والدہ مکہ کی بڑی تاجر اور انتہائی محترم خاتون تھیں اور والد سراپا صدق و اخلاص۔ گویا پورا گھرانہ نازونعم اور مکارم اخلاق کا حسین امتزاج تھا۔ چار بیٹیوں میں سب سے بڑی زینب، سنِ زواج کو پہنچیں تو کئی اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے لیکن اللہ کو منظور نہ ہوا، معذرت ہوتی گئی۔ ایک روز ابو العاص بن الربیع عرب روایات کے مطابق خود آئے اور درخواست پیش کی: أرید أن أتزوج زینب ابنتک الکبریٰ، ’’میں آپ کی بڑی صاحبزادی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ جواب ملا: لا أفعل حتی استأذنہا،’’میں جب تک خود ان سے نہ پوچھ لوں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اس مبارک گھرانے کا ذکر ہے جسے خانہء نبوت کا مقام حاصل ہونے والا تھا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر جاکر بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ابن خالتک جاء نی وقد ذکر اسمک فہل ترضینہ زوجاً لک؟ آپ کے خالہ زاد آئے ہیں اور آپ کا ذکر کررہے ہیں، کیا بطور شوہر وہ آپ کو قبول ہیں؟ حیا کی سرخی اور مسکراہٹ کی ہلکی سی لہر چہرے پر دوڑ گئی۔ آپؐ نے آنے والے کو ہاں کردی۔
ابو العاص بھی مکہ کے ایک کامیاب تاجر تھے۔ ہر موسم گرما و سرما میں ان کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جایا کرتا تھا (رحلۃ الشتاء و الصیف)۔ ہر قافلے میں سو اونٹ ہوتے اور ہر اونٹ کے ساتھ دو ملازم۔ مکہ کے دیگر کئی لوگ بھی انھیں ہی اپنی رقوم دے دیا کرتے تھے کہ تجارت میں شریک کرلیں۔ ان کی خالہ خدیجہ بنت خویلدؓ کو ویسے بھی اپنے بھانجے سے خصوصی اُنس تھا ، تجارتی اُمور پر بھی تبادلۂ خیال رہتا۔ اب چھوٹی بہن ہالہ بنت خویلد کے گھر سے یہ بندھن بھی بندھ گیا، تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔ جلد ہی بیٹی کی رخصتی ہوگئی اور وجود میں آنے والا نیا کنبہ خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ چند برس بعد دونوں چھوٹی بیٹیوں رقیہ اور اُم کلثوم کے نکاح بھی چچا ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوگئے، لیکن رخصتی نہ ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد ہی اس مبارک خانوادے کو نورِ نبوت سے نواز دیا گیا۔ ابو العاص قافلہ لے کر گئے ہوئے تھے۔ سفر سے واپس آئے تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ مکہ داخل ہوتے ہی باپ دادا کے دین سے مختلف کسی نئے دین کی خبریں ملنے لگیں۔ گھر پہنچے تو پیار کرنے والی اہلیہ نے آغاز میں کچھ نہ بتایا۔ شوہر آرام کرچکا تو کہا: عندی لک خبر عظیم، میرے پاس آپ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ اور پھر جب تفصیل بتائی تو ابو العاص قدرے ناراض ہوگئے۔ اور یہ کہتے ہوئے گھر سے جانے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اہلیہ پیچھے لپکیں اور کہا:’’ آپ تو خود جانتے ہیں کہ میرے والد صاحب صادق و امین ہیں، وہ کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ انھوں نے جب ہمیں نبوت اور وحی کا بتایا تو ہم نے فوراً ان کی تصدیق کردی۔ صرف میں ہی نہیں، امی بھی ایمان لے آئی ہیں۔ میری تینوں بہنیں، آپ کے پھوپھی زاد عثمان بن عفان، میرے چچا زاد علی ابن طالب اور آپ کے گہرے دوست ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہم جمیعا)۔ سب ایمان لے آئے ہیں۔ ابوالعاص نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا: لیکن میں اپنی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ لوگ کہیں گے کہ کفر بآبائہ ارضائً لزوجتہ، بیوی کو خوش کرنے کے لیے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ بالآخر میاں بیوی کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے پر جبراً کوئی رائے مسلط نہیں کریں گے، افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
وقت گزرنے لگا۔ میاں بیوی کا تعلق مثالی تھا لیکن ایمان وعقیدے کی بات ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہتی۔ کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ پہنچانے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے۔ ایک روز اپنی مجلس میں کہنے لگے:’’ تم لوگوں نے محمد کی بیٹیاں بیاہ کر انھیں اس ذمہ داری سے فارغ کررکھا ہے۔ اگر اس کی بیٹیوں کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو تو یہی پریشانی اسے مصروف و مجبور کردے گی‘‘۔ سب کے چہرے کھل اُٹھے۔ اہل شر دوسروں کو دُکھ پہنچا کر اسی طرح خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ابولہب کے بیٹوں نے فوراً حضرت رقیہ اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہما کو طلاق دینے کا اعلان کردیا۔ پھر وہ سب ابوالعاص کے پاس گئے اور کہا: ’’اپنی بیوی کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو، مکہ کی جس لڑکی کی طرف اشارہ کرو گے تم سے بیاہ دی جائے گی‘‘۔ ابوالعاص نے ایک انصاف پسند اور صاحب نخوت ہونے کی حیثیت سے جواب دیا: اس کا بھلا کیا قصور ہے، لا واللّٰہ إنی لا أفارق صاحبتی: اللہ کی قسم میں اپنی شریک حیات کو طلاق نہیں دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصف و دانا داماد کا یہ حسن سلوک ہمیشہ یاد رکھا۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ آپؐ کو مکہ سے ہجرت کا حکم مل گیا۔ اس سے پہلے آپؐ کی صاحبزادی حضرت رقیہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی زوجیت میں آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے گزارش کی: اگر اللہ نے منع نہیں فرمایا اور اجازت ہے تو میں اپنے شوہر ہی کے ساتھ رُک جاؤں؟ آپؐ نے فرمایا: بالکل آپ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رُک سکتی ہیں۔ تب تک حضرت زینب کو پروردگار نے بیٹے (علی) اور بیٹی (اُمامہ) سے نوازا تھا۔
آپؐ کی ہجرت کے بعد چھوٹی بہن حضرت رقیہؓ اپنے شوہر حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ حبشہ سے مکہ واپس آئیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ دوسری بار شرف ہجرت حاصل کرتے ہوئے دونوں مدینہ چلے گئے۔ اب مکہ میں زینب تھیں اور دونوں چھوٹی بہنیں اُم کلثوم اور فاطمۃؓ تھیں۔ آں حضوؐر نے مدینہ سے حضرت زید بن حارثہؓ کو بھیجا اور وہ آپؐ کی دونوں چھوٹی صاحب زادیوں کو بھی مدینہ منورہ لے گئے۔ بنات مصطفی ؐمیں سے صرف حضرت زینب مکہ میں رہ گئیں۔ شوہر اور دونوں بچوں کا ساتھ کچھ غم ہلکا کرتا تھا کہ ایک اور بڑی آزمایش آن پڑی۔ میدان بدر میں نئی تاریخ رقم ہونے جارہی تھی۔ مکہ میں ایسا ماحول تھا کہ ہر اہم فرد کا لشکر کفار میں جانا ضروری قرار دے دیا گیا۔ ابوالعاص ایمان نہ لانے کے باوجود جنگ میں جانے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن معاشرتی دباؤ کے سامنے جھک گئے اور لشکر کے ساتھ چلے گئے۔ حضرت زینبؓ اعصاب شکن اندرونی جنگ کا شکار تھیں۔ محبت کرنے والا شوہر اور بچوں کا باپ، جان سے پیارے والد ، رحمۃ للعالمین ؐ اور آپؐ کے صحابہ کے مدمقابل ہونے جارہا تھا۔ روتے روتے حضرت زینب کے دل سے دُعا نکلی: اللہم إنی أخشی من یوم تشرق شمسہ فییتم ولدی أو أفقد أبی، ’’پروردگار مجھے اس دن کا سورج طلوع ہونے کا ڈر ہے کہ جس روز میرے بچے یتیم ہوجائیں، یا میں سایۂ پدری سے محروم ہوجاؤں‘‘۔
معرکہ بدر ختم ہوا، قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے۔ انھی اسیروں میںدامادِ نبی ابوالعاص بھی تھے، لیکن انصاف کا تقاضا تھا کہ اسے بھی دیگر قیدیوں کے ساتھ اور انھی کی طرح رکھا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو کمال حکمت و عدل پر مبنی جملہ فرمایا۔ ارشاد ہوا: واللّٰہ ما ذممناہ صہرًا، ’’و اللہ ہمیں بحیثیت داماد ان سے کوئی شکوہ نہیں‘‘۔ اس جملے میں حسنِ سلوک کا اعتراف بھی ہے، لیکن کفار کے ساتھ آنے پر بن کہے، بہت کچھ کہہ بھی دیا گیا۔ پھر طے پایا کہ اہل مکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر انھیں رہا کرواسکتے ہیں۔ ہر قیدی کے اہل خانہ نے فدیہ بھیج کر اپنے اسیر رہا کروانا شروع کردیے۔ حضرت زینبؓ کے پاس ان کی سب سے قیمتی متاع شادی کے موقعے پر حضرت خدیجہؓ کا دیا ہوا قیمتی ہار تھا۔یہ ہار خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھاجو انھوں نے آن حضوؐر سے شادی کے موقع پر پہنا تھا۔ بیٹوں کی طرح عزیز بھانجے ابوالعاص کے ساتھ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے ماں نے ممتا کی نشانی یہی پیش کر دی۔ مدینہ میں اسیروں کے فدیے کی رقوم و متاع دیکھتے دیکھتے اچانک اہلیہ اور صاحبزادی کی مشترک نشانی پر نگاہ پڑی تو دونوں کے ساتھ گزری ساری خوب صورت یادیں تازہ ہوگئیں۔ آنکھیں نم ہوگئیں، لیکن زبان سے کچھ نہیں فرمایا۔ آپؐ سربراہ ریاست ہی نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ چاہتے تو خود کوئی فیصلہ صادر فرماسکتے تھے۔ لیکن آپؐ نے مشورے کے انداز میں صحابۂ کرام سے فرمایا: إن زینب بعثت بہذا المال لافتداء أبی العاص، فإن رأیتم أن تطلقوا لہا أسیرہا و تردواعلیہا مالہا فافعلوا،’’یہ زینب نے ابوالعاص کا فدیہ اپنی یہ متاع بھیجی ہے۔ اگر آپ حضرات چاہیں تو ان کا اسیر بھی رہا کردیں اور ان کا ہار بھی واپس بھیج دیں‘‘۔ سب نے بیک زبان کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! کیوں نہیں۔ آں حضوؐر نے زوجہ مرحومہ اور بیٹی کی نشانی لوٹاتے ہوئے کہا: ابو العاص! زینب سے کہو اسے احتیاط سے رکھا کرے۔ اب ایک اور بڑی سنگین و کڑی آزمایش کا سامنا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسیر داماد کو رہا کرکے گھر بھیج رہے ہیں اور رب ذو الجلال کی طرف سے حکم آجاتا ہے کہ اب کوئی مسلم خاتون کسی مشرک اور غیر مسلم کی بیوی نہیں رہ سکتی۔ آپؐ نے ابوالعاص کو ایک جانب لے جاتے ہوئے فرمایا: إن اللّٰہ أمرنی أن أفرق بین مسلمۃ وکافر فہلا رددت إلی إبنتی؟ ’’اللہ نے مجھے مسلم خواتین اور کافر شوہروں میں علیحدگی کرنے کا حکم دیا ہے۔ میری بیٹی مجھے واپس دے دیں‘‘۔ ابو العاص نے بس اتنا جواب دیا: ٹھیک ہے۔
اسیر رہا ہو کر مکہ پہنچا۔ جان نچھاور کرنے والی اہلیہ نے اطلاع پاکر مکہ سے باہر آکر شوہر کا استقبال کیا۔ ابوالعاص نے فوراً کہا۔إنی راحل: میں جارہا ہوں؟ کہاں؟ انھوں نے دریافت کیا۔ نہیں، میں نہیں آپ لوگ جارہے ہیں۔ پھر آپؐ کا پیغام اور اللہ کا حکم سنایا تو ایمان محبت پر غالب رہا۔ حضرت زینب نے حسین یادوں سے معمور گھر، چاہنے والا شوہر اور سب کو عزیز مکہ چھوڑنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ابوالعاص ابن الربیع نے اپنے چھوٹے بھائی عمروبن الربیع سے کہا کہ زینب اور بچوں کو مکہ سے باہر چھوڑ آؤ وہاں ان کے والد صاحب کے ارسال کردہ زید بن ثابت اور ساتھی انتظار کررہے ہیں۔ عمرو نے حضرت زینب اور بچوں کو سواری پر بٹھایا۔ اپنی تیر کمان کمر سے سجائی اور دن دہاڑے مکہ سے چل نکلا۔ کفار مکہ کو میدان بدر میں لگنے والے کاری زخم ابھی تازہ تھے۔ اپنے جانی دشمن کی بیٹی اور نواسے نواسی کو یوں سکون سے جاتے دیکھا تو مشتعل ہوکر پیچھے دوڑے اور دونوں کی سواریوں کو جالیا۔ عمرو نے بھی بآواز بلند للکارا، خبردار! تم جانتے ہو میرے تیر کبھی خطا نہیں گئے۔ تم میں سے کوئی ہمارے قریب پھٹکا تو میرا تیر اپنی گردن میں پیوست پائے گا۔ اتنی دیر میں ابو سفیان بھی پہنچ گیا اور مسئلے کی سنگینی بھانپ لی۔ دانا تو تھا ہی، عمرو بن الربیع کے قریب جاکر سرگوشی کی۔ بھتیجے اپنے تیر سمیٹ رکھو، اصل میں غلطی تمھاری ہے۔ زینب بنت محمد کو یوں دن دہاڑے لے کر جانے کا مطلب ہے، تم زخمی قریش کو للکار رہے ہو۔ اگر اس ماحول میں ہم نے انھیں جانے دیا تو سارے عرب ہمیں بزدلی کا طعنہ دے گا۔ یوں کرو اب انھیں واپس گھر لے چلو۔ عرب کہیں گے قریش نے دشمن کی بیٹی کو روک لیا۔ چند روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے لے کر نکل جاؤ۔ عمرو کو بھی بات سمجھ آگئی۔ واپس چلے گئے اور پھر ایک رات اپنی سابقہ بھابھی اور بچوں کو لے کر مکہ سے نکلے اور مدینہ سے آئے ہوئے وفد کے سپرد کردیا۔
زینب ؓ مدینہ پہنچیں تو چھوٹی بہن رقیہؓ اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ ان کے شوہر حضرت عثمانؓ اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے ذوالنورین کا لقب پاچکے تھے۔ اب منجھلی بہن اُم کلثوم ان کے گھر میں آباد تھیں۔ سب سے چھوٹی بہن فاطمۃ الزہرؓا پہلے ہی سے حضرت علیؓ ابن طالب کے ہاں تھیں۔ بحکم الٰہی ہونے والی اس علیحدگی کو چھے طویل سال گزر گئے۔ ابو العاص اس دوران مکہ ہی میں رہے۔ فتح مکہ سے کچھ پہلے پھر تجارتی قافلہ لے کر شام کے لیے روانہ ہوئے۔ خریدوفروخت کرنے کے بعد مکہ واپسی کے لیے لوٹے تو راستہ وہی تھا مدینہ کے قریب سے گزرتا ہوا۔ مسلم دستے نے مکہ جانے والا قافلہ روکنا چاہا کہ بدر و اُحد اور اَحزاب و حدیبیہ کے بعد یہی دفاعی تقاضا تھا۔ قافلے کا سامان پکڑا گیا، ساتھ جانے والے ۱۷۰ ملازمین گرفتار ہوگئے، لیکن قافلے کا مالک ابوالعاص بچ نکلا اور بچتا بچاتا رات کی تاریکی میں مدینہ داخل ہوگیا۔ اگلی صبح آپؐ نمازِ فجر کی امامت کروا رہے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے نسوانی آواز گونجی: أیہا الناس! أنا زینب بنت محمد و قد أجرت ابالعاص فأجیروہ، ’’لوگو! میں زینب بنت محمد ہوں اور میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے، آپ بھی انھیں پناہ دے دیں۔ نماز ختم ہونے پر آپؐ نے پیچھے مُڑ کر پوچھا: ھل سمعتم ما سمعت؟ جو کچھ میں نے سنا ہے کیا آپ نے بھی سنا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: والذی نفسی بیدہ ما علمت بشيء من ذلک حتی سمعت ما سمعتموہ و إنہ یجیر من المسلمین أدناھم، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! مجھے بھی اس پورے معاملے کا کچھ علم نہ تھا۔ میں نے بھی بس وہی سنا ہے جو آپ لوگوں نے سنا ہے اور دیکھو مسلمانوں میں سے کوئی ادنیٰ شخص بھی کسی کو پنا ہ دے دے تو وہ سب کی طرف سے پناہ ہوتی ہے۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی ابو العاص کی مہمان داری کرو لیکن یاد رہے کہ آپ ان کے لیے حلال نہیں ہیں‘‘۔ پھر جو صحابہ ابوالعاص کا تجارتی قافلہ پکڑ کر لائے تھے، انھیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’آپ ان صاحب کو بخوبی جانتے ہیں۔ اگر آپ ان سے حسن سلوک کرتے ہوئے ان کا سامان لوٹا دیں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ لیکن اگر آپ واپس نہ کرنا چاہیں تو وہ اللہ کی طرف سے تمھیں عطا ہونے والا سامان غنیمت ہے اور آپؐ لوگ اس کے حق دار ہیں۔ تمام صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسولؐ اللہ! ہم ان کا سامان انھیں لوٹاتے ہیں۔ پھر انھوں نے ابوالعاص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: آپؐ قریش کے ایک انتہائی باعزت انسان ہیں۔ آپ رسول اکرمؐکے چچا زاد بھی ہیں اور ان کے داماد بھی، کیایہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اسلام قبول کرلیں اور یہیں رہ جائیں؟ شرعی حکم کے مطابق یہ سارا مال بھی آپ کا ہوجائے گا۔ ابوالعاص نے جواب دیا: آپ نے مجھے بہت برا مشورہ دیا۔ کیا میں اسلام کا آغاز ہی بدعہدی سے کروں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قافلہ تیار کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔
آں حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اب مکہ پہنچنے والا ابوالعاص اب ایک مختلف انسان تھا۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر تمام تجارتی شرکا کو ان کا حصہ ادا کیا اور پھر اعلان کیا کہ اب جب کہ مجھ پر آپ میں سے کسی کا کوئی حق باقی نہیں رہ گیا تو سن لو کہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ و أشہد أن محمدًا عبدہ و رسولہ۔ مجھے مدینہ میں اسی بات نے اسلام لانے سے منع کیا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ میں نے تمھارا مال ہڑپ کرنے کے لیے دین بدل لیا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ واپس مدینہ آئے اور دست نبوت پر اسلام سے سرفراز ہوگئے۔ آپ نے بھی ان کی عزت و تکریم کی اور سراپا ایمان و وفا حضرت زینب کا گھر دوبارہ آباد ہوگیا۔
تحریک طالبان کے ساتھ مذکرات ہونے چاہییں یا اس کے خلاف آپریشن؟ بیک وقت مذاکرات اورآپریشن کافیصلہ سود مندہوگا یا نہیں؟ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہییں یا کسی شرط کے بغیر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث ہیںاور پاکستان کی سلامتی و بقا کو درپیش خطرات کو ان کی کامیابی و ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس عفریت نے ریاست اور معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ افغانستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اس جنگ میںجو اصلاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی،پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا تھا۔ ہم نے اس جنگ میں شمولیت کے وقت ہی آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وقت اور حالات نے ہمارے موقف کو ثابت کر دیا ہے۔ اس مذموم جنگ کو اب ۱۲ سال ہونے کو ہیں، اور جس دن سے ہم اس میں شامل ہوئے ، اسی دن سے تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی پھیل گئی ہے، اوراس کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلکی دہشت گردی بھی موجود ہے، لسانی و علاقائی دہشت گردی بھی روز افزوں ہے،بھتہ و لینڈمافیا بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، بھارتی دہشت گردی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور امریکی دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے۔
میاں محمد نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق وہ اس جنگ سے نکلنے کے لیے ایک ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ ایک عرصے تک حکومت کی طرف سے اس پر خاموشی رہی مگر دبائو بڑھا تو وزیراعظم نے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس نے دہشت گردی سے نجات کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے اور مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اس حوالے سے ابتدائی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں پالیسی جو بھی ہو، دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ڈور کا سرا ہاتھ نہ آئے اور ڈور کا سرا ’دہشت گردی کے نام پرامریکی جنگ‘ ہے۔ امریکا خطے میں موجود رہا اور نام نہاد جنگ جاری رہی تو صحیح معنوں میں کوئی پالیسی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ امریکا اور بھارت مل کر افغانستان کے راستے سے بھی اور براہ راست پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، اور اس کو بھڑکائے رکھنے کے لیے مذہب، فرقے، لسانیت اور علاقائیت، ہر طرح کے کارڈز اور ذرائع اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کااصل المیہ یہ ہے کہ اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر اس جنگ میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا،معیشت اور معاش دونوں بربادی کی نذر ہو گئے اور قوم کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ حساس ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے گئے،انٹیلی جنس نیٹ ورک فراہم کیا گیا ،لاجسٹک سپورٹ دی گئی اور ہر قسم کی مراعات مہیا کی گئیں، لیکن اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ نہ صرف پاکستان پر ڈبل گیم اور دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا بلکہ امریکا نے بڑے آرام سے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔سلالہ پر حملہ کرکے فوجی جوان شہید کیے، ڈرون سے میزائل برساکر ہزاروں لوگوں کوقتل کیا، افغانستان میں بھارت کو تخریبی سرگرمیاں منظم کرنے کی اجازت دی اور پاکستانی سرزمین پرخود اس کے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک جیسے درجنوںـ نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں موجود رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ سارا کھیل بھی جاری رہتا ہے اور ہم اس کا حصہ بنے رہتے ہیں، تو کوئی اچھی سے اچھی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی۔
سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا جائے، اور امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میںاپنے مفاد کو ملحوظخاطر رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ امریکی جنگ سے فوری طور پر باہر نکلنے کا اعلان کیا جائے۔ اس ایک اعلان سے ہی دہشت گردی اور افراتفری میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پھر فاٹا سے بلوچستان تک مذاکرات کے ذریعے معاملات اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر بعض گروہ امریکی و بھارتی شہ پر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز نہ آئیں تو قانون کے مطابق آہنی ہاتھ سے ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔
پہلے پیپلزپارٹی اوراب ن لیگ کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس ہوئے ہیں، وزراے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی ہیں یا مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا ہے، ان سب کی متفقہ قراردادوں میں مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت کی گئی ہے اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے، انھوں نے پارلیمنٹ اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے امریکا کے اشارہ چشم و ابرو پر عملاً انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بطور ایک سیاسی جماعت کے ،جماعت اسلامی نے مسلسل مذاکرات کے حق اور فوجی آپریشن کی مخالفت میں بات کی ہے۔ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی آج نہیں ہمیشہ سے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی بات کرتی رہی ہے، کیونکہ اس سے معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف جاتے ہیں۔ فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی ہے، اور ملک دولخت ہو جاتاہے۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی، فاٹا، کہیں بھی اس سے قبل فوجی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ایک اورآپریشن سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجاے ایک اور آپریشن کو نسخۂ کیمیا سمجھنا دانش مندی نہیں ہے۔ عاقبت نااندیش قیادت اورملک دشمن قوتیں فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو ایک ناقابلِ واپسی مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ جس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا، اسی طرح ایک بار پھر وہ اپنے انھی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔
سیاسی و فوجی قیادت اِن کیمرہ اجلاسوں اور نجی محافل میں امریکا اور بھارت کی ان سازشوں کا ذکر کرتی ہے لیکن ان کا سدباب کرنے کے لیے عملاً کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ امریکا و بھارت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ افواجِ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے وہ نکل نہ پائے، ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہو،اور اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا کھیل کھیلا جائے، نیز جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچے اور بھارت خطے کے تھانیدار اور بالادست قوت کے طور پر سامنے آئے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ کو نہ صرف پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیا جائے بلکہ اسے توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
سیاسی و فوجی قیادت جن میں وفاقی وزرا اور جرنیل شامل ہیں، ایک عرصے سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ : ’’بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے‘‘۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو بھارت سے باضابطہ طور پر کبھی احتجاج کیا گیا ہے اور نہ عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر مسلح افواج کے ترجمان نے ’را‘ اور سی آئی اے کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ان کے کارندے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت کی تخریب کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی بھارتی مداخلت کاری پر پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ثبوت مہیا کرے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر امریکی وبھارتی گٹھ جوڑ اور اس کی اس شرانگیزی کو طشت از بام کر دیا جائے تو میڈیا سے لے کر دہشت گردوںتک، اور این جی اوز سے لے کر آلہ کار سیاست دانوں تک، ان کے طرف دار چہرے قوم کے سامنے آجائیں گے۔
ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو موقع دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا اوراشتعال انگیزی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اب تک انھوں نے اس حوالے سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا تو ہماری طرف سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ تعطل کے خاتمے کے لیے وہ خود آگے بڑھیں اور طالبان اور حکومتی کمیٹیوں سے خود ملاقات کرکے ملک میں امن کی راہ ہموار کریں۔ اس ملاقات میں وہ چاہیں تو فوج کے نمایندے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ انھیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اپنے حلیف ناٹو کے ۴۶ممالک کی افواج اور جدید ترین اسلحے اور سازوسامان کے استعمال کے باوجود پچھلے ۱۲برسوں سے افغانستان کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے۔آج امریکا اور افغان قیادت دونوں بعد از خرابی بسیار یہ راگ الاپنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر فوجی قوت اور بندوق کی طاقت سے امن آنا ہوتا تو امریکا اور ناٹو افواج کب کا افغانستان کو فتح کر چکی ہوتیں۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کے تناظر میں حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ: جو گروہ دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور جومذاکرات کرنا چاہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، بظاہر متوازن پالیسی کا عکاس ہے ۔لیکن اس میں فیصلہ کن چیز یہ طے ہونا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور مذاکرات کی میز پر کس کو بلایا جائے؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرسکتی ہیں اور تعاون بھی دے سکتی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف چاہیں تواپنا ایک با اختیار وفد افغانستان کے طالبان اور ملا عمر سے رابطے کے لیے بھیج کر، ملک میں امن کی بحالی کے لیے ان سے مددلے سکتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تو امریکا بھی نہیں شرما رہا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کے ساتھ میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت کے ریاستی اور سفارتی تعلقات تھے۔ ان سے رابطہ کاری میں میاں صاحب کو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رابطہ معاملات کو افہام و تفہیم کی پٹڑی پر لانے اور اصلی اور نقلی طالبان کی پہچان میں مددگار بن سکے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ایسا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سبوتاژ کر دیتاہے۔ حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مہمند ایجنسی کے واقعے اور طالبان کے اس الزام کہ’’ ان کے ساتھیوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں ‘‘کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہیے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے ۲۳؍ اہل کاروں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی پر ہمیں شدید رنج ہے، اس کی ہم نے پرزور مذمت کی ہے اور ہمیں شہید اہل کاروں کے پس ماندگان سے دلی ہمدردی ہے۔ حکومت اور درد دل رکھنے والے تمام طبقات کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ایسی قوتوں کو قوم کے سامنے لانا چاہیے، جو مذاکراتی عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھناچاہتیں اور جن کی پوری کوشش ہے کہ فوج اور طالبان کو آپس میں لڑا یا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خوںریزی کا بازار گرم ہو۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ دونوں نے یہ کہاہے کہ جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑ پر پہنچتے ہیں، کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، تو پھر وزیراعظم ہی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شرانگیز قوتوں کی نشان دہی اور ان کے سدباب کے لیے مئوثر اقدامات کریں۔بلا لحاظ اس سے کہ ان کا تعلق کس فریق یا گروہ سے ہے۔
مذاکرات مخالف قوتیں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوںگے اور اس کے بعد ان کے ایجنڈے کے مطابق ملٹری آپریشن شروع ہوجائے گا۔مذاکراتی عمل کو کسی تعطل کے بغیر آگے بڑھتا دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ اس عمل میں رکاوٹیں پیداکرنے کے لیے ملک میں افواہ سازی کے ذریعے افراتفرای پھیلانے میں مصروف دیکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حا لات میں پوری قوم کو مذاکراتی کمیٹیوں کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے تاکہ حکومت کسی دبائو کے بغیر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہوں گے۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دُورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ امریکا اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے،اور حکومت کو فوجی آپریشن کی طرف دھکیلنے کی ’خدمت‘ انجام دے رہی ہے۔
ایف سی اہل کاروں کی شہادت کے روح فرسا واقعے کے بعد جو ’جوابی کارروائیاں‘ کی گئی ہیں، دہشت گردوں کوبھی اس سے نقصان پہنچا ہوگا لیکن شنید یہی ہے کہ عام آباد ی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مہذب معاشرے میں عام شہریوں کو دوران جنگ بھی اندھا دھند بمباری کی لپیٹ میں لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔کوئی ایسی مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جس میں ایک ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فضائی قوت اور بھاری بمباری کا استعمال کیا ہو، یہاں تک کہ کشمیر پر قابض بھارتی افواج نے بھی ایسا نہیں کیاہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مجرموں اور عوام الناس کی جانوں سے کھیلنے والے قاتلوں کی گرفت ضروری ہے اور ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے مگر یہ کارروائی قانون اور ضابطے کے مطابق ہی ہو، ایف ۱۶ اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہیں۔بڑے آرام سے یہ کہہ دینا کہ اس بمباری کے نتیجے میں صرف مجرمین اور دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں، ایک جسارت اور زمینی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کا یہ دعوی درست نہیں ہے۔ معمولی سی دانش رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کبھی جیٹ طیاروں کے ذریعے نہیں ہوا کرتی۔ اس سے خوف اور تباہی پھیلتی ہے، دہشت کی فضا بنتی اور افراتفری جنم لیتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آزاد میڈیا کے لیے حالات کی صحیح صحیح رپورٹنگ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے، اور ستم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نوحہ کر رہے ہیں کہ میران شاہ میں سویلین آبادی اور عورتیں اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض عناصرمنفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمایندگی کرنے کے بے سروپا الزام لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتی ہے ۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے اورہم ملک میں قیام امن کے دل و جان سے خواہاں ہیں، نیز اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو بھی مثبت خدمات انجام دی ہیں، ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخرہے۔ البتہ دستور کا احترام اور انصاف کے اصولوں کی مکمل پاس داری سب کے لیے ضروری اور ملک کے استحکام اور بقا کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔
جماعت اسلامی آئینی، دستوری اور جمہوری طریقے سے حکومتوں کی تبدیلی اور قانون سازی کی علَم بردار اور ملک میں خفیہ انجمن سازی اور تشدد کے ذریعے کسی ہدف کو حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ اس ضمن میں اس کا دستور، تاریخ اور عمل گواہ ہے۔جماعت اسلامی کی اپنے ملک میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مختلف انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ اس سے ہونے والا نقصان نفسیاتی، فکری اور اخلاقی بھی ہوتاہے اور مادی و جسمانی بھی۔ اس کا علاج اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوتا، جب تک آپریشن ختم نہ ہو۔
فوجی آپریشن سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں بھی سوات اور فاٹا سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور پوری دنیا میں اپنے ملک کے اندر ہونے والی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔اس وقت بھی جتنے بڑے پیمانے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی ہورہی ہے وہ ایک انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اگر لوگ ہجرت پر مجبور کر دیے جائیں ، ان کے گھروں کو مسمار اور مستقبل کو تاراج کر دیا جائے اوران کے بچوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، تو ایسی جگہ سے قانون کا احترام کرنے والوں کی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتقام لینے والوں کی کھیپ ہی کے رونما ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ حکومتی کارپردازوں کویہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہجرت کرنے والے لوگ تاجک اور ازبک نہیںبلکہ پاکستانی ہیں اور بے بسی و بے چارگی اور درماندگی میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بالخصوص اور مرکزی حکومت کو بالعموم اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کوہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔ جماعت اسلامی بھی اس سلسلے میں مقدوربھر کوششیں کررہی ہے اور الخدمت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو نیٹ ورک حکومت کا ہوسکتا ہے اس کو فوری طور پر بروے کار آنا چاہیے، تاکہ سردی کی شدت اور گھر بارچھوڑنے کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ مہاجرین کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہ حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے، بالخصوص وفاقی حکومت۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی طرف ہجرت کر جاتی تھی۔اور وہاں عزیز و اقارب اور کسی جاننے والے کے ہاں ان کو پناہ مل جاتی تھی لیکن اب خود کراچی آپریشن کی زد میں ہے۔ طالبانائزیشن کے نعرے کے سایے میںاگرفاٹا کے لوگ وہاں آئیں گے اور دکھائی دیں گے تو بڑی آسانی سے گرفتار کرلیے جائیں گے یا انھیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے بھی ان کی کراچی آنے کی مخالفت کی ہے ۔
ایم کیو ایم فوجی آپریشن کی بڑی حامی ہے، اور طالبان سے مذاکرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ وہ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی، اس کے قائد نے مہاجرین کا استقبال کرنے کے بجاے فوج کا استقبال کرنے کا عندیہ دیا، آئین توڑنے کی بات کی اور جرنیلوں کو دعوت دی کہ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ ایک جانب طالبان کو آئین شکن کہہ کر پوری قوت انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والے بے گناہ شہریوں کو کچل دینے کے لیے بیانات کی آگ اگلی جارہی ہے، تو دوسری طرف ایسی نفرت انگیز آگ بھڑکانے والے اسی گروہ کے لندن میں بیٹھے لیڈر نے علی الاعلان آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، حالانکہ وہ اسمبلیوں کے اندر موجود ہیں۔ اس دفعہ وہ بظاہر حکومت میں شریک نہیں ہیں، مگر کارِ حکومت میں ان کی رسائی اور نازبرداری کا سب کواندازہ ہے۔ان کا نمایندہ سندھ کے گورنر ہائوس میں اسی طرح کارفرما ہے جس طرح وہ جنرل مشرف اور جناب آصف زرداری کے زمانے میں جلوہ افروز تھے۔ واضح رہے کہ موصوف اس سے پہلے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کم از کم چار بار پہلے بھی فوج کو دعوت اقدام دے چکے ہیں اور اپنی مکمل تائید کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس قابلِ مذمت بیان میں پورے جمہوری اور انتخابی دائرے اور نظام کو لپیٹ دینے کا عنوان موجود ہے۔اور یہ اس پس منظر میں ہے کہ جب باربار کے تلخ تجربات کے بعد عوام ، اعلیٰ عدالتیں اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہیں کہ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ملک کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ آج جو جمہوری رویے پورے معاشرے کے اندر فروغ پارہے ہیں، کچھ خامیوں کے باوجود ان جمہوری رویوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔
ان سنگین حالات میں اہل علم بالخصوص علماے کرام کو آگے آنا چاہیے اورآئین و جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی بحث اور گتھیوں کو سلجھانے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ جو کام وہ کرسکتے ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا۔علماے کرام کواس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ پاکستان کے آئین کی کیا حیثیت ہے؟اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ شریعت کس طرح نافذ ہوتی ہے؟ شریعت سے تعلق رکھنا، حُب ِالٰہی اور حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہناہم سب کا ایمان ہے، لیکن یہ بات اہل علم ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ نہیں ہے، جو اختیار کیا گیا ہے اور جس کا یہاں اور وہاں اعلان کیا جا رہا ہے۔علماے کرام کو اسلام اور شریعت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو لوگ فوجی آپریشن کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپریشن تو شریعت کے خلاف ہو رہا ہے، اس لیے اچھا کام ہے۔ اور ان کے لیے سکون کا باعث ہے۔
۱۹۷۳ء کا آئین بنانے والوں میں وہ جید علما شامل تھے، جنھیں آج کے علما اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمود ،مولانا عبدالحق ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور قومی شخصیات آئین ساز کمیٹی میں شامل تھیں۔ وہ کیسے قرآن و سنت کے منافی آئین کو تسلیم کر سکتی تھیں۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کے بجاے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ جس آئین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا، اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یک جہتی کے لیے مضر ہے۔ قوم ۷۳ء کے آئین پر متحد ہے۔ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلیں اور اس پر خلوص سے عمل پیرا ہوں۔ یادرہے کہ اس آئین کو توڑنے والوں میں سب سے پیش پیش سیکولر اور ریاست کے اسلامی تشخص کے مخالف افراد اور گروہ ہیں، اور یہی وہ طبقات ہیں بشمول امریکی اور بھارتی لابی کے سرخیل اور قادیانی عناصر، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالنے اور اسے غیر متعلق بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے اس دستور کو مشتبہ بنانے والوں اوراس کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟
۱۹۷۳ء کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے۔اگر حکومت آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردے تو طالبان سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ آئین پر عمل درآمد کی راہ میں خود جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں ۔برسرِاقتدار جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیکولرسٹوں اور وڈیروں نے آئین شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ قرآن و سنت کے تابع پاکستان کے آئین کی مسلسل پامالی اور بے حرمتی سے ملک کے بارے میں بے آئین سرزمین کا تاثر پیدا کیا۔حکمران طبقوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک و قوم کو مقروض کیا اور پھر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات مانتے ہوئے عوام کش پالیسیاں بنائی گئیں۔ ایسا کرتے وقت آئین، اسلام، عوام اور انسانی قدروں میں سے کسی بھی چیز کی پروا نہیں کی گئی۔جب آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور تمام فیصلے بیرونی دبائو کے تحت کیے جائیں گے، تو آئینی ادارے کمزور اور تابع مہمل ہوں گے، اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔آج پاکستان میں بہترین آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جب کہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے بجاے امریکی و بھارتی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی اسلامی شناخت کونہ کوئی پہلے بدل سکا ہے اور ان شاء اللہ نہ آیندہ بدل سکے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی نام سے قائم اور وابستہ رہے گا۔اسلامی شریعت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا نام ہے ،جوکسی کی خواہشات پر بدلے نہیں جاسکتے۔ ملّی وحدت اور قومی یک جہتی کے لیے اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرناضروری اورمذاکرات مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہر ذمہ دار شہر ی کا فرض ہے۔جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں امن اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ امن قائم ہوگا تو شریعت آئے گی اور آئین پر بھی عمل ہوگا۔
پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے نظریۂ پاکستان کی کیا اہمیت ہے؟ چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر کے لیے مولانا مودودی کے مفصل انٹرویو سے چند اقتباس پیش ہیں جو آج بھی کھلی حقیقت ہیں۔(ادارہ)
یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بہ یک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے۔
مختصرطورپر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم من حیث القوم دنیا میں دین حق کے سچے نمایندے بن کر کھڑے ہوسکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہرشعبے میں وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو کوئی غیرمسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظامِ زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رویے میں، غرض ہماری ہرچیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتاب کو پڑھنے کے بجاے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔(چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر، دسمبر ۱۹۶۰ء)
قرآن کریم ایک دعوت کی کتاب ہے اور ایک دعوت اور تحریک کے ساتھ ساتھ نازل کی گئی ہے۔ پورے ۲۳برس کی مدت میں اسلامی دعوت کو جن جن مرحلوں سے ہوکر گزرنا پڑا، ان تمام مرحلوں میں اس کتاب نے بروقت رہنمائی کی ہے۔ ہرموقع پر ضرورت کے لحاظ سے اس کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت کے تقاضوں کے تحت، انداز بدل بدل کر ایک بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے اور ہر موقع پر کسی ضروری پہلو کو زیادہ اُبھارا گیا ہے۔
ایسی کتاب کو اگر آپ دوسری کتابوں کی طرح پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ جو باتیں کسی خاص موقع اور کسی خاص محل پر کہی جاتی ہیں، اگر آپ انھیں موقع اور محل کے تصور سے الگ کرکے دیکھیں تو ان میں نہ اثر باقی رہتا ہے اور نہ سننے والے اس سے وہ لطف محسوس کرسکتے ہیں۔ آپ نے خود تجربہ کیا ہوگا۔ کبھی کسی نازک موقع پر خاص حالات کے تحت کسی شاعر کا ایک مصرع یا کسی شخص کا کوئی مقولہ سننے والوں کو تڑپا دیتا ہے۔ لیکن وہی مصرع اور وہی مقولہ اگر ان حالات سے الگ ہوکر دہرایا جائے تو اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی۔
قرآن ایک دعوت کی کتاب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی آنکھوں کو پُرنم اور آپ کی قوتوں کو متحرک کرے، تو آپ پہلے اس دعوت کو اپنائیں، جو قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ آپ اس دعوت کو عملاً دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اگر آپ سچ مچ اسلامی دعوت کو لے کر اُٹھیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے، اور جب آپ کے حسب ِ ضرورت وہ رہنمائی براہِ راست مالکِ کائنات کے الفاظ میں آپ کے سامنے آئے گی تو ممکن نہیں کہ آپ کے جذبات میں اُبھار پیدا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی آنکھیں پُرنم ہوجائیں، اور آپ اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرنے لگیں کہ آپ کو دنیا کی ساری قوتیں ہیچ نظر آئیں۔
ایک ایسا شخص جو پیاسا نہ ہو اور جسے پانی کی ضرورت بھی نہ ہو، وہ پانی کے اوصاف بہت کچھ بیان کرسکتا ہے۔ وہ اچھی طرح بتا سکتا ہے کہ پانی کس کس گیس سے مل کر بنا ہے، کیا خاصیتیں رکھتا ہے، کتنے درجے گرمی پاکر اُبلتا ہے، کس درجے پر جم جاتا ہے، غرض یہ کہ آپ اُس کی باتیں سن کر محسوس کریں گے کہ وہ پانی کا مکمل عالم ہے اور پانی کے بارے میں اُس کی معلومات انتہائی قابلِ قدر ہیں۔لیکن اگر پانی کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کرنا ہو تو آپ اُس پیاسے سے پوچھیے جو کسی ریگستان میں کئی دن تک پانی کی تلاش میں گھوم چکا ہو، اور آخر میں کہیں سے ایک پیالہ بھر پانی پاجائے۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے غور کیجیے کہ قرآن پاک کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے داعیِحق (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ ایسی ہدایات دی ہیں جن میں انھیں اس مشکل کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی تاکید ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اُونچے کام کے لیے آپؐ کو منتخب فرمایا تھا، اس کے لیے ضروری صلاحیتیں آپؐ میں پہلے ہی پیدا ہوچکی تھیں۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں میں بہتر انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد آپؐ کو حاصل تھی لہٰذا اپنے آپ کو تیار کرنے والی ہدایات کی ضرورت آپؐ کو اتنی نہ تھی جتنی کہ آپؐ کے بعد آنے والے ان لوگوں کو تھی جو آپؐ کی ہدایات کے تحت اللہ کے دین کو قائم کرنے کا کام کرنے والے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ آپؐ کی اُمت میں سے قیامت تک جو لوگ دعوتِ اسلامی کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے، اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کا ارادہ کریں گے اور اس راہ میں کوئی قدم بڑھائیں گے، وہ کتنی سخت ضرورت محسوس کریں گے کہ دنیا کے اس سب سے دشوار کام کے لیے انھیں کچھ ہدایات ملیں اور ان کی بروقت رہنمائی ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب اس دور کا نازل شدہ قرآن آئے گا تو انھیں وہی چیز ملے گی جس کو ان کے دل ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ سورئہ مزمل جس میں نماز، ذکر اور تہجد سے قوت حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دی گئی ہیں، ایک جملہ یہ بھی ہے کہ: اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا، (مزمل۷۳:۷)، ’’بلاشبہہ تمھیں دن میں بہت لمبا (دعوتِ اسلامی کا کام)کام کرنا پڑتا ہے‘‘ ۔ اس لمبے کام کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس خدمت کے لیے تیاری لازمی ہے اور اس قوت اور اس تیاری کے لیے یہ نسخہ موجود ہے۔ بات بالکل کھلی ہوئی ہے۔ جسے کوئی لمبا کام کرنا ہی نہ ہو، اس کے لیے ان ہدایات میں کیا رکھا ہے۔ نسخہ اور دوا تو بیمار کو عزیز ہوتا ہے۔
اس طرح آگے بڑھیے۔ مکی دور کے پورے قرآن میں کفارِ مکہ کی وہ کش مکش جس نے اہلِ ایمان کا جینا دوبھر کر دیا تھا، بطور پسِ منظر کے موجود ہے۔ اللہ کا نام لینا جرم ہے۔ اپنے پرائے ہوتے جارہے ہیں۔ دوست دشمنی کا برتائو کر رہے ہیں۔ اوچھے اور کمیں لوگ، بااخلاق اور شریف لوگوں پر قسم قسم کی بے ہودہ گندگیاں اُچھال رہے ہیں۔ پھر اہلِ ایمان جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں، ان میں کوئی مادی غرض چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ خود سیدھی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو خود انھی کے بھلے کے لیے سیدھی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بڑی سیدھی اور سچی بات ہے۔ پھر اُسے زبردستی منوانا نہیں چاہتے، مان لینے کے لیے پیش کررہے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر مخالفین ضد اور ہٹ دھرمی پر اَڑے ہوئے ہیں۔ ہربات کو سنی اَن سنی کردیتے ہیں۔ کسی بات کو معقولیت کے ساتھ سنتے ہی نہیں، غور اور فکر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
اب ذرا سوچیے اگر کوئی گروہ یا کوئی شخص حق کی دعوت لے کر اُٹھے، اپنی حد تک دنیا میں اللہ کے دین کا پیغام دوسروں تک پہنچائے ، اور اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش شروع کردے اور اس کے نتیجے میں اُسے بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آنے لگیں جن کا کچھ مختصر ذکر اُوپر ہوا ہے، وہ بھی مخالفتوں کا نشانہ بن جائے، اسے اپنے بھی پرایا سمجھنے لگیں، اس کے لیے بھی صرف ایک اللہ کا اپنا حاکم و مالک مان لینا جرم ہوجائے، اس کی بات کو بھی لوگ سننے اور اس پر غور کرنے کے بجاے یوں ہی ہوا میں اُڑانے لگیں، تو ایسے شخص کو ان نازک حالات میں مناسب اور بروقت ہدایت کی کیسی سخت ضرورت محسوس ہوگی۔
جس اللہ نے اُمت ِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے اقامت ِ دین کا فرض عائد کیا ہے اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے یہ مشکل خدمت انجام دینے کے لیے ہدایات بھی دے دی ہیں۔ ان ہدایات کی صحیح قدروقیمت تب ہی محسوس ہوسکتی ہے جب اس خدمت اور فرض کو ادا کرنے کے لیے عملاً میدان میں اُترا جائے جس کے سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں۔
اسی انداز پر آپ ان مضامین پر غور کرتے جایئے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ جب تک واقعی کوئی متحرک دعوتی کام لوگوں کے سامنے نہ ہوں، ان کے لیے اس سرمایے میں سے کتنا تھوڑا حصہ آسکتا ہے۔
غرض یہ کہ پورے قرآن پر نظرڈالی جائے۔ اس کا ہر مضمون مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منظم تحریک، کسی مستقل دعوت کا پروگرام اور کسی عملی جدوجہد کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر یہ سارے مضامین تقریباً بے روح ہوتے ہیں اور اس بات کا سب سے بڑا زندہ ثبوت خود آج اُمت ِ مسلمہ ہے۔
اب بھی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کی بگڑی ہوئی حالت کا صحیح علاج صرف قرآن مجید ہے لیکن یہ علاج ان ہی لوگوں کے لیے کارگر ہوسکتا ہے جو یہ طے کرلیں کہ وہ اس پروگرام کو لے کر اُٹھیں گے جو قرآن پیش کرتا ہے اور اس دعوت کو عملاً پیش کرنے کی جدوجہد کریں گے جن کی ہدایات قرآن کے ہرصفحے پر مل سکتی ہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس خدائی ہدایت کو سچے معنوںمیں قبول کریں اور اس دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن اگر خدانخواستہ انھوں نے اس خدمت کو انجام نہ دیا تو اللہ کا یہ نور ہدایت تو پھیل کر رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کچھ اور لوگوں کو اُٹھائے گا اور وہ اُن کی طرح ناکارہ نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محرومی سے بچائے اور اپنے دین کو قائم کرنے کی ہمیں سعادت نصیب فرمائے۔ یہی اس زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔
کسی علاقائی امتیاز، جغرافیائی اساس، لسانی انفرادیت یا نامعلوم تاریخی اَدوار و آثار کی نسبت سے عمل میں نہیں آیا تھا۔ پاکستان کا قیام: کلمہ طیبہ، اسلامی تہذیبی وحدت، اور اسلامی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔لیکن تشکیل پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دیگر مشکلات کے ساتھ مملکت خداداد کو ایک ہمہ پہلو نظریاتی حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ حملہ تحریکِ پاکستان کی مسلمہ نظریاتی اساس کا رُخ موڑنے، اسے علاقائی لسانی جھمیلوں میں اُلجھانے اور اس کا تعلق ماضی بعید کے نامعلوم اَدوار سے جوڑنے کے بظاہر معصومانہ کھیل سے شروع کیا گیا ہے۔ مگر اس قدیم اور افسانوی تہذیب یا ثقافت کا اسلامی تہذیب و ثقافت، اوراسلامی فکرو طرزِ زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں بنتا۔ کچھ سادہ لوح لشکری بھی اپنی زبان، قلم اور فن کے ہتھیار لے کر اس ثقافتی حملہ آور فوج کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ ان ثقافتیوں کو ابلاغی اور سیاسی کمک تقویت پہنچارہی ہے۔ اس طرزِفکر کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات انسانی تاریخ کے عبرت کدے ہیں، ان سے نسبت جوڑنے والے انھی ثقافتی مضمرات کے حوالے سے یہاں پانچ مختصر مضامین یک جا پیش کیے جارہے ہیں، جن سے مسئلے کی نوعیت واضح ہوگی اور پتاچلے گا کہ ثقافت سے اظہارِ محبت کا اصل مقصد کیا ہے۔(مرتب: سلیم منصورخالد)
اُردو ادب کے ایک خوب صورت افسانے کی کہانی ایک ایسے گائوں کے گرد گھومتی ہے، جس کے باسی بارش کے پانی سے اپنی محدود زمینیں آباد کرتے ہیں۔ بارشیں رُک جائیں تو قحط سالی آجاتی ہے، جمع شدہ اناج سے گزربسر کی جاتی ہے، یا پھر کچھ عرصے کے لیے شہر کی جانب ہجرت کرکے محنت مزدوری سے پیٹ پالا جاتا ہے۔ بارانی علاقے کی اس زمین پر مٹی کے بہت سے بڑے بڑے ڈھیر ہیں، جنھیں ٹبے کہا جاتا ہے۔ ان ٹبوں کے بارے میں لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں کبھی انسان رہا کرتے تھے، شہرآباد تھے، لیکن وقت نے انھیں کھنڈر کردیا۔ قحط سالی کے زمانے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں کے ایک ٹبے کے گرد پڑائو ڈالتی ہے اور گائوں میں سے چند لوگوں کو کھدائی کے لیے مزدور رکھ لیتی ہے۔ ایک فاقہ زدہ غریب شخص بھی ان مزدوروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ دن بھر کھدائی کے بعد وہ رات کو مزدوری لے کر گھر آتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب غربت کے دن رخصت ہوگئے ۔ بیوی اکثر اس سے سوال کرتی ہے کہ تم وہاں کھدائی کرتے ہو، آخر وہ لوگ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ پہلے پہل تو اسے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے، سکّے یا کوئی اور استعمال کی چیز مل جائے تو فوراً اسے ماہرِ آثارِ قدیمہ کے سامنے لاکر پیش کردیا جاتا۔ وہ اسے صاف کرتا، ’ڈسٹلڈ واٹر‘ سے دھوتا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی چیزوں پر ترتیب سے رکھ دیتا۔ مزدور اپنی کھدائی میں مصروف رہتے، جب کہ وہ بڑے بڑے محدب عدسوں کے ذریعے ان ٹھیکریوں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا۔ کھدائی کا عرصہ طویل ہوتا گیا، ان چند مزدوروں کے گھر میں خوش حالی آگئی، لیکن اس مزدور کی بیوی کے سوال ختم نہ ہوئے۔ وہ پوچھتی: یہ لوگ پاگل ہیں، آخر کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ ان ٹوٹے ہوئے برتنوں سے انھیں کیا ملے گا؟ خود اس کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آتا تھا تو بھلا وہ بیوی کو کیا بتاتا!
آخر اسے وہاں موجود ماہرین کی باتوں سے پتا چلنے لگا کہ یہ لوگ تین چار ہزار سال پرانے اس شہر میں بسنے والے لوگوں کے زیراستعمال اشیا کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایک بہت بڑا مٹکا ہے، جس کے گیارہ ٹکڑے دریافت ہوچکے ہیں اور بارہویں کی تلاش جاری ہے، تاکہ مٹکا مکمل ہوجائے۔ تلاش طویل ہوجاتی ہے، وہ ٹکڑا نہیں ملتا، مگر مزدوروں کا رزق چلتا رہتا ہے۔ اچانک شور اُٹھتا ہے کہ وہ ٹکڑا مل گیا۔ ٹکڑا لاکر اس بڑی سی میز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک دم خوشی و مسرت کی کیفیت میں ماہرین رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ معمول کے مطابق اگلے دن صبح مزدور کام پر آتے ہیں تو ماہرین کا سامان باندھا جا رہا ہوتا ہے، گاڑیاں تیار کھڑی ہوتی ہیں، وہ ان سب مقامی مزدوروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کچی سڑک پر دھول اُڑاتے غائب ہوجاتے ہیں۔
یہ شخص مایوس گھر واپس لوٹتا ہے۔ قحط سالی اب بھی قائم ہے۔ چند دن بچی کھچی آمدن سے گھر کا گزارا چلتا ہے، پھر فاقے شروع ہوجاتے ہیں۔ پریشان حال وہ شخص گھر کے صحن میں بیٹھا سوچوں میں گم ہے، بیوی اسے مزدوری ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہے۔ کتنے دن اس لڑائی،ناکامی اور نامرادی میں گزر جاتے ہیں۔ نہ بارش برستی ہے، نہ مزدوری ملتی ہے اور نہ فاقے ختم ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ سخت پیاس کے عالم میں گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کے پاس پانی پینے کے لیے آتا ہے۔ پانی پی کر گھڑا اُٹھاتا ہے اور اسے گھر کے باہر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ بیوی غصے سے پاگل ہوجاتی ہے۔ کہتی ہے: ’ایک تو گھر میں پیسے نہیں، اُوپر سے تم نے پانی بھر کے لانے والا گھڑا بھی توڑ دیا‘۔ اس مزدور کا جواب ثقافت کے ٹھیکے داروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے: ’آج سے تین ہزار سال بعد جب یہ گائوں ایک ٹبہ بن چکا ہوگا تو ایسے ہی ماہرین آثارِ قدیمہ آئیں گے اور مزدوروں کو اس گھڑے کے ٹکڑوں کی تلاش میں لگائیں گے۔ یوں کتنے لوگوں کو مزدوری مل جائے گی‘۔
ثقافت کے رنگا رنگ منظر کی یہ کہانی دنیا میں ہر اس حکمران نے دہرائی ہے، جسے عوام کے دُکھوں سے کوئی دل چسپی نہ ہو، لیکن وہ چند دن کے میلوں ٹھیلوں میں ان کو مصروف کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہو۔ میکائولی نے اپنی مشہور عالم کتاب Prince (شہزادہ) میں بادشاہوں کو جو مشورے دیے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بار بار میلوں، ٹھیلوں اور رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا جائے تاکہ اس عرصے میں لوگ اپنی غربت و افلاس کے دکھوں کو بھول جائیں۔ پورا روم جب اپنی ترقی کے عروج پر تھا تو عام آدمی کی زندگی انتہائی تلخ اور مشکل تھی، لیکن اشرافیہ کے گھر کے فواروں میں بھی خوشبودار پانی استعمال ہوتا تھا۔ ان کے ہاں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہروقت بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہتا تھا، لیکن ان غریب عوام کو چند دن تقریبات کے کھلونے سے بہلانے کے لیے رومن کھیلیں منعقد کی جاتی تھیں، جن میں بگھیوں کی دوڑ کا مقابلہ سب سے بڑا تماشا ہوتا تھا۔ اس کے لیے دریاے نیل کے ساحلوں سے باریک ریت بحری جہازوں میں منگوائی جاتی اور اس بڑے اسٹیڈیم میں بچھائی جاتی۔ صرف یہی نہیں ، ہرسال تقریباً ۱۲۰۰ مجرموں کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا جاتا۔ ہاتھیوں، گینڈوں، بیلوں، چیتوں اور جنگلی سوروں کی لڑائیاں ہوتیں۔ ۲۰۰خوب صورت دوشیزائوں کو پاگل نوجوانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ قیدیوں کو خوراک کھلا کر پالاجاتا، ورزش کروائی جاتی۔ پھر ان کو بھوکے شیروں سے لڑنے کو کہا جاتا۔ اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد بیٹھے یہ تماشا دیکھتے۔ جب تک جشن چلتا، لوگوں کو مفت کھانا ملتا۔ یہ چند دن ایسے گزرتے جیسے پورے روم میں کوئی دُکھ نہیں، بھوک ہے نہ غربت، ننگ ہے نہ افلاس۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس زمانے کے دانش ور، قلم کار، شاعر اور ادیب ان کھیلوں کو روم کی ثقافت کا مظہر قرار دیتے، اسے ترقی کی بنیاد اور مذہبی جکڑبندیوں سے آزادی کا زینہ تصور کرتے تھے۔
لیکن ان رنگا رنگ تقریبات کے مدح خوانوں کے درمیان ایک فلاسفر سینیکا دی ینگر بھی تھا۔ وہ ان ثقافتی بے ہودہ تقریبات کا مخالف تھا۔ اسے اپنے اردگرد بھوک، ننگ، افلاس اور غربت نظر آتی تو چیخ اُٹھتا۔ وہ سمجھتا کہ یہ سب اس بھوکی ننگی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ ان تقریبات میں شرکت نہ کرتا بلکہ اپنے گھر میں بیٹھا ان دنوں میں روتا رہتا۔ اس کے بہت سے مداح پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ روم کے وزیراعظم کے عہدے کے برابر فرد جسے ٹرابیون کہتے تھے، وہ بھی اس کے مداحوں میں شامل ہوگیا۔ بادشاہ کو فلسفی سینیکا کی مقبولیت کا علم ہوا تو اسے دربار میں طلب کرکے اس سے پوچھا گیا کہ: ’تم ان ثقافتی تقریبات کو کیا سمجھتے ہو؟‘ اس نے کہا: ’یہ ایک مذاق ہے، جو غربت میں پسی ہوئی قوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘۔ بادشاہ نیرو نے حکم دیا کہ: ’تمھاری سزا یہ ہے کہ تم بھرے دربار میں اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو قتل کرو۔ دربار کے سناٹے میں وزیراعظم نے اس کی سفارش کی، لیکن ثقافت کے اس ’دشمن‘ اور روم کی ’تہذیبی روایات کے مخالف‘ کی جان کیسے بخشی جاسکتی تھی۔ اور ۶۵عیسوی میں سینیکا نے بھرے دربار میں جبری خودکشی کرلی۔ لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ رنگارنگ تقریبات روم کے بادشاہوں کو بدترین انجام سے نہ بچاسکیں۔ ان پر شمالی افریقہ کے تہذیب سے ناآشنا قبائل ایسے چڑھ دوڑے کہ بڑے بڑے ثقافتی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور آج وہ عبرت کے نشان کے طور پر موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ کسی کو ،موئن جودڑو‘(مرجانے والوں کے ٹبے) میں میلے لگانے کا شوق ہے تو کوئی جشنِ بہاراں اور سپورٹس فیسٹیول مناتا ہے۔
انجام سے بے خبر لوگ کیا تہذیب سے ناآشنا قبائل کا انتظار کر رہے ہیں؟
پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا ، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی، لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرزم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبوں کے نام پر سیاست ہوئی، زبان کے نام پر سیاست ہوئی۔ یہاں تک کہ اس چیز کے نام پر سیاست ہوئی جسے عرفِ عام میں ’کلچر‘ کہا جاتا ہے اور جس کو سب سے زیادہ غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر سیاست کی پہلی اور سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش] ہے، جہاں بنگالی زبان کو کلچر کی سب سے بڑی علامت بناکر پیش کیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کو اپنی زبان سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ بنگالی رابندرا ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں نسل پرست بنگالیوں کا تعصب اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں جب قائداعظم نے کہا کہ:’پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اُردو ہوگی‘ تو بنگالیوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا۔
انھوں نے اس سلسلے میں اس بات تک پر غور نہ کیا کہ قائداعظم کی اپنی مادری زبان گجراتی ہے، وہ خود نہ اُردو رسم الخط میں اُردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ساری تعلیم و تربیت انگریزی کی فضا میں ہوئی ہے۔ قائداعظم اس تعلیم و تربیت کے باعث انگریزی سے اتنے مانوس تھے کہ وہ اپنی اہلیہ تک سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ ان حقائق کے باوجود قائداعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی۔ قائداعظم کی اُردو سے یہ محبت شخصی معاملہ نہیں تھی۔ قائداعظم کو تین حقائق کا اِدراک تھا: انھیں معلوم تھا کہ عربی اور فارسی کے بعد دین اسلام اور ادب کا سب سے بڑا سرمایہ اُردو کے پاس ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ اُردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ انھیں اس امر کا پورا پورا احساس تھا کہ اُردو نے دو قومی نظریے کے بعد پاکستان کی تخلیق میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، مگربنگالیوں نے ان میں سے کسی بات کا اِدراک نہ کیا۔ وہ بنگالی بنگالی کرتے رہے اور ان کی زبان کی جائز محبت، زبان کی پوجا میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ آج بنگلہ دیش کی عملاً سرکاری زبان بنگالی نہیں انگریزی ہے اور بنگلہ دیش کے کروڑوں شہری بھارتی فلموں کے حوالے سے اُردو کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی کلچرپرستی ہے جو بانیِ ملک کی بات نہیں سنتی مگر ’مجبوری‘ اور ’فلموں‘ کی بات سنتی ہے۔
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں، جن کی اصل شکایت معاشی تھی، مگر ان کی مفاد پرستی کی سیاست نے معاشی شکایت کو کلچر کی سیاست میں ڈھال دیا۔ اُردو پورے برعظیم کی زبان تھی، مگر الطاف حسین اسے صرف مہاجروں کی زبان بناکر کھڑے ہوگئے۔ کلچر کی سیاست نے انھیں کُرتا پاجامہ پہناکر کھڑا کردیا، مگر الطاف حسین کی اُردو پرستی بھی جھوٹی تھی اور ان کا کُرتا پاجامہ بھی محض ایک دھوکا تھا۔ الطاف حسین کا اصل مسئلہ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ چنانچہ ان کی سیاست سے پہلے مہاجر سمندر کی علامت تھے، لیکن الطاف حسین کی سیاست نے انھیں کنویں کی علامت بنادیا۔ اس علامت سے بوری بندلاشوں اور بھتّا خوری کا کلچر برآمد ہوا۔ اس سے ’پُرتشدد تہذیب‘ نے جنم لیا۔ اس سے الطاف حسین کی نام نہاد ’جلاوطنی کے تمدن‘ نے سراُبھارا۔ اس سے ’ٹیلی فونک خطاب‘ کی ’موسیقی‘ پیدا ہوئی۔ اس سے دوسری ثقافتوں کی نفرت کے آرٹ نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کلچر کی سیاست اسی کا نام ہے؟
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی تازہ ترین علامت بلاول زرداری ہیں۔ انھوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو Banistan [پابندیوں کا گھر] قرار دیا اور فرمایا کہ یہاں شادی کے عشائیوں سے لے کر یوٹیوب تک ہرچیز پر پابندی یا Ban لگا ہوا ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کی تقریر کی اصل بات Banistan کا تصور نہیں، ان کی تقریر کی اصل بات کلچر کی سیاست ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ٹیلی ویژن کے ایک میزبان نے آصف علی زرداری کے لباس کے ’نمایشی پہلو‘ پر اعتراض کیا تھا تو آصف علی زرداری کی ثقافتی رگ پھڑک اُٹھی تھی اور انھوں نے صوبہ سندھ میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ بلاول زرداری نے ۱۵دسمبر۲۰۱۳ء کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ فروری ۲۰۱۴ء کے پہلے دو ہفتوں میں سندھ میں ’سندھ کلچرل فیسٹیول‘ منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلاول نے سندھ کی ثقافت سے جس ’تعلق‘ کا مظاہرہ کیا، وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے۔ بلاول جب سندھ کے کلچر سے وابستگی کا اعلان کررہے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کی شرٹ پر ’سپرمین‘ کی علامت بنی ہوئی تھی اور بلاول زرداری انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچرکی علامت شلوارقمیص، ٹوپی اور اجرک ہے یا پینٹ شرٹ؟سندھ کے ہیرو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست ہیں یا سپرمین؟ اور سندھ کی زبان سندھی ہے یا انگریزی؟ ہمیں بلاول کے پینٹ شرٹ پہننے، سپرمین کی علامت کو سینے سے لگانے اور انگریزی بولنے پر اعتراض نہیں، لیکن سندھی کلچر، سندھی کلچرکی رٹ لگانے والے کو کم از کم سندھ کے کلچر سے اتنی وابستگی کا مظاہرہ تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ وہ سندھی کلچر کے حوالے سے برپا ہونے والی تقریب میں اپنی زبان اور لباس سے ’سندھی‘ نظر آتے۔ لیکن بلاول زرداری کا مسئلہ سندھی کلچر تھوڑی ہے۔ ان کا مسئلہ تو سندھی کلچر کے نام پر سیاست ہے۔
اس کا ایک ثبوت تقریب میں کی گئی بلاول زرداری کی تقریر ہے۔ انھوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہماری تاریخ یونانیوں اور رومیوں کی طرح باثروت ہے۔ ہم دریاے سندھ کی قابلِ فخر تہذیب کے امین ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے ہماری اصل شناخت واضح ہو، نہ کہ تاریخ کی وہ درآمد شدہ اور خیالی داستان جو ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
غور کیا جائے تو بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں سندھ کے اسلامی ثقافتی ورثے اور تحریکِ پاکستان سے متعلق اس کے کردار کی دھجیاں اُڑا کر اسے دریاے سندھ میں بہا دیا ہے۔ سندھ کی ثقافتی تاریخ کے چار حصے ہیں: سندھ موئن جودڑو کی تہذیب کا مرکز ہے۔ سندھ راجا داہر کی سرزمین رہا ہے، لیکن سندھ باب الاسلام ہے اور سندھ تحریکِ پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے۔ اِس وقت سندھ کے اسکولوں میں باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے، تو کیا بلاول کے نزدیک یہی تاریخ درآمد شدہ Fiction یا خیالی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلاول کھل کر اعلان کریں کہ وہ موئن جودڑو اور راجا داہر کی تہذیب کے امین ہیں، باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ کے امین نہیں ہیں۔
خالص ثقافتی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بلاول کا بیان ہولناک ہے۔ کلچر ایک کُل یا whole ہے، اور جب کوئی کسی خطے کے کلچر کو ’اپنا‘ کہتا ہے، تو وہ اس کے کُل کو اپنا کہتا ہے۔ اس اعتبار سے بلاول کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم ایک جانب موئن جودڑو کی تہذیب کے امین ہیں اور دوسری جانب باب الاسلام کی تاریخ کے امین ہیں اور تیسری جانب ہم تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے ثقافتی تجربے کے امین ہیں۔ مگر کلچر پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں صرف موئن جودڑو یاد آیا اور وہ باب الاسلام اور قیامِ پاٍکستان کے بعد کی ثقافت کو بھول گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان کی ’ثقافتی ایمان داری‘ ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کی جو تہذیب سندھ کا مُردہ ماضی ہے، وہ تو بلاول زرداری کا ثقافتی ورثہ ہے،اور باب الاسلام کی جو تاریخ سندھ کا زندہ حال ہے، وہ بلاول بھٹو کی تقریر میں جگہ پانے میں ناکام ہے، بلکہ وہ اسے ’خیالی تاریخ‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔ بلاول نے سندھ کلچرل میلے میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا بھی اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ وہ اہلِ سندھ کو یہ بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا۔
سندھ میں کلچرازم کے نعرے پر بیناشاہ نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے کلچر پرستوں کو بجاطور پر یاد دلا دیا ہے کہ سندھی ثقافت کی علامتیں مثلاً ٹوپی اور اجرک ترسیل کا ذریعہ ہیں، بجاے خود معنی نہیں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ کلچر معنی سے زندہ رہتا ہے، معنی کی ترسیل کے آلے سے نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ہے، اور مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ہے۔ یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصورِ جہاد کی علامت ہے۔ مگر یہ بات بلاول کیا بڑے بڑے سندھی قوم پرستوں کو معلوم نہیں۔ اُن کے لیے تو سندھ کی ثقافت، سیاست کا آلہ ہے اور بس۔ لیکن کلچر کی سیاست اِس وقت صرف سندھ تک محدود نہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے حال ہی میں بھارتی پنجاب کا دورہ فرمایا ہے۔ اس دورے میں انھوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان زبان، کھانے پینے کے معاملات مشترک ہیں۔ حیرت ہے کہ میاں شہباز شریف کو دونوں ثقافتوں کی ’بنیادی چیزوں کے امتیازات‘ تو یاد نہیں، البتہ ’ثانوی چیزوں کی مماثلتیں‘ انھیں خوب نظر آرہی ہیں۔ میاں شہباز شریف اس دورے میں سکھوں کے ساتھ کتنے گھل مل گئے تھے، اس کا اندازہ اخبار میں شائع شدہ ہونے والی اس تصویر سے ہوتا ہے جس میں وہ دو سکھ بزرگوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس تصویر کے لیے کیپشن وضع کیا جائے تو وہ اس فقرے کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا: ’اس تصویر میں شہباز شریف کون ہے؟‘
ایسی ہی ایک تصویر بلاول کے حوالے سے بھی شائع ہوئی ہے۔ اس تصویر کے لیے مناسب ترین کیپشن یہ ہے: ’اس تصویر میں سندھی کلچر کہاں ہے؟‘
’کہہ مُکرنی‘ کے معنی ہیں: ایک ہی سانس میں ایک بات کہنا اور پھر اس سے مُکر جانا۔ شاعری میں کہہ مُکرنیوں کے خالق اور خاتم امیرخسرو گزرے ہیں، لیکن سیاست میں کہہ مُکرنی ہمارے سیاست دانوں کے کردار کی شکل میں مجسم نظر آتی ہے، جس کا مظاہرہ یوں تو اہلِ وطن تشکیل پاکستان سے لے کر آج تک دیکھتے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، لیکن تازہ واردِ بساط سیاست عزیزمن بلاول زرداری نے جو مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی جگہ فقیدالمثال ہے۔ میری مراد عزیزم کے اُس اعلان سے ہے، جو انھوں نے تحفظ ِ ثقافت سندھ مہم کی تمہیدی تشہیر کے سلسلے میں کیا تھا، جو یہ تھا کہ: حیا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہم اپنے اس پروگرام میں، اپنے اس قیمتی ورثے کے تحفظ کی مہم چلائیں گے‘۔ اس قیمتی ثقافتی ورثے یعنی حیا کی پاس داری کے عزم کا اظہار بھی عزیزم نے شایانِ شان طریقے پر اس انداز سے کیا تھا کہ عزیزم، قائداعظم کے سپید سنگِ مرمر کے مقبرے کے پس منظر میں سفید براق شلوارقمیص اور اس کے کنٹراسٹ میں سیاہ واسکٹ میں ملبوس تھے۔ زبانِ حال سے مزار قائد سے فرمایش تھی کہ: ’گواہ رہنا، گواہ رہنا‘۔
بادی النظر میں عزیزم کا یہ پُرعزم اعلان خوش آیند و مسرت افزا تھا کہ وہ اس اعلیٰ اخلاقی قدر کے پالن کا اعلان کر رہے ہیں، جسے یوں تو ایک فطری داعیے کے طور پر ہرقوم اور تہذیب نے اپنایا ہے، لیکن نبی کریم صیل اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے مطابق ایمان کا ایک شعبہ ہے جس کے بغیر کسی کلمہ گو کا ایمان ہی نامعتبر رہتا ہے۔ نیز آپؐ نے نفسِ انسانی کو رہوار کی لگام قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جب تو حیا سے بیگانہ ہوجائے تو جو چاہے کرتا پھر‘‘… یعنی جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو ایمان و اخلاق کی ہرقدر کو پامال کرتا ہوا گناہ و نافرمانی کے جس عمیق گڑھے میں لڑھکتا ہوا گرنا چاہے گر جا، کوئی رکاوٹ مانع نہ ہوگی۔ اس فکری پس منظر میں عزیزم کے اس اعلان اور طرزِاعلان کو دیکھ اور سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی، لیکن چھٹی حِس صبااکبرآبادی مرحوم کا یہ شعر گنگناتی ہوئی محسوس ہوئی ؎
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
چھٹی حس کی تائید حافظے نے کی کہ برخوردار کے والد مکرم جب پیپلزپارٹی کے دورِاقتدار ثانی میں کچھ دن لندن یاترا سے واپس آئے تو لوگ یہ قطعہ پڑھتے سنائی دیے تھے کہ:
رقیبوں کو یہ خوش فہمی ہوئی تھی
کہ اگلا سامنے سے ٹل گیا ہے
میں اپنی آنکھ بنوانے گیا تھا
مرے دیدے کا پانی ڈھل گیا ہے
اور پھر ایک موقع پر جب عہدشکنی کا الزام لگا تو مذکورہ مرض کی توثیق اس دنداں شکن و دنداں نما فقرے سے کی تھی: ’’معاہدہ ہی تو تھا، کوئی قرآن و حدیث تو نہیں تھا‘‘۔ حالانکہ قرآن ہی میں ہے: ’’عہدوپیماں کے ایفا کے بارے میں لازماً بازپُرس ہوگی‘‘۔ دو روز بعد صاحبزادے کے اعلانِ تحفظ حیا کی حقیقت طشت ازبام ہوگئی۔
ہوا کی لہروں کے توسط سے ٹی وی چینل کی اسکرین پر مہم کی مہورت کی جھلکیوں میں شائقین نے وہ حیاپرور نظارہ دیکھا جس کے بارے میں نمایندے کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں گوش گزار ہوا کہ ’’پھر اسٹیج پر مغربی طرز کے رقص نے سماں باندھ دیا‘‘۔ یہ تھا سندھی ثقافت کے قیمتی ورثے حیا کا پالن۔شاعر نے کہا تھا ؎
تھی حیا مانع فقط بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ، ایسا کھلا
جھلکیوں میں مصرع ثانی گویا متشکل ہوکر سامنے تھا۔ کہاں حیا کے قیمتی ورثے کے تحفظ کا اعلان و ادعا، اور کہاں یہ حیاسوز منظر۔ ہم اعلان و اظہار کے اس کھلے تضاد ہی کو ایک اخلاق باختہ کہہ مُکرنی کا شاہکار سمجھ رہے تھے کہ سندھ کلچرل فیسٹیول کی تقریبات کا نصف اخباری صفحے کا اشتہار نظر سے گزرا، جس کا عنوان ہے: ’’تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا‘‘۔ ۸فروری کی تقریب میں معروف فن کاروں کے نام کے ساتھ، مقبول حیا پرور گروپ ’بے غیرت بریگیڈ‘ کا نام بطور خاص شامل تھا۔ اس اشتہار میں کمی تھی تو بس موئن جودڑو سے نکلنے والے دیوداسی رقاصہ کے مجسمے کی تصویر کی، جس کو اشتہاری مونوگرام ہونا چاہیے تھا۔
موئن جودڑو کے مقام پر عظیم الشان اسٹیج اور شائقین و شائقات کی محفل جمی دیکھ کر یاد آیا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ کے ہمراہ ایک ایسی ہی عذابِ الٰہی کا نشانہ بننے والی بستی سے گزر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا تھا: ’’ا س نزولِ عذابِ الٰہی کے مقام سے تیزی سے گزرو‘‘ (کہ تم پر بھی اس عذاب کا سایہ نہ پڑجائے)۔ عزیزم نے موئن جودڑو کے ساتھ جس موردِ عذاب بستی ہڑپہ کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا بیڑا اُٹھایا ہے، اس کے بارے میں ہمارے کرم فرما انور مسعود نے کہا ہے ؎
عبرت کی اِک چھٹانک میسر نہ ہوسکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
اب عزیزم حیاپروری کے نام پر اس عبرت آموز کلچر کے ’احیا‘ کا الف مخفی رکھ کر اسے ’تحفظ ِحیا‘ مہم کا نام دے رہے ہیں اور ہم قوم کی نوجوان نسل تک علامہ محمد اقبال کی یہ نصیحت پہنچانا چاہتے ہیں ؎
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
[یہ تحریر اب سے ۴۷برس پہلے اپریل ۱۹۶۸ء میں ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی میںشائع ہوئی تھی۔ جن دوبزرگوں کے حوالے مضمون میں شامل ہیں ، وہ دونوں اردو کے مشہور ادیب تھے۔ یہاں مقصد افراد کو زیر بحث لانا نہیںبلکہ زیر مطالعہ موضوع پر تبصرہ ہے۔ مرتب]
ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا کہنا یہ ہے کہـ:’ پاکستانی ثقافت کا بہت گہرا تعلق اس کی دھرتی سے ہے اور اس کا کچا مواد وہی ہے، جو آج سے تقریباً پانچ چھے ہزار برس قبل وادیِ سندھ کی تہذیب میں تھا۔‘ اُن کی نگاہ میں:’ آج کی پاکستانی تہذیب بھی وہی ہے جو ہڑپہ، موئن جو داڑو اور ٹیکسلا کی تہذیب تھی‘۔ اُن کے خیال میں :’وادیِ سندھ کی تہذیب کے مظاہر آج کی پاکستانی تہذیب میں نہ صرف یہ کہ موجود ہیں، بلکہ بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔‘ سوال یہ ہے کہ وہ مشترک مظاہر کون سے ہیں؟ ا ٓغا صاحب کا ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’…مثلاً موئن جو داڑو کی تختیوں پر جس بیل گاڑی کی تصویر کندہ ہے، وہ نہایت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر چل رہی ہے۔ پھر ان تختیوں پر جس باریش آدمی کی شبیہ نظر آتی ہے، وہ آج بھی ہمارے کھیتوں میںہل چلاتا اورالغوزہ یا بانسری بجاتا مل جاتا ہے… اس تہذیب کے شہروں میںگلیوں کا نظام بھی آج کے بیش تر پرانی وضع کے دیہات اور شہروں میں رائج ہے۔ گندم، جو وغیرہ کو اُگانے اور اُسے محفوظ کرنے کے طریقے بھی وہی ہیں۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور اپنے ہل کو دو بیلوں کی مدد سے چلاتے تھے۔ اس ہل میںکوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ بیلوں کی تعداد میںہی کمی بیشی ہوئی ہے۔ یہی حال اس لباس کا ہے جس میں تہہ بند(تہمد)، موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی بڑی اہمیت حاصل تھی، اور جو آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی سب سے زیادہ مروج ہے … تہ بند ایک ٹھیرے ہوئے زرعی معاشرے کی تخلیق ہے، جہاں حرکت فطرت کہ آہستہ روی سے ہم آہنگ ہے۔ چونکہ پاکستانی کلچر مزاجاً زرعی ہے اس لیے ہمارے ہاں تہ بند ہی اصل لباس ہے اور یہی لباس موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی رائج تھا… وادیِ سندھ کے لوگ زراعت پیشہ تھے، گندم اور کپاس اگاتے تھے، نہاتے اور الغوزے بجاتے تھے۔ ان کے بچے انھی کھلونوں سے کھیلتے تھے، جن سے ہمارے آج کے دیہاتی بچے کھیل رہے ہیں۔ ان کے ہاں مٹی کے برتن بنانے اور انھیں استعمال کرنے کا رجحان مسلط تھا، جو آج کے پاکستانی دیہات اور شہروں میں بھی موجود ہے… گایوں، بھینسوں سے ان کی وابستگی نہایت مضبوط تھی۔ یہ ان کے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں… فی الحقیقت ہمارے کلچر کے اجزائے ترکیبی میں بھینس کا عنصر بڑی اہمیت رکھتا ہے، اور اس نے ہمارے عام مزاج پر اثرات مرتسم کیے ہیں۔ کسی معاشرے کے کلچر کا جائزہ لینے کے لیے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ کس جانور سے وابستہ ہے … بھینس سے وابستگی غنودگی، ٹھیرائو اور جسم کی سطح پر زندہ رہنے کے عمل کو مضبوط بناتی ہے… یہی وہ بھینس ہے جو غلیظ جوہڑ کو سامنے پاکر بڑے وقار سے اس میں داخل ہوجاتی اور غلاظت میں لت پت ہو کر گھنٹوں بیٹھی اور اونگھتی رہتی ہے۔ وادیِ سندھ کی تہذیب اسی بھینس سے وابستہ تھی اور یہی روایات آج کے معاشرے تک بڑھتی چلی آتی ہے‘‘۔[تنقید اور احتساب، ۱۹۶۷ء]
بہتر یہ ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اُن اشیا کی ایک فہرست مرتب کر لیں جو آغاصاحب کے نزدیک وادیِ سندھ کے قدیم معاشرے اور آج کے پاکستانی معاشرے میں مشترک ہیں۔ یہ اشیا ہیں: بیل گاڑی، باریش آدمی، گلیاں، گندم، جو، کپاس، دو بیل (احمدشاہ پطرس بخاری والے ’دوبیل‘ نہیں) تہ بند، الغوزہ، مٹی کے برتن، گائے اور پھر سب سے بڑھ کر بھینس۔
کم و بیش اس طرح کی بات احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی لکھی تھی۔ موئن جودڑو کے عجائب گھر میں انھیں بیل گاڑی کا نمونہ نظر آیا، اور پھر وہی بیل گاڑی پنجاب کے دیہات کی کچی پکی سڑکوں پر رینگتی نظر آئی، تو انھوں نے بھی اس سے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ :’موئن جو دڑو کا کلچر اور ہمارا کلچر ایک ہی ہے اور ابھی تک ہمارا رشتہ موئن جودڑوسے قائم ودائم ہے۔‘ اس طرح کسی صاحب کو ٹیکسلا میوزیم میں پانی پینے کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آج کے پاکستانی دیہات میں بھی نظر آئے تو انھوں نے ٹیکسلا کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے اپنے آپ کو منسلک کرنے کے لیے اسے کافی وجہ جواز سمجھ لیا۔
آغا صاحب نے اور پھر قاسمی صاحب نے مشترک اشیا کی جو فہرست پیش کی ہے، اُسے تو ہم قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیل گاڑیوں، الغوزوں، پیالوں، گھڑوں، لوٹوں اور پھر بقول آغا صاحب: دونوں تہذیبوں میں بھینس کی مرکزی اہمیت کا اشتراک کوئی معنوی اور باطنی ربط بھی رکھتا ہے یانہیں؟ ثقافتی روایات کی ترسیل لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں کی سطح پر نہیں، فکری اور باطنی سطح پر ہوتی ہے۔ یہی ہے وہ سوال جسے آغا صاحب بھی زیر بحث نہیں لاتے اور نہ قاسمی صاحب اس پر توجہ دیتے ہیں۔
سیدھی سادی بات یہ ہے کہ بیل گاڑی ، گھڑے، پیالے، بھینس کایہ اشتراک اس وقت تک معتبر نہیں ہوگا، جب تک کہ ان کے بنانے اور استعمال کرنے والوں اور ہمارے درمیان فکری سطح پر کوئی باطنی اور معنوی ربط قائم نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ ربط موجود نہیں ہے تو یہ اشتراک محض ایک زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا، دوسرے زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا اشتراک ہے، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں، اور یہ اشتراک یورپ، مشرق بعید اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے کسی بھی دور میں پائے جانے والے زرعی معاشرے سے بھی ہو سکتا ہے،اس باب میں وادیِ سندھ کے قید بے معنی ہے۔ کیا امر واقعہ نہیں ہے کہ یہی گائے، بیل، گھڑے اور لوٹے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ آپ کو مشینی دور سے قبل کے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک کے زرعی معاشروں میں بھی مل سکتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ایک مخصوص دور کی سطح پر انسان کی روز مرہ کی مادی ضروریات اور ان متعلقات کا اشتراک ثقافتی اور تہذیبی اتحاد کے لیے اُس وقت تک وجہ جواز نہیں بن سکتا، جب تک کہ آپ کے افکار و معتقدات میں بھی کوئی گہرا تعلق نہ پایا جائے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھ لیجیے کہ ٹیکسلا میں، جس کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آپ کو اس قدیم تہذیب سے آپ کا رشتہ جوڑتے نظر آتے ہیں،وہیں پر ۳۰۰ برس قبل مسیح چانکیہ بھی پیدا ہوا تھا۔ جس نے سیاسیات پر ارتھ شاستر جیسی شہرۂ آفاق کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب میں اس دور کی نمایندہ سیاسی فکر کا اظہار ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنے ملک پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے والے اس عظیم سیاسی مفکر کی سیاسی فکر کو اپنی قومی سیاست کا رہبر و ہادی بنانے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں؟ یا پاکستان کی موجودہ جغرافیائی حدود سے باہر پیدا ہونے والے شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء]کی سیاسی فکر ہی آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث ہوگی؟
دوسرے لفظوں میں پاکستانی عوام نے ’قرار دادمقاصد‘ میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ سیاسی کلچر کی روح کو اپنایا ہے، یا چانکیہ کی ارتھ شاستر کو ؟اسی طرح آپ کہتے ہیں کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب مادی تہذیب تھی اور ا س میں ’دھرتی‘ کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ آپ اس تہذیب سے الغوزہ، بیل گاڑی اور بھینس برآمد کرکے، اس کا رشتہ موجودہ پاکستانی تہذیب سے ملاتے ہیں۔ تاہم، یہیں بالکل جائز سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وادیِ سندھ کے لوگوں کے افکار ومعتقدات کو آپ سامنے کیوں نہیں لاتے؟ ابھی تک ان کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے، اُس کے مطابق یہ لوگ مشرک تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور مرد اور عورت کے مخصوص اعضا کی پرستش کرتے تھے۔ کیا بیل گاڑیوں، اور الغوزوں اور بھینسوں کے علاوہ آپ اس سطح پر بھی ان سے اپنے آپ کو مربوط و متعلق سمجھتے ہیں؟
دیکھیے جناب! ادھورا دعویٰ نہ عدالت میں معتبر ہوتا ہے اور نہ فکر میں۔ ٹیکسلا، موئن جودڑو اور ہڑپہ سے اخذو اکتساب کا دعویٰ محض لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں تک محدود نہ رکھیے، بلکہ اس دعویٰ میں چانکیہ کی ارتھ شاستر ، اورمخصوص اعضاکی پرستش کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ کیا اس کے لیے آپ تیار ہیں؟
اس مسئلے پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ آغاصاحب نے اپنے کسی مضمون میں کلچر کو ایک پیڑ سے تشبیہ دی تھی… گویا کلچر نامیاتی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، الم غلم عناصر کا مرکب نہیں ہوتا اور ایک نامیاتی اکائی کی حیثیت سے اس کی ہیئت تجزیاتی ہے، نہ کہ ترکیبی۔ جس طرح ایک پیڑ کے مختلف حصے یعنی جڑیں، تنا، شاخیں، پتے وغیرہ، وغیرہ ایک نامیاتی کُل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک حصہ بھی دوسرے حصوں سے الگ نہیںکیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کلچر بھی ایک نامیاتی کل ہے، جس کے کسی ایک جزو کو باقی اجزا سے الگ کرکے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اسے کسی دوسرے کلچر سے ملایا جا سکتا ہے۔ تجزیاتی نفسیات کے بانی کارل یونگ [م:۱۹۶۱ء] کے ’اجتماعی لاشعور‘ میںلاکھ لچک سہی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ مادی ضروریات سے متعلق چند روزمرہ کے استعمال کی اشیا کو طوطم کی [یعنی تصورات] کی شکل دے کر انھیں چھے ہزار سال کی زندگی بخش دیں، لیکن جوں ہی قدیم تہذیب کی بنیاد اور اس کے فکری معتقدات کا ذکر آئے تو اس سے صاف پہلو بچاکر نکل جائیں۔ کلچر اگر ایک پیڑ اور نامیاتی کل ہے تو آپ کو اسے جڑوں، تنے، شاخوں اور پتوں سمیت قبول کرنا ہوگا، صرف جڑوں، یا تنے یا شاخوں یا پتوں کو نہیں!
آغاصاحب کے اقتباس کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے۔ موصوف نے اس میں وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور جدید پاکستانی معاشرے میں جو مشترک اشیا گنوائی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے محض تاریخی نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے، اس لیے یہ ہم سے کچھ کہتی نہیں، اس کے پاس ہمارے لیے کوئی حیات افروز پیغام نہیں ہے۔ برعکس اس کے، ترکی یا ایران کی سرزمین میں کھدائی سے برآمد ہونے والا وہ پیالہ کہ جس پر قرآن پاک کی کوئی آیت کندہ ہے، ہمارے زندہ شعور کا جزو ہے اور اس ٹکڑے پرہمارے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ ایک ایسا پیغام جو مختلف ادوار یا مختلف جغرافیائی معاشروں کو باہم مربوط کرتا ہے۔ شمیم احمد نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:’جو چیز مجھے خواب میں دکھائی نہیں دیتی، وہ نہ تو میرے زندہ شعور کا جزو ہے اور نہ اجتماعی لاشعور کا حصہ، کیا آغا صاحب نے کبھی وادیِ سندھ کے لوٹوں، پیالوں یا الغوزوں کو خواب میں دیکھا ہے؟
زمین سے آغا صاحب کی محبت تو میری سمجھ میں ایک اور وجہ سے بھی آتی ہے۔ موصوف زمین دار ہیں، اور زمین دار کو اپنی زمین اور زمین کی کاشت سے متعلقہ اشیا سے جس قدر محبت ہوتی ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ لیکن یہ خالص جاگیر دارانہ طرزاحساس ہے اور جاگیر دارانہ طرز احساس کے تحت، ایک مٹتے ہوئے جاگیردارانہ معاشرے کے ذوق کو نئے دور کے تقاضوں سے کارل یونگ کے ’اجتماعی لاشعور‘ اور انتھراپالوجی (علم الانسان)کے نام پر مطابقت دینے کی کوشش بہرحال قابل تعریف نہیں ہے۔پرانے دور کے جاگیرداروں میں ایک بات تو قابل تعریف ضرور تھی اور وہ یہ، کہ وہ صرف اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ بٹیر لڑا لیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس جدید دور کا بڑا زمین دار، زمین کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ اپنے ذاتی ذوق کو عقلی استدلال عطا کرنے کے لیے ادب اور تنقید سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔
اردو شاعری کا مزاج آغا صاحب کے نزدیک ’مادری‘ ہے، اور اس میں یہاں کی زمین کی بوباس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری اردو شاعری میں صرف ایک صنف ایسی ہے، جس پر سے یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھارت کی دھرتی کی بوباس ملتی ہے اور اس میں جو فضا پیش کی جاتی ہے وہ خالصتاً مقامی ہے۔ یہ صنف ہے گیت، یعنی یہ گیت ہی وہ واحد صنف ہے جو عربی اور ایرانی شاعری کی روایت سے الگ اور ہندی اور سنسکرت شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے اور جس میں ہندو دیومالا سے اکتساب کیا گیا ہے۔ لیکن جو بات آغا صاحب بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی معراج اس کے گیتوں میں نہیں، جو ہندو دیومالا کا اکتساب کرتے ہیں، بلکہ اس کی معراج اس کی غزلیں ہیں جو عربی اور ایرانی روایت کی آئینہ دار ہیں۔ اس سے تو آغاصاحب بھی انکار نہیںکر سکتے کہ اردو شاعری کے بلندپایہ شعرا میں میر، سودا، درد، مصحفی، جرأت، انشا، ذوق، مومن، غالب، داغ، حسرت، غزل کے شاعر ہیں، اور دکنی دور کے گیتوں سے لے کر جدید ترین دور کے گیتوں تک، کوئی شاعر محض گیتوںکے بل پر عظیم نہیں بن سکا۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بڑے شاعروں نے اس صنف کو قبول کیا اور غزل کو سینے سے لگایا، جو گنگا و جمنا کے بجائے دجلہ و فرات، او ربھینس کے بجاے بلبلوں کا ذکر کرتی تھی۔ اور یہ اس لیے کہ ان کے خوابوں میں گنگا و جمنا اور بھینسیں نہیں، بلکہ دجلہ و فرات اور بلبل ہی نظر آتے تھے۔
پاکستانی تہذیب میں ’دراوڑیت‘[یعنی ۳۰۰۰سال قبل مسیح آریا لوگوں کی آمد سے بھی پہلے یہاں ہندستان میں آباد دراوڑ نسل] کا پیوند لگانے والوں کے لیے سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا جواب دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، کہ ہندی مسلمان [جو یقینا اِن نظریہ سازوں کے آبا و اجداد تھے]برصغیر میں اپنے آٹھ نو سو سالہ قیام کے باوجود، ذہنی طور پر عرب و عجم ہی سے تحریک کیوں حاصل کرتے رہے؟ آغا صاحب تو خیر اسلامی تہذیبی روایت کے بنیادی مظاہر کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اوراردو شاعری میں ثنویت، تثلیث، اربعیت سب کچھ انھیں نظر آتا ہے اور نہیں نظر آتی تو ایک بے چاری توحید ہی نظر نہیں آتی، لیکن ایک ذہین، بنگالی ہندو، نراد چندرو چودھری [۱۸۹۷ء-۱۹۹۹ء] نے ۱۹۶۵ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Continent of Circe میںلکھا ہے کہ: ہر دورمیں ہندی مسلمانوں کی نگاہیں اسلامی مشرق وسطیٰ پر ہی مرکوز رہیں اور انھوں نے کبھی بھی نظر بھر کر اپنی زمین کو نہ دیکھا۔ نراد نے لکھا ہے:
مجھے آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جب میں نے اپنے ضلع (میمن سنگھ) کے ایک مسلمان سے (جو ہندو سے مسلمان ہوا تھا) پوچھا کہ تمھاری نظر میں سب سے اچھا اور پسندیدہ پھل کون سا ہے تو اُس نے بے اختیار جواب دیا: ’’عراق کی کھجوریں‘‘… یقینا میرے لیے (ہندی) آموں کی یہ سوچی سمجھی توہین ناقابلِ برداشت تھی‘‘۔
اصل چیز یہ ہے کہ برصغیر کے مقامی لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو انھوں نے اس کے ساتھ ہی اپنے مشرکانہ ماضی سے قطع تعلق کرلیا اور اپنے آپ کو اس روایت سے منسلک کر لیا جو توحید کی روایت تھی اور جس کا سرچشمہ عرب سرزمین تھی۔
دن میں ایک بار غسل اورپانچ بار وضو کرنے والی اس قوم کی تہذیب کو جسے ’طہارت نصف ایمان‘ کا درس دیا گیا ہے، ’’جوہڑ میںبڑے شوق و ذوق کے ساتھ کیچڑ میں لت پت بیٹھی رہنے والی بھینس سے‘‘ تہذیبی تعلق وابستہ کرنے والے آغا صاحب سے ایک اور سوال بھی کرنے کو جی چاہتا ہے، اور وہ یہ کہ :’کیا ادب، فن اور زندگی کے دوسرے عوامل سے قطع نظر کوئی عمل ہے؟ دھرتی کی جو بوباس آپ کو اردو شاعری کے مزاج میںرچی بسی نظر آتی ہے، وہ ہندی مسلمانوں کی سیاست، ان کی معیشت، ان کی معاشرت اور سب سے بڑھ کر ان کے مذہب میں بھی نظر آنی چاہیے۔ نہ زندگی کو ٹکڑوں اور خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں مختلف نظریات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
ادب اور کلچر میں دھرتی کی حرمت کے قائل خواتین و حضرات کو آگے بڑھ کر یہ بھی بتانا ہوگا کہ سیاست میں اُن کا نظریہ کیا ہے؟ یہ سوال اٹھانے کا مطلب بہت صاف اور سیدھا یہ ہے کہ ادب اور ثقافت میں دھرتی کی حرمت کے قائل افراد سیاست میں قرار داد پاکستان کے نہیں، اکھنڈ بھارت ہی کے قائل ہو سکتے ہیں۔ ادب میں دھرتی پوجا اصولی طور سیاست میں بھی دھرتی پوجا ہی رہے گی، ’قرار دادِ مقاصد‘ نہیں بن جائے گی!
آپ نے دیکھا کہ زمانہ قبل تاریخ کے آثار کی محبت میں جو سفر پاکستانی تہذیب دریافت کرنے کے لیے اختیار کیا جا رہا تھا، اس کی منزل ’’اکھنڈ بھارت‘‘ نکلی۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ وطنی قومیت کا یہ رجحان خطر ناک ہے۔ خطرے کا ایک پہلو تو آپ نے دیکھ لیا۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ لوگ نکلتے تو پاکستانی کلچر کی تلاش میں ہیں، لیکن اپنی محدود فکر کی بنا پر آخر جس چیز کو پاتے ہیں، وہ صرف مغربی پاکستان یا اس سے بھی محدود تر پنجاب کا کلچر ہے۔ بات پورے ہندستان سے شروع ہوتی ہے اور ختم کہاںہوتی ہے؟ ذرا دیکھیے:’’حقیقت یہ ہے کہ ہماری زبان اور ہمارے ادب کا خمیر اسی دھرتی سے اٹھا ہے، جسے پہلے ہندستان اور اب برصغیر پاک و ہند کہتے ہیں۔ اس صداقت کا ایک نہایت واضح ثبوت یہ ہے کہ اردو زبان جتنی بھی پنجابی سے قریب ہے اور کسی سے نہیں‘‘۔
اب اس دعوے کا ثبوت بھی ملاحظہ ہو: ’’اگر کسی پنجابی کے سامنے اردو میںبات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ لیتا ہے، چاہے بول نہ سکے، مگر کوئی عرب یا ایرانی اردو زبان جانے بغیر اردو کے کسی ایک فقرے کا مطلب بھی سمجھ نہیں سکتا۔ یہ روزہ مرہ کی ایک بدیہی حقیقت ہے، اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اردو زبان کو نہ فارسی کہا جا سکتا ہے، نہ عربی، نہ دونوں کا مرکب، بلکہ اس کا اپنا علیحدہ وجود ہے۔جو اس دھرتی کی پیداوار ہے‘‘۔
پاکستانی تہذیب کی بحث سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے دیکھنا اورپیش کرنا ان دانش وروں کی مجبوری ہے۔ پاکستانی تہذیب کی بنیاد ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا پر ہوگی تو لازماً مشرقی پاکستان کو ایک الگ ثقافتی یونٹ قرار دینا ہوگا۔ دراصل فکر کی جس پگڈنڈی پر یہ حضرات گرامی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اس کی آخری منزل یہی ہے۔ آغا صاحب اپنے رسالے ’اُردو زبان‘ کے اداریے میں رقم طراز ہیں:’’نہ صرف یہ کہ پاک وہند میںاسلام کا ورود یہاں کے باشندوںکی زندگی کو اور خاص کر اس زندگی کے ثقافتی پہلو کو کسی نئے سانچے میں نہیںڈھال سکا، بلکہ مسلمانوں او رانگریزوں کے عہد حکومت کے باوجود یہاں کے مختلف خطوں کی عوامی زندگی کے باہمی اختلافات بدستور قائم و دائم ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ہی ملک ہے، مگر دونوں خطوں کے باشندوں میں زبان و ادب اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔
اس پیراگراف کر پڑھ کر قائداعظمؒ یاد آگئے، جنھوں نے پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور سندھ کے ساتھ ساتھ محض ثقافتی اتحاد کی بنا پر بنگال کو بھی پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اور یہ دعویٰ اپنی دلیل کی قوت کی بناپر ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ اب پاکستان بننے کے بعد ایک صاحب قائداعظمؒ کے اس دعوے کو یوں غلط ٹھیرا رہے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تو ’’زبان اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔ حالانکہ کسی ملک کے مختلف خطوں کا وہی سیاسی اتحاد معتبر اور سیاسی اخلاقیات میں جائز سمجھا جاتا ہے، جو ثقافتی نوعیت کا اتحاد ہو اور محض نظامِ حکومت کا اشتراک ایک طاقت ور علاقے کا ایک چھوٹے اور کمزور علاقے پر قبضے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن حُسنِ ظن کا تقاضا یہ ہے کہ میں ان سے اتنی بدگمانی نہ کروں اور یہ سب کچھ ان کی تحریر سے نکالنے کی کوشش نہ کروں، مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ان کامقصد نہیں بلکہ خطر ناک دانش ورانہ مجبوری ہے۔
پاکستانی تہذیب کا رشتہ ہڑپہ، ٹیکسلا اور موئن جو داڑو سے جوڑنا، اسلام کو قومیانا اور اردو کا نام پاکستانی رکھنا، یہ سب کچھ اگر حب وطن پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہاہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حب وطن ایک تجریدی اور پیچیدہ احساس ہے جسے نظریاتی حوالوں کے بغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستانی قومیت یا تہذیب کی ہر بحث کامنتہائے مقصود پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد کے باہمی اتحاد کا حصول ہونا چاہیے، مگر آپ کہتے ہیں کہ ثقافتی اتحاد ہی اصل بنائے اتحاد ہے۔ یہیں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثقافتی اتحاد کا ماخذ کیا ہے؟ اگر آپ یہاں اسلام کا نام لیتے ہیں تو مسئلہ حل ہو جاتاہے کیونکہ اسلام ہمارے ثقافتی اتحاد کا ماخذ بھی ہے اور سیاسی اتحاد کی بنیاد بھی۔
پاکستان کے تمام علاقوں میںخواہ وہ شمال مغربی سرحد [خیبر پختون خواہ]ہو یا پنجاب، بلوچستان ہو یا سندھ یا مشرقی پاکستان ، مشترک امور اور اقدار وہی ہیں، جو اسلام نے دی ہیں۔ لیکن اگر آپ اس سوال کے جواب میں ٹیکسلا، موئن جو داڑو اور، ہڑپہ کا نام لیں گے، تو یہ آپ کے بنیادی مقصد کی شکست ہوگی۔ ٹیکسلا، موئن داڑو ار ہڑپہ کی ثقافتی اہمیت اگر تسلیم بھی کر لی جائے، تو یہ بھی علاقائی ثقافت میں شمار ہوں گے، قومی ثقافت میںنہیں ڈھل سکیں گے اورعلاقائی ثقافتوں پر یوں زور دینے کا مطلب قومی اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔
وطن سے محبت اور وطن کی زمین سے لگائو یقینا ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن ہمارے لیے اس محبت کا ماخذ پاکستان کی دھرتی نہیں پاکستان کانظریہ ہے۔ یہ مملکت اس لیے قیمتی ہے کہ یہ اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے، اس لیے نہیں کہ اس دھرتی سے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے حوالے سے ہمارا نسلی رشتہ اور ثقافتی ربط ہے۔ وطن کی محبت جب صحت مند حدود سے آگے بڑھتی ہے تو کیا گل کھلاتی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے دور جدید کی قوم پرستی کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنا ہی کافی ہے ۔ خود مسلمان ممالک کے مستحکم اتحاد کی راہ میں آج جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہ یہی وطنیت پرستی کا رجحان ہے۔
پاکستان میں آغا صاحب نے ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے اپنا رابطہ جوڑ لیا، مصر کے صدر ناصر نے ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ کا نعرہ بلندکرکے فرعونوں کے بتوں کو قومیت کی بنیاد بنا لیا، اہل شام نے بھی ایک اطلاع کے مطابق ایک زمانے میں ابوجہل اکیڈمی قائم کر دی تھی۔ ایران والے بھی شاہِ ایران رضاشاہ پہلوی کے زمانے میں قبل از اسلام کے زرتشی ماضی سے رشتہ جوڑنے لگے تھے۔ اب اتنی کسر رہ گئی ہے کہ سعودی عرب کے لوگ کھدائی کرکے لات، ہبل اور عزیٰ کے بت برآمد کریں اور انھیں خانہ کعبہ میں سجا لیں کہ صاحب ہمارا ماضی تو یہی ہے! رہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کہ’’آج جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے ہیں‘‘،آپ حسبِ منشا اس کو کوئی بھی تعبیر کرلیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ کیا اس رویے کو صحت مندانہ رویہ قرار دیاجا سکتا ہے؟
باطل پرستوں کا ایک خاص حربہ اچھے ناموں کا غلط استعمال ہے۔ بدی اپنے اصلی رُوپ اور اپنے حقیقی نام کے ساتھ سامنے آتے ہوئے ہچکچاتی اور گھبراتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر اور معصوم ناموں کا سہارا لے کر آتی ہے۔ اوّل روز سے اس کا طریقہ یہی رہا ہے اور آج بھی وہ اسی طریقے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ جھوٹ، دھوکا اور فریب، ڈپلومیسی کا رُوپ دھار کر آتے ہیں۔ فسق و فجور اور بے حیائی نے بھی ایک نیا نام تلاش کرلیا ہے اور وہ ہے ’ثقافت‘!
انسانی تاریخ میں ’ثقافت‘ یا کلچر کی اصطلاح اتنی لچر اور پوچ معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوئی، جن معنوں میں آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان الفاظ کو حقیقی معنی سے علاحدہ کرکے، ناچ رنگ اور فسق و فجور کے لیے استعمال کرنا، شیطان کی انھی کوششوں میں سے ایک ہے ، جن کے سہارے وہ انسان کودھوکا دیتا رہتا ہے۔
بے کاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسے انسان کو جنم دیتی ہے، جس میں نیکی اور پاک دامنی کے ساتھ شجاعت اور حق کے لیے جینے اور مرنے کا جذبہ ہو، جو اخوت و مساوات کا علَم بردار ہو اور اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادب پیدا کرتی ہے، جو ایک طرف تو جمالیاتی ذوق کی تسکین پوری کرے اور دوسری طرف انسان کو اس کے حقیقی مشن سے آگاہ کرے اور اس کے اچھے جذبات کو اُبھارے۔
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسی معاشرت قائم کرتی ہے جس میں انسان، انسان کا خون نہ چوسے۔ جہاں رنگ اور نسل کی جھوٹی تعریفیں نہ ہوں۔ جہاں دولت و غربت کے امتیازات نہ ہوں۔ جہاں زندگی کی نعمتیں ایک محدود طبقے کا اجارہ نہ بن کر رہ جائیں۔ جہاں ترقی کے راستے سب کے لیے کھلے ہوں۔وہ جنھیں وسائل حاصل ہیں، ان کی مدد کریں جو ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، تاکہ سب شانہ بشانہ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کریں۔
یہ ثقافت اپنی سرگرمیوں کا مرکز و محور مسجد کو بناتی ہے، جہاں دن میں پانچ مرتبہ مسلمان ملتے ہیں اور باہمی ربط استوار کرتے ہیں۔ یہ مسجد ہماری ثقافتی ترقی کا سرچشمہ رہی ہے۔ ہمارے فنِ تعمیر کی ساری ترقی اسی مرکز سے شروع ہوئی۔ آرٹ کی سرپرستی اس ثقافت نے بھی کی ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ انسان کے سفلی جذبات کو بھڑکائے، بلکہ اس طرح کہ اس نے مناظر فطرت کو پیش کیا ہے، حُسنِ فطرت کو نمایاں کیا ہے۔ یہاں تک کہ الفاظ سے حُسن پیدا کیا ہے۔ خطاطی، طغرانویسی اور کوزہ گری مسلمانوں کا ہی حصہ (contribution) ہیں۔ لحن و نغمہ کا ذوق یہاں بھی پایا جاتا ہے، لیکن بازاری گانوں اور تال طبلوں کی شکل میں نہیں۔ مسلمانوں نے اس کے لیے فن قراء ت کو ترقی دی اور خداے بزرگ و برتر کے کلام کو نغمہ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کھیل اور تفریح اس ثقافت نے بھی اختیار کیے، لیکن وہ نہیں جو لہوولعب اور وقت و قوت کے ضیاع سے عبارت ہیں، بلکہ وہ جو اپنی معنوی اصلیت بھی رکھتے ہیں اور جو انسان میں بہادری، شجاعت، بلندہمتی اور عالی حوصلگی پیدا کرتے ہیں۔ نیزہ بازی، تیراندازی، شہ سواری اور کشتی اس کی چند مثالیں ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ایسی مخصوص ثقافت کو زندگی کے ہرمیدان میں ترقی دی ہے۔ فطرت کے ہرتقاضے کو انھوں نے پورا کیا ہے، لیکن اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ اس میں ایسی ترقیاں کیں جو انسان کو حیرت میں ڈالتی ہیں۔ حق کی بندگی، اس کی ہدایت کی پاس داری، اس کے سامنے جواب دہی کے احساس اور انسانیت دوستی کو پروان چڑھایا۔ جب کہ فضول اور لایعنی چیزوں سے پرہیز اور تعمیری و تخلیقی جدوجہد ہماری ثقافت کی امتیازی خصوصیت ہیں۔
اگر انسان کی صلاحیتوں کو نفس اپنی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین پر لگادے،تو پھر اس سے تعمیری تخلیقات نہیں ہوتیں، بلکہ انسان کا تخلیقی ذہن اور جوہر انھی خطوط پر کام کرتا اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے نت نئے ذرائع سوچتا ہے۔ اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ نفسِ انسانی کو لگام دے کر ، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو تعمیری راستے پر ڈالتا ہے اور یہ شے، نہ صرف مسلمان قوم بلکہ پوری انسانیت کی ترقی و کمال کا باعث ہے۔
لیکن کیا یہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوجائیں گے؟ جب انگریز ہماری ثقافت کو ۲۰۰سال میں نہ تبدیل کرسکے، بلکہ ہمارے ان کرم فرمائوں جیسے چند جانشین ہی پیدا کرسکے،تو پھر آخر یہ شاگرد اپنے آقائوں سے زیادہ کیا معرکے سر کرلیں گے؟ پاکستان کے مسلمان ان کے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کریں گے اور ان شا ء اللہ کامیابی سے کریں گے۔ آنے والا وقت ہی یہ گواہی دے گا کہ کس کا نام باقی رہا۔ بغیر جڑ کے درخت لگانے کی ناکام کوشش کے نتیجے میں درخت نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔
ڈسکو اور راک این رول ہماری ثقافت نہیں، کیبرے ہماری ثقافت نہیں، مغرب کی نقالی ہماری ثقافت نہیں، فحش تصاویر ہماری ثقافت نہیں، برہنہ مجسّمہ سازی ہماری ثقافت نہیں۔ اسی طرح جنس زدہ ادب ہماری ثقافت نہیں۔ ہماری ثقافت اسفل جذبات کی بے محابا تسکین کا نام نہیں اور یہ ثقافت انسان کو حیوان نہیں بناتی۔ ہماری ثقافت ایک پاکیزہ، ستھری، نکھری، معتدل اور ہمارے نظریات سے ہم آہنگ ثقافت ہے، اور اسی کی ترقی میں ہماری فلاح اور کامیابی مضمرہے۔
اس مرحلے پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اس حکم نامے کا اقتباس پیش کرنا نسلِ نو کے لیے مفید ہوگا، جس میں انھوں نے ناظم تعلیمات کے نام لکھا:
سب سے پہلے تم میری اولاد کے دلوں میں ناچ گانوں اور راگ راگینوں کی نفرت پیدا کرنا، کیونکہ ان کی ابتدا شیطان کی طرف سے ہے اور ان کی انتہا خداے رحمن کی ناراضی ہے۔ اس سے دل میں نفاق اس طرح پرورش پاتا ہے، جس طرح بارش سے گھاس اُگتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت ۱۳روپے، سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور- فون: 042-35434909)
تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد اگر آج سے ۵۰سال قبل کے منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دعوت اور دعوت کے طریقوں میں کتاب کا مقام مرکزی نظر آتا ہے۔ بہت سے ایسے افراد جو تحریکی شخصیات اور دعوت سے مخالفت براے مخالفت یا سرکاری ملازمت کی بنا پر اپنے آپ کو فاصلے پر رکھنا پسند کرتے تھے، اگر محض حادثاتی طور پر انھیں تحریکی کتب میں سے کسی کتاب کے مطالعے کا موقع مل گیا، تو وہ دعوت اسلامی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان میں سے بعض محض ایسے ہی کسی حادثے کے نتیجے میں اس حد تک متاثر ہوئے کہ سرکاری ملازمت کو ترک کرکے تحریک کے ایک عام کارکن بننے پر آمادہ ہوگئے۔ کتاب اور تحریر کا یہ جادو محض ادبی اسلوب کی بناپر نہیں، بلکہ ایک بات کے حق ہونے اور حق کو بلاکسی تصنع، مداہنت یا شدت پسندی کے صرف سادہ الفاظ میں بیان کردینے کی بنا پر ہوا۔ بلاشبہہ اس میں تحریر کے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ ہونے کا بڑا دخل ہے لیکن کتاب اور تحریر کا یہ پہلو دعوتِ اسلامی کی اشاعت اور قبولیت کا ایک ناقابلِ تردید واقعہ ہے۔
اگر غور کیا جائے تو دعوتِ اسلامی کے الہامی طریق کار میں آسمانی صحیفوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ قرآن کی جانب دعوت اس عظیم ترین کتاب کا بغور مطالعہ کرنے، اس کے مفہوم کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات کو عملی شکل دینے کی دعوت تھی۔ اسی لیے باربار پکار کر کہا گیا: فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ o اِِنْ ھُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ o لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ o (التکویر ۸۱:۲۶-۲۸) ، یعنی تم کدھر بھٹکے چلے جارہے ہو؟ آئو اس کتاب کی طرف! یہ کتاب تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے، تم میں سے ہراس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ’’یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں، بلندرُتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں‘‘۔(عبس ۸۰:۱۲-۱۶)
الکتاب کی اہمیت کو جگہ جگہ بیان کرتے ہوئے تعلیم دی گئی کہ ’’اس کا مطالعہ ٹھیرٹھیر کر ہرہرلفظ پر غور کرتے ہوئے کیا جائے‘‘ (المزمل ۷۳:۴-۵) ۔اس کی تلاوت میں بھی تیزی اور جلدی نہ اختیار کی جائے کیونکہ اس کا اصل مقصد محض ثواب کا حصول نہیں بلکہ اس کتابِ ہدایت کو سمجھ کر اسے زندگی کے معاملات میں نافذ کرنا ہے۔ اسی بنا پر بار بار یہ یاد دہانی کرائی گئی کہ یہ کتاب چونکہ ہدایت ہے اس لیے اسے سادہ اور آسان بنادیا گیا ہے تاکہ ایک عام طالب ِ حق بھی اس سے رہنمائی حاصل کرسکے۔ ’’بلاشبہہ ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنا دیا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘ (الدخان ۴۴:۵۸)۔اس عظیم کتاب سے دُوری اور تعلق میں کمی نہ صرف دنیا کی زندگی میں انسان کو ہدایت سے دُور کرتی ہے بلکہ آخرت میں محرومی اور سخت جواب دہی سے دوچار کرتی ہے۔ ’’اور رسولؐ کہیں گے: اے پروردگار!میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کیا ہوا تھا‘‘۔(الفرقان۲۵:۳۰)
قرآنِ کریم سے قریبی تعلق اور اس پر مسلسل غور تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا مطالبہ ہے۔ پورے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریکِ اسلامی، ترجمۂ قرآن، یعنی قرآن کو اپنے معاملات میں نافذ کرنے کی دعوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک سے وابستگی اور فکر کو تازگی دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان تحریرات کا مطالعہ کیا جائے جو قرآن و سنت پر مبنی فکر کو پیش کرتی ہیں اور آج کے مسائل کے اسلامی حل کی طرف نشان دہی کرتی ہیں۔
یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ایک تحریکی کارکن نے اگر تحریک سے تعارف کے وقت چند کتابچوں کا مطالعہ کرلیا تھا اور تحریک میں شامل ہوگیا تھا، یا نصابِ رکنیت پر سرسری نظر ڈال کر رکن بن گیا تھا اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ذمہ دار بھی بن گیا، تو اس کا وہ سرسری مطالعہ اسے دین کا معتبر علم دینے کے لیے کافی ہے۔
تحریک کے متحرک رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہرکارکن متحرک فکر رکھتا ہو اور نہ صرف اساسی کتب بلکہ اسلامی مصادر سے بھی پوری واقفیت رکھتا ہو۔ تحریک جس بات کی دعوت دیتی ہے وہ محض سڑکوں پر اپنی قوت اور تعداد کا مظاہرہ نہیں ہے، بلکہ اسلام کی فکر کی برتری، تازگی اور عصری مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ ہرلمحے قرآن کریم کے علم میں اضافہ ہو۔ اگر اُس نے تفہیم القرآن کا اوّل تا آخر مطالعہ کرلیا ہے تو خود تفہیم القرآن کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوگا کہ عصری تفاسیر میں سے کم از کم تین چار تفاسیر کا مطالعہ کرے۔ اور پھر دیکھے کہ قرآنِ کریم کی جامع اور عملی تعلیمات کس طرح آج کے دور میں جاری و ساری کی جاسکتی ہیں۔
اسے نہ صرف قرآن کریم بلکہ سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اس زاویے سے کرنا ہوگا کہ آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ آج کے دور کے مسائل کے بارے میں کیا ہدایات دیتی ہے، اور اس کی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی زندگی میں اس مطالعے کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں۔
اسے فقہ کی کم از کم اتنی معلومات ہوں کہ وہ حلال و حرام میں فرق کرسکے اور بنیادی عبادات و معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرسکے۔ ایک داعی محض ایک جوشیلا مقرر نہیں ہوتا کہ دوسروں کو گفتار میں شکست دے سکے، بلکہ اس کا اصل کام شکست دینے کی جگہ دوسرے کو جیتنا، اپنے سے قریب لانا اور مخالف کے کیمپ سے وابستہ افراد کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنا ہے۔ دین کی حکمت نہ کبھی یہ تھی نہ آج ہوسکتی ہے کہ مخالفین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اپنے ہرتیز اور نوکیلے جملے سے انھیں مجروح کرکے لطف اُٹھایا جائے، بلکہ دین کا مطالبہ ہے کہ جو کل تک دشمنِ جان تھے انھیں اپنے قولِ لیّن اور حکمت و محبت سے وَلِیٌّ حَمِیْمٌ بنایا جائے۔داعی کی بات اور طرزِعمل وہ ہو جو پھول کی پتی سے ہیرے کے جگر کو دولخت کردینے والا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اسلوبِ دعوت، استقامت و صبر اور دعوت کی حکمت کو سمجھنے کے لیے کیا جائے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جو کارکن اور ذمہ داران تحریک سے ۱۰،۲۰ یا ۳۰سال سے وابستہ ہیں انھوں نے اس عرصے میں سیرتِ پاکؐ کے حوالے سے اپنی معلومات اور علم میں کتنا اضافہ کیا ہے اور سیرتِ سرورعالمؐ کے علاوہ کون سی کتاب گذشتہ دوبرسوں میں پڑھی، اور کیا واقعی سیرتِ سرورعالمؐ کو بھی اس طرح پڑھا ہے جیسا اس کا پڑھنے کا حق ہے؟
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسلامی لٹریچر کے علاوہ اپنے زمانے کے افکار، تصورات، تحریکات کا بھی دقت ِنظر سے مطالعہ کیا جائے، اور اسلام اور اسلامی تحریکات کو جو فکری اور تہذیبی چیلنج درپیش ہیں ان کو سمجھ کر ان کے مقابلے کی علمی اور عملی استعداد پیدا کی جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کارکن اور قیادت ان پہلوئوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھیں اور صرف ماضی کے سرمایۂ فکر پر قناعت نہ کریں۔
تحریکِ اسلامی کی ترقی اور کامیابی کا پہلا زینہ خود داعی کی فکری ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر مطالعہ نہیں کیا جائے گا تو ہمارا ذہن نئے زاویوں اور متبادل حل تلاش کرنے سے قاصر رہے گا اور ہم روایت کے شکنجے میں گرفتار ہوکر ایک ضابطے کی جماعت بن جائیں گے، جو دستور اور ضوابط کی تو پابند ہو لیکن دستور کی روح اور ضوابط کی حکمت سے مکمل طور پر ناآشنا ہو۔ اس کا نام جمود ہے، اس کا نام fossilization ہے ، اس کا نام قدامت پرستی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے روایت، اشرافیت اور تقویٰ کا نام دے کر اپنے آپ کو خوش کرلیں۔
کتاب کا کلچر جب تک زندہ رہے گا تحریک بھی زندہ اور متحرک رہے گی۔ ہر نئی آنے والی فکر ایک داعی کو قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے اور وہاں سے ہدایت حاصل کرنے پر راغب کرے گی، اور وہ اس نام نہاد عالم گیریت کے دور میں نوزائیدہ مسائل پر اجتہادی راے دے سکے گا۔ اگر اُس نے مطالعہ ترک کردیا تو وہ مقلد تو بن سکتا ہے قائد نہیں بن سکتا۔ تحریکِ اسلامی کی بنیادی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ ہرکارکن میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرسکے اور وہ ہرصورت حال سے تحریکی ذہن اور اسلام کے بتائے ہوئے اخلاقی ضابطے کی روشنی میں نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکے۔
تحریکات کی زندگی کا تعلق ان کی قیادت کی طرف سے مسلسل فکری غذا کا فراہم کرنا ہے۔ یہ فکری غذا نہ صرف سیاسی مسائل پر بلکہ خالصتاً علمی مسائل پر بھی یکساں طور پر ضروری ہے۔ اگر ہمارا عالمی سطح پر معاشی، معاشرتی، ابلاغی، بین الاقوامی معاملات پر مطالعہ سطحی ہوگا تو تحریک بھی دن بدن فکری محدودیت اور افلاس کا شکار ہوگی۔ اگر اس کے ساتھ صورتِ حال کچھ یوں بھی ہو کہ تحریکِ اسلامی کی قیادت نے اب سے ۵۰سال قبل جو تجزیہ اور مسائل کا حل تجویز کیا ہو، اس پر بھی تحقیقی نگاہ نہ ہو تو پھر تحریک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اس عمل کے جاری رکھنے کے لیے تحریکی قیادت کو خود اپنی مثال پیش کرنی ہوگی اور نئی فکر کی تخلیق کے ذریعے فکر کے نئے زاویوں کی طرف نشان دہی کرنی ہوگی۔ ۱۹۶۲ء میں مولانا مودودیؒ نے جس بناپر ایک تحریکی تحقیقی ادارے کی بنیاد کراچی میں رکھی تھی، اس کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے، مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک ایسی ٹیم کی تیاری تھی جو نہ صرف ان کی فکر کو بلکہ ان کی فکر سے آگے علم و عمل کے نئے اُفق تلاش کرے اور تحریک کی علمی ترقی میں تعمیری کردار ادا کرسکے۔
یہ مستقبل کے لیے ایک علمی اثاثہ تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔ یہ اس عزم کا اظہار تھا کہ تحریک کو ٹھوس علمی بنیاد پر قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ، سیرت پاکؐ اور مسلم علما و مفکرین کے کاموں سے براہِ راست روشناس کرانے کے بعد نئے تحریکی لٹریچر کی تصنیف اور فکری قیادت کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ محض مولانا کے اپنے رسائل کے ترجمے یا انھیں مختلف مجموعوں میں مرتب کردینے کا کام نہ تھا بلکہ بدلتے حالات میں جرأت، ذمہ داری اور نصوص پر مبنی علم کے ذریعے ملک اور بیرونِ ملک ہدایت کے طالب انسانوں تک دعوت پہنچانے کے لیے ایک پوری نسل کو تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔
آج تحریک جس دور سے گزر رہی ہے اس میں نہ صرف تازہ فکر کی بلکہ جو فکر سیدمودودیؒ نے پیش کی خود اس کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ کی بعض تحریرات ایسی ہیں کہ انھیں جتنی مرتبہ پڑھا جائے اتنی مرتبہ کوئی نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بطور ایک پالیسی کے تحریک سے وابستہ افراد میں مطالعے کی ثقافت کو حلقہ ہاے فکر کے ذریعے زندہ کیا جائے اور کھلے ذہن کے ساتھ نہ صرف تحریکی قائدین بلکہ دیگر اسلامی مصادر کے تحقیقی مطالعہ کو اختیار کیا جائے۔
دعوتِ اسلامی کا پہلا مرحلہ فکری انقلاب ہے۔ جب تک فکر تبدیل نہ ہو، معاشرتی تبدیلی، سیاسی انقلاب اور تبدیلیِ قیادت ایک زیبایش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں بن سکتی۔ دل و دماغ کا پورے اعتماد کے ساتھ یک سو ہونا دعوتی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ اگر کمزور ہوگا تو آسمان کی بلندیوں تک جو عمارت بنے گی وہ ٹیڑھی اور بودی بنیاد پر ہوگی۔ اس کی ظاہری عظمت اسے زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ وہ زمین کی معمولی حرکت سے بلندیوں سے گر کر نشیب کی شکل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
جس شجرطیبہ کی مثال قرآنِ کریم نے دی ہے اس کی بنیاد کتابِ عظیم پر ہے، اور کتابِ عظیم یہ حکم دیتی ہے کہ نہ صرف ایک عام کارکن اور ذمہ دار بلکہ خود ہادی اعظم ؐ اقرأ کے حکم پر عمل کریں۔ قرآن کریم اور تحریکی لٹریچر کا بغور اور باربار مطالعہ ہی تحریک کو نئی فکر کی تخلیق کی طرف اُبھار سکتا ہے۔ جب تک فکر میں ندرت اور تازگی نہ ہو، تحریک قومی اور عالمی اُفق پر مقامِ قیادت حاصل نہیں کرسکتی۔
دینی تعلیم کے نظام اور نصابِ تعلیم کی اصلاح پر ایک عرصہ سے گفتگو ہورہی ہے اور عملاً پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وابستگانِ مدارس او راہلِ علم مشاورت میں برابر دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۴ء کے ماہنامہ العصر میں جو محترم مفتی غلام الرحمن صاحب کی ادارت میں پشاور سے شائع ہوتا ہے مفید مضمون بطور اداریہ شائع ہوا ہے۔ اپنے قارئین کی نذر کر رہے ہیں اور اہلِ علم کو اس موضوع پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ (مدیر)
برعظیم پاک وہند میں بالخصوص اورعالم اسلام کے بیش تر خطوں میں بالعموم دینی مدارس کا تصور اورمعاشرے میں ان کی ہمہ جہت خدمات ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے ۔یہی مدارس عربیہ، اسلام کی حفاظت اورعملی زندگی میں اس کی بقا کے حوالے سے ایک کلیدی کردار اداکرتے آرہے ہیں۔ آج اگرمعاشرے میں شعائر اسلام باقی ،مساجد آباد وبارونق اوراسلامی تہذیب وثقافت زندہ ہے، تو اس کی پشت پر یقینا دینی مدارس کے بوریہ نشینوں کی قربانیاں عیاں ہیں،جنھوں نے فقروفاقہ کو سینے سے لگاکردین اسلام کی خدمت کو ہرموقع پر اپنی جان سے مقدم اورعزیز رکھاہے۔ جو نہایت بے سروسامانی کے عالم میں مدرسے کی چاردیواری اوروہاں کی شبانہ روز زندگی اپنے لیے قابلِ افتخار سرمایہ سمجھتے ہیں ۔
آج دینی مدارس کاوجودِ مسعود بغیر کسی تردد کے جملہ شعبوں کی آب یاری میں مصروفِ عمل ہے ۔دینی مدارس کی خدمات کاسلسلہ اتنا متنوع اورکثیر الجہت ہے تووہاں کانظم ونسق ،طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم کامعاملہ بھی نہایت حساس نوعیت کاہے ۔ جس کے کسی بھی زاویے کی درست تشخیص اورتراش خراش کااستحقاق صرف وہی لوگ رکھ سکتے ہیں جوبراہِ راست ایسے نظام سے وابستہ ہوں۔
عرصہ دراز سے موجودہ دینی مدارس کے نظام پر مختلف زاویوں سے تنقید کابازارگرم ہے۔ اس میں اگرایک طرف مغربی طاقتوں کی کارستانیاں ہیں، تودوسری طرف سرزمین پاکستان کے حکمرانوں کابھی وافرحصہ ہے ۔جب دشمنان اسلام کومذہب سے وابستہ افراد کی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کے مظاہر دنیاے عالم کی مختلف تحریکوں میں دیکھنے کوملے اوران کواس جذبۂ ایمانی کی پیداوارکا اصل سراغ لگانے میں دینی مدار س کاپلیٹ فارم دکھائی دیا تواپنے جملہ وسائل کے ذریعے مدارس پر انھوں نے طرح طرح کے پروپیگنڈوں کے ذریعے الزامات کی بوچھاڑ کی، تاکہ وہ ان کے کردار کو متنازع اورمشکوک بناکر اپنے ذاتی مفادات کوتحفظ دے سکیں۔بدقسمتی سے ان کواپنے ان مذموم مقاصد کوعملی جامہ پہنانے کے لیے ایسے حکمران بھی ملے، جنھوں نے دشمن کے بے بنیاد پروپیگنڈے پر اعتماد کیا اور بغیرکسی تحقیق کے ان پر دہشت گردی اورانتہا پسندی کے الزامات لگانے میں دیر نہیں کی۔ پھر یہاں کے نظم ونسق میں مداخلت کے لیے مختلف ذرائع تلاش کیے، جس میں سرفہرست مالی تعاون ، نصاب ونظام میں تبدیلیوں کی صدائیںاورماڈل دینی مدارس جیسے منصوبے شامل رہے ۔ تاحال تو ان قوتوں کو مدارس کے آزادانہ ماحول میں کسی قسم کی مؤثر مداخلت کے مواقع نہیں ملے، مگرمیڈیا جیسے ذرائع سے ان پررکیک حملوں کاسلسلہ تاہنوز جاری ہے۔میرے خیال میں خودمغربی طاقتوں اوران کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ضمیر فروشوں کواس شخصیت کے پیغام سے سبق لیناچاہیے، جوخود یورپ کے تعلیمی اداروں میں پلنے بڑھنے کے بعد مشرق ومغرب میں ایک قانون دان اورایک عظیم مفکرکی حیثیت سے یکساں طورپرمقبول ہیں۔
مفکراسلام علامہ محمد اقبال ؒدینی مدارس کی افادیت،اہمیت اوران کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان مکتبوں (مدرسوں)کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انھی مکتبوں میں پڑھنے دو۔ اگریہ مُلّااوردرویش نہ رہے توجانتے ہوکیاہوگا؟جوکچھ ہوگا،میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔ اگرہندستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین )میں مسلمانوں کو ۸۰۰برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈراورالحمرااورباب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرووں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، یہاں بھی تاج محل اوردلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔گویاکہ حضرت علامہ کی نظر میں مدارس دینیہ کی مخالفت قہر خداوندی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔
ہمیں اس بے بنیاد پروپیگنڈے سے ہٹ کر دینی مدارس کے رواں سفر میں حالات اور وقتی تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم اورنظام تعلیم میں مزید ترمیم واضافے کاعمل برابر جاری رکھنا چاہیے ۔جب ہم اسلام کی آفاقیت اوردنیاکے کونے کونے میں اس کی تنفیذ کی بات کرتے ہیں، جو محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے، توپھر کیا ہم نے ذرہ بھر یہ بھی سوچاہے کہ اس عالم گیر مہم کے تقاضے، ضروریات اورطریقۂ کار کیا ہوگا اوریہ کہ ہم کس نہج پر اس کی تیاری کررہے ہیں؟ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم کاتقرر وقت اورحالات کے تقاضوں کے مطابق کیاجاتاہے اورمعاشرتی اقدارکی اس میں برابر کی ترجمانی اورعکاسی ہوتی ہے، اورایسے میں ہرمضمون کے بنیادی اہداف اوراس کی روشنی میںاس کے تدریجی ارتقا کاعمل بھی جاری رہتاہے۔
ہمارے مدارس دینیہ کاموجودہ نصاب مُلّا نظام الدین سہالویؒ نے اس زمانے میں مرتب کیاتھا،جب ان کو مغلیہ علم دوست حکمران اورنگ زیب عالم گیر نے فرنگی محل نامی مکتب میں بطوراستاذ تعینات کیا۔ اس زمانے میں مملکت کی جملہ عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی اورانفرادی اوراجتماعی زندگیوں میں اس کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے تواسلامی عدالتوں کو مفتیانِ کرام، قضاۃ اور فقہ اسلامی کوخاص قانونی نقطۂ نظر سے مرتب کرنے کے لیے جن رجالِ کارکی ضرورت ہوتی وہ مذکورہ نصاب سے پوری کی جاتی تھی ۔نصاب تعلیم کی یہ شکل خود مغلیہ دور کے سقوط اور ۱۸۵۷ء کے آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر تک جاری رہی ۔پھر جب ۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت بھی یہی نصاب وہاں کے حالات اورتقاضوں کے مطابق ترمیم واضافے کے ساتھ مروج رہا ۔چنانچہ دارالعلوم دیوبندکے نصاب میں علم ہندسہ،اورخاص کرعلم طب پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ آج بھی دارالعلوم کے بیش تر فیض یافتہ حضرات کے مطب اورعلم حکمت سے براہِ راست وابستگی کے کئی مظاہر دیکھنے کوملتے ہیں ۔ معلوم ہوتاہے کہ نصاب تعلیم اورنظام تعلیم کامدتوں تک ایک ہی سانچے میں رہنا فطرت کے تقاضوں کے مطابق ایک مشکل امرہے۔جوں جوں معاشرے میں تغیر وتبدل اور ارتقا کاسفر جاری رہے گا،توایسے میں تعلیم گاہوں اورخاص کردینی مدارس کے نصاب تعلیم کا ایک ہی نقطے پرمستمر رہنا شایداس کی اپنی افادیت کے دائرے کومحدود کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمارے ہاں مروجہ نصاب تعلیم پراگر غورکیاجائے توقدیم ذخیرے میں بیش ترایسے نظریات دیکھنے کو ملیں گے جوبذات خود ہماری شریعت کے نصوص سے واضح طورپرمتصادم ہیں۔جن میں بطور خاص علم الکلام کے قدیم مباحث میں فلسفہ اورمنطق کے مُغْلَقْ نظریات سرفہرست ہیں۔ مگر متقدمین علماے حق نے اس زمانے میں ان کو صرف وقت کے تقاضوں کے مطابق اس دور کی طاغوتی قوتوں کے آلۂ کاروں کو ان کے فہم وزعم کے مطابق اسلام کے بنیادی عقائد سمجھانے کے لیے بطور ہتھیاراستعمال کیاتھا۔ آج اسی فلسفہ اورمنطق کے مقام کومتبادل نئی چیزوں نے لے لی ہے اور ہمارے لیے مسلسل چیلنج کے طورپرسامنے ہیں۔ اوراس وقت مذہب کی تعلیم سے وابستہ افراد کوموجودہ زمانے کے لب ولہجہ کوسمجھنا وقت کاایک اہم تقاضاہے ۔کیونکہ دشمنانِ اسلام کو زہریلی اورشرپسند ذہنیت سے بچنے کے لیے پہلے ان کی فکر ،اندازِ تخاطب اورخاص کران کی زبان سے واقفیت حاصل کرناہماری مذہبی اورمعاشرتی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے اس جملے سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ جس میں آپ نے اُ س موقع پرارشاد فرمایا،جب ایک شخص کے بارے میں آپ سے کہا گیا کہ ان کوامیر اس لیے بنایاجائے کہ وہ اتنامتقی ہے کہ گویا کانہ لم یعرف الشر،کہ شرنامی چیز کوجانتا نہیں۔آپ نے فرمایا: اذاًیوشک ان یقع فیہ، پھر توقریب ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہوجائے۔
آج اگر معاشرے کے مختلف حلقوں کی جانب سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی صدائیں بلند کی جاری ہیں تواس سے قطعاًیہ مراد نہیں کہ یہ مدارس، معاشرے کوڈاکٹر، انجینیراور سائنس دان فراہم کریں۔ کیونکہ یہ توبالکل ایساہی ہے کہ جیسے آپ میڈکل کالج والوں سے بیک وقت ایک ہی شخص کے بارے میں ڈاکٹر ،انجینیراورسائنس دان کامطالبہ کریں ۔درحقیقت وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ دینی مدارس کے طلبہ معاشرے کی یہ ذمہ داریاں بھی سنبھالیں، بلکہ جب معاشرے کے بیش تر شعبوں میں دینی مدارس کے فضلا کی منصبی ذمہ داریوں کے مواقع آتے ہیں توایسے میں خود ان کے اورمروجہ روش کے درمیان ابلاغ اور وضاحت کی رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان کومعاشرے کااسلوب بھی جاننا چاہیے ۔بہت ممکن ہے کہ نصاب میں یکایک تبدیلی شاید ہمارے دینی ماحول میں بہت جلد واقع نہ ہو،مگررفتہ رفتہ اس میں ترمیم جوکہ یقینا کچھ عرصے سے جاری ہے، مزید اس کی ضرورت ہے،اوریہ عمل اہلِ علم کی وسیع ترمشاورتوں اور تجربات سے ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے گا۔
عصر حاضر کے جدید اسلوب کے حوالے سے ہم دینی مدارس میں اپنے مروجہ نصاب کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات ضرور اٹھائیں، کہ جس سے ہمارادینی طبقہ معاشرے کے ساتھ براہِ راست آمناسامنا کرنے میں کسی قسم کی دقت محسوس نہ کرے ۔
بطورمثال، قرآن وحدیث جوہماری زندگی کے جملہ شعبوں کے لیے اساس اوردستورکامل کی حیثیت رکھتے ہیں، مگرتدریس قرآن کے قدیم اسالیب کے ساتھ ساتھ عصرحاضر کے نئے فتنوں کامطالعہ اورقرآن مجیدسے ان کے استشہادات کوبہ نظرِ غائر مطالعے میں رکھنا آج کی ایک اہم ضرورت ہے ۔اسی طرح قرون اولیٰ کے تفسیری مناہج کے ساتھ ساتھ علوم القرآن ،تدریسِ قرآن مجید دورِ جدید کی ضروریات اورتقاضوں کے حوالے سے نئے اسالیب پر غوروفکرکرنے سے شاید ہم معاشرے کوکتاب اللہ سے وابستہ رکھنے میں مؤثرکرداراداکرسکیں۔
اسی طرح علم حدیث اگرایک طرف اپنے گہرے رموز اوراسرار کے حوالے سے ایک مہتم بالشان علم ہے تودوسری طرف اس کے تدریس کے تقاضے بھی نہایت اہم ہیں۔ ہمارے مروجہ نصاب میں تدریسِ حدیث فقط ائمہ فقہا کی آرا اوراستنباطات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض جگہوںمیںطریقۂ استدلال کے جواب میں رُواۃ کاتذکرہ اوران پرجرح وتعدیل کے مواقع بھی پیش آتے ہیں، مگر مجموعی صورت حال کے مطابق طلبہ کے ذہن میں احادیث مبارکہ کی تعلیم سے فقط استدلال واستشہاد اورکسی خاص مسلک کی تائید کے حوالے سے ایک محدود شناسائی رہتی ہے ۔اگراس کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیداکرکے طلبہ کواحادیث کی عمومی اوراصلاحی مفاہیم پرتوجہ دلائی جائے، توعین ممکن ہے کہ کل وہ معاشرے کے کسی بھی اجتماع کے سامنے احادیث مبارکہ کی روشنی میں رسول اکرمؐ کے اسوۂ مبارکہ کوایک اچھے قالب میں منطبق کرنے کی صلاحیت رکھیں گے۔
اس کے ساتھ احادیث کے زمرے میں علم الآثار کے حوالے سے صحابہ کرامؓ اورتابعینؒ کے قرآن وحدیث کی تفسیر کے دوران جوقیمتی آرا منقول ہیں، ان سے بھی ان کوروشناس کرایاجائے تو معاشرے کے بیش تراختلافی مسائل بیان کرنے میں اس کوایک مثبت راہ دکھانے میں ممد اور معاون ثابت ہوگا۔اس مرحلے میں قدیم دورکے فرق ضالہ کے ساتھ ساتھ موجودہ دورکے اہم فرقوں کے بارے میں عمومی تعارف کروایاجائے اورپھر اس کی روشنی میں مناسب گرفت کے راستے متعین کیے جائیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں عموماً نئے گروہ یانئی آواز بلندکرنے والوں پرسب وشتم توپہلے کیاجاتاہے اوران کے منظورنظر عقائد وافکارکا مطالعہ بعد میں کیاجاتاہے، جوکہ یقینا ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی ہے ۔
فقہ اوراصول فقہ کی تدریس کے دوران قدیم طرزِ تعبیر کے ساتھ آج دونوں میں جدید اسالیب سامنے آچکے ہیں۔طلبہ کواگرقدیم ذخیرہ پڑھاتے ہوئے اس معاصرانہ تطبیق سے روشناس کرایا جائے، توعین ممکن ہے کہ وہ تعلیمی سلسلے کے دوران معاشرے کے اُتارچڑھاؤ اورباہر دنیا کے حالات کودرست زاویے پرپرکھیں اوراس کے لیے مناسب زادِ راہ تیاکریں۔کوئی شک نہیں کہ ان دونوں علوم میں وسعت اوراضافے کابنیادی محرک معاشرے کے رواں سفر میں نت نئے حالات وواقعات کا تغیر بھی گہرااثر رکھتا ہے ۔ آج تمام بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹیوںمیںقرآن وحدیث، فقہ اوراصول فقہ اوردیگرعلوم کی تدریس کے حوالے سے تدوین نومختلف زاویوں پرعرصہ دراز سے جاری ہے۔ہم اپنے دینی مدارس کے ظروف اوراندرونی ماحول کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
مدارس کی چاردیواری سے نکل کر باہر کی دنیامیں عمومی دعوۃ وارشاد کے حوالے سے محنت کرناہمارے مدارس دینیہ کی اولین ترجیحات میں سے ہے مگر مغربی دنیاکے مسلم معاشرے میں مسلسل نئے روپ میں فساد وگمراہی کے جال پھیلانے کے باعث ہماری یہ ذمہ داری کچھ زیادہ نزاکتوں کاشکار ہے۔ہمارے پاس اس اہم فریضے کی ادایگی کے لیے مسجد کے منبر ومحراب کا وسیع پلیٹ فارم ہے، جوکہ نہ صرف مسلمانوں کاعبادت خانہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کرمسلم معاشرے کااسلام کے روزِاول سے جملہ شعبوں کی نگرانی کاتسلسل سے مرکز چلاآرہاہے ۔اس لیے ہمارے فضلاکواس منصب تک پہنچنے کے بعد صرف روایتی مذاق کو اپنانے کے بجاے مسجد کے ماحول سے وابستہ افراد کے ہرذہن کوپڑھنے کے بعد مثبت انداز میں مذہبی تعلیمات کودرست اورفی الواقع تطبیقات کی روشنی میں پیش کرناایک اہم ذمہ داری ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کابیش تر طبقہ شریعت اورمذہب سے آگاہی کا خواہاں ہے، مگر جب ان کو ہمارے عمومی اجتماعات اورخاص کر جمعہ کی نشست میں کوئی واضح اورٹھوس پیغام نہیں مل رہاہوتا، تویہ بے چارے جمعۃ المبارک کے اہم موقعے پربھی صرف وقتی فریضے کی ادایگی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔آج کے دورمیں معاشرے کے پاس مسجد کے امام وخطیب سے ہٹ کر بھی علم وتحقیق کے دیگر ذرائع موجود ہیں، جوغلط ہوں یاصحیح مگر طبعی طورسے ان کے گہرے اثرات نمایاں ہیں۔ ہمیں ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرکے معاشرے کودرست تطبیق کی نشان دہی کرکے بہترراہ پرگامزن کرناہے ۔
ایسے حالات میں دینی مدارس کے جملہ ارباب بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو ان نوخیز فضلاکے مستقبل کے حوالے سے ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اورمستقل بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے ۔اس وقت دینی مدارس کے بعض سربراہان جب معاشرے کے اس قسم کے حالات کامشاہد ہ کرتے ہیں، تواپنے فضلا کے بارے میں مؤثر طریقہ کارپرسوچنے کے لیے بے قرارہیںتو وفاق المدارس کواپنی جملہ سرگرمیاں ایک امتحانی سیکشن تک محدود کرنے کے بجاے تعلیمی ادارے جیسے فرائض سرانجام دینے چاہییں ۔عمومی مشاہدہ ہے کہ دینی مدارس کے ماحول میں متنوع خدادادصلاحیتوں کے حامل طلبہ آتے ہیںاورفراغت کے بعد اپنی ذاتی رجحان کی بنیاد پر آگے تعلیمی سلسلے کومختلف پہلوؤں پرجاری رکھناچاہتے ہیں، مگر معاشی تنگ دستی یاپھر مناسب عدم سرپرستی کے باعث وہ اس کام میں لیت ولعل کے شکارہو جاتے ہیں ۔
میرے خیال میں وفاق المدارس اگر فضلاکے ایسے گروہ پر خصوصی توجہ دے اوران کی ذہنی صلاحیتوںکے مطابق متعلقہ اداروں میں رہتے ہوئے ان کی جملہ سرپرستی کوقبول کرے، تومستقبل قریب میں ہمارے پاس معاشرے کے مختلف میدانوں میں رجالِ کارکی فراہمی میں ایک اچھی خاصی ٹیم تیارہوگی ۔اوراس کے علاوہ عمومی فضامیں مروجہ نصاب کے ساتھ ساتھ درج ذیل عنوانات پر عمومی ورکشاپ اورمختصردورانیے کے حامل کورسوں کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کوقومی ، ملکی اوربین الاقوامی حالات وواقعات اوراس کے اثرات سے بخوبی آگاہ رکھنے کااحساس دلاسکتے ہیں:
اس کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے عمومی مزاج میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے یکساں تسلسل ،افرادی قوت کے تحفظ اورفروعی مسائل میں زیادہ شدت اختیارکرنے کے بجاے امت کی وحدت کوہرحال میں مقدم رکھنے کی عملی جدوجہد کرنا ہمارے اہداف حاصل کرنے کاایک مؤثرانداز ہے۔ہم ان تمام تراقدامات کے ساتھ دینی مدارس کے عمومی مذاق،اس کی اخلاقی اور روحانی فضا کو برقراررکھتے ہوئے گردوپیش کے حالات وواقعات سے اپنے فضلا کوہمہ وقت ہرقسم کے حالات کے لیے بیدار مغز رکھ سکتے ہیں،اورسیرتِ نبویؐ کے حامل وارث کودنیاکے جس کونے،جس شعبے میں خدمت کے لیے بھیجیں وہ وہاں کے تقاضے اورحالات کاسامناکرتے ہوئے دوٹوک موقف کے ساتھ اسلام کی روشن تعلیمات کوواضح کرے۔ یوں ہم دشمن کے منفی پروپیگنڈے سے مثبت انداز میں نمٹ کردینی مدارس کے ماحول کوہرقسم کے خطرات اورحادثات سے بچاکر رکھ سکتے ہیں ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرقِ و مغرب میں تیرے دور کاآغاز ہے
وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o
_______________
برادر محترم عبدالقادر مُلّا شہید کے غم کو ابھی دو مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف کے دورانِ حراست رحلت کی خبر دل پر بجلی بن کر گری۔ اس طرح بنگلہ دیش، تحریک اسلامی اور اُمت مسلمہ اپنے ایک اور نام وَر خادم سے محروم ہوگئی : اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
مولانا اے کے ایم یوسف کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ میرے علم کی حد تک جماعت اسلامی کے وہ پہلے قائد ہیں جنھوں نے جیل میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ۔ یوں وہ ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے گناہی کا اعلان اور حق کی خاطر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کا پورے عزم اور اعتماد سے دفاع کرتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ الحمدللہ ۸۸سال کے اس جواں عزم رکھنے والے مجاہد نے کسی موقعے پر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائی اور اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا___ اور ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
مولانا ابوالکلام محمد یوسف ۲فروری ۱۹۲۶ء کو بنگلہ دیش کے ایک گائوں راجیہ (سارن کھالہ) ضلع باگرہاٹ میں پیدا ہوئے اور ۹فروری ۲۰۱۴ء کوشمیور سنٹرل جیل ڈھاکہ میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بنگلہ بندھو میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جاتے ہوئے ربِ حقیقی سے جاملے۔ بنگلہ دیش کی منتقم حکومت نے ان کو ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کو جنگی جرائم کے جھوٹے الزامات کے نام پر گرفتار کیا تھا۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد، پولیس انھیں قریب ترین ہسپتال میں لے جانے کے بجاے ایک دُور کے ہسپتال لے کر گئی اور وہاں پہنچتے پہنچتے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ؎
یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرفِ بہارا ں ہوتے ہیں
مولانا ابوالکلام محمد یوسف نے ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی پھر اسی سفر کو جاری رکھا تاآنکہ ۱۹۵۲ء میںدینی تعلیم کی اعلیٰ ترین سند ممتاز المحدثین حاصل کر کے ایک معلم اور داعی کی حیثیت سے عملی کردار کا آغاز کیا۔ مدرسہ عالیہ سے بھی دینی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر دینی مدارس میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں اور اعلیٰ تدریسی و انتظامی صلاحیتوں کے سبب ۱۹۵۸ء میں مدرسے کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے استفادہ کیا اور پھر تحریکِ اسلامی میں رچ بس گئے۔ مولانا عبدالرحیمؒ مشرقی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے پہلے رکن جماعت اسلامی تھے اور مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو دوسرا رکن ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ ۱۹۵۶ء میں کھلنا ضلع کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور ۱۹۷۱ء تک اس ذمہ داری کو بہ حُسن و خوبی ادا کیا۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کے سیکرٹری اور نائب امیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
پاکستان قومی زندگی میں مولانا ابوالکلام محمد یوسف کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ۱۹۶۲ء میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے سے ہوا۔ ۸جون ۱۹۶۲ء کو حلف لے کر غیرجماعتی ایوان میں کلمۂ حق بلند کرنے کا آغاز کیا۔ وہ ۱۹۶۹ء تک اسمبلی کے رکن رہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان ڈاکٹر محمد مالک کی صوبائی حکومت میں چند ہفتوں کے لیے وزیرمال بھی رہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد قیدوبند کی صعوبتوں کو جھیلا، جس سے دسمبر ۱۹۷۵ء میں نجات ملی۔ پھر زندگی کے آخری سال میں ایک بار حسینہ واجد کی آتشِ انتقام کا نشانہ بن کر پابند سلاسل ہوئے اور نام نہاد وارکرائمز ٹربیونل کی انتقامی کارروائی سے پہلے ہی حکم ربانی کے تحت باعزت اور نہ ختم ہونے والی رہائی حاصل کرلی ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
مولانا اے کے ایم یوسف مرحوم سے میری ملاقاتوں اور پھر قریبی تحریکی تعلق کاآغاز ۱۹۶۲ء ہی سے ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسمبلی میں جماعت اسلامی ہی نہیں، بلکہ تمام دینی اور تعمیری قوتوں کی آواز بن گئے۔ مشرقی پاکستان سے جماعت کی حمایت سے تین ارکان منتخب ہوئے تھے___ دو ارکان اور ایک متفق: یعنی مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور جناب عبدالخالق صاحب رکن جماعت تھے اور بیرسٹر اخترالدین صاحب متفق اور ہم نوا مگر پوری طرح جماعت کے نظم کے پابند اور اس کی فکر کے ترجمان۔ البتہ اسمبلی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف جماعت کے پارلیمانی لیڈر کا کردار ادا کرتے تھے۔ اخترالدین احمد انگریزی اور مولانا بنگالی میں اور کبھی کبھی بنگالی اور اُردو میں اظہارِ خیال فرماتے تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں ہمیشہ دلائل کے ساتھ قومی اُمور پر جماعت اسلامی کے موقف کو پورے اعتماد اور وقار سے پیش کرتے تھے۔ وہ طبعاً بڑے لطیف مزاج تھے، اور اپنے اس ذوق کو موقع بہ موقع بڑی خوب صورتی سے استعمال کرتے تھے اور سب اس سے لطف اُٹھاتے تھے۔ جہاں تک بنگلہ زبان کا تعلق ہے مولانا محمد یوسف اس کے شعلہ بیان مقرر تھے نیز اُردو میں بھی وہ بڑی روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کے پارلیمانی کردار کا آغاز مولانا محمد یوسف نے ۱۱جون ۱۹۶۲ء کو مولوی تمیزالدین صاحب کے اسپیکر منتخب ہونے پر مبارک باد میں کی جانے والی تقریر سے کیا اور پارلیمانی بحث پر تحریکی فکر کے نقوش مرتسم کردیے۔ اس پہلی تقریر میں قیامِ پاکستان کے اصل مقصد، یعنی اسلامی نظام کے قیام کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔ فوجی ڈکٹیٹر محمد ایوب خان کے جس دستور کے تحت یہ اسمبلی بنی تھی، اس پر تنقید کی، اسے ایک غیراسلامی دستور قرار دیا اور بڑے لطیف انداز میں کہا کہ بس اس دستور کا ایک خوش آیند پہلو یہ ہے کہ اس میں ترمیم ہوسکتی ہے اور ان شاء اللہ وہ ہم جلد کریں گے اور اسے اسلام کے مطابق ڈھال کر دم لیں گے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب عبدالخالق نے بھی کیا۔ انھوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اصل رشتہ اسلام کا ہے اور صرف اسلام کے مطابق انصاف ہی کی بنیاد پر یہ ملک ترقی کرسکتا ہے، نیز یہ کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کی بحالی اور ان کا بھرپور کردار ضروری ہے۔
صدرفیلڈمارشل ایوب خان نے اپنی قوت کے نشے میں ۱۹۶۲ء کے دستور سے قراردادِ مقاصد خارج کردی تھی۔ مملکت کا نام جو ۱۹۵۶ء سے دستور میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تھا بدل کر صرف ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا تھا اور قانون سازی کے سلسلے میں قرآن وسنت کی جگہ صرف ’اسلام‘ کا ذکر کیا تھا اور عدالتوں کے ذریعے اس شق کے نفاذ کو (justiciable ) دستور میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی اور ہم آواز اسلامی قوتوں کی مساعی کے نتیجے میں پہلے ہی مہینے سیاسی جماعتوں کا قانون بڑی رد و کد کے بعد وضع کیا گیا۔ جولائی ۱۹۶۲ء میں سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں اور اس بحث کے دوران اسلام کو ملک کی آئیڈیالوجی کے طور پر بھی ایوبی آمریت کے کارندوں کی ساری رکاوٹوں کے باوجود منظور کرایا گیا۔ اس کا موقع اس طرح پیدا کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری قرار دیاگیا تھا کہ ’’وہ پاکستان کی سالمیت کو مجروح کرنے والی کسی سرگرمی میں ملوث‘‘ نہیں ہوں گی،جب کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور دوسرے اسلام پسند ارکان کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ ’نظریۂ پاکستان کی مخالفت‘ کو بھی شامل کیا گیا اور پھر واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان کی یہ وضاحت بھی شامل کی گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔
قومی اسمبلی میں کی جانے والی بحث کا یہ حصہ بڑا چشم کشا ہے۔ اس وقت کے وزیرقانون جناب سابق جسٹس محمد منیر تھے، جو پنجاب کے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے سلسلے میں تیار کی جانے والی رپورٹ کے مصنف تھے اور پاکستان کی اسلامی اساس کے منکر تھے۔ انھی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا یہ بل متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ سب کمیٹی نے، جس میں بیرسٹر اخترالدین احمدصاحب تھے، متفقہ طور پر ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کا لفظ اضافہ کیا۔ اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے اس وضاحت کا مزید اضافہ کیا گیا کہ پاکستان آئیڈیالوجی کے معنی اسلام ہیں۔ سیکولر طبقے سے یہ اضافہ ہضم نہیںہو رہا تھا اور طرح طرح کے حیلے بہانے کیے گئے لیکن بالآخر اس ترمیم کو منظور کرنا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں، نہ کہ ۱۹۶۹ء میں جنرل شیرعلی یا ۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلامی آئیڈیالوجی بحیثیت پاکستان آئیڈیالوجی ان ہی الفاظ میں قانون کا حصہ بنی، اور پھر اسمبلی اور تمام اہم مناصب پر مامور افراد کے حلف کا حصہ بنی۔
اس کامیابی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف کا دوسرے اہم ارکان کے ساتھ بڑا نمایاں حصہ تھا۔ بالآخر سابق جسٹس منیر کو بھی شرمسار ہوکر اس ترمیم کو ایوان کی مرضی کے طور پر تسلیم کرنا پڑا اور ان کے مندرجہ ذیل الفاظ کارروائی ہی کا نہیں تاریخ کا حصہ بن گئے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس واقعے کے سات سال بعد شائع ہونے والی کتاب From Jinnah to Zia جس کے مصنف بھی یہی سابق جسٹس محمد منیرہیں، وہ اس میں ایک بار پھر وہی راگ الاپتے نظر آئے کہ: ’پاکستان، نیز اسلامی آئیڈیالوجی کے ’مسلط‘ کرنے کا کام جنرل ضیاء الحق نے انجام دیا جو محمدعلی جناح کے تصور کے برعکس تھا‘۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سابق جسٹس منیر کے یہ الفاظ ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا:
تحریک پیش کی جاتی ہے کہ ’’بل کی دفعہ ۲کے پیرا (c) کے بعد درج ذیل پیرا شامل کیا جائے:
(d) آئیڈیالوجی آف پاکستان کا مطلب ہے اسلام
مسٹر محمد منیر: جناب عالی! اصل بل میں لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل نہیں تھا اور جب مَیں یہ بل ڈرافٹ کر رہا تھا تو میں نے اس سوال پر غور کیا کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل ہو یا نہ ہو؟ مَیں نے آخری فیصلہ یہ کیا کہ اس لفظ کو شامل نہ کیا جائے کیوں کہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ لیکن سلیکٹ کمیٹی نے اس لفظ کو شامل کیا ہے اور اب یہ ایک ترمیم ہے کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اس طرح کی جائے کہ اس کا مطلب اسلام ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اس لفظ سے مکمل طور پر بے تعلق ہوں کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ یہاں ہو یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کو حذف کردیا جائے، یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اسلام کے لفظ سے کی جائے۔ مَیں یہ ایوان پر چھوڑتا ہوں۔(قومی اسمبلی پاکستان کی کارروائی، ۱۱ جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۱۳۳۴)
مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے دستور میں پہلی ترمیم کے سلسلے میں بھی بڑا مثبت بلکہ جارحانہ کردار ادا کیا اور بالآخر اسمبلی کو پاکستان کا اصل نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ بحال کرنا پڑا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ دستور اپنی اصل شکل میں دستور کا دیباچہ بنائی گئی۔ قانون سازی کے باب میں ’اسلام‘ کی جگہ اصل الفاظ ’قرآن وسنت‘ بحال کیے گئے اور ان سے متصادم قانون سازی پر پابندی لگائی گئی۔ نیز ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی ان شقوں کو بحال کیا گیا جو ۱۹۵۶ء کے دستور میں تھیں، مگر ۱۹۶۲ء کے دستور میں ان کو عملاً غیرمؤثر کردیا گیا تھا۔ دستور میں اس بنیادی ترمیم میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا، لیکن جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، مفتی محمود صاحب اور مسلم لیگ کے کچھ ارکان کی مشترکہ کوششوں سے ۲جولائی ۱۹۶۲ء ہی کو ایک قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی اور ۳جولائی کو اسے متفقہ طور پر منظور کرایا گیا کہ: ’’ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کیا جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار جن لوگوں نے ادا کیا، ان میں محمد ایوب، میاں عبدالباری اور مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا یوسف، جناب عبدالخالق صاحب اور بیرسٹر اخترالدین احمد نے ادا کیا اور سابق جسٹس محمد منیرصاحب پیچ و تاب کھاتے رہے مگر ع
رہ گئے وہ بھی ہاں کرتے کرتے!
مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں، وہ ان کی بالغ نظری، جرأتِ ایمانی اور پاکستان اور تحریک اسلامی سے وفاداری کی روشن نظیر ہیں۔ ان میں انھوں نے خارجہ پالیسی، بجٹ سازی، اُمور حکمرانی (governance)، غرض ہر مسئلے پر کلام کیا اور قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے۔ بجٹ پر ان کی تقاریر اسلامی اور معاشی ہردواعتبار سے بڑا مبسوط و مربوط تبصرہ ہیں۔ ان تقاریر میں انھوں نے صرف سود، اسراف اور غلط معاشی ترجیحات ہی پر احتساب نہیں کیا ہے، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر کلام کیا ہے۔
اسی طرح خارجہ پالیسی پر ان کی کئی تقاریربڑی چشم کشا ہیں، جن میں انھوں نے خارجہ پالیسی کے عدم توازن کا بھانڈا پھوڑا۔ سفارت خانوں کی کارکردگی پر احتساب کیا ہے ۔ امریکا کی گودمیں بیٹھ جانے پر شدید تنقید کی ہے اور امریکا کے ناقابلِ اعتبار دوست ہونے کی حقیقت بیان کی۔ خصوصیت سے جب ۱۹۶۲ء میں امریکا نے پاکستان سے کیے گئے وعدوں کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو اسلحے کی سپلائی شروع کی تو اس پر ان کی تنقید بڑی بھرپور اور جامع ہے۔ انھوں نے روس اور چین سے تعلقات کو نظرانداز کرنے اور صرف امریکا پر بھروسا کرنے پر سخت گرفت کی۔ اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ امریکا نے سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کی شرکت سے لے کر ۱۹۶۲ء تک، یعنی ۱۰سال میں جو امداد دی، بھارت کو صرف تین مہینے میں اس سے ۸گنا زیادہ کااسلحہ فراہم کیا۔ یہ بھی یاد دلایا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنا یہ وعدہ بھول گئے کہ پاکستان سے مشورے کے بغیر بھارت کو کوئی اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ بڑے لطیف انداز میں انھوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان سے دوستی ہم پاکستانیوں کی مرغی سے دوستی کی طرح ہے کہ جب دل چاہا مرغی کو ذبح کر کے دسترخوان کی زینت بناڈالا۔
۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی تھیں۔ مولانا محمدیوسف نے ان پر بھی بھرپور کلام کیا ہے۔ سوالات کی شکل میں بھی اور بحث اور دوسرے مواقع پر اپنی تقاریرکے اندر بھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ حج تک کے معاملے میں ناانصافی کی گئی۔ اپریل ۱۹۶۳ء کے ایک سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں میں ایک اور چار کی نسبت تھی اور ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان سے صرف ۴۸۰۰حاجی جاسکے، جب کہ اس سال مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں کی تعداد ۱۱۳۰۰ تھی۔ اسی طرح ہرشعبے میں ملازمتوں میں، ترقیاتی اخراجات میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں مشرقی پاکستان کے حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ یہ آواز جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی نے ساٹھ کے عشرے میں اُٹھائی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔
مسلمانانِ پاکستان ’ریڈ کراس سوسائٹی‘ (سرخ صلیب) کے نام پر ہمیشہ سے معترض تھے۔ اس میں عیسائی مشنری اور سامراجی سیاسی رشتے کی جو جھلک نظر آتی ہے، اس سے خلاصی چاہتے تھے۔ ۷۰ کے عشرے میں غالباً جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریڈکراس سوسائٹی کا نام تبدیل کرکے اسے پاکستان ریڈکریسنٹ (ہلالِ احمر) سوسائٹی قرار دیا گیا، لیکن کم لوگوں کو علم ہے کہ اس تبدیلی کا سب سے پہلے مطالبہ مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں اپریل ۱۹۶۳ء میں کیا تھا اور عملاً۱۳؍اپریل ۱۹۶۳ء کو ایک بل اس تبدیلی کے لیے اسمبلی میں داخل کردیا تھا، جس پر بحث کے دوران ارکان کی بڑی تعداد نے اس کی تائید کی۔ اس تائیدی لہر سے خائف ہوکر اس وقت کی حکومت نے بڑی چال بازی کے ساتھ اس بل کو کمیٹی کے سپرد کردیا، لیکن جب بھی نام میں یہ تبدیلی ہوئی اس کا اصل اعزاز مولانامحمدیوسف ہی کو جاتا ہے۔
اسی طرح وقت بے وقت آرڈی ننس جاری کرکے حکمرانی کرنے پر بھی مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں بھرپور تنقید کی اور لطیف انداز میں کہا کہ ہم تو مطالبہ کر رہے تھے: ’’بھارت میں ۵۰کے قریب آرڈی ننس فیکٹریاں ہیں، جہاں سے اسلحہ تیار ہو رہا ہے اور بڑی مشکل سے ایک اسلحہ ساز فیکٹری کا پاکستان میں آغاز ہوا،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے دوسری نوعیت کی تین آرڈی ننس فیکٹریاںکھولی ہوئی ہیں اور یہ تینوں ہمہ وقتی گولہ باری کررہی ہیں: ایک ایوانِ صدر سے اور دو گورنر ہائوسز سے۔ یہ آرڈی ننس فیکٹریاں اسمبلی میں قانون سازی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کے دو سیشنوں کے درمیان گیارہ گیارہ اور سات سات گولے داغے جارہے ہیں۔ یہ اسمبلیوں کے حق پر کھلی دست درازی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے‘‘۔ اس سلسلے میں ان کی سب سے مؤثر اور دل چسپ تقریر ۲۷بومبر ۱۹۶۳ء کو اسمبلی میں ہوئی، جس نے ایوان کو کشت ِ زعفران بنادیا۔
اسی طرح آمریت پر انسانی حقوق کی پامالی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں پر انھوں نے باربار کڑی تنقید کی اور صدر ایوب کو خطاب کر کے ایک بار یہاں تک کہا کہ: ’’جمہوریت ڈنڈے کے ذریعے نہیں آتی، اور اگر ڈنڈا یہ کام کرسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کو انبیا ؑ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، جو تعلیم و تلقین کے ذریعے انسانوں کو بدلتے اور دنیا میں امن و آشتی اور انصاف کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں بلکہ صرف ڈنڈا نازل فرما دیتے‘‘۔ قبائلی علاقوں میں انتظامی قوانین (FCR) پر بھی انھوں نے بھرپور تنقیدکی۔ عدلیہ کی آزادی اور سیاست سے ججوں کے دُور رہنے پر بھی انھوں نے باربار کلام کیا اورسابق جج محمدمنیر کی موجودگی میں یہاں تک کہا کہ: ’’عدلیہ کی آزادی کے لیے یہ ایک خطرہ ہے کہ جج وزیر بن جائیں اور وزیر جج بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ ان کی دُوری ہی عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ہے‘‘۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے ارکان نے ہردور میں: ۶۲-۱۹۶۹ء ، ۷۲-۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۵ء سے اب تک جو کردار ادا کیاہے وہ قوم کے سامنے لایا جائے۔ نئی نسلوں کو حتیٰ کہ جماعت کے اپنے حلقوں میں لوگوں کو احساس نہیں کہ اس سلسلے میں جو بات جماعت آج کہہ رہی ہے کس دیانت اور استقامت کے ساتھ اس نے ہر دور میں وہی بات کہی ہے۔
مولانا محمد یوسف سے میرے تعلقات ۵۲سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو ایک اچھا انسان، ایک سچا مسلمان ، اور محب ِ وطن پاکستانی ،اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر تحریکِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کا خادم پایا۔ ان کی طبیعت بے حد سادہ، ان کی باتوں میں خلوص کی خوشبو، اور ان کے معاملات میں دیانت اور خیرخواہی کا جذبہ فراواں پایا جاتا تھا۔ ان کی تنقید میں اصلاح کی جستجو ہوتی تھی۔ حق کی جدوجہد میں ہردور میں انھوں نے استقامت دکھائی۔ خدمت ِ خلق ان کا شعار تھا۔ کسانوں کے حالات میں بہتری لانے اور مساجد اور مدارس کے قیام میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ۴۰۰ سے زیادہ مساجد، مدارس اور یتیم خانے ان کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئے، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں، جن کے بارے میں ہمارے مالک نے فرمایاہے:
یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
گذشتہ تین برس سے شام خون آشام ہے۔ یہ خون آشامی آمر بشارالاسد کی ہرقیمت پر اقتدارسے چمٹے رہنے کی ہوس کا نتیجہ ہے۔امریکا ہو یا روس، شام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایک طاقت بشار کی حمایت کرتی ہے تو دوسری اپوزیشن کی۔ بھیڑیوں کی اس جنگ میں نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بجھنے میں نہیں آرہی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہیں۔
سنٹر فار ڈاکومنٹیشن فار وائی لیشنز (Centre for Documentation for Violations ) کے مطابق ۲۲جنوری ۲۰۱۴ء تک ۹۷ہزار۵سو۷، جب کہ سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک لاکھ۳۰ہزار ۴سو۳۳ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ عام شامی ہیں جو جاں بحق ہوئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان تین سالوں میں فوج اور پولیس کے ۳۲ہزار۱۳، پیراملٹری فورسز کے ۱۹ہزار۷سو۲۹ ؍ افراد خانہ جنگی کی نذر ہوئے۔ اسی طرح ریف دمشق میں ۲۲ہزار۸سو۹۷، الیپو میں ۱۶ہزار۵۴، حمص میں ۱۳ہزار۴سو۶۹، ادلب میں ۱۰ہزار۲۷، درعا میں ۸ہزار۳۴ اور دمشق میں ۷ہزارایک سو۳۷، حلب میں ۱۲ہزار۶سو۴۳، حماۃ میں ۵ہزار۷سو۵۵ لاشیں دفن کی جاچکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث بیرونِ ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۲لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اندرونِ ملک ہجرت کرنے اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۶۳لاکھ سے زائد ہے۔ بیرونِ ملک رجسٹرڈ شامی پناہ گزین مختلف ملکوں میں قائم کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔لبنان میں ۱۰لاکھ ، اُردن میں ۶لاکھ، ترکی میں۵لاکھ، عراق میں۲لاکھ، مصر میں ایک لاکھ اور کچھ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۳۰ہزار شامی گرفتار یا لاپتا ہیں۔
شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد یورپ میں بھی پناہ گزین ہے۔ نیوزویک نے یورپ منتقل ہونے والوں کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔یورپ کا رویہ پناہ گزینوں کے ساتھ بخل کا رہا ہے، اور اس نے انھیں پناہ دینے کے بجاے گریزکا رویہ اختیار کیا ہے۔تاہم، کچھ ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھوں نے آگے بڑھ کر تعاون کیا جن میں جرمنی سرفہرست ہے۔ جرمنی میں ۱۰ہزار سے زائد لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا زیادہ تر دبائو لبنان پر ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص سخت قحط کا سامنا ہے۔مصر کی فوجی حکومت کا رویہ بھی پناہ نہ دینے کا رہا جس کے باعث پناہ گزینوں نے ادھر کم ہی رُخ کیا۔ اقوام متحدہ کی نومبر۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ سخت سردی، خوراک کی قلت، صحت کی سہولتوں سے محرومی کے باعث انتہائی کسمپرسی، مفلوک الحالی، غربت اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہیں جو اس کُل تعداد کے نصف سے زائد ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کیمپوں میں تعلیم کی وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں جو ہونی چاہییں، نیز یہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ویسے بھی کیمپوں میں کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں!
بشار نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ لاٹھی، گولی، آنسوگیس، گرفتاریاں، بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری کے ذریعے عام آبادیوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ پناہ گزینوں کے کیمپ بھی اس دست برد سے محفوظ نہ رہے۔ بشار حکومت کے وحشیانہ تشدد، انسانیت سوز مظالم سے قیدی بھی نہ بچے۔
قفقاز سنٹر کی ۲۱جنوری کی رپورٹ جسے ترک ایجنسی (Anadolu) نے جاری کیا ، کے مطابق ملٹری پولیس میں ۱۳سال تک کام کرنے والا اہل کار ’قیصر‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زیرحراست تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی دو سال تک تصاویر بناتا رہا۔ اس نے ۱۱ہزار لاشوں کی ۵۵ہزار تصاویر بنائیں۔ تعذیب خانوں سے لاشیں ملٹری ہسپتال لائی جاتیں، جہاں ہرلاش پر کوڈ لگایا جاتا اور فلیش ڈرائیو (flash drive) کے ذریعے ان تصاویر کو حکومتی ریکارڈ میں بھیج دیا جاتا۔ یہ تصاویر اُتارنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کو یقین دلایا جائے کہ زیرحراست ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا، بلکہ ہلاک کردیا گیا ہے، جب کہ لواحقین کو بتایا جاتا کہ قیدی دل کے دورے یا سانس کی تکلیف سے ہلاک ہوا ہے۔ دوسال تک قیصر یہ فوٹوگرافی کرتا رہا۔ دوسال کے بعد تنگ آکر اس نے اپوزیشن سے رابطہ کیا اور بشار حکومت کا یہ ظلم دنیا کے سامنے آسکا۔
قیصر کے مطابق روزانہ ۵۰ کے لگ بھگ لاشیں آتیں۔ تصاویر سے ہونے والی عکاسی کے مطابق زیرحراست افراد بھوک، پیاس، وحشیانہ تشدد، گلا گھونٹنے،بجلی کے جھٹکوں اور لوہے اور بجلی کے تاروں سے باندھنے سے ہلاک ہوئے۔ لندن کی ایک لیبارٹری نے ۲۶ہزار تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ تصاویر درست ہیں، ان میں کمپیوٹر کے ذریعے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن اس مسئلے کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہتی ہے۔
ایک جائزے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ۱۲لاکھ سے زائد گھر تباہی کا نشانہ بنے۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے، جابجا لاشوں کے ڈھیر اور ویرانی ملک کامقدر بن گئی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پناہ گزینوں کی حالت قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ۶۸لاکھ افراد ہنوز امداد و تعاون کے منتظر ہیں، جب کہ اندرونِ ملک بھی ایک بڑی تعداد کو امداد درکار ہے۔ امریکا، یورپ اور عرب ممالک اربوں ڈالر امداد دے چکے ہیں لیکن یہ امداد اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔
۱۵جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا کے ۶۰ کے لگ بھگ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اقوام متحدہ نے شام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ ۳۰لاکھ شامی مہاجرین کے لیے ۵ء۶ ؍ارب ڈالر کی اپیل کی مگر اس میں صرف ۴ء۱؍ ارب ڈالر کے وعدے ہوئے،جب کہ ۵۰۰ ملین ڈالر صرف کویت نے دینے کا وعدہ کیا۔
دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے ایک مہاجرکیمپ ’یرموک‘کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ یہ کیمپ گذشتہ تین ماہ سے حکومتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ہرقسم کی اشیاے خوردونوش کیمپ میں جانے سے روکی جاتی ہیں ۔ کیمپ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ محصور ہیں۔ مسلسل محاصرے کے باعث اشیاے خوردونوش ختم ہوچکی ہیں۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بچے بھوک کے باعث بلکتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ مہاجر کیمپ کی مسجد کے امام و خطیب نے اس کیفیت میں حرام جانوروں کا گوشت کھانے کا فتویٰ دے دیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم سرجن ڈاکٹر عمرجبار جنھوں نے ایک خیراتی ادارے ہینڈان ہینڈ میں شام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا اور کئی بار امدادی سرگرمیوں کے لیے شام گئے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میںتنازعے کے باعث ایک نسل تباہ ہوچکی ہے۔ آپ تصور کریں کہ اگر آپ کا بچہ تین سال سے سکول نہ گیا ہو اور آپ گھر سے باہر روزگار کے لیے نہ جاسکیں، تو کیا عالم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر سوچا جائے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بند ہونا چاہیے۔
شامی بحران پر جنوری میں ہونے والے جنیواٹو مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور اس لحاظ سے ناکام رہا کہ فریقین کو اس میں بنیادی مقصد طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔ انھی مذاکرات میں شام کی عبوری حکومت کا طریقۂ کار طے ہونا تھا۔ جنیواوَن کی طرح یہ مذاکرات بھی اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہوئے۔ جون ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے جنیوا ون مذاکرات میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ۴۰ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی تھی جس میں عرب لیگ کے ۲۲ممالک بھی شریک تھے۔ جنیواٹو مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی شامی اپوزیشن کے وفد نے اس پر اعتراضات کر کے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے دبائو پر اپوزیشن نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور سوئٹزرلینڈ کے قصبے مونٹرو میں منعقد ہوا، جب کہ دوسرا دور تین دن بعد جنیوا میں منعقد ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ مذاکرات کو اس وقت سخت نقصان پہنچا جب اقوام متحدہ نے ایران کو دعوت دے کر واپس لے لی۔ ایران کو مذاکرات کی دعوت دے کر واپس لینے کی وجہ مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران بشارالاسد کا زبردست حامی ہے۔ اس وجہ سے وہ مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ ایران جنیوا وَن مذاکرات کے عبوری حکومت کے فیصلے کا مخالف تھا۔ اس موقع پر شامی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے براے شام لحذر براہیمی نے بشارحکومت کو جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے کہا: ’’شامی حکومت ملک میں خانہ جنگی ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
شام کی صورت حال خوف ناک اور الم ناک ہے۔ تین سال کی خونریزی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کوئی فریق اتنا طاقت ور نہیں رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور دوسرے کو شکست دے سکے۔ عالمی طاقتیں دل چسپی لیتیں تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا لیکن عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور اُمت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، غیروں کے لیے ترنوالہ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
بشار نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جس سے وہ اپنے طاقت ور عالمی حلیف روس کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کرپایا۔ اسی طرح ایران اور حزب اللہ کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور عسکری تائید حاصل کی، جس نے اسے مشرق وسطیٰ پر پڑنے والے دبائوسے بچایا اور وہ انتہائی بے دردی سے اپنے شہریوں پر قوت استعمال کرپایا۔ ترک صدر عبداللہ گل نے انتباہ کیا ہے کہ اگر عالمی برادر ی نے شام میں خانہ جنگی رکوانے کی کوشش نہ کی تو شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق شام کو پُرآشوب رکھنا مغربی منصوبے کا حصہ ہے۔مسلم دنیا اور مسلم حکمرانوں کا کردار افسوس ناک رہا ہے اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اُمت کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آواز ضرور بلند کی ہے لیکن یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔
شامی مہاجرین کی مظلومی و بے بسی اور بے چارگی کو اُجاگر کرنے اور ان کی امداد کے لیے معروف صحافی اور نومسلم مریم ریڈلے نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شام کو آج ہمارے آنسوئوں کی نہیں ہمارے مال اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مظلوموں کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں!
مضمون نگار سے رابطے کے لیے: www.ghazinaama.com.pk
مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُن میں سے ایک وراثت کا مسئلہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کے مطابق کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔ جمہورفقہا، ائمہ اربعہ کا بھی یہی موقف ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹریوسف القرضاوی کے فتویٰ کی روشنی میں چند سوالات پیش خدمت ہیں:
۱- کیا یہ حدیث موؤل قرار دی جاسکتی ہے کہ اس میں لفظ کافر کی تاویل کی جاسکے؟
۲- کیا کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت مانا جاسکتا ہے؟ کیونکہ کافر کی وصیت مسلمان کے لیے اور مسلمان کی وصیت غیرحربی کے لیے جائز ہے۔
۳- کیا وراثت کے ایسے مال کو غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے حاصل ہونے والے سود کی مانند قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ فقہا اِس سود کو ان کے بنکوں میں چھوڑ دینے کے بجاے اسے لے کر خیرکے کاموں میں استعمال کو زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔
اسلام عدل و انصاف کا جامع نظام ہے۔ اس کا کوئی حکم کارخیر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے وراثت قانوناً طلب نہیں کرسکتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنے کافر قرابت دار کو اور کافر اپنے مسلمان قرابت دار کو اپنی وراثت میں سے حصہ نہیں دے سکتا بلکہ اس کے جواز کے لیے تو قرآن پاک میں مستقل حکم آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲:۱۸۰) ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔تقویٰ کا تقاضا ہے کہ وصیت کی جائے۔ مفسرین نے اس آیت میں والدین اور قرابت داروں سے وہ قرابت دار مراد لیے ہیں جو کافر ہوں اور بلاوصیت وراثت کے حق دار نہ ہوں۔ایسے ورثا کے لیے وصیت کے ذریعے مال پہنچانے کا حکم ہے۔
علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ابن المنذر کہتے ہیں: تمام اہلِ علم جن کی بات محفوظ کی جاتی ہے اسی بات پر ان کا اجماع ہے کہ وصیت ان والدین کے لیے اور قرابت داروں کے لیے جو وارث نہیں ہیں، جائز ہے۔ ابن عباس، حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں: آیت عام ہے اور ایک زمانے تک اس پر عمل بھی جاری رہا ہے اوران لوگوں کے حق میں جن کو آیۃ الفرائض سے وراثت مل گئی ہے، آیت وصیت کا حصہ ان ورثا کے حق میں منسوخ ہوگیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت الفرائض نے ورثا کے حق میں آیت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے وارث کے بارے میں کوئی وصیت نہیں ہے۔ اس روایت کو حضرت ابوامامۃ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ پس آیت وصیۃ کا ورثا کے بارے میں منسوخ ہونا روایت میراث سے نہیں بلکہ اس ثابت شدہ حدیث سے ہے۔ علما کے اقوال میں سے زیادہ صحیح قول یہی ہے‘‘۔(تفسیر قرطبی، ص ۲۶۲-۲۶۳)
پس واضح ہوگیا کہ غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے بارے میں وصیت کا حکم قرآنِ پاک کی مذکورہ آیت سے ثابت ہے اور یہ آیت چاہے عام ہو، وارث غیروارث دونوں کو شامل ہو۔ اس کے بعد آیت فرائض سے ورثا کے حق میں یہ آیت منسوخ ہوچکی ہو، چاہے غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے ساتھ خاص ہو۔ دونوں صورتوں میں اس بات پر تو اجماع ہے کہ غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں اور مسلمان وارث وصیت کے مستحق نہیں ہیں۔ آیت میراث ان کا استحقاق ختم کرتی ہو یا حدیث، بہرحال مسلمان ورثا وصیت کے مستحق نہیں ہیں اور غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں (ملاحظہ ہو، تفسیرقرطبی، ج۲، ص ۲۶۵)۔ اس لیے یورپ میں رہنے والے مسلمان اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے غیرمسلم قرابت داروں کے ترکے میں سے حصہ لیں، جب کہ وہاں کے قوانین میں اس بات کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے ترکے میں سے حصہ لے۔ اور اگر والدین سارا مال اس کے نام کردیں تو پھر وہ سارا مال بھی لے سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے لیے بھی اپنے مال میں سے ایک تہائی مال تک کی وصیت کرسکتا ہے۔ البتہ ورثا میں سے جو محتاج ہوں ان کے بارے میں بھی وصیت کو نافذ کیا جائے گا اگر باقی وارث راضی ہوں۔
او اجاز ذٰلک الکافۃ اذا اجازہا الورثۃ، ’’اہلِ ظواہر کے علاوہ تمام فقہا نے وارث کے بارے میں وصیت کو جائز قرار دیا ہے، جب کہ ورثا نے اس کی اجازت دے دی ہو‘‘۔ دیارِ کفر میں رہنے والے مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کی وراثت میں سے ضرور حصہ لیں۔
۱- قانوناً اور زبردستی کوئی کسی سے وراثت حاصل نہیں کرسکتا لیکن اگر باہمی رضامندی سے ایسا ہو تو جائز ہے۔
۲- کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت کے حکم میں داخل کیا جاسکتا ہے جیساکہ پوری تفصیل بیان کردی گئی ہے۔
۳- غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے جو سود لیا جاتا ہے اسے اس نظریے سے لے لینا چاہیے کہ اگر نہ لیا گیا تو بنک اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا یا غیرمسلم کو دے گا تو وہ اسے ذاتی یا خلافِ اسلام کاموں میں استعمال کرے گا۔علامہ یوسف قرضاوی نے غیرمسلم ممالک میں مسلمان ہونے والے اشخاص کے لیے غیرمسلم ورثا کے ترکے سے حصہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مکان بنانے کی خاطر سودی قرضہ لینے کی اجازت دی ہے اور ’سود‘ کو مذکورہ بالا نظریے سے لینے کی اجازت دی ہے تو ہم بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
مؤلف نے اس کتاب کی تالیف کا مقصد یوں تحریر کیا ہے کہ: ’’شاید یہ اپنے قارئین کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی صحیح شناخت دے سکے اور ہماری بودوباش اور طرزِ زندگی اس حقیقت کی گواہ بن جائے کہ ہم اللہ مالک الملک کو وہ مقام دینے والے ہیں جو اس کا حق ہے‘‘۔ لہٰذا اس کتاب میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ۹۹؍اسماے حسنیٰ، یعنی وہ تمام الفاظ جو اللہ رب العزت کی صفات اور خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور جن کا ترجمہ اُردو زبان میں ’سب سے اچھے‘ یا ’بہترین ناموں‘ سے کیا جاتا ہے، ان کو بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر چیزوں کی ہر صفت اپنے اندر اچھی اور بُری دونوں کی خصوصیات رکھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کو سب سے اچھا اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تمام اسما اپنے اندر ذرا بھی بُری خصوصیات نہیں رکھتے۔ ساری صفات صرف اچھی ہی اچھی اور بہترین ہیں۔ پھر ان ساری کی ساری صفات کے لیے کوئی حدود و قیود نہیں۔ ان اسما کا مقصد یہ ہے کہ انھیں سمجھ کر یاد رکھا جائے، ذہن میں ہر وقت تازہ رکھا جائے تاکہ شیطان کے پیدا کردہ وساوس اور بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف رُخ کرنے سے بھی بچا رہے۔ یہ اسما دعا بھی ہیں، لہٰذا ان کا ورد کرتے وقت ان کی گنتی پوری کرنے کے بجاے ان کے مفہوم کو ذہن میں تازہ رکھا جائے۔
کتاب میں ہر نام کا مفہوم قرآن اور حدیث ِ مبارکہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قرآن میں یہ نام کہاں کہاںاور کتنی بار آیا ہے اور کس کس لفظ کے ساتھ یا اکیلا آیا ہے، مثلاً اَللّٰہُ ۹۸۰ بار، اللّٰہَ ۵۹۲ بار، اللّٰہِ ۱۱۲۵ بار، اور اَللّٰھُمَّ ۵ بار، اس طرح کُل تعداد ۲۶۰۲ ہوئی۔
کتاب بڑی محنت اور توجہ سے سلیس اُردو میں تالیف کی گئی ہے اور قرآن اور حدیث کے سارے حوالے صحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ یوں تو الاسماء الحسنیٰ کے حوالے سے کئی کتب تحریر کی گئی ہیں مگریہ ان سب میں منفرد ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)
نواب سیّد محمد صدیق حسن خان (۱۸۳۲ء-۱۸۹۰ء) انیسویں صدی کے جیدعلماے دین میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّدصاحب نے اپنے قلم کی روانی اور دولت کی فراوانی کو دین اسلام کی اشاعت کے لیے خوب استعمال کیا۔ ریاست بھوپال کے صدرالمہام کے اپنے منصب کو انھوں نے دنیاوی جاہ و جلال کے اظہار کے بجاے دینِ حنیف کی تعلیم و تبلیغ کا ذریعہ بنائے رکھا۔ اُن کے اپنے بیان کے مطابق اُن کی تصانیف ۳۳علوم میں تالیف ہوئی ہیں۔ انھوں نے خود بھی دین کی نصرت و حمایت اور خدمت و اشاعت کے جذبے سے ۲۰۰ سے زائد کتب تالیف کیں۔ دیگر علما کو بھی اس طرف متوجہ کیا اور اُن کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کر کے اُن سے تصنیف و تالیف کا کام لیا۔ برعظیم پاک و ہند میں کتب ِ حدیث کی اشاعت کا وسیع اہتمام آپ کی توجہ سے ہوا۔ زیرنظر کتاب مسائل عقیدہ کی بحثوں پر مشتمل ہے جو تین مجلدات (تقریباً ۱۸۰۰صفحات) پر محیط ہے۔
یہ کتاب مصنف کے طبع زاد اور ترجمہ شدہ دونوں طرح کے ۱۵ سے زائد رسائل، یعنی کتابچوں کا مجموعہ ہے۔ جلداوّل:سات رسائل، جلد دوم:چار رسائل اور جلدسوم بھی چار رسائل پر مشتمل ہے۔توحید و شرک ان رسائل کا بنیادی موضوع ہے اور اسی موضوع کی جملہ تفصیلات میں سیکڑوں ذیلی عنوانات کے تحت عقائد سے متعلق مسائل پر جان دار علمی بحثیں کی گئی ہیں۔ بیش تر رسائل عربی کتب یا کتابوں کے تراجم، ماخوذات، اختصارات اور استفادات ہیں۔ نواب سیّد محمدصدیق حسن خان نے ان رسائل عقیدہ میں اہلِ سنت کے متفقہ عقائد کو علماے سلف و خلف کی آرا کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ نواب صاحب کے قائم کردہ عنوانات رسائل سے محمد بن عبدالوہاب کی کتاب التوحید کی شرح فتح المجید (تالیف:عبدالرحمن بن حسن) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تاہم اس مجموعے میں اُن کے تحریر کردہ تمام رسائل عقیدہ کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اس مجموعے میں شامل رسائل کے عنوانات عربی میں دیے گئے ہیں، جو مصنف ہی کے قائم کردہ ہیں۔ مجموعہ رسائل عقیدہ کی تسہیل و تخریج کنندگان نے زبان و بیان کی قدامت کو قدرے آسان کیا ہے مگر صرف نہایت ضروری مقامات پر۔ طلبہ و علما کے لیے ان رسائل کا مطالعہ بہت اہمیت اور فائدے کا حامل ہے۔ جاذبِ نظر سرورق کے ساتھ کتاب کی عمدہ اشاعت قابلِ تحسین ہے۔(ارشاد الرحمٰن)
دین، یعنی اسلام کی دعوت اسلامی تاریخ کے ہر عہد کا زندہ موضوع رہا ہے۔ بیسویں صدی اس اعتبار سے نسبتاً نمایاں اور منفرد رہی کہ اس دوران عالمِ اسلام کے متعدد ممالک کے اندر اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں جن کا مقصود و مطلوب اسلام کی دعوت اور اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کا قیام تھا۔ سرزمینِ ہند بھی اس اعتبار سے زرخیز خطۂ ارضی ثابت ہوا لیکن یہ سفر ابھی جاری ہے۔ برعظیم میں اس کا کوئی منطقی نتیجہ ابھی سامنے نہیں آسکا، تاہم پیش رفت ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکوں کے قائدین اور علما نے اسلام کی دعوت کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ہندستان کے معروف عالمِ دین اور امیرجماعت اسلامی مولانا سیّد جلال الدین عمری نے بھی اس موضوع پر نہایت سادہ پیرایۂ اظہار میں اسلام کی دعوت کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جو ۴۰برس سے مسلسل شائع ہورہی ہے۔ پاکستان میں اس کی اشاعت باعث ِ مسرت ہے۔
یہ کتاب نہایت سلیس زبان میں ہے۔ چار بڑے مباحث کے اندر سیکڑوں ذیلی عنوانات کے تحت موضوع سے متعلق ہر اہم اور ضروری نکتے پر رہنمائی دی گئی ہے۔ پہلے بحث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے پیغمبر کیوں آتے اور کس طرح اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ دوسری بحث اسلام کی دعوت سے متعلق ہے۔ اس بحث میں اس کام کی صحیح حیثیت، اسلام کے اتباع پر زور، دعوت کی ترتیب، اس کے اصول و آداب پر بات کی گئی ہے۔ تیسری بحث میں وہ خاص اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن کا پایا جانا اس دعوت کے حاملین میں لازمی ہے۔ چوتھی بحث میں دعوت اور تنظیم کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی اسلامی تنظیم کو مضبوط کرنے والی خوبیاں کیا ہیں؟
یہ کتاب ایک جامع خاکہ پیش کرتی ہے جس کی مدد سے دعوتِ دین کے اس پورے مضمون کو سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے جو دعوتی کارکن کا موضوع ہی نہیں بلکہ نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریک سے وابستہ ہر فرد کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔(ارشاد الرحمٰن)
قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’[موسٰی ؑ نے] ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا‘‘۔ مذکورہ بندے (عبداً) کا نام احادیث ِ مبارکہ میں ’خضر‘ بتایا گیا ہے۔حضرت خضر ؑ کا تذکرہ اکثر روایات و حکایات میں موجود ہے۔ شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو ان کے نام سے ناواقف ہو۔ فارسی اور اُردو ادب میں خضر، آبِ حیات اور حیاتِ جاوداں جیسی تلیمحات اسی شخصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ زمانۂ قدیم سے حضرت خضر ؑ کی ذات ایک رہنما ہی کی ہے۔
زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر غلام قادر لون نے قرآنِ مجید،احادیث، تفاسیر، دیگر کتب سماوی اور مفکرین کے حوالے سے حضرت خضر ؑ کے بارے میں اُٹھنے والے سوالات کے مدلل جوابات دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ان کے بارے میں ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نبی تھے، جب کہ دوسری جماعت ان کو ولی کہتی ہے۔ دونوں طرف کے دلائل نقل کرنے کے بعد وہ اس بنیاد پر کہ حضرت موسٰی ؑ حضرت خضر ؑ سے جس طرح مخاطب ہوتے ہیں وہ کوئی غیرنبی نہیں کرسکتا، ان کو نبی قرار دیتے ہیں۔
مصنف ان کی حیاتِ جاوداں کے قائلین اور منکرین کے دلائل پیش کرتے ہیں اور بہت سی احادیث کے حوالے سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔خضر ؑ کس زمانے کی شخصیت تھے؟ مصنف کے مطابق : قرآن مجید سے ان کی ملاقات حضرت موسٰی ؑسے ثابت ہے تو پھر ان کا زمانہ وہی ہے۔ مصنف نے اس خیال کو باطل قرار دیا کہ حضرت خضر ؑ اور حضرت الیاس ؑ ایک ہی شخصیت ہیں۔ آبِ حیات، حیاتِ جاوداں اور سکندر والے قصے کو مصنف نے محض داستان قرار دیا ہے۔ تصوف والے ان کو اپنا رہبر قرار دیتے ہیں اور مشکل وقت میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حضرت خضر ؑ بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ بتاتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام قادر لون نے عالمانہ اور محققانہ انداز اختیار کرتے ہوئے دونوں طرف کے دلائل دیے ہیں اور منطقی اور استدلالی نتائج اخذ کیے ہیں۔ غالباً حضرت خضر ؑ کی ذات اور شخصیت پر اُردو زبان میں، تحقیقی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔(قاسم محمود احمد)
مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء) برطانوی ہند میں ایک عظیم الشان عالم کی طرح قومی اُفق پر نمودار ہوئے۔ انھوں نے تحریر، خطابت اور صحافت کے ذریعے مسلمانوں کو بالخصوص اور دیگر مذاہب کے حاملین ہندیوں کو بالعموم جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اُن کی توانا پکار نے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو مجتمع کیا۔ تحریکِ آزادیِ ہند کے مسلم اور غیرمسلم ہم راہی، ان کی صداے رستاخیز پر کشاں کشاں کھنچے چلے آئے۔
یہ مختصر مقالہ اپنے دامن میں وسعت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ جس میں جناب عبدالرشید عراقی نے مولانا ابوالکلام کے احوال و خدمات کے ساتھ، مولانا کی چھوٹی بڑی ۱۴۱کتابوں کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے ۔ اس تعارف نامے میں اگر وہ ناشرین کے نام بھی دے دیتے تو عشاقِ مطالعہ کے لیے سہولت رہتی۔ اسی طرح چند الحاقی آثار بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جیسے ’انسانیت موت کے دروازے پر‘۔ وہ اس کے الحاقی ہونے کے خدشے کو رد ، اور عبدالرزاق ملیح آبادی سے اس کے انتساب کی حقیقت واضح کرسکتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے مذہبی تفردات اور سیاسی عملیات پر اختلاف کی گنجایش موجود ہے، اور اس حرفِ اختلاف سے تو کسی کو بھی مفر نہیں۔ تاہم مولانا آزاد کے عزم و استقلال سے انکار کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔(سلیم منصور خالد)
دین اسلام نے بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے ایسی تعلیمات دی ہیں جو آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ اسلام انسانوں کے لیے بہترین ضابطۂ حیات ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے عہدِرسالتؐ کی مسلم سوسائٹی نے انسانی فضیلت کی ایسی بے نظیر مثالیں قائم کیں، جو قیامت تک روشنی کا مینار بنی رہیں گی۔ اسلام میں مردوں کے ساتھ ساتھ طبقۂ نسواں کے لیے بھی ہدایات موجود ہیں۔ خواتین کے حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حضوراکرمؐ کی تعلیمات نے خواتین کے مرتبہ و مقام کو اس حد تک بلند کیا ہے کہ اس سے زیادہ بلندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
زیرتبصرہ کتاب میں مسلمان عورت کے اخلاقی اور معاشرتی کردار کی بہترین ترجمانی کی گئی ہے۔ قرآن و سنت اور اسلامی روایات کے حوالوں سے ۱۰؍ ابواب میں ۱۸۶ عنوانات کے تحت مسلمان خواتین کی زندگی کے مختلف دائروں کی خصوصیات، ان کے فرائض اور حدودِ کار کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان خواتین کی زندگی کا کوئی گوشتہ نہیں چھوڑا گیا جس کے متعلق قرآنی اور نبویؐ روایات نہ دی گئی ہوں۔ اس تذکرے میں جدید دنیاے اسلام کے محققین کی نگارشات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ (ص ۱۱۷-۱۱۸)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مسلمان عورت کا تعلق، عقیدہ اور رویہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک مسلمان عورت کو زندگی میں جن اُمور سے واسطہ پڑتا ہے، ان سب کاموں کے بارے میں اسے جو ہدایات دی گئی ہیں، یہ کتاب ان تعلیمات کا احاطہ کرتی ہے۔ زیرنظر کتاب میں مسلمان عورت کے فرائض و کردار کو جس جامعیت ، حُسنِ ترتیب اور مستند و معتبر حوالوں سے بیان کیا گیا ہے، اس کے مطالعے کے بعد کسی نوع کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسی جامع کتاب ہرمسلمان عورت کے مطالعے میں رہنی چاہیے۔ کتاب کا ترجمہ رواں، شُستہ اور عام فہم ہے۔(ظفرحجازی)
ادیب معاشرے کی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن اور معاشرت کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ افسانہ وہ دل چسپ صنف ہے جس کے ذریعے معاشرتی مسائل اور اقدار و روایات کی نہ صرف نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی بھی کی جاتی ہے۔ قانتہ رابعہ افسانہ نویسی کے ذریعے ایسی ہی کامیاب کاوش کررہی ہیں اور بامقصد ادب تخلیق کررہی ہیں۔ ثقافتی یلغاراور معاشرتی مسائل و انتشار کے پیش نظر اہلِ ادب کی ذمہ داریاں دوچند ہوگئی ہیں، بالخصوص تحریکِ اسلامی کو عصری تقاضوں کے پیش نظر معیاری ادب کی تخلیق پر ترجیحاً توجہ دینی چاہیے۔ علمی و ادبی حلقوں کے قیام اور نئے لکھنے والوں اور شعرا کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔
زیرتبصرہ کتاب قانتہ رابعہ کے افسانوں کا چھٹا مجموعہ ہے۔ ان افسانوں میں معاشرتی انتشار، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، جدید رجحانات اور معاشرتی اقدار و روایات کی نشان دہی اور گرفت کی گئی ہے۔ یہی تو جنت کا راستہ ہے، جہاں افسانوں کے مجموعے کا نام ہے، وہاں واقعتا کتاب کا حاصل بھی ہے اور زندگی کا حاصل بھی۔زبان اور اسلوبِ بیان عمدہ اور افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔انگریزی الفاظ جابجا استعمال کیے گئے ہیں، جو ہمارے ہاں اُردو کے ساتھ رواج پاتے جارہے ہیں۔ بہتر ہوتا اپنی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے متبادل اُردو الفاظ استعمال کیے جاتے۔ کتاب کی پیش کش عمدہ اور سرورق دیدہ زیب ہے۔(امجد عباسی)
کیریئر کونسلنگ طلبہ و طالبات اور والدین کے لیے ایک نہایت اہم شعبہ ہے، جس کی ضرورت پاکستان میں بڑے عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات اور والدین کو پاکستان میں دستیاب تعلیمی مضامین اور عملی کیریئر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ درست فیصلہ کرسکیں اور انفرادی اور اجتماعی مستقبل بہتر بنایا جاسکے۔ ایجوویژن کے ادارے نے اپنے کتابچوں کی اشاعت اور کیریئر کونسلنگ کے ذریعے بڑی عمدگی سے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔
کیریئر گائڈ پر مختلف مضامین کی معلومات کے لیے اب تک مذکورہ کتب سمیت ۱۲کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ ہرمضمون کے متعلق پاکستان کے حوالے سے تمام متعلقہ قابلِ اعتماد معلومات فراہم کی گئی ہیں اور تعلیمی اداروں کی تفصیلات بھی دی ہیں۔ میڈیکل سائنسز کی کتاب میں میٹرک اور ایف ایس سی (پری میڈیکل) کے طلبہ کے لیے ۱۸۴ تعلیمی پروگرام ہیں اور ۴۰میڈیکل اور الائیڈ ہیلتھ کیریئر، ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے لیے داخلہ گائڈ اور دیگر معلومات ہیں۔ اسی طرح انجینیرنگ گائڈ میں ۳۶؍ انجینیرنگ کیریئر، ۱۱۵تعلیمی پروگرام، داخلہ گائڈ براے انجینیرنگ یونی ورسٹیز اور کالجز کی تفصیلات ہیں۔ مینجمنٹ سائنسزگائڈ میں ۲۴ مینجمنٹ کیریئر، ۴۶مینجمنٹ سائنسز کی اسپیشلائزیشنز داخلہ گائیڈ براے بی بی اے اور ایم بی اے اور مینجمنٹ کی تعلیم کے بارے میں تعلیمی اداروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔طلبہ و طالبات کو کیریئر کونسلنگ کے حوالے سے رہنمائی بھی دی جاتی ہے۔ متعلقہ طلبہ و طالبات اور والدین کو ایجوویژن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ (شہزاد الحسن چشتی)
ڈاکٹر زاہد منیرعامر معروف ادیب ہیں۔ ان کے ادبی سفر کی کئی جہات ہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر، نقاد، شخصیت نگار اور سفرنگار ہیں۔ اب تک ان کی ۳۰سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب جزیرے کا خواب ان کا ایک مختصر مگر دل چسپ اور معلومات افزا سفرنامہ ہے۔
بحرہند کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ماریشس ایک خوب صورت جزیرہ ہے۔ مصنف کو ایک ادبی مجلس کی دعوت پر وہاں جانا پڑا تو ان کا تحقیقی ذوق کروٹ لے کر جاگ پڑا۔ انھوں نے ماریشس کے سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ اس کے ماضی کا کھوج لگایا، حال کا جائزہ لیا۔ ماریشس کے باشندوں کی جدوجہدِ آزادی اور فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے مظالم کا ذکر کیا۔ مصنف نے ماریشس کی تحریکِ آزادی اور تحریکِ آزادیِ ہند کی مماثلتیں تلاش کیں اور کالاپانی اور اسیرانِ مالٹا کا تذکرہ بھی کیا۔
مصنف نے ماریشس کا سفر ایک ادبی مجلس کی تقاریب میں اقبال کے فیض کو عام کرنے کے لیے کیا۔ انھوں نے موقع غنیمت جانا اور ماریشس کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے سلطان ٹیپو اور نپولین بوناپارٹ کی خط کتابت کا سراغ لگایا اور اسے منظرعام پر لائے۔ انھوں نے ماریشس کی تاریخ، جغرافیے اور ثقافت کا جائزہ لے کر اسے عمدگی سے پیش کیا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
فروری کے شمارے کے مضامین کے انتخاب پر آپ کو مبارک باد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اہم اُمور پر ہم ترجمان کے ’اشارات‘ (اداریے) کا انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دلیل کی قوت آجاتی ہے۔ وزیرستان پر ’اشارات‘ وقت کی ضرورت تھے۔ محمدبشیر جمعہ ہمیشہ عام فہم اور عملی باتیں بتاتے ہیں جس سے ہرکس و ناکس رہنمائی لے سکتا ہے۔ ان کی تحریریں بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ ’احوالِ عالم‘ پڑھ کر تو دیر تک سکتے کی کیفیت رہی۔ ذہن کے بند دریچے جیسے وا ہوگئے۔ ’ہِگز بوسن یا خدائی ذرّہ‘ بہت عمدہ تھا! مضمون نگار اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے انگریزی اخبارات کو ضرور بھیجیں۔سوشل میڈیا میں بلاگز پر بھی ڈالیں۔ یہ چشم کشا حقائق ایک عجب ایمانی کیفیت سے سرشار کرگئے۔ فاطمہ سابقہ لکشی بائی کی تحریر ایمانی جذبوں کی جِلا کا باعث بنی۔ ’اخباراُمت‘ اُمت بھر کی جدید سرگرمیاں اور حالات سے آگہی کاسبب بنتا ہے۔
’آپریشن شمالی وزیرستان ___ بے لاگ انتباہ!‘(فروری ۲۰۱۴ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں۔ یہ امریکا کی شکست نہیں بلکہ اس نظام کی شکست ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر نظامِ جبر قائم ہوا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں (ناٹو افواج) کو اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ان کا برپا کیا ہوا نظام زمیں بوس ہونے کو ہے۔ اس شکست و ریخت سے عالمی سطح پر تبدیلیاں رُونما ہوں گی۔
’جمہوریت یا اسلامی انقلاب؟‘ (فروری ۲۰۱۴ء) کے تحت مولانا مودودیؒ کی رہنمائی سے اُمید و استقامت کا وہ پہلو نمایاں ہوتا ہے جو کسی بھی پُرامن اور انسانیت کی خیرخواہ جماعت یا فرد کی جدوجہد کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ اسی درسِ استقامت کی عملی مثال محترمہ فاطمہ کے قبولِ اسلام اور پھر اُن کی کاوش سے پورے گھرانے کے قبولِ اسلام میں دکھائی دیتی ہے۔ دعوتِ دین اور اشاعت ِ دین کی ہر تحریک اور اس تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ مسلسل اور پیہم پیغام دین کے ابلاغ کا حق ادا کرے اور اس کے لیے جس قدر پُرامن ذرائع اور وسائل میسر ہوں اُن سے کام لے۔
’افغانستان میں جنگ کے اثرات و نتائج‘ (فروری ۲۰۱۴ء) پروفیسر امان اللہ شادیزئی کا چشم کشا مضمون پڑھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ویت نام میں شکست کھانے کے بعد امریکی استعمار اِس وقت افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار ہے۔ امریکا کو یہ شکست اس حال میں ہورہی ہے کہ اس کے تمام ایٹمی حلیف اپنے پورے سازوسامان سمیت اس کے ہم نوا ہیں۔ امریکا کی شکست کی وجہ سے پورا نظامِ سرمایہ داری لرزہ براندام نظرآرہا ہے یہ اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ مسلم مجاہدین نے عزیمت اور پامردی دکھائی ہے۔ اب وقت آرام سے بیٹھنے کا نہیں ہے بلکہ اگلے مرحلے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کا ہے تاکہ جہادافغانستان کے ثمرات کو پوری طرح سمیٹا جاسکے۔ ہمارا سیکولرمیڈیا اور بیوروکریسی اس بات پر ’انعام‘ کے حق دار ہیں کہ انھوں نے اُمت مسلمہ کو امریکا سے خوف زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
’قبولِ اسلام اور دعوت کی تڑپ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) میں فاطمہ (سابقہ لکشمی بائی) کی داستان بہت ایمان افروز ہے اور دعوتِ دین کے لیے تڑپ اور تحریک کا باعث ہے۔ ’افغان: جنگ کے اثرات اور نتائج‘ نیز ’بنگلہ دیش جماعت اسلامی نشانہ کیوں؟‘ مفید معلومات پر مبنی ہیں۔
میری نگاہ میں اس کی دو بڑی وجوہ ہیں:
ٹائمز لندن کے نامہ نگار نے فوج کے عزائم کا خلاصہ جن الفاظ میں دیا ہے ہم اُن پر تحریر کو ختم کرتے ہیں: ’’ہم دین کے نام پر آیندہ کسی رجعت پسندانہ ٹریجیڈی کا اعادہ نہیں ہونے دیں گے!‘‘(’الاخوان المسلمون کا جرم‘، مولانا مسعود عالم ندوی٭، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۷۳ھ، مارچ ۱۹۵۴ء، ص۶۶-۶۷)
________________________________________________________________
۱- جیسے جماعت اسلامی پر ’امریکی امداد‘ کا الزام دھرنے والے وہ ہیں جو خود ’امریکی امداد‘ کے لیے بے چین تھے۔
۲- تیسری وجہ__ اور مستقل__ وجہ یہ بھی ہے کہ مصر کے انقلابی فوجی افسر مصری معاشرے کی تعمیر جس غیراسلامی فرنگی نقشے پر کرنا چاہتے ہیں اور عوام کے ذہن و کردار کو آرٹ اور کلچر کے جس رنگ میںرنگنا چاہتے ہیں، اس میں کسی اسلامی دعوت و تحریک کا وجود رخنہ انداز ہوتا ہے، لہٰذا یہ کانٹا راستے سے ہٹائے بغیر چارہ نہ تھا۔
٭ مولانا مسعود عالم ندوی کا انتقال اسی سال ۱۶مارچ۱۹۵۴ء کو ہوا۔