مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۱۳

ڈرون حملے پہلے دن سے غلط اور پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے ایک چیلنج تھے، جنھیں کسی بھی شکل میں اور کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں نے اس بارے میں مجرمانہ غفلت اور شاطرانہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ملک و ملت کی آزادی اور عزت دونوں کو بُری طرح پامال کیا۔ توقع تھی کہ ۱۱مئی۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت ماضی کی روش کو یکسر تبدیل کرے گی اور عوام سے جس بنیاد پر اس نے مینڈیٹ حاصل کیا ہے، اس کی روشنی میں ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے نکلنے کا راستہ اختیار کرے گی۔ لیکن ان چھے مہینوں میں مرکزی حکومت نے ویسے تو ہرمیدان میں قوم کو مایوس کیا ہے، تاہم جس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ ناکام رہی ہے، وہ امریکا سے تعلقات کو ازسرِنو مرتب کرنا اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے قومی جذبات اور سیاسی اتفاق راے کے مطابق مؤثر اقدام ہے۔

امریکا نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا ہے، بلکہ ان کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں مذاکرات کے سیاسی عمل کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو وہ مسدود کر رہا ہے اور پاکستان کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔

یکم نومبر۲۰۱۳ء کو فاٹا میں میران شاہ کے مقام پر ڈرون حملہ مذاکراتی عمل کو اس کے آغاز سے پہلے ہی تباہ کرنے کی کھلی کھلی کوشش ہے، اور پھر ۲۰نومبر کو خیبرپختون خوا کے آباد علاقے ہنگو میں ایک دینی تعلیمی ادارے پر حملہ اس جنگ کو وسعت دینے کی ایک ناپاک اور شرانگیز جسارت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو حالات میں جوہری تبدیلی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ قوم کے لیے اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت کی حفاظت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ اپنی آزادی، مفادات اور عزت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور پالیسی تبدیل کرنے کے لیے حکومت پر مؤثر سیاسی دبائو ڈالے۔

امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے راستے رسد جانے کو روکنا خود مطلوب نہیں بلکہ اصل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک مؤثر، پُرامن اور قابلِ عمل ذریعہ ہے، تاکہ نہ صرف یہ کہ ہماری ملکی سرحدات کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر مؤثراقدامات کیے جاسکیں، بلکہ امریکا کی اس جنگ سے ہم نکل سکیں اور توجہ کا مرکز ، مسائل کا سیاسی حل بن سکے۔ اس کے نتیجے میں راہ کی تمام رکاوٹوں کو دُور کیا جاسکے گا اور ملک میں امن و امان کی وہ کیفیت پیدا کی جاسکے گی، جس میں عوام سُکھ کا سانس لے سکیں، معیشت رُوبہ ترقی ہوسکے اور ۱۲سال سے جس آگ میں ملک جل رہا ہے اس سے نجات پائی جاسکے۔

اصل ہدف امریکی جنگ سے نکلنا، اس جنگ کو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا، ڈرون حملوں کو فوری طور پر بند کروانا اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ یہ تمام اُمور اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ ان سے الگ الگ پنجہ آزما نہیں ہوا جاسکتا۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور قوم میں بھی اس مصلحت کے بارے میں مناسب اور مؤثرانداز میں تفہیم کا اہتمام کرنا چاہیے کہ سپلائی لائن کو روکنے کی کوشش ایک ذریعہ ہے، تاکہ ایک طرف عوام کو متحرک کیا جاسکے، تو دوسری طرف مرکزی حکومت اور عالمی راے عامہ کو ڈرون حملوں کو رُکوانے، دہشت گردی کے خلاف اس ۱۲سالہ جنگ کی ناکامی کو الم نشرح کرنے، اور مسئلے کے حل کے لیے متبادل حکمت عملی پر فی الفور اور سرگرمی سے کوشش کو ممکن بنایا جائے۔

ڈرون حملے خود اپنی جگہ ایک ظلم، ایک جرم اور تباہی کا سبب ہیں اور اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنیادی حکمت عملی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ بظاہر امریکا کو یہ ایک آسان راستہ نظر آیا ہے کہ اپنی فوجوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے جدید ٹکنالوجی کے ذریعے انسانوں کا قتل عام کرے اور سمجھے کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بلانام کے ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے نتیجے میں دسیوں نئے دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں، اور پوری پوری آبادیاں اپنے پیاروں سے محروم ہوکر غم و غصے اور ہیجان میں مبتلا ہی نہیں ہورہیں بلکہ نفرت اور انتقام کی آگ میں بھی جل رہی ہیں۔ اس طرح یہ حملے بگاڑ اور خطرات میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

ایک امریکی دانش ور ڈیوڈ سوان سن نے کاؤنٹرپنچ کے ۲۶نومبر۲۰۱۳ء کے شمارے میں افغانستان میں امریکی فوجوں کو مزید روکے رکھنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اس جنگ سے جو کچھ حاصل ہوا ہے، اسے ایک جملے میں بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا ہے، یعنی:

ہم افغانستان کی جنگ پر ہر گھنٹے ۱۰ملین [یعنی ایک کروڑ] ڈالر خرچ کر رہے ہیں مگر ہمیں جو کچھ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ ملک میں ہم زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور دنیا بھر میں ہم سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

’دہشت گردی کے خاتمے‘ کے نام پر اس جنگ سے امریکا کے اعلان شدہ مقاصد یہ تھے کہ: امریکا کو ہم محفوظ بنارہے ہیں اور دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی سعی کر رہے ہیں، مگر امریکی مقتدرہ کو ان دونوں مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے۔ یہ تو اعلان شدہ مقاصد تھے۔ اصل مقاصد تو دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا تھا (global hegemony) اور اس کے دن بھی اب گنے جارہے ہیں۔

امریکا کو ویت نام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی ناکامی کا سامنا ہے اور اپنی آبرو بچانے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت اس جنگ کو ایک ناکام مہم جوئی قرار دے رہی ہے اور اس سے نجات کا مطالبہ کررہی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ماسوا، اسرائیل اور بھارت، امریکا کی مقبولیت کا گراف اتنا گرچکا ہے کہ ۵۰ سے ۹۰ فی صد لوگ اس سے متنفرہیں۔ پاکستان میں ۹۳فی صد اسے دوست نہیں سمجھتے اور اب تو خود افغانستان کے وہ عناصر جن پرامریکا کو تکیہ تھا، اس جنگ کی ناکامی اور امریکا سے نجات کی بات کر رہے ہیں۔

۲۳نومبر ۲۰۱۳ء کابل میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے بارے میں جولویہ جرگہ

منعقد ہوا ہے، اس میں حامد کرزئی کی تقریر کے دوران ایک خاتون شریکِ جرگہ نے بلندآواز سے کہا: ’’امریکی افواج نے بہت زیادہ افغان خون بہایا ہے، یہ اب رُکنا چاہیے‘‘، جس نے تمام شرکا کو ششدر کردیا اور عالمی میڈیا کو اس فطری ردعمل کا نوٹس لینا پڑا (الجزیرہ، انگلش، ۲۵ نومبر ۲۰۱۳ء)۔ حامدکرزئی اور امریکا میں اعتماد کا فقدان ہے جس کا اظہار کرزئی نے جرگہ سے اپنے خطاب میں ان الفاظ میں کیا:  ’’مجھے امریکا پر زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ میں ان پر اعتبار نہیں کرتا، وہ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے‘‘۔

اس موقع پر، جب کہ امریکی سفیر جیمز کوٹنگم بھی سامنے موجود تھا، حامدکرزئی نے جو کچھ کہا ہے وہ اہم ہے اور اس میں پاکستان کے ان دانش وروں اور خصوصیت سے لبرل لیفٹ لابیز کے بلندآہنگ سورمائوں کے لیے بڑا سبق ہے جو امریکا کی اس جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغان صدر نے کہا: ’’اگر ہم نے جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو ہم ہی اسے ختم کرسکتے تھے۔ اگر ہم نے آغاز نہیں کیا تو ہم اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اس جنگ کا آغاز ہمارے علاوہ کسی اور نے کیا‘‘۔

اسی طرح حامدکرزئی نے چند دن پہلے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنگ کی ناکامی کا کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے جسے امریکا نے بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ افغان صدر کا ارشاد ہے:’’سلامتی کے محاذ پر ناٹو کی تمام مشقیں بہت زیادہ تکالیف اور جانیں جانے کی وجہ بنی ہیں‘‘۔اور پھر نہایت مایوسی سے اعتراف کیا کہ: ’’اور کچھ حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ ملک محفوظ نہیں ہے‘‘۔

اس تباہ کن جنگ کا آغاز بھی امریکا نے کیا ہے اور اسے ختم بھی اسے ہی کرنا ہوگا۔ افغانستان اس کی اصل آماج گاہ ہے لیکن پاکستان کو بھی اس جنگ میں زبردستی شریک کرلیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی اس جنگ کے اخراجات کے ایک حصے کا بل بھی امریکا ہی ادا کر رہا ہے جسے پاکستان کے باب میں کولیشن سپورٹ فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان تاریخی حقائق اور اُجرت کی جزوی وصولی، جو کبھی کبھی حقارت آمیز تک ہوجاتی ہے، کے باوجود ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک حصہ اسے اپنی جنگ کے طور پر پیش کرنے لگا ہے اور اب تو انتہا یہ ہے کہ یہ لابی ڈرون حملوں پر ظاہری تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ان کی افادیت، ضرورت اور ناگزیریت تک کی باتیں کررہی ہے، اور امریکا اور ناٹو افواج کے لیے رسد کو بھی اس لیے ضروری قرار دے رہی ہے کہ اس کا تعلق بین الاقوامی معاہدے سے ہے اور اس سے امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی میں مدد ملے گی۔

ضرورت ہے کہ ان تمام اُمور پر کھل کر بات کی جائے اور پاکستان کی آزادی اور سلامتی کی حفاظت اور اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے، اور دنیا کی تمام سیاسی قوتوں سے صرف قومی مفاد اور وقار کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ اس وقت ڈرون حملوں کو رُکوانا اور اس کے لیے بشمول سپلائی لائن کو بند کرنے کے مختلف leverages استعمال کرنا قوم و ملت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ڈرون حملے امریکی جارحیت اور مداخلت کا صرف عنوان ہیں اصل ایشو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور امریکا سے تعلقات کی خیالی نہیں بلکہ حقیقی بنیادوں پر تشکیل نو کرنا ہے۔ اس کے لیے ڈرون حملوں کا رُکنا اولین ضروری قدم ہے اور سپلائی لائن روکنے کی کوشش کا مقصد حکومت کی پالیسی اور کارروائی میں وہ تبدیلیاں لانا ہے جو اس مقصد کے حصول کو ممکن بناسکے۔ طالبان سے مذاکرات کا مقصد بھی دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دونوں ختم کرانے اور ملک میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کے باب میں حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم مذاکرات چاہتی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اسی قومی طلب کو۹ستمبر کی ’کل جماعتی کانفرنس ‘ کی قرارداد کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکا نہیں چاہتا اور امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ ہراس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہے جو اس کے ایجنڈے کے مطابق نہیں۔

بنیادی حقائق

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک بار اُن بنیادوں کو واضح طور پر بیان کردیا جائے جن کا اِدراک صحیح حکمت عملی کے بنانے کے لیے ضروری ہے:

۱- پاکستان اور افغانستان دینی، سیاسی، تہذیبی، قبائلی، خاندانی اور معاشی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہ صرف جغرافیائی طور پر ہی ہمسایہ نہیں۔ یہ رشتہ ہمہ جہتی اور تاریخی اعتبار سے صدیوں کے تعلق کی بنیاد پر استوار ہے اوراپنے بہت سے اختلافات کے باوجود ہر بُرے وقت میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے پشتی بان اور مددگار رہے ہیں۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں اس رشتے میں جو دراڑیں پڑی ہیں وہ امریکا کی افغان جنگ کی وجہ سے ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کا فرض ہے کہ اپنی اپنی غلطیوں کا احساس اور اعتراف کرتے ہوئے دوستی، بھائی چارہ اور باہمی تعاون کے اصل رشتوں کو استوار کریں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کریں اور سیاسی اُمور کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔ ان ۱۲برسوں میں امریکا کا کردار بڑا منفی رہا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو بڑا عظیم نقصان ہوا ہے جس کی تلافی اب ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ضروری ہے۔ اگر امریکی افواج ۱۰ یا ۱۲ہزار کی تعداد میں مع نو فوجی اور ہوائی اڈوں کے وہاں رہتی ہیں تو نہ افغانستان میں یہ جنگ ختم ہوگی اور نہ پاکستان اس آگ کی لپٹوں سے بچ سکے گا۔

۲-افغانستان میں ضروری ہے کہ قومی مفاہمت کی بنیاد پر افغانستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں مل کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر، اپنے معاملات کو طے کریں، اور ملک کو نہ صرف خانہ جنگی کے خطرات سے بچائیں بلکہ قومی تعمیرنو اور ترقی کے ایک نئے دور کے لیے سب مل کر سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ اس سلسلے میں مُلّاعمر نے عیدالاضحی کے موقعے پر جو پیغام دیا ہے وہ بڑا اہم ہے کہ اس میں امریکی اور ناٹو افواج کے مکمل انخلا کے ساتھ تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی:

ا- افغانستان میں ایک ایسا سیاسی انتظام جس میں وہاں موجود تمام افغان قوتیں اور عناصر شریک ہوں، یعنی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نقطۂ نظر۔

ب- تعلیم اور دوسرے اُمور کے بارے میں وسعت نظر کا عندیہ۔

ج- معصوم انسانوں کو ہلاکت کا ہدف بنانے سے مکمل احتراز۔

کچھ دوسرے بیان بھی اپنے اندر نئی اور کھلی سوچ کا پیغام رکھتے ہیں۔ یہ مثبت اشارے ہیں۔ پاکستان اور دوسرے حقیقی ہمسایہ ممالک خصوصیت سے ایران کی کوشش ہونی چاہیے کہ افغان مسئلے کا افغان حل نکالا جائے اور سب مل کر ملک کے استحکام کے لیے کوشش کریں۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہ بیرونی عناصر خصوصیت سے امریکا اور بھارت کے کھیل کا حصہ نہ بنے۔ ہمیں افغانستان کے معاملات کو افغان بھائیوں پر مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ ایک طرف ہمارے مشترک مفادات کا حصول ہوسکے تو دوسری طرف دونوں کے اپنے اپنے مفادات کا احترام ہو۔ یہ تعلق سچائی اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے، اسی میں خیر ہے۔

۳- پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ سے ایک متعین نظام الاوقات کے مطابق اپنے تعلق کو ختم کرے، اور اس جنگ میں شراکت اور امریکا سے معمول کے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات جو دو الگ الگ ایشوز ہیں، ان پر الگ الگ معاملہ کرے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور اس میں امریکا کے شریکِ کار نہ رہنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم امریکا سے ٹکرائو یا جنگ چاہتے ہیں، البتہ یہ ایک حقیقت ہے اور امریکا کے ۶۶سالہ تعلقات کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امریکا سے ہماری اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ نہ کبھی تھی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ اس لیے کہ زمینی حقائق اس کے لیے سازگار نہیں۔ جہاں تک عمومی دوستی کا تعلق ہے، جسے سفارت کاری کی اصطلاح میں transactional relationsکہا جاتا ہے وہ دونوں کے مفاد میں ہیں اور ماضی میں ہمارے حقیقی تعلقات اس سطح سے کبھی بھی بلند نہیں ہوسکے۔ اس لیے زمینی حقائق کی روشنی میں تعلقات کو معروف دوستی اور مشترک مفادات کے باب میں تعاون کی بنیاد پر ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک شفاف انداز میں اس جنگ سے ہم نکلیں اور اگر ہمیں نکلنے نہ دیا جائے تو پھر اپنے مفادات کی روشنی میں مناسب اقدام کریں۔

اس کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے وہ ہم ضروری وضاحت کے ساتھ قوم اور حکومت اور اس کے تمام اداروں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان اُمور پر کھل کر دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کی مذموم کوشش سے مکمل احتراز کیا جائے، جو بدقسمتی سے اس وقت کی جارہی ہے اور اس کا خصوصی نشانہ جماعت اسلامی پاکستان اور تحریک انصاف ہیں۔ یہ روش نہایت نقصان دہ ہے۔ ہم دلیل سے بات کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں اور دلیل سے قائل کرنے اور قائل ہونے کو صحیح راستہ سمجھتے ہیں لیکن غیرمتعلقہ بحثوں کو اُٹھا کر ایک اصولی تحریک کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ ماضی میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ آج ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے مختلف اَدوار میں ایسے حملوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور یہی توقع ہم تحریکِ انصاف اور دوسری تعمیری قوتوں سے بھی رکھتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے بڑی سچی بات کہی تھی کہ برسرِاقتدار عناصر یہ نہ سمجھیں کہ اصولی جماعتوں کو دھونس، دھمکیوں اور غلط بیانیوں سے مغلوب کیا جاسکتا ہے، بلکہ ان کی حیثیت لوہے کے چنوں کی سی ہے جن کو چبانے کی کوشش کرنے والے کے دانت ٹوٹ تو سکتے ہیں مگر ان لوہے کے چنوں کو چبایا نہیں جاسکتا___ ان شاء اللہ۔

واضح رہے کہ عوام احتجاج اور دھرنوں پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ حکومت اور ذمہ دار افراد اور ادارے معروف سیاسی راستوں کو عملاً غیرمؤثر بنادیتے ہیں اور سیاسی معاملات کے سیاسی حل سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو ایسے معاملات میں بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے جو بالعموم ان کے دائرے میں داخل نہیں، لیکن دستور میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کے محافظ کی حیثیت سے جب متعلقہ ادارے دادرسی میں ناکام رہتے ہیں تو پھر عدالتوں کو اقدام کرنا پڑتا ہے۔

ڈرون حملوں کی مخالفت کے اسباب

ڈرون حملوں کا مسئلہ کسی ایک علاقے یا کسی ایک جماعت اور گروہ کا مسئلہ نہیں۔ یہ پاکستان کی پوری قوم اور ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت و وقار کا مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور پاکستان کے دستور سے ہے جن کی ان کے ذریعے دھجیاںبکھیری جارہی ہیں۔   یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور عالمی انسانی قانون (International Humanitarian Law)سے اس کا قریبی تعلق ہے۔ یہ ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اور پورے پورے علاقے کے امن و امان اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کے سُکھ اور چین سے اس کا تعلق ہے۔ لیکن حکومت اس سلسلے میں  اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ڈرون حملے امریکی استعمار کا ایک شرم ناک ہتھیار ہیں جسے انتقام اور شبہے کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں، یورپین پارلیمنٹ میں اور خود امریکا میں صرف دانش وروں اور قانون سے متعلق حلقوں ہی میں نہیں خود امریکی کانگرس کی کمیٹیوں کی سطح پر بھی اس پر تنقید ہورہی ہے لیکن ہماری حکومت کا رویہ ناقابلِ فہم ہی نہیں قابلِ مذمت ہے۔

ڈرون حملے کم از کم مندرجہ ذیل بنیادوں پر ناقابلِ برداشت ہیں:

۱- یہ پاکستان کی علاقائی حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ ہیں۔ پاکستان کسی بین الاقوامی وارزون کا حصہ نہیں اور اس کی فضائی اور زمینی سرحدات کو جو بھی پامال کرے اور بے دردی سے پامال کرتا رہے      وہ ہمارے خلاف جنگی اقدام کا مرتکب ہورہا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ دستور پاکستان کی سرزمین، اس کی سرحدات اور پاکستان کے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی محافظت کی ضمانت دیتا ہے۔ امریکا اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان اور اس کے ذمہ دار ادارے پاکستان کے دستور، اس کی سرحدات، اس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

۲- امریکا کے یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، اور خود امریکا کے دستور کی خلاف ورزی ہے۔ سلامتی کونسل نے امریکا کو پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا، حتیٰ کہ امریکی کانگرس میں بھی یہ سوال اُٹھا دیا گیا ہے کہ کانگرس تک سے خفیہ رکھ کر امریکی سی آئی اے اور انتظامیہ جو اقدام کر رہی ہے وہ امریکی دستور کے خلاف ہے۔

۳- عالمی طور پر مسلّمہ تصورِ انصاف اور قانونی پراسس کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس نے پورے criminal justice کے نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ماوراے عدالت قتل اور ہدفی (targetted) قتل خواہ افراد کریں یا حکومتیں، جرم ہیں اور اگر ان کا ارتکاب بین الاقوامی سطح پر کیا جائے تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جیساکہ خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے Repporteur نے بار بار کہا ہے اور اکتوبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں صاف اور سخت الفاظ میں اس کا اعادہ کیا ہے۔

۴-غیرمتحارب شہریوں بشمول خواتین، بچے اور بوڑھے انسانوں کا قتل، کسی عدالتی عمل کے بغیر، اگر بڑے پیمانے پر ہو تو نسل کشی شمار کیا جاتا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک عظیم جرم ہے۔ امریکا کی اس جنگ میں ڈرون کے بے محابا استعمال سے ایک امریکی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہلاک کیے جانے والوں میں متعین طور پر دہشت گردوں اور ان کے رہنمائوں کی تعداد بمشکل ۳فی صد ہے، جب کہ ۹۷ فی صد کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں کہ ان کا کوئی تعلق کسی بھی درجے میں کسی دہشت گرد گروپ سے تھا۔ امریکی حکومت نے اپنے ناجائزاقدام پر پردہ ڈالنے کے لیے متحارب کی ایک نئی تعریف وضع کی ہے، یعنی متحارب وہ نہیں جو عملاً کسی جنگ یا دہشت گردی میں ملوث ہو بلکہ اس علاقے میں جسے امریکا جنگ کا علاقہ سمجھتا ہے، ہر وہ مرد جو ۱۶ سے ۶۰سال کی عمر میں ہو دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔ اس تعریف کو دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا اور نہ اسے قبول ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا دائرہ اس طرح وسیع کیا جائے تو پھر دنیا کا کوئی بھی مرد کسی نہ کسی کے ڈرون کا نشانہ بننے کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

امریکا کے اپنے تحقیقی اداروں کی اب چھے سے زیادہ رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور جو مبنی ہیں ان ٹوٹی پھوٹی معلومات پر جو میسر ہیں، اور ان کا حاصل یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے تین سے چار ہزار افراد میں سے ۴۰۰ سے ۹۰۰ تک کو معلوم طور پر سویلین قرار دیا جارہا ہے اور ان میں عورتوں اور بچوں کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔

۵-پھر ایک اور انسانی پہلو یہ ہے کہ ڈرون صرف لوگوں کو متعین طور پر ہی نشانہ نہیں بناتے بلکہ پوری پوری آبادیوں پر گھنٹوں پرواز کرنے اور فضا کو اپنی مکروہ آواز سے پراگندا کرتے ہیں اور اس طرح ان علاقوں میں بسنے والے تمام لوگوں پر مسلسل خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں، اور تمام آبادی میں خصوصیت سے بچوں اور عورتوں میں ذہنی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک اور انداز میں نسل کشی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

گویا عالمی قانون، ملک کا دستور، عالمی انسانی قانون، اور انسانی معاشرے کے بنیادی آداب، ہر پہلو سے ڈرون حملے ناجائزاور اس ملک اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدامِ جنگ اور کھلے کھلے ظلم کا ارتکاب ہیں۔ ان کے لیے جواز فراہم کرنا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے۔

۶-یکم نومبر کو جو ڈرون حملہ ہوا ہے اس نے ایک نئے پہلو کا اضافہ کردیا ہے، یعنی امن کے مذاکرات اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی۔

فوری اقدامات

ان چھے وجوہ سے پاکستانی قوم اور حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ ڈرون حملوں کے فی الفور بند کیے جانے کا مطالبہ کرے اور اس سلسلے میں کم از کم مندرجہ ذیل اقدام کرے:

۱-حکومت کی طرف سے ان حملوں کے ناجائز اور ناقابلِ قبول ہونے کا اسٹیٹ پالیسی کے طور پر برملا اعلان اور امریکا سے مطالبہ کہ انھیں فی الفور بند کیا جائے ورنہ حکومت اور قوم ان کا توڑ کرنے کے لیے ہرضروری اقدام کرے گی۔ امریکی حکومت کو واضح الٹی میٹم تاکہ اس باب میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ماضی میں اگر کسی نے کوئی اشارہ دیا بھی ہے تو اس کی تنسیخ اور واضح قومی پالیسی کا اعلان، حالانکہ بین الاقوامی قانون کا یہ اصول بھی مسلّمہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری فرد کا کوئی قول ایسے معاملات میں جہاں معاملہ ملک کے دستور اور قانون، حکومت کے ضابطۂ کار اور بین الاقوامی قانون بشمول بین الاقوامی قانون بسلسلہ انسانی حقوق کا ہو،کبھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم صاحب کے واشنگٹن کے دورے کے موقعے پر امریکا کے اداروں نے پاکستان کے سیاسی اور عسکری ذمہ داروں کے ملوث ہونے کے بارے میں جو دستاویزات شائع کی ہیں ان کے قانونی طور پر ناقابلِ قبول ہونے کا اظہار اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی Ristof Heyne Report سے بھی کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈان میں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

پاکستان کا واضح حوالہ دیتے ہوئے ہینز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق: فوجی یا خفیہ افسران کی اجازت امریکا کے کسی بیرونی ملک پر ڈرون حملے کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

ہینز کی رپورٹ جس میں دنیا میں مسلح تنازعات میں ڈرون کے استعمال کی قانونی شرائط بیان کی گئی ہیں، کے مطابق: کسی ریاست کی اعلیٰ ترین سرکاری مقتدرہ ہی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت دے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ علاقائی اتھارٹی یا کچھ خاص ایجنسیوں سے یا حکومت کے شعبوں سے کوئی تائید حاصل کرلی جائے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حکومت کو صاف الفاظ میں ڈرون حملوں کے بند کیے جانے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پھر امریکا کو عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدام کرنے چاہییں۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں بھی واضح رہنمائی موجود ہے:

’’طاقت استعمال کرنے کی اجازت جس لمحے واپس لی جائے تو جو ریاست ڈرون حملے کر رہی ہے بین الاقوامی قانون اس کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس لمحے کے بعد مزید کسی حملے سے احتراز کرے‘‘۔ رپورٹ مزید کہتی ہے: ’’ریاستیں اپنی مملکت میں بین الاقوامی حقوق، انسانی قانون اور انسان دوست قانون کی کسی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتی‘‘۔

۲-دوسرا اہم اقدام یہ ہے کہ اگر امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا تو سرکاری طور پر سپلائی لائن فی الفور بند کردینی چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ ہوا ہے، جو خود ظلم اور جبر پر مبنی ہے اسے ختم کیا جائے۔ واضح رہے کہ وسط ایشیا سے لے جانے والی سپلائز پرامریکا ۱۷ہزار۵سوڈالر فی ٹرک خرچ کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو صرف ۲۵۰ڈالر فی ٹرک دیا جاتا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ’بھتہ‘ ہر ٹرک پر خود طالبان کو دیا جاتا ہے۔ ٹرکوں کی اس آمدورفت سے پاکستان کی سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو جو نقصان گذشتہ ۱۲سال سے ہوا ہے اس کے بارے میں محتاط ترین سرکاری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں ۱۰۰ بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس راہ داری کی وجہ سے اگر ایک طرف کرپشن کا طوفان آیا ہے تو دوسری طرف اسمگلنگ اور خود اسلحے کی اسمگلنگ کا بازار گرم ہوا ہے اور ۱۹ہزار ٹرکوں کے غائب ہوجانے کا معمہ تو آج تک سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ پابندی لگائیں تو اس سے دوسرے ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہوں گے، حالانکہ یہ ایک بے معنی واہمہ ہے۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معاہدہ کرنے اور ختم کرنے کا ہمیں اختیار ہے اور دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں، tariff کے ہتھیار کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اب معروف طریقے ہیں اور ان سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔

اسی طرح اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ اس وقت پابندی سے امریکی افواج کے انخلا پر اس کا اثر پڑے گا۔ ابھی تو سپلائز افغانستان جارہی ہیں، اصل واپسی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی، نیز واپسی کا انتظام ہماری نہیں امریکا کی ذمہ داری اور ضرورت ہے۔ اگر وہ ہماری شرائط پر ہماری سہولتیں استعمال نہیں کرنا چاہتا تو شوق سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ ہمیں اس کے لیے پریشان ہونے کیا ضرورت ہے۔ ڈرون کا معاملہ ہو یا راہ داری کا معاملہ، ہمارے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اصل پیمانہ ہماری اپنی آزادی اور حاکمیت اور قومی مفادات کا ہے، اور اگر ہم اپنے قومی مفادات کو دوسروں کے تابع کردیتے ہیں تو یہ آزادی کا نہیں غلامی کا راستہ ہے۔ ہم ہی نہیں دوسرے بھی اس کا احساس رکھتے ہیں۔ مثلاً خود بارک اوباما کے ایک سابق مشیر مائیکل بوے لی (Michael Boyle) اپنے ایک حالیہ مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ :

پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے حکومت امریکا کے سامنے جرنیلوں کی بے بسی اور تابع داری کی نہایت طاقت ور علامت ہیں۔(بحوالہ الجزیرہ، انگلش، ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء)

اب یہ فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا غلامی اور بے چارگی کا!

۳- تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ملک میں امریکا کے جاسوسی نظام پر کاری ضرب لگائی جائے۔ امریکی سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو ان کی سفارتی حدود میں پابند کیا جائے اور ملکی اور غیرملکی مخبروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ڈرون حملے اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ امریکا کا مؤثر جاسوسی نظام ملک کے اندر موجود ہو اور اسے معلومات اندر سے فراہم کی جارہی ہوں۔ اس سلسلے میں فوری اقدام ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اسنوڈن نے جو سرکاری دستاویزات شائع ہونے کے لیے فراہم کی ہیں اور ان میں سے جو دی گارڈین اور نیویارک ٹائمز میں شائع ہوگئی ہیں، ان کی رُو سے سی آئی اے نگرانی پر جو ۶۰۰ملین ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اس میں پاکستان کا حصہ تقریباً ۵۰ فی صد ہے۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور ہماری اپنی خفیہ ایجنسیوں کی خاموشی اور مداہنت تشویش ناک ہے۔ یہ پالیسی فوراً تبدیل ہونی چاہیے۔

۴-عالمی سطح پر اس مسئلے کو پوری تیاری کے ساتھ اُٹھایا جائے۔ آج عالمی فضا بدل رہی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم اس کی تفصیل نہیں دے سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ۱۲برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے انسانی حقوق کے معروف ادارے اس مسئلے کو اُٹھا رہے ہیں اور اس کی بازگشت امریکا، برطانیہ اور جرمنی کی پارلیمنٹ تک میں سنی جاسکتی ہے۔ ہماری سفارت کاری بڑی کمزور ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک مؤثر اور جارحانہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ انداز میں گزارشیں پیش کرنے کا طریقہ ترک کرنا ہوگا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ دنیا ہماری بات سننے پر مجبور ہوگی اور ہمیں اعوان و انصار ہرجگہ سے مل جائیں گے۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جو رپورٹ Will I be Next? US Drone Strikes in Pakistan کے نام سے شائع ہوئی ہے، اس نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اسی طرح ڈرون کی تباہ کاریوں اور انسان کشی کے بارے میں جو ڈاکومنٹری ’جمائما فائونڈیشن‘ نے جاری کی ہے اس نے عالمی میڈیا کے یک رُخے پروپیگنڈے کا توڑ کیا ہے۔

ضرورت ہے کہ سفارتی محاذ، سیاسی پلیٹ فارم، میڈیا اور سوشل میڈیا، ہرجگہ اس سلسلے میں مؤثر کارروائی کی جائے۔ اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور راے عامہ تبدیل ہوگی۔ ضرورت یکسوئی کے ساتھ منظم انداز میں بڑے پیمانے پر جدوجہد ہے___ کیا ہماری حکومت اس کے لیے تیار ہے؟

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک واضح فیصلے میں ڈرون حملوں کو پاکستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت پر حملہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان کو روکنے کے لیے سیاسی، سفارتی کارروائی کرے اور ان کے غیرمؤثر ہونے کی صورت میں سپلائی لائن کو بند کرنے اور ڈرون حملوں کو عسکری قوت سے روکنے کا اقدام کرے۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جس کے معنی یہ ہیں کہ اب اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ ڈرون کو رُکوانے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔

نئی سلامتی پالیسی کے خطوط

صوبہ خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے مقامات پر جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف ناٹو کی سپلائی لائن روکنے کے لیے جو جمہوری اور قانونی جدوجہد کر رہی ہیں وہ اس لیے ہے کہ قوم بیدار ہو اور مرکزی حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ڈرون حملے بند کرانے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے اور ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی پالیسی ترک کرے۔ نیز یہ بھی دراصل امریکا سے اپنے تعلقات کی تشکیل نو کے لیے ایک قدم ہے۔ ساتھ ساتھ امریکا سے جن خطوط کے اندر تعلقات استوار ہونے چاہییں ان کو قومی مشاورت کے ساتھ مرتب کیا جائے، اوردو آزاد ممالک کے درمیان باوقار دوستی اور تعاونِ باہمی کا جو رشتہ ہونا چاہیے اس کے قیام کے لیے نئی پالیسی مرتب کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ محکومی کی پالیسی کو ختم ہونا چاہیے۔ دسیوں چھوٹے ممالک ایسے ہیں جنھوں نے سوپرپاورز کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ باہمی اور مشترک مفادات کے حصول کے لیے پالیسیاں ترتیب دی ہیں اور دھونس اور دبائو کے ہر حربے کو غیرمؤثر بنادیا ہے۔ کیوبا اور ایران اس کی اہم مثالیں ہیں۔ جنوبی امریکا کے متعدد ممالک نے اپنی آزادی، عزت اور مفادات کی روشنی میں کامیاب خارجہ پالیسیاں بنائی ہیں اور امریکا کو بھی ان کا پاس کرنا پڑا ہے۔

نیوکلیرپاورکے سلسلے میں امریکا اور ایران کا حالیہ معاہدہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ شام پر فوج کشی کے امریکی اقدام کو لگام دینے کے سلسلے میں برطانیہ اور امریکا کی پارلیمنٹ نے جو کردار ادا کیا اور امریکا اور یورپی ممالک کو کس طرح اپنی پالیسی کی تشکیل نو کرنا پڑی، وہ سب حالیہ واقعات ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اب سوپرپاور کی پاور غیرمحدود نہیں اور وہ ملک جسے کل تک ناگزیر ریاست کہا جارہا تھا، اب اس کے اپنے دانش ور برملا کہہ رہے ہیںکہ وہ اب   غیرضروری  (dispensible)ریاست ہے۔ ولی نصر کی تازہ کتاب اس کی مثال ہے۔

اس لیے ہمیں بھی کھلے ذہن کے ساتھ تمام معاملات کا جائزہ لے کر پوری حکمت اور حقیقت پسندی کے ساتھ، لیکن کسی بھی قسم کی مرعوبیت اور مجبوری کی سطح سے بلند ہوکر، اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے باربار آزاد خارجہ پالیسی، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور مسئلے کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے فریم ورک میں نئی پالیسی کی ضرورت کا مکمل اتفاق راے سے اظہارکیا ہے، مگر حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب وقت آگیا ہے پالیسیاں قوم اور ملک کے مفاد میں اور عوام کی مرضی اور اُمنگوں کے مطابق بنائی جائیں اور عوام کے ساتھ دھوکے اور دوغلے پن کی روش کو یکسر ترک کردیا جائے۔ حکومت کو جس پالیسی پر پورے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اور پوری قوم اور اس کی قیادت کو ساتھ لے کر عمل پیرا ہونا چاہیے اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ہمہ جہتی پالیسی کو تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے مرتب کیا جائے، اور ملک اور علاقے کی روایات کی روشنی میں نہ صرف اسے مرتب کیا جائے بلکہ ان کی تنفیذ کے لیے بھی صحیح اور جامع حکمت عملی بنائی جائے۔

۲-حکومت قوم اور سیاسی اور دینی قیادت سے حقائق چھپانے کی پالیسی ترک کرے اور شفافیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کرے۔

۳- حکومت اور اس کے تمام اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان مناسب ہم آہنگی ہونی چاہیے۔پالیسی سازی میں ہر ایک اپنا کردار ادا کرے لیکن پالیسی بننے کے بعد ہر ادارہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داری کو ادا کرے اور ریاست میں ریاست کی کیفیت نہ پیدا ہو۔ اسی طرح پالیسی کو دوغلے پن کے بدنما سایے سے مکمل طور پر پاک ہونا چاہیے۔

۴- پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء ، پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی اپریل ۲۰۰۹ء کی سفارشات، پارلیمنٹ کی ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد اور کُل جماعتی کانفرنس کی ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی قرارداد کو پالیسی کی بنیاد بنایا جائے اور اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے ایک ہمہ گیر پالیسی تشکیل دی جائے جس پر سب سختی سے عمل پیرا ہوں۔ پالیسی کے نفاذ کی نگرانی کا مؤثر نظام ہو اور پارلیمنٹ میں اس بارے میں کارکردگی کو بار بار پیش کیا جائے تاکہ قوم کو اعتماد رہے۔

۵- اس وقت اصل ہدف ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے، ملک میں ڈرون حملے رُکوانے اور بیرونی حکومتوں کی دراندازیوں اور خفیہ سرگرمیوں کو روکنے کو قرار دیا جائے۔ خودمعیشت کی بحالی کے لیے امن کا قیام ضروری ہے۔امریکا کو اپنی پالیسی کے بارے میں تفصیلی طور پر باخبر رکھا جائے۔ جہاں جہاں تعاون ممکن نہیں وہ لال خطوط سے بھی واضح کردیے جائیں۔ پھر ان کا پورا احترام کیا جائے۔ جہاں تک اندرونِ ملک مسئلے کے حل کا تعلق ہے اس سلسلے میں مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے سہ گانہ تقاضوں کو سامنے رکھ کرایک مربوط پالیسی اور پروگرام وضع کیا جائے۔

۶-حکومت کی پالیسیوں اور عوام کے جذبات، عزائم اور توقعات میں جو خلیج واقع ہوگئی ہے اسے دُور کیا جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

۷- جس طرح امریکا اور افغانستان کی حکومت اور وہاں کی دوسری قوتوں سے مذاکرات کیے جائیں، اسی طرح ملک میں بھی طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ پالیسی بنائی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے بارے میں اور دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کے سلسلے میں ہماری پالیسی کے واضح ہوجانے اور اس پر عمل شروع ہونے سے پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا اور طالبان کو بھی ہرقسم کی دہشت گردی سے اجتناب کرنے کے راستے پر لانا ممکن ہوگا۔ ریاست کی رٹ کا قیام ضروری ہے مگر وہ محض قوت سے قائم نہیں ہوسکتی۔ گو قوت کا استعمال بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ رٹ قائم ہوتی ہے قانونی استحقاق (legal legitimacy) اور اخلاقی قوت اور باہمی اعتماد سے، صرف ڈنڈے سے نہیں قائم ہوتی۔ ڈنڈے سے قبضہ (occupation) تو ہوسکتا ہے، حکمرانی نہیں۔ اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ فاٹا کو ہم نے ۶۶برس تک ’علاقہ غیر‘ بنا رکھا ہے اور اس پر دستور تک نافذ نہیں جس کی دفعہ ۲۵۶ نے اسے دستور کی دسترس سے باہر رکھ دیا ہے اور باتیں کرتے ہیں حکومت کی رٹ کی۔ ایک تدریج سے، مقامی حالات اور روایات کی پاس داری کے ساتھ پہلے اس علاقے کو دستور کی دسترس میں لایئے، وہاں قانون کی حکمرانی اور حقوق کے احترام کا اہتمام کیجیے، تو پھر ان شاء اللہ رٹ بھی قائم ہوگی اور ناپسندیدہ افراد سے بھی نجات پائی جاسکے گی۔

۸- بلاشبہہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ معیشت کی اصلاح اور استحکام اور ایک ایسی معاشی پالیسی کا اجرا ضروری ہے جو ملک کو خودانحصاری کے راستے پر گامزن کرسکے۔ سیاسی آزادی، حاکمیت اور قومی وقار کا حقیقی تحفظ اور اظہار اسی وقت ممکن ہے جب معاشی طور پر ملک میں خودانحصاری کی کیفیت ہو۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کو بتدریج ختم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے نئی اور مؤثر حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔ بیرونی تعلقات میں بنیادی بات جو امداد یا قرض یا سرمایہ کاری سے بھی کہیں زیادہ ہے، وہ شرائط ہیں جن پر یہ معاملات طے ہوتے ہیں۔ مشروط امداد جو بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہوں غلامی کی زنجیریں ہیں جن کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ رہا تجارت اور باہم رضامندی کی بنیاد پر معاشی اور مالی تعلقات تو وہ خودانحصاری سے متصادم نہیں۔ ان کو گڈمڈ کرنا صحت ِ فکر کے منافی ہے۔ پھر تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی امداد کی بنیاد پر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکی لیکن محنتی اور خوددار اقوام پابندیوں کے باوجود ترقی کرتی ہیں بلکہ ان حالات میں زیادہ اچھے انداز میں ترقی اور خودانحصاری کے اہداف کو حاصل کرسکی ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کی نئی پالیسی کے ایک اہم حصے کے طور پر معاشی پالیسی کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔ اس قوم میں بڑی صلاحیت ہے بشرطیکہ اسے صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقے سے منظم اور متحرک کیا جائے ۔

 ع   ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی اسلامی اور جمہوری قوتیں دستور کے مطابق پاکستان کے سارے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔ کسی کو بھی اپنے نظریات قوت کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنے کا اختیار نہیں۔ لیکن موجودہ کیفیت سے نکلنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان سب کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ سب کے لیے قانون کی بالادستی اور افہام و تفہیم اور جمہوری اور معروف ذرائع سے ملک کے معاملات طے کرنے کے مواقع کی فراہمی کے نظام کے قائم ہونے کے بعد کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے یا ماوراے قانون اقدام کرنے کا کوئی جواز باقی رہے گا۔ ایسی صورت میں جو بھی دستور اور قانون کی خلاف ورزی کرے، اس کے ساتھ قانون اور عدل کے نظام کے مطابق معاملہ کرنا ہی حق و ثواب کا راستہ ہوگا۔ لیکن اس کیفیت تک پہنچنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، وہ کرنا ضروری ہیں اور یہی وقت کی اصل ضرورت ہے۔

 

۱۰محرم الحرام کو راولپنڈی میں جو الم ناک اور خون آشام واقعہ رُونما ہوا ہے، اس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر زبان مصروفِ مذمت ہے۔ مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، سب کا تقدس بے دردی اور بے شرمی سے پامال کیا گیا۔ کم از کم ۱۱؍افراد شہید ہوئے اور ۱۰۰ کے قریب زخمی، جب کہ  ۲۰۰دکانیں نذرِآتش کی گئیں۔ قیمتی جانی اور مالی نقصان کا ابھی پورا جائزہ لینا ممکن نہیں۔ توقع ہے کہ جو تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا ہے وہ پورے حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر تمام صورتِ حال قوم کے سامنے لائے گا۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پوری قوم مغموم اور مشتعل ہے۔ بڑے بنیادی سوالات ہیں جو ہرذہن کو پریشان کر رہے ہیں اور ان کے واضح جواب تلاش کرنا اربابِ حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ قوم کے سامنے تمام حقائق آسکیں اور اس خونیں واقعے کے تمام ذمہ داران کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا مل سکے۔

بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ واقعہ محض اتفاقی نہیں اور قوم کو فرقہ واریت کی جنگ کی طرف دھکیلنے کے کسی منصوبے کا پیش خیمہ ہے، اور حکومت کی بے تدبیری، نااہلی اور پوری انتظامی مشینری کی غفلت یا کچھ سرکاری عناصر کی معاونت سے اتنا بڑا واقعہ رُونما ہوا ہے۔ پانچ گھنٹے تک معصوم انسان مرتے رہے۔ عبادت گاہیں، مدرسے اور دکانیں جلتی رہیں اور پوری سرکاری مشینری غیرحاضر یا غیرمؤثر تھی اور بالآخر شہر میں کرفیو لگانا پڑا اور فوج کو انتظام سپرد کرنا پڑا۔ جو عناصر اس تباہی کے ذمہ دار ہیں ان کو پوری دیانت اور سُرعت سے حقیقی آہنی ہاتھوں سے قانون کے مطابق گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ روایتی تحقیقات اور لیپاپوتی نے حالات کو بگاڑ کی اس انتہا پر پہنچا دیا ہے جہاں آج ہم ہیں۔ اس مجرمانہ روش کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

مسئلے کے تین پہلو ہیں جن کی طرف ہم توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں:

اوّلاً: پورے معاملے کی بے لاگ تحقیق اور پوری شفافیت کے ساتھ اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کم سے کم مدت میں اس تحقیق کی روشنی میں مؤثر کارروائی۔ شرپسند عناصر اور ان کے پشتی بانوں کو گرفت میں لانا اور مؤثر اور فی الفور عدالتی کارروائی کے ذریعے انھیں ان کے گھنائونے جرائم کی پوری پوری سزا۔ اس سلسلے میں شرپسند عناصر کے ساتھ پولیس، انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر بھی مؤثر گرفت ہونی چاہیے اور جس کی جتنی ذمہ داری ہے اس کے مطابق اسے سزا ملنی چاہیے تاکہ انصاف ہو اور انصاف ہوتا نظر آئے، اور مجرموں کو کھلے عام سزا ملے تاکہ وہ نشانِ عبرت بنیں اور آیندہ کے لیے ایسے واقعات سے ملک کو محفوظ کیا جاسکے۔

اس کے ساتھ جو افراد متاثر ہوئے ہیں ان کی فوری امداد___ شہدا کے خاندانوں اور زخمیوں کی مدد، اور جن کی دکانیں جل گئی ہیں اور عمربھر کی پونجی سے وہ محروم ہوگئے ہیں ان کی معاشی بحالی کا فوری انتظام، نیز مسجد، مدرسہ اور دکانوں کی فوری تعمیرنو، تاکہ متاثرہ افراد اور اداروں کی تلافی ہوسکے۔ یہ تمام کام پوری مستعدی سے اور کم سے کم وقت میں انجام پانے چاہییں، اور راولپنڈی کی دینی اور سیاسی قیادت کو اس پورے عمل کی نگرانی کرنی چاہیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے جو اس واقعے کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے۔ اِکّادکّا واقعات پہلے بھی رُونما ہوتے رہے ہیں۔ چند گروہ مختلف شکلوں میں اور مختلف مقامات پر یہ کھیل کھیلتے رہے ہیں اور حکومت نے ان عناصر کو قابو کرکے اور قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی پاکستانی معاشرے میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع شانہ بشانہ زندگی گزار رہے ہیں اور شرپسند عناصر ان کے درمیان منافرت کے فروغ اور تصادم کے کھیل میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن اس واقعے نے نئے خطرات کو جنم دیا ہے اور پورے ملک میں جذبات میں بے حد اضطراب بلکہ اشتعال ہے۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسئلے کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے اور اس چنگاری کو بجھانے کے لیے کوشش کی جائے تاکہ یہ کسی بڑی آگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔

۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے مگر ملک کی تمام ہی دینی جماعتوں نے بڑی حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ حالات پر قابو پایا ، ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں ایک منظم تحریکی قوت بن کر تمام مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے قریب لایا گیا، ایک دوسرے کی بات کو  کھلے دل سے سنا گیا اور حقیقی شکایات کا ازالہ کیا گیا، اور ملی یک جہتی، رفاقت باہمی اور رواداری کی راہیں استوار کی گئیں۔ آج اس کی ضرورت ماضی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ جس طرح اس وقت فرقہ وارانہ  ہم آہنگی پیدا کرنے اور غلط فہمیوں اور دُوریوں کو پیدا کرنے والے عوامل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ متفقہ طور پر ایک ضابطۂ اخلاق طے کیا گیا آج اس کے احیا اور اس پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ملک کے تمام دینی اور سیاسی عناصر اس سلسلے میں اپنا کردار پوری مستعدی کے ساتھ انجام دیں۔ملّی یک جہتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں ازسرِنو پہل کرنا چاہیے۔ اسی طرح مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان اصولوں کی روشنی میں فی الفور ضروری قانون سازی کا اہتمام کرنا چاہیے، نیز مسجدومحراب، اسکول اور مدرسہ، اور میڈیا سے ان اصولوں کی باربار تلقین کی جائے اور عملاً ان کے احترام کا اہتمام کیا جائے۔

ملّی یک جھتی کونسل کا طے کردہ ضابطۂ اخلاق

                ۱- اختلافات اور بگاڑ کو دُور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذِ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سرکردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔

                ۲-  ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پُرزور مذمت کرنے اور اس سے اظہارِ براء ت کرنے پر متفق ہیں۔

                ۳- کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر اور اس کے افراد کو واجب القتل قرار دینا غیراسلامی اور قابلِ نفرت فعل ہے۔

                ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حُرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آنحضوؐر کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً و قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم اس میں ہرترمیم کو مستردکریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہلِ بیت اطہار و امام مہدی رضی اللہ عنہم، عظمت ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابلِ مذمت و تعزیری جرم ہے۔

                ۵- ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبۂ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔

                ۶- شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔

                ۷- اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہوگی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابلِ سزا ہوگا۔

                ۸- دل آزار، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔

                ۹- دیواروں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعرے اور عبارتیں لکھنے پر مکمل پابندی ہوگی۔

                ۱۰- تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔

                ۱۱-تمام مکاتب فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

                ۱۲-جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیرقانونی اسلحے کی نمایش نہیں ہوگی۔

                ۱۳-عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔

                ۱۴-عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں جن سے تمام مکاتب فکر کے علما بیک وقت خطاب کر کے ملّی یک جہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔

                ۱۵- مختلف مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔

                ۱۶- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔

                ۱۷-ضابطۂ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم ایک تیسری بات بھی کہنا چاہتے ہیں اور پوری ذمہ داری اور بے باکی کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک مدت سے مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کے پالیسی ساز اداروں اور خود امریکی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ مسلم دنیا کو تقسیم در تقسیم کا  نشانہ بنایا جائے، اور اس میں نسلی اور زبانی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو اُبھارا جائے اور ان کی بنیاد پر مسلم ممالک کو تقسیم کیا جائے۔

اس سلسلے کا آغاز مغربی استعمار کے مسلم دنیا پر غلبے کے ساتھ ہی ہوگیاتھا اور دولت ِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ان ہی عصبیتوں کو اُبھارا گیا تھا۔ پھر ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہنری کسنجر نے عرب دنیا کو امریکا کے قابو میں رکھنے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے مذموم مقاصد کو یقینی بنانے کے لیے جو حکمت عملی تجویز کی تھی، اس میں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیادوں پر عرب ممالک کے سیاسی نقشے کی ازسرنو تشکیل کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ متعدد امریکی تھنک ٹینک انھی خطوط پر پالیسی سازی کے مشورے دیتے رہے ہیں اور نئے سیاسی نقشے بنانے میں مصروف ہیں۔

رابن رائٹ نے نیویارک ٹائمز میں ۲۸ستمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ تجویز کیا ہے جو نئی سُنّی اور شیعہ ریاستوں سے عبارت ہوگا اور آج کے پانچ ممالک ۱۴ملک بن جائیں گے۔ عراق اس کی پہلی بڑی تجربہ گاہ بنائی گئی تھی اور شام، بحرین اور افغانستان کو     اس آگ میں دھکیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور پاکستان بھی اس مذموم ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مقصد یہ کہ جہاں بھی کسی ملک کو فوری طور پر تقسیم کیاجاسکتا ہو، وہاں اس کے لیے فضا سازگار کی جائے اور جہاں فرقہ وارانہ اور مسلکی ریاستیں نہ بھی بن سکتی ہوں وہاں بھی فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا کھیل کھیلا جائے ،اور اس میں امریکا ہی نہیں چند مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

عراق میں امریکا نے یہ سارا کھیل کس طرح کھیلا ہے، اس کی پوری تصویر ایک تجزیہ نگار  ایشلے اسمتھ (Ashley Smith)  نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پیش کی ہے جو کاؤنٹرپنچ کے ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس سے چند اقتباس پیش کیے جاتے ہیں تاکہ سامراجی قوتوں کے اصل کھیل کو سمجھاجاسکے اور ان لبرل دانش وروں کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکے جو اس خطرناک کھیل میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔

بلاشبہہ بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کھیل کھیل رہی ہیں لیکن ان کو اعوان و انصار ہمارے اپنے درمیان سے مل رہے ہیں، اور ہماری فکری اور سیاسی قیادت اپنی لاعلمی یا مفادات کی پرستش میں شعوری یا غیرشعوری طور پر ان کے مقاصد کے آگے بڑھانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم ان بیرونی سازشوں کو بھی سمجھے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے گھر کی حفاظت اور اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کی فکر کرے جو اس خطرناک کھیل کا حصہ بن رہے ہیں۔

ایشلے اسمتھ صاف لفظوں میں کہتا ہے:

عراق اور خطے میں فرقہ واریت پھیلنے کے پیچھے اصل مجرم امریکا ہے۔

 بش انتظامیہ سُنّیوں اور شیعوں دونوں کی اس مزاحمت کے خلاف جنگ کی مرتکب ہوئی جو وہ بیرونی استعمار کے خلاف کر رہے تھے۔ امریکی افواج نے پہلے سُنّی مزاحمت کو بہت زیادہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں پر حملے، عام آدمیوں کی پکڑدھکڑ، ابوغریب میں قیدیوں پر ٹارچر، اور پورے پورے شہروں، جیسے فلوجہ میں تباہی پھیلانے کو ہدف بنایا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے شیعہ رہنما مقتدا الصدر اور اس کی مہدی فوج کو جبروتشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک مختصر عرصے کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی سُنّی اور شیعہ مزاحمت جو متحد ہونے والی ہے، اس کو روکنے کے لیے واشنگٹن نے سامراج کی پٹاری کا پرانا نسخہ: ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کو استعمال کیا۔ اس طرح امریکا نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فرقہ واریت کو بڑھایا جس کے ذریعے عراق میں جاری تشدد کا بیج ڈالا گیا۔

ایشلے اسمتھ نے اپنے مضمون میں صدربش کے دور میں رُوبۂ عمل لائی جانے والی حکمت عملی کا قدم بہ قدم ذکر کیا ہے اور پوری تفصیل سے امریکی اقتدار کے چھے سال کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ کس طرح عراق میں شیعہ سُنّی تصادم کی آگ کو بھڑکایا گیا، اور اب عراق شیعہ، سُنّی اور کرد     تین حصوں میں عملاً بٹ چکا ہے۔

اپنے اس تجزیے کی تائید میں ایشلے اسمتھ نے ایک اور مصنف نیر روزن (Nir Rosen ) کی کتاب  Aftermath: Following the Bloodshed of America's Wars in the Muslim World کا حوالہ دیا ہے جس کا ایک اقتباس چشم کشا ہے:

گو شیعہ اور سُنّیوں کے درمیان کبھی بھی مکمل ہم آہنگی نہیں رہی، لیکن ان کے درمیان عراق پر امریکی حملے کے وقت تک خانہ جنگی کی تاریخ بھی نہیں تھی۔ آج اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے والی فرقہ واریت، ذرائع ابلاغ میں مباحث کی بھرمار اور  سیاست دانوں اور علما کے جو مباحثے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی، لیکن عراق پر قبضے کے بعد جو علاقے امریکا کے قبضے میں تھے ان میں سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان خونیں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں تک کہ شیعہ اور سُنّی تعلقات اس سطح تک پہنچ گئے کہ اگر آپ کسی اجنبی سے ملیں تو پہلی بات یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ شیعہ ہے یا سُنّی۔

اسی طرح خود رینڈ کارپوریشن جو امریکا کا ایک بہت ہی معروف اور بااثر تحقیقی ادارہ ہے، اس کی ایک اہم رپورٹ The Muslim World After 9/11 جو صدر جارج بش کے دوسرے دور میں شائع ہوئی تھی اور جو باقاعدہ امریکا کی ایئرفورس کی دعوت پر تیار کی گئی تھی اور اس واضح مقصد کے لیے تیار کی گئی تھی کہ مسلم دنیا میں وہ کون کون سے کمزور پہلو ہیں جن کا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ تحقیق کروانے والوں کے اپنے الفاظ میں:

فرقہ ،نسل ، علاقہ اور قوم کی بنیاد پر جو تفریق موجود ہے اس کی تشخیص کرنا اور یہ اندازہ کرنا کہ اس تفریق سے امریکا کے لیے کس طرح کے چیلنج اور مواقع پیدا ہورہے ہیں۔

رینڈ کارپوریشن نے اس تحقیقی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا تھا کہ:’’شیعہ سُنّی اور عرب اور غیرعرب کے اختلاف کو مسلم دنیا میں امریکا کے پالیسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے‘‘۔

اس رپورٹ میں اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ نئے حالات میں خود سعودی عرب کی شیعہ آبادی امریکا کی طرف اپنے جھکائو کا مظاہرہ کرے گی:

ان کی اُمید یہ ہے کہ عراق میں جمہوریت کے ذریعے شیعہ اکثریت کو اس ملک میں سیاست میں زیادہ مقام ملے گا اور سعودی عرب میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کی اُمیدیں امریکا کے لیے یہ مواقع پیدا کرتی  ہیں کہ وہ اپنی پالیسی کو شیعہ جذبات سے ہم آہنگ کرے تاکہ جن ملکوں میں دوسرے لوگ حکمران ہیں وہاں انھیں زیادہ سے زیادہ مذہبی اور سیاسی اظہار کی آزادی ملے اور اپنے معاملات میں ان کی راے کا وزن بڑھے۔

یہ ہے وہ نقشۂ جنگ جو ہمارے دشمنوں نے ترتیب دیا ہے اور ہم ہیں کہ اس جنگ میں شریک ہوکر اپنے ہی دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے جرم میں شریک ہورہے ہیں۔

مسلمانوں کے تمام ہی معروف فرقے اور مسالک صدیوں سے ایک اُمت کے حصے کے طور پر اپنا اپنا کردارادا کر رہے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی اور آقا، اور سند تسلیم کرنے کے بعد ہم سب ایک رشتے میں جڑگئے ہیں اور اختلافات جو بھی ہیں، وہ اپنی اپنی دلیل پر مبنی ہیں جن کا ماخذ اور سند بالعموم قرآن و سنت ہی ہیں، اور ہر ایک کا مقصد اور خواہش اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہی ہے:

اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  ز وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ ط کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۹۲-۹۳) یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو ، مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انھوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا___ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے   تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی، یعنی دین اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنا ہی دنیا میں راہِ ثواب کے حصول اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور اُمت کی وحدت کتاب و سنت پر قائم رہنے پر منحصر ہے۔ پھر تفرقہ اور آپس میں پھوٹ ڈالنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے کہ یہ اُمت کو پارہ پارہ کرنے کا راستہ ہے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اختلاف سے منع نہیں کیا، تفرقے سے روکا ہے اور دونوں میں جوہری فرق ہی یہ ہے کہ اختلاف ، اخلاص اور دیانت سے، دلیل کی بنیاد پر، تلاشِ حق کے جذبے ہی کی خاطر ایک فطری عمل ہے جس کی روایت دور رسالت مآبؐ اور صحابہؓ سے آج تک اُمت کی روشن شاہراہ کا حصہ رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:  اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ  ’’میری اُمت کے درمیان اختلاف راے ایک رحمت ہے‘‘۔

مفتی محمد رفیع عثمانی ’اختلاف‘ اور ’تفرق‘ کا فرق یوں واضح فرماتے ہیں کہ ’’اختلاف کا حاصل اور لب ِ لباب تین چیزیں ہیں: ایک یہ کہ جو اختلاف قرآن و سنت کی بنیاد پر اخلاص و للہیت کے ساتھ ہو، اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لیے ضروری ہے، تو   یہ اختلاف ممنوع نہیں بلکہ اُمت کے لیے رحمت ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ اختلاف ایسے مسائل میں ہو جن میں قرآن و سنت نے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کیا ، اور ایسے مسائل میں جن میں اجتہاد کی گنجایش ہوتی ہے، یعنی ایک سے زیادہ آراکا احتمال ہوتا ہے۔ ان میں جو فریق بھی جو راے دلائل کی بنیاد پر قائم کرلے وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہم جو، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ہم حنفی ہیں اور فلاں شافعی یا مالکی یا حنبلی ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہی یقینا، یقینا صحیح ہے، اور امام شافعیؒ کا قول یا کسی اور امام، مثلاً امام احمد بن حنبلؒ یا اما م مالکؒ کا قول جو اس کے مقابلے میں ہے، وہ یقینا غلط ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا قول مَظْنُوْنُ الصَّوَابْ اور  مُحْتَمَلُ الْخَطَائِ ہے، جب کہ دوسروں کا قول مَظْنُوْنُ  الْخَطَائِ  اور مُحْتَمَلُ الصَّوَابِ ہے،یعنی ظنِ غالب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول صحیح ہے، اگرچہ احتمال اس کے غلط ہونے کا بھی ہے۔ دیگر ائمہ کے بارے میں  ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا ظن غالب یہ ہے کہ وہ خطا ہے لیکن احتمال یہ بھی ہے کہ وہ صحیح ہو۔

دوسری چیز ہے ’تفرق‘، یعنی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ شریعت نے کسی بھی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی۔ خنزیر کا گوشت کھانا جتنا بڑا حرام ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا حرام ہے۔ خالص انگور کی شراب پینا جتنا بڑا گناہ ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا گناہ ہے..... لیکن مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں دی۔ جتنا ہم نے قرآن و سنت میں غور کیا اور جتنا ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھایا، ہمیں یہی نظر آیا کہ ’تفرق‘ اور فرقہ بندی کے جواز کی کوئی صورت نہیں‘‘۔

اور پھر رواداری اور رحماء بینھم بننے کا نسخہ بھی یوں بیان کرتے ہیں:’’اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانوی کا ملفوظ جو بہت مختصر ہے، یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ کہ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسروں کا مسلک چھیڑو نہیں‘‘۔ جو جس مسلک کا پیروکار ہے وہ اپنے مسلک پر عمل کرے، لیکن دوسروں کو نہ چھیڑے۔ پس میری گزارشات کا خلاصہ یہ نکلا کہ اختلاف راے جائز ہے اور اختلاف کرنے والوں کی آرا کا احترام لازم ہے لیکن افتراق کسی حال میں جائز نہیں۔    ہم اسی افتراق کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ آج کفر ہمیں مٹانے پر تلا ہوا ہے، اور ہم آپس میں جھگڑے کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مسلک پر عمل کرے اور بھائیوں کی طرح مل کر رہیں اور مل کر کفر کا مقابلہ کریں‘‘۔

علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت اور وقت کی ضرورت دونوں کو کس خوبی سے پیش کیا ہے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

 

پاکستان میں [جس انتشار اور صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ  ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔

وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی  فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔

اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔

ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔

[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....

۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس   کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے    ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو  مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر  پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو  تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....

اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہرایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....

۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے  تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے  جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)

 

ترجمہ: ارشاد الرحمن

قرآنِ مجید کی ایک مکّی سورت میں دین کے اُسلوبِ خطاب، یعنی دعوتِ دین کا طریق کار متعین کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو‘‘۔ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے بعد ہر اُس اُمتی کو مخاطب کرتی ہے جو اس کے دائرے میں آتا ہو۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف بلانا، یا اللہ کے راستے کی طرف بلانا، یعنی دعوتِ دین کا کام اور ذمہ داری نبی کریمؐ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ آپؐ کی اُمت سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آپؐ کی موجودگی میں بھی اور آپؐ کے بعد بھی آپؐ کی اس دعوت کو آگے منتقل کرنے کی ذمہ داری ادا کرے۔ ایک دوسری آیت میں قرآنِ مجید اس بارے میں رسولِؐ کریم کی زبانی کہتا ہے:قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف۱۲:۱۰۸) ’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو محمدؐ رسول اللہ کا اتباع کرے، اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو، محمدؐ کے نبی اور رسول ہونے کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہو، وہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا (داعی) ہوتا ہے۔ وہ یہ دعوت اپنی قلبی بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ پیش کرتاہے۔

دعوت الی اللہ کے قرآنی اسلوب کا ایک اہم نکتہ ’بہترین انداز میں مکالمہ‘ ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ طریقِ دعوت میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ آیت ِ مذکورہ میں وعظ و نصیحت (موعظہ) کے بہتر (حسنہ) ہونے پر اکتفا کیا گیا مگر مکالمے (جِدال) میں ’حسنہ‘ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ’احسن‘ (بہترین) طریقے کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ نصیحت (موعظہ) کا معاملہ اپنے حامیان اور متفقین کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ مکالمے (جِدال) کا معاملہ مخالفین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مکالمہ احسن انداز میں ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مکالمے کے دو طریقے ہوں: ۱- طریقۂ حسنہ۲- طریقۂ احسن، تو دعوتِ دین کے کارکن کو حکم ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے احسن طریقے سے مکالمہ اور گفتگو کرے۔

مکالمے کے احسن طریقے میں بہت سے پہلو شامل ہیں، مثلاً: داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالف مخاطبینِ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی نرم الفاظ اور انتہائی آسان اسلوب اختیار کرے۔ مقصد یہ کہ اس طرح وہ انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے اور اپنے قریب لے آئے۔ وہ کوئی ایسا لہجہ اور الفاظ استعمال نہ کرے جس سے اُن کے سینوں میں عصبیت اور کینہ پیدا ہوجائے۔ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں بڑی نمایاں اور حیران کن مثالیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ مشرکین سے مکالمے اور مجادلے کی مثال ملاحظہ کیجیے۔ فرمایا:

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط قُلِ اللّٰہُ لا وَ اِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (السبا ۳۴:۲۴-۲۵) (اے نبیؐ!) ان سے پوچھو، ’’کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟‘‘ کہو، ’’اللہ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ اِن سے کہو، ’’جو قصور    ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی۔

اس خیرخواہانہ اسلوب میں اپنے مخالف مخاطب کی غلط فہمی کے ازالے اور نفسیاتی تسکین کی ایسی کوشش کی گئی ہے جس سے کافی حد تک وہ مطمئن اور قریب ہوسکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے: ’’اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’تم کھلی گمراہی میں ہو‘‘۔ آگے مزید دیکھیے کہ حکیمانہ اسلوب کے استعمال کی حد کردی گئی ہے۔ فرمایا: ’’ان سے کہو، جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہاں الفاظ کا موازنہ کرکے دیکھیے کہ کہا گیا ہے: وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تُجْرِمُوْنَ  ’’جو قصور تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘ یعنی قصور اور جرم کو اپنی طرف منسوب کرلیا گیا لیکن اُن کو مانوس اور قریب کرنے کی خاطر جرم کو اُن کی طرف منسوب نہیں کیا گیا۔

دوسری بات جو ’مکالمے کے بہترین انداز‘ کے تحت آتی ہے وہ فریقینِ گفتگو کے نزدیک ’مشترکات‘ پر زور ہے۔ یہاں اختلاف اور مخالفت کے نکات کو اُٹھانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ طرفین کے درمیان ’زمینِ مشترک‘ کا وجود گفتگو کو سنجیدہ اور بامقصد بنانے میں بہت معاون ہوتا ہے۔ یوں فریقینِ مکالمہ کے نزدیک متفق اُمور سے فائدہ اُٹھانا ممکن ہوجاتا ہے۔

  •  احسن انداز میں دعوت: قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمے میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ق اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹:۴۶) ’’اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر  عمدہ طریقے سے___ سواے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں___ اور اُن سے کہو کہ  ’’ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے، اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔

یہاں قرآنِ مجید نے اُن عقائد پر زور دیا ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے قریب کرسکیں۔ یہاں یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان ہر اُس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ اسی طرح مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہر رسولؐ پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ’یکتا معبود‘ ہونے پر بھی سب کا ایمان ہے۔ اشتراکِ ایمان کا یہی وہ نکتہ ہے جہاں تمام مذاہب کے اہلِ ایمان یک جا ہوجاتے ہیں۔ اور اُن سب کی جدوجہد اور کش مکش کا رُخ اُن ملحدین و منکرین خدا کی طرف مڑ جاتا ہے جو صرف مادے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ جن کا اس بات پر کوئی یقین و ایمان نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی خدا ہے، انسان کے اندر کوئی روح ہے، اور اس دنیا کے بعد کوئی آخرت بھی ہے!!

’بہترین انداز میں مکالمے‘ میں یہ بات بھی شامل ہے جسے سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر  فی ظلال القرآن میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ان کے ساتھ اگر مجادلے کا موقع پیش آئے تو وہ بھی احسن طریق سے ہو۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ مخالف پر داعی حملہ آور ہوجائے اور اس کو ذلیل کرے یا اس کی قباحتیں بیان کرے۔ دعوت میں مباحثے کا انداز یہ ہو کہ مخاطب کو یقین ہوجائے کہ دعوت دینے والا محض غلبے اور کلام میں برتری کا حصول نہیں چاہتا بلکہ داعی محض ایک حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ عناد کا مادہ ہوتا ہے اور ہرشخص کی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ وہ آخر دم تک اپنی راے کی مدافعت چاہتا ہے تاکہ وہ ہزیمت اور شکست سے بچے۔ اعتقاد و نظریہ دراصل راے ہوتی ہے اور لوگ راے کی قدروقیمت اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اگر کسی کو راے بدلنے کا کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ ان کے رعب، ان کے احترام اور ان کی شخصیت میں فرق آجائے گا۔ اگر داعی اچھے انداز میں مباحثہ اور مکالمہ کرے تو اس سے کسی شخص کے ذاتی احساس کو ٹھیس    نہ پہنچے گی اور مخاطب یہ سمجھے گا کہ اس کی عزت نفس، اس کی شخصیت اور عزت و کرامت محفوظ ہے اور داعی صرف دعوت پہنچانا چاہتا ہے۔ محض اللہ کے لیے اسے ایک اچھی راہ کی طرف بلا رہا ہے۔   اس کام سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہے، نہ وہ اپنی فتح اور مخاطب کی شکست چاہتا ہے۔

داعی کے زیادہ جوش اور جذبے کو ذرا کم کرنے کی خاطر نصِ قرآنی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ دراصل اللہ ہی زیادہ علیم ہے ، وہی جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت پانے والا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثے کے اندر بہت زیادہ جوش اور جدال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شائستہ انداز میں دعوت دے دی جائے اور اس کے بعد اس کے نتائج اللہ پر چھوڑ دیے جائیں‘‘۔(تفسیر سورئہ نحل، آیت ۱۲۵)

  •  ’کفار‘ کے بجاے ’غیرمسلم‘ کا استعمال: مکالمے اور جدال کا وہ بہترین انداز جس کا مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے اور خاص طور پر گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی ضرورت ہے، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنے مخالفین کے کفر کا اعتقاد ضرور رکھیں مگر اُن کو ’کفار‘ کے نام سے نہ پکاریں، خصوصاً اپنے اہلِ کتاب مخالفین کے معاملے میں اس بات کو پیش نظر رکھیں۔ ہمارے پاس اس موقف کی دو وجوہ ہیں:

۱- لفظ ’کفار‘ کے متعدد معانی اور مفاہیم ہیں۔ بعض تو یقینی طور پر ہماری مراد نہیں ہوتے، مثلاً: اللہ، اس کے رسولوں اور جہانِ آخرت کا انکار، جیساکہ اُن مادہ پرستوں کا نظریہ ہے جو محسوسات کے علاوہ کسی چیز پر ایمان ہی نہیں رکھتے، لہٰذا وہ اللہ، رسولؐ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہم جب اہلِ کتاب کے بارے میں بات کریں تو یقینا اس معنی و مفہوم میں ہم انھیں کافر نہیں کہہ سکتے۔ انھیں ’کفار‘ کہنے کا ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کی رسالت و شریعت کے کافر (منکر) ہیں اور یہ بات تو سچ ہے کیونکہ یہی اعتقاد وہ ہمارے بارے میں بھی رکھتے ہیں کہ ہم اُن کے مذہب کو نہیں مانتے، لہٰذا اُن کے نزدیک ہم ’کفار‘ ہیں اور اس پہلو سے یہ بات بھی درست ہے۔

۲-  ہمارے اس موقف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم لوگوں کو کافر کہہ کر مخاطب نہ کریں خواہ وہ کافر ہی ہوں۔ غیراہلِ ایمان لوگوں کو قرآنِ مجید میں  درج ذیل الفاظ اور ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ (اے انسانو!)، یَابَنِی اٰدَمَ (اے بنی آدم)، یَاعِبَادِی(اے میرے بندو!) یَااَھْلَ الْکِتَابَ(اے اہلِ کتاب!)۔

قرآنِ مجید میں دو مقامات (التحریم ۶۶:۷، الکافرون ۱۰۹:۱-۶)کے سوا لوگوں کو کہیں کافر کے نام سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ سورئہ کافرون میں اُن بت پرست مشرکین کو مخاطب کیا گیا ہے جو رسول کریمؐ سے اس بات پر سودے بازی کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک سال آپؐ اُن کے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں اور ایک سال وہ آپؐ کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ چونکہ ایسی کوششوں کو دوٹوک اور حتمی و قطعی اسلوب میں ختم کرڈالنا مقصود تھا، تاکہ اس طرح کی مزید بیان بازیوں کی گنجایش ہی باقی نہ رہے، لہٰذا رسولؐ اللہ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ دوٹوک انداز میں اُن کو  مخاطب کریں جس میں تکرار اور تاکید بھی نمایاں ہو۔ اس دوٹوک اندازِ خطاب کے باوجود سورت کا اختتام جس آیت پر ہوتا ہے وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور برداشت کا دروازہ کھلا رکھتی ہے، یعنی: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن (تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین)۔ اس بناپر مَیں طویل عرصے سے اس بات کو ترجیح دے رہا ہوں کہ اپنے مخالف دیگر ادیان کے لوگوں کو ’غیرمسلم‘ کے نام سے مخاطب کیا جائے۔

  •  ’ذمی‘ کے بجاے ’شھری‘ کا استعمال: اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ہمارے غیرمسلم اقلیتی بھائیوں کو قبول نہیں، مثلاً ’ذمی‘ کا لفظ ہمارے مصری قبطی برادران کو پسند نہیں حالانکہ اس لفظ کا مفہوم مثبت ہے، یعنی یہ مفہوم کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ، رسول کریمؐ اور مسلم جماعت کی ضمانت حاصل ہے۔ اس مفہوم اور مراد کی مسلمان کے دل میں ایک وقعت اور تاثیر ہے۔ وہ یہ بات کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ اللہ و رسولؐ کی ضمانت کو کسی بھی حال میں توڑ دے۔ جو شخص بھی ایسے فعل کا ارتکاب کرے گا وہ اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ تاہم اگر ہمارے مسلم ممالک کے غیرمسلم شہری اس لفظ سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کی جگہ ’شہریت‘ اور ’شہری‘ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ فقہا اس بات سے متفق ہیں کہ اسلامی ریاست کے ذمی ’اہلِ ریاست‘ ہیں اگرچہ وہ ’اہلِ ملت‘ نہیں۔ ’اہلِ ریاست‘ کے اس لفظ کو عصری مفہوم میں ’شہری‘ کے لفظ سے بدلا جاسکتا ہے اور لفظ ’ذمی‘ کو حذف کرنے اور بدلنے سے اسلامی شریعت کے کسی حکم اور مسلّمہ امر کی مخالفت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے خلفاے راشدین کے طرزِعمل میں نمونہ اور مثال موجود ہے۔ اور خلفاے راشدین وہ ہیں جن کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنے اور اسے مضبوطی سے پکڑنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، خصوصاً شیخین، یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا طریقہ!!

بنی تغلب عہدِ جاہلیت سے مسیحی چلے آرہے تھے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ہم سے ’جزیہ‘ کے نام پر کچھ وصول نہ کیا جائے، یہی چیز ’صدقے‘ کے نام سے وصول کرلی جائے خواہ دگنی لے لیں۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ فرمایا: ’’یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے، حضرت عمرؓ کا یہ ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ کیونکہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  •  تعلقاتِ انسانی کے لیے اخوت کی اساس: گلوبلائزیشن کے عہد میں مطلوبہ تعبیرات میں سے ایک تعبیر تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کو’اخوت‘ کا پیرہن عطا کرنا ہے۔ اس سے مراد عام ’انسانی اخوت‘ ہے جو صرف اس بنیاد پر تشکیل پاتی ہے کہ ساری کی ساری انسانیت ایک خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور آدم ؑ کی ابنیت میں سب انسان مشترک ہیں۔

اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، ان کے طبقات، علاقے، زبانیں اور رنگ و نسل جو بھی ہوں۔ یہ خاندان بحیثیت مخلوق ربِ واحد کی طرف اور بحیثیت نسب ایک باپ کی طرف منسوب ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے انسانوں کو بلکہ تمام کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo(النساء ۴:۱) لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ  دے کر تم ایک دوسرے سے،اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

یہاں استعمال ہونے والا لفظ الارحام جن تمام تر انسانی رشتوں پر مشتمل ہے اُس کو   ذرا واضح کرنا مناسب ہوگا۔ خاندانِ انسانی کی وحدت جیسی اس حقیقت کو رسولِؐ اسلام حضرت محمدؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عظیم اجتماع کے سامنے علی الاعلان یوں بیان فرمایا تھا: ’’لوگو! یقینا تمھارارب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی نسل سے ہو،اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔  لہٰذا کسی عرب کو غیرعرب اور کسی غیرعرب کو عرب پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ کیونکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘۔

رسول کریمؐ کے یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورئہ حجرات کے اس مضمون کو تاکید مزید کے طور پر بیان کرتے ہیں: ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ    تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے‘‘۔

جب یہ چیز موجود ہے تو تمام انسانوں کا انتساب انسانیت کے باپ حضرت آدم ؑ کی طرف ہونے کے اعتبار سے انسانی اخوت لامحالہ موجود ہے۔ اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر لوگوں کو ’یابنی آدم‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس طرح کی تعبیرات دوسروں کو ہم سے قریب کرتی ہیں۔ ہمارے اور اُن کے درمیان حائل خلیج کو پاٹتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے خلاف گھات میں بیٹھے ہمارے دشمنوں اور ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بناسکتی ہے جو لوگ ایک ملک اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ ایسی سازشوں کے ذریعے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا انھیں راستہ مل جاتا ہے۔ وہ ہمارے اُوپر تسلط حاصل کرلیتے ہیں اور ہماری گردنوں میں اپنے احکام کی غلامی کا پھندا ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے مواقع پر ان کی چالوں کو  انھی کے اُوپر پلٹ دیں۔ یہ مواقع اُمت کی تمام قوتوں کو اپنے دشمن کے مقابلے میں متحدہ محاذ کی صورت کھڑا کردیتے ہیں۔

  •  دین کی تعبیرِ جدید کا غلط انداز: گلوبلائزیشن کا عہد اگر ہم سے ایسے جدید دینی طریق کار کا تقاضا کرے جس میں ہم اسلام کو اس کی حقیقت ہی سے منحرف کردیتے ہوں یا کلام کو اس کے مدّعا سے ہٹا دیں، یعنی اسلام غیرمسلموں کی منشا و مرضی کے مطابق انھیں پیش کریں۔ ایسا اسلام جو اُن کا پسندیدہ ہو، ایسا اسلام جس کے پاس نہ اقدام کی صلاحیت ہو نہ دفاع کی طاقت، اُسے حکم دیا جائے تو وہ بلاچوں و چرا تسلیم کرلے، داعیان اور علماے دین سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام کا ایسا عقیدہ پیش کریں جس میں شریعت نہ ہو، ایسی عبادت جس میں معاملات نہ ہوں، ایسا امن جس میں جہاد نہ ہو، ایسی شادی جو بلاطلاق ہو، ایسا حق جس کے پاس قوت نہ ہو، ایسا قرآن جس کے پاس نہ تلوار ہو، نہ اس کی دعوت ہو، اور نہ اس کی ریاست و حکومت ہو___ ایسے اسلام کو ہم نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے۔ ایسا اسلام قرآن و سنت کا اسلام نہیں ہے۔ رسولؐ اللہ اور صحابہؓ و تابعینؒ کا اسلام نہیں جن کا عہد خیرالقرون (بہترین زمانہ) کہلاتا ہے۔

دین کے اندازِ خطاب کی تبدیلی سے مراد اگر یہ ہو کہ اسلام کو محض بندے اور رب کے درمیان تعلق کے طور پر پیش کیا جائے___   وہ ریاست و حکومت،خاندان و معاشرہ اور فرد کے لیے نظامِ حیات نہ ہو___ تو یہ مسلمانوں کے مقابلے میں وضع کیا گیا غیرحقیقی اور غلط اسلام ہے۔   یہ محمدرسولؐ اللہ کا اسلام نہیں ہے، یہ قرآن اور مسلمانوں کا اسلام نہیں ہے۔ ان کا اسلام تو زندگی اور انسان کے درمیان تقسیم کا قائل نہیں ہے۔ یہ اسلام تو کہتا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیاگیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

دین کے اندازِخطاب میں تبدیلی سے مراد اگر اُن آیات کو حذف کرنا ہو جو یہود اور اُن کی غداریوں سے بحث کرتی ہیں، میدانِ جنگ میں نبیؐ اور آپؐ کے لشکر کو چھوڑ کر بت پرستوں سے جاملنے کا ذکر کرتی ہیں، ان آیات کو حذف کردینا یا کم سے کم نظرانداز کردینا اور اُن کو اس طرح منجمد کیے رکھنا کہ ذرائع ابلاغ پر اُن کو تلاوت نہ کیا جائے، خطیب، مقرر اور مدرس اپنے خطبات، تقاریر اور دروس میں ان کے بارے میں بات نہ کریں___ تو اُمت مسلمہ اس بات کو نہیں مان سکتی۔ اُن کے رب کی کتاب بدستور تلاوت ہوتی رہے گی، آیات کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ یہ معلم اور رہنما کا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ یہ نورِ مبین اور صراطِ مستقیم ہے۔جو شخص بھی اس کا علم حاصل کرے گا وہ آگے نکل جائے گا، جو اس کی بنیاد پر بات کرے گا وہ حق کہے گا، جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا، انصاف پر مبنی فیصلے کرے گا، جو اس پر عمل کرے گا اجر پائے گا، اور جو اس کی طرف انسانیت کو دعوت دے گا اُسے راہِ راست نصیب ہوگی۔

اسی طرح ’دینی اندازِ خطاب‘ میں تبدیلی سے مراد اگر مسلمانوں کے ہاں عبادات میں سے رکنِ زکوٰۃ کو حذف کردینا ہو، معاملات میں سے سود کی حُرمت کو ختم کردینا ہو، فوجداری مقدمات میں حدود و تعزیرات کا خاتمہ کردینا ہو، بین الاقوامی تعلقات میں جہاد کو خارج کردینا ہو، سیرت النبیؐ سے غزوات کا تذکرہ نکال دینا ہو، مسلم تاریخ سے خالد بن ولید، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، سیف الدین قطز، عمرمختار اور عزالدین القسام کے کارناموں کا ذکر محو کردینا ہو تو ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔(ماخذ:  www.alqaradawi.net)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو زیادہ پریشانیاں اور غم پیش آئیں وہ یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میں تیرے قبضے میں ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں تیرا حکم نافذ ہے، میرے معاملے میں تیرا فیصلہ سراسر عدل ہے، میں تجھ سے تیرے ہراس نام کے وسیلے سے جو تو نے اپنی ذات کے لیے مقرر کیا ہے یا اسے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اپنی مخلوق میں کسی کو سکھلایا ہے، مثلاً فرشتوں کو یا اپنے بندوں کو وہ نام الہام کیا ہے، یا اسے اپنے علمِ غیب میں اپنے پاس مستور رکھا ہے، سوال کرتا ہوں کہ قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری فکرمندی، پریشانی اور غموں کا مداوا بنادے۔ جب بھی کوئی بندہ یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دُور کردے گا اور غم کے بدلے میں اسے خوشی عطا فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ)

انسان آفات اور حوادث سے دوچار ہوتا رہتا ہے، غم اور پریشانیوں سے اسے واسطہ رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے ایک طرف تو ان اسباب کو اختیار کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ان تکالیف کے لیے مقرر کیے ہیں۔ فقروفاقہ کی پریشانی میں رزقِ حلال کے لیے دوڑدھوپ، بیماری میں دوا اور طبیب کی طرف رجوع لیکن مسبب الاسباب اللہ رب العالمین کی طرف رجوع زیادہ ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دُعا کی شکل میں ہوتا ہے، اور دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جاتی ہے، کائنات پر اس کی حکمرانی اور اپنی ذات کے بارے میں اس کی تقدیر کے عقیدے کو تازہ کرکے اس کے ہرفیصلے خصوصاً اپنے بارے میں اس کے فیصلے کے عادلانہ ہونے کا حوالہ دے کر اس کے ناموں کا واسطہ دے کر اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ تب ایسی دُعا جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے اسما کے واسطے سے اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کرکے کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔    یہاں جو دُعا سکھلائی گئی ہے وہ بہت مختصر ہے، اسے آدمی یاد بھی کرسکتا ہے۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُرٰان رَبِیْع قَلْبِیْ وَجَلَائَ ھَمِّیْ وَحُزْنِی، ’’اے اللہ! قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری پریشانی، فکرمندی اور غموں کا مداوا بنادے‘‘۔ دُعا سے پہلے اپنی عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور اس کے اسما و صفات اور اس کی حکمرانی کا واسطہ آدمی اپنی زبان میں بھی پیش کرسکتا ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم نے جنگ ِ خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! دل گلے تک پہنچ گئے ہیں یعنی خوف اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے تو کوئی خاص دُعا ہے جسے ہم وردِ زبان بنائیں، تاکہ بے چینی اور خوف کا خاتمہ ہو تو آپؐ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو:  اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، ’’اے اللہ! ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے امن عطا فرما‘‘۔ ہم نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے چہروں پر آندھی کے تھپیڑے مارے اور آندھی کے ذریعے انھیں شکست دے دی۔(مشکوٰۃ بحوالہ مسنداحمد)

آج کل پوری دنیا میں بدامنی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ یہ دعا موجودہ حالات میں نسخۂ کیمیا ہے۔ جب بھی کفار اور شرپسند اہلِ ایمان پر حملہ آور ہوئے اس دعا کو بچائو کا ذریعہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کس طرح اس دعا کے نتیجے میں امداد فرماتے ہیں، غزوئہ خندق اس کی نمایاں مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہوا کے ذریعے دشمن کو مدینہ سے بھگادیا اور اہلِ ایمان کو عظیم اور حیرت انگیز فتح نصیب ہوئی۔  آج بھی اسی طرح کے کرشموں کا ظہور ہوسکتا ہے۔ ضرورت ایمان کو تازہ کرکے دل کے اخلاص سے ظاہری اسباب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے۔ آج بھی دشمن کو بھگانے کا بہترین وسیلہ یہی ہے۔


حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد حصین سے کہا (جب کہ حصین مسلمان نہیں ہوئے تھے) آج کل کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟ میرے والد حصین نے کہا: سات کی ، چھے زمین میں ہیں اور ایک آسمان پر ہے۔ آپؐ نے پوچھا: سخت پریشانی اور خوف میں کس کو پکارتے ہو؟ کہا کہ اسے جو آسمان میں ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: حصین! اگر تم اسلام لے آئو تو میں تمھیں دو کلمے بتلائوں گا جو تجھے نفع دیں گے۔ عمران کہتے ہیں کہ: جب حصین اسلام لے آئے تو عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے وہ دو کلمے بتلا دیجیے جن کا آپؐ  نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ آپؐ  نے فرمایا: کہو! اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ، ’’اے اللہ! میرے دل میں میرے لیے ہدایت ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچادے‘‘۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)

مشرک کئی دروازوں کا سوالی ہوتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ صرف اللہ کے دَر پر آجاتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس مصیبت میں جس سے وہ دوچار ہے وہ طوفان بادوباران جس سے وہ سمندر کی طوفانی موجوں میں دوچار ہوچکا ہے، صرف اللہ کی ذات بچاسکتی ہے۔ حصین مشرک تھے تو چھے معبودوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا تھا۔ اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں  اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے اور تمام بھلائیاں سمیٹنے کا طریقہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرو اور اپنے نفس کے شر سے اس کی پناہ میں آجائو۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آدمی کے دل میں بھلائی القا کرتے ہیں اور تمام بھلائیوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے دیتے ہیں، اور نفس کے شر سے جو شیطان کا آلۂ کار ہوتا ہے، بھی حفاطت فرماتے ہیں۔ تب آدمی اطمینان کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے اور منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔


حضر ت جابرؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر کاشت کے لیے دے دے۔اگر   یہ دو کام نہ کرسکے تو اُجرت پر دینے کے بجاے اپنے پاس رکھے۔(متفق علیہ)

اسلام ہمدردی اور غم گساری کادین ہے، وہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراس پر آخرت میں اجر کی طلب رکھو۔ اسلام نے زکوٰۃ و صدقات اور عطیات کو رواج دیا ۔ اسی سلسلے میں عطیے کے طور پر زمین دینا بھی ہے۔ جائز ملکیت ہو اور بہت بڑی مقدار میں ہو تو ضرورت سے زائد زمین دوسرے بھائی کو مکمل طور پر عطیہ دے دے اور اسے اس کا مالک بنا دے۔ یہ سب سے اُونچادرجہ ہے دوسری صورت یہ ہے کہ ملکیت تو اپنے پاس رکھے لیکن بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اُجرت کے لیے کاشت پر دے دے اور اُجرت منصفانہ ہو تو یہ بھی جائز ہے لیکن اولیٰ پہلی صورت ہے کہ بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ اس کا اس حدیث میں ذکر ہے۔

پاکستان میں جو ظالمانہ جاگیردارانہ نظام ہے جس سے مزارعین اور ہاری دوچار ہیں، اس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اتنی بڑی بڑی جاگیریں جو انگریز نے اپنے دورِ حکمرانی میں اپنے آلۂ کاروں اور کارندوں کو دوسرے مسلمانوں سے غصب کر کے ان کی چاکری کے عوض میں دی ہیں، وہ ان کے جائز مالک نہیں ہیں۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ان جاگیروں کو ضبط کرے اور جاگیرداروں کے پاس اتنی زمین چھوڑ دے جو ان کے گزارے کے لیے ضروری ہے۔ باقی تمام زمین ان ہاریوں کی ملکیت میں دے جو ان زمینوں پر کاشت کاری کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں جاگیرداری نظام ختم کردیا گیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری نظام قائم ہے۔ حالانکہ اسلام نے جاگیرداری نظام پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں فیصلہ فرما دیا کہ مفتوحہ زمینیں مقامی مالکوں کے پاس رہیں اور ان سے خراج لیا جائے۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاریتاً لی ہوئی چیز کا واپس کرنا ضروری ہے اور عطیے کے طور پر جو گائے، بھینس، اُونٹنی، بکری، دودھ کے لیے لی ہو اسے بھی لوٹایا جائے گا۔ اور قرض ادا کیا جائے گا اور ضامن تاوان دے گا۔ (مشکوۃ، ترمذی)

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اخلاقی ہدایات ہیں جہاں آپؐ  نے یہ ہدایت کی ہے کہ اپنی چیزیں اپنے بھائیوں کو مالکانہ نہ دے سکو تو عاریتاًدے دو، وہیں یہ بھی تاکید کی ہے کہ ضرورت پورا کرنے کے بعد جس وقت مالک طلب کرے چیز اسے واپس لوٹائو۔ حفاظت پوری طرح نہ کی جائے اور چیز ضائع کی جائے تو تاوان دینا پڑے گا، قرض بھی لوٹانا پڑے گا اور جس کی ضمانت پر قرض دیا ہے یا چیز دی ہے اگر مقروض تاوان نہ دے سکتا ہو تو پھر ضامن کو تاوان دینا ہوگا، جب کہ اس نے تاوان دینے کا ذمہ لیا ہو۔ اگر صرف مقروض کو حاضر کرنے کا ذمہ لیا ہو کہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا، میں حاضر کروں گا، تو ایسی صورت میں مقروض کو حاضر کرنا ہوگا۔

آج کل لوگ قرض لے کر واپس نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ قرضِ حسن کا سلسلہ کمزور پڑگیا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کی مہم چلائی جائے کہ لوگ قرضِ حسن لے کر اسے واپس کریں اور اگر واپس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو قرض نہ لیں۔ عسرت کی زندگی بسر کرنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لوگوں سے قرض مانگے اور پھر واپس نہ کرسکے۔ اس طرح ذلت اُٹھائے اور احسان کرنے والے کو بھی مشکل سے دوچار کرے۔ قرضِ حسن کو رواج دینے میں سودی بنکاری بھی مانع ہے۔ اس سودی بنکاری کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے سودی قرض کی وصولی اور اس پر سودی منافع دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملک ۱۰۰؍ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

 

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے ۔ ہر مسلمان کا قرآن کریم پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت اور وابستگی ہر مسلمان کا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ عقیدت کے مختلف مظاہر معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں قرآن کریم کو گھر اور کاروبار کی جگہ خیروبرکت کے لیے رکھا جاتاہے تو کہیں ختم قرآن کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیاجاتاہے ۔ مختلف معاشرتی مسائل میں اس سے کسب ِفیض کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی جاتی ہے، دلہن کو قرآن کے سایے میں رخصت کیا جاتاہے۔ الغرض اپنے اپنے ظرف اور حالات کے مطابق لوگ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت ، محبت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔قرآن کریم کے ساتھ عقیدت ،محبت اور وابستگی کے یہ جذبات اپنی جگہ ،لیکن قرآن کریم کا نزول صرف ان اُمور کے لیے نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب کے اہم حقوق ہیں جو ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق میں قرآن کریم پر ایمان لانا، اس کی درست تلاوت کرنا ، قرآن میں غور و فکر کرنا، اللہ کی اس عظیم کتاب کے احکام پر عمل پیرا ہونا ،  قرآن کریم کی تبلیغ اور تنفیذ کے لیے کوشش کرنا شامل ہے۔

 یہاں قرآن کے صرف ایک حق، یعنی تلاوت قرآن کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۴) ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔ قرآن کریم کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھنے سے دل میں سرور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دلوں کااطمینان اور سکون قرآن کی تلاوت میں رکھاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :’’بنی آدم کے دلوں پر اس طرح زنگ لگ جاتاہے جس طرح  پانی لگنے سے لوہے پر زنگ آجاتاہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ دلوں کے اس زنگ کو دُور کرنے کا    کیا طریقہ ہے ؟آپؐ نے ارشاد فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔

قرآن کریم کی تلاوت کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ ٹھیر ٹھیر کر خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کی جائے ۔ الفاظ کو ٹھیک طریقے سے ادا کیاجائے تاکہ سننے والا بھی سمجھ سکے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے بارے میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کاایک ایک حرف واضح ہوتاتھا۔

سید مودودیؒ تلاوت کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’تیزتیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کاذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے ۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کاحکم ہے یا کسی چیز سے منع کیاگیاہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیاہے اور  کس چیز سے منع کیا گیاہے ۔ غرض یہ کہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے ‘‘۔ (تفہیم القرآن ، جلد ششم ، ص۱۲۶-۱۲۷)

قرآن کریم کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک حرف کے بدلے میں دس دس نیکیوں کا وعدہ کیاگیاہے ۔ سنن ترمذی کی روایت میں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’جو شخص کتاب اللہ کے ایک حرف کی تلاوت کرے اسے ہرحرف کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ ہر نیکی دس نیکیو ں کے برابر ہوگی ۔ میں الٓم کو ایک حرف نہیں کہتا بلکہ الف الگ حرف ہے لام الگ اور میم الگ حرف ہے ‘‘۔ (ترمذی)

احادیث مطہرۃ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کامعمول بیان کیاگیاہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ سے بھی قرآن کی تلاوت سنتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درست تلفظ اور خوش الحانی کے ساتھ ٹھیر ٹھیر کر تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ لہٰذا ہرمسلمان اور بالخصوص تحریک اسلامی کے کارکنان کو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنانا چاہیے۔ قرآن کریم کی تلاوت باعث اجر و ثواب بھی ہے اور روح کی غذا بھی ۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن کی تلاوت ترتیل و تجوید کے ساتھ کی جائے۔ اگر اس میں کوئی کمی اور کوتاہی ہو تو سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ عمر کے کسی بھی حصے میں طلب علم کوئی معیوب بات نہیں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوںنے جواب ارشاد فرمایاکہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت شد و مد کے ساتھ ہوتی تھی۔ پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھ کر سنایا اور اللہ اور الرحمن اور الرحیم سب کو مد کے ساتھ پڑھا۔(بخاری)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاں صحیح تلفظ اور درست ادایگی کے ساتھ تلاوت کرنا  منقول ہے وہیں کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے تصحیح کی تلقین بھی فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا ۔ اس نے تلاوت میں کسی جگہ غلطی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کی رہنمائی کرو۔ (مستدرک حاکم)

قرآن کریم کی درست تلاوت کے لیے تجویدکے ضروری قواعد سے آگاہی از حد ضروری ہے تاکہ کہیں حروف کی تبدیلی کی وجہ سے معانی و مفاہیم کی تبدیلی واقع نہ ہوجائے ۔ اسی طرح معنی و مفہوم کی تبدیلی کبھی بے جا وقف کرنے یا بلاضرورت ملا کر پڑھنے کے نتیجے میں بھی واقع ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سورۂ مزمل کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’لغت کی رُو سے ترتیل کے معنی ہیں واضح اور صاف پڑھنا اور شریعت میں ان چیزوں کی رعایت رکھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۱- ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیاجائے تاکہ حرف کی آواز دوسرے سے بالکل جدا ر ہے۔ اور ’طا ‘کی جگہ ’تا‘ اور ’ضا‘کی جگہ ’ظا‘ادا نہ ہو ۔ ۲- وقوف (تلاوتِ قرآن کے دوران رُک جانے اور ٹھیرنے)کی رعایت تاکہ وصل وقطع (حروف ایک دوسرے سے ملانے اور نہ ملانے کا عمل)بے موقع ہو کر کلام کے مطلب میں تبدیلی کا باعث نہ ہو۔۳- آواز کا ذرا بلند کرنا تاکہ قرآن کے الفاظ زبان سے کان تک اوروہاں سے دل تک پہنچ کر دل میں شوق اور خوف کی کیفیت پیدا کریں۔ اس لیے کہ تلاوت سے غرض یہی ہے۔۴- اپنی آواز کو عمدہ بنانا تاکہ اس میں درد مندی پائی جائے اور دل پر  جلدی اثر کرے ۔ ۵- تشدید و مد کا ان کے موقعوں پر پورا لحاظ رکھنا کیونکہ ان دونوں سے کلامِ الٰہی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔۶-دوزخ کے اور عذاب کے خوف کی اور جنت اور اس کی نعمتوں کے شوق کی آیتیں پڑھے یا سنے تو وہاں ذرا ٹھیرے اور دوزخ سے پناہ مانگے اور جنت کا سوال کرے، اور جن آیتوں میں دعا کا یا ذکر کا حکم ہو تو کم ازکم ایک مرتبہ اس ذکر اور دعا کو زبان سے پڑھ لے، جیسے رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا، اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما،آمین‘‘۔ گویا قرآن صحیح پڑھنے کے لیے مقررہ اصولوں کے مطابق قرآن کی قرأت غو راور توجہ سے سنے اور اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے کی کوشش کرے۔

الغرض قرآن کریم کی درست تلاوت نہ صرف باعث اجر و ثواب ہے بلکہ ہر مسلمان پر یہ فرض بھی عائد ہوتاہے کہ وہ قرآن کی درست تلاوت کے اصول سیکھے، اور ان اصولوں کے مطابق  قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائے۔

 

نماز سب سے افضل عبادت ہے۔یہ بدنی عبادت ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی بازپرس ہوگی۔ نمازی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضوراس کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کررہا ہے۔ عبادات میں سے  نماز کی تاکید قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کے فوائدو ثمرات بھی دنیا وآخرت میں بہت زیادہ ہیں۔یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پرکافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت سے متعلق فوائدپرسیر حاصل بحث نہیں کی۔اس مضمون میںنماز کے صحت سے متعلق فوائد وبرکات پر مختصرا عرض کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی علوم و معارف میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، اسلامی عبادات کے اسرار، حکمتیں اور فوائد بھی اتنے ہی زیادہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔

  • امراضِ قلب سے حفاظت: نماز کے یوں تومتعدد صحت بخش فوائد ہیں مگر اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کوامراضِ قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔انسانی دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے،یہ اس کا زندگی بھر کا معمول ہے۔تاہم جب نمازی نماز کے دوران رکوع وسجود کرتا ہے تو اس سے دل کو سہولت وآرام ملتا ہے۔ اس کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔اس سے پہلے کہ ہم ان صحت بخش فوائد کا تجزیہ کریں،جو نمازکی بدولت انسان کے دل اور اس کے بدنی اعضا کو حاصل ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم دل کی کارکردگی اور اس کی اہم سرگرمیوں کو جانیں۔ اس میں کیا  شک ہے کہ دل جسم انسانی کااہم ترین عضو ہے۔دل تو اس وقت بھی کام کر رہا ہوتا ہے جب انسان ابھی جنین کی صورت میں اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔اس وقت سے لے کرانسان کی زندگی کے آخری لمحات تک دل مسلسل جسم کی تمام اطراف وجوانب میں خون پہنچانے میں مشغول رہتا ہے۔

سینے کی سطح سے بلندجتنے اعضا ہیں، مثلاً سر،ان تک خون پہنچانادل کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ان تک خون کودھکیلنے کے لیے اسے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ تاہم، جب انسان رکوع اورسجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو دل کے لیے دماغ، آنکھ، ناک، کان اور زبان وغیرہ تک خون پہنچانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ ان اعضا کا تعلق سر سے ہے اور سر سجدے میںدل سے پست وزیریں سطح پر ہوتا ہے۔اس حالت میں دل کی سخت مشقت میں کمی اور اس کے کام میں تخفیف ہو جاتی ہے۔دل کو یہ آرام و راحت صرف سجدے کی حالت میں نصیب ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب ہم کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھتے ہیں یا جب ہم تکیے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیںتو سر دل سے اونچائی کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا ان صورتوں میںدل کو مکمل آرام نہیں ملتا۔ لیکن سجدے کی حالت میں دل کا کام آسان ہو جاتا ہے،جیسے گاڑی نشیب کی طرف چلنے میں آرام میں رہتی ہے۔

اس پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے کہ دل کو سجدے کی حالت میںاپنی کارکردگی میںجوآسانی اور سہولت ملتی ہے،اس سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔دل کا دورہ پڑنا اس دور کی عام پھیلی بیماریوں میںسے سب سے خطرناک ہے۔یاد رہے کہ دل جب اپنی مسلسل محنت سے تھک جاتا ہے تو انسان کوسستی،کمزوری،اضمحلال،سردرد،سرچکرانا،سینے میں درد،بے ہوشی اور خرابی طبیعت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔جدید طب میںان تمام علامات کا علاج یہ ہے کہ دوائوں کے ذریعے دل کو سرگرم ومستعد کر دیا جائے۔دوائوں کے ذریعے دل کو یوں مصنوعی طور پر سرگرم ومستعدکرنے کے نتیجے میںکبھی کبھی دل تباہ ہی ہو جاتا ہے،اور اس کی مکمل بربادی سے پہلے اس کی طبیعی کارکردگی بتدریج  کم زور پڑنے لگتی ہے،مگر رات اور دن میں کئی باررکوع و سجود کرنے والے کا دل بہت سے اوقات میں راحت وآرام پالیتا ہے۔نمازی کے دل کو ملنے والا یہ آرام، دل کے سخت مشقت کے عمل میں تخفیف ( relief)کاسبب بنتا ہے اور خطرات سے بچنے میں دل کی مدد کرتا ہے۔

  • دماغ کو تقویت:سجدہ کرنے کے فوائدمحض دل تک محدود نہیں ہیںبلکہ سجدہ کرنے سے دماغ کو بھی مدد ملتی ہے تا کہ وہ اپنی کارکردگی کوپوری چستی ومستعدی کے ساتھ سرانجام     دے سکے۔ مزیدبرآں یہ کہ سجدہ کرنے سے انسان دماغ کی جریانِ خون( hemorrhage)سے بچ جاتا ہے۔ دماغ سے خون کا یہ بہنادماغ کی داخلی رگوں کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہوتا ہے بلند فشارِخون(ہائی بلڈ پریشر)کا، یاشوگر کی بیماری کا، یا خون میں کولسٹرو ل کی مقدار زیادہ ہونے کا، یا ان دیگر اسباب کا جو جدید طرزِزندگی کے تلخ ثمرات ہیں۔حتی کہ یہ مرض انسانیت کے لیے  انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔

کئی بارسجدہ کرنے والے نمازی کے دماغ کوایسی قوتِ مدافعت مل جاتی ہے کہ وہ دماغ کے جریانِ خون سے محفوظ ہو جاتا ہے۔وہ اس لیے کہ سجدے کی حالت میںسر تک خون زیادہ اور خوب پہنچتا ہے کیونکہ سردل سے نچلی حالت میں ہوتا ہے۔پھر نمازی کے دماغ کی شریان کو بار بار یہ موقع ملتا ہے کہ خون کی ایک بڑی مقدارسجدے کی حالت میں سر تک پہنچتی رہتی ہے۔یوں دماغ کی شریان کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ فشارِخون کے وقت وہ ہمہ گیرتباہی مچانے والے خون کے گزرنے کوبرداشت کر لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا عمل ہے جیسے مسلسل ورزش،مشقت،ریاضت اور کسرت کرنے سے انسان کے پٹھوں کوقوت وطاقت ملتی ہے۔

نماز کے دوران ایسی جسمانی ورزش ہوتی ہے جو تمام لوگوں کے لیے موزوں ہے۔ نماز کے سجدے اور رکوع بدن کے قدرتی وظائف اور ان کی طبیعی کارکردگی میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ نماز کی تمام حرکات___ رکوع، سجود، جلسہ،قیا م___انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔نماز میں زندگی کے کسی بھی طبقے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے صحت کا کوئی خطرہ یا نقصان نہیں،بلکہ سراسرفوائد ومنافع ہی ہیں۔

  •  اوقاتِ نماز میں حکمت:پانچوں نمازوں کے اوقات مقرر کرنے میں بھی حکمت ہے۔ انسان جب صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ راحت و نشاط محسوس کرتا ہے،چنانچہ   اس وقت میں اللہ تعالیٰ نے صرف دو رکعات نماز فرض کیں۔اس کے سات یا آٹھ گھنٹے بعدتک انسان اپنے کام کاج میں مصروف رہتا ہے،لہٰذا اللہ نے اس طویل دورانیے میںکوئی نماز فرض نہیں کی۔ ظہر کے وقت انسان اپنے کام کی وجہ سے تکان محسوس کرنے لگتا ہے،اس وقت کے لیے اللہ نے چار فرض مقرر فرمائے ہیں۔سنن و نوافل اس سے الگ ہیں۔نمازِظہر ادا کرنے کے تقریباًتین چار گھنٹے بعدنمازِ عصر کا وقت ہو جاتا ہے،جب کہ عصر کے تقریبا دو گھنٹوں بعدمغرب کی تین رکعات ادا کرنا فرض فرمائیں، اور مغرب کے تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے بعدعشاء کی چار رکعات فرض ہیں۔

ان اوقات کوگہری نظرسے دیکھنے پر ہم پر یہ بات واشگاف ہوگی کہ ان پانچ اوقات میںوقفوں کے تھوڑا یا زیادہ ہونے کا تعلق انسان کی تھکاوٹ اور چستی سے ہے۔دن کے آغاز میں جب جسمِ انسانی تازہ دم اور آرام میں ہوتا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کم ہوتی ہے۔دن کے اختتام پرجب انسان تھکاوٹ، اُکتاہٹ اوربے چینی زیادہ محسوس کرتا ہے تو اللہ نے اس پرتھوڑے تھوڑے وقفوںسے زیادہ رکعات والی نمازیں فرض کی ہیں۔اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیںکہ نماز     جسمِ انسانی کوچست اور تازہ دم رکھتی ہے،جیسے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے باز رکھتی ہے۔

  • نماز سے گردوں کی کار کردگی میں مدد:طبی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کھڑے ہونے یاورزش کرنے کی حالت میں،جسمِ انسانی میںگردوں کی طرف خون کا بہائو کم ہوجاتا ہے،جب کہ سجدے یا لیٹنے کی حالت میںخون کا بہائو بڑھ جاتا ہے۔ان تجربات کی روشنی میںسائنس دانوں نے یہ حقیقت دریافت کی ہے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی صورتوں میںگردوںکی طرف خون کا بہائوکم ہو جاتا ہے،جب کہ رکوع و سجود کی حالتوں میں یہ بہائو بڑھ جاتا ہے۔سارا دن کھڑے رہنے والوںپر کیے گئے مطالعے سے یہ واضح ہواہے کہ ان لوگوں میںگردوں کی طرف خون کے بہائو کی مقدارکم ہوتی ہے۔نیز کھڑے رہناان میں پیشاب کی مقدار کوکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔سجدہ کرتے اور لیٹتے وقت خون کے اس بہائو کی مقدار میںاضافہ ہو جاتا ہے۔جب گردے کی طرف خون کی رو میںتیزی ہوتی ہے تو گردوں کے پردوں پردبائوپیدا ہوتا ہے اور ان میں خون کی صفائی کاعمل بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیشاب کی مقداربھی بڑھ جاتی ہے۔سجدے کی حالت میں پیشاب کی مقدار کے بڑھنے کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ گردوں کی جانب خون کے بہائومیں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رکوع،سجود اور لیٹنے کی حالتوں میں پیشاب بننے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہم نماز اداکرنے سے پہلے پیشاب نہ کریں تو دورانِ نماز کوفت ہوتی ہے۔یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا موزوں ہوگاکہ رسولِ اکرمؐ نے پیشاب پاخانہ روک کرنماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ نماز اداکرنے سے پیشاب بننے کے عمل میں تیزی پیدا ہوتی ہے،جس سے دورانِ نمازاس طرف دھیان زیادہ ہوتا ہے،حتی کہ نمازی کا خیال نماز سے بالکل ہٹ جاتا ہے۔
  •  نمازسے شوگر کے مرض میں کمی:جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ لیٹنے اور جسم کو ڈھیلا چھوڑنے سے صحت کی ان خرابیوں میںکمی ہوتی ہے جن کا شوگر کے مریضوں کو سامنا ہوتا ہے۔اس لیے کہ شوگر کے مریض جب طویل مدت تک کھڑے رہتے ہیںتو پیشاب کے ذریعے ان کے جسموں سے البومین(albumin)کی خاصی مقدارمزید کم ہو جاتی ہے۔انھیں تھکاوٹ اورکمزوری ہو جاتی ہے۔اس میں شک نہیںکہ لیٹنے کا یہی فائدہ شوگر کے مریضوں کونماز میں رکوع وسجود سے مل جاتا ہے۔ایک طبی تجربے کے بعدشوگر کے مریضوں نے اپنی جسمانی تکالیف میں، اس وقت راحت اور کمی پائی،جب انھیں بہت تھوڑی مدت کے لیے لیٹنے کا موقع دیا گیا۔    وہ بیمار جنھیں کام کے دوران لیٹنے کا موقع کم ملتا ہے، اگر وہ اس دوران نمازیں ادا کر لیں تو نماز اور سجدوں کی برکت سے وہ لیٹنے سے بھی زیادہ استراحت کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں کو زیادہ دیر تک کھڑے رہنا،بیٹھنا اور سخت مشقت کرنا مناسب نہیں۔ ہاں، وہ کچھ ہلکی ورزشیں اور کام کر سکتے ہیں۔ان ہلکی ورزشوں میں سے نمایاں ترین نماز ہے،کیونکہ نماز سے کسی نفس پر اس کی استطاعت وگنجایش کے مطابق ہی ذمہ داری پڑتی ہے۔نماز کے اجزا میں سے اہم ترین سجود ہیں۔یہ ایک ایسی آسان ورزش ہے جو دل کو کافی آرام پہنچاتی ہے۔اس سے تمام اعضا تک آسانی سے خون پہنچتا ہے بلکہ سجدہ کرنا تو لیٹنے سے بھی زیادہ مفید ہے۔کیونکہ اس سے شوگر کے مرض کی علامات اور شکایات میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے۔بالفاظِ دیگر نماز جسمانی ورزش کی تمام اقسام سے افضل ہے۔نیز نماز دل کو راحت پہنچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

  •  نماز اور خواتین:جدید تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ نماز جیسی بدنی حرکات اور ورزش حاملہ خواتین کو بہت زیادہ فائدہ دیتی ہیں، جب کہ ایامِ ماہواری میں سے گزرنے والی خواتین کوبہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔نمازگزار جب رکوع و سجود سے کھڑی ہوتی ہے تو رحم کی جانب خون کے بہائو میں اضافہ ہوتا ہے۔بلاشبہہ حاملہ خاتون کے رحم کو وافر خون کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ جنین کو خوب غذا مل سکے اور جنین کے خون کی آلودگیوں سے صفائی ہو سکے۔حائضہ اگر نماز ادا کرے تواس کے رحم کی طرف زیادہ خون جاتا ہے اور یہ ایک بے فائدہ کام ہوگا۔ اگر بالفرض حائضہ نماز پڑھے تو یہ نماز ادا کرنا اس کے بدن کے دفاعی نظام کے خراب ہونے کا سبب بنتا ہے، کیونکہ خون کے سفید ذرات ضائع ہو جاتے ہیں، جو بدن کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

طبی نقطۂ نظر سے حائضہ خواتین کو ورزش اورپرمشقت کام کرنا مناسب نہیں۔دینی لحاظ سے ان پرنما ز ادا کرنا حرام ہے کیونکہ جسم کی حرکت سے___ بالخصوص رکوع و سجود میں___ خون رحم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور یوں وہ بے مقصد ضائع ہوجاتاہے اورجسم سے معدنی نمکیات ضائع ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایام کی حالت میں آرام کریں اور بہتر غذا استعمال کریں تاکہ ان کے جسم سے خون ضائع نہ ہو اور خون کی کمی سے قیمتی نمکیات رائیگاں نہ ہوجائیں۔دینِ اسلام نے اسی حکمت کے تحت حائضہ خواتین کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ان ایام کے آغاز سے پہلے خواتین کو تھکاوٹ،پشت اور ٹانگوں میں درد، قبض کی شکایت، اسہال،   سردرد اور پیشاب میں اضافہ وغیرہ کی تکالیف ہوتی ہیں۔اس بات کا بھی احتمال ہوتا ہے کہ خاتون کوماہانہ معذوری سے پہلے غصہ، جھنجھلاہٹ، مایوسی، بے چینی اور طرزِعمل میں فرق کاسامنا کرنا پڑے، حتیٰ کہ اس مدت میں میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔نماز کے فوائد ناقابلِ شمار ہیں،اگرنفسیاتی اضطرابات میںمبتلا لوگ نماز اداکریں تو وہ ان سے نجات پاسکتے ہیں۔

  • نماز سے پہیپہڑوں کے امراض سے تحفظ: سجدے کی حالت میں پھیپھڑے کے پہلے حصے کی طرف خون کی ایک بہت بڑی مقدار پہنچتی ہے۔ یاد رہے کہ اسے خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔سجدوں کی برکت سے اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف دھیان دیجیے کہ نماز کی ادایگی ان اوقات میں فرض کی گئی ہے جن میں انسان کام کاج میں مشغول ہوتا ہے نہ کہ لیٹنے اور نیند کے اوقات میں ۔معلوم ہوا کہ سجدے کرنا پھیپھڑوں کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ سجدوں اور رکوع کی حالت میں خون پھیپھڑوں کی تمام اطراف میں پہنچتا ہے اور نقصان دہ کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے بجاے آکسیجن لے کر پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے۔بلاشبہہ نماز جسم کو چستی ، چوکسی اور تازگی فراہم کرتی ہے ۔سجدے سے پھیپھڑو ں کے خون کی صفائی میں مدد ملتی ہے۔ پھیپھڑوں کی طرف رواں خون کی بہتات کے راستے میں آسانی ہو جاتی ہے۔میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ پھیپھڑوں میں کینسر کو اس وقت رونما ہونے کا موقع ملتا ہے جب اس کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی۔علاوہ ازیں پھیپھڑے کے خلیے میں آکسیجن کی کمی دیگر امراض کے ظہور کا سبب بنتی ہے، کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف پہنچنے والے خون میں کمی کی بنا پر قوت ِمدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔یہیں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے قیلولہ کس قدر ضروری ہے۔ جب پھیپھڑ ے کی طرف خون کے بہاؤ میں کمی ہوتی ہے تو پھیپھڑے کے پہلے حصے پر مرضِ سل(ٹی بی) حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف جانے والے جراثیم پھیپھڑے کے درمیانی حصے میں اکھٹے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر پھیپھڑے تک وافر مقدار میں خون پہنچنا ممکن ہو تو تمام خلیات سیراب ہوتے ہیں۔ یہ سیرابی ، ان خلیات کو قوتِ مدافعت بخشنے کا اہم سبب بنتی ہے۔ سجدے پھیپھڑوں کے خلیوں کو قوت ِمدافعت دیتے ہیں اور انھیں بیماریاں لگنے سے محفوظ بنا دیتے ہیں۔
  • ھارمونزکی مستعدی میں نماز کے اثرات: جاپان کی ہیروساکی یونی ورسٹی کے میڈیکل کالج کے ایک سائنس دان تکاہاشینوبیوشی نے پیشاب کے بارے میں اپنے تحقیقاتی مطالعات کے بعد بتایا ہے کہ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی صورت میں جسم میں ضرررساں ہارمونز بننے میں اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ اس حالت میں نفع رساں ہار مونزکی پیدایش کم ہوجاتی ہے۔لیٹنے کی حالت میں مفید ہارمونز کی افزایش بڑھتی ہے اور نقصان دہ ہارمونز کی تعدادگھٹتی ہے۔ ان ہارمونزکی بناوٹ میں سجدے کی حالت بھی لیٹنے کی حالت سے ہی مشابہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سجدوں کی حالت کو اس حالت کی مانند ہی سمجھا جاتا ہے جو جسم کوصحت کے فوائد عطا کرتی ہے اور پھر اس پرزیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔سجدے قلب دماغ،گردوں،پھیپھڑوںاوردیگر تمام اعضا کوفائدہ پہنچاتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ بعض منفعت بخش ہارمونز کے بننے سے جسم کو کچھ فائدے ملتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان فجر کے وقت تازگی ونشاط محسوس کرتا ہے،کیونکہ اس کے جسم میں کورٹیسون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر شام کووہ جسم سے کورٹیسون کے جاتے رہنے سے تھکاوٹ، سُستی،اور اضمحلال محسوس کرتا ہے۔ کورٹیسون کی کمی سے انسان اپنی ہڈیوں میں بوجھ محسوس کرتا ہے، خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے والے وٹامن کی تحلیل میں گڑبڑہو جاتی ہے۔کھڑے ہونے کی حالت میں خون کی رگوں میں سکڑنے اور سمٹنے کی بناپر کورٹیسون ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ فشارِخون کی حفاظت ہو سکے۔ اگر یہ ہارمون حد سے زیادہ ہو جائے تو اس کا جسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔انسان گھبراہٹ،بے آرامی،بے چینی اور غیظ وغضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

  •  تھجد کی فضیلت اور دائیں کروٹ سونے کا فائدہ:طبی تحقیقات و مطالعات نے ثابت کر دیا ہے کہ سونے کی جتنی بھی شکلیں ہیں ان میں سے سب سے بہتر دائیں کروٹ سونا ہے۔نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر آئوتو اس طرح وضو کر لوجیسے تم نماز کے لیے وضو کرتے ہو،پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جائو۔ انسان جب دائیں جانب لیٹ کر سوتا ہے تو دل کا شمالی حصہ تقریباً چار سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔ دل سینے میں بالکل عمودی حالت میں واقع نہیں ہے،بلکہ وہ سینے کی نیچے جانب بائیں طرف کو جھکا ہوا ہے،جب کہ دل کی بلند جانب دائیں طرف ۱۰ درجے کی مقدارمیں ہے۔لہٰذا دائیں کروٹ سونا اس بات میں مدد کرتا ہے کہ بائیں حصے سے، یعنی دل کے اُونچے حصے سے خون جسم کی تمام اطراف میں شریان کبیر (aorta)کے ذریعے جاری رہے۔

دائیں طرف سونے کی حالت میں___ بائیں ہاتھ کے ماسوا___تمام اعضاے بدن یا تو دل کی سطح کے برابر ہوتے ہیں یا دل سے نیچے ہوتے ہیں،لہٰذا خون جسم کے زیادہ تر اجزا میں تیزی اور آسانی کے ساتھ___کشش ثقل کے قانون کی رُو سے___ جاری ہوتا ہے جس سے جسم کو بہت راحت وسکون ملتا ہے۔دل کو یہ راحت کھڑے ہونے،بیٹھنے یا چلنے کی حالتوں میں نہیں ملتی کیونکہ ان حالتوں میں دل اس پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ان اعضا تک خون پہنچائے جو ۹۰درجے کے زاویے کی مقدار میں اس سے اونچے ہوتے ہیں۔ جب ہم نیندسے بیدارہونے کے بعدنمازِتہجد ادا کرتے ہیں تو خون دائیں اور بائیں دونوں جانب برابر چلتا ہے۔سجدوں کی حالت میں دل کا عمل ہلکا ہو جاتا ہے،کیونکہ دل آسانی کے ساتھ خون کو سر تک پہنچاتا ہے، یوں دل کو آرام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔مزیدبرآں یہ کہ دماغ،پھیپھڑے اور دل سے مربوط رگیں اور سینے سے اُوپر تک واقع تمام اعضا،سجدے کی حالت میں دل کی سطح سے نیچے ہوتے ہیں، لہٰذا خون آسانی اور تیزی کے ساتھ ان اعضا تک پہنچتا ہے۔ یوں نمازِتہجد نماز گزار کی تندرستی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

نمازِ تہجد کے وقت ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔ تہجدگزار کو نماز کے کلمات و اذکار، خصوصاً قرآنِ مجید کی آیات میں تدبر، غوروفکر اور تامل کا موقع ملتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غوروفکر سے نفسیاتی دبائو کم ہوجاتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں پُرسکون ہوتی ہیں۔ غوروفکر سے شریانوں پر حملے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ رات کے تین بجے سے لے کر   صبح کے چھے بجے کے مابین جسمِ انسانی میں، خون میں کورٹیزون کے بلند ہونے سے، اس وقت  دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا میں اوزون کی موجودگی سے اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے۔ لہٰذا اس وقت اگر ہم نمازِ تہجد، نمازِ فجر اور تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول ہوجائیں تو ان اعمال کی برکت سے ہم اس دورانیے کے مضر اثرات اور ان سے جنم لینے والے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

  • نماز اور ذھنی صحت:مسلمان ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔ ان کا دین اسلام ہے  جس کے معنی ہی سلامتی ہیں۔مسلمان جب بھی کسی انسان سے ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہہ کر،  سلامتی ورحمت کا تحفہ دیتا ہے۔جدید تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ نماز تشدد،سختی اور جرائم سے باز رکھتی ہے۔مسلمان جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ تک وافر مقدار میں خون پہنچتا ہے۔چنانچہ مغز میں برپا ہونے والے برقی وکیمیاوی عمل میں سجدے سے مدد ملتی ہے۔ اس سے نمازی کو بردباری اور  سمجھ ملتی ہے،جب کہ سجدہ نہ کرنے والوں کے دماغ اس تروتازگی اور تراوٹ سے خالی اور محروم رہتے ہیں۔ ان کے دل نرمی سے دُور رہتے ہیں۔نماز انسان کو نہ صرف سختی اورتشدد سے باز رکھتی ہے بلکہ بے حیائی اوربرائی سے بھی روکتی ہے۔اگر ہم امتِ مسلمہ اور غیر مسلموں دونوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اوران میں جرائم کی شرح کا موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اُمت ِ مسلمہ میں مظالم و منکرات  کم ہیں، جیسے سودخوری، بدکاری،شراب نوشی،منشیات کا استعمال، استعماریت، لوٹ کھسوٹ اور جنسی بے راہ روی، ایڈز وغیرہ۔ یہ تمام مہلک امراض مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور   ان میںبھی وہی نام نہاد مسلمان مبتلا ہوتے ہیں جو اسلام سے قطعی دور اور غیر اسلامی طرزِزندگی کے قریب تر ہوتے ہیں۔اُمت ِمسلمہ تو اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے۔اس لیے مسلمانوں میںرافت،نرم دلی،رحمت،عدل اور احسان کی صفاتِ حسنہ پائی جاتی ہیں۔یہ نتیجہ ہے ایمان اور عبادات کی ادایگی کا۔ سختی، تشدد، خیانت اور دھوکا یہ سب شرک و کفر کے کڑوے پھل ہیں۔ یہ انھی دلوں میں اُگتے ہیں جن پر اللہ نے ان کے کفر وتکبر کی وجہ سے لعنت کی ہے۔

 

عصرِحاضر میں جہاں انسان نے اپنی قابلیت واستعداد کے جو ہر متعدد شعبہ ہاے زندگی میں دکھلائے ہیں، ان میں ذرائع وسائل یا ذرائع ابلاغ ایک اہم موضوع ہے جو اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کا موضوع بحث ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ یہ وہ اہم شعبہ ہے جس میں انسان اپنی جودتِ طبع اور کمال و استعداد کا ناطق ثبوت پیش کررہاہے۔ ذرائع وسائل کا استعمال خواہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، تعمیروتخریب دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سعادت مند ہے وہ فرد یا قوم جو وسائل کا استعمال ذاتی اور اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے کرتی ہے، جب کہ ان وسائل کا منفی مقاصد کے لیے استعمال ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہے۔

اصطلاح میں اس لفظ کی تعبیر ذرائع ابلاغ و ترسیل یا وسائل نشرواشاعت سے ہوتی ہے۔ اس وقت بالعموم دو قسم کے ذرائع ابلاغ معروف ہیں۔ ایک کو طباعتی ذرائع ابلاغ (Print Media) سے جانا جاتا ہے، جب کہ دوسرے کو برقیاتی ذرائع ابلاغ (Electronic Media) کہا جاتا ہے۔ دوسرے ذرائع ابلاغ کو قومی سطح سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسے قومی ذرائع ابلاغ (National Media) کا نام دیا جاتا ہے۔ تیسری قسم مخصوص خطۂ ارض یا جغرافیائی حدود سے پرے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی ہے جسے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ (International Media) کہا جاتا ہے اور انھیں اہم مسائل کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی یہ تینوں قسمیں جو علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جاتی ہیں بلاشک و تردد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے ان کا استعمال ہوتا ہے۔ میڈیا پر جس طبقے کا غلبہ ہوتا ہے یا جو برسرِاقتدار حکومت ہوتی ہے، وہ بہرحال تعصب و جانب داری کی دلدل سے نہیں نکل پاتی اور پھر اس کے مثبت اثرات و نتائج مجروح ہونے سے بچ نہیں پاتے۔ میڈیا کی اہمیت اور میڈیا پر تسلط و غلبہ پانے والی تنظیموں، جماعتوں اور حکومت کے منفی کردار سے متعلق مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا یہ اقتباس قابلِ ملاحظہ ہے:

دنیا کی سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی تنظیمات، سب کا حال یہی ہے۔ یورپ، امریکا اور روس کی حکومتوں کو دیکھیے، اسی کے ساتھ مشرقی حکومتوں کو بھی دیکھیے کہ وہ فاسق الخیال، فاسدالمقاصد، جن کے مقاصد تخریبی، جن کی زندگی فاسد، جن کے اخلاق خراب، جن کے افکاروخیالات فاسد، ان سبھوں نے ایک اجتماعی نظام بنایا ہے اور وہ اجتماعی نظام قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ کر رہا ہے۔ اس وقت صورت یہ ہے کہ اس گروہ کا جادو چل رہا ہے جس کے ہاتھ میں ابلاغ کے ذرائع ہیں۔(مقدمہ: مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، نذرالحفیظ ندوی)

  • میڈیا کا منفی کردار:انسانوں کے درمیان انتشار پیدا کرنا، عوام و خواص کو بغاوت اور نافرمانی پر اُبھارنا، عوام و خواص میں راہنمایانِ قوم کے متعلق شکوک و شبہات کو فروغ دینا،  مستحکم قیادت سے محروم کرنے کی کوشش کرنا، فرقہ واریت کے جذبات کو شہہ دینا، واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنا اور ان کو خلافِ شان حرکتوں پر مجبور کرنا، دوسروں کے محاسن کو بالاے طاق رکھنا اور ان پر دبیز پردے ڈالنے کی کوشش کرنا، نااہل اور نالائق افراد اور جماعتوں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دینا، معمولی خامیوں اور کمزوریوں کو نمایاں کر کے پیش کرنا، اصل اور مطلوب اُمور و مسائل کے بجاے جزئیات اور غیرضروری اُمور پر توجہ مرکوز کرانا___ یہ سب میڈیا کے منفی کردار کے ثبوت و مظاہر ہیں جو آئے دن عینی مشاہدات میں آتے رہتے ہیں۔ حقائق کا نظروں سے اوجھل ہوجانا، اخلاقی قدروں کی پامالی، فتنہ و فساد کا دور دورہ اور انسانیت دشمنی کے کریہہ اور المناک حوادث و واقعات کی ذمہ داری بھی تعصب و جانب داری پر مبنی میڈیا کے سر آتی ہے۔

طباعتی میڈیا میں چاہے کتابیں ہوں یا جرائد و رسائل یا اشتہارات، اور برقیاتی میڈیا میں خواہ کمپیوٹر ہو، ٹیلی ویژن ہو، ریڈیو ہو، یا ان دونوں کے علاوہ معاشرے میں ایسے بدکردار اور  فساق و فجارلوگوں کی موجودگی ہو جو بُرائیوں کے لیے نرم گوشہ ہی نہیں رکھتے ہوں بلکہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے شرانگیزیوں اور بدکاریوں کی سرپرستی کرتے ہوں، میڈیا کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس میں فحاشی و عریانیت کے انفرادی اور اجتماعی کاروبار کا طریقہ اختیار کرنے والے بھی آتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس میں شامل ہیں جن کی فطرتِ ثانیہ ہی فتنہ پروری اور بدکاری بن چکی ہو اور وہ عملی طور پر بُرائی کو ایک دوسرے تک اور پھر پورے معاشرے تک عام کرتے ہیں۔

  • میڈیا کا منفی کردار اور معاشرتی انتشار:ذرائع ابلاغ کے یہ تمام طریقے انتہائی مذموم ہیں۔ ایک طرف فحاشی و عریانیت، انسانی قدروں کی پامالی اور اخلاق سوز حرکتیں، انسانی معاشرے میں ان مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے جاری و ساری ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف امن و چین سے معاشرہ محروم ہوجاتا ہے۔ عزت و آبرو دائو پر لگ جاتے ہیں اور ان کی سرگرمیِ عمل کے نتیجے میں بہت سے افراد اور جماعتیں بھی ان بُرائیوں کی نقیب بن کر میدانِ عمل میں آجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کا عطاکردہ ضابطۂ زندگی قرآنِ مجید ایسے عمل کو انتہائی سنگین جرم قرار دیتا ہے اور رسولِ عربیؐ پر نازل شدہ یہ کتاب جو سراپا ہدایت و رحمت ہے دنیا کی عدالتوں کو بھی مکلف بناتی ہے کہ انھیں ان کے جرائم کے مطابق کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور عبرت ناک سزائیں دی جائیں، تاکہ یہ آیندہ ایسے اقدامات کی جرأت سے اجتناب کریں اور معاشرے میں موجود بعض اس قسم کے عناصر کے لیے بھی یہ عبرت کا باعث ہوں۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ایسے مجرموں، بدکرداروں اور اخلاق و انسانیت کے دشمنوں کے لیے اس زندگی کے بعد کی زندگی میں ابدی عذاب کی یقین دہانی بھی کراتا ہے۔ قرآنِ مجید میڈیا کے اس منفی کردار کو شنیع جرم قرار دیتا ہے۔ جرم کی شدت و سنگینی کا اندازہ قرآنِ مجید کی اس جامع تعلیم سے کماحقہ ہوتاہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط  وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَo(النور۲۴:۱۹) یقینا جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

اگرچہ یہ آیت کریمہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی شخصیت پر بہتان تراشی کرنے اور افواہوں کا بازار گرم کرنے والے منافقین اور کمزور ایمان والے حضرات سے متعلق ہے، لیکن قرآنِ مجید  کی عظمت کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اس کی تعلیمات مخصوص دور سے تعلق نہیں رکھتیں اور نہ افراد اور جماعتوں کے کردار محض ہدفِ تنقید بنانے اور مخاطبین کے لیے تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں، بلکہ ہرہرآیت پوری آب و تاب کے ساتھ آج کے افراد و معاشرے کے لیے بھی روح پرور پیغام ثابت ہوتی ہے۔ افراد و اشخاص یا اقوام و ملل کی بابت حقائق کے بیان میں قیمتی اسباق مطمح نظر ہوتے ہیں، اور اس کا یہی فیض بے کم و کاست تاقیاقت برقراررہے گا۔ اس آیت کریمہ کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کی وضاحت جامع اور فکرانگیز ہے:

موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہِ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انھیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بداخلاقی پھیلانے اور اُمت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں، لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اُکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت ِ فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سدّباب کرے۔ اس کے قانونِ تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزمِ سزا ، قابلِ دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔(تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۰-۳۷۱)

ظاہر ہے کہ یہ اسلامی قانون ہے اور اسلامی قانون کا نفاذ معیارِ مطلوب کی حد تک اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسلامی حکومت قائم ہو۔ لیکن آج دنیا کا ہرباضمیر، حسّاس اور باشعور شخص اپنی عزت و آبرو محفوظ رکھنا چاہتا ہے تو آخر دوسروں کے حق میں اس فکر کو جِلا کیوں کر نہیں ملتی۔ یقینا آج ہتک عزت کا قانون جمہوری حکومتوں میں رائج ہے اور اس کے مطابق کم و بیش فیصلے بھی ہوتے ہیں اور بسااوقات عدلیہ کی طرف سے راحتیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ جو بسااوقات حقائق و معارف کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، انسانوں کی عزت کو دائو پر لگادیتے ہیں، فتنہ و فساد کو فروغ دیتے ہیں، یہاں تک کہ قتل و خون ریزی تک نوبت آجاتی ہے اور ملک و قوم کی امن و آشتی مخدوش و پُرخطر   بن جاتی ہے، آخر ان کے اس حد تک بے لگام ہونے کے کیا معنی ہیں؟ کیوں نہیں ان کے لیے حدود متعین کی جاتیں اور ایک حدتک انھیں پابند کیوں نہیں کیاجاتا؟ اگر ایسا ہو تو ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے والے افراد و اشخاص بہت حد تک محتاط و ہوشیار رہیں گے۔ انھیں افراد اور جماعتوں کی عزت و آبرو کا بھی خیال ہوگا اور ملک و قوم کی سلامتی کے لیے بھی فکرمند ہوں گے۔ کم از کم   اس قسم کی کارروائی کے ذریعے افواہوں کو ہوا دے کر معاشرے کا ماحول مکدر کرنے سے یقینی طور پر ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران گریزاں ہوں گے اور بالآخر بڑی حد تک میڈیا میں شفافیت آئے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع اطلاعات و نشریات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ ہی اس سلسلے میں تعزیرات کے نفاذ کے ذریعے مؤثر اور قابلِ ستایش رول ادا کرسکتی ہے، کیوں کہ ذرائع وسائل نشریات بالعموم حکومت وقت کے اشارۂ ابرو پر سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔

  • اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب:آج قومی اور بین الاقوامی میڈیا کا مرکز توجہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا پر اپنا تسلط جمانے والے اصحابِ حل و عقد آج اس مشن میں محو و مستغرق ہیں کہ صحیح اسلام کو دنیا سے نیست و نابود کردیا جائے، اور ایسے اسلام کو باقی رکھا جائے جو دنیا میں بے حس و حرکت اور معذور و مجبور بن کر رہے۔ جن کے نام لیوا زندہ تو رہیں لیکن انسداد شروفتنہ، قیامِ امن، خدا کے گھر میں خدا کے قانون کے نفاذ اور صرف اور صرف ایک خدا کی خدائی کے علَم بردار بن کر وہ دوسرے مذاہب و اقوام کے علی الرغم اپنی سمت ِسفر متعین نہ کریں۔

انسانیت نوازی اور بشر دوستی کی جو تعلیمات قرآن و سنت سے مترشح ہوتی ہیں، دنیا کا کوئی مذہب ان کے عشرعشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ تمام مخلوقات ارضی و سماوی میں انسان کو اشرف بنائے جانے کا اعلان ہو(التین ۹۵:۴)، یا پوری انسانی برادری کے مکرم اور معزز ہونے کا اعلامیہ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)،کائنات کی تمام اشیا کا انسان کے لیے پیدا کیے جانے اور اس کے لیے مسخر کرنے کا فرمان ہو(النحل ۱۶:۱۲، لقمان ۳۸:۲۰، الجاثیہ ۴۵:۱۳)،آدم ؑ و حوا ؑ کی تمام اولاد کو یا دنیا کے ہرخطہ، رنگ اور نسل کے انسانوں کو عالم گیر اور آفاقی رشتے میں پرو کر ایک ماں باپ کی اولاد قرار دینے کی تلقین ہو (النساء۴:۱، الحجرات ۴۹:۱۳)،  یا پھر ایک انسان کے قتلِ ناحق کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف اور ایک انسان کی زندگی کو سارے انسانوں کی زندگی بچانے کے برابر قرار دینے کی تعلیم و ہدایت ہو(المائدہ ۵:۳۲)___ہرلحاظ سے اسلام انسانیت کا عظیم ترین نجات دہندہ ہے اور انسانوں کے مابین اخوت و محبت ، رحمت و رافت اور ہمدردی و بشردوستی کی تعلیمات کا سب سے بڑا علَم بردار ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ تمام بندگانِ خدا کے لیے بھیجے گئے ہدایت نامہ قرآنِ مجید کی بنیادی تعلیمات کو اگر ایک شخص تعصب کی عینک ہٹاکر دیکھے تو اس کے سامنے اس دعویٰ کی صداقت آشکار ہوجاتی ہے۔ توحید کی تعلیم دراصل ایک خدا کو ماننے اور اسی کا تابع فرمان ہوکر رہنے کی تعلیم ہے۔ یہ تعلیم ایک انسان کو تمام جھوٹے خدائوں سے متنفر کردیتی ہے اور اس کی گردن سے تمام باطل خدائوں کا قلادہ اُتار کر ایک خدا کی عبودیت کا تاج اس کے سر پر رکھتی ہے۔ خدائوں کے جھرمٹ میں رہتے ہوئے ایک شخص ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے اضطراب و بے چینی کا شکار ہوتا ہے، جب کہ ہزاروں خدائوں کے مقابلے میں ایک خدا کو خوش کرنا اس کے لیے آسان بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسالت کا عقیدہ انسان کو خدا کی مرضی کے حصول کے مستند ترین اور عملی طریقے کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسی طرح آخرت کی تعلیمات دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں انسان کو ذمہ دار اور جواب دہ بنادیتی ہیں۔

یہ بنیادی تعلیمات انسانی عظمت کی نمایندہ اور نقیب ہیں۔ ان درخشاں تعلیمات کے باوجود اگر اسلام کو انسانیت کا دشمن قرار دیا جائے اور اس دین و مذہب کو خونخواری سے منسوب کیا جائے تو اس سے بڑی بددیانتی اور بے حیائی کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آج بین الاقوامی سطح پر اسلام کی شبیہہ بگاڑنے کی سعیِ نامشکور کی جارہی ہے۔ اسلام کو انتہاپسندی، خونخواری اور دہشت گردی سے منسوب کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو امن و آشتی کا دشمن اور دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ میڈیاکے نزدیک جو جتنا صحیح العقیدہ اور پختہ مسلمان ہے وہ اتنا ہی بڑا دہشت گرد ہے اور جو مصالحت، مفاد پرستی اور ابن الوقتی کا ثبوت دے کر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بدلتا رہتا ہے وہ پسندیدہ اور محبوب ہے اور اسے سیکولر ہونے کا تمغا دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس اسلام سے امن و آشتی کے جھوٹے دعوے داروں اور اقتدار کے متوالوں کو خطرہ ہے وہ دراصل انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے، اور جس اسلام سے من مانی کرنے والوں، خودساختہ قوانین کو نافذ کرنے والوں اور اقتدار کے پجاریوں کو خطرہ نہیں ہے اور ان کے ذاتی، گروہی اور ملکی مفادات مجروح نہیں ہوتے، وہ اسلام انھیں محبوب ہے اور ایسے ہی مسلمان دراصل ان کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔

میڈیا کا کردار اور قرآنی تعلیمات

  •  تقویٰ اور خدا خوفی:نیکی و صالحیت کے لیے آمادہ کرنے والی مہتم بالشان چیز تقویٰ یا خوفِ خدا ہے۔ یہ خوفِ خدا زبردست ضابطے و حکمراں (controller) کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرے کی کوئی روایت، حکومت کا کوئی ضابطہ اور پولیس کا کوئی ڈنڈا آبادی میں، روشنی میں، چوراہوں اور شاہراہوں پر تو کام آتا ہے، لیکن آبادی سے دُور کسی صحرا اور کسی ویرانے میں ، بندکمرے میں، مخصوص چہاردیواری کے اندر یا رات کی مہیب و پُرخطر تاریکی میں صرف اور صرف تقویٰ کا قانون کام کرتا ہے۔ اگر انسان کے قلب و ضمیر پر اس خدائی قانون کی حکمرانی ہوجائے تو انسان راست رو، اعتدال پسند اور ہرمعاملۂ زندگی میں اپنے خالق حقیقی کی مرضی کا تابع بن جاتا ہے، اور افراد اور معاشرہ جو اس قانون کی عظمت کا علَم بردار بن جاتا ہے وہ اللہ کی نظر میں صحیح معنوں میں مکرم و معزز ہوجاتا ہے(الحجرات۴۹:۱۳)۔ اس قانونِ الٰہی سے متعلق ربانی ہدایات جابجا قرآنِ کریم میں موجود ہیں(ملاحظہ کیجیے: البقرہ ۲:۱۹۴، ۱۹۶، ۲۰۳، اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲، المائدہ ۵:۲،۴،۷، ۳۵، ۵۷، الانفال۸:۱، التوبہ۹:۱۱۹، الاحزاب ۳۳:۷۰، الحدید۵۷:۲۸)۔ یہ تقویٰ انسان کو اخلاقی قدروں کا پاسباں، محبت و بشر دوستی کا محافظ اور عدل و قسط کا پیامی بناکر گویا اس فانی زندگی میں بھی متاع بے بہا ثابت ہوتا ہے اور آخرت کی لازوال مسرتوں کے حصول میں اس قانونِ الٰہی کے لاثانی توشۂ راہ ہونے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہتا۔

سورئہ حشر میں خوفِ خدا کے اسی قانون کے اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے:

یٰٓـیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط  (الحشر۵۹:۱۸) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہرشخص کو اس بات کے لیے فکرمند ہونا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔

ایک جگہ تقویٰ کی فضیلت بایں طور بیان کی جاتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی نیک عمل اللہ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے ہم کنار نہیں ہوتا جب تک تقویٰ کے قانون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نہ کیا جائے۔ بڑی سے بڑی قربانی اور عظیم سے عظیم تر عمل قبولیت سے محروم رہتا ہے، دل کی دنیا پر اگر خوفِ خدا کی حکمرانی نہ ہو۔ فرمایا جاتا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط (الحج۲۲:۳۷) (جانوروں) کے گوشت اللہ تک ہرگز نہیں پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون ہی، مگر اس کی بارگاہ میں تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

دنیا کا ہر آدمی آخرت کا مسافر ہے (بخاری)۔ مسافر راستے کو منزل نہیں قرار دیتا بلکہ اس کی نگاہ منزل پر رہتی ہے۔ سفر بھی اچھی طرح گزر جائے اور منزل کی یافت بھی آسان تر ہوجائے، اس کے لیے تقویٰ ہی دراصل توشۂ راہ ہے۔ اور صحیح معنوں میں یہ تقویٰ اس فانی زندگی کی سعادتوں سے بھی ایک شخص کو مالامال کرتا ہے اور اس زندگی کے بعد کی ابدی زندگی کے لیے بھی  نوید مسرت ثابت ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کی اس سلسلے میں جامع تعلیم ہے:

وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲:۱۹۷) اور زادِ راہ ساتھ لے لو اور سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔

اس خوف و خشیت الٰہی کی بنیاد پر ایک فرد اور معاشرے کی زندگی میں جن اخلاقِ فاضلہ کی نشوونما ہوتی ہے، اس کی بناپر رب العالمین کی جانب سے اس کے معزز ہونے کا اعلان ہوتا ہے:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط (الحجرات۴۹:۱۳) درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ     خدا سے ڈرنے والا ہے۔

  •  راست بازی اور عدل و انصاف:صدق اور عدل، تقویٰ کے نمایاں ترین مظاہر میں سے ہیں۔ قرآنِ مجید میں کہیں سچائی کا طریقہ اختیار کرنے والوں کو متقین سے تعبیر کیا جاتا ہے (البقرہ ۲:۱۷۷)، تو کہیں عدل و انصاف کے طریقے کو تقویٰ سے قریب تر بتایا جاتا ہے (المائدہ ۵:۸)۔ صدق و عدل ذرائع ابلاغ کا حسین زیور ہیں۔ میڈیا اگر ان اوصاف سے عاری ہوجائے اور اس کے بجاے پروپیگنڈا، جھوٹ، فریب، ناانصافی، دھوکا اور تعصب کے دلدل میں پھنس جائے تو اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان عیوب و نقائص کے ساتھ عصرِحاضر میں بے پناہ قوت و اثر کا حامل میڈیا اپنے ہی ہاتھوں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتاہے اور عوام و خواص کی نگاہوں میں مشکوک و مشتبہ ہی نہیں بلکہ مذموم بن جاتا ہے۔ صحت مند اور کامیاب میڈیا کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت مہمیزکا کام کرتی ہے اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں کو فکروعمل کی دعوت دیتی ہے۔ ملاحظہ فرمایئے اللہ رب العزت کا ارشاد جس میں صدق و عدل کی دونوں خصوصیات اصلاحِ اعمال اور عفو تقصیرات کی ضمانت کے طور پر جلوہ گر ہیں:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاo یُّصْلِـحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط  وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الاحزاب۳۳:۷۰-۷۱) اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کیا کرو۔ اللہ تمھارے اعمال سنوار دے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمے کے مطابق سیدھی سچی اور پختہ بات کے عادی ہونے پر اصلاح اعمال کا جو وعدہ ہے وہ صرف آخرت کی زندگی کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ اس عارضی اور غیرمستقل زندگی کے نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ گویا دینی اور دنیوی دونوں قسم کے اعمال کی درستی کا وعدہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جو شخص قولِ سدید کا عادی ہوجائے، یعنی کبھی جھوٹ     نہ بولے، سوچ سمجھ کر کلام کرے، کسی کو فریب نہ دے، اس کے اعمال آخرت میں بھی درست ہوجائیں گے اور دنیا کے کام بھی بن جائیں گے۔ (مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، جلد۷، ص ۲۴۲)

  •  جواب دھی کا احساس اور فکرِ آخرت:کوئی فرد، معاشرہ، تنظیم اور حکومت جب ذمہ دار اور جواب دہ ہو تو اس سے حُسنِ عمل اور اچھی کارکردگی کی توقع ہوتی ہے۔ یوں بھی اس کی تعبیر کی جاتی ہے کہ جو شخص یا معاشرہ جتنا ذمہ دار اور جواب دہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کی جانب سے خیر کی توقع ہوتی ہے۔ وہ ہرقدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور خدمت انسانیت میں وہ پیش پیش ہوتا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی سے متعلق عقیدہ کم و بیش ہرمذہب میں پایا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ جتنا صاف اور شفاف اور واضح و مبرہن ہو، عملی زندگی میں اس کے مظاہر اسی کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات اس سلسلے میں یہ ہیں کہ یہ دنیا و مافیہا فانی ہے(الکہف ۱۸:۸، الرحمٰن ۵۵:۲۶)۔ یہاں کی صعوبتیں وقتی اور راحتیں زوال پذیرہیں۔ انسان پوری کائنات میں اشرف و اکرم ہے اور اس کی تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ وہ اس تغیر آشنا اور زوال پذیر زندگی میں آزمایا جائے(الکہف ۱۸:۷، الملک ۶۷:۲)۔ گویا دنیا کی اس زندگی کو امتحان گاہ کی حیثیت حاصل ہے جس کا نتیجہ اس چند روزہ زندگی کے بعد ملے گا، جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ من پسند عیش میں ہوگا اورجس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا(القارعۃ ۱۰۱:۶-۹)۔ نیکی و بدی ذرہ برابر بھی چھپ نہ سکے گی اور ہر ایک اس کے مطابق اجروثواب یا عتاب و عذاب پائے گا (الزلزال ۹۹:۷-۸)۔ جب میڈیا کے ذمہ داروں میں اس زندگی کے بعد کی زندگی کا یقین تازہ اور عقیدہ مستحکم ہوجائے تو وہ اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے حساس ہوں گے، بُرائیوں سے مجتنب ہوں گے اور اچھائیوں کے فروغ کی کوشش کے ذریعے خدمت انسانیت کا حق ادا کریں گے، کیوں کہ خداے بزرگ و برتر کے سامنے جواب دہی کا احساس کسی کو بھی اعمالِ صالحہ کی انجام دہی میں  متحرک و فعال بنائے رکھتا ہے۔ اگر وسائل ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اس جہت سے اپنے آپ کو تیار کرلیں اور اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی ابدی اور لازوال مسرتوں کے  طلب گار بن کر لائحہ عمل طے کریں تو یقینی طور پر خوش گوار تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی۔

موت کے بعد کی زندگی کا احساس اور خوفِ خدا، یہ بنیادی اوصاف ہیں جن کا حامل ایک فرد ذمہ دارانہ زندگی گزارتا ہے۔ اس دنیا کو وہ امتحان گاہ اور آخرت کی کھیتی سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے لیے کوشاں و سرگرمِ عمل رہتا ہے، تاکہ عالم نتیجہ گاہ میں اپنے آپ کو سرخ رُو اور سعادت مند بنائے۔ اسی طرح خوفِ خدا کی بنیاد پر اس کے اندر ان اخلاقِ حسنہ کو جِلاملتی ہے جن کی بناپر وہ بہت محتاط ہوجاتا ہے اور ہرشعبۂ عمل میں خدا کی مرضی کا علَم بردار بن کر اپنی مصروفیات و مشغولیات کا رُخ متعین کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسی بیش قیمت سرمایے کی بناپر خالقِ حقیقی کی طرف سے معزز اور مؤقر ہونے کی بناپر سند اعزاز بھی عطا کی جاتی ہے۔ یقینا یہ دونوں قرآنی تعلیمات میڈیا یا ذرائع ابلاغ کو انسانیت کے لیے بامقصد اور مفید مطلب بنانے میں سرگرم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان خصوصیات کو توشۂ راہ بناکر میڈیا اگر رخت ِ سفر باندھے اور دنیا کی منڈی میں آئے تو ایک طرف بلاشک و شبہہ عوام و خواص اور علما و جہلا سب کی جانب سے راست رو، ایمان دار، بے باک اور شفافیت سے پُر ہونے کی سند حاصل ہوگی، اور دوسری طرف بے لاگ تبصروں اور خبر رسانی کے یہ ذرائع ان کے ذمہ داروں کو خالق حقیقی کی نگاہ میں بھی محترم اور باعزت بنادیتے ہیں۔

  •  قیاس و گمان کے بجاے حقائق:قیاس و گمان اور شک و شبہے پر مبنی بات بھی   بے وزن ہوتی ہے اور بالعموم اس قسم کی باتیں کرنے والے افراد یا وسائل اطلاع و ترسیل کو صحت مند فکر کا حامل قرار نہیں دیا جاتا۔ عوام و خواص بھی ایسے ذرائع و وسائل یا ایسے اشخاص و جماعتوں سے بدظن ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ چیزیں حقائق سے اغماض برتنے کی راہ ہموار کرتی ہیں اور افواہوں کو پروان چڑھاتی ہیں جن کے بسااوقات سنگین نتائج تصادم اور جنگ و جدال کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور امن و آشتی کے ماحول کو مکدر کردیتے ہیں۔ اس شکل میں میڈیا جس سطح کا ہو، اسی سطح کے مفاسد کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ قرآنِ مجید کی تعلیم یہ ہے کہ بعض قیاس و گمان اور ظن و تخمین کا سرا گناہوں سے مل جاتا ہے(الحجرات ۴۹:۶)۔ بایںطور ذرائع ابلاغ میں قیاس و گمان صرف یہی نہیں کہ صداقت کے لحاظ سے کسی چیز یا اطلاع کو مشکوک و مشتبہ بنادیتے ہیں بلکہ یہ ارتکابِ گناہ ہوتا ہے۔ قیاس و گمان اور شک و شبہے سے بالا ہوکر حقائق کو شُستہ اور شگفتہ انداز میں منظرعام پر لانا دراصل امانت کا تقاضا ہے۔ اس کے برخلاف شکوک و شبہات کے سہارے کوئی بات کہنا بڑی خیانت ہے اور تلخ نتیجے کے طور پر بسااوقات ندامت و شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ قرآنِ مجید کی یہ آیت میڈیا کو شفافیت سے ہم کنار کرنے اور بامقصد بنانے کے لیے نسخۂ شافی کے طور پر ملاحظہ کی جائے:

ییُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَo (الحجرات ۴۹:۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔

  •  حقائق کو مسخ کرنے اور لغویات کی نفی:عام طور پر ذرائع ابلاغ کا یہ منفی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ واقعات کو من و عن بیان کرنے کے بجاے حذف و اضافہ اور قطع و بُرید کے ذریعے خبروں کو مسخ کردیا جاتا ہے۔ کبھی کسی کی تعریف اس حد تک کی جاتی ہے کہ آسمان و زمین کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں اور کبھی کسی کی تحقیر و تذلیل پر ذہن آمادہ ہوتا ہے تو اسے ذلت و پستی کے قعرعمیق میں گرا دیا جاتا ہے۔ حقائق اور واقعات کو دل نشیں پیرایۂ بیان میں بیان کرنا قابلِ ستایش ہے لیکن نمک مرچ لگاکر، تصنع اور تکلف کے لبادے میں ملمع کاری کرنا اور تفریح طبع کا سامان اس طور پر پیش کرنا کہ حقائق و واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، محض نیک نامی، شہرت اور بازار میں اپنی قیمت منوانے کا سطحی ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن میڈیا کے نام پر یہ جذبات کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ قرآنِ مجید نے اس عمل کو ’لہوالحدیث‘ سے موسوم کیا ہے جس کی تعبیر کلام دل فریب یا کلامِ لغو سے بھی کی جاتی ہے۔ ایسے کلام دلفریب دراصل ضلالت و گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عملِ بد کا انجام بھی اہانت آمیز عذاب کی شکل میں ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کی یہ ہدایت میڈیا اور ان کے ذمہ داروں سے متعلق ایک زبردست تنبیہہ ہے جس کے اندر وعظ و نصیحت کا سامان بھی موجود ہے:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ق  وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا ط  اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌo (لقمان ۳۱:۶) اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

مفتی محمد شفیعؒ کے مطابق آیت کریمہ کا شانِ نزول نضر بن حارث کا وہ نامبارک عمل ہے جو تجارت کی غرض سے فارس کا سفر کیا کرتا تھا اور شاہانِ عجم وغیرہ کے تاریخی قصے خرید کر لاتا، اور قومِ عاد و ثمود وغیرہ کے قرآنی قصوں کے بالمقابل رستم، اسفندیار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے محض اس لیے سناتا کہ مشرکین اور کمزور ایمان والے لوگ قرآنِ مجید سے بدک جائیں، اور شاہراہِ ہدایت کے بجاے ضلالت و گمراہی کو اپنا شیوہ بنا لیں۔(معارف القرآن، ج۷، ص ۲۰)

اس سلسلے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی وضاحت مفید مطلب ہے: ’’لہوولعب اور   تفریح و تمتع کے سازوسامان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق کھیل، مقابلوں اور مظاہروں سے بڑھی ہوئی دل چسپی اور محویت و انہماک سے ہے۔ دوسری قسم لطف و تفریح کی گفتگو ہے جس میں پڑکر لوگ فرائض و واجبات اور ذکراللہ سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس میں کہانی قصے اور فحش روایات آتی ہیں۔ یہاں پر اس آیت میں لہوولعب اور کہانی و قصے دونوں کو یک جا کردیا گیا ہے اور اس کو ’لہوالحدیث‘ سے تعبیر فرمایا ہے‘‘۔(مقدمہ: مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، نذرالحفیظ ندوی)

اگرچہ اس آیت کریمہ کے نزول کا پس منظر ایک خاص واقعہ ہے، تاہم قرآنِ مجید  کتابِ ہدایت ہے اور قیامت تک پوری انسانیت کے لیے اپنی اصل افادیت کے ساتھ یہ نوشتۂ ہدایت بصیرت و روشنی کا سامان کرتا رہے گا۔ کسی فرد یا گروہ کے سلسلے میں قرآنِ مجید کی تنقید یا تعریف کا   یہ مقصد قطعاً نہیں ہوتا کہ کسی فرد یا گروہ کو ذلت و پستی کے قعر میں گرا دیا جائے یا کسی کو خراجِ تحسین پیش کردیا جائے، بلکہ اس کا مقصد درس و عبرت ہوتا ہے۔ آج کے زمانے میں قرآنِ مجید اسی زورواثر اور اسی شیرینی و سحرانگیزی کے ساتھ انسانی معاشرے سے مخاطب ہے جس طرح آج سے  چودہ سو سال قبل مخاطب تھا۔ زیربحث آیت کریمہ کی معنونیت اس امر میں پنہاں ہے کہ ایک فرد ہو یا معاشرہ یا اطلاعات و نشریات کے ذرائع علم و آگہی کے بغیر اگر باتوں کو نشر کرتے اور سطحی مقاصد کے حصول کے لیے حقائق و شواہد کے بالمقابل خانہ ساز اور خودساختہ افکاروبیانات کی تشہیر کے ذریعے عوام کی تفریح طبع کا سامان کرتے ہیں، تو گویا یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس لیے کہ اس طریقۂ عمل سے حق و صداقت کا رُخ زیبا داغ دار ہوتا ہے بلکہ حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیں اور کذب، بطلان، فریب اور جھوٹ معاشرے میں پھیل کر فتنوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

  •  ضابطۂ اخلاق اور گرفت کی ضرورت: راہنمایانِ ملک اور رٔوساے قوم اگر ایسے افراد کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور عدلیہ بھی اگر ان کے ان افعالِ رذیلہ سے بے اعتنائی برتتی ہے، تو ملک و قوم میں امن و آشتی، راست روی، حق گوئی اور حقائق سے آگہی کے لیے فضا ہموار نہیں کی جاسکتی اور ملک و قوم کو معنوی ترقیوں سے ہم کنار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ایسے افراد یا میڈیا بہرحال پُرامن اور خوش حال زندگی کے لیے چیلنج ہیں اور ان سے سخت طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ آیت سے متعلق عبداللہ یوسف علی کی راے ہے: ’’ان افراد کے ذریعے زندگی کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے جو ان معاملات و مسائل کا شعور رکھتے ہیں جن سے زندگی متعلق ہے۔ لیکن (معاشرے میں) غیرسنجیدہ اور بے ہودہ ذہنیت کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو لغو باتوں اور بے حقیقت قصوں کو صداقت اور حقائق پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو بجاطور پر ملامت زدہ ہیں‘‘۔(Abdullah Yousuf Ali: The Meaning of the Holy Quran, p 1034, )

ذرائع ابلاغ یا وسائل نشریات کی اہمیت عصرِحاضر میں مسلّم حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ جن افراد، جماعتوں اور حکومتوں کے زیرسایہ پروان چڑھتے ہیں یا ان پر جن لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے دراصل آج کے دور میں باعزت، طاقت ور اور مؤثر وجود کی حیثیت سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔ یہ ذرائع جن کی دسترس سے باہر ہیں یا جو کسی وجہ سے ان سے قربت کی شکل پیدا نہیں کرپاتے، دراصل وہ گوشۂ گمنامی میں ہوتے ہیں اور کمزور و پس ماندہ افراد و طبقات کی حیثیت سے دنیا کے پردئہ سیمیں پر دیکھے جاتے ہیں۔

میڈیا دو دھاری تلوار کی طرح طاقت رکھتا ہے۔ تلوار کا استعمال شروفساد کا خاتمہ کرنے کے لیے اور امن وآشتی کی پُربہار فضا قائم کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس کااستعمال قتل و خوں ریزی کے لیے اور فتنہ و فساد کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ یہ تلوار کس کے ہاتھ میں ہے۔ آیا یہ تلوار ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو امن وآشتی کامفہوم نہیں جانتا، جو انسانی قدروں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا اور جو اخلاقی قدروں کی پامالی کو اپنا شیوہ بناتا ہو،  یا یہ تلوار ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کی سرشت میں عدل و انصاف ہو، امن و آشتی کو نعمت غیرمترقبہ سمجھتا ہو، انسانی اقدار کا پاسباں اور نقیب ہو اور اخلاقیات اس کی ترجیحات میں ہوں۔ کامیاب میڈیا دراصل وہی ہے جس کے اہل حل و عقد میں ایک طرف اس کائنات کے حقیقی مالک کا خوف قلب و ضمیر پر حکمرانی کرتا ہو اور دوسری طرف جو موت کے بعد کی زندگی میں اپنے آقا کے سامنے اعمال کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ راست گوئی، عدل و انصاف اور تحقیق و تمحیص کی بنیاد پر کہی گئی باتیں ہی دراصل علمی دیانت داری کا مظہر ہیں اور یہی چیزیں علاقہ، قوم، ملک بلکہ پوری دنیا میں انسانی قدروںکی افزایش کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ یہی چیزیں خدمت ِقوم  بلکہ خدمت ِانسانیت کا حق ادا کرنے کے لیے قوتِ محرکہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

موجودہ ذرائع ابلاغ خواہ طباعتی ہوں یا برقیاتی، علاقائی سطح پر ہوں یا ملکی سطح پر یا پھر بین الاقوامی سطح پر، وہ افراد ہوں جن کا شیوہ ہی فسق و فجور اور بے حیائی و بدکرداری ہو یا وہ معاشرہ ہو جو شرانگیز اور فتنہ پروروں کو نہ صرف یہ کہ انگیز کرتا ہو بلکہ محویت و استغراق کے ساتھ ان کے قافلے میں شریک ہوجاتا ہو، ایسے افراد و اشخاص یا ایسی جماعتیں اور تنظیمیں یا ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کے وسائل  نہ صرف یہ کہ قابلِ مذمت ہیں بلکہ قابلِ مواخذہ ہیں، اور ملک و قوم کی امن و آشتی کے لیے اور  عوام و خواص کی مرفّہ الحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عدلیہ کی سطح پر ان پر سخت کارروائی ہو۔ قرآنِ مجید اس سلسلے میں راہنما نقوش یہ دیتا ہے کہ اس فانی زندگی میں اس قسم کے جرائم کی سنگینی کے پیش نظر انھیں کیفروکردار تک پہنچایا جانا چاہیے، اگرچہ موت کے بعد کی زندگی میں رب السموات والارض کی طرف سے ان کے لیے دردناک عذاب کی نوید بھی ہے۔

میڈیا جہاں ملک و قوم اور افراد و معاشرے کی زندگی کے دوسرے گوشوں میں خیانت کا ارتکاب کرتا ہے، ان میں سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ ایک مخصوص مذہب کے خلاف انھیں استعمال کیا جارہا ہے۔ اسلام جو عالم گیر بھائی چارگی کا تصور دیتا ہے، تمام معبودانِ باطل سے متنفر کرا کے خداے واحد کی عبودیت کا تاج سر پر رکھتا ہے، انسان کو اشرف و اکرم کا اعزاز بخشتا ہے، تسخیرکائنات کا پروانہ سونپتا ہے اور ایک انسان کے قتل ناحق کو ساری انسانیت کے قتل ناحق کے مترادف قرار دیتا ہے۔ ایسے آفاقی اور انسانیت نواز مذہب کے رُخ زیبا کو انتہاپسندی، خوں خواری اور دہشت گردی جیسے الفاظ سے داغ دار کیا جا رہا ہے اور لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ (الصف ۶۱:۸) کے اعلان کے مطابق پوری دنیا اللہ رب العزت کی اس بیش قیمت نعمت اور انسانیت نوازی کے سب سے بڑے نقیب مذہب کو حرفِ غلط کی طرح مٹادینے کے لیے سعی میں مصروف ہے۔

تقویٰ یا خوفِ خدا ہی دراصل وہ ضابطۂ حکمراں اور زبردست قوتِ محرکہ ہے جو افراد و معاشرے کو اور میڈیا کے علَم برداروں کو بے لگام ہونے سے بچاسکتا ہے۔ قلب وضمیر اگر خوفِ خدا کے نشیمن بن جائیں تو ہرجگہ اور ہروقت انسان اس خدائی قانون کے تابع ہوکر منکرات و سیّات سے گریزاں ہوتا ہے اور خیر و حسنات کا پیامی بن جاتا ہے۔ صدق اور عدل تقویٰ کے عظیم ترین مظاہر ہیں۔ اس سلسلے میں قرآنِ مجید نے ’قولِ سدید‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دروغ گوئی سے اجتناب کیا جائے۔ سوچ سمجھ کر گفتگو کی جائے، فریب دہی سے باز رہا جائے اور دل خراش کلمات سے گریزاں ہوا جائے۔ اسی طرح قیاس و گمان اور شک و شبہے پر مبنی بات ہلاکت انگیزی کا سبب ہے۔ اس کی بنیاد پر میڈیا ماحول اور معاشرے کو مکدر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا اور اپنا اثرورُسوخ کھو دیتا ہے۔ قرآنِ مجید کی یہ درخشاں تعلیم دعوت فکروعمل دیتی ہے کہ گمان و قیاس کی بنیاد پر کہی ہوئی بات صرف یہی نہیں کہ استناد کی میزان پر پوری نہیں اُترتی، بلکہ یہ گناہ ہے اور بسااوقات انسان کو اس طریقۂ عمل سے شرمندہ و نادم ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح لگائی بجھائی کرنا، نمک مرچ لگاکر باتیں پیش کرنا، تصنع اور تکلف کا لبادہ پہننا اور اُمور ومسائل پر ملمع کاری کرنا، یہ ساری چیزیں صحت مند میڈیا کے خلافِ شان ہیں۔ قرآن اسے ’لہوالحدیث‘  سے موسوم کرتا ہے، جس کی تعبیر کلام دل فریب یا لغو اور مہمل بات سے بھی کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی باتیں ایک صحت مند معاشرے کو جلا نہیں دیتیں بلکہ ہدایت کی شاہراہ سے پھیر کر گمراہی کے بے شمار دروازے اور راہیں کھول دیتی ہیں۔ اسی لیے قرآنِ مجید اس قسم کی باتوں کو معاشرے میں فروغ دینے والوں کے لیے اہانت آمیز عذاب کا اعلامیہ جاری کرتا ہے۔

اس امر میں صداقت ہے کہ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری کو بحسن خوبی سمجھے، اپنے اعلیٰ و ارفع مقصد کو مستحضر رکھے، خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنائے اور ملک و قوم کے ماحول کو پُرامن بنانے کے موقف پر مصر ہو، تو یقینا اس کے اہل حل و عقد قابلِ ستایش اور لائقِ مبارک باد ہیں۔ لیکن میڈیا کے یہ مثبت پہلو اسی وقت بامعنی اور بامقصد ہوسکتے ہیں جب کہ خوفِ خدا کے قانون کو جگہ دی جائے، موت کے بعد کی زندگی اور اس میں محاسبۂ عمل کی یاد کو تازہ رکھا جائے، عدل و صدق کو   شیوئہ حیات بنالیا جائے، قیاس و گمان اور شک و شبہے سے اجتناب کرتے ہوئے استناد کو محبوب   رکھا جائے، اور حقائق و مسائل کو من و عن دل نشیں پیرایۂ بیان میں واشگاف کردیا جائے۔


٭ مقالہ نگار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ، بھارت سے وابستہ ہیں۔

ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد، خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔(سیدمودودی)

کون جانتا تھا کہ ۱۹۴۶ء میں جب یہ الفاظ ایک چھوٹے سے قصبے میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہے جارہے تھے، صرف۴۵سال بعد انسانیت کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوگا کہ روس کی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی اور کمیونزم تاریخ کا محض ایک باب بن کر رہ جائے گا___ اور اس امر سے بھی آج کون آگاہ ہوسکتا ہے کہ تہذیب الحاد کا ایک دوسرا سرخیل، امریکا جس کا ڈنکا روس کے پارہ پارہ ہوجانے کے بعد تمام دنیا میں بج رہا ہے، اس کا انجام بھی روس کی تباہی کی طرح کتنے فاصلے پر ہے؟

امریکا کی اقتصادی حالت کے بارے میں آج یہ امر بچے بچے کی زبان پر ہے کہ وہ فی الوقت دنیا کے مقروض ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح امریکا نے اپنی فوجی اور سائنسی برتری کے بل پر جنگوں کا جو لامتناہی سلسلہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاری کیا ہوا ہے، اس سے وہ کب روس کی طرح شکست سے دوچار ہوگا؟___ اسی طرح کے چند دیگر اہم ترین عوامل سے قطع نظر امریکی قوم کی جو اخلاقی حالت آج ہے اور امریکی نوجوان نسل جنسی انحطاط کی جس ڈگر پر بگٹٹ  چلی جارہی ہے، اس کی تباہی کے بارے میں اب وقت بہت قریب آگیا ہے۔

زیرنظر مضمون میں ہم تہذیب مغرب کے اخلاقی پہلو کی اس اہم ترین کمزوری کا جائزہ لیں گے جس کو اپنانے کے بعد دنیا کی کوئی قوم بہت دیر تک زندہ نہیں رہی___ ہماری مراد اس    جنسی انحطاط اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مضمرات سے ہے جس میں اقوامِ مغرب بالعموم اور امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت بالخصوص فی زمانہ دوچار ہے۔ جنسی آزادی کے اس غیرفطری رویے کی بناپر امریکا ایک گہری دلدل کے کنارے کھڑا نظر آرہا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب کا انسان اپنے بے محابا جنسی جذبے کی تسکین کے تمام غیرفطری طریقوں کی وجہ سے اپنی تمام تر خرابیوں، مصیبتوں اور مسائل کا خود ذمہ دار ہے۔ اس کی وجہ سے نوعمر (teens) لڑکیوں میں ناجائز حمل کی بڑھتی ہوئی شرح، طلاق کی بھرمار اور خاندانی نظام کی تباہی کسی بھی صاحب ِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ تاہم، مغرب کی نوجوان نسل میں جنسی امراض کا بڑھتا ہوا رجحان اور ایڈز کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا جنسی بے راہ روی اور جنسی آزادی (free sex) کے ایسے طریقوں پر عمل پیرا ہونا ہے جس سے اگرچہ انسان قدیم ترین زمانے میں بھی آگاہ تھا لیکن موجودہ زمانے میں اس کی قہرمانیوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے نہ صرف مغربی دنیا کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے بلکہ اس کے اثرات بہت تیزی کے ساتھ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کو بھی اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔ ٹی وی، ڈش،انٹرنیٹ اور موبائل فون، نیز دیگر  مخرب اخلاق میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کر رہی ہے اس کے پیش نظر شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اور امریکا کے نقشِ قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں ایک سوال ہردردمند مسلمان کے دل سے اُٹھتا ہے کہ کیا ہم بھی اس انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہیں؟

ذیل میں ہم ایڈز (Aids) نامی بیماری، نیز چند دیگر جنسی امراض (venereal diseases) کے بارے میں نہایت مستند اعداد وشمار کی روشنی میں ان نقصانات سے اپنی نوجوان نسل کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں جس میں امریکا اور یورپ کے لوگ بالخصوص نوجوان نسل مبتلا ہے۔ نیز پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے بالخصوص دینی رہنمائوں اور انسانی بھلائی کے بارے میں سوچنے سمجھنے والے تمام لوگوں کو بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا روے سخن بالخصوص مذہبی رہنمائوں اور پیرانِ عظام سے ہے کہ وہ اُمت محمدیہؐ کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص انسانی زندگی میں جنسی جذبے اور جبلّت کی اہمیت اور اس کے جائز استفادے، نیز خاندانی اور معاشرتی نظام کی بحالی کے لیے اپنی تمام تر کوششیں وقف فرمائیں۔ کیونکہ ماضی قریب میں اس موضوع سے جس قدر اغماض اور بے اعتنائی  برتی گئی ہے، وہ مجرمانہ تساہل کے زمرے میں آتی ہے۔ اور اس کے بارے میں بروزِ قیامت ہرشخص سے سوال ہوسکتا ہے     ؎

حرم کے والیو! تم تو مراقبوں میں رہو
بتانِ دیر یہاں چھا گئے تو کیا ہوگا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو مدلل اور منطقی انداز میں اس موضوع سے متعلقہ دینی احکامات اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی انفرادی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود اس امر پر غور کرسکیں کہ جنسیت کا وہ تصور جسے مغرب کے لوگ ’محض دو افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی اور فطری جذبے کی تسکین‘ کا نام دیتے ہیں، حقیقت میں اس کے نقصانات کس قدر ضرررساں اور خوف ناک ہیں۔ جنسی ہیجان اور انارکی کی وجہ سے مسلم معاشروں میں سخت خلفشار برپا ہے، جو ہر آنے والے لمحے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کے تدارک اور انسداد کے لیے قرآن و سنت میں رہنمائی تو موجود ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس موضوع کو ’شجرِممنوعہ‘ بنادیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی عدم موجودگی یا کم دستیابی یا دینی رہنمائوں کا اس موضوع پر نوجوانوں سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی مناسب رہنمائی نہ کرنے کے نتیجے میں نوجوان طبقہ مجبوراً یہ معلومات ٹی وی، ڈش اور انٹرنیٹ سے حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اور چونکہ ان ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان میں لذتیت کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اس کی وجہ سے نوجوان اسی ایک پہلو پر عمل کرتے ہیں اور یوں معاشرے میں بہت سے اخلاقی اور معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ایڈز پر ایک طائرانہ نظر

ایڈز ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس کا نہ صرف یہ کہ ابھی تک کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا اور نہ کوئی ایسا طریقہ ہی دریافت ہوا ہے جس کے ذریعے اس کے خلاف انسانی جسم میں قوتِ مدافعت (immunity) پیدا کی جاسکے۔ یہ ایک وائرس کے ذریعے جنسی افعال کی ہمہ اقسام  (طبعی و غیرطبعی) کے ذریعے پھیلتی ہے۔ اس طریق پر یہ بیماری نہ صرف دوسرے انسانوں کو    لاحق ہوجاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا شخص دیگر ہرقسم کی بیماریوں کے حملے کے خلاف مؤثر دفاعی نظام کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے،اور آئے دن مختلف بیماریوںکا ہمہ وقت   شکار رہتا ہے اور بالآخر سسک سسک کر مرجاتا ہے۔

یہ مرض ایک وائرس کی بنا پر پھیلتا ہے جو صرف الیکٹرانک خوردبین کے ذریعے سے ہی دیکھا جاسکتا ہے جسے ایڈز کا وائرس (Human Immunity Virus-HIV) کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایڈز کا مرض ۱۹۸۰ء میں پہلی مرتبہ امریکا میں دریافت ہوا۔ اس بیماری کے نہایت سنجیدہ ممکنہ خطرات کا علم لوگوں کو اکتوبر ۱۹۸۶ء میں امریکن سرجن جنرل (C. Evert Koops) کی رپورٹ سے ہوا۔ انسانوں میں یہ وائرس مرد و عورت کے جنسی اعضا کی رطوبتوں اور خون کی وجہ سے منتقل ہوتا ہے جو مرد و زن کے درمیان زنا یا ہم جنسیت (sodomy)، یا کسی مریض کو انتقالِ خون کے ذریعے متاثرہ فرد کا خون لگنے، یا نشہ کرنے والے افراد کا ایک دوسرے کو ٹیکہ لگانے والی سرنج/سوئی یا حجام کے بلیڈ، استرے اور قینچی کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اگر وہ اوزار کسی ایڈز زدہ فرد کے استعمال میں رہے ہوں اور ان پر مریض کا خون لگ گیا ہو۔

ماں کے رحم میں بچوں کو اس مرض کی چھوت صرف ۱۰ فی صد تک لگتی ہے لیکن کسی عورت کے اس مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں ولادت کے دوران تولیدی اعضا کی رطوبتوں/خون وغیرہ کے ذریعے ۳۰ فی صد تک بچے اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ کیڑے مکوڑوں، مکھیوں، مچھروںکے کاٹنے سے یہ مرض نہیں پھیلتا۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیا، ٹائلٹ کے کموڈ، تیراکی کے تالاب، یا مشترکہ استعمال کی اشیا از قسم برتن یا کپڑوں سے اس مرض کی چھوت نہیں لگتی۔ تاہم بچوں کا ماں کی چھاتی سے براہِ راست دودھ پینے کی وجہ سے اگر نپل (بٹنی) پر زخم ہوں یا وہ کٹے پھٹے ہوں اور ان سے خون بھی رستا ہو تو ایسی حالت میں دودھ پینے سے بچوں کو اس کی چھوت منتقل ہوسکتی ہے۔

مغربی ممالک میں ایڈز پہیلنے کے محرکات

ذیل میں اُن عوامل کا مختصراً ذکر کیا جا رہا ہے جو ایڈز کے پھیلنے میں معاون ہیں:

  •  جلد بالغ ھونا (Early Maturity): عالمی سطح پر کی گئی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ صنعتی ممالک کے بچوں میں بلوغت کی عمر میں کمی واقع ہوتی ہے، یعنی وہ جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ بلوغت کی عمر کا تعلق نوجوانوں (لڑکے اور لڑکیوں) میں بچوں کی پیدایش کی صلاحیت (fertility) سے ہوتا ہے۔ فی زمانہ لڑکیوں میں بلوغت کی اوسط عمر ۲ء۱۲سے ۸ء۱۲ سال اور لڑکوں میں ۵ء۱۳سے ۱۴سال ہے، جب کہ بیسویں صدی کے آغاز پر لڑکیوں میں یہ عمر ۱۵سے ۱۶سال اور لڑکوں میں ۱۵سے ۱۷سال تھی۔ نوجوان نسل کے جلد بالغ ہونے کی وجہ ان ممالک کے عوام کے غذائی معیار کا بہتر ہونا ہے۔ بالخصوص ان کی غذا میں لحمیات (proteins) اور روغنی اجزا (fats) کا زیادہ استعمال ہے۔
  •  شادی کی عمر میں تاخیر (Late Marriages): نوجوان نسل کے جلد بالغ ہونے کے برعکس ان کی پہلی مرتبہ شادی کی اوسط عمر میں تاخیر ہوتی ہے۔ امریکا میں ۱۹۲۰ء میں پہلی مرتبہ شادی کی اوسط عمر ۷ء۲۲سال تھی، جب کہ ۱۹۹۷ء میں اس کا اندازہ ۷ء۲۵ سال لگایا گیا ہے۔

درج بالا ہردو اُمور کا منطقی نتیجہ شادی سے قبل ناجائز جنسی تعلقات (زنا و دیگر ہمہ اقسام جنسی افعال) کی شکل میں نمودار ہوا۔ ایک جائزے کے مطابق امریکا اور یورپ کے تین ممالک (نیدرلینڈ، جرمنی، فرانس) کے نوعمر بچوں (teens) میں پہلی مرتبہ زنا کی عمر ۱۵ سے ۱۷سال کے درمیان ہے۔اس جائزے سے پتا چلتا ہے کہ امریکی نوعمرنسل کے افراد یورپی ممالک کے بچوں کی نسبت ایک تا دو سال جلد جنسی افعال (زنا) میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس ملک میں پہلی مرتبہ جنسی اختلاط دراصل نتیجہ ہے اس ’تلقین‘ کا جس کی وجہ سے وہاں ’’جنسی اختلاط کو دو نوجوان افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی (time passing) اور فطری جذبات کی تسکین‘‘ کا نام دے کر جائز قرار دیا گیا ہے جس پر معاشرے کے تعلیمی اُمور کے نگران اور مذہبی لیڈروں (پوپ/پادری/ربی) کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے ’نوجوانوں کی معصوم خواہشات کی تکمیل‘ کے نام پر گوارا کرتے ہیں۔

مغربی ممالک میں زنا کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے نتیجے میں ایڈز وغیرہ جنسی امراض کے تدارک کے لیے ایک ’بہت آسان اور سستا نسخہ‘ تجویز کیا جاتا ہے کہ اسکولوں، کالجوں، نیز پبلک مقامات پر ’مانع حمل گولیوں اور کنڈوم‘ کی فراہمی اس قدر عام کردی جائے کہ ’بوقت ِ ضرورت‘ کسی کو بھی ان کے حصول کے لیے کوئی تردّد یا بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے، اور اب تو یہ حال ہے کہ نوعمر نسل کے افراد یہ اشیا اپنے پرس/جیب میں رکھتے ہیں۔

مغربی دانش وروں کے اس اچھوتے نسخے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ نوجوانوں میں ان اشیا کا استعمال یکساں طور پر مقبول ہو رہا ہے اور یہی نسخہ مغربی دانش ور اسلامی ممالک کے نوجوانوں کے لیے تجویز کرنے اور اسے عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں (ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ بھی زنا کے عام ہونے کی شکل میں ظاہر ہوگا)۔ یاد رہے کہ نیدرلینڈ میں ۸۵ فی صد ڈچ نوجوان نوبالغ (adolescents) پہلی مرتبہ زنا کے وقت مانع حمل اشیا کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ جرمنی میں ۵۶فی صد بالغ لڑکے زنا کے وقت کنڈوم استعمال کرتے ہیں، اور امریکا میں صرف ۲۵فی صد نوجوان لڑکے بہ عمر ۱۴ تا ۲۲سال دونوں طریقے کنڈوم نیز صنف ِ مخالف کے لیے گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ایڈز میں مبتلا افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے (تفصیل آیندہ صفحات میں آرہی ہے)۔

جنسی اعمال میں بہت زیادہ اور جلد ملوث ہونے کا ایک بدیہی نتیجہ ناجائز بچوں کی پیدایش یا اسقاطِ حمل (abortion) کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ ایک جائزے میں مختلف یورپی ممالک اور امریکا میں ان ہر دو اُمور کا تقابلی جائزہ تعداد فی ہزار عورتیں بہ عمر ۱۵ تا ۱۹سال پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں ناجائز بچوں کی پیدایش کی شرح ۴ء۵۴ فی صد اور اسقاطِ حمل کی شرح ۱۷ فی صد نمایاں طور پر یورپ کے تین ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ جرمنی کی نسبت یہ چارگنا ہے، جب کہ اسقاطِ حمل کی شرح بھی دیگر ممالک کی نسبت دوگنی ہے۔

نیدرلینڈ میں اس عمر کی لڑکیوں میں ناجائز بچوں کی شرح پیدایش دنیا میں سب سے کم ۹ء۶فی صد ہے، حالانکہ وہ ملک دنیا بھر میں اپنی جنسی قوت کے اظہار (libido) میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔

مغربی صنعتی ممالک میں ایڈز کا جائزہ

امریکا، دنیا کے تمام ممالک میں ایک ایسی حیثیت کا حامل ہے جس کی سیادت تمام ممالک (خواہی، ناخواہی) ماننے پر مجبور ہیں، تاہم اس ملک کی اخلاقی حالت کا اندازہ درج بالا جائزے ، نیز جنسی امراض بالخصوص ایڈز میں مبتلا افراد کی زیادتی سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا میں ایڈز میں مبتلا ہونے والے افراد کی شرح ۳۳ء۲ فی صد ہے جو دیگر یورپی ممالک سے زیادہ ہے۔

اس ضمن میں امریکی ادارہ براے کنٹرول و انسداد امراض (U.S Centers for Disease Control and Protection) کے مطابق: 

  • امریکا میں ہر سال ۳۰ لاکھ نوعمر بچے جن کی عمر ۲۰سال سے کم ہے سالانہ ایڈز میں مبتلا ہوتے ہیں۔
  • اسی طرح ۸لاکھ نوعمر لڑکیاں سالانہ ناجائز حاملہ ہوتی ہیں۔ 
  • ۸۲ فی صد گورے (امریکن)، ۳۸ فی صد سیاہ فام، ۱۸ فی صد ہسپانوی نسل کے لوگ، جب کہ ایک فی صد سے کم ایشین پیسفک جزائر اور امریکن انڈین، نیز الاسکا کے باشندے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایشین پیسفک جزائر اور امریکن انڈین/الاسکا کے باشندوں میں آزادانہ جنسی اختلاط نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یوں ان اقوام کے لوگ ایڈز میں مبتلا ہونے سے بچے رہتے ہیں۔

درج بالا ۸۲ فی صد امریکن مرد جو ایڈز کا شکار ہوئے، ان میں ایڈز پھیلانے والے عوامل کا تجزیہ کچھ یوں ہے:

  • ۴۶ فی صد مرد ہم جنس پرستی(gayism) کی وجہ سے ایڈز میں مبتلا ہوئے۔ 
  • ۲۵فی صد مرد ایسے تھے جو نشہ آور اشیا کے ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرنے سے اس مرض کا شکار ہوئے، یعنی ۷۱فی صد افراد ایسے تھے جو ہردو غلط افعال کی بناپر ایڈز میں مبتلا ہوئے۔ اس سے امریکی عوام کی اخلاقی، ذہنی، تعلیمی اور صحت ِ عامہ کے اصولوں سے عدم آگاہی کا اندازہ لگانا اور اس رجحان کے جاری رہنے سے امریکن قوم کے مستقبل قریب میں تباہ و برباد ہونے کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔
  • ۱۱فی صد مریض زنا کرنے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوئے، جب کہ ایک فی صد ایسے بھی تھے جو کسی متاثرہ فرد کا خون لگنے کی وجہ سے بیمار ہوئے۔

نوجوان نسل کا بلحاظِ عمر ایڈز میں مبتلا ہونے کا اندازہ ایک جائزے سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔اس جائزے سے پتا چلتا ہے کہ:

  • ایڈز میں مبتلا افراد کی سب سے زیادہ تعداد ۲۵ سے ۲۹ تا ۳۵سے ۳۹سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے جو ۵۷ فی صد بنتی ہے۔ چونکہ ایڈز کا وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد سالہا سال تک حالت ِ خاموشی (dormant stage)میں زندہ رہتا ہے، اس لیے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے تمام افراد میں یہ مرض اوائل عمر میں جنسی افعال میں ملوث ہونے کی وجہ سے لاحق ہوا ہوگا۔

جیساکہ گذشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں بلوغت کی عمر جلدی واقع ہوجاتی ہے، جب کہ شادی کی عمر میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس لیے ان ممالک کے ایسے ماحول میں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ اختلاط اسکول، کالج، بازار، گھر اور دیگر تمام پبلک مقامات پر ہوتا ہے، وہاں نوجوان نسل کا شادی سے قبل جنسی افعال (زنا، ہم جنس پرستی) وغیرہ میں ملوث ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یوں وہ اوائل عمر میں ہی اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  •  ایڈز کی وجہ سے اموات: ایڈز میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بلحاظِ عمر اموات کی شرح کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مردوں میں ایڈز کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں عمر کے دو گروپس (۲۵ تا ۳۴) اور (۳۵ تا ۴۴) سال کی عمر میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جو ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکا ہے۔

یورپ کے دیگر ممالک میں ایڈز

امریکا میں ایڈز کے بارے میں معلومات کا مطالعہ کرنے کے بعد اب یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم مغربی دنیا کے چند دیگر ممالک میں ایڈز کے وقوع کا بھی مطالعہ کریں۔

  • (اlبرطانیہ: برطانیہ میں ایڈز کی چھوت لگنے کے طریقوں کے لحاظ سے مریضوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ان اعداد و شمار سے ذیل کے ہوش ربا حقائق کا علم ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ایڈز کا مرض لاحق ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہم جنسیت ہے جس میں ۶۶فی صد مرد مبتلا ہوتے ہیں۔ جس سے اس قوم میں غیرفطری ذرائع سے جنسی تسکین حاصل کرنے کے رجحان کی غمازی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ عمل بالخصوص سکول/ کالج کے نوعمر لڑکوں میں عام ہوتا ہے جس کی وجہ سے ۲۰ تا ۳۴سال کی عمر کو پہنچنے پر ان میں اس مرض کی شرح ۴ سے ۲۵فی صد ہے۔
  • (ب) کینیڈا:کینیڈا میں ایڈز کی پہلی مرتبہ دریافت ۱۹۸۰ء میں ہوئی اور اب تک ۱۷ہزار۵سو۹۴ افراد اس مرض سے متاثر ہوئے۔ کینیڈا کے مشہور ترین شہروں برٹش کولمبیا، البرٹا، اونٹیرو اور کیوبک میں کینیڈا کی کُل آبادی کا ۸۵ فی صد رہتا ہے، جب کہ وہاں ۹۵ فی صد لوگ اس مرض کا شکار ہیں۔

بلحاظ عمر ۳۰ سے ۳۹سال کی عمر کے لوگ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ لوگ بھی اوائل عمر میں جنسی افعال میں ملوث ہوئے تھے۔ ۲۰۰۰ء میں اس عمر کے ۴۱فی صد لوگ اس مرض کا شکار تھے۔

  • کینیڈا میں چند دیگر جنسی امراض: ایڈز کے علاوہ کینیڈا میں بہت سے افراد مختلف دیگر جنسی امراض (venereal diseases) میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں Chlamydia، سوزاک (Syphilus)، آتشک (Gonnorhea) اور Herpes Simplex Virus Infection بہت اہم ہیں۔ مؤخرالذکر وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماری سب سے زیادہ وقوع پذیر ہونے والا عارضہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بیماری کے تین اہم ترین بُرے اثرات ہیں۔اولاً: اس مرض کے غیرتشخیص شدہ افراد دیگر صحت مند لوگوں میں اس بیماری کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ثانیاً: مریض عورتوں کے رحم میں بچے کو اس مرض کی چھوت لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی دماغی /اعصابی صلاحیت بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے اور شرحِ اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ثالثاً: اس بیماری کی وجہ سے جنسی اعضا پر زخموں کی وجہ سے HIV کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔

ایڈز کی روک تہام

مغربی ممالک میں ایڈز اور دیگر جنسی امراض کی حالت ِ زار کا مطالعہ کرنے کے بعد، جس میں کروڑوں انسان نہ صرف اموات کا شکار ہورہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ان کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے، اب یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس رہنمائی کا بھی مجملاً مطالعہ کریں جو اسلام نے انسان کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے دی ہے جس میں اس قسم کے امراض کا وجود بھی نہیں پایا جاتا۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کبھی بھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں گناہوں کی بھرمار ہوجائے اور اس قوم کے لوگ ان گناہوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں، تو اللہ تعالیٰ اس قوم میں ایسی بیماری پیدا کردیتا ہے جو ان کے آبا واجداد میں نہ تھی (ابن ماجہ)۔ چونکہ فی الوقت ایڈز کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا اور نہ اس کے خلاف قوتِ مدافعت ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے موجودہ زمانے میں مغربی ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ فوری طور پر اپنے عوام بالخصوص نوجوان نسل (لڑکے اور لڑکیوں) کے ذہن میں اخلاقی تعلیم اور تربیت کے ذریعے اس امر کو پختہ کریں کہ نوجوانی میں جنسی جذبات کا ہونا اگرچہ فطری امر ہے، تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس فطری جبلت کی تسکین کے لیے شادی سے قبل وہ کسی قسم کے بھی جنسی فعل میں مبتلا ہوں۔ مغربی دانش وروں کی یہ راے کسی صورت بھی اطمینان بخش نتائج نہیں دے سکتی اور نہ وہ اپنے باشندوں ہی کو ان مہلک بیماریوں سے نجات دلا سکتے ہیں کہ ’وہ جنسی آوارگی، زنا، ہم جنسیت اور شراب نوشی، نیز اسی قسم کے دیگر اعمال میں ملوث بھی رہیں لیکن چند احتیاطی تدابیر از قسم کنڈوم یا مانع حمل گولیوں کا استعمال کریں تو وہ ان امراض کے بُرے نتائج سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ان ممالک نے گذشتہ ایک صدی میں مانع حمل طریقوں کے علاوہ لاکھوں ڈالر تعلیمی نظام کے ذریعے جنسی انارکی سے بچنے کے لیے خرچ کیے ہیں لیکن ان تمام تر اخراجات اور کوششوں کا جو نتیجہ نکلا ہے اس کا بھرم گذشتہ صفحات میں مندرج اعداد وشمار اور حقائق نے کھول دیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام تر معلومات خود امریکی اور یورپین سرکاری ذرائع سے اخذ کی گئی ہیں۔ اس لیے ان کی صحت کے بارے میں کسی قسم کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانی زندگی میں اس بے راہ روی کا حل صحیح الہامی ہدایات، نفسیات اور سائنسی معلومات کی روشنی میں کیا جائے، تاکہ اسے ایسی صحیح بنیادوں پر استوار کیا جاسکے کہ وہ مقصد جس کی خاطر خالق کائنات نے اس جبلت کو انسان میں ودیعت فرمایا ہے، باحسن پورا ہوسکے۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک الہامی دین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو انسانوں (عورت اور مرد) کی زندگی کو ایک ضابطے کا پابند بنائے تاکہ وہ معاشرے اور انسانی تہذیب کی ترقی کا ذریعہ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہامی مذاہب میں شادی کے ادارے کے قیام کے ذریعے عورت اور مرد کے جنسی تعلقات کو ایک قانونی شکل دی گئی ہے تاکہ اس طرح خاندانی نظام کی بنیاد پڑے اور نسلِ انسانی کو فروغ حاصل ہو۔ اسی بناپر تمام مذاہب ِ سماوی نے شادی کے علاوہ لذتِ شہوانی کے حصول کے تمام غیرفطری طریقوں کو حرام قرار دیا ہے۔

یہاں کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ مذہب کو انسانی زندگی کے جنسی معاملات کے ساتھ نتھی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بظاہر یہ ایک بہت وزنی اعتراض نظر آتا ہے لیکن بنظر غائر دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ مذہب اور جنسی معاملات کو نتھی کرنا نہیں کیونکہ اگر نفسیات، انسانی زندگی کے رویوں اور معاملات کی سائنس کا نام ہے تو دین (مذہب)۔ بلاشبہہ اس دنیا میں انسانی رویوں اور اعمال کی تہذیب کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ انسانی زندگی کی تمام تر بے راہ روی اور غلط اعمال کو ٹھیک سمت پر ڈالنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان جبلی اور فطری داعیات کو الہامی تعلیمات کے تحت کردیا جائے، کیونکہ انسانیت کے تمام تر دکھوں کا مداوا اور مستقل علاج دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے    ؎

چارہ این است کہ از عشق کشادے طلبیم
پیش او سجدہ گذاریم و مرادے طلبیم

(علاج یہ ہے کہ عشق سے مدد لیں، اس کے سامنے سجدہ کریں اور اس سے مراد مانگیں۔)

شاید یہ امر باعث ِ دل چسپی ہو کہ امریکا میں چند چرچ اور یہودی عبادت گاہیں اپنے مذہبی عقائد پر مبنی جنسی تعلیم اپنے پیروکاروں کو دیتے ہیں جن کا اصل الاصول یہ ہے کہ ’’جنسیت ایک عطیہ ربانی ہے جو انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے‘‘، بجاے اس کے کہ نوجوان نسل کو یہ بتایا جائے کہ وہ ’’کوئی کام کریں یا نہ کریں کہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں‘‘۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ انھیں بتایا جائے کہ وہ جنسی زندگی کو روحانی انداز میں دیکھیں۔ جب نوجوان اپنی زندگی کو خدا کا انعام سمجھتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ شادی سے باہر جنسی افعال ایک بُرا عمل ہے تو اس امر کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی اس قوت کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ جنسیت کو روحانیت کے درجے میں لاکر اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ نوجوان اس کے بارے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں گے۔

 

وسطی ایشیا کی اہم مسلم ریاست تاجکستان میں ۶ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر امام علی رحمانوف ہی حسب سابق دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق انھیں ۸۳ فی صدسے زائد ووٹ ملے۔ جس طرح ہر انسان اپنے گناہوں کا سب سے اہم گواہ خود ہوتا ہے، اسی طرح ۸۳فی صد کی اصل حقیقت بھی سب سے زیادہ رحمانوف ہی کو معلوم ہے۔ انتخابات میں ان کی سب سے مضبوط حریف، انسانی حقوق کی فعال علم بردار، معروف وکیل خاتون نیکولا بابا نزارووا تھیں۔ انھیں تحریک اسلامی( تحریک نہضت)کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ تقریباً سب تجزیہ نگار متفق تھے کہ بے داغ شخصیت کی حامل ۶۵سالہ نزارووانہ صرف بھرپور مقابلہ کریں گی بلکہ وہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑسکتی ہیں۔بڑے پیمانے پر ان کے حامیوں کی گرفتاریوں اورووٹر لسٹوںمیں تحریف جیسے دھاندلی کے مختلف ہتھکنڈوںکے باوجود بھی صدر کو اپنی کامیابی کا یقین    نہ ہوا، تو بالآخر ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیے گئے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ۲۱ہزار تائید کنندگان کے دستخط پیش نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ پھر رحمانوف ہی ’جنگل کا بادشاہ‘ تھا۔

 تاجکستان میں تحریک بیداری۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، بلکہ سوویت یونین کے زیرتسلط تمام علاقوں میں اسلامی تحریک کا باقاعدہ زیر زمین آغاز تو ۱۹۷۸ء سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران بھی ایسے بہت سے ’گم نام سپاہیوں‘ نے کاردعوت و تربیت انجام دیا کہ جن کا علم صرف اللہ کو ہے یا اس کے ان بے نفس بندوں کو۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں سفر کرتے اور درندوں کے خونی پنجوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان مخلص نفوس نے روسی زبان میں تفہیم القرآن اور دیگر کتب کا ترجمہ ان تمام علاقوں تک پہنچایا اور بالآخر سوویت یونین کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان مسلم ریاستوں میں تحریک بیداری ساری دنیا کے سامنے آگئی۔

۱۹۹۰ء میں سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ قہار مخماکوف کو تاجکستان کے صدر کے طور پر مسلط کیا گیا تو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر نذر آتش کردیا اور پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی باقاعدہ تجہیز و تکفین ہوگئی تھی، لیکن تاجکستان سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی مداخلت و نفوذمسلسل جاری رہا، جو   آج بھی جاری ہے۔تاجکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا ڈیم (روغون ڈیم) بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل در آمد کی راہ میں پڑوسی ریاست ازبکستان کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’نہیں بننے دیں گے، اس سے ہمارا پانی اور کپاس کی بنیادی فصل متاثر ہوتی ہے‘‘۔ روس نے تاجکستان کو اس یقین پر کہ وہ روغون ڈیم بنانے کے لیے اس کی حمایت کرے گا، وہاں اپنے عسکری اڈے بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق روس ۲۰۳۰ء تک تاجک سرزمین استعمال کرسکے گا۔

دوسری طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ ہی امریکا نے بھی افغانستان کی اس اہم پڑوسی ریاست میں اپنے لیے مزید جگہ بنانا شروع کر دی تھی۔ احمد آباد کا فوجی اڈا بحال کر تے ہوئے اسے ایک مستقل امریکی اڈے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ازبکستان، قرغیزستان اور تاجکستان کے سنگم پر ایک اورامریکی اڈا فعال ہے۔ امریکا نے اس علاقے کو ’دہشت کی تکون‘ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں،    یعنی ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال بنائی جا رہی ہے جیسی آج سے تقریبا ایک صدی پہلے تھی۔   ۱۹۱۷ء میں سوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔اگرچہ ۱۹۲۹ء میں ازبکستان اور تاجکستان کو دو الگ الگ اور خودمختار ریاستوں کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا، لیکن پوری صدی کا اصل محور سوویت یونین کو سپریم طاقت بنانا اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی قرار پایا۔

گذشتہ صدی کی باقی تفصیلات کو فی الحال چھوڑتے ہوئے آیئے ذرا گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیں۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبویؐ کا پروگرام ختم ہوا، توعوام تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے کے وسط میں نصب لینن کے ۲۵ ٹن کے بت کے گرد جمع ہوگئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے انھوں نے یہ گرانڈیل بت گرا کر پاش پاش کردیا۔ مظاہرین ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا وہ معروف اور انقلابی فارسی ترانہ و الہانہ انداز سے گارہے تھے کہ جس میں انھوں نے پوری اُمت کو گہری نیند سے جاگنے اور اُٹھ کھڑا ہونے کی صدا لگائی تھی    ؎

از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز

لیکن ان تمام عوامی جذبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے،۲۴نومبر کو ہونے والے ملک کے پہلے صدارتی انتخابات میں روس نوازرحمان نبیوف کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔ عوام نے   ’لینن آباد‘ شہر سے تعلق رکھنے والے روس کے اس وفادار کا اقتدار بھی مسترد کردیا۔ ملک گیر مظاہرے عروج پر پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی اور روسی مداخلت کے ذریعے جیتنے والے کے خلاف یک آواز تھیں۔ پھر جب ایئرپورٹ سمیت اہم سرکاری عمارتیں اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئیں، تو مذاکرات کے دور چلے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۲ء کو ایک قومی حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اہم وزارتوں سمیت آٹھ وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا لیکن نیتوں میں فتور تھا، معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ اپوزیشن سڑکوں پر ہی رہی۔ کئی ماہ جاری رہنے والی اس عوامی تحریک کے بعد ستمبر ۱۹۹۲ء میں ازبکستان اور روس نے یہ کہتے ہوئے اپنی باقاعد افواج تاجکستان میں اُتار دیں کہ وہاں ’اسلامی قوتوں‘ کے اقتدار میںآنے کا خطرہ ہے۔ ساتھ ہی امام علی رحمانوف کو مسندصدارت سونپ دی گئی۔ موصوف نے آتے ہی اپوزیشن بالخصوص تمام اسلامی مراکز و شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں شہریوں کو تباہ حال افغانستان میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ بڑی تعداد کو ملک کے اندر ہی بے گھر کردیا گیا۔

۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک کا یہ سارا عرصہ عوامی تحریک کا عرصہ تھا۔ باقاعدہ جہادی کارروائیاں بھی شروع ہوگئیںاور اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں کسی نہ کسی طور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۲۳دسمبر ۱۹۹۶ء کو صدر رحمانوف اور متحدہ اپوزیشن لیڈر سید عبد اللہ نوری نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق عوام کو آزادیاں دینے اور تحریک نہضت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت میں شریک اپوزیشن لیڈروں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں اصلاحات اور مجاہدین کو تاجکستان کی باقاعدہ فوج میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاجکستان میں مسلم آبادی کا تناسب ۸۴ فی صد ہے، وعدہ کیا گیا کہ انھیں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔ آغازِ کار میں بعض فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مہاجرین کی واپسی شروع ہوگئی۔ بعض حکومتی مناصب اپوزیشن کو بھی دیے گئے، لیکن جلد ہی رحمانوف نے اپنا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ ہروعدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عام شہریوں سمیت ایک ایک کرکے اپوزیشن لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کی راہ اپنالی گئی۔ اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تحریک نہضت کے چوٹی کے کئی رہنما پراسرارطورپر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اور ایک قومی شخصیت کی حیثیت رکھنے والے سید عبد اللہ نوری اور ان کے نائب محمد شریف ہمت زادہ کے بارے میںتو یہ خدشہ زباں زدعام ہے کہ انھیں زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ رہی عوام کو حاصل آزادیاں، تو حالیہ انتخابات ہی ان کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہی کو صدر مملکت کے مقابلے میں لانے کا امکان پیدا ہوا، اسے بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ بظاہر پانچ اُمیدوار مخالفت کر رہے تھے لیکن سب مجہول و مغلوب افراد تھے۔ بنیادی طور پر اس لیے لائے گئے تاکہ مقابلے کا تاثر دیا جاسکے۔ سورما صدر تقریباً بلامقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔

 روسی فوجوں کے ذریعے ۱۹۹۲ء میںصدر مملکت بننے والے امام علی رحمانوف، حالیہ ڈھکوسلا انتخابات جیسے ہتھکنڈوں اور دستور میں رسمی تبدیلیوں کے بعد خود کو قانونی صدر قرار دے رہے ہیں۔ عالی جناب نے اقتدار کے ۱۰ برس پورے ہونے پر۲۰۰۳ء میں دستوری ترمیم کروائی تھی کہ اب ایک شخص کو صرف دوبار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن ایک ٹرم ہی سات سال کی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ فرمان جاری ہوگیا کہ اس دستوری ترمیم پر عمل درآمدتین سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء سے شروع ہوگا۔ ۱۹۹۲ء سے جو صدارتی دور چلا آرہا ہے وہ بھی اس نئی مدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس طرح ۱۴ برس سے چلے آنے والے صدر صاحب ۲۰۰۶ میں پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور حالیہ نومبر میں وہ مزید سات برس (۲۰۲۰ء تک) کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ۱۴ برس تو یوں پکے ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔ اکلوتا خدشہ ملک الموت سے  ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔

تاجکستان کو سوویت غلامی سے نجات کے بعد بھی بہت سے حقیقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ یورنیم اور دیگر قیمتی دھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالامال، ملک میں غربت تو پہلے بھی تھی، اب اس میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔ ملک میں پانی کے وافر ذخائر کے باوجود، توانائی کا بحران سنگین ترہے۔ موسم سرما میں بجلی اور گیس تقریبا ناپید ہوجاتی ہے۔ لاکھوں شہری ان بحرانوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجاے رحمانوف کی تمام تر توجہ مخالفین کو کچلنے پر مرکوز ہے۔بدقسمتی سے اپنے اقتدار کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھنے والی ہستی کو اصل خطرہ اسلام، اسلامی عناصر اور اسلامی مظاہر ہی سے محسوس ہوتا ہے۔عوام میں تحریک نہضت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ناقابل تردید وسیع حمایت کے باوجود، پارلیمنٹ میں ان کے ایک یا دو افراد سے زیادہ کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کا حجاب، مردوں کے چہرے پر سنت نبوی، اور تو اور سفید رنگ کا کھلا لمبا کُرتہ، سر پہ سجی ٹوپی، بیرون ملک (بالخصوص پاکستان میں) دینی تعلیم کا حصول، یہ وہ بڑے بڑے سنگین جرائم ہیں، جن کا مرتکب ’رحمانوف شریعت‘ کے مطابق دہشت گردہے اور اس کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔

روشن خیال قانون کے مطابق مسجد میں ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوان نہیں جاسکتے۔ مساجد سے باہر باجماعت نماز نہیں ادا کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں یا دفاتر میں تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی کسی سرکاری دفتر یا مسجد سے باہر باجماعت نمازکے جرم میں پکڑا جائے تو امام کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین ہنستے ہوئے بتارہے تھے کہ فقہ کی کتابوں میں امامت کی شرائط کے ضمن میں علمِ دین، بہتر تلاوت اور عمر جیسے مسائل زیربحث آتے ہیں۔ تاجک عوام کہتے ہیں کہ: ’’امامت وہ کروائے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں‘‘۔ قانون کے مطابق نمازباجماعت (مسجد سے باہر) جیسے سنگین جرم کی سزا امام صاحب کو دی جاتی ہے۔

ایک بار پھر ’نومنتخب‘ صدر صاحب ساتھ ہی ساتھ خود کو سب سے بہتر مسلمان ثابت کرنے پر بھی مصر ہیں۔ چونکہ ملک کی تقریباً ساری مسلم آبادی امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے اس لیے ان کا سال منانے کا اعلان کردیا گیا۔عالی جناب کے ادایگی حج کا خوب چرچا کیا گیا۔ کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قوم سے تقریباً ایک صدی تک کے سوشلزم مظالم، اس کی اسلامی شناخت نہیں چھین سکے، تو کوئی دوسرا بھی اسے دولت ِایمان سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں یہ حوالہ بھی بہت اہم اور   دل چسپ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے خود ایک سرکاری سروے میں اس امر پر اظہارِحیرت کیا گیا کہ سوشلسٹ عہد میں جینے والے ۸۰ فی صد مسیحی اپنا عقیدہ چھوڑ کر اللہ کے انکاری اور ملحد ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان آبادی کے ۸۰ فی صد سے زائد افراد اپنے مذہب پر مضبوطی سے جمے رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں (ازبکستان، قازقستان، قرغیزستان ، ترکمانستان، تاجکستان) میں مسلمانوں کی تعداد ۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔

۱۹۹۲ء میں ایک ضعیف ولاغر باباجی منصورہ آئے تو شکستہ عربی بول رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا آپ کو تو قرآن کریم تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آپ نے ایمان ہی نہیں قرآن کی زبان تک کی حفاظت کیوں کر کی؟ ہم تہ خانوں میں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور آدھی رات کے بعد اپنے بچوں کو جگا جگا کر انھیں قرآن کریم کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی نسلوں کے دل میںبھی ایمان کی آبیاری کی ہے،  اسلام سے محرومی نے دل کی پیاس مزید بڑھا دی تھی، باباجی نے جواب دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کی اکثر آبادی گھروں میں بھی عربی زبان بولتی ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

 

گذشتہ گناہوں سے معافی

سوال: شرک و کفر کو چھوڑ کر ایک مسلم نافرمان بلکہ باغی (مراد احکاماتِ الٰہی پر عمل نہ کرنے والے) کے لیے اپنے گذشتہ جملہ گناہوں سے معافی کی کیا صورت ہے؟

جواب :عظیم سے عظیم گناہ سے معافی کی یقینی صورت ، سچی توبہ ہے مگر توبہ صرف توبہ کے الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے، بلکہ توبہ تو درحقیقت وہی ہے جو دل کی گہرائی اور کامل شعور کے ساتھ کی جائے اور ایک بار توبہ کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔

توبہ کے چار اجزا ہیں: 

  • گناہ سے باز رہنے کا عزمِ مصمم
  • اپنے کیے پر ندامت
  • آیندہ اصلاح کی پیہم کوشش
  • اگر کسی بندے کا کوئی حق ہو تو اس کے حق کی ادایگی کی جائے۔

مومن کے لیے کسی وقت بھی مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ جب بھی انسان کو احساس ہو، وہ توبہ میں تاخیر نہ کرے۔ اگر اس نے ۹۹قتل کیے ہوں تو بھی خداوندعالم معاف فرما سکتا ہے، بشرطیکہ انسان سچے دل سے توبہ کرے لیکن گناہ کرتے رہنا کہ آخر میں توبہ کرلوں گا، غیرمومنانہ طرزِفکر ہے۔ احساس کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگلے لمحے کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا لمحہ ہوگا یا موت کا۔ قرآن کی اس آیت کو بار بار پڑھیے، اور توبہ کی کیفیت پیدا کیجیے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o(الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس   نہ ہونا۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور بہت ہی زیادہ مہربانی فرمانے والا ہے۔

توبہ کو واقعی توبہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی زندگی میں تین پسندیدہ اعمال کا ظہور ہو:انابت: یعنی اللہ کی طرف رجوع، جس کا اظہار انسان کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے ہو۔ اسلام: یعنی اطاعت اور فرماں برداری کی زندگی گزارنے کا اہتمام ہو۔  اتباعِ قرآن:قرآن کے اوامر ونواہی پر عمل کا شوق اور التزام ہو۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۴۳-۴۴)

کیا دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن ہے؟

س: قلمی و زبانی اشاعت ِدین میں اپنی سی سعی و کاوش کے علاوہ مالی طور پر کتب خرید کر دینا کیا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہاد کرنے کی تعریف میں؟ صراحت مطلوب ہے۔

ج:دین کی اشاعت و تبلیغ،اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی بساط بھر مومن جو ذہنی، فکری، جسمانی، مالی کوشش و کاوش بھی کر ے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔

اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہرطرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔ دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے وہ یقینا خداوندعالم کو قرض حسن دے رہا ہے۔ اور اس دور میں یہ بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر    اللہ سے اچھی اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خداوندعالم ہم سب کو اپنی جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

دورِحاضر کتابوں کا دور ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور خدا کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی، اور یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا بجا ہے۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۳۲۲-۳۲۳)

 

الحکمت فی الدعوۃ الی اللہ تعالیٰ، سعید بن علی بن وہف، مترجم: آصف جاوید۔ ناشر: النورپبلی کیشنز، H-۱۰۲، گلبرگ، لاہور۔ فون: ۳۵۷۴۸۷۳۷-۰۴۲۔صفحات: ۴۹۷۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

الحکمت فی الدعوۃ الی اللّٰہ تعالٰی، معروف عرب عالمِ دین سعید بن علی بن وہف القحطانی کے ایم اے علومِ اسلامیہ کا مقالہ ہے۔ یہ مقالہ امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی، سعودی عرب میں پاکستانی عالم دین ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیرنگرانی لکھا گیا۔مقالہ نگار نے قرآن و سنت کی نصوص اور رسولؐ اللہ کے دعوتی کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی مصادر اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے نمونے پیش کیے ہیں۔ احادیث و آثار کو مصادر اصلیہ سے لیا گیا ہے۔ صحیح اور حسن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ احادیث اور آثار کے فرق کو بھی ساتھ ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔

کتاب کے مشتملات کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب حکمت کے مفہوم، انواع، درجات، ارکان اور حصول کے ذرائع پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب ’حکیمانہ کردار‘ پر بحث کرتا ہے جس میں رسولؐ اللہ ، صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور عبقری شخصیات کے حکیمانہ کردار کو پانچ فصول میں الگ الگ بیان کیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے کردار کو قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت کے دو مراحل میں تقسیم کرکے بیان کیا گیا ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے ساتھ حکیمانہ کلام کے تحت ملحدین، مشرکین، اہلِ کتاب اور اہلِ اسلام کے ساتھ دعوتی گفتگو ،مباحثہ و مکالمہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ غیرمسلم مخاطبینِ دعوت کے ساتھ گفتگو کے لیے خاص طور پر اور اہلِ اسلام کے ساتھ خطاب دعوت کے لیے عمومی طور پر رہنمائی دی گئی ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اسے بھی دو فصول: ۱-کفار کے خلاف قوت کا حکیمانہ استعمال، اور ۲- عاصی اہلِ اسلام کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو شرعی نصوص اور دلائل و نظائر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حدود و تعزیرات کے حکیمانہ نفاذ اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال میں حکمت سے  کام لینے کے حوالے سے دلائل کو جمع کیا گیا ہے۔

مصنف ِ کتاب نے ’حکمت ِ دعوت‘ کو جس جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا ہے، اس کی بناپر یہ کتاب دنیا بھر کے حلقاتِ دعوت کی بنیادی ضرورت قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اُردو کے دعوتی ادب میں قیمتی اضافہ ہے۔ مترجم نے کتاب کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی قابلِ قدر سعی کی ہے، تاہم ترجمے میں عربیت کا رنگ متعدد مقامات پر نظر آتا ہے۔بنیادی اور مستند مصادر سے ماخوذ ہونے کی بناپر یہ کتاب کارکنانِ دعوت کی ناگزیر ضرورت قرار دی جانی چاہیے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو نہ صرف دعوتی وسائل اور ذرائع سے آگاہ کرتا ہے بلکہ دین کے وقیع اور مستند علم سے بھی بہرہ ور کرتا ہے۔(ارشاد الرحمٰن)


کلید ِ جنت، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات:۳۰۳۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

’جنت‘ اور ’جحیم‘ قرآن مجید کی دو ایسی اصطلاحات ہیں جو انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی  رضا وناراضی کا استعارہ ہیں۔جس تفصیل سے جحیم (جہنم) کی ہولناکیوں کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر جنت کی خوش گواریوں کی داستان قرآن بیان کرتا ہے۔ کلیدِ جنت، جنت اور متعلقاتِ جنت پر بحث کرتی ہے۔ پہلا حصۂ کتاب میں جنت کے طبعی خواص کے علاوہ ایسے منفرد عنوانات پر بحث کی گئی ہے جو بالعموم اُردو زبان میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے اشکالات کی وضاحت بھی آگئی ہے جو بعض جدید ذہنوں میں اُلجھن کا باعث بنتے ہیں۔  جنت کی خوش خبری پانے والے خوش نصیب صحابہؓ و صحابیاتؓ کی بڑی تعداد کا تذکرہ یک جا طور پر یہاں آگیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں عربی متن، ترجمے اور تشریح کے ساتھ اُن احادیث کو درج کیا گیا ہے جن میں مختلف اعمالِ جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اعمالِ جنت کا یہ مجموعہ  ضخیم ذخیرۂ احادیث سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہربات کو قرآن، حدیث اور دیگر نصوص کے مستند حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

جنت کی زندگی کے طبعی اصول اور اہلِ جنت کی کیفیات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حجراسود، مقامِ ابراہیم، تابوتِ سکینہ، دریاے نیل، فرات، سیہون، جیحوں، عجوہ کھجور، ریاض الجنۃ اور منبر رسولؐ وہ جنتی چیزیں ہیں جو دنیا میں موجود ہیں۔ انفرادی طور پر بشارت پانے والوں میں ۷۸صحابہؓ اور ۲۰صحابیاتؓ کا تذکرہ ہے۔ اجتماعی طور پر بشارتیں پانے والوں میں عہدرسالت،قبل از رسالت اور بعد از رسالت کے متعدد گروہوں کا تذکرہ شامل ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق پر مشتمل اُن اعمالِ صالحہ کا مرتب بیان بھی ہے جو جنت میں داخلے کا سبب بتائے گئے ہیں۔ یہ کتاب وسعت ِ علم، حکمت ِ بیان اور احاطۂ موضوع کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے اور ایک وقیع انسائی کلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہرمتمنی جنت کو ایک بار اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)


رسول اکرمؐ کی رضاعی مائیں، ڈاکٹر پروفیسر محمد یٰسین مظہرصدیقی۔ ملنے کا پتا: ملک اینڈ کمپنی،   رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔صفحات:۱۶۸۔ قیمت: درج نہیں۔

حضور اکرمؐ کی سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپؐ کی شخصیت و کردار کی متعدد جہتیں ایسی ہیں جو کتابوں میں بہت مختصر طور پر مذکور ہیں۔ ان میں ایک موضوع آپؐ  کی رضاعت ہے۔

زیرنظر کتاب میں ایسی خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں تھوڑے یا زیادہ وقت کے لیے حضوراکرمؐ کو دودھ پلانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بچوں کو ان کی والدہ محترمہ کے سوا، دوسری خواتین سے دودھ پلانے کی روایت عربوں میں موجود تھی۔اس لیے حضرت عبدالمطلب نے بطورخاص حلیمہ سعدیہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے بیٹے عبداللہ کے صاحبزادے محمدؐ کو دودھ پلائے۔ جب حضرت حلیمہ نے بچے کو لے جانے کی ہامی بھری تو عبدالمطلب کا چہرہ خوشی سے تمتا اُٹھا۔

زیرتبصرہ کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضور اکرمؐ کو دودھ پلانے والی خواتین میں ان کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے علاوہ دو اور خواتین بھی تھیں۔ حضرت آمنہ کے بعد حضرت ثویبہ اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ کا نام آتا ہے۔ ان تین خواتین کے علاوہ اگرچہ دیگر خواتین کا تذکرہ بھی سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں کیا گیا ہے لیکن ان کی رضاعت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ بعض مصنفینِ سیرت نے ۱۰ خواتین کا تذکرہ کیا ہے اور بعض سیرت نگاروں نے   آٹھ خواتین کا ذکر کیا ہے۔ زمانۂ رضاعت کے لحاظ سے حضرت حلیمہ سعدیہ نے زیادہ عرصے تک نبی اکرمؐ کی رضاعت کی۔ اسی دور میں معجزۂ شق صدر رُونما ہوا۔ مصنف نے قدیم تاریخی مآخذ اور احادیث کی معتبر و مستند کتابوں کے حوالے سے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے۔

مصنف کا اسلوبِ بیان عالمانہ انداز کا ہے۔ کتاب میں عربی کے ثقیل الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن مفہوم سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ باریک بینی سے تحقیقی ضابطوں کے مطابق ایک نادر موضوع پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ یہ کتاب سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ (ظفرحجازی)


غبارِ رہِ حجاز، محمد رفیق وڑائچ (دانش یار)، ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۰۴۲۳۵۴۳۲۴۷۶-  صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۳۸۵ روپے۔

رہِ شوق کے مسافروں کا سفر صدیوں سے جاری ہے۔ ان میں سے کچھ اہلِ قلم نے سولھویں صدی میں حرمین شریفین کے سفرنامے لکھنے کا آغاز کیا اور ان سفرناموں نے مسافروں کی جستجو اور ذوق و شوق میں مزید اضافہ کیا۔ اب تاریخ، جغرافیہ، سماجیات اور ثقافت کے علاوہ افسانہ و ناول کی ادبی چاشنی کے یک جا ہونے سے یہ سفرنامہ دورِحاضر کی مقبول ادبی صنف بن چکا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مصنف کا ایک سفرنامہ حرمین شریفین میں کے نام سے چند سال پہلے منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے اپنے احساسات اور مشاہدات کو اسی اسلوب میں قلم بند کیا۔ زیرتبصرہ سفرنامے میں بھی مصنف نے محبتوں، عقیدتوں اور قلبی و ارادات کا ذکر اثرانگیز پیراے میں کیا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے، موضوعات کے تنوع اور تحریر کی پختگی نے اسے اور زیادہ وقیع بنادیا ہے۔

یہ ایک سفری دستاویز بھی ہے اور زنبیل بھی جس میں مسافر نے اپنی شب و روز کی مصروفیات، تشنہ لبی اور عقیدتوں کو ادبی پیراے میں بیان کیا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ مستند حوالوں سے، اختصار کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ سعودی عرب کی معاشرت، آلِ سعود کی اقتدار کے لیے تگ و دو اور سلطنت کے حُسنِ انتظام، سیاسی نظام، معیشت ، ریل، آبی وسائل، شاہراہوں، بندرگاہوں، ٹیلی کمیونی کیشن، تیل کے دریافت کی کہانی، عرب لیگ اور دیگر بہت سے موضوعات پر قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ سفرنامے میں سیماب پائی کیفیات اور تاریخ و جغرافیہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ کتاب میں طائف کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی وادی کے احوال و آثار کا ذکر ایک خاصے کی چیز ہے۔

اُمید ہے مناسک حج و عمرہ کے لیے جانے والوں اور سعودی عرب کے احوال جاننے کے خواہش مند حضرات کے لیے یہ سفرنامہ ایک رہنما اور مہمیز کا کام دے گا۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


خطباتِ پاکستان، مؤلف : مولانا سید جلال الدین عمری، ترتیب و تدوین : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔  ناشر : منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔صفحات :۱۹۰۔ قیمت :۹۶ ۱ روپے۔

خطباتِ پاکستان مولانا سید جلال الدین کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو اپنے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر انھوں نے مختلف دینی، تحریکی اور علمی مجالس میں ارشاد فرمائے۔ مولانا  سید جلال الدین عمری جماعت اسلامی ہند کے امیر، معروف دینی سکالر اور جید عالم دین ہیں۔  ممتاز محقق، خطیب اور صاحب ِطرز مصنف ہیں۔قرآن و سنت اور جدید علوم و افکار ان کا خاص موضوع ہیں۔ اسلوب کی انفرادیت ،موضوع کا تنوع ،منفرد طرز استدلال اور زبان و بیان کی شگفتگی ان کی تحریر کے نمایاں اوصاف ہیں۔

خطبات پاکستان ان کے دو اسفارِ پاکستان کی رُودادوں اور اس دوران مختلف مجالس اور سیمی ناروں میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ان خطبات میں ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے جامع اور وسیع تر تناظر میں بات کی گئی ہے جس میں تحریک اسلامی ،اقامت دین اور اس کے علمی و عملی تقاضے ، احیاے اسلام کی مختلف تدابیر ، غلبۂ اسلام کی جد وجہد اور اس کی جہتیں ،ذاتی اصلاح و تربیت ، ہندستانی مسلمانوں کے حالات، مشکلات و مسائل ،اہم شخصیات کا تعارف ، پاکستان کے حالات، دینی و تحریکی حلقوں کی سرگرمیاں اور جماعت اسلامی ہند کا تذکرہ شامل ہے۔ اخبارات و رسائل کو دیے گئے مختلف انٹر ویو بھی کتاب کاحصہ ہیں۔ خطبات پاکستان ایک صاحب دل بزرگ کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے جس سے پاکستان اور ہندستان میں اسلامی تحریک کا کام کرنے والوں کے لیے قیمتی نکات اور عمدہ لوازمہ فراہم ہو گیاہے۔(عمران ظہور غازی)


خدا کی بستی میں، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی۔ ناشر: القلم پبلی کیشنز، ٹرک یارڈ، بارہ مولہ-۱۹۳۱۰۱۔ [مقبوضہ] کشمیر۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت: ۱۲۵ روپے۔

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (شعبۂ علوم اسلامیہ) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے زیرنظر سفرنامے کا نام، ترقی پسند ادیب اور جانگلوس کے مصنف شوکت صدیقی (م: ۱۸دسمبر ۲۰۰۶ء) کے معروف ناول خدا کی بستی کی یاد دلاتا ہے (صدیقی کا عبرت ناک تعارف، ابوالامتیاز ع س مسلم کی خودنوشت لمحہ بہ لمحہ زندگی میں ملتا ہے)، مگر ناول اور سفرنامے کے نام میں جزوی مماثلت ارادی نہیں، غالباً اتفاقی ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کے دو سفروں (۱۹۸۸ء اور ۲۰۱۱ء) کی یہ رُوداد زیادہ تر افراد و اشخاص (اساتذہ، پروفیسروں، ریسرچ اسکالروں، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے وابستگان اور مصنف کے ہمراہ بھارت سے آنے والے مندوبین سیرت سیمی نار) کے گرد گھومتی ہے۔ فلاحی صاحب نے ہر ایک کا تعارف (مع تواریخ ولادت و فہارسِ تصانیف) کرادیا ہے۔ ان شخصیات میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا گوہررحمن، ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، پروفیسر خورشیداحمد، خرم مراد (متعلقہ باب کا عنوان: خرم مراد کا جادو)، ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر انیس احمد قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے بارے میں ضروری معلومات بھی ہیں اور تصانیف سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ تقریبِ ملاقات کا ذکر ہے جس میں موضوع نسیم حجازی تھے۔ دعوہ اکیڈمی کی بچوں کی کتب کی فہرست بھی موجود ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ قارئین کو اس بستی میں ہونے والی تحریکی علمی سرگرمیوں سے اور شخصیات سے خوب اچھی طرح واقف کرا دیں۔

لاہور کے جس ناشر نے بلااجازت مصنف کی کتاب شائع کی، اس کی ’بے شرمی اور ڈھٹائی‘ کے ذکر کے ساتھ مجلہ نقوش کے جاوید طفیل کے حُسنِ سلوک کا اعتراف کیا ہے اور یہ بھی کہ ’’لاہور میں۸،۹ دنوں کی اقامت، تفریح اور علمی و ادبی مصروفیات نے ذہنی آسودگی عطا کی تو فکری فارغ البالی اور علمی سیرابی بھی ہوئی‘‘۔ اسی طرح لاہوری ناشتے کا ذکر: ’’گرم جلیبی، پٹھورا اور اس پر کم از کم ایک لیٹر لسّی، آسودہ حال ہوجاتے‘‘۔(ص ۸۷)

آخری باب: حق گوئی قابلِ تحسین اور ’’امن، دوستی، شانتی‘‘ کی خواہش بھی بجا مگر پلٹ کر دیکھیے کہ کشمیریوں سے جو سلوک کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر دوستی اور شانتی کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے؟ ___ بہرحال لکھنے والا عالم ہے، اس لیے اِسے ایک علمی سفرنامہ کہنا بے جا نہ ہوگا جو معلومات افزا ہے اور دل چسپ بھی۔(رفیع الدین ہاشمی)


۲۱؍ اسلامی انقلابی شخصیات (تعارف، کارنامے، ملّی خدمات)، انجینیرمختار فاروقی۔ ناشر: قرآن اکیڈیمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، جھنگ۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے ان ۲۱ مجاہدعلما، فقہا، عادل حکمرانوں اور جدید تعلیم یافتہ دردمند رہنمائوں کا تعارف اور ان کی جدوجہد کا تذکرہ کیا ہے جنھیں ملت ِ اسلامیہ کی تجدید و   احیاے دین کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان مردانِ کار نے اپنے اپنے عہد میں مسلمانوں کی آزادی، حُرمت کی خاطرلڑنے اور علمی خدمات انجام دینے میں امتیازی حیثیت سے کام کیا۔    غلبۂ اسلام کے لیے ان عادل اور خداترس حکمرانوں نے باطل سے ٹکرلی اور اللہ کے حکم کے مطابق اصولِ جنگ کی پاسبانی کی۔ ان عظیم اہلِ علم اور مجاہد حکمرانوں میں سے چند ایک کے اسماے گرامی یہاں دیے جاتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابوحنیفہؒ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، اورنگ زیب عالم گیرؒ، شاہ ولی اللہؒ ، سلطان ٹیپوؒ، مولانا محمود حسنؒ اور علامہ اقبالؒ۔

مصنف نے ان تجدیدی کارناموں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ، ان چودہ سو برس میں یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی کارناموں کے علاوہ بعض علما کی تزکیۂ نفس کے لیے کی گئی کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔اُمید ہے اس کتاب کی اشاعت ثانی میں پروف خوانی میں محنت اور توجہ سے کام لیا جائے گا۔(ظفرحجازی)


تعارف کتب

  •   اربعینِ حسینؓ، عبداللہ دانش۔ ناشر:مرکزالحرمین الاسلامی، ستیانہ روڈ، فیصل آباد۔ فون: ۳۰۱۰۷۷۷-۰۳۱۴۔ صفحات: ۱۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔[ایسی ۴۰ روایات کا مجموعہ جن کا تعلق براہِ راست یا بالواسطہ امام حسینؓ سے ہے۔ ان میں فضیلت ِ حسین ؓ، اہلِ بیت کے اعزاز، شہادتِ حسینؓ اور اس سے متعلق بعض تفصیلات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان روایات میں احادیث ِ رسولؐ، آثار، اقوال، حکایات اور تاریخی بیانات کو شامل کر کے ۴۰کی تعداد  پوری کی گئی ہے۔ تمام روایات کے بارے میں حدیث ہونے کا تاثر دیا گیا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب آرٹ پیپر پر خوب صورت سرورق کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔]
  •  آدم (انسان) اور شیطانِ لعین، انجینیرمحمد امان اللہ سدید۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی،  ملنے کا پتا: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات:۱۸۶۔ قیمت:۱۵۰ روپے۔[قرآنی آیات کی روشنی میں واقعۂ آدم اور شیطان کے زیرعنوان تخلیق آدم ؑ، تعلیم آدم ؑ، آدم ؑ کے لیے حکم سجدہ، آدم ؑ کی رہایش جنت اور ہبوطِ آدم ؑ کے ذکر کے بعد شیطان کی حیثیت، کردار اور فریب کاریوں اور چالوں کا تذکرہ ہے۔ آخر میں شیطان سے حفاظت کی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ عمومی انداز میں شیطان کے کردار کو بیان کر کے اس سے محفوظ اور ہوشیار رہنے کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔]
  • محمد منصورالزمان صدیقی (تذکرہ و سوانح اور آثار و افکار)، تالیف:مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۳۶۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [محمد منصور الزمان صدیقی، صدیقی ٹرسٹ کراچی کے بانی و صدر نشین ہیں جو دعوت و اشاعت دین اور خدمت خلق کے حوالے سے ایک معروف اور قدیم ٹرسٹ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب صدیقی صاحب کے احوال و سوانح اور ان کی تبلیغی و دعوتی اور خدمت ِ خلق کے حوالے سے جدوجہد پر مبنی ایمان افروز تذکرہ ہے۔ صدیقی ٹرسٹ کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں روپے کے اثاثوں سے مساجد و مدارس کا قیام، مختلف زبانوں میں دعوتی و تدریسی کتب کی ترسیل، طبی اور رفاہی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ نام و نمود، شہرت اور پبلسٹی سے بے نیاز منصورالزمان صدیقی کی خدمات اور صدیقی ٹرسٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ محدود وسائل اور اخلاص سے کیا جانے والا کام برگ و بار لاکر رہتا ہے۔ ]
  • رہنماے تجوید،مرتب:قاری محمد سعید الدین محمد شرف الدین ۔ملنے کا پتا :شفیق پرنٹنگ پریس، اُردو بازار کراچی۔ فون: ۲۰۳۷۷۲۱-۰۳۲۱۔صفحات: ۱۲۲۔قیمت: درج نہیں۔[قرآن کریم کی درست تلاوت اور علم التجوید سے آگاہی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مطہرہ میں قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے مزین کرنے اور درست تلفظ کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ۔ کتاب میں علم التجوید کے تعارف کے بعد حروف کے مخارج اور صفات حروف کا ذکر کیا گیا ہے اور وقف و ابتدا اور مد و قصر کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں، نیز تلاوت کی خوبیاں اور عیوب بتائے گئے ہیں۔ آخر میں قرآن کریم کے سات حروف اور قراء توں کے حوالے سے مفتی محمد شفیع ؒ کی تحریر شامل اشاعت ہے۔ بحیثیت مجموعی مبتدی طلبہ وطالبات کے لیے مفید کتاب ہے۔ مخارج کی وضاحت کے لیے تصاویر(diagrams)بھی دی گئی ہیں۔]
  • صحیح خطباتِ رسولؐ، الشیخ ابراہیم ابوشادی، مترجم: ابوانس محمد سرور گوہر۔ ناشر: دارالکتب السلفیہ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔[زیرنظر مجموعے میں صحیح احادیث سے سیرت النبیؐ کا ایسا مرقع تیار کیا گیا ہے کہ ان کی روشنی میں روزمرہ کے تقریباً سبھی معمولات اسوئہ نبویؐ کے مطابق سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ جن احادیث میں یہ وضاحت تھی کہ حضور اکرمؐ کا یہ کلام خطبہ تھا، صرف انھی احادیث کو مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا گیا ہے۔ چند ایک عنوان یہ ہیں: تمھارا رب ایک ہے، رسولؐ اللہ اپنے صحابہؓ کو نماز کی تعلیم فرماتے، ہلکی نماز پڑھانے کا حکم، زکوٰۃ اور صدقات، روزہ، حج، جنائز، جہاد، قرآن کریم اور اس سے وابستگی، فتح مکہ کے دن کا خطبہ۔ زیرنظر کتاب عربی سے اُردو میں ترجمہ ہے۔ ترجمہ عام فہم اور رواں ہے ۔]

 

ایسے حالات میں جماعت اسلامی کی رہنمائی میں عوام جو دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، وہ تاریخ میں ایک انوکھے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی اختیاراتِ نمایندگی جن لوگوں کے قابو میں آگئے ہیں   وہ سیکولرزم کی صہبا کے سرمست ہیں اور ان کے سینوں میں مصطفی کمال بننے کے ارمان برابر چٹکیاں لیتے رہتے ہیں، لیکن راے عام اُن کے عزائم کا ساتھ دینے پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی کبھی تیار نہیں ہوئی۔  دوسری طرف جماعت اسلامی ہے جو اگرچہ قوم کے مناصب ِ نمایندگی اور اختیارات کی طاقت سے محروم ہے لیکن جس نظریہ و نظام کو وہ پیش کر رہی ہے، راے عام اس کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ گویا حکمران طاقت کا رُخ مغرب کی طرف ہے تو راے عام کا رُخ مشرق کی طرف! دونوں میں کش مکش ناگزیر ہے۔ ایسے حالات میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکمران اور نمایندہ طاقت یا تو دلائل کے زور سے   راے عام کو مطمئن کرلے جاتی، یا پھر عوام کے مطالبے کی معقولیت کو مانتی اور ان کے پسندیدہ نظریہ و نظام کی حقانیت پر صدقِ دل سے ایمان لاکر اپنی روش کو بدل لیتی.....اب ہو یہ رہا ہے کہ راے عام کی طاقت سے جماعت اسلامی دبائو ڈالتی جاتی ہے اور حکمران اور نمایندہ طاقت چار و ناچار دستورسازی کے راستے پر ایک ایک قدم اسلام کی طرف اُٹھاتی جاتی ہے۔

اس سیاسی ’آنکھ مچولی‘ کے ذریعے گذشتہ سال کے عرصے میں جو کام ہوا ہے اس کے نتائج کا   ہم جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی حوصلہ افزا نظر آتے ہیں۔ دستوری رپورٹ کا جو حصہ پاس ہوچکا ہے وہ  بہ حیثیت مجموعی اس بات پر گواہ ہے کہ اس ملک میں اسلام کو چاہنے والے عناصر نے لادینیت کو پسند کرنے والے عناصر کے مقابلے میں بڑی نمایاں فتح پائی ہے.....

اس کامیابی کا سہرا تنہا جماعت اسلامی کے سر نہیں، بلکہ اس مہم میں جن مختلف تنظیموں اور مختلف افراد نے عوام کی تمنائوں اور جذبوں کا ساتھ دیا ہے وہ سب اس کامیابی کے کریڈٹ میں حصہ دار ہیں اور اس کامیابی کا اصل کریڈٹ وہ ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاصل ہو۔(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۳، ربیع الاول ۱۳۷۳ھ، دسمبر ۱۹۵۳ء، ص ۴-۵)