • اعلیٰ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا۔ – لوگوں، مسائل اور حالات سے ایمان داری سے نمٹنا۔
  • جہاں کریڈٹ دینا ضرور ی ہو، وہاں دوسرے لوگوں کی اچھی کوششوں کو سراہنا۔
  • اپنی صحت کا خیال رکھنا، متوازن غذا کھانا، حسب ضرورت آرام اور باقاعدگی سے ورزش کرنا۔
  • کسی بھی تکلیف کے لیے موجود بیماری کے بارے میں سنجیدہ ہونا اور علاج کرانا۔
  • موجودہ سرگرمیوں میں شامل ہونا یا نئی سرگرمیاں شروع کر کے دلچسپی لینا۔

منصوبوں اور کاموں میں حصہ لینا

  • اپنے حصے کا کام، قابلِ قبول معیارات پر کرنا۔
  • پروجیکٹ کو متعین مدت میں مکمل کرنا، اجلاس میں وقت پر پہنچنا، پیغامات کا جلد جواب دینا۔
  • ترجیحات کا تعین کرنا، سب سے اہم چیز کا فیصلہ کرنا اور اسے پہلے کرنا۔
  • پیش بینی کرنا کہ کاموں میں کتنا وقت لگے گا اور سرگرمیوں کے لیے ٹائم فریم مقرر کرنا۔
  • شروع کرنا : پہلا قدم اٹھانا، چیزیں شروع کرنا۔
  • لوگوں اور وسائل کو مربوط کرنا، جو کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہوں۔
  • کسی فرد کے کام اور رویے کو درست طریقے سے بیان کرنا۔
  • منصوبوں/کاموں کو شروع سے آخر تک اس بات کے واضح خیال کے ساتھ انجام دینا کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں،اور یہ کہ نتائج کی ذمہ داری قبول کرنا۔
  • مناسب آلات اور ٹکنالوجی کے انتخاب اور استعمال کی صلاحیت پروان چڑھانا۔
  • اس بات پر نظر رکھنا کہ پروجیکٹ/کام کتنی اچھی طرح سے آگے بڑھ رہے ہیں اور بہتر کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔

ریاضیاتی یا حسابی معاملات

  • عددی ڈیٹا کی ترجمانی، متبادل انداز سے دیکھنا اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنا۔
  • مالیاتی منصوبوں کو سمجھنا اور ان کا انتظام کرنا۔
  • آپریٹنگ اخراجات کو سمجھنا اور کنٹرول کرنا۔
  • مختلف شکلوں میں ڈیٹا کو پہچاننا اور سمجھنا (جیسے گراف)۔
  • درست ڈیٹا اینٹری کا استعمال، اور ڈیٹا کا تجزیہ، ڈیٹا میں غلطیوں کو پہچاننا۔

پیشہ ورانہ صلاحیت پروان چڑھانا

  • ساتھی کارکنوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔
  • اعلیٰ افسران، معاونین اور اچھی توقعات وابستہ کرنے والوں سے احترام کا رویہ۔
  • اختلاف یا تنازع میں جھگڑنے کے بجائے سمجھوتہ کرنے کی طرف توجہ دینا۔
  • تنظیم کے ساتھ وفاداری نبھانا۔
  • وقت کا پابند ہونا اور مؤثر طریقے سے کام کرنا اور اعلیٰ معیار کے نتائج پیدا کرنا۔

سیکھنے کی مہارت

  • خود سیکھنے کا انتظام کرنا۔
  • تجربہ ایک ایسا استاد ہے، جو سزا پہلے دیتا ہے اور سکھاتا بعد میں ہے۔ ہر چیز میں تجربہ کرنے سے احتراز کرنا اور لوگوں کے تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لانا۔
  • کام کی جگہ پر سیکھنے والے احباب سے تعاون کرنا، اور حوصلہ افزائی کرنا تاکہ وہ بنیادی علوم سیکھیں۔
  • سیکھنے کے لیے متعدد ذرائع کا استعمال کرنا: رہنمائی، ہم مرتبہ افراد کی مدد، نیٹ ورکنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کورسز کرنا۔دور حاضر میں آن لائن میٹنگز میں شرکت، میڈیا سے گفتگو، ٹی وی شوز میں گفتگو کا فن ۔
  • مصنوعات اور 'لوگوں کے مسائل کے عملی پہلو کے بارے میں سیکھنا، کام کے باہمی اور ثقافتی پہلوؤں کا جائزہ لینا اور نتائج کا پیشگی اندازہ لگانے کے لیے سوچنا اور گفتگو کرنا۔
  • مسلسل سیکھنے کے لیے جوش و خروش برقرار رکھنا اور سیکھنے کے لیے آمادہ ہونا۔
  • نئے خیالات اور تکنیکوں کے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار ہونا اور رہنا۔
  • نئی مہارتیں سیکھنے میں وقت اور محنت لگانے کے لیے تیار رہنا۔

کمپیوٹر اور ٹکنالوجی کی مہارت

  • کمپیوٹر کی بنیادی مہارتوں کی واقفیت ہونا اور اسے انتظامی آلے کے طور پر استعمال کرنا۔
  • آئی ٹی کی نئی مہارتیں سیکھنے کے لیے تیار ہونا۔
  • مناسب سافٹ ویئر کی شناخت اور استعمال کرنا۔
  • ہارڈ ویئر یا تکنیکی مشکلات کی شناخت، تجزیہ، اور حل کرنا۔
  • مختلف ایپلی کیشن پروگراموں کو سمجھنا۔
  • مختلف آپریٹنگ سسٹم کو سمجھنا اور استعمال کرنا۔

(رابطے کے لیے:basheerjuma@gmail.com)

بچے کی پیدایش کے بعد اس کے اردگرد کا سماجی ماحول، اس کی تعلیمی کامیابی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین سماجیات نے عشروں اس تحقیق پر صرف کیے ہیں کہ وہ عناصر جو طالب علموں کے اختیار میں نہیں بشمول نسل، دولت اور والدین کا سماجی حوالہ کس طرح سے ان کے تعلیمی مواقع اور کامیابیوںپر اثرانداز ہوتے ہیں؟

سماجی ماحول کا ایک پہلو جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے وہ مذہب ہے۔ مثال کے طور پر امریکا ایک دولت مند مغربی جمہوریت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وہاں پر مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے نوجوانوں کے تعلیمی نتائج پر یہ چیز اثرانداز ہوتی ہے؟

گذشتہ ۳۰ برس میں سماجی ماہرین اور اقتصادی ماہرین نے متعدد تحقیقی مطالعوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ مذہب اور تعلیمی کامیابیوں میں ایک مثبت تعلق ہے۔ اس تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ مذہبی طالب علم، زیادہ بہتر گریڈ حاصل کرتے ہیں۔کم مذہبی رجحان رکھنے والے طالب علموں کی بہ نسبت ان میں سکول جانے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ لیکن ماہرین اس بات پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ ان نتائج کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ کیا مذہب کے اثرات کے نتیجے میں طالب علموں کی کامیابی کا سبب مذہب ہی ہے یا اس میں کچھ اور عناصر کارفرماہیں؟

میری تحقیق یہ ہے کہ طالب علم پر مذہب کا طاقت ور لیکن ملا جلا اثر ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جو بہت زیادہ مذہبی ماحول میں پرورش پاتے ہیں اور جنھیں کچھ محققین Abiders (مذہبی طلبہ)بھی کہتے ہیں، وہ اوسط طلبہ کے مقابلے میں زیادہ نمبر (GPAs) حاصل کرتے ہیں اور کالج تک اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذہبی عبادات ہفتہ میں کم از کم ایک بار انجام دیتے ہیں، دن میں کم از کم ایک مرتبہ دُعا کرتے ہیں، اور خدا پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ محض مذہبی اعتقاد اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ بچے کا رویہ کیا ہے بلکہ   اس کے لیے کسی مذہبی برادری کا حصہ ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ اُبھرتے ہوئے نوجوان جو بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں، وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی مذہبی حلقوں سے وابستگی بھی ہوتی ہے۔

وہ مذہبی طلبہ جو شان دار تعلیمی ریکارڈ رکھتے ہیں عموماً معروف کالجوں میں داخلہ لینے کا رجحان کم رکھتے ہیں، بہ نسبت کم مذہبی رجحان رکھنے والے طلبہ کے جو مقابلتاً بہتر سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج ان خصوصیات کی نشان دہی کرتے ہیں، جو مذہبی رجحان رکھنے والے طلبہ کی کامیابی میں معاون ہوتی ہیں۔ نیزان خصوصیات کی نشان دہی ہے، جنھیں اسکولوں کو اپنے طلبہ میں پروان چڑھانا چاہیے۔

کسی بھی مذہب کے پیروکار گہری مذہبی وابستگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن میں نے اپنی کتاب: God, Grades and Graduation: Religion's Surprising Impact on Academic Success میں تحقیق کی بنیاد عیسائیت کو بنایا ہے کیونکہ امریکا میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً ۶۳فی صد امریکیوں کی شناخت عیسائیت ہے۔

زیادہ مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کے مقابلتاً مختلف تعلیمی نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ طلبہ تین اُمور پر توجہ مرکوز کرتے ہیں: سیکنڈری سکول نمبروں کا حصول، کالج کی تعلیم کی تکمیل کو پسند کرنا، اور کالج کا انتخاب۔سب سے پہلے میں نے نیشنل اسٹڈی آف یوتھ اینڈریلجن (NSYR) کے سروے کا جائزہ لیا، جس میں ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۳ء تک ۳ہزار ۲سو ۹۰ نوجوانوں کا جائزہ لیا گیا۔ سب سے پہلے شرکا کی گہری مذہبی وابستگی اور ان کے تعلیمی نتائج کے پیش نظر گروپوں کا تعین کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ عموماً مذہبی رجحان کے حاملین کو دیگر طلبہ پر ۱۰ فی صدفوقیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر ورکنگ کلاس کے نوجوان میں ۲۱ فی صد مذہبی طلبہ نے A گریڈ حاصل کیا، اور ان کے مقابلے میں غیرمذہبی رجحان رکھنے والوں میں سے ۹ فی صد نے Aگریڈ حاصل کیا۔

اس پس منظر میں نسل، لڑکے اور لڑکیاں، علاقائی فرق اور خاندانی پس منظر شامل ہیں۔ اس سروے کے لیے National Longitudinal Study of Adolescent to Adult Health کے اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کس طرح سے یکساں خاندان سے تعلق رکھنے والے مذہبی نوجوان، کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ہمارے تجزیے کے مطابق زیادہ مذہبی نوجوان اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں ہائی اسکول میں زیادہ نمبر (GPAs )حاصل کرتے ہیں۔

سماجی ماہرین جن میں کرسچین اسمتھ شامل ہیں، ان کا خیال ہے کہ مذہبی رجحان کا بڑھنا نوجوانوں کو پُرخطر رجحانات سے روکتا ہے اور دیگر نوجوانوں سےان کے رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اور قیادت کے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔

اس بات کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے میں نے National Study of Youth and Religions  ( NSYR) کا ازسرنو مطالعہ کیا اور تقریباً ۲۰۰ نوجوانوں کے ۱۰برسوں پر محیط انٹرویوں کا تجزیہ کیا اور انفرادی طور پر ان سے کیے گئے سوالات کا جائزہ لیا۔مذہبی رجحانات کے حامل طالب علموں نے بتایا کہ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے مسلسل کوشش کرتے ہیں اور وہ دیانت دار، فرض شناس اور بااصول بننے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ تحقیق کی تائید کرتی ہے کہ مذہبیت ان خصوصیات کے ساتھ مثبت طور پر وابستہ ہے۔

اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرض شناسی اور دیانت داری اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا جیسی صفات کا تعلیمی کامیابی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اور پھر اس میں اساتذہ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خصوصیات ایسے اسکول کے نظام میں معاون و مددگارہیں، جو ان لوگوں کو انعامات سے نوازتے ہیں، جو اخلاقی و روحانی اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ میں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کالجوں میں ان نوجوانوں کی کیا کارکردگی رہتی ہے؟ اس کے لیے NSYR کے اعداد و شمار کا Naitional Student Clearing House کے ساتھ موازنہ کیا تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کتنے طلبہ نے امتحانات دیئے اور کامیابی حاصل کی۔ مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اوسطاً گریجوایشن کی سند حاصل کرنے کے لیے زیادہ کوشش کی، بہ نسبت غیرمذہبی رجحان کے۔ اس کی ایک وجہ ہائی اسکول میں ان کی کامیابی کالج میں بھی ان کی کامیابی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔معاشی آسودگی سے بھی ان نتائج میں فرق تو پڑتا ہے، لیکن ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کے مذہبی نوجوان گریجوایشن کی سند کے حصول کے لیے ڈیڑ ھ سے دو گنا زیادہ کوشش کرتے ہیں بہ نسبت غیر مذہبی رجحان والوں کے۔

مذہبی رجحان رکھنے والے یا متوسط طبقے کے طلبہ گریجوایشن کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ NSYR اور نیشنل اسٹوڈنٹس کلیرنگ ہائوس کے اعدادد و شمار کے مطابق ایک جائزہ پیش ہے:

غریب طبقہ:       غیرمذہبی   ۱۵ فی صد مذہبی ۱۹ فی صد

محنت کش طبقہ : غیرمذہبی   ۱۶ فی صد مذہبی ۳۲ فی صد

متوسط طبقہ:      غیرمذہبی   ۲۹ فی صد مذہبی ۴۷ فی صد

پروفیشنل کلاس:  غیرمذہبی   ۶۲ فی صد مذہبی ۶۵ فی صد

تعلیمی اداروں میں کامیابی کے جائزے کا ایک اور پہلو کالجوں میں طلبہ کی کامیابی ہے، جس کا عام طور پر طلبہ کی جانب سے کالج کے انتخاب سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ طلبہ جس قدر معیاری تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں، اتنا ہی اپنی سند کے حصول کے لیے زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کے لیے زیادہ تنخواہ کی حامل معیاری ملازمتوں کے حصول کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اوسطاً مذہبی رجحانات کے حامل طالب علم جو Aگریڈ پاتے ہیں اور نسبتاً کم معیاری کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں، ان کا SAT نتیجہ ۱۱۳۵ ہے، جب کہ غیرمذہبی طلبہ کا نتیجہ ۱۱۷۶ ہے۔ ان کے انٹرویو میں مذہبی طالبات باربار والدین کی ذمہ داری، ایثار و خلوص اور خدا کی عبادت کا تذکرہ کرتی ہیں،بالخصوص بالائی متوسط طبقہ خاندانوں کی طالبات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معیاری کالجوں کا انتخاب کم کرتی ہیں اور معروف کالجوں کو اپنا کیریئر بنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی ہیں۔

اصولوں کی پابندی کرنے والے طلبہ بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں، لیکن ایسا مختلف رجحان رکھنے والے بھی کرسکتے ہیں۔ہماری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملحد طلبہ متجسس مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے بجائے تنقیدی نقطۂ نظر سے غوروفکر کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس مزاج کی وجہ سے مذہبی رجحان رکھنے والوں کے مقابلے میں معروف یونی ورسٹیوں میں ملحدین کو زیادہ نمایندگی دی جاتی ہے۔

روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ (بارھویں جلد) ، پروفیسر تسنیم احمد۔ ناشر: مکتبہ دعوۃ الحق ، ۹۳-اے، اٹاوہ سوسائٹی، نزد گلشنِ معمار، کراچی۔ صفحات: ۴۰۰۔قیمت مجلد: ۹۵۰ روپے۔

اُردو زبان میں سیرتِ پاکؐ پر بہت قیمتی کتب لکھی گئی ہیں، لیکن کاروانِ نبوت اپنی ترتیب، اسلوب اور پیش کش کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ اس کتابی سلسلے کی بارھویں کڑی ہے، جس میں صلح حدیبیہ، غزوئہ تبوک، ہمسایہ سلاطین کے نام خطوط، غزوئہ خیبر، عمرئہ قضا، معرکۂ موتہ اور فتح مکہ کی تفصیلات پر ابواب کے ساتھ قریشِ مکہ اور یہود کی مخالفت کے اجمالی جائزے پر دو معلوماتی اور فکرانگیز ابواب بھی کتاب میں شامل ہیں۔

سیرتِ رسولؐ کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے متعدد بصیرت افروز نکات بیان کیے ہیں۔ اسی طرح جہاں عہد ِ نبوی میں جاہلیت سے کش مکش کا ذکر ہے، وہاں عصرحاضر کی جہالتوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ کتاب کا طرزِ بیان عام فہم ہے۔ عبارت کی سلاست اسے قاری کے لیے دل چسپ بناتی ہے اور کتاب کا مطالعہ قاری کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ کتاب کی ٹائپ کاری اور مطالعے کے مرکزی نکات کو نمایاں کرنے کا انداز، انفرادیت کا حامل ہے۔ (ادارہ)


عزیمت کے راہی، ششم، از حافظ محمدادریس، ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون:  ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

جناب حافظ محمدادریس ایک عالم، مترجم، خطیب اور منفرد ادیب ہیں۔ وہ بہ یک وقت اسلامی تاریخ، قومی و ملّی اُمور، افسانہ اور وفیات پر دلی لگن کے ساتھ لکھتے ہیں۔ عزیمت کےراہی سلسلے میں یہ ان کی آٹھویں کتاب ہے۔ اس سلسلے میں وہ عصرحاضر کے اُن رفقائے تحریک اسلامی کے احوال، واقعات اور یادداشتوں کو مرتب کرتے ہیں، جو اس دُنیا میں اپنا رول ادا کرکے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔

زیرنظر مجموعہ، تحریک اسلامی کی مرکزی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ جن میں چودھری غلام محمد، سیّد منور حسن، عبدالغفار عزیز، حاجی عبدالوہاب (امیر تبلیغی جماعت)، شیخ ظہوراحمد، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی، ڈاکٹر سیّد وسیم اختر، ڈاکٹر محمد مرسی شہید، جسٹس فدا محمد خاں، حفیظ الرحمٰن احسن، نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ، مسعود احمد خاں وغیرہ سمیت ۲۷ سعادت مند زندگیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

یہ کتابی سلسلہ، دعوت و عزیمت کے چراغ روشن کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو احباب میں مطالعے کی زبوں حالی کا حوالہ دیکھ کر دل رنجیدہ ہوا، کہ صرف چھے سو کی تعداد میں کتاب شائع ہوئی ہے، کیا یہ بات خود باقی زندہ رہ جانے والوں کے لیے ایک تازیانہ نہیں؟ (ادارہ)


سیر سوات ،حکیم محمد یوسف حضروی ، مرتب: ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد۔ناشر:سرمد اکادمی اٹک۔ملنے کا پتا: قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل، بنک سٹاپ ،والٹن روڈ لاہور کینٹ۔ فون :۸۴۲۲۵۱۸۔۰۳۰۰۔صفحات ۱۹۶۔ قیمت :۲۵۰ روپے ۔

حکیم محمد یوسف حضروی (۱۸۵۵ء۔۱۹۵۹ء )حضرو (ضلع اٹک) ایک ماہر طبیب کے علاوہ بہت اچھے پختہ قلم ادیب بھی تھے۔ تقریباً دس کتابوں کے مصنف تھے۔ سیرِ سوات ان کی ’’ایک ماہ [جون ۱۹۴۴ء]کی سیاحت ِ سوات کا خوش نماآئینہ ہے۔ اس آئینے میں حکیم صاحب کے احوالِ سفر کی رنگا رنگ تصویریں ،ان کے مشاہدے کی دل پذیر جھلکیاں ہیں‘‘۔(ص ۳۱)

حکیم صاحب کا اسلوبِ نگارش دیکھیے: ’’ان [پہاڑوں]کی آغوش میں ملک کے اندرونی حصے ہر طرف تختہ ہائے گلاب، گلِ مہتاب، گلِ لالہ ویاسمین کے شاداب اور رنگین ندیم عشرت پھولوں کے ایسے چمن کھلے ہوئے ہیں، جن پر انسانی نگاہ فردوس ارضی کا دھوکا کھاتی اور شب کو چاند اور تاروں کی لطیف روشنی مسکراتی ہے۔ صبح کے دھند لکے میں نسیم خوش گوار کا ایک ہلکا سا جھونکا ان پھولوں کو چھیڑ کر مسکرانے پر آمادہ کرتا ہے، کلیاں بنتی ہیں اور خوشبو سے تمام فضا معطر ہو جاتی ہے‘‘۔(ص۵۳)

ڈاکٹر ناشاد نے ۳۰صفحات پر مشتمل سیرحاصل مقدمے میں حکیم صاحب کے حالاتِ زندگی کے ساتھ، ان کے آباواجداد کے اَحوال ،تصانیف اور مہارتِ طب پر روشنی ڈالی ہے۔ متن کی صحت کے ساتھ مختصر حواشی اور اشاریے کا اہتمام بھی کیا ہے۔  (رفیع الدین ہاشمی)


حکمت ِ بالغہ، یادِفاروقی نمبر، انجینئر عبداللہ اسماعیل۔ ناشر: قرآن اکیڈمی، لالہ زار، کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر۔ صفحات: ۲۴۸، قیمت: ۲۵۰ روپے۔

ترجمان کی گذشتہ اشاعتوں (فروری ۲۰۱۴ء، اپریل ۲۰۱۵ء، اپریل ۲۰۱۶ء) میں ہم نے انجینئر مختار فاروقی مرحوم کی تصانیف اور رسالے پر تعارف و تبصرہ شائع کیا تھا۔ مختار صاحب ۱۳ستمبر ۲۰۲۱ء کو اپنے ربّ سے جاملے۔ ان کی وفات پر درجنوں اہلِ قلم نے مرحوم کی شخصیت، علم و فضل اور تصنیفی و تالیفی کارناموں پر قلم اُٹھایا اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین مرحوم سے لکھنے والوں کی ملاقاتوں، گفتگوئوں اور باتوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اوریا مقبول جان کہتے ہیں: ’’میں ان کے رسالے کا مدتوں مستقل قاری رہا۔ وہ بہت نیک اورسادہ انسان تھے۔ جب بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ان کے اندر سے علم آرہا ہے اورعلم بھی دین کا علم‘‘ (ص ۲۲۳)۔

کسی معاشرے میں مختارفاروقی جیسے لوگوں کا وجود اور دین کے لیے ان کی کاوشیں اس معاشرے پر ربِّ کریم کی عنایات کے مترادف ہے۔ آخر میں بہت سے اہلِ علم کے تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)

سوال: کیا’عائلی قوانین‘ کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟ متذکرہ قوانین کی رُوسے تو طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کچھ خاص شرائط عائد کردی گئی ہیں؟

جواب: کسی حکومت کے قوانین سے نہ تو شریعت میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے، اور نہ وہ شریعت کے قائم مقام بن سکتے ہیں۔ اس لیے جو طلاق شرعی قواعد کی رُو سے دے دی ہو، وہ عنداللہ اور عندالمسلمین نافذ ہوجائے گی، خواہ ان [حکومتی] قوانین کی رُو سے وہ نافذ نہ ہو۔ اور جو طلاق شرعاً قابلِ نفاذ نہیں ہے، وہ ہرگز نافذ نہ ہوگی، خواہ یہ [عائلی] قوانین اس کو نافذ کریں۔

اب مسلمانوں کو خود سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق کرنا چاہتے ہیں یا ان عائلی قوانین کے مطابق؟ (’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۲، مئی ۱۹۶۲ء، ص ۵۹)