آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کی سرگرمیاں کچھ عقیدوں کو محض نہاں خانۂ دماغ کی زینت بنادینے تک محدود نہ تھیں بلکہ اِن عقیدوں کو ایک ریاست کی بنیاد بنادکھانے کا مطالبہ بھی آپؐ سے تھا۔ آپؐ کا منصب نجی زندگی کے لیے چنداخلاقی نصیحتیں کرنے تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاملہ ایک نظامِ سیاست وتمدن کو برپا کرنے کا درپیش تھا۔
مطلوب محض ایک دین کو مان لینا اور اس پر کاربند ہو جانا نہیں ہے، بلکہ تقاضا یہاں اَقِیْمُوْا الدِّیْنَکا ہے۔ مہم درپیش صرف خدا کی کتاب کو پڑھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی نہیں ہے، بلکہ ’اقامت ِکتاب‘ کی ہے۔ سوال حدود کو مان لینے اور ان کی پابندی اختیار کرلینے تک کا نہیں، بلکہ ’اقامت ِ حدود‘ کا ہے۔ رُسل و انبیا ؑکا فریضہ لوگوں کو تعلیمِ قسط دینے ہی کا نہیں، بلکہ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (لوگ کاربند ہوجائیں نظامِ قسط پر) کی حالت پیدا کردینا ہے۔
پس رسولوں اور انبیا ؑ کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی قوت پیدا کر کے معاشرے کے نظام کی مکمل تبدیلی کے لیے ایک انقلابی تحریک چلائیں۔ خیالات کو خیالات سے، نظریات کو نظریات سے، مقاصد کو مقاصد سے ٹکرا دیں۔ حق اور باطل کے درمیان سوسائٹی نے جو سمجھوتے قائم کرائے ہوں اور غلط اور صحیح کے اجزا میں جو جوڑ لگا دیے ہوں، ان کو توڑ کر اضداد میں کھلا کھلا تصادم پیدا کردیں۔ خبیث اور طیّب چھٹ کر الگ ہوجائیں، کھوٹے اور کھرے میں علیحدگی ہوجائے، فساد اور صلاح میں منافات عملاً پیدا ہوجائے، یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ (اللہ حق کو باطل سے ٹکرا دیتا ہے) کا سماں سامنے ہو، اور نتیجہ یہ نکلے کہ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْض، یعنی وہی اصول و نظام زمین پر قائم رہ جائے جو انسانیت کے لیے موجب ِ فلاح ہو۔(’نظامِ اسلامی اور اطاعت رسولؐ ،، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۱۳۶)
قرآنِ پاک نے ایک جانب انسانی جان کی حُرمت کا حکم دیا ہے، تو دوسری جانب جائز طور پر جان لینے کے بارے میں عدل اور قصاص کی شرط کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنیاد پر انسانی معاشرے میں جان کا تحفظ اور امن و آشتی کا قیام ممکن ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا، کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔
اوّل:انسانی جان سب سے محترم شے ہے۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت میں زندہ رہنے کا حق تمام انسانوں کو حاصل ہے، اِ ّلا یہ کہ وہ خونِ ناحق کے مرتکب ہوں یا زمین پر فساد پھیلانے کا ذریعہ بن کر دوسروں کے لیے جینا محال کردیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اپنے زندہ رہنے کے حق سے اپنے کو محروم کرلیں گے۔ لیکن سزا کا یہ نظام قانون اور عدل کے مسلّمہ طریقے کے مطابق ہوگا ورنہ فساد فی الارض کا موجب ہوگا۔
دوم:بات خواہ ایک ہی فرد کی زندگی کی حفاظت یا قانون کے مطابق کی ہو، لیکن ہرفرد کی زندگی اتنی اہم ہے، جتنی پوری انسانیت کی زندگی۔ اگر ایک جان بھی ناحق جاتی ہے اور اس کا صحیح احتساب نہیں ہوتا تو پھر کسی کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور اپنے نتائج اور عواقب کے اعتبار سے یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے۔
سوم:اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق پر ختم نہیں کردی گئی، بلکہ ایک جان کو بچانے اور زندگی دینے کا بھی اس آیت میں ذکر کردیا گیا ہے، تاکہ یہ پیغام بھی مل جائے کہ قتلِ ناحق پر خاموش نہ رہو۔ مراد یہ ہے کہ ایک معصوم کی جان بچانا بھی پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے اورجان کی حفاظت اور شریعت کے احکام اور ضابطوں کے مطابق قصاص بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو جہاں ناحق خون بہانے سے روکا گیا ہے، وہیں خونِ ناحق سے انسانوں کو بچانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، تاکہ زندگی کا سفر رواں دواں رہ سکے۔
اس آیت ِ مبارکہ کی روشنی میں ہرمسلمان کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آج دنیا میں، اور خصوصیت سے خود مسلم دنیا میں جس طرح معصوم انسانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے، اس سے کیسے نجات پائی جائے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما جناب عبدالقادر مُلّا کو محض سیاسی انتقام کے جنون میں جس طرح شہید کیا گیا ہے، وہ عدالتی قتل کی بدترین مثال ہے جس نے ہردردمند آنکھ کو اَشک بار کردیا ہے۔ اسلامی دنیا کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور بنگلہ دیش کو سیاسی خلفشار اور تصادم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک سال ۲۰۱۳ء کے دوران میں ۴۰۰سے زیادہ افراد صرف ان جعلی مقدمات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جان کی بازی ہارچکے ہیں اور صرف پچھلے دو مہینوں میں حسینہ واجد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ۱۱۵ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
ان حالات میں اُمت مسلمہ اور انسانیت کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے ہرممکن تدابیر کریں اور اپنے ایک برادر ملک کو تباہی کی طرف بگ ٹٹ دوڑنے سے روکیں کہ دوستی اور بہی خواہی کا یہی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے اہم پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے اور حالات کے معروضی تجزیے کی روشنی میں پالیسی اور حکمت عملی کے خطوطِ کار مرتب کیے جائیں۔
۱۹۷۱ء میں پاکستان کیوں دولخت ہوا؟ اور بنگلہ دیش کن حالات میں اور کن وجوہ سے وجود میں آیا؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے اور اس پر سنجیدگی اور دیانت سے غور کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی اپنی جگہ بے حد اہمیت ہے۔ البتہ اب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ سب نے کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک آزاد اور خودمختار برادر ملک ہے اور اہلِ پاکستان دل کی گہرائیوں سے اس کی ترقی اور سلامتی کے طالب ہیں۔
فروری ۱۹۷۴ء میں ماضی کے تلخ باب کو بند کر کے پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں نے بہتر مستقبل کی تعمیر اور باہمی تعاون کا عزم کیا تھا اور اس راہ پر گامزن بھی ہوئے تھے، لیکن اچانک بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کی قیادت نے ۲۰۱۰ء میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے نام پر ایک نام نہاد بین الاقوامی ٹربیونل بنا کر، اپوزیشن کی جماعتوں ، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور ایک حد تک بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کو نشانہ بنایا ہے اور سیاسی انتقام اور ریاستی دہشت گردی کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ خود بنگلہ دیش میں قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ ریاست کی قوت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری میڈیاسے ایک خاص نقطۂ نظر کو ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
یہ سلسلہ ۲۰۰۹ء میں دستور اور قانون میں ترامیم کے ذریعے شروع ہوا۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل قائم کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں گرفتاریاں اور مقدمات شروع ہوگئے جن کے ذریعے اب تک سات افراد، یعنی: علامہ دلاور حسین سعیدی، ابوالکلام آزاد،محمدقمرالزمان، علی احسن مجاہد، صلاح الدین قادر، معین الدین، اشرف الزماں کو سزاے موت، پروفیسر غلام اعظم کو عمرقید اور عبدالقادر مُلّا کو پہلے عمرقید اور پھر کھلے کھلے سیاسی دبائو کے ڈرامے کے بعد سزاے موت کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح بی این پی کے عبدالعلیم کو عمرقید سنائی اور مزید دو درجن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے نے۱۳دسمبر ۲۰۱۳ء کو ایک خطرناک شکل اختیار کرلی جب آخرالذکر، یعنی جناب عبدالقادر مُلّا کو عملاً سولی پر چڑھا کر حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت نے عدالتی قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کرلیے۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان پر الزام تراشی اور حقوقِ انسانی کی پامالی، بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت کا غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام ہے، جن کی وجہ سے برادر مسلم ملک بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے۔ سیاسی عمل درہم برہم ہے، معیشت پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں اور ملک کا آئینی نظام نئے خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔ یہ حکومت ملک کی اسلامی قوتوں کو نشانہ بناکر اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک ہیجانی فضا ہموار کرنا چاہ رہی ہے۔
ملک اور ملک سے باہر اس صورت حال پر شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، ماضی میں عوامی لیگ کی حکومت کی جائز اور ناجائز تائید ہی کرتا رہا ہے، مگر اب اس نے اپنے دو ادارتی کالموں میں بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کو حکومت کی پے درپے غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان مذکورہ مقدمات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ جنگی جرائم کے مقدمات کی اصولی تائید کرنے کے باوجود، ان میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اور ثبوت اور معروف عدالتی طریق کار کے بغیر جس طرح لوگوں کو پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں، ان پر مذکورہ اخبار نے شدید گرفت کی ہے۔ اپنے ۲۰نومبر ۲۰۱۳ء کے اداریے میں اس نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:’’لگتا ہے کہ بیگم حسینہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ جنوری [۲۰۱۴ء] میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اقتدار سے چمٹی رہیں، اور جن ذرائع سے بھی ضرورت ہو اپنے مخالفین کو بے اثر کریں‘‘۔
ان نام نہاد بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے بارے میں اخبار لکھتا ہے:’’مقدمے نے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کو ہدف بنایا اور یہ دوسرا حربہ ہے جس کے ذریعے سیاسی مخالفوں کی آواز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘۔
اصل ایشو یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا اور کس نے تائید کی اور کس نے مخالفت___ اس وقت اصل ایشو یہ ہے کہ ۴۳سال کے بعد مقدمات کا ڈراما کیوں رچایا جا رہا ہے، اور عدل و انصاف اور ملکی اور عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے محترم اور مقتدر سیاسی شخصیات کو میدان سے ہٹانے اور جماعت اسلامی کو سیاسی دوڑ سے نکالنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔ یہ سب ۲۰۱۴ء میں بنگلہ دیش کے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لیے ہے، جو جمہوریت کے قتل پر منتج ہوسکتا ہے۔
۲۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے الجزیرہ (انگریزی) کی ویب سائٹ پر ایک بنگالی نژاد سیاسی تجزیہ نگار ضیاحسن کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مقالہ نگار ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے کے حق میں اور جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفانہ راے رکھنے کے باوجود لکھتے ہیں:
بنگلہ دیش کو جنگی جرائم کے ٹربیونل کی واقعی ضرورت تھی، لیکن اس عمل کے دوسال بعد زیادہ تر لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مقدمے کو حکمران پارٹی کے لیے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش نے اسے بیرونی مداخلتوں کے لیے آسان ہدف بنا دیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاست، عدلیہ، انتخابات اور انصاف کے درمیان حدود زیادہ مبہم ہوتی جارہی ہیں۔ [بنگلہ دیش کی] ساری آبادی اب نظریاتی طور پر دو واضح کیمپوں، یعنی ٹربیونل کے حامی اور ٹربیونل کے مخالف میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ججوں میں سے ایک جج کے اسکائپ اکائونٹ کے ہیک ہونے سے سامنے آنے والی گفتگو کے انکشاف، اور سزائیں سنانے کے لیے عوامی لیگ کی بے تابی نے انتخابات کو مکتی باہنی کے مخالف یا حامی ہونے کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔
اس مضمون کا عنوان ہے: How not to do a war crimes tribunal: the case of Bangladesh (کس طرح ایک جنگی جرائم کا ٹربیونل نہ چلایا جائے___ بنگلہ دیش کی مثال)۔ انھوں نے آگے چل کر اس کھیل کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
ٹربیونل کے قابلِ اعتماد آغاز کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ عوام کو قریب لائے گا لیکن اب وہ سیاسی طاقتوں کی کش مکش اور اقتدار کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے.... بہت سے لوگ یقین رکھتے تھے کہ جنگی جرائم کا ٹربیونل ملک کو ماضی کی بھول بھلیوں سے نجات دلانے کا باعث ہوگا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹربیونل کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بے تابی نے آبادی میں ایک تفریق پیدا کردی ہے۔
جماعت اسلامی کا بجاطور پر دعویٰ ہے کہ اس کا اور اس کے کارکنوں کا دامن الحمدللہ ایسے تمام مبینہ جرائم سے پاک ہے، جو اس کی قیادت کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔ وہ احتساب سے بھاگنے والی جماعت نہیں ہے۔ وہ عدل و انصاف کی میزان کی علَم بردار ہے اور آئین اور قانون کے مطابق ہرجواب دہی کے لیے تیار ہے۔ جماعت اسلامی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا اور ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان جو ’لا الٰہ الااللہ‘ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس کے دستور ، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کی علَم بردار تھی اور سیاسی اختلافات کے علی الرغم سقوطِ ڈھاکہ تک، پاکستان کے دفاع میں کمربستہ رہی۔ لیکن جب بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم ہوگیااور ۱۹۷۴ء میں پاکستان، اسلامی دنیا اور اقوامِ متحدہ نے اسے تسلیم کرلیا تو جماعت اسلامی سے وابستہ تمام افراد جو بنگلہ دیش میں تھے، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کے لیے سرگرم ہوگئے۔
یہی وہ پس منظر تھا جس میں ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ملی اور پھر ایک مقدمے کی طویل سماعت کے بعد پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شہریت وہاں کی سپریم کورٹ نے بحال کردی۔ اس وقت سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بنگلہ دیش میں زندگی کے ہرشعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے اور ملک کی سیاسی تعمیرِنو کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔بحالی جمہوریت کی تحریک میں اس نے تمام سیاسی جماعتوں بشمول عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور بحالی جمہوریت کے بعد پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے اور بی این پی کے ساتھ حکومت میں بھی شریک رہی ہے۔
۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۱ء تک سات سال جماعت اسلامی اور عوامی لیگ ایک جمہوری تحریک میں شانہ بشانہ شریکِ کار تھے اور جماعت کی تمام قیادت بشمول پروفیسر غلام اعظم صاحب، مولانا اے کے ایم یوسف، مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادرمُلّا، علی احسن محمد مجاہد اور عوامی لیگ کی قیادت بشمول شیخ حسینہ واجد، عبدالصمد آزاد مرحوم، عبدالجلیل، صلاح الدین قادر چودھری، طفیل احمد، سرجیت سین گپتا اور مسز ساجدہ چودھری ایک ہی محاذ پر سرگرم تھے، حتیٰ کہ ۱۹۹۱ء میں عوامی لیگ نے انتخابات کے بعد جماعت کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی، جسے جماعت نے شکریے کے ساتھ قبول نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور اس کی قیادت جنگی جرائم کی مرتکب تھی تو عوامی لیگ کو کیا اس وقت اس بات کا علم نہیں تھا؟ اور کیا یہ انکشاف ۲۰۰۹ء کے بعد ہوا؟
اگر ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۶ء تک جماعت میں کوئی خرابی نہ تھی تو پھر اس سے کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں نئی سیاسی مصلحتوں کی خاطر یہ افسانہ تراشا گیا اور انھی افراد کو جن کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی جارہی تھی، اب سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
رہا معاملہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کا، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تشدد کی سیاست کا آغاز عوامی لیگ نے کیا اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ)کے رہنما عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کو جلسہ نہ کرنے دیا گیا جس میں تقریر کرنے کے لیے مولانا مودودی ڈھاکہ پہنچ گئے تھے اور اس کے متعدد کارکنوں کو شہید اور بیسیوں کو زخمی کیا گیا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے طور پر مکتی باہنی کا قیام مئی۱۹۷۰ء میں کرنل عثمانی کے ہاتھوں ہوا۔ مارچ ۱۹۷۱ء سے ۱۰ ماہ پہلے مکتی باہنی نے پاکستان کی فوج اور پولیس سے بغاوت کرنے والے عناصر کے ساتھ مل کر قتل و غارت اور لُوٹ مار کا بازار گرم کیا، جس کے نتیجے میں ۵۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی افواج نے جب ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو آپریشن شروع کیا تو اس دوران بھی زیادتیاں ہوئیں اور شرپسندوں کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر بے گناہ افراد بھی ہلاک ہوئے۔ یوں بدقسمتی سے زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئیں اور ان کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ بھی ایک حد تک موجود ہے۔
بیسیوں کتابیں ہیں جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دوسرے مصنفین نے ذاتی مشاہدے کی بنا پر اس الم ناک دورکا نقشہ کھینچا ہے۔ خود حمودالرحمن کمیشن نے بھی تینوں فریقوں، یعنی پاکستانی فوج اور اس کے معاونین، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے کارکن، اور خود بھارتی افواج کے خونیں اور شرم ناک کردار کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے اور مناسب احتساب کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ اس تکلیف دہ اور خون آشام دور کے بارے میں دو ہی طریقے ہوسکتے تھے: ایک بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دار عدالت کے ذریعے احتساب، اور دوسرا غلطیوں کے مجموعی اعتراف کے ساتھ عفو و درگزر اور آیندہ کے حالات کی اصلاح کا راستہ۔
بنگلہ دیش کی مجیب الرحمن حکومت نے ۱۹۷۲ء میں Collobarators Act کے تحت سول سوسائٹی کے افراد اور ۱۹۷۳ء کے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ کے تحت فوجی اور نیم فوجی ادارے سے متعلق افراد پر مقدمہ چلانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر فوجی دائرے میں ۱۹۵؍ افراد کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔ دوسری جانب سول سوسائٹی میں ۳۷ہزار۴سو۷۱ لوگوں پر الزام عائد کیا گیا، لیکن ان میں سے ۳۴ہزار۶سو۲۳ کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔عملاً مقدمہ ۲ہزار۸سو۴۸ ؍افراد پر چلا، جن میں سے ۷۲۰ کو سزا ہوئی، اور ۲ہزار سے زیادہ افراد کو بری کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ان ۳۷ہزار افراد میں جماعت اسلامی کا کوئی فرد شامل نہیں تھا اور جن افراد کو آج الزام دیا جا رہا ہے، ان میں سے پروفیسر غلام اعظم کے سوا تمام افراد اس وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے اور کہیں چھپے ہوئے نہیں تھے۔
غلطی کا ارتکاب کسی بھی فرد سے ممکن ہے، تاہم یہ بات پوری ذمہ داری سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت کے کارکنوں اور البدر کے رضاکاروں کا دامن ہرقسم کے فوج داری یا اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ انھوں نے دفاعی خدمات ضرور انجام دیں، لیکن کسی قتلِ ناحق یا بداخلاقی اور لُوٹ مار میں وہ ہرگز ملوث نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کل بھی اور آج بھی وہ شفاف عدالتی نظام میں اپنے آپ کو پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جماعت اسلامی نے کسی سے بھی رحم کی درخواست نہیں کی۔ جب تک وہ حصہ پاکستان تھا، اس وقت تک جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دینی، اخلاقی، قومی اور قانونی فریضہ سمجھ کر مشرقی پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کی اور بھارتی مداخلت کاروں سے وطن کو بچانے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ جب بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تو اس کے ساتھ وفاداری کا معاملہ کیا۔ لیکن یہ صریح ظلم ہے کہ ۴۳سال کے بعد ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے انصاف کا کھلے بندوں خون کیا جارہا ہے اور سیاسی طور پر محکوم ٹربیونل کے ذریعے ان کو سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ہمارا احتجاج انصاف اور انسانیت کے اس قتل کے خلاف ہے۔
’البدر‘ کے نوجوانوں کا کیا کردار تھا؟اس بارے میں کتاب البدر (۱۹۸۵ء)کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی ضمن میں روزنامہ نئی بات میں شائع ہونے والے آصف محمود صاحب کے مضمون: ’یہاں بھی غدار، وہاں بھی غدار‘ کا ایک اقتباس پیش ہے۔ واضح رہے کہ صاحب ِ مضمون کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور نہ میجر ریاض حسین ملک کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے تھا:
کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم [بلوچ رجمنٹ کے]میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دوعشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ [میمن سنگھ] میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کرسکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں۔ ان نوجوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ میجر ریاض نے انھیں کہا: ’’ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پُلوں پر پہرا دیجیے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’میجرصاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لیے بھی کچھ دیں‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیرمسلح کردو۔ میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورئہ یٰسین کا ایک نسخہ اس نوجوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمھیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔ بانس کے ڈنڈے انھوں نے بنالیے اور ندی نالوں اور پُلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کر دیے۔ میجرریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اسلحہ نہیں مانگا، لیکن میجرکے مَن کی دنیا اُجڑچکی تھی۔ فوجی ضابطے انھیں عذاب لگ رہے تھے۔ ایک روز ۳۰کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انھیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کرلیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا: بیٹا! آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جائو۔ وہ بچہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہوگیااور کہنے لگا: میجرشاب ہن تو بڑا ہوئے گاشے‘ (میجرصاحب! اب تو بڑا ہوگیا ہوں)۔ میجر تڑپ اُٹھے، انھیں معوذؓ اور معاذؓ یاد آگئے، جن میں ایک نے نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اُٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجرنے اس بچے کو سینے سے لگالیا۔ ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کردیا اور جنگ ِ بدر کی نسبت سے اس رضاکاردستے کو ’البدر‘ کا نام دے دیا۔ کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا، تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کردی گئی۔
ایک روز مَیں نے میجرسے پوچھا کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے۔ ’البدر‘ نے ظلم تو بہت کیے ہوںگے اپنے سیاسی مخالفین پر۔ یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔ کہنے لگے: آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟ میں نے کہا: میجرصاحب آپ سے ۲۵سال کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میجر نے کہا: میں اپنے اللہ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے ’البدر‘ کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے۔ میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انھوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے؟ برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، مَیں دیکھنا چاہتا تھا وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکرداراور عظیم نوجوان تیار کیے۔
آج یہی ’البدر‘ پھانسی پر لٹک رہی ہے۔
ہم تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ’البدر‘ کوئی کرایے کی فوج (mercenary) نہیں تھی، بلکہ اللہ کے دین کی خدمت کرنے والے مجاہدین کا گروہ تھے، جو صرف اللہ سے اپنے اجر کے طالب تھے اور جو ایک مقدس عہد کر کے اپنے کو اس خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ ہرکارکن جو حلف لیتا تھا، وہ اس کے جذبات و احساسات، اس کے عزائم اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا آئینہ ہے۔
البدر کا ہر مجاہد مختصر تربیت کی تکمیل کے بعد اپنے ساتھیوں کے رُوبرو یہ حلف نامہ پڑھتا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ
مَیں خداے بزرگ و برتر کو حاضرناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ:
اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
اسی طرح البدرمجاہدوں کا اجتماعی حلف نامہ یہ ہوتا تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
خدا کو حاضرناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم البدر کے رضاکار:
خدا ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
ہم بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ الحمدللہ! ہمارے کارکنوں کا دامن ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں سے پاک ہے۔ بیسیوں کتابیں اس پر شاہد ہیں جو ضروری تحقیق کے بعد لکھی گئی یا جن میں دیانت داری سے اس زمانے کے حالات کو شخصی مشاہدے کی بنیاد پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ’البدر‘ پر متعین الزامات کا کوئی وجود نہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ سے لے کر بنگلہ دیش کے مصنّفین، بشمول سابق فوجی اور سفارت کار لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم کی کتاب Bangladesh Untold Facts اور حمیدالحق چودھری کی خودنوشت Memoires، بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جے ایف آر جیکب کی Surrender at Dacca: Birth of a Nation اور پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ، اسی طرح غیرجانب دار بلکہ پاکستان کی حکومت کے ناقد پاکستانی مصنّفین، مثلاً لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین کی Tragedy of Errors: East Pakistan Crises 1968-1971 اور میجر جنرل (ر) خادم حسین راجا کی A Stranger in My Own Country ۔ ان میں پاکستانی فوج اور خصوصیت سے اس کی قیادت پر سخت تنقید ہے مگر البدر کی کسی غلط کاری کا کوئی ذکر نہیں۔
پھر وہ دل دہلا دینے والی کتابیں جو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، جیسے سابق سفارت کار قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears ہے جو ۷۰ کے چشم دید واقعات پر مشتمل ہے، یا مسعود مفتی کی دل دہلا دینے والی تصانیف لمحے اور چہرے اور مہرے اور نسرین پرویز کی داستان سلمٰی کا مقدمہ: ڈھاکہ سے کراچی تک، یا پھر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب Pakistan Divided۔ ان اور دوسری تمام مستند کتابوں میں دونوں طرف کی زیادتیوں کا ذکر ہے، مگر البدر پر متعین طور پر الزام کہیں بھی نہیں ملے گا بلکہ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب Witness to Surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا)میں اعتراف کیا ہے کہ البدر کے نوجوان بڑے جانثار اور مقصد سے وفادار تھے، جو اسلام اور پاکستان سے محبت کی بناپر خطرات انگیز کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور : ’’ان میں سے بعض نے قربانی کے ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا، جس کا دنیا کی بہترین افواج سے مقابلہ کیا جاسکتا تھا‘‘ (ص ۱۰۵)۔ صدیق سالک نے پاکستانی فوج کے چند اہل کاروں کی غلط کاریوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن ’البدر‘ کے جان نثاروں کا دامن ایسے خبائث سے پاک تھا۔
ہم ایک بار پھر بہت ہی انکسار اور اللہ سے عفوودرگزر کی طلب کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے ہمارے کارکن انصاف کے حصول کے لیے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے ہرلمحہ تیار ہیں۔ لیکن جو خونیں اور شرم ناک ڈراما بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے نام سے کھیلا گیا ہے، وہ ظلم اور انتقام کا بدترین کھیل ہے۔ اس کا عدل اور انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم انسانوں کی کردارکشی اور ان کے لیے قیدوبند اوردارورَسن کا بازار سجانے کی کوشش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس ڈھونگ کا پردہ چاک کریں اور عالمی راے عامہ کو اس کے خلاف متحرک کریں، تاکہ عدل اور انسانیت کے قتل کا یہ سلسلہ روکا جاسکے۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پہلا راستہ عدل و انصاف کا ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں اور دوسرا راستہ مفاہمت اور عفوودرگزرکا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کی حماقتوں اور بھارت کی سیاسی اور عسکری مداخلت کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادتیوں کے اس تلخ باب کو بند کر کے ایک نئے باب کو کھولنا حکمت اور دانش مندی کا راستہ تھا۔ اس کا آغاز بھی شملہ معاہدے اور پھر ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی شکل میں ہوا، جس پر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے وزراے خارجہ نے دستخط کیے اور جس کی حیثیت ان ممالک کے درمیان ایک عہدوپیمان (treaty) کی ہے۔
اس معاہدے ہی کے نتیجے میں بھارت میں قید ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کو معافی (clemency) ملی، جن کو بنگلہ دیش کے بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے ہی میں پھر پاکستان اور بنگلہ دیش نے سفارتی تعلقات قائم کیے، تجارت اور دوسرے میدانوں میںتعاون اور اشتراک کا دروازہ کھلا۔ اس میں ماضی کی غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی ہے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے اور درگزر کا اعلان بھی ہے، جسے حسینہ واجد صاحبہ نے بھلا دیا ہے، اور بین الاقوامی معاہدہ شکنی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ طے شدہ اُمور کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی ہے اور پرانے زخم تازہ کیے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ حق و انصاف اور سفارتی عہدوپیمان کے محکم اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ مصلحت اور حکمت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے الفاظ پر غور کرلیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ گاڑی کے پہیے کو پیچھے کی طرف چلانے کی جو مذموم کوشش کی جارہی ہے، اس کی اصلیت کیا ہے۔ معاہدے کی شق۱۴ اور ۱۵ میں معاملات کو یوں طے کیا گیا ہے:
اس بارے میں تینوں وزرا نے نوٹ کیا کہ اس معاملے کو تینوں ملکوں کے اس عزم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ صلح صفائی کے لیے پُرعزم اقدامات کریں گے۔ وزرا نے مزید یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش آئیں گے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ صلح صفائی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور بھول جائیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش میں ۱۹۷۱ء کی تباہی اور مظالم کے حوالے سے یہ اعلان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ماضی کو بھول جائیں اور ایک نیا آغاز کریں۔
مذکورہ اُمور کی روشنی میں اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان کی بنگلہ دیش کے عوام سے ماضی کی غلطیوں کے بارے میں عفوودرگزر کرنے اور بھول جانے کے پس منظر میں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عام معافی کے اقدام کے طور پر مقدمات میں مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ ۱۹۵جنگی قیدی بھی پاکستان اُن دوسرے قیدیوں کے ساتھ جو معاہدہ دہلی کے تحت واپس بھیجے جارہے ہیں، بھیج دیے جائیں گے۔
اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کو دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس، لاہور کے موقعے پر تسلیم کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد پاکستان کے تین سربراہانِ حکومت نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، یعنی ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمدضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی دونوں وزراے اعظم، یعنی خالدہ ضیا اور خود حسینہ واجد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ تجارتی تعلقات میں برابر مضبوطی آئی، پاکستان کے سرمایہ کاروں نے بڑھ چڑھ کر بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی اور عالمی فورم پر دونوں کے درمیان بھرپور تعاون ہو رہا تھا، حتیٰ کہ اس دور میں چشم تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب بنگلہ دیش کو بھارت اور مغربی ممالک نے اسلحے کی فراہمی روک دی تو جنرل ضیاء الرحمن کی خواہش پر جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کو اسلحہ فراہم کیا اور اس کی قیمت وصول کرنے سے بھی انکار کردیا جس کا اعتراف کرنل (ر) شریف الحقدالیم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے (اُردو ڈائجسٹ، دسمبر۲۰۱۳ء)۔ نیز ڈھاکہ میں جب پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہوا تو بنگلہ دیش کے عوام نے پاکستان کی ٹیم کی کامیابی کے لیے اس طرح کردار ادا کیا جس طرح متحدہ پاکستان کے دوران کرتے تھے لیکن افسوس صدافسوس کہ ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ Collaborators Act جس کے تحت غیرفوجی عناصر پر مقدمات قائم کیے گئے تھے، اس کے تحت سزا پانے والوں میں سے بھی سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو چھوڑ کر ۱۹۷۵ء میں سب کو معافی دے دی گئی اور بالآخر ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ء کو خود اس قانون کو بھی کالعدم قرار دے دیاگیا۔
۱۹۷۴ء ہی میں شیخ مجیب الرحمن نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرکے پورے عالمی میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ Let The World know how Bengalies can forgive (دنیا جان لے گی کہ بنگالی کس طرح معاف کرتے ہیں)۔ لیکن مجیب صاحب کی صاحب زادی نے ایک نئی مثال قائم کی ہے کہ والد جو سربراہِ مملکت تھے، کی جانب سے معاف کر نے کے بعد ان کی بیٹی نے کس بھونڈے انداز میں انتقام کی آگ بھڑکائی ہے۔
اس وقت جو کچھ بنگلہ دیش کی حکومت نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، بنگلہ دیش کے دستور اور پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے، سب کے خلاف ہے، اور پاکستان کو صرف انسانی حقوق ہی کے باب میں نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں بھی احتجاج اور سفارتی ردعمل کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ اس پر فرض بھی ہے۔
اس اصولی بحث اور وسیع تر قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر گفتگو کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ مختصراً عبدالقادر مُلّا کے مقدمے اور شہادت کے بارے میں بھی چند گزارشات پیش کریں۔
عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم یہ نہیں ہے کہ وہ کسی فوج داری یا اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مقدمے کی پوری کارروائی پڑھ لیجیے، کوئی الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا اور محض سنی سنائی اور بے سروپا تضاد بیانیوں کی بنیاد پر ان کو ’مجرم‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے،جو بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ہم نے ٹربیونل کا فیصلہ بغور پڑھا ہے۔ یہ پورا فیصلہ سیاسی دستاویز ہے جس میں زبان کے تنازعے سے لے کر تفریق تک کو اصل پس منظر مقرر فرما کر کارروائی کی ہے۔ اس طرح بلاثبوت سنی سنائی باتوں اور نام نہاد circumstantial evidence پر سزاے موت دینے کی جسارت کی ہے جو بین الاقوامی اور خود ملکی قانون سے متصادم ہے۔ اور اس پورے پس منظر اور سازش کے نام پر جو اصل جرم سامنے آتا ہے، وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں عدم شرکت ہے حالانکہ یہ ایک سیاسی پوزیشن توضرور ہے مگر قانون کی نگاہ میں کوئی جرم نہیں۔ دنیا کے جتنے ممالک نے بھی آزادی حاصل کی ہے ان کی آزادی کے حصول سے قبل کسی کی جو بھی سیاسی پوزیشن ہو وہ نئے دور میں غیرمتعلق ہوجاتی ہے جس کا واضح ثبوت قیامِ پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگرس کے ان ہندو ارکان کو جو مشرقی پاکستان میں تھے، ریاست اور پارلیمنٹ میں برابر کا مقام دیے جانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء میں موضع امیرآباد، ضلع فریدپور میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں بی ایس سی تک فریدپور شہر میں تعلیم پائی۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے، مگر ۲۵مارچ کو فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے دو ہفتے قبل یونی ورسٹی بند کردی گئی۔ اس پر عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ’چھاترو لیگ‘ کا قبضہ تھا۔ ہوسٹل بند کردیے گئے اور عبدالقادر مُلّا اپنے گائوں فریدپور چلے گئے جہاں وہ ۱۹۷۲ء کے آخر تک رہے۔
۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ میں خوں ریز ہنگاموں کے اس پورے زمانے میں عبدالقادر مُلّا کی عدم موجودگی کی حقیقت کو تو ٹربیونل نے یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ فریدپور جہاں وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے دسمبر ۱۹۷۲ء تک رہے، پورا شہر اس حقیقت کی گواہی دے رہا تھا۔ لیکن جس دوسری حقیقت کو بھی اس نام نہاد عدالت نے قابلِ اعتنا نہ سمجھا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۷۲ء میں عبدالقادر مُلّاڈھاکہ یونی ورسٹی میں آگئے جو عوامی لیگ کا گڑھ تھا، وہ مزید تعلیم کے لیے وہیں ہوسٹل میں رہے۔ دو سال میں ’تعلیمی انتظامیات‘ میں ایم اے کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اس وقت ان کے ’میرپور کے قصاب‘ ہونے کی ہوا نہ لگی۔ پھر دو سال انھوں نے بنگلہ رائفلز (Bangla Rifles) میں ٹریننگ لی اور یہاں بھی ان کے بارے میں کسی کو شبہہ نہ ہوا۔ پھر تین سال انھوں نے ایک سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے اور پھر پرنسپل کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر حکومت کے تحقیقی ادارے اسلامک فائونڈیشن میں، جہاں ملک کے تمام ہی دانش وروں سے ربط رکھنا ہوتا ہے، اس میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد صحافت اور سیاست میں نمایاںکردار ادا کرتے رہے۔
سات سال تک عوامی لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کی ٹیم کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے اور سب کے ساتھ ان کے فوٹو اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ ’میرپور کے قصاب‘ سے شب و روز مل رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کسی نے عبدالقادر مُلّا پر انگشت نمائی نہ کی۔ پھر اچانک ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ پر یہ راز فاش ہوا کہ عبدالقادر مُلّا’میرپور کا قصاب‘ ہے اور اس کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی پاداش میں نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل میں گھسیٹ لیا گیا۔
عبدالقادر شہید پر چھے میں سے پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء کے واقعات سے ہے، جب کہ وہ ڈھاکہ یا اس کے گردونواح میں موجود ہی نہیں تھے۔ عبدالقادر شہید کے وکلاے صفائی نے عبدالقادر مُلّا کے ڈھاکہ میں نہ ہونے اور تمام الزامات کے زمینی حقائق سے متصادم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ۹۶۵ گواہ پیش کرنے کی اجازت چاہی اور تمام گواہوں کے کوائف سے ٹربیونل کو مطلع کیا۔ لیکن اسی ٹربیونل نے عدالتی عمل کی تاریخ میں یہ نادر اور مضحکہ خیز پوزیشن اختیار کی کہ: ’’یہ استغاثہ کا کام ہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور دفاع کرنے والوں کو متبادل شہادت لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ ان تمام گواہوں کا موقف یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء کے جس زمانے کے بارے میں عبدالقادر مُلّا پر الزام لگایا جارہا تھا وہ اس زمانے میں فریدپور میں تھے جنھیں شب و روز ان تمام افراد نے دیکھا۔ بڑی رد و کد کے بعد عدالت نے ۹۶۵ میں سے صرف چھے گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دی اور ۹۵۹ گواہوں کو سننے تک سے انکار کردیا۔ پھر ان چھے گواہوں کی شہادت کو بھی کسی دلیل کے بغیر رد کردیا۔
اپنے فیصلے تک میں اتنی مضحکہ خیز بات لکھی ہے کہ: ’’ایک گواہ کی گواہی میں تضاد تھا کہ عبدالقادر مُلّا کا دعویٰ ہے کہ: وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے نومبر ۱۹۷۲ء تک فریدپور میں تھے اور وہاں ایک دکان بھی چلا رہے تھے، جب کہ گواہ نے یہ کہا کہ اس نے ان کو فریدپور میں مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک دیکھا، یعنی ڈیڑھ سال نہیں ایک سال‘‘۔ سوال یہ ہے کہ عبدالقادر مُلّا پر جو چھے الزامات ہیں، ان میں سے پانچ کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء تک ہے اور صرف ایک کا تعلق نومبر ۱۹۷۱ء سے ہے۔ لیکن یہ تمام اس ایک سال ہی سے متعلق ہیں، جس کے بارے میں گواہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے شب وروز ان کو فریدپور میں دیکھا ہے، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک۔ عدالت کی جانب داری، حقائق سے آنکھیں بند کرنے، بودے اور مضحکہ خیز تضادات کا سہارا لے کر پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر مہرتصدیق ثبت کرنے کی اس سے زیادہ بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے؟
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کردوں کہ جن پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء سے ہے، ان کا انتساب ’البدر‘ سے کیا گیا ہے حالانکہ ’البدر‘ قائم ہی ۲۱مئی ۱۹۷۱ء کو ہوئی تھی، اور وہ بھی ڈھاکہ یا فریدپور میں نہیں، بلکہ بہت دُور شیرپور، ضلع میمن سنگھ میں۔استغاثہ اور خصوصی عدالت دونوں ہی کے علم اور دیانت پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔
استغاثہ نے ۴۹ گواہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر وہ صرف ۱۲ گواہ لاسکے جن میں سے کسی کی شہادت بھی عینی گواہی کی نہیں تھی۔ سب نے یہی کہا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے اور اس طرح یہ اور اس سلسلے کے تمام مقدمے سنی سنائی باتوں، غیرتصدیق شدہ افواہوں اور اخبار کے تراشوں اور سیاسی گپ شپ کی بنیاد پر طے کیے جارہے ہیں۔ ٹربیونل کا دعویٰ ہے کہ ایسے سنگین جرائم کے باب میں سنی سنائی (heresay ) باتوں کو بھی معتبر قرار دے کر شریف اور معتبر انسانوں کو موت یا عمرقید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ غضب ہے کہ خود ۱۹۷۲ء کے ریاستی قانون میں عدل و انصاف کے تمام مسلّمہ اصولوں اور قواعد کو معطل کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قانونِ فوج داری اور قانونِ شہادت دونوں کو ان مقدمات کے لیے غیرمؤثر (excluded) کردیا گیا ہے اور اس طرح شہادت کو مذاق بنادیا گیا ہے۔
عبدالقادر مُلّا کو موت کی سزا جس ایک نام نہاد شہادت کی بنیاد پر دی گئی ہے، وہ ۱۹۷۱ء میں ۱۳سال کی ایک لڑکی کی شہادت ہے، جو خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پلنگ کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور اس نے یہ سنا کہ ’عبدالقادر‘ نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے حالانکہ یہی لڑکی اس سے پہلے بنگلہ دیش قومی عجائب گھر کو یہ بیان ریکارڈ کرا چکی ہے کہ وہ اس دن گھر پر موجود نہیں تھی اور اسی لیے اس کی جان بچ گئی۔ اس کا یہ بیان بنگلہ دیش کے سرکاری عجائب گھر میں آج موجود ہے جو جنگی جرائم کے محفوظات کو ریکارڈ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ اس بیان کی فوٹوکاپی وکلا کی دفاعی ٹیم نے مذکورہ خصوصی عدالت میں پیش کی، لیکن اس عدالت نے جو ’سنی سنائی‘ باتوں کو معتبر قرار دیتی ہے، اس دستاویز کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسی طرح اسی خاتون نے ایک اخباری بیان جو واقعے کے چند سال بعد کا ہے اور جس میں اس کے موقع واردات پر موجود نہ ہونے کا اعتراف ہے، نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹربیونل کی کارروائی پر ملک اور ملک سے باہر ماہرین قانون کی بڑی تعداد نے صاف لکھا ہے کہ ٹربیونل کی پوری کارروائی ہر دواعتبار سے، یعنی بنیادی عدل (substantive justice) اور عدالتی طریق کار (procedural justice) کی شدید بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اسے کسی صورت میں بھی تقدیرِ عدل (dispensation of justice) نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ قانون اور انصاف کا خون ہے اور عبدالقادر کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
عبدالقادر مُلّا نے اعتماد، اطمینان، ہمت اور شجاعت کے ساتھ اس مقدمے میں اپنا دفاع کیا، ہرموقعے پر اپنی پاک دامنی کو ثابت کیا اور پھر عمرقید اور سزاے موت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انھوں نے، ان کی صابروشاکر اہلیہ اور اہلِ خانہ نے اس ظلم کا پول کھولا اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی، حتیٰ کہ رحم کی اپیل سے بھی انکار کر دیا۔ پھر جو وصیت عبدالقادر نے لکھی اور جس شان سے تختہ دار پر گئے، وہ ان کی معصویت اور صداقت کی دلیل ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ماہر نفسیات کو یہ ساری داستان سنادیجیے، کبھی کوئی مجرم اس طرح معاملہ نہیں کرسکتا ۔ عبدالقادر کے بے گناہ ہونے کے لیے اگر کوئی اور شہادت اور لوازمہ موجود نہ بھی ہوتا، تب بھی صرف ان کا یہ عزیمت سے سرشار کردار ہی ان کے دامن کے پاک ہونے کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
ایک اور قابلِ ذکر پہلو وہ تضادبھی ہے کہ ایک طرف تو جن کا دامن پاک ہے ان کو سولی پر لٹکایا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو دن دھاڑے انسانوں کے قتل، لُوٹ مار اور ظلم وستم میں سرگرم رہے ہیں، یعنی عوامی لیگ کے جیالے اور جو ۱۹۷۰ء سے آج تک کشت و خون اور سیاسی انتقام اور کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور جن کے انسانیت سوز کارناموں کی داستانیں چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے جج اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔ ٹربیونل کے تمام ہی ارکان عوامی لیگ کے کارکن یا سرگرم کمیونسٹ کامریڈ رہے ہیں۔ استغاثہ کے ارکان میں سے چار افراد، جنوری ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے لیے عوامی لیگ کے نمایندے ہیں۔ عدلیہ عوامی لیگ کے کارکنوں سے بھر دی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد بھی جو ۱۹۷۱ء کے فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی جرنیل اے اے کے نیازی کے شریکِ کار (collaborators) تھے، وہ بھی عوامی لیگ کی بنائی ہوئی عدالتوں میں جج بن گئے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال انتھونی مسکارن ہیس نے، جو ۱۹۷۱ء کے کشت و خون کے حقائق اور افسانوں کا پہلارپورٹر تھا اور جس کے مضامین لندن ٹائمز میں شائع ہوئے تھے اور جس نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا ’راز‘ طشت ازبام کیا تھا، اسی رپورٹر نے شیخ مجیب کے حکمران بننے کے بعد ۷۴-۱۹۷۳ء میں عوامی لیگ کے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو اپنی کتاب Bangladesh: Legacy of Blood میں بیان کیا ہے۔ اس نے اس میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے، جو بنگلہ دیش میں انصاف کے قتل اور منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کے چہروں پر سے پردہ اُٹھانے کا ذریعہ بناہے:
حامیوں کے اولین مقدمات جیسور میں منعقد ہوئے۔ ایم آر اختر اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کٹہرے میں جو شخص کھڑا تھا جس پر رضاکار ہونے کا الزام تھا، خاموشی سے کھڑا رہا۔ جب مجسٹریٹ نے اس سے باربار پوچھا کہ تم مجرم ہو یا نہیں؟ کچھ وکلا اس پر چیخ پڑے کہ تم کیوں نہیں اپنا مقدمہ شروع کرتے؟ بالآخر اس شخص نے جواب دیا کہ مَیں سوچ رہا ہوں کہ کیا کہوں؟ مجسٹریٹ نے پوچھا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ ملزم نے مجسٹریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ جو آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، وہی تو ہے جس نے مجھے رضاکار بھرتی کیا تھا۔ اب وہ مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ یہ تقدیر کا کھیل ہے کہ میں کٹہرے میں ہوں اور وہ میرا مقدمہ چلا رہا ہے۔
ایک اور دل چسپ تبصرہ برطانوی رکن پارلیمنٹ رابرٹ میکلین کا ہے، جو مقدمے میں آبزرور تھے۔ انھوں نے کہا کہ کٹہرے میں دفاع کرنے والے اس سے زیادہ قابلِ رحم ہیں جتنا کہ استغاثہ کے اُلجھے ہوئے گواہوں کا سلسلہ.... انھوں نے بھی پاکستان حکومت کی ملازمت کی، مگر اب یہ حلف اُٹھانے کو تیار ہیں کہ ان کی حقیقی وفاداری بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے ساتھ تھی۔ پورا معاملہ انصاف کے ساتھ مذاق تھا۔ حکومت نے بالآخر اس کو ختم کردیا لیکن بدنظمی بڑھ جانے کے بعد۔
اس آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے زمانے میں کیا ہوا ،اور اب حسینہ واجد کے زمانے میں کیا کیا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک محترم جج نے جو جنگی جرائم کے ایک حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل کے ممبر رہے ہیں، صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کے ٹربیونل اور حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس کی کارروائیوں کو کسی اعتبار سے بھی عالمی انصاف کی میزان پر صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
پھر عبدالقادر شہید کے سلسلے میں تو دستور، قانون اور اصولِ انصاف کا اس طرح خون کیا گیا ہے کہ اس نام نہاد ٹربیونل نے بھی کمزور گواہی کی بناپر ان کو عمرقید کی سزا دی تھی۔ لیکن پھر عوامی لیگ کے کارکنوں کے شاہ باغ میں احتجاج کی بنیاد پر ٹربیونل کے قانون مجریہ ۱۹۷۲ء میں فروری ۲۰۱۳ء میں ترمیم کی گئی اور حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سزا میں اضافے کے لیے سپریم کورٹ میں جاسکتی ہے اور عدالت کو بھی سزا میں اضافے کا اختیار دے دیا گیا اور اس قانون کو قانون کے بننے سے پہلے کے جرائم پر بھی لاگو کردیا گیا ہے۔ قانون کی تاریخ میں بدنیتی پر مبنی قانون سازی کی یہ منفرد مثال ہے،جسے تمام ہی عالمی ، قانونی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ظالمانہ اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی سوچنے سمجھنے والے اہلِ دانش: قانون اور دستور کی ان خلاف ورزیوں پر یریشان ہیں اور اسے آمریت اور ظالمانہ کارروائیوں کے دروازے کھولنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، اور عالمی سطح پر ان تمام اقدامات کی شدید مذمت ہورہی ہے۔ دی گارڈین، لندن کے کالم نگار اور مصنف جان پلجر (John Pilger) نے اپنے ۱۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے مضمون: The Prison that is Bangladesh میں اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’مُلّا کی موت ہرگز واقع نہیں ہونا چاہیے تھی‘‘۔
اقوام متحدہ کی کمشنر براے انسانی حقوق نیوی پلّاے (Navi Pillay) نے پورے عدالتی طریق کار اور کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عبدالقادر مُلّاکی پھانسی کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ۲۵؍ارکان، امریکی کانگریس کے چھے کانگریس مین، برطانیہ کے متعدد ایم پیز، حماس کے ترجمان، ترکی کے وزیراعظم سمیت ساری دنیا میں اس عدالتی قتل کی مذمت کی گئی ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک سابق آرمی چیف، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محبوب الرحمن نے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے حق میں اصولی بات کہنے کے بعد موجودہ ٹربیونل اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کہا ہے کہ:’’عوامی لیگ کی حکومت محض سیاسی محرکات کے تحت جنگی مجرموں پر مقدمے چلانے کے لیے پیش رفت کررہی ہے‘‘۔
اسی بات کا اظہار بنگلہ دیش کے ایک مشہور وکیل اور سابق وزیر مودود احمد نے کیا ہے اور اس پوری کوشش کو seeking a vendetta against political opponents (سیاسی مخالفوں سے جذبۂ انتقام کی کوشش)قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مضبوط اور جان دار تنقید برطانیہ کے مشہور قانون دان اور جنگی جرائم کے مقدمات کے باب میں عالمی شہرت کے حامل بیرسٹر ٹوبی کیڈمین نے کی ہے:’’جنابِ مُلّا کو ایک منصفانہ ٹرائل نہیں ملا۔ ان کو اچانک پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جسے ایک عدالتی قتل ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیرخارجہ اور شیخ مجیب کے دست راست ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین، جو ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں اور بنگلہ دیش کے اہم اخبارات میں خدمات انجام دے چکے ہیں،اس مقدمے کو ابتدا سے دیکھ رہے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان کے مضامین اور بلاگ اس پورے عدالتی ڈرامے اور گندے سیاسی کھیل کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہم ان کے صرف چند جملے پیش کرتے ہیں:
بین الاقوامی قانون اور جرائم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس قانون کے تحت عبدالقادر مُلّا کا مقدمہ چلایا گیا، وہ ناقص اور قانونی سقم سے پُر تھا.... دو کلیدی وجوہ جن کی بنا پر مَیں نے یہ سوچا کہ مُلّا کی سزاے موت غیرمعمولی طور پر قابلِ اعتراض تھی: پہلی یہ کہ جن جرائم کی وجہ سے انھیں سزاے موت دی گئی، ان کے لیے قابلِ اعتماد گواہی کا مکمل فقدان تھا۔ دوسری وجہ مُلّا کو مناسب دفاع سے روکنا ہے۔ مُلّا کو صرف پانچ گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ استغاثہ جتنے چاہے گواہ لاسکتا تھا۔
ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ جو کچھ اس نے کیا ہے اس پر وہ خود جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور ایک دن آسکتا ہے جس میں خود اسے اس کی جواب دہی کرنا پڑے‘‘۔پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے:’’بین الاقوامی برادری کو اس پر ذمہ دارانہ ردعمل دینا چاہیے‘‘۔
یہ ہے عالمی ردعمل، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خود پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں اور حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور ہورہا ہے وہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ بے حکمتی اور بے حمیتی کی بات کا تصور بھی مشکل ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ کسی بھی ملک کا محض داخلی معاملہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کہیں بھی ہو، تمام دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسانوں اور انصاف کے قتل کو رُکوانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر ستم ظریفی ہے کہ اس معاملے میں تو بنگلہ دیش کی حکومت نے خود اسے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ کا نام دیا ہے، لیکن اب اسے خالص داخلی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ نیز اسی طرح بحیثیت مسلمان ہمارا حق ہی نہیں فرض بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے تو اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ حق ہم صرف اپنے لیے نہیں طلب کررہے کہ یہ حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے تمام افراد کو دیا ہے اور اس حق میں بنگلہ دیش کے مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔
پھر پاکستان کا تو ان مقدمات سے براہِ راست تعلق ہے کہ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور جن لوگوں کو آج ظلم اور ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اس وقت پاکستان کے شہری تھے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی رُو سے اس سیاہ باب کو بند کردیا گیا تھا۔ معاہداتی ذمہ داری (treaty obligation) کے اصول کے مطابق اگر آج بنگلہ دیش اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو بحیثیت ریاست ہمارا فرض ہے کہ اس پہلو سے معاہدہ شکن حکومت کے فعل پر اس کی گرفت کریں اور بین الاقوامی سیاسی، سفارتی اور قانونی ہرمحاذ پر اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے کثرت راے سے مذمتی قرارداد منظور کر کے ایک ادنیٰ مگر صحیح اقدام کیا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالادستی کا دعویٰ کرنے والی وزارتِ خارجہ اور اس کے ترجمان: قانون، معاہدہ اور پارلیمنٹ کی قرارداد کسی کو بھی پِرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اور وہ جماعتیں جنھوں نے اس قرارداد کی تائید نہیں کی، انھوں نے بھی قوم کو اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے کہ وہ کہاں تک پاکستان، اس کے دستور، اس کے دفاع اور اس کی عزت کی محافظ ہیں۔ اگر عوام اب بھی ہماری قومی قیادت کے ان دو مختلف چہروں کو نہیں پہچانتے تو یہ مستقبل کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔
ع ۔ ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
شہید عبدالقادر مُلّا کے اہلِ خانہ جب آخری دفعہ جیل میں ان سے ملے تو انھوں نے ان کو وصیت کی:’’میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبرواستقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامت ِ دین کے کام پر لگائیں۔ کسی طرح کے بگاڑ یا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہییں۔ جن لوگوں نے میرے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان دی ہے ان لوگوں کی قبولیت ِ شہادت کے لیے اللہ سے دعا کرتا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ سب کو آخرت میں کامیاب کرے۔
مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مکمل غیرقانونی انداز میں یہ حکومت مجھے قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں مظلوم ہوں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی۔ صرف اس وجہ سے مجھے حکومت قتل کر رہی ہے۔ میں اللہ، اس کے رسولؐ اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ موت شہادت کی موت ہے اور شہیدوں کی جگہ جنت کے سوا اور کہیں نہیں ہے۔ اللہ اگر مجھے شہادت کی موت دے دے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔ اس کو مَیں اپنے لیے افتخار سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ حکومت ۱۴دسمبر کو مجھے قتل کرنا چاہ رہی تھی لیکن اللہ نے میری موت کا فیصلہ اُس وقت نہیں کیا تھا۔ جب اللہ کا فیصلہ ہوگا تب ہی موت آئے گی۔ شہادت کی موت سے بڑھ کر بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے! ہمیشہ مَیں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اور آج بھی کر رہا ہوں کہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔
میری درخواست ہے کہ میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے کارکن استقامت کا ثبوت دیں۔ ان کو کوئی غیرقانونی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ شہادت کے خونیں راستے کے ذریعے سے فتح ضرور آنے والی ہے۔ اللہ جس کی مدد کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ عبدالقادر مُلّا کو قتل کرکے ظالم حکمران اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ میری شہادت کے ہرقطرۂ خون سے تحریکِ اسلامی اور بھی آگے بڑھے گی اور یہ ظالم حکومت کی تباہی کا باعث ہوگی‘‘۔
عالمی اور علاقائی حالات کے پس منظر میں ۲۰۱۴ء غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی ہی نہیں مواصلاتی، ٹکنیکیاتی اور ماحولیاتی اعتبار سے بھی یہ سال اہم ہوگا اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اور علاقے کے باب میں بھی یہ سال ایک تاریخی دوراہے (historical crossroads) کی حیثیت رکھتا ہے ۔
امریکا اور ناٹو کی افواج ۱۲ سال کی ناکام جنگ کے بعد افغانستان چھوڑ نے کا اقدام کرنے والی ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے ۔ پھر افغانستان میں اپریل ۲۰۱۴ء میں نئے صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں ۔ اس انتخابی معرکے کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور امریکا کے آیندہ کردارکے بارے میں اہم سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں ۱۱ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی حکومت قائم ہوچکی ہے جو قوم کے مطالبے کے باوجود، ملک کو امریکی جنگ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے ابھی تک کم سے کم پیش رفت میں بھی ناکام ہے۔ اس لیے مستقبل کے لیے کوئی نقشۂ کار واضح نہیں ہے ۔ اس پس منظر میں ’کیسا ہوگا ۲۰۱۴ء‘کا سوال کچھ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔
آنے والے سال کے بارے میں میرے اندازے ، توقعات اور خدشات میرے اس تجزیے اور نتائج فکر پر مبنی ہیں جس پر میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے، اور اس پر امریکا کے غیر متوازن اور وحشیانہ رد عمل اور، گذشتہ ۱۲ سال میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کردار، اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اور پاکستان کی دونوں سابقہ حکومتوں کے کردار کے با ب میں ایک سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت سے پہنچا ہوں۔ اس لیے پہلے میں مختصراً اپنا تجزیہ پیش کرتا ہوں اور پھر ان سوالات کے بارے میں کچھ عرض کروں گا جو ذہنوں کو پریشان کر رہے ہیں اور واضح جواب کے لیے پکار رہے ہیں ۔
۱۔ دہشت گردی کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کے ایک نہیں دسیوں روپ ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ و آہنگ ہے ۔ نہ اس مسئلے کا جنم دن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ہے اور نہ ۲۰۱۴ء میں اگر امریکا اور ناٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا واقع ہو جاتا ہے ، جو بہت مشتبہ ہے ، کیا تب بھی یہ دہشت گردی ختم ہوجائے گی ؟ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سب نے دیکھ لیاہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور صرف ۲۰۱۳ء کے پہلے ۱۰مہینے میں ۸ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دہشت گردی محض ایک عسکری مسئلہ نہیں ہے، گو عسکری پہلو بھی ایک جہت کی حیثیت سے ضرور موجود ہے ۔ بنیادی طور پر اس کی جڑیں سیاسی مسائل اورناانصافیوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کے قرار واقعی حل کے بغیر اس کا حل ممکن نہیں۔
۲۔ اس وقت اہم ترین مسئلہ افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے اور اگر افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوتا تو افغانستان میں امن کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔ اس صورت میں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان آگ کے اس سمندر سے نکل سکے ۔
۳۔ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر کوئی کچھ بھی کہے لیکن دو حقیقتوں کا اعتراف ضروری ہے، اور عالمی سطح پر بھی آزاد حلقوں میں اب اس بارے میں کھل کر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ:
الف۔ افغانستان اور عراق دونوں میں فوج کشی کا کوئی حقیقی جواز نہیں تھا۔ امریکا نے محض ایک عالمی طاقت ہونے کے زعم میں اور امریکی بالادستی اور استثنائیت ((American hegemony and exceptionalism کومحض قوت کے زور سے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے یہ جنگ لڑی اور منہ کی کھائی ۔ The New York Review of Booksکے ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں وار آن ٹیرر پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین(Malisi Ruthven) ایک جملے میں پوری خونچکاں داستان کو یوں بیان کرتا ہے :It is difficult to escape the conclusion that the United States has been fighting the wrong war, with the wrong tactics, against the wrong enemy and therefore the results can be nothing but wrong. ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ ، غلط حکمت عملی سے غلط دشمن کے خلاف لڑی اور اس لیے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہو سکتے تھے ‘‘۔
روزنامہ دی گارڈین لندن کا کالم نگار سیومس ملن (Seumus Milne)۱۳ دسمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مغربی دانش وروں کی سوچ کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے کہ: The wars unleashed or fuelled by the US, Britain and their allies over the past 12 years have been shameful. Far from accomplishing their missions, they have brought untold misery, spread terrorism across the world and brought strategic defeat to those who leashed them. ’’امریکا، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے جو جنگیں گذشتہ ۱۲برسوں میں شروع کیں اور ان کو ایندھن فراہم کیا ، شرم ناک تھیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجاے یہ غیرمعمولی تحریک لائیں، دہشت گردی کو ساری دنیا میں پھیلا دیا اور جنھوں نے اس کا آغاز کیا ان کی اسٹرے ٹیجک شکست کا باعث بنیں‘‘۔
یہ ہے افغانستان اور عراق پر مسلط کی جانے والی ۱۲ سالہ جنگوں کا حاصل اور وہ بھی چھے لاکھ کے قریب انسانوں کی ہلاکت، ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کی خانہ بربادی اور نقل مکانی اور ۳سے ۴ہزار ارب ڈالروں کو اس جنگ میں پھونکنے کی قیمت پر!
ب- افغانستان میں امریکا اپنی تمام فوجی قوت اور ٹکنالوجیکل برتری اور اتحادیوں کی رفاقت کے باوجود جنگ ہار چکا ہے ۔ اس کا احساس اوباما کو جولائی ۲۰۰۹ میں ہی ہو گیا تھا جب اس نے اعتراف کیا تھا کہ:We are not trying to win this war militarily. Victory is not possible. ’’ہم اس جنگ کو فوجی بنا پر جیتنے کی کوشش نہیں کر رہے ۔ فوجی فتح ممکن نہیں ہے ‘‘۔
لیکن اس کے باوجود فوج کے اصرار پر اس نے ۳۰ ہزار افوج مزید بھیج کر جنگ کا پلڑا بدلنے کی ناکام کوشش کی اور اب سب اعتراف کر رہے ہیں کہ جنگ ہاری جا چکی ہے ۔ امریکی مؤقر جریدے فارن افیرز کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات ان کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہو جائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔
امریکا اپنا کوئی بھی اعلان شدہ مقصد حاصل نہیں کر سکا اور دنیا اور امریکا دونوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے باوجود آج امریکا معاشی طور پر کمزور اور عدم تحفظ کے عوامی احساس کے بارے میں اُس سے ابتر حالت میں ہے جس میں۱ ۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھا۔ تازہ ترین راے عامہ کے سروے یہ بتا رہے ہیں کہ خود امریکا میں ۷۰ فی صد سے زیادہ افراد اپنے آپ کو آج غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، یعنی وہی کیفیت جو ۲۰۰۲ء میں تھی۔
۳۔ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت جن وجو ہ اور مجبوریوں کے تحت بھی ہوئی ہو، اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ شرکت پاکستان کے لیے نقصان، تباہی اور بے حد و حساب بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنی ہے ۔ امریکا ہم سے ناخوش ہے اور ہمیں برملا ’ناقابلِ اعتبار‘قرار دے رہا ہے ۔ افغان عوام ہم سے بے زار ہیں کہ ہم نے ایک عالمی طاقت کا آلۂ کار بن کر ان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی اور امریکی قبضے کے قیام میں معاونت کی ۔ افغان حکومت ہم سے شکوہ سنج ہے کہ پاکستان طالبان کی در پردہ پشت پناہی کر رہا ہے ۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے ایک کردار وضع کر لیا ہے حالانکہ روس کے فوجی قبضے کی تائید کر کے اس نے افغانستان میں اپنے کو ایک مبغوض ملک بنا لیا تھا، اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے نت نئے روپ رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کا امن و امان تہہ و بالا ہے اور معاشی حیثیت سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق ان ۱۲سال میں ہمیں اس نام نہاد امداد کو ایڈجسٹ کرنے کے با وجود جوسامراجی قوتوں کی خدمات کے معاوضے میں ہمیں دی گئی ہے، یعنی Net terms میں پاکستان کے عوام کو ۱۰۰ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ، اور اس پر مستزاد وہ ۵۰ ہزار افراد ہیں جو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ زخمی ہیں ا ور خود ملک میں ۳۰ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس لیے اس عذاب سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
۴- امریکا ہو، ناٹو ہو یا خود پاکستان ہو، اس مسئلے کے سیاسی حل کے سوا کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے ۔ اس سے انکار نہیں کہ امن و امان کے قیام اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاستی قوت کے استعمال کا ایک معروف کردار ہے جو دستور اور قانون کے مطابق ادا کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مسائل کا حل کبھی محض عسکری قوت سے ہوا ہے اورنہ ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے باب میں اس کا ادراک اب بہت دیر سے ہورہا ہے حالاں کہ اصحابِ بصیرت بہت پہلے سے یہ بات کہہ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے Tom Koenigs نے جرمن روزنامہ Berliner Zeitingکو ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ :If there is to be a chance for peace , we must talk to everyone, including alleged war criminals . The aim is to stabilize Afghanistan. ’’اگر امن کے لیے کوئی امکان ہو تو ہمیں ہر ایک سے بشمول جنگی مجرموں کے بات چیت کرنا ہو گی۔ مقصد افغانستان کو مستحکم کرنا ہے ‘‘۔
اب جون ۲۰۱۳ میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے افغانستان کے دورے کے دوران اعتراف کیاہے کہ: 2002 was the correct time to carry negotiations with the Taliban. ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے ۲۰۰۲ء صحیح وقت تھا‘‘۔ اور افغانستان میں خود ناٹو کے نائب کمانڈر جنرل زگ کارٹر نے ارشاد فرمایا ہے کہ: Negotiations with Taliban should have been conducted in 2002. ’’طالبان سے مذاکرات ۲۰۰۲ میں کر نے چاہیے تھے ‘‘۔
اس پر اس کے سوا اورکیا کہا جاسکتا ہے کہ ع ’ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘۔
حالات کے اس تجزیے کی روشنی میں ۲۰۱۴ء کے لیے پاکستان کے لیے صحیح حکمت عملی یہ ہے کہ وہ :
الف- دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے بے تعلقی کا اعلان کرے اور پوری خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی مفاد اور عوامی جذبات اور خوااہشات کی روشنی میں از سر نو ترتیب دے جیسا کہ خود پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء کی دو قراردادوں میں مطالبہ کیا ہے ۔
ب- افغانستان میں افغانیوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ترغیب دیں کہ وہ قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے افغان مسئلے کا افغان حل نکالیں اور سب سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اس میں شریک کریں۔
ج- افغانستان کے معاملات میں امریکا، پاکستان، بھارت، ایران کوئی بھی مداخلت نہ کرے، البتہ علاقائی امن کی خاطر افہام و تفہیم سے حالات کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
د- پاکستان امریکی جنگ سے بے تعلقی اختیار کرنے کے ساتھ خود اپنے ملک میں ، طالبان اور جو بھی دوسرے عناصر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہیں، ان کو سیاسی عمل کے ذریعے سے دہشت گردی سے باز رکھنے کے عمل کا سنجیدگی سے آغاز کرے ۔ اس سلسلے میں ایک ہمہ جہتی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے جو پارلیمنٹ کے دیے ہوئے خطوط کی روشنی میں مذاکرات ، ترقی اور تعمیر نو اور ریاستی رٹ کی بحالی بذریعہ سدجارحیت (deterrence) پر مشتمل ہو۔ نیز فاٹا کے مخصوص حالات کی روشنی میں اس علاقے کو جلد از جلد ایک واضح پروگرام کے تحت ملک کے دستور ی نظام کا حصہ بنایا جائے اور جو کام ۶۶ سال سے معلق ہے اسے بلاتاخیر انجام دیا جائے، تا کہ وہاں حقیقی معنی میں حکومت کی رٹ قائم ہو سکے اور دستور اور قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو سکے ۔
ہ۔ امریکا اورناٹو کے بارے میں یہ موقف مضبوطی سے اختیار کیا جائے کہ ان کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بغیر افغانستان اور علاقے میں امن قٗائم نہیں ہو سکتا۔
میری نگاہ میں افغانستان اور خود پاکستان میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے ایک بڑے حصے سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا ہو جس کا امکان بظاہر کم ہی ہے ۔ امریکا کی پوری کوشش ہے کہ وہاں ایک خاص تعداد میں اس کی فوج موجود رہے ۔تین سے نو فوجی اڈے اس کے قبضے میں ہوں اور اس طرح وہ افغانستان، چین، پاکستان اور وسط ایشیا کے بارے میں جو بھی ایجنڈا رکھتا ہے اس کے حصول کے لیے ایشیا کے قلب میں بیٹھ کر اپنا کھیل کھیل سکے ۔ یہ بڑا خطرناک اور مسلسل تصادم کو جاری رکھنے والا راستہ ہے ۔ پھر امریکی افواج کے لیے جس استثنا (immunity) کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جو کرزئی حکومت تک امریکی افواج کو دینے کو تیار نہیں، اس کی موجودگی میں افغانستان میں امن کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر امریکی افواج وہاں رہتی ہیں تو جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی اور حالات مخدوش رہیں گے ۔ اور پاکستان بھی جنگ اور دہشت گردی کی اس دلدل سے نہ نکل سکے گا جس میں ۱۲ سال سے پھنسا ہوا ہے ۔
اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ افغانستان کے مستقبل کے سیاسی انتظام کا ہے۔قرائن یہ ہیں کہ اپریل کا الیکشن کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مستقبل کا سیاسی نقشہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہی صورت پذیر ہوگا، البتہ اس امر کا خدشہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو آج طے نہ کیا گیا تو خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک کا دور واپس آ سکتا ہے جو بڑا تباہ کن ہوگا۔ جنیوا معاہدے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں اصل بر سرِ جنگ قوتوں کو شامل کیے بغیر اوپر ہی اوپر معاملات طے کیے گئے تھے اور سب سے اہم مسئلے، یعنی روس کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک کا انتظام و انصرام کیا ہوگا کو نظرانداز کر دیا اور اس طرح خانہ جنگی اور مسلسل تصادم کو ملک کا مقدر بنا دیا گیا۔ اگر آج بھی اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خیر کی توقع نہیں ۔
مُلّا عمر کا عید الفطر کے موقعے پر بیان بہت اہم ہے جس میں اس نے مستقبل کے بارے میں چند اہم اشارے دیے ہیں یعنی :
۱- امریکی اور غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا۔
۲- ملک کے تمام عناصر کی مشاورت سے ایک ایسے نئے انتظام کا اہتمام، جس میں سب کی شمولیت ہو(inclusive)-
۳- تعلیم اور ملکی ترقی کے باب میں ایک مؤثر کوشش۔
۴- عام مسلمانوں اور معصوم انسانوں کا خون بہانے سے اجتناب۔
پاکستان میں امن کا بڑا انحصار پاکستان کے اندر دہشت گردی کے باب میں صحیح اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانے اور اس پر خلوص سے عمل کے ساتھ افغانستان میں افغان قومی مفاہمت پر مبنی سیاسی انتظام کے جڑ پکڑنے پر ہے ورنہ خدا نخواستہ افغانستان خانہ جنگی کی آماج گاہ بنا رہے گا تو پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور اس پر مستزاد افغانستان سے نقل مکانی کی نئی لہر کا بھی شدید خطرہ ہے ۔ اگر آج افغان مسئلے کا صحیح خطوط پر حل نہیں ہوگا تو پھر افغانستان اور پاکستان دونوں کو تباہی کے ایک نئے طوفان کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اس کی پیش بندی کا وقت آج ہے ، کل نہیں ہوگا۔
دہشت گردی اور فکری ٹکراؤ اور انتہاپسندی کی سوچ کا بھی ایک تعلق ضرور ہے لیکن ان دونوں اُمور کو مکمل طور پر گڈمڈ کر دینا بڑا خطرناک اور زمینی اور تاریخی حقائق کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اختلاف راے ، فکری مباحث، اسٹیٹس کو (status quo)کو چیلنج اور نئی راہوں کی تلاش انسانی زندگی کی ایک حقیقت اور ترقی کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ عمل ،فکری اختلاف ،ذہنی ٹکرائو اور خیالات و افکار کی جنگ کی صورت اختیار کرتا رہا ہے اور پھر اسی کش مکش اور تصادم سے نئے افکار اور نئے فکری سمجھوتے وجود میں آتے رہے ہیں۔ ہیگل اور مارکس کا تو فلسفۂ تاریخ ہی اس تصادم کے سہ رکنی سفر (tringular journey) پر ہے، یعنی تھیسس جس کا مقابلہ دوسری انتہا پر اینٹی تھیسس کرتی ہے اور پھر اِمتزاج (synthesis) پیدا ہوتا ہے جو مرور زمانہ سے ایک بار پھر تھیسس بن جاتا ہے اورپھر یہی عمل جاری رہتا ہے ۔ محض انتہاپسندی کا رونا رو کر فکری سفر کے اس پورے تناظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اسی طرح جب کسی معاشرے میں جبر اور تشددکا دور دورہ ہو ، جب عدل اور انصاف کا فقدان ہو، جب عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا گیا ہو ،خواہ بیرونی قبضے کی شکل میں یا اندرونی آمریت اور استحصالی نظام کی وجہ سے تو پھر ان حالات کا بالآخر جو رد عمل رُونما ہوتا ہے، اس میں تشد د کا کردار نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ اس پر تشدد رد عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے فکری میدان میں بھی نظریات جنم لیتے ہیں اور فکر اور عمل دونوں میدانوں میں اس سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ کسی خاص مذہب ، تہذیب، علاقے یا قوم سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہاہے ۔یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوئوں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے ۔ بلاشبہہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام و تفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان اُمور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصورِ جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولیٰ ہے ۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہاہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابAmerica's Deadliest Export: Democracy (اشاعت: وسط ۰۱۳ ۲ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت ، شدت پسندی، اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset)کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جوہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ: ’’جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے‘‘ اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور، وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پرموت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: "What is the difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission. The CIA man sits comfortably in room in Neveda and plays his holy video game, then goes out to a satisfying dinner while his victims lay dying. Mumtaz Qadri believes passionately in something called Paradise. The CIA men believe passionately in something called American Exceptionalism!. (page. 328)". ’’ممتاز قادری اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ قادری اپنا مقدس مشن پورا کر کے اطمینان سے مسکرا رہا تھا ۔ سی آئی اے کا اہل کار بھی نوادا میں اپنے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر اپنی مقدس وڈیو گیم کھیلتا ہے اور پھر اپنے اہداف کو مرتے ہوئے اطمینان سے دیکھتا ہے ۔ ممتاز قادری نہایت جذبے سے جس چیز کو جنت کہتا ہے ، اس پر یقین رکھتا ہے۔ سی آئی اے کے اہل کار بھی ایسے ہی جذبے سے جس چیز پر یقین رکھتے ہیں وہ جسے امریکی بالا دستی اور استثنائیت کہا جا تا ہے ‘‘۔
کاش! ہم اس پیچیدہ اور عالم گیر مسئلے کو تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے بجاے تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور اسباب تک پہنچ کر حالات کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ورنہ نتائج بگاڑ میں اضافے کے سوا اورکیا ہو سکتے ہیں؟
رہا معاملہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے فکری رجحانات اور سیاسی موقف کا تو وہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہیں اور ان پر دہشت گردی یا انتہاپسندانہ تصورات کے اثرات پڑنے کا خدشہ ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں بہت ہی متوازن سوچ کی علَم بردار ہیں ، انھوں نے تبدیلی کے لیے جمہوری راستے کو منتخب کیا ہے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ علماے کرام نے بالعموم اعتقادی اور سیاسی اُمور کے سلسلے میں قوت کے استعمال کو ناقابل بردا شت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں قرآن کا حکم بہت واضح ہے کہ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ)۔اسلام کی نگاہ میں خون ناحق ایک صریح ظلم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے خواہ اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے ، فرد، گروہ یا حکومت اور خواہ اس کے لیے کوئی بھی عنوان استعمال کیا جائے، مذہبی یا سیکولر۔
۲۰۱۴ء کیسا ہوگا؟ اس کا بڑا انحصار اس پر ہوگا کہ ہم ۲۰۱۴ء کے چیلنجوں کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کتنی حقیقت پسندی اور دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنی حکمت عملی کتنی صحیح بنیادوں پر مرتب کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں عملاً کتنے مخلص ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس پر عمل کے لیے دیانت اور اعلیٰ صلاحیت دونوں کا کس حد تک مظاہر ہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات میں بڑا دخل حالات کے صحیح تجزیے کے فقدان کے ساتھ قیادت کا عدم خلوص اور اچھی حکمرانی کی صلاحیت سے محرومی ہے ۔ اگر ہم اپنی پالیسیاں صحیح بنیادوں پر تشکیل دیں اور اپنی صلاحیتوں کو صحیح انداز میں بروے کار لائیں اور اچھی حکمرانی پر عمل پیرا ہوں، تو ۲۰۱۴ء ساری مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود بہتری کے سفر میں ایک سنگ میل بھی بن سکتا ہے اور یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۲۰۱۴ء ویسا ہوگا جیسا ہم اسے بنانے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ خود وہ کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں جو مطلوب ہے۔ صحیح پالیسی، قیادت کی یکسوئی اور اچھی حکمرانی کے ذریعے تشکیلِ نو کی سعی و جہد میں ہی نجات ہے اور غیروں کی ذہنی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے نکلے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے وسائل پر انحصار کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ لمحہ ایک بنیادی فیصلہ کرنے کا ہے اور اگر ہم نے اسے ضائع کردیا تو یہ بڑا قومی سانحہ ہوگا۔
دنیا کے انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپاکردہ انقلاب کو دیکھا جائے تو منصف مزاج انسان یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس قدر جامع، کلّی، ہمہ گیر اور ظاہر و باطن میں غالب و نافذ حضوؐر کا نافذ کردہ انقلاب ہے اس کے مقابلے میں دوسرے انقلابات قطعاً نامکمل اور ادھورے ہیں۔ دوسرے انقلابات تو بس زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر ایک گروہ کے ہاتھ سے دوسرے گروہ کے ہاتھ میں انتقالِ اقتدار کے عمل کا نام ہے۔
اگر کوئی انسان ۲۳سال پہلے عرب سے باہر چلا گیا ہوتا اور ۲۳سال بعد یکایک وہ مکہ، مدینہ اور ان علاقوں میں لوٹتا جہاں حضوؐر نے انقلاب برپا فرما دیا تھا، تو اسے اپنی آنکھوں پر اعتماد کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس کے لیے یہ باور کرنا دشوار ہوجاتا کہ وہ اسی علاقے اور انھی لوگوں کے درمیان واپس آیا ہے جنھیں چھوڑ کر وہ گیا تھا۔ اس مختصر عرصے میں جو زبردست تبدیلی فرد فرد کے اخلاق، اعمال ، گفتار، رفتار ، کردار اور معاملات میں آگئی تھی، اسے صرف معجزاتی قلب ِ ماہیت ہی کہا جاسکتا ہے۔ عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے، گلیاں، بازار، مجالس اور کاروبار ہرچیز ہی یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ان کے لہجے، ان کے معمولات، ان کی دل چسپیاں، ان کے ذوق و شوق اور مصروفیات سبھی کچھ بدل گیا تھا۔ مسجد کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آگیا تھا جو ہرمحلے اور ہربستی میں موجود تھا اور جس میں لوگ علمِ دین حاصل کرتے تھے۔ خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کے چرچے، قرأتِ قرآن کی مجالس، علمی مشاغل کے مباحثے، جنگ و جدل کے بجاے جہاد فی سبیل اللہ کی باتیں، گپ بازی کے بجاے اوراد و وظائف، تضیعِ اوقات کے بجاے پانچ وقت کی نمازیں اور ان کے ساتھ وضو اور پاکیزہ مجالس کا اہتمام، جمعہ کو ہفتہ وار اجتماعات اور ملکی اور ملّی مسائل پر کھلے مباحثے۔ ناپ تول میں عدل، اوزان میں انصاف، باہمی انسانوں میں برابری اور مساوات، نہ نسل کا فخر اور نہ قبیلے کا زعم، نہ زبان کی برتری کے دعوے اور نہ رنگ کی سفیدی کا غرور۔ سارے انسان خدا کی مخلوق، ساری خدائی خدا کا قبیلہ، سارے انسان خدا کے بندے اور ان سب کا تنہا وہی ایک معبود جس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔
غلط بیانی اور جھوٹ کے بجاے ہر طرف صداقت شعاری کا سکّہ رواں، وعدے کی پابندی، لین دین کا کھراپن، خدا ترسی اور خدا خوفی کی کیفیت، نہ فحش باتیں اور نہ فحش کاری کے اڈے، نہ بے پردگی اور نہ بے حیائی، نہ مجالس میں بیہودہ گوئی اور نہ ایران و توران کی بے ہودہ داستانیں اور یاوہ گویاں، نہ باپ دادا پر فخر کے قصے اور نہ اپنی بڑائی کی ڈینگیں۔ سب سے بڑا نام صرف اللہ کا اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی پیروی کا اہتمام ہی سب سے اعلیٰ طرزِعمل قرار پایا۔
ہر طرف نظم و ضبط کا اہتمام، عدالتیں موجود لیکن جرائم نابود۔ اور اگر کسی سے کوئی خطا ہوجائے تو متعلقہ فریق سے معافی حاصل کرنے میں سبقت یا عدالت کے سامنے خود اعترافِ خطا۔ عدالتیں سب کے لیے مساوی، خلیفہ سے لے کر عام انسان تک سب برابر، کسی کے درمیان کوئی امتیاز موجود نہیں۔
دکان دار خوفِ خدا سے لرزاں و ترساں، ناجائز نفع اندوزی کا تصور بھی غائب، ناقص مال دینے کا سوال ہی نہیں۔ اگر کسی شے کا نقص گاہک سے پوشیدہ رہ گیا تو اس کے گھر تک پہنچ کر نقص کی وضاحت اور اس کی نسبت سے قیمت میں کمی یا مال کی واپسی۔ بزرگوں میں شفقت اور تعلیم و تربیت کا جذبہ، چھوٹوں میں ادب و احترام اور نصیحت حاصل کرنے کا احساس۔ آجر مزدورسے زیادہ حسّاس کہ اس کا حق اس کے ذمے رہنے نہ پائے اور اجیر آجر سے زیادہ حسّاس کہ اُجرت کے مطابق کام سرانجام پائے۔ سپاہی جہادفی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار اور اس کے لیے دین کی سربلندی کے لیے خدا کی راہ میں لڑنا ، دنیا و مافیہا کی نعمتوں سے بہتر۔ ہمسایے میں یہ احساس زندہ و بیدار کہ اس کا ہمسایہ بھوکا نہ سونے پائے اور اس کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ غرض فرد فرد سر سے پاتک اور ظاہرسے باطن تک اس طرح بدل گیا کہ جیسے پہلے انسانوں کی آبادی وہاں سے منتقل کرکے کوئی دوسری انسانی آبادی وہاں لاکر بسادی گئی ہو۔ ہرانسان احساسِ ذمہ داری، خدا کے سامنے جواب دہی ، حق شناسی اور ادایگی فرض سے سرشار اور پورا معاشرہ اسی کیفیت سے معمور۔
پوری جماعت اس اصول پر عمل پیرا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ،اور جماعت کا فرد فرد ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً کی تصویر، اپنی زندگی کے گوشے گوشے کا نگراں کہ وہ دین سے باہر رہنے نہ پائے۔ شراب کا حکم نازل ہوا تو چند گھنٹے کے اندر پوری مملکت میں ظاہروباطن نافذ اور ساری سلطنت شراب سے ایسی پاک ہوجائے کہ پھر وفادار مسلمان کے لیے شراب کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔پردے کا حکم نازل ہو تو چند گھنٹے کے اندر اندر ہر ہربالغ عورت مستور ہوجائے۔ نبیؐ کی آواز سے بلند تر آواز کرنے کے نتیجے میں اعمال ضائع ہونے کا خطرہ یاد دلایا جائے تو بڑے بڑے بلندآواز صحابہؓ سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے اور جن کی فطری آواز بلند ہو وہ روئیں کہ ہمار ے اعمال ضائع نہ ہوگئے ہوں۔ خلافت کے لیے جوڑتوڑ اور سازش تو دُور کی بات ہے۔ ابوبکرؓ صدیق کو خلیفہ بنا ڈالا گیا تو وہ روتے تھے کہ کاش اس ذمہ داری کے مقابلے میں مَیں پرندہ ہوتا کہ آخرت میں اُمت ِ محمدی کی جواب دہی مجھ پر نہ ہوتی۔ میں گھاس کا تنکاہوتا کہ تنور میں جلایا جاتا اور خدا کے ہاں بازپُرس سے بچ جاتا۔ خلیفہ کو پانی طلب کرنے پر کسی نے شہد پیش کردیا تو اس بات پر روپڑے کہ کہیں دنیا مجھ سے نہ لپٹ جائے۔ امیرالمومنینؓ کو نفس کی بڑائی کا ڈر ہوا تو منبر پر چڑھ گئے اور کہا:’’عمر وہی تو ہے جو اپنی خالہ کی بکریاں مکہ کی وادی میں چرایا کرتا تھا‘‘۔ حضرت علیؓ ڈاڑھی ہاتھ میں لے کر رویا کرتے اور کہتے کہ: ’’اے دنیا!میں تجھے طلاق دے چکا، مجھ سے دُور رہ، تیرا آغاز شیریں اور تیرا انجام حسرت و یاس ہے‘‘۔
غرض وہ انقلاب جو ۲۳سال میں برپا ہوا، جس کے لیے حضور اکرمؐ نے آٹھ سال کی مدت میں ۲۷غزوات کیے۔ گویا تقریباً ہرسال میں تین بار جہاد اور جس کے لیے حضوؐر نے اتنی سی مدت میں ۵۵ جہادی لشکر اپنے ساتھیوں کی سرکردگی میں روانہ کیے۔ جس انقلاب کے دوران حضوؐر ہرلمحہ مستعد اور تیار رہے، جس میں مدنی زندگی کی کش مکشِ جہاد میں ہرچند دن کے بعد ایک مہم لازماً درپیش رہی اور یہ آٹھ سالہ زندگی پوری جنگی کیمپ کی سی زندگی بن کر گزری۔ اخلاق و اعمال و کردار کا، عادات و اطوار کا، ظاہروباطن کا، معمولاتِ زندگی اور پوری انسانی قلب ِ ماہیت کا یہ انقلاب ایسی ہی زندگی میں رُونما ہوا جس میں آٹھ سال کے پورے عرصے میں ہر۳۵دن کے بعد کسی نہ کسی دشمن کی طرف سے کوئی نہ کوئی جنگی مہم درپیش ہوتی تھی۔ دن کو جنگی تیاریاں اور لشکروں کی روانگی اور راتوں کو چوکی پہرے اور مشورے ہوتے تھے۔ ان حالات میں اللہ کی اس زمین پر حضوراکرمؐ نے اللہ تعالیٰ کی خالص تائید اور نصرت سے ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔
انسان سوچتا ہے کہ جس آٹھ سالہ مہماتی زندگی میں تقریباً ہرمہینے میں ایک جنگ درپیش ہوتی ہو اس میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہوگا، لیکن مؤرخین نے حضور اکرمؐ کے ساتھیوں اور فریق مخالف کے اس جنگی انقلاب کا افرادی نقصان کے لحاظ سے جو نقشہ پیش کیا ہے [اس سے یہ ثابت ہوتا ہے] کہ اس حیرت انگیز اسلامی انقلاب میں کل انسان جو کام آئے ہیں وہ صرف ۹۱۸ ہیں.... کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیرخونی انقلاب (bloodless revolution) بھی آج تک دنیا میں کبھی کوئی برپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہروباطن ہی بدل جائے، معاشرہ سر سے پا تک تبدیل ہوجائے اور اس کی قدریں تک بدل جائیں۔ نظامِ مملکت اور نظامِ معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائیں اور ۸۲جنگوں میں صرف ۹۱۸؍افراد کام آئیں۔
اس انقلاب نے انسانی تاریخ پر وہ خوش گوار اثر ڈالا ہے کہ پھر اس کے بعد ہی انسان سمجھ سکا ہے کہ وہ انسان اور اشرف المخلوقات ہے اور زمین پر وہ ایک ذمہ دار مخلوق اور خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کے بعد ہی انسان کو کائنات کی حقیقت سے آگاہی ہوئی ہے اور اس نے کائنات اور اس کی ماہیت اور اس کے مالہ وما علیہ پر غور کرنا اور اسرارِ فطرت کے انکشاف اور علومِ طبعی کے رُموز کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے حضوؐر نے جو نظام قائم فرمایا اس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی انسانی سینوں میں گونجتی ہیں۔ اس کے دیے ہوئے اخلاق، اس کا عطا کردہ تہذیب و تمدن، اس کی فراہم کردہ اخلاقی قدریں، انسان کے لیے اس کا دیا ہوا نظامِ زندگی فی الحقیقت ہلاکت خیز، ہتھیاروں کی بہتات کے درمیان اجررحمت کا سایہ ہے۔ یہ نظام لرزاں و ترساں انسانیت کے لیے واحد پناہ گاہ، انسانیت کے لیے فخرومباحات کا واحد ذریعہ، انسان کا زمین پر واحد قیمتی سرمایہ اور شرفِ انسانیت کے ماتھے پر جھومر ہے۔ صرف یہی ایک نظام ہے جو اپنی ساری عملی تفصیلات کے ساتھ اس طرح موجود ہے کہ اسے سرعام پڑے ہوئے خزانے کی طرح ہروقت اُٹھا کر کاروبارِ زندگی میں لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ہردم زندہ، پایندہ اور تابندہ تر ہے اور انسانیت کے جدید ترین مسائل آج بھی اسی طرح حل کرسکتا ہے جس طرح اس نے اپنی آمد پر حل کردیے تھے....اس انقلاب نے انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنایا اور عمل و کردار میں اسے فرشتہ سیرت بنادیا اور یہ کام صرف ۲۳سال کی مدت میں سرانجام پایا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے والی سراپا رحمت ہستی کو اب ہم خاتم النبیینؐ اور رحمۃ للعالمینؐ نہ کہیں تو پھر کیا کہیں! (رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب، ص ۶۵۳-۶۶۰)
انسان بنیادی طور پر دو ایسی ضروریات کا محتاج ہے جن سے وہ ایک لمحے کے لیے بھی صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ ایک طرف اسے ان اشیا و وسائل کی ضرورت درپیش ہے جو اس کی مادی احتیاجات کو پورا کریں، جن کے ذریعے وہ اپنے جسم اور روح کے رشتے کو قائم و استوار کرے اور بقاے حیات کے مادی تقاضوں کو پورا کرے۔ دوسری طرف وہ اس ہدایت اور رہنمائی کا محتاج ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند بنیادوں پر کرسکے اور اس طرح انسانیت کے حقیقی مقاصد کی بوجہِ احسن تکمیل کرسکے۔
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ِ عامہ کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرے۔ پہلی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس نے زمین و آسمان میں وسائلِ معیشت کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ودیعت کر دیا ہے اور انسان ان وسائل کے ذریعے اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ پوری کائنات انسان کے لیے اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہے اور اپنے سینے سے وہ وسائل اُگل رہی ہے جو انسانیت کی بے شمار اور ہر آن بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو بحسن و خوبی پورا کررہے ہیں ؎
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اِک شے سے پیدا رمِ زندگی
انسان کی دوسری بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور اپنے نبی مبعوث فرمائے تاکہ وہ انسان کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کرائیں۔ انھیں زندگی کے معنی اور اس کے مقاصد سے آشنا کریں، انھیں جینے کے طریقے سکھائیں اور اُن اصولِ تمدن کی تعلیم دیں جو زندگی کو اس کے اصل مقاصد سے ہم کنار کردیں، اور خدا کی زمین پر ایک صحت مند نظام قائم کریں جس میں زمین اپنی نعمتیں اُگل دے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرنے لگے۔
انبیا ؑ کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور بندے کے تعلق کو توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کی بنیادوں پر استوار کرائیں اور دعوتِ دین اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے تاریخ کی رو کو موڑ دیں اور الہامی ہدایت کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر کریں۔ سورئہ حدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسول ؑ واضح نشانیاں دے کر بھیجے اور ان کے ساتھ قرآن (یعنی قانونِ حیات) اور میزانِ عدل اُتاری تاکہ انسانوں پر انصاف قائم کریں۔
سورئہ صف میں رب السمٰوات والارض کا ارشاد ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ(الصف ۶۱:۹) وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام نظام ہاے زندگی پر غالب کردے۔
یہ ہے انبیا ؑ کا مشن اور یہی وجہ ہے کہ نبی کی جو حیثیت اس کی تمام حیثیتوں سے نمایاں اور ممتاز ہے وہ داعی الی الحق کی حیثیت ہے۔ اسلام کا اصل مقصد انسانی زندگی کو ایک خاص نہج پر چلانا ہے۔ اسلام کوئی پوجاپاٹ کا جامد نظام نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک تحریکِ فکروعمل ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہدایت الٰہی کا پابند بناتی ہے۔ اسلام ایک دعوت ہے جو انسانوں کو خدا کے دین کی طرف بلاتی اور ان کی زندگیوں کو نورِ الٰہی سے منور کرتی ہے۔ اسلام ایک مکمل دین، ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور اس کی تمام وسعتوں پر حاکمیت ِ الٰہی قائم کرنے کا دعوے دار ہے۔ انبیا ؑ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جو اس دعوت کے داعی اور اس تحریک کے قائدین ہیں اور جن کی رہنمائی میں یہ اصلاحی جدوجہد برپا ہوئی اور جس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیـّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعہ ۶۲:۲) وہی تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے (یعنی حضرت محمدؐ کو) پیغمبر بناکر بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے، ان کا تزکیہ کرتے اور خدا کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ صریح گمراہی میں تھے۔
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط (المائدہ ۵:۶۷) اے رسولؐ، جو حق تم پر تمھارے رب کی جانب سے اُتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ط وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج (شورٰی۴۲:۱۵) پس اسی راہ کی دعوت دو اور اس پر استقامت کے ساتھ جمے رہو جس طرح کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے۔
ان آیاتِ ربانی سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی حیثیت داعی کی حیثیت ہے۔ آپ کا اصل مشن یہ تھا کہ خدا کی ہدایت لوگوں تک پہنچا دیں، انھیں خدا کی کتاب اور حکمت و دانش کی تعلیم دیں اور انھیں دعوت دیں کہ وہ دین کو اپنی پوری زندگی پر غالب کردیں۔ پھر جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہیں انھیں ایک تحریک اور ایک اُمت میں منظم کریں، ان کے اخلاق کا تزکیہ کریں، ان میں کردار کے جوہر پیدا کریں اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اپنی قیادت و رہنمائی میں وہ تہذیب و تمدن قائم کریں جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام فکرونظر اور علم و عمل میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا داعی ہے۔ وہ انسان کو غیراللہ کی ہرغلامی سے نجات دلا کر اس کی زندگی کو خدا کے لیے خالص کرنا چاہتا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ زندگی کے ہرشعبے پر، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، سماجی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی، قومی ہو یا بین الاقوامی، خدا کی حاکمیت قائم کرو۔ ہراطاعت پر خدا کی اطاعت اور ہرقانون پر خدا کا قانون مقدم ہے ؎
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حاکمیت ِ الٰہی کی دعوت تھی اور آپؐ کی سیرتِ پاک کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ نے دعوتِ اسلامی کے کام کو باقی تمام کاموں پر مقدم رکھا اور ہر دور اور ہرحالت میں اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ آپؐ اوّل بھی داعی تھے اور آخر بھی داعی__ اور صرف داعی الی اللہ!
آیئے! آپؐ کی دعوتی زندگی کے چند اہم پہلوئوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ادا کرنے کی کوشش کرسکیں۔ اس لیے کہ داعی الی الحق کی جو ذمہ داری آپؐ کے مبارک شانوں پر تھی، اب وہ پوری اُمت مسلمہ کے کندھوں پر ہے:
لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
یعنی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی شہادت اور گواہی دی اب اسی طرح پوری اُمت کو تمام انسانیت کے سامنے اس حق کی شہادت دینی ہے۔
۱- آپؐ کی دعوتی زندگی کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جو تعلیم آپؐ نے دنیا کو دی اس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے آپؐ خود تھے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسولؐ کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔
آپؐ اس ہدایت پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور اپنی زندگی کو سب سے پہلے اس کے تابع کرنے والے تھے۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ’’میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں‘‘۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ’’میں سب سے پہلا مسلم ہوں‘‘۔
جو دعوت آپؐ نے دی آپؐ کی پوری زندگی اس کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، آپؐ کی زندگی سراپا قرآن تھی۔ دنیا میں بے شمار مُصلح اور فلسفی آئے جو گفتار کے غازی تو ضرورتھے مگر کردار کے غازی نہ تھے۔ جو تعلیم انھوں نے دی وہ خود اس پر عامل نہ تھے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپؐ نے اپنی دعوت کے ہرپہلو پر خود عمل کرکے دکھا دیا اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ پیش فرمایا، تاکہ لوگ صرف آپؐ کے ارشادات ہی سے ہدایت حاصل نہ کریں بلکہ آپؐ کے افعال و اعمال کی بھی پیروی کریں اور زندگی کا کوئی گوشہ اور قلب و دماغ کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے جس پر آپؐ کے سیرت و کردار کی گہری چھاپ موجود نہ ہو۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔
۲- دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ آپؐ نے جزوی اصلاح کے مقابلے میں کلّی انقلاب کی جدوجہد کی۔ آپؐ کا مقصد چند جزئیات میں تبدیلی پیدا کرنا نہ تھا بلکہ پوری زندگی کو ہدایت ِ الٰہی کے مطابق استوار کرنا تھا۔ آپؐ نے لوگوں کے خیالات اور نظریات کی اصلاح کی اور انھیں ایک ایمان دار جوشِ زندگی بخشا۔ آپؐ نے ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا اور ایک نیا انسان پیدا کیا۔ آپؐ نے تمدن و معاشرت کی اصلاح فرمائی اور ایک نئی سوسائٹی کی تعمیر کی۔ آپؐ نے طاغوت کو زندگی کے ہرمیدان میں شکست فاش دی اور پھر وہاں حاکمیت ِ الٰہی کے تخت بچھائے۔ یہ ایک ہمہ گیر انقلاب تھا اور انسانی تاریخ کا وہ واحد انقلاب ہے جس نے انسانیت کی پوری زندگی کی اصلاح و تعمیر کی۔
پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات کو دین کی فتح و کامرانی اور اس کی سربلندی پر ہمیشہ گہرا اور غیرمتزلزل یقین رہا۔ عین اُن پُرآشوب حالات میں جب مسلمانوں کی کشتی مخالفتوں کے طوفانوں میں گِھری ہوئی تھی اور دُور دُور ساحل کا کہیں نام و نشان نہ ملتا تھا اور روشنی کی کوئی رمق موجود نہ تھی، آپؐ اُس وقت بھی قطعاً مایوس نہ ہوئے۔
مکّی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ مسلمان قریش کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہرمسلمان کی جان خطرے میں تھی۔ صبح ہوتی تھی شام کا بھروسا نہ تھا اور شام ہوتی تھی تو صبح کا اعتبار نہ تھا۔ بظاہر اسلام کا کوئی مستقبل نظر نہ آرہا تھا اور جو دن گزرتا تھا غنیمت معلوم ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں ایک مظلوم مسلمان حضرت خبابؓ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ بیت اللہ کے سامنے بیٹھے تھے۔ حضرت خبابؓ نے کہا: یارسولؐ اللہ! اب تو پانی سر سے گزرا جارہا ہے،آپؐ ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آنحضرتؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا: بس خبابؓ! گھبرا گئے؟ پہلی اُمتوں میں تو یہ ہوا کہ مومن کو گڑھا کھود کر گاڑدیا گیا اور سر پر آرا چلایا گیا یہاں تک کہ اس کے بدن کے دو ٹکڑے ہوکر گرگئے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا گوشت ہڈیوں سے جدا کیا گیا مگر اُس کے پاے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ خدا کی قسم! اللہ اپنے دین کو مکمل کرے گا یہاں تک کہ (اس دین کی عمومیت اور غلبے) کا یہ حال ہوگا کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک سیکڑوں میل کی مسافت طے کرتا چلا جائے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا کھٹکا نہ ہوگا سواے اس کے کہ اس کو بھیڑیئے سے خطرہ ہو کہ وہ اس کی بکریوں پر حملہ کرے۔ لیکن تم جلدی بہت کرتے ہو۔
یہ واقعہ کئی حیثیت سے بڑا اہم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو اپنی دعوت پر کتنا اعتماد ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل اور آزمایش کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی عمومیت اور غلبے کا مقصد اپنے تمام تضمنات کے ساتھ اس کے سامنے اس وقت بھی تھا جب غلبہ و حکمرانی بظاہر ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی استقامت کے اس مقام پر ہوتا ہے جہاں سے کوئی چیز اس کے ارادے کو متزلزل نہیں کرسکتی۔
۳- تیسری چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ آپؐ نے بعثت سے لے کر اپنی آخری سانس تک دین کی دعوت کو پھیلانے کی کوشش اس انہماک اور تندہی سے کی کہ اس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؐ کا ہرلمحہ اسی فکر میں بسر ہوتا تھا کہ کس طرح خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک پہنچائیں اور ان کو جہنم کی آگ اور دنیا کے خسران سے بچائیں۔
یہ فکر آپؐ کو اس درجہ دامن گیر رہتی تھی کہ ایک مرتبہ آپؐ دن بھر کی تبلیغی جدوجہد اور دشمنوں کی اذیت رسانی سے چُور ہوکر رات کو تھکے ہارے گھر واپس آئے۔ بدن بخار سے تپ رہا تھا اور آپؐ چند منٹ کے لیے لیٹ گئے۔ اتنے میں اطلاع ملی کہ مکہ سے چند میل پر ایک پہاڑی کے نیچے ایک قافلہ آکر رُکا ہے۔ یہ سنتے ہی آپؐ فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان تک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ قافلے والوں سے کل صبح مل لیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا معلوم صبح تک مجھے موت آجائے یا وہ قافلہ راتوں رات کہیں اور چلاجائے اور اس صورت میں میرا فرض نامکمل رہ جائے___ دیکھیے دعوتِ اسلامی کے کام کو حضوؐر کتنی اہمیت دیتے ہیں اور فرض کی بجاآوری کو کیا مقام آپؐ نے دیا۔ فرض شناسی کی یہ مثال ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔
۴- پھر آپؐ کی دعوتی زندگی کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو ہے کہ آپؐ نے ہرمرحلے اور ہردور کے حالات کے مطابق دعوتِ دین کی راہیں نکالیں اور ہرزمانے میں نہایت حکمت و دانش مندی کے ساتھ کلمۂ حق کا اظہار کیا اور بالآخر دینِ حق کو قائم کیا۔ بعثت کے فوراً بعد خاموشی کے ساتھ آپؐ نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا اور قریبی حلقوں میں دین کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ بعثت کے تیسرے سال جب دعوتِ عام کی اجازت ملی تو آپؐ نے تمام قریش کو فاران پر جمع کیا اور اسلام کی دعوت ان تک پہنچائی۔ پھر معززین قبیلہ کو خصوصی دعوت دی اور کھانے پر بلاکر ان کو خدا کے کلام سے آگاہ کیا۔ آپؐ ایک ایک قبیلے، ایک ایک خاندان، ایک ایک گروہ اور ایک ایک فرد تک پہنچے اور ان کو اسلام سے روشناس کرایا۔ نجی گفتگوئیں، مکالمات و مذاکرات، تقریرو وعظ، الغرض ہرممکن طریق سے اسلامی تعلیمات اُن کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ جب تک دعوت کی راہیں کھلی رہیں آپؐ برابر حق کی طرف برملا بلاتے رہے اور جب کھلے بندوں تبلیغ کا امکان نہ رہا تو خاموشی سے نجی ملاقاتوں کے ذریعے اپنے مشن کی تبلیغ کرتے رہے۔ جب آپؐ کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تو آپؐ خاموشی کے ساتھ جن جن مقامات پر جاسکتے تھے، اس زمانے میں بھی ان مقامات پر دعوت پہنچانے سے آپؐ نہ رُکے۔ پھر جب مکہ میں دعوت کے مزید پھیلانے کا امکان نہ رہا تو آپؐ نے مکہ سے باہر جاکر دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا۔ میلوں اور جلسوں کے موقع پر باہر کے قبائل سے ملے، طائف کا سفر کیا اور دوسرے بیرونی قبائل کو اپنی دعوت کی طرف بلایا حتیٰ کہ بیرونی قبائل میں اس کوشش ہی کے نتیجے میں اسلامی دعوت کا نیا مرکز مل گیا، اور اہلِ مکہ کی سختی اور ان کا تشدد ذریعہ بنے دین حق کے نئے مرکز___ مدینۃ الرسولؐ ___کے قیام اور اس کے ذریعے بالآخر دعوتِ اسلامی کے غلبے کا!
پھر مدینہ میں جب اسلام کو قوت و اقتدار حاصل ہوگیا تو آپؐ نے ریاست کی تمام طاقتیں دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے وقف کردیں۔ ایک طرف مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی اور دوسری طرف اس ریاست کے ذریعے تمام عرب اور بالآخر پوری دنیا کو اسلام کی دعوت دی۔
۵- پھر آپؐ کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کا لازمی تقاضا ہے کہ ہرکونے اور جہت سے اس کی مخالفت کی جائے اور مخالفت کی نت نئی صورتیں نکالی جائیں۔ آپؐ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپؐ کو سبّ و شتم کا نشانہ بنایا گیا۔ آپؐ کے گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا۔ عین حالت ِسجدہ میں آپؐ کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھڑی تک رکھ دی گئی۔آپؐ کے ساتھیوں کو آگ پر لٹایا گیا، ریت پر گھسیٹا گیا، پتھر کی سلوں کے نیچے دبایا گیا، اتنا مارا گیا کہ وہ شہید ہوگئے__لیکن ہرحال میں آپؐ ثابت قدم رہے، آپؐ نے دعوتِ اسلامی کا کام جاری رکھا اور راہ کی کوئی مشکل اور مصیبتوں کا کوئی طوفان آپؐ کی پیش قدمی کو نہ روک سکا۔ اسی طرح کوئی لالچ اور کوئی ترغیب خواہ وہ دولت کی ہو یا سرداری کی یا بادشاہت کی، آپؐ کو اپنے مشن سے ہٹا نہ سکی اور ہرحالت میں آپؐ نے کہا تو یہی کہا:
خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں تبلیغ دین کا کام ترک کردوں تو مجھے منظور نہیں۔ اگر اس راہ میں مجھے ہلاکت نظر آئے تب بھی مَیں پیچھے نہ لوٹوں گا__ حتیٰ کہ یہ مشن کامیاب ہو یا مَیں اس میں کام آجائوں…
یہ تھا داعی کا عزم! اور سچ ہے کہ داعی اگر اپنے مشن میں سچا اور اپنی دھن کا پکا ہو تو انھی مشکلات سے کامیابی کی راہیں پھوٹیں گی اور دینِ حق فاتح و کامران ہوگا۔ جس طرح کلی کی موت ہی کے بعد پھول خندہ زن ہوسکتا ہے، اور جس طرح آگ کے جلے بغیر روشنی اور حرارت ممکن نہیں___ اسی طرح آزمایش اور ابتلا کے بغیر دعوتِ حق کی کامیابی کا امکان نہیں۔ فتح مکہ کی منزل شعب ابی طالب کی گرفتاری، طائف کی ہزیمت اور بدر و اُحد کی خوں پاشی کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے اور یہی فطرت کا قانون ہے۔
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلً ا o (الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم خدا کے طریقے میں تبدیلی نہ پائو گے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۲ء)
ذرائع ابلاغ یا پروپیگنڈے کی تعریف میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ دوسروں پر پروپیگنڈے کے ذریعے قابو پانا تاکہ ان کے طرزِ عمل اور رویوں کو تبدیل کیا جاسکے۔ پروپیگنڈے میں متعین افکار و خیالات کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ دوسروں کی آرا یارویے یا دونوں کو متاثر کیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جو پروپیگنڈا ہوتا ہے، اس میں کسی خاص حکومت کی پالیسی اور نقطۂ نظر کو اداروں یا افراد اور ملک کے شہریوں تک منتقل کیا جاتا ہے قطع نظر اس کے کہ پروپیگنڈے کا کام جو لوگ کرتے ہیں ان کی قومیت کیا ہے۔میڈیا کے ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتوں کی خارجہ پالیسی کے اجزاے ترکیبی میں ذرائع ابلاغ کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جو عناصر خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں تاریخی پس منظر، جغرافیائی محل وقوع، آبادی، اقتصادی اور فوجی قوت کے ساتھ ساتھ نظریاتی عوامل و محرکات شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح اس ملک کا سیاسی نظام اور انتظامی صلاحیت بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر خارجہ پایسی کی تنفیذ کے کلیدی وسیلے: میڈیا کا سہارا لے کر فوجی، سیاسی، اقتصادی، نیز مقامی حالات کو سامنے رکھ کر پروپیگنڈا اس طرح کیا جاتا ہے کہ غیر حقیقی افکار و خیالات اور باطل عقائد و نظریات کو غیروں کے دل و دماغ میں اچھی طرح راسخ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ان سے اسی وقت کام لیا جاتا ہے جب کوئی بحران سامنے آتا ہے۔ ایسے موقع پر اس ملک کی فوجی، اقتصادی اور سیاسی قوت اور اس ملک کی راے عامہ کی نفسیاتی کیفیت و خصوصیت، نیز پروپیگنڈے کے وسائل، یہ سب مل کر ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پروپیگنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے طاقت ور سیاسی پارٹیوں، ان کے قائدین، ملک کے دانش وروں اور عوام سے رابطہ اور اس ملک کی مقتدر اور نمایندہ شخصیتوں سے تعلق ضروری ہوتا ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے صدیوں سے مسلم دنیا کے خلاف ہوتے آئے ہیں۔ درجِ ذیل رپورٹیں بھی اسی طرح کے پروپیگنڈوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔
l Civil Democratic Islam, Partners, Resources and Strategies اس رپورٹ کو مشہور مغربی دانش گاہ رینڈکارپوریشن کے قومی سلامتی کے شعبے کے Cheryl Benard٭نامی مغربی دانش ور نے مرتب کیا تھا۔ اس کے مرتبین میں آٹھ افراد شامل تھے جن میں افغانستان کے زملے خلیل زاد بھی شریک تھے جوامریکا کے پالیسی سازوں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے، تاکہ اپنے اقتدار اور اپنے تشخص کو اُبھار سکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو، یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟
رپورٹ کہتی ہے: اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں مسلمانوں کو چار بڑے بڑے زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہ اسلام کو ایک نظامِ زندگی ، ضابطہ، نظریہ اور طرزِ زندگی یا Life Styleسمجھتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی، فردکی ذاتی زندگی اور ریاست کے معاملات، جاے نما ز اور مسجد سے لے کر ریاستی قانون ، عدالت ، معیشت اور معاشرت سب میں اسلام کو بالادست سمجھتے ہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنّفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔
روایتی ،خانقاہی ،صوفی جوکہ خود تو مذہبی لوگ ہوتے ہیں مگر حکومت اور اجتماعی معاملات کے لیے ذاتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ دین اور دنیا کو الگ خانوں میں بانٹنے والے تبدیلی، تجرداور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کو مغرب کی لادین تہذیب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اس میں ہر قسم کی تبدیلیاں اجتہاد کے نام پر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری، Global Community قرار دیتی ہے) سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجود اس کے، کہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔
چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینوں (Secularists) کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں، اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریتوں کے طورطریق پر چلانا چاہتے ہیں۔
دراصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی، اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں، خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں، جدیدیت پسندوں اور لادینوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔
اس مجموعی طرزِ فکر کی تقویت کے لیے کچھ اضافی براہِ راست سرگرمیاں ضروری ہوں گی جیسی کہ ذیل میں درج ہیں:
اس حکمت عملی کے بنیادی نکات یہ بیان کیے گئے ہیں:
۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کوانسانی حقوق کے چیمپئن کے طورپر سامنے لایا جائے۔
۲- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدارکرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت اُبھار سکتی ہیں۔
۳- مغربی اسلام، جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے، اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying) میں مدد دی جائے۔
۴- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیادپرست قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر اخلاقی اور سطحیت کے الزامات، بنیاد پرستوں کا وتیرہ ہے، جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔
۵- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں، عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتے ہیں۔
۶- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے، اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار نائن الیون کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔
۷- خوش حال و معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔
۸- تصوف کے مقام و مرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔
۹- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کردیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جاسکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔
رینڈکارپوریشن نے اپنے لائحہ عمل میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ جدت پسند حضرات کو سب سے زیادہ سپورٹ دی جائے۔ ان کا علمی کام ارزاں نرخوں پر تقسیم کیا جائے۔ جدت پسندوں کو نوجوانوں اور عام افراد کے لیے لکھنے پر راغب کیا جائے۔ ان کے نظریات کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔ ان کو اپنے نظریات کے اظہار کے لیے پبلک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ ان کے ذریعے اسلام پرستوں اور بنیاد پرستوں کی اسلامی تشریحات کو چیلنج کیا جائے اور ان میں ضروری ترامیم کروائی جائیں۔ نوجوانوں کے سامنے لبرل کلچر کو متبادل کلچر کے طور پر پیش کیا جائے۔
رپورٹ میں ایک اور لائحہ عمل تحریر ہے وہ یہ کہ بنیاد پرستوںکو ہر طرف سے گھیرا جائے اور معاشرے میں ان کی عزت اور مقام کو زک پہنچائی جائے۔ مثلاً ان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا جائے، دہشت گرد گروہوں سے ان کے تعلقات کو ثابت کیا جائے، انھیں لڑاکا، جنگجو اور ہنگامہ پسند افراد کے طور پر سامنے لایا جائے۔ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ وہ اچھے منتظم نہیں بن سکتے۔ نوجوانوں کو ان سے متنفر کیا جائے۔ میڈیا کے ذریعے ان کے کردار کو زیرِ بحث لایا جائے، انھیں معاشرتی لحاظ سے کم تر درجے کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان کی تقسیم در تقسیم کو سپورٹ کیا جائے اور اس بات کو ثابت کیا جائے کہ ان میں (بقول رینڈ رپورٹ) منافقت، کرپشن اور گمراہ کن عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔
l Building Moderate Muslim Network: رینڈ کارپوریشن کی ۲۰۰۷ء کے وسط میں یہ ایک اور رپورٹ٭ منظر عام پر آئی۔ اس رپورٹ میں امریکی تھنک ٹینک نے پانچ ایسے شعبے دریافت کیے جو ان کے ایجنڈے کو مسلم دنیا میں آگے بڑھا سکتے ہیں:
اس کام کے لیے چار سیکٹر طے کیے گئے۔ سب سے پہلے معاشرے میں جمہوری تعلیمات کو اسلامی تعلیمات کے طور پر فروغ دینا۔ دوسرا میڈیا کے ذریعے جمہوریت مخالف، رجعت پسند مذہبی طبقے سے لڑائی لڑی جائے۔ تیسرا سیکٹر جنسی مساوات، اور چوتھا سیکٹر ان کی پالیسی کے وکیلوں کا ہے جو موڈریٹ تصورات کا بخوبی دفاع کر سکیں۔
اس پورے کام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آزاد خیال، لبرل مسلمانوں اور موڈریٹ مسلمانوں کے درمیان خوش گوار، گہرے تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ان کو بین الاقوامی طور پر منظم کیا جائے اور مسلمانوں کی تاریخی شکست کے علامتی نشان ہسپانیہ میں ان کا اجتماع منعقد کروایا جائے۔
یو ایس نیوز اور ورلڈ رپورٹ (US News & World Report) نے اپنے ۲۵؍اپریل ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ایک مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا: ’’دل ، دماغ اور ڈالر‘‘۔ اس مقالے کی تیاری اور تحقیق میں یو-ایس نیوز نے چار مہینے لگائے۔ انھوں نے تقریباً ۱۰۰ لوگوں سے انٹرویو کیے، اور تقریباً ایک درجن رپورٹوں پر غور کیا۔ اس کام پر عامر لطیف ، کیون وائٹ لو اور جولین بیرین فائز تھے۔ انھوں نے باہمی تعاون سے یہ تحقیقاتی مضمون لکھا۔
اس مضمون میں انھوںنے واشگاف الفاظ میں لکھا کہ امریکا محض ایک تماشائی کی طرح بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا کہ وہ دین اسلام، جو سیاست اور مذہب کو ایک ہی نظام کا حصہ سمجھتا ہے، جس میں وہ لوگ بھی ہیں، جو انتہا پسند ہیں اور وہ لوگ بھی جو ایک معتدل رویہ رکھتے ہیں، جن کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے، انھیں مستقبل میں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سلسلے میں جس نتیجے پر یہ لوگ پہنچے ، وہ یہ تھا کہ اپنا اثرو رسوخ، اسلام میں اصلاحات کے لیے استعمال کیا جائے، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۰۴ء تک جو امریکی کاوشیں کی گئیں، ان میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مالی اور افرادی قوت کا فقدان تھا۔ اب اس کمی کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس اہم کام کی نگرانی کے لیے، ایک ڈپٹی نیشنل سیکورٹی مشیر براے منصوبہ بندی و اطلاعات اور عالمی اثرو رسوخ کی اہمیت کا حامل ایک عہدہ رکھا گیا، جو وائٹ ہائوس سے منسلک ہوگا۔ اس میں وہ تمام افراد شامل ہوں گے جن کا تعلق فوجی اور نفسیاتی کارروائیوں سے ہوگا۔ سی آئی اے (CIA) کی کارروائیاں خفیہ تو ہوتی ہی ہیں، لیکن اب اس کام کے لیے وہ کھلم کھلا میڈیا کے افراد اور دیگر اصحاب فکر کو بھی بھاری رقوم دے رہے ہیں۔ واشنگٹن والے کروڑوں ڈالر اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ مسلم معاشرے پر اپنا اثرورسوخ بڑھائیں۔
گویا اب ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ دین اسلام ہے۔ امریکا نے اعلان کیا کہ وہ اسلام کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا میں جو لوگ اس تحریک کے بانی ہیں وہ اس سے پہلے یہی حرکت، عیسائی مذہب کے ساتھ کرچکے ہیں۔ آج اسی کام کی ’برکت‘ سے یورپ اور امریکا میں گرجا گھر فروخت ہورہے ہیں اور لوگ اپنے مذہب سے بے زار ہوگئے ہیں۔ اسلام کو بھی وہ یہی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ماضی میں امریکا کی یہ کارروائیاں ۲۰۰۴ء کے وسط تک مکمل طور پر باہمی رابطے قائم نہ کر پائیں، نہ اس کے پاس ان کے لیے رقم تھی۔ اب ایک نیشنل ڈپٹی سیکورٹی مشیر کے تقرر سے یہ کمزوریاں دور کر دی گئیں ہیں اور کانگریس نے اس کے لیے رقم مختص کر دی ہے۔ اب یہ پروگرام زوروشور اور سرگرمی سے چلایا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے صدر بش نے سی آئی اے ،کو حکم دیا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کی جڑوں تک پہنچ کر اس کی مکمل بیخ کنی کر دی جائے۔ اس نئی تدبیر کو وائٹ ہائوس میں ’اسلامی دنیا میں نفوذ، کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی پر، وائٹ ہائوس اور تمام امریکی حکومت عمل پیرا ہے۔ اس پالیسی کے نمایاں اہداف درج ذیل ہیں:
۱- معلوم کیا جائے کہ عالمِ اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ با خبر رہنا۔
۲- بنیادی مقصد، مغربی لادینی (سیکولر) جمہوری نظریات کی اشاعت و ترویج ہے۔
۳- آزادی نسواں پر زور دینا، خاص طور پر عورتوں کے حقوق اور مخلوط میل ملاپ پر زور دینا۔
۴- نجی فائونڈیشن اور غیر منافع بخش انجمنوں (N.G.O)کے ذریعے سے، مسلم ریاستوں کی مدد کرنا۔
۵-مسلمان نام نہاد اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنا۔
۶-صیہونی تحریکوں کے ذریعے، اسلام میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرنا۔
۷-الاخوان المسلمون کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنا۔
۸-پاکستان میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر میں اختلاف کو اُچھالنا۔
۹-پاکستانی علما کی مالی معاونت، تاکہ اپنے مطلب کے ایسے فتوے لیے جاسکیں جو امریکی مفاد میں ہوں۔
۱۰- فرضی جہادی تنظیمیں قائم کرنا، تاکہ ان میں داخل ہونے والے مخلص مجاہدین کو بھانپا جاسکے۔
۱۱-مدارس کا اثر ختم کرنے کے لیے ابتدائی اسلامی اسکول قائم کرنا ، خاص کر پاکستان اور انڈونیشیا میں۔
۲۲-مسلم ممالک میں تدریسی نصاب کو تبدیل کرنا۔
۱۳-مسلم مفکرین میں اثرونفوذ پیدا کرنا۔
۱۴- امریکی امداد کے ذریعے مسلمانوں کے متبرک مقامات کی مرمت اور آرایش ، اسلامی مخطوطوں کی مرمت اور حفاظت، قرآن مجید کے پرانے اوراق، بوسیدہ کلام مجید کی حفاظت۔ اعتمادسازی کے ایسے کئی کام کرنا، جو پہلے پاکستان، مصر، ترکمانستان، کرغزستان اور ازبکستان میں شروع کیے جا چکے ہیں۔
۱۵-مساجد کے اماموںکو تربیت دینا، یہ کام بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔
امریکا کا یہ ہمہ جہتی پروگرام شروع کیا جا چکا ہے، تاکہ اسلام کے خدوخال مکمل طور پر تبدیل کر دیے جائیں۔ اس کے لیے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، افرادی قوت اورر قوم مختص کر دی گئی ہیں۔ اب پورے جوش و خروش سے اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
World is Changing: مغرب اپنے اخلاقی زوال کے بعد عددی اعتبار سے بھی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کی قلعی یوٹیوب پر World is Changingنامی ویڈیو نما ڈاکومنٹری نے بھی کھول دی ہے۔ اس دستاویز ی فلم میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف سرجوڑ کر منصوبہ بنانے کی پکار بلند کی گئی ہے اور مسلم آبادی کے ایٹم بم کے مہیب خطرے کو محسوس کرنے کے بعد مغرب کے پالیسی ساز اداروں نے ایک ہمہ جہتی اور ہمہ پہلو حکمت عملی ترتیب دی ہے کہ:
۱- مسلمان ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کو مؤثر انداز میں روکنا اور وہاں بہبود آبادی کے نام پر WHO،UNICEF اور ورلڈ بنک کے تعاون سے مہمات کو آگے بڑھایا جارہاہے۔
۲-مغربی اور ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی یلغار کے ذریعے نوجوانوں کی فکری صلاحیتیں مفلوج کی جارہی ہیں اور بطور مجموعی مسلمان ملت کو اخلاقی شکست سے دوچار کیا جارہاہے۔
۳- تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کو تنہااور بے دخل کیا جارہاہے۔
مغربی دانش ور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کو لگی لپٹی بغیر طشت ازبام کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ: ہم کش مکش، جمہوریت اور اچھی حکمرانی کے ذریعے منظم مزاحمت کا آغاز کردیں۔
۱-تطہیر افکار و تعمیر افکار:غیر اسلامی قدامت پسندی کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی تصویر کو پیش کرنا۔ مغربی علوم و فنون اور نظام و تہذیب تمدن کی غلط چیزوں کو ترک کرنا اور صحیح چیزوں کو اخذ کرنا،اور موجودہ زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرکے اسلام کے اصولوں کو رائج کرنا اور صالح تمدن کی تعمیرکرنا۔
۲-صالح افرادکی تنظیم و تربیت : فکر ی ، جسمانی اور روحانی طور پر تندرست اور صالح افراد کی تلاش ، تنظیم اور تربیت کرناتاکہ پاکیزہ ، مضبوط اور قابل اعتماد گروہ تیار ہوجائے اور صالحیت کے ساتھ ساتھ صلاحیت سے بھی آراستہ ہوجائے تاکہ محض کاغذی اور زبانی دعوئوں تک ہی کام محدود نہ ہو ۔
۳- اصلاح معاشرہ : اجتماعی اصلاح کی سعی کرنا تاکہ کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے کام سونپے جائیں۔ ہمیں کسان کی طرح کام کرنا ہے جو ایک متعین رقبے پر زمین تیار کرنے سے فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو نتیجے تک پہنچا کر دم لیتاہے۔
۴-نظام حکومت کی اصلاح :اس دعوت کا چوتھا جزو بہت ہی اہم ہے کیونکہ جب تک نظام حکومت صحیح نہ ہو تو بگاڑ کو درست نہیں کیا جاسکتا ۔ انتخابات اور جمہوریت ہی اس کا واحد راستہ ہے۔
مغرب ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر کاربند ہے اور ہمیں اس کی مزاحمت مساوات، اخوت اور اتحاد کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر کرنی ہے۔
ان کی حکمت عملیوں کی مزاحمت منظم ہو کر حکمت عملی اور منصوبے بنا کر ہی کی جاسکتی ہے۔ منظم مزاحمت ہی نتیجہ خیزہوتی ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کی چکا چوند کو فریب قرار دے کر اُس کا پول کھول دیاتھا، اور اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں فرد اور قوم میں مطلوب صفات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا آغاز وہ ان اشعار سے کرتے ہیں
ع ۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
ایک بوڑھا چراغ لے کر شہر میں گھوم رہاتھا کہ میں بُری صفات کے حامل لوگوں سے تھک گیا ہوں اور ایک اچھے انسان کی تلاش میں ہوں۔ سست اور بے کار ہمراہیوں سے بے زار ہوں اور رستم اور شیر خدا حضرت علیؓ کی طرح جسمانی و روحانی صفات کے حامل لوگوں کی آرزو میں پھر رہا ہوں ۔ میں نے کہاکہ ایسے لوگ اب ناپید ہوگئے ہیں، اب نہیں ملتے۔ اُس نے کہاکہ وہ جو نہیں ملتے اور ناپیدہوگئے ہیں ،اُنھی لوگوں کی تلاش میں ہوں ۔
اسلام دنیا بھر میں مسلسل طوفانوں کی زد میں ہے ۔ اسلام اور اہل اسلام کو دہشت گردی اور دقیانوسیت کے ساتھ جوڑا جارہاہے۔ اس پورے منظر نامے میں اسلام اپنے ماننے اور چاہنے والوں اور اپنے رب پر یقین رکھنے والوں کی طرف دیکھ رہاہے کہ وہ آزمایش کی اس ایمان کو متزلزل کردینے والی گھڑی میں کس اطمینان قلب کے ساتھ حق پر قائم رہتے ہیں اور ہر طرف اُڑتی ہوئی گردسے خود کو اور اپنی بصیرت کو محفوظ رکھ کر درست سمت میں سفر جاری رکھتے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ اسلام جس ابلاغی طوفان کا شکار ہے، یہ عارضی اور وقتی ہے ۔ انسانوں کی بڑی تعداد کو کچھ عرصہ تک تو دھوکے کا شکار رکھا جاسکتاہے مگر محض پروپیگنڈے کی قوت سے مستقل طور پر اس دھوکے کو قائم رکھنا ممکن نہیں ۔
حالات ہمیں خواہ کیسے لگ رہے ہوں، اس پوری صورت حال کا منظر نامہ چاہے کیسا ہی بن رہا ہو، ہمیں تو بس یہ دیکھنا ہے کہ اس پورے منظر نامے میں ہمارا کیا کردار ہے ؟اپنے رب کی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے اس زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کی جدوجہد میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا ہمارے قدم درست سمت سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنے وقت اور صلاحیتوں کا بیش تر اور اور بہتر حصہ اس جدوجہد میں لگا رہے ہیں؟ کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ۔ جو چیز کم ہو اسے بہت احتیاط اور دانش مندی سے خرچ کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہوسکے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی اور اُن کے عشق میں ڈوب کر اپنے دل کی آواز سننی چاہیے اور پھر اپنے وجدان پر بھروسا کرنا چاہیے۔
دنیاے اسلام کی مدافعتی قوت سایوں کی مانند ہے جو پھیلتی ہے ، بڑھتی ہے ، سمٹتی ہے ، غائب ہوجاتی ہے مگر پھر نمودار ہوجاتی ہے۔ میرے آغا جان(قاضی حسین احمدؒ) کو برسوں پہلے غرناطہ کی گلیوں میں ایک مسلمان ملا تھا جس نے کہاکہ اسلام پتھر کی طرح جامد وجود نہیں بلکہ ایک درخت کی طرح نامیاتی وجود ہے ۔ اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹ دیا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اُس نے کہاکہ اسلام عنقریب پھر اس خطے میں برگ و بار لائے گا۔ آغا جان کہہ رہے تھے کہ اندلسی نوجوان کا یقین اتنا راسخ تھاکہ مجھے اقبالؒ کا یہ شعر یاد آنے لگا ؎
دانۂ راکہ درآغوش زمین است ہنوز
شاخ درشاخ و برومند جواں می بینم
(اس دانے کو جو ابھی زمین کی آغوش میں چھپا ہوا ہے ، شاخ در شاخ اور ثمر بار اور جوان دیکھ رہاہوں)
فریاد زافرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد زشیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیِ افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں ،خواب گراں
خواب گراں خیز، از خواب گراں خیز
(مغرب کی دل آویزیوں ، چکنی چپڑی باتوں اور استعماری طاقتوں سے فریاد ہے۔ پورا عالم مغرب کی چیرہ دستیوں سے ویرانہ بن گیاہے۔ معمار حرم گہری نیند سے بیدار ہوجائو اور نئی دنیا کی تعمیر پر کمربستہ ہوجائو۔)
مقالہ نگار صدر، ویمن اینڈ فیملی کمیشن، جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔
مملکت ِخداداد پاکستان کا سب سے بڑا شہر ، ملک کی اقتصادی شہ رگ اور مِنی پاکستان کہلانے والا روشنیوں کا شہر آج تاریکیوں کے سایے اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ تہذیب یافتہ باسیوں کی شناخت رکھنے والا کراچی گذشتہ تین عشروں سے اپنی اصل شناخت کی تلاش میں ہے۔ اس شہر پر اپنا حق جتانے اور اس شہر کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں نے دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل و غارت گری،ٹارگٹ کلنگ، بوری بندلاشوں اور لوٹ مار کو اس شہر کی شناخت بنا دیا ہے۔ اس شہر کے حالات عرصۂ دراز سے خراب چلے آرہے ہیں اور ملک میں برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے حالات کو بہتر بنانے اور یہاں کے باسیوں کو اس عذابِ مسلسل سے نجات دلانے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اقدامات اور سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔اگر حکومتی سطح پر یہاں کے حالات بہتر کرنے اور مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنے کی کوششیں کی جاتیں تو جو حالات آج ہیں، وہ نہ ہوتے اور صورت حال یقینابہتر ہوتی۔
کراچی کے حالات بہتر کرنے کے لیے کئی مہینوں سے کراچی میں جا ری آپریشن جسے ’’ٹارگٹڈ آپریشن ،، کا نام دیا گیا ہے، کے حوالے سے کافی شور و غوغا سنائی دے رہا ہے۔ اس آپریشن کے شہر کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ حالات میں کوئی بہتری آئی ہے ؟ اس کی اصل حقیقت سے کراچی کے عام شہری سے زیادہ کوئی اور واقف نہیں، کیونکہ کراچی کے شہری روزانہ ان حالات سے گزرتے ہیں جب وہ پے در پے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کی خبریں سنتے ہیں۔ جب ان کو شہر کی اہم شاہراہیں اور سڑکیں بند ملتی ہیں۔ جب ان سے گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فون چھین لیے جاتے ہیں۔ جب یہاں تاجروں اور عام دوکانداروں کو بار بار بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، وہ یا ان کے اہل خانہ اغوا براے تاوان کی کسی واردات کا شکار ہو کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتے ہیں اور ان کی کہیں سے کوئی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ ان حالات میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے کراچی کی عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے عوامی امیدوں اور توقعات کے مطابق اپنا مثبت اور مؤثر کردار بھی ادا کیا،مگر کراچی کی انتظامی مشنری اور حکومتی اداروں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور احکامات پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد سے گریز کیا اور پہلو تہی برتی جس کی وجہ سے یہ سارے فیصلے اور احکامات اپنے وہ اثرات مرتب نہ کر سکے جو کرنا چاہییں تھے۔
عدالت عظمیٰ میں کراچی میں امن و امان کے حوالے سے مقدمات کی سماعت مسلسل کئی کئی روز تک جاری رہی۔ معزز جج صاحبان نے متعدد بار بنیادی مسائل کی جانب واضح طور پر نشان دہی بھی کی۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو ان کے فرائض منصبی کی جانب بار بار توجہ دلائی اور ایک لحاظ سے عدالت جو کام کرسکتی تھی اس نے کیا۔ ان مقدمات میں بار بار یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں جاری بدامنی ، دہشت گردی، قتل وغارت گری ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، لوٹ مار اور اغوا براے تاوان کی وارداتوںمیں یہاں کے حکمران اوران کے اتحادی براہ راست ملوث ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور اے این پی کا واضح طور پر نام بھی لیا اور کہا کہ یہ جماعتیں خود سے وابستہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور اس تحفظ کو ختم کیے بغیر حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں مسلم لیگ نواز برسر اقتدار آئی ۔ مرکز میں میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد کراچی کے تاجروں اور شہریوں کو بڑی امید تھی کہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی کے حالات ضرور بہتر ہوں گے، اور مختلف حلقوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سے یہ مطالبات اور اپیلیں بھی کی جانے لگیں کہ وہ کراچی میں امن و امان کی بد سے بدتر ہوتی صورت حال کا نوٹس لیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کریں۔ حالات کے اس پس منظر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیرداخلہ چودھری نثار اور اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی تشریف لائے، یہاں قیام کیا اور مختلف اجلاسوں اور میٹنگوں میں شریک ہو کر انھوں نے حکومتی ذمہ داروں اور متعلقہ اداروں سے بریفنگ لی۔ متعدد اہم فیصلے اور اقدامات طے کیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی ’کپتانی ‘میں ایک ٹائم فریم کے مطابق کراچی میں دہشت گردوں بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز، اغوا براے تاون میں ملوث مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ایک مؤثر آپریشن کیا جائے گا۔ وہ اور ان کی حکومت اس حوالے سے سندھ حکومت کو ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس دورے میں کراچی کی مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی ایک مشترکہ اجلاس بلایا اور سب جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے عزائم اور منصوبوں سے آگاہ کیا اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت تمام جما عتوں نے ان کوششوں کی حمایت اور تائید کی۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم نے تو یہاں تک کہہ دیا اور مطالبہ کیا کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے لیکن ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو اکثریت کی طرف سے پذیرائی نہیں مل سکی ، جب کہ بعض حلقوں نے یہ بھی کہاکہ ایم کیو ایم ایک طرف تو آپریشن کی حمایت کر رہی ہے اور دوسری طرف فوج اور عوام کو لڑانا چاہتی ہے۔
یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی سے پہلے ہی اگر شور مچانا شروع کردیا جائے تو اس سے مجرموں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کو فرار ہونے اور اپنے ٹھکانوں کو بدلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور بڑی مچھلیوں کو پہلے سے ہی خبردار کر دیا گیا۔بہرحال جب آپریشن کا آغاز ہوا تو فوری طور پر تو ایسا محسوس ہو ا کہ حالات میں بہتری واقع ہو رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد اگر مجموعی نتائج کا احاطہ کیا جائے توصورت حال تسلی بخش محسوس نہیں ہوتی۔ شہر میں مختلف مکاتب فکرکے علماے کرام، سیاسی کارکنوں، پولیس اہل کاروں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں ، ٹارگٹ کلنگ اور قتل وغارت گری اور بھتہ خوری سمیت دیگر وارداتوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، کیونکہ گرفتارملزمان کو سزائیں نہیں ملی ہیں اور آپریشن کرنے والے مصلحتوں کا شکار ہیں۔
ایم کیو ایم نے اب اس آپریشن کو اپنے خلاف آپریشن قرار دینا شروع کر دیا ہے اور وہ واویلا مچارہی ہے کہ آپریشن کی آڑ میں صرف ایم کیو ایم کو ہی نشانہ بنایا جا رہاہے۔ ایم کیو ایم نے اس آپریشن کے خلاف بیانات دینے اور اس کی مخالفت کرنے کا سلسلہ اس وقت شروع کیا جب نارتھ ناظم آباد میں ایک پولیس پارٹی پر حملے کے الزام میں ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن سندھ اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر ایم کیو ایم نے شدید احتجاج کیا اور شہر میں احتجاج کی کال دی ، جب کہ ایک موقع پر کراچی کے پولیس چیف شاہد حیات نے بھی ایک پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل وغارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کی بیش تر وارداتوں میں ایم کیو ایم ملوث ہے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم نے پولیس چیف شاہد حیات کے خلاف بھی محاذ کھول دیا اور انھیں ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ، جب کہ رینجرز کے ذمہ داران کی طرف سے بھی ایم کیو ایم کے خلاف بیانات سامنے آئے جن میں ان کا کہناتھا کہ ایم کیو ایم سے وابستہ افراد شہر میں جاری قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ جب دہشت گردوں، قاتلوں،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے مجرموں کے چہرے اور ان کے سرپرستوں کے نام عوام کے سامنے آنا شروع ہوئے تو ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جن مجرموں کو گرفتار کر رہے ہیں ان کی سیاسی وابستگیاں ظاہر نہ کی جائیں۔ یہ مطالبہ بھی ایم کیو ایم کی طرف سے کیا گیا اور پھر سیاسی وابستگیاں ظاہر کرنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ بات بھی باربار کہی گئی ہے کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں نے عسکری ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں حکمراں جماعتیں اور ان کے اتحادی شامل ہیں۔ اس ساری صورت حال کے باوجود یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اب تک شہر میں جتنے بھی مجرم گرفتار ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں بھی جب ایک موقع پر سرکاری طور پر دہشت گردوں اور گرفتار مجرموں کے نام پیش کیے گئے تھے تو ان میں بھی ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ ایم کیو ایم مختلف ہتھکنڈوں اور بلیک میلنگ کے طریقوں سے خود اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو ختم کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے اور مستقبل قریب میں اس بات کی امید اور توقع کم ہی نظر آتی ہے کہ کراچی کے ستم رسیدہ عوام اس عذابِ مسلسل سے نجات حاصل کر پائیں گے۔
آپریشن کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار مایوس کن حد تک اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صورت حال میں بہتری کی امید کم ہی کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے اخبارات و رسائل اور نیوز چینلوں پر متعدد رپورٹس بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ حکومتی عہدے داروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور آپریشن کے ذمہ داروں کے دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن یہ رپورٹیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حالات کو بہتر بنانے ،کراچی کے عوام کو سکون اور چین دلانے، روشنیوں کے شہر کو دوبارہ روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ بنانے اور ملک کی اقتصادی شہہ رگ کو حقیقی معنوں میں ترقی و خوش حالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ملک کے حکمرانوں اور اربابِ اختیار کو سیاسی مصلحتوں سے باہر نکلنا ہوگااور مجرموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرنی ہوں گی۔
کراچی کے ایک کثیرالاشاعت اخبار (روزنامہ جنگ ) کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ کراچی آپریشن کے دوران۱۰ہزار ۲۰ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ۔ رواں برس ۲ہزار۶سو۲۳؍ افراد مختلف وجوہات کی بنا پر قتل ہوئے جس میں سے ۴۸۶؍ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایا گیا۔ ۱۱۷؍ افراد کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ابدی نیند سلا یا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں ۲ہزار۴سو۳ لوگ قتل کیے گئے جن میں ۵۳۰ افراد کو گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۱ء میں ۲ہزار۴۲ شہریوں کو مارا گیا جن میں ۵۰۸ لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ رواںسال ستمبر سے نومبر تک ۴۴۷؍ افراد کو قتل کیا گیا ، جب کہ گذشہ سال اسی دوران ۶۶۵شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخالق شیخ کاکہنا ہے کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ یہ آپریشن کامیاب ہو، اسی لیے کراچی میں فرقہ وارانہ قتل کیے جا رہے ہیں ، پولیس کے پاس ایسے ثبوت ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ سُنّی اور شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ایک ہی گروپ ملوث ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق آپریشن کے دوران ۵ستمبر سے ۴دسمبر تک ۱۰ہزار۲۹ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جس میں رینجر ز کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریاں بھی ہیں۔ گرفتار افراد میں ۳ہزار۵سو۳۴ مفرور اور اشتہاری بھی شامل ہیں۔ ۶ہزار۴سو ۹۵ ملزمان دیگر جرائم میں گرفتار کیے گئے جس میں سے ۴ہزار۷سو۱۰ کے چالان جمع کرائے جا چکے ہیں لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ گرفتار کیے گئے ہزاروں ملزمان میں سے صرف ۴۳ کو ہی سزا مل سکی ہے۔
شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال ستمبر سے نومبر تک ۹۷۳ گاڑیاں چھینی یا چوری کی گئیں ، جب کہ گذشتہ سال یہ تعداد ۱۰۵۹ تھی۔ اسی دوران ۵ہزار۹سو۵۷موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری ہوئیں ، جب کہ ۲۰۱۲ء میں ۵ہزار۶سو۳۳ واقعات درج ہوئے تھے۔ گذشتہ سال ۴ہزار۷سو ۹۷، جب کہ اس سال ۴ہزار۹سو۳۳ موبائل فونز چوری یا چھینے جا چکے ہیں۔ اغوا براے تاوان کی وارداتوں میں کمی تو آئی ہے لیکن اس سال۱۶۵؍ افرادکو تاوان کے لیے اغوا کیا جا چکا ہے۔ بھتہ خور شہریوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور تین ماہ کے دوران بھتے کی ۳۲۰ دھمکیاںاور پرچیاں موصول ہو چکی ہیں۔ کراچی میں جاری قانون نافذ کرنے والوں کا آپریشن کتنا کامیاب ہے، اعدا و شمار خود اس کی گواہی دے رہے ہیں۔صرف موجودہ وزیر داخلہ ہی نہیں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک بھی بار بار کراچی آتے رہے اور مجرموں کے بہت قریب پہنچنے کا د عو یٰ کرتے رہے لیکن ہر مرتبہ مُک مکا یا سیا سی جوڑ توڑ ہو جاتا تھا۔ اگر پچھلے ثبوتوں ہی کو بروے کار لایا جا ئے اور مجرموں کو سزا دی جائے تو حا لات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ مجر موں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔
یہ ایک انتہائی ادھورا اور آمرانہ دستور ہے جس پر ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ء کو جعلی ریفرنڈم کروا کے عوام کے گلے ڈال دیا جائے گا۔ دستور کسی بھی ریاستی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مصر کا مجوزہ دستور یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جو اسمبلی قانون سازی کرے گی وہ کیسے منتخب ہوگی، کب منتخب ہوگی؟ وزیراعظم کیسے اور کب منتخب ہوگا؟ ملک کے معروف اور بزرگ قانون دان ڈاکٹر طارق البشری، جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے کے بقول: ’’یہ اس بچے کا نکاح پڑھا یا جارہا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ حکومتی پراپیگنڈا اسی غیر مولود دستور کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے۔
صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں مصر کو پہلا جمہوری دستور نصیب ہوا تھا۔ ۶۱سالہ فوجی آمریت اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے زیرسایہ بادشاہت خود ہی قانون بھی تھی اور دستور بھی۔ صدر مرسی کے دور میں ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ سے ۱۰۰ رکنی دستور ساز کونسل منتخب کی گئی۔ مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی، اسلامی ہی نہیں سیکولر ماہرین قانون بھی اس کونسل کا حصہ تھے۔ طویل مشاورت اور ایک ایک شق کی کئی کئی بار خواندگی کے بعد اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدا میں اس پر کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی بالآخر اس میں بھرپور حصہ لیا۔ مکمل طور پر شفاف ووٹنگ میں ۶۷ فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ۶۴ فی صد عوام نے ہاں کہا اور ملک کو ایسا دستور مل گیا، جسے عوام کے حقیقی نمایندوں نے تیار کیا تھا۔ یہ پہلا دستور تھا جس کے بنوانے والے صدر نے اپنے اختیارات میں اضافہ نہیں کمی کی تھی۔ خود کو پارلیمنٹ ہی کا نہیں وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں کا بھی پابند بنایا تھا، تاکہ آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مصر کے اس حقیقی دستور کی شق ۱۴۱ واضح طور پر بیان کرتی ہے: ’’صدر جمہوریہ اپنے اختیارات، وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کے ذریعے سنبھالے گا‘‘۔ دفاع، خارجہ اور قومی سلامتی کے بعض اُمور، دیگر کئی شقوں کے پابند بناتے ہوئے مستثنیٰ بھی رکھے گئے تھے، لیکن ان کی مجموعی اور اصل روح یہی تھی کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا صدر بھی جواب دہ اور تقسیمِ کار کا پابند بنایا جاسکے۔
اس دستور میں ترمیم کے لیے بھی ایک کڑا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ کسی ڈکٹیٹر کے لیے اسے موم کی ناک بنانا ممکن نہ ہوسکے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۷اور۱۱۸ کے مطابق دستوری ترمیم کے لیے صدر جمہوریہ یا قومی اسمبلی کے ۵/۱ ارکان ترمیم پیش کرسکتے تھے۔ ۳۰ روز کے اندر اندر، قومی اسمبلی اور سینیٹ الگ الگ کثرت راے کے ذریعے، اسے بحث کے لیے منظور یا مسترد کرسکتی تھی۔ اس کے بعد دونوں ایوان ۶۰ دن کے اندر اندر بحث کرکے دو تہائی ووٹوں سے اسے منظور کرتے تو ۳۰روز کے اندر اندر اس پر عام ریفرنڈم کرواکے منظور یا مسترد کیا جاسکتا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ جنرل کی وردی میں ایک لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم پورے دستور کو معطل کردیا۔ اسے ایک خود ساختہ ۵۰رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا، جس نے پانچ ماہ میں ترمیم کے نام پر، ایک نیا دستور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، جو ۱۴ اور ۱۵جنوری کو ریفرنڈم کے ذریعے ملک پر تھوپ دیا جائے گا۔
یہ ایک ایسا دستور ہے جس میں اصل اختیارات فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کے ہاتھ میں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع بھی جنرل عبد الفتاح سیسی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی وہی ہیں۔صدر مملکت یا پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی وہ دوام و اختیارات نہیں رکھتا جو وزیر دفاع صاحب رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے یا مدت صدارت ختم ہوجانے پر بھی وزیر دفاع کا عہدہ برقرا رہے گا۔ اس کی تعیناتی بھی حکومت یا صدر جمہوریہ نہیں، فوج خود ہی کرے گی۔ حالیہ مسودے کی شق ۲۳۴ کہتی ہے ’’وزیر دفاع کا تعین مسلح افواج کی سپریم کونسل کی منظوری سے کیا جائے گا اور اس کایہ عہدہ دو مکمل صدارتی مدتوں کے لیے ہوگا‘‘۔ یعنی سربراہ ریاست تمام سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ تو ایک آئینی مدت مکمل ہونے پر ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے، جب کہ وزیر دفاع صاحب وہی رہیں گے۔ یہ سوال بھی بلا جواب ہے کہ اگر بالفرض کوئی صدر صاحب اپنی دو مدتیں مکمل نہ کرپائیں، یا انھیں پوری نہ کرنے دی جائیں تو کیا وزیر دفاع کی مدت از سرِ نو شروع ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ پھر ’’شیر کی مرضی ہوگی، انڈا دے یا بچہ دے‘‘۔ نئے دستور کے مطابق فوج کے لیے الگ فوجی عدالت قائم کی گئی ہے لیکن اس میں عام شہریوں پر بھی مقدمات چلائے جاسکیں گے، جب کہ فوج پر جو قوم ہی کا حصہ ہوتی ہے، کسی عام عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔ فوج کے بار ے میں کوئی قانون سازی یا فوجی بجٹ کی منظوری و بحث بھی پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ نہیں، قومی دفاعی کونسل ہی کرسکے گی جو چھے سو یلین (صدر مملکت سمیت) اور آٹھ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوگی۔
مصر کے حقیقی اور اصل دستور میں ملک و قوم کی دینی و نظریاتی شناخت کی حفاظت اور تمام قوانین کو دائرۂ شریعت میں محفوظ کرنے کا محکم انتظام تھا۔ حالیہ مسودے میں اس طرح کی تمام شقیں ہی نہیں، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تمام شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں توہین رب العالمین اور توہین رسالت کی سزا بھی حذف کردی گئی ہے۔ شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے جامعۃ الازہر کی سپریم علما کونسل کو دستوری حق دیا گیا تھا۔ اب شریعت کی وضاحت بھی دستوری عدالت کرے گی۔ جی ہاں، وہی دستوری عدالت جس نے ہر قدم پر صدر مرسی کی راہ میں روڑے اٹکائے، جس نے نو منتخب قومی اسمبلی چند ہفتے بعد ہی تحلیل کر دی اور جو سینیٹ تحلیل کرنے جارہی تھی۔ جس کے ججوں کی اکثریت واضح طور پر سیکولر بلکہ دین دشمن افراد پر مشتمل ہے۔ مساوات مردوزن کے حوالے سے ایسی ملفوف عبارت لکھی گئی ہے جس سے وراثت میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر قرار پائے گا۔ نئے دستور میں قرآن کریم، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تو کوئی ایک سطر یا جملہ بھی نہیں درج ہونے دیا گیا، لیکن قبطی مسیحی پیشوا ’ شنودہ‘ کا معروف جملہ اصل متن کے ساتھ دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ: ’’مصرہمارا وطن ہے ہم اس میں بستے ہیں اور وہ ہم میں رہتا ہے‘‘۔ اصل دستور میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کا ذکر تھا، اسے بھی حذف کردیا گیا ہے۔ ایک شق میں کہا گیا تھا کہ ’’بچوں کی صحت اور تعلیم کے علاوہ دینی تعلیمات اور قومی روایات کی روشنی میں ان کی تربیت ریاست اور معاشرے کی مشترک ذمہ داری ہوگی‘‘۔ گویا اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ ماحول کی فراہمی حکومت اور معاشرے کا دستوری تقاضا ٹھیری تھی۔ اب اسے حذف کردیا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال کے اندر اندر پانچ انتخابات میں مصری عوام نے اخوان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی عام انتخابات کے ان تمام نتائج کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں نے روند ڈالا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو سند جواز بخشنے کے لیے ۳۰ جون کو فوج اور سیکورٹی اداروں کی زیرسرپرستی میدان التحریر میںایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جنرل سیسی نے اسی عوامی مظاہرے کو اپنے قبیح جرائم کی بنیاد بنایا تھا۔ اب دستور میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ صدر جمہوریہ کو ہٹانے کے کسی عوامی مظاہرے یا جلسے جلوس کو وجۂ جواز نہیں بنایا جاسکے گا۔ بھلا اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ جنرل صاحب کو تو کسی قانون یا اخلاق کیا پورے پورے دستور کی بھی پروا نہیں، یہ نئی دستوری شق بھی ان کے ارادوںمیں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن دوسروں کے لیے وہ سب کچھ حرام ہے جو ہمارے لیے حلال تھا۔ ویسے اگر وہ سمجھ سکیںتو یہ تازہ شق کھلم کھلا اعترافِ جرم بھی ہے کہ ہم نے ۳۰ جون کو جو کچھ کیا، وہ باطل تھا۔ اس لیے اب دستور میں اسے باقاعدہ باطل قرار دے رہے ہیں۔ انسان اگر اپنی ڈاکا زنی کا اعتراف کرلے تو اس کی تلافی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس نے جو کچھ لُوٹا اور غصب کیا تھا وہ واپس کردے۔ لیکن اس اعتراف اور اس عظمت کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہے۔
دستور تازہ کے بارے میںآخری اور اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی پسند پر مبنی اس ۵۰رکنی کمیٹی میں سے صرف پانچ افراد پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقی ۴۵ میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا منشیات استعمال کرتے ہیں، یا کورے جاہل ہیں یا پورے ملک میں واضح طور پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ عمرو موسیٰ تھے جو طویل عرصے تک حسنی مبارک کے وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ خط کا یہ عنوان بھی اس کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہے۔
اخوان ہی نہیں آغاز میں فوجی انقلاب کا ساتھ دینے والے کئی اخوان مخالف گروہ اس مضحکہ خیز دستوری تماشے کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ کرنل جمال ناصر ، کرنل انور سادات اور ایئرکموڈور حسنی مبارک کے دور میں بھی کئی بار فوجی سنگینوں تلے ریفرنڈم ہوئے۔ پانچ بار ہونے والے ہر فوجی ریفرنڈم میں ۹۹ فی صد عوام کی ہاں والا نتیجہ برآمد ہوا۔ اب بھی اسی طرح کے نتائج کا پوراپورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے تناسب کچھ کم دکھایا جائے، کیونکہ صدرمرسی کے جمہوری دور میں ہونے والے اکلوتے ریفرنڈم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ووٹ ڈالے گئے، تب بھی ووٹوں کاتناسب ۷ء۶۶ فی صد ہوسکا تھا۔ آیندہ دستوری ریفرنڈم میں مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ سٹیشن پر ہی کرنے کے بجاے، بیلٹ باکس الیکشن کمیشن لے جائیں گے اور وہاں ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِل‘‘ کی مثال تازہ کی جائے گی۔ ریفرنڈم کے لیے ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی تاریخیں رکھی گئی ہیں۔ میدان رابعہ میں ۱۴؍ اگست کو قیامت صغریٰ برپا کرنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یہ دستوری نمک پاشی کسی طور فوجی حکمرانوں کے حق میں نہیں جائے گی، لیکن جب حماقت ہونا ہو، تو قدرت اسی طرح مت مار دیتی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور سنگین حماقت اخوان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ جنرل سیسی کے متعین کردہ وزیراعظم حازم السیلاوی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا: ’’اخوان کو دہشت گرد قرار دینا کابینہ کا کام نہیں۔ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اگر ایسا ہونا بھی ہے تو یہ کام عدالتوں کے ذریعے ہوگا وگرنہ ہم ایک بے قانون ریاست شمار ہوں گے‘‘۔ پھر اچانک دقہلیہ شہر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکا کروایا گیا اور اسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ نے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ۱۰۵۵؍ رفاہی اداروں پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ منجمد کردیے حالانکہ ان سب کا تعلق اخوان سے نہیں ہے۔ اس فیصلے سے گویا لاکھوں غریب اور محتاج موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارہ ۵لاکھ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کر رہا تھا۔
اسکندریہ یونی ورسٹی میں فزکس کی لائق ترین طالبہ ’’روضہ شلبی‘‘ بھی انھی سزا یافتہ پھولوں میں شامل تھی۔ اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ میں نے سزاؤں کے اعلان کے بعد روضہ کو عدالتی پنجرے میں ہنستے ہوئے دیکھا تو سمجھی کہ میری معصوم بیٹی کو شاید معلوم ہی نہیںہوسکا کہ کتنی خوف ناک سزا سنادی گئی ہے۔ رہائی کے بعد میںنے پوچھا: روضہ! کیا تمھیں پتا تھا کہ جج نے کتنی سزا سنادی ہے؟ ہاں، امی معلوم تھا۔ تو پھر ہنس کیوں رہی تھیں؟ امی بس عدالت اور پولیس کے سامنے بے اختیار ہنس دی۔ مجھے محسوس ہوا ہنسی میرے دل سے نکل رہی ہے کیونکہ اس سے دل کا سارا بوجھ اُترگیا۔ یہ یقین بھی مزید مضبوط ہوگیاکہ اللہ کا ارادہ ان سب پر غالب ہوگا ،ان شاء اللہ۔ لیکن امی جیل میںتنہا ہو ئی تو، آنسوؤں کا دھارا بے اختیار بہہ نکلا تھا۔ مجھے اپنے ملک میں ظلم کی انتہا پر رونا آیا کہ یہ مظالم کب تک اور کیوں کر ہوتے رہیں گے‘‘!
رب کی رحمت و قدرت، جلادوں کی خواہش پر غالب آئی اور سیسی حکومت منہ کالا کروانے اور عوامی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کرپائی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوبارہ کوئی حرکت کی تو پھر گرفتار کرلیں گے اور آیندہ کوئی معافی نہیں ملے گی۔ جیل سے رہائی پاتے ہی سب معصوم بچیوں نے گروپ کی صورت میں چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بناتے ہوئے باآواز بلند اعلان کیا ہم نے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے تھے، آیندہ بھی ہمیںاس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بچی نے کہا: لَسْنَا نَادِمَاتٍ وَلَا خَائِفَاتِ لِأَنَّنَا عَلَی الْحَقِّ وَسَنَنْتَصِرْ فِي الْاَخِیْر اِنْ شَائَ اللّٰہِ، ’’ہم نہ تو نادم ہیں نہ خوف زدہ کیوں کہ ہم حق پر ہیں اور نصرت بالآخر ہمیں ہی ملنا ہے‘‘۔
امریکا اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا معاہد ہ بنیادی طور پر مئی ۲۰۱۲ئمیں ان دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے تزویراتی معاہدے کا تسلسل اور چربہ ہے جس میں زیادہ تر زور امریکا کی افغانستان میں فوجی موجودگی اور اگلے ۱۰سال تک افغانستان کے اندرونی اور بیرونی حالات پر اثرانداز ہونے پر دیا گیا ہے ۔ اس دو طرفہ سیکیورٹی کے معاہدے کے مندرجات پر شق وارجائزے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کے تحفظ اور اس خطے میں آیندہ برسوں میں امریکی عزائم کی نشان دہی کرتا ہے، نیز جس طرح سے افغانستان کی خودمختاری اور مفادات کو مجروح کیا گیا ہے وہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو یہ آیندہ برسوں میں خطے میں ایک نئی جنگ، خوں ریزی اور فساد کا سبب بنے گا۔ ذیل میں معاہدے کا شق وار جائزہ پیش ہے۔
یہ معاہد ہ۲۶ آرٹیکلز(شقوں) پر مشتمل ہے ۔اس کے ابتدایئے میں امریکا اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دیگر نکات میں اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس معاہدے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مئی ۲۰۱۲ء میں طے پانے والے تزویراتی شراکتی معاہدے کے تسلسل میں طے کیا گیا ہے۔ نیز یہ معاہدہ امریکا اور افغانستان کے درمیان دیر پا امن ، حفاظت ، استحکام اور ادارہ جاتی تعاون کی بنیاد پر طے پایا ہے جس کا مقصد افغانستان کی سماجی ترقی اور علاقائی تعاون کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہے ۔ یہ معاہدہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوگا۔ اس معاہدے کے پہلے آرٹیکل میں معاہدے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے ۔ آرٹیکل (۲)میں اس معاہدے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ان اغراض و مقاصد کے مطابق فریقین بہتر تعاون کے ذریعے امن و استحکام اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ طور پر بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے کام کریں گے ۔ آرٹیکل(۲ )کی ذیلی شق (۴) میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کی شکست دونوں فریقوں کا مشترکہ ہد ف ہوگا۔
امریکا ایک نہیں کئی بار اس بات کا فخر یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس نے افغانستان سے القاعدہ اور اس سے منسلکہ گروہوں کا صفایا کر دیا ہے ۔ اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما اپنی کئی نشریاتی تقریروں میں امریکی عوام کو افغان جنگ میں کامیابی اور وہاں سے القاعدہ کے خاتمے کی نوید سنا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان سے القاعدہ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر اگلے ۱۰برسوں تک افغانستان میں کون سی القاعدہ کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کرنا چاہتا ہے ۔ اس شق سے امریکی عزائم کا صاف پتا چلتا ہے کہ القاعدہ محض بہانہ ہے۔ امریکا کا اصل ہدف کچھ اور ہے۔
اس معاہدے کے آرٹیکل(۳) میں قوانین کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ جس کی ذیلی شق (۱)میںکہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے داروں پر افغان آئین اور قوانین کی پابندی لازمی ہو گی ۔آرٹیکل (۳) کی ذیلی شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے دونوں فریق افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھیں گے۔ ان شقوں سے متعلق یہ سوال ہر افغانی کی زبان پر ہے کہ کیا امریکا نے اب تک کسی بھی موقع پر افغانستان کے آئین اور خودمختاری، نیز بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے، جو وہ اب ان کی پابندی کرے گا۔ کیا امریکا اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں اب تک ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان شہری جن میں کم سن بچے ، خواتین اور بزرگ شامل ہیں امریکی بمباری اور ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔مساجد ، مدارس، حتیٰ کہ بارات اور جنازے بھی امریکی درندگی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رہے ۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغانستان میں اگلے ۱۰ سال تک متعین ہونے والی ہزاروں امریکی افواج کے ہاتھوں عام افغانیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ رہے گا۔
زیر بحث امریکی افغان دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا آرٹیکل( ۴)، افغان افواج اور سیکیورٹی فورسز کی استعداد کاری اور ان کی تربیت اور ترقی سے متعلق ہے ۔یہ اس معاہدے کا سب سے طویل اور بصراحت بیان ہونے والا حصہ ہے جس میں زیادہ تر زور افغان نیشنل آرمی جسے امریکا گذشتہ کئی برسوں سے تیار کرنے میں مصروف ہے کی تربیت اور اس کی عسکری وحربی صلاحیتوں کے فروغ پردیا گیا ہے ۔ امریکا کی تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کی اصل حقیقت آئے روز پوری دنیا پر ان خبروں کے منظر عام پر آنے کی صورت میں عیاں ہوتی رہتی ہے کہ آج فلاح مقام پر اتنے افغان فوجی طالبان سے آملے ہیں اور آج فلاں محاذ پر افغا ن فوجیوں نے امریکی حکام کا حکم ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ اسی طرح یہ خبریں بھی کئی دفعہ منظر عام پر آچکی ہیں کہ کسی افغان فوجی کے ہاتھوں اتنے امریکی جہنم واصل ہوئے ۔ باگرام ، قندہار ، گردیز ،جلال آباد اور ہلمند میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں افغان فوجی اہل کاروں کے ہاتھوں امریکی افواج پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں ا س بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج امریکا کے زیر تربیت افغا ن فوجی کل کو امریکا کے مکمل انخلا کی صورت میں طالبان اور حزب اسلامی کے منظم اور تربیت یافتہ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سر شار مجاہد ین کے سامنے ٹک سکیں گے ۔
اس معاہدے کا آرٹیکل (۶) بیرونی جارحیت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۱) میں افغانستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی اطراف سے حملہ آورمسلح افراد کی شورش کو قرار دیا گیا ہے جسے افغانستان کی سیاسی اور علاقائی سا لمیت کے لیے سب سے بڑے چیلنج سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ یہی وہ شق ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس پر صدر حامد کرزئی کو سب سے زیادہ اختلا ف ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صدر حامد کرزئی اس شق میں افغانستان کے خلاف برا ہ راست مداخلت یا مسلح شورش کے ساتھ ساتھ افغانستان کے خلاف بیرونی سرزمینوں سے افغانستان میں لڑی جانے والی پراکسی جنگوں میں مبینہ طور پر ملوث افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کو بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کے زمرے میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بعض رپورٹس کے مطابق حامد کرزئی اس شق کی امریکی افغان معاہدے میں شمولیت کی آڑ میں نام لیے بغیر، جب کہ بعض رپورٹس کے مطابق نام لے کر پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کو نشان ز د کرنا چاہتے ہیں ۔ گو حامد کرزئی کی یہ خواہش تو ان کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوئی لیکن وہ اس معاہدے پر اب تک دستخط نہ کر کے ہر ممکن طور پر اپنی بات منوانے کے لیے امریکا پر دبائو ڈال رہے ہیں۔
زیر بحث معاہدے کے آرٹیکل (۷)میں سہولیات اور استعمال ہونے والے علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق (۳)میں بصراحت کہا گیا ہے کہ افغان حکومت امریکی افواج کو متفقہ سہولیات اور علاقوں کے استعمال کا حق دیتی ہے ۔ ان مخصوص علاقوں میں امریکا کا اپنا حفاظتی انتظام ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ مقامات معاہدے کی حدتک تو افغان سرزمین پر واقع ہوں گے لیکن عملاً یہاں امریکیوں کا راج ہوگا اور یہاں کسی افغانی باشندے کو تو کجا پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ امریکا کی نظر میں افغانستان کی خود مختاری کا اندازہ اس شق میں ان الفاظ سے ہوتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اگر چاہے تو پیشگی درخواست کے ذریعے ان مخصوص علاقوں کا معائنہ کرسکتی ہے، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقۂ کار کا پور ا پورا احترام کرے گی ۔ گویا افغان حکومت کسی بھی شکایت کی صورت میں امریکا کے زیر استعمال کسی بھی افغان علاقے کے معائنے کے لیے نہ صرف امریکا سے پیشگی درخواست کی پابند ہو گی بلکہ اسے امریکی افواج کے حفاظتی انتظامات اور طریقہ کار کا بھی پور ا پورا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ اس شرط کی توثیق کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتاہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کی خود مختاری کا پاس رکھا گیا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔
آرٹیکل(۷)کی ذیلی شق (۶) میں یہ مضحکہ خیز بات بھی شامل کی گئی ہے کہ امریکی افواج افغانستان کی ماحولیاتی اور صحت سے متعلق اصولوں کا احترام کریں گی ۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت کا سر شرم سے جھکا دینے والے انسانیت سوز مظالم کے تناظر میں امریکا کا اس دو طرفہ معاہدے میں صحت اور ماحول سے متعلق شق کے شامل کرنے کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے اور ویت نام ، کو ریا ، عراق اور افغانستان میں کیمیائی ہتھیارو ں کے ساتھ ساتھ نیپام اور ڈیزی کٹر بموں کے بے دریغ استعمال کے بعد امریکا کا افغانستان میں اپنے اگلے ۱۰ سالہ قیام کے دوران وہاں کے ماحول اور صحت کے اصولوں کا پاس رکھنے کا وعدہ دنیا کی آنکھوں میں دھول کے بجاے ریت اور بجری جھونکنے کے مترادف ہے ۔
امریکا افغان سیکیورٹی معاہدے کا ایک اور مضحکہ خیز آرٹیکل (۸)ہے جس کے ذیلی شق (۳) میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین پر امریکی افواج ا س کے ٹھیکے داروں کی خریدی ہوئی ، درآمد کی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ تنصیبات کی ملکیت امریکا کی ہوگی۔ ان تنصیبات کی کسی بھی ممکنہ انتقال کے لیے امریکی قوانین کو مدنظر رکھا جائے گا، یعنی امریکا کے زیر استعمال ہر طرح کی تنصیبات بشمول زیر استعمال اڈوں پر حق ملکیت امریکا کا ہوگا اور اگر امریکا ان تنصیبات کو کہیں اور منتقل کرنا چاہے گاتو وہ ایسا افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت کر سکے گا۔ گویا افغان سرزمین پر افغان قانون کے بجاے امریکی قوانین لاگو ہوں گے جو امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کی خودمختاری کے دعوے کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے ۔ آرٹیکل (۹)جو آلات اور اشیا کی سٹوریج کے بارے میںہے کی ذیلی شق (۳)میں یہ خوش کن نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکا اپنے کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار افغان سرزمین پر ذخیرہ نہیں کرے گا۔ یہ شق اور جملہ اپنے معنی کے اعتبار سے تو بہت خوشنما نظر آتا ہے لیکن امریکی طینت اور اپنے مفادت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی اس کی روش اور تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا کون امریکا سے یہ پوچھ سکے گا کہ اس نے افغانستا ن میں اپنے درجن بھر اڈے یہاں سبزیاں اُگانے کے لیے حاصل کیے ہیں اور یہاں جمع شدہ مہلک ترین اسلحہ اور گولہ بارود کیمیائی ،حیاتیاتی اور ایٹمی مواد سے پاک ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں موجود امریکا کے خطرناک ہتھیار وں اور بلسٹک میزائلوں سے لیس بحری جہا ز ، ایٹمی آبدوزیں اور زمینی اڈے امریکا نے کس بین الاقوامی قوانین کے تحت بنا رکھے ہیں۔ اس کا جواب امریکا بہادر خود ہی د ے سکتا ہے، باقی دنیا اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں فی الحال یقینا نہیں ہے ۔
آرٹیکل( ۱۰)گاڑیوں اور جہازوں کے نقل و حرکت سے متعلق ہے ۔ اس آرٹیکل کی شق (۱) میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے فوجی اور سول جہازوں کو افغانستان کی فضائی حدود میں پرواز ،لینڈنگ، افواج کی نقل و حمل اور فضا میں ری فیولنگ کی مکمل اجازت ہو گی ۔نیز فضائی حدود کے استعمال اور جہازوں کی پارکنگ کے لیے امریکا کسی بھی قسم کے ٹیکس یا اخراجات ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگا ۔اس آرٹیکل میں یہ قابل شرم نکات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ امریکی جہاز ،کشتیوں اور گاڑیوں کو افغانستان میں داخل ہونے ،نقل و حرکت کرنے اور افغانستان سے بلاروک ٹوک اور بلا پوچھ گچھ نکلنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔اس آرٹیکل کی ذیلی شق(۴)میں افغانستان کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام امریکی جہاز ،کشتیاں اور گاڑیاں افغان حکام کے معائنے سے مستثنیٰ ہوں گے ۔ امریکی افواج کو افغانستان میں داخلے، وہاں نقل وحرکت اور بلاروک ٹوک نکلنے کی اجازت، نیز امریکی گاڑیاں اور جہازوں کے معائنے کی اجازت افغان حکام کے پاس نہ ہونے کے باوجود جو لوگ اس معاہدے کو دو طرفہ معاہدہ قرار دے رہے ہیں، ان شقوں کی موجودگی میں ان کا دعویٰ خودفریبی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
آرٹیکل( ۱۱)میں ٹھیکے داروں سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ اس آرٹیکل کی شق(۱) میں کہا گیا ہے کہ زیر استعمال علاقوں میں تعمیرات اور دیگر کاموں کے ٹھیکے امریکی خریداری قوانین کے تحت دیے جائیں گے ۔ امریکی خریداری قوانین کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ حد تک افغان اشیا کی خریداری کو ترجیح دی جائے گی ۔ شق (۲)میں کہا گیا ہے کہ ٹھیکے دار امریکا کے ساتھ لین دین کے وقت دیگر افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہوں گے، یعنی تعمیرات اور دیگر کاموں کے سلسلے میں ٹھیکے افغان قوانین کے بجاے امریکی قوانین کے تحت دیے جائیں گے، جب کہ ان ٹھیکوں کی مد میں امریکی ٹھیکے دار ہرطرح کے افغان ٹیکسوں سے بھی مبرا ہوں گے۔ گویا ان تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سے افغانستان کے عوام کو رتی برابر بھی فائد ہ نہیں ہوگا بلکہ ان کا تمام تر فائدہ امریکی کمپنیوں اور خود امریکی حکومت اور بالواسطہ طور پر امریکی عوام کو ہوگا۔
مواصلات اور دیگر سہولیات کے عنوان کے تحت آرٹیکل (۱۲)میں امریکا کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ امریکا افغانستا ن میں مواصلات کا اپنا نیٹ ورک نہ صرف بنا سکے گا بلکہ اسے اس کے استعمال کا بھی بلا روک ٹوک اور بلا شرکت غیرے حق حاصل ہوگا۔ نیز مواصلاتی نیٹ ورک بنانے کے لیے اسے افغان سرزمین مفت استعمال کرنے کی بھی اجازت ہوگی ۔ افغان فضا اور زمین کو اپنے مواصلاتی تصرف میں لانے کی امریکا کو اس شق کے ذریعے نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی ہے بلکہ یہ چھوٹ اسے پلیٹ میں رکھ کر مفت بھی پیش کی گئی ہے جو افغانستان کی خود مختاری کے دعوے کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق ہے ۔
آرٹیکل (۱۳)جو کہ اہل کاروں کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے، میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہل کاروں کے خلاف ا نضباطی کاروائیوں کا مکمل اختیار صرف امریکا کے پاس ہوگا۔ اگر کسی امریکی اہل کار سے افغان سرزمین پر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو امریکا متعلقہ قوانین کی روشنی میں خود اس کا ٹرائل کرے گا۔ افغان حکام کی طرف سے کسی بھی امریکی اہل کار کی گرفتاری کی صورت میں متعلقہ سویلین یا فوجی کو امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا، جب کہ معاہدے کے اس آرٹیکل کے تحت افغانستان اور امریکا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی یا سویلین کو کسی بھی بین الاقوامی عدالت ، ادارے یا تنظیم کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام شرائط کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی کہے کہ اس معاہدے میں افغانستان کے مفادات کا خیال بھی رکھا گیا ہے اور امریکا نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان کی خود مختاری کو تسلیم کیا ہے تو ایسا کہنے والے کو اپنی عقل کا علاج کرالینا چاہیے، کیونکہ ان شقوں کی موجودگی میں امریکی فوجی اہل کار اپنے آپ کو نہ صرف ہرطرح کی قانونی گرفت سے مبرا سمجھیں گے بلکہ ایسی صورت میںان کے ہاتھوں افغان شہریوں کے ساتھ امتیازی اور انتقامی سلوک روز مرہ کا معمول ہوگا۔
آرٹیکل (۱۵)میں افغانستان میں امریکی اہل کاروں کے دخول اور خروج کے حوالے سے شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ اس آرٹیکل کے تحت امریکی اہل کار کسی بھی وقت افغانستان میں داخل اور خارج ہو سکتے ہیں۔ ایساکرتے وقت انھیں کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نیز امریکی اہل کار افغانستان میں غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن قوانین سے بھی مستثنیٰ ہوں گے ۔ ویزے اور پاسپورٹ اور غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کی شرائط ساقط کر کے امریکا واضح طور پر افغانستان کو اپنی باقاعدہ کالونی ڈکلیئر کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ بعض لوگ اس شق کی روشنی میں افغانستان کو امریکا کی ۵۳ویں ریاست بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ایسا اس لیے نہیں ہے کیونکہ امریکا اس نام نہاد دوطرفہ معاہدے کے ذریعے افغانستان پر تو اپنا حق تسلط تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن اس کے بدلے میں نہ تو افغان سرزمین اور نہ ہی افغان عوام کو رتی برابر بھی کوئی اہمیت دی گئی ہے ۔
آرٹیکل (۱۶)میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی استعمال کے لیے برآمد یا درآمد ہونے والی اشیا ہر قسم کے معائنے اور پابندی سے مبرا ہوں گی۔ یعنی امریکا کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ افغانستان میں جو بھی اشیا برآمد یا درآمد کرنا چاہے اس سے افغان حکام پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے اور اس حوالے سے امریکا کو کھلی آزادی ہوگی ۔ آرٹیکل (۱۷)میں ٹیکسیشن پر بحث کرتے ہوئے افغان سرزمین پر امریکی اہل کاروں کے استعمال کے لیے خریدی گئی تمام اشیا افغان ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں ۔ اسی طرح امریکی افواج اور ٹھیکے دار بھی ہر طرح کے افغان ٹیکسوں کی ادایگی سے مبرا ہوں گے ۔ یعنی جو لوگ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کو اقتصادی نفع اور افغانوں کی اقتصادی حالت کے بہتر ہونے کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی یہ خوش فہمی اس شق سے دُور ہو جانی چاہیے کہ افغانستان میں ۱۰سالہ قیام کے دوران امریکا یہاں جتنے وسائل اپنے استعمال کے لیے لائے گا وہ ہر طرح کے ٹیکسوں سے آزادہوں گے اور ان کا ذرہ برابر فائدہ بھی افغانوں کو نہیں پہنچے گا۔
اس معاہدے کے آرٹیکل (۱۸)میں امریکی افواج اور ان کے ٹھیکے دار وں، حتیٰ کہ ان کے ملازمین کوبھی جاری کیے گئے ڈرائیونگ ، ہواباز ی اور کشتی رانی کے لائسنس افغانستان میں موثر ہوں گے اور انھیں افغان لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ اسی طرح آرٹیکل (۱۹)میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکی افواج اور ٹھیکے داروں کے زیر استعمال گاڑیاں افغانستان کی رجسٹریشن سے آزاد ہوں گی اور ان گاڑیوں کو امریکی رجسٹریشن پر پورے افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہو گی ۔ خدمات سے متعلق آرٹیکل ۲۰میں امریکیوں کو اپنی افواج کی سہولت کے لیے افغانستان میں اپنے بنک ، ڈاک خانے ، تفریحی مقامات اور نیوز چینل قائم کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے، جب کہ ان خدمات تک رسائی کے اصول و ضوابط پر امریکی قوانین لاگو ہوں گے۔ امریکا کو ان خدمات کی فراہمی کے لیے افغانستان سے کسی لائسنس لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ، نیز امریکی نظام ڈاک کے تحت بھیجے جانے والے تمام خطوط (ڈاک) معائنہ ،تلاشی اور ضبطی سے مستثنیٰ ہوں گے ۔
آرٹیکل( ۲۲)میں جایداد کے نقصان، مجروحین اور مقتولین کو زر تلافی کی ادایگی سے معاف تصور کیا جائے گا۔تنازعات کے ضمن میں آرٹیکل ۲۴میں قرار دیا گیا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی بھی مشکل پیش آنے کی صورت میں فریقین باہمی گفت و شنید سے فیصلے کریں گے اور ایسے مسائل کو کسی ثالث ، بین الاقوامی عدالت یا کسی اور فورم پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ یہ معاہدہ چونکہ دنیا کے دو طاقت ور ترین اور کمزور ترین ممالک کے درمیان طے پایا ہے لہٰذا آرٹیکل( ۲۴)میں ا س بات کو بہ صراحت شامل کر دیا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی زیادتی، دست اندازی اور ظلم و جبر پر افغانوں کے پاس سواے صبر و تحمل اور برداشت کے کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہوگا۔انھیں امریکی افواج کا تابع مہمل بن کر رہنا ہوگا۔ انھیں کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف داد رسی تو کجا، آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی ۔
زیر بحث معاہدے میں دو ضمیمہ جات بھی شامل ہیں۔ جسے آرٹیکل(۲۳)کے تحت اس معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ضمیمہ -۱،ان مقامات سے متعلق ہے جنھیں امریکی افواج استعمال کرسکیں گی ۔ یہ مقامات کا بل ، باگرام ،مزار شریف ،ہرات ،قندہار ، شور آب (ہلمند) گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ کے علاقوں پر مشتمل ہیں ، جب کہ ضمیمہ۲،میں آمدو رفت کے مقامات ظاہر کیے گئے ہیں ۔ ان مقامات میں باگرام ائر بیس ، کابل انٹر نیشنل ائیر پورٹ،قندہار ایئر بیس، شین ڈھنڈ ایئر بیس،ہرات انٹرنیشنل ایئر پورٹ ،مزار شریف ایئر پورٹ اور شورآب (ہلمند)کے علاوہ سپین بولدک(قندہار)، طورخم(ننگرہار) تورغنڈی (ہرات) حیرتان(بلخ) اور شیرخان بندر (کندوز) کے زمینی مقامات( سرحدی علاقے) بھی شامل ہیں ۔
یہ معاہدہ افغانستان کے لویہ جرگہ میں منظور کیا جاچکا ہے۔ اب صرف صدرکرزئی کے دستخط کی دیر ہے کہ یہ رُوبہ عمل آجائے گا۔ صدرکرزئی شرائط بہتر کرنے کے لیے تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بلکہ امریکا سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں ان کے بھائی عبدالقیوم کرزئی کی حمایت کرے۔
٭مضمون نگار کا ای میل پتا: alamgir_afridi@yahoo.com
مارچ۲۰۱۱ء سے ظالم بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کوپورے ایک ہزار دن مکمل کرلیے ۔پونے تین سال سے جاری اس خوں ریزی میں اب تک کم وبیش ڈیڑھ لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ ختم ہو، عوام کو آزادیاں اور سکھ کا سانس ملے اور پر امن طریقے سے اصلاحات لائی جائیں۔ بدقسمتی سے بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو قتل اور ملک کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ۳۰لاکھ سے زائد لوگ بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دیگر آزاد ذرائع نے بشار اور اس کی انتظامیہ کو شام میں تمام تر تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے شامی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قرار دیتے ہوئے بشار اور اس کے قریبی رفقا کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کردینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے شام عرب ممالک میں ساتواںبڑا ملک ہے ۔ اس کی ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کا ۹۰ فی صد عرب،۸ فی صدکُرد اور باقی دیگر قوموں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں غالب اکثریت اہل سنت کی ہے ۔ علوی ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقے ۱۰ سے۱۵ فی صد کے قریب اور باقی مسیحی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ شام افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی، لبنان ،مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، اُردن اور عراق کے ساتھ ملتی ہیں۔
حکومت کے خلاف مظاہروں کے شروع ہوتے ہی بشار نے اسے طاقت سے کچلنے کاآغاز کردیا تھا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پکڑ دھکڑ ہی نہیں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی گئی، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے رہایشی علاقوں کو گھیرلیا گیا،اور پھر جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری شروع کردی گئی۔ گھروں، سکولوں ، مسجدوں اور ہسپتالوںکو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پوری پوری عمارتوں کو مکینوں سمیت ملیامیٹ کردیااور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ زیادہ تر شہر خالی ہوگئے اور لوگ پُرامن علاقوں اور پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بشار کے مظالم نے پناہ گزین کیمپوںمیں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی بچوں اور خواتین کومیزائلوںاور فضائی حملوں کانشانہ بنا رہا ہے۔
ایک موقع پر عرب لیگ نے بھی خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں،ایک متفقہ قراردادکے ذریعے بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے اور اختیارات اپنے نائبین کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں یہی مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہرایا گیالیکن دونوں دفعہ روس اور چین نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کردی۔ سلامتی کونسل نے بہت تیر مارا تو ۱۴،اپریل ۲۰۱۲ء کو ایک اور قرارداد میں شام کی حکومت سے فوری جنگ بندی اور رہایشی علاقوں کی طرف فوج کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے مشترکہ طور پر کوفی عنان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھیجاتاکہ بشار حکومت کی جانب سے روارکھے گئے انسانیت سوز مظالم کو روکے ۔لیکن کوفی عنان کے مختصر دورے کے فوراً بعد نہتے مظاہرین اور بے گناہ شہری ایک دفعہ پھر ٹینکوں، توپوں اورفضائی بم باری کا سامنا کر رہے تھے۔
بشار انتظامیہ کی جانب سے رہایشی علاقوں پر بم باری کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں ،زیادہ تر علاقے خالی ہوچکے ہیں۔ شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کا رخ بھی کیا ۔اقوام متحدہ کے کمیشن براے مہاجرین کے مطابق یورپ نے شام سے پناہ لینے کے لیے آنے والوں کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا اور صرف ۱۰ یورپی ممالک نے ان کو پناہ دی۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے جس نے ۱۰ ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے والے شامی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ بیش تر لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہورہی اور وہ عملا قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شامیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں بھی پناہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی ہے ۔ تاہم فوجی حکومت کے نامناسب رویے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ گذشتہ دنوں مصر ی حکام نے کئی خاندانوں کو مصر سے بے دخل کردیا تھا۔مہاجرین کا سب سے زیادہ دباؤ لبنان پر ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساڑھے ۸ لاکھ مہاجرین سرحد عبور کرکے لبنان پہنچ چکے ہیں۔ ترکی اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں شامی مہاجرین کی حالت قدرے بہتر ہے جہاں حکومت کی سرپرستی کے باعث رفاہی اداروں کی رسائی اور امدادی کارروائیاں قدرے آسان ہیں۔
بشار کی وحشیانہ کارروائیوں اورجنگی جہازوں کی بم باری سے ۱۲ لاکھ گھر تباہ ہوچکے ہیں اور روز بروزاس میں اضافہ ہورہا ہے ہیں ۔ بڑی تعداد میںلوگ پڑوسی ممالک کے علاوہ ملک کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے براے بحالی مہاجرین کے مطابق اب تک ۶۵ لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مختلف کیمپوںاور دیگر مقامات میںزندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ UNHCR کے مطابق ان میں سے صرف ۴۶ ہزار لوگ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیںجوپانچ مختلف ممالک میں ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ باقی لوگ انتہائی پریشان کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقے سخت برف باری کی زد میں ہیں اور درجۂ حرارت منفی ۱۰ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ سخت سردی کی اس لہر میں خیموں کے اندر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
بشار انتظامیہ کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، بڑی تعداد میں فوجی افسران اور سپاہیوں نے بھی فوج سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔علیحدگی اختیار کرنے والے افسران اور مختلف تنظیموں نے مسلح گروپ تشکیل دیے ہیں۔سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل حسین ہرموش فوج سے الگ ہوئے جس نے ’الاحرار بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیااور فوج میں اپنے دوستوں سے اپیل کی کہ حکومت سے الگ ہوجائیں اور ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ بعد ازاں جیسے جیسے فوجی افسر بغاوت کرکے فوج سے نکلتے رہے،اپنا گروپ تشکیل دیتے رہے۔یہی نہیں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔ اس وقت مختلف ناموں سے دو درجن سے زائد جہادی تنظیمیں بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر چہ ان تنظیموں کے آپس میں اِکّا دکّا واقعات کے علاوہ کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع تو نہیں آئی ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں مسلح گروہوں کی تشکیل ہی دشمن کو تقویت اور اپنی اپوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر دشمن ممالک اور تخریبی ادارے بھی مجاہدین کے نام پر ایسے گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے جہاد اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیتی ہیں۔
بعض علاقوں میں مسلح گروہ ایک چھتری تلے جمع ہو گئے ہیںجیسے گذشتہ دنوں حلب میں تمام چھوٹی تنظیموں نے جبہۃ اسلامیہ کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا لیکن ملکی سطح پر تمام گروپوں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
زمینی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ شام کا ۹۰ فی صد سے زائد علاقہ بشار کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ حمص ، السویداء ، لاذقیہ اور درعا کے علاوہ تمام اضلاع مجاہدین کے کنٹرول میںہیں، جب کہ دارالحکومت دمشق کے بیش تر حصے پر بھی مجاہدین کا قبضہ ہے ، اور وہاںمجاہدین اور بشار انتظامیہ کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بشار چونکہ زمینی جنگ ہار چکا ہے اس لیے اب وہ صرف بم باری پر انحصار کر رہا ہے ۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے دارالحکومت میںشامی اپوزیشن قوتوںکے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت ایک چھتری تلے جمع ہوگئی۔ انقلابی طاقتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد نے عالمی برادری کی توجہ شام کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ شامی مجاہدین کی کوششوں کو بھی مربوط کرنے میںمدد دی ہے۔
۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی کا اقتدار سنبھالتے ہی اخوان کی آزمایش کا دور شروع ہو گیا تھا۔حافظ الاسد نے۱۹۷۱ء میں برسر اقتدار آکر اخوان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیااور قید وبند کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۸۰ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان کے ساتھ تعلق ثابت ہونے کی سزا پھانسی مقرر کردی گئی جو آج بھی باقی ہے۔اخوانی قیادت کی اکثریت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مارچ ۲۰۱۱ء میں بشار کے خلاف جدوجہد کے آغاز ہی سے اخوان پوری طاقت سے ایک مؤثر فریق کی حیثیت سے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔
امریکا اس پورے مسئلے میںنہایت عیاری سے تباہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی برادری کی تائید حاصل کرنے کے لیے ایک طرف وہ شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے زبانی وعدے کر رہا ہے اور دوسری طرف معاملے کو مزید طول دے کر عراق کے بعد ایک اور مسلمان ملک کو کمزور کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سرحدیں مضبوط ہوں اوروہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ بھی کھلم کھلابشار کا ساتھ دے کر اس خون ریزی میں شریک ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بشار کی حکومت اسرائیل کے سامنے بند کی حیثیت رکھتی ہے ،اس لیے ہم اسے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ،لیکن عملاًدیکھیں تو خود اسرائیلی انتظامیہ ، امریکا اور عالمی برادری سب بشار انتظامیہ کو باقی رکھنے پر مصر ہیں۔اگر ان دونوں فریقوں(ایران و حزب اللہ) اور (امریکا واسرائیل) میں سے کوئی ایک فریق بھی بشار انتظامیہ سے نجات کا فیصلہ کرلیتا تو یقینا بشار اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔
جیسے جیسے بشار الاسد اپنا قبضہ وتسلط کھوتا جارہا ہے اور امریکا واسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو بشار کے بعد خطے میں ان کے مفادات کا خیال رکھ سکے اور جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔
شام کے مسئلے کے حل کے لیے براے نام کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور روس کی آشیرباد سے عالمی برادری آیندہ جنوری میں جنیوا ۔۲ کے نام سے کانفرنس کر رہی ہے۔اس سے قبل ’جنیوا-۱‘ ہوچکی ہے۔ ملک کے زیادہ تر حصے پر مجاہدین کے قبضے کے بعد حقوق انسانی کے علَم بردار ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اب بشار کے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ توپایدار ہوگا نہ معاملے کے اصل فریق، یعنی شامی عوام کو قابل قبول ۔
سخت سردی اور بد ترین بم باری کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک ، انسانی حقوق کی تنظیموںاور رفاہی اداروںکا فرض ہے کہ آگے بڑھ کرمظلوموں کی فوری مدد کریں۔
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اولین کتاب: مغازیِ رسولؐ اللّٰہ ہے جسے حضرت عروہ بن زبیرؓ (م:۹۴ھ) نے لکھا۔ سیرتِ نبویؐ کا ذخیرہ آج دنیا میں کم و بیش ۱۰۰ زبانوں میں ہزاروں کتب و تراجم کی شکل میں دستیاب ہے۔ اُردو زبان میں ذخیرۂ سیرت ۳ہزار سے متجاوز نظم ونثر کی چھوٹی بڑی مطبوعات کی صورت میں موجود ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا نظر آرہا ہے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں سیرتِ رسولؐ پر کتب پر سیرت اوارڈ سے بھی اس کی مزید حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ پھر مستشرقین نے نبی اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ پر اعتراضات اُٹھائے تو اس کے رد میں کتب سیرت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ اسی طرح بعض غیرمسلموں نے بھی نبی اکرمؐ کی شان میں کتب لکھی ہیں جو اپنی جگہ لائق مطالعہ ہیں۔ غرض سیرتِ رسولؐ کے ذخیرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے جو اہلِ ایمان کا علمی ورثہ ہے اور اسے نئی نسلوں تک سیرتِ رسولؐ کے شایانِ شان اور عصرِحاضر کے جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ میدان اہلِ علم و تحقیق کو غوروفکر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
ذخیرۂ سیرتِ نبویؐ کو محفوظ کرنے اور نئی نسل تک جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے ادارہ نشریات نے کتب ِ سیرت کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حیات سرورِ کائناتؐجو ماضی قریب میں علمی وادبی حلقے کے ایک معروف نام مُلّا واحدی دہلوی کے قلم سے سامنے آئی، کی اشاعت ِ نو اسی غرض سے کی گئی ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت اور مقام کے بارے میں پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم تقریظ میں لکھتے ہیں:’’سیرت النبیؐ کے موضوع پر اُردو میں ہزاروں چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل لکھے گئے ہیں مگر مُلّاواحدی کی کتاب حیاتِ سرورِکائناتؐ اس تمام پاکیزہ ذخیرے میں اپنے مضامین، اسلوب، حسنِ ترتیب، زبان و بیان اور طرزِانشاء کے لحاظ سے یگانہ و ممتاز ہے۔ ہرچند اس تصنیف میں سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، رحمۃ للعالمینؐ از قاضی محمد سلیمان، سلمان منصور پوری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی، نیز مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی متعدد تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح جو تصویر سامنے آئی ہے وہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کے سوانحی پہلو کی کامل تصویر پیش کرتی ہے بلکہ اس میں کارنامۂ نبوت کی تمام تر تفصیلات، اسوئہ حسنہ کی پاکیزگی اور تابندگی، معمولاتِ نبویؐ کی جزئیات اور دین و شریعت کی تمام تر تعلیمات کا عکس بھی دکھا دیا گیا ہے....مصنف نے کہیں کہیں مغربی دانش وروں کے ایسے اقوال اور تحریریں بھی درج کی ہیں جن سے عظمت ِ مصطفویؐ اور اعترافِ رسالت کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سیرت، نبوت و رسالت کی رواں تفسیر دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (ص ۳۱)
سیرتِ نبویؐ کے ذخیرے سے استفادے کا یہ اقدام مبارک باد کا مستحق ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اربابِ علم و دانش کو طباعت و تحقیق کی جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس پہلو پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ جہاں حب ِ رسولؐ کا تقاضا ہے وہاں علمی ضرورت بھی ہے۔(امجد عباسی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عربی، اُردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن میں اتنی کثیر تعداد میں کتابیں تحریر کی گئی ہیں کہ تاریخ میں کسی بھی انسان پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں تحریر نہیں ہوئیں۔ حضور اکرمؐ کے متعلق ہر مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق قلم اُٹھایا، مثلاً تصوف کے حوالے سے یا حضور اکرمؐ بطور ایک عظیم سپہ سالار یا بطور ایک انقلابی رہنما یا بطور ایک کامیاب حکمران اور ماہر سیاست دان وغیرہ۔
مصنف نے حضور اکرمؐ کی عملی زندگی میں عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں لوگ حقوق العباد کو بھول چکے ہیں، انھیں حضور اکرمؐ کی سیرت کے حوالے سے اس طرف توجہ دلائی جائے تو یقینا وہ راہِ راست کی طرف پلٹیں گے۔
مصنف نے سیرت النبیؐ کی معتبر و مستند کتابوں اور قرآنِ مجید کے حوالوں سے اپنی کتاب مرتب کی ہے (اگرچہ حوالے کہیں مبہم، کہیں ناقص اور ادھورے ہیں)۔ پہلے ۱۷؍ابواب حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے واقعات زمانی ترتیب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ باقی حصے میں مختلف موضوعات پر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اسلامی تعلیمات و ہدایات پیش کی گئی ہیں۔ اکیسویں باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں سے ، جسے مصنف نے عملی قرآن لکھا ہے (ص ۲۹۱) چند ایسے واقعات لکھے ہیں جن سے حضور اکرمؐ کے حُسنِ اخلاق اور حُسنِ معاملہ کا پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔
مصنف نے عام فہم زبان میں اللہ کے آخری نبیؐ کی زندگی کو محبت و عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں چند ایک اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ نقشِ ثانی میں تصحیح ہوسکے۔ غار، مذکر ہے، اسے مؤنث لکھا گیا ہے (۲۹۸)۔ حضور اکرمؐ کی رضاعی والدہ کا نام ثویبہ ہے، ثوبیہ لکھا گیا ہے (ص ۴۴)۔ حضوراکرمؐ کی سیرت کا سب سے بڑا مآخذ قرآنِ مجید ہے۔ پوری کتاب میں قرآنی حوالوں کے لیے عربی متن کے بجاے صرف اُردو ترجمہ دیا گیا ہے، قرآن کی آیات کا ترجمہ کسی مستند ترجمے سے دیا جائے تو مناسب ہے۔ یہی حال احادیث کی کتاب کے حوالوں میں ہے، یعنی حدیث کی کتاب کا نام دیا ہے، صفحہ نمبر نہیں دیا۔ بعض اشعار بھی غلط نقل ہوئے ہیں۔ بعض حوالے نامکمل ہیں ص ۱۲۶ پر، حوالہ نمبر۲۸ کے تحت صرف پیرکرم شاہ لکھا گیا ہے۔ کتاب کا نام اور صفحہ نمبر مفقود ہے۔ طائف فتح نہیں ہوا (۱۸۴)، حضور اکرمؐ نے چند روز محاصرہ کیا پھر لوٹ آئے۔ اسلوبِ بیان واضح، صاف اور سلیس ہے، کہیں ابہام نہیں۔ اُمید ہے کہ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق عمل کا داعیہ محسوس کریں گے۔(ظفرحجازی)
قرآنِ مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کے عجائب کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ ہے۔ قرآنِ مجید سے ہدایت و رہنمائی اور اس کے مفہوم کو جاننے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تفاسیر لکھی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کا فہم و شعور ایک مختصر اور جامع تفسیر ہے جو انفرادیت کی حامل ہے۔
نبی اکرمؐ کے طریق تعلیم میں ایک پہلو استفہامی انداز بھی تھا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو متوجہ کرنے کے لیے سوال پوچھتے تھے اور پھر جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح سے جہاں بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی تھی وہاں ذہن نشین بھی ہوجاتی تھی۔ راجا محمد شریف قاضی نے جو کئی کتب کے مصنف ہیں اور دعوت و تدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، تفسیرقرآن کے لیے اس طریق تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورئہ فاتحہ، سورئہ بقرہ اور آخری پارے کی تفسیر کی ہے۔
آغاز میں سورہ کا مختصر تعارف دیا گیا ہے جو کہ سوال و جواب کی شکل میں ہی ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے بعد ’لغت‘ کے عنوان سے اہم عربی الفاظ کے معنی، قواعد و ضوابط اور مآخذ و مصادر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد آیاتِ قرآنی کی مختلف عنوانات کے تحت سوالاً جواباً تشریح دی گئی ہے۔ آیات میں بیان کردہ مضامینِ قرآن کو واضح کرنے کے لیے مختلف ابواب کا تعین کیا گیا ہے اور ہرباب کے آخر میں ’مشق‘ دی گئی ہے تاکہ اہم موضوعات ذہن نشین ہوجائیں۔ تفسیرقرآن کے لیے سیدمودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو بنیاد بنایا گیا ہے اور سیدقطب شہیدؒ کی فی ظلال القرآن اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تدبرقرآن سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
استفہامی انداز میں یہ مختصر تفسیر جہاں قرآنِ مجید کے اہم مضامین کو جاننے کا ذریعہ ہے وہاں قرآنی عربی سیکھنے کی رغبت بھی دلاتی ہے۔ اگر قرآنی عربی کا کورس بھی کرلیا جائے تو آیات کے ترجمے کی استعداد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فہم قرآن اور مدرسین قرآن کے لیے ایک مفید تفسیر ہے۔ اگر اس سلسلۂ تفسیر کو مکمل کرلیا جائے تو قرآن فہمی کے لیے یقینا ایک مفید خدمت ہوگی۔(امجد عباسی)
یہ کتاب مصر میں حسنی مبارک کے بعد، صدر مرسی کے مختصر دور اور پھر جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی صورت حال کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب نے مصر کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا پس منظر فراہم کر کے ایک اہم ضرورت پوری کی ہے۔
مصنف نے اس کتاب کے ایک باب میں حسن البنا سے محمد بدیع تک تمام مرشدین عام اور دوسرے باب میں ’اخوان اہلِ قلم کا قافلہ‘ کے عنوان سے ۱۴شخصیات پر ضروری معلومات فراہم کی ہیں۔ دوتہائی سے زیادہ کتاب گذشتہ دو تین سال کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس دوران جو تجزیے اور رپورٹیں اُردو یا عربی میں شائع ہوئیں ان کا ایک مربوط انتخاب صورتِ حال کی مکمل تصویرکشی کردیتا ہے۔ صدرمرسی کے انٹرویو، ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹیں، اسی طرح فوجی بغاوت کے بارے میں ضروری معلومات، سب جمع کردی گئی ہیں۔ ریفرنڈم میں منظورشدہ دستور کا مکمل متن بھی شامل ہے۔ ابتدا میں ہی رابعہ العدویہ، شہدا، بچوں اور بڑے بڑے اجتماعات کی تصاویر سے تحریکِ مزاحمت کی بھرپور جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نعیم صدیقی کی مشہور نظمیں ’پھر ایک کارواں لٹا‘ ، ’یہ کون تھا کس کا خون بہا؟‘ بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کی حیثیت ایک مستند دستاویز کی ہوگئی ہے۔ اگر سب منتخب تحریرات کے حوالے بھی دیے جاتے تو کتاب زیادہ مستند ہوتی۔ مصنف اس کتاب کی بروقت طباعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے لوازمہ ایک جگہ فراہم کردیا ہے۔ (طاہر آفاقی)
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے انتقال (۵جنوری ۲۰۱۳ء) پر جس طرح سے عالمی سطح پر اور اندرونِ ملک حلقوں نے ان سے اظہارِ عقیدت کیا، اس سے ان کی شخصیت اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت، جدوجہد، خدمات اور درپیش اہم چیلنجوں کا زیرتبصرہ اشاعت ِ خاص میں احاطہ کیا گیا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین، علماے کرام، معروف سیاست دان، جماعت اسلامی کے قائدین اور وابستگان اورمعروف اہلِ قلم، دانش وروں اور کالم نگاروں کے افکار و آرا اور انٹرویو اس اشاعت خاص میں یک جا کردیے گئے ہیں۔ قاضی صاحب کا جہادِافغانستان میں اہم کردار تھا، حکمت یار گلبدین نے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ مسئلۂ کشمیر اور جہادِ کشمیر سے قاضی صاحب کی وابستگی پر الیف الدین ترابی اور عبدالرشید ترابی اظہارِ خیال اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اہلِ خانہ اور احباب کے تاثرات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ مضامین کے ساتھ منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ مجاہد ملت قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک ضخیم اشاعت خاص۔(امجد عباسی)
’قتلِ غیرت‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بظاہر اس کے معنی ’غیرت کو قتل کردینا‘ ہوں گے، لیکن مصنف کی مراد اس سے بالکل برعکس یہ ہے کہ غیرت کو باقی رکھنے یا ’پاسِ غیرت‘ میں قتل کرنا۔ انگریزی میں اس کے لیے عام اصطلاح Honour Killing ہے۔
مغرب میں، اور ہمارے ملک میں بھی، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’غیرت‘ کی بناپر عورتوں پر تشدد، جو اُن کی ہلاکت پر بھی منتج ہوسکتا ہے، صرف مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بقول مصنف: ’’غیرت مغرب کا مسئلہ بھی ہے اور مشرق کا بھی۔ یہ ایک انسانی تقاضا ہے کہ انسان اپنے نسلی و خاندانی کردار پر اُٹھنے والی ہرانگلی کو اپنی عزت و آبرو پر اُٹھنے والا اشارہ تصور کرتا ہے۔ اس تصور کے بعد عمل کیا ہے یہ ایک اور رویّہ ہے، جو مختلف ہوسکتا ہے۔’غیرت‘ قتل ہوجائے تو قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ غیرت رُسوا کرے تو بے حیائی کی نئی تعبیر بھی بن جاتی ہے۔(ص ۱۱)
نام نہاد غیرت کی بنا پر کسی کو قتل کردینا، عام طور پر مردوں کا ہی فعل ہوتا ہے، جس کا شکار کوئی عورت ہوتی ہے، خواہ وہ بیوی ہو، بیٹی، بہو یا ماں، یا خاندان کی کوئی اور عورت۔ پاکستان میں کسی عورت کے جنسی جرم کے نتیجے میں اُسے نظربندی، زبردستی کسی سے نکاح، جسمانی تشدد، بدہیئت بناد ینا (ناک، کان کاٹ دینا، تیزاب سے چہرہ مسخ کردینا) بھی بہت شاذ نہیں۔ مگر اس طرح کے جرائم، نام نہاد ’مہذب مغرب‘ میں بھی عام ہیں اور انھیں ’گھریلو تشدد‘ کا نام دے کر نسبتاً ایک ہلکا سا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکا میں خواتین پر تشدد کے ایک جائزے پر مبنی رپورٹ (۲۰۰۴ء) کے مطابق، ہر چھے میں سے ایک امریکی عورت اپنی زندگی میں عصمت دری یا مجرمانہ حملے کا نشانہ بنتی ہے۔ لیکن ان کے نصف سے بھی کم واقعات کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کی جاتی ہے۔ (ص ۱۰۱)
مصنف نے ’جنسی غلامی‘ پر طویل بحث کی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی نام نہاد ’مہذب دنیا‘ میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا، اور ہو رہا ہے، اس کی داستان بڑی دل گداز اور شرم ناک ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جاپانیوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں، روسیوں نے جرمن شکست خوردہ قوم کی عورتوں کے ساتھ، گوئٹے مالا کی خانہ جنگی، کانگو، لائبیریا، چیچنیا، کویت، کشمیر اورسری لنکا، بوسنیا اور خدا جانے دنیا کے کون کون سے گوشے ہیں، جہاں عورتوں پر تشدد اور بدترین سلوک کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو انھیں پانچ فٹ کے ڈربوں میں بند رکھا جاتا رہا۔ اس طرح کے سلوک سے کم ہی عورتیں زندہ بچ پائیں (ص ۲۴۷)۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ فوجیوں کے اس اجتماعی آبروریزی جیسے اقدام میں اعلیٰ فوجی کمان کے فیصلے اور حمایت بھی شامل تھی، جہاں عصمت دری کو بطورِ ہتھیار اور اپنے فوجیوں کی آسایش اور آسودگی (relief/comfort) کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
صنف ِ نازک کے ساتھ انسانوں کا ایسا سلوک، اسفل ترین حیوانات بھی نہیں کرتے۔ کیا کیا جائے؟ اس عقدۂ مشکل کی کشود، انسانی ساختہ قوانین سے نہیں ہوسکتی۔ صرف علیم و خبیر ہستی پر حقیقی ایمان اور جزا و سزا پر اعتقاد ہی سے اس شرم ناک، بلکہ دہشت انگیز طرزِعمل کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایک اکیلی عورت صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہے، اور اُسے سواے خدا کے کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ کاش مصنف ایک باب میں یہ شہادت بھی پیش کردیتے۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
[تزکیۂ نفس کے لیے جہاں نیکی کے لیے ترغیب کی اہمیت ہے وہاں بُرائیوں سے بچنے کی ممانعت میں بھی حکمت ہے۔ مینارۂ نورکے تحت ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے بُرے اور ناپسندیدہ کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس میں کبیرہ و صغیرہ گناہ اور نازیبا حرکات کا تذکرہ ہے۔ مؤلف نے احایث کو ایمانیات، اخلاقیات، سماجیات اور معاملات کے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ چند عنوانات: تعلق باللہ میں حائل رکاوٹیں، باوقار شخصیت کے لیے ضروری پابندیاں، ماحولیات کی بہتری کے لیے ضروری پابندیاں۔]
[قرآنِ مجید کے موضوعات کا پانچ عنوانات: عقائد (توحید، رسالت اور آخرت)، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور تاریخ کے تحت اختصار اور جامعیت سے بیان۔]
[قانتہ رابعہ ادبی حلقوں میں ادیب اور افسانہ نگار کی شہرت رکھتی ہیں لیکن اسے زندہ کر دوبارہ میں اقبال کے مصرعے ع دل مُردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کے مصداق مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے تزکیہ وتربیت اور فکری رہنمائی کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ مختصر ، فکرانگیز اور اثرپذیر نثرپاروں کا مجموعہ۔]
[رزق میں کشادگی کے لیے ۳۰ اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث،اقوال ائمہ اور واقعات سے افادیت بیان کی گئی ہے۔ رزق کی ان کنجیوں میں بیان کردہ اُمور پر تھوڑی سی توجہ سے بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً: اللہ کا ذکر کرنا، استغفار، تقویٰ، گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کہنا، غیبت سے اجتناب، نمازکی ادایگی اور اہلِ خانہ کو توجہ دلانا، مسنون دعائیں، صلۂ رحمی، حصولِ رزق کے لیے منہ اندھیرے اُٹھنا۔ کشادگی رزق کے لیے اقامت حدود، یعنی بدی کا مٹانا بھی ناگزیر ہے۔]
[مسلمانانِ پاکستان اور صاحبانِ اقتدار گذشتہ ۶۶سال سے سودی نظام کے ساتھ سمجھوتا کیے ہوئے ہیں، اس کو عالمی استعمار کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ اس کتابچے میںوطن عزیز میں سود کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کا اجمالی جائزہ سامنے آگیا ہے جو عوامی سطح پر تفہیم اور ابلاغ کی ایک عمدہ کوشش ہے۔]
[سیّد جلال الدین عمری کی اس کتاب میںقرآن کی فضیلت، عظمت، آداب، علمی اعجاز، عالمی اثرات اور اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بیان کیے گئے ہیں۔اب یہ پاکستان سے بھی شائع ہوگئی ہے۔ بھارتی اڈیشن پر ڈاکٹر انیس احمد کا تبصرہ عالمی ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۱۳ء) میں شائع ہوچکا ہے۔]
[تعلیم و تربیت، روزگار کے مواقع کہاں ہیں؟ شوق و رجحان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیسے ہو؟ کامیاب اور خوش حال زندگی کیسے بسر کی جاسکتی ہے؟ یہ اور اس طرح کی مہارتوں اور معلومات سے معمور یہ کتاب کیریئر گائیڈنس اور کیریئر پلاننگ پر اُردو میں پہلی کتاب ہے۔ اس ضمن میں ’زندگی کے راستے‘ کا بلاگ (carieer.org.pk) بھی سودمند ہے۔ جس میں کیریئر پلاننگ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی دل چسپی کی دوسری معلومات بھی موجود ہیں۔]
[کیا پاکستان حادثاتی طور پر وجود میں آیا تھا؟ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر؟ موقع پرست عناصر نے نظریۂ پاکستان پر کیا کیا حملے کیے اور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے میں کیا کردارادا کیا؟ علامہ اقبالؒ نے پاکستان بنانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ قومی زندگی میں ادب کی کیا اہمیت ہے اور قوم کی تعمیر میں ادب کیا کردار ادا کرتا ہے؟ عظیم تر پاکستان کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ یہ کتاب ان سوالات کا جواب دیتی ہے۔]
عالمی ترجمان القرآن الحمدللہ ہرماہ موقع محل اور حالات کی مناسبت سے فکری رہنمائی کا قابلِ تعریف فریضہ ادا کرتا ہے۔ دسمبر۲۰۱۳ء کا مجلہ نظرنواز ہوا تو پرچے کی جامعیت کو دیکھ کر ضروری محسوس ہوا کہ اپنا تاثر پہنچایا جائے۔ محترم مدیر کے ’اشارات‘ اور ’شذرات‘ دونوں ہی بروقت اور بہت معیاری تھے۔ ’حکمت مودودی‘ سے انتخاب بھی حالات کی ضرورت تھا۔ ’نماز اور صحت‘، ایک ڈاکٹر کی طبی تحقیق نے بہت اچھا تاثر قائم کیا ہے۔ ’میڈیا کا کردار- اسلامی نقطۂ نظر‘ میں ڈاکٹر توقیرعالم فلاحی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان افروز تحریر قلم بند کرکے ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے لیے تذکیر کا حق ادا کردیا ہے۔ ’اخباراُمت‘ میں عبدالغفار عزیز عالمِ اسلام کے مختلف ممالک کے حالات پر جان دار تجزیہ کرتے ہیں۔ مصر میں آج کل کیا ہو رہا ہے؟ سوڈان کی صورت حال کیا ہے؟ برما میں تباہی کے بعد مسلم اقلیت کا حال کیسا ہے؟ اور دیگر ممالک کے بارے میںگاہے گاہے معلومات آتی رہیں تو بہت اچھا ہو۔
محمود احمد خان ، میاں چنوں
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے حوالے سے پروفیسر خورشیداحمد نے بجا توجہ دلائی ہے۔ آج فی الواقع پاکستان کو دہشت گردی اور فرقہ واریت نے آتش فشاں کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں عادلانہ حکمت عملی اپنانا ہی مسئلے کا حل ہے۔ علماے کرام کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فرقہ واریت کی نفی اور اتحادِ اُمت پر زور دینا چاہیے۔’حکمت مودودی‘ کے تحت اتحادِ ملت کے لیے جن پانچ بنیادوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، ان کے لیے فضا ہموار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
’قرآن کی درست تلاوت‘ (دسمبر ۲۰۱۳ء) میں قرآن کے حقِ تلاوت کی طرف نہ صرف بجا توجہ دلائی گئی ہے بلکہ عملاً رہنمائی بھی د ی گئی ہے کہ تلاوتِ قرآن کے دوران کن اُمور کو ملحوظ رکھا جائے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو جہاں درست تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے وہاں قرآنی عربی بھی سیکھنی چاہیے جو بآسانی سیکھی جاسکتی ہے تاکہ فہم قرآن اور لذتِ قرآن سے بھی آشنا ہوا جاسکے۔
’نماز اور صحت‘ کے زیرعنوان ڈاکٹر نبیلہ ظہیربھٹی نے معلومات افزا تحریر پیش کی۔ اس سے جہاں نماز کی افادیت واضح ہوئی وہاں انسانی صحت کو درپیش مسائل کے لیے رہنمائی بھی ملی۔ اگر نماز کی ادایگی کے دوران ان اُمور کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو تزکیہ و خشیت کے ساتھ ساتھ بہت سے جسمانی امراض سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
’سوشل میڈیا-ا بلاغ عام کی نئی جہتیں‘ (نومبر ۲۰۱۳ء) نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں سوشل میڈیا سے متعلق اہم اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ نئی نسل سے رابطے اور فکری رہنمائی کے لیے یہ اہم ذریعہ ہے۔ مختلف دینی جماعتیں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کو ترجیحاً اس کے لیے حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تحریریں وقتاً فوقتاً ترجمان میں شائع ہورہی ہیں۔ جناب ارشاد الرحمن بھی خوب ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ ایک مفید سلسلہ ہے، اسے جاری رکھا جائے۔ دعوتِ دین اور اُمت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنج کے لیے مدلل رہنمائی دی جاتی ہے۔