مضامین کی فہرست


فروری ۲۰۱۴

حالات کو بڑی تیزی سے ایک ہولناک تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم اور اس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کوئی انتہائی فیصلے کرتے وقت ہوش کے ناخن لے اور ملک و ملّت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ آج دانا دشمن اور نادان دوست دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ملک کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جانے میں سرگرم ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ محب وطن دینی اور سیاسی قوتیں خاموش تماشائی نہ بنیں اور مل کر اور پوری دانش مندی کے ساتھ حکومت اور برسرِاقتدار قوتوں کو ملک کو آگ اور خون کے اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کے ذمہ داران سے، خصوصیت سے وزیراعظم، وزیرداخلہ، ارکانِ پارلیمنٹ، عسکری قیادت اور میڈیا کے ذمہ دار عناصر سے ہماری درخواست ہے کہ حالات کا ٹھنڈے دل سے دلیل،     زمینی حقائق اور تاریخ کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لے کر قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور پروگرام مرتب کریں۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور دینی قیادت کو اعتماد میں لیں، اور پوری قوم کو ساتھ لے کر ان حالات کا مقابلہ کریں۔

زمینی حقائق کے اِدراک کی ضرورت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر وہ پالیسی اور اقدام جو بیرونی یا اندرونی دبائو کا نتیجہ ہو یا جسے بڑی حد تک جذبات، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت اختیار کیا جائے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ دورِحاضر میں اس کی بدترین مثال وہ ردعمل ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے دہشت گردی کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے ردعمل کے طور پر اختیار کیا، اور جس کے نتیجے میں نہ صرف  یہ کہ دہشت گردی کا سدِّباب نہ ہوسکا، بلکہ اس کو عالمی سطح پر ہزار گنا زیادہ فروغ حاصل ہوگیا۔  آج دنیا، بشمول امریکا، ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیرمحفوظ ہے۔ بلاشبہہ ان ۲۹۰۰؍ افراد کی ہلاکت ایک دل دوز سانحہ اور کھلا ظلم تھا، جو نائن الیون کے اقدام کا نشانہ بنے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کیجنگ‘ کے نتیجے میں ان تقریباً ۳ہزار جانوں کے مقابلے میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ ۲۰ ہزار افراد اور عراق میں ۶لاکھ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ صرف افغانستان میں اب تک خود امریکا کے ۲۸۰۶فوجی ہلاک ہوئے اور ۱۸ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ امریکا کے جتنے فوجی افغانستان گئے ہیں  ان میں ۱۰فی صد ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں نے خودکشی کی ہے اور دسیوں ایسے ہیں، جنھوں نے دیوانگی کے عالم میں اپنے ہاتھوں امریکی اور ناٹو افواج ہی کو نشانہ بناڈالا ہے۔ برطانیہ کے ۴۴۷فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکا صرف افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور برطانیہ ۴۰ ارب پونڈ اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور ناٹو افواج کو ذہنی اور سیاسی و عسکری دونوں قسم کی شکست سے سابقہ ہے۔ افغانستان  خود امن و چین سے محروم ہے۔ افغانستان کی فوج اور معیشت دونوں امریکا کی مدد کی محتاج ہیں۔ افغان بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکی امداد پر منحصر ہے، اور باقی بجٹ کا بڑا انحصار افیون کی تجارت پر ہے۔

رہی افغان عوام کی حالت ِ زار تو افغانستان کے پے درپے دوروں کے بعد ایک امریکی مصنف اور صحافی پیٹرک کک برن (Patrick Cockburn) کاؤنٹرپنچ کے ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کے شمارے میں لکھتا ہے:

بلاشبہہ جو رقم افغانستان پر خرچ کی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھ کر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۶۰ فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور صرف ۲۷ فی صد افغانوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ بہت سے باہر سے رشتہ داروں کی بھیجی ہوئی رقم سے زندہ ہیں یا منشیات کے کاروبار سے جو افغانستان کی قومی آمدن کا ۱۵ فی صد تک ہے۔

یہ اعداد و شمار افغانستان اینلسٹ نیٹ ورک کابل سے وابستہ تھامس رٹنگ کے جائزے:  ’’افغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے ۱۲سال‘‘ سے سامنے آئے ہیں۔ اس مستند جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج افغانستان کہاں کھڑا ہے؟

یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی فوجی مداخلت مکمل ناکامی پر منتج ہوئی ہے۔ طالبان کچلے نہیں جاسکے ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں فعال ہیں، اور ہلمند جیسے صوبوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج کے جاتے ہی اقتدار سنبھال لیںگے۔ غیرملکی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود حکومت ِ افغانستان کا کنٹرول دارالحکومت کے ضلع سے باہر چندکلومیٹر کے فاصلے پر ختم ہوجاتا ہے۔ پورے افغانستان پر عموماً فوجی طورطریقوں کے بارے میں بات چیت کی جاتی ہے، جب کہ امریکا برطانیہ کی ناکامی کی سب سے اہم وجوہ سیاسی ہیں۔ بہت سے افغان بدتر انجام سے خوف زدہ ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میں ۱۹۹۰ء کے عشرے کا ظلم اور انارکی کا دور جب جہادی دستے افغانستان پر حکومت کرتے تھے، آجائے گا۔

امریکا کو اس جنگ کے نتیجے میں بدنامی، شکست اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغانستان تباہ و برباد ہوگیا۔ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا کو اور خصوصیت سے افغانستان، پاکستان اور شرق اوسط کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا، وہ سب ماقبل سے بُرے حال میںہیں۔ یہ نتیجہ ہے ایک بدمست سوپرپاور کے اس ردعمل کا، جس کی بنیاد دلیل، حق و انصاف کے اصول اور زمینی حقائق کے صحیح اِدراک اور حکمت و توازن کی بنیاد پر پالیسی سازی کے فقدان پر مبنی ہے۔ طاقت کے زعم میں، سیاسی اور عسکری غرور وتکبر اور سب سے بڑھ کر غصے اور انتقام کے جذبات سے آلودہ تھی۔ اس ساری تباہی کی بڑی وجہ امریکی صدربش کا وہ ردعمل تھا، جس کی کوئی عقلی بنیاد نہ تھی بلکہ غرور، غصے اور انتقام کے جذبات تھے جن سے مغلوب ہوکر واحد سوپرپاور کے صدر نے امریکا کی سیاسی اور معاشی قوت پر ضرب لگانے والوں کو تہس نہس کرنے کے جذبات میں بہنا پسند کیا۔ موصوف نے مناسب تحقیق کے بغیر اور عالمی قانون کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر افغانستان پر فوج کشی کرڈالی اور پھر اس کا دائرہ بلاجواز عراق تک بڑھا دیا۔ پاکستان کو کان پکڑ کر اس جنگ میں جھونکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا ۱۲برس سے اس عذاب میں مبتلا ہے۔ عراق سے تو امریکی افواج واپس چلی گئیں مگر عراق خانہ جنگی کی آگ میں آج تک جل رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دیا جارہا ہے مگر خانہ جنگی اور علاقائی بدامنی کے بھوت فضا میں منڈلا رہے ہیں اور امن اورسلامتی کا دُور دُور پتا نہیں۔

ماضی کی حکمت عملی کے نتائج

اگر امریکا نے جذبات سے مغلوب ہوکر غرور، غصے اور انتقام کی بنیاد پر دنیا کو جنگ میں جھونکا، تو پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو میں شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ، اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کو یکسرنظرانداز کرکے امریکا کی اس جنگ میں اپنے کو شریک کرکے اپنے مسلمان ہمسایہ برادر ملک پر فوج کشی کے لیے امریکا کو   نہ صرف ہرسہولت دے ڈالی، بلکہ اپنی زمینی اور فضائی حدود پر امریکا کو تسلط اور غلبہ عطا کیا۔ امریکا کے احکام پر اپنے شہریوں اور برادر ملک کے ان مہمانوں کو جو ہماری امان میں تھے، ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کیا اور اس سلسلے میں سفارتی اور اسلامی آداب کو بھی بُری طرح پامال کیا۔ اس کی شرم ناک داستان پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کی کتاب My Life with the Taliban میں دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کو ان ۱۲ برس میں دینی، سیاسی، عسکری، معاشی، غرض یہ کہ ہر میدان میں بے پناہ نقصانات ہوئے اور پاکستان عملاً اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوکر رہ گیا۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارگئے، جن میں ۶ سے ۸ہزار افراد کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے دو تین گنا زیادہ ہے، اور جو نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کی تعداد ۳۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ مالی اور معاشی اعتبار سے نقصان کا کم سے کم اندازہ ایک سو ارب ڈالر کا ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کا امن اور چین درہم برہم ہوگیا۔

جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے اور جو دشمن تھے انھوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے اثرات بڑھا لیے۔ ملک کے حالات اور پالیسیوں میں امریکا کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا اور اس کی  خفیہ ایجنسیوں اور کارندوں کو ایسے ایسے مقامات تک رسائی حاصل ہوگئی، جس سے ہماری سالمیت معرضِ خطر میں ہے۔ عوام اور حکمرانوں، عوام، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دُوری بڑھ گئی۔ جن کے درمیان رشتے کی امتیازی خصوصیت اعتماد، افتخار اور محبت تھی، وہ بُری طرح متاثر ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بے اعتمادی اس حد کو پہنچ گئی کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے باقاعدہ فوجی اہلکاروں کو ہدایت دی کہ عام سواریوں میں فوجی وردی میں سفر نہ کریں۔ جس فوج کو عوام اپنی زندگی، آزادی اور عزت کا نگہبان سمجھتے تھے اور جس سے نسبت پر فخر محسوس کرتے تھے، اس سے تعلقات او راعتماد میں یہ کمزوری صرف اور صرف اس وجہ سے رُونما ہوئی کہ اس وقت کی قیادت نے عوام کے جذبات اور قومی مفادات سے صرفِ نظر کرکے، امریکا کی اس جنگ میں ملک اور اس کی قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو جھونک دیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں امریکا کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو کھول دیا گیا تھا۔ پھر ۲۰۰۴ء سے عملاً پاکستانی افواج کو بھی آہستہ آہستہ اس جنگ میں شریک کردیا گیا، جس میں ۲۰۰۷ء کے بعد شدت آگئی۔ یہی وہ سال ہے جب پاکستان کے قبائلی علاقے میں باقاعدہ تحریکِ طالبان پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ روز بروز تصادم بڑھتا گیا ، اور معصوم عوام دونوں طرف سے نشانہ بننے لگے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ سرکاری املاک، فوجی چھائونیاں اور پولیس کی چوکیاں دہشت گردی سے محفوظ ہیں اور نہ مساجد، امام بارگاہیں، دینی مدارس، تعلیمی ادارے اور عام آبادیاں امن کا گہوارا ہیں۔

دہشت گردی آج ملک عزیز کی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی ہرشکل سے نجات وقت کی ضرورت ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد، گروہ یا مسلح تنظیمیں کررہی ہوں یا خود ریاستی ادارے اپنی حدود سے بڑھ کر ان کے مرتکب ہورہے ہوں۔   اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام دینی اور سیاسی قوتیں اور قوم کے تمام محب وطن عناصر مل کر قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کریں اور سب مل جل کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ جو پالیسی بیرونی دبائو کے تحت بنے گی یا جو اصول قومی عزائم اور مفادات کے مقابلے میں، گروہی جذبات، غصے، انتقام یا مفاد پرست لابیوں کے اثرونفوذ کے نتیجے میں وجود میں آئیں گے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں برپا ہونے والی تباہی کا بڑا سبب وہ پالیسیاں ہیں جو بیرونی دبائو یا اندرونی کمزوری کے تحت بنائی گئی تھیں۔ اب اس روش سے مکمل اجتناب کے ساتھ خالص قومی مقاصد، ملکی مفادات، عوام کے جذبات اور احساسات کی بنیاد پر نئی پالیسیوں کی تشکیل اور تنفیذ کی ضرورت ہے۔

جذباتی انداز میں یہ کہہ دینا کہ ’’پہلے یہ جنگ ہماری نہیں تھی، لیکن اب بن گئی ہے‘‘ ایک نامعقول اور فریب خوردگی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور اس کی مختلف اقسام اور ان کے اسباب سب پر نگاہ ڈالی جائے، اور حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایسی ہمہ گیر پالیسی بنائی جائے، جو مسئلے کے ہرہرپہلو کا احاطہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حقائق کو بنیاد بنایا جائے اور جذبات اور تعصبات کو فیصلوں پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔

اس وقت کچھ طاقت ور لابیاں ایک خاص زاویہ بنانے میں مصروف ہیں اور ایک ایسی جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں، جس میں حق و صداقت اور انصاف اور توازن کی بات نامطلوب بن جائے۔ انجامِ کار ملک اور فوج کو ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا جائے، جو امریکا کے مقاصد، مفادات اور ایجنڈے کا تو حصہ ہو اور اوباما اور جان کیری کی ’do more‘ [اور مارو]کی تعمیل پر پاکستان کو جنگ کی ایک ایسی آگ میں جھونک دے، جو افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کو بھسم کرتی رہے۔

یہ وقت ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کے صحیح تجزیے کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کرنے کا ہے جو پاکستان، افغانستان اور اس علاقے کے مفاد میں ہوں اور فوری اور دُور رس امن و سلامتی کی ضمانت دے سکیں۔ امریکا کو تو یہاں سے جانا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان دائمی ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمیں ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔ اس کے لیے حالات کو امریکا کی نگاہ سے دیکھنے اور امریکی مفادات کے چنگل سے نکل کر اپنے اور اپنے برادر ملک کے مفادات کی روشنی میں حالات کی صورت گری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمیں اس امر کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کا کھیل ناکام ہوچکا ہے۔ اب پاکستان اور افغانستان کو مل کر آگ بجھانے اور نئی زندگی کی بساط بچھانے کی فکر کرنا ہے۔ بلاشبہہ آج کا افغانستان بدامنی اور تصادم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور پاکستان بھی، خصوصاً اس کے شمالی اور مغربی علاقے کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ کراچی شہر اور صوبہ بلوچستان بھی اپنے اپنے طور پر دہشت گردی کی گرفت میں ہیں ۔ نو سال سے جاری فوجی اور نیم فوجی آپریشنوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے۔ جس پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ نو سال میں امن قائم نہیں ہوا، بھلا اس کو کچھ اور بھی دوآتشہ کرکے کس طرح کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب خود امریکا اپنی ساری عسکری اور معاشی طاقت اور ٹکنالوجی کی فوقیت کے باوجود ۱۲برس تک آگ اور خون کی بارش کر کے  افغانستان سے ناکام و نامراد واپسی اور پسپائی پر مجبور ہوچکا ہے، تو اس تناظر میں یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم اس ناکام حکمت عملی کے وارث اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے اسیر بن جائیں۔

بلاشبہہ گذشتہ چند دنوں میں ایسے ہولناک واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن غصے اور انتقام کے جذبات کے زیراثر ردعمل کبھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے اور تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کا ہے۔ورنہ اس عاجلانہ قوت آزمائی کے نتائج ان تباہ کن نتائج سے مختلف نہیں ہوسکتے، جو جارج بش اور ان کے حواریوں کے نائن الیون کے موقعے پر جذباتی اور انتقامی ردعمل سے رُونما ہوئے، اور جن کی آگ میں آج تک سب جل رہے ہیں۔

عالمی راے عامہ اور ردعمل

گیلپ انٹرنیشنل نے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں امریکی قیادت کے ردعمل کے بارے میں، عالمی راے عامہ کی جو تصویر پیش کی ہے، اسے آج نگاہوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ۱۹ستمبر ۲۰۰۱ء کو اصل واقعے سے صرف آٹھ دن بعد دنیا کے ۲۹ممالک میں سے ۲۷ کی آبادی کی اکثریت نے افغانستان پر فوجی حملے کی مخالفت کی تھی۔ گیلپ رپورٹ کے الفاظ ہیں:

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۲۹ ممالک میں سے جن ۲۷ میں یہ عالمی جائزہ گیلپ انٹرنیشنل نے لیا، اکثریت نے فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی۔ دو استثنا میں ایک امریکا تھا جہاں ۵۴فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی، اور دوسرا اسرائیل، جہاں ۷۷ فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔

واضح رہے کہ امریکامیں بھی ۴۶ فی صد عوام نے اس فوج کشی کی مخالفت کی یا کم از کم تائید نہیں کی۔ پاکستان کی راے عامہ کی جو تصویر اس جائزے میں آتی ہے، وہ پاکستانی عوام کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ صرف ۷ فی صد کی راے تھی کہ پاکستانی حکومت کو امریکی کارروائی کا ساتھ دینا چاہیے، جب کہ ۶۳ فی صد کا فیصلہ یہ تھا کہ اس وقت کی افغانستان حکومت کا ساتھ دیا جائے اور ۲۷فی صد نے غیرجانب دار رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ گویا عملاً ۹۰ فی صد نے امریکا کی اس جنگ سے الگ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ۹۰ فی صد عوام کی راے کو ٹھکرا کر امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اسے کبھی اپنی جنگ نہیں تصور کیا اور آج بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے اور ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی قربانی دینے کے باوجود، وہ اسے اپنی جنگ نہیں سمجھتے اور اس سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا کو نائن الیون کے اصل مجرموں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کرنا چاہیے تھی اور اُس وقت کی افغان حکومت ہرممکن تعاون کے لیے تیار بھی تھی۔ لیکن امریکا طاقت کے نشے میں بدمست تھا اور انتقام کی آگ میں دہک رہا تھا۔ اس نے بین الاقوامی قانون اور عالمی راے عامہ، اخلاق اور انصاف، انسانیت اور بُردباری سبھی کچھ کو نظرانداز کرکے فوج کشی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اس زعم میں تھا کہ چند ماہ میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔ امریکی جنگ باز قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افغان عوام ایسی مزاحمت کریں گے کہ امریکی اور ناٹو افواج کو ۱۲برس بعد ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑے گا۔ امریکی اور عالمی تجزیہ نگار بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی‘‘ اور اب امریکا اور اس کے اتحادی جان بچاکر نکل جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

نیویارک ریویو آف بکس کے ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں War on Terror  پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین لکھتی ہیں کہ: ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ     نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ، غلط حکمت عملی سے اور غلط دشمن کے خلاف لڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہوسکتے تھے‘‘۔

امریکا اور یورپ کے چوٹی کے تجزیہ نگار صاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ: ’’امریکا یہ جنگ ہارچکا ہے‘‘ ۔ دسیوں کتابوں اور بیسیوں مضامین میں اس کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ: ’’امریکا کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یا کھلی شکست کا اعتراف کرے یا پھر مذاکرات کے ذریعے کوئی فرار کی راہ نکالے‘‘۔ مثال کے طور پر امریکا کے موقر جریدے فارن افیئرز کے ایک تازہ شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون ’افغانستان میں جنگ کا خاتمہ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ ساری بحث کا خلاصہ بس یہ ہے کہ:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

لندن کے معروف اخبار دی گارڈین نے ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء کے اداریے میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ: ’’آج تمام دنیا کے عوام جنگ سے تنگ آگئے ہیں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے نالاں ہیں۔ وقت کی اصل ضرورت یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی اب تک بنائی گئی تھی، اس پر نظرثانی کی جائے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سیاسی مسائل کے سیاسی حل کا راستہ اختیار کیا جائے، کیونکہ فوجی حل کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ عوام جس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عراق کی جنگ مکمل طور پر ناکام تھی اور افغانستان میں بھی جنگ کا نتیجہ اس سے مختلف  نظر نہیں آتا‘‘۔

برطانیہ کی پالیسیوں پر گرفت کرتے ہوئے اداریے میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ: ’’دونوں محاذ پر برطانیہ نے سخت ٹھوکر کھائی۔ فوجی محاذ پر اس جنگ میں شرکت اور ملکی سلامتی کے محاذ پر ایسے قوانین بنائے جو حقوقِ انسانی پر ضرب کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔(دی گارڈین، ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء)

طالبان اور پاکستانی راے عامہ

دراصل ہم اہلِ پاکستان کا مسئلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں، جہاں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوجی آپریشن اور ملک میں سخت قوانین جو انصاف کے مسلّمہ اصولوں اور حقوقِ انسانی کے معروف ضابطوں سے انحراف پر مبنی اقدام کی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف ہیں، وہاں بھی سیاسی حل کے لیے نئے راستے تلاش کیے جارہے ہیں مگر ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے انھی ناکام پالیسیوں کے اتباع میں مکھی پر مکھی مارنے کو اپنی معراج  سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ خود پاکستان میں عوام کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گیلپ اور PEW کے جو جائزے پاکستان کے عوام کی سوچ کے عکاس ہیں، ان کو بھی مختصراً بیان کردیں، تاکہ ہمارے حکمرانوں کو، اگر وہ بیرونی تجربات اور رجحانات اور خود اپنے ملک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا کچھ بھی لحاظ کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی روشنی میں، نئی حکمت عملی مرتب کرسکیں۔

۱- گیلپ کے ۱۶ستمبر ۲۰۱۳ء کے سروے کے مطابق پاکستانی عوام کے ۷۱فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہرگز تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ۲۷فی صد کی راے میں تعاون کرناچاہیے۔ تعاون نہ کرنے والوں کی صوبہ وار پوزیشن یہ ہے:

خیبرپختونخوا:..........۸۹ فی صد

بلوچستان:...............۷۷ فی صد

پنجاب:...................۶۸  فی صد

سندھ :...................۶۶  فی صد

واضح رہے کہ خیبرپختونخوااور بلوچستان زیادہ متاثرہ علاقے ہیں اور وہاں کے ۸۹ فی صد اور ۷۷ فی صد لوگ جنگ سے عدمِ تعاون اور اپنا دامن بچانے کے خواہش مند ہیں۔

۲- چند سال پہلے منعقد ہونے والے عالمی جائزے میں، جسے گیلپ نے Voice of the Peoples Survey 2006 کہا تھا اور جو ۶۳ممالک کے۵۹ہزار افراد کے سروے پر مشتمل تھا، اس میں دنیا کی آبادی کے ۳۶ فی صد لوگوں نے امریکا کی اس جنگ کو ناکام قرار دیا تھا۔

۳- اسی طرح  PEW Survey کے Global Attitude Project میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا تھا، ۷۴ فی صد پاکستانیوں نے امریکا کو ’ایک دشمن‘ ملک قرار دیا تھا۔

۴- PEW  تحقیقاتی مرکز کے Global Attitude Project کی ۳۰جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ Support for Compaign Against Extremist Wanes (انتہاپسندی کے خلاف عسکری کارروائیوں کی تائید میں کمی ) میں راے عامہ کا  یہ چشم کشا فیصلہ پیش کیا گیا ہے، کہ فاٹا میں فوجی آپریشن جو ۲۰۰۷ء میں شروع ہوا تھا، اسے حاصل شدہ عوامی تائید میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کے خلاف فوج کے استعمال کی تائید کرنے والوں کی تعداد ۵۳ فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر ۳۷ فی صد رہ گئی ہے۔ رپورٹ کا یہ حصہ ہمارے اہل حل و عقد سے سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے:

شدت پسند گروپوں کے خلاف حکومت پاکستان کی فوجی مہم کی حمایت حالیہ برسوں میں کم ہوگئی ہے۔ صرف ۳۷ فی صد اس کی حمایت کرتے ہیں کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے پاکستانی فوج استعمال کی جائے۔ یہ سطح دو سال قبل  کی سطح سے کافی نیچے ہے، جب دو سال قبل کے ایک ایسے جائزے میں جو کہ سوات میں حکومت اور طالبان کے حامی گروپوں میں تنازعے کے بعد کیا گیا تھا جس میں ۵۳ فی صد نے اس کی حمایت کی تھی کہ ان گروپوں سے فوج لڑے۔

۵- واضح رہے کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہیں، لیکن تمام ہی راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے Threat Perception (اندیشوں پر مبنی خیال) میں امریکا سب سے اُوپر ہے، اور آبادی کا ۷۳ فی صد اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۵۹فی صد ہے، جب کہ طالبان کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۲۳ فی صد ہے۔

۶- گیلپ نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک کا ۳۰ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔عوام کے اندیشے کو سمجھنے کے لیے اس کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے اور کوئی پالیسی ساز ادارہ اس عوامی احساس کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔۱؎

واضح رہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۳۲ فی صد اور ۳۱ فی صد۔ گویا ۶۳فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے اہم عامل ہے، خواہ اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔ 

1- 30 years of Polling on Crimes, Violence, Terrorism, and Social Evils  (1980-2010): Perceptions and Fears of Pakistan's Public, Gallup, January 6, 2011, p 46.

دہشت گردوںکو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۲۶ فی صد ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں اس اندازمیں سوال نہیں پوچھا گیا، تاہم ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۲۰۱۱ء کے   سروے میں ۲۳ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۲۰۰۹ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۷۲ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میںاضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا چشم کشا ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۲۰۰۹ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱- یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں......۴۴ فی صد

۲- ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں.....................۴۲ فی صد

۳- معلوم نہیں..................................................۱۴ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۲۰۰۹ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ ذمہ دار کون ہے؟ عوامی راے یہ تھی:

بھارت:...............۱۹ فی صد

طالبان:...............۲۵ فی صد

امریکا:...............۱۶ فی صد

فارن ایجنسی:........۲۷ فی صد

لوکل ایجنسی:........۲ فی صد

سیاسی جماعتیں:.....ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ مزید تفصیل ان جائزوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۷- عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔   یہ گیلپ کا سروے ہے جو دسمبر ۲۰۱۳ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت:........۱۴ فی صد

بہت زیادہ مخالفت:.......۲۹ فی صد

کسی حد تک حمایت:.....۲۵   فی صد

کسی حد تک مخالفت:....۲۹   فی صد

مجموعی حمایت:.........۳۹   فی صد

مجموعی مخالفت:........۵۸   فی صد

معلوم نہیں:............۱۰    فی صد

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قائدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کے مخالفین نے ایک طوفان برپا کردیا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۴۰ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا، جو عوام کی سوچ کا غماز ہے۔(گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۲۰۱۳ء)

یہاں مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے    اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوئوں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے اور اس کے جملہ پہلوئوں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔

نئی حکمت عملی کے رہنما خطوط

ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱- پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دبائو یا گروہی اور کسی خاص اداراتی سوچ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲- اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔ طالبان کیا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے قطع نظر، پاکستانی قوم کا اس جنگ کے بارے میں ایک واضح تصور ہے اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اصل اہمیت عوام کی اس راے کو دینا چاہیے۔

پاکستانی عوام اس جنگ کو ہرگز جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں کو رد کردیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور مسائل کے سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۲۰۰۱ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنی تھی، اس نے بھی عوام کے ان جذبات کو تسلیم کیا تھا اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد میں آزاد خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں نظرثانی، مسائل کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور ردِ جارحیت (deterrance) کے سہ نکاتی فارمولے کا واشگاف اظہار کیا تھا۔ پھر اپریل ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی، جس میں تمام جماعتوں کو نمایندگی حاصل تھی، مکمل اتفاق راے کے ۵۵نکات پر مشتمل ایک واضح پروگرام قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد میں اس پالیسی کا اظہار کیا تھا اور ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کو اولین ترجیح دے کر موجودہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے اس پالیسی کی توثیق کی تھی۔

اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور  اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳- پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں  ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور ان کی روشنی میں اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

  • پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ جس وقت تک پاکستان نے امریکا کے دبائو میں عملاً اپنی فوج کو اس جنگ میں نہیں جھونکا تھا، پاکستان کی سرزمین پر اس راستے سے دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ خودکش بمبار بھی اس کا ایک آلۂ کار بن گئے۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔ شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بگاڑ کا راستہ ہے۔ اس لیے لفظی نزاکتوں اور عملی کوتاہیوں  کو نظرانداز کرتے ہوئے ،ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ دنیا میں ایسے معاملات کا فوجی حل نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتا ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو ان کے اپنے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے بھی  کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘۔ برسرِ جنگ عناصر ہی کے درمیان مذاکرات سے امن کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔
  • دہشت گردی کی دوسری بڑی شکل فرقہ واریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے سے موجود ہے اور بدقسمتی سے اس میں مقامی عناصر کے ساتھ بیرونی ہاتھ بلکہ حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ الحمدللہ، عوامی سطح پر کوئی نفرت اور تصادم نہیں ہے، لیکن مخصوص عناصر بڑے ہولناک انداز میں یہ آگ بھڑکانے اور معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے کا گھنائونا خونیں کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہاں بھی مذاکرات، افہام و تفہیم، تعلیم و تلقین کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مجرمانہ سرگرمی ہے، جس پر آہنی ہاتھوں سے قابو پانا ضروری ہے۔ تمام مذہبی فرقوں کے معتبر اور مقتدر افراد کو مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معلومات فراہم کرنے والی مددگار ایجنسیوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نیز جو بھی بیرونی قوتیں ملوث ہیں ان پر مؤثر گرفت اور تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
  • دہشت گردی کی تیسری شکل کا تعلق ان قوتوں سے ہے، جو علیحدگی پسندی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہماری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ محض قوت کے استعمال سے ان رجحانات کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ جہاں بھی مذاکرات اور سیاسی حل کی ضرورت ہے، وہاں حقیقی مشکلات اور محرومیوں کو دُور کیا جانا چاہیے۔ یہ محرومیاں محض معاشی ہی نہیں، سیاسی بھی ہیں اور خصوصیت سے سیاسی عمل میں صحیح مقام نہ ملنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی حل ضروری ہے۔ البتہ جو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے یا معصوم انسانوں پر ظلم کرے اور ان کے جان و مال پر حملہ کرے، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ کارروائی ردِ جارحیت (deterrance) کی نوعیت کی ہونی چاہیے اور جرم پر قانون کے مطابق گرفت کی شکل میں بھی۔
  • سیاسی میدان میں دہشت گردی کی ایک اور قبیح شکل وہ ہے، جو چند سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس بدترین منظرنامے کا اصل گہوارا کراچی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کون کس کس شکل میں یہ گھنائونا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ دستورِ پاکستان کی واضح خلاف ورزی ہے اور محض سیاسی مفاہمت کے لالچ میں  نہ صرف یہ کہ اسے برداشت کیا گیا ہے، بلکہ فروغ دیا گیا ہے اور فروغ دیا جارہا ہے۔ آج بھی روزانہ اعلان ہوتا ہے کہ اتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے ہیں، جن کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہے، لیکن نہ اس جماعت کا نام لیا جاتا ہے اور نہ اس کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق معاملہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مذاکرات نہیں قانون کے مطابق کارروائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے زیادہ منافقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
  • دہشت گردی کا پانچواں میدان وہ ہے، جس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، بلکہ وہ    کھلے کھلے جرم کی قبیل میں آتی ہے۔ لینڈمافیا، بھتہ مافیا، ڈرگ مافیا، اغوا براے تاوان، گلی محلے کے جرائم وغیرہ، یہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی قانون کی آہنی گرفت سے کیا جانا چاہیے۔ اس نوعیت کی دہشت گردی کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے، اور پولیس مؤثرانداز میں اس کا سدباب کرسکتی ہے، بشرطیکہ پولیس کو سیاست بازی سے پاک رکھا جائے، اسے ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ مناسب تربیت ہو اور وہ دستور اور قانون کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکے۔ پولیس کو سیاسی دبائو کی آلایشوں سے پاک کرکے اس میں پیشہ ورانہ کمال  پیدا کرنے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو وقتی طور پر دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی دستور کے تحت مدد لی جاسکتی ہے، لیکن مستقل حل پولیس کی اصلاح، تربیت، وسائل کی فراہمی اور نگرانی کا مؤثر انتظام ہے۔

یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان جرائم کی قوتِ محرکہ اور مددگار عامل دراصل اس غیرقانونی اسلحے کی فراوانی ہے، جس نے پورے ملک کو لاقانونیت اور دھونس کی آگ میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گذشتہ ۱۲برسوں کے دوران اس خودکار اور آتشیں اسلحے کو ضبط کرنے کے بیانات تو ضرور نظرنواز ہوتے رہے ہیں، مگر اس سمت میں ایک قدم بھی بامعنی طور پر نہیں اُٹھایا جاسکا۔ اور یہ سب شاخسانہ ہے، سیاسی پشت پناہی اور فیصلوں پر عمل کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کا۔ اس لیے حکومت اور انتظامیہ کو اس عفریت پر قابو پانا چاہیے ورنہ یہ تمام دعوے اور اقدامات خواب و خیال ہی رہیں گے۔

۴-  فوجی آپریشن کے بارے میں ہم بہت صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ    فوج ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہے۔ ملک میں امن و امان کا قیام بنیادی طور پر پولیس کی ذمہ داری ہے، اور اس فرق کو سختی سے ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ فوج کی تربیت ایک خاص انداز میں ہوتی ہے اور اسے امن و امان کے قیام کے کاموں میں اُلجھانا اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور سول نظام کے ارتقا کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ غیرمعمولی حالات میں وقتی طور پر دستور میں فوج کے استعمال کی گنجایش موجود ہے، لیکن وہ مخصوص حالات تک محدود ہے اور اسے معمول بنادینا پورے نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔

پھر پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانی کے جو تلخ تجربات رہے ہیں، اس کی روشنی میں تو یہ ہرگز قرین حکمت نہیں کہ فوج کو ان معاملات میں اُلجھایا جائے۔ فاٹا اور سوات میں جو کام فوج کو سونپا گیا، وہ اس غلط حکمت عملی کا حصہ تھا، جس پر مشرف دور سے عمل ہورہا ہے۔ سوات میں فوج پانچ سال سے موجود ہے اور اب تک سول نظام وہاں ذمہ داری اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حالانکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ایک دو سال ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔ شمالی علاقہ جات کا معاملہ   اس سے بھی نازک ہے۔ وہاں کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جو انتظام قائم کیا گیا ہے، وہ چلنے والا نہیں ہے۔ بندوق اور ایف-۱۶ کی بم باری سے امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ کلاشنکوف یا خودکش بمباری سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے۔

 ہم صاف الفاظ میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں فوج کا اقتدار قائم ہوتا ہے تو اسے کوئی چیز دوام سے نہ روک سکے گی۔ الجزائر اور مصر کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ جب فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یا اسے یہ کردار ادا کرنے دیا جائے گا تو پھر اقتدار پر  اسے بُراجمان ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ ہمیں اس خطرناک کھیل سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

ان علاقوں میں امن اس وقت قائم ہوسکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے، جب ہم اس پالیسی کو بحال کریں جو قائداعظم نے ۱۹۴۸ء میں اختیار کی تھی اور جس کی بدولت ۵۰برس تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا۔ ہاں، جو غلطی ہم نے کی، وہ یہ تھی کہ اس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور سیاسی ارتقا کا جو عمل ۱۹۴۸ء کے بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا، وہ دستورسازی کے باوجود شروع نہ ہوا کہ ہماری قیادتوں نے دستور کے عمل دخل سے پورے شمالی علاقہ جات کو باہر قرار دے دیا۔ انگریز کے سامراجی دور کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے ذریعے وہاں حکمرانی ہوتی رہی اور وہاں کے روایتی نظام کو جو مَلک، جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ پر مشتمل تھا، باقی ملک کے نظام سے مربوط نہ کیا گیا۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بلاتاخیر شمالی علاقہ جات کو اس کے تاریخی نظام اور روایات کی روشنی میں باقی ملک کے نظام سے پیوست کیا جائے۔ پاکستان کے دستور اور عدالتی نظام کا وہاں پورا پورا اطلاق ہو۔

اس علاقے کو وہاں کے لوگوں کے مشورے سے یا صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے، جیساکہ FATA کے سلسلے میں کیا جاچکا ہے، یا پھر ان کو ایک صوبے کی حیثیت دی جائے اور وہ پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا پورا کردار ادا کرسکیں۔ جو مضحکہ خیز صورت اس وقت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تو وہ نمایندگی رکھتے ہیں، مگر اسمبلی اور سینیٹ کو ان کے علاقے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں، یہ دو رنگی ختم ہونا چاہیے۔ اس بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی وہ خباثتیں آپ ختم ہوجائیں گی، جو خرابی کا باعث ہیں اور سیاسی، معاشی ، سماجی اور تعلیمی ترقی کا وہ عمل بھی مؤثر ہوسکے گا، جو اس وقت ٹھٹھرا ہوا ہے۔

شمالی علاقہ جات کے مستقبل کا انحصار اس بنیادی تبدیلی پر ہے۔ آگاہ رہنا چاہیے کہ  فوجی آپریشن حالات کو بگاڑ تو سکتا ہے مگر اصلاح کی راہیں استوار نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم حکومت  پاکستان کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ملک اور فوج دونوں کو کسی نئی تباہی سے دوچار کرنے سے مکمل طور پر احتراز کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے وہ راستہ اختیار کرے، جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو اور جو قائداعظم کے وژن اور ان کے دکھائے ہوئے راستے کا تسلسل ہو۔

ہم اپنی معروضات کو ختم کرنے سے پہلے ملک کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ ہم خصوصیت سے تمام مکاتب ِ فکر کسے علماے کرام سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنا دینی، اخلاقی اور سماجی اثرورسوخ استعمال کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں سرگرم حصہ لیں۔ نیز ہم طالبان کے تمام ہی گروپوں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی تمام سرگرمیوں کو سختی سے روکیں، جن کے نتیجے میں معصوم انسانوں کا خون    بہہ رہا ہے، ظلم اور فساد رُونما ہورہا ہے، ملک و ملت کے وسائل تباہ ہورہے ہیں اور اسلام کے   روشن چہرے پر بدنما داغ لگ رہے ہیں۔

اسلام رحمت اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ تمام انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کا ضامن ہے۔ اسلام کے مفاد اور شریعت کی بالادستی کا وہی طریقہ معتبر اور محترم ہے، جو    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، اور جس کے اتباع کا انھوں نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہرمسلمان ہی نہیں، ہر انسان محترم ہے، جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ اسلام انسانوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، ان کو بانٹنے اور کاٹنے کے لیے نہیں    ؎

تو براے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

آیئے! سب مل کر اس ملک کی تعمیر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق کریں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور یہی منزل دستور میں اس    کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ جو بھی کوتاہی ہمارے عمل میں رہی ہے، اسے مل جل کر مشاورت سے  دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دوسری طرف    ایک دوسرے کا سہارا بن کر اسلامی شریعت کے نفاذ اور دستور پر مکمل عمل کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبروحکمت کے ساتھ انصاف، ترقی اور خدمت کی راہوں پر چلنے کی توفیق  عطا فرمائے اور تصادم کی راہ سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟  آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اوروہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور  اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی اُن لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے    پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی   عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔

دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے [لوگ] اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (رسائل و مسائل، چہارم،  ص ۲۷۹-۲۸۳)

فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی  بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے  تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔

اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام، مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ     یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور  اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔

لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری     حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ  نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور  اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔

شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا    ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔

اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں، اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کریں۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔

رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پاکی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کررہے تھے، اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔

جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے لوگ لے کر کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم وستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہر حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رونما ہوتے ہیں:

  •  ایک نتیجہ یہ کہ اس صورت حال میں بہت سے باہمت اور اُولوالعزم لوگ ہی اس دعوت کو علانیہ قبول کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایسا قیمتی سرمایہ ثابت ہوتے ہیں جو کسی دوسری صورت میں بہم نہیں پہنچ سکتا۔
  • دوسرا نتیجہ یہ کہ ظالموں کی پیدا کردہ اِس خوفناک فضا میں بکثرت، بلکہ بے اندازہ لوگ اس دعوت کو دل میں مان لیتے ہیں مگر آگے بڑھ کر اس میں شامل نہیں ہوتے۔ مخالف طاقت آخرکار اس کا خود نقصان اٹھاتی ہے۔ اسے قطعی اور حتمی شکست ہونے تک کبھی یہ پتا ہی نہیں چلنے پاتا کہ جس دعوت کو مٹا دینے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اس کے حامی کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اُس کی اپنی صفوں تک میں موجود ہوتے ہیں اور وہ اُن سے بے خبر رہتی ہے۔
  •  تیسرانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی برتری اور دعوت کی معقولیت و صداقت اپنی فطری طاقت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دشمن اُس کے پیروئوں پر جتنا زیادہ ظلم کرتے ہیں اُتنے ہی وہ ہر شریف النفس اور نیک طبع انسان کی نظر سے گرتے جاتے ہیں۔ اُس کے پیرو جتنی ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ ظلم برداشت کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی حق پرستی سے بال برابر بھی نہیں ہٹتے، اُتنی ہی ان کی قدرومنزلت عام دیکھنے والوں ہی میں نہیں، بلکہ خود دشمنوں کی صفوں میں بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، اور پھر جب فیصلہ کن مقابلوں کا وقت آتا ہے تو قدم قدم پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں طرح طرح سے کام آتی ہیں جو دشمنوں کے جبر کی وجہ سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے مگر دل سے اِس دعوت کے حامی تھے۔ یہاں تک کہ آخرکار چند مٹھی بھر ہٹ دھرم دشمن ہی میدان میں رہ جاتے ہیں جن کا ساتھ دینے والا تو درکنار ان کے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلندرکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۰۳-۳۰۷)

[خیال رہے کہ] دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل  ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔(رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۸)۔(انتخاب وترتیب: امجد عباسی)

حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وفد یمن کی طرف بھیجنا طے فرمایا اور اس پر انھی لوگوں میں ایک شخص کو امیر مقرر فرمایا، جو ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ وفد چند دن تک ٹھیرگیا، اپنی منزل یمن کی طرف روانہ نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفد کے ایک آدمی سے ملاقات ہوگئی تو آپؐ نے اس کا نام لے کر فرمایا: اے فلاں! تمھیں کیا ہوا تم گئے نہیں؟  تو اس نے جواب میں عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے امیر کے پائوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ تب نبی کریمؐ امیر کے پاس آئے اور اس پر بسم اللّٰہ، باللّٰہ وبقدرتہ من شر ما اَجِدُ فِیْھَا  (اللہ کے نام اللہ کی مدد سے اور اس کی قدرت کے وسیلے سے مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ !اس کے پائوں میں جو تکلیف ہے اسے دُور فرما دے) پڑھ کر دم کیا۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔

ایک بزرگ شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اس نوجوان کو ہمارے لیے امیر بنادیا ہے حالانکہ یہ ہم سب سے چھوٹا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے پاس قرآن پاک ہے۔ (یعنی قرآن پاک کے علم نے اسے امارت کے قابل بنا دیا ہے)۔ اس شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میں رات کے وقت سویا رہ جائوں گا اور اُٹھ نہ سکوں گا تو میں بھی قرآن پاک زیادہ سیکھ لیتا اور یاد کرلیتا(اس نے سوچا کہ حافظ قرآن کے لیے ضروری ہے کہ رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھے اور اسے رات کو اُٹھنے کی عادت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بقدرِ ضرورت قرآن پاک کی سورتیں یاد کی تھیں۔ اس سے زیادہ اس لیے یاد نہ کیا کہ رات کو اُٹھنا پڑے گا جو اس کے لیے مشکل تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن پاک سیکھو۔ قرآن پاک اس مشکیزے کی طرح ہے جس میں خوشبو بھری ہوئی ہو تو اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، جب کہ وہ کھلا ہو۔ اسی طرح قرآن پاک جب تم پڑھو گے اور وہ تمھارے سینے میں محفوظ ہوگا تو اس کی خوشبو پھیل جائے گی۔ (طبرانی)

آپؐ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک جب بھی پڑھو گے دن کو یا رات کو ، اس کی خوشبو پھیلے گی، لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہوگا، اردگرد کے علاقے کو اس کی برکت اور فیض ملے گا۔ رات کو اُٹھ کر پڑھ سکو تو فبہا ورنہ دن کو پڑھ لیا کرو، دن میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ قرآنِ پاک کی برکت سے  آدمی کو جو عظمت اور دینی فہم وفراست ملتی ہے وہ اسے قیادت کے منصب تک پہنچا دیتی ہے۔اسلامی قیادت میں تو اس بات کو لازمی دیکھا جائے گا کہ کون ہے جس کے پاس قرآن پاک کا علم زیادہ ہے اور اس پر عمل میں وہ آگے ہے۔ علمِ قرآن و سنت اور اس پر عمل آدمی کو اسلامی قیادت کے قابل بنادیتا ہے۔ آج قیادت کے اس معیار کو نظرانداز کردیاگیا ہے جس کے نتیجے میں ایسے حکمران مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں جو قرآن وسنت کے علم اور عمل سے محروم ہیں اور یہی چیز ان مصائب اور مشکلات کا سبب ہے جس سے اُمت مسلمہ دوچار ہے۔ اُمت کو اپنے مقام پر کھڑا کرنے اور اسے مصائب و مشکلات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس اصول کو قیادت کے انتخاب میں معیار بنادیا جائے۔ عوام کو اس اصول کے مطابق قیادت منتخب کرنے کی تعلیم و تربیت دی جائے۔

٭

حضرت خولہ بنت قیسؓ جو حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی بیوی ہیں، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے بنی ساعدہ کے آدمی کی ایک وسق (۵ من تقریباً) کھجوریں تھیں۔ وہ وصولی کے لیے آگیا، تو رسولؐ اللہ نے ایک انصاری کو حکم دیا کہ اسے اتنی کھجوریں دے دیں جتنی اس سے لی گئی تھیں۔ اس انصاری نے اسے اسی طرح کی عمدہ کھجوریں دینے کے بجاے اسے گھٹیا قسم کی کھجوریں پیش کیں تو اس نے ان کو رد کردیا۔ انصاری نے کہا: تم رسولؐ اللہ کی کھجوریں واپس کرتے ہو! اس نے جواب دیا: رسولؐ اللہ زیادہ حق دار ہیں کہ عدل فرمائیں۔ رسولؐ اللہ نے سنا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور فرمایا: اس شخص نے سچ کہا ہے، مجھ سے زیادہ عدل کرنے کا کون حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو پاکیزگی کے مرتبے پر فائز نہیں فرماتا جس میں کمزور آدمی طاقت ور سے اپنا حق وصول نہ کرسکے اور طاقت ور کے دبائو میں بھی نہ آئے۔ پھر حضرت خولہؓ سے فرمایا: اس شخص کو گن کر اس کی عمدہ کھجوریں ادا کردو ۔ جو قرض خواہ اپنے مقروض سے اس حال میں واپس جائے کہ اس سے راضی ہو تو اس کے لیے زمین کے جانور اور سمندر کی مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں، اور جو آدمی قرض کی ادایگی کرسکتا ہو لیکن ٹال مٹول سے کام لے تو اللہ تعالیٰ ہردن اور رات کو    اس کے کھاتے میں گناہ لکھ دیتا ہے ۔ (طبرانی)

قرض جتنا لیا جائے اور جس نوعیت کا لیا جائے اتنا ہی اور اسی نوعیت کا واپس کرنا ہوتا ہے۔ قرض پر اضافہ سود ہے اور سود لینے اور دینے والے اور اس کے لین دین میں تعاون کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت برستی ہے۔ اس کے مقابلے میں قرضِ حسن کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ  کو بھی قرضِ حسن قرار دیا گیا اور اس پر ۷۰۰ گنا اور اس سے بھی زیادہ ثواب رکھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف میں جو نمونے پیش کیے ہیں آج اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ انھیں عملی جامہ پہنائے۔ بنکاری میں سودی نظام کو ختم کردے ۔ بنک جو قرضے جاری کرے جتنے دے اتنے ہی واپس لے اور اگرمنافع لینا چاہے تو شرکت اور مضاربت کے اصول پر تجارت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ بیع کے ذریعے کاروبار کرکے اپنے لیے رزقِ حلال کا انتظام کرے اور رزق حرام سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بچائے۔

٭

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ کے لوگوں نے ایک طرف سے کوئی آواز سنی اور خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں دشمن نے حملہ تو نہیں کر دیا۔ چنانچہ لوگ باہر نکلے جس طرف سے آواز آئی، اس طرف کا رُخ کیا تو سامنے سے رسولؐ اللہ کو حضرت ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر سوار آتے ہوئے دیکھا۔ فرمایا: کوئی خطرے کی بات نہیں ہے اور گھوڑے کے متعلق فرمایا: میں نے اسے سمندر کی رفتار والا پایا۔(بخاری، مسلم)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں آپؐ کی بہادری کی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہ بھی ان مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام آدمی کی سی زندگی بسر کی اور کسی بھی وقت رعیت کی خبرگیری سے غافل نہ رہے۔آج جسے اقتدار مل جاتا ہے رعیت کے حالات سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ نہ عام آدمی کی اس تک رسائی ہوتی ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا دورِ حکومت خلافت علیٰ منہاج النبوۃ (نبوت کے طریقے پر حکومت) کہلاتا ہے۔ آج خلافت راشدہ کے دور کو واپس لانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا اسلام کو عملاً قائم دیکھ کر اسلام سے متاثر ہو اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائے۔

٭

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ بھی ساتھ تھے۔ دونوں پیدل چل کر پہنچے تو مجھے بے ہوش پایا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جو پانی آپؐ کے اعضاے مبارکہ سے گرا وہ مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اپنے مال کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کروں؟ میں اپنے مال کا کیا فیصلہ کروں؟ آپؐ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کے بارے میں آیت نازل ہوگئی۔(بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بے شمار تھیں۔ راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنا، دن کو تعلیم و تربیت اور گھر میں ہوں تو گھروالوں کے ساتھ تعاون کرنا۔ اس کے باوجود اپنے ساتھیوں کے حالات اور ان کی دیکھ بھال سے بھی لاتعلق نہیں رہتے تھے۔ بیماروں کی بیمارپُرسی فرماتے۔ فوت ہونے والوں کے جنازے ادا فرماتے، تنگ دستوں کی ضروریات کا انتظام فرماتے۔ حضرت جابرؓ کی بیمارپُرسی بھی کی اور ان پر اپنے وضو کا مبارک پانی ڈال کر علاج بھی کردیا۔ حضرت جابرؓ نے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آیت ِ میراث کے ذریعے حکم نازل فرما دیا۔ کیسا مبارک دور تھا! صحابہ کرامؓ سوال فرماتے تو آسمان سے ان کے سوالوں کے جواب اُترتے اور پھر وہ اُن کو ٹھیک طرح سے عملی جامہ پہناتے۔ آج بھی ہم  رب تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار کرسکتے ہیں۔ قرآن و سنت پر عمل کریں اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کے جس حکم پر بھی عمل ہو وہ قربِ الٰہی کا ذریعہ اور دعا کی قبولیت کا وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

٭

حضرت عمرو بن میمون اودیؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اپنے بیٹوں کو یہ دعا ایسے اہتمام سے سکھاتے تھے جیسے استاد بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے، اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے:  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ’’اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔(بخاری، کتاب الجہاد)

اس دعا کو ہم خود بھی یاد کرکے پڑھیں، اور اپنی اولاد کو بھی سکھائیں، اس طرح کی حدیثوں کے ساتھ ہمارا رویہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ سن کر رہ جائیں بلکہ اس پر اِسی وقت سے عمل شروع کردیں۔

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت، گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں کا وجود ہے۔ صاحب ِ ثروت اور خوش حال گھرانوں میں یہ ملازمین روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، قلیل معاوضے پر بڑی راحت پہنچاتے ہیں۔ دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں جس کے عوض مالک کی کوٹھی کے ایک گوشے میں انھیں سرچھپانے کو جگہ مل جاتی ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے پر فوقیت قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت، بعض لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۳۲) کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزربسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں۔

عام طور پر لوگ خادم کو مالک یا مخدوم کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ خود خادم کے کیا حقوق ہیں جو مخدوم پر عائد ہوتے ہیں    ؎

تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

اس پہلو سے بھی ہمارے لیے بہترین اسوہ اور مثالی نمونہ حضوؐر کی ذاتِ مبارک ہے، جو صاحب ِ خلق عظیم بھی ہیں اور اللہ کے آخری رسولؐ بھی۔ قرآنِ مجید میں ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے گھر انے بھی ہیں جہاں خادموں کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ایسے گھر بھی بہت ہیں جہاں خادموں پر ظلم ہوتا ہے۔ ان کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کیے جاتے۔ اس لیے یہ امر ضروری معلوم ہوا کہ خادموں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بُرے انجام اور حقوق کی پامالی سے جڑی  عبرت ناک سزا سے لوگوں کو خبردار کیا جائے۔ اس مضمون میں خادم سے مراد گھریلو ملازمین ہیں جن سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ حضوؐر کے معاملات خادموں کے ساتھ کیسے تھے؟ کتاب و سنت اور سیرت سلف صالحین سے اس باب میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

حُسنِ سلوک

نیکی اور خیر کے کاموں میں حُسنِ معاملہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سیّدالبشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدام کے ساتھ اچھا برتائو کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ حضوؐر کے خادمِ خاص حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن حضوؐر نے مجھ سے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا؟(بخاری)

دینی تعلیم کا اھتمام

مسلمان خادم سے حُسنِ سلوک کا یہ اوّلین تقاضا ہے کہ اُسے دین کی ضروری تعلیم دی جائے۔ توحید باری تعالیٰ سے آغاز کرتے ہوئے دین کے بنیادی عقائد ان پر واضح کیے جائیں اور نماز و روزہ سے متعلق احکام بتائے جائیں۔ اکثر ملازمین ایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں جہالت اور بدعت کا رواج ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رئیس خانہ گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور گھر والے اس کے ماتحت ہوتے ہیں جن میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے ذمہ دار سے آخرت میں بازپُرس ہوگی کہ اس نے اپنے ماتحتوں میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ کہاں تک ادا کیا ۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(متفق علیہ)۔ اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خادموں سے ذکر  کیا جائے کہ وہ اپنا فطرہ ادا کریں یا پھر اس سے اجازت لے کر مخدوم/مالک اس کا فطرہ خود اداکرے۔ اگر خادم غیرمسلم ہو تو اسے حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے جو بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم تمھاری وساطت سے اللہ تعالیٰ کا کسی ایک شخص کو ہدایت دینا تمھارے حق میں دنیا ومافیہا کی ہرنعمت سے بڑھ کر ہے‘‘۔(متفق علیہ)

خادم پر مال خرچ کرنا

خادم یا خادمہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجراللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضوؐر نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، کیوں کہ وہ روزانہ ساتھ رہتے ہیں اور نفل صدقات سے اس کے اندر مخدوم کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خادم     رزقِ حلال کمانے کے لیے اپنے گھر اور آرام کو تج کرآپ کو راحت پہنچاتا ہے اور مروت کا تقاضا ہے کہ صدقہ دے کر اس کو بھی مالی راحت پہنچائی جائے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں اِنفاق کرو۔  اس پر ایک شخص نے حضوؐر سے کہا: میرے پاس ایک دینار ہے، میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ حضوؐر نے فرمایا: اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعداپنی بصیرت سے اِنفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔ (بخاری)

خادم کی اُجرت

یہ جائز نہیں کہ خادم کی طے شدہ تنخواہ میں کمی کی جائے یا تاخیر سے دی جائے۔ یہ ملازم کا حق ہے کہ اس کی تنخواہ پوری اور وقت پر ملے ۔ دراصل یہ ایک امانت ہے جو خادم اپنے آقا کے ہاں رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے: ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘(النساء۴:۵۸)۔ لہٰذا ملازم کا حق سلب کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ہے۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کے خلاف مقدمہ قائم کریں گے اگر اس نے مزدور و خادم کی اُجرت ادا نہ کی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں خود تین لوگوں کے خلاف دعویٰ دائر کروں گا۔ ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس سے مُکر گیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے ایک آزاد مسلمان کو غلام کی حیثیت سے بیچ کر اس کا مال کھالیا۔ تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور یا ملازم سے اُجرت پر رکھا اور پورا کام لینے کے بعد اس کی اُجرت عطا نہ کی‘‘۔(بخاری)

عفو و درگزر

ہم میں کون ہے جو خطاکار نہیں اور خطا کی معانی کا طالب نہیں؟ یہی احساسات ایک خادم کے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمیں خادم کو کتنی بار معاف کرنا چاہیے؟ آپؐ نے سکوت فرمایا۔ اس شخص نے پھر اپنی بات عرض کی۔ آپؐ نے پھر سکوت فرمایا۔ جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابوداؤد، ح: ۴۵۱۷)

طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا

خادم کے حقوق میں یہ ہے کہ اس پر طاقت سے زیادہ کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے، نہ کام کے دائرے ہی کو غیرمعروف طریقے سے بڑھایا جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: ’’کھانا اور کپڑا غلام کا حق ہے اور اس سے بس وہی کام لیا جائے جس کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو‘‘(مسلم)۔جب غلام کے لیے اتنے حقوق اسلام دیتا ہے تو پھر آزاد ملازم تو اور زیادہ عنایت کا حق دار ہے۔ اگر ملازم کی مقدرت سے بڑھ کر کوئی کام لینا پڑے تو مالک و مخدوم کو چاہیے کہ وہ خادم کی مدد کریں۔

عدم توھین

خادم سے حُسنِ سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی توہین نہ کی جائے اور نہ اس کو ماراپیٹا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعوت قبول کرو، ہدیے کوواپس نہ لوٹائو اور مسلمانوں پر ہاتھ نہ اُٹھائو‘‘(احمد)۔   نبی کریمؐ نے اپنی پوری زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ اور کہیں کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ کسی جانور کو، نہ اپنی بیویوں کو اور نہ خادم کو، اِلا یہ کہ آپؐ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں(مسلم)۔ نبی اکرمؐ نے اس چیز کی باربار وصیت کی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے نبی کریمؐ کو دیکھا کہ ان کے پاس دو غلام تھے۔ اس میں سے ایک غلام آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدیہ کیا اور ارشاد فرمایا: ’’اسے مت مارو، میں نے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا ہے، اور میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے ‘‘۔(بخاری)

حضور اکرمؐ اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے تھے کہ خادموں کے ساتھ شفقت کا برتائو کریں۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ: ’’میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے  یہ آواز سنی کہ اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمھیں اس غلام پر حاصل ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسولؐ اللہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں جلا ڈالتی، یا یہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی‘‘۔(مسلم)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نرمی اور شفقت کو پسند فرماتا ہے، اور نرم رویہ اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی اختیار کرنے پر نہیں دیتا۔ بڑی برائی یہ ہے کہ عمداً خادم کو ماراپیٹا جائے اور خاص طور پر اس کے چہرے پر مارا جائے اور یہ حضوؐر کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی کسی کے چہرے پر نہ داغے اور نہ مارے‘‘۔(بخاری) 

طعام خادم (میں نے ہر طریقے سے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی، لیکں یہ ط کی جگہ ب ہی آ رہا ہے )

اگر خادم کی معاشی حالت مخدوم سے کم تر ہوتو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خادم کو طعام اس کی معاشی سطح سے کم ترنہ دیا جائے۔ معاشی تفریق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے اس دنیا میں رائج ہے۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے حاجت روائی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ (غلام) تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ ان کو وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو، اور وہی پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اس کو ایسے کام پر مجبور نہ کروجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور    اس کے لیے بوجھ ہو۔ اور اگر ایسا کام اس سے لو جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو پھر اس کام میں خود بھی اس کی اعانت اور مدد کرو۔(متفق علیہ)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر غلام یا خادم، خانساماں (باورچی) ہو تو اس کو اس پکوان میں سے کھانا دیا جائے جو اس نے بنایا ہو کیوں کہ اس نے کھانے کی خوشبو سونگھی اور اس کو دیکھ لیا ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرمؐ نے حکم دیا کہ خادم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے اور اگر کسی کو ساتھ کھانا ناگوار گزرتا ہے تو خادم کے لیے کھانا دے دے(احمد)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے وقت خادم آئے اور ساتھ شریک نہ ہوسکے، تو چاہیے کہ اسے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دے۔(متفق علیہ)

خادم کو کھانا کھلانا صدقہ ہے، اسی طرح جیسے اپنے آپ پر، اپنی بیوی اور بچوں پر کھانے کے لیے خرچ کرنا صدقہ ہے۔ صحابی رسولؐ حضرت المقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ  انھوں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’جو کچھ تم نے [رزقِ حلال میں سے] خود کھایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو اولاد کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو بیوی کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا ہے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے‘‘۔(احمد)

خادموں سے پردہ

خادمہ سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ گھر کے مرد غضِ بصر سے کام لیں اور اس سے گھر کے دیگر افراد کی عدم موجودگی میں کام لینے سے احتراز کریں۔ یہ ایک مسلمان کی گردن پر امانت ہے۔ اجنبی عورت سے خلوت کی جو عمومی ممانعت ہے اس کا اطلاق خادمہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس نے ارشاد فرمایا: ’’مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ اختیار کرے اِلا یہ کہ وہ محرم ہو‘‘ (بخاری)۔ صاحب ِ خانہ کو چاہیے کہ ان اخلاقی حدود کی تعلیم اپنے لڑکوں کو بھی دے جو سنِ بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خادم سے خلوت میں کام لے، اور نہ اس کی طرف نظریں اُٹھائے۔ وہ اس کے لیے اجنبی مرد ہے جو اُجرت پر کام کے لیے آیا ہوا ہے، اور درج بالا حدیث میں اجنبی مرد کے لیے غضِ بصر اور خلوت کی جو ممانعت ہے وہ      مخدوم عورت اور خادم مرد کے لیے بھی ہے۔ اگر گھریلو ملازم عورت/خادمہ مل جائے تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اکثر گھریلو کام کے لیے ملازم گھر کی خواتین سے زیادہ سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک بڑا منکر    یہ بھی ہے کہ عورت تنہا، ملازم ڈرائیور کے ساتھ کار میں گھومتی پھرتی رہے۔

خادم کی نگرانی

سلف صالحین کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ خادموں کی نگرانی کرتے تھے اور اپنے مال و اسباب کو بلاحفاظت نہیں چھوڑتے تھے۔ خادموں کو چوری کرنے اور امانت میں خیانت کے مواقع نہ دیے جائیں۔ صاحب ِ خانہ اپنے روپے اور جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا حفاظت سے رکھتے ہیں تو اس سے انھیں دو فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ چوری کو روک سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی چیز کھو جاتی ہے تو وہ خادم کے تعلق سے سوے ظن سے بچ جائیں گے۔ تابعی ابی العالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم خادم پر نگرانی کریں۔ سامان کو ناپ تول کر اور گن کر رکھیں تاکہ وہ محفوظ رہے۔ غلاموں اور خادموں کے اندر لالچ نہ پروان چڑھے اور وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوجائیں۔ انھیں گناہوں سے بچانے کی یہ ترکیب ہے اور اپنے آپ کو سوے ظن سے۔

حضرت ابوہریرہؓ جب خادم سے بازار سے گوشت منگواتے تھے تو گوشت کے ٹکڑوں کو گن لیا کرتے تھے اور جب کھانے کے لیے تشریف رکھتے تو خادم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالے۔ ان سے جب اس معاملے کی علّت پوچھی گئی تو فرمایا: اس طریقے سے دل کی تسلی بھی ہوتی ہے اور وہم و وسوسہ دُور ہوجاتا ہے کہ شاید خادم نے کچھ گوشت چُرا لیا ہوگا(بخاری)۔ اسی طرح حضرت سلمانؓ کا بھی طریقہ تھا کہ وہ گوشت کی ہڈیاں گن لیتے تھے تاکہ سوے ظن سے بچا جائے۔

خادم کے لیے دعا

حضو رسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں اور اپنے مال کے حق میں بددُعا کریں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے لیے بددعا نہ کرو،نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددُعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمھاری بددعا قبول ہوجائے۔(ابوداؤد)

 حضور اکرمؐ اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں: دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضوؐر نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضوؐر نے کبھی یوں دعا دی: ’’اے ہمارے رب! انس کو مال و اولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ جب آپؐ کو پانی پلایا گیا تو آپؐ نے پانی پلانے والے خادم کے حق میں دعا کی: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی طرف سے اس شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا، اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی پلایا‘‘ (مسلم)۔ امام نوویؒ کہتے ہیں کہ یہ مسنون دعائیں محسن اور خادم کے لیے ہیں۔ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے ملازم کے حق میں دعا دیتے ہیں جب بھی وہ کھانا یا پانی ہماری خدمت میں پیش کرتا ہے۔

اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی جزا عمل سے مربوط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘ (متفق علیہ)۔ اگر آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا تو آ پ کے لیے اجرعظیم اللہ تعالیٰ کے ہاں منتظر ہے۔ یہ بشارت ہے نبی صادق و مصدوقؐ کی: ’’عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی جناب میں نور کے منبروں پر تشریف فرما ہوں گے۔ خداے رحمن کے داہنی جانب اور اللہ جل شانہٗ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اُمور میں، اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کے مابین انصاف کرتے رہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ کی یہ دعا بھی پیش نظر رکھیے: ’’اے ہمارے رب! جو کوئی میری اُمت کے معاملات پر والی مقرر ہو ا اور اس نے میری اُمت پر سختی کی تو اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ سختی کا معاملہ فرما، اور جس کسی نے میری اُمت کے معاملات شفقت و محبت کے ساتھ انجام دیے، اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا برتائو اختیار فرما‘‘ (مسلم)۔

(اخوانکم خولکم، عربی کتابچے سے اخذ و ترجمہ)

اپنے دفتر کو کیسے منظم کریں؟

  • آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ منظم بھی ہوں اور منظم نظر بھی آئیں۔
  • دفتری زندگی میں کاغذات کثرت سے جمع ہوجاتے ہیں اور ان کی موجودگی پریشان کن ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک الماری لی جائے یا کاغذات کو ترتیب سے رکھنے والے فولڈرز کارآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنے کاغذات کو منظم کرلیں اور جو غیر ضروری ہیں انھیں ضائع کردیں اور جن کے متعلق فیصلہ نہیں کرسکتے انھیں اپنے کاغذات کے بنائے گئے پارکنگ لاٹ میں رکھ دیں۔
  • اپنی میز سے غیر ضروری چیزوں کو ہٹادیں اور ہر چیز کی ایک جگہ بنادیں اور ہر چیز اپنی جگہ پر رکھنے کی عادت ڈالیں۔
  • اپنی میز پر وہ تمام چیزیں جمع کرلیں جن کی آپ کو کام کے دوران ضرورت ہوتی ہے۔
  • اپنی میز کی درازوں کی ترتیب کا جائزہ لیں اور جو چیزیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ہیں انھیں پہلی دراز میں رکھ لیں۔
  • اپنے اوقات کو منظم کرنے کے لیے کوئی ڈائری رکھیے یا کیلنڈر کا استعمال کریں اور آپ کے لیے ممکن ہے تو دور جدید کے آلات، مثلاً پلاننر، پی ڈی اے یا لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون بھرپور استعمال کریں اور انھیں سکائی ڈراییو کے ذریعے محفوظ بھی کرتے رہیں۔
  • ٹیکنالوجی کے اس دور میں تاروں کی بھرمار ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں نہ صر ف اُلجھن ہوتی ہے بلکہ وقت بھی ضائع ہوتاہے۔ ایسی صورت میں ان تاروں کوآپ تھیلیوں میں ڈال کر رکھیں ورنہ ان کو کسی بھی انداز سے کلپ کرلیں یا ربڑ رنگ سے باندھ لیں۔
  • اپنے دفتر کے لے آئوٹ کو اس انداز سے بنائیں کہ آپ کو کام کرنے میں آسانی ہو۔

یومیہ کرنے کے کاموں کی فہرست

  • انگریزی میں اسےTo Do List کہتے ہیں۔ اس فہرست کے ذریعے آپ اپنے روزانہ کے کرنے کے کاموں کو تحریر کرتے ہیں اور پھر ترجیحات متعین کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند تجاویز یہ ہیں:
  • یہ چھوٹے کارڈز بھی ہوسکتے ہیں یا نوٹ بک بھی یا پاکٹ ڈائری بھی۔ دورِ حاضر میں ٹکنالوجی  کے استعمال سے آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
  • جب آپ اس فہرست کو استعمال کریں تو سارا دن آپ کی نظروں کے سامنے ہونی چاہیے۔
  • یہ فہرست روزانہ شام کو بھی اگلے دن کے لیے تیار کی جاسکتی ورنہ کم از کم روزانہ صبح کو کام شروع کرنے سے پہلے تیار کرلینی چاہیے۔
  • اس فہرست میں وہی کام ہوں جو آپ آج کے دن کرنا چاہتے ہیں۔ اس فہرست میں پورے ہفتے کے کام لکھ کر آپ اپنے آپ کو پریشان کردیں گے۔
  • اہم ترین کاموں کو سر فہرست رکھیں ورنہ ترجیحات کے اشارات بنالیں یا اردو کے الف، ب، ج یا انگریزی کے اے، بی ،سی وغیرہ استعمال کرلیں
  • اس دوران آپ کے ذہن میں مختلف خیالات بھی آتے رہیں گے جس کے لیے آپ کے نوٹ کرنے کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔
  • اپنے ممنوعات کی بھی فہرست بنالیں، یعنی وہ کام جن کو آپ دن میں نہیں کریں گے، جیسے سوشل میڈیا کے کام اور رابطے۔ یہ کام آپ دفتری اوقات میں نہیں کریں گے بلکہ ان کا بھی ایک وقت معین ہوگا جس میں آپ یہ کام بھی کرکے نکل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جس میں آپ ڈوب جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ نکل نہیں سکتے۔
  • اتنے کاموں کی فہرست بنائیں جو آپ کرسکتے ہیں۔ انھیں ترجیحات اور ترتیب کے ساتھ کرنے کی کو شش کریں تاکہ شام کو آپ کو کارکردگی کا احساس ہو۔
  • جب آپ فہرست کے کاموں میں سے کوئی کام ختم کرلیں تو آپ کا حق بنتا ہے کہ آ پ ہلکا سا وقفہ لے لیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک کام ختم ہونے کے بعد لیں۔ اگر کام کے دوران وقفے لینے شروع کردیے تو آپ کے کام عموماً ادھورے رہ جائیں گے۔
  • جب آپ کوئی کام نہ کرسکیں تو اسے اگلے دن کی فہرست میں ڈال دیں۔
  • ہمیشہ دفتر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنی فہرست کو سامنے رکھتے ہوے اپنے دن کی منصوبہ بندی کریں۔
  • جب فہرست بنائیں تو اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنگ ِبدر کے شروع ہونے سے پہلے میدان بدر میں اپنی انگلی مبارک سے چند لکیریں کھینچیں تھیں جن کے بارے میں ماہرین جنگ نے لکھا ہے کہ اسلام کے لیڈر جنگ شروع کرنے سے پہلے جنگ کی تیاری کررہے تھے۔ اگر آپ استنباط لیں تو آپ اپنی یومیہ فہرست بناکر  نبی اکرمؐ کی سنت پر عمل کررہے ہیں۔
  • اپنے دن کی ابتدا میں یہ دعا پڑھا کریں۔۔۔اے اللہ ! آپ ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادیں۔

 کام کے دوران مطلوبہ صلاحیتیں

کامیابی کے لیے چند مطلوبہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں:

  • کمیونی کیشن، یعنی زبانی اور تحریری انداز بیان کی مہارت۔ اس کی کاروباری اور دفتری زندگی میں بڑی اہمیت ہے خاص کر جب آپ پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں یا بین الاقوامی معیار کے اداروں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کے عناصر یہ ہیں:

سمجھ کے پڑہنے کی صلاحیت:

  • تحریری طور پر اپنے خیالات اور نقطۂ نظر بیان کرنے کی صلاحیت۔
  • بات کرنے کاوہ اندازجسے مقابل یا دوسرے لوگ سمجھ سکیں۔
  • متحرک طریقے سے سننے کی صلاحیت۔
  • ناقدانہ انداز سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت۔

باہمی رابطے یا انٹر پرسنل صلاحیتیں:

  • دوسروں کی رہنمائی کی صلاحیت۔
  • باہمی اختلافات کو سمجھنے اور مذاکرات کے ذریعے انھیں حل کرنے کی صلاحیت۔
  • نمایندگی کرنے اور اپنی بات متاثر کن انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت۔
  • ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی صلاحیت۔

فیصلہ کرنے کی صلاحیت:

  • مسائل کو سمجھنے کی اور ان کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت۔
  • مسائل کو حل کرنے اور ان پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔
  • اس صورت حال میں احسن طریقے سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔

زندگی بھر کام آنے والی صلاحیتیں:

  •  ذاتی طور پر بقا اور ترقی کے لیے سیکھنے کی ذمہ داری کی صلاحیت۔
  • جو کچھ سیکھا ہے اسے ظاہر کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی صلاحیت۔
  • تحقیق کے ذریعے سیکھنے کی صلا حیت۔
  • دور جدید کی معلوماتی اور رابطے کی ٹکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت۔
  • اپنے ادارے کے ذریعے ان صلاحیتوں کو دفتری اوقات میں یا تعطیلات کے دنوں میں یا گھر کے اوقات میں سیکھنے کی کوشش کیجیے۔

دفتری زندگی اور دفتری سیاست میں بقا کی کوشش

  • دفتری زندگی میں بقا بعض افراد کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ دفتری سیاست ہے جس میں بعض اوقات انسان کے لیے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات انسان کی عزت نفس کو اس بُری طرح ٹھیس پہنچائی جاتی ہے کہ انسان اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے یا وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتاہے۔اس سلسلے میں چند امور غور طلب ہیں:
  • دفتری سیاسی ہوائوں کو سہنے یا جواب دینے کا معاملہ آپ کی صواب دید پر ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو ہوشیار اور باہمت رہنا پڑے گا۔ لوگوں کی چالوں اور مکاریوں سے گھبرانے کے بجاے آپ کو صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
  • دفتری سیاست کے دوران آپ کوآپ کے ادارے کے کاروباری مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور اس سیاسی طوفان کے دوران اگر آپ نے اپنے ادارے کے مقاصد کی خاطر کڑوی گولی کھالی تو یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ شروع کے دنوں میں اس بات کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کی توہین کرکے آپ کو ناکام کردیا جائے۔
  • آپ اپنی صلاحیتوں اور دائرہ کار کی قوت کے ذریعے اپنی مقدور بھر کوشش کریں کہ آپ   اس سیاسی طوفان سے گزر جائیں اور ادارے کی بھلائی کے لیے آپ جو بھی کرسکتے ہوں کرگزریں۔
  • دفتری زندگی میں عموماً کئی گروپ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی سیاسی کش مکش میں آپ اور آپ کا کام اور کارکردگی متا ثر ہوتی ہے۔ بہتر ہے اس سیاسی کش مکش میں آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی گروہ یا پارٹی کا حصہ نہ بنیں۔
  • دفتری زندگی میں کام کے دوران جو صورت حال پیدا ہو اسے آپ اپنی ذات پر نہ لیں بلکہ اپنے ہمدردوں اور دوستوں کے نیٹ ورک سے بھرپور استفادہ کریں۔ آپ کی ترقی کی راہ میں خود آپ کے اپنے ساتھی رکاوٹ بنتے ہیں اور آپ کے افسر کے ساتھ وہ معاملات طے کرتے ہیں جس سے آپ کا افسر آپ کی ترقی کے لیے نامزدگی میں مشکلات محسوس کرتا ہے۔ بہرحال آپ کا نیٹ ورک ہی معاونت کرسکتاہے۔
  • اپنی بات سمجھانے سے پہلے اس بات کی کوشش کریں کہ آپ لوگوں کی بات سمجھ سکیں۔    اس طرح آپ کے دفتری افراد سے روابط اچھے ہوجائیں گے اور وہ محسوس کریں گے کہ  آپ ان کی بات سمجھ گئے ہیں۔
  • آپ کا انداز اور رویہ ایسا ہو کہ لوگ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہوے اپنے آپ کو جیتا ہوا محسوس کریں،جب کہ آپ بھی جیتے ہوئے ہوں۔ یہ اکرام شخصیت اور عزتِ نفس کی نفسیات کا معاملہ ہے۔ اسے انگریزی میں وِن وِن کہتے ہیں۔ آپ کے پاس سے جب بھی کوئی اٹھ کر جائے تو اسے محسوس ہو کہ اس کے آپ سے مذاکرات کامیا ب ہوئے ہیں۔
  • دفتر کے افراد کے ساتھ آپ کا رویہ بھی پُرامن ہو اور آپ بھی ان حرکتوں سے دور رہیں جو کہ آپ کو سیاسی دنگل میں لے آئیں۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پروفیشنل تعلقات رکھیں۔
  • دفتر میں بعض اوقات لوگ آپ کو دفتر کے راز بتاتے ہیں۔ یہ معاملہ یا تو اعتماد کے باعث ہوتا ہے یا ایک سیاسی چال۔ آپ اتنے پُراعتماد ہوں کہ وہ راز صر ف اور صرف آپ کی حد تک رہیں اور آپ دوسروں تک وہ باتیں پہنچانے کا باعث نہ بنیں۔اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ سیاسی جنگل میں داخل ہو جائیں گے اور کبھی نہ کبھی شکار بن سکتے ہیں۔
  • دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ ہر دلعزیز بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ یہ چیز اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کے علاوہ کسی مشکل صورت حال میں مشاورت سے بھی ہوسکتی ہے۔
  • دفتری گفتگو جس میں افراد اور ان کی صورت حال بطور مذاق زیر بحث ہو اس سے پرہیز کریں کہ یہ مذہب کے بھی خلاف ہے اور انسانی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسے مو قع پر آپ کوشش کریں کہ موضوع تبدیل ہو جائے۔
  • اپنے افسر کے متعلق کہانیوں اور تبصروں سے اپنے آپ کو دُور ر کھیں۔
  • اپنے معاملات اور مسائل جن پر آپ گفتگو کر چکے ہیں اسے آپ ضبطِ تحریر میں لے آئیں، چاہے وہ نوٹ کی صورت ہو یا ای میل کے ذریعے۔
  • اپنے کام میں مہارت رکھیں اور اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو جلا دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ محنت ، دیانت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کرتے رہیں۔ اپنے افسر کے دیے گئے ٹارگٹ پورے کرتے رہیں تاکہ اس کا اعتماد آپ پر برقرار رہے۔
  • جب بھی کوئی اچھا کا م کرکے لائے اس کا کریڈٹ آپ اس کو ضرور دیں ورنہ آپ کے خلاف رفتہ رفتہ محاذ بن جائے گا۔

ملازمت میں کامیابی کے لیے چند لوازمات

دفتری زندگی میں کامیابی کے لیے آپ کو ان باتوں پر عمل کرنا ہوگا:

  • اپنے کام کے شیڈول پر باقاعدگی سے عمل کرنا:
  • ہمیشہ دفتر وقت پر یا وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ ٹرانسپورٹ کے متبادل انتظام کا اہتمام کریں۔
  • اپنی نئی ملازمت کے ابتدائی چند مہینوں میں اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کام سے وقفے نہ کریں تاکہ آپ کے افسر کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ پر اعتماد کیا جاسکتاہے۔
  • اگر کبھی آپ کو دفتر جانے میں دیر ہوجائے تو اپنے افسر کو فوری طور پر اطلاع دے دیں۔
  • کام کے دورانِ معمول کے وقفوں کے دوران آپ وقت پر وقفہ کریں اور وقت پر ہی واپس آجائیں۔ اس پابندی سے آپ کے افسر کو اندازہ ہوگا کہ آپ کب واپس آئیں گے۔
  • ادارے کے قواعد و ضوابط سے واقفیت اور عمل:

  • ادارے کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ کریں اور اس سلسلے اہم اور ضروری نکات کو ذہن نشین کرلیں۔
  • اگر آپ کو اس سلسلے میں معلومات نہیں ہیں تواپنے متعلقہ افسر سے معلومات حاصل کریں۔
  • ادارے کی اخلاقیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور ان کارروائیوں سے گریز کریں جن کے باعث آپ پر انگلیاں اُٹھ سکتی ہیں۔
  • اگر کام کے دوران آپ کسی بھی قسم کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے متعلقہ افسر سے رابطہ کریں۔

لباس اور وضع قطع:

  • اپنے ادارے کے کلچر کو دیکھ کر معلومات حاصل کریں کہ یہاں کس قسم کا لباس قابلِ قبول ہوگا۔
  • آپ کو اپنی تہذیبی اقدار کے باعث لباس کے سلسلے میں مشکل پیش آسکتی ہے مگر آپ اپنی تعلیمی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر اس معاملے کو حل کرسکتے ہیں۔ ٹکرائو کے بجاے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔
  • لباس کے معاملے میں تہذیب اور شائستگی کا خاص خیال رکھیں۔ خواتین میک اَپ اور خوشبویات کے باعث پر کشش بننے سے احتراز کریں۔
  • لباس کے ذریعے اہل اور پروفیشنل ثابت کرنے کی کوشش کریں اور چھچھورے پن کا مظاہرہ نہ ہو۔

اپنے آپ کو اہل، قابل اور پروفیشنل ثابت کرنا:

  • کام کے اخلاقیات کے معاملے میں اپنی شخصیت میں نظم و ضبط اور توازن پیدا کریں۔
  • اپنے رویے سے اس بات کو ثابت کریں کہ آپ کام کے اہل ہیں اور آپ کو آپ کے کام میں نگرانی کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔
  • کام خوب کریں اور کام کو احسن طریقے سے کریں۔ اس میں اپنے کمال کا مظاہرہ بھی کریں اور حق بھی ادا کریں ۔
  • رابطے کی صلاحیت کو اجاگر کریں۔ صاف انداز سے گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
  • کام کے ماحول کے لحاظ سے الفاظ اور لہجے کو استعمال کریں۔
  • طنزیہ انداز سے گریز کریں۔
  • نچلے درجے کی زبان اور محاوروں سے گریز کریں۔ کام کے دوران آپ کا ادارے کے کسٹمرز سے بھی رابطہ ہوتا ہے۔
  • آپ کی تحریر بھی صاف اور غلطیوں سے پاک ہونی چاہیے۔
  • اپنی سننے کی صلاحیت کو بہتر کریں اور اپنے مقابل کی بات سننے کا فن سیکھیں۔
  • اپنی آنکھوں کے رابطے کو گفتگو کے دوران منقطع نہ کریں۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ آپ بات توجہ سے سن رہے ہیں۔
  • اپنے رویے اور مزاج میں لچک پیدا کیجیے اور صورت حال کے مطابق اپنے انداز اور رویے کو بدلنے کی صلاحیت پید ا کیجیے۔
  • اپنے وقت کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • آپ کا امتحان اس بات میں ہے کہ آپ اپنے وقت کو کس انداز سے استعمال کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج کس انداز سے حاصل کرتے ہیں۔
  • جب آپ کے پاس کام ہو یا کوئی کسٹمر مدد کے لیے آیا ہو اس وقت آپ گپ شپ سے گریز کریں۔
  • نئے کام اور پراجیکٹ پر کام کریں اور ہمت کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے  آپ میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
  • اپنی ذات کے اندر اعتماد پیدا کریں اور اپنے خیالات اور تجاویز کو بہتر طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کریں۔ یہ انداز آپ کی ترقی اور کامیابی کا باعث ہوگا۔
  • اپنی ذاتی زندگی یا نجی زندگی کو کام کے ساتھ نہ ملائیں۔ دفتر میں رہتے ہوے ذاتی فون نہ کریں۔ ذاتی کاموں کے لیے دفتر کی اسٹیشنری اوروسائل استعمال نہ کریں۔یہ بداخلاقی اور خیانت میں شمار ہوگی۔
  • دفتر کے اوقات میں سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذاتی استعمال سے بھی گریز کریں۔ یہ چوری کی تعریف میں آتی ہے۔
  • سگریٹ کے ذریعے دل کو جلانے، پان کے ذریعے گفتگو میں معذور بننے، اور نسوار کے ذریعے بدبو کا باعث نہ بنیں۔

افرادِ کار کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت:

  • گاڑی چاروں پہیوں کے مل کر چلنے سے چلتی ہے۔ یہ گاڑی کا ٹیم ورک ہے۔اسی انداز سے اداروں کے اندر افراد ایک منظم طریقے سے کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوے، احترام کرتے ہوئے اور معاونت کرتے ہوے کام کرتے ہیں۔ اس انداز کو ٹیم ورک کہتے ہیں جس کے ذریعے سے ادارے کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
  • اہم اور فوری توجہ طلب معاملات کو اپنے متعلقہ افسر تک فوراًً پہنچا دیں۔
  • اپنے ساتھ کام کرنے والے ان افراد کی شناخت کرلیں جو مثبت رویے کے حامل ہیں اور ان کی کارکردگی بھی اچھی ہے۔ ان افراد سے گریز کریں جن کا رویہ اور کارکردگی قابل ستایش نہیں ہے۔
  • نیٹ ورکنگ یا باہمی معاونت کے دائرے کو سمجھنے اور اس کا احترام کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مفید بننے کی کوشش کریں۔
  • اپنے دفتر کے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی ماحول کا خیال رکھیں اور ایسی گفتگو اور انداز سے احتراز کریں جس سے اس معاملے میں آپ کی جانب سے جارحیت تصور ہو۔
  • اگر دفتر کے افراد کار آپ کے کا م میں مداخلت کا باعث بنتے ہیں تو اپنے متعلقہ افسر سے اس معاملے میں مشورہ کریں۔

خوش گوار رویہ اپنائیں:

  • مثبت انداز اور مثبت فکر کے حامل رہیں۔ اپنے افسر اور ساتھیوں کا احترام کریں اور احترام سے رہیں۔ عزت نفس کا خیال رکھیں۔ اچھے تعلقات رکھیں مگر دوستی دفتر کے باہر ہی ہونی چاہیے، ورنہ دفتر کا ماحول کیفے ٹیریا یا ڈھابا بن جائے گا۔
  • سوالات اور گفتگو کے ذریعے غلط فہمیوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔
  • جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو تو ضرور اپنے ساتھیوں سے طلب کریں۔
  • کام کے دبائو کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور پُرسکون رہیں۔ یہی آپ کی آزمایش کا وقت ہے۔ اس سے آپ ثابت کریں گے کہ آپ مشکل سے مشکل صورت حال میں بھی کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں۔
  • اس بات کی بھی صلاحیت پیدا کیجیے کہ آپ مثبت تنقید سن سکیں اور اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اسے احتساب بھی کہتے ہیں۔ اسے اپنی اصلاح کا ذریعہ بنایئے۔
  • اگر آپ سے غلطی یا غلطیاں سرزد ہوں تو ان کا فوراً اعتراف کرلیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس دنیا میں لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔
  • اپنے اقدامات اور فیصلوں کی ذمہ داری قبول کیجیے۔
  • آپ کے ذاتی مسائل آپ کی دفتری کارکردگی کو متاثر نہ کریں۔
  • اپنے جذبات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔
  • کارکردگی کا جائزہ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

سال ۲۰۱۳ء کا ’رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنس‘ کا نوبل انعام برطانیہ کی ایڈنبرا یونی ورسٹی کے طبیعیات کے ۸۴سالہ اعزازی پروفیسر پیٹر ہِگز (Peter Higgs) اور بلجیم کے ۸۰سالہ پروفیسر فرانکوئس اینگلرٹ (Francois Englert) نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ یہ نوبل انعام ۲ء۱ ملین ڈالر کا ہے جو انھیں ’ہِگزبوسَن‘ یا ’خدائی ذرّہ‘ کی صبرآزما ۵۰سالہ تحقیقات پر دیا گیا ہے۔ اس انعام کے ہمراہ تعریفی بیان میں کہا گیا ہے: یہ اس طریقۂ عمل کے نظری اکتشاف پر دیا گیا ہے جس سے ادنیٰ ایٹمی ذرّوں میں وزن کے ظہور یا پیدایش کی تشریح ہوتی ہے۔ اُس تجربے سے    یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس میںایک بنیادی ذرّے کی پیدایش کی نشان دہی ہوئی جو   اٹلاس اور سی ایم ایس تجربات کے ذریعے سرن (سوئٹزرلینڈ) کی تجربہ گاہ میں ایک بڑے ہڈرون تصادمی آلے میں وقوع پذیر ہوا۔

ھگز بوسَن یا خدائی ذرّے کی دریافت

۱۹۶۰ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹرہِگز اور بلجیم کے ماہرطبیعات فرانکوئس اینگلرٹ اور علم طبیعیات کے بعض دوسرے محققین کائنات اور اس کی ابتدا پر تحقیقات میں مصروف تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا اور فضا میں صرف مختلف قسم کی توانائی کی لہریں تھیں، تو کس طرح اس توانائی سے ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے۔ ان میں کمیت (mass) پیدا ہوئی، یہ آپس میں جڑے، جس کے نتیجے میں ایٹم تشکیل ہوا اور اس طرح مادہ پیدا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ برقی قوت کے زیراثر پروٹون تو پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان میں کمیت پیدا نہ ہو تو چندلمحات میں معدوم ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ بالکل غیرمستحکم ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں کمیت پیدا ہوجائے تو یہ بڑے طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نظریہ قائم کیا کہ ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات میں کمیت پیدا ہونے کی وجہ ایک اور ذرّہ ہے۔ یہ ابتداے کائنات میں ایک پل کے لیے پیدا ہوا اور ایٹمی ذرّات کو کمیت دے کر خود معدوم ہوگیا اور ایٹمی ذرّات مستحکم ذرّات بن گئے۔

پروفیسر ہِگز اور ان کے ساتھی محققین نے اس ذرّے کو ’ہِگز بوسَن‘ کے نام سے موسوم کیا اور عام اصطلاح میں اسے ’خدائی ذرّہ‘ کا نام دیا گیا اور یہی ذرّہ سائنس دانوں کی نگاہ میں کائنات کی وجۂ تخلیق قرار پایا۔ یہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی ذرّہ ۱۹۶۰ء سے سائنس دانوں کی تحقیق کی آماج گاہ رہا ہے۔اس ذرّے کی تلاش کے لیے ہِگز اور الگرٹ نے ایک تجرباتی منصوبہ اور   طریقۂ عمل تشکیل دیا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سرن (Cern) کے علاقے میں کثیراخراجات کرکے (۲۷کلومیٹر طویل ) ایک سرنگ نُما تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے اور اس مقصد کے لیے ’ہِگز بوسَن‘ ذرّے یا تخیلاتی عنصر کو حاصل کرنے اور اس کے ذریعے پروٹونز میں کمیت پیدا کرکے ان میں استحکام پیدا کرنے اور مادہ حاصل کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کیے گئے۔ اس سرنگ کو لارج ہڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) کا نام دیا گیا۔ گذشتہ چندبرسوں سے اپنے پروگرام کے مطابق مختلف تجربات کیے گئے اور ۲۰۱۲ء میں وہ ہِگزبوسَن نامی تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی (sub-atomic) ذرّہ، جسے کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور کائنات کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے، کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے سرِن ہال میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں کیا گیا۔

اس ذرّے کے بارے میں تحقیقات کرنے والے سائنس دانوں کے مختلف مشاہدات اور تاثرات میں ایک مشاہدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہِگز بوسَن بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے تو اس سے ماس یا کمیت پیدا ہوگئی۔ تجربے کے دوران میں پروٹونز نے ۲۷میٹر لمبی سرنگ کے ایک سیکنڈ میں ۱۱ہزار سے زیادہ چکر لگائے۔

دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایسا ذرّہ ہے جس کا وزن ۳ء۱۲۵ گیگاالیکٹرون ولٹس (volts) تھا۔ یہ ذرّہ ہرایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹونز سے ۱۳۳گنا بھاری تھا۔ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیا دریافت شدہ ہِگزبوسَن ہی ہے۔ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک     اہم دریافت ہوگی۔ بعض ماہر طبیعیات اس ذرّے کو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے واقعے کے برابر قرار دیتے ہیں۔

بعض اور صاحبانِ سائنس کا خیال ہے کہ ان تجربات سے ایسی یقینی صورت حال واضح ہوئی ہے کہ اسے ’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں بہت کام باقی ہے کہ آیا سائنس دانوں نے جس کا مشاہدہ کیا ہے وہ وہی ہِگزبوسَن ہے یا نہیں۔

سرن کے ڈائرکٹر جنرل پروفیسر رالف دانتر ہیونز کا کہنا ہے کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے ہم کامیاب ہوگئے ہیں لیکن سائنس دان کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرّہ ملا ہے جسے ہم ’بوسَن‘ کہتے ہیں لیکن ابھی پتا چلانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسَن ہے؟ بہرحال یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے مگر ابھی تو کام کا آغاز ہے!کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ  کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک دریافت قرار دینے کے لیے انھیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوںگے۔

کائنات کی تخلیق اور قرآن حکیم کی رھنمائی

گذشتہ ۵۳برسوں کی طویل اور صبرآزما تحقیق اور زرِکثیر صرف کرنے کے بعد سائنس دانوں کی ایک ٹیم اس قابل ہوئی کہ ان کے بقول انھوں نے ’بوسن‘ یعنی خدائی ذرّہ نامی کسی ذرّے کا مشاہدہ   کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ خلا میں موجود توانائی کو مادی ایٹمی مواد میں تبدیل کرنے اور اس کمیت کو پیدا کرکے مادی کائنات کی تشکیل کا بنیادی مواد پیدا کرنے کا موجب بنا اور کائنات کی تشکیل میں ممدومعاون ہوا۔ اس حوالے سے قرآنِ حکیم انسان کو جو رہنمائی عطا فرماتا ہے وہ یہ ہے:

کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے (اللہ نے) انھیں جدا کیا… کیا وہ ہماری خلّاقی کو نہیں مانتے؟… (الانبیاء ۲۱:۳۰-۳۲)

اور وہی (اللہ ہی) ہے جس نے آسمان اور زمین چھے دن میں پیدا کیے اور اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔(ھود۱۱:۷)

کیا تم اس اللہ سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو، جس نے زمین کو دودنوں میں بنا دیا، وہی تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اس پر پہاڑ جما دیے… اس میں ہرایک کی طلب اور حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کردیا، یہ سب کام چار دن میں ہوگئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا: وجود میں آجائو خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔ دونوں نے کہا: ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔ تب اس نے (اللہ نے) دو دن کے اندر سات آسمان بنادیے اور ہرآسمان میں اُس کا قانون وحی کردیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اُسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب کچھ ایک علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔ (حم السجدہ ۴۱:۹-۱۲)

اور آسمانوں کو ہم ہی نے بنایا اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں(الذاریات ۵۱:۴۷ -۴۸)

یہ چند جواہر پارے اس مستند کتاب سے لیے گئے ہیں جسے چودہ سو سال قبل مالک و خالق السمٰوات والارض نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا تھا، یعنی قرآنِ حکیم۔ یہ جواہرپارے جن حقیقی اور واقعی باتوں پر مشتمل ہیں، وہ یہ ہیں:

  1. آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ساری چیزیں، یعنی کائنات ،چھے دنوں میں ایک منصوبے کے تحت صرف اور صرف حکیم اور علیم اللہ نے پیدا کی ہیں۔ یہی بات پچھلی آسمانی کتاب انجیل کے اوّل باب میں کہی گئی ہے۔ وہاں ہفتہ کے ہردن کے اعتبار سے بتایا گیا ہے کہ اس دن  کیا کیا پیدا کیا گیا۔
  2. ابتدا میں ساری کائنات وہ نہ تھی جو اب نظر آتی ہے بلکہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، یعنی ان کی کوئی شناخت نہ تھی اور وہ ایک ننھے سے وجود جیسے تھے۔
  3. اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا، یعنی اللہ کا اقتدار پانی مثل مائع جس میں پانی جیسی لہریں پیدا ہوتیں، یعنی توانائی پر تھا۔ خلا میں توانائی لہروں کی صورت میں تھی اور اس پر اللہ کا اقتدار تھا۔
  4. اسی توانائی کو اللہ نے ایک ذرّے کی صورت میں تبدیل کیا۔ یہ ذرّہ جس میں آسمان اور زمین سموئے ہوئے تھے، مادّہ تھا جو ایٹم کہلاتا ہے۔ اس میں نیوٹرون، پروٹون اور الیکٹرون تھے جو توانائی سے بھرپور تھے۔
  5. اس ایٹمی مواد سے اللہ نے پہلے آسمان کو دھوئیں کی صورت علیحدہ کیا اور پھر سات آسمانوں کی شکل دی، اور سب سے زیریں آسمان کو ستاروں (چراغوں) سے مزین کیا اور ہر آسمان کو وحی کے ذریعے قوانین کا پابند کیا۔ اسی دوران زمین کی صورت گری کی اور اس کو بھی قوانین کا پابند بنایا۔ آسمان اور زمین کا بے وجودی کی حالت سے سات آسمان اور زمین کی تخلیق سائنسی تحقیق کے مطابق ایک بڑے دھماکے کی صورت میں ہوا جس کو کبیردھماکا (بگ بینگ) کا نام دیا گیا ہے۔

کائنات کی تخلیق سراسر اللہ کی قدرت، اُس کی حکمت اور اس کے منصوبے کے تحت ہوئی۔ متعصب سائنس دان اور مغربی اہلِ دانش وجودِ باری تعالیٰ کے انکاری ہیں اور ہرواقعے کی مادی توجیہہ پر بس کرتے ہیں، لہٰذا انھوں نے کائنات کی تخلیق پر اللہ کی کتاب، قرآن کو اُٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ مسلمان سائنس دانوں نے بھی نہ خود قرآن سے اس معاملے پر رہنمائی حاصل کی اور نہ  مادیت پسند سائنس دانوں کو ہی اس طرف توجہ دلائی ۔ لامذہبی سائنس دانوں کا اللہ اور اللہ کے  وجود سے بے اعتنائی کا رویہ ان کے خودساختہ پروٹوکول کا نتیجہ ہے جو انھوں نے قائم کر رکھا ہے۔ اس بارے میں ہارورڈ یونی ورسٹی کا ایک معروف ماہر جینیات رچرڈ سی لیونٹس اعتراف کرتا ہے:

ایسا نہیں ہے کہ سائنس کی تحقیق کے طریقے اور ادارے ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں ہونے والے واقعات کی مادی تاویلیں ہی تسلیم کریں بلکہ اس کے برعکس ہم مجبور ہیں کہ بنیادی طور پر مادی طریقۂ تحقیق اورمادی نظریات سے بھی ہم آہنگ رہیں اور مادی تعبیر ہی پیش کریں، اس سے قطع نظر کہ یہ کسی کی نگاہ میں کتنی ہی غیرمعتبر ہوں۔ پھر مادیت ایک بدیہی حقیقت ہے لہٰذا ہم الٰہی قدم کو اس دروازے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

پھیلتی اور سکڑتی کائنات اور سائنس دان

اللہ رب العزت نے تو چودہ سو صدی قبل ہی کائنات کے بارے میں بتا دیا تھا: ’’آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’اس سے قبل اس کا عرش پانی پر تھا‘‘۔ مگر بیسویں صدی کی ابتدا تک سائنس دان خیال کرتے تھے کہ کائنات جس طرح اب نظر آتی ہے ہمیشہ سے اسی طرح ہے، یعنی جامد ہے۔۱۹۲۲ء میں ایک روسی ماہر ریاضیات الگزینڈر فریڈمین نے ریاضی کے معادلوں (mathemetical equations) کے نتائج سے واضح کیا کہ کائنات جامد شے نہیں ہے بلکہ وسعت پذیر ہے۔ ۱۹۲۷ء میں جارجس لماٹری نے کائنات میں ستاروں کے جھرمٹوں کا زمین سے دُور ہوتے جانے کا مشاہدہ کیا اور وضاحت کی کہ ایسا ہونا دراصل کائنات کی وسعت پذیری کے باعث ہے۔ اسی فاضل امریکی ماہرطبیعیات نے ۱۹۳۱ء میں یہ خیال بھی پیش کیا کہ جب مستقبل میں کائنات پھیلتی جارہی ہے تو لازم ہے کہ ماضی میں یہ سکڑی ہوئی تھی اور اس آخری حد تک سکڑی ہوئی تھی کہ جس کے بعد اس کا سکڑنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور یہ کہ اس حالت سے قبل کائنات کا کوئی وجود نہ تھا۔ وقت اور زماں اور مکان کا بھی وجود نہ تھا۔ یوں یہ کائنات بے وجودی کی کیفیت میں تھی اور اس حالت سے وجود پذیر ہوئی۔ ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۹ء میں ایک امریکی ماہرفلکیات ایڈون حبل کے مشاہدات نے لماٹری کے خیالات پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ مگر وہ اللہ کی کبریائی سے بے بہرہ رہا۔

تخلیق کائنات - وجود باری تعالٰی کی چند نشانیاں

اگر درج بالا بیان کے حوالے سے سائنس دانوں کا دعویٰ صحیح ہے کہ انھوں نے ’ہِگزبوسَن‘ (خدائی ذرّہ) کا مشاہدہ کیا ہے جس نے کائنات کی تخلیق کے وقت پروٹونز اور نیوٹرونز کو جوڑ دیا تھا اور ان کے اندر ایک کمیت پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد کبیر دھماکا ہوا (بگ بینگ) اس وقت ایک سوہزار ملین ڈگری سنٹی گریڈ تپش پیدا ہوئی اور کائنات تیز روشنی سے بھرگئی۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی۔     یہ کیوں اور کیسے ہوا۔ اس بارے میں ہم بالکل اندھیرے میں ہیں اور جاننا بھی مشکل امر ہے۔   اس دھماکے کے نتیجے میں دُور دُور تک تشکیل پانے والے مادے کے ٹکڑے بکھر گئے اور ہرٹکڑا ایک طویل عرصے میں اس قانون اور ہدایات کے مطابق ڈھل گیا جو خالق کائنات نے اس کو ودیعت کیا تھا۔ آسمان، زمین، ستارے، سیارے اور ان کے جھرمٹ (کہکشاں) اور ان پر موجود اشیا تشکیل پاگئیں۔ سائنس دانوں کو تو خالق ارض و سموات کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا چاہیے تھا کہ اللہ نے ان کو اپنی کائنات کے ابتدائی منصوبے سے واقفیت بخشی۔ اس منصوبے کو رُوبہ عمل لانے میں ان کا کوئی کردار نہیں سواے اس کے کہ کائنات کے تخلیقی منصوبے کی تھوڑی جھلک دیکھ پائے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اللہ یعنی خالقِ کائنات کے وجود پر یقین لے آیا جائے۔ کائنات میں ایسی بہت سی واضح نشانیاں ہیں جن کی سائنس دانوں نے بھی وضاحت کی ہے اور کئی آسمانی کتب میں بھی بیان کی گئی ہیں ان میں چند ایک بیان کی جاتی ہیں تاکہ اہلِ علم کو وجودِ باری تعالیٰ کا   حق الیقین ہوجائے۔

۱- کرئہ ارض کی مخصوص اور سوچی سمجھی خوب صورت ساخت اور بناوٹ جو خالق کائنات آج تک قائم رکھے ہوئے ہے اور یوم الآخر تک قائم رکھے گا۔

کرئہ ارض کی مخصوص شکل___ شمال اور جنوب، یعنی قطب شمالی اور جنوبی پر قدرے چپٹی جب کہ مشرق اور مغرب میں گولائی لیے ہوئے___پھر اس میں مخصوص کششِ ثقل (gravity) ہے۔ لہٰذا اس کے گرد نائٹروجن اور آکسیجن وغیرہ گیسوں کا ایک پرت ہے جو صرف ۵۰میل تک موجود ہے۔ اگر کرئہ ارض کی جسامت بڑی ہوتی تو پرت میں صرف ہائیڈروجن گیس ہوتی، آکسیجن نہ ہوتی جیسے کہ جوپیڑ سیارے کے گرد ہے، اورجسامت چھوٹی ہونے کی صورت میں گیسوں کی پرت کا وجود ناممکن تھا جیساکہ مرکری (mercury) سیارے کے گرد ہے۔ صرف کرئہ ارض اپنی موجودہ جسامت کے باعث گیسوں کے صحیح توازن کے ساتھ اس پرت کو سنبھالے ہوئے ہے جس کے باعث یہ کرئہ ارض پودوں، حیوانات اور انسانوں کو اپنے اُوپر قائم رکھنے کے قابل ہے۔

کرئہ ارض سورج سے ایک خاص فاصلے پر واقع ہے، تقریباً ۹۳ملین میل ، لہٰذا زمین پر درجۂ حرارت ۲۰- تا ۱۲۰+ ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوجائے، سب حیات خاکستر ہوجائے اور اگر فاصلہ زیادہ ہوجائے تو سب یخ بستہ ہوجائیں۔ پھر زمین بھی اس فاصلے کو قائم رکھے ہوئے سورج کے گرد ۶۷میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتی رہتی ہے اور ساتھ ہی اپنے مدار پر گھومتی بھی جاتی ہے، لہٰذا زمین کے سارے علاقے یکساں طور پر یکے بعد دیگرے گرم و سرد حالات سے گزرتے رہتے ہیں۔

کرئہ ارض کے چاند کی مخصوص جسامت اور زمین سے اس کا فاصلہ اتنا متوازن ہے کہ اس کی کششِ ثقل ایک خاص حد میں رہتی ہے جس کے باعث سمندروں میں مدوجزر آتے ہیں اور لہریں اُٹھتی ہیں۔ اس کے باعث پانی نہ تو ساکت رہ کر گندا ہوتا ہے اور نہ ہی سمندر کے کناروں سے نکل کر زمینی علاقوں کو اَتھل پتھل کرتا ہے۔

کرئہ ارض اور متعلقہ بیان زیادہ تر سائنسی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ قرآنِ حکیم میں اس حوالے سے کیا بیان ہوا ہے۔ بے شمار آیات میں سے صرف دو بیان کی جاتی ہیں:

نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یٰسین ۳۶:۴۰)

سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں… آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔(الرحمٰن ۵۵:۵-۷)

۲- آب (پانی):

اللہ رب السموات والارض نے پانی بے رنگ، بے بو اور بے مزا بنایا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی جان دار کا اس کے بغیر گزارا نہیں۔ ہر جان دار کے جسم کے اندر مخصوص مقدار میں پانی ہوتا ہے۔ انسان کے جسم کا ۳/۲ حصہ پانی ہے۔ درج ذیل خاصیتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی زندگی کے لیے کتنا لازمی ہے:

ا: پانی کا نقطۂ انجماد اور نقطۂ اُبال غیرمعمولی طور پر زائد ہوتا ہے، لہٰذا پانی کا درجۂ حرارت ۶ء۹۸ ڈگری پر ہمارے جسموں کو بہترین سطح پر رکھتا ہے اور ہم پانی کے درجۂ حرارت کی وسیع تبدیلیوں میں بھی زندگی بسر کرلیتے ہیں۔

ب: پانی عمومی محلول ہے ، یعنی اس میں اکثر اشیا حل ہوجاتی ہیں، مثلاً اکثر کیمیکل (chemicals)، معدنیات (minerals) غذائی اجزا پانی ہی میں حل ہوکر جسم کے ہرہرحصے میں دوران کرتے ہیں اور باریک ترین خون کی نالیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

ج: پانی کیمیاوی طور پر غیرفعال (neutral) ہے، یعنی اشیا میں بغیر تبدیلی لائے ان کی ترسیل کرتا ہے۔ غذا، دوا، معدن وغیرہ میں تبدیلی لائے بغیر جسم کے مختلف حصوں میں پہنچاتا ہے تاکہ جسم ان اشیا کو استعمال میں لاسکیں۔

د- پانی میں سطحی دبائو (surface tension) ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی پودوں اور درختوں کے جسم کی نالیوں میں اُوپر کی جانب کشش ثقل کے خلاف بہتا ہے۔ اس طرح زندگی بردار پانی اوراس میں شامل غذائی اجزا اُونچے اُونچے درختوں کے اُوپری سروں تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔

ح- پانی اپنی بالائی سطح سے نیچے کی جانب منجمد ہوتا جاتا ہے، لہٰذا صرف بالائی سطح اور  کسی قدر زیریں سطح پر یعنی ۳،۴فٹ سرد علاقوں میں برف تیرتی رہتی ہے۔ اس خصوصیت کے باعث مچھلیاں اور دوسرے آبی حیات پانی میں برف کے نیچے سردیاں گزار لیتے ہیں اور منجمد نہیں ہوتے۔

و- کرئہ ارض پر ۹۷ فی صد پانی سمندروں میں ہوتا ہے لیکن ارضی کرہ پر حکیم و علیم اللہ نے  یہ عجب نظام قائم کردیا ہے کہ سمندری پانی سے ایک خاص طریقہ پر نمکیات علیحدہ کر کے اسے میٹھے یا سادے پانی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کو کرۂ ارض کے تمام علاقوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سمندری پانی آبی بخارات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کرتے ہیں اور ہوا کے دوش پر دُور دراز علاقوں میں پھیلا دیے جاتے ہیں جہاں وہ بارش کی صورت میں برس کر زمین کو سیراب کرتے ہیں، اور زمین پر موجود نباتات، حیوانات اور انسانوں کو صاف اور تازہ میٹھا پانی فراہم ہوتا ہے۔ سمندر میں پانی کو گندگی اور نمکیات سے پاک صاف کرنے اور اس کو زمینی حیات کے لیے قابلِ استعمال بنانے کا اللہ رب العزت کا یہ ایک خوب صورت اور بہترین نظام ہے۔

پانی کے حوالے سے بے شمار آیاتِ قرآنی ہیں۔ ذیل میں صرف تین کا حوالہ دیا جاتا ہے:

… پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، کیا وہ ہماری اس خلّاقی کو نہیں مانتے۔(الانبیاء ۲۱:۳۰)

اور آسمانوں سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔ ہم جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ پھر اس پانی کے ذریعے  ہم نے تمھارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کیے۔ (المومنون ۲۳:۱۸)

اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں، ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوش گوار، اور دوسرا سخت کھاری کہ حلق چھیل دے، مگر دونوں سے تم تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو اور اس پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جارہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکرگزار بنو۔(فاطر ۳۵:۱۲)

۳- انسانی دماغ:

یہ بیک وقت مختلف اور بے شمار معلومات کا اِدراک کرتا ہے مثلاً تمام اقسام کے رنگ اور چیزیں جو ہم دیکھتے ہیں، ہمارا اِردگرد کا درجۂ حرارت، ہمارے پیروں کا فرش پر دبائو اور وہ آوازیں جو ہمارے اِردگرد آتی ہیں، منھ کی خشکی، ہمارے تمام جذبات و احساسات کا اِدراک، ہمارے خیالات اور یادداشتوں کا احاطہ اور ساتھ ہی تمام افعال کا اِدراک مثلاً سانس لینے کا عمل، پلکوں کا جھپکنا، بھوک و پیاس، ہاتھوں اور پیروں کے عضلات کی حرکت وغیرہ۔ ہمارا دماغ ایک سکینڈ میں ایک ملین سے زائد اطلاعات کا اِدراک کرتا ہے اور ان کا جائزہ لیتا ہے اور ان میں سے غیراہم معلومات علیحدہ کرلیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم مؤثر طریقے پر اپنے اہم کام کرگزرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہمارا دماغ دوسرے اعضا سے مختلف انداز میں کام کرتا ہے مثلاً ا س کے ذریعے کوئی کام کرنے کی قابلیت، کسی بات کو سمجھنے اور سمجھانے میں دلائل اور ان کی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح کام کی منصوبہ بندی، کسی بات کا فیصلہ اور اس پر عمل اور دوسرے انسانوں سے تعلق بھی دماغ کے تحت ہوتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں اکثر مقامات پر آیاتِ قرآنی کی تلاوت، تدبروتفکر اور ذکروفکر ، فرائض و واجبات کی ادایگی، اچھے اعمال کرنے اور بُرے اعمال سے بچنے کا ذکر سب ہی دماغ اور اس کی صلاحیتوں کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ اس اعتبار سے صحیح الدماغی اللہ رب العزت کی بڑی نعمت ہے۔

۴-  آنکھ:

یہ سات ملین رنگوں میں امتیاز کرلیتی ہے۔ اشیا کو دیکھنے کے لیے خود کار فوکس (Focus) کا نظام ہے اور ۵ء۱ ملین معلومات کی بہ یک وقت پہچان کرلیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتہائی پیچیدہ دماغ اور آنکھوں کے نظام کی موجودگی اور ان کے کام کرنے کو نظریۂ ارتقا بھی واضح کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔

قرآنِ حکیم بتاتا ہے: ’’اور اس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر کرو‘‘ (النحل ۱۶:۸۷)۔ ’’تمھارے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۹)

۵-  کائنات کی ابتدا:

اب سائنس دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات ہمیشہ سے اسی طرح قائم نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ابتدا ہے۔ یہ ابتدا کیسے ہوئی اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں ان کے پاس کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ بس ظن اور تخمین سے اتنا بتا دیتے ہیں کہ ابتدا میں ایک شدید دھماکا ہوا جسے ’بگ بینگ‘ یا ’کبیردھماکا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دھماکا برق اور توانائی لیے ہوئے تھا۔ اس کا درجۂ حرارت ایک سو ہزار بلین ڈگری سنٹی گریڈ تھا اور خلا میں چہارطرف تیزروشنی پھیلی تھی۔ بس یہ کائنات کی ابتدا تھی جس کے نتیجے میں سخت گرم مادہ چاروں طرف دُور دُور تک بکھر گیا۔ مادے کا ہرٹکڑا آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا گیا اور اس کی سرشت میں    جیسا کچھ تھا وہ اس میں تبدیل ہوگیا اور وہ چیز نمودار ہوگئی جو اس میں مخفی تھی، مثلاً جگہ، وقت کی ابتدا، اور کائنات میںنظر آنے والی مختلف چیزیں۔ ایک ماہرطبیعیات رابرٹ جسٹرو کا بیان ہے کہ:   ’’اس طرح کائنات کی ہرشے کا بیج بو دیا گیا اور کائنات حرکت میں آگئی۔ مثلاً ہرستارہ، ہر سیارہ، ہرزندہ جسم رفتہ رفتہ اپنے اپنے وقت میں وجود پاتے گئے، کائنات  بنتی چلی گئی۔ مگر اس کی اصل وجہِ تخلیق کیا ہے، اس کا علم ایک مشکل کام ہے (Message from Prof. Robert Jastrow, Leader U. com, 2002)۔ قرآنِ حکیم کائنات کی ابتدا اور تخلیق کے بارے جو کچھ بتاتا ہے ا س کا اندازہ اس مضمون میں بیان کی گئی آیات سے لگایا جاسکتا ہے۔

۶-  کائنات یکساں اور متوازن قوانین کے تحت کام کرتی ھے، ایسا کیوں ھے؟:

کائنات میں مختلف حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو یہ برسوں ایک جیسے نظر آتے ہیں، مثلاً کششِ ثقل ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ ہمیشہ ہوتا ہے کہ میز پر رکھی گرم چائے کی پیالی آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے، زمین ۲۴گھنٹے سورج کے گرد ایک جیسی رفتار سے چکر لگاتی رہتی ہے، روشنی کی رفتار زمین پر اور کہکشائوں میں ایک جیسی رہتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قوانینِ فطرت ایک جیسے رہتے ہیں اور کیوں تبدیل نہیں ہوتے؟ کائنات اتنی منظم، باترتیب اور بھروسے کے قابل کیوں ہے؟ عظیم سائنس دان کائنات کی ان خصوصیات سے مبہوت ہیں۔ کائنات کی یہ منطقی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ان قوانین پر کاربند رہے جب کہ وہ ریاضی کے قوانین پر بھی کاربند رہتی۔ سائنس دانوں کا یہ تعجب اس خیال کا عکاس ہے کہ کائنات کے لیے ضروری نہیں کہ مذکورہ بالا قوانین پر عمل پیرا رہے۔ ایسی کائنات کا تصور آسان ہے جس میں حالات و واقعات لمحہ بہ لمحہ کسی پیش بینی کے بغیر تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یا ایسی کائنات جس میں چیزیں ظاہر ہوتی ہوں اور جلد اپنا وجود کھو بیٹھتی ہوں۔ طبیعیات کا نوبل انعام یافتہ سائنس دان رچرڈ فین مین (Richard Feynman) تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ یہ معمہ ہے کہ ’’قدرت کیوں ریاضی کے اصولوں پر کاربند نظر آتی ہے اور یہ حقیقت کہ کائنات میں قوانین پر کاربند ہونا ایک تعجب خیز بات ہے‘‘۔ (The meaning of it all. Thought of a citizen - scientist, Newyork Basic Books, 1998)

۷-  ڈی این اے قانون سے خلیے کے طرزِعمل کا اظھار:

ہرزندہ خلیے میں   ڈی آکسی رائبوز نیوکلک ایسڈ نامی کیمیاوی مادہ ہوتا ہے۔ یہ چارقسم کے کیمیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کو سائنس دان A.T.G.C کے حروف سے ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے جسم کے ہرخلیے میں ان کیمیوں کی ترتیب ایک جیسی ہوتی ہے۔ ایک انسانی خلیے میں یہ اس طرح ترتیب یافتہ ہوتے ہیں: CGTGTGACTCGCTCCTGAT.....۔ ہرخلیے میں اس طرح ترتیب یافتہ تین ملین کیمیے ہوتے ہیں۔ تین ملین کیمیوں پر مشتمل ڈی این اے ہر اس خلیے کو ہدایات دیتا ہے جس میں یہ ہوتا ہے، اور خلیہ ان ہدایات پر خصوصی طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ خلیے کی ہدایاتی کتاب ہے۔

قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ننھے سے خلیے میں ایسی محیرالعقل شے کیوں ہے؟ پھر یہ بھی کہ اتنی گمبھیر معلومات کیوں کر خلیے میں سمائی ہوتی ہیں؟ یہ کیمیے سادہ سے کیمیے نہیں ہیں بلکہ خصوصی کیمیے ہیں جن میں خلیے اور اس سے مستقبل کے لیے تفصیلی ہدایات پوشیدہ ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں خلیہ ان خطوط پر ہی پروان چڑھتا ہے جو رفتہ رفتہ خلیے پر واضح ہوتے رہتے ہیں۔ خلیے میں ڈی این اے کے اس نظام کے حوالے سے قدرتی اور حیاتیاتی وجوہات کا اب تک کوئی علم نہیں کہ یہ ہدایات خلیے پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں اور خلیہ ان پر کس طرح عمل کرتا ہے۔ ان سب کا علم جان جوکھوں کا کام ہے۔

اللہ رب السمٰوات والارض سے متعلق مذکورہ بالا چند نشانیوں اور ان کے سائنسی حقائق سے متاثر ہوکر بعض دہریے اور بعض سائنس دان بھی اللہ کی طرف رجوع ہوئے ہیں۔ یہ بدیہی حقیقت سب کو جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا حسّی مشاہدہ ناممکن ہے۔ اُس کو صرف کائنات میں پھیلی نشانیوں پر صحیح غوروفکر کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے اور اُس پر مکمل یقین لانے کے لیے تو آسمانی کتب خصوصاً قرآنِ حکیم میں بیان کردہ نشانیاں نہایت اہم ہیں اور اس سے بڑھ کر ان انسانوں کی سیرت و کردار سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے جو اللہ رب العزت کے متعین کردہ پیغمبر اور اس کے رسول ہیں خصوصاً آخری پیغمبر اور رسولؐ اللہ کی شخصیت اور سیرت کے گہرے مطالعے ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

سلطنت عثمانیہ کا ایک درخشاں باب

’میرا سلطان‘ ایک ترک ڈراما ہے جو اُردو ترجمے کے ساتھ پاکستان میں بھی دکھایا جارہا ہے اور اکثر لوگ اسے ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں۔گذشتہ دنوں ترک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اس وفد نے اس ڈرامے کے بارے میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ترک وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ: ’میرا سلطان‘ میں خلافت عثمانیہ کے دسویں سربراہ سلطان سلیمان کی زندگی کے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ سلطان سلیمان نے۱۵۲۰ء سے ۱۵۶۶ء تک یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ اس نے اپنی ایک کنیز سے شادی ضرور کی تھی لیکن سلطان سلیمان کے خاندان کی عورتیں کھلے گریبان والا لباس پہننے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں،بلکہ اس زمانے میں ترکی کے کسی علاقے میں عورتیں اس طرح کا غیر مہذب لباس نہیں پہنتی تھیں جو ’میرا سلطان‘ میں دکھایا جاتاہے۔ اس موقع پرترکی کے صدر عبداللہ گل نے کہا کہ ’’اگر ان کا بس چلے تو اس ڈرامے پر پابندی لگادیں‘‘۔ (’میرا سلطان‘، حامد میر، جنگ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء)

معاشرے پر میڈیا کے جو دور رس اثرات ہیں وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ایک جانب اگر میڈیا تعلیم اور شعور و آگہی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہا ہے، تو وہاں اس بات سے بھی انکار نہیں    کیا جاسکتا کہ معاشرے میں حرص و ہوس، دولت و شہرت کی دوڑ، دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں، حسد و رقابت کے جذبات کے فروغ میں(ڈراموں اور فلموں بالخصوص ہندستانی اور ترک ڈراموں کی صورت میں)بھی میڈیا کا ایک بڑا کردار ہے۔ میڈیا کے ذریعے ڈراموں کی صورت میں (بالخصوص’میرا سلطان‘ کے ذریعے)شعوری طور پر ایک منظم طریقے سے دنیا بھر کے ناظرین کو    یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عثمانی سلاطین عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ اسلام کے ساتھ ان کا تعلق رسمی تھا۔ عثمانیوںکی تاریخ___ اسلام سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ان کا رشتہ لادینیت سے ہے۔ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ان کی ذاتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔     آزادیِ اظہارو خیال، تفریح اور روشن خیالی کے نام پرکم از کم پاکستانی میڈیا کو تاریخ کو مسخ کرنے کی ان کوششوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا جو وسیع دائرہ اثر رکھتا ہے ،   اس پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی ڈراما کسی تاریخی شخصیت سے متعلق ہے تو نہ صرف اخلاقیات بلکہ قانون کے مطابق بھی یہ ضروری ہے کہ تاریخی واقعات کودرست انداز میں پیش کیا جائے نہ کہ شعوری طور پر لوگوں کے لاشعور میںتاریخ کو مسخ کرکے راسخ کیا جائے۔ عموماً لوگوں کی تاریخ سے واقفیت اور دل چسپی کم ہی ہوتی ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے اگر کسی سے سلطان سلیمان اعظم کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ سلطان سلیمان کے نام سے بھی ناواقف ہوتا۔ لیکن آج کسی عام فردسے بھی دریافت کرکے دیکھ لیا جائے ، سلطان سلیمان سے وہ خوب واقف نکلے گا اور اس کا ماخذ ہوگا ’میرا سلطان‘۔ جب تاریخ کا ماخذ ’میرا سلطان‘ اور اسی طرح کے دیگر ڈرامے ہوں تو تاریخی شعور وآگہی کی علمی سطح کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے  ع  

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے

راقم الحروف تاریخ کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہے کہ ترکی کے صدر عبداللہ گل کا اس ڈرامے کے حوالے سے اظہارِ ناپسندیدگی بالکل بجا ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ ان کے تاریخی و سماجی شعور کا پتا دیتے ہیں۔آج کل متعدد پاکستانی چینلوںپراسی طرح کے کئی ترک ڈرامے اردو ترجمے کے ساتھ نشر کیے جارہے ہیں اور پاکستانی ناظرین کی ایک بڑی تعداد بالخصوص خواتین ان ڈراموں کو  دیکھ رہی ہیں۔ نہ صرف عام گھریلو خواتین بلکہ ممتاز سیاسی و سماجی شخصیات بھی ان ڈراموں سے متاثر ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس موقعے پر تاریخ کے کچھ اوراق پلٹ کر دیکھ لیے جائیں۔

سلطان سلیمان اعظم کا دورِ حکومت:

۱۲۸۸ء میں اناطولیہ میں عثمانی ترکوں نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی، جو اناطولیہ سے یورپ کے قلب تک پھیل گئی۔عثمانی حکومت کا آغاز ایک چھوٹی سی ریاست سے ہوا، جو بڑھتے بڑھتے تین براعظموں اور سات سمندروں کو محیط ہوگئی۔ عثمانی ترکوں کی یہ حکومت ۱۹۲۴ء تک خلافت عثمانیہ کی حیثیت سے قائم رہی ۔ سلیم اوّل کی وفات کے بعد ۱۵۲۰ء میں اس کا بیٹا سلیمان ۲۶ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، جسے عثمانی ترکوں کا سب سے  بڑا حکمران یعنی ’سلیمان اعظم‘ اور ’سلیمان ذی شان‘ اور ’سلیمان عالی شان‘ کہا جاتا ہے ۔سلیمان نے اپنی وفات (۱۵۶۶ء) تک تقریباً نصف صدی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ۔ سلطان سلیمان کادور نہ صرف عثمانی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے۔

سلیمان اعظم کا دور عثمانی سلطنت کی توسیع و فتوحات کا دور تھا۔اس نے اپنے وقت کی بڑی طاقتوں سے صف آرا ہوکر نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم کیا۔  ۱۵۲۱ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو   دریاے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔ ۱۵۲۲ء میں روڈس کے جزیرے کا محاصرہ کیا گیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیش کش کی ۔ اس نے اہل روڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ ۱۲دن کے اندر اپنے تمام اسلحے اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں (لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرے میں ہی رہنا منظور کیا)۔ انھیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے ۔ روڈس کی فتح کے بعدبہادر نائٹوں کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔

۱۵۲۶ء میں سلیمان اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ ۱۵۲۹ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر ۱۵۲۹ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن ان تمام تر دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔ ۲۷ستمبر سے ۱۴؍اکتوبر ۱۵۲۹ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ینی چری٭ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔

سلیمان اعظم کے عہد میں عثمانی ترک خشکی کی طرح سمندروں میں بھی ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر سامنے آئے۔ یورپی ممالک کے بحری بیڑے عثمانیوں کے مقابلے میں آنے سے کترانے لگے۔ وینس کی صدیوں پرانی بحری طاقت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ سلیمان کے امیر البحر خیرالدین باربروسا نے بحرروم کے علاقے میں پری ویسا کی مشہور بحری جنگ لڑی اور اتحادیوں کو زبردست شکست دے کر اپنی بحری برتری ثابت کردی۔ اپنی بحری طاقت کی بدولت سلیمان نے الجزائر اور طرابلس کے صوبے اور بحر ایجین کے کئی جزیرے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیے۔ 

۱۵۳۵ء میں فرانس کے حکمران فرانسس اوّل نے سلیمان اعظم سے دوستی، امن اور تجارت کا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کی سطوت و اقتدار کو یورپ میں تسلیم کیا گیا۔ ۱۵۴۷ء میں ایک معاہد ہ ہوا جس میں شہنشاہ چارلس، پوپ، فرانس کا بادشاہ اور جمہوریہ وینس فریق تھے۔ جس کی رُو سے فرڈیننڈ نے سلطان کو ۳۰ ہزار دوکات سالانہ بطور خراج ادا کرنے کا وعدہ کیا اور اپنے آقا سلطان کے وزیر کا بھائی کہلوانے پر فخر کیا۔

سلیمان کی سلطنت کی وسعت کا ایک بڑا سبب اس کی فوجی قوت اور نظام تھا۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈکریسی (Edward Creasy) لکھتا ہے:’’سلیمان اپنی فوجوں کے جسمانی آرام اور اخلاقی نگرانی پر جس قدر توجہ دیتا تھا، اس کو اس بے پروائی سے کوئی مناسبت نہ تھی جو اس کے حریفوں کے لشکر میں بد نصیب سپاہیوں کے ساتھ برتی جاتی تھی‘‘۔

سلیمان اعظم کا عہد نہ صرف فتوحات کا دور تھا بلکہ سلطنت عثمانیہ اپنی وسعت ، قوت و طاقت اور خوشحالی کے اعتبار سے بھی بامِ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ سلیمان نے ملکی نظم و نسق کی طرف بھی اتنی ہی توجہ دی جتنی فتوحات کی طرف دی تھی۔ اس عظیم الشان سلطنت کو ۲۱ ولایتوں (صوبوں) میں تقسیم کیا۔ ان ولایتوںکو سنجقوں(ضلعوں) میں تقسیم کیا جن کی تعداد ۲۵۰ تھی ۔ ہرولایت اور سنجق کا نظام مقرر کیا جن کی نگرانی حکومت کے مقرر کردہ افسران کرتے تھے۔ سلیمان نے جاگیرداری نظام کی طرف بھی توجہ دی اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی۔ رعایا کے لیے جو قوانین بنائے گئے وہ قانونِ رعایا کہلائے۔ سلیمان نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے جو قوانین بنائے تھے   وہ اس کی رواداری اور روشن خیالی کی ایک مثال تھے۔مشہور مورخ لارڈ ایورسلے سلیمان کی   قوانین سازی کے بارے میں لکھتا ہے: ’’یہ بات قابل غور ہے کہ سلیمان کو ’اعظم‘ کا لقب اس کے یورپی ہم عصروں نے دیا تھا۔ ترکی میں وہ’ القانونی‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا دور قانون کی  تمام شاخوں میں کی جانے والی اصلاحات کے سبب نمایاں ہے جن کا مقصد عدل کا قیام تھا‘‘۔

سلیمان کا عہد علم وادب کے حوالے سے بھی یادگار ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا سب سے بڑا شاعر عبدالباقی اسی دورسے تعلق رکھتا تھا۔ سلیمان اہلِ علم کا نہایت قدر دان اور خود بھی شاعراور مصنف تھا۔ اس کے علمی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ دورانِ جنگ روزمرہ کے واقعات تحریر کرتا رہتا تھا ۔ اس کے یہ روزنامچے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کے ایک ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سلیمان کو تعمیرات سے بھی دل چسپی تھی ۔ اسی کے عہد میں سلیمانیہ مسجد تعمیر ہوئی جو ترکی  فنِ تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ سلیمان نے قسطنطنیہ ، بغداد، قونیہ اور دیگر شہروں میں بھی نہایت خوب صورت اور عالی شان عمارات تعمیر کرائیں۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر بنوائی اور تمام بڑے شہروں میں ہسپتال بھی اس کے دور میں تعمیر ہوئے۔

جہاں تک سلیمان اعظم کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اس کی صفات اس کی عظمت کی حامل ہیں۔ اس کی دانش مندی، منصف مزاجی، فیاضی، نرم دلی اور خوش اخلاقی ضرب المثل تھی۔ اس کی خداداد ذہنی صلاحیتیں اس کے کردار کی تکمیل تھیں۔ایڈورڈ کریسی نے سلیمان کے کردار کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے: ’’بطور ایک انسان وہ پرجوش اور مخلص تھا اور ہوس پرستی سے باعزت طور پر پاک تھا جس نے اس کی قوم کے بہت سے لوگوں کو بدنام کیا تھا۔ اس کی شان دار جرأت، فوجی ذہانت، اس کی اعلیٰ مہم جوئی، جو ش و ولولہ، اس کی علم و فن کی حوصلہ افزائی، فتوحات اور عقل مندانہ قانون سازی کو یاد رکھنا چاہیے‘‘۔

ایورسلے تحریر کرتا ہے: ’’ اس کی ذاتی زندگی میں کوئی تعیش نہ تھا‘‘۔ماہر ترکیات ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں: ’’ اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی ۔ وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا۔ انصاف اس کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا‘‘۔ سلطان سلیمان اعظم قانونی حکومت کے فرمانروا کی حیثیت سے بھی اور اپنے کردار کے لحاظ سے بھی آنے والے حکمرانوں کے لیے ایک بہترین مثال چھوڑ کرگیا۔

آخر میں ایک اورکالم نگار اور پولیس افسر ذوالفقار احمد چیمہ کے کالم کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ وہ اپنے حالیہ دورۂ ترکی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ترکی میں بہت سے نوجوانوں، دانش وروں، پی ایچ ڈی ڈاکٹروں اور پولیس افسروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ عالمی حالات، سائوتھ ایشیا،پاکستان کے مسائل، دہشت گردی، ترکی کی بے مثال ترقی پر بات ہوتی رہی اور چلتے چلتے پاکستان میں دکھائے جانے والے عثمانی سلطنت اور سلطان سلیمان اور حورم پر بنائے جانے والے ڈرامے پر جاپہنچی۔ کوشش کے باوجود ڈرامے کے بارے میں مثبت راے رکھنے والا کوئی شخص نہ مل سکا۔ ہر شخص نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کسی نے ڈرامے کو rubbish [فضول، بکواس]کسی نے nonsense [نامعقول]کہا اور زیادہ تر نے distortion of history [تاریخ کو مسخ کرنا] قرار دیا۔ ایک باخبر شخص نے بتایا کہ ڈرامے کی مصنفہ (جو وفات پاچکی ہیں) نے وصیت کی تھی کہ اسے بعد از مرگ دفنانے کے بجاے جلادیا جائے۔اس سے آپ موصوفہ کے خیالات اور اسلام اور مسلم حکمرانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ڈرامے میں جس طرح کی خرافات دکھائی گئی ہیں یہ عظیم الشان حکمران کی شخصیت کے ساتھ گھٹیا اور بھونڈا مذاق ہے۔ یہ تاریخ نہیں یہ صرف مصنفہ کے پراگندا ذہن کی پیداوار ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، ۴ دسمبر ۲۰۱۳ء)

مقالہ نگار جامعہ کراچی ،شعبہ اسلامی تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں

قبولِ اسلام اور دعوت کی تڑپ

مَیں مدھیہ پردیش کے ضلع دھار کے ایک ایسے قصبے سے تعلق رکھتی ہوں، جہاں ایک گھر بھی مسلمانوں کا نہیں۔ میرے والد راجپوت ٹھاکر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بی جے پی کے بہت سرگرم کارکن رہے ہیں۔ اسلام کے خلاف جو بین الاقوامی پروپیگنڈا چل رہا ہے، اس سے وہ حددرجہ متاثر رہے۔ ہرمسلمان ان کے خیال میں دہشت گرد اور ہندستان کا دشمن تھا۔ وہ ہرپاکستانی کو بھی دہشت گرد سمجھتے تھے۔ وہ پرائمری اسکول میں سرکاری ٹیچر تھے اور اب ہیڈماسٹر ہیں۔   کلاس کے تین ساتھیوں کے علاوہ کسی مسلمان سے ان کا ذاتی تعلق بھی نہیں تھا۔ میرا ایک بڑا بھائی، ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔

میرا اسلام قبول کرنا بس ایک ایسی پہیلی ہے، جس کے لیے کسی بوجھ بجھکڑ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اصل میں پہیلی کیا، سچی حقیقت یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے صبح کی پو پھاڑنے والا، یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ(المائدہ ۵:۱۶) ’’وہ اللہ ان کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالتا ہے‘‘، کا فیصلہ ہرجگہ ہر گھر میں سب کی زندگی میں کرتا ہی رہتا ہے۔ اس کی ایک کرن ہمارے مشرک خاندان پر بھی پڑ گئی۔

تفصیلات ایسی گھنائونی ہیں کہ ذکر کرنا بھی مشکل اور سننا بھی مشکل اور لکھنا اور نقل کرنا شاید اور بھی مشکل۔ اصل میں بات میرے ایک محترم رشتے دار حقیقی چچا کی شرم ناک حرکت سے شروع ہوئی جو اَب خود اپنی حرکت پر اس قدر نادم ہیں کہ اس سے زیادہ ندامت ممکن نہیں، اور اب وہ     نہ صرف مسلمان بلکہ ایک دردمند داعی ہیں۔ اگرچہ اب اس حرکت کا ذکر یقینا اچھا نہیں، مگر وہ  حرکت ہی اس روشنی کا ذریعہ بنی، اور اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی شانِ ہدایت کا ذکر ادھورا رہے گا۔

میرے چچا بچپن ہی سے غلط صحبت میں رہنے لگے تھے ، اور ان کو شراب کی لت لگ گئی تھی۔ شراب پی کر انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس انسان کا فعل نہیں، بلکہ اس نجس شے کا اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو نشے کی حالت میں نماز کی اجازت نہیں، اور ہوش و حواس کھو جائیں تو آدمی شرعی احکام کا مکلّف نہیں رہتا۔ایک روز نشے کی حالت میں میرے چچا نے مجھ سے دست درازی کی کوشش کی جس کاوہ اپنے ہوش و حواس میں تو کجا خواب و خیال میں بھی تصور نہ کرسکتے تھے۔ میں بمشکل جان بچاکر گھر سے نکلی۔ مجھے ذہنی طور پر شدید صدمہ پہنچا۔ میں نے گھر اور قصبے کو چھوڑنے کا سوچ لیا، اور بس میں بیٹھ کر اِندور چلی گئی۔ راستے بھر سوچتی رہی، مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کئی بار خیال آیا کہ تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرائوں۔ پھر خیال آیا کہ پولیس والے خود درندے ہوتے ہیں، وہ مجھے اپنی حراست میں رکھیں گے، پھر کسی ناری نکیتن [دارالامان] میں لے جائیں گے۔ ایک ناری نکیتن کی گندی کہانی مَیں نے اخبار میں دو دن پہلے ہی پڑھی تھی۔ کبھی سوچتی یہ کرنا چاہیے، اور کبھی وہ ۔  اپنے قصبے ، اپنے خاندان یہاں تک کہ پورے معاشرے اور دھرم (مذہب) سے نفرت اور کراہت میرے پورے وجود کو جلائے جارہی تھی۔ اِندور تک کے سفر میں میرے دماغ اور دل میں مختلف خیالات آتے رہے اور آخری فیصلہ جس پر مجھے اطمینان ہوا یہ تھا کہ مجھے ایسے گھرانے، خاندان اور معاشرے کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے لیے مضبوط فیصلہ یہ کیا کہ اسلام قبول کرلینا چاہیے۔

اصل میں تو اللہ کی رحمت تھی، مگر بظاہر چوٹ بہت زور سے لگی تھی، تو ردعمل بھی اسی شدت سے تھا۔ بودھ دھرم تو ہندو دھرم کا حصہ ہے۔ عیسائی ہوکر بھی کچھ ہندو دھرم سے اتنا دُور ہونا ممکن نہیں جتنا میرے اندر جذبہ تھا۔ پوری دنیا میں سارے مذاہب کی ضد بس اسلام ہی ہے۔ لہٰذا    اس وقت میرے ردعمل کے جذبات کی تسکین کامل کے لیے خاندان کو ہلا دینے والا فیصلہ اسلام ہی ہوسکتا تھا۔ اس لیے میں نے جذبات میں آکر یہ فیصلہ کیا اور فیصلہ لے کر جمے رہنا میرے اللہ نے میری فطرت کا خاص حصہ بنایا ہے۔ اس کے لیے مجھے کسی ایسے مسلمان کی تلاش ہوئی جو مجھے مسلمان کرسکے۔ اِندور بس اڈے پر اُتر کر میں نے جامع مسجد کا پتا معلوم کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہاں بہت سی جامع مساجد ہیں۔ ایک مسلمان نے مجھے آزاد نگر مدرسے کا پتا بتایا۔ وہاں گئی، مولوی صاحب ملے تو انھوں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے آپ کو بھوپال قاضی کے پاس جانا پڑے گا۔

میں گھر سے نکل رہی تھی تو میں نے دروازے کے باہر دیکھا کہ ایک پرس پڑا ہوا ہے۔ وہ میری ماں کا پرس تھا ، جو اِن سے جاتے وقت گر گیا ہوگا۔ اس میں ۵۶۰۰ روپے تھے، جو میرے اللہ نے میرے اسلام کے انتظام کے لیے گرائے تھے۔ میں بھوپال پہنچی اور وہاں قاضی صاحب کے پاس گئی۔ وہ بہت ہنسے۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ انھوں نے مجھ سے مسلمان ہونے کی وجہ معلوم کی تو میں نے بتایا: مجھے اپنے خاندان اور معاشرے سے نفرت ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا: اس وجہ سے مسلمان ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ اسلام کو پڑھیے۔ آپ ابھی نابالغ ہیں، بالغ ہوکر مسلمان ہونا ہوگا۔ میں نے کہا: میرا دماغ، میرا دل بالغ ہے، آپ مجھے مسلمان کرلیجیے، مگر وہ نہ مانے۔ میں تاج المساجد بھی گئی۔ بہت سے مسلمانوں اور مولوی لوگوں کے پاس گئی، لیکن کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ میرا خیال تھا کہ میں دھن کی پکی ہوں، مایوس ہوکر کئی بار خیال آیا کہ گھر واپس چلی جائوں مگر میری اَنا مجھے روک دیتی۔ میری اَنا مجھ سے کہتی کہ فیصلہ لے کر بدلنا بہت بڑی ہار ہوگی۔میرا نام لکشی بائی میرے والد نے رکھا تھا۔

میں شاہ جہاں آباد مرکز میں گئی۔ وہاں بھی مولوی صاحب نے منع کردیا۔ رات کا وقت تھا، وہاں پر ایک بے چاری پریشان حال بیوہ ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے گھر رکھا، مجھ پر ترس کھایا۔ میں بھوپال میں دو مہینے ان کے گھر رہی۔ رحمت آپا جن کے یہاں مَیں رہ رہی تھی، وہ مجھے لے کر ایک آپا جان کے یہاں گئیں، جو جمعرات کو عورتوں کا اجتماع کرتی تھیں۔ انھوں نے وہاں لے جاکر میرے بارے میں بتایا۔ وہ بھی ہنسنے لگیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو وہ مجھ سے لپٹ گئیں۔ مجھے گود میں لے کر بہت پیار کیا اور کہا: میری بچی! کیوں رو رہی ہے، میں تجھے ضرور مسلمان بنائوں گی۔ پھر انھوں نے مجھے روتے روتے کلمہ پڑھوا دیا۔ پھر مجھ سے معلوم کیا تم اپنا نام بھی بدلو گی؟ کیا نام رکھوں؟ میں نے کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے  کوئی نام رکھ دو تو انھوں نے میرا نام فاطمہ رکھا۔ انھوں نے مجھے نو کتابیں مطالعے کے لیے دیں:  آپ کی امانت آپ کی سیوا میں، مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ بہشتی زیور، رہبرانسانیتؐ، نسیم ہدایت کے جھونکے (تین حصے)، اسلام کے پیغمبر، اور اسلام کیا ہے؟ یہ میرے لیے مکمل نصاب تھا۔

ان کتابوں کو پڑھ کر میرے جذبات کا رُخ بدل گیا۔ میں اپنے چچا کو بالکل بے قصور سمجھ کر اللہ کی طرف سے ان کو اپنی ہدایت کا ذریعہ سمجھنے لگی۔ مجھے گھر اور خاندان کو چھوڑنے کے بجاے ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر پریشان کرنے لگی۔ مجھے اپنے گھر والوں کی فکر ہوئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو میرے گھر سے نکلنے کی وجہ معلوم نہیں ہوگی، نہ جانے کیا کیا افواہیں میرے بارے میں اُڑ رہی ہوں گی۔ گھر والے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگنے اور نہ جانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے، مگر مرنے کے بعد دوزخ سے بچانے کے لیے یہ الزامات اور اس پر گھر والوں کا عتاب سب چھوٹی چیزیں تھیں۔ نسیم ہدایت کے جھونکے میں ’حرا‘ نے جو تقریباً میری عمر کی تھی،اپنی جان دے کر، اللہ کی محبت میں ایمان کے لیے جل کر پورے گھرانے کے لیے ایمان اور جنت کا راستہ کھولا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے بھی قربانی دینی چاہیے۔ رحمت آپا مجھے منع کرتی رہیں اور اپنے بھتیجے سے شادی کراکر اپنے بھائی کے گھر میں رکھنے کے لیے خوشامد کرتی رہیں، مگر میں نے فیصلہ کرلیا اور رحمت آپا نے بھی مجھے اجازت دے دی۔ میں واپس گھر پہنچی۔

میرے گھر سے نکلنے کے بعد میرے والد گھر آئے تو والدہ ابھی تک واپس نہیں آئی تھیں۔ میرے چچا تین گھنٹے تک بے ہوش پڑے رہے۔ ان کی غلط صحبت اور شراب کی لت سے سب    ان سے بدظن تھے۔ مجھے گھر میں نہ پایا تو میری تلاش ہوئی۔ دو تین روز سب جگہ تلاش کے بعد میں نہ ملی تو تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔ میرے اسکول میں تحقیق کی گئی کہ کسی لڑکے سے کوئی تعلق تو نہیں تھا۔ یہ بھی خیال تھا کہ چچا نے کوئی حرکت کی ہو۔ میں گھر پہنچی تو پہلے تو گھر والے بہت غصے ہوئے۔ مجھ سے وجہ معلوم کرتے رہے۔ میرے سامان کو ٹٹولا، تلاشی لی گئی تو اسلا م پر کتابیں نکلیں۔ سب برہم ہوگئے، اس لیے اپنی ماں کو چچا کی حرکت بتانا پڑی، اور ساتھ ہی ساتھ میں نے اسلام قبول کرنے کی کہانی بھی بتائی۔ سب بھائیوں نے چچا کوبلا کر بُری طرح مارا۔ میں ان کو منع کرتی رہی کہ ان کی خطا نہیں ہے۔ میرے مالک نے مجھے سچی راہ دکھانے کے لیے ان پر شیطان چڑھا دیا تھا۔ اس پر انھوں نے مجھے بھی مارا، میں پٹتی رہی اور ان لوگوں سے کہتی رہی: تم مجھے مار رہے ہو،  مگر مرنے کے بعد ایک بڑی مار کا سامنا ہونے والا ہے، اس سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ میرا بھائی سخت غصے میں آگیا، اس نے لوہے کی کرسی اُٹھا کر میرے سر پر مار دی جس سے میرا سر   پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ میرے تایا نے روکا کہ یہ مرجائے گی، ابھی کچی عمر ہے، سمجھانے کی کوشش کرو، پیار سے سمجھائو۔ ایک ایک کر کے مجھے گھر والے سمجھاتے رہے۔ میری ایک بہن جو مجھ سے زیادہ تعلق رکھتی تھی، میری ماں نے اس کو بلوایا کہ وہ مجھے سمجھائے، مگر اسلام اب میرے لیے ایسی چیزنہیں تھا کہ جسے چھوڑا جاسکے۔ میرے سامنے حرا کا نمونہ تھا جس نے خوشی سے اللہ کی محبت میں جل کر جان دے دی تھی، یا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن زندگی کہ سب کچھ سہتے رہے اور قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت میں لگے رہے۔

روز ایک نئی آزمایش میرے ایمان کو بڑھانے کے لیے آتی اور پھر مجھے اس مخالفت اور دشمنی میں اللہ کا نور نظر آتا۔ دو سال تک کے ہر دن کی ایک داستان ہے، جس کے لیے ایک کتاب چاہیے۔ گھر والوں کے ساتھ کبھی کبھی پڑوسی بھی شامل ہوجاتے۔ میرے ایک ماموں مجھے راے پور اپنے گھر لے گئے۔ وہاںبہت سے سیانوں سے ٹونے ٹوٹکے کروائے، جس کا اثر میرے دماغ پر ہوا۔ مجھے بھول کا مرض لاحق ہوگیا، مگر میں سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھتی رہی۔ اللہ نے اس کا اثر زائل کر دیا۔ میری کوشش سے وہاں میرے ماموں کی لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کا بھائی بھی کتاب پڑھنے لگا تو ماموں نے مجھے واپس بھیج دیا کہ یہ تو سارے گھر والوں کو ادھرم (لامذہب) کردے گی۔ گھر پر آکر پھر مارپیٹ شروع ہوگئی۔ ایک بار مجھے زہر بھی دے دیا گیا۔ ایک بار میرے ہاتھ کی دونوں ہڈیاں توڑ دیں، دو روز تک ہاتھ ٹوٹا رہا، کوئی پٹی کرانے کو بھی تیار نہیں تھا۔ میری بوا کو معلوم ہوا، وہ آئیں اور پلاستر کروا لائیں۔ ایک دفعہ میرے بھائی نے اس زور سے سریا مارا کہ میری پنڈلی کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا، مگر میری ہر چوٹ میرا اللہ بہت جلدی ٹھیک کردیتا۔ میرے اللہ کا کرم ہوا کہ جب بھی مجھے مارا جاتا، ستایا جاتا، مجھے اچھے خواب دکھتے۔ کبھی جنت دکھائی جاتی، کبھی کسی صحابی کی زیارت ہوتی، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ گھر والے میری ثابت قدمی جسے وہ ضد اور ہٹ دھرمی سمجھتے تھے، سے عاجز آگئے۔

ان کی ساری مخالفت کو مَیں فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ سمجھتی تھی، کیونکہ سیرتِ پاک کے روشن خطوط میرے سامنے تھے۔ اس لیے میں راتوں کو اپنے اللہ کے سامنے بہت روتی تھی اور گھر والوں کے لیے ہدایت کی دعا کرتی تھی۔ کبھی کبھی اس کیفیت کے ساتھ دعا کرتی کہ میرا گمان ہوتا کہ  آج اگر جنت کو زمین پر اُتروانے کی ضد کروں گی تو میرا اللہ اُتار دے گا۔ دعا کے بعد میرا سارا   دُکھ درد دُور ہوجاتا۔ اللہ کے حضور اس بھکارن کی صدا کو قبولیت سے نوازا گیا۔

ایک دن میری ماں میرے پاس ایک بجے رات تک روتی رہی، اور بولی کہ لکشمی تو نے گھر کو کیسا نرک (جہنم) بنا رکھا ہے، تو واپس نہ آتی تو اس سے اچھا تھا۔ میں نے کہا: میں پھر گھر سے جانے کو تیار ہوں، بس میری آپ سے ایک شرط ہے کہ دو کتابیںآپ کو دیتی ہوں، آپ پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد آپ اگر کہیں گی تو میں گھر سے چلی جائوں گی۔ وہ اس پر راضی ہوگئیں۔ میں نے آپ کی امانت اور نسیم ہدایت کے جھونکے ان کو دیں۔ وہ بولیں: اب تو میں تھک چکی ہوں، کل پڑھوں گی۔ اگلے روز انھوں نے آپ کی امانت پڑھنا شروع کی۔ میں غور سے ان کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ان کے چہرے پر ان کے دل سے کفر و شرک کے چھٹنے کا اثر صاف نظر آرہا تھا اور میں ان کے مسلمان ہونے کی اُمید پر خوش ہورہی تھی کہ اچانک کتاب بند کر کے وہ بولیں: بس لکشمی! میں نہیں پڑھتی، تو تو مجھے مسلمان بنا دے گی۔ میں نے کہا کہ آپ ایک راجپوت گھرانے کی عورت ہیں۔ آپ نے زبان دی ہے۔ یہ دونوں کتابیں آپ کو پڑھنا پڑیں گی۔ میں نے ان کے پائوں پکڑ لیے، میری ماں! بات مانو، ورنہ موت کے بعد بہت پچھتانا پڑے گا۔ میری خوشامد سے وہ پھر پڑھنے لگیں۔ پوری کتاب پڑھ کر بولیں: لکشمی! بات تو بالکل سچی ہے، مگر تیری طرح ہمت کون کرسکتا ہے؟ سب تو لکشمی بائی نہیں ہوسکتیں۔ میں نے کہا: اس کے لیے آپ کو دوسری کتاب پڑھنا پڑے گی۔ اس پر انھوں نے نسیم ہدایت کے جھونکے پڑھنا شروع کی۔ میں نے عبداللہ اہیر کا انٹرویو نکال کر دیا۔ تھوڑی دیر میں میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کے بعد میں نے دوسری کتاب سے زینت چوہان اور عائشہ کے انٹرویو پڑھوائے۔ ان کے دل کی دنیا بدل گئی۔ رات کو وہ دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہیں، اور میری ضد اور خوشامد پر کہ ماں! جب حق آپ کی سمجھ میں آگیا تو اب دیر کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔ اب تک تو آپ اللہ کے یہاں یہ کہہ سکتی تھی کہ مجھے معلوم نہ تھا، اب تو بات صاف ہوچکی ہے، نہ جانے صبح کو آنکھ کھلے گی کہ نہیں۔ ایک بجے رات کو مَیں نے ان کو کلمہ پڑھوایا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میری کیسی عید ہوگئی تھی۔

اب میرے لیے گھر میں رہنا بالکل آسان ہوگیا تھا۔ ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے اپنی ساری دعائوں کے قبول ہونے کا یقین ہوگیا۔ میں نے اپنے والد کے اسلام قبول کرنے کی خوشی میں ۴۰روزے رکھنے کی نذر مانی، اور دعا کا اہتمام کیا۔ ایک رات وہ بھی مجھ سے کہنے لگے: لکشمی شروع میں تو   ُتو اپنے چچا کی وجہ سے مسلمان ہوئی، مگر اتنی مشکلوں کے بعد اب تجھے اسلام پر کون سی چیز ہٹ دھرم بنارہی ہے؟ میں نے ان کو بھی آپ کی امانت آپ کی سیوا میں اور ہمیں ہدایت کیسے ملی؟ پڑھنے کو دیں۔ وہ کھول کر دیکھنے لگے۔ دو لفظ پڑھے تو وہ اور پڑھنے لگے۔ رات کو سوئے تو انھوں نے اپنے کو داڑھی اور ٹوپی میں نماز پڑھتے دیکھا، اور جب وہ مسجد میں گئے تو ان کو ایسا لگا کہ آسمان سے ٹھنڈی پھوار جس میں نور بھی ہے، ان کے اُوپر برس رہی ہے۔ انھوں نے اس میں عجیب سکون محسوس کیا اور مجھ سے لے کر اسلام کیا ہے؟ اور دیگر کتابیں پڑھیں۔ پھر مجھ سے کہا کہ مولوی کلیم صاحب سے مجھے کسی طرح ملوا دے، مگر بہت کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور خواب دیکھا، جس کے بعد وہ خود ہی مسلمان ہونے کے لیے کہنے لگے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا۔

بڑے بھائی ہم لوگوں کے فیصلے سے ناراض رہے اور چھے مہینے کے لیے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ گوالیار رہے، وہاں بہت پریشان رہے۔ ایک مسلمان لڑکے نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ وہ گھر آئے اور دو تین دن سمجھانے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ چھوٹا بھائی اور بہن تو والدصاحب کے ایک دو دن کے بعد ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ اب چچا پر کوشش شروع کی اور اللہ کا شکر ہے کہ انھوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ میرے اللہ کا کرم ہے کہ میرے خونی رشتے کا کوئی قریبی عزیز ہمارے گھرانے میں کافر و مشرک نہیں رہا۔

الحمدللہ، میں اس اللہ کی رحمت کے قربان کہ میرے چچا پر شہوت اور درندگی کا شیطان سوار کر کے اللہ نے مجھے، میرے چچا اور سارے خاندان کو دعوت دلوا کر ہدایت سے نوازا۔میری درخواست تمام مسلمانوں سے یہی ہے کہ اگر آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے روشنی لیتے ہوئے اپنے اُوپر یہ دھن سوار کرلے کہ انسانیت کو دوزخ سے بچانا ہے، تو اِس وقت ہدایت کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھوک کے بھائو ہورہا ہے۔ نہ جانے کتنے خالد بن ولید، سیف من سیوف اللہ اور کتنی لکشمی بائی فاطمہ اور رقیہ بن سکتی ہیں! (بہ شکریہ ماہنامہ ارمغان ولی اللّٰہ، پھلت، بھارت)

امریکی جریدے فارن پالیسی کی ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کی رپورٹWhy is Saudi Arabia buying 15,000 US Anti-Tank missiles for a war it will never fight?  (سعودی عرب ۱۵ہزار امریکی اینٹی ٹینک میزائل ایک ایسی جنگ کے لیے کیوں خرید رہا ہے جو کبھی نہ لڑی جائے گی؟)کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے مابین جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑے سودے پر بات چیت جاری ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکا سے انتہائی جدید ترین ۱۵ہزار ریتھون اینٹی ٹینک میزائل خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کی مالیت ایک ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

بین الاقوامی دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ادارے International Institute of Stratagic Studiesکی رپورٹ Military Balance 2014کے مطابق سعودی عرب کے پاس پہلے ہی یہ میزائل ۴ہزار کی تعداد میں موجود ہیںجو کہ ۲۰۰۹ء میں کیے گئے سودے کے نتیجے میں سعودی عرب کو حاصل ہوئے تھے۔اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ بالآخر وہ کون سی ایسی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو مزید ۱۵ہزار اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر مجبور کر رہی ہے؟   یہ یقینا بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

سویڈن میں قائم ایک معتبر ادارہStockholm International Peace Research Institute (SIPRI)جو گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی اخراجات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ Trends in World's Military Expenditure 2012 کے مطابق دنیا کے ۱۵بڑے دفاعی اخراجات کے حامل ممالک میں سعودی عرب اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اسی ادارے کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ۲۰۱۱ء میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب کے دفاعی اخراجات کی مد میں ۲۰۱۱ء کی نسبت۱۲ فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ سعودی عرب کے کل جی ڈی پی کا ۹ء۸ فی صد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء سعودی عرب کے دفاعی بجٹ میں کُل۱۱۱فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا اپنے جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا میں دفاعی اخراجات کی مد میں بجٹ خرچ کرنے والاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں اس کے دفاعی اخراجات کا بجٹ ۷ء۵۶ ارب امریکی ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

سعودی عرب کے بعد دوسرا عرب ملک جس کے دفاعی اخراجات میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ ریاست عمان ہے۔عرب ریاست عمان جس کی کل آبادی تقریباً ۴۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور مالی لحاظ سے بھی دیگر امیر ریاستوں کی بہ نسبت کمزور ہے، اب وہ دوسری بڑی ریاست بن چکی ہے جو کہ سعودی عرب کے بعد اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔SIPRI ہی کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے دفاعی اخراجات میں ڈرامائی اضافہ کرتے ہوئے سال ۲۰۱۱ء کی نسبت اچانک ۵۱ فی صد اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمان نے اپنے حالیہ ۲۰۱۳ء کے بجٹ میں دفاع کی مد میں ۵۴ء۳۳ ارب امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو کہ سال ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۵ء۷ ارب امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ SIPRIکی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے کُل جی ڈی پی کا ۵ء۸ فی صد دفاع پر خرچ کیا ۔

اسلحے کی اس دوڑ میں تیسری عرب ریاست کویت ہے۔SIPRIکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے بھی ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء کے دفاعی اخراجات میں ۱۰فی صد اضافہ کیا ہے، جب کہ SIPRI ہی کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے سال ۲۰۱۱ء میں دفاع کی مد میں کُل ۵۶۴۰ملین امریکی ڈالر خرچ کیے۔دیگر عرب ریاستیں جن میں بحرین اور قطر شامل ہیں نے بھی سال ۲۰۱۲ء میں اپنے دفاعی اخراجات کی مد میں مسلسل اضافہ کیاہے ۔

عرب ریاستیں کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ آگے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کی دفاعی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہتھیار اور ان کے فاضل پُرزے مسلسل مغربی ممالک سے حاصل کیے جارہے ہیں، جو ان کی دفاعی صنعت کی تقویت کا باعث ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس وقت دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے  ڈیلر امریکا کی بہترین گاہک ہیں اور مشرقِ وسطیٰ مغربی ممالک کے اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔۲۰۱۰ء میں SIPRI کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ Military Spending and Arms Procurment 2010کے مطابق ان تمام تر دفاعی سودوں میں سب سے زیادہ فائدہ بالترتیب امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اٹھایا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عرب ریاستوں کے ہر۱۰۰ میں سے ۷۰ سودے امریکی اسلحہ ساز اداروں سے ہی ہوتے ہیں۔   جس کے نتیجے میں ہر سال عرب ریاستوں کے کئی سو ارب امریکی ڈالرامریکا کے اسلحہ ساز اداروں کے اکائونٹس میں چلے جاتے ہیں۔اب اگر ان بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے مقابلے میں عرب ریاستوں کو لاحق بیرونی خطرات کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی پریشان کن سوالات جنم لیتے ہیں۔

ماضی کی باہمی جنگوں کے تناظر میںعرب ریاستوں کے لیے ایک بڑا خطرہ عراق ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکا کے ہاتھوں عراق کی تباہی و بربادی کے بعد اب وہ خطرہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ایران اور روس کی پشت پناہی کے نتیجے میں شام جو کہ خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی بڑی فوجی قوت تھا اس وقت داخلی انتشار و تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اب وہ کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔باوجود اس کے کہ ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف ایک ہوّے کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن ایران، جو دو دہائیوں کی سخت پابندیوں اور تنہائی کے بعد ایک دفعہ پھر عالمی برادری میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے کی طرف جا رہا ہے، کا بھی فوری طور پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب مشکل ہے۔ رہا اسرائیل کا خطرہ___ جو اصل خطرہ ہے، اس سے ان تمام ہی ممالک کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یہ سب اسرائیل سے کھلے یا خفیہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں کہ خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین اجتماع میں سکائپ (بذریعہ انٹرنیٹ) کے ذریعے خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرکت کی ہے جس پر امریکی تجزیہ نگار بھی تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ خصوصیت سے بین الاقوامی نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار فریڈمین کا مضمون چشم کشا ہے۔ لہٰذا اس مختصر جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ریاستوں کو فی الحال کسی سنگین اور فوری نوعیت کے بیرونی خطرے کی پیش بندی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روزبروز بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کیوں؟

مشرق وسطیٰ سے جاری ہونے والے انگریزی اخبار (الاخبار)کے تجزیہ نگار Raymond Barrett کے مضمون New Trends in Arab Defence Spendings (عرب دفاعی اخراجات میں نئے رجحانات) کے مطابق عرب ریاستیں جیسا کہ بحرین ، کویت اور سعودی عرب اس وقت گذشتہ عرب بہار کے خوف سے خارجی سے زیادہ اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، Raymond Barrettکا یہ تجزیہ کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ عرب ریاستوں خصوصاً بحرین ، کویت اور سعودی عرب کی جانب سے الیکٹرانک سرویلنس اوردیگر جاسوسی کے آلات کی خریداری اور سوشل میڈیا اور موبائل فون پر سخت نگرانی کے نظام کا حصول اُن کے اِس داخلی سلامتی کے حوالے سے خوف کی غمازی کرتا ہے۔طویل اور جابرانہ آمریت کے بعد مصر اور تیونس میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد سے دیگر عرب ریاستوں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور موبائل فونز کی نگرانی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی عرب ریاستوں کے اسی داخلی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش کی غمازہیں۔

ماضی میں شام کی طرف سے روس اورچین سے اسرائیل کے نام پر خریدے گئے ہتھیار بھی بشار الا سد اپنے ہی ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ جن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے، جو کہ سنگین جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال عرب ملک مصر کی ہے۔ جہاں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے فوجی آمر کی طرف سے اپنے ہی عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کو کچلنے کے لیے بے دریغ گن شپ ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔لہٰذا جو بجٹ عرب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا وہی اب ان کے جمہوری حقوق کی پامالی کے لیے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر استعمال ہو رہا ہے۔

ایک طرف اسلحے کی خریداری کی یہ ریل پیل ہے اور دوسری طرف ان ممالک اور دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ Prespectives on Youth Employment in Arab World 2012 جو کے ورلڈ اکنامک فورم کے تحت شائع کی گئی کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پوری دنیا میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جہاں  نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۲۵ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کے عراق پر قبضے اور شامی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کا مسئلہ ایک انسانی بحران کی کیفیت اختیار کرچکا ہے اوراس حوالے سے دسمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدا د کی اپیل جاری کی ہے۔

بچوں میں پولیو وائرس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ایک بار پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ لیکن عرب ریاستیں ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے اغماض برت رہی ہیں اور جو بجٹ عوام کی فلاح و بہبود ،تعمیر و ترقی ،تعلیم و صحت اور دیگر اس جیسی شہری سہولیات پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اب غیر ضروری اور محض تصوراتی خوف پر مبنی دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ منجملہ دیگر اُمور امریکا کی War on Terrorکے نام سے پوری دنیا میں پھیلائی ہوئی دہشت ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکا سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ہی عوام کی جاسوسی اور نگرانی جیسے جنون کی وجہ سے عوامی فلاح کابجٹ سیاسی مفادات کے لیے ضائع ہو رہا ہے۔ اور اس کا اصل فائدہ مغربی ممالک اور خصوصیت سے ان کے ہتھیار بنانے والے ادارے اُٹھارہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مسلم دنیا اپنی ترجیحات کاازخود تعین کرتے ہوئے، مغربی پروپیگنڈے سے باہر نکل کر انھیں ازسرِنو مرتب کرے اوراپنے عوام کو جائز شہری وسیاسی حقوق، جمہوری روایات اور تعلیم و صحت جیسی فلاحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو صرف کرے، تاکہ آج کی مسلم دنیا بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)

افغانستان میں وہ کون سی ایسی کشش یا اس کی طلسماتی سحرانگیزی تھی کہ دنیا کی تین بڑی سوپرپاورز کو اپنی طرف کھینچا اور وہ اپنے مستقبل کے انجام سے بے خبر اس خطے میں داخل ہوگئیں اور بالآخر اِن کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاریخ کا بھی یہ حیرت انگیزباب ہے کہ ہرسوپرپاور کی شکست نے جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں، اُن کی حیثیت مضمحل ہوگئی اور اپنے دائرے میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں سابق سوویت یونین کی شکست نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا وجود ہی مٹ کر رہ گیا۔ سوویت یونین کو شکست ہوسکتی ہے؟ اس پر قوم پرست اور بائیں بازو کے دانش ور اور سیاست دانوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔ اس کا اندازہ بھارت کے ممتاز صحافی راجیندرا سرین (Rajendra Sareen) کی کتاب Pakistan - The Indian Factor کے مطالعے سے ہوسکتا ہے۔ ان کے خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتے تھے لیکن وقت اور تاریخ نے کچھ اور فیصلہ کیا۔

 جب امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو سیکولر اور بایاں بازو امریکا کے سایے میں کھڑا ہوگیا اور ان کی سو چ اور تجزیہ بھی ایسا ہی تھا کہ امریکا کو کون شکست دے سکتا ہے، لیکن آج امریکا ۱۱سال کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانستان سے ناکام اور نامراد لوٹ رہا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا صورت حال ہوگی؟ پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جنوبی ایشیا کس طرح اور کن کن پہلوئوں سے اثرانداز ہوگا؟ کشمیر میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ ایران اور افغانستان کے تعلقات کس سمت میں سفر کریں گے؟ بین الاقوامی طور پر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ کیا جغرافیائی تبدیلی رُونما ہوگی؟ اور ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خود افغانستان پر اس کے اثرات کس طرح پڑیں گے؟ان سب پر تفصیل سے تجزیے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں دسمبر۲۰۱۴ء قریب آتا جائے گاطالبان کے حملوں میں شدت آتی جائے گی۔ جنگ کی طوالت نے امریکی عوام میں مایوسی کو تیزی سے پروان چڑھایا ہے۔ امریکا کے ۷۰ فی صد عوام فوج کی واپسی چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون طالبان کے حوالے سے شائع ہوا۔ اس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ طالبان کے حوصلے اس تصور ہی سے بلند ہوگئے ہیں کہ اب امریکا افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ افغان فوج  اس قابل نہیں کہ اسے پورے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا طالبان بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

امریکا نے افغانستان کے حوالے سے جو اہداف طے کیے تھے اس میں اسے مکمل ناکامی کا سامنا ہے، اور اس سے امریکی عوام اور اتحادیوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا کے   سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں امریکا کو بعض اہم مشورے دیے ہیں اور  بعض اقدامات تجویز کیے ہیں۔ لیکن ہنری کسنجر کو سب سے زیادہ تشویش اور خوف اس بات کا ہے کہ امریکا ایک فاتح کے بجاے شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے لوٹے۔

ہنری کسنجر اپنے مضمون میں اس طرف یوں نشان دہی کرتے ہیں: ’’اگر امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلدی کی اور دانش مندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سوپرپاور شکست کھاگئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہادازم کو فروغ ملے گا ۔ مسلم عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں اور بھارتی سرزمین پر تیزی سے اقدامات کی تحریک ملے گی۔ ایسی حالت میں افغانستان میں نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ برسرِاقتدار آگئے تو کئی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ روس میں چیچنیا کا علاقہ، چین میں سنکیانگ کا صوبہ عسکریت پسندوں کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایران میں سُنّی عسکریت پسند مستحکم ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایران جواب میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو ملیشیا کی سطح پر مدد فراہم کرسکتا ہے، جیساکہ اس نے لبنان اور عراق میں کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہوگیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے امریکا کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پاس افغانستان سے نکلنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ان کے اور ہمارے مفادات میں ہم آہنگی نہ پائی گئی تو افغانستان کو اِن کے معاملے میں دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر افغانستان میں استحکام کا اہتمام نہ کیا گیا تو امریکا سے زیادہ پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے، اور اگر امریکا نے نکلنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانا ہوگی۔ وہ یہ کہ انخلا حتمی ہو، یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔(نیوزویک، پاکستان اڈیشن،۳ جون، ۲۰۱۱ء)

امریکا کے سامنے اب بنیادی کام یہ ہے کہ کسی بڑے قضیے کو روکتے ہوئے کسی طرح افغانستان سے نکلا جائے اور جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہنری کسنجر اپنے تجزیے میں بعض اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات بارآور ہونے چاہییں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر افغانستان کو متحارب گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔(ایضاً)

امریکا کی پوری کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے تک پہنچا جائے۔ لویہ جرگہ کو مُلّاعمر اور حکمت یار نے مسترد کردیا ہے اور صدرکرزئی کچھ شرائط کے ساتھ بالآخر دستخط پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ کیا شرائط ہوں گی؟ ابھی پردۂ راز میں ہیں۔ وقت تیزی سے امریکا کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ۱۱سال لمحوں میں گزر گئے تو ۱۱مہینے ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر جائیں گے۔

امریکا ایک شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت ۳۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ موجود ہے اور امریکا ۲۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ نیلام کرنا چاہتا ہے، جب کہ باقی ۱۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے اور کچھ حصہ افغانستان کو دینا چاہتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تیزی سے جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے کرنل اینڈریو رالنگ نے چھے ماہ میں ۳ہزار سے زائد اسلحے کے کنٹینر امریکا روانہ کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد ۵۰ہزار ہے۔ گولہ بارود اور دیگر سازوسامان کو بھیجنے میں امریکا کو ۵؍ارب ۷۰کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ وہ بہت کم سازوسامان فوجیوں کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ کرنل  اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۳۳ویں ایربورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ ان کے سامنے چھے میٹر طویل کنٹینروں کا ایک سمندر موجود ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کے پاس  اب صرف ۱۱مہینے بچے ہیں۔ اس عرصے میں ان سب کو نکالنا ایک دشوار ترین کام ہے۔

اربوں ڈالر کی مالیت کا اسلحہ بارود اور دیگر سامان افغانستان میں بکھرا پڑا ہے۔ نہ سب کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ سب ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ اسلحے سے بھرے کنٹینر سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں قیمتی سامان موجود ہے۔ اسلحے سے بھرے کئی کنٹینر غائب بھی ہوگئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں باگرام ایئربیس میں امریکا کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ایئربیس بھی ہیں۔ چھوٹے اڈوں سے اسلحہ اور سازوسامان واپسی کے لیے یہاں پہنچایا جاتا ہے اور چھانٹی کی جاتی ہے۔ سول کنٹریکٹر دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کون سا سامان تلف کرنا ہے۔ یہ سب کام تیزی سے ہورہا ہے اور مزدور دن رات کام میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے ۴۵۵ بریگیڈ کو فوجیوں کو امریکا بھجوانے کا کام سونپا گیا ہے۔ فوج کا یہ یونٹ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ٹن سامان امریکا بھجواتا ہے۔ ۴x۴ فٹ کے ککرباکس میں ۳لاکھ ڈالر کی اشیا موجود ہوتی ہیں اور ہرہفتے ۳۰۰ کنٹینر جارہے ہیں۔ امریکا کے ایک لاکھ فوجیوں کا انخلا دسمبر۲۰۱۴ء تک مکمل ہونا ہے۔ امریکا ۱۱سال تک اسلحہ اور سامان افغانستان پہنچاتا رہا ہے۔ یہ اب ایک ڈھیر کی صورت میں وہاں موجود ہے۔ افغانستان سے ترسیل آسان کام نہیں ہے۔( ٹائم میگزین،۸مارچ ۲۰۱۳ء)

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ بھرے ہوئے کنٹینر واپسی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اب ان کا سلسلہ بلوچستان کے راستے شروع ہوچکا ہے۔ قندھار سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے براستہ خضدار کراچی جارہا ہے۔ صوبہ کے پی کے میں دھرنے سے واپسی متاثر ہوئی ہے۔   اگر وہ راستہ نہ کھلا تو سامان کی واپسی میں مزید تاخیر ہوگی اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔

امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا ہے اس کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑرہے ہیں۔ امریکی صدر جارج بش نے ۲۰۰۳ء میں کہا  تھا کہ امریکا کو دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر ۵۰ سے ۶۰؍ ارب ڈالر اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ ۲۰۱۱ء میں برائون یونی ورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے اعداد وشمار پیش کیے کہ عراق اور افغانستان میں جنگوں پر تقریباً ۴۴۰۰؍ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان میں تعمیرنو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہرمعاشیات جوزف اسٹگلر کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں ۲۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں اور امریکا پر ۲۰۱۲ء تک ۱۶ہزار ارب ڈالر سے زائد قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور امریکا میں ۲کروڑ ۲۵لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔  (Was it Worth It, Afghanistan 11 Years Later، گلوبل ریسرچ، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)

امریکا کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ ہے۔ اس کو افغانستان کی جنگ میں کتنا نقصان اُٹھانا پڑا؟ اس کے نقصانات کے اعدادوشمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ برطانیہ کے فوجیوں کو ۲۰۰۶ء میں ہلمند میں تعینات کیا گیا۔ ہلمند کی کُل آبادی ۱۵لاکھ ہے۔ ایک تازہ کتاب میں جنگ کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی حکومت کے مجموعی اخراجات کم و بیش ۴۰؍ارب پونڈ ہوں گے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق قومی خزانے سے افغانستان کی جنگی کارروائیوں کے لیے مختص رقم ۲۵؍ارب پونڈ سے زیادہ ہوگئی ہے۔(دی گارڈین، ۳۰ مئی ۲۰۱۳ء)

یہ اعداد و شمار ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء کے ہیں۔ ۲۰۱۴ء شروع ہوگیا ہے۔ ہلاکتوں اور اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جوں جوں امریکا اور ناٹو تیزی سے اپنے سازوسامان اور فوجیوں کو واپس لے جارہے ہیں اور طالبان کے حملوں میں بھی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر ۲۰ویں صدی میں برطانیہ اور سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ۲۱ویں صدی امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست دیکھے گی۔ افغانستان میں دونوں عالمی سامراجی سوپرپاور جنگ کے مابعد اثرات سے نہیں بچ سکی ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی کیسے بچ سکتے ہیں۔ امریکا کے مضمحل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور یہ منظر بھی دنیا دیکھے گی کہ جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں کس طرح سے رُونما ہوں گی۔

تیونس میں دستور سازی کا مشکل مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ اتوار ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو رات گئے قومی اسمبلی میں اس پر راے شماری ہوئی اور ۱۲کے مقابلے میں۲۰۰؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دے کر حتمی منظوری دے دی ۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہر طرف سے تیونس کے انقلاب ِ یاسمین کی کامیابی پر نہ صرف سوالات اٹھائے جا رہے تھے، بلکہ ملک دشمن عناصر مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے حالات کو وہی رخ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔کبھی امن وامان کا مسئلہ کھڑا کرکے اور کبھی دستور سازی کے عمل کو مشکوک قرار دے کرتیونس حکومت سے دست برداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، تیونس کی لیڈرشپ نے بروقت اورحکیمانہ اقدامات کرکے حالات پر قابو پالیااور تین سال کی کش مکش کے بعد ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔  اس ساری مدت میںاندرون اور بیرون ملک سے جلتی پر تیل کاکام کرنے والے مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ اقتصادی ناکامی کا ڈراما رچایا گیا، انسانی حقوق کا واویلا مچایا گیا، ملک میں تخریبی کارروائیاںکی گئیںاور آخر میں دو اپوزیشن لیڈروں کو قتل کروایا گیا، تاکہ ان واقعات کی آڑ لے کر منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے اور آزادی و جمہوریت کے سفرکو آغاز ہی میں ناکام بنایا جائے۔

۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کونصف صدی سے جاری آمریت سے نجات حاصل ہوئی تو ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں عوام نے اسلامی تحریک پر اعتماد کیا اور ۲۱۷کے ایوان میں ۹۰ پر اسے کامیابی ملی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ۳۰ نشستوں اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو صرف ۲۱نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔تحریکِ نہضت چاہتی تو تنہا ہی حکومت بنالیتی لیکن     اس نے ملکی وحدت اورقومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بائیں بازو کی معتدل جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ کو صدارت، اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ’التکتل‘ کوا سپیکر شپ کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کی اور خود وزارت عظمیٰ پر اکتفا کیا۔

حکومت کی یہ کامیابی اندرون و بیرون ملک اسلام دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ سیکولر لابی نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر واویلا شروع کیا کہ تحریکِ نہضت ملک میں خلافت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے اور ہرطرف اسلام کے سخت قوانین کو بالجبر نافذ کیا جائے گا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شور مچایا کہ تحریکِ نہضت کی کامیابی سے مذہبی آزادی اور حقوقِ نسواں کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا۔ زین العابدین کی باقیات اور ان کے زیر اثر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا کہ اسلام پسند ملک کو تاریک اندھیروںمیں ڈبونے جارہے ہیں۔بڑے سرمایہ داروں نے معیشت کی تباہی کی دہائی دی اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔یہ اور اس طرح کے دیگر نعروں سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔

ایک کروڑ ۱۰ لاکھ کی مجموعی آبادی میں ۷لاکھ بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنا انقلاب کے بنیادی مقاصد اور مطالبات میں شامل تھا۔ ایک بالکل نئی حکومت کے لیے چند دنوں یا مہینوں میںیہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ بھی ایسے وقت میںجب بن علی اور اس کا خاندان سرکاری خزانے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کر گئے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے اس مسئلے کوخوب اُچھالا اور اعلان کیا کہ حکومت انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 ذرائع ابلاغ جن کی اکثریت دین بے زارسرمایہ دار وںاورمفرور صدر بن علی کے قریب ترین افراد کی ملکیت ہے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔گذشتہ دو سال کی قلیل مدت میں ۲۰نئے اخبار،چھے ٹی وی اور سات ریڈیو چینل وجود میں آئے اور روزِ اول سے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کردیا۔ اس ساری کارروائی میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جنھیں عوام نے انتخابات میں بُری طرح مسترد کردیا تھا۔ ان سب کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت کو تحلیل کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔

۲۰۱۳ء انقلابِ یاسمین کے لیے آزمایشوں سے بھر پور سال رہا۔حکومت کی برطرفی اور نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ کامیاب نہ ہوا تومخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ملک میں  قتل وغارت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست مزید تیز کردی گئی۔اپوزیشن کے ایک رہنما شکری بلعید کو  قتل کرکے حکومت کو اس کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ چنانچہ پُر تشدد مظاہروںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی برطرفی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر زور پکڑ گیا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے پاؤں بھی لرزنا شروع ہوگئے اوردستور سازی کا عمل رک گیا۔ ایسے میں تحریک نہضت نے تاریخ کی انوکھی قربانی دی اورپارلیمنٹ میںسب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سمیت کئی    اہم وزارتوں سے دست برداری کا اعلان کیا اور حکومت ایک غیرجانب دار فردکے حوالے کردی۔

حالات نسبتاً معمول پر آئے تو دستور سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ حکومت جلد سے جلد ملک کو ایک نیا آئین دے کر عام انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن سازشوں کے تانے بانے بُننے والے اپنے مذموم مقاصد سے بازنہ آئے ۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اور اپوزیشن رہنما محمد البراہیمی کو   قتل کردیا گیا۔ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا نے ایک دفعہ پھر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ امن وامان کی صورت حال بگڑ گئی اور حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطابہ زور پکڑ گیا۔

یہی دن تھے جب مصر میں جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کردیاگیا۔ تیونس کے ناکام سیاست دان یہاں اسی تجربے کو دہرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حکومتی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔  تحریکِ نہضت نے پارلیمنٹ کی بھر پور تائید کے باوجود ایک دفعہ پھر کمالِ حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور باقی تمام وزارتیںبھی چھوڑدیں۔ملک میں غیر جانب دار ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لیے مہدی جمعہ کو وزارتِ عظمی کا قلم دان سونپ دیا۔یوں مخالفین کے منہ بند ہوئے اور سازشی عناصر کواپنے مذموم ارادوںمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی نے دستور سازی کا عمل جاری رکھااور آخر کارجنوری ۲۰۱۴ء میںیہ صبر آزما مرحلہ مکمل ہوگیا۔

جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء کو قومی اسمبلی نے نئے دستورپر شق وارتفصیلی بحث کی جس کے بعدارکان اسمبلی نے اس کی بنیادی منظوری دے دی۔ ۲۶ جنوری کو حتمی منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا گیااورصرف ۱۲؍ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔یہ ۱۹۵۹ء کے بعد ملک کا پہلا جمہوری آئین ہے۔

نئے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین، عربی کواس کی زبان اور جمہوریت کو اس کا نظام قرار دیاگیا ہے، جب کہ شہریوںکو بشمول مذہبی آزادی، ہر قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ۔نئے دستور کی رو سے فوج کے کردار کو واضح طور پر متعین کیا گیا ہے جو ملکی دفاع ،قانون کی پاس داری اور سیاست سے مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے پر مبنی ہے۔موجودہ حالات میں یہ ایک متوازن دستور ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک سیکولر آئین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس میںقانون کو شریعت کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ تیونس کی ۶۰ سالہ تاریخ اور اس سے پہلے ۷۵ سالہ استعماری دور سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سر پر اسکارف لینے والی خاتون کے کسی بھی سرکاری دفتر، کالج اور یونی ورسٹی میںداخلے پر پابندی ہواور جہاں نوجوان مسجد میں نماز پڑھیں تو انھیں غائب کر دیا جائے، جہاں پر داڑھی رکھنا معیوب ہی نہیں جرم سمجھا جاتا ہواور جہاں اسلام پسندی کی سزا کال کوٹھریاں ہوں اور جہاں ۶۰ سال سے قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہو، وہاں آزادی کے پہلے مرحلے میں     اس سے مناسب اور متواز ن آئین لانا شاید سر دست ممکن ہی نہ ہو۔

اس تاریخی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے مشاورت کر رہی ہے جو ملک میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت تمام تر چیلنجوں کے باوجود اس مرحلے کو بھی طے کر لے گی۔

بیرونی اور اندرونی سازشیںمسلسل جاری رہیں۔مختلف حربے استعمال کیے گئے، کئی ایک دینی جماعتوں کو بھی استعمال کیا گیا، متشدد گروہوں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کی کئی ایک کارروائیاں بھی کر ڈالیں،لیکن اسلامی تحریک ثابت قدم رہی اور دُوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر یہ سارے مراحل طے کر لیے۔ اس پورے عرصے میں فوج غیر جانب دار رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک میں کامیابی کا یہ سفر کہاں تک جاری رہتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:

میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔  اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔

یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:

وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن   ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز     نے  ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:

بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ  بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔

وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت   یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے   کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن یہاں اسی سلسلے میں اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ حکومت کی عین سرپرستی میں دیہات میں تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے اورسوشل اصلاح و ترقی کے لیے نوجوان عورتوں اور مردوں کے مخلوط تربیتی مراکز کھول کر چپ چاپ ہمارے معاشرے کی بنیادوں کے نیچے ڈائنامیٹ رکھے جارہے ہیں۔ ان سنٹروں کے تربیتی کام کے اہم پہلو یہ ہیں: lعورتوں اور مردوں میں بے تکلفانہ میل جول بڑھانا lپردے اور اسلامی معاشرت کی دوسری قدروں کا خاتمہ lمذہب کی تضحیک کرنا اور اس سے تنفر اور گریز پیدا کرنا lمغربی آرٹ اور کلچر کا ذوق اُبھارنا.....

ہمیں بتایا جائے کہ یہ سب کس اسلام کے کرشمے ہیں؟ کیا ان رنگ رلیوں کو اپنی سرپرستی سے نوازنے کی پالیسی قرار دادِ مقاصد کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ کیا یہ مساعی ایسی فضا تعمیرکرنے کے لیے ہیں جس میں مسلمان اپنی زندگیوں کو کتاب و سنت کے اُصولوں پر استوار کرسکیں؟

کیا یہ عوام کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنے کا اہتمام ہے؟ کیا یہ زنا کو اُس کی ہرشکل میں ختم کردینے کی مہم ہے؟ کیا یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی اسکیم کا کوئی حصہ ہے؟

اِن چیزوں پر روپیہ صرف ہوتا ہے، وقت صرف ہوتا ہے، دماغی اور جسمانی قوتیں صرف ہوتی ہیں، لہٰذا قوم کو بتایئے تو سہی اس کے طے کردہ مقاصد میں سے یہ کس مقصد کی خدمت ہے؟

اس قوم کو دفاع کی قوت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہ تعلیمی اداروں کو توسیع دینے کی محتاج ہے، یہ صحت ِ عامہ کی سرگرمیوں کے معاملے میں سخت کوتاہ ہے، یہ اخلاقی بحالی کے لیے اکابر کی خدمات کی منّت کش ہے، یہ بے روزگاری کے چنگل سے نکلنے کے لیے سخت جدوجہد کی منتظر ہے___ ذرا بتایئے تو سہی کہ ان حقیقی قومی ضروریات کے لیے آپ نے کیا کچھ کیا؟ کیا آپ اِن ابتدائی فرائض سے فارغ ہوچکے ہیں کہ اب ’طائوس و رباب‘ کی سرمستیوں میں کھوجانے کا موقع نکل آیا ہے؟(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۷، ۱۴-۱۵)

خطبات و مقالاتِ سیرت، پروفیسرعبدالجبار شاکر۔ ناشر: کتاب سراے،الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۳۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

 اُردو زبان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ سیرت النبیؐ پر سب سے زیادہ کتابیں اسی زبان میں لکھی جارہی ہیں۔ پروفیسر شاکر مرحوم کے قائم کردہ کتب خانے ’بیت الحکمت‘ میں دنیا کی ۲۵زبانوں میں ۵ ہزار سے زائد کتب ِسیرت موجود ہیں۔(ص ۸)

زیرنظر کتاب مصنف کی ریڈیائی تقریروں، رسائل میں شائع شدہ مضامین، مقالات اور چند خطبات پر مشتمل ہے۔ مندرجات ۴۰ عنوانات پر محیط ہیں، ان کے تحت سیرت النبیؐ کے   مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔چندعنوانات: سیرت النبیؐ کے اختیارات، نبی رحمتؐ صاحب ِ خلق عظیم، حضور اکرمؐ بحیثیت رہبر امورخارجہ، حضوؐر بحیثیت قانون ساز، حضوؐر بحیثیت پیغمبر انقلاب، خطبہ حجۃ الوداع، حضوؐر کی معلّمانہ حکمت عملی، ربیع الاول اور اس کے تقاضے، توہین رسالتؐ اور مغرب، سیدابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت سیرت نگار۔

مصنف نے کوشش کی ہے کہ سیرت النبیؐ کے ان پہلوئوں کو اُجاگر کریں جن کے بارے میں مستشرقین نے حقائق کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ عہد نبویؐ کے ان مقامات کی اہمیت واضح کی ہے جو آج اپنی اصل حالت میں ہیں اور ان کا تذکرہ کتب سیرت کی زینت ہے۔ جدید عسکری علوم کی روشنی میں حضوراکرمؐ کی دفاعی حکمت عملی کی افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ رسولِؐ رحمت کے اسوئہ تعلیمی کے نقوش بحسن و خوبی واضح کیے ہیں۔ مصنف مدت العمر ایک معلم کی حیثیت سے ان تجربات و مشاہدات سے گزرے جو حضوؐر اکرم کی معلّمانہ حیثیت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوئے۔

سیرت النبیؐ کا موضوع ایک بحرناپیدا کنار ہے۔ اس کی شناوری پروفیسر عبدالجبار شاکر جیسے مشاق اور صاحب ِعزم انسان ہی کرسکتے تھے۔ سیرت النبیؐ پر ان کی تحاریر و تقاریر کی یہ پہلی جلد ہے۔ مزید کام بھی پیش نظر ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف کا اسلوبِ بیان علمی، تحقیقی اور معلوماتی ہے۔ ان کی تحریریں بھی ان کے خطاب کی مانند دل چسپ اور فکرانگیز ہیں۔(ظفرحجازی)


سیرت النبیؐ البم، تحقیق، تحریرو ترتیب: شاہ مصباح الدین شکیل۔ ناشر: پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ، خیابانِ اقبال، کلفٹن، کراچی-۷۵۶۰۔ فون: ۹۹۲۰۳۸۳۷-۰۲۱۔ صفحات: ۲۷۶۔ ہدیہ: ۳۵۰روپے۔

شاہ مصباح الدین شکیل سیرت النبیؐ کے موضوع پر ۱۱سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ سیرت النبیؐ البم مصنف کی منفرد کاوش ہے۔ اس میں سیرتِ رسولؐ کو ایک مختلف زاویے سے پیش کیا گیا ہے، اور تفہیم سیرت کے نئے دریچے کھول دیے گئے ہیں۔

سیرت النبیؐ البم کو ایک البم کی طرح ("۱۲x "۹ سائز) میں آرٹ پیپر پر تزئین و آرایش کے ساتھ خوب صورتی سے شائع کیا گیا ہے۔  البم کا آغاز تعمیرکعبہ کی تاریخ سے ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی بنیاد حضرت آدم ؑ نے رکھی، اس میں نماز پڑھی اور اوّلین طواف کیا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے ۱۰مراحل، دیگر تاریخی پہلوئوں اور مسجدحرم کی توسیعِ جدید کا تذکرہ بھی ہے۔ بعدازاں انبیاے کرام ؑ (حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ)کی دعوت، جدوجہد اور سیرت عہد بہ عہد ایک سرگذشت کے انداز میں دل چسپ پیرایے میں بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور انقلابی جدوجہد کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے جو اختتامی مرحلے ، یعنی ’رفیق اعلیٰ کی جانب سفر‘ پر منتج ہوتی ہے۔

گویا سیرتِ النبیؐ کے ساتھ ساتھ تاریخِ اسلام اور احیاے اسلام کی جدوجہد مرحلہ وار   دل چسپ اور واقعاتی انداز میں ایک تسلسل سے سامنے آجاتی ہے۔ قاری اپنے آپ کو اس جدوجہد میں شریک پاتا ہے اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ واقعات کے ساتھ ساتھ خوب صورت رنگین تصاویر قاری کا ذوق و انہماک اور بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ البم کا بڑا حصہ نبی اکرمؐ کی سیرت پر مبنی ہے، جسے دیکھ کر، پڑھ کر جہاں حضوؐر سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں مختلف آثار و مقامات کی تصاویر دیکھ کر قاری کے دل میں ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا بھی تڑپنے لگتی ہے۔ اس تڑپ کو مزید مہمیز حسب موقع اشعار بالخصوص اقبال کے اشعار سے ملتی ہے جن کا عمدگی سے انتخاب کیا گیا ہے۔

یہ اس کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جسے نئے اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی حقانیت کا تازہ ثبوت (اَبرہہ کے لشکر پر ابابیل کے برسائے ہوئے کنکر کی دریافت)، پہلی صدی ہجری کے قدیمی قرآنی نسخے، اور آبِ زم زم پر سائنسی تحقیق کا تذکرہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ یہ خوب صورت کاوش اور پیش کش پی ایس او کے تعاون سے منظرعام پر آئی ہے۔ دوسرے سرکاری اور کاروباری اداروں کے لیے یہ ایک عمدہ مثال ہے۔(امجد عباسی)


الفرقان، سورئہ آل عمران، ترتیب و تہذیب: شیخ عمرفاروق۔ ناشر: جامعہ تدبرقرآن، ۱۵-بی ، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: ۳۷۸۱۰۸۴۵-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت: وقف لِلّٰہِ تعالیٰ ۔

اس سے پہلے فاضل مرتب آخری پارے اور سورئہ بقرہ کا مطالعہ اسی انداز سے پیش کرچکے ہیں۔ ان کے پاس تفسیر کی ۲۹ کتابیں موجود ہیں، بعض آٹھ دس جلدوں میں ہیں۔ ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے جو بہتر سمجھا ہے حوالے کے ساتھ اس میں شامل کرلیا ہے۔ متن لکھنے کے بعد ترجمہ اور پھر عربی الفاظ کے معانی لکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے لُغات کی چھے کتب سے فائدہ اُٹھایا۔ اسی مفہوم کی دوسری آیت یا حدیث کو تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے عنوان سے نقل کیا ہے۔ آخر میں آیت مبارکہ کی حکمت اور بصیرت کے عنوان سے اہم نکات درج کیے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ قاری عربی زبان کو سمجھ کر قرآن پڑھے۔ انھوں نے عربی کے ۱۵؍اسباق بھی دیے ہیں جن کی مشق کرنے سے ضروری فہم حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآن کے طالب علم اور درس دینے والے اس تفسیر سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اس ضخیم کتاب کی مرتب کوئی قیمت نہیں لیتے۔ چنانچہ جو گھر آکر لے وہ لے جاسکتا ہے۔ دوسرے شہروں کے شائقین ۵۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کردیں تو انھیں کتاب بک پوسٹ کردی جائے گی۔(مسلم سجاد)


ارمغانِ نفیس، مرتب: محمد راشد شیخ۔ ناشر: ادارہ علم و فن، ۱۰۸-بی، الفلاح، ملیرہالٹ، کراچی-۷۵۲۱۰۔ صفحات:۳۲۰۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔(لاہور میں ’کتاب سراے‘ اور ’مکتبہ سیّداحمد شہید سے دستیاب ہے)

حُسن و جمال کے لیے پسندیدگی اور اس جانب رغبت انسانی فطرت کا خاصا ہے۔ مسلمانوں نے اس کی تسکین کے لیے خطاطی، نقّاشی، پچی کاری، ظروف سازی، معماری اور اسی طرح کے فنون ایجاد کیے یا ان کی آبیاری کی۔ ان میں خطاطی ایسا فن ہے جس کے لیے لمبے چوڑے اہتمام یا لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قریبی صدیوں میں عالمِ اسلام میں خطِ نسخ اور نستعلیق کی مختلف اقسام کے بیسیوں بلکہ سیکڑوں ماہر خطاط ہوگزرے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند میں بھی بہت سے نام وَر خطاطوں نے شہرت حاصل کی جن میں محمد یوسف دہلوی، پرویں رقم، زریں رقم، حافظ محمد یوسف سدیدی، خلیق ٹونکی اور سیّدانور حسین نفیس رقم (المعروف: سید نفیس الحسینی، ولادت: ۱۹۳۳ء- وصال: ۲۰۰۸ء) کے نام نمایاں ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مرتب محمد راشد شیخ کے بقول: مؤخرالذکر ’ایک جامع الکمالات‘ بزرگ تھے۔ ’’وہ ایک نام وَر خطاط‘ شیخ طریقت، محقق، مصنف، شاعر اور کئی دیگر حیثیتوں کے مالک تھے‘‘۔ ۱۹برس کی عمر میں وہ نواے وقت میں بطور خطاط ملازم ہوگئے تھے۔ چارسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں استعفا دے دیا اور پھر پایانِ عمر آزادانہ خطاطی کی۔ نوادرِ خطاطی کی تخلیق کے ساتھ شاہ صاحب نے خطاط شاگردوں کے ایک وسیع حلقے کی تربیت بھی کی۔

راشد شیخ لکھتے ہیں: ’’یہ چشمۂ فیض ۵۰سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عہد میں آپ کے علاوہ کسی اور خطاط سے اس کثیرتعداد میں تلامذہ نے اکتسابِ فن نہ کیا۔ اس طرح شاہ صاحب سے زیادہ کسی خطاط نے کتب کے سرورق نہیں لکھے۔ اس کثرت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی شاید ہی کوئی لائبریری ہوگی جس میں پاکستان کی مطبوعہ دینی و علمی کتب موجود ہوں، اور ان میں شاہ صاحب کے خوب صورت خط کا کوئی نمونہ نہ ہو‘‘۔ (ص ۱۷)

نفیس شاہ صاحب کی شخصیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے خالو صوفی مقبول احمد کے زیراثر، اوائل ہی سے تصوف کی طرف راغب ہوگئے تھے اورعالمِ شباب میں مولانا شاہ عبدالقادرراے پوری کے حلقۂ ادارت میں داخل ہوئے۔

زیرنظر کتاب ان کی مختصر سوانح کے ساتھ ان کے فن اور ان کی خطاطی کے مختلف النوع نمونوں کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں سوانح اور فنِ خطاطی میں شاہ صاحب کے اجتہادات کی تفصیل ہے۔ دوسرے حصے میں نفیس رقم کی تحریرکردہ  قرآنی آیات، ان کے تراجم اور احادیث نبویؐ،نیز اسماے حسنہ اور اسماء النبیؐ بھی شامل ہیں۔   تیسرا باب نفیس صاحب کی خطاطی میں اشعار اور اُردوفارسی منظومات پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں شاہ صاحب کے تحریر کردہ مختلف کتابوں کے سرورق جمع کیے گئے ہیں۔ پانچویں حصے میں     ان کے خط میں متفرق عبارات یک جا کی ہیں۔

محمد راشد شیخ پیشے کے اعتبار سے انجینیرہیں مگر عمرانی علوم و فنون کا نہایت عمدہ اور فراواں ذوق رکھتے ہیں جو کبھی تو کتابوں کی تصنیف و تالیف ، کبھی بلندپایہ کتابوں کی باسلیقہ اور معیاری اشاعت اور کبھی خطاطی کے ایسے مرقعے شائع کرنے میں اظہار پاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ عالمِ اسلام کے نام وَر خطاطوں کے حالات، خدمات اور ان کے نوادر پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب تذکرۂ خطاطین کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔ (طبع اوّل اضافہ شدہ اڈیشن ۲۰۰۹ء)

ارمغانِ نفیس بلاشبہہ ایک نہایت خوب صورت اور نفیس مرقّع ہے جو راشدصاحب کی کم و بیش ۱۵برس کی محنت ِشاقہ کا حاصل ہے۔ اس کی تیاری میں مرحوم نفیس صاحب کی اجازت اور تائید شامل رہی، بعد میں ان کے فرزند حافظ سید انیس الحسن حسینی مرحوم نے بھی نوادر کی فراہمی میں راشدصاحب کی مدد کی۔ مرتب کے بقول: ’’شاہ صاحب کا کتابی ذوق انتہائی اعلیٰ اور نفیس تھا‘‘۔ زیرنظر مرقعے کی تیاری اور اشاعت میں راشدصاحب نے اسی اعلیٰ اور نفیس معیار کو  پیش نظر رکھا ہے۔ کاغذ، طباعت، جلدبندی ، لے آئوٹ، غرض یہ کتاب ہمہ پہلو نفاست، سلیقے اور حُسن و جمال کا مرقع ہے۔ اس تبصرہ نگار کی ایک کتاب تصانیفِ اقبال کا سرورق بھی نفیس شاہ صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔ وہ نمونہ اس مرقّعے میں نہیں آسکا تو مبصرکو اپنی محرومی کا احساس ہو رہا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے رجحانات، پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ۔     ناشر: ایوان علم و ادب پاکستان، کندھ کوٹ، ضلع جیکب آباد، سندھ۔ صفحات:۱۸۰۔قیمت: ۲۰۰ روپے۔

عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت براہِ راست وحی الٰہی اور اسوئہ نبویؐ کے زیراثر رہی۔ بعد کے اَدوار میں مسلمانوں کے افکار و نظریات میں تغیر پیدا ہوا تو ان اختلافات نے فرقہ واریت کو جنم دیا۔یہ اختلافات دینی فکرونظر میں بھی تھے اور سیاسی اُمور میں بھی رُونما ہوئے۔ اہلِ علم میں اختلاف راے ممنوع نہیں، لیکن اس اختلاف راے کو مخالفانہ روش کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ جب سے مسلمانوں نے اللہ کے اس واضح حکم کے خلاف اپنی اغراض کے تحت معاملات طے کرنے شروع کیے ہیں، تب سے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کرگیا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ متعدد فرقے قائم ہوگئے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کے نتیجے میں، مسلمانوں میں دُوریاں پیدا ہوئیں۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کی تاریخ، مختلف اَدوار میں اس کی نوعیت، اسباب و محرکات اور نقصانات پر بحث کی ہے۔ انھوں نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلی اور خارجی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات نے مسلمانوں کے زوال کی راہ ہموار کی ہے۔ مصنف نے اختلاف راے کی حدود، اختلاف اور    فرقہ واریت میں فرق اور اچھے مقاصد کے لیے جماعت سازی کی اجازت پر بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اُمت کو قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق رکھنے کی ذمہ داری علماے کرام پر عائد ہوتی ہے(ص۱۵۶)۔کتاب کے آخر میں مسلمانانِ پاک و ہند کے   جید علما کی آرا دی گئی ہیں جو فرقہ واریت کو ختم کرنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ ( ظفرحجازی)


عزیمت کے راہی، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون:۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔

عزیمت کے راہی کا یہ چوتھا حصہ ہے جو ۲۳شخصیات کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تحریک تجدید و احیاے ملت کی تاریخ کا یہ ایک نمایاں اور روشن باب ہے۔ یہ ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی پوری زندگیاں فریضۂ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں گزریں۔ وہ عمربھر   ثابت قدمی کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہے۔

حافظ محمد ادریس کی گفتگو ہو یا ان کی تحریر’ از دل ریزد بر دل خیزد‘ کی کیفیت پیدا کرنے اور دلوں کو زندگی بخش پیغام دینے والی ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف مقصدیت سے آشنا کرتی ہیں بلکہ جذبہ اور جوشِ عمل پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ سیرت و سوانح ان کا خاص موضوع ہے۔ اس موضوع پر ان کی نصف درجن کتب آچکی ہیں ۔ زیرنظر کتاب میں تحریکِ اسلامی کے قائدین بالخصوص قاضی حسین احمد، نجم الدین اربکان، پروفیسر غفور احمد، علی طنطاوی، شیخ جعفرحسین، محترمہ مریم جمیلہ، عبدالوحید خان، شیخ عبدالوحید، ڈاکٹر پرویز محمود، حاجی فضل رازق، ڈاکٹر محمد رمضان، مولانا احمدغفور غواص، صاحبزادہ محمد ابراہیم اور شعیب نیازی شہید پر مفصل مضامین ہیں۔ عزیزوں میں میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد کا تذکرہ شامل ہے۔

تحریکِ اسلامی کے یہ وہ کردار اور روشن مثالیں ہیں جن کے تذکرے سے نیکی و بھلائی کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اور قربِ الٰہی کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ ان مثالی شخصیات کی حیات و خدمات نئی نسل کو تحریک کے ساتھ جوڑنے، روایات سکھانے اور تربیت کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل کر قربانی و ایثار کا مرقع اور استقامت کا پیکر ہے۔ وابستگانِ تحریک کے لیے یہ زندگیاں منارۂ نور ہیں۔ تحریک کے کام کو اُسی جذبے، اخلاص، للہیت اور قربانی کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جس جذبے سے ان بنیاد کے پتھروں اور قرنِ اوّل کے لوگوں نے کیا۔ تحریک کے موجودہ وابستگان بھی ان حالات و واقعات سے کسی طرح بے نیاز نہیں ہوسکتے کہ یہی جذبے، ولولے اور اخلاص ہمارا اثاثہ ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ایمان و یقین کو جلا دینے اور تحریک کے ساتھ وابستگی کو مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ (عمران ظہور غازی)


حکمت ِ بالغہ، خصوصی اشاعت: الصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، مدیر: انجینیرمختار فاروقی۔ ناشر:قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر۔ فون:۷۶۳۰۸۶۳۔ صفحات:۱۶۰۔ قیمت : ۱۳۵ روپے۔

اس اشاعت ِ خاص میں پانچ ابواب کے اندر ایک جذباتی مگر ایمانیاتی مسئلے کو نہایت سلیقے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عظمت ِ مصطفیؐ،عہدِوفاداری، تسلیم اور اسلام، آیت ِ صلوٰۃ و سلام کا زمانۂ نزول، زبان سے صلوٰۃ و سلام کی ادایگی، صلوٰۃ و سلام سے متعلق امام راغب اصفہانی، ابن منظور، مرتضیٰ الزبیدی اور ابن قیم و محب الدین جیسے اہلِ لغت کی لغوی بحثوں کو درج کیا گیا ہے۔ اُردو تفاسیر میں سے مولانا شبیراحمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع، مولانا احمد رضا خان بریلوی، پیرمحمد کرم شاہ ازہری، مولانا امین احسن اصلاحی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، حافظ صلاح الدین یوسف، سید صفدر حسین نجفی اور علامہ حسین بخش کی تفاسیر سے اقتباس دیے گئے ہیں۔ کتاب جلاء الافہام فی فضل الصلوٰۃ والسلام علٰی محمد خیرالانامؐ میں سے درود شریف پڑھنے کے ۴۰ محل و مقامات کا اندراج ہے۔ ’رسولِؐ رحمت کی رحمۃ للعالمینی کی پھوار اُمت پر‘ کا عنوان دے کر غزوئہ احزاب کے تناظر میں فضیلت صلوٰۃ و سلام کو سورئہ احزاب کی آیت ۵۶ کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ آیات ۴۳اور۴۴ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ نور وظلمت کو بعثت و نبوتِ انبیا سے مربوط کر کے انسانی و حیوانی فرق و امتیاز کا تذکرہ، کتب ِ سماوی کے مشترکہ خاصے کے طور پر نور کا بیان، اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا مظہر، طہارت و تطہیر،  نور اور پاکیزگی، نورِ ہدایت اور نورِقرآن، دعاے نور اور سیدنامحمدؐ اور سلام و تسلیم کا مطالبہ اور منافقین کے کردار کو باہم مربوط کرکے بیان کیا گیا ہے۔ نفاق کے مرض کو عہدحاضر کی صورت حال سے مربوط کر کے دعوتِ فکروعمل دی گئی ہے اور درود وسلام پر بات کو اختتام تک پہنچایا گیا ہے۔ مصنف نے جس تسلسل، ترتیب اور ربط کے ساتھ کڑی سے کڑی جوڑ کر ایمانِ مسلم کو احسانِ مصطفیؐ سے جوڑا ہے وہ لائق مطالعہ ہے۔ مروجہ روایات و رسومات سے ہٹ کر جذبۂ ایمانی کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کی سعی دکھائی دیتی ہے۔(ارشاد الرحمٰن)

تعارف کتب

  • معارف مجلۂ تحقیق، شمارہ ۶ (جولائی، دسمبر ۲۰۱۳ء)۔ مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک۵، ایف بی ایریا، کراچی-۷۵۵۹۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:(۱۷۲+۳۴): ۲۰۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[یہ ادارہ معارف اسلامی کراچی کا علمی و تحقیقی مجلہ ہے جو اُردو اور انگریزی حصے پر مشتمل ہے۔ تازہ شمارے میں lخودکشی: نوعیت مسئلہ اور اسلامی نقطۂ نظر از محمد شمیم اختر قاسمی  lاسلام کے احکام میں تحقیق کا مقام و حکم، ایک جائزہ از عبدالماجدl سقوطِ مشرقی پاکستان کا واقعہ اور     تاریخ نویسی از نسرین افضل،توقیر فاطمہ و دیگر تحقیقی مقالات شاملِ اشاعت ہیں۔ اُردو ذریعہ تعلیم از محمد شریف نظامی بطور مقالہ خصوصی شائع کیا گیا ہے جو اپنے موضوع پر جامع تجزیہ ہے۔ انگریزی حصے میں قائداعظم کا پاکستان بطور جدید اسلامی ریاست کا تصور از عفیفہ زرین پیش کیا گیا ہے و دیگر مقالات۔]
  • اخبارِ تحقیق ، (خصوصی شمارہ ۲۰۱۳ء) مدیر: سیدمزمل حسین۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، پوسٹ بکس ۱۰۳۵، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۵۴۸۷۴-۰۵۱۔ [ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کا دولسانی نشریہ (نیوزلیٹر)دوسال کے انقطاع کے بعد ۲۰۱۳ء کے خصوصی شمارے کی حیثیت سے شائع کیا گیا ہے۔ پہلی بار اُردو کے علاوہ عربی میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ اُردو حصے میں ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی کے سیرت نگاری پر پانچ خطبات، اسلامی یونی ورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمدیوسف الدریویش کی کتب و دیگر دینی و معاصر کتب پر تبصرے، پاکستان، عالمِ اسلام اور دنیابھر میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کا جائزہ شامل ہے۔ ]

عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ، گوجرانوالہ

’عبدالقادر مُلّا کی شہادت: انصاف اور انسانیت کا قتل‘ (جنوری ۲۰۱۴ء)،بلاشبہہ ایک بے گناہ اور بے ضرر انسان کا قتل سیاسی انتقام ہے۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اسلام دشمنی میں ایک ایسا گھنائونا اقدام کیا ہے جس کی تاریخ مثال پیش نہیں کرسکتی۔ عبدالقادر مُلّا ایک بے ضرر انسان تھے اور ان کا ماضی بے داغ تھا۔ پھانسی کی سزا کے اعلان پر ترکی کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو ٹیلی فون کیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو  پھانسی تاریخی غلطی ہوگی اور یہ جمہوریت کی بھی موت ہوگی!‘‘ لیکن بنگلہ دیشی وزیراعظم اپنے موقف پر قائم رہیں اور اعلان کیا کہ ’’کوئی بڑی سے بڑی ٹیلی فون کال بھی ان افراد کو پھانسی دینے سے نہیں روک سکتی‘‘۔ وزیراعظم بنگلہ دیش کا یہ اقدام سراسر زیادتی و ظلم ہے۔ عبدالقادر مُلّا اسلام کی بالادستی کا علَم بردار تھا اسی جرم میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ان شاء اللہ عبدالقادر مُلّا کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ کی پیشانی پر جو کلنک کاٹیکہ لگا ہے وہ رہتی دنیا تک ان کے لیے باعث عار وشرم رہے گا۔نیویارک ٹائمز نے صحیح لکھا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں انصاف کا تماشا بن چکا ہے‘‘۔


محمد عباس ، لاہور

’عبدالقادرمُلّا کی شہادت: انصاف اور انسانیت کا قتل‘(جنوری ۲۰۱۴ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے جس طرح سے حقائق پیش کیے، ان سے مسئلے کی نوعیت پوری طرح اُجاگر ہوئی ۔ یقینا عبدالقادر مُلّا کی شہادت انصاف اور انسانیت کا قتل ہے۔ انھیں بے بنیاد الزامات کے تحت پھانسی دی گئی اور جس جانب داری اور صریح ناانصافی کے ساتھ مقدمے کی کارروائی کی گئی اس پر عالمی ردعمل بھی سامنے آیا۔ تاہم پاکستان جو ۱۹۷۴ء کے  سہ فریقی معاہدے میں ایک فریق تھا اس نے سیاسی، سفارتی اور عالمی سطح پر جو کردار ادا کیا وہ یقینا شرم ناک ہے۔


محمد امین شاد ، لاہور

عبدالقادر مُلّا کی شہادت ایک سانحے سے کم نہیں۔ اس پر پاکستان کی حکومت کا رویہ قابلِ مذمت ہی نہیں شرم ناک بھی ہے۔ خدا شہید کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کے ثمرات سے اُمت مسلمہ کو نوازے اور مظلوم خانہ نشینوں کی بحالی کی بھی کوئی صورت نکالے جو ایک مدت سے اس کی راہ تک رہے ہیں۔


ڈاکٹر محمد شکیل ، لاہور

مصر میں دستور پر ریفرنڈم (جنوری ۲۰۱۴ء) کے بارے میں جناب عبدالغفار عزیز نے اہم تجزیہ پیش کیا ہے۔ اخوان کی لازوال اور بے مثال قربانیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ لیکن فوجی آمریت بے انتہا ظالمانہ اور مکارانہ اقدامات کے ذریعے اپنی آمرانہ حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے کوشاں ہے۔ غیرقانونی اور غیرآئینی ہتھکنڈوں کے ذریعے جنرل سیسی اپنے مفادات کے حصول کے لیے ریفرنڈم کا سہارا لے رہا ہے اور ہمیشہ ڈکٹیٹروں کی طرح تاحیات حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہاں مغربی جمہوریت کی دل دادہ بین الاقوامی طاقتیں بھی نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ جنرل سیسی کا کندھا تھپتھپا رہی ہیں۔ ان ظالموں کو نہ جمہوریت سے مطلب ہے نہ آمریت سے غرض، بلکہ اسلام دشمنی میں اندھے ہوکر اپنے ہی اصولوں اور ضابطوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اِن حالات میں اخوان المسلمون اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔


ہمایوں اختر ، ملتان

’نماز اور صحت‘ (دسمبر ۲۰۱۳ء) پڑھا، آگاہی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ مقالہ نگار نے کوئی پہلو   اُدھورا نہیں چھوڑا۔ ہرشخص کو یہ مضمون پڑھنا چاہیے اور ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ میرے ایک دوست   ڈاکٹر پروفیسر نورالدین نور مرحوم نے ایک بار اپنے تبلیغی لیکچر میں کہا تھا کہ وہ امریکا گئے وہاں انھوں نے امریکی ڈاکٹروں کے سامنے خود یا کسی نے نماز پڑھنے کی پوری ترکیب کا عملاً مظاہرہ (demostration) کیا،      تو انھوں نے کہا کہ یہ تو پوری exercise ہے۔ لیکن اس مضمون میں مقالہ نگار نے تو ایک ایک اعضا پر مفصل بیان دیا ہے اور وہ مفید بھی ہے اور عقل افزا بھی۔

منیم اقبال ، راولاکوٹ


جنوری ۲۰۱۴ء کا شمارہ اپنی روایتی آب و تاب و پُرمغز مضامین سے بھرپور تھا۔ عبدالقادر مُلّا کی شہادت، یقینا اس خطے میں تحریکِ اسلامی کے مزید عروج کا سبب بنے گی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے ممکنہ انخلا کے بعد کے پی کے اور قبائلی پٹی میں پختون عوام اور افغان عوام کا دل جیتنے کے لیے ایک ہمہ گیر، مؤثر اور مخلصانہ خارجہ اور داخلہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیرت النبیؐ پر ’منتخب مضامین‘ شائع کرنے کے بجاے تحریکی رہنمائوں کے عصرِحاضر کے تناظر میں پیغامِ مصطفیؐ کے موضوع پر مضامین ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی  کا مضمون چشم کشا ہے، واقعتا مغربی حکمت عملی کو پوری قوت سے نافذ کیا جارہا ہے۔ کراچی کے حالات پر    زاہد عسکری صاحب نے خوب تجزیہ کیا ۔ مصر اور افغانستان کی صورت حال پر مضامین معلومات افزا اور خوب تھے۔ شام کے حوالے سے مضمون پڑھ کر تشنگی برقرار رہی۔ شامی حزبِ اختلاف کے مختلف گروپوں (عسکری، سیاسی) ، اُن کی باہمی چپقلش، اخوان کے کردار اور القاعدہ کے عمل دخل کے حوالے سے کوئی تفصیلی مضمون درکار ہے۔