مسئلہ کشمیر کسی زمینی تنازع (land dispute)کا نام نہیں اور نہ یہ دو ملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جن کی ریاست پر ایک استعماری ملک نے محض طاقت کے بل پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کر کے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سیبوتاج (sabotage) کیا اور صرف قوت کے ذریعے آج بھی ان پر قابض ہے۔ یہ جارح قوت خود اپنے وعدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسرنظرانداز کر کے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر مصر ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی بزدلانہ اور مجرمانہ روش پر قائم ہیں اور علاقے میں اقوام متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود پچاس سال سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہیں۔جناب کوفی عنان کے حالیہ دورہ پاک و ہند (مارچ ۲۰۰۱ء) کے بیانات نے ان کی بے بسی ہی نہیں‘ بے حسی اور بے حمیتی کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ معلوم ہوتی ہیں اور اس عالمی تنظیم کے اپنے چارٹر کے تحت قیام امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی۔ اب لے دے کے اعلانِ لاہور اور دو طرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کی جھولی میں کچھ نہیں۔ اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہے کہ فضا سازگار ہو۔
بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہے جو گیارہ سالہ تحریک جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ’’جنگ بندی‘‘ اور ’’سرحدی دہشت گردی‘‘ کی روک تھام کے لیے راہ پیدا کر رہی ہے اور امریکہ‘ مغربی سیاست کار‘ اور ایک حد تک کوفی عنان صاحب بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیر متوقع‘ البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کی قیادت کے متضاد بیانات اور انگریزی صحافت کے کچھ قلم کاروں کی خلافِ جہاد مہم ہے جس کا بروقت نوٹس لینا اور انحراف اور پسپائی کے ہر امکان کا بروقت سدّباب ملت اسلامیہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے گماشتوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے دہشت گردی (terrorism) اور تشدد (violence)کے ہم معنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ستم ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیرداخلہ بھی لنگوٹ کس کر اس جنگ میں کود پڑے ہیں اور قانون سازی سے لے کر تعزیری اقدامات تک کی دھمکیاں قسط وار دے رہے ہیں۔ کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کی تائید و نصرت کے لیے چندہ دینے والوں کو ڈرایا جا رہا ہے اور بلاتحقیق ایک سے ایک شرم ناک الزام ان لوگوں پر لگایا جا رہا ہے جو جہاد کشمیر کی پشتی بانی کر رہے ہیں۔ادھر واجپائی صاحب سیاسی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف جنگ بندی میں تیسری توسیع کرتے ہیں تو دوسری طرف حریت کانفرنس کے وفد کو پاسپورٹ تک جاری کرنے سے انکار کرتے ہیں‘اور سید علی گیلانی جیسے محترم قائد پر قاتلانہ حملے کیے جا تے ہیں۔ کبھی ’’بات چیت‘‘ شروع ہونے کی نوید دیتے ہیں اور کبھی صاف مکر جاتے ہیں کہ فوجی قیادت سے مذاکرات کا کیا سوال (جیسے برما میں تو جمہوری حکومت ہے جس کے دورے بھی کیے جا رہے ہیں اور جس سے معاہدات کا بازار بھی گرم ہے!)۔ وہ اور ان کے وزیر خارجہ برابر ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ روکنے کا واویلا کر رہے ہیں جیسے جہادی تحریک کا آغاز تو ۱۳ اکتوبر کے بعد ہوا ہو اور اس سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی بات چیت اور آمدورفت بشمول لاہور یاترا اور فرینڈشپ بس کا سلسلہ چلا تھا وہ سب تو کسی ’’سرحدی امن‘‘ کے آغوش میں ہو رہا تھا!)
اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کے دورے اور خود سیکرٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت میں تشریف آوری اور ٹریک ٹو کے نام پر بھارتی اور پاکستانی نام نہاد فاختائوں کی پروازیں اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہو جانے کی ہوائیاں (kite-flying) ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کا پتا دیتی ہیں۔ پہلے جناب اصغر خان نے فرمایا کہ ’’چند ہفتے میں مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘ (جنگ‘ ۳مارچ ۲۰۰۱ء)۔ کئی انگریزی کالم نگاروں نے ان کی لے سے لے ملائی اور اب خود جنرل مشرف صاحب نے وسط مارچ ۲۰۰۱ء میں لاہور میں مدیران جرائد کے ظہرانے سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’مسئلے کے حل کا وقت اب بہت قریب ہے‘‘۔ معاف کیجیے‘ اطلاع ہے کہ اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تصور کرتے ہیں۔ (خدا نہ کرے کہ یاسرعرفات کی طرح کہیں نوبل انعام کی تمنا بھی کروٹیں لے رہی ہو۔)
اصغر خان ہوں یا جنرل مشرف‘ واجپائی ہوں یا کوفی عنان‘ سابق فوجی ہوں یا سفارت کار‘ سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانان جموں و کشمیر‘ قائداعظم ؒ سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک نیوکلیر پاور بنایا ہے وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی‘ لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے لیکن مسلمانان پاکستان اور مسلمانان جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حق خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔
یہ کسی خاص جماعت‘ گروہ یا طبقے کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ اعلانِ لاہور کے موقع پر کشمیر کے بارے میں حساسیت کے اظہار کے لیے جس طرح فوج نے سیاسی قیادت کو مجبور کیا اور کارگل کے معاملے میں جن جذبات کا اظہار فوج اور پوری قوم نے کیا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ کی خوشنودی اور بھارت کی دوستی کے مشتاق چند سیاسی طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ماضی میں بھی ‘جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ خود پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر مرقوم ہے کہ استصواب ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہونا ہے۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ‘ خواہ وہ کتناہی طویل کیوں نہ ہو‘ اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثرنہیں کر سکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیر متعلق نہیں بنا سکتا۔
پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا اور سات سو سال کی مشترک سرحد ہی نہیں‘ سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رخ اور سڑکوں کے تسلسل‘ رنگ و نسل کی یکسانی‘ طریق بود و باش کی وحدت‘ دین و ثقافت‘ رسوم و رواج‘ تہذیبی روایات‘ تاریخی جدوجہد‘ سیاسی ہم آہنگی‘ سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابل تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رو سے ۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوںنے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔ لیکن ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنا رہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘ جس کی بنیاد پر خود امریکہ کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حق خود ارادی کے اصول کا اعلان فلاڈلفیا کے اعلامیے کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نیپہلی جنگ کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پر برعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔
کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے سواکروڑ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کر سکتیں۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیر جانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حق خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کر دیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی رائے عامہ کو اسے ایک مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن‘ غربت سے نجات‘ ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحدمیں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں‘ اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ جہادی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہر کوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔
کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے جب تک :
۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریںگے۔
۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی رائے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوںپر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔
۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء‘ ۵ جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حق خود ارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
پاکستان کی کسی قیادت‘ اور کسی عالمی راہنما کو ان تاریخی حقائق‘ اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں وکشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا یا کرے گا اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یاسازش سے ٹالا نہیں جا سکتا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ دورے میں اسلام آباد اور دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر جناب چیف ایگزیکٹو اور وزارت خارجہ کی خاموشی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کے موقف کو تسلیم کر لینے کے بعد اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بین الاقوامی قانون‘ معاہدے‘ سلامتی کونسل اور اس کے اداروں کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہم ان کے ارشادات عالیہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور پھر کشمیر کی جدوجہد کے لیے اس کے منطقی تقاضوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
کوفی عنان صاحب نے فرمایا ہے کہ کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے اور وہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت نہیں جب کہ مشرقی تیمور اور عراق کے بارے میں قراردادیں قابل تنفیذ تھیں۔ کشمیر کے بارے میں اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں تب ہی اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے ورنہ وہ صرف دو طرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کر سکتی ہے جس کے لیے انھوں نے کمال مہربانی سے ایک بار پھر اعلانِ لاہور کا ذکر فرمایا ہے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون‘ جنیوا کنونشن‘ قوموں کے درمیان معاہدات اور
بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (time limitation) سے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون‘ اصول یا روایت نہیں۔ یہ ممکن بھی نہیں ۔ اس طرح توقانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکاوو (Macao)کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ لیکن بالآخر ۱۹۹۹ء میں چین نے اسے حاصل کر لیا اور محض ایک لمبی مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجہ جواز نہ بن سکا۔ کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قرارداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعووں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہو گیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا لیکن ۹۹ سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدہ کو پورا کرنا پڑا۔ تائی وان کا معامدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے جس کا ذکر کوفی عنان صاحب نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء کی ہے لیکن عمل ۲۵ سال کے بعد ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے۔ اگر ۲۵ سال میں یہ قرارداد غیر موثر نہیں ہوئی تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیر متعلقہ ہو گئیں۔
پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں‘ ایک اصول کا ہے یعنی حق خود ارادیت۔ یہ
اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ ۱‘ اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق ۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے یعنی:
لوگوں کے حق خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔
اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:
تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
کشمیر کی قرارداد کا تعلق حق خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے ۔اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکہ‘ بھارت اور پاکستان تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: جارحیت کی تعریف پر قرارداد ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے ۲۵ سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا اسی نے اسے منظور کیا ہے۔
ان قراردادوں میں دو بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت ہے اور اس عنوان سے ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ترمیم نہیں‘ ان کی توضیح کی جا رہی ہے۔ ان اصولوں میں حق خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو‘ اسے جائزتسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ: نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔
ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ۔ (ملاحظہ ہو‘ نوام چومسکی کی کتاب Power and Prospects ۱۹۹۶ء‘ ص ۲۰۷)۔
بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیر موثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اور اگر اس بارے میں کسی کوکوئی شبہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:
کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیر ملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (successor) کس ریاست میں شامل ہوں۔یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علیحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور علیحدہ ہے اور یہ انڈیا سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علیحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔
تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حق خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا‘ وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابل استعمال ہے۔
سیکرٹری جنرل نے یہ بھی صحیح نہیں کہا کہ اگر کوئی قرارداد چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور نہ ہوئی ہو تو گویا اس کی تنفیذ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اگر وہ اپنے ہی چارٹر کا بغور مطالعہ فرمائیں تو اس میں ان کو صاف مل جائے گا کہ دفعہ ۹۹ کے تحت یہ خود ان کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو جہاں سے بھی خطرہ ہو فی الفور اس کو سلامتی کونسل کے سامنے لائیں:
سیکرٹری جنرل کسی بھی ایسے معاملے کی طرف سلامتی کونسل کو توجہ دلائے گا جو اس کی رائے میں عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں خطرہ بن سکتا ہو۔
اس طرح یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہرخطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:
اقوام متحدہ کی جانب سے فوری اور موثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی
امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل وہ ان کی جانب سے کرتی ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر ملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہو سکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجا لانے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازع کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود‘ یا اقوام متحدہ کے ذریعے‘ تمام تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ ۳۶ اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقہ کار تجویز کرے‘ خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہو پا رہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہو رہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی
ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعات ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔
تعجب ہے کہ سیکرٹری جنرل ان سب دفعات کو تو بھول گئے اور صرف دونوں پارٹیوں کی آمادگی پر سارا زور تقریر صرف فرما رہے ہیں۔ ان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور اور خود شملہ معاہدہ دو ملکوںکے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازعہ ہو تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض روبہ عمل آئیںگے۔
اس سب کی موجودگی میں سیکرٹری جنرل کا اپنی بے بسی کا اظہار صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں خواہ معاملہ عراق کا ہو‘ یا مشرقی تیمور کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں اوران کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:
ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے‘جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور‘ ص ۲۰۴)
جب عالی طاقتوں اور خود اقوام متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو--- سیاسی اور عسکری ---اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل‘ اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوںاور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہر استعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ (just war) جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی‘ ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پرقوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں‘ اقوام متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ یعنی بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye) اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law فلاڈلفیا‘ ٹمپل یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۹۱ء‘ ص ۲۸۲)
یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ:
دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ص ۱۷)
نیز یہ کہ:
اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حق خود ارادی کی ہر جدوجہد قانونی اورجائز ہے۔ (ص ۲۶۱)
بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی کا دہشت گرد‘ دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کر سکا ہے۔ (ص ۱۷۷)
لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلمہ حق ہے جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔
سیاسی حق خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلان آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوق انسانی میں مضمر ہے۔
اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)
ہاورڈ یونی ورسٹی کے مشہور زمانہ سیموئل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations and The Remaking of World Order (نیویارک‘ ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے علی الرغم اعتراف کیا ہے(گویا ع نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں۔):
تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے یعنی ان لوگوں کا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص ۱۸۷)
اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ
دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علیحدہ علیحدہ غیر مغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر‘ یا جب بھی‘
یہ ایک ہوئے‘غیر مغربی کمزور ملک طاقت ور ہو جائیں گے ۔ (ص ۱۸۸)
ہنٹنگٹن کی بات تو ایک طرح جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت ایک مسلمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیںتو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہر طرح کی جدوجہدکا ‘بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال ‘ حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جنرل پرویز مشرف نے کئی بار اس امر کا اعلان کیا کہ دہشت گردی اور کشمیر کا جہاد بالکل مختلف چیزیں ہیں‘ یہی حقیقت بھی ہے۔ لیکن اس وقت سرکاری ذمہ داریوں پر موجود چند افراد اور انگریزی صحافت سے متعلق متعدد قلم کار ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جہاد کشمیر کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے موثر جواب اور استیصال کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں مزید تشویش ناک ہو جاتا ہے جب جہادی دبائو کے تحت بھارت کی قیادت اور فوج کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے اور بھارت کے چند اہم صحافی اور پالیسی سازی کو متاثر کرنے والی شخصیات کشمیر کی تحریک مزاحمت اور جہاد آزادی کو اس کے حقیقی تاریخی اور نظریاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کا اشارہ دے رہی ہیں۔
بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K.Balagopal) وہاں کے اہم مجلہ Economic and Political Weekly (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’’دہشت گردی‘‘ کے مسئلے پر TADA (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جا تا ہے وہ سیاسی عسکریت ہے۔ (ص ۲۱۱۵)
وہ موجودہ سیاسی عسکریت اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہیں اور سیاسی عسکریت کو دہشت گردی قرار دینے کو حقیقت سے فرار قرار دیتے ہیں۔
سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر‘ جو ضروری نہیں کہ کم ہو ‘ شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵)
بال گوپال سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کرتا ہے اوربھارتی قیادت کو متنبہ کرتا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد‘ امکان ہے کہ اکثریت‘ دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ وہ انڈین نہیں ہیں اور انھیں مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو انڈین سمجھیں۔ یقینا یہ قانون کے لیے بہت ہی نامناسب ہے کہ وہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر سزا دے خواہ وہ اپنا اظہار کسی بھی شکل میں کرے۔ اور اپنے لیے احترام کا مطالبہ بھی کرے‘ نسبتاً زیادہ پھیلی ہوئی سیاسی سرگرمی کے تحفظ کے لیے۔ (ص ۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ ٹاڈا جیسے قوانین جوظالمانہ‘ استبدادی اور کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں‘ (oppressive, draconian and unbecoming of a democratic polity) سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ عسکریت کشمیر میں ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولٹیکل کے ۳ مارچ ۲۰۰۱ء کے شمارے میں واجپائی صاحب کی نام نہاد جنگ بندی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha) لکھتا ہے کہ:
یہ قابل ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے: ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ خودکش حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے` جنگ بندی ہو یا نہ ہو اورکوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ۱۱ برسوں میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔ جنوری میں ایسے دو واقعات ہوئے ہیں‘ ایک CRPFمیں‘ ایک BSF میں۔ اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے میں ۵ فوجی مارے گئے۔
یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں‘ جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو‘ جن کی پرائیویسی کو جب چاہے violateکیا جا سکتا ہو‘ جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو‘ ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنے ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (mood) کی بہترین مثال حزب المجاہدین سے ملتی ہے۔یہ مکمل طور پر مقامی سب سے بڑے عسکری گروپ کی حیثیت سے عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔ اسی بات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ جہادیوں سے فاصلہ رکھیں اور اپنی تحریک کو آزادی کا نہ کہ مذہب کا تشخص دیں۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
ان آوازوںکے باوجود بھارت کے لیے یہ کڑوی گولی ہضم کرنا ابھی مشکل ہے لیکن اسے بالآخر استصواب اور حق خود ارادیت کی طرف آنا پڑے گا بشرطیکہ سیاسی اور جہادی دبائوجاری رہے اور پاکستان کی قیادت کسی بزدلی یا جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آج بھی ایک ایک مجاہد کے جنازے میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر شہید ہونے والے پاکستانی مجاہدین کے جنازے پر ۱۰ ہزار سے زیادہ افراد نے گولیوںکا مقابلہ کرتے ہوئے شرکت کی اور ان کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ کا واویلا مبنی برکذب ہی نہیں حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے کہ:
یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیر ہمدرد انہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔ (۴ مارچ)
مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:
تنازعہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کر سکتی ہیں لیکن جدوجہد آزادی کو قتل نہیں کر سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے۔ جو بات آسان نہیں ہے وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔
جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’’جنگ بندی‘‘ تسلیم کر لو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات موخر کر دو۔آج بھی وہ ایک بار پھر اسی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ جنگ بندی ہمارا مسئلہ نہیں‘ بھارت کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائونہ صرف جاری رہے بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری‘ سیاسی اور معاشی ہر اعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر پاکستان کی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے جو غیر مشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جہادی قوتوں کو کمزور کرنے یا ان کو بھی سیز فائر کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے اور غیر متشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی ہے۔ یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے کہ ۱۹۹۴ء میں JKLF کی یک طرفہ جنگ بندی کا نتیجہ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے ۶۰۰ سے زیادہ ممبروں کی ہلاکت ہوا۔ اسی طرح اگرچہ حریت کانفرنس نے غیر متشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے‘ اسے پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پرقائم شیوسینا ‘سنگ پری وار اور پانن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیر مسلح ہو جائیں‘ عبث ہے۔ توپیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی جب تک کوئی پرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔ گذشتہ پانچ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگا لیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ہر موقع کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہو گیا لیکن ناگاعوام ہر بار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جا سکی بلکہ
بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن وہ پرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیر مشروط مذاکرات ہو رہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگا علاقوںکے لیے ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ناگا تحریک کو اپنے اس موقف پر قائل کرلے گی کہ حل انڈین یونین کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ غیر مشروط مذاکرات میں یہ بات مضمر ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی ناگا نقطۂ نظر سننے اور ماننے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اسی طرح حریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہو کر رہ جاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہواور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔ جموں و کشمیر پولیس اور باغیوں کو کارروائی سے روک دینا چاہیے۔ جرائم کی تفتیش ہونی چاہیے اور مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔
حریت کانفرنس کو پاکستان جانے دینا‘ غیر مشروط مذاکرات کے انعقاد کا اعلان‘ پاکستان سے خارجہ سیکرٹری کی سطح پر روابط کی پیش کش‘ کمزور ہوتے ہوئے امن کے عمل میں زندگی ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اس سے جمہوری امن کی طرف پیش رفت ہوگی۔ تینوں فریقوں میں مذاکرات سے کوئی حل سامنے آئے گا۔
بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں‘ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی‘ تحریک مزاحمت کی قربانیوں اور مجاہدین کی کامیابیوں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار سب جس حکمت عملی پر ثبات اور مزید اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں وہ اصولی موقف پر دل جمعی سے استقامت‘ جہاد آزادی سے مکمل یک جہتی‘ مجاہدین کی ممکنہ مدد و استعانت اور عالم اسلام اور دنیا کی تمام انصاف اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم ہے۔
کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہر ممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہو کر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان‘ اپنی آزادی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کر سکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کر سکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ بلاشبہ جہاداور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے حرب کی اصطلاح کو ترک کر کے جہاد کی اصطلاح کو اختیار کر کے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔ جہاد‘فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں اور ان تمام امور کی روشنی میں ‘فلسطین ہو یا جموں و کشمیر جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں وہ جہاد ہے ۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔
اگرمسلمان جہاد کے راستے کو اس کے آداب کے ساتھ اختیار کریں تو ہمیں یقین ہے کہ احیاے جہاد‘ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور امت مسلمہ مظلومی اور محکومی سے نکل کر ایک بار پھر اپنے عالمی مشن کو اسی اعتماد اور انکسار کے ساتھ انجام دے سکے گی جس کی تعلیم ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور ایک بار پھر دنیا عدل و انصاف‘ نیکی اور تقویٰ‘ محبت و اخوت‘ علم و فضل اور مادی فراوانی اور اخلاقی فضائل کی بہار دیکھ سکے گی‘ اور اقبال کی یہ تمنا پوری ہو سکے گی:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
فرد ہو یامعاشرہ‘ دونوں کی سلامتی اور بلند پروازی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی اتنی ہی ضروری بلکہ ناگزیر ہے جتنی اخلاقی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور عسکری قوت۔ یہ نہ صرف عقل کا تقاضا اور تاریخ کا سبق ہے بلکہ خود اسلام کے جامع اور متوازن نظامِ حیات اور تصورِ کامیابی کا لازمی حصہ ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو بڑے لطیف پیرایے میں دعا کی زبان میں یہی تعلیم دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِیْ (مسلم عن ابی ہریرہؓ)
اے اللہ! میرے دین کو میرے لیے سنوار دے جو میرے معاملات کی اساس ہے‘ اور میری دنیا کو میرے لیے سنوار دے جس میں میری معاش ہے ‘ اور میری آخرت کو میرے لیے سنوار دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے۔
اور
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱)
اے ہمارے رب‘ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
اور کفر اور فقر کے منطقی رشتے کے بارے میں یہ کہہ کر متنبہ فرمایا:
فقر کفر کی طرف لے جاتا ہے اور دونوں سے پناہ مانگی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ وَالْفَقْر ۔
موجودہ معاشی بحران : آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اس نے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے جینا دوبھر کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نوبت فقر وفاقہ اور محرومی و بے روزگاری کے بعد‘ خودکشی اور خود سوزی تک آگئی ہے بلکہ ملک کی آزادی‘ سلامتی‘ اور اس کے اساسی مفادات تک خطرے کی زد میں ہیں۔ قوم کا بال بال قرضوں میں بندھا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور بیرونی ساہوکار ہر روز نت نئے مطالبات کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت اور مالیات کی باگ ڈور پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت‘ کشمیر کے بارے میں ہمارے برحق موقف‘ افغانستان میں استعماری کھیل میں ہماری مجبورانہ شرکت‘ بھارت کی علاقائی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے دبائو‘ عالم گیریت (globalization)کے نام پر ہماری صنعتی صلاحیت کی تباہی اور عالمی سامراج کے لیے اپنی منڈیوں کو کھول دینے کے لیے دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے جا رہے ہیں۔ ذہنی مرعوبیت اور معیشت کی کمزوری ہمارے حملے کی زد میں ہونے (vulnerable)کا اصل سبب اور ذریعہ ہیں۔بیرونی قرضوں کی سختی اور نرمی (carrot and stick) کی پالیسی کو اس بیرونی ایجنڈے پر سجدہ ریز کرنے کے لیے پوری چالاکی اور بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بظاہر اس حکمت عملی پر ایک عرصے سے عمل ہو رہا ہے لیکن ۱۹۹۸ء کے ایٹمی تجربات اور کشمیر میں بھارت کی فوجی کارروائیوں کے بے اثر ہو جانے کے بعد اور پھر ملک پر اندرونی اور خصوصیت سے بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بار کی کمر توڑ کیفیت نے ملک و قوم کو ایک نہایت خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ پھر حال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہے جو بحث مباحثے اور تبادلہ خیال کے ہر اس فورم سے محروم ہے جس میں قومی اُمنگوں اور جذبات کی ترجمانی ہو سکے‘ جہاں احتساب کو موثر بنایا جا سکے اور اقتدار کے غلط اقدامات پر گرفت کی جا سکے۔ بیرونی طاقتیں وزن بیت کے لیے جمہوریت کی باتیں کرتی ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک کو اپنے قابو میں کرنے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے ایسے ہی نظام کو پسند کرتی ہیں جن میں ایک فردِ واحد سے من مانی کرا سکیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرلیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی عملاً فردِواحد کی سیاست ہی کا دور دورہ تھا۔ رہی فوجی حکومت‘ تو وہ تو نام ہی ایک فرد کے ہاتھوں میں اقتدار کے مرکوز ہونے کا ہے۔ پھر موجودہ حکومت پر جس طرح بیرونی اداروں سے متعلق ٹیکنوکریٹس اور بیرونی روابط رکھنے والی این جی اوز کے کارپرداز اثرانداز ہیں اس نے سارے حفاظتی بند توڑ دیے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر قوم کے اجتماعی ضمیر نے بروقت گرفت نہ کی اور عوام اپنی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور معاشی اور سیاسی خود مختاری (sovereignty)کے لیے بروقت سینہ سپر نہ ہوئے اور گومگو‘ مسلسل پسپائی اور بیرونی مطالبات پر سرنگوں ہونے کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو قوم و ملک کا مستقل محکومی اور آزادی اور سلامتی سے محرومی کی ذلت سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔
آج قوم ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ایک طرف قرضوں کی غلامی‘ سیاسی فیصلے کے حق سے دست برداری اور بالآخر ذلت اور محکومی کی دلدل ہے تو دوسری طرف جرأت‘ قربانی اور جہاد مسلسل کا راستہ جو کانٹوں سے بھرا ہے مگر یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ایمان‘ آزادی اور عزت کی ضمانت حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے فراست ایمانی کے ساتھ جرأت رندانہ اور جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ درکار ہے۔ یہ جاں گسل جدوجہد کا راستہ ہے جو معاشی میدان میں ایک ایسی انقلابی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جو لگے بندھے اور پٹے ہوئے راستے سے یکسر مختلف ہو‘ اور جس کے نتیجے میں قوم اپنی آزادی اور خود انحصاری کو دوبارہ حاصل کر سکے‘ ہم خود اپنی قسمت کے مالک اور اپنے فیصلوں کے مختار ہو سکیں اور پاکستان اس منزل اور مشن کو حاصل کرنے کے لیے پھر اس جادہ مستقیم پر گام زن ہو سکے جس کے لیے لاکھوں انسانوںنے اپنی جان‘ مال اور آبرو کی قربانی دے کر‘ انگریز اور ہندو دونوں کی چالوں کو ناکام بنا کر یہ آزاد اسلامی ملک قائم کیا تھا۔ آج پھر ایسے ہی جرأت مندانہ‘ انقلابی اور مبنی بر حکمت اقدام کی ضرورت ہے جو آزادی‘ نظریاتی تشخص اور باعزت زندگی کا ضامن ہو سکے۔ اس کے لیے قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا‘ اس کے جذبہ ایمانی کو متحرک کرنا ہوگا‘ ہر سطح پر قربانیوں کے لیے تیار ہونا ہوگا‘ باطل کی قوتوں سے سمجھوتے کے بجائے ان سے مقابلے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا‘ اور اس عزم اور داعیے کے لیے حالات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا:
یا تن رسد بہ جاناں‘ یا جاں زتن بر آید
بحالی معیشت کا حکومتی پروگرام : فوجی حکومت کے بارے میں ہمیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خوش گمانی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کے گھمبیر معاشی اور اجتماعی مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ یہ گذشتہ پندرہ سال میں برسرِاقتدار رہنے والی سیاسی قیادتوں کی غلط کاریوں اور بداعمالیوں کی سزا تھی کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قوم کو فوجی انقلاب کا منہ دیکھنا پڑا۔ قوم کے بہی خواہوں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ فوجی حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں اور جنرل پرویز مشرف کو جلد از جلد ضروری انتخابی اصلاحات اور ملک لوٹنے والوں کا فوری احتساب کر کے اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کی طرف منتقل کر دینا چاہیے۔ عدالت عالیہ نے بھی حالات کی مجبوری کے تحت فوجی حکمرانوں کو اس کام کو انجام دینے کے لیے مہلت دی لیکن فوجی قیادت نے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے اپنے ذمہ بزعم خود ایسے کام لے لیے جن کی نہ وہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ قوم ان پر اس بارے میں کوئی اعتماد کر سکتی ہے۔ ان کی اولین ذمہ داری ملک کا دفاع ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایسے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں کہ خود دفاع وطن کے کام کے لیے ان کی صلاحیت اور اہلیت مجروح ہو رہی ہے۔
معیشت کے لیے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء اور پھر ۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو ایجنڈا اور پروگرام جنرل مشرف صاحب نے پیش فرمایا اور مرکز اور صوبوں میں جس قسم کے افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کا اعلان کیا اس نے قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو بری طرح مایوس کیا۔ قوم نے پھر بھی انھیں موقع دیا لیکن ان سولہ مہینوں میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جن خطرات کی لپیٹ میں ملک آگیا ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ جتنے بھی دعوے موجودہ حکومت اور اس کے کارپردازوں نے کیے وہ سب خالی خولی نعرے ثابت ہوئے۔ عملاً وہی پرانی ڈگر ہے جس پر کام جاری ہے‘ وہی قرضوں کی سیاست اور عالمی اداروں کی چاکری ہے جس پر نظام معیشت چل رہا ہے۔ نہ بے لاگ اور شفاف احتساب کے کوئی آثار ہیں اور نہ معیشت کی بحالی اور خود انحصاری کا کوئی نشان۔
۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کے معاشی بحالی کے پروگرام اور پھر غربت میں کمی کی حکمت عملی کے ایجنڈے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ تجارتی شعبے میں بے اعتمادی کا جو طوفان بپا ہے اور جس کے پیدا کرنے میں سب سے بڑا دخل روز روز بدلنے والی پالیسیاں اور غیر ملکی کرنسی حسابات کو منجمد کرنے جیسا اقدام تھا‘ اس پر قابو پایا جائے گا اور معاشی اعتماد کو بحال کیا جائے گا۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو خائف کرنے اور مقدمات میں اُلجھانے کا سلسلہ ختم ہوگا اور ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک درست اور محفوظ ملک کا درجہ دیا جائے گا۔ تیسرا مرکزی ہدف یہ بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے اور خود انحصاری کی راہ پر لگانے کو اولین اہمیت دی جائے گی۔ چوتھی بات یہ تھی کہ عام آدمی کی بہبود اور اس کے رہن سہن پر معاشی اقدامات کے اثرات کو سب سے پہلے ملحوظ رکھا جائے گا۔ پانچواں نکتہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو تیزی سے بروے کار لایا جائے گا۔
زراعت‘ نیز چھوٹی اور وسطی سطح کی صنعت کی ترقی اور صنعتی مال کاری (industrial finance) کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا بھی پیش نظر تھا۔ اس کے علاوہ: ۱- بیمار صنعتوں کے لیے ایک کارپوریشن کا قیام اور ٹیکس کے نظام کی ایسی اصلاح کہ کرپشن دُور ہو سکے اور ضابطہ بندی کے قانونی احکامات (SRO) کا غلط استعمال یک قلم روکا جا سکے‘ ۲- سیل ٹیکس کا نفاذ اور اسے آسان بنایا جائے‘ ۳- چُھوٹ (rebate)کی بروقت واپسی اور مالی مقدمات کو جلد نمٹانے کا نظام فوری طور پر نافذ کیا جائے‘ ۴- گیس اور پٹرولیم کے شعبوں کی ترقی اور ان شعبوں کے لیے سرمایہ کاری کا حصول‘ ۵- انفارمیشن ٹکنالوجی کی فوری اور ملک گیر ترقی اور پورے ملک میں معیشت کی دستاویز بندی (documentation)کا اہتمام‘ ۶-غربت کے خاتمے کے لیے ایک ملک گیر پروگرام پر عمل جس کے لیے ملکی اور بیرونی دونوں وسائل استعمال کیے جائیں گے اور پہلے سال ہی ۳۰ ارب روپے سے کئی ہزار پراجیکٹ شروع کیے جائیں گے جو ۵ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کریں گے‘ ۷-محصولاتی خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کیا جائے گا اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کو ۸.۴ فی صد کی سطح پر لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ ضمانت بھی دی گئی کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے فیصلے کے مطابق ملک کی داخلی معیشت کو ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سود سے پاک کر دیا جائے گا۔
معیشت کی موجودہ صورت حال : اس معاشی پیکج کو ’’پاکستان ساختہ پروگرام‘‘ کہا گیا تھا اور یقین دلایا گیا تھا کہ فوج کے مانٹیرنگ نظام کے تحت اس پر سرعت سے عمل ہوگا۔لیکن سال سوا سال کی کارکردگی کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس حکومت کے وعدوں اور دعووں کا بھی وہی حال ہے جو ماضی کی حکومتوں کا رہا ہے۔ معاشی اعتماد مزید مجروح ہوا ہے اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اور بھی کمی ہو گئی ہے بلکہ اب تو ملک سے سرمایہ تیزی کے ساتھ باہر جا رہا ہے اور عملاً معکوس بہائو (reverse flow)کی کیفیت ہے۔ برآمدات اور درآمدات کا عدم توازن ۸۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ کر ۷ .۱ بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور اگر ۵.۲ سے ۳ بلین ڈالر قرضوںاور سود کی واجب الادا رقم کو شامل کر لیا جائے تو مبادلہ خارجہ کا فرق ۶ بلین ڈالر کی خبر لا رہا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال جتنے افراد لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں ان کابھی ۵۰ فی صد روزگار سے محروم ہے۔ ساری پکڑ دھکڑ کے باوجود پہلے ۷ مہینوں میں ریونیو مطلوبہ رقم سے ۱۴ ارب روپے کم ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ بجٹ کا خسارہ کم ہونے میں نہیں آ رہا حالانکہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کی جا چکی ہے۔
قیمتیں برابر بڑھ رہی ہیں اور بجلی‘ تیل‘ پٹرولیم کی قیمتوں میں اس زمانے میں چار بار اضافہ کیا گیا ہے جس کا کوئی تعلّق عالمی منڈی کی قیمتوں سے نہیں۔ روپے کی بیرونی قدر برابر کم ہو رہی ہے جس میں اس زمانے میں ۲۰ فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہو گئی ہے اور مزید کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ کاروبار مسلسل مندے کا شکار ہیں اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان کے علاوہ کہیں کوئی مثبت سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ قدرت کے کرم اور گندم اور کپاس کی فصل کے بہتر ہو جانے سے زرعی پیداوار اچھی ہو رہی ہے مگر گنے کی پیداوار کی کمی کا اثر چینی کی فراہمی پر پڑا ہے۔ پھر بھی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی متوقع شرح کو ۸.۴ فی صد سے کم کرکے ۵.۴ فی صد کیا گیا ہے۔اسی طرح برآمدات میں متوقع اضافہ رونما نہیں ہوا اور صنعتی پیداوار خصوصیت سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ براے نام ہی رہا ہے۔
سب سے تشویش ناک پہلو غربت میں اضافہ ہے جو پچھلے دس سال میں تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔ آبادی میں غربت کے شکنجے میں گرفتار لوگوں کا تناسب ۱۷ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ فی صد اور ایک اندازے کے مطابق آبادی کے ۴۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ عمومی شرح افراطِ زر جو گذشتہ سال ۵.۳ فی صد قرار دی گئی تھی‘ اس سال ۶ اور ۷ فی صد تک پہنچ جائے گی اور اس کی بڑی وجہ مٹی کے تیل‘ گیس‘ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ اور ان کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بیشتر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ متوقع ہدف کا نصف رہ گیا ہے۔ نج کاری کا عمل معطل ہے‘ اسٹاک ایکسچینج میں کساد بازاری ہے‘ بنکوں کے غیر متحرک (non-performing) کھاتوںمیں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ارب کے ڈوبے ہوئے قرضوں کی وصولی کے باوجود بحیثیت مجموعی ڈیفالٹ کی رقم میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے ‘جب کہ تمام سرکاری بنک نقصان میں جا رہے ہیں اور قابل ذکر تعداد میں شاخیں بند اور ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک نے جو سالانہ رپورٹ ۲۰۰۰-۱۹۹۹ء کی معاشی حالت کے بارے میں جاری کی ہے اور جو سہ ماہی رپورٹیں حکومت کو پیش کی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سخت مایوس کن ہے اور اس کے بھی دعووں اور وعدوں کا وہی حال ہے کہ:
جام مے توبہ شکن‘ اور توبہ میری جام شکن
دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
اقتصادی زبوں حالی : اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور اس کے گورنر ڈاکٹرعشرت حسین نے‘ اسٹیبلشمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی‘ ایک حد تک معاشی حقائق کو ظاہر کرنے اور قومی سطح پر مکالمے اور
بحث و مذاکرے کا راستہ اختیار کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔ وزیرخزانہ اور خود گورنر اسٹیٹ بنک ایک عرصے تک تو بیرونی دبائو کا انکار کرتے رہے لیکن اب دونوں نے کھل کر اعتراف کر لیا ہے کہ ملک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے مجبور ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آج کے معاشی بگاڑ کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی اور اسے اکتوبر ۹۹ء میں بڑے خراب حالات ورثے میں ملے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود کوئی نئی حکمت عملی وضع کرنے اور ملک کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالنے میں ماضی کی قیادتوں کی طرح ناکام رہی ہے اور اس کے فکروعزائم کا تجزیہ کیا جائے تو دُور دُور کسی نئے آغاز کا امکان نظر نہیں آتا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے اپنی ۱۹جنوری ۲۰۰۱ء کی تقریر میں جس کا متن روزنامہ جنگ لندن میں ۶‘۷ اور ۸ فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:
بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری‘ بیرونی اور مقامی قرضوں کا بوجھ‘ مالیاتی خسارے میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی--- یہ وہ بڑے اقتصادی چیلنج ہیں جن سے پاکستان اس وقت دوچار ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ:
گذشتہ پندرہ مہینوں میں حالات میں وہ بہتری پیدا کیوں نہیں ہوئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
گذشتہ دس سال کے دگرگوں حالات کا جائزہ لے کر انھوں نے بجا طور پر سب سے بنیادی مسئلے کی نشان دہی کی ہے کہ:
ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کن لوگوں کی توقعات کی بات کر رہے ہیں۔ بیرونی ملکوں خصوصاً بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح اندرون ملک عام لوگوں میں اس کا اعتماد اب تک بحال نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کو ایک پالیسی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد طلب کیے بغیر اپنے مالی وسائل کا انتظام خود کرنا ہے… مختصر یہ کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے زیادہ مشکل مسئلہ بیرونی سیّالیّت کا مسئلہ ہے یعنی موجودہ واجبات سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت۔
موجودہ ٹیم پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے طلسم میں گرفتار (بلکہ ’’ان کا ایجنٹ‘‘) ہونے کے الزام پر اپنی ناپسندیدگی کے اظہار اور پچھلی حکومتوں کے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہونے کا بجا طور پر الزام لگانے کے بعد بڑے بھیانک انداز میں ڈیفالٹ کے خطرات سے خوف زدہ کیا گیا ہے: ’’کہ اس سے دوسرے ممالک پی آئی اے کے جہازوں پر قبضہ کر لیں گے اور مجموعی طور پر آبادی کے مصائب میں اضافہ ہو گا‘‘۔ اسے بیرونی مالیاتی اداروں کی تمام شرائط کو منظورکرنے کی وجہ جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’ہم ان تمام کوتاہیوں کی ایک ساتھ تلافی کرنے پر مجبور تھے جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوئیں‘ اور اسی وجہ سے ان اداروں کی وہ تمام شرائط جو پالیسی یا معاشی ساخت (structures) سے متعلق ہیں‘ ہم کو قبول کرنی پڑ رہی ہیں‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بنک نے موجودہ حکومت کے پالیسی اقدامات کا دفاع کیا ہے‘ مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس کے کچھ اسباب بھی گنوائے ہیں۔ ہم ان کے اس جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں کی طرح بحث مباحثے سے گریز کا رویہ اختیار نہیں کیا اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے اور ایک حد تک وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ ان کے بیان‘ اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور چیف ایگزیکٹو اور وزیر خزانہ کے بیانات کے تضادات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ نیز ان ہدایات اور اعلانات کی بھی ایک طویل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جن پر کوئی عمل نہیں ہوا یا عمل ہوا تو ان کے برعکس ہوا‘ لیکن ہم اس بحث سے اجتناب کرتے ہوئے صرف مرکزی ایشوز پر کلام کرنا چاہتے ہیں تاکہ خرابی کی اصل جڑ پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
ملکی مفاد کے منافی معاشی پالیسی : پاکستان کے معاشی مسائل اور ایک کے بعد دوسرے اور پہلے سے بڑے بحران کے رونما ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں اور ترجیحات ملک کے نظریے اور ملک کے عوام کی اصل ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مرتب نہیں کی گئیں بلکہ مخصوص مفادات کے تحفظ اور مغربی استعمار کے عالمی پروگرام اور ایجنڈے کی شعوری اور غیر شعوری تکمیل ہی ان کا ہدف رہا ہے۔ جب سے ہماری معاشی منصوبہ بندی میں ہارورڈ گروپ اور بیرونی امداد کی ایجنسیوں کو عمل دخل حاصل ہوا ہے‘ہماری معاشی حکمت عملی کا رخ بدل گیا۔
معاشی آزادی اور صحت مند منڈی کے نظام کے ہم بھی قائل ہیں لیکن مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور لبرلائی زیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر جس طرح عالمی سامراجی اداروں‘ کارپوریشنوں اور حکومتوں کی گرفت ہم پر مضبوط ہو رہی ہے‘ اس سے صرفِ نظر کر کے حقیقی اقتصادی چیلنج کو سمجھنا ناممکن ہے۔آج کے معاشی پالیسی ساز ہوں یا ماضی کے کارپرداز سب نے بیرونی قرضوں کے سہارے معاشی ترقی کو اصل ہدف گردانا اور خود معاشی ترقی کے اس کرم خوردہ اور تباہ کن تصور قبول کر لیا جس کا اصل مقصد تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سرمایہ داری کے معاشی جال میں پھنسانا تھا‘ انھیں معاشی خوش حالی اور معاشی قوت فراہم کرنا نہیںتھا۔
یہ اسی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انسانی اور مادی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان میں آج چار سے پانچ کروڑ انسان غربت کا شکار ہیں اور گذشتہ ۱۱ سال میں یہ تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ زراعت مسلسل بے توجہی کا شکار ہے حالانکہ آبادی کے ۷۰ فی صد کا اسی پر انحصار ہے اور ۱۱ میں سے ۹ صنعتیں جوملکی برآمدات کا دو تہائی فراہم کر رہی ہیں زراعت ہی کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ جو بھی صنعتی ترقی ۱۹۸۰ء تک حاصل ہوئی تھی اسے برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے اور خاص طور پر گذشتہ پندرہ سال تو عملاً صنعتوں میں کمی کے سال ہیں۔اس دوران معیشت میں صنعت کا کردار کم ہوا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعت جو زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہی ہے وہ پالیسی سازی میں سب سے زیادہ غیر اہم ہے۔ انتظامی مصارف برابر بڑھ رہے ہیں اور ترقیاتی پراجیکٹ محض بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ بلالحاظ اس کے کہ وہ ملک کے لیے مفید اور ضروری ہیں یا نہیں۔
قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ : ۱۹۸۰ء میں کل بجٹ ۲۰۰ ارب روپے تھا۔یہ اب بڑھ کر ۶۰۰ارب پر پہنچ گیا ہے لیکن اس میں ترقیاتی بجٹ اور سماجی خدمات کے بجٹ کا حصہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی ‘ فوجی اخراجات اور انتظامی مصارف سارے بجٹ کو چاٹ جاتے ہیں اور غیرپیداواری مصارف کے لیے بھی قرض لینا پڑتے ہیں۔ قرض کا بازار اس طرح گرم ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ قیادتیں کس طرح ملک کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلتی رہی ہیں اور دھکیل رہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہر نئے قرض کے حصول پر شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔
ملکی اور بیرونی قرضوں کا کیا رخ رہا ہے اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے کیجیے:
سال بیرونی قرض اندرونی قرض
۱۹۷۷ء ۶ بلین ڈالر ۵.۵ بلین روپے
۸۸-۱۹۸۷ء ۱۳ بلین ڈالر ۲۷۲ بلین روپے
(دس سال بعد) (دگنے سے زیادہ اضافہ) (۵۰ گنا اضافہ)
۹۹-۱۹۹۸ء ۳۰ بلین ڈالر ۱۲۰۰ بلین روپے
(ڈھائی گنا اضافہ) (پانچ گنا اضافہ)
۲۰۰۰ء ۳۸ بلین ڈالر ۱۳۰۰ بلین روپے
سود اور قرض کی ادایگی کی سالانہ قسط اب ۲۶۵ ارب روپے سے متجاوز ہے جو بجٹ کی کل آمدنی کا ۵۴ فی صد ہے۔ سالانہ زرمبادلہ کی شکل میں ادایگی کے لیے ۵.۳ ارب ڈالر درکار ہیں جس میں اگر ۵.۱ ارب ڈالر کے تجارتی خساروں کو بھی شامل کر دیا جائے تو صرف بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے سالانہ ۵ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اگر یہ رقم سود پر قرض کی شکل میں حاصل کی جائے تو ہر سال قرض کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ۳۸ بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ بھی اسی طرح وجود میں آیا ہے کہ پچھلے قرض اور سودادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے پڑے ہیں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ۳۰ ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرنے کے بعد یہ قرض ۳۸ بلین ڈالرہے جو آیندہ سال ۴۲ بلین ڈالر بن جائے گا۔
اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے کہ ملک میں ان منصوبوں کے نتیجے میں جن پر قرضے لیے گئے ہیں حقیقی اثاثوں (assets)کا کتنا اضافہ ہوا ہے تو محتاط اندازے کے مطابق حقیقی اضافہ صرف ۵ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ گویا ۷۰ ارب ڈالر کے بوجھ کے عوض ۵ ارب ڈالرکے اثاثے وجود میں آئے ہیں۔باقی تمام تنخواہوں‘ کمیشنوں‘ غبن یا قرض دینے والے ملکوں کے افراد اور اداروں ہی کی جیبوں میں گیا ‘جب کہ قرض کے اس پہاڑ تلے ہر پاکستانی سسک رہا ہے۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی : ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ترقیاتی حکمت عملی اپنی اساس میں خرابی رکھتی ہے۔ اس کا ہدف قرض حاصل کرنے والے ممالک کی معاشی ترقی اور خوش حالی نہیں بلکہ قرض دینے والے ملکوں کے مصالح اور قرض لینے والے شعبوں میں استحکام کے نام پر انھیں عالمی منڈیوں کا دست نگر بنانا ہے ۔ یہ ترقیاتی ترجیحات اور سماجی فلاح کے نظام کو مسخ کر دیتا ہے۔ اس وقت گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ سے لے کر بین الاقوامی ماہرین تک سب یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بیرونی سیّالیّت (foreign liquidity)ہے حالانکہ اصل مسئلہ پیداوار کی کمی اور معیشت میں کسادبازاری ہے۔ جب تک پیداوار میں اضافہ نہ ہو‘ برآمد کرنے کے لیے وافر مال موجود ہو‘ اس میں اتنا تنوع‘ اعلیٰ معیار اور بین الاقوامی مارکیٹ سے مناسبت نہ ہو اور شرح پیداوار اتنی نہ ہو کہ محض شرح مبادلہ کی بار بار کی تخفیف (devaluation)سے برآمدات کو نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ہم پندرہ سال سے اس سراب کا تعاقب کر رہے ہیں اور ہمارا حال اس پیاسے شخص کا سا ہے جو سمندری پانی سے پیاس بجھا رہا ہو جو ہر جرعہ آب کے بعد اور بڑھ جاتی ہے۔
بجٹ کا خسارہ اور بیرونی ادایگیوں کا توازن سب اہم ہیں لیکن سب سے اہم چیز شرح پیداوار‘ پیداوار کے لیے صحیح اشیا کا انتخاب اور ان کا معیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور صنعتی بنیاد کا استحکام‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور اجرتوں کا منصفانہ نظام ‘ تقسیم دولت کا موثر انتظام اور انسانی صلاحیتوں کی ترقی اور مطلوبہ مہارتوں (skills)کی فراہمی‘ سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ آج اس بات کا اعتراف ورلڈ بنک کے سابق سرکردہ افراد سے لے کر آزاد معاشی ماہرین اور مختلف ممالک کی سیاسی قیادتیں کر رہی ہیں کہ ورلڈ بنک کی شرائط (conditionalities)نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے اور عام انسانوں کو معاشی زبوں حالی کے سوا کوئی تحفہ نہیں دیا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں اور سیٹل‘ واشنگٹن‘پراگ اور ڈائی ووس کے عوامی مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
معاشی مسئلے کی جڑ: موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ معاشی مسئلے کی جڑ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں جس سے آئی ایم ایف کی شرائط تعرض کرتی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ معیشت میں کساد بازاری‘ سرمایہ کاری میں کمی‘ پیداوار میں جمود اور ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے۔ گلوبلائزیشن ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مسائل کا سبب ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی معیشت میں اعتماد اور پیداآوری عمل کو متحرک کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے مگر جس طرح معیشت کے میدان میں خوف اور بے اعتمادی کی فضا پروان چڑھائی گئی اس میں کساد بازاری کے سوا کوئی اور حالت رونما نہیں ہوسکتی۔ ٹیکس کلچر بہت اہم ہے مگر تجارت کو خوف و ہراس کے ذریعے مندی کا شکار کر کے ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کی توقع خام خیالی ہے۔ معیشت کی دستاویز بندی بھی مفید ہے مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ پوری تجارتی برادری سے محاذ آرائی کی جائے۔ ٹیکس کلچر کا اگر ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر صاحب حیثیت فرد ٹیکس دے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیکس منصفانہ ہوں‘ حکومت ٹیکس کی آمدنی شفاف طریقے پر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہو‘ اور ٹیکس دینے والوں کو قانونی تحفظ اور سماجی مرتبہ حاصل ہو۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے والوں کے حقوق کا بھی اسی طرح تعین اور تحفظ ہوتا ہے جس طرح ٹیکس کے مطالبات کا۔ لیکن موجودہ حکومت نے محض ڈنڈے کے زور پر ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی کوشش کر کے معاشی اعتماد کو مجروح اور تجارتی فضا کو بھی مکدّر اور مسموم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے؟ یہ حالات تو سرمایے کے فرار اور انخلا ہی کا باعث ہو سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ معیشت ٹھٹھر گئی ہے اور اس میں زندگی اورحرارت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتاہے؟
غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف: سب سے پہلے غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف اور اس سے نجات ضروری ہے۔ اور یہ کام موجودہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں ممکن نہیں ہے۔ اس کا وژن‘ اس کا تجربہ و صلاحیت‘ اس کے مفادات سب اس حکمت عملی کے اسیر ہیں جس نے ہمیں تباہی کے اس غار تک پہنچایا ہے۔ یہ کام ایک نئی قیادت اور ایک نئی ٹیم ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جن کا عوام سے گہرا رابطہ ہو‘ جو ان میں سے ہو‘ ان کے درمیان زندگی گزارتی اور ان کے مسائل‘ مشکلات‘ عزائم اور ترجیحات سے واقف ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہو۔ درآمد شدہ ماہرین یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے نظام حکومت بھی وہ ہونا چاہیے جو جمہوری اقدار اور اصولوں کا پابند ہو‘ جو حقیقی مشاورت کے ذریعے فیصلے کرے اور پالیسیاں اور قوانین بنائے۔
معاشی ترقی کا صحیح تصور : دوسری بنیادی چیز معاشی ترقی اور استحکام کا صحیح تصور ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی نقالی اور ان کی مکھی پر مکھی بٹھانا کوئی ترقی نہیں۔ ترقی وہی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ملک کے وسائل کا موثر استعمال ہو‘ خود انحصاری کی بنیاد پر ملک اس لائق بنے کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے‘ پیداوار بڑھائی جا سکے‘ روزگار کے مواقع فراہم ہوں‘ معیارِ زندگی اور معیارِ اخلاق میں اضافہ ہو اور معاشی جدوجہد کے ثمرات سے معاشرے کے تمام افراد بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کے لیے بالکل نئے وژن اور نئی ترجیحات کی ضرورت ہے اور ان میں پہلی اور سب سے اہم بات بیرونی قرضوں سے نجات اور اندرون ملک سودی معیشت سے مکمل گلوخلاصی ہے۔
موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ : حکومت کو ایک واضح قانون کے ذریعے اس استحصالی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی راستہ خود انحصاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے دَور کے مسائل ہوں گے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی ترقی و استحکام کا راستہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سود کا خاتمہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔یہ فیصلہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں آیا تھا اور آج تک نہ اسٹیٹ بنک کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اور نہ وزارت مالیات اور وزارت قانون کی ٹاسک فورسز کی رپورٹیں۔ قوم کو تیار کرنے کے لیے نئے مالیاتی آلات (instruments)کی تشہیر و تعلیم‘ متبادل قوانین کے مسودوں کی اشاعت کہ ان پر بحث و گفتگو ہو سکے‘ سرکاری اور بنک کاری اداروں کے عملے کی تعلیم و تربیت--- کسی سمت میں بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سرکاری اداروں سے متعلق اہم شخصیات اب عدالت سے وضاحتیں حاصل کرنے اور مزید مہلت کی باتیں کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے سوا سال میں وضاحت طلب کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ آخری تاریخ کا انتظار کس خوشی میں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے جن دوسرے اہم اداروں کے قیام کا مشورہ دیا تھا ان کے بارے میں کوئی پیش رفت آج تک کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی شریعت بنچ موجود بھی ہے یا نہیں؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی عوام کو اور خود خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے کی مجرمانہ کارروائی میں مشغول ہے۔ اس طرح تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب سود پر مبنی قرضوں کی معیشت کے دن ختم ہو گئے۔ اس خطرناک راستے پر جتنا آگے بڑھیں گے‘ دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ممکن ہی نہیں کہ ایک واضح لکیر کھینچ کر ماضی کے فاسد نظام کا باب ختم کر دیا جائے اور بالکل نئے آغاز کا اہتمام کیا جائے۔ ڈیفالٹ (default)سے ڈرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ڈیفالٹ نہیں دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔
قرضوں کی معافی: بیرونی قرضوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ کا جو خوف ناک نقشہ اسٹیٹ بنک کے گورنر صاحب نے کھینچا ہے وہ حقیقی سے زیادہ تخیلاتی ہے۔ ہم خود ڈیفالٹ کے حق میں نہیں اور ایک متبادل حکمت عملی کو قابل عمل سمجھتے ہیں لیکن ڈیفالٹ کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کرنا بھی صحیح نہیں۔ ۱۹۸۰ء میں جنوبی امریکہ کے ۱۳ ممالک نے عملاً ڈیفالٹ کیا اور کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ورلڈ بنک اور عالمی مالی اداروں نے ۱۳۰ سے زیادہ قرضوں کی وصولی کے لیے نیا نظام الاوقات دیا ہے۔ آج بھی روس بار بار ڈیفالٹ کر رہا ہے اور عالمی ادارے مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور قرض کی معافی کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی G-7نے سویت دور کے قرضوں میں سے ۳۸ بلین ڈالر کے نصف کی معافی کی بات کی ہے اور باقی کے لیے ۳۰ سال میں ادایگی کی بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم خود ۱۹۷۲ء میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور اب بھی عملاً بروقت ادایگی نہ کر کے کئی بار چھوٹے موٹے ڈیفالٹ کر چکے ہیں جو مذاکرات کے پس منظر میں چھپ گئے۔ اس وقت دنیا میں قرضوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم چل رہی ہے اورG-7 نے کولون‘ لندن اور پیرس کی کانفرنسوں میں ۶۱ ملکوں کے ۱۰۰ بلین ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کی جو ذمہ داری ’’برے قرض‘‘ (bad loans) دینے اور کرپٹ قیادتوں کے تحفظ کے لیے قرض دینے کے باب میں ہے اس سے وہ کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ قرض کی معافی کے حوالے سے قرض کی ادایگی کی صلاحیت کے سلسلے میں جو معیار زیربحث ہیں ان سے ہم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم مضبوطی کے ساتھ یہ موقف اختیار کریں کہ:
۱- آیندہ کوئی قرض نہیں لیں گے خواہ کسی بھی عنوان سے ہو۔
۲- محض قرض لے کر قرض ادا نہیں کریں گے۔
۳- اپنی برآمدات کا ایک خاص فی صد (مثلاً ۱۰ فی صد) قرض کی ادایگی کے لیے مخصوص کرنے کو تیار ہیں‘ لیکن معقول مہلت کی ایک مدت کے بعد۔
۴- موجودہ قرض کو منجمد کر دیا جائے اور ادایگی کے لیے ۵ سے ۱۰ سال کی مہلت (moratorium) حاصل کی جائے۔ اس کے بعد برآمدات کے ایک خاص تناسب سے ادایگی شروع کی جا سکتی ہے۔
۵- قرض کی معافی کے سلسلے میں جو معیار دوسرے ممالک کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اطلاق ہم پر بھی کیا جائے۔ قرض کی معافی کے لیے بات چیت میں سبکی کاکوئی پہلو نہیں۔ قرض کی بھیک مانگنے میں اگر کوئی سبکی نہیں تو قرض کی معافی کی بات چیت میں سبکی کیوں ہو؟ اگر روس یہ کام کر رہا ہے اور ۵۰ دوسرے ممالک کر رہے ہیں تو ہمیں کیوں عار ہو؟ غلط قرض لے کر جو جرم ہم نے کیا ہے قرض دے کر وہی غلطی دوسروں نے بھی کی ہے۔ ہمیں ان معاملات میں ڈٹ کر معاملہ (bargain)کرنا چاہیے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے لیے قرض کے باب کو بالکل بند کر دیا جائے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود مضبوط ہوں‘ قوم ہمارے ساتھ ہو‘ جو بھی قربانی دینا پڑے اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں‘ اس کی ایک اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے جسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہماری معیشت کا ۱۵‘ ۱۶ فی صد (کل درآمدات + برآمدات) بیرونی دبائو سے متاثر ہو سکتا ہے‘ باقی معیشت خودکفیل ہے۔ اگر دوسرے ممالک پابندیوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں (جو بظاہر ممکن نہیں) تو بھی ہم مقابلہ کر سکتے ہیں اور نقد ادایگی پر درآمدات کے نتیجے میں خود انحصاری کا حصول کر سکتے ہیں۔ نیز ایسی صورت حال قوم میںمقابلے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے جو ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے۔
نئی معاشی حکمت عملی : جس انقلابی راستے کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں اس میں اللہ پر بھروسے کے بعد عوام کو اعتماد میں لینا اور ان کے تعاون اور شرکت سے نئی معاشی حکمت کی تشکیل اور اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اس حکمت عملی میں زراعت کی ترقی کو اوّلیت حاصل ہوگی۔ چھوٹی اور وسطی درجے کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ تعمیراتی صنعت جو بلاواسطہ ۴۰ دوسری صنعتیں اور پیشوں کو متاثرکرتی ہے ایک عمل انگیز (catalyst) کے طور پر موثر ہو سکتی ہے۔ جرمنی نے ۱۹۳۰ء میں اور چین نے ۱۹۵۰ء میں اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے اور ہم بھی یہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نج کاری کا کام بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جانا چاہیے‘ اس میں قومی سلامتی‘ عوام کی ضروریات‘ اجرتوں کے منصفانہ نظام‘ صارفین کے حقوق اور روزگار کے استحکام کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ نئی صنعتی پالیسی وضع کرنا ہوگی‘ جو ملک کے حالات اور ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ تقسیم دولت اور پیداواری عمل میں عوامی شرکت بھی پالیسی کے اہم موضوع ہیں۔ آج بھی جب وفاقی بجٹ میں بہ مشکل ۴ فی صد تعلیم‘ صحت اور سماجی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے‘ نجی شعبے میں زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے ۶۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ معاشرے کے محروم گروہوں اور اچھے کاموں کی مدد کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اگر اس کام کو منظم طور پر اور مناسب ترغیبات کے ساتھ کیا جائے تو غربت کے خاتمے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
معیشت میں ریاست کے کردار پر بھی واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ نجی شعبہ اہم ہے اور مرکزی اہمیت کا حامل‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک موثر سرکاری شعبہ بھی ضروری ہے۔ محض سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوبیت یا لبرلزم کے چلن کی وجہ سے اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں۔ پھر سرکاری شعبے کے یہ معنی نہیں کہ اسے بیوروکریٹس یا سیاست دان چلائیں۔ ملکیت اور انتظامیات ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ بہت سے معاملات میں ریاست کو مالکانہ اختیار دینا ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ البتہ ان اداروں کا انتظام بھی تجارتی مہارت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے احتساب کا موثر نظام بھی واضح کیا جا نا چاہیے۔ خود مغربی ممالک میں جہاں نج کاری کا کام بڑے زور شور سے ہوا ہے وہاں نگرانی ‘کارکردگی اور خدمت کے پہلوئوں سے احتساب کا موثر نظام بنایا گیا ہے اور مطلوبہ معیار پورا نہ کرنے پر شدید گرفت اور سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ایک صحیح لیبر اور روزگار پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ ہیلتھ پالیسی اور اساسی ڈھانچے (infra structure) کی فراہمی کے بارے میں طویل مدت کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک انقلابی حکمت عملی میں ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
یہ ہے وہ کام جو کرنے کا ہے لیکن یہ کام موجودہ انتظامیہ کے بس کا نہیں۔ اس کے لیے صحت مند جمہوری عمل کو بروے کار لانے اور زمام کار بلند ہمت‘ خدا ترس اور اعلیٰ قیادت کی حامل اچھی قیادت کو سونپنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج بڑا حقیقی اور گھمبیر ہے ‘ اس چیلنج کا مقابلہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ مغرب کی کورانہ تقلید اور سابقہ حکومتوں کی تباہ کن پالیسیوں کو نئے قالب میں ڈھال کر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے نئے وژن‘ مخلصانہ اور ایمان دارانہ قیادت‘ باصلاحیت افراد کار‘ جمہوری طرزِ حکومت‘ عوامی شرکت کے موثر نظام‘ شفاف احتساب اور مضبوط اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام صرف معاشی خوش حالی ہی کے لیے ضروری نہیں‘ یہ ملک کے نظریے اور اس کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج ملک جس خطرناک موڑ پر آگیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ غلط راستے پر اٹھنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور صحیح راستے کی طرف قوم کو سرگرم عمل کیا جائے۔ وقت کامنادی فرش اور عرش سے پکار رہا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
کشمیر کی تحریک جہاد ایک بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں‘ امریکی سیاست کاروں اور خود ہماری قیادت کی طرف سے جس نوعیت کے سگنل مل رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ عالمی رجحانات‘ سامراجی سیاست کے پیچ و خم اور خود ملکی حالات کی روشنی میں تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور ان خطرات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک کو درپیش ہیں۔ نیز ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کیے جائیں تاکہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھایاجا سکے۔
مذاکرات‘ مگر کس قیمت پر: کشمیر کا مسئلہ محض کسی زمین اور علاقے کا جھگڑا نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت اور سوا کروڑانسانوں کی آزادی‘ سلامتی اور ان کے نظریاتی اور دینی مستقبل کا سوال ہے۔ جس اصول پر اور جس فارمولے کے تحت ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت انگریزی اقتدار سے آزاد ہوئے ہیں‘ انھی کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر ہوتا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے قول و قرار کے علی الرغم ریاست کے بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور ۵۳ سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ظلم کے شکنجے میں کس کر تعذیب کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے‘ جن کی عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والی ہے‘ اس سامراجی قبضے کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ وہ روزِ اوّل سے اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۴۷ء میں مسلم کانفرنس نے ‘ جو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی‘ کھلے بندوںپاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور جب ڈوگرہ حکمرانوں اور بھارت کی قیادت نے سازش کے ذریعے ان پر فوج کشی کے ذریعے بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے عملی بغاوت کے ذریعے ریاست کے ایک تہائی حصے کو آزاد کرا لیا۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں اور عالمی ادارے کے تحت جنگ بندی اور استصواب کے وعدے کے بعد مزاحمت کی تحریک عوامی سیاسی جدوجہد کی شکل میں جاری رہی لیکن جب جبر و ظلم کے نظام نے ایسی صورت پیدا کر دی کہ عملی جہاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ۱۹۸۹ء سے جہاد کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔اسی جہاد کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کے حکمران کسی حل کی بات کرنے لگے ہیں‘ گو اپنی روایتی مکّاری اور چال بازی کے ساتھ۔ اس پورے زمانے میں عالمی رائے عامہ اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مفاد پرستی اور سامراجی عزائم نے بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور ضمیر پر بے حسّی طاری کیے رکھی۔ بھارت کی ۷ لاکھ افواج کے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔ پاکستانی قوم اور حکومتوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں مقدور بھر ان کا ساتھ دیا اور یہ کشمیری مجاہدین کی قربانیاں اور مسلمانان جموں و کشمیر کے صبر واستقلال کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کو ’’رمضان‘‘ اور ’’جنگ بندی‘‘ کا احساس ہونے لگا ہے ورنہ‘ نہ رمضان اس سال پہلی مرتبہ آیا ہے اور نہ جہاد کا آغاز سنہ ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے اور نہ حریت کانفرنس کوئی نئی مخلوق ہے جس کی دریافت (وہ بھی جزوی اور selective) اب ہو رہی ہے!
پاکستانی قوم اور کشمیری مسلمان دل و جان سے امن کے خواہاں ہیں لیکن امن محض حالت جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں۔ امن تو حق و انصاف ہی کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جنگ بندی نہیں‘ ان اسباب اور حالات کو تبدیل کرنا ہے جن سے مجبور ہو کر مسلمانان جموں و کشمیر بھارت کی فوجی یلغار کے خلاف جہاد بستہ ہوئے ہیں۔ بھارت کی دل چسپی صرف جہادی دبائو سے نجات میں ہے‘ جب کہ جہادی اور عوامی قوتوں کا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے تاکہ ا ہلِ کشمیر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے بین الاقوامی اہتمام میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کر سکیں۔ اس طرح اصل ایشو یہ نہیں کہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات تو پچھلے ۵۰ برسوں میں بارہا ہو چکے ہیں اور لاحاصل رہے ہیں۔ مذاکرات وہی مفید ہو سکتے ہیں جو اصل مسئلے کے بارے میں ہوں اور اس فریم ورک میں ہوں جو مسئلے کے حل پر منتج ہو سکیں۔ پاک بھارت تعلقات کی ۵۰ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے جنگ بندی یا مذاکرات کا سہارا صرف اسی وقت لیا ہے جب اس پر دبائوناقابل برداشت ہوا اور محض اس دبائو سے نجات کے لیے یہ حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۲ء میں بھارت نے یہی کھیل کھیلا تھا اور اقوام متحدہ اور امریکہ اور برطانیہ نے اسے وہ چھتری فراہم کی جس کے تحت اس نے پناہ لی۔ تاشقند اور شملہ کے معاہدات میں مذاکرات کے راستے مسئلہ کشمیر کے حل کا وعدہ کیا گیا مگر ۳۵ اور ۲۸ سال محض طفل تسلیوں میں گنوا دیے گئے اور کوئی نتیجہ خیز بات چیت واقع نہ ہو سکی۔ ان سارے تجربات کی روشنی میں اگر کسی قابل عمل نظامِ کار کے بغیر محض امریکہ کے اثر و رسوخ یا بھارت کے وعدوں کی بنیاد پر جہادی دبائو کو ختم یا کم کیا گیا تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور اپنے اور دنیا کے دوسرے تجربات کی روشنی میں موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔
تشویش کے پہلو : مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور آیندہ کے خطرات اور امکانات کی تفہیم کے لیے سب سے پہلے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
اوّل: اصل مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل اور مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی
’’اٹوٹ انگ‘‘ کی رٹ کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے اقوام متحدہ ‘ یوروپین یونین‘ او آئی سی سب نے متنازع تسلیم کیا ہے‘ خود بھارت نے ماضی میں تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازع تسلیم کرا لیا ہے۔ پھر معاملہ لائن آف کنٹرول اور اسے بین الاقوامی سرحد بنانے کا نہیں‘ بلکہ پوری ریاست جو ایک سیاسی اکائی تھی اور ہے‘ اسے اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع فراہم کرنے کا ہے۔ اس طرح اس تنازع کے چار فریق ہیں: بھارت‘ پاکستان‘ کشمیری عوام اور اقوام متحدہ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جس کے ذریعے کشمیری عوام اپنا مستقبل طے کر سکتے ہیں۔ سہ فریقی مذاکرات ضروری ہیں لیکن ان کا مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے مطلوبہ اقدام ہونا چاہیے‘ کسی نئی بحث کاآغاز یا کسی نئے سامراجی کھیل کی صف بندی نہیں۔
دوم: ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آج بھارت ‘ اور خصوصیت سے اس کی بی جے پی کی متعصب قیادت کسی درجے میں بات چیت کا عندیہ دے رہی ہے تو اس کی وجہ نہ دل کی تبدیلی ہے اور نہ دل کی آرزو میں کوئی تغیر۔ یہ محض ان معروضی حالات کا نتیجہ ہے جو جہادی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں اور جن کے تین پہلو ہیں:
۱- ۵۳ سال تک جبری قبضے اور گذشتہ بارہ سال میں خصوصی طور پر غیر معمولی عسکری قوت کے بے محابا استعمال اور ۷۰‘ ۸۰ ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل کے باوجود بھارت محض عسکری قوت سے اہل جموں و کشمیر کو دبانے میں ناکام رہا ہے اور اب ہر سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی صورت میں اور کسی شرط پر بھی رہنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے لیے مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں۔ اس کی فوجی قیادت بار بار اس کا برملا اعلان کر رہی ہے‘ اور خود فوج کے بارے میں جو رپورٹیں آرہی ہیں وہ صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ فوج میں بغاوت‘ اضطراب‘ نفسیاتی دبائو‘ بے اطمینانی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ملک میں بحیثیت مجموعی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ محض قوت سے کشمیر کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ نیز معاشی اعتبار سے یہ کھیل روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشہور ماہنامہ سیمی نار نے اپنا دسمبر ۲۰۰۰ء کا پورا شمارہ کشمیر میں پائے جانے والے ان زمینی حقائق کے لیے مخصوص کیا ہے۔ دی ہندو‘ ہندستان ٹائمز اور فرنٹ لائنکے مضامین اس بڑھتے ہوئے احساس کا مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف سطح پر کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طرح جہادی دبائو ختم ہو جائے اور پھر کوئی ایسا کھیل کھیلا جا سکے جس کا سیاسی فائدہ بھارت کو ہو‘ اور اہل کشمیر کسی دوسرے جال میں پھنس جائیں۔ نیز پاکستان کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ صرف جہادی دبائو اور کشمیر کو قبضے میں رکھنے کی قیمت کا ناقابل برداشت بنتے جانا ہے جو بھارت کو مذاکرات کی طرف لا رہا ہے اور مزید لائے گا۔
۲- پاکستان کا اس مسئلے کے بارے میں مضبوط اصولی‘ موقف اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا کھل کر ایک نیوکلیر قوت بن جانا ہے جس کی وجہ سے بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنگ کے دائرے کو بڑھا کر وہ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔
۳- عالمی رائے عامہ کا نیا رجحان اس علاقے کو نیوکلیر جنگ کے خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے اسے کشمیر کے مسئلے میں دل چسپی پر مجبور کر رہا ہے۔ دنیا کا ضمیرسو رہا تھا۔ یہ صرف نیوکلیر استعداد کا اظہار تھا جس نے پی-۵ اور جی-۷ اورسلامتی کونسل اور خصوصیت سے امریکہ کو اس مسئلے میں دل چسپی لینے پر مجبور کیا اور جس کا اظہار حال ہی میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ہنری ہیوگ شیلٹن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ: ’’ایشیا کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کی اونچی سرحدوں‘ ٹوکیو کے اسٹاک ایکسچینج کے فلور اور شنگھائی اور ہانگ کانگ کے خصوصی اقتصادی خطوں میں ہوگا‘‘۔ اس احساس کے باوجود کوشش یہ نہیں ہے کہ اصل مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے بلکہ کوشش یہی ہے کہ کوئی ایسا متبادل راستہ نکال لیا جائے جس سے مسئلہ تحلیل (diffuse) ہو جائے۔لیکن بہرحال عالمی دبائو ایک عامل کی حیثیت سے رونما ہو رہا ہے اور اگر جہادی دبائو جاری رہتا ہے اور پاکستان کوئی کمزوری نہیں دکھاتا تو یہ عالمی دبائو بھی لازماً بڑھے گا۔ وقت جہاد کشمیر کی تحریک کے حق میں ہے۔
ان تینوں عوامل کا نتیجہ ہے کہ بھارت‘ امریکہ اور متعلقہ حلقوں میں کسی نہ کسی حل کی تلاش کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان پر روز بروز دبائو بڑھ رہا ہے جسے خصوصیت سے دو وجوہ نے تشویش ناک بنا دیا ہے۔ ایک پاکستان کی معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے۔ قرضوں کا بوجھ‘ مہنگائی کا طوفان‘ بے روزگاری کا سیلاب‘ بیرونی پابندیوں کی کاٹ‘ ان سب کا فائدہ اٹھا کر ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک حکومت کو گھیرنے اور کارنر کرنے میں مصروف ہیں اور پھر فوجی حکومت اپنی بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ دربدر کی ٹھوکریں کھائی جا رہی ہیں‘ مجرموں کو فرار کی راہیں دکھائی جا رہی ہیں‘ امریکہ کی خوشنودی کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ میٹنگیں کر رہے ہیں۔ اگرچہ چیف ایگزیکٹو نے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف پر قائم رہنے کا بار بار اعلان کیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا‘ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کنٹرول لائن سے فوجوں کی واپسی‘ بھارت کی نام نہاد یک طرفہ جنگ بندی (جب کہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے) کے اعلان پر maximum restraint (انتہائی صبروتحمل) کا اعلان‘ ملک میں جہادی تنظیموں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش‘ بھارت سے تجارت کی پینگیں بڑھانے کی سعی‘ حریت کانفرنس کو بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کی شہہ‘ وزارت خارجہ کے ترجمان کا حریت کانفرنس کو ایک قسم کے مینڈیٹ دینے کا اعلان‘ وزیر خارجہ کے پھسپھسے اور ڈانواں ڈول بیانات‘ اعلان لاہور سے نئی وابستگی اور بھارت کی طرف سے ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی کرنے والے سابق فوجیوں‘ دانش وروں اور خواتین کی یلغار اور خود ہماری طرف سے نیازنائیک اور ڈاکٹر مبشر جیسے حضرات کی بھاگ دوڑ اور مخصوص دانش وروں اور کالم نگاروں کا ’’لچک‘‘ (flexibility) اور ’’حقیقت پسندی‘‘ (realism) کا درس --- یہ سب وہ چیزیں ہیں‘ جو تشویش میں اضافہ کرتی ہیں اوراصولی موقف کو کمزور کرنے والی ہیں۔
اوسلو ماڈل : اس پورے تناظر میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو اوسلو عمل (Oslo process) کہا جاتا ہے وہ ہے کیا؟ اور اس کے مسئلہ کشمیر کے لیے کیا مضمرات ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے کی طرح اقوام متحدہ کا عطیہ اور ۵۲ سال پرانا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں کے سلسلے میں تین بار جنگ کی نوبت آ چکی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ فلسطین کے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۷ء میں مکمل بالادستی اور ۱۹۷۲ء میں جزوی بالادستی رہی جب کہ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں ضرور شکست ہوئی مگر ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۸۷ء کی جنگی مشقوں اور ۱۹۹۸ء میں نیوکلیر استعداد کے اظہار کے نتیجے میں ہماری اور عربوں کی عسکری کارکردگی (performance) بڑی مختلف رہی ہے اور الحمدللہ پاکستان ایک مستحکم پوزیشن میں ہے جو بھارت کی کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک دفاعی حصار ہے۔
کیمپ ڈیوڈ کا عمل ۱۹۷۸ء میں اور اوسلو ۱۹۹۳ء میں شروع ہوا اور ۲۰۰۰ء میں عملاً اس پورے کھیل نے دم توڑ دیا اور بالآخر فلسطینیوں کو انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز کرنا پڑا جس نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے‘ اور اسرائیل کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر نوجوان کے پتھروں کے آگے بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کے اہم پہلوئوں کی مختصر وضاحت کردی جائے تاکہ فلسطین کے اس تجربے سے سبق لیا جا سکے جسے کیمپ ڈیوڈ / اوسلو عمل کہا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱- مسئلہ فلسطین کے ایک جامع اور ہمہ جہتی حل (comprehensive solution) کے بجائے قدم بہ قدم (step by step) اور ایک ایک جزو کو الگ الگ لے کر (piecemeal) مرکزی مسئلے/ مسائل کے حل کی طرف مراجعت کی جائے۔ مرکزی مسئلے اور مستقل حیثیت کو سب سے آخر میں لیا جائے۔ اعتماد قائم کرنے والے اقدام کیے جائیں۔ زمین کے ٹکڑوں کے بدلے امن کی ٹکڑیاں حاصل کی جائیں اور اسی طرح ایک لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ کوئی حل نکالا جائے۔
۲- اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کو پس پشت رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے نئے حل تلاش کیے جائیں۔
۳- عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں کو باہر رکھا جائے۔ صرف اسرائیلی اور فلسطینی مسئلے کا حل نکالیں۔ صرف امریکہ مددگار اور مصالحت کا کردار ادا کرے۔ دوسرے عرب ممالک کو ایک ایک کر کے الگ کر دیا جائے۔ البتہ ان سب ممالک سے اسرائیل کے الگ الگ معاہدے ہوں۔ ان سے اسرائیل کے امن معاہدے ہو جائیں اور اسرائیل کے جواز کو وہ قبول کر لیں۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں اور اس طرح فلسطینیوں اور مسئلہ فلسطین پوری عرب اور اسلامی دنیا سے کاٹ کر ایک کونے میں لگا کر تنہا کر دیا جائے۔ اس طرح فلسطین کے حل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ مسئلے کو دو فریقی مذاکرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جنھیں اسرائیل جس طرح چاہے جوڑ توڑ کر کے اپنے حق میں استعمال کرے۔
۴- فلسطینی ریاست کا قیام‘ بیت المقدس کی حیثیت اور حاکمیت اعلیٰ (sovereignty) کے مسائل کو مؤخر کیا جائے اور ساری توجہ محدود بلدیاتی اختیارات‘ جزوی کنٹرول اور معاشی ترقی و تجارت پر مرکوز کی جائے۔
۵- ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ اس کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داری ہو کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کی ضامن بنے اور جہادی قوتوں کو قابو میں کرے۔ آزادی کی تحریک کو تشدد (terrorism)قرار دے کر‘ امن اور اسرائیل کے تحفظ کو سلامتی کی مشترک حکمت (joint security strategy) کے تابع کیا جائے۔
۶- امن کے اس طویل عمل کے دوران اسرائیل کو یہ موقع حاصل رہا کہ عربوں کے علاقوں میں نئی نئی آبادیاں بنا لے اور پورے فلسطین کے ۷۸ فی صد پر تو اسے پہلے ہی (یعنی ۱۹۷۶ء سے قبل سے) مکمل قبضہ اور حاکمیت حاصل ہے البتہ رہے سہے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ۲۲ فی صدمیں سے بھی پہلے صرف ۳ فی صد اور پھر آہستہ آہستہ مزید ۲۷ فی صد پر صرف قبضہ (بغیر حاکمیت) فلسطینیوں کو دیا جائے۔ عملاً اس وقت بھی مغربی کنارے پر ۴۰ فی صد اور غزہ کی پٹی میں ۸۰ فی صد فلسطینیوں کے تحت آیا ہے۔ باقی پر اسرائیل ہی کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میںاسرائیلی آبادکاروں (settlers) کی تعداد میں کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کے معاہدوں کے بعد ۲ لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ نیز تمام سڑکوں اور راستوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ ہے قدم بہ قدم حل کی عملی شکل!
۷- ہر نئے مرحلے پر فلسطینیوں سے نئی مراعات (concessions) کا مطالبہ۔
۸۔ فلسطینیوں کی اسرائیل پر سیاسی‘ عسکری اور معاشی محتاجی (dependence)۔
۹- پہلے آخری سمجھوتے کے لیے ۱۹۹۹ء کی حد طے کی گئی تھی مگر اب آخری مراحل کو مزید تین سے
چھ سال کے لیے مؤخر کرنا اور کیمپ ڈیوڈ کے ۲۲ برس بعد بھی اصل مسئلے یعنی فلسطینی حاکمیت‘ بیت المقدس کی حیثیت اور ۵۰ لاکھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کے مسئلے کو لٹکائے رکھنا۔
۱۰- اس پورے عمل میں نئے نئے تصورات پیش کیے گئے ہیں مثلاً اقتدار بغیر حاکمیت اعلیٰ(control without sovereignty)‘مشترک حاکمیت اعلیٰ (joint sovereignty) ‘منقسم حاکمیت اعلیٰ (divided sovereignty) ۔حالانکہ یہ سب محض خوش نما الفاظ اور صریح دھوکہ ہیں۔
دو عشروں کے تجربات کے بعد فلسطینیوں کو اور خود مغربی اقوام کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ تجربہ صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا اور عربوں کو شکست اور ہزیمت کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حال ہی میں خود شیرون نے اعلان کیا ہے کہ ’’اوسلو اب مردہ ہے‘‘ (Oslo is dead!)۔ چند مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی قابل ملاحظہ ہے۔
رابرٹ فسک (Robert Fisk) لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا شرق اوسط کا نمایندہ ہے اور عالمی سیاست کا ایک ماہر شمار ہوتا ہے وہ لکھتا ہے:
یہ سال تھا کہ جھوٹ بالکل واضح ہو گئے۔ امن کا عمل (peace process)‘ پس قدم (back track)‘ متنازع (disputed) اور ایک طرح کی حاکمیت اعلیٰ (sort of sovereignty) کی اصطلاحیں اتنی ہی بے معنی ثابت ہوئیں جتنا کہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال امریکی محکمۂ خارجہ کے سفارت کاروں اور صحافیوں نے کیا۔ اوسلو کے معاہدہ امن کی ناانصافی‘ عرب سرزمین پر مسلسل جاری قبضہ‘ عربوں کو مشرقی یروشلم واپس کرنے سے اسرائیل کا صاف انکار‘ عرب سرزمین پر یہودی آباد کاری کی پُرجوش توسیع بالآخر اس سب کے خلاف فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے (۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
ایک عیسائی فلسطینی مصنف اور دانش ور پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said) بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا:
فلسطینیوں کی حیثیت سے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ اس اوسلو باب کو جتنی تیزی سے ممکن ہو‘ بند کر دیں اور اپنے اصل کام کی طرف لوٹ آئیں جو آزادی کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو اہداف سے قریب تر اور اپنے طریقۂ کار میں واضح ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کو اس لیے شکست ہوئی کہ کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی اس کے خلاف لڑائی لڑی (روزنامہ ‘ ڈان‘ جنوری ۸‘ ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے مسئلے کا حل اوسلو نہیں‘ انتفاضہ ہے۔ دی گارڈین کا شرق اوسط کا نمایندہ پوری عرب دنیا کا فیصلہ یوں بیان کرتا ہے:
اس دوسری انتفاضہ نے کئی برسوں میں پہلی بار فلسطینیوں کو موقع دیا ہے کہ اسرائیل سے اقدامی کارروائی(initiative) چھین لیں۔ اس طرح اب فلسطینی قیادت زیادہ توانا بھی ہے اور زیادہ متحمل بھی۔ فلسطینی بالعموم اور خاص طور پر بعض زیادہ انقلابی نوجوان رہنما اور بنیاد پرست بھی‘ سب
حالیہ مہینوں کی قربانیوں کے بعد زیادہ پُرعزم ہیں کہ ایسی کوئی چیز قبول نہ کریں جو ایک سیل آئوٹ (sell out)سمجھی جائے (دی گارجین مارٹن‘وولاکاٹ‘ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے بارے میں اوسلو کا یہ حشر اور انتفاضہ کا پُرجوش احیا کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے بھی ایک انتباہ اور جہادی تحریک کے تحفّظ اور ترقی کے لیے ایک نشان راہ ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یازک رابن کی بیوی لیہ رابن (Leah Rabin) نے اپنے شوہر کی سوانح (Rabin: Our life, His Legacy) میں صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ رابن نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف عرب انتفاضہ کے خلاف جبر و قوت کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیل ایک ایسی قوم پر حکمرانی نہیں کر سکتا جو اس کے اقتدار میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو اور یہی وہ چیز ہے جس نے اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا قائل کیا۔
تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ صرف آزادی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہی آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے: لا یقطع الحدید الا الحدید۔ یعنی لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ جہاد ترک کر کے مذاکرات لاحاصل ہوتے ہیں۔ جہاد کمزور کر کے آپ دشمن کے لیے صرف تر نوالا بن سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کا عسکری دبائو موثر ہو‘ اصولی موقف مضبوط ہو‘ آپ کی صفوں میں اتحاد اور آپ کی فکر میں پختگی ہو تو مذاکرات کی میز پر بھی آپ غالب اور کامیاب رہ سکتے ہیں ورنہ جنگ کے میدانوں میں حاصل کی ہوئی بالادستی امن کے مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل سکتی ہے۔
مسئلہ کشمیر میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اور اس کے ساتھ امریکہ کی بھارت سے دوستی اور روز افزوں تزویری شراکت (strategic partnership) حتیٰ کہ نیوکلیر تجربے کے بعد عائد ہونے والی پابندیوں میں تخفیف (جب کہ پاکستان پر یہ پابندیاں اور بھی سخت کر دی گئی ہیں) اور بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اور ان کے درمیان معاشی ہی نہیں عسکری اور خفیہ معلومات کے امور میں تیزی سے اضافہ‘ اہم شخصیات کے دورے‘ اور نام نہاد تشدد کے خلاف تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی تیاری کے پس منظر میں کشمیر پر اوسلو عمل مسلّط کرنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ فلسطینی تو اوسلو کو دفن کر رہے ہیںاور کچھ کشمیری اور پاکستانی دانش ور اوسلو عمل کے پرچارک بن رہے ہیں۔ آج فلسطین کا چپہ چپہ اور اہل فلسطین کا ہر ہر زخم پکار پکار کر کہہ رہا ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
پس چہ باید کرد: پاکستانی حکومت‘ قوم اور کشمیری قیادت اگر اس سبق کو سمجھ لے اور بھارت سے اوسلو نہیں‘ جہاد کی قوت کے سائے تلے اپنے حقوق حاصل کرنے کی بات کرے تو ان شا ء اللہ کامیاب ہو گی۔ عرب نیوز کے نمایندے نے سری نگر کے ایک ۲۱ سالہ نوجوان طالب علم الطاف حسین کا بھارت کی یک طرفہ جنگ بندی پر تبصرہ شائع کیا ہے جو ہماری وزارت خارجہ اور بہت سے دانش وروں کی نکتہ سنجیوں پر بھاری ہے:
بھارتی حکومت کے اقدام کو کشمیری گروپوں نے جس طرح حقارت سے ٹھکرایا ہے‘ الطاف حسین نے اس کی بڑی تحسین کی ہے: ’’ہماری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی اقدام کا یہ بہت اچھا توڑ ہے۔ ہمارے لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بھارت پر بھروسا نہ کریں‘‘ (عرب نیوز‘ نومبر ۲۴‘ ۲۰۰۰ء)۔
ہم حکومت‘ وزارت خارجہ‘ مجاہد رہنمائوں اور حریت کانفرنس کے قائدین کو یہی مشورہ دیں گے مذاکرات ضرور کریں مگر:
--- فلسطینیوں کے اوسلو تجربے سے سبق سیکھ کر‘
--- جہادی دبائو کو مطلوبہ سطح پر برقرار رکھ کر‘
--- اپنے اتحاد اور سیاسی قوت کو مجتمع رکھ کر‘
--- اپنے اصولی موقف پر مضبوط رہ کر‘
--- اپنی قانونی اور سیاسی بنیاد سے انحراف کیے بغیر‘
--- اپنے عوام کو اعتماد میں لے کر ‘اور
--- جزوی‘ قدم بہ قدم طریقے کے بجائے اصل اور مرکزی مسئلے پر توجہ مرکوز کر کے‘
___ ایک جامع اور مکمل پیکج پر
___ اور دو فریقی نہیں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے!
ہمیشہ یاد رکھیے:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
پاکستان کی ۵۳ سالہ تاریخ میں قومی سطح پر ہماری قیادتوں نے غلطیاں‘ زیادتیاں‘ قانون کی خلاف ورزیاں اور مظالم‘ تو بے شمار کیے ہیںلیکن یہ سانحہ پہلی بار موجودہ حکومت کے ہاتھوں رونما ہوا ہے کہ ایک بااثر قومی مجرم اور اس کے پورے گھرانے کو اسلامی اصول و احکام‘ ملکی دستور و قانون‘ قومی رائے اور جذبات و احساسات اور عالمی سطح پر جرم و سزا کے معروف ضابطوں کو یکسرنظرانداز کر کے شرم ناک سودے بازی کر کے ملک سے فرار کرا دیا گیا بلکہ فرار کی شاہانہ سہولتیں مہیا کی گئیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ہوا اور عدالتوں کی دی ہوئی سزائوں کو ’’معاف‘‘ یا نظرانداز کر کے اسے ’’ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ‘‘ قرا ردینے کی جسارت کی گئی۔
بلاشبہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء ہماری تاریخ کا ایک تاریک ترین دن تھا۔
یہ اقدام ایک ناقابل معافی قومی اور اخلاقی جرم ہے۔ معاملہ افراد کا نہیں‘ اصولوں کا ہے‘ ہمیں نہ نوازشریف سے کوئی دشمنی ہے اور نہ پرویز مشرف سے کوئی پرخاش۔ لیکن یہ قوم اور ملک ہمیں عزیز ہیں۔ اسلام کے اصول و احکام اور ملک کا دستور اور قانون ہماری نگاہ میں وہ میزان ہیں جن پر ہر کسی کے عمل کو پرکھا جانا چاہیے اور جو بھی ان اقدار کو پامال کرے جن پر ہمارا ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا انحصار ہے اس پر گرفت ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی درجے کی مداہنت دنیا میں بربادی اور آخرت میں خسارے کا باعث ہو گی۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس گھنائونے اقدام کا بھرپور محاسبہ کریں‘ اس کے مضمرات سے ملک و ملت کو آگاہ کریں اور قوم کو مزید تباہی سے بچنے کے راستے کی نشاندہی کریں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسلام کی تعلیمات اور انسانی تاریخ کے تجربات کا نچوڑ ایک جملے میں بیان فرما دیا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتاہے لیکن انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاے کرام اور پھر اپنے آخری پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی زمین پر جس مقصد و ہدف کے حصول کے لیے بھیجا وہ تھا: تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام اور اسی بنیاد پرمعاشرے اور ریاست کی تعمیرو تشکیل ۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
حضور اکرمؐ کی زبانی صاف الفاظ میں اعلان فرمایا :
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ ج وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵)
اے محمدؐ ‘ اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو‘ اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائو‘ اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو‘ اور ان سے کہہ دو کہ: اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸)
مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
اسلام اس معاملے میں اتنا حسّاس ہے کہ خود اپنی ذات‘ باپ بیٹے‘ امیر غریب اور دوست و دشمن میں بھی کوئی تمیز گوارا نہیں کرتا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء ۴:۱۳۵)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو‘ اللہ کو اس کی خبر ہے۔
ایک مسلمان ہمیشہ عدل و انصاف کا علم بردار ہوتا ہے--- دوست ہی نہیں دشمن سے بھی عدل سے پیش آنا مسلمان کا شیوہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتّٰقْوٰی ز وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
انصاف کے معاملے میں اسلام کی حسّاسیت کا ایک بڑا ہی اہم اور نازک پہلو یہ ہے کہ وہ جرم و سزا کو قانون کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور اس میں نہ کوئی اضافہ گوارا کرتا ہے اور نہ کمی۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی جا رہی ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰک اللّٰہُ ط وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا O وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا O وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا O (النساء ۴:۱۰۵-۱۰۷)
اے نبیؐ‘ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو‘ اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کوایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
جرم کے ثبوت کے بعد اس کے مرتکبین کے لیے نرمی اور رعایت کی بات انصاف کے منافی اور جرم و سزا کے قانون کو غیر موثر کرنے کے مترادف ہے۔ زنا کی سزا کے باب میں قرآن کا صاف ارشاد ہے:
وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج (النور۲۴:۲)
اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔
یہی اصولی بات قتل کے سلسلے میں بیان فرمائی:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۸-۱۷۹)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے‘ غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے‘ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں‘ اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو‘ تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کولازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے‘ اس کے لیے دردناک سزا ہے--- عقل و خرد رکھنے والو‘ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔
واضح رہے کہ خوں بہا کا حق واختیار حکومت کو نہیں‘ جس کا حق مارا گیا ہے اس کو حاصل ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں امیر غریب‘ عالی نسب اور عامی‘ بااثر اور کمزور میں تمیز و فرق اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’لوگو‘ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں‘ وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان کا کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ قطع کر دیے جاتے‘‘۔ سزا میں تخفیف اور اضافہ بھی انصاف کے منافی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:
’’قیامت کے روزایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا کہ آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں۔ ایک حاکم لایاجائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانی سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا: اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں (بحوالہ تفسیر کبیر ‘ ج ۶‘ ص ۲۳۵ ‘ تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۴۴)
ان احادیث کا تعلق حدود سے ہے لیکن اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ مجرم کا جرم ثابت ہونے کے بعد انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کو بلادلیل اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر نہ چھوڑ دیا جائے--- اور اس کی سزا میں کمی نہ کی جائے بلکہ پورا عمل عدل و انصاف کے مطابق ہو اور جس پر جو حق واجب ہے اسے بلاکم و کاست وصول کیا جائے اور حق داروں کوپہنچایا جائے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کی نگاہ میں ہر قوی کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق دار کے حق واپس نہ لے لیں اور ہر محروم قوی ہے جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دیں۔
جس سرزمین پر عدل کا نظام موجود نہ ہو‘ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جہاں طاقت ور محض اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بنا پر حق داروںکا حق مار کر دندناتا پھرے اور مظلوم اپنے حق سے محروم رہے اُسے اسلامی تو کیا‘ ایک مہذب معاشرہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ چرچل نے دوسری جنگ کے عین ان لمحات کے موقع پر جب برطانیہ کا ہر گھر جرمنی کی توپوں کی زد میں تھا‘ کہا تھا : ’’یہ ملک محفوظ ہے اگر اس کا عدالتی نظام ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے اور لوگوں کو انصاف مل رہا ہے‘‘۔
جس معاشرے سے انصاف اٹھ جائے سمجھ لیجیے کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔
موجودہ حکومت نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو جس طرح معافی دی ہے اور اعزاز کے ساتھ ملک سے رخصت کر دیا ہے اس عمل میں اس نے ایک نہیں حسب ذیل سات بڑے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ان سب ہی کے بارے جواب دہی کرنا ہو گی:
۱- عدلیہ کی تضحیک اور قوم سے بے وفائی: پہلا جرم یہ کہ ایک ایسے شخص کو ‘جسے ملک کی عدالتوں نے کم از کم دو مقدمات میں مجرم قرار دے کر سنگین سزائیں دی تھیں‘ بلاجواز و اختیار معافی دے کر انصاف کا خون کیا ہے۔ حکومت خود ان معاملات میں مدعی تھی اور ایک مقدمے کے بارے میں عدالت سے سزا میں کمی نہیں‘ مزید اضافے کی درخواست کر رہی تھی۔ نیز مختلف عدالتوں میں اسّی (۸۰) کے قریب دوسرے مقدمات دائر ہو گئے تھے یا دائر کیے جانے کے مراحل میںتھے۔ ایک خاندان جس کے بارے میں ملک اور عالمی اخبارات اور رسائل میں اربوں روپے کے غبن اور لوٹ مارکی شہادتیں پیش کی جا رہی تھیں اور خود حکومت ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کے جواز میں جن جرائم کا شب و روز ذکر کر رہی تھی اور جن کی بنیادپر عدالت عالیہ نے ۱۲ اکتوبر کے اقدام کو ایک گونہ جواز (validation) فراہم کیا تھا‘ ان سب سے بیک چشم صرفِ نظر کرکے محض چند ایسے اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے کر‘ جن کی مالیت اصل لوٹ کھسوٹ کاعشر عشیر بھی نہیں‘ اس نے شدید ترین بدعنوانی اور بے انصافی کاارتکاب کیا ہے۔ جرم کرنے والے اس جرم پر پردہ ڈالنے یا مجرم کو بچانے والے اور حق دار کو (جو اس معاملے میں پوری پاکستانی قوم ہے محض کوئی حکمران نہیں) اپنے حق سے محروم کر دینے والے بھی جرم میں اسی طرح شریک اور ذمہ دار ہیں جس طرح اس کا اصل ارتکاب کرنے والے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر یا کوئی اور سابق حکمران--- ان پر الزام ہی یہ ہے اور عدالتوں اور قوم کے اجتماعی ضمیر نے اس الزام کی توثیق کی ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں امانتوں میں خیانت کی ہے‘ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے‘ دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں‘ قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ ملکی دولت بیرون ملک منتقل کی ہے اور ملک و قوم کو اپنے ہی وسائل سے محروم کر کے غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔
نواز شریف صاحب ۱۹۸۱ء سے کسی نہ کسی صورت میں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ اس زمانے میں ان کا خاندان ملک کا پانچواں امیر ترین خاندان بن گیا۔ ان بیس سال میں محض چند لاکھ کی حیثیت والے اس خاندان کے اثاثوں کی مالیت ۱۰ ارب روپے سے زیادہ ہو گئی اور ۵ سو ملین ڈالر سے زیادہ (ایک اندازے کے مطابق ایک بلین ڈالر) ملک کے باہر منتقل کرنے کا مرتکب ہوا۔ اس عرصے میں اس خاندان کے ۳۴ صنعتی یونٹ وجود میں آئے جو ۳۰ چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اور قرض کی بڑی بڑی رقوم معاف کرا کر قائم کیے گئے۔ صرف ایک حبیب بنک سے ایک ارب روپے قرض لیے گئے۔ دوسرے بنکوں اور مالیاتی اداروں کے واجب الادا قرضوں کی مالیت ۵ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ ارب روپے سرکاری خزانے کے ٹیکسوں کی شکل میں واجب الادا بتائے جا تے ہیں (ملاحظہ ہو‘ جنگ‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء- جو لندن کے اخبارات گارڈین اور انڈی پنڈنٹ کی رپورٹوں پر مبنی ہیں جن کی صحت پر اخبارات نے شریف خاندان کوعدالتی کارروائی کا چیلنج دیا تھا مگر انھوں نے ان اخبارات کے خلاف کوئی عدالتی چارہ جوئی نہیں کی)۔
جس خاندان نے ملک و قوم کو اس بے دردی سے لوٹا ہو‘ اسے معافی دینے اور ملک سے فرار کی اجازت دینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا۔ یہ اقدام اسلام‘ دستورِ پاکستان‘ قانونِ احتساب اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور پاکستانی قوم سے کھلی کھلی بے وفائی ہے۔ معافی اور فرار کا ڈراما رچا کر موجودہ حکومت بھی ان جرائم میں اتنی ہی شریک اور ذمہ دار ہو گئی ہے جتنا ان کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔
۲- دستور کی کھلی خلاف ورزی: دوسرا جرم دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ ۴ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ: ہر شہری خواہ کہیں بھی ہو‘ اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔
اسی طرح دفعہ ۱۵ میں ہر شہری کے لیے نقل و حرکت اور پاکستان میں کہیں بھی قیام کا حق تسلیم کیا گیا ہے الا یہ کہ کسی قانون کے تحت کسی کو اس سے محروم کیا جائے۔ دستور میں ملک بدری (deportation) کا کوئی حق حکومت کو نہیں دیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی شخص کو اس کی شہریت سے محروم کیے بغیر ملک سے نہیں نکالا جا سکتا اور یہ عمل بھی عدالتی فیصلے کے تحت ہو سکتا ہے ‘محض انتظامی حکم (executive order) سے نہیں۔ دفعہ ۲۵ میں تمام شہریوں کی برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی طرح دستور کی دفعہ ۴۵ میں معافی یا سزا میں کمی کا جو حق دیا گیا ہے وہ صرف عدالتوں کے آخری فیصلے کے بعد ہے اور دستوری اور قانونی عرف کے مطابق بالعموم صر ف موت کی سزاکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب دیکھیے اس اقدام کی صورت میں کس طرح دستور کی ان تمام دفعات کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
(i) جن دو مقدمات کی سزائیں معاف کی گئی ہیں وہ ابھی عدالتوں میں زیرِغور ہیں اور حکومت اور ملزم دونوں کی طرف سے اپیل کے درجے میں ہیں۔ دستور کی دفعہ ۴۵کا اطلاق ایسے معاملات پر نہیں ہوتا۔
(ii) ابھی ان ملزموں کے خلاف ۸۰ کے لگ بھگ مقدمات احتساب کی اور دوسری عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سارے معاملات میں یک طرفہ طور پر ملزمان کو فرار کی راہ دکھانا (بلکہ عملاً فرار کرانا) دستور اور قانون کا خون کرنے اور جرم کی سرپرستی اور اس میں شرکت کے مترادف ہے۔
(iii) ایک ہی جرم میں شریک مختلف مجرموں کے درمیان تمیز اور فرق دستور اور اسلامی اصول کے منافی ہے۔
(iv) ملک بدری کی کوئی سزا کتاب قانون میں موجود نہیں۔ ایسی کوئی سزا دینے کا کوئی مجاز نہیں جو قانون کی نگاہ میں سزا نہ ہو۔ اسی طرح ملک بدر کرنے یا ملک میں واپسی کے حق سے کسی کو عدالتی کارروائی کے بغیر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی کسی کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ آنے والے کو قانون کے مطابق گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شہری کو ملک میں داخلے کے حق سے محروم کرنے کا اختیار دستور اور قانون کے تحت کسی کو حاصل نہیں۔
(v) اگرچند ملزموں کو اس طرح سودا بازی کے ذریعے سرکاری اہتمام میں ملک کے‘ باہر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا جا سکتاہے تو پھر کس قاعدے اور قانون کے مطابق دوسروں کو اس ’’حق‘‘ سے محروم رکھا جا سکتا ہے یا ان افراد کو زبردستی ملک میں لایا جا سکتا ہے جو ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کر کے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ خود دوسرے ممالک سے ایسے لوگوں کے بطور ملزم حوالگی (extradition) کا بھی کیا اخلاقی جوازباقی رہ جاتا ہے؟
یہ وہ چند پہلو ہیں جن کے بارے میں دستور اور خود اسلام کے اصول انصاف کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
۳- بااثر اور کمزور میں فرق کی شرم ناک مثال : تیسرا بڑا جرم اس اقدام کے ذریعے یہ کیا گیا ہے کہ امیر اور غریب‘ بااثر اور کمزور‘ بیرونی سرپرستی رکھنے والے اور بیرونی سرپرستی سے محروم انسانوں کے درمیان فرق کی ایک شرم ناک مثال قائم کی گئی ہے۔ نیز مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے درمیان تمیز و فرق کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ایک ہی جرم کے مرتکب انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق کا جو رواج ازمنہ قدیم کے براہمنی‘ یا ایسے ہی دوسرے ظالمانہ اور جابرانہ نظاموں میں پایا جاتا تھا اور جسے اسلام اور خود دورِحاضر کے قانونی نظاموں نے ختم کر دیا تھا اس کا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں احیا کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر‘ الطاف اور ایسے دوسرے بہت سے افراد تو خود ملک سے بھاگ گئے ہیں لیکن یہ ’’اعزاز‘‘ اس حکومت کو اور امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے منظورنظر اس گھرانے کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حاصل ہوا ہے کہ قومی مجرموں کو قانون اور انصاف کی گرفت سے نکال کر لوٹی ہوئی دولت سے شادکام ہونے کے لیے شاہی انتظام میں رخصت کر دیا گیا ہے۔ چند ہزار روپوں کا غبن کرنے والے تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور موٹر سائیکل پر محض دہری سواری کرنے والے تو پابند سلاسل ہیں لیکن اربوں روپے لوٹنے والے اور پوری قوم کو غلام بنانے والوں کے لیے آرام کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں فرار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قانون صرف کمزوروں اور چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ بڑی مچھلیوں پر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ انصاف کا خون اور فرعونی روایات کا فروغ ہے۔ تفو!بر تو چرخ گرداں تفو!
۴- احتساب کے نام پر مذاق: فوجی حکومت اس دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی‘ لوٹی ہوئی دولت ہی واپس نہیں لائے گی بلکہ لوٹنے والوں کو بھی دنیا کے کونے کونے سے پکڑ کر قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزادے گی۔ لیکن اس اقدام کے ذریعے اس نے قومی دولت کو لوٹنے والے سب سے بڑے ٹولے کو باعزت معافی دے کر ملک سے خود ہی رخصت کر دیا۔ اب دوسروں کی گرفت کا کیا جواز باقی رہا ہے؟ اس اقدام نے احتساب کے پورے عمل کو محض ایک ڈھونگ اور تماشے میں بدل دیا ہے۔ اب احتساب کے موجودہ نظام کا کوئی سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر اس نظام پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتا۔ ایک طرف عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کے اصول کو پامال کیا گیا ہے تو دوسری طرف احتساب کے پورے نظام کو ایک مضحکہ بنا کر غیر موثر کر دیا گیا ہے جس پر ] اعتماد اور بھروسے والی کوئی بات[ اب باقی نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔
۵- ملکی وقار اور خود مختاری پر شدید ضرب: اس اقدام کے لیے کھلے اور چھپے جو قوتیں کام کرتی رہی ہیں اور جس جس بیرونی دبائو کے آگے ہتھیار ڈالنے کی یہ حکومت مرتکب ہوئی ہے اس نے ملک کے وقار اور خودمختاری پر شدید ضرب لگائی ہے۔ ایک عرب ملک کا کردارتو بہت نمایاں ہے جس کا اعتراف خود سرکاری اعلان میں موجود ہے لیکن بات ایک ملک کی نہیں‘ کئی ملکوں کی ہے۔ اب تو وائٹ ہائوس کے ترجمان نے صاف اعتراف کر لیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں برابر دبائو ڈال رہے تھے اور اس اقدام پر خوش ہیں۔ اس طرح کلنٹن صاحب نے ان خدمات کا حساب چکا دیاہے جو سابق وزیراعظم نے بھارت نوازی‘ کارگل سے پسپائی‘ ورلڈ بنک اور امریکہ کی معاشی بالادستی‘ افغانستان پر حملوں میں درپردہ معاونت‘ کانسی کی ملک بدری‘ جوہری صلاحیت کی تحدید اور نہ معلوم کس کس شکل میں انجام دی تھیں۔ سوال صرف سابق حکمرانوں کی مغربی اقوام کی کاسہ لیسی ہی کا نہیں‘ موجودہ حکمرانوں کا ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا بھی ہے--- اور اس میں جو خطرات آیندہ کے لیے مضمرہیں‘ وہ ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ مغرب کے ایجنڈے میں افغانستان پر دبائو‘ اسامہ بن لادن کی گرفتاری‘ کشمیرمیں جنگ بندی اور بھارت اور امریکہ کی شرائط پر سمجھوتہ کاری‘ قرضوں کی غلامی اور معاشی محتاجی میں اضافے اور بالآخر نیوکلیر صلاحیت سے محرومی اور اسلام سے بنیاد پرستی (فنڈمنٹلزم) کے نام پر عملی دست برداری آگے کے اہداف ہیں۔ جو حکومت قومی مجرموں کو اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے دائرہ اختیارمیں نہ رکھ سکی اس سے قومی سلامتی کے دوسرے محاذوں پر مضبوطی کی توقع عبث ہے۔ فوجی قیادت کے بارے میں قوم کو توقع تھی کہ وہ سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں بیرونی اثرات سے ملک کو محفوظ رکھنے میں زیادہ مستعد ہو گی لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ خود فوجی قیادت اس محاذ پر کمزوری اور پسپائی دکھا رہی ہے۔ گویا ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ اس طرح حکومت نے اپنی ساکھ (credibility) کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
۶- حکومت کا جواز سے محروم ہو جانا: ایک اور اہم پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ حکومت نے خود اپنے کو اس جواز (legitimacy) سے محروم کر دیا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے اسے حاصل ہو گیا تھا۔ ۱۲ اکتوبر کے اقدام کا اگر کوئی جواز تھا تو وہ سابقہ حکومت کے کرتوت اور ان کو قرار واقعی سزا دیے جانے کا امکان اور انتظام تھا۔ اسی وعدے کے ساتھ جنرل صاحب نے یہ اقدام کیا تھا اور انھی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سپریم کورٹ نے انھیں سند جواز مرحمت کی تھی۔ لیکن اگر اس مجرم ہی کو معافی دے دی گئی ہے اور اس کے سارے جرائم پر نہ صرف یہ کہ پردہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ ساری لوٹ کھسوٹ کو بھی ایک طرح تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے تو پھر اسے ہٹانے والوں کے باقی رہنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس اقدام کی شکل میں جنرل صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس بڑھیا نے کیا تھاجس نے جو سوت کاتا اسے اپنے ہی ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ویسے بھی حکومت کی ۱۴ ماہ کی کارکردگی ہر میدان میں نہایت مایوس کن ہے لیکن اس اقدام کے بعد تو اب اس کے باقی رہنے اور سپریم کورٹ کی عطا کردہ مدت پوری کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جلد از جلد اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کی طرف منتقل کیا جائے۔
۷- اسلام کے اصول انصاف سے انحراف: ساتواں اور ان سب جرائم کا جامع جرم اسلام کے اصول انصاف اور جرم وسزا کے درمیان نسبت اور تعلق کے نظام کو درہم برہم کر دینا ہے۔ پاکستان بہت سے دوسرے ممالک کی طرح‘ محض ایک ملک نہیں‘ ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے دستور نے قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔اس قوم کی منزل اسلامی ریاست اور معاشرے کا قیام ہے۔ ہم نے اپنی معروضات کا آغاز اسلام کے اصول انصاف کے خلاصے ہی سے کیا ہے۔ ۱۰ دسمبر کا اقدام اسلام کے ہراصول سے انحراف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے کھلے احکام کی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی ہے۔ اس میں پاکستان کی حکومت اور عرب ممالک کی مسلمان حکومتیں برابرکی شریک ہیں۔ نواز شریف کی فیملی بھی اپنے اصل جرائم کے ساتھ خدا کے قانون جرم و سزا سے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہے۔ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن مسلمانوں کا رویہ غلطی پر ندامت اور اللہ سے عفو و درگزرکی طلب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں جرم پر کوئی ندامت کہیں دور دور نظر نہیں آ رہی بلکہ چوری اور سینہ زوری کی روش اختیار کی جا رہی ہے جو خدا اور خلق دونوں کے خلاف بغاوت کی ایک صورت ہے۔ مجرموں کو بچانے کی خدمت جو جو افراد اور قوتیں انجام دے رہے ہیں وہ سب اس بغاوت میں شریک اور معاون ہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا اور جرم میں معاونت کرنے والے دونوں قانون اور انصاف کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ مجرم کو تحفظ دینا بھی ایک جرم ہے۔ ۱۰ دسمبر کے اقدام نے ان سب کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور اب ان سب ہی مجرموں سے نجات میں ہماری بقا اور ترقی کا راز ہے۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کی ٹیم مستعفی ہو‘ عدلیہ کے تحت غیر جانب دارانہ مگر قابل اعتماد افراد پر مشتمل عبوری انتظام بنایا جائے ‘ مکمل طور پر آزاد انتخابی کمیشن مقرر کیا جائے اور ایک معقول مدت میں نئے انتخابات کے لیے قوم کو اپنی نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے جو ملک کے حالات کو سدھارنے کی جدوجہد کرے اور ملک و قوم کے مجرموں کو بھی قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کرے۔ یہ کئی وجوہ سے ضروری ہے:
اولاً‘ موجودہ حکومت ناکام رہی ہے اور اسے جو موقع ملا تھا ‘اس نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا کر اسے ضائع کر دیا ہے۔ یہ حکومت نہ احتساب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ اس پر اب احتساب کے باب میں کسی درجے میں بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ معیشت بھی خراب سے خراب تر ہوئی ہے ۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جو آیندہ بھی اشیاے صرف کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے اور مزید بے روزگاریوں کی بھیانک پیشن گوئیاں کر رہی ہے۔
اس حکومت نے اپنی ہی قوم کے مختلف عناصر سے غیر ضروری محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے حالات کو خراب کیا ہے۔ جس نئے نظام کی یہ نوید سناتی رہی ہے‘ اسے عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے جس کا ثبوت بلدیات کے انتخابات میں عوام کی مکمل عدم دل چسپی ہے جسے ایک حد تک اس نظام اور اس حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جس طرح اس نے اپنے آپ کو بیرونی دبائو کے لیے نرم نوالہ بنا دیا ہے‘ اس سے تو اس کا اعتبار بالکل ہی غارت ہو گیا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ نئی‘ قابل اعتماد اور عوام کی معتمد علیہ قیادت جلد از جلد زمام کار سنبھالے۔ یہ اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ۱۰ دسمبر کو ہوا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے ہوتا رہا‘ یعنی ۱۹۷۱ء کا سانحہ‘ کارگل کی پسپائی وغیرہ‘ خواہ فوجی حکمران برسرِاقتدار ہوں یا مفاد پرست سیاست دان‘ اس کی بڑی وجہ موثر شورائی نظام کا فقدان‘ حکمرانوں کے ہاتھ میں آمرانہ اختیارات کا ارتکاز اور کسی موثر جواب دہی اور ضروری احتساب کے نظام کی کمی ہے۔
بات ایوبی دور کی ہو ‘جس میں تین دریائوں کے پانی سے دست برداری‘ بھارت چین جنگ کے موقع پر کشمیر پر پیش قدمی سے اجتناب‘ اور تاشقند میں بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سانحے وقوع پذیر ہوئے یا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کا دور ہو‘ نواز شریف کا زمانہ ہو یا یحییٰ اور ضیا الحق کا اور یا اِس وقت کے جنرل پرویز مشرف کا--- جب بھی اختیارات کسی شخص واحد کی ذات میں مرکوز ہوئے ہیں اور وہ سیاہ و سفید کا مالک بنا ‘ ایسی ہی خوف ناک اور بھیانک غلطیاں (blunders) رونما ہوئیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ۱۰ دسمبر کے اقدام کے لیے خود چیف ایگزیکٹو کی اپنی بنائی ہوئی کابینہ تک سے مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نواز شریف کی رخصتی کے چار دن بعد اس واقعے پر کابینہ میں بحث ہوئی اور اس نے آمنا وصدقنًا کی سند جاری کر دی! ہمارے ملک کی سیاست کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ادارے موجود نہیں اور جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ صرف وزن بیت کے لیے ہیں--- حقیقی اختیارات سے محروم! نواز شریف ہو یا بے نظیر‘ نہ ان کی جماعتوں میں کسی مشورے اور جواب دہی کا نظام ہے اور نہ کبھی ان کی کابینہ یا اسمبلیوں نے ایسا کوئی کردار ادا کیا۔
آج بھی بے نظیر بھارت سے دوستی‘ مشترک کرنسی‘ کشمیر میں جنگ بندی‘ مسام دار (porous) سرحدوں اور نہ معلوم کیا کیا باتیں کر رہی ہیں مگر ان کی پارٹی میں کوئی نہیں کہ اس کی زبان کو لگام دے یا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ نواز شریف مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ جسے چاہیں نامزد کر دیں‘ جسے چاہے نکال دیں۔ کوئی نہیں جو ان کے اس رویے پر گرفت کر سکے اور ان کے دامن کو پکڑ کر ان سے پوچھ سکے۔ یہ تمام صورتیں آمریت کی شکلیں ہیں‘ انھیں جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں۔ قوم کی ضرورت صرف فوجی اقتدار ہی سے نجات نہیں‘ آمریت کی ہر شکل سے بغاوت کر کے حقیقی جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ مشاورت کے موثر نظام کا قیام‘ پالیسی سازی کے لیے افراد کی جگہ اداروں پر انحصار اور سب کے لیے جواب دہی کے نظام کا قیام ہے۔
آج پاکستان ہی نہیں‘ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ فوجی حکومت ہو یا ’’جمہوری تماشا‘‘ اقتدار کسی فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے‘ کرتا ہے اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ عبرت کے لیے مسئلہ فلسطین کے بگاڑنے میں مصر کے کردار پر ایک نظر ڈالیے۔ کیمپ ڈیوڈ جس نے شرق اوسط کی سیاست کا رخ بدل دیا اور مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ دیا‘اس کا بڑا سبب فیصلوں کے لیے موثر شورائی نظام اور قومی جواب دہی کا فقدان ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت انورالسادات نے نہایت خود رائی اور خودسری کا مظاہرہ کیا اور عقل کل بن کر اپنے تمام وزیروں اور مشیروں تک کو نظرانداز کر کے صدر کارٹر پراعتماد کی ترنگ میں اس طرح معاملات نمٹائے کہ آج بھی فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور فلسطین اتھارٹی اور عرب حکومتیں دم بخود ہیں۔ اس وقت کے مصری وزیر خارجہ عصمت کمال نے اپنی کتاب Camp David Accrod: A Testimony (مطبوعہ ۱۹۸۶ء) میں جو حالات بیان کیے ہیں وہ آنکھیں کھولنے والے اور خون کھولا دینے والے ہیں۔ افسوس کہ یہی کھیل ہے جو برابر کھیلا جا رہا ہے اور کم و بیش ہر ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ انورالسادات کا ایک ہی مطالبہ تھا:
براہ کرم ‘ مجھ پر اعتماد کیجیے۔ کیا آپ کو مجھ پربھروسا نہیں ہے؟
عصمت کمال لکھتا ہے کہ:
اصل مسئلہ نہ اسرائیل کا غیر لچک دار رویہ تھا اور نہ امریکہ کا اسرائیل کے آگے موم کی ناک بن کر ہر معاملے میں سپرانداز ہوجانا (spineless surrender)۔ اصل مسئلہ تو صدر سادات خود تھے۔ انھوں نے صدر کارٹر کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے اور صدر کارٹر نے بیگن کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب جو معاہدہ بھی ہوتا ‘ مصر کے لیے‘ فلسطینیوں کے لیے اور کل عرب قوم کے لیے تباہ کن ہی ہوتا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں سادات کے عزائم اور رویے کی کیا توجیہ کروں۔ شاید انھوںنے اپنے آپ کو امریکہ سے اس درجے مضبوطی سے وابستہ کر لیا تھا کہ انھیں اس مرحلے پر اس سے باہر نکلنا مشکل محسوس ہوتا تھا (ص ۳۵۸-۳۵۹)۔
امریکہ پر انحصار‘ اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن جانا اور فردِواحد کے ہاتھوں میں قوم کی قسمت کو دے دینا ساری خرابی کا اصل سبب تھا۔ اور یہی دو بلائیں ہیں جو مسلمان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔گھر میں آمریت اور باہر کی قوتوں پر انحصار ہی ہمارااصل روگ ہیں۔ ہم ہی نہیں‘ غیر بھی اس کمزوری کو دیکھ رہے ہیں اور خوب خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈیوٹ ہرسٹ اور ارنے بی سن نے سادات کی سوانح عمری میں بڑی پتے کی بات کہی ہے جو بدقسمتی سے خود ہمارے حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے:
ایک فرد‘ ان اداروں کے بالمقابل جن کا وہ سربراہ ہو‘ جتنا زیادہ خود پالیسی بنائے گا اتنا ہی زیادہ ان کے بنانے میں اس کی ذاتی نفسیات ایک معروضی سیاسی حقیقت کے طورکارفرما ہوگی۔ سادات کسی طرح بھی دنیا کے سب سے زیادہ مطلق العنان حکمران نہ تھے لیکن ان کی سیاسی زندگی بہت ہی نمایاں طور پر اس کی مثال تھی کہ کس طرح سیاسی امور میں ذاتی رجحان کو غلبہ حاصل رہتا ہے۔ اور جب ذاتی رجحان اتنا ہی مخصوص طرح کا ہو جیسا کہ ان کا تھا‘ تو پالیسی کے نام پر کیا کیا بگاڑ رونما ہوسکتے ہیں (ص ۳۵۴)۔
فردِ واحد کی حکمرانی اپنے اندر ایسے ایسے خطرات رکھتی ہے جو برسوںکی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ آزادی‘ عزت‘ دولت اور امکانات کو لمحوں میں غتربود کر سکتے ہیں!
دستور اور قانون کی حکمرانی‘ موثر شورائی نظام اور جمہوری اداروں کا وجود‘ جواب دہی اور پالیسی سازی کا ادارتی انتظام ہی اچھی حکمرانی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوریت کے لبادے میں شخصی حکومت--- دونوں مطلوبہ نظام کی ضد ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود فوج کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے بھی سم قاتل ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو‘ حقیقی جمہوری نظام کی طرف مراجعت ہی میں ہماری نجات ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ قوم کی قسمت سے کھیلنے کا حق اور اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین اس ملک کے عوام ہیں۔ ہم اس بات کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں ہماری فوجی اور سیاسی دونوں قیادتیں ناکام رہی ہیں وہیں عوام بھی اس ناکامی میں اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔
انتخاب کے موقع پر اپنا کردار ادا نہ کرنا‘ یا برادری اور مفاد کی بنیاد پر غلط لوگوں کو برسرِاقتدار آنے میں مدد دینا بھی ایک قومی جرم اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ آخری ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ اپنے ایمان اور ملکی مفاد کے پیش نظر اچھی قیادت کو بروئے کار لائیں اور سیاسی شعبدہ بازوں سے بار بار دھوکا نہ کھائیں۔
غربت‘ تعلیم کی کمی اور جمہوری روایات کا فقدان راہ کے موانع ہیں لیکن جمہوری عمل کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اس عمل کے ذریعے بالآخر بہتر قیادت ابھرے گی اور عوام اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لائق بن سکیں گے۔
ہمارے ملک کے حالات کی روشنی میں نظام انتخاب کی اصلاح اور آزاد انتخابی کمیشن کا قیام اس کے لیے ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت سے اب احتساب کی کوئی توقع نہیں رہی۔اگر یہ ملک کے اچھی شہرت رکھنے والے افراد کے مشورے سے ضروری انتخابی اصلاحات نافذ کر کے نئے انتخابات کا اہتمام کرے اور اقتدار قوم کی طرف لوٹا دے تو یہ اس کے لیے بھی بہتر ہے اور اس میں ملک و ملّت کے لیے بھی خیر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں--- سوال اتنا ہے کہ یہ کام افہام و تفہیم اور خیرسگالی اور قومی مفاہمت کے ذریعے ہوتا ہے یا ایک نئی کش مکش اور عوام اور حکومت کے درمیان ٹکرائو کے نتیجے میں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت دانائی کا راستہ اختیار کرے گی اور اپنے اخلاقی جواز کو کھو دینے کے بعد اپنے اقتدارکو طول دینے کی کوشش نہیں کرے گی‘ نوشتہ دیوار کو بروقت پڑھ لے گی اور اصلاح احوال کا وہ راستہ اختیار کرے گی جس سے ملک اس دلدل سے نکل آئے اور فوج کا بھی اعتماد باقی رہے تاکہ وہ دفاع وطن کے کام کے لیے یکسو ہو کر سرگرم ہو سکے۔ پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کا راستہ ہی یہ ہے کہ نظام حکومت ایسے ایمان دار اور باصلاحیت عوامی نمایندوں کے ہاتھوں میں آجائے جو خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں اور جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد کے تابع رکھ سکیں۔ سابق حکمرانوں کے حشر سے سبق سیکھیں اور اس سے عبرت پکڑیں کہ کس طرح دو دو بار وزیراعظم بننے والوں اور بڑے بڑے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو ملک سے فرار کی راہ اختیار کرنی پڑی اور ملک کے عوام کس طرح ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ دونوں کا حال یہ ہے کہ نہ صرف ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ بلکہ ملک کو ایسا بدحال کر کے نکلے کہ بہ ادنیٰ تصرف یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بڑے بے آبرو کر کے ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔ لیکن نکلنے کا آبرومندانہ راستہ بھی موجود ہے۔ وہ محاذ آرائی کا نہیں بلکہ حق دار کو اس کا حق دینے کا راستہ ہے۔ فوجی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ فوج کا کام ملک پر حکمرانی کرنا نہیں‘ ملک و ملت کا دفاع ہے۔ سیاست میں الجھ کر فوج نہ اچھی حکمرانی کا نمونہ پیش کر سکتی ہے کہ اس کی نہ یہ تربیت ہے‘ نہ صلاحیت اور نہ اس طرح یہ اپنی دفاع کی صلاحیت ہی کو باقی رکھ سکتی ہے۔ اگر فوج متنازع بن جائے یا اس کے لوگوں کو بھی بدعنوانی کا خون یا اقتدار کی چاٹ لگ جائے تو پھر وہ قوم کی امیدوں اور دعائوں کا مرکز نہیں رہ سکتی۔ پھر تووہ شکایتوں اور نفرتوں کا ہدف ہی بنتی جاتی ہے اور جس فوج پر اس کی اپنی قوم کا اعتماد نہ ہو‘ وہ دفاع کی خدمت کیسے انجام دے سکتی ہے۔ موجودہ قیادت اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلے ‘ اتنا ہی اس کے اور ملک کے لیے بہتر ہے۔
تحریک اسلامی اور ملک کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بیدار کریں‘ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ قوم کا خون چوسنے والوں کے چنگل سے قوم کو نکالیں اور اس ملک خداداد کو ایک اچھی اور ایمان دارانہ قیادت فراہم کریں جو اسے امت کے خوابوں اور تمنائوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو اپنی منزل بنا لے اور اقبال‘ قائداعظم اور ملت اسلامیہ ہند کے تصور کا پاکستان اس پاک دھرتی پر ایک زندہ حقیقت بن سکے۔ یہی امت مسلمہ کے لیے بھی ایک روشن مینار بن سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اور یہ امکان آج بھی موجود ہے‘ اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور اللہ پر بھروسا‘ خود اپنی قوم پر اعتماد‘ اپنے وسائل کا صحیح استعمال اور معاشرے کے تمام اچھے عناصر کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!