بسم اللہ الرحمن الرحیم
بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا ___ امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو کچھ ستمبر ۲۰۰۱ء میں کیا تھا، وہی کردار جولائی ۲۰۱۲ء میں آج کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ہزار کہہ مکرنیوں کے ساتھ ادا کر کے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگائی ہے۔پرویز مشرف نے بھی ’قومی مفادات‘ کا راگ الاپا تھا اور آج کی حکومت اور اس کے میڈیا کے ہم نوا بھی یہی کچھ دہرا رہے ہیں۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ اس عبرت ناک پسپائی کو ’ایک سوپر پاور کو معذرت کے اظہار پر مجبور کرنے‘ اور ’۵۰ممالک سے تعلقات نہ بگاڑنے‘ کا نام دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس قیادت کے ہاتھوں پاکستان کی آزادی، عزت اور حیثیت کا جوط حشر ہوا ہے وہ بین الاقوامی محاذ پر ’جوتے اور پیاز‘ دونوں کھانے کی بدترین مثال ہے___ فاعتبروا یااُولی الابصار!
امریکا نے جس طرح بلیک میل کرتے ہوئے پاکستان کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف نام نہاد جنگ میں گھسیٹا وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان نے جو جو نقصانات اُٹھائے اورتمام تر نقصانات اُٹھانے کے باوجود امریکا نے جس جس طرح پاکستان کو ذلیل وخوار کیا، اس کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء وہ فیصلہ کن سال بن گیا جس نے دونوں ملکوں کے جدا راستوں کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھا۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکا کا جارحانہ حملہ اور اس میں پاکستانی مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت نے پاکستان اور امریکا کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں تعاون کے رشتے کو تارتار کر دیا۔ قوم نے سوگ و الم اور غصے اور انتقام کے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ایک باوقار، اور متوازن ردعمل کا اظہار کیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ناٹوسپلائی کے فوری طور پر معطل کرنے، شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا اور دوسرے فوجی اور نیم فوجی آپریشن میں دی گئی سہولتوں کی واپسی کی شکل میں اس کی تائید کی۔ نیز سب سے اہم چیز یہ طے کی کہ: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف اس کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کے کردار کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور پارلیمنٹ سے اس سلسلے میں واضح رہنمائی لی جائے۔ اس طرح پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک ایسا تاریخی موقع حاصل ہوا جس کی روشنی میں وہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرسکے اور مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی اور پاک امریکا تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکے۔ لیکن ہماری تاریخ کا یہ ایک الم ناک سانحہ ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے اس تاریخی موقع کو نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا، بلکہ پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مکمل انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، نہ صرف امریکا کی غلامی کے طوق کو دوبارہ پہن لیا، بلکہ عزت و وقار کو اس طرح خاک میں ملا دیا کہ جو کچھ تھوڑی بہت حیثیت باقی تھی، وہ تباہ کی اور امریکا سے تعلقات کو برابری، مفادات کی پاس داری اور توازن کی سطح پر لانے کا جو سنہری موقع ملا تھا وہ بھی اپنی حماقت سے ضائع کر دیا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ۱۹۵۰ء ہی سے غیرمتوازن رہے ہیں اور بار بار تنائو، تصادم اور بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ چار بار امریکی امداد بند ہوچکی ہے اور تین بار عملاً پابندیاں بھی لگ چکی ہیں، لیکن ہربار کسی نہ کسی بیرونی عالمی دبائو کی وجہ سے تعلقات پھر استوار ہوگئے ہیں۔ گو کبھی بھی ا ن میں حقیقی اعتماد باہمی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیشہ وہ وقتی مصلحتوں کے تابع، یا پھر زیادہ سے زیادہ متعین طور پر چند معاملات میں لین دین اور تعاون سے عبارت رہے۔
۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک سخت کھچائو کا عالم تھا اور پاکستان پر ایٹمی دھماکے کی پاداش میں سخت پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ مشرف حکومت کو فوجی آمریت قرار دے کر ایک ناپسندید حکومت کا مقام دیا ہوا تھا، حتیٰ کہ جب امریکی صدر کلنٹن پاک و ہند کے دورے پر آئے اور پانچ گھنٹے پاکستان کی سرزمین پر بھی گزارے، تب بھی پاکستان کی فوجی حکومت سے نفرت کے اظہار کے لیے اس امر کا اہتمام کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کی تصویر تک نہ بننے پائے۔ ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے خونیں اور اور اَلم ناک حادثے نے اور مشرف کے اپنے اقتدار کے لیے سندِجواز حاصل کرنے کے کھیل نے امریکی صدر بش اور مشرف کو دوستی اور تعاون کے ایک نئے جال میں پھنسا دیا، اور اس کے بعد کے ۱۱ سال ہماری قومی زندگی کے تاریک سال بن گئے۔
جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے، اس نے پہلے دن سے اس جنگ کو صرف امریکا کی جنگ قرار دیا، اور ایک ایسی جنگ سمجھا جو امریکا نے افغانستان کے ساتھ پاکستان اور پھر عراق پر اپنے مخصوص مفادات کے حصول اور علاقائی عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے مسلط کی تھی۔ جنرل مشرف کو نہ صرف دھونس، دھمکی، دبائو اور لالچ کے ذریعے اس میں اپنا شریکِ کار بنایا، بلکہ پاکستان کی سرزمین اور اس کی فضائی حدود کو پاکستان کے ایک برادر ہمسایہ مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ: جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے، ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا اور خود پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی۔ پاکستان کے ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور ۶ہزار سے زیادہ فوجی اور دوسرے سرکاری اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ خونیں ڈراما جاری و ساری ہے۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ملک میں امن و امان تباہ اور نظم و نسق کا حال پراگندہ ہے۔ معاشی اعتبار سے جو ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بنا رہا تھا زوال و انحطاط اور بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، توانائی اور پانی کی شدید قلت ہے، سرمایہ کاری رُوبہ زوال ہے اور ملک سے سرمایے کی منتقلی روزافزوں ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق جنگ میں شرکت کے پہلے آٹھ برسوں میں ملک کو ۶۸؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں اگر مزید تین برسوں کے خسارے کو شامل کیا جائے تو یہ رقم ۱۰۰؍ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ معاشی نقصان شامل نہیں جو ہزاروں افراد کے ہلاک، زخمی اور بے گھر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ نیز ملک کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے اور اس کی تباہی میں ناٹو کو سپلائی فراہم کرنے والے ہرماہ ۶ہزار سے زیادہ ٹرکوں کی آمدورفت ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ سپلائی افغانستان پر امریکا اور ناٹو کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فراہم کی جاتی رہی ہے اور جسے خود ملک میں اسلحے اور دوسری اشیا کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
یہ تمام نقصانات اور مصائب و آلام اپنی جگہ، لیکن اس زمانے میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ عملاً امریکا کا عمل دخل ہماری اجتماعی زندگی میں اتنا بڑھ گیا کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑگئی۔ پاکستان کی سرزمین کو عملاً امریکا نے اپنا بیس کیمپ (base camp) بناڈالا۔ ہوائی اڈے قائم کیے گئے، ٹریننگ کے نام پر فوجوں کی ایک فوج ظفر موج یہاں براجمان ہوگئی اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ فوجیوں کی برسرِعام موجودگی منفی ردعمل کا ذریعہ بن رہی ہے، تو پھر ایک محدود تعداد میں فوجیوں کو باقی رکھتے ہوئے جاسوسی، تخریب کاری اور دوسری سرگرمیوں کے لیے نیم عسکری اہل کاروں کو بڑی تعداد میں لے آئے اور خود پاکستان سے کرایے کے مددگارحاصل کیے ۔ امریکا کی اس نوعیت کی موجودگی کا اعتراف بڑے کھلے الفاظ میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائرکٹر لیون پینٹا نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ ایک اجلاس میں ان الفاظ میں کیا ہے:
اصل متبادل راستہ یہ تھا کہ خفیہ جنگ کو بہت بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے۔دہشت گردی کا تعاقب کرنے والی ٹیموں ( CTPT) کے ۳ہزار افراد اب پاکستان کی سرحد کے پار کارروائیاں کر رہے تھے۔ (ملاحظہ کیجیے:Obama's Wars: The Inside Story ، باب وڈورڈ، ص ۳۶۷)
یہی وہ امریکی اہل کار اور ان کے پاکستانی معاونین تھے جو ڈرون حملوں کے لیے خفیہ معلومات فراہم کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، ۲مئی کو ایبٹ آباد پر حملہ، اور پھر ۲۶ نومبر کا سلالہ پر حملہ___ یہ سب ایسے تکلیف دہ واقعات تھے جنھوں نے پاکستان کی قیادت کو مجبور کیا کہ ناٹو کی سپلائی کا راستہ بند کریں، شمسی ایئربیس خالی کرائیں اور امریکا سے اس جنگ کے سلسلے میں تمام تعلقات اور امور پر نظرثانی کریں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ تمام اُمور کا جائزہ لے کر اور خارجہ، داخلہ، اور دفاعی شعبوں کے ذمہ داروں سے ضروری معلومات اور تفصیل (بریفنگ) لے کر نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرے۔ امریکا کی جارحانہ کارروائیوں نے سفارتی تعلقات پر یکسر نظرثانی کرنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کردیا تھا اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی اور دینی قوتوں نے متفقہ طور پر ایک نیا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا___ سارے وعدے وعید کے علی الرغم صدر زارداری، وزیراعظم پرویز اشرف، جنرل پرویز کیانی، اور پورے حکمران ٹولے نے ایک بار پھر وہی پسپائی اور امریکا کی غلامی کا راستہ اختیار کرلیا ہے جو مشرف نے ۱۱سال پہلے اختیار کیا تھا اور اپنی آزادی، حاکمیت، قومی عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے بھرپور تحفظ کا جو موقع تاریخ نے دیا تھا، اسے ضائع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اس شرم ناک اور اَلم ناک پسپائی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ لیکن بات محض ماتم کی نہیں احتساب، جواب دہی، غلامی سے نجات کی جدوجہد اور قیادت کی تبدیلی کی ہے تاکہ ملک و قوم ذلت کی اس زندگی سے چھٹکارا پاسکیں اور پاکستان کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، قوم ایک بار پھر اس کے حصول کی طرف گامزن ہوسکے۔
نیویارک ٹائمز کے چیف نمایندے ڈیوڈ ای سانگر کی ایک بڑی اہم کتاب Confront And Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power چند ہفتے پہلے شائع ہوئی ہے جس کا موضوع صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا جائزہ ہے۔ اس میں نائن الیون کے بعد کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور امریکا کی افغان جنگ اور خصوصیت سے بن لادن کے سلسلے میں ایبٹ آباد کے حملے کے اصل حاصل کو متعلقہ باب کے عنوان میں پانچ لفظوں میں یوں سمیٹ دیا ہے: Getting Bin Ladin, Losing Pakistan۔
موصوف نے اس امر کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ اس پوری جنگ میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ نہ امریکا ہے اور نہ افغانستان، نہ القاعدہ اور نہ طالبان___ وہ بدقسمت ملک پاکستان ہے جو علاقے کی اس جنگ میں بڑا خسارے کا سودا کرنے والا ملک ہے۔
امریکا نے پاکستان سے کس طرح معاملات طے کرائے ہیں، اس کا کھلا اعتراف ڈیوڈ سانگر نے بھی دوسرے سیاسی مبصرین اور سفارت کاروں کی طرح صاف الفاظ میں کیا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں بھی پاک امریکا تعلقات کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ یا تو طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دے یا واشنگٹن کا۔ اپنے سر پر بندوق لگی دیکھ کر پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے وہی کیا جو کرسکتا تھا اور اس کا ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔
۲۰۱۲ء میں ایک مختلف دنیا کا سامنا کرتے ہوئے امریکا اس حکمت عملی کو اُلٹ رہا ہے۔ افغانستان میں مستقل موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز کو اور ڈرونز کو پلیٹ فارم مل جائے، جہاں سے وہ علاقے میں کہیں بھی جاسکیں۔ اگر القاعدہ دوبارہ جان پکڑتی ہے، یا کوئی ایٹمی اسلحہ کسی کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ پاکستان کے اندر حملہ کریں، یا اگر افغان حکومت کو زوال آتا نظر آئے، یا اگر ایران سے معاملہ کرنا پڑے تو کابل میں موجودگی بہت کام آئے گی۔ ابوظبی میں جنرل کیانی کو ڈونی لون کے پیغام کا اصل مرکزی نکتہ یہ تھا۔کم از کم امریکا کے لیے یہ درست اسٹرے ٹیجک تصور ہے۔ (ص۱۲۹-۱۳۰)
پاکستان کی حاکمیت، سرحدوں کے احترام اور پاکستان کی سرزمین پر یک طرفہ فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکا نے پاکستان کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔ سانگربجاطور پر تسلیم کرتا ہے کہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد حملے کے پانچ ماہ بعد، جس کی وجہ سے پاکستان، پاکستانی فوج اور خود جنرل کیانی سب سے بڑی ذلت (humiliation) سے دوچار ہوئے ہیں، اور سلالہ حملے سے صرف ایک ماہ پہلے، یعنی اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ابوظہبی میں امریکی صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ٹام ڈونی لون (Tom Donilon) نے منہ در منہ کہہ دیا تھا کہ امریکا اپنے مفاد میں اگر پاکستان کی حدود میں کارروائی ضروری سمجھے گا تو ضرور کرے گا۔ سانگر لکھتا ہے:
پھر آخری بات آئی: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ہم سے ضمانت چاہتے ہو کہ (بن لادن والے واقعے کی طرح) ہم تمھارے ملک میں آیندہ یک طرفہ آپریشن نہیں کریں گے‘‘۔’’یہ ضمانت میں تم کو نہیں دے سکتا‘‘۔
اور دلیل یہ تھی کہ : امریکیوں کا تحفظ امریکا کے صدر کی آخری ذمہ داری ہے۔ (ص ۸)
یہ ہمت کس میں تھی کہ کہے کہ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور پاکستان کی سرحدوں کے تقدس کی پامالی سے روکنے کی ذمہ داری بھی کسی سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے یا نہیں؟
سانگر اعتراف کرتا ہے: پاکستان کے خلاف یک طرفہ ڈرون حملے کیے گئے جو بالکل لغوی مفہوم میں ایک جنگ کا عمل ہیں (ص۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف ہے کہ: عملی مفہوم میں کسی متعین شخص کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور ڈرون کے ذریعے قتل کرنے میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔(ص ۲۵۵)
بین الاقوامی قانون میں کسی غیرمتحارب کا نشانہ زدقتل ایک جنگی جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت کا اصرار ہے کہ دنیا میں جہاں وہ اپنے زعم میں اپنے کسی شہری کے لیے خطرہ محسوس کریں گے تو محض اس اندیشے پر ان کو ڈرون حملے کرنے کا حق ہے۔ پاکستان میں تمام عوامی احتجاج اور اب حکومت اور پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود وہ ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
وائس آف امریکا کی ۶جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق:امریکا کے وزیردفاع لیون پینٹا نے کہا کہ امریکا کا پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دہشت گرد لیڈروں کو ہدف بنانے کا تعلق ہماری خودمختاری سے ہے۔
یہ ۶ جون ۲۰۱۲ء کا ارشاد ہے۔ ۴جولائی کو پاکستان سے سودے بازی کرنے کے بعد ہیلری کلنٹن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے( جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ڈرون حملوں پر خوش نہیں ہیں، اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کی سفارت کاری میں انسانوں کے قتل میں شرکت بھی شامل ہوگی) ۴جولائی کے اعلان کے تین دن بعد ہی فاٹا میں ڈرون حملوں کا دفاع کیا اور ان کے جاری رہنے کی ’نوید‘ سنائی ہے۔
یہ ہے امریکاکا ذہن اور عالمی منظرنامہ جس میں پاکستان کی وزیرخارجہ نے امریکی سیکرٹری خارجہ سے گفتگوکرتے ہوئے ان کے ایک موہوم اور مجہول اظہارِ افسوس اور ہمدردی کے بعد، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے تمام مطالبات کو بالاے طاق رکھ دیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے، اس کے اجلاس سے ۱۲گھنٹے پہلے، ناٹو کے لیے پاکستان کے راستوں کو کھولنے کا مژدہ امریکا کو سنایا، اور اس کے یومِ آزادی پر پاکستان کے مفادات، پارلیمنٹ کی قرارداد اور پاکستانی قوم کے جذبات کو بھینٹ چڑھا دیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پاکستان کی موجودہ قیادت نے یہ قلابازی کب کھائی؟ کھچڑی تو نہ معلوم کب سے پک رہی تھی، مگر اعلان کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے زمین ہموار کرنے کے لیے مئی اور جون میں کارستانیاں شروع ہوگئیں مگر دھیمے سُروں میں، بظاہر مشاورت کا بڑا شور ہے مگر اس کا کوئی ثبوت ۴جولائی ۲۰۱۲ء سے پہلے نہیں تھا۔ البتہ یہ یقین ہے کہ ’کسی‘ نے فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سرکاری ذرائع اور میڈیا کو فضا سازگار بنانے کے لیے ’جہاد‘ میں جھونک دیا گیا۔
اپریل ۲۰۱۲ء تک برابر یہی اعلانات آتے رہے کہ: ’’ملک کی آزادی، خودمختاری، سرحدات کی پاس داری اور حفاظت، قومی عزت و وقار اور پاکستان کے ملکی اور علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور پارلیمنٹ کی قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل ہوگا، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپریل میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا: ’’میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ جو قرارداد آج یہاں منظور کی گئی ہے اس کو الفاظ اور روح کے مطابق نافذ کیا جائے گا‘‘۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
اسلام آباد میں دو روزہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد پاکستان نے امریکی مذاکرات کاروں کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ جب تک امریکا نومبر کے اس حملے کی غیرمشروط معافی نہیں مانگتا، جس میں ۲۴پاکستانی فوجی افغان سرحد کے قریب ہلاک کیے گئے تھے، وہ ناٹو کے قافلوں کو اپنی سرحد سے نہیںگزرنے دے گا۔ اگرچہ اوباما انتظامیہ نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو اس کے مطابق اتفاقیہ تھیں، تاہم پینٹاگان کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں پر برابر کا الزام آتا ہے۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء ، رپورٹ: Richard Leiby and Karen Deyoung)
اس رپورٹ میں (جس کا وقت بھی بہت اہم ہے) اس بات کا بھی اعتراف اور اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے واضح خطوط کار دے دیے ہیں، جن میں ’غیرمشروط معافی‘ کے لیے جو بنیاد بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے: ’’نومبر میں امریکا کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ فائٹروںکا سرحدوں پر بلااشتعال قابلِ مذمت حملہ‘‘۔ اور پھر اس رپورٹ میں پاکستان کے سرکاری ترجمان کا یہ عزم بھی درج ہے کہ:
جب ایک باقاعدہ منتخب جمہوری حکومت تین دفعہ یہ کہتی ہے کہ یہ نہ کرو اور امریکا وہی کرتا رہتا ہے ، تو اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ ان ڈرون حملوں سے دہشت گرد ہلاک ہوسکتے ہیں، لیکن اصل نقصان آزادی اور جمہوریت کا ہوتا ہے۔
پاکستان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر شدت پسندوں پر امریکا کے ڈرون حملے روک دیے جائیں لیکن واشنگٹن نہیں سمجھ رہا۔ حناربانی کھر نے کہا: ’’ڈرون حملوں پر بات واضح ہے، یعنی ڈرون حملوں کا مکمل طور پر ختم ہونا۔ میں اس موقف پر قائم ہوں۔ ہم نے پہلے بھی ان کو بہت واضح طور پر بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں سنتے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی سماعت بہتر ہوگی‘‘۔ (عرب نیوز، ۲۷؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امریکی دوست ہماری خودمختاری اور سرحدات کا احترام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے نہ ہوں اور پاکستان کی سرحدات میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ (دی نیوز، اسلام آباد، ۲۰جولائی ۲۰۱۲ء ، بحوالہ واشنگٹن پوسٹ)
پاکستان سلالہ کے واقعے پر امریکا سے معافی (apology) سے کم کوئی لفظ قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف سے نہ ہٹے گا اور معافی مانگنے سے کم کے لیے کسی دلیل کو قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں سلالہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے۔ (پاکستان ٹوڈے، ۲۰جون ۲۰۱۲ئ)
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اواخر مئی اور جون میں وہ کیا انقلاب واقع ہوا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیرخارجہ، وزیردفاع اور پورے برسرِاقتدار گروہ نے سجدۂ سہو کرڈالا اور ’’تھا جو نا خوب‘‘ چشم زدن میں وہ ’خوب‘ بن گیا؟
ا س سلسلے میں سب سے پہلا شوشا اس وقت کے وزیردفاع جناب احمدمختار نے چھوڑا اور یہ انکشاف فرمایا کہ: ’’رسد صرف زمین کے راستے سے بند ہے، فضائی حدود امریکا اور ناٹو کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور ان پر کبھی پابندی نہیں لگی‘‘۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی قرارداد میں زمینی اور ہوائی ہرراستے کا واضح طور پر ذکر ہے۔ پھر ایک دم کئی وزیروں پر یہ عقدہ کھلا کہ ناٹو اور ایساف میں تو ۴۸ممالک ہیں اور ہم ان سب کی مخالفت کیسے مول لے سکتے ہیں۔ غضب بالاے غضب کہ ان ممالک میں ہمارا دوست ملک ترکی بھی شامل ہے۔ پھر ایک بھرپور مشاعرہ شروع ہوگیااور وزرااور سرکار کا ہم نوا میڈیا یہ راگ الاپنے لگا۔ اس زمانے میں ایک اور موضوع پر سخن طرازی شروع ہوگئی کہ: ’’اصل چیز معافی (apology) ہے۔ ڈرون کا مسئلہ اس سے الگ ہے جس پر جداگانہ بات چیت جاری رکھی جارہی ہے‘‘۔ حالانکہ دونوں میں اصل مسئلہ ملک کی حاکمیت اور سرحدات کی خلاف ورزی کا تھا ، جب کہ خود پاکستانی سفیرصاحبہ نے ۴جولائی کے اعلان سے صرف ۱۴ دن پہلے تک دوسرا موقف اپنائے رکھا۔
پھر اس لَے میں ایک اور لَے یہ شریک ہوگئی کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے جذبات پر نہیں حقائق پر استوار ہوتے ہیں۔ گویا نومبر ۲۰۱۱ء میں ناٹوسپلائی کی بندش، امریکی افواج کے انخلا اور شمسی ایئربیس سے امریکا کی خلاصی وغیرہ تو بس جذباتی فیصلے تھے اور اصل حقائق اب اس قیادت پر کھلے ہیں۔ اور پھر ٹیپ کا یہ بند لگایا گیا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے ، اس کے پاس یہ پیشہ ورانہ مہارت نہیں کہ ایسے معاملات طے کرسکے۔یہ تو صرف انتظامیہ طے کرسکتی ہے۔ یہ بڑی حماقت ہوئی کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا اور اس طرح قیادت ایک مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ وہ جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس اظہارِخیال پر بھی برہم ہیں کہ ’اصل بالادستی دستوراور قانون کی ہوتی ہے اور دستور کے دیے ہوئے اختیارات کے اندر ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند ہے، وہ اب ببانگِ دہل فرما رہے ہیںکہ اس کھڑاگ میں پارلیمنٹ کو اپنی ٹانگ نہیں پھنسانا چاہیے۔
ریکارڈ کی درستی کی خاطر ایک انگریزی اخبار کے اداریے کا یہ حصہ قارئین کی نذر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ اداریہ اس پورے ذہن کا عکاس ہے جو ایک طرف لبرل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دن رات جمہوریت کی دہائی اور آزادیِ صحافت کا واویلا کرتا ہے، لیکن دراصل مخصوص مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں۔ روزنامہ Express Tribune کا ۶جولائی ۲۰۱۲ء کا اداریہ پوری لبرل لابی کے تصورات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اداریے نے قوم کے لیے جو سبق نکالے وہ بھی پڑھ لیں اور اس دانش وری پر سر دُھنیں:
پاکستان کا پھندوں میں خود جاکر پھنسنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کو وہ طویل مدت تک نہیں چلا سکتا۔ مئی ۲۰۱۱ء میں، اس بات کا احساس کیے بغیر کہ باہر کی دنیا کو کیسا لگے گا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر فوج کا صبر جواب دے گیا۔ اور جب نومبر میں سلالہ کاواقعہ پیش آیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور غم و غصے کا اظہار کیاگیاجس کو قومی مفادات کے تحت قابو میں رکھنا چاہیے تھا۔ پھر میڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ غیض و غضب کی کیفیت میں آکر ملک میں انتقام کے جذبات کو پھیلائے۔
دوسری غلط بات یہ کی گئی کہ مسئلے کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا جہاں قومی غیرت کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہونا تھا۔ ریاست کمزور ہو یا مضبوط، اس کی خارجہ پالیسی کو قومی تفاخر کے معاملات سے الگ ہونا چاہیے، تاکہ مدبرانہ سوچ پر عمل کیا جاسکے اور تنازعے سے بچاجاسکے۔
ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ مختلف مبصرین نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تیاری میں دیر لگا رہی ہے۔ یہ انتقام کے اسفل جذبات کے آگے سپرانداز ہوگئی اور اس میں وہ لمحہ گزر گیا جب امریکا پاکستان کے موقف کوتسلیم کرنے پر آمادہ تھا۔
باہمی تنائو کے اس عرصے میں پاکستانی اپنے زیادہ اہم بحران کو بھول گئے اور امریکا کی معافی پر یکسو ہوگئے۔ان کا خیال تھا کہ اس سے خود ہی انتہائی تذلیل ہوگی۔ کیا اس میں پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے؟ ہاں، تین سبق ہیں: غیرت کے جذبات میں نہیں بہنا چاہیے، کیونکہ ریاستیں ایسا نہیں کرتیں۔ سفارت کاری کو پارلیمنٹ کے حوالے مت کرو، کیونکہ اس سے لازماً حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اور چاہے کچھ بھی ہو، خود کو دنیا میں تنہا نہ کرو کیونکہ آج کے بین الاقوامی قانون میں تنہائی شکست کا دوسرا نام ہے۔
حکومت کے نمایندوں اور اس کے ہم نوا پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام ارشادات کا تجزیہ کیا جائے تو چھے نکات سامنے آتے ہیں، جن میں سے ہر ایک نہایت بودا اور تارِعنکبوت کے مانند ہے لیکن انھیں بڑی تعلّی،بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلا دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے اور اس کا درس دیا جا رہا ہے کہ خارجہ اور سلامتی کے امور کے فیصلے جذبات کے تحت نہیں کیے جاتے، ان کے لیے ٹھوس دلائل اور زمینی حقائق کا اِدراک ضروری ہے۔ ہمیں اس اصولی بات سے اتفاق ہے کہ قومی فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو فیصلے بھی قوم کے جذبات، قومی خواہشات، عوام کے عزائم، توقعات اور ترجیحات کو نظرانداز کر کے ہوں گے ان کی اہمیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی عملاً یہ جنگ ہارچکا ہے اور اس کے اتحادی ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ۱۱سال پر محیط اس جنگ میں دنیا کی واحد سوپرپاور نے ۵لاکھ سے زیادہ اعلیٰ ترین ٹکنالوجی اور کیل کانٹے سے لیس فوجی سورما جھونکے اور ۳ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دیے ہیں۔ اس میں نائن الیون کے ۳ہزار ہلاک ہونے والے انسانوں کے انتقام میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں ملاکر ۵لاکھ سے زیادہ افراد موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، مگر چند سو القاعدہ کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ اور جنھیں دہشت گرد کہا جارہا تھا وہ آج درجنوں ممالک تک پہنچ گئے ہیں۔ افغانستان کے ۷۰ فی صد زمینی رقبے پر طالبان کا عمل دخل ہے اور وہ جب چاہتے ہیں کابل کے محفوظ ترین علاقوں پر پانچ حفاظتی حصار توڑ کر یا عبور کر کے اقدام کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جو نقصانات اُٹھا چکا ہے اور اُٹھا رہا ہے، وہ محض جذباتی گلہ شکوہ نہیں، زمینی حقائق ہیں۔
راے عامہ کے امریکی ادارے Pew ریسرچ سنٹر کے تازہ ترین سروے کی روشنی میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو شائع ہوا ہے: ’’پاکستان کی آبادی کا ۷۴ فی صد ۲۰۱۲ء میں امریکا کو ایک دشمن ملک سمجھتا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں یہ تعداد ۶۴ فی صد تھی۔ اور جن کی نگاہ میں امریکا ایک ناپسندیدہ ملک ہے، وہ ۸۰ فی صد ہیں۔ اسی طرح ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے اثرات منفی ہیں۔ ڈرون حملے کی مخالفت کرنے والے ۹۴ فی صد ہیں، جو اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہری ہیں۔
پاکستانی عوام اور خواص کا یہ پختہ یقین ہے کہ امریکا اور پاکستان کے عزائم، اہداف اور مفادات متضاد ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک امریکا کی قیادت بھی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اعتماد میں لینے سے گریز کرتے ہیں اور موقع پاتے ہی چوٹ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس حکومت کو اس کا اِدراک ہو یا نہ ہو، عوام اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور امریکا کے اہلِ نظر اس کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال وہ مضمون ہے جو مشہور امریکی تجزیہ نگار اسکالر اسٹیفن پی کوہن اور معیدیوسف نے مشترکہ طور پر ۲۱جون ۲۰۱۲ء کی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کی اشاعت میں لکھا ہے:
یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان کے شہری اور واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کے معاملات کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہری پاکستان کے لیے امریکی پالیسی پر فوج ہی کی طرح پریشان ہیں۔
اگر پاکستانی قوم امریکا سے دوستی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو وہ حق بجانب ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں امریکا کے جو عزائم اور پالیسیاں ہیں، انھیں پاکستانی قوم اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
امریکا کے بارے میں یہ منفی تصور صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور خصوصیت سے اسلامی دنیا میں بھی ہے۔Pew ہی کے ۱۰جولائی ۲۰۱۲ء کے سروے میں چند مسلمان ممالک میں امریکا پر اعتماد کی جس کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی تعداد ۸۰ فی صد ہے، وہاں ترکی میں ۷۲ فی صد، مصر میں ۷۹ فی صد اور اُردن میں ۸۶ فی صد ہے۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جنھیں امریکا کا دوست ترین ملک کہا جاتا ہے اور جہاں کے حکمرانوں کی امریکی حکمرانوں سے گاڑھی چھنتی ہے۔
ڈیوڈ سانگر جن کا حوالہ ہم اُوپر دے چکے ہیں، مصر کے حالیہ انقلاب کے بعد وہاں کی جو فضا ہے اور جس کا تازہ ترین مظہر ہیلری کلنٹن کے دورے کے موقع پر اسکندریہ کا مظاہرہ تھا، وہاں کی تمام ہی انقلابی ، اسلامی اور سیکولر قوتوں کے بارے میں موصوف کو جو اِدراک ہوا وہ یہ ہے:
ایک مسئلے پر سب کا اتفاق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکا حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مصر کے مسئلے کا حصہ ہے۔راینا نے کہا: ’میں سمجھتی ہوں کہ میں امریکا سے لڑ رہی ہوں‘۔ ’فوج امریکا کی بنائی ہوئی ہے۔ مبارک امریکا کا بنایا ہوا تھا۔ امریکا کی مالی امداد عوام تک نہیںجاتی‘۔
مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ افغانستان میں امریکی جنگ جلداز جلد ختم ہو اور وہاں سے غیرملکی افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، تاکہ افغانستان اور علاقے میں امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ جنگ ختم کرنا اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے سوا جو راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں جو فیصلہ قوم نے کیا تھا اور جس پر قوم کے ہرطبقے کو اطمینان تھا اور جس کی بھرپور تائید برسرِاقتدار جماعتوں اور حزبِ اختلاف نے کی، وہ حقائق پر مبنی تھا محض جذبات پر استوار نہیں تھا۔ اس اقدام کی پارلیمنٹ نے قوم کے جذبات اور پاکستان کے مفادات اور عزائم کو سامنے رکھ کر توثیق کی اور ان کو آگے بڑھاتے ہوئے حالات میں تبدیلی کے راستے کی نشان دہی کی۔ اسے جذباتیت قرار دے کر اسی گھسی پٹی امریکی لائن کو آگے بڑھانے کو عقلیت اور حقیقت پسند قرار دینا حقائق سے انکار اور قوم کے عزائم اور ترجیحات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔
اس بحث کا ایک اور دل چسپ شوشا بڑے طمطراق سے چھوڑا جا رہا ہے کہ: ’’عقل اور فراست کے تمام متوالوں کے ارشاداتِ عالیہ کو نظرانداز کر کے ان لوگوں کی باتوں کو اہمیت دی جارہی ہے جو محض غیرت کے نام پر ملک کو کسی تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ کون تصادم کی طرف لے جارہا ہے اور کس نے اس ملک کو ایک تصادم نہیں بلکہ تصادموں کے ایک سلسلے میں جھونک دیا ہے؟ ایک قابلِ تحقیق امر ہے، لیکن ان تمام افراد اور اداروں بشمول پارلیمنٹ کو مطعون کرنا جو قوم و ملک کی آزادی، عزت و ناموس اور خودمختاری، شناخت کی حفاظت اور اس کے لیے ہرقربانی کے لیے آمادگی کا عزم رکھتے ہیں، صرف بے غیرتی ہی نہیں ایک قومی جرم ہے۔
ایمان اور عزت و ناموس وہ قیمتی متاع ہیں، جن کے لیے جان کی بازی لگانا زندگی کی سب سے بڑی معراج ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جس قوم میں اخلاقی حُسن اور عزتِ نفس باقی نہ رہے، وہ پھر غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جس کو اپنی آزادی، عزت اور شناخت عزیز ہو وہ بڑی سے بڑی استعماری طاقت سے بھی ٹکر لیتی ہے اور بالآخر اسے پاش پاش کردیتی ہے۔ خود ہمارے اس عہدِحیات میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کابڑی بڑی مضبوط اور دیوہیکل استعماری قوتوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلینا ایک زندہ حقیقت ہے۔ تیونس اور مصر میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور شام میں جو معرکہ برپا ہے وہ آزادی اور عزت ہی کے حصول کی خاطر ہے۔ لیکن افسوس ہمارے نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے کا حال یہی ہے کہ ع
حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
قائداعظمؒ نے مارچ ۱۹۴۸ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجتماع میں اپنے صدارتی خطاب کو جن الفاظ پر ختم کیا تھا وہ ایمان، اخلاق، عزتِ نفس، نظریاتی اور ثقافتی شناخت یا بہ الفاظ دیگر اس شے لطیف کے بارے میں تھا، جسے ایک لفظ میں ’غیرت‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:
جس اہم مقابلے میں ہم مصروف ہیں وہ نہ صرف مادی فوائد کے لیے ہے بلکہ وہ مسلم قوم کی روح کی بقا کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے میں نے بسااوقات یہ کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، سودے بازی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا پورا احساس ہوچکا ہے۔ اگر ہم اس جدوجہد میں ہار گئے تو سب کچھ کھو جائے گا۔ ولندیزی ضرب المثل کے مصداق ہمارا موٹو یہ ہونا چاہیے: ’’دولت کھوئی تو کچھ نہیں کھویا، حوصلہ کھویا تو کافی کچھ کھویا، عزت کھوئی تو بہت کچھ کھویا، روح کھوئی تو سب کچھ کھو دیا!!‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد دوم، ص ۴۵۵)
دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ کو کیوں گھسیٹ لیا گیا وہ تو اس کی اہل ہی نہیں۔ بلاشبہہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مختلف اداروں اور مختلف علوم پر مہارت رکھنے والوں کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔ لیکن جمہوریت جہاں قانون کی حکمرانی کا نام ہے، وہیں پالیسی سازی میں عوام کی مرضی،ان کے عزائم، ترجیحات اور خواہشات کو بھی ایک فیصلہ کن حیثیت دیتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں خارجہ پالیسی کے اصولی نکات درج ہیں اور اس سلسلے میں دفعہ ۴۰ بڑی محکم ہے۔ اور یہ بھی دستور نے لازم کیا ہے کہ ہرسال حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو مطلع کرے کہ پالیسی کے اصولوں پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔
دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تمام اہم پہلوئوں پر گفتگو ، تبصرے اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں خارجہ پالیسی اور سلامتی کے متعلقہ امور پر نہ صرف نگرانی (oversight) کی ذمہ داری ادا کرتی ہیں بلکہ احتساب اور censor بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکا میں تو دستور صدرِمملکت کو پابند کرتا ہے کہ جنگ کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ معاملات جنگ کے ہوں یا صلح و امن کے، دوستی کے ہوں یا کش مکش اور تصادم کے، پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں تمام امور کے بارے میں اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ صرف اصول اور کلیدی معاملات میں نہیں بلکہ بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات تک پر نہ صرف بحث کرتی ہیں بلکہ فیصلہ تک کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ جو ایک ایک ملک کو معاشی امداد اور فوجی امداد کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائی کے بعد ہائوس میں ووٹ کے ذریعے ایک ایک ڈالر کا معاملہ طے کیا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ کا خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور میں کردار نہیں تو کیا ہے؟
تیسرا ارشادِ گرامی یہ ہے کہ پاکستان امریکا سے نہیں لڑسکتا، اس کے لیے امریکا سے دوستی کے سواکوئی چارہ نہیں۔ امریکا کو آنکھیں دکھانا ایک غلطی تھی اور اب اس کی سزا ہم کو بھگتنا پڑے گی۔ اچھا ہوا کہ سات مہینے ہی میں ہماری آنکھیں کھل گئیں، ورنہ اور بھی تباہی ہمارا مقدر ہوتی۔
اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ تباہی سے ہم بچ گئے ہیںیا ایک نئی تباہی کے منہ میں داخل ہوگئے ہیں، اور ۴جولائی کے بعد سے ان چند دنوں ہی میں کتنے نئے حملے ہمارے مظلوم شہریوں پر ہوئے ہیں، اور ہمارے خلاف کتنے نئے محاذ (بشمول افغانستان کی طرف سے محاذ آرائی) کھولنے کا بار بار اعادہ ہورہا ہے؟ ان تمام مسائل کے اصولی پہلوئوں پر گفتگو کرنا ہرعاقل پاکستانی کا فرضِ منصبی ہے۔ مگر حکمران طبقہ یہ کہتا ہے کہ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں کا ان بحثوں سے بھلا کیا تعلق؟
بہرحال یہ شوشے اور ارشادات جن مفروضوں پر مبنی ہیں، وہ خام اور ناقابلِ التفات ہیں اور صرف شکست خوردہ اور غلامانہ ذہنیت کے غماز ہیں۔
دوستی اور غلامی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دوستی کا کون منکر ہے، بات دوطرفہ تعلقات اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کی ہے۔ حقیقی دوستی اعتماد پر مبنی ہوتی ہے اور مقاصد، اقدار اور مفادات کے اشتراک سے اسے مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ امریکا سے اچھے تعلقات کا کوئی مخالف نہیں ہے، لیکن کوئی وجہ تو ہے کہ دنیا میں صرف دو ملکوں کو چھوڑ کر، یعنی اسرائیل اور بھارت، کسی ملک کے عوام بھی امریکا پر بھروسا نہیں کرتے۔ اس کی دوستی کے دعوئوں کو اس کے الفاظ کی بنیاد پر نہیں پرکھتے بلکہ دوستی کے پردے میں جو کھیل وہ عالمی میدان میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کھیل رہا ہے، اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ع
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
دنیا بھر میں امریکا سے بے زاری کیوں ہے؟ ٹکنالوجی پر اس کی دست رس، معاشی وسائل میں فوقیت اور بہ نظر ظاہر اس کی جمہوری اقدار اور اداروں کی وجہ سے نہیں، اس کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے ہر گوشے کے لوگ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ ہیں اور اس کے اس کردار پر برافروختہ ہیں۔ وہ امریکی استعمار کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ ع
جہاں سے اُٹھا ہے جو بھی فتنہ، اُٹھاتیری رہ گزر سے پہلے
امریکا کی خارجہ سروس کے ایک اعلیٰ عہدے دار پیٹر فان بورین نے ۲۳سال تک تائیوان، جاپان، کوریا، عراق، انگلستان اور ہانگ کانگ میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں، اس نے عراق میں امریکا کے مجرمانہ کردار کی تفصیلی داستان اپنی تازہ ترین کتاب We Meant Wellمیں بیان کی ہے۔ یہ کہانی صرف عراق کی نہیں، افغانستان، پاکستان، مصر، شام، اُردن سب کا یہی حال ہے۔
پیٹر بورین الجزیرہ کے ویب پیج پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی صدر کی جو تصویرکشی کرتا ہے، ڈرون حملوں سے زخم خوردہ ہر پاکستانی کا تصور بھی اس سے مختلف نہیں۔
ہمارے وقت کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ صدر نے اپنے آپ کو (اور اپنے مشیروں کو اور جو ان کے احکامات کی تعمیل کریں ان کو) قانونی اور اخلاقی ہرلحاظ سے قانون سے بالاتر قرار دے دیا ہے۔ اب ان کو اور صرف ان کو تنہا یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہوگا اور کون زندہ رہے گا۔ وہی میڈیاتقسیم کاروں کو خفیہ اطلاعات سے نوازیں گے یا ان صحافیوں کی پٹائی لگائیں گے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو مقدمات سے پریشان کرتے ہیں اور بدترین بات یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ طے کریں گے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔
نوام چومسکی امریکا کی ایک مشہور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے، وہ امریکی لغت کے مطابق نہ کوئی اسلامی فنڈامنٹلسٹ ہے اور نہ القاعدہ کا ہمدرد، وہ برطانوی ہفت روزہ New Statesman میں ایک انٹرویو میں امریکی صدر اوباما کے بارے میں اپنے کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہے کہ:
اوباما نے خود اپنا جو تشخص بنایا ہے، (آج کل اس کے لوگ جارحانہ انداز میں اُسے اور بڑھا رہے ہیں) وہ ایک قاتل کا ہے جو’دہشت گردوں‘ اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگتا ہے۔
وہ اس وقت بھی جنگی جرائم میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ہدف زدہ ہلاکتیں جنگی جرائم ہیں۔ ان میں اوباما کے دور میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں پر حملوں کی بھی متعدد مثالیں ہیں۔ (نیواسٹیٹس مین، ۱۳ ستمبر ۲۰۱۰ئ)
امریکا سے دو طرفہ دوستی اور اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا کوئی مخالف نہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ ان تعلقات کو ان حدود کے اندر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور مشترک مقاصد اور ایک دوسرے کی حاکمیت، خودمختاری اور مفادات کے احترام کے فریم ورک کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بالکل صاف الفاظ میں کہی ہے، جس کی تائید پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق راے سے کی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ نہ امریکا کو قبول ہے اور نہ پاکستان میں امریکی لابی اسے ہضم کرپارہی ہے۔
رہا تصادم کا راستہ، تو وہ اگر کسی نے اختیار کیا ہے تو امریکا ہے۔ وہ قوت اور جبر کے تمام حربوں، دھونس اور بلیک میل کے تمام ہتھکنڈوں اور میڈیا اور پروپیگنڈے کی پوری یلغارکے ساتھ اپنی پالیسیاں دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ مظلوم اقوام کو ظلم اور قوت کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کے حق کو تصادم کا نام دیتا ہے۔ ہماری مخالفت امریکا کی غلامی اور اپنے قومی مفادات کو قربان کر کے اس کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے حوالے سے ہے۔ مناسب حدود میں عزت و احترام کے ساتھ تعلقات کے ہم بھی خواہاں ہیں، لیکن کیا امریکا اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر وہ تیار نہیں، جیساکہ ظاہر ہے تو پھر ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عوام کے جذبات کی پاس داری کے لیے اس کے آگے سپر نہ ڈالیں۔
ہم اس میدان میں تنہا نہیں ہیں۔ دنیا کے کم قوت رکھنے والے ممالک نے بھی عزت اور آزادی کا راستہ اختیار کیا ہے اور امریکا اپنی تمام اکڑفوں کے باوجود ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔ جنوبی امریکا کے ممالک میں کیوبا، ارجنٹینا، نیکوروگوائے اور چلّی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا نے امریکا کی ہردھمکی اور دست درازی کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور وسائل اور قوت کے فرق کے باوجود اپنی عزت، اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ امریکا کی ناراضی ہمارے لیے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ۱۹۶۵ء ، ۱۹۷۱ئ، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں ہم اس کا بھرپور تجربہ کرچکے ہیں اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور امریکا کے ناروا مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کرچکے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ۱۹۹۹ء میں پاکستان، لیبیا کے بعد سب سے زیادہ پابندیوں میں جکڑا ملک تھا مگر ہم نے اس دور کو بھی بحسن و خوبی گزار دیا۔ آج بھی قیامت نہیں ٹوٹے گی اور عراق اور افغانستان کے بے سروسامان عوام نے مزاحمت اور امریکا کے دانت کھٹے کرنے کی جو نظیر قائم کی ہے، وہ دوسروں کے لیے نشانِ راہ ہے۔ چین نے اپنی ہوائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی جہاز کو اُتار لیا تھا اور امریکا کے واضح معافی کے بغیر جہاز کا ملبہ بھی واپس نہ کیا۔ ایران نے حال ہی میں امریکی ڈرون اُتار لیا اور واپس کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ کیا غلامی اور چاکری صرف ہمارے ہی مقدر میں لکھی ہے اور کیا اپنے مفادات کا تحفظ، تصادم اور اعلانِ جنگ کا درجہ رکھتے ہیں؟
ہمارا اصل مسئلہ باصلاحیت اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے، ورنہ قوم میں بڑی جان ہے اور وسائل کی بھی کمی نہیں۔ جس ملک میں قومی ادارئہ احتساب (NAB) کے سربراہ کے الفاظ میں ہر روز ۶ سے ۸ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہو، اس کے بارے میں وسائل کی کمی کی بات تو نہیں کی جاسکتی۔ اور ملک اچھی حکمرانی کے فقدان، امن و امان کی تباہ شدہ حالت، امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں اور کرپشن کے اس طوفان کے باوجود زندہ رہ سکتا ہو اور تین سے چار اشاریہ کی رفتار سے جی ڈی پی میں اضافہ بھی کرسکتا ہو، اور جس کے بیرونِ ملک سے پاکستانی محنت کش ہر سال ۱۲سے ۱۵؍ ارب ڈالر بھیج رہے ہوں، وہ ایسی خارجہ پالیسی پر کیوں کاربند نہیں ہوسکتا جو آزادی اور عزت کی حفاظت کرسکے، اور سب سے دوستی اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں ممدومعاون ہوسکے ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
چوتھی بات اس سلسلے میں یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر ترقی نہیں کرسکتا ،اور اگر ہم امریکا کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتے تو ایک نہیں ۴۹ممالک کی مخالفت مول لینا ہوگی‘‘۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس قیادت اور ان دانش وروں کو یہ اطلاع کب ملی کہ افغانستان میں صرف امریکا نہیں مزید ۴۸ ممالک برسرِعمل ہیں۔ کیا یہ ممالک ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء سے پہلے وہاں نہیں تھے یا ۲۷ نومبر کے فیصلے کے وقت آپ کے علم میں یہ نہ تھا۔ ۲۷نومبر کے فیصلے کے بارے میں تو ایک آواز بھی اختلاف کی نہ اُٹھی اور حکومت اور اس کے اتحادی بڑے فخر سے اس کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ پھر یہ سارے انکشافات کب ہوئے؟ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ان ممالک سے کب برسرِپیکار ہیں اور ان سے اُلجھنے کی کون دعوت دے رہا ہے۔ یہ ممالک تو خود افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسپین اور اٹلی نکل چکے ہیں، فرانس سارے دبائو کے باوجود دسمبر ۲۰۱۲ء تک نکلنے کے عزم پر قائم ہے۔ بہت سے ممالک صرف براے وزنِ بیت وہاں ہیں اور الحمدللہ بحیثیت مجموعی سب ہی سے ہمارے اچھے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ یہ بھی صرف ایک مجرمانہ مغالطہ انگیزی ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
پانچویں بات کا تعلق پاکستان کے اپنے معاشی حالات سے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہم ان حالات میں امریکا سے کسی قسم کے کھچائو کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔ یہاں بھی یہ سوال اہم ہے کہ معاشی اثرات اور نتائج کا انکشاف کب ہوا؟ کیا ۲۰۱۱ء میں حالات بہت مختلف تھے؟ اگر نہیں تو صرف ان حالات کا حوالہ دے کر ایک ایسی پالیسی کے لیے جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے، جو ہردوسرے اعتبار سے خسارے کا سودا ہے۔ لیکن دوسرا زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ معیشت کی اس خراب صورت حال میں حکومت کی غلط پالیسیوں، بہتر انتظامی صلاحیت کے فقدان، نااہلی اور بددیانتی کا کتنا حصہ ہے اور اس معاشی فساد میں بیرونی اسباب کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کے عوام کا یہ تجزیہ سامنے آگیا ہے کہ ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثرات نہیں نکلے ہیں، بلکہ منفی اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں اگر دہشت گردی میںجنگ کی شرکت کی وجہ سے جو ہرسال ۱۰ سے ۱۱؍ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اس سے بچا جائے تو معیشت کے بحران سے نکلنا آسان اور تیزتر ہوسکے گا۔ اگر ہم اپنی معاشی حماقتوں اور تباہ کن فیصلوں کا سدِّباب کرلیں تو معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل نہیں ہے۔ صرف کرپشن پر قابو پاکر اس خسارے کو ایک بڑی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ہم یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قومیں اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت کے تحفظ کے لیے معاشی قربانیاں بھی دینے کو غلامی اور محکومی کی زندگی پر ترجیح دیتی ہیں، بلکہ اقبال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ؎
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں، آزاد اور خوددار قوموں کا شعار ہے، اور دنیا میں کوئی بڑا کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور اپنے نظریات کے مطابق زندگی کی تشکیل کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں، اور ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث میں
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
اس سلسلے کی چھٹی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’دیکھو ہم نے امریکا سے معذرت تو حاصل کرلی، کیا ہوا اگر کوئی اور بات نہ منوا سکے۔ بات چیت تو جاری ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جو اظہارِافسوس کردیا ہے ،وہ نئی شروعات کے لیے کافی ہے‘‘۔
حکومت اور اس کے ہم نوا جو دلیلیں دے رہے ہیں ان میں سب سے کمزور اور شرم ناک دلیل یہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا جائزہ پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں لیا جائے، تاکہ قوم کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح آجائے کہ اس قیادت نے پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کرکے کس بے تدبیری اور کج فکری اور اخلاقی دیوالیے پن کے ساتھ امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور ملک و قوم کو غلامی کے ایک بدتر جال میں پھنسایا جا رہا ہے، جس سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی پر دو الزامات پوری دریدہ دہنی سے لگائے جارہے ہیں، جن کا مقصد پارلیمنٹ کی اہلیت اور اس کی دی ہوئی رہنمائی کو بے وقعت کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ نے وقت ضائع کیا اور امریکا سے معاملات کو درست کرلینے کا جو کام جھٹ پٹ ہوجانا چاہیے تھا وہ غیرمعمولی تعویق کا شکار ہوگیا‘‘۔اصل حقائق کیا ہیں ذرا ان کو بھی دیکھ لیں۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اسی شام کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ان اقدامات کا اعلان کیا، جن کے نتیجے میں ناٹو کی سپلائی بند کردی گئی، شمسی ایئربیس کو خالی کرا لیا گیا، امریکی فوجیوں اور آپریشن کی ایک تعداد کو واپس بھیج دیا گیا اور امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عمل شروع ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کو نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔
چنانچہ ۲۸نومبر کے کابینہ کے اجلاس نے اس تجویز کی توثیق کی اور وزیراعظم نے ۳۰نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو اس پر عمل کی دعوت دی۔ کمیٹی نے ۳دسمبر کو پہلا اجلاس منعقد کیا اور خود وزیراعظم، متعلقہ وزرا اور سروسز کے نمایندوں نے بریفنگ لی اور اپنے کام کا منصوبہ تشکیل دیا۔ ۱۵ دسمبر سے ۵جنوری تک کمیٹی نے آٹھ اجلاس منعقد کیے، جن میں تمام متعلقہ اداروں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لی، اور ۵جنوری کو اپنی ابتدائی سفارشات کا مسودہ تیار کر کے وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ کو ان کے تبصرے کے لیے بھیج دیا، تاکہ وہ اپنے اپنے دائرے میں فنی اعتبار سے تجاویز کو جانچ پرکھ لیں۔ ان کے تبصروں کی روشنی میں کمیٹی نے ۱۱جنوری کو، یعنی ۴۰ دن کے اندر اندر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر ۱۲جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔ باقی جو بھی تاخیر ہوئی ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے جس نے اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کو بلانے میں غیرضروری تاخیر کی اور پھر اجلاس کے دوران کمیٹی کی تجاویز کو تبدیل کرانے کی کوشش کی، جو پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی۔ بالآخر پارلیمنٹ نے وسط اپریل میں سفارشات منظور کرلیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا بلکہ جو کچھ ۳اور۴جولائی کو ہوا، وہ ان سفارشات کی بلااستثنا خلاف ورزی ہے۔ ان سفارشات کا کیا حشر ہوا اور پارلیمنٹ کی بھی اس حکومت نے اسی طرح خلاف ورزی کی جس طرح عدالت ِ عالیہ کے احکامات اور فیصلوں کی کررہی ہے، یعنی ۴۱فیصلے عدالت عظمیٰ اور عدالت ہاے عالیہ کے ہیں جن پر عمل نہیں ہوا، اور ۴۰سفارشات پارلیمنٹ کی ہیںجنھیں عملاً دریابُرد کردیا گیا۔
ہم حکومت کے اس شرم ناک کارنامے پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے چاہتے ہیں کہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے کام پر جو دوسری تنقید کی جارہی ہے اس کے بارے میں بھی صحیح صورت حال قوم کے سامنے رکھیں۔ کمیٹی نے صرف اپنے ارکان کی مہارت اور بصیرت پر انحصار نہیں کیا بلکہ حکومت کے متعلقہ اداروں کے سربراہوں اور ماہرین سے بھرپور استفادہ کیا۔ حالات کو سمجھتے ہوئے بھی اور ایسی تجاویز مرتب کرنے کے مقصد کے حصول کے لیے بھی جو پروفیشنل اعتبار سے کسی طور بھی کمزور نہ ہوں ہرطرح سے کوشش کی۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسران ، سفیروں کی کانفرنس کی تجاویز، وزارتِ دفاع کے ماہرین کی آرا، وزارتِ خزانہ کے متعلقہ افراد بشمول وزیرخزانہ اور سیکرٹری خزانہ سب کو مشاورت میں شریک رکھاگیا۔ مجوزہ تجاویز کو بھی ایک بار پھر متعلقہ وزارتوں کے تبصرے کے لیے بھیجا گیا۔ اسی طرح ملک میں امورِخارجہ، امورِ معیشت اور امورِ دفاع کے جو بھی ماہرین موجود ہیں، ان سے کسی نہ کسی حد تک بڑے محدود وقت میں استفادہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے سفارشات کو جس آخری شکل پر منظور کیا وہ ۱۶نکات پر مشتمل ہیں اور ان میں ۳۸ متعین سفارشات ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق اصولی ہدایات سے ہے، کچھ میں متعین اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور کچھ میں اس طریق کار کی نشان دہی کی گئی ہے جس پر عمل کرنے سے خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور زیادہ مؤثر انداز میں ادا کیے جاسکتے ہیں۔
ہم پہلے طریق کار کے اُمور کو لیتے ہیں جن پر سفارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کمیٹی کو تفصیلی جائزے کے دوران محسوس ہوا کہ حکومت کا نظام بڑی بے تدبیری سے چل رہا ہے اور فیصلے کرنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تین بڑی اہم کمزوریاں کمیٹی نے محسوس کیں:
۱- بہت سے اہم فیصلے زبانی کیے گئے ہیں،ان پر عمل بھی ہوگیا ہے، مگر نہ ان فیصلوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہے، نہ وہ دلائل اور معاہدے صفحۂ قرطاس پر موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی خبر ہے کہ اس فیصلے میں کون کون شریک تھا۔کمیٹی نے سفارش کی کہ آیندہ ہر فیصلہ اور معاہدہ تحریری طور پر کیا جائے۔ اس کے سارے حقائق اور دلائل ضبطِ تحریر میں لائے جائیں۔ فیصلے میں شرکا کا بہ صراحت ذکر ہو اور یہ تمام سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہوں۔
۲- دوسری بات جو کمیٹی کے لیے اچنبھے کا باعث تھی وہ یہ کہ کسی بھی اہم فیصلے، معاہدے یا کسی پالیسی کے بناتے وقت اس مسئلے کے سلسلے میں جو بھی متعلقہ وزارتیں ہیں ان میں مشورہ اور ربط و تعاونِ باہمی (coordination) مجرمانہ حد تک کم ہے۔ خارجہ امور کے کتنے ہی معاملات ہیں جو دفترخارجہ کے علم میں لائے بغیر طے کردیے گئے ہیں۔ کتنے ہی معاہدے ہیں جن کا بغور جائزہ (vetting) وزارتِ قانون اور وزارتِ خارجہ نے نہیں لیا، اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے مالیاتی واجبات یا نتائج کے بارے میں وزارتِ خزانہ کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں اور نہ ان کو طے کرنے میں اس وزارت کا کوئی دخل ہی ہے۔کمیٹی نے تجویز کیا کہ ایسے تمام اُمور نہ صرف تحریری طور پر طے کیے جائیں بلکہ ان کے طے کرنے سے پہلے اور اس عمل کے دوران تمام متعلقہ وزارتوں کو شریک کیا جائے، اور خارجہ اُمور سے متعلق جو بھی فیصلے یا معاہدے ہوں وہ وزارتِ خارجہ ہی کے ذریعے ہوں۔
۳- تیسری بڑی کمی پارلیمنٹ اور ان کے اداروں کا عدم باہمی تعامل تھا جو معروف جمہوری اقدار و روایات کے بالکل منافی ہے ۔ پارلیمانی نگرانی اور پارلیمانہ مرحلہ بہ مرحلہ جائزہ دستور کا تقاضا ہے اور جمہوری عمل کا ناقابلِ انقطاع حصہ ہے۔ اس کے لیے تجویز کیاگیا کہ متعلقہ عناصر (تمام اسٹیک ہولڈرز) سے مشاورت کے بعد جو بھی معاہدے طے ہوں اور فیصلے لیے جائیں ان کو پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کے علم میں تحریری طور پر لایا جائے، اور ان معاہدات اور فیصلوں کے بارے میں جو مرکزی اصول اور مقاصد ہیں ان سے متعلقہ وزیر پارلیمنٹ کے فلور پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ نیز معاہدے کوئی فرد نہ کرے بلکہ مرکزی کابینہ ان کو باقاعدہ منظور کرے۔
یہ تینوں سفارشات بڑی اہم اور دُور رس نتائج کی حامل ہیں لیکن ان سب کو ۳؍۴جولائی کے ڈرامائی اقدام میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔
اخبارات کی اطلاع کے مطابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ۳جولائی کی رات اور ۴جولائی کی صبح کو امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انھوں نے ۲۶نومبر کے امریکی جارحانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں پر اپنے ’گہرے تاسف ‘ (deepest regrets) کا اظہار کیا اور ان کے ورثا کے لیے تعزیت کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی وزیرخارجہ نے ان کو یہ مژدہ سنادیا کہ ہم نے آپ کی اور ناٹو کی سپلائی لائن کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر فوری عمل ہورہا ہے۔ بظاہر فیصلہ۴جولائی کی رات کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی میں ہوا جس کی توثیق دو دن کے بعد کابینہ نے کی مگر اس فیصلے کی اطلاع امریکی سیکرٹری خارجہ کو فیصلے کے کیے جانے سے ۱۴گھنٹے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل فیصلہ کس نے کیا اور امریکی آقائوں کو اس کی اطلاع محض دفاعی کمیٹی نہیں بلکہ کابینہ کے فیصلے سے پہلے کیسے دے دی گئی؟ اور فیصلہ بھی ایسا جسے صرف یوٹرن ہی کہا جاسکتا ہے۔
انھی اطلاعات میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی گئی ہے کہ درپردہ مذاکرات چل رہے تھے اور ان میں اصل کارپرداز ہیلری کلنٹن کے ایک معاون تھامس آرنائیڈز اور پاکستان کی طرف سے اس کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے۔ معاملات درپردہ انھوں نے طے کیے۔ نام نہاد معذرت کے الفاظ کی صورت گری بھی انھی کے ہاتھوں ہوئی اور باقی تمام قول وقرار، مذکورہ اور غیرمذکورہ بھی انھی کے ذریعے طے ہوئے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل کرتا دھرتا وزیردفاع اور وزیرخارجہ تھے مگر اس ٹیم میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ وزیرخارجہ صاحبہ غالباً آخری پیغام بر تو ضرور ہیں مگر معاملہ بندی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا۔ پھر یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے لائق نہیں کہ امریکا کی طرف سے تو خارجہ سیکرٹری کا ایک معاون معاملات طے کر رہا ہے اور پاکستان کی طرف سے ایک وزیرباتدبیر اس ٹیم میں شریک ہیں۔ کیا سفارتی پروٹوکول کا امریکا سے معاملات طے کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں؟ معاملہ ناٹو کی سپلائی کھولنے کا تھا، اس کا کیا تعلق وزارتِ خزانہ سے ہے ، جب کہ بظاہر بڑے بڑے مطالبات کے بعد یہ بات طے ہوگئی تھی کہ راہداری کے سلسلے میں امریکا کوئی فیس دینے کو تیار نہیں اور پاکستان کو اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ پھر وزیرخزانہ وہاں کیا خدمات انجام دے رہے تھے؟
تیسرا پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے واضح مطالبے کے باوجود کوئی تحریری معاہدہ آج تک وجود میں نہیں آیا ہے۔ دو دن پہلے ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں، سب حسب سابق زبانی جمع خرچ ہے۔ اس نام نہاد معذرت کی بھی بس اتنی حقیقت ہے کہ ٹیلی فون پر دو خواتین کے درمیان بات ہوئی ہے اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اخباری بیان میں اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن امریکا سے معاملات طے کرنے کے بارے میں جاری نہیں ہوا۔
ہم ابھی پارلیمنٹ کی سفارشات کے قابلِ عمل(substantive) پہلو کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے، صرف طریق کار کے نکات پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات حسب سابق ہیں۔ پرنالہ وہیں گر رہا ہے۔ اہم ترین معاملات کو طے کرنے اور معاہدات میں حکومتوں اور قوموں کو جکڑنے کا عمل اسی پرانے اور غیرذمہ دارانہ انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ فیصلہ کس نے کیا؟ کب کیا؟ کس طرح اس کا اظہار کیا گیا؟ پورے عمل میں کون کون شریک تھا؟ ان سب کا ریکارڈ کہاں ہے اور اصل ذمہ داری کہاں اور کس کی ہے؟
پارلیمنٹ کی بالادستی اور آخری فیصلہ کرنے والے ادارے کے بارے میں دعوے اور چرچے تو بہت ہوتے ہیں لیکن اصل حقیقت بہت تلخ ہے، یعنی ع
وہی ہے چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے!
۱- اصل مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لانے کا ہے جو اسے صحیح معنی میں آزاد اور صرف پاکستان کے مقاصد اور مفادات کا پاسبان بنا دیں۔ اس سلسلے میں امریکا سے تعلقات اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ میں شرکت میں پاکستان کے کردار کو ازسرِنو مرتب کرنا ضروری ہے اور یہ کام اس طرح ہونے چاہییں کہ جملہ امور ایک تحریری پیکج کی صورت میں طے ہوسکیں۔
حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ اس ہدایت کے برعکس صرف ایک مسئلے کو (یعنی راہداری کے مسئلے کو) باقی تمام معاملات سے کاٹ کر امریکا کی خواہش کے مطابق طے کرڈالا اور اس طرح پارلیمنٹ کی سفارشات کے اصل مقصد کو کلُی طور پر ناکام کردیا۔
۲- پارلیمنٹ کی سفارش تھی کہ وقت کی اصل ضرورت مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش اور امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز ہے۔ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ نہیں تو تعطل ضروری ہے اور تمام متعلقہ افراد اور اداروں (اسٹیک ہولڈرز) کو اس عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے اسے یکسر نظرانداز کیا اور اس تباہ کن جنگ کو مزید تقویت دینے والے اقدام میں دست تعاون بڑھا دیا۔ جو دروازہ بڑی مشکل سے اور بڑی بھاری قیمت دینے کے بعدبند ہوا تھا، اسے کسی تحفظ کے بغیر دوبارہ کھول دیا گیا تاکہ خون کی ندیاں برابر بہتی رہیں اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ جس طرح گرم تھی، اسی طرح نہ صرف گرم رہے اور اس کی زہرناکی اور بھی بڑھ جائے۔
۳- پارلیمنٹ نے ایک نہیں تین بار یہ کہا تھا کہ ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ ہماری اپنی حاکمیت اور سرحدوں کی حفاظت کا ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکی نقوش پا (footprints) کسی قیمت پر منظور نہیں۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت، آزادی اور سلامتی پر حملہ ہیں، بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، ہمارے عام شہریوں کے قتل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور امریکا مخالف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ اس لیے انھیں فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہیں ہوتے تو حکومت ان کو رکوانے اور ان کے خلاف عالمی راے عامہ منظم کرنے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔ جو ذرائع بھی اسے حاصل ہیں ان کو ان حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے استعمال کرے اور کم از کم سپلائی کی سہولت کو بالکل بند کردے، تاآنکہ ڈرون حملوں اور پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں ختم کرائی جاسکیں۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں ناٹو کی سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ اور امریکا سے تعاون کے دوسرے اہم اقدامات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق (de-link) نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت نے پارلیمنٹ کے اس واضح اور اہم ترین مطالبے کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور قومی مفادات کے تحفظ میںیکسر ناکام رہی ہے۔
واضح رہے کہ آج خود یورپ اور امریکا میں ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ حال ہی میں جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں روس اور چین سمیت ۲۰ممالک نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے ان کی مذمت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک درجن سے زیادہ ماہرین نے اپنے مضامین اور تقاریر میں بھی ان کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی چارٹر براے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور یہ بات بھی اب پوری صراحت سے کہی جارہی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے متعلقہ ممالک کی قومی حاکمیت کو پامال کیا جا رہا ہے، نیز تمام غیرمتحارب شہریوں کی ہلاکت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے چوٹی کے دو مشیروں (consultants) نے جو انسانی حقوق کے معاملات کے ذمہ دار ہیں نہ صرف ان حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ذمہ داروں کا احتساب کرے اور بین الاقومی قانون کے احترام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ عوامی دبائو اور عالمی اداروں کی تحریک پر جرمنی، برطانیہ اور خود امریکا میں ڈرون حملوںکا نشانہ بننے والے غیرمتحارب افراد کے خاندانوں کی طرف سے امریکی، جرمنی اور برطانوی حکومتوں کے خلاف ان کے اس مذموم عمل میں شریک ہونے کے ناتے مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں جو اس وقت ان ممالک کی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ پاکستان میں بھی پشاور اور اسلام آباد کی عدالت ہاے عالیہ میں ایسے مقدمات شروع ہوگئے ہیں لیکن حکومت نے ڈرون حملوں کے سوال کو باقی امور سے کاٹ کر پاکستانی قوم کے سینے میں خنجر گھونپا ہے اور امریکا کو قتل و غارت گری اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدی حدود کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اس جرم میں پہلے اگر حکومت خفیہ طور پر شریک تھی تو اب کھل کر شریک ہوگئی ہے اور مزید حکمرانی کے باب میں اپنی سندِجواز (legitimacy) سے، جو پہلے ہی مشکوک تھی، مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے اور پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف امریکی اعلانِ جنگ کی حصہ دار بن گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے جرائم میں یہ جرم سب سے زیادہ قبیح جرم ہے اور اس حکومت سے جلد از جلد نجات کی جدوجہد کے لیے یہی سب سے مضبوط دلیل ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے سامنے پارلیمنٹ کی سفارشات میں سے چند اہم حصے رکھیں تاکہ اس حکومت کی دریدہ دہنی ، پارلیمنٹ کی توہین اور ملک و قوم سے بے وفائی کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آجائے۔
پارلیمنٹ کی سفارشات کی پہلی شق یہ تھی کہ: ’’پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکا سے تعلقات دونوں ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور سرحدات کے باہمی احترام پر مبنی ہوں گے‘‘۔
۱- پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملوں کا خاتمہ۔
۲- پاکستانی سرحد کے اندر نہ گرم تعاقب (hot pursuit) ہوگا اور نہ فوجی آئیں گے۔
۳- غیرملکی نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں شفاف ہوں گی اور پاکستانی قانون کے تابع ہوں گی۔
یہ بات محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے اپنے دعویٰ کردہ مقصد کی نفی کرتے ہیں۔ قیمتی جانوں اور جایداد کو ضائع کرتے ہیں۔ مقامی آبادی کو جذباتی اور انقلابی بناتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے حمایت پیدا کرتے ہیں اور امریکا دشمن جذبات کے لیے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونے والی ۱۴مئی ۲۰۱۲ء کی قرارداد میں بھی پارلیمنٹ نے واضح الفاظ میں یہ اصول طے کردیا تھا کہ سپلائی روٹ اور ڈرون حملوں کے روکے جانے اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کی پامالی میں ایک لاینفک تعلق ہے:
(یہ ایوان) پُرزور طور پر کہتا ہے کہ یک طرفہ اقدامات جیساکہ امریکی افواج نے ایبٹ آباد میں کیے اور پاکستان کی حدود میں مسلسل جاری ڈرون حملے نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور ایسے ڈرون حملے فوراً روک دیے جانے چاہییں۔ حملے بند نہ کیے جانے کی صورت میں حکومت مجبور ہوگی کہ ضروری اقدامات کرے بشمول ناٹوسپلائی کی جو سہولت دی گئی ہے اسے واپس لینے کے۔
یہ کہ یک طرفہ اقدامات دہشت گردی کو ختم کرنے کے عالمی مقصد کو آگے نہیں بڑھاتے اور پاکستان کے لوگ ایسے اقدامات کو زیادہ برداشت نہیں کریںگے اور یک طرفہ اقدامات کو دہرائے جانے سے خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
یہ کہ حکومت اور عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو ہرقیمت پر برقرار رکھیں گے جو ایک مقدس فریضہ ہے۔
پارلیمنٹ کی ان واضح ہدایات کے بعد جو کچھ اس حکومت نے ۴جولائی کو کیا ہے، اس کے بعد ایک دن کے لیے بھی اس کے اقتدار کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے ۴جولائی کو رسد کی بحالی کے ۲۴گھنٹے کے اندر دو بار ڈرون حملے کر کے (جن میں ایک درجن سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے) پاکستان کی قیادت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور اس کے بعد سے جارحیت کا یہ سلسلہ اب تک بلاروک ٹوک جاری ہے، جب کہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے اور پبلک پلیٹ فارم سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتظار صرف سیاسی قیادت کے فیصلے کا ہے۔ ایران نے ایک امریکی ڈرون اُتار کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈرون حملے آسانی سے روکے جاسکتے ہیں اور تو اور خود امریکا کے ٹیکساس کالج کی نوجوان ریسرچ ٹیم نے اپنے استاد پروفیسر ٹوڈ ہمفریز کی قیادت میں امریکا کی نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کے ذمہ دار افراد کے سامنے ڈرون کو کامیابی سے اس کے پروگرام کیے ہوئے راستے سے ہٹا کر اپنی مرضی کے مطابق زمین پر اُتارنے کا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پروفیسر صاحب کا دعویٰ ہے کہ:
چند سو ڈالروں کے لیے ان کی ٹیم نے spoofing کی تکنیک استعمال کرکے ایسا sophisticated سسٹم بنایا جیسا اب تک نہیں بنایا گیا۔ اس نے ڈرون کو چکمادے کر نئے احکامات کے مطابق اُڑنے اور زمین پر اُترنے کا پابند کر دیا۔ سپوفنگ دراصل کسی جہاز کو اغوا کرنے کا طریقہ ہے۔
ایک امریکی کالج کا استاد اور اس کے ریسرچ کرنے والے طلبہ نے حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ کام کردکھایا۔ کیا پاکستان کی ایئرفورس اور ہمارے سائنس دان اپنے ملک کی حفاظت، شہریوں کی ہلاکت اور اپنی سرحدوں کی جارحانہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے یہ بھی نہیں کرسکتے؟
ناٹو/ ایساف کا قابلِ مذمت بلااشتعال حملہ (جس کے نتیجے میں پاکستان کے ۲۴فوجی شہیدہوگئے) بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے،اور ملکی خودمختاری اور سرحدات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان کو امریکا سے مہمند ایجنسی میں ۲۵، ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کو ہونے والے اس بلااشتعال واقعے پر غیرمشروط معافی طلب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ اقدامات کیے جائیں:
__ مہمندایجنسی حملے میں جو ذمہ دار قرار پائیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
__ پاکستان کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ایسے حملے اور ایسے اقدامات جن سے پاکستان کی خودمختاری اثراندازہوتی ہو، آیندہ نہیں ہوں گے۔
__ ناٹو،ایساف اور امریکا آیندہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔
__ پاکستان کے اڈوں یا فضائی حدود کو بیرونی قوتوں کے کسی بھی استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت ضروری ہوگی۔
__ سرحدی ملحقہ علاقوں کے لیے وزارتِ دفاع پاکستانی فوج/ ایساف/ امریکا/ ناٹو کے لیے نئی فضائی ضوابط مقرر کیے جانے چاہییں۔
پارلیمنٹ کے اس واضح موقف سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- سلالہ چوکی پر حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ بلاجواز تھا، یعنی (unprovoked) جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی حاکمیت اور اس کی سرحدوں کی تقدیس پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتاہے، اور یہی سبب ہے کہ امریکی حکومت اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور غیرمشروط معافی مانگے (unconditional apology)۔
۲- جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
۳- ایسے حملوں کے مستقبل میں نہ ہونے کے بارے میں واضح ضمانت دی جائے۔
۴- پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کا استعمال پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہ ہو۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے اقدام سے پہلے منظوری (prior approval) کے اصول کو منوایا گیا۔
۵- وزارتِ دفاع اور متعلقہ ادارے سرحدوں کے پاس، فضائی حدود کے استعمال کے سلسلے میں نئے قواعد و ضوابط مرتب کریں۔
۱- امریکا نے سلالہ چوکی کے حملے کو ایک غلطی ماننے سے انکار کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ معافی ( apology) اپنے قانونی اور اخلاقی مفہوم میں غلطی کے اعتراف اور اس پر افسوس کا اظہار ہے، جب کہ sorry یا regret کے الفاظ میں یہ مفہوم شامل نہیں۔ صدر صاحب، وزیراعظم صاحب اور نہ معلوم کون کون بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے امریکا سے معذرت لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہرگز اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی یا تاسف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اگر ہیلری کلنٹن کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ سلالہ کے واقعے کو بالکل گول کرگئی ہیں اور ہماری وزیرخارجہ کو غچّہ دے کر صرف یہ کہہ رہی ہیں کہ ’’اسے فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دکھ ہے‘‘ جو معاملے کی پوری نوعیت ہی کو بدل دیتا ہے۔
۲- بات صرف یہی نہیں کہ غلطی کا اعتراف اور اس پر معذرت نہیں کی گئی، بلکہ اُلٹا ہیلری کلنٹن نے حناربانی کھر سے یہ اعتراف کرا لیا ہے کہ سلالہ کا واقعہ دونوں طرف سے غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ گویا معافی توہم کیا حاصل کرتے، ہم خود مجرم بن گئے اور پاکستانی فوج نے سلالہ واقعے پر امریکا کی جس نام نہاد رپورٹ کو کھلے بندوں رد کیا تھا اور جس میں دونوں طرف سے غلطی اور غلط فہمی کی بات کی گئی ہے، ہماری وزیرخارجہ نے اسے قبول کرلیا ہے۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
۳- پارلیمنٹ نے سلالہ واقعے کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمے اور سزا کی بات کی تھی، وہ سب پادر ہوا ہوگئی۔
۴- معافی کے بغیر اور پاکستان کی سرحدوں کے احترام اور سلالہ اور ۲مئی جیسے واقعات کے دوبارہ رُونما نہ ہونے کی واضح یقین دہانی، نیز ڈرون حملوں کے روکنے کے وعدے کے بغیر ناٹو سپلائی کا کھلنا، ایک قومی جرم اور ملک کے دستور اور پارلیمنٹ سے بے وفائی ہے۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور بھی کئی اہم سفارشات تھیں جن پر اس وقت کلام کی ضرورت نہیں۔صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کا حشر بھی ان پانچوں باتوں جیسا ہوا ہے جن کا اُوپر ذکر کیاگیا۔
’قلابازی‘ کی وجہ
اس مسئلے پر گفتگو ختم کرنے سے پہلے ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ آخر حکومت نے امریکا کے سامنے اس بوکھلاہٹ اور بے غیرتی کے ساتھ ہتھیار کیوں ڈالے؟ امریکا اور یورپ کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں آنے والے تبصروں کی روشنی میں دو نظریات ہیں جو قوی مفروضوں (hypothesis) کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کے غوروفکر کے لیے ان کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
پہلا نظریہ یہ ہے کہ حکومت مختلف وجوہ سے ڈانواںڈول ہے۔ گیلانی صاحب کی بیک بینی و دوگوش رخصتی کے بعد غیریقینی کی کیفیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ایک غیرعلانیہ این آر او امریکا کی قیادت اور موجودہ حکومت کے درمیان ہوا ہے جس میں امریکا نے اس حکومت کو مزید زندگی (lease of life) کی ضمانت دی ہے، اور اس نے کسی باقاعدہ معاہدے اور پاک امریکا تعلقات کے پورے فریم ورک کو ازسرِنو مرتب کرنے کے بجاے ایک غیرتحریری معاہدے کے ذریعے امریکا کو وہ کچھ دے دیا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔زرداری صاحب کے بیرونِ ملک اثاثوں کی حفاظت اور ان کو چند ماہ کے لیے مزید اقتدار کی یقین دہانی پر چشم زدن میں سارے معاملات طے کردیے گئے ہیں۔ اس میں ملک کی دوسری قوتیں بھی کہاں تک شریک ہیں، کہنا مشکل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل معاملات ابھی صیغۂ راز میں ہیں۔ کیا کیا لین دین ہوئے ہیں یا ہونے ہیں، ابھی مخفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز سامنے آئی ہے وہ بڑی معمولی اور عجیب ہے۔ اگر اس نوعیت کے مبہم اور افسوس کے گول مول الفاظ پر تمام اختلافات کو ختم ہونا تھا اور work as usual کو بحال کرنا تھا، تو اس سے تو کہیں بہتر موقع وہ تھا جب سلالہ کے حادثے کے ایک ہفتے بعد اوباما اور زرداری میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا اور The News کی ۴دسمبر کی اشاعت میں اس کا یہ احوال شائع ہوا۔ اسے ذرا غور سے دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اس اعلامیے سے کریں جو ہیلری کلنٹن اور حناربانی کھر میں ۴جولائی کی گفتگو کے بارے میں جاری ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کو ۴جولائی کو تسلیم کیا گیا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جسے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں نے ۴دسمبر کو ردکردیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
ناٹو کے فوجی حملے میں ۲۴ پاکستانی فوجیوں کی اموات پر ذاتی طور پر تعزیت کے لیے صدراوباما نے اتوار کے دن فون کیا۔ وائٹ ہائوس کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ صدراوباما نے واضح کردیا کہ یہ قابلِ افسوس واقعہ پاکستان پر سوچا سمجھا حملہ نہیں تھا اور مکمل تحقیقات کے وعدے کو دہرایا۔ (دی نیوز، ۴دسمبر ۲۰۱۲ئ)
یہ سوال بہرحال پاکستانی عوام کو غلطاںو پیچاں رکھے گا کہ ۳دسمبر کو اظہارِ افسوس (regret) کیوں قابلِ قبول نہیں تھا اور ۳جولائی کو دونوںطرف سے غلطیوں کے اعتراف کے اضافے کے ساتھ وہی ناقابلِ التفات لفظ کیو ں قابلِ قبول ہوگیا___ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟
دوسرا نظریہ اور بھی ہولناک ہے۔ اس میں بڑے تیقن کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اصل چیز امریکا کی کچھ ایسی دھمکیاں تھیں جنھیں موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نظرانداز نہیں کرسکی اور امریکا نے وہی ڈراما رچایا جو ستمبر ۲۰۰۱ء میں کامیابی سے رچایا جاچکا تھا۔
سب سے پہلے ایک ہمہ گیر میڈیا جنگ شروع ہوئی اور اپریل سے جون کے آخیر تک تابڑتوڑ حملے کیے گئے جن میں پاکستان کو غیرذمہ دار، جھوٹا، دھوکے باز، دوغلا، دہشت گرد اور نہ معلوم کیا کہا اور لکھا گیا۔ مقصد پاکستان کو ہی اصل مسئلہ بناکر پیش کرنا تھا۔ پاکستان کے سفارت کار اور لابی اس کا کوئی مؤثر توڑ نہ کرسکے۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک دردِسر ثابت کیا گیا۔
پھر امریکا کی قیادت نے پاکستان کے بارے میں اپنے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کا اعلان کرنا شروع کیا۔ بھارت سے خصوصی تعلقات استوار کرلیے اور بھارت کی سرزمین پر امریکی قیادت نے پاکستان کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اختیار کیا اور پاکستان کو ڈھکے چھپے اور کھلے دھمکیاں دینے کے عمل کو بھی تیز تر کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں پاکستان کو ڈالروں سے خریدنے اوربیچنے کے ساتھ ساتھ اوقات میں رہنے کی دھمکی بھی دی؟
اس پس منظر میں سلالہ واقعے کے بعد چند ہفتوں کے تعطل کے بعد خود امریکا نے ڈرون حملے پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں شروع کردیے۔ اس کے ساتھ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ہندستان سے بھی پاکستان کی سرحدوں پر بوفورتوپیں نصب کردیں۔
۱- امریکی کانگرنس میں پاکستان کے خلاف کئی قوانین کے مسودات کا داخل کیا جانا جن میں معاشی اور عسکری امداد تخفیف یا اس کی مکمل معطلی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی ہیرو بنا کر اس کی واپسی کا مطالبہ، اور پھر سب سے بڑھ کر حقانی نیٹ ورک اور لشکرطیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا بل جس کے پاکستان کے لیے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے تھے، یعنی اسے بلاواسطہ ایک دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا امکان یا خطرہ۔ ان چیزوں کو پاکستان میں امریکی لابی نے سیاسی اور عسکری حلقوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
۲- سیاسی اور معاشی میدان میں ان آپریشنز کو ایک عسکری جہت دینے کے لیے امریکا نے ایک بڑا ہی خطرناک اقدام کیا۔ اپنے بحری بیڑے Carrier Strike Group Twelve کے ایک نہایت تباہ کن ایٹمی صلاحیت سے آراستہ جنگی جہاز یو ایس ایس انٹرپرائز کو گوادر کے قریب پاکستانی سمندری حدود میں لاکھڑا کیا۔ اس نیوکلیر پاور سے آراستہ جہاز پر ۴۶۰۰؍افراد کا عملہ ہے۔ اس پر جنگی ہوائی جہازوں کے ۱۸ اسکوارڈن ایستادہ ہیں۔ یہ ایک طرح کی وارننگ تھی جو اس سے پہلے امریکانے نہیں دی تھی۔ راستے کھلنے کے دو دن بعد یہ جہاز گوادر کے ساحل سے چلاگیا اور امریکی بیڑے میں شامل ہوگیاجس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ۲۰۱۲ء میں یہ وہ پستول تھا جو زرداری کیانی کی کنپٹی پر رکھا گیا؟
۳- چین اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے شرانگیز اقدامات کیے گئے۔ چین کی مسلم اکثریت کی ریاست شین چانگ (سابق سنکیانگ) میں کارروائیوں اور خیبرایجنسی میں دہشت گردی کی تربیت کی خبروں کو بڑی سُرعت سے اُچھالا گیا۔ بھارت، پاکستان پر دونوں طرف سے دبائو ڈال رہا ہے، یعنی ممبئی کے حادثے کا سہارا لے کر پاکستان کے مشرقی محاذ پر اور افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھا کر اور شمالی الائنس کے ساتھ مل کر مغربی محاذ پر۔
۴- پھر اسی زمانے میں سعودی عرب سے ممبئی حملوں کے سلسلے کے ایک مطلوب فرد کو (جسے ابوجندل کہا جا رہا ہے) بڑے رازدارانہ انداز میں بھارت روانہ کیاگیا جہاں اسے ایئرپورٹ پر گرفتار کر کے پاکستان پر دبائو کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کی مہم شروع ہوگئی اور پاکستان پر دبائو کی اس یلغار میں ایک دیرینہ دوست ملک کو بھی گویا شامل کرلیا گیا۔
دبائو اور بلیک میل کا یہ سارا کھیل بالآخر رنگ لایا اور پاکستان کی قیادت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ شاید غالب نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا کہ ؎
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
امریکا کو یہ اندازہ ہے کہ پاکستان کی قیادت ایک حد سے زیادہ دبائو کو برداشت نہیں کرسکتی اور ٹمپریچر کو اس حد سے آگے بڑھا کر اسے دبایا جاسکتا ہے۔ امریکا اپنے اس زعم کا برملا اظہار کرتا ہے۔ باب وڈورڈ اپنی کتاب Obama's Wars میں امریکا کے چوٹی کے پالیسی سازوں کی خود وائٹ ہائوس میں گفتگو نقل کرتا ہے، جسے دل پر پتھر رکھ کر، محض اپنی قیادت کی آنکھیں کھولنے اور پاکستانی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ امریکہ کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے ہم نقل کر رہے ہیں:
پاکستانی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت اتنی کمزور اور خستہ ہے کہ اگر امریکا نے چھڑیاں استعمال کیں تو یہ گر جائے گی۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے: ’’آپ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ختم ہوجائیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ پھر سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
بلیر کا خیال تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں صرف ۱۰منٹ کی دیانت دارانہ بحث سے معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان پر حقیقی دبائو (leverage) کیا ہے۔ فرض کریں کہ صدر خلوص سے پوچھتے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم کیا کرسکتے ہو؟ بلیر کا کہنا تھا کہ اگر پوچھا جاتا تو اس نے یہ کہا ہوتا: ’’ہم سرحدپار کچھ حملے کریں گے اور پاکستان کے اندر انتہاپسند گروپوں پر بم باری کریں گے‘‘۔ صدر اور دوسروں نے ضرور پھر یہ پوچھا ہوگا کہ’’ڈینی! اس کے نتائج کیا ہوتے؟‘‘ ’’میرے خیال میں پاکستان مکمل طور پر زیر ہوجاتا۔٭ شاید وہ ہمارے خلاف کچھ اقدام کرتے لیکن پھر وہ فوراً ہی ایڈجسٹ کرلیتے۔ اور کون سے حملے، کون سی باتیں، میرا خیال ہے ہم اس میں سے نکل آتے‘‘۔
یہ ہے امریکی قیادت کا ذہن پاکستان کی قیادت اور اس کے محافظوں کے عزم و فراست اور قوتِ مدافعت اور جوابی کارروائی کے بارے میں۔ ۲۰۰۱ء میں بھی وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اور ۲۰۱۲ء میں بھی ایک بار پھر وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کیا ان حالات کو انقلابی تبدیلیوں کے بغیر بدلا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مقدر ایسی ہی قیادت ہے؟ یا اس قوم میں ایسی نئی قیادت برسرِاقتدار لانے کی صلاحیت اور عزم ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اسی طرح کاٹ پھینکے جس طرح قائداعظم کی قیادت میں ۱۹۴۷ء میں کاٹ کر اسی قوم نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ موجودہ قیادت کا اخلاقی، نظریاتی اور قوتِ کار کے اعتبار سے دیوالیہ پن تو واضح ہوگیا ہے۔ اب امید کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں تو وہ کسی نئی اہل اور دیانت دارانہ قیادت اور نئے نظام ہی سے ممکن ہیں۔ تاریخ ایک بار پھر اس قوم کو عزمِ نو اور نئی جدوجہد کی طرف پکار رہی ہے ___ ہمارے لیے زندگی اور عزت کا راستہ اس پکار پر لبیک کہنے اور پھر منزلِ مراد کو حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے میں ہے ؎
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہوجائے
جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہوجائے
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران کچھ متعین ایسی آیات آتی ہیں جن پر سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم جب تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران ان آیات پر سجدہ کرتے ہیں تو اس سنت پرعمل کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور اپنی بندگی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ مراسمِ عبودیت میں سجدے کا مقام سب سے بڑھ کر ہے۔ انسان جب اپنی پیشانی کو زمین پر رکھتا ہے تو وہ خالق کائنات کے سامنے اپنی انتہائی کمزوری اور بیچارگی کا اقرار کرتا ہے۔ دین اسلام میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث پاک ہے: ’’بندہ (دورانِ نماز) سجدے میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو‘‘۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
مولانا مودودیؒ آیاتِ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید میں ایسے ۱۴ مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدے کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدئہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علما نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسااوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اُونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپؐ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اُتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اُوپر جاکر خطبہ شروع کردیا ہے۔
اس سجدے کے لیے جمہور انھی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں: ’’یعنی، باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا اور نماز کی طرح سجدے میں زمین پر سر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجود تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں بھی ان شرطوں کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو، جھک جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۱۵-۱۱۶)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بہشتی زیور میں سجدۂ تلاوت کا باب قائم کیا ہے (ص۳۳) جس میں تفصیل سے سجدئہ تلاوت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ وہ سب تو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں لیکن چند مفید نکات ملاحظہ فرمائیں: جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح سجدئہ تلاوت بھی کرنا چاہیے۔ اگر نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور نماز ہی میں سجدہ نہ کیا تو اب نماز کے بعد سجدہ کرنے سے ادا نہ ہوگا، ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے سجدے کی آیت کو کئی بار دہرا کر پڑھے تو ایک ہی سجدہ واجب ہے۔ ساری سورت پڑھنا اور سجدے کی آیت کو چھوڑ دینا مکروہ اور منع ہے۔ فقط سجدے سے بچنے کے لیے وہ آیت نہ چھوڑے کہ اس میںسجدے سے گویا انکار ہے۔
رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح میں ختم قرآن کے دوران اور تلاوتِ قرآن کے موقع پر سجدۂ تلاوت کے مواقع اور التزام بالعموم بڑھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت سجدۂ تلاوت باجماعت کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان تمام آیاتِ سجدہ کو ترتیب سے جمع کرکے ان کا ترجمہ و تفسیر اور شانِ نزول بیان کردی ہے جس طرح وہ قرآن میں موجود ہیں۔ زیادہ تر حواشی تفہیم القرآن سے لیے گئے ہیں۔ صرف ایک آیت کی تفسیر، ابن کثیر سے لی گئی ہے۔ اُمید ہے اس مطالعے سے قاری سجدئہ تلاوت کے موقع پر زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ پروردگار عالم کے حضور میں اپنی عجز وانکساری اور کوتاہ دامنی کا اظہار کرسکیں گے، ان شاء اللہ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوْنَہٗ وَ لَہٗ یَسْجُدُوْنَo (اعراف ۷:۲۰۶)، جو فرشتے تمھارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔
’’مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجاے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بنائو۔
تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہرقسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔
اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے، اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص ۱۱۵)
وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ ظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ o (الرعد ۱۳:۱۵)، وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہرچیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سایے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔
’’سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرتسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہرمخلوق اس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کرسکتی۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتاہے، کیونکہ خدا کے قانونِ فطرت سے ہٹنا اس کی مقدرت سے باہر ہے۔
سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیا کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی امر کی مطیع اور کسی قانون سے مسخر ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۴۵۱)
اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ، کفار کے مشرکانہ طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اسی کو پکارنا برحق ہے۔رہیں وہ دوسری ہستیاں جنھیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف‘‘۔ اس کے بعد اس اللہ کا ذکر ہے جس کو ہرچیز سجدہ کررہی ہے۔ اس لیے ہم کو بھی اظہارِ عبدیت کے طور پر اور پورے کائنات کے نظام سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔
یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (النحل ۱۶:۵۰)، اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔
اگر اس سے پہلے کی آیت ۴۸ کو ساتھ ملا کر پڑھیں تو مضمون واضح ہوجاتا ہے: ’’اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے۔ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’زمین اور آسمان میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے۔ اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں‘‘۔
’’[یہاں] تمام جسمانی اشیا کے سایے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔
[اللہ کے آگے سربسجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ صرف] زمین ہی کی نہیں، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابع دار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔ ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا کہ جان دار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورئہ شوریٰ، آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۵۴۵-۵۴۶)
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔
اگر آیت سجدہ کو پہلے کی دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو مضمون مکمل ہوجاتا ہے: ’’اے نبی ؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔
’’یعنی وہ اہلِ کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے اندازِ کلام کو پہچانتے ہیں… قرآن کو سن کر فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیا کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے[اور وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ اور اس کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر اور اپنی بندگی کا اظہار کرنے کے لیے سجدے میں گر جاتے ہیں]۔ صالحین اہلِ کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۶۴۹-۶۵۰)
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْرَآئِ یْلَ وَ مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَاط اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّاo (مریم ۱۹:۵۸)، یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم ؑکی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم ؑکی نسل سے اور اسرائیل ؑکی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔
’’اس آیت سجدہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیا کی جماعت کا ذکر کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ یہ ہے انبیاؑ کی جماعت جن کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، جو اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں۔ اس میں انبیاؑ کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔ پہلا گروہ اولادِ آدم ؑسے، یعنی حضرت ادریس ؑاور ان کی اولاد۔ دوسرا حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے والوں کی نسل سے مراد حضرت ابراہیم ؑخلیل اللہ ہیں، تیسرا ذُریت حضرت ابراہیم ؑسے مراد حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ ہیں، اور چوتھا گروہ ذُریت اسرائیل ؑ(یعقوب ؑ) سے مراد حضرت موسٰی ؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسٰی ؑہیں..... فرمانِ الٰہی ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل و براہین کو سُن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکرواحسان مانتے ہوئے، روتے، گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ اسی لیے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علما کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہوجائے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے سورئہ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا۔ پھر فرمایا: سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں؟ (ابن ابی حاتم اور ابن جریر)‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۳،ص ۲۳۸)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ ط وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ (الحج ۲۲:۱۸)، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔
[جس طرح پہلی آیات میں گزر چکا ہے کہ ] ’’فرشتے، اجرامِ فلکی اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا، دوسرے جہانوں میں ہیں، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں، یا حیوانات ، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔ [سب اللہ کے سامنے سربسجود ہیں]۔ یعنی وہ نہیں جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آرہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۱۱-۲۱۲)
اس لیے یہاں اہلِ ایمان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ یہاں سجدۂ تلاوت واجب ہے اور یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔
وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا o (الفرقان ۲۵:۶۰)، ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں: رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟‘‘ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔
اس سے پہلے والی آیت (۵۹) میں رحمان کی شان بیان کی گئی ہے، یعنی وہ خدا جو زندہ ہے، کبھی مرنے والا نہیں، وہ باخبر ہے۔ اس نے چھے دنوں میں زمین اور آسمانوں کو بنایا۔ پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا۔
جب منکرین یہ بات کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے تو ’’یہ بات دراصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسٰی ؑسے کہا تھا: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، ’’رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ حالانکہ نہ کفارِ مکہ خداے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے ناواقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ’رحمان‘ کا اسمِ مبارک شائع [مقبول] نہ تھا اس لیے انھوں نے یہ اعتراض کیا۔ لیکن آیت کا اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طُغیانِ جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجاے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انھیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا....
اس جگہ سجدئہ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہلِ علم متفق ہیں۔ ہرقاری اور سامع کو اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس آیت کو سنے تو جواب میں کہے: زَادَنَا اللّٰہُ خُضُوْعًا مَّا زَادَ لِلْاَعْدَآئِ نُفُورًا، ’’اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۴۶۰-۴۶۱)
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ o (النمل ۲۷: ۲۵)، اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
اس آیت سجدہ سے پہلے ، سورئہ نمل میں حضرت سلیمانؓ کے دربار میں ہُدہُد کا بیان ہے، جو اس نے ملک سبا کے دورے سے واپس آنے پر دیا۔ اس نے ایک ایسی قوم کا حال سنایا جس کی ایک ملکہ ہے اور وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجاے سورج کو سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا دیے اور انھیں شاہراہ سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
یہاں اللہ کی دو صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو ہر آن نئی چیزوں کو ظہور میں لارہا ہے جو پوشیدہ تھیں۔ اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں۔
’’[یہاں] اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بطورِ نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انھیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو بے چارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہرلحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے۔[اور وہ اللہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور عرشِ عظیم کا مالک ہے۔]
اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدئہ تلاوت واجب ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے،کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۷۰-۵۷۱)
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۵)، ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی منظرکشی کی ہے: ’’کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) ’’اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین ہوگیا ہے‘‘۔ (جواب میں ارشاد ہوگا) ’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا، ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کردیا ہے۔ چکھو، ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۱۲-۱۴)
اس کے بعد آیت سجدہ میں اہلِ ایمان کی شان بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے۔ نفس کی کبریائی انھیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۵)۔ لہٰذا جب وہ قرآن سنتے ہیں اور ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اسی لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس مقام پر سجدہ کر کے اپنے آپ کو بھی مومنین کے اس گروہ میں شامل کریں۔
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِِلٰی نِعَاجِہِ ط وَاِِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْط وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ o (صٓ ۳۸:۲۴)، دائود ؑنے جواب دیا: ’’اِس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقینا تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عملِ صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں‘‘۔ (یہ بات کہتے کہتے) دائود ؑسمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمایش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا۔
یہاں پر یہ ممکن نہیں کہ اس واقعے کی تفصیل میں جایا جائے جو حضرت دائود ؑکے ساتھ پیش آیا اور قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے لیے تفاسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ حضرت دائود ؑ سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوا تھا جو دُنبیوں والے واقعے سے مماثلت رکھتا تھا۔ اسی لیے فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمایش ہوئی ہے لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا۔ جب انھوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو [نہ صرف] یہ کہ انھیں معاف کردیا گیا بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔
’’اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدئہ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباسؓ سے تین روایتیں محدثین نقل کی ہیں۔ عکرمہؓ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا:’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر مَیں نے اس مقام پر نبیؐ کو سجدہ کرتے دیکھا ہے‘‘ (بخاری).... سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے کہ سورئہ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: ’’دائود ؑنے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ (نسائی).... حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبے میں سورئہ صٓ پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر سے اُتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔ ان روایات سے اگرچہ وجوبِ سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت یہاں سجدہ کرنا بہرحال افضل ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۲۵-۳۲۶)
فَاِِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَo(حم السجدہ ۴۱:۳۸) ، لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔
اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘(۴۱:۳۷)۔’’یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور ا س کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیا علیہم السلام جس توحیدِ خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امرواقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہرنہیں ہے بلکہ دونوں ہی مجبورو لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں… اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہِ راست خود اُسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۶۰-۴۶۱)
گویا اب اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات یا جہالت پر اڑے رہیں تو پروا نہیں ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے جن کے ذریعے پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اس کی بندگی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔
اس مقام پر سجدہ تو متفق علیہ ہے مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ آیت نمبر۳۷ یا ۳۸ میں کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ پہلی آیت پر سجدہ کرتے تھے لیکن حضرات ابن عمرؓ، سعید بن مسیبؓ و دیگر اکابر وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا بھی قول ہے۔
فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْاo (النجم ۵۳:۶۲)، جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو۔
یہ وہ مشہور آیت سجدہ ہے جس پر جب آپ نے بیت اللہ شریف میں سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے۔ اس سے پہلے کی آیات میں مکہ کے کفار کے غلط طرزِعمل پر ان کو ٹوکا گیا تھا کہ تم ’’ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گابجا کر انھیں ٹالتے ہو؟‘‘ (۵۳:۶۱)۔ یعنی قرآن سن کر اس کا مذاق اُڑاتے ہو اور لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے ہو، جب کہ صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ تم ’’جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، ابن عباسؓ اور مُطَّلِب بن ابی وداعہؓ کی متفق علیہ روایات ہیں کہ حضوؐر نے جب پہلی مرتبہ حرمِ پاک میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گرگئے۔ (بخاری)
سیرت النبیؐ کی مشہور کتاب الرحیق المختوم میں یہ واقعہ یوں رقم ہے: ہجرتِ حبشہ اوّل کے بعد، اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیؐ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے ایک دم اچانک کھڑے ہوکر سورئہ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا.... اور ان کے کانوں میں ایک ناقابلِ بیان رعنائی و دل کشی اور عظمت لیے ہوئے کلامِ الٰہی کی آواز پڑی تو انھیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے۔ کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ نے سورہ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ فَاسْجُدُوْا… اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے.... بعد میں جب انھیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کربیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیرموجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انھوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسولؐ اللہ پر یہ افتراپردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرکے کہا تھا کہ تِلْکَ العَزَانِیْنُ… ’’یہ بلندپایہ دیویاں ہیں، اور ان کی شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے‘‘۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تاکہ نبیؐ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو ’غلطی‘ ہوگئی ہے اس کے لیے ایک ’معقول‘ عذر پیش کیا جاسکے.... بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی اس طرح پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں چنانچہ انھوں نے ماہِ شوا ل میں مکہ واپسی کی راہ لی.... لیکن جب قریب پہنچے تو حقیقت حال آشکار ہوئی۔(ص ۱۳۳-۱۳۴)
وَاِِذَا قُرِیَٔ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَo (الانشقاق ۸۴:۲۱)، اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔
اس آیت سجدہ کے پورے مفہوم کو سمجھنے کے لیے آیت ۱۶ سے پڑھیں: ’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے، اور چاند کی جب کہ ماہِ کامل ہوجاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟‘‘ ۔’’یعنی [انسان کو] ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کو گزرنا ہوگا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے: سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی، اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں، اور چاند کا ہلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیرائو نہیں ہے، ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہوجائے گا‘‘۔
[اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے] ’’یعنی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالکؒ، مسلمؒ اور نسائیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم، ابودائود، اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے عشا کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسمؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضوؐر نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۲۹۱-۲۹۲)
کَلَّا ط لاَ تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْo(العلق ۹۶:۱۹)، ہرگز نہیں، اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔
شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔ نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبرئیل ؑکے ذریعے سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنا شروع کی اور ابوجہل کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے نبی پاکؐ کو منع کرنا چاہا۔ اس لیے سورئہ علق کی آیت چھے سے آخر (۱۹) تک آیات میں اللہ پاک نے اس کافر کے ردعمل کا جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقینا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے، جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطاکار ہے۔ وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو،ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔ ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو‘‘۔
’’حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ابوجہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا: ’’کیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ’’لات اور عُزّیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پائوں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا‘‘۔ پھر ایسا ہوا کہ حضوؐر کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن پر پائوں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے اور اُن کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پَر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اُڑا دیتے۔ (احمد،مسلم، نسائی)
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا: اے محمدؐ! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپؐ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول ؐ اللہ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا: اے محمدؐ! تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم! اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں‘‘ (احمد، ترمذی)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۳۹۴-۳۹۵)۔ چنانچہ ان آیات کے ذریعے آپؐ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بار پھر آپؐ کو حکم دیا کہ تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو۔
[یہاں] ’’سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے، یعنی اے نبیؐ! تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے‘‘ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے‘‘۔ (ایضاً، ص۳۹۹)
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی تمیم قبیلہ کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بنی تمیم! بشارت قبول کرو۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو پھر ہمیں مال عنایت فرما دیں۔ اس پر آپؐ کے چہرئہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اس کے بعد یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپؐ نے فرمایا: یمن والو! تم بشارت قبول کرو، جب کہ بنوتمیم نے قبول نہ کی۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے قبول کی۔ تب آپؐ نے کائنات کے حالات، اس کی پیدایش سے لے کر اہلِ جنت کے جنت میں داخل ہونے اور اہلِ دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے تک بیان کرنا شروع کردیے۔ اس دوران میں آواز دینے والے نے آواز دی :اے عمران! تیری اُونٹنی رسی کھول کر نکل گئی ہے۔ میں اُونٹنی کو پکڑنے کے لیے آپؐ کی مجلس سے اُٹھ گیا، لیکن اُونٹنی تو دُور دُور تک نظر نہ آئی۔ جو لوگ مجلس میں بیٹھے رہے انھوں نے آپؐ کا سارا بیان سن لیا۔ کسی نے سارا بیان یاد رکھا اور کسی نے کچھ بھلا دیا اور کچھ یاد رکھا۔ مجھے اپنے اُٹھ جانے کا افسوس ہوا۔ کاش! میں آپؐ کی مجلس سے نہ اُٹھتا اور آپؐ کا سارا بیان سن لیتا۔ (بخاری، باب بدء الخلق)
حضرت عمران بن حصین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ آپؐ کی مجالس میں شرکت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ کائنات کے حالات کا اوّل سے لے کر آخر تک کا بیان، حضورؐ کے بیانات میں سے ایک اہم بیان ہے۔ عمران بن حصینؓ اُونٹنی کو پکڑنے کی خاطر اُٹھ کر چلے گئے، اُونٹنی بھی نہ مل سکی اور آپؐ کے پورے بیان کے سننے سے بھی محروم ہوگئے۔ بعد میں اُونٹنی کے نہ ملنے کا افسوس تو نہ ہوا لیکن آپؐ کی علمی مبارک مجلس سے اُٹھ کر چلے جانے کا نہایت افسوس ہوا۔
صحابہ کرامؓ کو اصل شوق آپؐ کی مجلس میں حاضری اور تحصیلِ علم کا تھا۔ مال و مویشی ،سواریاں اور دنیاوی کام ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں کبھی بھی اس بات کا افسوس نہیں ہوا کہ وہ آپؐ کی مجلس میں شرکت کے سبب کسی دنیاوی منافع سے محروم ہوگئے۔ آپؐ کی مجلس سے محروم ہوجاتے تو اس کا انھیں بڑا افسوس ہوتا تھا۔ آج کے دور میں ہمیں دنیا کمانے کا بڑا شوق ہے اور یہی ہمارا اصل کام بن گیا ہے۔ علم اور تحریکی کام ہمارے ہاں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ کردار جو جماعت صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سرانجام دیا وہ کام اسی طرح کے لوگ ادا کرسکتے ہیں جن کے ہاں علمِ دین اور تحریکی کام مقدم ہو اور دنیوی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہوں۔ آیئے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اس کا مداوا کرنا چاہیے اور ایسے کارکن تیار کرنا چاہییں جو اس معیار پر پورا اُترتے ہوں۔ جب ایسے کارکنوں پر مشتمل معیاری لوگ تیار ہوکر جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوں گے، تو پھر اسلامی انقلاب برپا ہونے کے راستے میں تمام رکاوٹیں دُور ہوجائیں گی۔
o
حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار کاموں کو نہیں چھوڑتے تھے: سفر اور حضر ہرحال میں انھیں ادا فرماتے تھے۔ عاشورے کا روزہ، ذوالحجہ کے نو روزے، یکم سے لے کر ۹ذوالحجہ تک، اور ایامِ بیض ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں کے روزے اور فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)
رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی آپؐ نفلی روزے رکھتے تھے ، مثلاً سوموار اور جمعرات کا روزہ۔ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنے والا صائم الدھر (ہمیشہ روزہ رکھنے والا) شمار ہوتا ہے۔نفلی روزوں کی سیرت و کردار کی تعمیر اور اللہ سے تعلق قائم رکھنے میں بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے گھروں میں بعض خواتین ان کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ گھرانوں میں روایتاً رکھے جاتے ہیں۔ اخوان المسلمون کی طرح ہمارے ہاں اس کا کلچر ہونا چاہیے۔ بیش تر لوگ رکھتے ہوں، عام طور پر رکھتے ہوں۔ عموماً شاذ ہی ذکر ہوتا ہے۔ تربیتی پروگراموں کا یہ حصہ ہونا چاہیے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں پہرہ دے رہا تھا تو وہ جو عملِ صالح دنیا میں کرتا تھا، ان سب کے اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا۔ اس کا رزق بھی جاری رہے گا، وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا، اور قیامت کے روز اس حال میں اُٹھے گا کہ قیامت کی ہولناکیوں سے خوف زدہ نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، مسند صحیح)
جو شخص اللہ کی راہ میںپہرہ دے رہا ہے، اسلام اور اُمت مسلمہ کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، اسے دشمن کے شر سے اور مسلمان ملک پر کفار کے قبضے سے بچانے میں مشغول ہے، اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، وہ اس دنیا سے چلا جائے تو بھی اس کے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عالمِ برزخ میں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی ملے گا اور وہ جب تک دنیا میں ہے اس وقت تک شیطان کے شر سے بھی محفوظ ہے اور قیامت کے روز جو انتہائی سخت دن ہے اس میں لوگوں کے لیے بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہوں گی، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، کوئی گھٹنوں تک، کوئی پیٹ تک اور کوئی گلے تک، لیکن یہ شخص ہرقسم کی تکلیف اور مصیبت سے محفوظ ہوگا۔ اس حدیث میں اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں، مسلمان ممالک کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانے والوں کے لیے بڑی بشارت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس دور میں بھی یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے نفاذ اور اُمت مسلمہ کی حفاظت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کام میں ہرقسم کی تکلیف اور قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جتنا بڑا اجر ہے، اتنی ہی بڑی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو اس خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے اور اپنے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی سعادت سے نوازتا ہے۔
o
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں پہنچا کہ آپؐ کعبہ کی دیوار کے سایے میں تشریف فرما تھے۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! یہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں، یہ لوگ سب سے زیادہ خسارے میں ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: یہ وہ ہیں جن کے پاس دوسروں سے زیادہ مال ہے، مگر وہ اس خسارے سے محفوظ ہیں جو بے تحاشا خرچ کریں، آگے ، پیچھے، دائیں، بائیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ (متفق علیہ)
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال مال دیا ہے، ان کے لیے وقت ہے کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ آج دین کی تعلیم و اشاعت ، دعوت وتبلیغ اور اس کے نظام کی تنفیذ کے لیے سب سے زیادہ مال کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کی آسان تفاسیر لوگوں تک پہنچانا، آسان لٹریچر فراہم کرنا، اُردو انگریزی اور دوسری زبانوں میں لے کر لوگوں کے گھروں پر دستک دینا اور اپنے مکتبوں میں سستے داموں اور اچھے کاغذ پر فراہم کرنا وقت کی آواز ہے۔ اس طرح اچھی اخلاقی اور دینی کیسٹ، سی ڈی اور فلمیں تیار کرنے کے لیے بھی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لادینیت اور فحاشی اور عریانی کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہورہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کی اشاعت پر اپنا مال خرچ کر رہے ہیں، تو دین دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہرسطح پر ان کا مقابلہ کریں اور ان کو اس میدان میں بھی شکست سے دوچار کردیں۔
o
حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی والے کی دعا، جب کہ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی، اللہ تعالیٰ کو ان کلمات سے پکارا: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،جو آدمی بھی ان کلمات سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی)
کتنی آسان دعا ہے۔ اسے ہرمسلمان یاد کرسکتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے ہرعیب سے پاک ہونے کا اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف و اقرار ہے۔ دریا میں ڈوب جانا، مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا کتنی بڑی تکلیف ہے۔ ایسی تکلیف کہ اس سے رہائی کا تصور تک نہیں ہے لیکن حضرت یونس ؑکو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی بدولت رہائی عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ بڑی سے بڑی تکلیف اور سخت سے سخت قید سے بھی اس دعا کی بدولت رہائی مل سکتی ہے۔ آج، جب کہ مسلمان کفار کے مظالم کا شکار ہیں، تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے اندر قید اور گرفتار ہیں اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا ہی رہائی کا سامان ہے۔ جو مسلمان قید اور گرفتار ہیں، وہ بھی اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور مسلمان بھائی جو اپنے اپنے ملکوں میں آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں وہ بھی ان کے لیے یہ دعا پڑھیں۔ جتنی تعداد میں پڑھ سکیں، بہتر ہے۔ ایک لاکھ کی تعداد میں پڑھی جائے تو اکثر اوقات اس کی تاثیر ظاہرہوجاتی ہے لیکن اگر لاکھ مرتبہ پڑھنے سے بھی تاثیر ظاہر نہ ہو تو چھوڑ نہ دیا جائے اسے مسلسل پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ کسی وقت اثر ظاہر ہوگا۔
علامہ محمد اسد نے قیام پاکستان سے چار ماہ قبل اپنے رسالے Arafatمیںمئی ۱۹۴۷ء میںایک فکرانگیز مقالہ لکھا تھا ۔ اس مقالے میں اس وقت قیامِ پاکستان کے لیے جو جدوجہد ہورہی تھی، اس پرکچھ اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ آج ہمارے ملک میں قیام پاکستان پھر موضوع بحث بناہواہے، اورہرطرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اِس پس منظر میںاُس وقت کی اِس تحریر کا مطالعہ چشم کشا ہے۔علامہ محمد اسد ان چند نو مسلموںمیں سے ہیںجنھوںنے اسلام کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ گہرائی میں جاکر اس کا مطالعہ کیا اورپھر اس کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی ان تھک کوششیں کی۔ تحریک پاکستان میں انھوںنے دل و جان سے شرکت کی۔تحریک کی قیادت سے ان کاقریبی ذاتی تعلق تھا۔ انھوں نے پاکستان کی تحریک کواس کے صحیح پس منظر میں سمجھا اوراپنے قلم سے اس کی گراں قدر خدمت کی۔ ان کی یہ تحریر ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ تحریک کے عروج کے وقت انھوں نے اس تحریک کے اصل ہدف اورملت اسلامیہ ہند کے مقصد، عزائم اوراحساسات کی بھرپورترجمانی کی ہے۔
قائد اعظم، لیاقت علی خان اورنواب ممدوٹ نے ان کو پاکستان کے اسلامی دستورکا خاکہ مرتب کرنے کا کام سونپا، جسے انھوں نے ایک گراں قدر مقالے کی شکل میں تیار کیا جو پاکستان بننے کے بعد Arafat کے پہلے اور آخری شمارے میں شائع ہوا اورآج بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کو اقوام متحدہ میںپاکستان کانمایندہ مقرر کیا لیکن پھر حالات نے ایک دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کردیااورزمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں آگئی جو نہ شریک سفر تھے اورنہ تحریک پاکستان کے اصل پیغام کے امین۔ جہاں ان ۶۵برسوں میں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو پراگندہ کرنے کی کوششیں زور و شور سے ہوررہی ہیں، وہیں پاکستان کی اصل اساس اس کی حفاظت اوراس کو اس کی اصل منزل کی طرف گامزن کرنے کی جدوجہد بھی روزافزوں ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری اور ۱۹۵۶ء کا دستور ہو یا۱۹۶۲ء یا ۱۹۷۳ء کا، پاکستان کی اسلامی شناخت ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اصل مقاصد کی بار بار یاددہانی ہو، نئی نسلوں کو اس تاریخی جدوجہد اوراس کے اصل اہداف سے روشناس کیا جائے۔ مسجداور تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا اورپارلیمنٹ تک سب نہ صرف اس تاریخی سفر کو پوری دیانت سے پیش کریں بلکہ اس کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اورجہادی ریاست بنانے کے لیے سرگرم ہوں۔ ہمیں توقع ہے کہ تعلیم،تذکیر اورتبدیلی کے لیے تیاری اورجدوجہد کے اس عمل میں علامہ محمد اسد کے اس مقالے کی اشاعت ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس جذبے، خواہش اوردعاکے ساتھ ہم اس تحریر کو پرانی اورنئی دونوں نسلوں کو رمضان کے تحفے کے طور پر پیش کررہے ہیں۔٭ مدیر
تین چار ماہ پہلے کی بات ہے، میں نے عرفات کے شمارہ فروری میں ایک سوال اُٹھایا تھا: ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘۔ یہ کوئی خطیبانہ سوال نہیں تھا کہ قارئین کی دینی اصلاح کے لیے ذہن میں آیا ہو۔ فی الحقیقت یہ ایسا سوال تھا جو ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ یہ کہ ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے اس سوال کے تمام نتائج و عواقب کا پورا پورا تجزیہ کرنا ہوگا اور اپنے اندر اخلاقی جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ اس سوال کے جواب میں ایمان داری سے ’ہاں‘ یا ایمان داری سے ’نہ‘کہہ سکیں۔ فی زمانہ، جیسے حالات ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بے شمار مسلمان زبان سے تو کہتے ہیں ’ہاں‘ اور عمل سے کہتے ہیں ’نہ‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور بلندبانگ ادعا کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام بہترین ضابطۂ حیات ہے، اسلام واحد ضابطۂ حیات ہے جو انسانیت کو تباہی کے راستے سے بچا سکتا ہے، اس لیے اسلام واحد منزلِ مقصود ہے جس کے نفاذ کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ لوگ کہتے تو یہی ہیں، لیکن اپنے اعمال اور سماجی رویوں سے وہ اسلام سے زیادہ سے زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری جدید تاریخ میں اسلام کے بارے میں اتنی باتیں کبھی نہیں ہوئی تھیں، جتنی آج کے ہندستان میں ہورہی ہیں۔ ہر طرف اسلام، اسلام کا غلغلہ ہے اور اس کا برعکس بھی درست ہے کہ اسلام کی سچی روح کے مطابق عملاً اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی طرف اتنی بے توجہی کبھی نہیں برتی گئی، جتنی آج کے ہندستان میں برتی جارہی ہے۔
اس مقام پر شاید میرے اس دعوے کے خلاف آپ کے دل میں شکایت یا احتجاج پیدا ہو اور آپ اس زبردست جوش و خروش کی طرف توجہ دلائیں جو نظریۂ پاکستان نے مسلمانانِ ہند میں برپا کررکھا ہے۔ آپ کہیں گے اور ایسا کہنے میں آپ حق بجانب ہوں گے کہ مسلمانانِ ہند بالآخر اپنی طویل گراں خوبی سے بیدار ہوگئے ہیں، انھوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اتنا زبردست اتفاق و اتحاد حاصل کرلیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ کہ مسلمان ہونے کی بنا پر انھوں نے اپنا جداگانہ ثقافتی تشخص قائم کرنے کا شعور حاصل کرلیا ہے۔ یہ کہ تحریکِ پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’لااِلٰہ الا اللہ‘ مقرر ہوا ہے۔ یہ کہ انھوں نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیراہم خیال کرتا ہوں؟
بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیراہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے مَیں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔ کیا تحریکِ پاکستان کے تمام قائدین اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوئوں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟
یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ بڑے سوال ہیں، اتنے بڑے کہ ہمارے موجودہ مصائب سے بھی بڑے ہیں، اور اُن انفرادی تکالیف سے بھی بڑھ کر ہیں جو اس ملک میں ہزاروں مسلمان مرد وزن سردست برداشت کر رہے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہی سے فیصلہ ہوگا اس امر کا کہ یہ تکالیف اور قربانیاں مستقبل کے ایک نئے تناظر ،یعنی اسلام کے مکمل اثبات و نفاذ کی نوید لائیں گی یا ایک قومی مسلم ریاست کی تشکیل کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی محض اقتصادی صورت حال کی اصلاح و ترقی کی ضامن ہوں گی۔
یہاں میں جریدہ عرفات کے شمارہ فروری ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا: ’’تحریکِ پاکستان ایک نئے اسلامی نظام کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم مسلمان محسوس کریں اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی برابر محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کی حقیقی اور تاریخی وجۂ جواز یہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے مختلف لباس پہنتے، مختلف زبان بولتے یا مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے ہیں، یا یہ کہ ہمیں دوسری قوموں سے کچھ شکایات ہیں، یا یہ کہ ہمیں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش ہے یا یہ کہ ان لوگوں کے لیے جو خود کو محض عادت کے طور پر ’مسلمان‘ کہلواتے ہیں، زیادہ کشادہ جگہ کی طلب ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مطالبۂ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک سچی اسلامی مملکت قائم کی جائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعائر رائج کیے جائیں‘‘۔
’’پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہی ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کا بھی یہی تصور ہے۔ میں نے ’بہت سے‘ کہا ہے، ’سب‘ نہیں کہا، اور نہ ’بیش تر‘ کہا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ طبقے کا تصور پاکستان یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطلب فقط یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ہندو غلبے سے نجات دلائی جائے اور ایک ایسی ہیئت حاکمہ قائم کی جائے جہاں مسلمانوں کو اقتصادی مفہوم میں اپنی ایک خودمختار جگہ مل جائے۔ ان کے نزدیک اسلام کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ متعلقہ لوگوں کا مذہب اتفاق سے اسلام ہے، جیسے کہ آئرلینڈ کی جدوجہد آزادی میں کیتھولکیت کو بھی اس لیے کچھ اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ آئرلینڈ کے بیش تر باشندوں کا یہی مذہبی تھا، اور جس طرح کہ آئرستانی قومیت کی تحریک میں کیتھولکیت کو محض ایک اضافی، جذباتی عنصر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، اسی طرح خدشہ ہے کہ تحریکِ پاکستان میں اسلام کے نام پر نعرے بازی بھی کہیں قومی خوداختیاری کی جدوجہد میں محض ایک اضافی، جذباتی عنصر بن کر نہ رہ جائے‘‘۔
میں صاف صاف اور واشگاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بھائی اور بہنیں پاکستان کے روحانی و اسلامی مقاصد پر یقین تو کیا رکھیں گے ، وہ ان کی مطلق پروا بھی نہیں کرتے، اوروہ ایسے جذبات کے بہائو میں بہے چلے جارہے ہیں جو قوم پرستی کے جذبات سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہ بات خاص طور پر اُن مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے جنھوں نے مغربی خطوط پر تعلیم پائی ہے۔ دین اسلام سے اُن کی بے اعتنائی گذشتہ چند عشروں میں پختہ ہوئی ہے۔ شرعی احکام کی پابندی ایسے لوگوں کے لیے خاصی پریشان کن اور تکلیف دہ بن گئی ہے۔ مغربی طرزِفکر کے سوا کسی اور انداز میں سوچنے سمجھنے کی قابلیت ان میں مفقود ہوچکی ہے۔ چنانچہ ان کے قلوب میں یہ عقیدہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل خالص مذہبی اصولوں کے تحت حل پذیر ہوسکتے ہیں۔ اسلام کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو محض رسماً آتا ہے، کسی اصول و نظریے کے تابع ہوکر نہیں آتا۔ انھیں اسلام سے کوئی دل چسپی ہوتی ہے، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنی قوم کی روایات میں ثقافتی اقدار کا بھرم رکھا جائے۔ اس قسم کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ ویسا ہی قومی مطالبہ ہے، جیسے مصر مصریوں کے لیے، چیکوسلواکیہ چیک لوگوں کے لیے، یعنی لوگوں کے ایک گروہ کی جانب سے، چند مخصوص اقتصادی مفادات اور چند مشترکہ ثقافتی خصائص (اور مسلمانانِ ہند کی صورت میں اسلام سے وابستہ ثقافتی خصائص) کی اساس پر خوداختیاری کا مطالبہ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ پاکستان کا بہت کمزور تصور ہے۔ یہ تصور اس اسلامی جوش و خروش سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، جس کا مظاہرہ ہمارے عوام کی بہت بڑی اکثریت بڑے واضح، لیکن بڑے بے ہنگم طریقے سے کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد اربابِ دانش اسلام سے صرف اس حد تک غرض رکھتے ہیں، جس حد تک کہ وہ ان کی سیاسی خوداختیاری کی جدوجہد کے لیے مفیدمطلب ہوسکتا ہے، جب کہ ہمارے عوام خوداختیاری کا مطالبہ صرف احیاے اسلام کی آرزو کے تحت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی آرزوئیں واضح نہیں ہیں اوروہ نہیں جانتے کہ انھیں حاصل کیوں کر کیا جاتا ہے، اس لیے وہ قدرتاً اہلِ قیادت پر بھروسا کرتے ہیں۔ پس قیادت کے روحانی اوصاف ہی سے بالآخر یہ طے ہوگا کہ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کی روحانی کیفیت کیا ہوگی، اور پاکستان اپنے قیام کے بعد کیسا رنگ روپ اختیار کرے گا؟
جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریکِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ایک ’نظریاتی قوم‘ ہیں، اور اسی لیے وہ خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص، دوسری اقوام کی طرح، مشترکہ نسلی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد پر قرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ پس ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں جس میں اسلامی نظریہ و اعتقاد (یعنی شریعت) ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے۔
یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ یہ ہرگز ہندستان میں مسلم اقلیت کے اجتماعی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ غیرمسلم اقلیتیں رہیں گی، جس طرح کہ ہندستان میں مسلم اقلیتیں رہیں گی، اس لیے اقلیتوں کے مسئلے کے سراسر حل کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی۔ یہی ہے وہ نکتہ جس پر ہمیں اور ہمارے نکتہ چینوں کو ذرا رُک کر غوروفکر کرلینا چاہیے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بے شک ہرلحاظ سے ہندستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن یہ مسئلہ بنیادی طور پر تحریکِ پاکستان کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اقلیتوں کا مسئلہ تحریکِ پاکستان کے اصلی نصب العین کا ایک اتفاقی لازمہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریہ حقیقت کا رنگ روپ اختیار کرسکے۔ صرف اسی نصب العین کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ممبئی یا مدراس کے مسلمان، جن کو خوب معلوم ہے کہ ان کے صوبے پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے، حصولِ پاکستان کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنے پنجاب یا بنگال کے مسلمان۔ ممبئی اور مدراس کے مسلمان یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے صوبے جغرافیائی و علاقائی اعتبار سے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے، اگر ’مسلم اکثریت‘ کے صوبوں کے بھائیوں کی مانند پوری شدت و توانائی سے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس دعوے کا ٹھوس ثبوت ہوگا کہ اسلام ایک عملی مذہب اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور یہ کہ مسلمان، محض مسلمان ہونے کی بنا پر ایک ملت ہیں، خواہ وہ جغرافیائی لحاظ سے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں۔ اور اگر غیرمسلم ہمارے اس دعوے پر اس بنیاد پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی، حتیٰ کہ دنیاے اسلام میں بھی، کسی ملک یا علاقے میں محض مذہبی عقائد کی اساس پر جداگانہ قومیت کا مطالبہ نہیں کیاجاتا، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ یہی تو تحریکِ پاکستان کی خاص انفرادیت ہے۔
کیا دوسروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیا جائے کہ ہماری قومیت کے عناصر کیا ہونے چاہییں اور کیا نہیں؟ کیا ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں شرمساری محسوس کرنی چاہیے کہ ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ سیاسی نصب العین سے بالکل مختلف ہے؟ کیا ہمیں یہ سوچ کر فخر نہیں کرنا چاہیے کہ تمام مسلم اقوام میں، یہ ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹاکر اُمت واحدہ کے اُس تصور کی جستجو میں نکل کھڑے ہیں جس کی ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے روشن کردی تھی۔
پس دنیاے اسلام میں جہاں کہیں بھی سیاسی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں ، ان سب کے مقابلے میں تحریکِ پاکستان فی الحقیقت منفرد و یکتا ہے۔ اس جیسی اور کوئی تحریک نہیں۔ بلاشبہہ وسیع و عریض دنیاے اسلام میں اور بھی لوگ ہیں جو اسلام کے سچے شیدائی ہیں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اور اپنی قوم کی اخلاقی سربلندی کے لیے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، سواے تحریکِ پاکستان کے، کہ پوری کی پوری مسلم قوم منزلِ اسلام کی جانب گامزن ہوگئی ہو۔ پوری دنیاے اسلام میں کوئی عوامی تحریک ایسی نہیں ہے، جس کی اساس اسلامی جذبے پر رکھی گئی ہو، سواے تحریکِ پاکستان کے۔ کسی بھی موجودہ اسلامی ملک میں ایسی تحریک نہیں چلی جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو، سواے تحریک پاکستان کے۔ بعض اسلامی ممالک، مثلاً ترکی اور ایران، اپنے سرکاری و حکومتی مقاصد میں علانیہ غیراسلامی ہیں، اور انھوں نے کھلم کھلا اعلان کررکھا ہے کہ اسلام کو سیاست اور عوام کی معاشرتی زندگی سے الگ رکھنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اُن اسلامی ملکوں میں بھی، جہاں مذہب کی تھوڑی بہت قدر باقی ہے، اور جہاں مختلف مدارج میں اس کی روحانی میراث برقرار ہے، وہ بھی یوں سمجھیے کہ صرف ان معنوں میں ’اسلامی‘ ہیں کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، جب کہ ان کے سیاسی مقاصد و عزائم اسلامی اصول و نظائر کے تابع نہیں ہیں، بلکہ ان کے حکمران یا مقتدر گروہ جس چیز کو ’قومی مفادات‘ کہتے ہیں، مغرب کے مفہوم ہی میں ’قومی مفادات‘ ہیں۔ اس لیے ان ملکوں کی سیاسی تنظیمات سے، خواہ وہ سعودی عرب یا افغانستان کی طرح مطلق العنان سلطنت ہوں یا شام کی طرح ری پبلک ہوں یا مصر اور عراق کی طرح آئینی بادشاہت ہوں، اسلام کی طرف جھکائو رکھنے کی توقع نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملکوں کے عوام یا حکمران اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف تاریخی وجوہ سے ان کی حکومتوں یا سیاسی نظاموں کا اسلام سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست جو جدید دنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیای افکار میں انقلاب برپا کردے گی اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریکِ پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظر جاتی ہے، تحریکِ پاکستان ایک ایسی دنیا میں تجدید و احیا کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُور ہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبار پر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔ میری مراد نسلی خطوط پر قوم پرستی سے نہیں ہے، جس کی مثالیں دوسرے ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانانِ ہند میں نسلی بنیاد پر قوم پرستی ناممکن ہے، کیونکہ یہاں مسلم قوم انتہائی متنوع نسلی عناصر سے ترکیب پائی ہے۔ لیکن تحریکِ پاکستان کے اپنے اصلی نظریاتی راستے سے منحرف ہونے کا خطرہ مجھے ایک اور سبب سے نظرآرہا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ ’ثقافتی قومیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، یعنی مشترکہ نظریاتی اساس کے بجاے چند مخصوص ثقافتی رجحانات، سماجی عادات و رسوم کا تحفظ، اور اس گروہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جو بربناے پیدایش ’مسلمان‘ واقع ہوئے ہیں۔ اس میں شک و شبہے کی گنجایش نہیں کہ اسلامی خطوط پر مسلمانوں کے مستقبل کی منصوبہ سازی میں ثقافتی روایات و اقدار اور فوری معاشی تقاضوں کی پاسداری انتہائی اہمیت کے حامل عوامل ہیں، لیکن جو نکتہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ ان انتہائی اہم عوامل کو ہمارے نظریاتی نصب العین سے الگ جداگانہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے اکثروبیش تر اربابِ دانش سے یہ غلطی سرزد ہوکر رہے گی۔ جب وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں توو ہ اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے مسلم دنیا کے ’حقیقی‘ مفادات اسلام کے خالص نظریاتی مفادات سے جدا کوئی چیز ہوں۔ بالفاظِ دیگر اسلام کے بنیادی نظائر و شعائر سے کوئی تعلق رکھے بغیر بھی ’اچھا پاکستانی‘ بننا ممکن ہے۔
میرا خیال ہے کہ قارئین محترم میری اس راے سے اتفاق کریں گے کہ ’مسلم مفادات‘ اور ’اسلامی مفادات‘ میں تفریق کرنا بے عقلی کی بات ہے۔اسلام مسلمانوں کے وجود و تشخص کے چند عوامل و خصائص میں سے محض ایک نہیں ہے، بلکہ اسلام تو ان کے وجود کی تاریخی علت اور بنیادی جواز ہے۔ مسلم مفادات کو اسلام سے جدا کوئی چیز خیال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ’زندہ چیز‘ کو زندہ بھی کہنا اور زندگی سے عاری بھی سمجھنا۔ ایک سوچنے سمجھنے والے آدمی کے نزدیک یہ کیسی بھی بے عقلی کی بات ہو، یہ امر بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیش تر لوگ (اور ان میںہمارے بیش تر اربابِ دانش بھی شامل ہیں) غوروفکر نہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔
جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش حصولِ پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’اسلامی ہیئت حاکمہ‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو ناممکنات سے ہے، یہ کہ غیرمسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے مثبت پہلو سے تعلق کم کم رکھتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اسلام کی خاطر، اسلام کے مطابق اپنا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کرنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیرمسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجاے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں، ایک منطقی استدلال ہے۔ ایک اُمنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجاے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلامی قوم بنانے کی کوشش کرتے؟
ہمارے رہنمائوں نے اب تک جو اچھے کام انجام دیے ہیں، میں انھیں کم کرکے نہیں دکھانا چاہتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض اعتبار سے ان کے کارنامے بہت زیادہ ہیں اور انتہائی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے ایک خوابِ خرگوش میں ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کیا ہے، یہی کارنامہ بہت بڑا ہے۔ پھر یہ کہ انھوں نے قوم میں ایسا زبردست اتحاد پیدا کیا ہے، جو دنیاے اسلام میں اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ ہر ذی ہوش آدمی اس کا اعتراف کرے گا اور کرنا چاہیے۔ میں جو اپنے بعض رہنمائوں پر الزام تراشی کرتا رہتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلم عوام کی تقدیر بدل دینے والی اس فیصلہ کن گھڑی میں انھیں روحانی عظمت کی راہ پر گامزن کرنے کے بجاے دیدہ دانستہ اس راہ پر لگا دیا جو بنیادی طور پر ہمارے موجودہ بحران کی ذمہ دار ہے۔ اس بات کو مَیں سادہ لفظوں میں یوں کہوں گا کہ ہمارے رہنمائوں نے یہ بتانے اور دکھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ اسلام ہی ہماری موجودہ جدوجہد اور تحریک کا اصل اور بنیادی مقصد و منتہا ہے۔ اس میں شک نہیں، جب وہ اخباری بیان جاری کرتے ہیں یا عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن لفظ اسلام کا استعمال وہ صیغہ مستقبل میں کرتے ہیں، کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو اسلام بھی آجائے گا۔ انھوں نے کبھی مسلمانوں کے موجودہ طرزِفکر اور طرزِحیات کو اسلامی اصول و احکام سے زیادہ ہم آہنگ اور مطابق کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں، یہ بہت بڑی فروگذاشت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مستقبل حال کا بچہ ہے، اٹل ہے، غیرمتبدل ہے۔ جیسا ہم آج سوچیں اور کریں گے، اس کااثر ہماری کل کی زندگی پر ضرور پڑے گا۔ اگر پاکستان کا مطلب فی الواقعی لا اِلٰہ الا اللہ کے کلمے میں پوشیدہ ہے، تو ہمارا عمل بھی اس کلمے کے مطلب کے قریب سے قریب تر ہونا چاہیے۔ گویا ہمیں صرف اپنے قول کا سچا مسلمان نہیں، بلکہ اپنے عمل کا بھی پکا مسلمان ہونا چاہیے۔
یہ فریضہ اور منصب ہمارے رہنمائوں کا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو تلقین کریں کہ آج وہ پکّے مسلمان بنیں تاکہ کل سچے پاکستانی بن سکیں۔ حالانکہ وہ ہمیں صرف اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کے بنتے ہی ہم پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
یہ آسان اور لفظی یقین دہانی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔ اگر ہم اسلامی زندگی کا بیج آج نہیں بوئیں گے ، جب کہ اسلام کے لیے ہمارا تحریکی جوش و خروش اپنے عروج پر ہے، تو کوئی بھی معقول آدمی اس یقین دہانی پر اعتبار نہیں کرے گا کہ جب تحریک ختم ہوجائے گی اور سیاسی آزادی مل جائے گی، تو ہم یکایک اور خودبخود سچے اور پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
’’بھائی صاحب، تم قنوطی ہو، خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا رہتے ہو۔ ہم سب سچی اسلامی زندگی کے آرزو مند ہیں لیکن ابھی، اسی وقت اس پر اصرار خلافِ مصلحت ہوگا۔ ہماری صفوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن غلط تربیت کے باعث مذہب کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی تحریک کے آغاز ہی میں اپنی جدوجہد کے مذہبی پہلو پر زیادہ زور دیں گے تو ان قیمتی کارکنوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا، جس کا ہماری جدوجہد پر بہت بُرا اثر پڑے گا اور یہ سراسر نقصان کی بات ہوگی۔ ہمارے نصب العین کو ضعف پہنچے گا۔ ہم اپنے رضاکاروں کو کھونا نہیں چاہتے۔ ان کی خدمات سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہماری اپنی اسلامی مملکت حاصل ہونے تک ہم اپنے عوام کی مذہبی اصلاح کا کام ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ فی الحال ہمیں اپنی پوری توانائیاں اس چھوٹے مقصد کے حصول کے لیے وقف کردینی چاہییں، یعنی غیرمسلم تسلط سے مسلمانوں کی آزادی اور اپنی توانائیاں خالص مذہبی معاملات پر فی الحال خرچ نہیں کرنی چاہییں۔ ایک سچی ہیئت حاکمہ کا قیام اور مسلمانوں میں سچا مذہبی شعور بہت اہم کام ہے، لیکن یہ قیامِ پاکستان کے بعد شروع ہوگا۔ فی الحال مغرب زدہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے نصب العین سے الگ کردینے سے نقصان ہوگا، بلکہ مذہب پر زیادہ زور دینے سے پاکستان کے علاقے میں رہنے والی غیرمسلم اقلیتوں کو بھی تشویش پیدا ہوگی‘‘۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ طرزِ استدلال بالکل غلط ہے، اور عقلی لحاظ سے بددیانتی۔ آیئے ان حضرات کی ایک ایک دلیل پر نکتہ بہ نکتہ غور کرتے ہیں۔ پہلے غیرمسلم اقلیتوں والی بات لیتے ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی طرزِ فکر و حیات پر زور دینے سے ہماری غیرمسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی، تو میں آپ سے پوچھتا ہوں: ’’وہ کیا چیز ہے جس نے غیرمسلموں کو نظریۂ پاکستان کا سخت مخالف بنا رکھا ہے؟‘‘ ظاہر ہے، فرقہ وارانہ راج کا خوف، اس بات کا خوف کہ مسلم اکثریتی علاقے بھارت ماتا سے کٹ جائیں گے۔ یہ مسئلہ غیرمسلموں کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوتا کہ مسلمان اسلامی اصول و احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اگر خائف ہیں تو اس بات سے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہوجائے گا۔ انھیں بہ نظر ظاہر اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمان اپنے مذہب پر چلنے کی کتنی اُمنگ رکھتے ہیں اور اس پر چلنے کے کیسے عزائم رکھتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلم سیاسی اقتدار کے خلاف وہ ہرحالت میں اور ہرصورت میں مخالفت کریں گے اور اسے رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔
ہمارے حریفوں کے مخالفانہ رویے کے باوجود اگر انھیں یہ باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ’سب کے لیے عدل و انصاف‘ کا قیام ہے تو وہ کسی حد تک اس خیال سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ضرور متاثر ہوجائیں گے، صرف یہ کہا ہے کہ متاثر ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ہم انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیرمسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض عین ہے کہ ہم پوری دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم فی الواقعی قرآن مجید کے ان الفاظ کے معنی و منشا و معیار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمارا بہترین اُمت ہونے کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہرحالت میں انصاف کی بالادستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے، جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ غیرمسلموں کو اپنی عدل گستری کا یقین دلانے سے پہلے ہمیں ایک سچی مسلم قوم بننا پڑے گا۔ ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک غیرمسلم کو ایک ایسی ریاست میں رہتے ہوئے تشویش ضرور لاحق ہوگی، جو اس کی نظر میں معاشی حقوق و مفادات میں مسلمانوں کو غیرمسلموں پر ترجیح دے گی۔ لیکن اگر اسے یقین دلایا جائے کہ وہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا تو اس کی تشویش اگر دُور نہیں ہوگی، تو اس میں کمی ضرور ہوجائے گی۔ اب یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اپنے حریفوں کو اپنی اصلی سچائیاں نہیں دکھا سکتے، جب تک ہم ان پر ثابت نہ کریں: اوّل یہ کہ اسلامی حکومت کا مطلب ہے عدل سب کے لیے۔ دوم یہ کہ ہم مسلمان واقعی اپنے دین کے احکامات پر قول و فعل میں سچے پیروکار ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں عدل سب کے لیے ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔ اس لیے یہ سمجھنا انتہائی غلط ہے کہ اگر ہم اپنے مذہبی مقاصد پر زور نہیں دیں گے اور حتی الوسع براہِ راست مذہبی حوالے دینے سے احتراز کریں گے، تو اس طرح غیرمسلم اقلیتوں کی تشویش دُور ہوجائے گی، بلکہ ہمارے اس رویے سے تو انھیں یہ شبہہ ہوگا کہ ہم منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی تشویش دُور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی سے، اور پوری تفصیلات کے ساتھ بتا دیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد کیا ہیں جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن صاف دلی سے دیے گئے بیانات سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، تاوقتیکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ نہ کرادیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد محض نعرے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اخلاقی اعمال ہیں۔
عارضی قسم کے ’خلافِ مصلحت‘ یا ’سیاسی تدبر‘ کے نام پر (غلط فہمی سے) اپنے اصل مستقل اسلامی مقاصد سے گریز پائی ایک ایسی عاقبت نااندیشی ہے، جس سے غیرمسلموں پر تو بُرا اثر پڑتا ہی ہے، ہم مسلمانوں کے اخلاقی مزاج پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے مزید دُور ہوجائیں، ہم مسلمانوں کے سامنے احیاے اسلام کا جو اصل نصب العین ہے، اس کے زیادہ سے زیادہ شعورو آگہی کے بجاے، ہم دوبارہ مصلحت اندیشی اور فوری آسایش کی اصطلاحوں میں سوچنے کے عادی ہوجائیں گے، جیساکہ ہم صدیوں سے اس کے عادی چلے آرہے ہیں، اور یوں پاکستان کا اسلامی نصب العین یقینا گھٹ کر صرف نظریہ پرستی بن کر رہ جائے گا، جیساکہ مغرب کی نام نہاد مسیحی اقوام میں مسیحیت کے سچے مقاصد گھٹ کر اپنی اصلیت کھو چکے ہیں۔ ہم ہرگز ایسا نہیں چاہتے۔
ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں ’حقیقت‘ بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بناناچاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہرایک شخص، مرد وزن، سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ اور کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں، تاوقتیکہ پورے کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔
لیکن اس قسم کا اصلی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا، تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے ’غیر واضح اور مبہم‘ مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور ابھی اسی گھڑی، اسی گھنٹے، اسی منٹ ، اسی سیکنڈ سے اسلام اور اس کے احکام کو اپنے تمام شخصی اور معاشرتی طرزِعمل کی اساس نہ بنائیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مذہب کو اس حد تک غیراہم خیال کرتے ہیں، کہ ہم جو تحریکِ پاکستان کے مذہبی رُخ پر اس قدر اصرار کررہے ہیں تو ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ اگرچہ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اگر انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ مسلم قوم بہ حیثیت مجموعی اسلام کی جانب پیش قدمی کرنے کا عزمِ صمیم کرچکی ہے تو مذہب سے بے زار یہ لوگ بہت جلد جماعت کے آگے سرتسلیم خم کردیں گے۔ بہرصورت ان کی ذاتی ترجیحات کی زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے اور ہمارے عزم کی راہ میں ان کی بے عزمی کو راہ نہیں ملنی چاہیے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ رسول کریمؐ کفارِ قریش کی ناراضی سے بچنے کے لیے اور اس انتظار میں کہ ایک روز وہ اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے، ایک دن کے لیے بھی اسلامی مقاصد کی تحصیل و تکمیل کو ملتوی کردیتے؟
آپ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’رسولؐ تو آخر رسولؐ تھے، ان کے لیے مصلحت کوشی کو نظرانداز کرنا ممکن تھا۔ ہم تو عام سے فانی بندے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں، مَیں آپ سے پوچھوں گا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر یقین رکھتے ہیں:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱)، درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
کیا یہ حکمِ ربانی آپ کی سیاست اور آپ کی دعائوں، آپ کے ذاتی حالات و تفکرات اور آپ کی اجتماعی و معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؟ (جاری)
گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مشرق وسطیٰ میں جو نمایاں اور اہم انقلابی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں وہ ایک جانب مغرب و مشرق کے اہلِ فکر کے لیے غور کرنے کا مواد فراہم کرتی ہیں، تو دوسری جانب مسلمان اہلِ فکر کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔
مصر میں ۸۰ سالہ دورِاستبداد کا آغاز ۱۹۵۲ء میں فوجی آمریت سے ہوا۔ یہ آمریت وقت کے دھارے کے لحاظ سے اپنی کینچلی بدلتی رہی، تاہم اس کے زہرِ استبداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس طویل دورِ استبداد کا خاتمہ مصر کی جدید تاریخ میں پہلے عوامی صدر ڈاکٹر محمد مُرسی کے منتخب ہونے پر ہوا۔ لیکن اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ طاغوتی اور فرعونی قوتیں اپنی شکست آسانی سے قبول نہیں کرتیں اور ایک زخم خوردہ سانپ کی طرح سے دائیں اور بائیں جس طرف سے ممکن ہو ڈسنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مصر میں موجود نظام (status quo) کی حامی جماعت، یعنی فوج اور عدلیہ نے اس انقلابی عوامی تبدیلی کو بے اثر اور ناکام بنانے میں اپنی مشترکہ قوت اور چال بازیوں کے ذریعے جو اقدامات کیے وہ قرآن کریم کی زبان میں کیدالشیطان کی بہترین مثال ہیں۔
یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ مغرب اور خصوصاً امریکا اور اسرائیل کی دلی خواہش اور حمایت کے باوجود حسنی مبارک کے سابق وزیراعظم کا، جو فضائیہ کا ریٹائرڈ جنرل تھا، ناکام ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں کہا جاسکتا۔ آخر وقت تک فوجی کونسل نے پوری کوشش کی کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم انتخابی نتائج میں تاخیر کرکے عوام کو نفسیاتی طور پر جانچا جائے کہ وہ ان کی مزعومہ دھاندلی کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں۔ جب تمام ذرائع سے انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دھاندلی نہیں چل سکے گی تو مجبوراً یہ اعلان کیا گیا کہ ایک معمولی تناسب کے فرق کی بناپر اخوان المسلمون کے نامزد صدر محمد مُرسی کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس انتخاب کو بے اثر بنانے اور فیصلہ کن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے فوج اور عدلیہ کے دماغوں نے جو کسی تبدیلی کے لیے آج بھی تیار نہیں ہیں، اور فروری ۲۰۱۱ء میں مصر میں نوجوانوں کی تحریک کے علی الرغم، جس میں جانی قربانیاں بھی دی گئیں اور پورے ملک نے حصہ لے کر فوج اور بدعنوان عدلیہ کی حاکمیت کو رد کر دیا تھا، موجود نظام کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ ان تمام تحریکات کے لیے قابلِ غور ہیں جو بدعنوانی، اقرباپروری، ظلم و استحصال کے نظام کی جگہ عدلِ اسلامی اور معاشرتی فلاح پر مبنی نظام لانا چاہتی ہیں۔ یہ انقلابی جماعتیں چاہے مصر میں ہوں، لیبیا میں ہوں یا پاکستان میں، انھیں اسی نوعیت کے حربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خیال کہ اسلامی انقلاب محض مطالبوں، مظاہروں، نعروں اور جلسوں سے آجائے گا اور طاغوت بھلے مانس انداز میں اقتدار کی کنجی سرجھکا کر اسلامی تحریکات کے منتخب شدہ نمایندوں کے حوالے کردے گا، ایک واہمہ اور سادہ لوحی سے کم نہیں کہا جاسکتا۔
فوج نے عوامی صدر کے انتخاب کے حتمی اعلان سے قبل موجود نظام کے تحفظ اور اپنی مدافعت کے لیے جو اقدامات کیے ان میں اولاً: بدعنوان عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو اس بنا پر تحلیل کرنا کہ اس کی ۳/۱ نشستوں کے انتخاب میں ان کے خیال میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کو ملک کے ۸۰سالہ دورِآمریت و استبداد میں پہلی مرتبہ ۴۴ فی صد سے اکثریت حاصل ہوئی تھی۔
ثانیاً: دستور کی معطلی کا اعلان اور نئے دستور کی تشکیل کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کی جگہ فوجی کونسل کو منتقل کرنے کا حکم نامہ۔
ثالثاً: ملک کے داخلی، خارجی اور مالی معاملات میں فیصلے کا اختیار فوج کو دیا جانا، یعنی بجٹ اور ملک کی اندرونی و بیرونی پالیسی فوج طے کرے گی۔
رابعاً: پارلیمنٹ کے آیندہ انتخابات کا فوج کی مرضی کے مطابق کیا جانا، اور عدلیہ میں تقرر کا حق بھی فوج کے ہاتھ میں رہنا۔
خامساً: ملک میں عملاً مارشل لا لگانا کہ فوج جسے چاہے امن عامہ کے خطرے کی بنا پر گرفتار کرسکے۔
یہ تمام مدافعانہ اقدامات جس ذہن کا پتا دیتے ہیں وہ مصر میں نہیں، ہر اُس ملک میں پایا جاتا ہے جہاں بدعنوان، لالچی، بے ضمیر، ظالم، خودغرض، اقرباپرور فرماں روا عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط ہیں۔ یہ اقدامات ایک شکست خوردہ ذہن کی دلیل ہیں جو اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اردگرد کے ہرتنکے اور شاخ کے سہارے اپنے انجام سے بچنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن کو بھول جاتا ہے۔
مصر میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی کو نہ صرف مصری فوج اور عدلیہ نے بلکہ مغرب خصوصاً امریکا نے بھی ایک انتہائی تلخ گھونٹ کے طور پر گوارا کیا ہے۔ دونوں کی مسلسل کوشش ہے کہ اب بھی کسی طرح مصر کے منتخب صدر کو یا تو مکمل طور پر بے اثر کردیا جائے اور تمام اختیارات فوجی کونسل اور عدلیہ کے ہاتھوں میں رہیں، یا مُرسی کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اخوان المسلمون سے وابستہ اُمیدیں ٹھنڈی پڑجائیں اور اخوان کی تصویر مصری عوام میں داغ دار بن جائے۔ چنانچہ بار بار یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان المسلمون ایک انتہائی قدامت پرست جماعت ہے اور عیسائی اقلیت اور خواتین کے لیے سخت خطرہ ہے۔
اس بات کو بار بار دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مُرسی سرکاری طور پر یہ اعلان کریں کہ وہ عیسائی اقلیت اور خواتین کو کابینہ اور دیگر مناصب میں ان کے عمومی تناسب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔ مُرسی کے حالیہ بیان سے کہ ان کے ایک نائب صدر عیسائی اور ایک خاتون ہوں گی، اس حکمت عملی کے اثرات کی جھلک نظر آتی ہے۔
مغربی قوتوں کا دل کی ناگواری اور مجبوراً مُرسی کو صدر مان لینے کا یہ مطلب لینا بھول ہوگا کہ وہ واقعی ان کے اقتدار کی حمایت اور تائید کریں گے۔ مغربی سیاست کاروں کا متفقہ عقیدہ آج تک یہی ہے کہ ایک سیکولربدعنوان اقرباپرست اور اخلاقی طور پر کنگال جماعت یا فرد کو، ایک اسلام پسند لیکن حق گو، مخلص اور ایمان دار شخص یا جماعت کے مقابلے میں فوقیت دینا ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی شکل میں دل کی آمادگی کے ساتھ ایک اسلام پسند کو برسرِاقتدار دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ یہ بات بھی بار بار دہرائی جارہی ہے کہ اسلام پسند جماعت کا برسرِاقتدار آنا، اسرائیل کی سالمیت کے لیے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں امریکا اور اسرائیل دونوں کے ہاں اس وقت گھڑیال کی شکل اختیار کرجائیں گے جب صدر بھی اسلام پسند ہو اور پارلیمنٹ میں بھی اخوان کی اکثریت ہو۔ اس بات کو سیاسی زبان میں بار بار دہرانے کامقصود یہی ہے کہ صدر مُرسی اسرائیل کو یقین دلائیں کہ اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، ساتھ ہی امریکا کو بھی یقین دہانی کرائیں کہ وہ اس کے دشمن نہیں ہیں۔ مغربی صحافت اس بات کو بھی اُچھال رہی ہے کہ مُرسی نے امریکا کی مشہور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا (USC) سے تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے بچے وہاں پیدا ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر بچوں کی شہریت امریکی ہے، تاکہ اخوان اور دینی حلقوں میں ان کی وفاداری اور امریکا کی جانب رویے کو مشتبہ بناکر اندرونی کھنچائو پیدا کیا جاسکے۔ خصوصاً نوجوان اخوان کو، جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا میں ہر اُس فرد کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا کوئی تعلق امریکا سے ہو ، یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مُرسی پر بھروسا نہ کرو۔ یہ منفی سیاست طاغوتی قوتوں کا خاصا ہے، اس لیے اس پر کسی حیرت کی ضرورت نہیں۔
اوّلاً: قانون کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان برسرِاقتدار آکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں پر شرعی سزائیں نافذ کریں گے۔ یہ وہ ہوّا ہے جو ہرمسلم ملک میں برسرِاقتدار طبقہ قیامت تک استعمال کرتا رہے گا اور اس بنیاد پر سیکولر افراد کے تحفظ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً ۲۰فی صد عیسائی اقلیت ہو، اسلام کا نفاذ ظلم ہوگا۔ ان اعتراضات کو اُٹھاتے وقت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی کی بنا پر قرآن و سنت کو بالواسطہ طور پر عملی زندگی سے خارج کرنے کی طرف واضح اشارے بھی کیے جاتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔
دوسرا اہم خطرہ مطلق العنانی دور کا غالب آجانا ہے۔ مغربی اور سیکولر طبقہ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر ہمیشہ اسلام کو مذہب اور مذہب کو مذہبی آمریت اور مطلق العنانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ خود پاکستان کے نام نہاد دانش ور یہ بات ہرمحاذ پر دہراتے ہیں، حتیٰ کہ عوام کو اس جھوٹ پر یقین آجائے۔ یہ لوگ اپنی ڈفلی بجاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ حسنی مبارک، قذافی، اسد، صدام اور الجزائر، تیونس اور مراکش کے آمروں نے جس مطلق العنانی کا عملی مظاہرہ ایک آدھ سال نہیں ۳۰،۳۰ سال کیا، اس کی بنیاد مذہب تھا یا سیکولرزم؟
یہ ایک اہم اندرونی خطرہ ہے جس کا مُرسی اور ان کے رفقا کو صبروحکمت کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انھیں تبدیلیِ اقتدار کے بعد اپنے طرزِعمل کو قابو میں رکھنا اور اقتدار کی بنا پر اقرباپروری اور مراعات کا غلط استعمال نہ کرنا، عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بھلے انداز سے قائم رکھنا، اور نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اُترنا جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن تحریک کی تربیت کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔ اس لیے پوری اُمید کی جاسکتی ہے کہ اخوان سے وابستہ افراد اس زیادہ نازک امتحان میں پورے اُتریں گے، ان شاء اللہ۔
صدر مُرسی اور امریکی انتظامیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور امریکا کس حد تک مصر کے عوامی صدر کی حمایت کرے گا؟ یہ امکانات سے بھرا ہوا ایک سوال ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی نوعیت چینی بازی گر کے رسی پر ہاتھ چھوڑ کر چلنے سے کم مشکل نہیں ہوگی۔
ہمارے لیے اخوان المسلمون کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ ہم گذشتہ ۳۰ برس سے انھیں نظرانداز کرکے تنہا کرتے رہے ہیں۔
اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ بادل ناخواستہ ہی مُرسی سے بات چیت کرے گی، جب کہ پس پردہ مصری فوجی قیادت کے ساتھ سازباز میں برابر کی شریک رہے گی۔ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کے لیے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ جسے عموماً جمہوریت، حقوق انسانی، اور عالمی امن کادورہ پڑتا رہتا ہے اور جس نے عملاً ان تینوں معاملات میں ہمیشہ منفی کردار ادا کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے مقابلے میں فوجی اور شاہی آمروں کی حمایت کی ہے اور آج بھی کررہی ہے، اس حکومت نے خود اپنے ملک میں اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی پر سواے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ وہی انتظامیہ صدر اوباما کے بقول یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:
جب مصری عوام جمہوریت، عزت و وقار اور امکانات کے لیے آگے بڑھیں گے، اور اپنے انقلاب کے وعدوں کو پورا کریں گے تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ (ترجمان وائٹ ہائوس، اتوار، ۲۴ جون ۲۰۱۲ئ، بحوالہ نیویارک ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ئ)
امریکا نے گذشتہ ۳۰ سال سے زائد عرصے میں اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں مصر کی فوجی آمریت اور اسرائیل کے صہیونی ظالم حکمرانوں سے اپنے آپ کو مکمل وابستہ رکھا ہے۔ اب بدلے ہوئے سیاسی نقشے میں اخوان المسلمون کے صدر کے ساتھ جو اخوان کا سابق رکن بھی ہے تعلقات استوار کرنا دو طلاقوں کے بعد رجوع سے کم مرحلہ نظر نہیں آتا، لیکن اس تلخ گھونٹ کو مسکراتے ہوئے پئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں۔
اگر امریکا میں تھوڑی بہت عقل ہو تو اسے اس وقت مصری عوام کا مزاج اور جذباتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو فوج سے دُور اور عوامی نمایندوں سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکی سیاست کی ۵۰ سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ذہانت سے ایسے دانش مندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اوّلاً: عوامی دبائو کو برقرار رکھنا۔ چنانچہ تحریر چوک پر ہزارہا اخوان کی موجودگی اس مطالبے کے ساتھ کہ پارلیمنٹ بحال کی جائے، فوج اپنی قوت اور چالاکی سے لیے ہوئے دستوری اور حفاظتی اختیارات سے دستبردار ہو اور صدر کو اس کے اختیارات دیے جائیں___ دن رات اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
دوم: صدر مُرسی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر جن میں سیکولر جماعتیں شامل ہیں، یہ کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کی برتری اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں۔
سوم: صدر مُرسی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ بھی مذاکرات بند نہ ہوں، اور انھیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سیاسی اختیارات سے دستبردار ہوں۔ یہ سب سے زیادہ نازک، حساس اور مشکل معاملہ ہے اور فوج پر کسی مسئلے میں بھی بھروسا کرنا جوے بازی سے کم نہیں۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں ضرورت کی بنا پر اِس اقدام کو کرنا ہوگا تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے۔
تحریر چوک پر دھرنا کافی نہ ہوگا۔ اخوان المسلمون کو ملک کے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ایک ملک گیر مہم جیسی فروری ۲۰۱۱ء میں چلائی گئی، چلانا ہوگی۔ یہ کام محض دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک فوج اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے کہ عوامی قوت اسے بہا لے جائے گی، اس وقت تک فوج اپنی موت کے حکم نامے پر دستخط نہیں کرے گی۔
اوّل: ملک گیر پیمانے پر نوجوانوں کی ایک پُرامن مہم جس میں فوج کے منتخب شدہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ذریعے برخواست کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے، اور یہ تجویز کیا جائے کہ اگر عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستوں پر یہ اعتراض تھا کہ ان میں کوئی بے ضابطگی کی گئی ہے تو ان ۳/۱ نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرائے جائیں، نیز جن نشستوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی انھیں برخواست کرنا عدل کے منافی ہے۔ یہ کام سیاسی مہم سے کرنے کا ہے اور عوام کو ساتھ لے کر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
دوم: اس بات کی ضرورت ہے کہ اخوان کی قیادت اپنے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے لیے جمہوریت کے تحفظ کی بنیاد پر ان سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے جو چاہے اسلام سے دل چسپی نہ رکھتی ہوں لیکن ملک میں جمہوریت کا نفاذ دیکھنا چاہتی ہیں۔
تیسرے، عوامی مہم کے ذریعے فوجی کونسل کے لامحدود اختیارات کو جن میں بجٹ، خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کی منظوری شامل ہے، پارلیمنٹ کو منتقل کرنا تاکہ پارلیمنٹ عوام کی نمایندہ ادارے کی حیثیت سے ان معاملات پر فیصلہ کرسکے۔ دستوری عدالت (Consititutional Court) کے جج جنھیں حسنی مبارک نے اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ دستوری مباحث میں جو کچھ آمر چاہتے ہوں عدالت بھی اسی کی توثیق کردے، یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے عوامی مہم چلانا ہوگی۔ اگر عوامی مہم حسنی مبارک کو ہٹاسکتی ہے تو یہ کام بھی کیے جاسکتے ہیں۔
چوتھے، نئی حکومت کو ردعمل دینے کے بجاے اقدامی طور پر بعض فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا: سیکولر اور امریکی لابی بار بار وہ مسائل اُٹھائے گی جن پر صدرمُرسی کے مثبت یا منفی موقف اختیار کرنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ اگر صدرمُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہیں کہ وہ امریکا کے دشمن نہیں ہیں بلکہ دوستی چاہتے ہیں، تو وہ نوجوانوں کی حمایت کھوبیٹھیں گے، جو بظاہر ایک امریکی اور فوجی ہدف معلوم ہوتا ہے۔ فوج اور امریکا، دونوں یہ چاہیں گے کہ اخوان کی صفوں میں انتشار واقع ہو، اور کم از کم اخوان کے علاوہ جو مذہبی جماعتیں خصوصاً سلفی حضرات ہیں ان کے ساتھ اختلافات میں اضافہ ہوجائے تاکہ پارلیمنٹ بننے کی شکل میں اخوان کی قوت مؤثر نہ ہو۔ اگر صدر مُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ امریکا کے مخالف ہیں تو اسے بھی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، کہ فوج کی رگ جان ۱ئ۳ بلین ڈالر کی امریکی امداد اگر بند ہوجاتی ہے تو مصر کیا کرے گا؟ گویا بجاے ردعمل کے طور پر کوئی بات کہنے کے صدر کو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موقف اپنانا ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی نوجوان قوت کو مایوس کریں اور نہ امریکی اور فوجی عزائم کو کامیاب ہونے دیں۔
یہ کہنا فطری طور پر بہت آسان ہے کہ اخوان کو چاہیے کہ وہ مصر میں ترکی کا ماڈل اختیار کریں۔ اپنی تصویر کو جو اس وقت تک قدامت پرست، بنیاد پرست، جہادی، خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والی، اور اقلیتوں کو تہس نہس کردینے والی جماعت کی ہے، بدلنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی ایک متوازن، معتدل اسلامی جماعت کی شبیہ اُبھر کر سامنے آئے۔ لیکن ہماری اس تمام تر خواہش کے باوجود فوری طور پر یا مختصر عرصے میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ ذہنی تصویر کا درست کرنا ایک طویل نفسیاتی اور ابلاغی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے اور اخوان المسلمون ان شاء اللہ اسے کر بھی سکتے ہیں لیکن مقابلتاً ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے۔
طیب اردگان کو جس مقام پر وہ آج پہنچے ہیں، اس کے لیے ۳۰سال سے اُوپر واضح منصوبہ، ہدف اور افرادی قوت کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ تب جاکر وہ اپنا یہ تشخص بنا سکے اور وہ مقام حاصل کرسکے جس کی بنا پر آج مغرب ہو یا مشرق، ترکی کے ماڈل کی بات کرتا ہے۔
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس پر علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ صدر مُرسی کو اپنے بیانات میں اردگان کی طرح توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ایک جانب وہ اپنی اصل قوت نوجوان اخوان کو جو نظریاتی طور پر کفر کے ساتھ تعاون کو کفر قرار دینے کے عادی ہیں، نہ تو مایوس کریں اور نہ انھیں کوئی الگ پریشر گروپ (pressure group) بننے دیں اور اسی قوت کو تحریکِ اسلامی کے لیے صحیح طور پر استعمال کرسکیں۔
ڈاکٹر مُرسی ایک غیرجذباتی شخصیت رکھتے ہیں لیکن انھیں موجودہ حالات میں عوامی قوت کو ساتھ رکھنے کے لیے چند ایسے اقدامات لازماً کرنا پڑیں گے جن کا تعلق ملک کی معیشت اور عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہے، جب کہ سلفی بھائیوں کی ترجیح اسلامی شریعت کے بعض پہلوئوں کے نفاذ کی ہوگی۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ مکی دور سے مدنی دور تک کے تدریجی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی بالادستی کو متاثر کیے بغیر پہلے شریعت کے اُن پہلوئوں کو نافذ کیا جائے جن کا تعلق اللہ کے بندوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ سے ہے، یعنی ان کے معاشی اور انسانی حقوق۔ اس کے بعد ان پہلوئوں کا نفاذ ہونا چاہیے جنھیں عام تصور میں شرعی نظام کہا جاتا ہے جس سے مغرب و مشرق اپنے خطرے اور خوف کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ترکی کے تجربے میں ہمیں کیا مطالعاتی نکات ملتے ہیں، اور کیا مصر اور پاکستان کے مسائل کا حل ترکی کے تجربے کے دہرانے سے ہوسکتا ہے، ایک تفصیل طلب موضوع اور علیحدہ گفتگو کا مستحق ہے۔
برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروئوں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ: ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔
۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوئوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵ جولائی ۲۰۱۲ئ)
اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیںکرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈائوننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔
برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔
برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوئوں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ :l۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔
سعید اکرم کا زیرنظر نعتیہ مجموعہ اس اعتبار سے لائق تحسین ہے کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے عام روش سے ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی۔ انھوں نے کالی کملی اور زلفوں کی باتیں کرنے کے بجاے آپؐ کے اوصافِ حمیدہ، آپؐ کی بہادری و شجاعت اور آپؐ کے مقامِ رسالت کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ آپؐ کی فیض رسانی، خلّاقیِ آئین جہاں داری اور آپؐ کی تمدن آفرینی کی طرف اشارے کیے ہیں۔
حمدودعا کے بعد، کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے بعنوان ’غرورِ شوق کا دفتر‘ میں تخلیقی نعتیں ہیں جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ ان نعتوں سے شاعر کا وفورِ شوق اور واردارتِ قلبی مترشح ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر یہ نعتیں کہی ہیں۔ بقول خود: ع ’’مدینے سے مجھے پیغام کچھ منظوم آتے ہیں‘‘۔ ا س حصے میں کُل ۴۴ نعتیں شامل ہیں۔
دوسرے حصے بعنوان ’شہادتِ جبرئیل ؑ‘ میں آیاتِ قرآنی کے منظوم تراجم پر مشتمل ۳۴نعتیں شامل ہیں۔ یہ تراجم ایسی آیات کے ہیں جن میں رسولؐ اللہ سے خطاب کیاگیا ہے یا آپؐ کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس حصے کا آغاز سورئہ فاتحہ کے ترجمے سے اور اختتام درود شریف کے ترجمے پر ہوتا ہے۔ تراجم آزاد نظم کی ہیئت میں مناسب اور مکمل ہیں۔ اس حصے کا نام ’شہادتِ جبرئیل ؑ اس لیے رکھا کہ جو کچھ پہلے کہا گیا ہے، اس پر جبرئیل امین ؑ کی گواہی ہوجائے۔
مجموعی طور پر یہ ایک وقیع اور عمدہ مجموعۂ نعت ہے جس سے شاعر کی والہانہ عقیدت، جذب و سُرور اور فراوانیِ محبت ِ رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہرمسلمان شاعر تو نہیں ہوسکتا کہ وہ شعری پیرایے میں اس طرح اظہارِ محبت کرے مگر کتاب پڑھ کر اس کے دل میں حُب ِ رسولؐ کا جذبہ ضرور موجزن ہوگا اور بقول رسولِ مقبولؐ تبھی وہ ایمان دار ہوگا۔ اللہ ہرمسلمان کے دل میں ایسی محبت پیدا کرے۔ دیباچہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا اور تقریظ محمد اشرف آصف کی ہے۔(قاسم محمود احمد)
فاضل مصنف نے ۳۰برس تک عربی زبان کی تدریس کا کام کیا۔ کچھ عرصہ تو پنجاب کے مختلف کالجوں میں، پھر ۲۰سال تک ریاض (سعودی عرب) میں تعلیم و تدریس اور ملازمت کے سلسلے میں مقیم رہے۔ زیربحث کتاب میں انھوں نے عورت کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ خواتین سے متعلق قرآن پاک میں جتنے کلمات و اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں،ان کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے۔ کُل ۲۸ ابواب ہیں۔ اس میں چند ایسے کلمات بھی آگئے ہیں جو اگرچہ عورت کے لیے براہِ راست مخصوص نہیں مگر عورتیں ان احکامات میں مردوں ہی کی طرح مخاطب ہیں، مثلاً الأنس، البشر، عبد، طائفۃ ، الناس، النفس اور الیتیم وغیرہ۔ ہرباب میں متعلقہ لفظ کے معنی و مطالب کتب ِ تفاسیر، حدیث، عربی لغت،گرامراور عربی شاعری کی رُو سے متعین کیے گئے ہیں۔ بعدازاں وہ ان سے اخذ ہونے والے مسائل و نتائج پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔
مصنف کتاب کے ایک ایک صفحے پر یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد و عورت میں کامل مساوات ہے۔ عورت بھی وہ ساری صلاحیتیں رکھتی ہے جو مردوں میں موجود ہیں: ’’خاتون کو قدرومنزلت، جو قرآن نے عطا کی تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی، اور یہ تصور لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا کہ خاتون مرد سے گھٹیا ہوتی ہے۔ قرآنی آیات کی غلط تاویل کی گئی۔ جن آیات میں قرآن نے وہ حقوق عطا کیے تھے، جو آج تک ان کو حاصل نہ تھے انھی آیات کو اس کی تنقیص کے لیے پیش کیا گیا، احادیث وضع کی گئیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مرد افضل ہے اور خاتون فروتر‘‘۔ (ص ۱۱۲)
’’خواتین ان فنون میں بازی لے گئیں جو مردوں کے ساتھ مخصوص سمجھے جاتے ہیں، مثلاً حکمرانی ، عسکری قیادت، تحریر و تقریر اور زُہد و تقویٰ‘‘۔ (ص ۱۲۷)
’’مرد و زن میں جو حیاتیاتی امتیاز پایا جاتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے کام کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کا دائرۂ کار الگ ہے‘‘۔ (ص ۱۳۰)
’’حیاتیاتی اختلاف فرد کے رویوں کو متعین نہیں کرتا۔ جب کسی معاشرے میں حالات بدلتے ہیں تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ ہرصنف کے وجود میں مردانہ اور زنانہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ سرجری کے ذریعے مرد خاتون بن جاتا ہے اور خاتون مرد‘‘۔ (ص ۱۳۰)
’’ماضی میں خاتون کی صرف ایک حیثیت تھی،گھریلو ذمہ داری۔ اب ایک دوسری حیثیت، یعنی کارکن کی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر شوہر عورتوں کو ملازمت کی اجازت دے رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق حاصل ہے۔ کٹر سے کٹر روایتی گھرانوں اور ملکوں میں دائرۂ کار کی تخصیص ختم ہوچکی ہے۔ دنیا کی موجودہ اقتصادی صورت حال میں کسی ملک کی نصف آبادی کو زندگی کے تمام میدانوں میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تو ترقی کیسے ہوگی؟ دونوں کے مل کر کام کرنے سے ہوگی‘‘۔ (ص ۱۳۱)
مصنف چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں: ’’چہرے کا پردہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں‘‘ (ص ۱۲۰)۔اس طرح یہ کتاب عربی لُغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز اسلام کے خاندانی اور تمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں گمراہی پھیلائی جارہی ہے، مگر گمبھیر مسئلہ تو اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علما و فاضل حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں، عربی لُغت کے زور پر اور اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہلِ مغرب کو مطلوب ہے، تو پھر یہ تلبیس ابلیس ہمارے لیے بہت خطرناک بن جاتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ ’روشن خیال‘ حضرات جو حسبنا کتاب اللہ کا دعویٰ رکھتے ہیں، جو خود اللہ ا ور اس کے رسولؐ کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیار نہیں، ان کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسا ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ تاویل اور اجتہاد کا کلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کا دائرۂ کار وہی متعین کرتے نظر آتے ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے ’سیڈا‘ (CEDAW) کو مطلوب ہے۔ غرض مصنف نے ’پرویزی‘ فکر کو آگے بڑھایا اور ’غامدی فکر‘ کو پروان چڑھایا ہے۔ لغاتِ قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ مارِ آستین ہیں جو اپنے فسادِ فکرونظر سے اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں۔ اس تمام خلط مبحث کا علمی انداز میں جواب تو دیا جاسکتا ہے ، مگر اس ’مختصر‘ تبصرے میں گنجایش نہیں، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (ثریا بتول علوی)
بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔
جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اپنے عمل سے علم کے مثبت پہلوئوں کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس لیے انھوں نے طویل عرصے تک نور کی ادارت کی، بتول میں مضامین لکھے، حریم ادب کی نشستوں میں نئی نسل کی رہنمائی بھی کی۔ تحریک کی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں اور ہرجگہ کامیاب اور کامران رہیں۔
بنت مجتبیٰ مینا مکمل شاعرہ ہیں کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے احساسات کو خوب صورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا بھی اس چبھن اور کسک کو محسوس کرتا ہے جو شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ مفہوم کی ادایگی اور اس کا ابلاغ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن کو پوری مہارت سے برتا ہے۔ انھوں نے حمدونعت کہی ہیں، قطعات لکھے ہیں، غزلیں اور نظمیں کہی ہیں لیکن ہمارے ہاں مروجہ انداز کی آزاد نظموں سے مکمل اجتناب برتا ہے۔
بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے بنت مجتبیٰ مینا کی شاعری ایک واضح مقصد کے لیے ہے اور وہ اپنے مقصد کے اظہار میں پوری طرح کامیاب ہیں، یعنی ان کی شاعری مقصدی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی نعتوں میں بڑی دل سوزی اور عقیدت و احترام ہے۔ انھوں نے کہا ؎
کچھ ہوش نہیں رہتا جب وقت حضوری ہو
دیوانے سے دیوانے، دیوانے محمدؐ کے
ان کی چھوٹی بحرکی نعتیں خوب نہیں بہت خوب ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ غزل کی زیادہ کامیاب شاعرہ ہیں یا نظم کی۔ شاہدہ یوسف کے مطابق: ’’ان کی غزلوں میں ایک کربِ مسلسل ہے جو، ان کے احساس تنہائی، دل شکستگی اور درمندی کا آئینہ دار ہے۔ چند اشعار:
غمِ دوراں، غمِ ہجراں، غمِ جاناں، غمِ دل
اِک دنیا ہے یہاں، کہتے ہو تنہائی ہے
کچھ تو مجھ کو ملا
اِک دل بیتاب سہی
پھر کسی تازہ واردات کی خبر
غنچہ دل کو کیوں ہنسی آئی
ان کی نظم کے بارے میں کہا گیا: ’’سماجی اور معاشرتی المیوں سے مالا مال ہے‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی نظمیں تاریکیوں میں روشنی اور جبر میں اختیار و اعتبار کا پیغام دیتی ہیں۔ ’ہارسنگھار‘، ’صدقہ‘، ’رات گزر جائے گی‘، ’چاک گریباں‘، ’آواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن سے پُرآشوب حالات میں بھی جینے کا اور مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی تمام نظموں میں مفہوم کی ادایگی اور مکمل ابلاغ نمایاں ہے۔ بطور مجموعی ان کی شاعری اُجالا پھیلانے والی شاعری ہے۔
منشورات نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ سرورق پر خوب صورت جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی داد دینی چاہیے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی صاحب زادی زہرا نہالہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی والدہ کے خوب صورت کلام کو زمانے کی دستبرد سے محفوظ کرلیا۔ (وقاراحمد زبیری)
’وزیراعظم کی تبدیلی‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) کے تحت حکومت عدلیہ محاذ آرائی کے تناظر میں اصل مسئلہ اور اس کا ممکنہ حل پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت جب سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ اس نے آج تک شریعت اسلامیہ کے مقرر کردہ قوانین و اصولوں سے انحراف کیا ہے۔ اس حکومت کے کسی بھی اہل کار نے جو کہا اس پر عمل کرکے نہیں دکھایا۔ حکومت نے عوام کے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کی ہیں۔یہ ملک وسائل کے اعتبار سے مالا مال تھا لیکن نااہل قیادت نے اس کا ستیاناس کردیا ہے۔ اس ملک کی سلامتی اس طرح محفوظ رہ سکتی ہے کہ اچھی قیادت کو آگے لایا جائے اور اچھی قیادت صرف اسی صورت میں آگے آسکتی ہے کہ حزبِ مخالف جماعتیں متحد ہوکر حکومت کا مقابلہ کریں اور اس قیادت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔
’ہمارا میڈیا: غلامانہ ذہنیت اور بے حیائی‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) جناب انصار عباسی نے بڑی عرق ریزی اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے یہ مضمون تحریر کیا ہے جو کہ فکرانگیز بھی ہے اور تشویش کا باعث بھی۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں مزید زورِ قلم دے اور ہمیں اُن اقدامات کو اُٹھانے کی توفیق دے جس کی نشان دہی مضمون میں کی گئی ہے،آمین!
’انگریزی ذریعۂ تعلیم: شیوئہ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں اہم قومی مسئلے سے غفلت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قومی زبان اور یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے بھی قومی مفاد میں پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں عوام کے استحصال سے روکا جاسکے۔
ہمارے ٹی وی چینلوں پر رمضان کے بارے میں آج کل کئی قابلِ تعریف پروگرام بھی آرہے ہیں لیکن دوسری طرف عریانی و فحاشی کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ آتا ہے،و ہ پریشان کرنے والا ہے۔ اداروں کے ذمہ دار اس تضاد کی کیا توجیہ کرتے ہیں؟ اور حساب کے دن کیا جواب دیں گے؟ دوسری بات یہ کہ ایک کے بعد ایک چینل نے جرائم کا پروگرام پیش کرنا شروع کیا ہے، جس میں پورے جرم کو کیا جاتا ہوا دکھایاجاتا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہے؟ اس کے کیا اثرات ہورہے ہیں؟ ہمارے ماہرین عمرانیات و نفسیات کہاں سو رہے ہیں؟
دستور میں اِس مضمون کی ایک مستقل دفعہ بھی ہونی چاہیے کہ: ’’مجلس قانون ساز، خواہ مرکزی ہو یا صوبائی، کوئی ایسا قانون پاس کرنے کی مجاز نہ ہوگی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو‘‘۔....
۱- ایک مقرر مدت کے اندر (جس کی مقدار ۱۰ سال سے زیادہ نہ ہو) تمام رائج الوقت قوانین کو اسلامی اصول و احکام کے مطابق ڈھال دیا جائے، یہاں تک کہ اس مملکت کے اندر کوئی ایسا قانون باقی نہ رہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔
۲- تمام سرکاری ملازمتوں کی ٹریننگ میں، خواہ وہ صوبائی ہوں یا مرکزی، اور خواہ وہ فوجی ہوں یا سول، دینی تعلیم اور اسلامی معیار کے مطابق اخلاقی تربیت کو لازماً شامل کیا جائے، اور اس ٹریننگ سے ایسے تمام اجزا کو خارج کیا جائے جو اسلامی تعلیمات اور اصولِ اخلاق کے منافی ہوں۔
۳- حکومت کے تمام محکمے اس امر کے پابند کیے جائیں کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں مسلمان ملازموں کو اسلامی احکام کی پابندی کے لیے سہولتیں بہم پہنچائیں، اور شعائر و احکامِ اسلامی کی پابندی پر کسی قسم کی رکاوٹیں باقی نہ رہنے دیں۔
۴- حکومت کو اس امر کا بھی پابند کیا جائے کہ وہ منکرات کو مٹانے اور معروف کو فروغ دینے کے لیے کام کرے، اور اس کے تمام شعبوں کی پالیسی، اپنے اپنے دائرۂ عمل میں، نہ صرف اسلامی احکام کی روح و شکل کے مطابق ہو، بلکہ اس کا نصب العین ہی اسلامی نظامِ حیات کی ترویج ہو۔
۵- نظامِ تعلیم میں ایسی اصطلاحات کرنے کا بھی ریاست کو پابند کیا جائے جن سے آیندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت ٹھیک ٹھیک اسلامی نصب العین کے مطابق ہوسکے، اور ایسی تمام چیزوں کو تعلیم و تربیت سے خارج کیا جائے جو فکرونظر یا اخلاق کے اعتبار سے اسلام کے خلاف ہوں۔
۶- حکومت کو اس امر کا بھی پابند کیا جائے کہ وہ ایک مقرر مدت کے اندر (جس کی مقدار ۱۰سال سے زیادہ نہ ہو) ایسے انتظامات مکمل کرلے جن سے وہ قانوناً اس امر کی ضامن ہوسکے کہ اس کے حدودِ مملکت میں کوئی شہری زندگی کی بنیادی ضروریات (غذا، لباس، مکان، علاج اور تعلیم) سے محروم نہ رہنے پائے گا۔ (’اشارات‘ ، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۵، ذی القعدہ ۱۳۷۱ھ، اگست ۱۹۵۲ء ، ص۲-۴)