بسم اللہ الرحمن الرحیم
’تہذیبی تصادم: حقیقت یا واہمہ؟ آج کی عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اس پر نظری بحث اور سیاسی بساط پر عملی صف بندی‘ دونوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تہذیبی تصادم اب ایک واہمہ نہیں‘ بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہاہے۔البتہ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر فطری‘ غیر ضروری‘ نامطلوب اور تباہ کن ہے‘ لیکن اب اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں اصل چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے‘ اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے‘ وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ تکلیف دہ اور ناخوش گوار حقیقت موجود ہے اور محض آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقائق پادر ہوا نہیں ہوسکتے۔
تہذیب اور تہذیبی تصادم کا مفہوم کیا ہے؟ انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے تہذیب ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ایک بچہ دو انسانوں کے درمیان ایک تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ ماں کی گود کے بغیر وہ پروان نہیں چڑھ سکتا‘ اس کی نشوونما کے لیے خاندان ‘ معاشرہ اور مدرسہ‘ سب کی ضرورت ہے۔ مدنیت انسان کی ضرورت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے۔ سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخ کے حوالے سے اس کا مطالعہ کریں‘ اس کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ عربی میں اس کے لیے مدنیت‘ حضارۃ اورثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
انگریزی زبان میں بھی civil‘city‘ civicیہ سب civilization کے مصدر ہیں۔ یہ ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے‘ انسان کا تشخص بھی قائم ہوتا ہے اور ااس کے لیے ترقی کی راہیں بھی استوار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان خیالات‘ اقدار‘ ادارے‘ تعلقات‘ نظام‘ یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔ ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی ا صطلاحات عمرانیات (سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز ان دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے طورپر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدے‘ اقدار اور اصول کی بنیادی قدریں جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا معاشرے کو ایک اجتماعی تشخص حاصل ہو‘ وہ کلچرہے۔ لیکن کلچر‘ عقیدہ‘ فکر‘ عادات اور اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اداروںحتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مختلف فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع صورتیں سامنے آتی ہیں۔فنِ تعمیر رونما ہوتا ہے۔ معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں۔ اس مجموعی تشخص کو تہذیب (سویلائزیشن) کہا جاتا ہے۔ ایک کو علوم عمرانی کی اصطلاح میں ذہنی تشکیل (mentafacts)کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مادی اور سماجی مظاہر (artefacts)‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
ستم یہ ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو دنیا کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اصل تصادم تہذیب اور وحشت‘ خیر اورشر‘ نیکی اور بدی اور ظلم و ناانصافی کے درمیان ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہی ضروری نہیں ہے۔ تہذیبوں میں تنوع‘ فکرونظر کا اختلاف‘ مختلف علاقوں میں اور مختلف زمانوں کے دوران ایک سے زیادہ تہذیبوں ا ور تمدنوں کا وجود فطری اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نیز ان کے درمیان ربط و ارتباط‘ مکالمہ اور اتصال‘ تعاون اور مسابقت بھی ایک فطری امر ہے۔ کچھ حالات میں یہ مقابلہ اور تصادم کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور تاریخ میں کرتا رہا ہے لیکن محض تہذیبوں کے اختلاف کو لازماً تصادم پر منتج ہونے کے تصور کو ایک ناگزیر تاریخی حقیقت بنانا استعماری ذہنیت کا غماز ہے۔ ہر تہذیبی اختلاف کو تصادم بنانا اور اختلاف کے نتیجے میں تصادم کو انسانیت کا مقدر ٹھیرانا خود تہذیب کے تصور کی نفی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گو حق و باطل کی کش مکش تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور حق کا غلبہ فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ تصور صحیح نہیں کہ حق کا یہ غلبہ صرف جنگ اور خونی تصادم کے ذریعے بروے کار آسکتا ہے۔ حق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور حق کی قبولیت کا اصل محل انسان کا دل‘ اس کا ارادہ اور ایمان ہے اور ایمان جبر سے نہیں اختیار اور دل کی گہرائیوں سے قبولیت کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی صداقت کو دلیل کی قوت‘ فطرت سے مطابقت‘ اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور توازن و ہم آہنگی سے مالامال کرنے کی صلاحیت سے منواتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے لَا ٓ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶)‘کے قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ جب حق کو انسانوں تک پہنچنے سے روکا جائے اور ظلم اور عُدوان کی دیواریں حق اور انسانیت کے درمیان کھڑی کر دی جائیں تو پھر ان موانع کو رفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس وقت مغربی تہذیب کے علَم بردار اور خصوصیت سے امریکا کی حکمران قیادت تہذیبوں کے تصادم کے نام پر انسانیت پر ایک مخصوص تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے کی جنگ کر رہی ہے اور دوسری تہذیبوں کے خلاف خاک و خون کی ہولی کھیل کھیلتے ہوئے ٹیکنولوجیکل بالادستی کا فائدہ اُٹھا کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے یا یہ کہ وہ کم از کم وہ مغرب کی غلام بن کر رہیں۔یہ ہے اصل نقشۂ جنگ جس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنا خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اپنے اضطراب کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ یہ فساد پھیلائے گا اور خون خرابا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔) دراصل خلافت کے معنی ہی آزادی‘ اختیار اور انتخاب کے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خیر اور شر تمھارے سامنے آئے گا‘ کچھ خیر کو قبول کریں گے‘ کچھ شر کو۔ عقیدے اور عمل کا یہ اختلاف انسانی زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر باقی رہے گا اور اپنے اس انتخاب اور عمل کے بارے میں سارے انسان بالآخر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔ دنیا میں بھی اس کے کچھ نتائج ضرور رونما ہوں گے۔ سورۂ فاتحہ میں انسانیت کے دو دھاروں کاذکر ہے۔ ایک وہ جن پر اللہ کا انعام ہے‘ اور دوسرا وہ جو مغضوب اور غلط کار ہے۔ گویا وہ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ تنوع اور یہ اختلاف کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اور پوری تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے۔ یونانی فکر میں یہ تصور موجود ہے کہ ہم مہذب ہیں اور باقی سب وحشی۔ یہی چیز رومی سلطنت میں رہی۔ عیسائیت نے الہامی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس خون آشام یونانی اور رومی تصور کو قرونِ وسطیٰ میں عملاً قبول کرلیا جس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی جنگیں اور مذہبی انتہاپسندی وجود میں آئی۔
آج کی جدید مغربی تہذیب بھی اسی مریضانہ سوچ کی وارث ہے اور اس کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی کرنے والوں کے ان بیانات سے کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے جن کا اس کے سوا کوئی مدعا نہیں ہوسکتا کہ صرف مغرب کی اقوام ہی مہذب اور تہذیب کی علم بردار ہیں اور دوسرے سب گویا تہذیب ہی کے دشمن ہیں۔ حالانکہ یورپ کے تاریخی کردار اور آج کے مغرب کے اس سامراجی تہذیبی ذہن کے مقابلے میں دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر ‘ شام ‘ چین ‘ ہندستان یا افریقہ کے ممالک‘ ہر جگہ تہذیبی تنوع اور اختلاف ایک حقیقت رہی ہے۔ مگر اختلاف کے نتیجے میں تہذیبی تصادم یا ٹکرائو لازماً انسانیت کا مقدر نہیں ہوا اور نہ یہ صورت رونما ہوئی کہ ایک دوسرے کو لازماً محکوم بنانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے قوت آزمائی کی جائے۔ مسلمان مفکرین نے پوری دنیا کو دارالدعوۃ قرار دیا اور دارالسلام اور دارالحرب کے ساتھ دارالامن اور دارالعھد کے تصور سے بین الاقوامی قانون کو روشناس کیا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہی مسلمانوں نے رکھی جس میں صلح‘ امن اور جنگ سب کے اصول اور ضوابط کو مرتب کیا اور بقاے باہمی اور انصاف اور اصول کی بنیاد پر قوموں کے درمیان معاملہ کرنے کی بنیاد رکھی۔
مہذب دنیا میں عدمِ برداشت (intolerance) بھی خالص مغربی تصور ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مغربی تہذیب پر ٹائن بی‘ وِل ڈوراند حتیٰ کہ برٹرینڈ رسل کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ عدمِ برداشت یورپ کا خاصّا رہا ہے۔ وہ آزادی کے سارے دعووں کے باوجود‘ بنیادی امور کے سلسلے میں اختلاف کو گوارا کرنے اور اسے معتبر (authentic) ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی چیز سیاسی اور تہذیبی میدان میں رونما ہوئی ہے‘ جس کا پہلا بڑا مظہر اندھی بہری استعماریت (امپیریلزم) کی شکل میں چودھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے نصف تک دنیا کے سامنے آیا‘ خود یورپ کے اندر فاشزم کا فروغ اور غلبہ بھی اسی ذہن کاثمرہ تھا اور پھر اس کا حالیہ اظہار گذشتہ تقریباً ۲۰‘ ۲۵ سال سے سامنے آرہا ہے اور اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب بھی اسی تصور کی بنا پر دنیا کو تباہی اور خون آشامی کی آماجگاہ بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث میں انسانی تاریخ میں پائی جانے والی تہذیبوں کے متعدد مطالعے سامنے آئے ہیں‘ ان میں آرنلڈ ٹائن بی نے ۲۶ تہذیبوں کا اور پروفیسر سوروکن نے ۳۶تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کیاہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق بھی ہرتہذیب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی حیثیت سے خالق کائنات سے کسی نہ کسی نوعیت کے تعلق کی بنیاد پر تشکیل پاتا تھا۔ خواہ وہ توحید کی بنیاد پر ہو یا شرک کی بنیاد پر‘ البتہ آفاقیت‘ مابعد الطبیعیاتی قوت سے رشتہ اور تعلق‘ کائنات کی روحانی حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود تھا۔ نیز خالق سے تعلق اور اس کائنات کا ایک اخلاقی وجود اور اس دنیا پر علاقائی نہیں بلکہ کائناتی اور پھر اخروی زندگی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ اور تہذیب میں بگاڑ ضرور ہوا ہے‘ لیکن اسے تخت یا تختے کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ یہ صرف جدید مغربی تہذیب ہے‘ جس نے خالق سے اس تعلق کو کاٹ دیا ہے۔ الہامی روایت اور مذہب کی رہنمائی کو ناکارہ اور غیرضروری قرار دیا ہے۔ اس کی جگہ مختلف عقلی تصورات اور مفادات کو جوڑتوڑ کر ایک نظامِ فکر کی شکل میں ڈھال دیا ہے‘ جس میں تین تصورات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں یعنی:عقل پرستی (rationalism)‘ فردیت (indiviualism) اور انسان پرستی (humanism )۔ انھی کے مظاہر نیشنلزم‘ جمہوریت‘ سیکولرازم اور کمیونزم کے طور پر وجود میں آئے۔
یہ وہ تہذیب ہے جس نے رہنما اصول کی حیثیت سے دنیا پرستی‘ مادیت اور انسانی عقل و تجربے کو مرکزی حیثیت دی۔ پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ اسی کا نام تہذیب رکھا گویا کہ باقی سب غیرمہذب تھے اور ہیں۔ امپیریلزم کی اس پوری تاریخ میں خواہ وہ فرانسیسی ہو یا برطانوی‘ جرمن سامراج ہویا ولندیزی‘ یا پھر ہسپانوی سامراج‘ یا اس کی تازہ ترین شکل امریکی استعمار‘ اس میں دوبڑے کلیدی تصورات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تہذیب سکھانے کا مشن (civilizing mission) اور دوسرا گوری نسل کا بوجھ (white man's burden)۔ گویا روے زمین پر صرف یہی تہذیب ہے‘ باقی ساری دنیا جہالت اور تاریکی میں ہے۔ اسی تہذیب کا غلبہ اور اسی کے نقشِ قدم پر سب کا چلنا تہذیب کی نشانی ہے‘ اور اس کو فروغ دینے کے لیے سامراجی طاقت اور فوجی قوت کا استعمال ناگزیر ہے‘ بلکہ غلبے کا اصل ذریعہ۔ ساڑھے تین چار سو سال انسانیت نے ظلمت کا جو دور دیکھا ہے‘ وہ اسی ذہنیت کی پیداوار تھا۔
بیسیویں صدی میں سامراجی قوتوں کا زوال ہوا۔ حالانکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لیکن‘ فوجی قوت کے باوجود دوعالمی جنگوں اور اندرونی خلفشار‘ عدم مساوات‘ ناانصافی‘ ظلم اور اداروں کے انتشار کی وجہ سے ان کا زوال شروع ہوا۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان تقریباً ۱۵۰ آزاد ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُ بھرے۔ جن میں مسلم ممالک کی تعداد ۵۷ہے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے ارکان کی کل تعداد ۱۹۲ کے ایک تہائی سے کچھ ہی کم ہے۔
برطانیہ کبھی دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر حکمران تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے آپ کو برطانیہ عظمیٰ کہتا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ دنیا کے سارے سمندر اس کے زیراقتدار ہیں۔آج اس کے جغرافیے پر نگاہ ڈالیں تو وہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو چند جزیروں پر مشتمل ہے۔ وہ سورج جو کبھی اس پر غروب نہیں ہوتا تھا‘ نہ صرف غروب ہوا بلکہ آج عالم یہ ہے کہ جسے اب برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا ہے‘ وہاں ہفتوں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ برطانیہ اب سکڑ کر ایک چھوٹا سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ گو غرورو تکبر اب بھی اس کا شعار ہے۔ رسّی جل گئی مگر بل نہ گیا۔
اس کے بعد دو سوپر طاقتوں امریکا اور روس کی کش مکش شروع ہوئی۔ یہ کش مکش بالآخر ۱۹۸۹ء میں روس کے انتشار و انہدام اور امریکا کی واحد سوپرپاور رہ جانے کی شکل میں منتج ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے استعماریت کا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ اس دور کو تہذیبوں کے تصادم کا دور کہا جا رہا ہے۔ اس میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان میں سے تین‘چار اہم شخصیات کا ذکر کروں گا۔
ابھی افغانستان میں جہاد جاری تھا اور روس کا زوال نہیں ہواتھا کہ ۱۹۸۵ء میں امریکا کے مشہور رسالے فارن افیرز میں امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن نے ایک مضمون میں یہ بات کہی کہ امریکا اور روس افغانستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا اور روس کا مفاد آپس میں لڑنے میں نہیں ہے۔ اصل خطرہ کچھ اور ہے‘ اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ۔
اس وقت تک صرف تین چار چیزیں ہوئی تھیں‘ جن میں ایک ۵۷ مسلم ممالک کا آزاد ہونا تھا مگر وہاں بھی حکمرانی انھی قوتوں کے ہاتھوں میں تھی جو کسی نہ کسی شکل میں خود امریکا اور روس کی تابع تھیں۔ مسلم ممالک کی معیشت پر امریکا‘ یورپ اور کثیرالقومی اداروں کا قبضہ تھا۔ دوسرا یہ کہ ۱۹۶۹ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے نتیجے میں مسلمانوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) قائم کی جو خواہ کتنی ہی لولی لنگڑی ہو لیکن اتحاد اسلامی کی علامت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنی تیل کی قوت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پھر فروری ۱۹۷۹ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران کے انقلاب نے ’اسلامی خطرے‘ کو ایک عالمی ہوّا بنادیا۔
دراصل دوسری جنگ کے بعد امریکا اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ آزادی کے باوجود مسلمان اور عرب ممالک کو عالمی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کے ساتھ شاہِ ایران اور اسرائیل جیسے عناصر کے ذریعے قابو میں رکھیں۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان میں جہادی قوت کی کامیابی نے نقشہ بدل دیا۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رمضان کی جنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان اور عربوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسرائیل کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا اگر بلیک میل ہو کر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ملٹری امداد فراہم نہ کرتا تو اسرائیل نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایٹم بم استعمال کریں گے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پر مغرب کے یہ مفکر اور حکمت کار (strategists) ایک نئے دشمن کی تلاش میں تھے کہ جس کا ہوّا دکھا کر اور اپنے شہریوں کو خوف زدہ کر کے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ اور وہ دشمن انھیں اسلام اور مسلم دنیا کی شکل میں نظرآیا۔ اسی لیے امریکا کے سابق صدر اور سیاسی دانش ور نکسن نے ۱۹۸۵ء میں روس کو‘ اس کی زیرقبضہ مسلم آبادی کے بارے میں خبردار ضرور کر دیا تھا کہ سارا وسطی ایشیا‘ افغانستان اور مسلم دنیا‘ یہ تمھارے لیے خطرہ ہیں‘ امریکا کے لیے نہیں‘ اس لیے آئو! ہم تم مل کر کوئی راستہ نکالیں۔
بہرحال کوئی مشترکہ راستہ تو نہیں نکلا‘ لیکن جب ۱۹۸۸ء میں روسی حکمران میخایل گورباچوف نے ذہنی اور سیاسی شکست تسلیم کرلی اور یہ کہا کہ دوسال کے اندر ہم افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں گے تو یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی اصل حکمت عملی بروے کار لانا شروع کی۔ وہ حکمتِ عملی کیا تھی؟ یہ کہ اسلام اور مسلمان ہمارے اصل دشمن ہیں ۔ سب سے پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات کہی تھی کہ سرخ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن سبز خطرہ رونما ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے اہم یہودی مفکر برنارڈ لیوس نے‘ جو لندن یونی ورسٹی میں پروفیسر رہا اور پھر ۱۹۸۰ء میں امریکا منتقل ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر اور امریکا کے پالیسی ساز اور پوری اسرائیلی لابی کے دماغ کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘ اس نے ۱۹۹۰ء میں‘ جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں‘ امریکا کے اہم رسالے اٹلانٹک منتھلی (Atlantic Monthly) میں اپنے مضمون میں پہلی بار clash of civilizations کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اس مضمون میں کہتا ہے:
اب یہ بات واضح ہوجانا چاہیے کہ ہم مسائل‘ پالیسیوں اور ان کو لے کر چلنے والی حکومتوں کی سطح بلند ہونے کی کیفیت اور تحریک کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم بات نہیں ہے۔ غالباً یہ ہمارے یہود مسیحی ماضی‘ ہمارے سیکولر حال اور ان دونوں کی عالم گیر توسیع کے خلاف ایک قدیم دشمن کا شاید غیرعقلی لیکن یقینا تاریخی ردعمل ہے۔ (جیفرسن لیکچر ۱۹۹۰ئ‘ برنارڈ لیوس The Rage of Islam ، اٹلانٹک منتھلی‘ ستمبر ۱۹۹۰ئ)
اسپین میں مسلمانوںکی پہلی آمد سے لے کر ویانا میں دوسرے ترک محاصرے تک ایک ہزار سال کے دوران یورپ مسلسل اسلام کے خطرے کی زد میں رہا ہے۔
مقابلے کی جن دو قوتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی (islamic fundamentalism) ایک طرف اور سیکولر‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت دوسری طرف ہیں اور موخرالذکر کو جدیدیت کی علَم بردار اور یہود مسیحی (Judo-Christian) تہذیب کی وارث کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ تھا دراصل وہ پہلا پتھر جو پھینکا گیا۔ پھر اس نکتے کو سیموئیل ہن ٹنگٹن نے آگے بڑھایا۔ یہ ایک اور یہودی ہے جو ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا پروفیسر ہے۔ اس نے ۱۹۹۳ء میں مشہور رسالے فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا: The Clash of Civilizations۔ اس پر بحث کا آغاز ہوا‘ درجنوں مضامین لکھے گئے اور کتابوں کا بھی ایک طوفان آگیا۔ اپنی پوری بحث کو ہن ٹنگٹن نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ۱۹۹۶ء میں اپنی کتاب Clash of Civilizations and Remaking of New World Order کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس وقت سے اب تک یہ کتاب تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی دانش ورانہ بائبل بن گئی ہے۔ اس کے بعد بیسیوں نہیں‘ سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں‘ تقاریر‘ اسٹرے ٹیجک پیپرز اور دانش وروں اور ماہرین (تھنک ٹینکس) کی رپورٹیں اس موضوع پرآئی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مسلما ن دانش وروں کو اندازہ تک نہیں کہ ان ۲۵ سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا کام ہوا ہے اور کس طرح ذہنوں کو علمی مباحث ‘میڈیا اور سیاسی چالوں کے ذریعے ایک عالمی تصادم کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں ناین الیون رونما ہوا اور اس کے بعد جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
اس وقت جو نقشۂ جنگ ہے اس میں ایک طرف مسلم دنیا ہے جو ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی طور پر منقسم ہے‘ معاشی طور پر خود اپنے وسائل پر قدرت نہیں رکھتی‘ عسکری طور پر نہایت کمزور ہے۔ دوسری طرف چونکہ اسلام ایک تہذیبی اصول‘ ایک تحریک اور ایک متبادل قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی تہذیب کی بنیاد بن سکے‘ اس لیے اسے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے الفاظ میں To nip the evil in the bud، یعنی اس کو حقیقی خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔
میں یہ چاہوں گا کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تجزیہ اور اس کا استدلال آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو ہّوا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ تاریخ سے بھی مثالیں لایا ہے اور حالیہ رجحانات کو بھی بحث میں کھینچ لایا ہے۔ اس کے لیے سروے کی تکنیک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے‘۳۵ہزار افراد کی راے کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دو چیزیں ہیں جو امریکیوں کی نظر میں آج سب سے بڑا خطرہ ہیں: ایک ایٹمی اسلحے کا پھیلائو ہے‘ اور دوسرا ’دہشت گردی‘۔ یہ سروے ناین الیون سے سات سال پہلے ۱۹۹۴ء کا ہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ ان دونوں میں باہم کیا تعلق ہے؟ بھارت ۱۹۷۴ء میں ایٹمی تجربہ کرچکا تھا‘ اور اسرائیل ۱۹۷۰ء میں ایٹم بم بنا چکا تھا۔ ابھی پاکستان نے ایٹمی تجربہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کا اصل خطرہ ہمیں اسلام اوراسلامی تحریکوں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان دونوں کا منبع مسلمان ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: 60 % of American people regard Islamic revival a threat to US interests in the Middle East. (۶۰ فی صد امریکی عوام شرق اوسط میں اسلامی احیا کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں)۔
وہ مزید کہتا ہے کہ مسلمان آج تو کمزور ہیں لیکن اگر ان کو قابو نہ کیا گیاتو معاشی اعتبار سے یہ اپنے وسائل کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے اور ایک بڑی معاشی طاقت بن جائیں گے۔ پھر آبادی کے اعتبار سے ان کی عالمی پوزیشن بدل رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں دنیا کے عیسائیوں کی آبادی ۲۵ فی صد اور مسلمانوں کی ۲۰‘ ۲۱ فی صد تھی لیکن اب عیسائیوں کی آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ۳۰ فی صد ہوجائے گی اور عیسائیوں کی آبادی سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس دوران اگر مسلمانوں نے اپنی فوج اور اپنی ایٹمی قوت کو ترقی دی تو پھر وہ مغرب کی بالادستی (superamacy ) کو چیلنج کردیں گے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ۔
مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے‘ اور جس کو ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار میں اپنے کم تر حصے پر پریشان ہیں۔(The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order، نیویارک‘ Simon Schuster ‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنا تشخص رکھتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ ان کی تہذیب‘ ان کی اقدار برتر ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ الفاظ استعمال کرتا ہے upset with the inferiority of their power ‘تو یہ ان کی بے چارگی ہے جس کی وجہ سے ان کا غصہ‘ مقابلے کی قوت پیدا کرنے کا محرک ثابت ہوگا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ اور جو بڑھتے بڑھتے ہمہ گیر تصادم کا روپ دھار سکتا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے اسی کتاب میں ایک بڑی اہم بات یہ کہی ہے کہ: Terrorism is the weapon of the weak against the strong. (دہشت گردی کمزور کا طاقت ور کے خلاف ہتھیار ہے)۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنے کا شاطرانہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید کہتا ہے:
اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں ہے‘ بلکہ خود مغرب ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔(ایضاً)
دنیا میں ثقافتوں کی تقسیم‘ قوت و اقتدار کی تقسیم کا عکس ہوتی ہے۔ تجارت طاقت کے تابع ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ تاریخ میں کسی تہذیب کی طاقت کی توسیع اس کی ثقافت کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے‘ اور ہمیشہ اس طاقت کو دوسرے معاشروں میں اپنی اقدار‘ روایات اور اداروں تک پہنچانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی تہذیب‘ آفاقی طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔
اسلام اور مغرب دو جداگانہ تہذیبیں ہیں۔ صرف اسلام اور مغرب ہی نہیں‘ اور بھی تہذیبیں ہیں مگر ان میں اختلاف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تصادم لازم ہو۔ ان تہذیبوں میں تعاون بھی ہوسکتا ہے‘ مسابقت بھی اور بقاے باہمی (co-existance) بھی ہوسکتی ہے۔ اختلاف کا لازمی نتیجہ تصادم نہیں۔ انسانی تاریخ میں تہذیبوں کی ترقی کا راستہ تہذیبوں کے درمیان اتفاق‘ مکالمے‘ تعاون اور مسابقت کا راستہ ہے۔ محض اپنے تصورات‘ اقدار اور طور طریقوں کو دوسروں پر قوت کے ذریعے مسلط کرنے اور اسے تہذیبی تصادم قرار دینے کا راستہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ بلاشبہہ جنگیں سیاسی اور معاشی وجوہ سے برپا ہوئیں اور وہ تاریخ کا حصہ بنیں۔ محض تہذیبوں کے تنوع‘ اقدار کے اختلاف اور اصولوں اور اجتماعی نظاموں کے باہم مختلف ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ یہ مغرب کا استعماری تصور ہے جو اس سے کہلوا رہا ہے کہ:
[اہلِ مغرب] اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔
گویا قوت کے ذریعے سے ایک کلچر ‘ اس کے تصورات‘ اس کی اقدار‘ اس کے اصولوں‘ اس کے اداروں اور اس کے نظام کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنا۔ یہ امپیریلزم ہے‘ تہذیبوں کا تصادم نہیں‘ اور اگر اس نوعیت کا تصادم کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ امپیریلزم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اختلاف کا حق دیا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل سے بات کرے۔ تبادلۂ خیال‘ اظہار راے کی آزادی اور دعوت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کو دوسروں کے اوپر قوت سے نافذ کرے کہ یہی لااکراہ فی الدینہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے لیے اگر کوئی راستہ ہے تو وہ مکالمہ‘ مسابقت اور تعاون ہے‘ جب کہ تصادم ایک دوسرے کو ختم کرنا یا نیست و نابود (eleminate) کرنا تہذیب کا نہیں وحشت اور استعماریت کا راستہ ہے۔ آج جس چیز کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی استعماری ذہن ہے۔ اس کی اصل جڑ یہ زعم ہے کہ ہم دوسروں سے زیادہ طاقت ورہیں اور محض قوت کی بنا پر یہ ہمارا حق ہے کہ ساری دنیا میں ہم اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت‘ اور اپنے اداروں کو قائم کریں۔ یہ ہے خرابی کی اصل جڑ۔
مسلم معاشروں کا مکمل طور پر سیکولر ہوجانا اور مغربی تہذیب کے اہم پہلوئوں کو اختیار کرلینا بھی مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان مستقل مفاہمت کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ جب تک کہ مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی نزاع کے اسباب باقی رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کی یہ خواہش کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے عدمِ توازن کو دُور کیا جائے۔
ہمیں اس کے تجزیے سے اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو دھوکے سے عنوان بنایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ قوت کے توازن اور مسلم دنیا پر سیاسی‘ معاشی اور عسکری غلبہ اور تسلط ہے۔ بلاشبہہ سیکولرزم کا فروغ اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل مقصد دنیا پر غلبہ اور اسے اپنے زیرتسلط لانا ہے اور اس میں اسلام‘ مسلمان اُمت اور ان کا تصورِجہاد اصل رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔
ہن ٹنگٹن نے جو حکمت عملی تجویز کی ہے اس میں پہلی چیز ہے امریکا کی عالمی بالادستی۔ اس کا کہنا ہے کہ: سیاسی‘ معاشی‘ فنی اور عسکری کنٹرول کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ دوسری چیلنج کرنے والی کوئی طاقت وجود میں نہ آئے۔ یہی نقطۂ نظر برزنسکی کی کتاب The Chessboard of Nationsمیںجو کئی سال پہلے آئی تھی پیش کیا گیا ہے۔برزنسکی‘ صدر کارٹر کے دور میں نیشنل سیکورٹی کا مشیر رہا ہے اور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت امریکا واحد سوپرپاور ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آیندہ بھی یہی واحد سوپرپاور رہے۔ اس لیے امریکا کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کم از کم آیندہ ۲۵سالوں میں کوئی اسے چیلنج کرنے والا میدان میں نہ آسکے‘ اور خاص طور پر یورپ ‘ چین اور مسلم دنیا کو نظر میں رکھا جائے۔
دوسری چیز دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت کی حکمت عملی ہے(right of intervention)۔ اس کے مطابق جہاں کہیں کوئی خطرہ دیکھو‘ یا خطرے کی بو سُونگھو‘ قبل اس کے کہ وہ تمھارے لیے کوئی خطرہ بن سکے‘ مداخلت کرکے اسے نیست و نابود کردو۔ یہی پالیسی ہے جس پر بش انتظامیہ چل رہی ہے۔ اور اب انھوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک ڈاکٹرائن میں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ’روکنا یا مداخلت کرنا‘ ان کا حق ہے‘ اقوام متحدہ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ اسی خطرے کو وہ ’عدم برداشت‘ اور ’انتہا پسندی‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اگر مسلم دنیا کے کچھ حکمران ان لفظوںکا بے محابا استعمال کرکے اپنے ہم وطنوں کو دھمکاتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے مشاہدے یا اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے بلکہ ہن ٹنگٹن کے افکار کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔
تیسری بات جسے وہ استحصال کی حکمت عملی کہتا ہے‘ یہ ہے کہ معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں رکھو۔ اس لیے کہ تیل‘ توانائی‘ معدنی وسائل اور رسل و رسائل کے ذرائع اور راستے اسٹرے ٹیجک اثاثے ہیں اور ان پر ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔
چوتھی چیز میڈیا کی قوت کا استعمال ہے۔ ہرنوع کے ذرائع ابلاغ اس کا حصہ ہیں۔ یہ افکار اور اذہان پر کنٹرول‘ ان کی تشکیل یا انھیں مخصوص تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔
پانچویں چیز وہ یہ کہتا ہے کہ امریکا شاید ایک عرصے تک یہ کام اکیلے نہ کرسکے‘ اس لیے امریکا کو یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور فوجی اتحاد کرنا چاہیے۔ جس میں اب اسرائیل اور روس کے ساتھ بھارت کا اضافہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک مقابلے میں اصل قوت مسلم دنیا اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ اس کے الفاظ میں: اسلامی اور چینی ممالک کی روایتی اور غیر روایتی عسکری طاقت میں اضافے کو روکنا۔
آخری چیز یہ بیان کرتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مسلمان تارکین وطن خود ہمارے اندر ایک خطرے کی چیز بن گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
مغربی کلچر کو مغربی معاشروں کے اندر موجود گروپوں سے چیلنج درپیش ہے۔ اب ایک چیلنج ان تارکین وطن کی طرف سے ہے جو [ہمارے معاشرے میں] جذب ہونے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے ممالک کے کلچر‘ رسوم و رواج اور اقدار کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ موجودگی سب سے زیادہ یورپ اور امریکا میں ہے۔
ان پانچ نکات کی روشنی میں امریکا اور مغربی اقوام کے تیار کردہ نقشۂ جنگ کے اہم خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبی تنوع کا نتیجہ تہذیبوں کا تصادم نہیںہے‘ نہ یہ ضروری ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن جب ایک تہذیبی قوت جسے معاشی‘ سیاسی‘ عسکری بالادستی بھی حاصل ہو‘ یہ چاہے کہ وہ اپنے نظام کو ساری دنیا کے اوپر قوت کے ذریعے مسلط کرے‘ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگے اور ان کی معیشت‘ ان کی سیاست اور ان کی معاشرت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لے___ تب تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اِس وقت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے تصادم کی فضا پیدا کرنے کے لیے مغرب نے یہی راستہ اور طریقہ اختیار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کی کیا صورت ہے؟ کسی جذباتی‘ جوشیلے یا محض منفی ردعمل سے اس جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا۔ کچھ مہم جُو حضرات ایسے اقدام کر سکتے ہیں جن سے وقتی طور پر کچھ تسلی ہو‘ اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دشمن کو زک پہنچا دی ہے‘ لیکن یہ راستہ اختیار کرنا بڑی کوتاہ نظری (short sighted) کی حکمت عملی ہوگی۔ اُمت مسلمہ ایک پیغام اور دعوت کی علم بردار اُمت ہے۔ ہماری تہذیبی جدوجہد محض قوت‘ محض وسائل‘ محض مادی منفعتوں اور دولت کے حصول کے لیے نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل و احسان کی بنیادوں پر کرنا ہے تاکہ دنیا میں عزت اور امن اور آخرت میں اصل کامیابی حاصل کی جاسکے۔
اسلامی تہذیب کی شناخت کے تین حوالے ہیں: سب سے پہلی چیز توحید‘ یعنی اللہ سے رشتہ جوڑناہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو خودکفیل اور دنیا سے بالکل بے نیاز نہ سمجھنا‘ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھناا ور صرف اللہ کو محض خالق کی حیثیت سے ہی نہیں ماننا بلکہ رب‘ حی وقیوم‘ صاحب امر‘ ہدایت کا منبع‘ قوت کا سرچشمہ تسلیم کرنا۔ توحید کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کے راستے کی طرف لانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ہماری پہلی بنیاد ہے۔
دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ عقیدہ ضرور ہے اس لیے کہ عقیدہ ہی نقطۂ آغاز ہے‘ لیکن اسلام ایک مکمل دین ہے۔ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر ایک اجتماعی زندگی ہے‘ جس کا مظہر وہ تمام انسانی رشتے اور انسانی ادارے ہیں‘ خاندان‘ معاشرہ ‘معیشت اور سیاست ہے جو ایک مربوط اور مکمل نظام کی صورت میں عقیدے کے بیج سے ایک تناور درخت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک لفظ میں شریعت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا قانون۔ عیسائیت میں اگر بنیادی چیز تھیالوجی ہے تو اسلام میںبنیادی چیز شریعت ہے ‘یعنی اللہ کو مانو‘ اس کے دامن کو تھامو‘ اس سے رہنمائی حاصل کرو اور زندگی کے نظام کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کے اصول پر قائم کرو جو آزادی اور انصاف کا ضامن ہے۔
تیسری بنیاد امت کا تصور ہے جو رنگ ‘ نسل ‘ جغرافیے‘ مفاد اور تاریخ سے بالاتر ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جن کی تاریخ‘ تہذیب اور روایات ہم سے مختلف ہیں‘ وہ جس وقت لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں اسی وقت ہمارا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی زبان بولنے والا‘ خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ دنیا کے کسی بھی مقام پر رہتا ہو‘ وہ یہ کلمہ پڑھ کر اُمت مسلمہ کا حصہ بن سکتا ہے۔
یہ تین بنیادی چیزیں ہیں اور ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک طرف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان اصولوں پر قائم کریں‘ تمام وسائل کو اس مقصدکے لیے استعمال کریں اور مزید ترقی دیں۔ اجتماعی طاقت کا حصول بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ نیز دنیا کے سامنے صحیح نمونہ پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ دین کا فروغ اور اسلامی تہذیب کی ترویج ہم قوت کے ذریعے سے نہیں‘ دلیل کے ذریعے کرنے کے پابند ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیغام عام کریں اور دلیل سے کریں تاکہ قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ کا مقصد پورا ہو‘ یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ رشد‘ دلیل اور حکمت کے ذریعے سے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ۔ دوسری طرف قوت سے حق کا اور اپنے نظام کا دفاع کرنا اور ظلم و جبرکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جہاد دراصل انھی دو پہلوئوں سے عبارت ہے۔ ایک پہلو یہ کہ اللہ کی بندگی کے طریقے کو قبول کرنا‘اور دوسری طرف ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ہمیشہ سے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف قوتوں نے جن کے استعماری عزائم کی راہ میں مسلمانوں کا جذبۂ جہاد حائل ہے ہمیشہ تصورِ جہاد ہی کو ہدف بنایا ہے۔ خصوصیت سے پچھلے ۴۰۰سال کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ مغربی استعمار کا جہاں بھی مقابلہ ہوا ہے‘ مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور جہاد کی بنیاد ہی پر کیا ہے۔ مغرب کے مفکرین خواہ مستشرق ہوں یا مشنری یا حکمران‘ سب نے جہاد کو ہدف بنایا ہے۔
آج مسلم دنیا پر قابض حکمران طبقے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی جو بحثیں چھیڑ رہے ہیں‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کا لٹریچر پڑ ھ لیجیے‘ مغربی مفکرین‘ ان کے مستشرق اور خود ہندستان میں سامراجی حکمرانوں کے ہم نوا یہی بات کہتے تھے‘ حتیٰ کہ جہاد کو منسوخ کرنے کے لیے جھوٹا نبی تک بنایا گیا‘ مختصر یہ کہ کوئی نئی چیز نہیں۔
اسلامی تہذیب محض قوت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ قوت کی اگر ضرورت ہے تو اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ اس کی اپنی صحیح شکل میں اس پر عمل کرنے کے لیے ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے قوت کے ذریعے سے کبھی بھی اپنی اقدار کو دوسروں پر نہیں ٹھونسا۔ کیوں کہ یہ طریقہ اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ ایمان‘ دل کی رضامندی سے‘ دل ودماغ کی یکسوئی سے اور انسانی اختیار کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک اخلاقی عمل ہے اور کوئی اخلاقی عمل جبر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اخلاقی عمل تو آزادی و اختیار کی فضا میں اور رضامندی کے ساتھ فروغ پاتا ہے۔
اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اسے مستحکم کریں۔ جس طرح توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے‘ اسی طرح اسلام کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا اصول اللہ سے تعلق‘ اللہ سے رشتے کو گہرا کرنا‘ اللہ سے استعانت طلب کرنا اور اللہ کے بھروسے پر اس سارے کام کو انجام دینا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری ہے تو باقی جتنے بھی وسائل ہوں گے‘ وہ ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کا تقاضا ہے: کردار‘ تقویٰ اور للٰہیت۔ ایک ایک فرد اس کے اندر اہم ہے۔ جس طرح زنجیر میں ایک ایک کڑی اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر ایک کڑی بھی کمزور ہوتو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی اینٹیں اور بنیادیں ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوں گی تو دیوار نہیں ٹھیرسکے گی۔ اس لیے فرد‘ اس کا کردار‘ اس کی للٰہیت اور تقویٰ خود ہماری دفاعی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔
دوسری چیز مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی اجتماعیت ہے۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوں‘ اور وہ فرقوں میں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں تو ان کی قوت منتشر ہوکر کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے اجتماعیت اور اتحاد ہماری حکمت عملی کا دوسرا بنیادی نکتہ ہے۔
تیسری چیز دعوت ہے۔ ہم جامد نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک دعوت کے علم بردار ہیں اور ہماری طاقت اللہ کی تائید کے بعد‘ انسانوں کی قوت سے ہے۔ اس لیے تعلیم‘ تبلیغ‘ دعوت اور انسانوں کو اپنے اندر جذب کرنا‘ ان کی تربیت کرنا‘ یہ ہمارا مستقل پروگرام ہے۔
اخلاقی قوت اس راستے کی اصل معاون ہے۔ اسی کے نتیجے میں انسانوں کے دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔ ان انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مادی قوت بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے مادی قوت کو نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے جو قانون بنایا ہے‘ ہم اس سے انحراف کریں گے۔ یہاں آگ جلاتی ہے‘ برف ٹھنڈک دیتی ہے‘ اور سورج روشنی دیتا ہے۔ یہ اس دنیا میں اللہ کا قانون ہے۔ اگر آپ پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے سامنے ہو تو آپ محض پانی پانی کہتے رہیں تو آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ قدرت نے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کے ذریعے سے وسائل کو حاصل کرنا استخلاف کے معنی ہیں۔ آپ دنیا کے سارے وسائل کے امین بنائے گئے ہیں۔ استخلاف ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو وسائل ودیعت کیے ہیں‘ ان کو دریافت کرنا‘ ان کو ترقی دینا اور ان کو صحیح مقاصد کی خدمت کے لیے استعمال کرنا۔ اس لیے قرآن نے سورۂ انفال میں صاف کہا ہے کہ اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو۔ قوت تمھیں حاصل ہونی چاہیے اور قوت بھی ایسی کہ تمھارا دشمن اور اللہ کادشمن اس سے خوف محسوس کرے۔ قوت ایمان اور اخلاق سے‘ اور ٹکنالوجی‘ معیشت اور عسکری طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ترقی بھی اشد ضروری ہے۔ اگر اسے آپ نظرانداز کریں گے تو اِس تہذیبی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
ایٹمی طاقت آج کی دنیا میں ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کو تھوڑی سی ایٹمی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو اس پر دنیا بھر میں کتنا واویلا ہوا ہے۔ کہا گیا کہ یہ صلاحیت بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا سے لے کر بھارت تک جس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے وہ بلیک مارکیٹ سے‘ پھیلائو (proliferation ) سے اور دوسروں کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھا کر ہی کی ہے اور جائز ناجائز‘ ہر طریقے سے کی ہے۔ کیا امریکا نے جرمن سائنس دان کو اغوا کرکے اس کی صلاحیت کو استعمال نہیں کیا؟ کیا بھارت نے امریکا اور کینیڈا سے نیوکلیئر پلانٹ حاصل کیے بغیر یہ صلاحیت حاصل کر لی؟ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی ہے؟ ایران ہی پر آخر کیوں یہ دبائو ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی طاقت کے عدم توازن کا توڑ ہے۔
ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹکنالوجی بھی ایک بہت اہم میدان ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سلسلے میں اچھی صلاحیت سے ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک کے اعلیٰ اور فنی نظام کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ۱۶ سال کا امریکی لڑکا پینٹاگون کی خفیہ معلومات کو دریافت کر کے اس کے کمپیوٹر کو جام کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی ملک کے نظام کو تہ وبالا کیاجاسکے۔ اب دنیا سائبری جنگ (cyber warfare)کی طرف جارہی ہے اور ہم اس میں پیچھے نہیں رہ سکتے۔
آج کی دنیا میںطاقت کے عدم توازن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اس لیے سدِّجارہیت (deterrance) ایک فنّی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی برابری نہیں اتنی قوت ہے کہ آپ مدمقابل کی قوت کو غیرموثر بناسکیں اور اسے جارحیت سے روک سکیں۔ آپ کو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو برابری حاصل ہو لیکن آپ کے پاس اس درجے کی قوت ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دفاع کرسکیں‘ بلکہ دشمن پر کاری ضرب لگاسکیں۔اسے یہ احساس ہو کہ اس عمل اور ردعمل سے اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ قرآن پاک میں مقابلے کی قوت کا جو مقام بیان کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمھارے دشمن اور اللہ کے دشمن اس سے خائف ہوں اور یہ لازماً ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ قابلِ حصول ہے‘ اس کے لیے مساوات ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
یہ کام استقامت اور حکمت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ استقامت نام ہے اپنے مسلک پر ایقان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ جانے کا‘ اپنے مقصد اور اپنی منزل کے صحیح شعور اور ادراک کا۔ یہ نام ہے اللہ کے بھروسے‘ اُمت کی تائید اور تعاون کا۔ استقامت صحیح منصوبہ بندی ‘ وسائل کی ترقی اور وسائل کے مؤثر استعمال اور حکمت اور اس خوف کا صحیح صحیح استعمال کا نام ہے۔ یہ بھی صبرواستقامت ہے کہ نفع عاجلہ سے بچنا اور ایسے اقدام سے بچنا جن سے جذبات کی تسکین تو ہوجائے لیکن پوری امت کو دیرپا نقصانات ہوں۔
تہذیبوں میں مکالمہ‘ تعاون‘ مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ‘ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم‘ جنگ و جدال‘ خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شرف اور ترقی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں‘ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ تباہی کا پیغام ہے لیکن اگر ایک سوپر پاور طاقت کے زعم میں اندھی ہو گئی ہے اور دنیا کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر بہ جبر بالادستی قائم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کر رہی ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘ اور اپنے دفاع سے دست بردار ہوجانے سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری لڑائی نہ امریکا کے عام انسانوں سے ہے‘ نہ یورپ کے نہ روس کے اور نہ ہندستان کے۔ ہماری قوت اور پہچان اسلام ہے‘ اور اسلام ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہمارا اللہ‘ رب العالمین ہے اور ہمارا رسولؐ، رحمۃ للعالمین۔ ہم انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام نہیں بن سکتے۔ اللہ کے تمام نبی انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے آئے اور قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے اور خیر کو قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے آئے‘ فوج دار بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ہمارے لیے امریکا کے عام انسان بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پاکستان کے‘ یا مکے اور مدینے کے۔ لیکن اگر امریکی اور مادی تہذیب کی قیادت مادی قوت اور عسکری قوت کے زعم میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو دھوکا دے سکتی ہے اور ان کو اپنا محکوم بناسکتی ہے تو یہ ممکن نہیں‘ اور نہ یہ جائز ہے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے۔
مسلمان ہی نہیں ‘ساری دنیا کے اچھے انسان اس صورت حال پر کرب محسوس کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں افراد نے عراق میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں‘ امریکا میں بھی کر رہے ہیں۔ آج جو تازہ ترین جائزے آئے ہیں اس میں بش کی مقبولیت ۳۱ فی صد ہے‘ اور ۶۹ فی صد سمجھتے ہیں کہ اس نے انسانیت کو ایک غلط جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ۲۳۰۰امریکی فوجی جو عراق میں مارے گئے ہیں‘ ان کے خاندان احتجاج کررہے ہیں‘ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بش کی قیام گاہ کے باہر احتجاجی ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ امریکا کی ان پالیسیوں اور دست درازیوں کے خلاف مسلم دنیا کی ۹۰سے ۹۸ فی صد آبادی احتجاج کر رہی ہے۔ یورپ میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد اور افریقہ میں ۷۰سے ۹۰ فی صد لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بش کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف نفرت نہ پائی جاتی ہو۔
میں تہذیبوں کے تصادم کو اس فریم ورک میں نہیں لینا چاہتا جس میں ہمارے دشمن اسے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں یہ تصادم تہذیب اور جاہلیت‘ تہذیب اور وحشی پن میں اور امن اور جنگ کے پجاریوں میں ہے۔ ہمیں اخلاقی اقدار‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف‘ انسان کا شرف اور عزت اور تمام انسانوں کے لیے اللہ کی زمین کو رہنے کے لائق بنانا اور رکھنا ہے۔ بلاشبہہ اس جنگ میں ہمارا ان سے مقابلہ ہے جو تباہی مچانے والے‘ امن کو پارہ پارہ کرنے والے اور ساری دنیا کو دہشت زدہ کرنے والے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں حلیفوں کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں تن تنہا نہیں لڑنا چاہیے۔ بلاشبہہ ہم اس کا پہلا نشانہ ہیں لیکن دوسرے بھی نشانے پر ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اچھی سیاست خارجہ کے ذریعے سے حلیف پیدا کریں اور مل کے اس کا مقابلہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ حلیف صرف چین ہی میں نہیں ‘ یورپ اور امریکا میں بھی ملیں گے۔ اور یہی دراصل ایک داعی کا ذہن اور کردار ہونا چاہیے۔ ہم اصحاب دعوت ہیں‘ ہم نفرتوں کے پجاری نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں بتانا چاہیے کہ اصل جنگ تہذیب اور وحشت کے درمیان ہے۔
آئیے! تہذیب کا تحفظ کریں اور وحشت کا مل جل کر مقابلہ کریں۔
ہرحال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجیے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنایئے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے‘ اور دنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان‘ تھوڑے سے اختیارات‘ اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آباد کار بننے کے لیے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں‘ اور عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں‘ اور ایک شان دار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں‘ باغی اور خودمختار بن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اربابٌ من دون اللّٰہ کی؟ اور خدا کی دنیا کو خدائی معیارکے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کش مکش اور مقابلہ کرتے ہیں‘ یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں؟
جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا وہ دراصل اسی امر میں تھا‘ اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لیے بنی نوع انسان کے افراد کا جو انتخاب ہوگا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہوگا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تخت شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر‘ اور کس کی آزمایش ایک سلطنت عظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں‘ اور برے ہوں تو یہ خائب و خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہمیں اپنی نگاہ جمائے رکھنی چاہیے یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ بھی دے کر ہمیں آزمایاگیا ہو اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ ا ور اس کی مرضات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کے لیے رکھی ہے۔
حضرات! یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں ہے بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی سخت کوشش کرنی پڑتی ہے‘ ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر‘ دنیا کو مقصود بناکر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیرمحسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور اس کے اچھے برے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیاں اور شیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے‘ اور جس کے اچھے اور برے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔
آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے‘ بشرطیکہ وہ زندہ ہو مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے‘ عزیز واقارب‘ دوست آشنا اور سوسائٹی کے عام لوگ‘ سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تواس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی‘ اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ غفلت نے دل کے اس گوشے کو سن نہ کر دیا ہو۔ مگر اپنی دنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کے لیے لذت بن جاتا ہے‘ ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو‘ مگر اسے اندازفکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بناکر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو‘ مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں: ایک فکری طریقہ‘ اور دوسرا عملی طریقہ۔
فکری طریقہ: یہ ہے کہ آپ صرف اٰمَنْتُ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں‘ بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالَم دنیا کے اس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہیںہے جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو‘ بلکہ بہت سے مقامات پر یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور بس اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کو بالالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کاخیال مسلّط ہوجائے اور وہ ہروقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالَم ہے جس کی اسے دنیا کی اس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔
اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے جس میں بار بار‘ زندگی بعدالموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐؐ کے صحابہ کرامؓ کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔
پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مدد زیارت قبور سے ملتی ہے جس کی واحد غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لیے وہ مزارات سب سے کم مفید ہیں جنھیں آج بگڑے ہوئے لوگوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے مراکز بنا رکھا ہے۔ ان کے بجاے آپ گورِ غریباں کی زیارت کرکے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یاپھر بادشاہوں کے ان عالی شان مقبروں کو دیکھ کر جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب قاعدے سکھانے والا نہیں ہے۔
عملی طریقہ:اس کے بعدعملی طریقے کو لیجیے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی میں‘ اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں‘ اپنے حلقۂ احباب اورحلقۂ تعارف میں‘ اپنے شہر اور اپنے ملک کے معاملات میں‘ اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں‘ غرض ہر طرف ہرآن قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا۔ ایسے ہرموقعے پر پوری کوشش کیجیے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں‘ تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجیے‘ خواہ کتنے ہی دُور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہیے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی‘ اور کتنی بار آپ آخرت کی طرف کھنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِآخرت نے کتنا نشوونما پایا‘ اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کو چھوڑ کر ایسے صالح لوگوں سے ربط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر کسی صفت کو گھٹاسکے یا بڑھا سکے‘ یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کرسکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔(ہدایات ، اسلامک پبلی کیشنز‘۳-کورٹ سٹریٹ‘ لوئرمال‘ لاہور۔ ص۱۶-۲۱)
پورا قرآن نصیحت ہے‘ پورا قرآن انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے ہے اور پورے قرآن میں وہ اصول‘ مقاصد اور خطوطِ کار پھیلے ہوئے ہیں جن پر اسلامی معاشرے کا نظامِ تعلیم استوار ہونا چاہیے اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اسلامی ریاست میںقرآن کے منشا کے مطابق بچوں‘ بالغوں‘ عورتوں اور قائدین ِعوام کی تعلیم و تربیت کا جو ہمہ گیر نظام عملاً نافذ کیا اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تعمیر کے لیے جن ادارات کے نقوشِ اوّلین قائم کیے‘ اس پورے کام کو___ قرآن کے نکات کی اس جامع عملی توضیح و تفسیر کو___ زیرغور لائے بغیر اسلام کی حکمتِ تعلیم کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس حکمت کے مطابق کوئی تعلیمی منصوبہ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ قرآن‘ اسوۂ رسالت اور قرآن کے مطابق برسرِعمل آنے والے نظام کا تفصیلی و تحقیقی جائزہ لے کر اسلامی حکمتِ تعلیم کو قلم بند کرنے کے لیے تو بڑا وقت درکار ہے۔ فی الوقت پیشِ نظر یہ ہے کہ ہم اسلامی حکمتِ تعلیم کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔
قرآن میں زندگی کے جو حقائق مذکور ہیں وہ ایک طرف تو پورے قرآن میں پھیلے ہوئے ملتے ہیں اور دوسری طرف بعض خاص مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں کسی ایک حقیقت کو اجمال اور جامعیت سے یک جا بیان کردیا جاتاہے۔ حکمتِ تعلیم و تربیت کی کاوش میں پڑ کر جب ہم قرآن کھولتے ہیں تو سورۂ لقمان ہم سے خصوصی توجہ کا خراج وصول کرتی ہے۔ سورئہ لقمان تمام تر نصیحت ہے اور ازاوّل تا آخر حکمتِ تعلیم و تربیت کی آئینہ دار! اسی سورہ کے مطالب پر ہم اپنے تعلیمی تصورات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے فلسفۂ تعلیم کی سورہ ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ گھروں میں ہم اولادوں کو کس نقشے پر اٹھائیں‘ درس گاہوں کا نظام کن بنیادوں پر کھڑا کریں‘ اور کس ذہن و کردار کا انسان اپنے ہاں تعمیر کریں۔
آئیے! سب سے پہلے ہم اس سورہ کے آئینے میں اسلام کے انسانِ مطلوب کی ایک جھلک دیکھیں۔ سورہ کے دیباچے ہی میں انسانیت کے اس بہترین کردار کا ذکر موجود ہے جسے ظہور دینے کے لیے الہامی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں اور ان آیات میں جو ہدایت و رہنمائی ہے اور اس ہدایت و رہنمائی میں جو رحمت مضمر ہے وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو احسان کیش ہوں۔ قرآن کا نظامِ فکروعمل صرف محسنین کے ذریعے چل سکتا ہے اور یہ نظام اسی طرز کے قائدین و کارکن مانگتا ہے (لقمان ۳۱: ۱-۳)۔ ان کے نقشۂ زندگی کے چند اہم آثار بھی بیان کر دیے کہ:
وہ نماز قائم کرنے والے ہوں‘ وہ زکوٰۃ دینے والے ہوں‘ وہ آخرت کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔(۳۱:۴)
بیان کی نوعیت احاطہ و احصار کی نہیں بلکہ مدّعا یہ ہے کہ ان ناگزیر اوصاف کے بغیر احسان کیش کردار پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے رب کے دیے ہوئے نظامِ ہدایت پر چل سکتے ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (۳۱:۵)
واضح رہے کہ محسن یا احسان کیش کا مفہوم اسلامی اصطلاح میں یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر خیال‘ عمل اور سرگرمی میں حُسن و خوبی پیدا کرنے کا اہتمام کرے اور اپنی ساری کی ساری داستان حُسنِ اعتقاد اور حُسنِ کردار سے آراستہ کرے۔ پھر بات انفرادی اور نجی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہمارا پورے کا پورا تمدنی نظام‘ اس کے سارے شعبے اور ادارے اور ہماری جملہ اجتماعی سرگرمیاں حسین ترین پیرایہ رکھتی ہیں۔ یعنی اسلام حُسنِ فکر اور حُسنِ عمل کا ایک مکمل نظام مانگتا ہے۔ وہی چیز جسے دوسری جگہ حیاتِ طیبہ کہا گیاہے۔ ایسے انسانی کردار اور ایسے نظامِ تمدّن کے ذریعے ہی انسان کو فلاح حاصل ہوتی ہے۔ زندگی اپنے تقاضوں کوصحیح طور سے پورا کرتی ہے اور انسانیت اپنے فطری مقاصد تک پہنچتی ہے۔ فلاح! اس دنیا میں بھی اور فلاح آخرت میں بھی۔ اس دنیا میں ’حیاتِ طیبہ‘ کا حصول بجاے خود فلاح کی آخری شکل ہے اور یہی حیاتِ طیبہ اُخروی فلاح کی ضامن ہوتی ہے۔ گویا ہمارے نظامِ تعلیم کا منتہا ایسے احسان کیش کرداروں کی تشکیل ہے جو نماز‘ زکوٰۃ اور فکرِ آخرت کے اوصاف کو بنیاد بناکر حیاتِ طیبہ پیدا کریں اور اپنی ذات سے لے کر بڑے بڑے تمدّنی ادارات تک ساری زندگی کو سنوار دیں۔
قرآن کا اسلوب بالعمُوم اضداد کو متقابلا ًدکھانے کا ہے۔ اب جہاں انسانِ مطلوب کا نقشہ بیان ہوا‘ وہاں نامطلوب کردار کی بھی ایک جھلک دکھانی لازم تھی۔ مطلوب کردار تو وہ ہے جو مسلکِ احسان کا متلاشی ہے‘ جو حیاتِ طیبہ کے حصول کے لیے مضطرب رہتا ہے‘ جو ہدایت ِرب کو جاننا چاہتا ہے‘ جو اس کی آیات کی روشنی کا پیاسا ہے جو فلاح کی جستجو میں ہے‘اور جس کے سامنے فوری مزے اور چسکے ہی نہیں ہیں بلکہ آخرت کے نتائج بھی ہیں۔
لیکن مقابل کا کردار وہ ہے جو ’لھو الحدیث‘ کا شائق ہے۔ بے مقصد اور لاحاصل قسم کے قصّے کہانیوں سے اسے رغبت ہوتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں اور اس کے مسائل سے بھاگ کر یاوہ گوئی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کہ خود پناہ ڈھونڈتا ہو بلکہ وہ تفریحی ادب کے افسوں کو کام میں لاکر دوسروں کو بھی خدا کی راہ سے ہٹا لے جانا چاہتا ہے۔ درآنحالیکہ اس کے پلّے کچھ بھی علمِ حقیقت نہیں ہوتا۔ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ خدا کی راہ اور خدا کی ہدایت کا مذاق اڑاتا ہے‘ وہ عظیم اور اٹل حقائق کو تمسخر میں اڑا دینا چاہتا ہے (۳۱: ۶)۔ اس کے سامنے جب اللہ کی کتابِ حکیم کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اپنے نشۂ پندار میں بہک کر اُن سے اس طرح روگردانی کرتا ہے گویا کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں‘ گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ (۳۱: ۷)
ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کی حکمت متعین کرتے ہوئے خوب صراحت سے طے کر لینا چاہیے کہ ہمیں اپنے ہاں اس طرز کے کردار کو پروان نہیں چڑھنے دینا ہے۔ خصوصاً علوم میں‘ ادب میں اور فنونِ لطیفہ میں ہمیں ان رجحانات کو نشوونما نہیں دینی جن کا ماحصل لھو الحدیث ہو اور جن کی وجہ سے لھوالحدیث کا ذوق بڑھے۔وہ تمام فضولیات جو فراریت پسندوں کی پناہ گاہ ہوں‘ جو راہِ حق سے ہٹانے والی ہوں‘ جو آیاتِ الٰہی کے لیے کانوں کو بہرہ کردیں‘ جو خدا کے سامنے عبدیت کے بجاے اِستکبار کے مقام پر کھڑا کریں اور جن کی وجہ سے دلوں میں خدائی ہدایت کی تضحیک کا میلان پیدا ہو۔
اور جس نے اللہ کی بارگاہ میں اپنا سرِتسلیم خم کردیا اور وہ احسان کیش بن گیا تو بس اُس نے ایک مضبوط رشتے کو تھام لیا… الخ
یہاں پھر ’محسن‘ کی شان سامنے آتی ہے۔ کوئی شخص احسان کیش نہیں ہوسکتا اور زندگی کو حُسن و خوبی سے مالا مال نہیں کرسکتا جو اللہ کے وجود کی عظیم صداقت کو نہ تسلیم کرے اور اس کا حاکمانہ مقام پہچان کر اپنی باگ ڈور اس کے حوالے نہ کردے۔ خدا سے یہ تعلق وہ مضبوط ترین رشتہ ہے جسے تھام لینے کے بعد زندگی تباہ کن ٹھوکروں سے بچ جاتی ہے‘ خیالات کی آوارگی و پریشانی‘ جذبات کی بے راہ روی اور اعمال کی بے ربطی کا پوری طرح ازالہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت کے اس مرکزی نکتے کے گرد فرد کی ساری قوتیں اور تمدّن کی جملہ سرگرمیاں منظم و مرتب ہوجاتی ہیں اور نظم و ترتیب کے فقدان میں کوئی حُسن نہیں پیدا ہوسکتا۔
ایک صحیح نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ انسانیت کو اس عُروۃ الوثقیٰٰ تک لائے اور خدا پرستی کے رشتۂ محکم کو تھامنے کی صلاحیت دے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کی یہ اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ بندوں کو خدا کے سامنے سرِتسلیم پوری طرح خم کر دینا اور خم کیے رکھنا سکھائے۔ یہ حالت اس اِستکبار کی عین ضد ہے جو آیت ۶ میں بیان ہوا ہے۔
سورہ کی تمہید کے ساتھ مرکزی روحِ کلام کی آئینہ دار آیت کو ملا کر آپ دیکھ چکے۔ آیئے! اب اس مربوط ٹکڑے کو لیں جس میں چند اہم نکات تسلسل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ٹکڑے میں حضرت لقمان اپنے صاحبزادے کو ___بلکہ یوں کہیے کہ نئی نسل کو ___اساسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہم ایک ایک نکتے کو الگ الگ لیتے ہیں۔
حضرت لقمان کو جو حکمت اللہ تعالیٰ نے دی تھی‘اور جس کے تحت وہ اپنے فرزند کو تلقین کرتے ہیں وہ ہے اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ (۳۱: ۱۲)‘یعنی خدا کا حق پہچانو‘ احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔ اسلام نے خدا کا جو تصور دلایا ہے وہ بنیادی طور سے ایک رحیم‘ شفیق اور ودود ہستی کا تصور ہے (رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ)۔ اس کا قہر و غضب اس کی صفتِ عدل کی وجہ سے ہے اور اس کی صفتِ عدل خود صفتِ رحمت ہی کی مظہرہے۔ چنانچہ قرآن کا ایک بڑا حصہ یہی احساس دلانے کے لیے وقف ہے کہ انسان پر خدا کے احسانات و انعامات کس درجہ وسیع ہیں۔ احسان اور رحمت کا حق یہ ہے کہ شکر کا رویہ پیدا ہو۔ ہمارے دین میں تعلق باللہ کی اساس فی الحقیقت جذبۂ شکر پر ہے۔ تقویٰ اور خشیت شکر کے ساتھ ایک لازمی پہلو کی حیثیت سے ہے۔ نعمت اور رحمت کا شعور جہاں شکر کا جذبہ اُبھارتا ہے وہاں اس کے چھن جانے کا اندیشہ بیم و خشیت بھی پیدا کرتا ہے۔
بندوں کے شکر کی خدا کو کوئی احتیاج نہیں کہ اس کے بغیر اس کے کام اٹکے جاتے ہوں۔ خدا کے سامنے شکر کی روش کا اختیار کرنا خود ہمارے اپنے احسان کیش بننے اور اپنی زندگی سنوارنے کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص خدا کے اَن گنت احسانات سے استفادہ کرکے اس کی عنایات کا احساس نہیں کرتا۔ ایسا احسان فراموش زندگی کی صحیح تعمیر کے لیے پھر کوئی بنیاد بھی نہیں پاسکتا۔ اس لیے حق تعالیٰ نے فرما دیا کہ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرْ لِنَفْسِہٖ (۳۱: ۱۲) ‘جو کوئی خدا کا حق پہچانے گا اس کا یہ رویّۂ احسان شناسی خود اسی کی ذات کے لیے نفع بخش ہے۔ یہ بہرحال محسن بننے کے لیے نقطۂ آغاز جذبۂ شکرہے۔
شکر کی روش کی ضد کفر ہے۔ واضح کردیا گیا کہ جو کوئی شکر کی راہ کو چھوڑ کر کفر کی روش اختیار کرے تواس کا وبال بھی خود اسی کو بھگتنا ہے‘ اللہ تو غنی و حمید ہے اور اسے نہ کسی کے شکر کی احتیاج ہے‘ نہ کسی کے کفر سے کوئی اندیشہ۔
معلوم ہوا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ ایک ایک فرد کو یہ پیغام دے کہ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ، خدا کا حق پہچانو اور احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔
اس نے زمین و آسمان کو ستونوں کے بغیر کھڑا کیا جیسے کہ تم دیکھتے ہواور زمین پر ایسے بوجھ جما دیے کہ تمھیں لیے ہوئے (اپنی گردش میں) کسی طرف ڈھلک نہ جائے اور اس میں سب طرح کے جانور پھیلا دیے اور آسمان سے بارش برسانے کا نظم مقرر کیا اور پھر اس کے ذریعے سے نباتات کے نہایت ہی خوب خوب جوڑے ہر طرح کے اگائے۔ (۳۱: ۱۰)
کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ سب کچھ جو کچھ زمین وآسمان میں ہے‘ اسے اللہ نے نفع رسانی میں لگا رکھا ہے اور تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بوچھاڑ کردی ہے۔ (۳۱: ۲۰)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے پرو کر نکالتا ہے… الخ (۳۱:۲۹)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ کشتی چلتی ہے (۳۱: ۳۱)…اور جب اس کے مسافروں کے سروں پر کوئی لہر لکۂ ابر کی طرح چھا جاتی ہے تو (مصیبت میں گھِرکر) وہ اللہ کو پکارتے ہیں ___اس کے لیے جذبۂ عبودیت کو خالص کرکے!… (۳۱: ۳۲)
یعنی چاروں طرف سے خدا کی نعمتیں اُمڈی پڑ رہی ہیں۔ ایک وسیع خوان بچھ رہا ہے۔ قدرت کے اس ماحول میں ایک حقیقت پسند اور حق شناس انسان کے اندر لازماً جذبۂ شکر اُبھرنا چاہیے۔ نظامِ تعلیم کا یہ فرض ہے کہ وہ اس ماحول سے اس طرح طلبہ کو روشناس کرائے کہ انھیں خدا کے احسانات و انعامات کا شعور حاصل ہو اور عبدیت کے احساس کے ساتھ ان میں شکر کا جذبہ اُبھرے۔ ہمیں سائنس‘ جغرافیہ‘ تاریخ‘ ہیئت اور دوسرے تمام مادی و طبعی علوم کی تعلیم اس طرح دینی چاہیے کہ خدا پرستانہ شعور اس میں سمو دیا گیا ہو۔ ہر تجربہ‘ مشاہدہ‘ انکشاف‘ ایجاد و اختراع اور عملِ تسخیر ہمارے اندر خدا کے شکر کی اُکساہٹ پیدا کرے۔ حضوؐر کا یہ معمول تھا کہ سواری پر بیٹھتے تو جذبۂ شکر کے ساتھ خدا کی حمد کرتے اور اپنے عجز کا اقرار! (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا…) ٹھیک اسی طرح ہمارے سائنس دان جب کسی رازِ فطرت کو سمجھ لیں‘ ہمارے موجد جب کوئی چیز ایجاد کریں‘ ہمارے کاریگر جب کسی مشین سے کام لیں اور ہمارے سپاہی جب کسی اسلحے کو ہاتھ میں لیں تو ان کی رُوحیں سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْن پکار اُٹھیں۔ اسی خدا پرستانہ جذبۂ شکر کے فقدان نے مغربی تمدّن کو مادہ پرستی میں اتنا بہکا دیا ہے کہ قدرت کے عطیات رحمت ہونے کے بجاے عذاب بن گئے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو اس اندھی مادہ پرستی سے انسانیت کو بچانا ہے۔
لوگوں نے اس طرح کی آیات سے عموماً یہ بات ثابت کرنے کی کوشش توکی ہے کہ قرآن سائنس اور دوسرے علوم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارے جدید طبقے نے یہ کاوش نہیں کی کہ وہ کس اسپرٹ کے ساتھ اور کس نقطۂ نظر کے ساتھ علوم کی تحصیل و اشاعت چاہتا ہے۔ قرآن کا اوّلین منشا یہ ہے کہ خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت‘ اس کے احسانات و عنایات کا شعور اور جذبۂ شکروسپاس کا سرمایہ‘ مطالعۂ انفس و آفاق سے حاصل کیا جائے اور کسی بھی علم کے دائرے میں کوئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایمان باللہ کو مشعلِ راہ کی حیثیت دینی چاہیے۔ ورنہ تمام علوم غلط رُخ پر ڈھل جائیں گے اور ان سے جو عمل پیدا ہوگا وہ بھی فاسد ہوگا۔
اُوپر جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کو اور ان کی بے شمار ہم مقصد آیات کوآپ دیکھیے‘ ان سب کا منشا یہ شعور دلانا ہے کہ یہ کائنات اگر کوئی نظم رکھتی ہے‘ اس کے عناصر اگر تمھارے لیے سازگاری رکھتے ہیں‘ اس کے قوانین اگر تمھارے لیے تسخیر کی راہیں کھولتے ہیں تو یہ نظامِ فطرت یوں ہی ازخود ایسے نہیں بن گیا۔ کسی بنانے والے نے حکمت کے ساتھ اسے ایسا بنایا ہے اور تمھیں پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمارے علوم کو بھی اسی شعور کی راہ پر جانا چاہیے اور ہمارے نظامِ تعلیم کو بھی یہی مقصد سامنے رکھنا چاہیے۔
اس نکتۂ معنی کو ہم آیت ۳۲ میں بہت ہی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں انسان کو اس عالمِ نفسیات سے ایک کیفیت پیش کر کے عبرت دلائی گئی ہے۔ انسان جہاں اس کائنات کی وسیع نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے‘ وہاں اس کی مہیب قوتوں کے سامنے وہ اپنے آپ کو انتہائی بے بس بھی پاتا ہے۔ یہ بے بسی اسے ایک ایسے روحانی سہارے کا محتاج بناتی ہے جو تدابیر کی بازی ہارنے کے بعد بھی قائم رہے۔ سمندر کی موجیں بھی ایک ایسی قوت ہیں کہ جب کبھی انسان ان کی زد پر آتا ہے تو سارے سہارے کھو بیٹھنے کے بعد خدا کی طرف بڑے سچے والہانہ جذبے سے رجوع کرتا ہے۔ آج بھی جب جہاز تباہی کے طوفان میں گھِرجاتے ہیں تو جدید الحاد پسند انسان بھی خدا کو یاد کرتا ہے اور بارہا خدا اپنے بے بس بندوں کی دکھ بھری فریادیں سن کر ان کو بچا نکالتا ہے۔ لیکن بچ نکلنے کے بعد کم ہی ہیں جو راہِ حق پر ’’مقتصد‘‘بن کے چلتے رہیں‘ بقیہ پھر جُحود میں پڑجاتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ علم النفس کا ایک باب ہے مگر اپنی ایک خاص غایت کے ساتھ۔ اسی غایت کو سامنے رکھ کر نفسیات کا علم مدوّن کرنے کی‘ نفسیات کا تعلیمی نقشہ بنانے کی اور نفسیات کا نصاب ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس غایت عبرت اندوزی اور خداشناسی کو مقصود بنائے بغیر نفسیات کا علم مدوّن کرنا یا اس کا سلسلۂ تعلیم و تعلّم جاری رکھنا اسلامی نقطۂ نظر سے قطعاً بے سود بلکہ اُلٹا مضر ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم کی اوّلین غایت خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت دینا ہے۔ وہ خدا جس کا مقام یہ ہے کہ:
___اللہ ہی ہے جو قیامت (کی گھڑی) کا علم رکھتا ہے___وہی ہے جو مینہ برساتا ہے___ وہی ہے جو یہ جانتا ہے کہ رحموں کے پردے میں کیا کچھ ہے (۳۱:۳۴)۔ اور اس کے بالمقابل انسان___عقل کے اس پتلے ___ کاحال یہ ہے کہ:
___کسی جان کو نہیں معلوم کہ کل وہ کیا کرے گی___کسی جان کو نہیں معلوم کہ وہ زمین کے کس حصے میں دم توڑے گی۔ (۳۱: ۳۴)
کائنات اور زندگی کے سارے احوال کا مکمل علم صرف اللہ کو ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔(۳۱: ۳۴)
یہ ہے وہ مزاج جس سے ہمارے نظامِ تعلیم کو آراستہ ہونا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر سے معلومات مرتب ہونی چاہییں اور پھر بعد کی نسلوں کی طرف منتقل ہونی چاہییں۔
اسی سورت میں آتا ہے کہ اگر زمین کے سارے کے سارے درختوں سے بے شمار قلم بنا لیے جائیں اور ساتوں سمندر روشنائی میں بدل لیے جائیں اور لکھنے کے اس سامان کے ساتھ ’کلمات اللہ‘ یعنی خدا کی نعمتوں‘ اس کی قدرتوں‘ اس کی آیتوں‘ قوانین و نوامیس‘ اس کے احکام اور فیصلوں‘ اس کی مخلوقات کے احوال کو قلم بند کیا جانے لگے تو روشنائی کے سمندر ختم ہوجائیں گے اور قلم گھِس گھِس کر نابود ہوجائیں گے مگر خدا کے کلمات احاطۂ تحریر میں نہ آسکیں گے۔ ذکر تو اس کے مقامِ عظمت‘ اس کی قدرت کی لامحدود وسعتوں اور اس کی بے پایاں تخلیقات کا ہے۔ لیکن ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ اصل کاوش کا میدان انسان کے لیے یہی ہے کہ وہ کلماتِ الٰہی سے اپنا دامنِ علم و ایمان بھرتا رہے۔ افراد اور قومیں اور نسلیں اپنی محنتیں اس مقصد پر کھپاتی چلی جائیں۔ ع
کیا اور جہاں میں رکھا ہے ‘ اُس جانِ جہاں کی بات کریں۔
اسلامی نظامِ تعلیم کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زیراثر ذہنوں میں تحریک پیدا کرے کہ وہ مطالعۂ آفاق و انفس کریں تو اس مقصد سے کریں کہ کلماتِ الٰہی کی جستجو کرنی ہے‘ ان کو سمجھنا ہے اور ان سے روشنی اور قوت حاصل کرنی ہے۔
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ شُکر دین کا اگر ایک پہلو ہے تو دوسرا لازمی پہلو خشیت ہے۔ احسان کی قدر ازخود احسان کے چھن جانے کا اندیشہ پیدا کرتی ہے۔ سو جہاں خدا کی رحمت کے لیے تمناے بے تاب موجود رہنی چاہیے وہاں رحمت سے محرومی کی فکر بھی کارفرما ہونی چاہیے۔ آدمی رحمتِ الٰہی کے نشے میں پڑکر بعض اوقات اپنی ذمہ داریاں بھول جاتا ہے اور جب یکایک قہر کی بدلیاں چمکتی دیکھتا ہے تو حواس کھو بیٹھتا ہے۔ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِـبِـہٖ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوْساً۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۳)
معاملات کا آخری فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں ہوگا۔ (۳۱: ۲۲)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اندیشہ رکھو اس دن کا جس دن نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے لیے کچھ مفید ہوسکے گا۔ یقینا خدا کا وعدہ سچا ہے‘ سو تم کو دنیوی زندگی دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اور تم کوا للہ کے بارے میں وہ دغاباز (شیطان) کسی فریب میں مبتلا نہ کر دے۔ (۳۱: ۳۳)
تم سب کو بنانا اور تم سب کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بس ویسا ہی ہے جیسے ایک فرد کا! (۳۱: ۲۸)
اور حضرت لقمان بھی اپنے فرزند کو خدا کی مضبوط گرفت سے یوں آگاہ کرتے ہیں کہ: اے میرے بیٹے! اگر رائی برابر بھی کوئی چیز کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (کہیں) ہو تو اللہ (جب چاہے) اسے لاحاضر کرے۔ (۳۱: ۱۶)
اسلامی زندگی خدا کے محاسبے اور خدا کی گرفت کا خوف رکھے بغیر نہیں بنتی۔ اسلام کا انسانِ مطلوب وہی ہے جو محاسبۂ آخرت کو ذہن میں رکھ کر سوچتا‘ زبان کھولتا اور عملی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ وہ ادنیٰ ادنیٰ وقتی مفادات کے بجاے‘ خدا کی رضا جیسا اُونچا منتہا سامنے رکھتا ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم پر بھی واجب آتا ہے کہ وہ اس خشیت سے دلوں کو آراستہ کرے‘ محاسبۂ آخرت کا احساس تازہ کرے اور رضاے الٰہی پر نگاہوں کو مرتکز کرا دے۔ حکمت اور نیکی کے لیے یہ خشیت ایک لازمی بنیاد ہے۔
خدا کے احسانات کے جواب میں شکر اور احسان شناسی کا رویّہ صرف توحید کو تسلیم کرنے ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔ ورنہ اگر خدا کے عطیات سے استفادہ کرکے احساسِ شکر پورے کا پورا اس کے حضور پیش کرنے کے بجاے کچھ دوسری مفروضہ ہستیوں پر تقسیم کردیا جائے تو جس کا حق واجب تھا اس کا حق تو ادا نہ ہوا اور جن کا حق کچھ بھی نہ تھا ان تک بے جا طور پر جا پہنچا۔حضرت لقمان اپنے فرزند کو تعلیم دیتے ہیں کہ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (۳۱: ۱۳) ۔ظلم کہتے ہیں حق ماری کو۔ یہ خدا کی حق ماری ہے اور اس لیے بہت بڑی حق ماری ہے کہ اس کا کھاکر گُن دوسروں کے گائے جائیں۔
پس اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسلوں کو توحید پر جما دے اور ان کو اس سے روکے کہ وہ ذات میں‘ صفات میں‘ حقوق میں یا حاکمانہ اقتدار میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں۔
خدا کا کُلی انکار بہ حیثیت مجموعی انسانیت نے شاید کبھی بھی نہیں کیا‘ نہ آج کا انسان تصورِ خدا سے ذہن کو خالی کرسکا ہے۔ مصیبت یہی رہی ہے کہ کسی نہ کسی نوع کا شرک اولادِ آدم کو لے ڈوبا ہے۔ کسی نے ذات میں شریک کیا‘ کسی نے صفات میں‘ کسی نے عبادات میں سے دوسروں کو حصہ دیا‘ کسی نے استعانت دوسری بارگاہوں سے کی اور کسی نے طاعت کے لیے دوسرے اقتدار سامنے رکھ لیے۔ اسلام نے عبادت‘ استعانت اور طاعت کے تینوں پہلوئوں سے انسان کو توحید پر جمایا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم بھی وہی ہوسکتا ہے جو انسانیت کو یہی درسِ توحید دے۔
خدا کے احسانات کے شعور سے جس دل میں شکروسپاس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ انسانوں کے احسانات کا بھی بہترین قدردان ثابت ہوتا ہے اور انسانوں میں سب سے بڑھ کر احسان والدین کا ہے اور ان میں سے بھی والدہ کا احسان بہت بڑا ہے۔ چنانچہ حضرت لقمان اپنے بچے کو دوسری نصیحت والدین سے حسنِ سلوک کی کرتے ہیں۔ وہ خدا کا مطالبہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
میرا شکر ادا کر اور (میرے بعد) اپنے والدین کا بھی! (۳۱: ۱۴)
سماجی رابطوں میں دین حق نے والدین کو اوّلین مقام دیا ہے۔ خدا کے عظیم حق کے بعد جو شخص والدین کے حق کو بھی پہچان لیتا ہے‘ پھر وہ دوسرے تمام رابطوں کے حقوق کا احساس کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے کردار میں یہ جذبہ احسان شناسی اس اصل الاصول کی حیثیت سے پیوست ہوجاتا ہے کہ مجھے ہر بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا ہے۔ مجھے جس سے فائدہ اٹھانا ہے اس کو فائدہ پہنچانا بھی ہے جس سے میں کچھ لیتا ہوں اسے دینا بھی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ معاشرہ اور اس کے ادارات‘ حکومت‘ قوم اور انسانیت سبھی سے آدمی کو بے شمار فائدے پہنچتے ہیں اور اگر وہ احسان شناسی ہو تو وہ ہر استفادے کے جواب میں کوئی نہ کوئی خدمت پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ والدین کا جس نے حق پہچانا‘ پھر وہ خاندان اور ذوی القربیٰ اور پڑوسیوں اور افسروں اور ماتحتوں‘ بلکہ جانوروں تک کے حقوق کا احساس کرنے لگتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام سماجی روابط کی درستی کا دارومدار والدین کا حق پہچاننے پر ہے۔
لیکن والدین کی طاعت و خدمت خدا کی عبادت و اطاعت سے نچلے مرتبے پر ہے۔ مقدّم خدا کا حق ہے۔ خدا کا حق مار کر اگر والدین کا حق ادا کیا جائے تو شرک کی راہ کھل گئی۔ اس وجہ سے یہ وضاحت بھی کی گئی کہ وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا (۳۱: ۱۵)‘ یعنی اگر والدین تم کو خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک بنانے کے لیے مجبور کریں جو تمھارے علم و ایمان میں نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کی غلط بات کی اطاعت نہ کرو۔
یعنی والدین کی اطاعت اصولاً انسانی تعلقات کے تمدنی دائرے میں ہر دوسری اطاعت خدا کی اطاعت کی حدوں کے اندر کی جاسکتی ہے۔ ان حدوں کو توڑ کر نہیں۔ جو اطاعت سب سے بڑی اطاعت کی حدوں کو پھاندنا چاہے وہ ترک کر دی جائے گی۔ والدین کے کہنے سے شرک کی روش اختیار نہیں کی جا سکتی‘ ان کے ایسے حکم سے انکار لازم ہے۔ البتہ اس حالت میں بھی ان کا پاسِ ادب رہے گا۔ چاہا گیا ہے کہ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ، یعنی اس اصولی اختلاف کے باوجود ان سے دنیوی تعلقات خوش اسلوبی سے نبھائو۔ یہاں سے ضمناً یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ سماجی رابطے___ حکمران سے‘ والدین اور اقربا سے‘ کاروباری شرکا سے‘ دفتری افسروں سے___ ایمان و مسلک کے شدید اورواضح اختلافات کے باوجود خوش اسلوبی سے نبھائے جاسکتے ہیں۔ اور ان رابطوں کا قائم رہنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ دعوتِ حق پہنچانے کے دروازے بند نہ ہوجائیں۔
ساتھ ہی پھر تاکید کہ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ (۳۱: ۱۵)۔ زندگی میں پیروی کرو تو صرف ایسے ہی رہنمائوں کی جو خداوندتعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والے ہوں۔ زندگی کے اصول و اقدار اُنھی سے لو۔ یہاں اشارہ یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرے میں سیاسی اور ذہنی قیادت کے مناصب ایسے افراد کوسونپے جائیں جن کی زندگیاں رجوع الی اللہ کی آئینہ دار ہوں۔ گویا معیارِ انتخاب بھی معین ہوگیا۔ علاوہ ازیں یہ اشارہ بھی یہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ ہمیں درس گاہوں کے معلّمین بھی ایسے ہی لینے چاہییں جو رجوع الی اللہ کی صفت سے متصف ہوں‘ کیوں کہ طلبہ ان کے اتباع میں چلیں گے۔
اِن نکات پر ہماری سِوکس (Civics) کی ترتیب ہونی چاہیے۔
حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ اے بیٹے! نماز قائم کرو‘ معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور (اس جدوجہد میں) جو کچھ بھی پیش آئے اسے حوصلہ مندی سے برداشت کرو! (۳۱:۱۷)
آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ’ہمت کے کام ہیں‘۔ درحقیقت دین کا بہت ہی بڑا تقاضا یہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ اسلام اپنے انسانِ مطلوب کو اس مقصد کے لیے اٹھانا چاہتا ہے کہ وہ تمدن کے پورے دائرے میں منکر کا سدّباب کرے اور معروف کا سکّہ چلانے کی جدوجہد کرے۔ اسے نیکی کا نظام قائم کرنا ہے اور بدی کی جڑ کاٹنی ہے۔ وہ حق کا سپاہی ہے اور باطل کے خلاف جہاد میں اسے ساری قوتیں کھپانی ہیں۔ خیالات‘ نظریات‘ اخلاق‘ رسوم‘ قانون‘ معاشیات‘ کاروبار‘ سیاست‘ بین الاقوامی مسائل کے بے شمار دوائر ہیں جہاں جہاں بھی اسے قانونِ الٰہی اور فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم کے خلاف کوئی منکر دکھائی دے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے ختم کرنے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف قانونِ الٰہی‘ بے آمیز فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم جن امور کا تقاضا کرتی ہے ان کو نافذ کرنے کے لیے زور لگائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ غیراسلامی نظام اور ماحول میں تبدیلی لائے‘ انقلاب پیدا کرے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی تبدیلی تکلیف اٹھائے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر اور مزاحمتوں کا سامنا کیے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ بدی کا زور توڑنے اور نیکی کا راج قائم کرنے کے لیے جو جہاد لازم آتاہے وہ کوئی کھیل تو ہے نہیں۔ اس لیے انتباہ دیا گیا ہے کہ اس مہم میں جو جو کچھ مزاحمتیں اور مصیبتیں پیش آئیں ان کو حوصلے سے سہارو۔
ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر کہہ کر توجہ دلائی کہ یہ ہے بلند ہمت لوگوں کے کرنے کا کام! یہ ہے عظیم الشان معرکہ جس کے لیے بازیاں لگائی جانی چاہییں۔ یہ ہے نصب العین جس کے لیے جانیں لڑانا مردوں کے شایانِ شان ہوسکتا ہے۔ نوکری اور کاروبار اور عہدے اور ادنیٰ ادنیٰ خواہشات پر مرتے رہنا اہلِ دل کا کام نہیں۔
نماز قائم کرنے کی تلقین یہاں یوں مناسب تھی کہ خدا سے شکر کا تعلق قائم رکھنا تو اس کے بغیر ممکن ہے ہی نہیں‘ لیکن آگے جو مردافگن مہم سونپی جارہی ہے اس کا ایک ایک قدم اٹھانے کے لیے نماز سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ نماز ہی خدا سے تعلق کا ذریعہ ہے اور نماز ہی انسانی دائرے میں اداے فرض کے لیے ضروری ہے۔ نماز خدا کے حضور شکر کا اظہار ہے اور بندوں کے مقابلے میں صبرآموز اور ہمت افزا۔
اب یہ بات خودہی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تعلیم کو کیا نصب العین سامنے رکھنا چاہیے اور کس مقصد کے لیے نئی نسلوں کو تیار کرنا چاہیے۔ صحیح تعلیم وہ ہے جو ایک طرف بجاے خود امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرے‘ معروف ومنکر کا فہم دلائے اور معروف کو قائم کرنے اور منکر سے روکنے کے لیے جہاد کا انقلابی جذبہ ودیعت کرے۔ پھر ہماری تعلیم گاہوں میں تربیت کا ایسا ماحول ہونا چاہیے جو طلبہ کو اقامتِ صلوٰۃ پر آمادہ کرسکے۔ وہ ان کو صبروہمت اور حوصلہ و عزم سے آراستہ کرکے نکالے۔
لوگوں کے مقابلے پر اپنے گال نہ پھلائو اور زمین میں گھمنڈ کی چال نہ چلو۔ خدا کسی شیخی باز‘ غلط کار کو پسند نہیں کرتا۔ (۳۱: ۱۸)
خداپرستی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دوسرے انسانوں کے لیے مساویانہ مرتبے کا احساس کرے کیوں کہ سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور ایک ہی اللہ کے بندے ہیں۔ دوسروں کے مقابلے میں فخروغرور‘ اکڑفوں اور ان کی تحقیر کے لیے اسلامی زندگی میں گنجایش نہیں۔ جس شخص میں رتی بھر کبر بھی ہوگا وہ اُخروی کامرانی حاصل نہ کرسکے گا اور نہ وہ اس ارضی زندگی میں احسان کیش بن کر حیاتِ طیبہ سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ غرورِ مال‘ غرورِ حُسن‘ غرورِ صحت‘ غرورِ نسل‘ غرورِ وطن‘ غرورِ آبا‘ غرورِ اولاد‘ غرورِ علم اور غرورِ اقتدار کے تمام دروازے یہاں بند ہیں۔ نہ انفرادی کبر کی رخصت ہے‘ نہ طبقاتی اور نہ جماعتی فخر کی۔
انسانی معاشرے کے فساد کی شاید سب سے وسیع الاثر بنیاد یہی ہے کہ کوئی فرد‘ کوئی خاندان‘ کوئی نسل‘ کوئی طبقہ یا کوئی جتھا اپنے متعلق یہ سوچتا ہے کہ میں بڑا ہوں اور دوسرے چھوٹے ہیں۔ میرے حقوق زیادہ ہیں‘ میرے مفادات اہم تر ہیں اور مجھے ترجیح حاصل ہے۔ پھر جس کا دائو چل جاتا ہے وہ اقتدار‘ قانون‘ روایات‘ معاشی تسلط‘ ذہنی تفوق‘ طبقاتی بالادستی کے زور سے زندگی کے توازن کو غارت کر دیتا ہے۔ جواباً دوسروں میں بھی ایسا ہی مقام حاصل کرنے کے لیے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور پھر رسّہ کشی ہونے لگتی ہے۔
کبر ہی کے تحت ماضی کے کچھ سرپھرے انسانوں نے خدائی کے دعوے کیے۔ کبر ہی کے تحت چنگیزوں اور ہلاکوئوں نے مدنیت کو پیروں تلے روندا‘ کبر ہی کے تحت ہٹلر اور مسولینی کی آمریت اُبھری اور کبر ہی کے تحت آدمی آدمیوں کے خلاف گھنائونے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔
اسلام انسانوں کے لیے مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور ہماری درس گاہوں کو بھی طلبہ کے اندر یہی روح پھونکنی چاہیے۔ نظامِ تعلیم نئی نسلوں کو تلقین کرے کہ وہ انسانیت کے سامنے گال پھلائے اور تیوری چڑھائے ہوئے نہ آئیں اور زمین پر متکبرانہ روش کے ساتھ زندگی نہ گزاریں۔ ان کو مختالِ فخور نہیں بننا چاہیے۔
اس سورئہ تعلیمات میں ایک بیش قیمت نکتہ یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ آدمی کو جادئہ ہستی پر ہرقدم علم___ یعنی علمِ حق___ کی روشنی میں بڑھانا چاہیے۔ جہالت کی اندھیاریوں میں کوئی قدم نہ رکھنا چاہیے۔
آیت ۶ میں اس فاسد کردار کو بیان کیا جو لھو الحدیث کے ذریعے مسافرانِ حیات کو اللہ کے راستے سے بھٹکاتا ہے اور یہ کارنامہ وہ بغیر علم سرانجام دیتا ہے۔
آیت ۱۵ میں حضرت لقمان کی نصیحت میں شرک سے منع کرتے ہوئے مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کے الفاظ آئے ہیں یعنی جب تک تمھیں واضح طور پر علم نہ ہو کہ خدا کا کوئی ساجھی ہے___ تم نے دیکھا ہو یا دلیلِ قطعی سے جانا ہو‘ یا الہامی رہنمائی سے معلوم کیا ہو___ تو تمھارایہ کام نہیں کہ محض والدین کے کہنے یا کسی اور کے زور ڈالنے سے ایک نامعلوم بات کو واقعہ تسلیم کرلو۔
آیت ۲۰ میں ایک فاسد کردار کا ذکر ہے جو اللہ کے بارے میں اور اس کے دین کے بارے میں بغیر کسی علم کے بحثابحثی کرتے ہیں۔ مختلف دعوے پیش کرتے ہیں‘ حقیقتوں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کو کوئی یقینی ہدایت حاصل نہیں ہوتی اور ان کے پاس کسی ثابت شدہ اور غیرمحرف الہامی نوشتے کی سند نہیں ہوتی۔ علم کے بغیر جو لوگ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے عادی ہوجاتے ہیں‘ ان کو جب اللہ کے نازل کردہ ہدایت نامے کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو وہ اس بنیاد پر اسے قبول نہیں کرتے کہ ہم تو اسی روش پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ ذہنیت کو خود ان پر نمایاں کرنے کے لیے یہ استفہامی اشارہ فرما دیا کہ اَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْر (۳۱:۲۱)___ یعنی یہ بھی سوچا ہوتا کہ کیا ہوگا نتیجہ اگر تمھارے باپ دادوں کو یا خود تم کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف لیے جا رہا ہو۔
ان آیات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کو واضح قسم کے علمِ حقائق___ جو ثابت شدہ الہامی ہدایت پر مبنی ہو یا مشاہدے و تجربے کا یقینی ماحصل!___ کی روشنی میں سوچنے اور کلام کرنے اور عملی روش اختیار کرنے کی تربیت دے۔ عالمِ افکار ہو یا عالمِ کردار‘ ہمارے نظامِ تعلیم کے تربیت یافتہ ضمیر‘ انسان کو علم کی روشنی کے بغیر ظن و تخمین کے اندھیروں میں گامزن نہ ہونے دیں۔ اندھی آبا پرستی اور قوم پرستی اور ہر قسم کی ’پرستی‘ اور جھوٹے تعصبات سے طلبہ کو بچایا جائے۔ وہ بڑی بڑی قوموں‘ جابر و ظالم حکمرانوں اور غلط ماحول سے متاثر ہوکر حقائق کی راہ سے ہٹ کر کچے قیاسات اور ادھورے نظریات کے سامنے مرعوبانہ اور مقلدانہ شان سے سرخم نہ کریں۔ ان پر حقائق اور نظریات کا فرق واضح ہونا چاہیے۔ وہ قائل ہوجائیں کہ قیاسی نظریات پر اخلاق‘ کردار اور تمدن کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی جاسکتی۔
میانہ روی کی چال چلو‘ اپنی آواز کو دھیما رکھو‘ کیوں کہ گدھے کی آواز بہت بُری آواز ہے۔ (۳۱: ۱۹)
یعنی چلو تو بہت باوقار طریقے سے چلو۔ نہ یوں کہ آدمی گھبرایا ہوا بھاگ رہا ہو‘ اور نہ یوں کہ مریل طریق سے چل رہا ہو۔ ویسے وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ کا ایک جامع مطلب یہ ہے کہ ہرمعاملے میں اعتدال کا رنگ پیدا کرو۔ بولو تو دھیمی آواز سے بولو۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے سے آدمی جانوروں سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔ مزید تفصیلات قرآن میں بھی… اور حدیث میں بھی بڑے پیمانے پر مذکور ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اسلامی زندگی چال ڈھال‘ گفتار رفتار‘ کھان پین [کھانے پینے] جیسے اُمور میں اعتدال اور وقار اور سلیقہ و شایستگی کی متقاضی ہے۔ سو ہمارے نظامِ تعلیم کو یہ غایت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ اچھے آداب و اطوار سے طلبہ کی روزمرہ زندگی کو آراستہ کرے۔ ان کو میانہ روی سکھائے اور انتہاپسندی سے روکے۔
میں نے سورئہ لقمان کو جس طرح سے سمجھا ہے اجمالاً مطالعے کا ماحصل پیش کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سورہ کے نکات اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیادوں‘ اصولوں اور مقاصد کو بخوبی معین کردیتے ہیں۔ ان نکات کی شرح و تفصیل کے لیے نہ صرف پورے قرآن سے استفادہ کرنا لازم ہے بلکہ حضورؐ نے عملاً ایک نظامِ تعلیم و تربیت چلاکر قرآن کی جو شرح پیش فرمائی ہے نیز زبانِ مبارک سے حکمتِ قرآنی کو جس طرح واضح کیا ہے۔ اس سارے کارنامے کی مدد لے کر ہی ہم کسی تعلیمی خاکے میں صحیح رنگ بھرسکتے ہیں مگر بنیادی خاکہ ہمیں سورئہ لقمان میں یک جا ملتا ہے۔
خدا کرے کہ یہ کاوش مبنی برہدایت ہو‘ پڑھنے والوں کے لیے باعثِ افادہ ہو‘ اللہ کے کچھ بندوں کے سینوں میں اسلامی نظامِ تعلیم کو عملاً پوری طرح کارفرما کرنے کا جذبہ بیدار ہو اور لکھنے والے کے لیے ذریعۂ مغفرت ٹھیرے۔ [آمین]
آزاد فکر معاشروں اور جمہوری ریاستوں میں راے عامہ کو طاقت کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنی ترجیحات کا تعین راے عامہ کی روشنی میں کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور بناتے وقت اِسی کو مدّنظر رکھتی ہیں۔ یہی راے بڑے بڑے آمروں کے لیے لگام ثابت ہوتی ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسی ویٹوپاور ہے جس کو وقت کے فرعون بھی چیلنج کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات عدالتیں فیصلہ دیتے وقت عوام کی راے کو مدّنظر رکھتی ہیں۔
راے عامہ کیا ہے؟ یہ کس طرح بنتی ہے‘ اور اسے کس طرح اپنے حق میں ڈھالا جا سکتا ہے؟ راے عامہ کسی معاشرے کے تمام یا اکثروبیش تر لوگوں کی مجموعی راے ہے جو لوگوں کی سوچ اورفکر‘ پسندوناپسند کی پوری طرح عکاسی کرے کہ لوگ کیا چاہتے ہیںاور رسم و رواج‘ تہذیب و تمدن‘ علم و فن‘ فیشن اوراسٹائل‘ سیاسی رجحانات اور معاشی مسائل میں اُن کا نقطٔہ نظر کیا ہے۔ یہ راے اگرچہ عامۃالناس کی راے کہلاتی ہے لیکن یہ راے بنتی کہیں اور ہے۔ عوام کالانعام تو بس اتباع کرتے ہیں۔
دور جدید میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ یہ اگر چاہے تو رائی کو پہاڑ بنادے اور پہاڑ کو آنکھوں سے اوجھل کردینا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ میڈیا کے دو بڑے شعبے یعنی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا الگ الگ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر پڑھا لکھا شخص کسی نہ کسی اخبار یا جریدے کا قاری ضرور ہوتا ہے اور اُس میں چھپنے والا مواد اُس کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ فرد کی سیاسی تربیت انھی ذرائع سے ہوتی ہے۔ پسندو ناپسند کا معیار مقرر ہونے میں اِن کا کردار کلیدی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت اس سے بھی دوچند ہے۔ اس کی رسائی صرف پڑھے لکھے شخص تک نہیں بلکہ ہر اُس شخص تک ہے جس کی آنکھیں اورکان سلامت ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس میڈیا کی رسائی بڑوں تک ہے بلکہ بچے بھی اس کی گرفت میں ہیں۔ یہ غیرمحسوس انداز میں اپنی بات عوام تک پہنچاتا ہے۔ کبھی ڈرامے کی صورت میں تو کبھی بحث و مباحثے کی صورت میں‘ کبھی تصویری رپورتاژ کی صورت میں تو کبھی واقعے کی براہ راست نشریے کی صورت میں۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا کے کرکٹ گرائونڈ میں ایک کھلاڑی چھکا لگاتا ہے اور دنیا کے شرق و غرب میں اپنے گھروں میں بیٹھے لوگ اُس کو داد دیتے ہیں۔ گھروں کے اندر زیبایش کے سامان سے لے کر بولے جانے والے مکالموں تک‘ اور شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر ماتم کی رسومات تک میں میڈیا کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ الغرض‘ الیکٹرانک میڈیا کی گرفت اتنی موثر ہے کہ اس کا مقابلہ اس سے کم تر کسی چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔
ادارے ہر معاشرے کے اخلاق و کردار‘ تہذیب و تمدن اور فکروعمل کی راہوں کو متعین کرنے میں نمایاںکردارادا کرتے ہیں۔ ان میں گلی محلے اور گائوں کی مسجد سے لے کر کالج اور یونی ورسٹی تک‘ گائوں کے چوپال سے لے کر ایوان ہاے قانون ساز تک اور چند معززین کے جرگے سے لے کر عدالت ہاے عظمیٰ تک‘ سب شامل ہیں۔ اگر ادارے قوی ہوں‘ اپنی تہذیب اور روایات کے امین اوراصولوں پر قائم ہوں‘ حق اور انصاف کو معیار کا درجہ دیا جا رہا ہو تو تمام خرابیوں کے باوجود قومیں انحطاط کے بجاے عروج کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ لیکن اگر ادارے تباہ ہوجائیں اور حق اور انصاف کی جگہ ظلم و عدوان رواج پاجائے تو پھر ایسی قوم پر فاتحہ پڑھ دینی چاہیے۔
ہر معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنی سوچ اور فکر سے معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اس طبقے میں خیرکا پہلو جتنا غالب ہوگا معاشرہ اتنا ہی پاکیزہ ہوگا‘ اور اگر یہاں شر ہوگا تو معاشرے میں اُس سے زیادہ شر ہوگا۔ ان میں اساتذہ‘ علما‘ مصنفین‘ شعرا اور صحافی‘ سب شامل ہیں۔
گذشتہ صدی میں اُمت مسلمہ کی تاریخ کے جگمگاتے ستاروں کا تعلق اسی طبقے سے ہی تھا۔ علامہ اقبال‘ الطاف حسین حالی‘ محمد علی جوہر اور ظفرعلی خان جیسے اہلِ قلم نے برعظیم کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا‘ جب کہ سید مودودی‘ حسن البناء اور سیدقطب نے عالمی اسلامی تحریک کی نیو ڈالی۔ ان سب مشاہیر نے اپنے قلم سے وہ جنگ لڑی اور کامیاب ٹھیرے جس کو بصورتِ دیگر اسلحے کے انباروں اور منظم فوج کے بل پر بھی نہیں جیتا جاسکتا تھا۔
درحقیقت راے عامہ کی تبدیلی کے لیے منظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دعوت اور جہاد کے بہت سے محاذوں میں سے یہ بہت اہم اور بنیادی محاذ ہے جس پر دشمن کے تمام حملوں کا بروقت جواب دینا ازبس ضروری ہے۔ اس ہمہ جہت مقابلے کی حکمت عملی کیا ہو؟
آخر میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک نظر میں اُن رکاوٹوں کا ادراک کرلیا جائے جو راے عامہ ہموار کرنے میں سدِّراہ ہُوا کرتی ہیں۔
جہالت کا براہِ راست تعلق ناخواندگی سے نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت (state of mind) کا نام ہے جس میں دل و دماغ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور انسان اپنے موہوم تصورات‘ اور موروثی عقائد کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جاہلیت قدیم بھی ہے اور یہ موذی مرض جاہلیت ِ جدیدہ کی صورت میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ آج بھی لوگ لینن اور مارکس‘نطشے اور اسرانعمانی یا آمنہ ودود کے رطب و یابس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد کا علاج بڑی حکمت‘ صبروضبط اور عالی حوصلگی کا متقاضی ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے ارتقا پذیر ہو کر آج ایک منظم ومنافع بخش صنعت کا روپ دھارچکے ہیں۔ ذرائع ووسائل میں اضافے، جدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اپنے اثرات کی ہمہ گیری کے لحاظ سے قومی زندگی میں ان کا کردار جہاں قابل لحاظ اہمیت رکھتا ہے وہیں سنجیدہ غوروفکر کا طالب بھی ہے۔ یوں تو اطلاعاتی انقلاب (information explosion) اور عالم گیریت نے دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کے کردار واثرات کو بحث ومباحثے کا موضوع بنا دیا ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں جو اپنی راسخ العقیدگی اور مخصوص اقدار وروایات پر ایمان وایقان کے سبب دیگر عام معاشروں سے منفرد واقع ہوا ہے، ذرائع ابلاغ کے اثرات نہایت سنجیدہ اور فکر انگیز سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ان سوالات کا تعلق ذرائع ابلاغ کی آزادی سے بھی ہے اور ان کے تاجرانہ انداز فکر سے بھی‘ ایک بے سمت قوم کو نشان منزل دکھانے سے بھی ہے اور قوم کے منزل پر پہنچ کر گم کردہ منزل ہوجانے سے بھی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہمارا معاشرہ انتشار واضطراب کی لپیٹ میں ہے۔ اقدار کی شکست وریخت، اخلاقی تباہ حالی‘ سیاسی افراتفری اور مادہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہمارے مستقبل کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ اس عمومی معاشرتی صور ت حال کے عکاس بھی ہیں اور بڑی حد تک اس کے ذمہ دار بھی۔ معاشرے کی ابتری کی ذمہ داری ان پر عاید کرنے کے بارے میںیقینا اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی ۵۹ سالہ زندگی میں کم وبیش تیس سال عملًا فوجی حکمرانی کے رہے ہیں جن میں ذرائع ابلاغ سے آزادانہ کردار ادا کرنے کی توقع عبث ہے۔ لیکن پھر یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ نے دیگر ملکوں کے ذرائع ابلاغ یا آزادی سے قبل کے عظیم صحافیوں کی طرح اپنی آزادی کے لیے کوئی جنگ بھی لڑی؟ کوئی قربانی بھی دی؟یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج کے ذرائع ابلاغ کی آزادی بھی غیر جمہوری مزاج کے حامل ایک حکمراں کی کشادہ دلی کا مظہر ہے۔
آئیے! ماضی کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیںکہ اس ملک خداداد میں ریاست کے اس اہم ستون پر کیا گزری ہے‘کیونکہ گذشتہ واقعات کا مطالعہ ہی حال کے نتائج کو قابل فہم بناتا ہے۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی تاریخ پابندیوں سے عبارت رہی ہے۔ مختلف ادوار میں خاکی اور غیر خاکی حکمرانوں نے ذرائع ابلاغ بالخصوص صحافت کو پا بہ زنجیر کرنے کے لیے نہ صرف امتناعی قوانین نافذ کیے بلکہ پریس ایڈوائس اور سنسر شپ سے لے کر ترغیب وتحریص کے تمام ممکنہ حربے آزمائے ہیں تاکہ اظہار رائے کی آزادی اور حقائق کے انکشاف کے ’ضرر‘ سے محفوظ رہا جاسکے۔ یہ حقیقت افسوس ناک ہے کہ قائداعظمؒ کی زندگی ہی میں پریس ایڈوائس کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ پہلی پریس ایڈوائس قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے ایک حصے کے بارے میں جاری کی گئی کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے بیوروکریسی کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ قائداعظمؒ جو صحافت کی آزادی پر پختہ یقین رکھتے تھے، ان کی وفات کے چند ہی روز بعد پبلک سیفٹی آرڈننس نافذ کردیا گیا حالانکہ بہ حیثیت گورنرجنرل اس آرڈننس پر انھوں نے دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ان سیاہ قوانین کے خلاف تو میں ساری زندگی لڑتا رہا ہوں۔
۱۹۴۹ء میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ دستور ساز اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جو بعد کے دساتیر کا حصہ بنا اور جس کے تحت شہری آزادیوں بشمول آزادیِ تحریر و تقریر پر قدغن عاید کردی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت اخبارات اور ان کے ایڈیٹروں کے خلاف کارروائی عمل میں آتی رہی مثلاً: ڈھاکہ کے انگریزی روزنامے پاکستـان آبزرور کے ایڈیٹر عبدالسلام کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین پر تنقید کرنے کے الزام میں فروری ۱۹۵۲ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے زیادہ دل خراش واقعہ ۷مئی ۱۹۴۹ء کو پیش آیا تھاجب لاہور کے قدیم انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی کشمیر کی بابت شائع کردہ ایک خبرپر ۱۶ ایڈیٹروں نے ، جن میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور نواے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی بھی شامل تھے،ایک مشترکہ اداریے کے ذریعے اس اخبار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ خبر دہلی میں اخبار کے نامہ نگار اے این کمار نے ارسال کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ:’’جموں اور کشمیر کے تنازعے پر پاکستان اور بھارت میں مذاکرات جاری ہیں اور عنقریب دونوں ملکوں میں سمجھوتہ ہونے والا ہے جس کے مطابق جموں وکشمیر کو دونوں ملکوں میں تقسیم کردیاجائے گا‘‘۔ اخبار نے اس من گھڑت خبر پہ معذرت کرلی تھی اور خبر بھیجنے والے اپنے نامہ نگار کو برطرف بھی کردیا تھا لیکن اخبار کا جرم معاف نہیں کیا گیا اور چھے ماہ کے لیے اس کی اشاعت روک دی گئی ۔ نتیجے میں اس اخبار کوپھر سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔اس کی تعدادِ اشاعت اور کاروبار دونوں تباہ ہوگئے۔ کیا اس کی ذمہ داری ان ۱۶ ایڈیٹروں پر عاید نہیں ہوتی جنھوں نے ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کی اشاعت معطل کرنے پر حکومت کو اکسایا؟
۱۹۵۳ء میں پنجاب میں قادنیوں کے خلاف چلنے والی مہم کے دوران صحافت کو حکومت کی جانب سے ایک شرمناک طرز عمل سے واسطہ پڑا۔ پنجاب کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے متعدد اخبارات کو حکومت کا ہم نوا بنانے کے لیے تعلیم بالغان کے فنڈ میں سے رشوت دی۔ اخبارات کو کرپٹ کرنے کے لیے نقد رقم دینے کے علاوہ انھیں اشتہارات کی فراہمی اور روزانہ ایک خاص تعداد میں شمارے خریدنے کے وعدے بھی کیے گئے۔ اس اولین نام نہاد جمہوری دور میں سویرا ،نقوش اور ادب لطیف جیسے معیاری ادبی رسائل ‘چٹان اور ایشیا جیسے جرأت مند ہفت روزہ رسائل اور نوائے وقت جیسے بے باک اخبار پر پابند یاں لگائی گئیں۔ غرض ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک صرف پنجاب میں ۳۱ اخبارات کی اشاعت ممنوع قرار دی گئی۔
۱۹۵۸ء کاجنرل ایوب کا مارشل لا پاکستانی صحافت کے لیے تاریک ترین رات ثابت ہوا جس میں اخبارات ورسائل کو سیاہ قوانین کی بھاری بیڑیاں پہناکر ان کی مکمل زباں بندی کردی گئی۔ ایوب حکومت کا پہلا قدم میاں افتخارالدین کے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر غاصبانہ قبضہ تھا جس کے تحت پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار چھپتے تھے۔ فکرونظر کے اختلاف کے باوجود یہ غیرمتنازعہ طور پر نہایت معیاری اخبارات تھے۔ پاکستان ٹائمز کا تواجرا قائداعظم کی خواہش پر اوائل ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا۔ پروگریسیو پیپرزلمیٹڈ پر بیرون ملک (اشتراکی روس) سے امداد لینے کا الزام لگایا گیا‘ جسے کبھی کسی عدالت میں ثابت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ نیز میاں افتخارالدین کے اخبارات کی بابت یہ بھی کہا گیا کہ’’ان میں ایسا مواد شائع ہوتا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہوسکتا ہے‘‘ لیکن اس مواد کی نشان دہی کبھی نہیں کی گئی۔
اپریل ۱۹۶۴ء میں ’اخبارات کے معیار کو بلند کرنے کے لیے‘ فیلڈمارشل ایوب خاں کی حکومت کے زیراہتمام نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات کے علاوہ مارننگ نیوز، مشرق، دینک پاکستان (بنگالی)، اخبار خواتین‘ اسپورٹس ٹائمز اور روزنامہ انجام وغیرہ کے تمام ایڈیشنوں کو ضم کردیاگیا۔ ان انگریزی، اردو اور بنگالی اخبارات وجرائد کی تعداد ۱۲ تھی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ نظری طور پر ایک آزاد ادارہ تھا لیکن عملاً یہ ایوب خان اور بعد کے ادوار میں بھی حکومت کا بھونپو بنارہا۔ بقول ضمیرنیازی تین عشروں تک ’نیشنل پریس ٹرسٹ‘ کے اخبارات حکومت پر تنقید کرنے کا جرم کرنے والے افراد اور جماعتوں کی توہین‘ تذلیل اور کردارکشی کرتے رہے۔ این پی ٹی کی تشکیل کا اصل مقصد نجی ملکیت میںشائع ہونے والے اخبارات کی آزادی کو کچلنا اور ایک متوازی سرکاری پریس کا قیام عمل میں لانا تھا۔ اس سے تین سال قبل جون ۱۹۶۱ء میں حکومت ’عوام کے وسیع تر مفاد‘ میں آزاد خبررساںایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو سرکاری تحویل میں لے چکی تھی جو آج تک سرکار ہی کی منکوحہ ہے اور جس سے آج بھی حزب اختلاف کی خبریں مشکل ہی سے جاری ہوتی ہیں۔
این پی ٹی کے قیام سے چار سال قبل ۲۶ اپریل ۱۹۶۰ء کو ایوب حکومت نے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی ننگی تلوار صحافت کے سر پہ لٹکا دی۔ اس آرڈیننس کے تحت حکومت کو اخبارات یا کتابیں شائع کرنے والے چھاپہ خانے کے مالکان سے قابل اعتراض مواد شائع کرنے پر حکومت کو نئی ضمانت طلب کرنے کا اختیار مل گیا۔ قانون کے تحت اس میں ایسی تمام تحریریں شامل تھیں جنھیں ناشائستہ ، فحش، گھٹیا، توہین آمیز یا بلیک میلنگ یا افواہیں پھیلانے یا عوام میں اضطراب ‘ بے چینی یا مایوسی پھیلانے کے ارادے سے شائع کیا گیا ہو۔ اس قانون کے تحت کسی بھی بے ضرر خبر یا ادارتی نوٹ کے خلاف کارروائی ہوسکتی تھی۔ آرڈیننس کے نفاذ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کا مقصد ذمہ دارانہ اور صحت مند صحافت کی نشوونما ہے۔ ۱۹۶۳ء میں ترامیم کے ذریعے قانون کو مزید سخت بنادیا گیا۔ برعظیم میں صحافت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں اتنے سیاہ ترین قوانین نافذ نہیں ہوئے تھے جس کے نتیجے میں آزاد، جرأت مند اور اقداری صحافت کی توسیع وترقی بری طرح متاثر ہوئی‘ بہت سے باضمیر صحافیوں نے بددل ہو کر اس پیشے ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ آرڈی ننس تین عشروں تک اخبارات کو دبانے‘ کچلنے اور نئے اخبارات وجرائد کے اجرا کا راستہ روکنے کے لیے مختلف حکومتوں کا آلۂ کار بنا رہا۔ اس کے تحت صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایک آزاد اور ذمہ دار صحافت پروان نہ چڑھ سکی۔ سیاسی خبروں پر پابندی کے باعث قارئین کی دل چسپی و رغبت کے لیے جنس و جرم اور سنسنی خیزیت اخبارات کا لازمہ بن گئے اور خوشامد پسند تجارتی اخبارات کو مستحکم ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۸ء میں قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے اس آرڈی ننس کو منسوخ کردیا۔ ایوب دور میں محکمہ اطلاعات کے افسرانِ اطلاعات ہی عملاً اخبارات کے مدیربن گئے تھے جنھیں کسی بھی خبر کو رکوانے یا چھپوانے کا اختیار حاصل ہوگیا تھا۔ حکومت سے علاحدگی کے بعد جنرل ایوب نے اعتراف کیا کہ پریس پر پابندی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
۱۹۶۴ء میں ایوب حکومت کا ایک اہم قدم ٹیلی وژن نشریات کا آغاز تھا۔ ٹیلی وژن کی پالیسی کے لیے پانچ نکاتی ضابطہ وضع کیا گیا جس کے مطابق اس کے مقاصد میں تعلیم کا فروغ‘ معلومات عامہ کی فراہمی‘ صحت مند تفریح، قومی سوچ اور باہمی اتحاد کا فروغ اور حقیقت پسندانہ، منصفانہ اور آزاد خبروں کی پیش کش شامل تھی۔ لیکن اپنے قیام کے بعد سے یہ بالعموم تفریحی میڈیم بنارہا۔خبروں میں عملاً جو پالیسی وضع کی گئی‘ اس پر اس سے روشنی پڑتی ہے کہ لوگ آج بھی خبرنامہ کو ’صدرنامہ‘ کہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو‘ جو ایوب حکومت کے آخری ایام میں پریس ٹرسٹ توڑنے اور پریس اینڈ پبلی کیشنزآرڈی ننس منسوخ کرنے کی نوید دیتے رہے تھے اور جنھوں نے اقتدارسنبھالنے کے بعد سیاسی گھٹن کے خاتمے کے لیے آزاد صحافت کو فروغ دینے کا مژدہ سنایا تھا۔ ان کے مقتدر قلم سے جو اولین حکم نامہ جاری ہوا، وہ این پی ٹی کے اخبارات دی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری اور مارننگ نیوز کے ایڈیٹر ایس آر غوری کی فوری برطرفی تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے آزاد خبر رساں ایجنسی پی پی آئی کے سربراہ معظم علی کا بھی ناطقہ بند کردیا۔ بھٹو ان بلند پایہ صحافیوں پر اس لیے غضب ناک تھے کہ انھوں نے ان کے انداز سیاست کو قلم کی نوک پر رکھا تھا۔ بھٹو دور اخبارات ورسائل کی بندش اور صحافیوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر اسیر زنداں کرنے سے عبارت ہے۔ پنجاب پنچ، زندگی ، اُردو ڈائجسٹ ، جسارت کے علاوہ بڑی تعداد میں روزنامے‘ ہفت روزے اور ماہنامے بند کیے گئے اور ان میں سے بہت سوں پر تو دوسرا کوئی اخباریا جریدہ نکالنے پر بھی پابندی عاید کردی گئی۔صحافیوں کی ایک تعداد کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا۔ سرکاری اشتہارات اور نیوز پرنٹ کو بطور چارے کے بھی استعمال کیا گیا۔ ٹیلی وژن پر ایسے پروگرام شروع کیے گئے جن سے قائدعوام کو قائداعظم کا ہم پلّہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس دور حکومت کا اختصاص یہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو قومی اخلاق تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ٹی وی‘ ریڈیو‘ فلم اور رسائل کو عریانی وفحاشی پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ قوم کی توجہ سنجیدہ سیاسی مسائل سے ہٹائی جاسکے۔
جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں سہمی ہوئی زخم خوردہ صحافت کے ساتھ مصلحتاًمشفقانہ برتائو رکھااور جن اخبارات ورسائل کو بھٹو نے مصلوب کردیا تھا، انھیں دوبارہ زندہ ہونے کا حق دیا گیا۔ سنسرشپ سے بھی اخبارات کو آزادی دی۔ لیکن اقتدار پہ گرفت مضبوط ہوتے ہی ان کی عطا کردہ آزادی صحافت کی اصلیت بے نقاب ہوگئی۔ اخبارات پر بدترین سنسرشپ‘ صحافیوں کی گرفتاریاں اور سزائیں اور ڈیکلریشن کی منسوخی کے علاوہ صحافت کی تاریخ کا جو سیاہ ترین واقعہ پیش آیا‘ وہ کھلے عام تین صحافیوںکو کوڑے مارنے کا فیصلہ تھا۔ اس دور میں اخبارات کی کاپیاں سنسر کے لیے محکمہ اطلاعات کے دفاتر لے جائی جاتی تھیں جہاں ہر سطر ہر لفظ سنسر ہوتا تھا۔ افسرانِ اطلاعات جس خبر‘ مضمون اور اداریے کو چاہتے بغیر کوئی وجہ بتائے کاپی سے نکال دیتے۔ بعض اخبارات خبراکھڑنے کے بعد خالی جگہ پر قینچی کی تصویر بنا دیتے تھے۔ نئے حکم نامے میں صفحے پر خالی جگہ چھوڑنے پر بھی پابندی عاید کردی گئی۔ یہ صورت حال ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۹ء سے ۳۱دسمبر ۱۹۸۲ء تک رہی۔
ضیا دور میں ہتک عزت کا ایک عجیب وغریب قانون یہ بھی نافذ ہوا کہ کوئی بھی توہین آمیز مواد خواہ وہ سچائی پر مبنی اور عوامی مفاد ہی میں کیوں نہ ہو، شائع نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون جولائی ۱۹۸۶ء میں جونیجو حکومت نے واپس لیا۔ جنرل ضیا ملکی اور غیرملکی صحافیوں سے ذاتی دوستانہ مراسم استوار کرنے کے ماہر تھے۔ چنانچہ وہ دائیں بازو کے بااثر صحافیوں میںاپنے دوستوں کا وسیع حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان صحافیوں کو انھوں نے نوازنے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ۱۹۸۲ء میں سنسر اٹھانے کے بعد اخبارات کو تنقید واحتساب کی آزادی بڑی حد تک حاصل رہی۔ کوئی شبہہ نہیں کہ جنرل ضیا نے ذرائع ابلاغ کو جنس زدگی سے پاک کرنے اور انھیں مشرقی و اسلامی روایات سے ہم آہنگ کرنے کے اقدام بھی اٹھائے۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں صحافت کے خلاف تشدد کے رجحان کا آغاز ہوا۔یوں تو اخبارات کے خلاف دہشت گردی کا پہلا واقعہ ۲۴ جنوری ۱۹۶۹ء کو پیش آیا، جب ایوب حکومت سے اظہارِ نفرت کے لیے طالب علموں کے ایک مشتعل گرو ہ نے ڈھاکہ میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے دواخبار مارننگ نیوز اور دینک پاکستان کے دفاتر کو نذر آتش کردیا تھا۔ دوسرا واقعہ ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو رونما ہوا جب عوامی لیگ کے ترجمان اخبار دی پیپل ڈھاکہ کی عمارت کو ملٹری آپریشن کے دوران ڈھادیا گیا۔ پھر بھٹو دور حکومت میں دی ٹائمز راولپنڈی اور جسارت کراچی کے دفاتر پر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ حملے کرائے گئے۔
بعد کے عرصے میں بھی ملک کے مختلف حصوں میں اخبارات کے دفاتر پر حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے لیکن ۱۹۸۰ء کے عشرے میں صحافیوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کا رجحان ابھر کر سامنے آیا جس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جنوری ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۱ء تک اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ۲۵ صحافی بہیمانہ طریقے سے قتل کردیے گئے ‘ جب کہ ۲۰۰۵ء تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد دس ہے لیکن ان میں سے بیشتر صحافی افغانستان اور شمالی علاقہ جات میںمارے گئے۔ اخبارات کے دفاتر کو تباہ کرنا‘ پرنٹنگ پریس کو آگ لگا دینا‘ غنڈہ گردی کے ذریعے اخبارات کی ترسیل کو ناممکن بنا دینا تو اس عرصے میں ایک معمول بنا رہا۔ ان واقعات میں بیشتر لسانی اور بعض انتہا پسند مذہبی جماعتیں ملوث رہیں۔
نوائے وقت کراچی کے دفتر میں تودو مرتبہ بم کے دھماکے کے واقعات بھی پیش آئے، جس کے بعد اس کا دفتر مزار قائد کے نزدیک سے ڈیفنس سوسائٹی کے نسبتاً محفوظ علاقے میں منتقل ہوگیا۔ روزنامہ جنگ کو ایک دن تقسیم نہیں ہونے دیا گیا۔ ہفت روزہ تکبیرکا دفتر نذر آتش کیا گیا۔ یہاں تک ہوا کہ جو لسانی تنظیم ان واقعات کی ذمہ دار تھی ،اس سے مصالحت کے لیے کراچی کے اہم اخبارات کے مدیران اور مالکان جس میں روزنامہ جنگ کے میر خلیل الرحمن اور روزنامہ ڈان کے حمید ہارون شامل تھے‘ اس تنظیم کے قائد کے گھر پر دست بدستہ حاضر ہوئے اور ان کی ناراضی کو دُور کرنے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں ’جنگ ‘اخبار خصوصاً دبائو کا شکار رہا جسے روزانہ یہ ہدایت ملتی تھی کہ مذکورہ لسانی تنظیم کی خبر کس صفحے پر اور کتنے کالم میں شائع ہوگی اور اخبار اس ہدایت کی تعمیل کرنے پر مجبورتھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اخبارات اور صحافیوں کے خلاف دبائواورتشدد کے ان پے درپے واقعات میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی آج تک گرفتار کیا گیا اور نہ سزا دی گئی۔ اخبارات پر ناقابل برداشت دبائو کے نتیجے میں خبروں میں آدھا سچ چھپنے لگا، انھیں توڑا مروڑا اور چھپایا جانے لگا۔ یہاں تک ہوا کہ جس اخبار(روزنامہ ڈان) کے دفتر پر مشتعل کارکنوں کا جتھا چڑھ دوڑا، اُسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، دفتر کو نقصان پہنچایا‘ اگلے دن متاثرہ اخبار اس واقعے کے بارے میں خاموش رہا۔ سب سے زیادہ دبائو کا سامنا کراچی کے اخبارات کو کرنا پڑا۔ خدا کا شکر ہے کہ تشدد کی یہ روایت مستحکم نہ ہوسکی اور اخبارات اور صحافیوں کے خلاف لسانی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اشتعال انگیز جذبات میں اب ٹھیرائو آگیا ہے لیکن برقیاتی ذرائع ابلاغ پر دبائو اب بھی قائم ہے۔ پچھلے ہی دنوں جیو کے ایک پروگرام کے خلاف احتجاجا اس کا دفتر تباہ کیا جاچکا ہے۔ پروگرام کا موضوع جنسی مسائل تھا جن پر کھلی گفتگو اشتعال کا سبب بنی۔
جیسا کہ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ ملک میں صحافت کا ارتقا خاکی اور غیرخاکی حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور خواہشات کے زیراثر مرتّبہ پالیسی کے ماتحت ہوا ہے۔ چنانچہ پابندی کے زمانے میں اِکا دُکا مستثنیات سے قطع نظر‘ ہمارے اخبارات کسی اچھے بچے کی طرح حکمرانوں کے سامنے مودّب رہے ہیں۔ (ایوب حکومت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف بنگالی پریس نے اپنے جذبات کا اظہارمصلحت اندیش اور احتیاط سے کیا ‘ جب کہ مغربی پاکستان میں پریس نے نہ تو آئین کی منسوخی پر صدائے احتجاج بلند کی‘ نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر ہی کوئی ردعمل دکھایا۔ پریس نے تمام پابندیوں کو خاموشی سے قبول کرلیا حتیٰ کہ پریس سنسرشپ پر بھی اعتراض نہیں کیا۔)یہ الگ بات کہ جب پریس کو آزادی ملتی ہے تو وہ شتربے مہار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے (۱۹۷۱ئ-۱۹۶۹ئ)میں اخبارات صوبائی عصبیت ، طبقاتی کش مکش اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں پیش پیش رہے۔
بعد کے ادوار میں بھی ملک کے اساسی اقدارونظریات، قومی سالمیت اور اس کی بقا کے بارے میں ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والا مواد اخباری صفحات کے ذریعے ہی عام ہوا۔ بعض اخبارات نے قومی اغراض و مقاصد کو تجارتی مفادات کے تابع رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ چنانچہ سنسنی خیزیت ، جنس زدگی اور قوم کے سستے جذبات کو انگیخت کر کے معمولی سرمایے سے اخبار کا اجرا کرنے والے اصحاب آج اخباری گروپوں کے مالک بن چکے ہیں ۔اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس مملکت خداداد میں صحافت کی کوئی سمت متعین نہیں ہوسکی۔
برقیاتی ذرائع ابلاغ تو مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں رہے اور آج بھی ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن حکومت ہی کے کنٹرول میں ہیں۔ ان اداروں بالخصوص پی ٹی وی کو حکمرانوں نے اپنی ذات اور اپنی حکومت کے پروپیگنڈے اور تشہیر کے لیے جس بری طرح استعمال کیا ہے‘ اس کی چشم کشا تفصیل پی ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوزبرہان الدین حسن نے اپنی تازہ کتاب پس پردہ میں بیان کی ہے۔ گویا برقیاتی ذرائع ابلاغ کا قبلہ تو حکومت ہی رہی لیکن نام نہاد آزاد صحافت بھی آج تک کسی ضابطہ اخلاق سے محروم ہے۔ اخبارات کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے دوسرے ملکوں کی طرح پریس کونسل کا قیام ہنوز خواب ہے۔ آج بھی ‘ جب کہ ذرائع ابلاغ بڑی حد تک آزاد ہیں‘ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہمارے قومی اہداف ومقاصد غیر متعین ہیں۔ کسی حکمران نے غوروخوض اور بحث وتمحیص کے بعد قومی امنگوں اور آرزئوں کی روشنی میں ایک جامع میڈیا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ ایک مسلم ریاست میں ذرائع ابلاغ کا کردار کیا ہونا چاہیے اور اس کے خدوخال کیسے ہونے چاہییں۔ اس مسئلے پر سوچ بچار کی ضرورت سٹلائٹ نشریات اور کیبل ٹیلی وژن کی آمد کے بعد سے اور بڑھ گئی ہے۔
۱۹۹۰ء میں حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دی کہ وہ اپنے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن قائم کریں۔ جس کے نتیجے میں ایف ایم ریڈیو اور کیبل ٹی وی چینلوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا۔ (اب تک ۱۴۲ ایف ایم ریڈیو اور ۱۶ کیبل ٹی وی چینلوںکو لائسنس جاری کیے جاچکے ہیں ‘ جب کہ متعدد چینلوں کی نشریات بیرون ملک سے جاری ہیں۔) ان کی نگرانی اور قانون سازی کے لیے۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) کا ادارہ قائم کیا گیا۔اس ادارے نے لائسنس کے اجرا کی شرائط وضوابط میں ایک شرط یہ رکھی ہے کہ نشریات یا کیبل ٹیلی وژن چلانے والے شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ’’بے راہ روی پر اکسانے والے اور شرافت کے مسلّمہ اصولوں کے منافی مواد نشر کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا‘‘۔ اسی طرح اس کے ضابطہ اخلاق میں غیرملکی نشریات کے حوالے سے درج ہے کہ’’ پمرا کسی بھی غیرملکی نشریات کا متن ناقابل قبول ہونے پر اسے نشر کرنے پر پابندی کا حکم جاری کرے گی‘‘۔ متن کی نوعیت کی وضاحت میں ذوق سلیم، شرافت اور اخلاق کے منافی نشریات شامل ہیں۔
ان قواعد کی خلاف ورزی پر پمرا کو جواب دہی کی ضروری کارروائی کے بعد لائسنس کی منسوخی کا اختیار حاصل ہے۔لیکن کیا پمرا ان ضوابط وشرائط کی پابندی کیبل ٹیلی وژن چلانے والوں سے کرارہی ہے؟ کیا ’’بے راہ روی پر اکسانے والے اور شرافت کے مسلّمہ اصولوں کے منافی مواد‘‘ کی پیش کش مختلف ملکی اور غیرملکی چینلوں سے جاری نہیں ہیں؟ جنسی اختلاط کے مناظر‘ بوس وکنار‘ بچوں اورنوجوانوں میں غیراخلاقی اور غیر صحت مندتفریح کے رجحان کو پروان چڑھانے والے پروگرام مسلسل ٹیلی وژن اسکرین پر روشن نہیں ہیں؟ آخر پمرا نے ان قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر آج تک کتنے لائسنس منسوخ کیے ہیں؟ اور غیراخلاقی مواد کی بنیاد پرکتنی غیرملکی نشریات پر پابندی لگائی ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ ادارہ تا حال بہت موثر ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ مغربی اور بھارتی چینلوں کے ذریعے ہمارے معاشرے کو ثقافتی یلغار کا سامنا ہے۔ ہماری زبان، ہمارا مذہب، ہماری تہذیبی وثقافتی روایات سب خطرے سے دوچار ہیں۔ کیبل آپریٹر رات گئے عریاں اور فحش فلمیں چلادیتے ہیں۔ کئی چینلوں پر ایسے پروگرام دکھائے جارہے ہیں جو نئی نسل کے کردار و ذہن میںاخلاق باختگی کا بیج بو رہے ہیں۔ (مثلاً ایک چینل پرپروگرام ’مستی مستی‘ اس کی مثال ہے)۔پمرا ان کیبل آپریٹروں اور چینلوں کو کنٹرول کرنے سے عاجز ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان چینلوں پہ حالات حاضرہ کے معیاری اور معلومات افزا تجزیاتی پروگرام بھی پیش کیے جارہے ہیں جن میں اظہار خیال کی بہت آزادی نظر آتی ہے۔لیکن ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اطلاعات اور اطلاعات کے تجزیوں کی بھرمارسے عام آدمی کا ذہن مائوف ہورہا ہے۔ اس کے لیے یہ فیصلہ دشوار ہے کہ کس تجزیے کو صحیح سمجھے اور کسے غلط۔ اطلاعات اور اس کے پس منظری وپیش منظری مواد کی کثرت میں عام آدمی کی قوت تمیز اور قوت فیصلہ کا متاثر ہونا قابل فہم ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کی آزادی نے خود اس آزادی کی اہمیت و معنویت کے بارے میںبڑے سنگین اور توجہ طلب سوالات پیدا کردیے ہیں‘ مثلاً: پہلا سوال تو یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی معاشرے میں کون سے مثبت نتائج پیدا کر رہی ہے۔ کیا یہ آزادی کسی تبدیلی کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے‘ یا اس سے محض جذبات کا کتھارسس ہو رہا ہے۔
یہ مسئلہ اس تناظر میں اور اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے جب یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے ذرائع ابلاغ کی خبروں، تبصروں، تجزیوں اورتنقیدوں کو سنجیدہ توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے ذرائغ ابلاغ کی طرف سے بے گانگی اور بے حسی کا رویہ اپنا لیا ہے۔ ’’آزادیِ رائے کو بھونکنے دو اور اپنی پالیسی جاری رکھو‘‘ یہ ہے وہ اسٹرے ٹیجی جسے حکومت نے اختیار کر رکھا ہے۔ گذشتہ پانچ ساڑھے پانچ برسوں میں ذرائع ابلاغ نے حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی‘ لیکن حکومت نے ان کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ ناین الیون کے بعد اختیار کی جانے والی خارجہ پالیسی اس کی زندہ مثال ہے جسے حکومت نے ذرائع ابلاغ کی بے محابہ گرفت و احتساب کے باوجود آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ سرکاری معلومات تک رسائی کے قانون کی منظوری کے باوجودسرکاری اعدادوشمار، حقائق اور دستاویزات صحافیوں کی دست رس سے آج بھی دور ہیں۔ ایک امریکی‘ برطانوی یا گوری نسل کے صحافی کو سرکاری عُمَّال مارے احساس کمتری کے جو حقائق فراہم کردیتے ہیں، ان ہی معلومات کی فائلوں پر مقامی صحافیوں کے لیے ’سرکاری راز‘ کی چٹ لگا دی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خبروں اور بالخصوص تفتیشی خبروں کا معیار بلند اور اعتبار بحال کیسے ہوسکتا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کو آج گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ آبادی کے تناسب سے اخبارات کی اشاعت تشویش ناک حد تک کم ہے۔ تقریباً ۱۴ کروڑ آبادی کے ملک میں صرف ۲۵لاکھ اخبارات چھپتے ہیں۔ گویا ایک اخبار ۵۷ افراد کے لیے ‘ جب کہ جاپان میں صرف ایک اخباریورمی اوری شمبون کی اشاعت ایک کروڑ دو لاکھ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ برقیاتی ذرائع ابلاغ کی بے پناہ مقبولیت نے مطبوعہ صحافت کی اشاعت کو متاثر کیا ہے۔ یہ عالمی رجحان ہے ۔ امریکا میں ۱۹۹۰ء میں جن روزناموں کی اشاعت ۶کروڑ ۳۰لاکھ تھی، وہ اب گھٹ کر ۵ کروڑ ۵۲لاکھ رہ گئی ہے۔ برقیاتی ذرائع ابلاغ کی infotainment (انفارمیشن +انٹرٹینمنٹ )پالیسی مطبوعہ ذرائع ابلاغ پر قارئین کے انحصار، اعتبار اور دل چسپی کو نقصان پہنچانے کی باعث ہے۔ یوں بھی ہمارے ہاں اخبارات ناروا حد تک مہنگے ہیں‘ شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی سیاسی اور سماجی مسائل سے لاتعلق رہتا ہے۔ کاغذ مہنگا ہونے کی وجہ سے بڑے اخبارات اشاعت بڑھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ اخبارات بالخصوص اردواخبارات کا معیار محل نظر ہے۔ وہ انگریزی اخبارات کے مقابلے میں دانش وری، حقائق و واقعات کے گہرے تجزیے، عالمی واقعات کی بابت تفصیلی معلومات کی فراہمی، پس منظری مواد اور حوالہ جات سے تقریباًمحروم ہوتے ہیں۔ خبریں واقعات سے زیادہ بیانات کا احاطہ کرتی ہیں‘ اور یہ خبریں بھی صفحہ اوّل پر نہایت تشنہ طریقے سے شائع کی جاتی ہیں۔ یہ خبروں سے زیادہ خبروں کا اشاریہ (index) نظرآتی ہیں۔ چنانچہ قارئین میںسرخیاں پڑھ کر اسی پر اکتفا کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اخبارات کے صفحہ اول پر اکثر اوقات بڑے بڑے اشتہاروںنے خبروں کی جگہ گھیر رکھی ہوتی ہے۔ تجارتی منافعے کی ہوس میں قاری کی توقعات کا خون کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھاجاتا۔ اخبارات تفتیشی خبریں غالبا اس لیے شائع نہیں کرتے کہ یہ ذرا مہنگا سودا ہے۔ اخراجات بڑھنے کے علاوہ بدعنوانیوں کے انکشاف میںخطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ بعض اخبارات میں ایک نیا رجحان مسخ شدہ، کٹی پھٹی اور سربریدہ لاشوں کی رنگین تصاویر کی اشاعت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔مہذب ملکوں میں اخبارات ایسی تصویریں شائع نہیں کرتے۔ صحافیوں کے کردار اور ان کی ساکھ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ صحافتی اثرورسوخ کا ناجائز استعمال، لفافہ جرنلزم اور پلاٹ پرمٹ کی صحافت کا غیراخلاقی رویہ بتدریج فروغ پذیر ہے۔
انگریزی اخبارات جو بین الاقوامی امور، تعلیم، صحت، ماحولیات اور ادب وفنون لطیفہ کے بارے میں معلومات افزا مواد پیش کرتے ہیں، مزاجاً لبرل اور سیکولر پالیسی رکھتے ہیں۔ نفاذ شریعت کی مخالفت ، ’ملائوں‘ کا استہزا اور قرارداد مقاصد کی علانیہ خلاف ورزی غالبا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ملک کے طبقہ اشرافیہ کے ترجمان ہیں جو مذہب بیزار ہے۔
بیسویں صدی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں محکوم ملکوں نے حصول آزادی کے بعد‘ قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو اپنے اجتماعی مقاصد ومفادات کی تشہیروپاسبانی کے لیے پروان چڑھایا اور انھیں آزادی کے ساتھ ساتھ مناسب سہولتیں بھی بہم پہنچائیں‘ وہاں پاکستان کی تمام حکومتوں کی یہ شناخت قابل افسوس رہی ہے کہ انھوں نے اپنے محدود مفادات اور دل چسپی کی حد تک صحافت کو مختلف پابندیوں میں جکڑے رکھا۔ پھر اہل صحافت کو چھوٹی موٹی آزادی کے احساس کے طور پر قومی اخلاقیات سے کُھل کھیلنے کی اجازت دے دی جس کے نتائج پرانی نسل کی بے حسی اور بے عملی اور نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاق بیزاری کی صورت میں ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔
۱- حکومت مختلف اداروں کی سطح پہ بحث ومباحثے کے بعد ایک قومی میڈیا پالیسی مرتب کرے‘ تاکہ ذرائع ابلاغ کی ایک سمت اور جہت متعین ہوسکے۔ نیز ان کی ترجیحات سامنے آسکیں۔
۲- ذرائع ابلاغ کے لیے جس ضابطہ ٔ اخلاق کا ڈول ڈالا گیا تھا اور جو باہمی اختلاف و نزاع کا شکار ہو کر سردخانے کی نذر ہوگیا، اس پہ دوبارہ بات چیت شروع کی جائے اور اسے حتمی شکل دے کر نافذ کیا جائے۔
۳- اخبارات کے موادومعاملات کی نگرانی کے لیے پریس کونسل تشکیل دی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں پریس کونسل کے قیام کا تجربہ کامیاب ہوسکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتا۔
۴- مغربی اور بھارتی چینلوں کے ایسے پروگراموں پر پابندی عاید کی جائے جو مذہبی‘ ثقافتی اور قومی اعتبار سے ضرر رساں ہوں۔ بالخصوص غیراخلاقی اور ہیجان انگیز مناظر کو قطعی طور پر سنسر کیا جائے۔
۵- ڈاکٹروں کی طرح صحافیوں سے بھی پیشۂ صحافت میں داخلے سے پہلے دیانت ، امانت اور قومی اقداروروایات اور دو قومی نظریے کی پاس داری کا حلف لیاجائے۔ یہ حلف ملکی جامعات کے شعبہ ہاے ابلاغ عامہ کی تعلیمی زندگی کے اختتام پر مستقبل کے صحافیوں سے لیا جاسکتا ہے۔
۶- اخبارات کو پابند کیا جائے کہ وہ اشتہارات کوصحافتی مواد پر ترجیح دے کر قارئین کے حق کو غصب کرنے سے بازرہیں۔
۷- اخبارات میں ایک آدھ استثنا سے قطع نظر مالکان نے انتظامی کے ساتھ ساتھ ادارتی امور پر بھی تصرف حاصل کرلیا ہے، جس کی وجہ سے ایڈیٹر کا ادارہ عملاً ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس سے صحافت میں پیشہ ورانہ انداز کار اور رویوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا اخبارات کے مالکان ایڈیٹرکو اس کے اختیارات تفویض کریں۔
۸- سرکاری معلومات تک رسائی کے قانون کو موثر بنانے کے لیے اخبارات کو اس قانون کے تحت حاصل سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے۔
۹- امریکا کے وفاقی تجارتی کمیشن (FTC)کے طرز پہ کمیشن یا محکمہ قائم کیا جائے جو مخربِ اخلاق اور مضر صحت اشیا کے اشتہارات پر کڑی نگرانی رکھے اور ایسے مشتہرین پر جرمانہ عاید کرے اور ان اشتہارات پر پابندی عاید کرے جو قومی اور اخلاقی زندگی کے لیے مضر ہوں۔
۱- ضمیرنیازی پری - ۱۹۴۷ئ‘ مسلم اینڈ پاکستان: آل ازناٹ لاسٹ ، مشمولہ دی سائوتھ ایشین سنچری ۱۹۹۹ئ-۱۹۰۰ئ‘ آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کراچی (۲۰۰۱ئ)
۲- ضمیرنیازی صحافت پابند سلاسل ،پاکستان اسٹڈی سنٹر، یونی ورسٹی آف کراچی (۲۰۰۵ئ)
۳- پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی اور فروغ ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (۲۰۰۳ئ)
۴- طاہرمسعود (مرتب) صحافت اور تشدد، کراچی یونی ورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن (۱۹۹۰ئ)
۵- برہان الدین حسن پس پردہ جنگ پبلشرز، لاہور (۲۰۰۵ئ)
۶- کیبل ٹیلی وژن ، مستقبل کا منظرنامہ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (۲۰۰۳ئ)
۷- ذرائع ابلاغ عامہ‘ ایک جائزہ (مرتّبہ: عصمت آرا) شعبہ ابلاغ عامہ، جناح یونی ورسٹی براے خواتین‘ کراچی (۲۰۰۴ئ)
۱۲ ربیع الاول کو دنیا بھر سے بڑی تعداد میں آنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ مغربی افریقہ کے ملک مالی کے ایک تاریخی شہر ٹمبکٹو میں جمع ہوں گے۔ صحراے اعظم کا وہ شہر جو دُوری و استغراب کے لیے ضرب المثل بن چکا ہے ‘کبھی پورے افریقہ میں تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہوتا تھا۔ سولہویں صدی کے اختتام پر صرف اس ایک شہر میں ۱۸۰ تعلیمی ادارے تھے جن میں دُوردراز سے آنے والے ہزاروں طلبہ زیرتعلیم تھے۔ پھر یہ شہر قبائلی ‘ خاندانی اور علاقائی جنگوں کی نذر بھی رہا لیکن کبھی اجنبی استعمار کے قبضے میں نہیں آیا۔ یورپی ممالک میں اس کی تہذیب و ثقافت اور وہاں پائے جانے والے سونے کے انباروں‘ ہاتھی دانت اور شترمرغوں کی کثرت کا ذکر آتا تو اکثر حکمرانوں کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔
اس تاریخی شہر کا دل چسپ سفر لیبیا کی طرف سے ملنے والی ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کے باعث اچانک ممکن ہوگیا۔ لیکن آیئے اس کی تفصیلات سے پہلے تہران میں ہونے والی القدس کانفرنس میں چلیں۔
۱۴ اپریل کو تہران میں تیسری عالمی القدس کانفرنس شروع ہونا تھی۔ اس میں شرکت کے لیے صبح اڑھائی بجے تہران کے نئے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ یہ نیا ایئرپورٹ جسے IKIA کا مخفف دیا گیا ہے تہران شہر سے ۳۵کلومیٹر کے فاصلے پر ساڑھے تیرہ ہزار ہیکٹر کے رقبے پر تعمیر ہونے والا جدید ترین ایئرپورٹ ہے۔ صحراے ٹمبکٹو سے نکل کر آنے سے اس کی جدت و خوب صورتی مزید بھلی لگ رہی تھی۔ ایئرپورٹ پر کانفرنس کی انتظامیہ شرکاے کانفرنس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ میں نے ملتے ہی ان سے معذرت کی کہ ہمارے باعث اتنی رات گئے آپ لوگوں کو زحمت ہوئی۔ مکمل ایرانی پردے میں ملبوس ایک خاتون شایستگی سے بولیں: یہ رات گئے تو نہیں صبحِ نو کا آغاز ہے۔ اس جذبہ پرور جملے سے سفر کی تھکن قدرے کم ہوتی محسوس ہوئی۔
کانفرنس کا اصل جمال وجلال کانفرنس کے شرکا کی فہرست سے سامنے آیا۔ فلسطین کی پوری قیادت وہاں موجود تھی۔ خالد المشعل (سربراہ حماس) ان کے نائب ڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق سے لے کر ارکانِ پارلیمنٹ کی بڑی تعداد‘ ڈپٹی اسپیکر اور سب سے نورانی وجود شہداے فلسطین کی مائوں کا تھا۔قارئین کو یاد ہوگا فروری کے ترجمان میںحماس کی نومنتخب رکن پارلیمنٹ اُم نضال کا ذکر کیا تھا۔ اچانک انھیں اپنے کامل وقار و متانت اور روحانیت کے ہالے میں جس نے بھی اپنے درمیان دیکھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پایا۔ میں اُم نضال سے اہلِ پاکستان کا سلام کہتے ہوئے عرض کر رہا تھا کہ آپ نے کائنات کی تمام مائوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے‘ پوری اُمت کے بچے آپ کے بچے ہیں۔ آپ نے اپنے تین جوان بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے شہادت کے سفر پر روانہ کر کے حضرت خنسائؓ کی یاد تازہ کردی… اسی دوران جرمنی سے آنے والے ایک شریک کانفرنس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن آبدیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ کی عظمت کے سامنے ہماری زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی ان کے گرد جمع ہونے لگے تو اُم نضال گویا ہوئیں: ’’میرے بیٹو! اگر اللہ تعالیٰ مجھے کائنات کے تمام دولت و ثروت اور نعمتیں بھی عطا کردے اور میں ساری نعمتیں اس کی راہ میں قربان کر دوں‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر عائد حق تو ادا نہیں ہوگا‘‘… آنکھیں مزید نمناک ہوگئیں۔ دلوں میں اداے فرض کا احساس مزید جوان ہوگیا۔ شرکاے کانفرنس میں ایک اور بوڑھی خاتون اُم محمد بھی فلسطین سے آئی تھیں جن کا شوہر اور جوان بیٹا بھی شہید ہوچکا ہے۔
یہ تیسری عالمی کانفرنس براے القدس و حقوق انسان درفلسطین‘ ربیع الاول کے مبارک ایام میں منعقد ہورہی تھی۔ شیعہ تاریخ کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ۱۷ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ عین انھی دنوں میں ایران نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس طرح یہ تین اہم عناصر یکجا ہو رہے تھے۔ ۱۴ اپریل کو پہلے کانفرنس کے سب شرکا نمازِجمعہ کے لیے تہران یونی ورسٹی کے وسیع و عریض میدان میں گئے۔ آیت اللہ جنتی کے خطبہ جمعہ سے پہلے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ خطاب کر رہے تھے: ’’امریکا ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایران‘ افغانستان یا عراق نہیں ہے اور پھر اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ افغانستان و عراق میں ہم اس کی قوت و کمزوری کے تمام پہلوئوں کا بغور مطالعہ کرچکے ہیں اور ان کی روشنی میں اپنی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔ اب ہمیں چھیڑنے کی حماقت وہی کرسکتا ہے جو ہلاکت و خودکشی پر تلا ہو۔
سہ پہر پانچ بجے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کانفرنس سے ایک روز قبل استنبول میں او آئی سی کے زیراہتمام ایک پارلیمانی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ تہران کانفرنس کے منتظمین کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہاں سے اکثر پارلیمانی وفود تہران بھی آجائیں اور یہاں پوری دنیا سے آئے ذمہ داران و عوامی نمایندگان سے مل کر فلسطین کے حوالے سے مضبوط موقف دنیا کے سامنے آجائے۔ ۱۶ممالک سے پارلیمانی وفود اپنے اپنے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں موجود تھے اور ان کے پرچم بھی کانفرنس ہال میں نمایاں تھے‘ لیکن پاکستان کی سرکاری نمایندگی نہیں تھی اس لیے قومی پرچم بھی نہیں لہراسکا۔ البتہ سیاسی نمایندگی موثر تھی اور مولانا فضل الرحمن‘ مولانا خان محمد شیرانی‘ علامہ ساجد نقوی‘ پروفیسر محمد ابراہیم‘ جناب سراج الحق اور بلوچستان سے مولانا عبدالرحمن نورزئی اور علامہ سرمدی موجود تھے۔ خود قاضی حسین احمد صاحب کی شرکت بھی یقینی تھی۔ منتظمین کا اصرار بھی تھا۔ سابق وزیرخارجہ اور آیت اللہ تسخیری سمیت کئی شرکاے کانفرنس ان کے بارے میں بار بار دریافت بھی کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان کے اندرونی حالات و مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ ملایشیا سے چیئرمین سینیٹ بھی موجود تھے اور ان کا تعارف کرواتے ہوئے ملایشیا کے دیگر ذمہ داران نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور چیئرمین سینیٹ پاکستان محمد میاں سومرو کی اہلیہ دونوں بہنیں ہیں یعنی دونوں بہنوں کے شوہر اپنے اپنے ملک میں چیئرمین سینیٹ ہیں۔
کانفرنس کے آغاز میں تلاوت و قومی ترانے کے بعد ایران کے روحانی رہبر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا مفصل خطاب تھا۔ انھوں نے کہا کہ عصرحاضر اسلامی بیداری کا دور ہے اور فلسطین اس بیداری کا دل ہے… دوسری طرف مطلق العنان وحشی پن ہے جو نسلوں کو ہلاک کر رہا ہے‘ چہار جانب تباہی پھیلا رہا ہے‘ اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور فرات سے نیل تک اپنی سرحدیں پھیلانے کا علَم بلند کر رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی و اقتصادی ہلاکت آفرینی کی تکمیل کے لیے عالمِ اسلامی کے بعض حکمرانوں کی کمزوری اور خیانت سے فائدہ اٹھا رہا ہے… لیکن اب اسے اچانک فلسطینی شیر کی بیداری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اسے ایک پُرعزم و انقلابی تحریک انتفاضہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج عالمِ اسلامی بیدار ہو رہا ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا شعار اُمت مسلمہ کے فہمیدہ عناصر کی اکثریت کا شعار بن گیا ہے… امریکی ذرائع ابلاغ جس لبرل جمہوریت کو علاج شافی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے اس کے کڑوے اور زہریلے اثرات نے پوری اُمت کے جسد کو بھسم کردیا ہے۔ آج جو کچھ عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ گوانٹامو‘ ابوغریب اور دنیابھر میں پھیلے خفیہ امریکی عقوبت خانوں اور اس سے پہلے غزہ اور مغربی کنارے میں ہورہا ہے اس نے آزادی اور حقوقِ انسانی کے بارے میں مغربی پروپیگنڈے اور امریکی انتظامیہ کے غرور و کمینگی کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے…
آج پورے عالمِ اسلامی کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ بنا لے۔ یہ وہ پُرسحر کلید ہے جو اُمت کے سامنے نجات کا دروازہ کھول دینے کی ضامن ہے… ہمیں استعماری تسلط اور مداخلت و تکبر سے نجات پانے کے لیے ایک اور قسم کا جہاد بھی کرنا ہوگا۔ یہ علمی‘ سیاسی اور اخلاقی جہاد ہے۔ ایرانی قوم نے گذشتہ ۲۷سال میں اس کا عملی تجربہ کیا ہے اور اس کے بہت شیریں ثمرات حاصل کیے ہیں… جہاد فلسطین میں کامیابی کی اصل شرط اپنے اصول و مبادی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ دشمن جھوٹے وعدے کرکے‘ دھوکا اور دھمکیاںدے کر ہمیں ان اصولوں سے دستبردار کرنا چاہتا ہے۔ خود ہمارے اندر سے بھی کچھ لوگ حکمت و تدبیر کا نام لے کر ہمیں اپنا اصولی موقف چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سورہ مائدہ کی آیت ۲۵ کے مصداق دشمن سے کوئی نفع نہیں پائیں گے۔… امریکا اور مغرب نے ثابت کردیا ہے کہ وہ شکست تسلیم کرلینے والوں اور دست بردار ہوجانے والوں پر رحم نہیں کرتے‘ اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں… دشمن کی قوت کو بڑھاچڑھا کر پیش کر کے ہمیں ڈرانے والے دشمن ہی کی چالوں کی تکمیل کرتے ہیں… ایران‘ عراق‘ شام اور لبنان کے خلاف امریکی سازشوں کی کڑیاں پورے مشرق وسطیٰ پر صہیونی سرپرستی میں اپنا قبضہ جمانے کے لیے ہیں لیکن اگر امریکا اپنی عقل اور وجدان سے کام لے تو وہ جان لے گا کہ خود اسے بھی تباہ کن گھاٹے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا… آخر میں فلسطینی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا : اے بہادر و جاں باز فلسطینی قوم کے لوگو! تم نے اپنے جہاد‘ صبر اور شان دار مزاحمت کے ذریعے پورے عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔ آپ کے شہدا ہمارے شہدا ہیں‘ آپ کا رنج و غم ہمارا رنج و غم ہے اور آپ کی نصرت و کامیابی ہماری نصرت و کامیابی ہے۔
خامنہ ای کے خطاب کے دوران اسٹیج پر صرف وہی بیٹھے تھے۔ صدرمملکت‘ چیف جسٹس اور اسپیکر یعنی ملک کی انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے سربراہ سامنے رکھی تین کرسیوں پر بیٹھے تھے اور پھر دیگر ملکی و غیرملکی ذمہ داران‘ کہیں بھی فوجی قیادت کا تسلط نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پہلے نمازِ جمعہ کے دوران ایک اور دل چسپ منظر دیکھنے کو ملا۔ نمازِجمعہ میںتقریباً پوری مرکزی فوجی قیادت موجود تھی۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کا خطاب بھی تھا لیکن جمعے کے پنڈال میںداخل ہونے سے پہلے فوجی جرنیلوں کو بھی دیگر تمام شرکا کی طرح اپنے بوٹ اُتارنے پڑتے ہیں۔ ان کے بوٹ انتہائی سلیقے اور ترتیب سے قطار در قطار شیلفوں میں لگے تھے اور اصل منظر یہ تھا کہ ہر فوجی جرنل کی تاروں اور بیج لگی ٹوپیاں (ہیٹ) ان بوٹوں کے اُوپر سجی تھیں یعنی فوجی جاہ حشمت کی نشان ٹوپیاں اور بوٹ رہ گئے تھے اور ان کے درمیان سے بندہ نکل کر اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہوکر رب کے حضور پیش ہوجاتے تھے۔
خامنہ ای کے خطاب کے بعد صدر محمود احمد نژادی کا خطاب تھا۔ انھوں نے بھی حسب معمول اپنے مخصوص انداز سے گفتگو کی۔صہیونی مظالم کے نتیجے میں تذلیلِ انسانیت کے ذکر کے بعد اپنے ایٹمی پروگرام کا ذکر کیا اور کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی اقوام و ممالک کی ترقی کے لیے لازمی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہر ملک اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اور ضروری توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ٹکنالوجی کا محتاج ہوگا۔ انھوں نے ایک بار پھر ہولوکاسٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تو شک ہوسکتا ہے اورہے‘ لیکن فلسطینیوں کے خلاف ہولوکاسٹ سے تو کسی کو انکار نہیں ہے۔ یہ قتلِ عام گذشتہ ۶۰ سال سے جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض یورپی حکومتیں خود اپنے مالی‘ صنعتی‘ زراعتی اور سیاسی مفادات کو صہیونی قوتوں کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی آزادی اور عزتِ نفس کو صہیونیوں کے قدموں میں روند رہی ہیں۔ میں اس سلسلے میں یورپی اقوام سے جلد مخاطب ہوں گا۔
صہیونی ریاست کے بارے میں انھوں نے عزم و یقین سے کہا کہ دنیا مانے یا انکار کرے صہیونی ریاست اپنے خاتمے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی مزاحمت ایمان و آزادی سے سرشار تازہ و تناور درختوں میں بدل رہی ہے‘ جب کہ صہیونی ریاست ایک خشک و بوسیدہ تنہا درخت ہے جو مزاحمت کی آندھی سے جلد اپنی جڑوں سے اکھڑنے کو ہے۔
دونوں رہنمائوں کے بعد فلسطینی پارلیمنٹ کے اسپیکر عبدلعزیز دویک کا غزہ سے سیٹلائٹ پر براہِ راست خطاب ہوا کیوں کہ صہیونی انتظامیہ نے انھیں فلسطین سے نکلنے سے منع کردیا تھا۔ ان کے خطاب میں حماس کا جو موقف تھا وہ تو تھا ہی‘ لیکن ان کے کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے سے فلسطینی اتھارٹی کی اصل حقیقت آشکار ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی مل رہا تھا کہ اگر عزم مصمم ہو تو کوئی طاقت راستے مسدود نہیں کرسکتی۔ اسپیکر بنفسِ نفیس نہیں آسکے تو اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی براہِ راست خطاب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداللہ شلح کا خطاب تھا‘ خالد المشعل سمیت کئی فلسطینی دھڑوں کے سربراہوں کا خطاب تھا اور ونزویلا و کیوبا کے اسپیکرز کا بھی خطاب تھا۔ تقاریر کا یہ سلسلہ تین روز جاری رہا۔ اس دوران مختلف جانبی ملاقاتیں‘ نشستیں‘ انٹرویوز اور پروگرامات ہوئے۔ ایرانی ٹی وی کی اُردو سروس نے سراج الحق صاحب اور راقم کو اسٹوڈیو لے جاکر آدھ گھنٹے کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو براہِ راست نشر کیا۔ کئی عرب و اجنبی ذرائع ابلاغ سے گفتگو ہوئی۔
تیسرے روز صبح کا سیشن ختم ہوا تو حماس کے احباب نے اطلاع دی کہ کانفرنس میں مختلف اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران کی ایک ملاقات خالدالمشعل کی رہایش گاہ پر ہو رہی ہے۔ خالدمشعل اور دیگر کئی فلسطینی رہنمائوں کو صدارتی گیسٹ ہائوس میں رکھا گیا تھا جو اسلامی سربراہی کانفرنس سے چند روز قبل ہنگامی طور پر لیکن شان دار انداز سے تعمیر کیا گیا تھا۔
خالدالمشعل نے اس محدود نشست میں دنیابھر میں ہونے والے اپنے دوروں کے نتائج سے آگاہ کیا‘ نومنتخب فلسطینی حکومت کو درپیش چیلنجوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خود صدر محمود عباس کے ذریعے ہی ہماری راہ میں کانٹے بوے جارہے ہیں۔ سابق وزرا اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے اپنے دفاتر کا فرنیچر تک اُٹھا کر لے گئے ہیں‘ کاپی پنسل تک نہیں چھوڑ کر گئے اور کئی کئی کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔ فلسطینی حکومت کا خزانہ خالی ہی نہیں ایک ارب ۷۰کروڑ ڈالر کا مقروض ہے۔ مختلف کمپنیوں کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کے بلوں کی ادایگی نہیں کی گئی وہ بھی ہم سے تقاضا کر رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے ماہانہ اخراجات ۱۷ کروڑڈالر ہیں جن میں سے ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر صرف تنخواہوں پر اُٹھ جاتے ہیں۔ خزانے میں ابھی تک مارچ کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ صہیونی انتظامیہ تقریباً ۷کروڑ ڈالر‘ فلسطینی سامان تجارت پر ٹیکسوں کے ذریعے جمع کرتی ہے جو معاہدے کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کو ادا ہونا چاہییں جو گذشتہ حکومت کو ملتے رہے ہیں۔ اب وہ بھی روک لیے گئے ہیں۔ عالمی قوتوں کی طرف سے مدد بند کردی گئی ہے اور مسلم ممالک کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کو کچھ نہ دیں اور دیں بھی تو فلسطینی صدر کے ذریعے دیں۔ فلسطینی صدر کسی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے پر تو تیار نہیں‘ لیکن امدادی رقوم اور اختیارات اپنی ذات میں جمع کرنے پر مصر ہیں۔ ہم نے پوری کوشش کی‘ چار ہفتے مذاکرات کرتے رہے کہ الفتح ہمارے ساتھ شریک ہو‘ ایک قومی حکومت تشکیل پائے لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا ہے ۔وہ ہماری حکومت منتخب کرنے پر فلسطینی قوم کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اپنے بھائیوں کی مدد سے اپنی منزل بھی کھوٹی نہیں ہونے دیں گے اور نہ اپنے موقف اور حقوق سے دستبردار ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اس مرحلے پر عوامی سطح پر بھی مالی امداد کی ضرورت ہے جو اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے لیکن بابرکت اور عالمی دبائو سے محفوظ ہوتی ہے۔ خالدالمشعل کی گفتگو پر تبصرے اور تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ راقم نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی عرض کیا کہ آپ اپنے صدر اور عالمی برادری کو یہ بھی باور کروا دیں کہ اگر ہمیں ناکام کرنے کی کوششیں اسی طرح جاری رہیں تو ہم یہ حکومت ناکام کرنے والوں کے منہ پر دے ماریںگے اور اپنی تمام تر توجہ جہاد و جہدِآزادی پر مرکوز کردیں گے۔
میں نے یہی گزارش کانفرنس میںگفتگو کے دوران بھی کی تو اکثر شرکا نے تجویز کی تائید تالیوں سے کی۔ کانفرنس میں شریک تمام فلسطینی تنظیموں نے باہم اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے افغانستان کے تجربے سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ ہمارے تمام افغان رہنما اتحاد کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے‘ اس کا تقاضا بھی کرتے تھے لیکن سب اپنے اپنے موقف پر بھی بضد رہے اور دشمن کی چالوں کا بھی شکار ہوتے رہے اور آج صورت حال سب کے سامنے ہے۔ فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کو بھی یاد کروانے کی کوشش کی کہ دونوں کے دشمن یک جان ہیں اور دونوں کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔
خالدالمشعل کی اس اپیل پر کہ اب وعدوں اور اقوال کو افعال میں بدلنے کی ضرورت ہے‘ ایرانی وزیرخارجہ منوچہرمتقی نے فلسطینی حکومت کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تو ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اسی طرح اسپیکر حداد عادل نے عوام سے عطیات دینے کی اپیل کرتے ہوئے ایک اکائونٹ نمبر کھول دیے جانے کی خبر سنائی تو اس پر بھی بھرپور تحسین کی گئی۔
کانفرنس میں فلسطین کے بعد سب سے نمایاں شرکت عراقی قیادت کی تھی جن میں سے اکثریت ان شیعہ لیڈروں کی تھی جو کسی نہ کسی طور حکومت عراق کا حصہ رہے ہیں یا ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ عراق کی اسلامی تحریک ’حزب اسلامی‘ کے سربراہ بھی تھے۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ عراق و امریکا کے حوالے سے گفتگو رہی۔ ایران امریکا تعلقات پر بھی تقریباً ہر شریکِ کانفرنس تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ کچھ کے بقول ایران پر امریکی حملہ قریب آن لگا ہے۔ ایک عراقی شیعہ لیڈر کے بقول امریکا تو شاید یہ حملہ نہ کرسکے لیکن اسرائیل کے ذریعے حملہ کروا سکتا ہے اور یہ سانحہ آیندہ دو تین ماہ میں بھی ممکن ہے۔ کچھ سفارتی حلقے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ ایران نے یورنییم کی افزودگی صرف ۵ئ۳ درجے تک کی ہے جو عالمی ضوابط کے مطابق قابل مواخذہ نہیں بلکہ پُرامن مقاصد کے لیے مفید و ضروری ہے اس لیے اس بنیاد پر حملے کا جواز آسان نہ ہوگا۔ یہ بات بھی زیرغور آئی کہ روس اور چین ایران پر کسی امریکی بھی حملے کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنیں گے‘ کیونکہ اس حملے سے دنیا بھر میں پٹرول کی ترسیل اس بری طرح متاثر ہوگی کہ کوئی بھی ملک اسے برداشت نہ کر پائے گا۔ سب سے زیادہ وزن اس تجزیے کو دیا جا رہا تھا کہ ایک تو عراق میں روز افزوںامریکی مشکلات‘ دوسرے ایران کی جنگی و جہادی تیاریاں امریکا کو کسی طور اجازت نہیں دیں گی کہ وہ ایران پر حملے کی حماقت کرسکے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی گیا تو یہ امریکا کی آخری حماقت ہوگی جس کے بعد قدرت شاید اسے مزید مہلت نہ دے۔
ایران پر اقتصادی پابندیوں کا امکان قدرے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی ایرانی ذمہ داران خندہ لبی سے‘ امریکا ایران سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے پر امام خمینی کا تبصرہ دہراتے ہیں‘ انھوں نے کہا تھا: ’’اگر امریکا نے کبھی کوئی نیکی ہے تو وہ یہی ہے کہ اس نے ہم سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے‘‘۔ اقتصادی پابندیوں کی صورت میں ہمیں زیادہ تیزی سے مکمل خودکفالت کی منزلیں طے کرنے کا موقع ملے گا۔
ایک تجزیہ نگار نے امریکا کے دہرے معیاروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کے زمانے میں امریکا خود چاہتا تھا کہ ایران کو ایٹمی توانائی حاصل ہو۔ ۱۹۷۵ء میں ہنری کسنجر نے قرار داد ۲۹۲ پر دستخط کیے جس کے مطابق تہران و واشنگٹن کے درمیان ایٹمی تعاون شروع ہوا۔ اس سے ایک برس بعد جیرالڈفورڈ نے پلوٹونیم علیحدہ کرنے کی تنصیبات لگانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے ایٹم بم بنانے کی راہ آسان تر ہوئی۔ اس وقت ڈک چینی اور رامزفیلڈ بھی اس ایرانی ایٹمی صلاحیت کے لیے بہت فعال تھے تاکہ اس کے ذریعے سردجنگ میں امریکا اپنے حلیف ایٹمی ممالک کی صف میں اسرائیل کے ساتھ ایران کو بھی شامل کرلے۔ یعنی مسئلہ ایٹمی توانائی حاصل ہونا یا نہ ہونا نہیں‘ اسرائیل اور بھارت کی طرح کے وفاداروں اور ہم مشربوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو پرویزمشرف جیسا خدمت گزار بھی بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے گا۔
خیر بات ہو رہی تھی امریکا اور ایران کی‘ لبنان کے ایک ہفت روزہ الامان نے پال روجرز کے ایک مقالے کا ترجمہ حال ہی میں شائع کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف بڑھتی ہوئی تلخی کا ایک سبب عراق میں بڑھتی ہوئی امریکی مصیبتیں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ایران اس ضمن میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس کے بقول امریکا ساڑھے سات کروڑ ڈالر ایرانی حکومت کے خلاف قائم مختلف فارسی ٹی وی چینلوں کے ذریعے ابلاغیاتی پروپیگنڈے پر خرچ کر رہا ہے۔
جنگ کے روز بروز گہرے ہوتے بادلوں کے باوجود ایرانی عوام اور ذمہ داران میں کہیں اس امر کا تاثر نہیں ملا کہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہیں‘ بلکہ سب اس بات پر یک زبان تھے کہ امریکا کو ایران پر حملے کا جواب صرف ایران اور خلیج ہی میں نہیں‘ دنیاکے ہراس خطے سے دیا جائے گا جہاں امریکی مفادات ہیں کیونکہ انقلاب کے ۲۷سالوں میں ایران نے اپنے ہزاروں نہیں لاکھوںبہی خواہ پانچوں براعظموں میں پیدا کیے ہیں۔ ۵۰ ہزار طلبہ تو ہر وقت صرف قم میں زیرتعلیم رہتے ہیں۔
ان تمام تجزیوں‘ ملاقاتوں اور تقاریر کے بعد دو جامع اعلامیے کیے گئے۔ ایک تو تمام فلسطینی گروپوں کی طرف سے باہم اتحاد و تعاون پر اتفاق کے بارے میں‘ اور دوسرا القدس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے قبلہ اوّل کے لیے مطلوبہ موقف پر مضبوطی سے ثابت قدم رہنے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی دامے درمے سخنے قدمے مدد کرنے کا عہد مصمم کرنے کے بارے میں۔ یہ پورا جامع اعلامیہ کانفرنس کی ویب سائٹ www.icpalestine.ir پر دستیاب ہے۔
سوال: الحمدللہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہے۔ اکثر وزرا معیّن سرکاری اوقات سے زیادہ وقت سرکاری اور عوامی امور کی انجام دہی میں گزارتے ہیں‘ یعنی سرکاری اوقات کار تو صبح ۸بجے سے ۳۰:۲ بجے دوپہر تک ہیں لیکن وزرا اور ان کا ماتحت عملہ بالعموم مغرب اور رات گئے تک دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے۔ وزرا کے ساتھ کام کرنے والے ماتحت عملے کو سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں کام کرنے کا کوئی اضافی معاوضہ یا مشاہرہ نہیں ملتا۔ وزرا کا ماتحت عملہ اس اضافی ڈیوٹی کے لیے عموماً وزرا کے دورہ جات کا ٹی اے‘ ڈی اے وصول کرتا ہے‘ یعنی اگر کوئی وزیرپشاور سے باہر کے کسی شہر یا علاقے کا دورہ کرتا ہے تو اس دورے کا ٹی اے‘ ڈی اے‘ وزیر کے دفتر کا ماتحت تمام عملہ یہ ظاہرکرکے وصول کرتا ہے کہ متعلقہ اہل کار بھی اس دورے میں متعلقہ وزیر کے ہمراہ تھا‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عملہ اُس دورے کا ٹی اے‘ ڈی اے بالعموم وصول کرتا ہے جو دورہ وزیر نے کیا ہوتا ہے‘ یعنی غیرحقیقی یا جھوٹے کلیم بالعموم نہیں کیے جاتے۔ راقم کو اس حوالے سے مکمل اطمینان نہیں ہے۔ ایک عملی دشواری یہ بھی ہے کہ اگر مذکورہ بالا ٹی اے‘ ڈی اے اضافی اوقات میں کام کرنے والے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا تو اس کی بندش سے عین ممکن ہے کہ اکثر ماتحت عملہ اضافی اوقات کے کام سے ہاتھ کھینچ لے جس سے یقینا ایک بڑی بدانتظامی پیدا ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ سے شریعت کی رو سے وضاحت مطلوب ہے کہ کیا ہم اس ٹی اے‘ ڈی اے کے حق دار ہیں یا نہیں ہیں؟
جواب: آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے اس کے مطابق وزرا کا ماتحت عملہ جو اُن کے ساتھ اضافی وقت دیتا ہے‘ سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں بلامعاوضہ کام کرتا ہے‘وہ اس کی تلافی اس شکل میں کرتا ہے کہ متعلقہ وزیر کے ساتھ دورے پر نہ ہونے کے باوجود‘ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وزیر کے ساتھ دورے پر تھااور دورے پر اپنے آپ کو ظاہر کرکے ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرتا ہے۔ زائد وقت کا بدل مذکورہ صورت میں حاصل کرتا ہے مگر عملاً صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس طرح جھوٹ بولنے اور جھوٹا بدل لینے کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ شریعت میں جھوٹ کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی ہے کہ اپنا جائز حق وصول کرنے میں کمزوری کا مظاہرہ جُبن، یعنی بزدلی دکھانا ہے۔
آدمی اپنے حق پرقدرت پانے کے بعد اسے چھوڑ دے تو یہ کمال اخلاق کا ہے لیکن اگر آدمی اپنے حق کے حاصل کرنے پر قدرت ہی نہ حاصل کرسکے تو یہ ایک عیب ہے اور اس کی وجہ سے آدمی کی حیثیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے وزرا کے ماتحت عملے کو چاہیے کہ زائد وقت کے معاوضے کا مطالبہ کرے اور جس قدر معاوضہ بنتا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کو ادا کرے___ خصوصاً‘ جب کہ سرحد کی صوبائی حکومت اپنے صوبے کو ماڈل اسلامی صوبہ بنانے کی دعوے دار ہے۔ حکومت کے لیے بھی یہ نادر موقع ہے کہ اگر اس سلسلے میں قانون موجود ہے تو اس پر عمل درآمد کرے‘ اور اگر قانون موجود نہیں تو قانون سازی کرے تاکہ لوگوں کو ان کا قانونی حق حاصل کرنے میں سہولت ہو۔
ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرنے کی موجودہ شکل میں تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور اصل حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ گناہ اسی کو کہا جاتا ہے کہ آدمی اسے چھپاکر کرے یعنی لوگوں کے سامنے اس کو علانیہ طور پر نہ کرسکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کی نشانی پوچھی گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’نیکی حسنِ اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جس سے تیرے ضمیر میں خلجان پیدا ہو اور آپ لوگوں کے سامنے اس کے اظہار کو ناپسند کریں‘‘ (مشکٰوۃ)۔ لہٰذا موجودہ شکل کو فوری طور پر ترک کرکے جائز اور معقول طریقے کو اپنایا جائے اور اپنے حق کے لیے پوری قوت سے آواز بلندکرکے اسے قانونی طور پر حاصل کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ایک حدیث میں قربِ قیامت کی تقریباً ۷۰ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ قیامت کے قریب قرآنی آیات کو گا کر‘ یا لَے (tone) میں‘ یعنی غنائیہ طرز پر پڑھا جائے گا‘ گویا اس کی مخصوص تلاوت یا قرأت سے ہٹ کر۔ میرے پاس ایک کیسٹ ہے جس میں بچوں کے لیے بہت اچھی تربیتی نظمیں ہیں جو دف کے ساتھ گائی گئی ہیں۔ ایک نظم میں ’بسم اللہ ‘اورسورئہ فاتحہ کی پہلی آیت کو لَے سے پڑھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظم میں تکبیر کو سبحان اللہ‘ والحمدللہ‘ واللہ اکبر‘ اور پہلے کلمے کو بھی لَے سے پڑھا گیا ہے۔ کیا ان تمام نظموں کا سننایا یاد کروانا صحیح ہے یا ان سے گریز کرنا چاہیے؟
ج: قرآن پاک کو تجوید اور خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہیے کہ یہ سنت ہے۔ گانے کی طرز پر پڑھنا اور گانے کی لَے میں تلاوت کرنا‘ یعنی غنائیہ طرز پر‘ یہ قرآن پاک کی شان کے منافی ہے۔ قرآن پاک کا اپنا لہجہ ہے‘ حجازی‘ مصری‘ پانی پتی اوردوسرے مروجہ لہجے‘ انھی کے مطابق قرآن پاک کو پڑھنا چاہیے۔ اس طرح دوسرے اذکار اور تسبیحات کو بھی وقار اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ قرآن پاک کی تلاوت اس احساس اور تصور کے ساتھ کی جائے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو میری زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے اور اس تصور کے وقت آدمی تمام مصنوعی چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ گانا ہو یاکوئی دوسری بناوٹ‘ وہ ایک مومن کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ اس پر خشوع وخضوع طاری ہوتا ہے اور وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو رب تعالیٰ کے مشاہدے یا مراقبے کے تصور سے طاری ہونی چاہیے۔ گانے کی طرز کے ساتھ تلاوت کرنا یا تسبیحات پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت کے قریب گناہوںکی کثرت ہوگی۔ گناہ کائنات کی بیماری ہیں جس طرح موت سے پہلے انسان بیماریوں کی زد میں آتا ہے اور بیماری انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور آدمی لاعلاج ہوجاتا ہے تو موت آجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت اس وقت برپا ہوگی جب شرک‘ کفر‘ فسق و فجور‘ ناجائز اور غلط کاموں کی انتہا ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ ’’قیامت کے قریب ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے ایمان والے سب کے سب فوت ہوجائیں گے‘ اس کے بعد بدترین لوگ زمین پر رہ جائیں گے۔ تب ان بدترین لوگوں پر قیامت برپا ہوگی‘‘۔ جو لوگ نیکی اور تقویٰ سے سرشار اور اس کے داعی ہیں وہ اس کائنات کی زندگی ہیں‘ اور جو فاسق و فاجر اوربدکردار ہیں‘ ظالم و جابر ہیں وہ کائنات کی موت ہیں۔ (ع - م)
س: اسماے حسنیٰ مبارک الفاظ ہیں جن کی فضیلت بھی ہے اور برکت بھی لیکن ایک خاص اسم کو پابندی کے ساتھ پڑھنا غلو کہلاتاہے۔ آج کل مختلف جرائد‘ اخبارات اور کتب میں مختلف مسائل کے حل کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کوئی خاص اسم الٰہی اتنی بار اتنے وقت کے لیے پڑھیں تو آپ کا فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا غلو میں شامل ہے‘ جب کہ احادیث میں بیماری کے لیے سورۃ الفاتحہ کا دم کرنا ثابت ہے؟
ج: اللہ کے اسماے حسنیٰ کا ذکر ایمان کی نشوونما اور ترقی کے لیے ہونا چاہیے اور اس لیے بھی کہ آخرت میں اس کا اجر ملے۔ اس کے ساتھ ان اسماے الٰہیہ‘آیاتِ قرآنیہ اور احادیث میں منقول کلمات اور آثار کا دم کرنا بھی جائز ہے جو احادیث سے ثابت ہوں اور تجربے سے معلوم ہو کہ اس دم سے فلاں بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ جو دم حدیث سے ثابت نہ ہو‘ تجربہ اس کی پشت پر نہ ہو‘ اس کا دم کرنا توکّل کے منافی ہے۔ حدیث میں ان لوگوں کی تعریف بیان ہوئی ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور موہوم قسم کے دموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس طرح کا غلو نہیں کرنا چاہیے کہ دموں کی دکان ڈال کرکے بیٹھا جائے۔ ہر چھوٹی بڑی بات میں دم کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ اس کے بجاے دعا کو وظیفہ بنانا چاہیے جس کی قرآن و حدیث میں بار بار تاکید آئی ہے‘ واللّٰہ اعلم۔ (ع - م)
س: الیکٹرانک ڈیٹا (disk / cd / dvd) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر جیسی ہے؟ وہ سی ڈی جس میںقرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن لکھا ہوا محفوظ ہو‘ بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں اس کا چھونا کیسا ہے؟ کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا یا تفاسیر کا مطالعہ کرنا‘ جب کہ وضو یا غسل کی حاجت ہو‘ جائز ہے؟
ج: آپ کا دینی جذبہ قابل قدر ہے‘ بالخصوص روز مرہ معاملات میں شریعت سے رہنمائی کی فکر دامن گیر ہونا۔ آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:
سی ڈی جس میں قرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن پاک لکھا ہوا محفوظ ہو‘ چونکہ وہ محسوس نہیں ہوتا‘ حروف نظر نہیں آتے‘ ان کے اوپر کور بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے‘ اس لیے اسے وضو اور غسل کے بغیر بھی ہاتھ لگاسکتے ہیں خصوصاً ایسی صورت میں جب کور چڑھا ہوا ہو۔
کمپیوٹر پر قرآن پاک کو دیکھ کر پڑھنا جائز ہے‘ جب کہ آدمی باوضو یا بے وضو ہو لیکن جنابت کی حالت میں کمپیوٹر پر قرآن پاک کی تفسیر کا مطالعہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن تلاوت نہیں کی جاسکتی‘ واللّٰہ اعلم! اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع اور عملِ صالح کی توفیق سے نوازے‘ آمین!(ع - م)
س : آج کل نقلی زیورات کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر اصلی کا گمان ہوتا ہے۔ کیا ان زیورات کا استعمال شریعت کی رو سے جائز ہے؟ کیا اسے دھوکادہی کے زمرے میں نہیں لیا جائے گاکہ آپ دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں کہ آپ نے اصلی زیور پہن رکھا ہے‘ جب کہ فی الواقع وہ اصل نہیں ہیں؟
ج: جہاں تک نقلی زیورات کا تعلق ہے ان کا استعمال بھی زینت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اصل زیور پہن رکھا ہے تو یہ اس کی نظر کا معاملہ ہے۔ اس میں آپ پر کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے تو بتا دیں کہ یہ مصنوعی ہے۔ اس بات سے اس کی قدروقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور نہ ایسا کرنا دھوکا دہی میں شمار ہوگا۔واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
______________
علم حدیث کے مختلف پہلوئوں پر فاضل مصنف کے ۱۲ خطبات کا یہ مجموعہ: حدیث‘ علومِ حدیث‘ اس کی تدوین و تاریخ اور محدثین کی ناقابلِ فراموش خدمات کی تفصیل پیش کرتا ہے۔ ان خطبات کا اہتمام اکتوبر ۲۰۰۳ء میں ادارہ الہدیٰ‘ اسلام آباد نے کیا تھا جس میں خواتین کی کثیرتعداد شریک تھی۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اس سے پہلے علومِ قرآن اور قرآن حکیم کی تاریخ و تفسیر سے متعلق مختلف موضوعات پر اسی طرح ۱۲ خطبات کا مجموعہ پیش کرچکے ہیں۔
جیساکہ محترم غازی صاحب نے دیباچے میں بتایا ہے‘ زیرنظر خطبات کی اصل مخاطب وہ خواتین اہلِ علم ہیں جو قرآن مجید کے درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ چنانچہ فہمِ قرآن‘ درسِ قرآن اور تفسیرقرآن کے سلسلے میں ان خطبات یا مضامین کی حیثیت ایک نہایت مفید علمی و عالمانہ معاون کی ہے۔
خطبات کے عنوانات سے ان کی جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پہلا خطبہ حدیث کے تعارف پر ہے۔ مابعد خطبوں میں حدیث کی ضرورت و اہمیت‘ حدیث اور سنت بطور ماخذِ شریعت‘ روایتِ حدیث اور اقسامِ حدیث‘ علمِ اسناد و رجال‘ جرح و تعدیل‘ تدوین حدیث اور کتب و شرح حدیث پر نہایت فاضلانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخری دو خطبات میں برعظیم پاک و ہند میں علمِ حدیث کے ارتقا‘ معروف محدثین کی خدمات اور پھر دورِ جدید میں علومِ حدیث کا تذکرہ ہے۔ بظاہر یہ ۱۲ لیکچر یا خطبے یا تقاریر ہیں جو غازی صاحب نے مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے تھے لیکن حدیث سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہوگا جس کا ذکر ان خطبات میں نہ آیا ہو۔ ایک باب میں ’رحلہ‘ (سفر کرنا) کا ذکر ہے۔ یہاں علمِ حدیث کے لیے صحابہ‘ تابعین اور تبع تابعین کے اسفار کا ذکر ہے‘ ان کے فوائد پر بحث ہے‘ پھر سفر کے طریقوں‘ سفرکے آداب اور رحلہ کے ضمن میں محدثین کی قربانیوں کی روداد ہے۔ آخری باب میں‘ علومِ حدیث کے ضمن میں دورِجدید میں مستشرقین کی خدمات کا ذکر ہے ‘ مثلاً: معروف فرانسیسی مصنف ڈاکٹر مورس بکائی‘ جنھوں نے اپنی تحقیق The Bible, Quran and Scienceکے نام سے پیش کی ہے۔ انھوں نے حدیث پر اپنے اعتراضات ‘ایک لمبی تحقیق کے بعد واپس لے لیے۔ غرض ہر لیکچر کے ذیل میں اس موضوع سے متعلق دل چسپ تفصیل بیان کی گئی ہے۔ گویا یہ فقط محاضرات نہیں ہیں‘ ان کی حیثیت حدیث پر ایک چھوٹے سے دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) کی ہے۔
ان خطبات کو صوتی تسجیل (ٹیپ ریکارڈنگ) سے صفحۂ قرطاس پر اتارا گیا۔ غازی صاحب کا حافظہ قوی اور تقریر کا انداز و اسلوب نہایت دل چسپ اور دل نشین ہے۔ ہرخطبے کے آخر میں شامل سوالات و جوابات نے محاضرات کو اور زیادہ بامعنی اور دل کش بنادیاہے۔ کتاب اچھے طباعتی معیار پر شائع کی گئی ہے۔ حدیث اور متعلقاتِ حدیث پرایسی جامع معلومات اُردو زبان میں شاید ہی کہیں اور میسر آسکیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مسلمانوں کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس میں جناب اقبال حسین کی یہ کتاب مسلمان اُمت کے لیے ایک آئینے کی مانند ہے۔
مصنف نے بجاطور پر لکھا ہے کہ زوال کا عمل مسلسل جاری ہے مگر آنکھیں چرانے اور حقیقت کا سامنا نہ کرنے کا رویہ بھی قائم ہے۔ عقیدے اور عمل میں فرق کے باعث ہی مسلمانوں کی سلطنتیں روبہ زوال ہوئیں اور اب بھی اسی فرق نے موجودہ کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ آج کے (بیش تر) مسلمان نہ تو غوروفکر کرتے ہیںاور نہ اپنے پاس دستیاب وسائلِ پیداوار ہی کو مفید مقاصد کے لیے استعمال میں لاتے ہیں‘ نہ قرآن اور تاریخ سے ہی سبق لینے کو تیار ہیں۔ مصنف کے مطابق: جدیدیت (modernism) پر مغرب کا استحقاق نہیں‘ اُمت کو بھی اسے اپنانا ہوگا۔
اس کتاب میں ۲۵ عنوانات کے تحت تقریباً تمام اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اسلامی سوچ کا جدیدیت سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے بشرطیکہ یہ جدیدیت مذہب مخالف نہ ہو (ص۶۸-۶۹)۔ ایک تصویر میں‘ ایک صحرا میں اُونٹوں کے قافلے رواں دواں ہیں اور نیچے درج ہے: ’’دورِ جدید کے چیلنجز کا مقابلہ اس طرح کے نہایت پرانے ذرائع رسل و رسائل سے کیا جا سکتا ہے؟‘‘ مصنف لکھتا ہے کہ تیرھویں سے انیسویں صدی کے دوران (۱۲۶۶ئ-۱۸۵۰ئ) تعلیمی‘ اقتصادی‘ سماجی اور اخلاقی حوالوں سے مسلمان روبہ زوال تھے۔ ان کی تین عظیم سلطنتیں (عثمانی‘ صفوی اور مغل) ۱۵۵۰ء تا ۱۷۰۷ء کافی پھلی پھولیں (ص ۱۴۸)‘ تاہم مجموعی طور پر تنزل ہوتا رہا۔ بعدازاں مسلمان اصلاح پسندوں کی کاوشیں شروع ہوئیں جن میں جمال الدین افغانی سرفہرست ہیں۔ سرسیداحمد خان اور علامہ اقبال بھی ایسے ہی مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔
’قرآن کی طرف رجوع‘، ’فلسفۂ زندگی‘، مسلمان ماتحت‘ ، ’دورِ جدید میں جہاد‘، ’جدیدیت کا مسلم نمونہ‘، ’اسلام، سائنس اور فلسفہ‘ ،’تاریخ سے سبق‘، ’مسلم سلطنتوں کا زوال‘، ’مسلم دنیا کی خامیاں‘، ’دنیا کا زوال‘، ’مرد مومن‘، ’اسلام انسانیت کا مذہب‘،’مسلمانوں کا مغرب سے واسطہ‘ کے عنوانات کے تحت ان ابواب میں مفیدمعلومات کے ساتھ ساتھ اچھا تجزیہ موجود ہے۔
حوالوں اور اشاریے سے مزین یہ کتاب تاریخ اور اُمت کے امور سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک مفید چیز ہے۔ انگریزی زبان نسبتاً ادبی نوعیت کی استعمال کی گئی ہے۔ مجلد‘ خوب صورت سرورق اور اعلیٰ طباعتی معیار۔ (محمد الیاس انصاری)
تفسیر کے عام انداز سے مختلف اس کتاب میں قرآن کے مطالب تک رسائی کے ساتھ ساتھ قرآن سے عملی تعلق اور پوری زندگی کو دین کے رنگ میں رنگنے کی فکر کی گئی ہے۔ ایک پیراگراف کا ترجمہ دے کر‘ ہر آیت کی تشریح مع گرامر دی گئی ہے اور اس میں دیگر مروجہ تفاسیر سے حسب موقع اقتباسات دیے گئے ہیں اور حکمت و بصیرت کے عنوان سے اس کے ضروری نکات درج کیے گئے ہیں۔ توجہ سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو مطالب اور منشا خوب ذہن نشین بلکہ قلب نشین ہوسکتے ہیں۔ ص ۵۱۰ پر والناس کی حکمت و بصیرت کے نکات کے بعد‘ مزید ۱۲۲ صفحات میں ۲۳ مختلف عنوانات (مثلاً قرآن کے فنی محاسن‘ اسماء القرآن‘ امثال القرآن‘قرآنی محاسن) پر معروف علماے قرآن کی چیدہ چیدہ تحریریں دی گئی ہیں۔کتاب مصنف کی غیرمعمولی محنت و نظر‘ قرآن سے والہانہ تعلق اور پڑھنے والوں کی فوز و فلاح کے لیے ان کے درد دل کی آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں توفیقِ مزید دے۔ یہ کتاب شیخ عمر فاروق کی سابقہ کاوشوں کی طرح (فون پر رابطہ کرکے طریق کار معلوم کر کے) بطور ہدیہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ (مسلم سجاد)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی زندگی کا آخری دور‘ تاریخ اسلام کا وہ دورِ ابتلا ہے جس میں ایک طرف اقتدار پرستوں اور ہوس کے پجاریوں نے ظلم وستم میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی‘ اور دوسری طرف توحید کے علَم برداروں اور شمع رسالتؐ کے سچے پروانوں نے ایثار و قربانی کی داستان رقم کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس دورِ ابتلا میں فِسق وفجور اور دین حق کے خلاف سازشوں کی وہ آندھی چلی کہ ایک کے بعد ایک عظیم اور روشن چراغ گل ہوتا چلا گیا‘ اپنوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون سے زمین مسلسل سرخ ہوتی رہی اور دین حق کے دشمنوں نے جی بھرکر دشمنی کے جوہر دکھائے۔ حضرت عثمان‘ حضرت علی‘ حضرت امام حسن‘ حضرت امام حسین‘ حضرت مصعب بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ کی شہادتوں کے دل دوز واقعات‘ اور جنگِ جمل‘ کوفیوں کی مسلسل بے وفائیاں‘ سانحہ کربلا‘ مکہ معظمہ پر یزیدی فوج کی یلغار‘ واقعہ حَرَّہ‘ مدینہ منورہ میں مسلم بن عقبہ کے ہاتھوں تین دن تک مسلمانوں کا قتلِ عام‘ فتنۂ خوارج‘ مختارثقفی کا عروج اور اس کا انجام‘ اور پھر حجاج کے ہاتھوں مکہ معظمہ پر حملہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ وہ اندوہناک سانحات ہیں جنھوں نے تاریخ اسلام کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور اُمت مسلمہ کو وہ نقصانات پہنچائے کہ جن کی تلافی کبھی ممکن نہ ہوسکی۔
سیرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ ، جناب طالب الہاشمی کی اسی دور سے متعلق ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے دورِخلافت کے بعد پہلی صدی ہجری کی پانچویں‘ چھٹی اور ساتویں دہائی میں مسلمانوں پر گزرنے والے خونیں حادثات کی بالعموم اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی داستانِ شجاعت اور بالآخر ۷۳ ہجری میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں ان کی شہادت‘ اس سفاک کے ہاتھوں ان کی لاش کی بے حُرمتی اور اس دردناک منظر کو دیکھ کر ان کی عظیم ماں حضرت اسمائؓ کے بے مثال صبر‘ جذبۂ ایمانی اور قوتِ استقلال کی کہانی کو بالخصوص اختصار لیکن بڑے جامع انداز میں بیان کردیا ہے۔ انھوں نے اس عظیم صحابی رسولؐ کی سیرت و شجاعت کو جس طرح رقم کیا ہے‘ اس سے ان کی پوری زندگی اور عظیم قربانی کا پورا نقشہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے قاری کو اچھی طرح احساس ہونے لگتا ہے کہ دین حق کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نبی کریمؐ کے گھرانے اور صحابہ کرامؓ نے جو قربانیاں دیں ان کی مثال نہیں ملتی ‘اور واقعی ہر کربلا کے بعد اسلام کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے اور کفر ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ کتابیات نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ (سعید اکرم)
زیرنظر کتاب میں محترم قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان کی دینی و سیاسی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ جائزہ قاضی صاحب کی شخصیت‘ سیاسی جدوجہد و حکمت عملی‘ ملکی و بین الاقوامی سیاست کے مختلف مراحل میں کردار‘ کشمیر‘ افغانستان‘ خلیج اور عراق پر موقف اور عملی جدوجہد‘ عالمی اسلامی تحریک کے احوال اور ’قاضی حسین احمد کے نظریات‘ جیسے عنوانات پر مشتمل ہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں ہرمطبوعہ چیز اور ان کی ہر تحریر و بیان کو جمع کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اس طرح ان کی شخصیت‘ افکار اور جدوجہد کے بارے میں ایک تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے‘ تاہم موضوع کا حق ادا کرنے کے لیے ان سب کا مطالعہ کرکے مقالہ لکھنے کی ضرورت قائم ہے۔ (م - س )
زیرنظر کتاب اسلام کے قدیم علمی ورثے سے اسلام کے نظامِ احتساب پر آٹھویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) کے سربرآوردہ صوفی عالم امیرکبیر سید علی ہمدانی‘ المعروف شاہِ ہمدان کی تصنیف: ذخیرۃ الملکوک کے ایک باب کا ترجمہ ہے۔چند موضوعات: امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ محتسب‘ احتساب کے سات درجات‘ محتسب علیہ (جن کا احتساب کیا جائے)‘ محتسب فیہ (قابلِ احتساب کام)‘ شرائط وغیرہ۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے بہت سے اہم حوالے اور عمدہ استدلال ہے۔ ایک اہم نکتہ: احتساب کی شرط عصمت نہیں‘ یہ تعصبات عامہ ہے۔ لہٰذا فاسق کو چاہیے کہ دوسرے فاسق کو فسق سے منع کرے (ص ۲۲)۔ منکراتِ عامہ کے خاتمے کے لیے عملی تجاویز بھی دی گئی ہیں‘ مثلاً عوام کو دین کے تقاضوں سے روشناس کرانے کے لیے ایک معلم وفقیہہ کا ہر بستی کی سطح پر تقرر‘ ہرفرد اپنے دائرے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔کتاب کے مطالعے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یورپ کے محدود احتسابی عمل کو شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے ہمہ گیر و ہمہ جہت عملِ احتساب سے کوئی نسبت نہیں۔ اسلاف کے علمی ورثے کو نئی نسل تک منتقلی کی ایک اچھی کاوش ہے۔ (امجد عباسی)
دنیا میں انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع‘ زندگی ہے مگر زندگی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ منزل کا تعین ہو اور صحیح راستے پر سفر ہو۔ سلیم خان نیازی کے موضوعات‘ زندگی سے قریب تر ہیں اور اس کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ مختصر لکھنے کے لیے زیادہ محنت اور کاوش درکار ہوتی ہے۔ یہ مضامین مختصر ہیں لیکن اس اختصار کے پیچھے برسوں کی ریاضت اور غوروفکر موجود ہے۔ تحریر میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے جسے پڑھتے ہوئے لطف و مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ بایں ہمہ جگہ جگہ دانش کے موتی بھی نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ۱- دکان یا دفتر میں قرآن کی تلاوت کرنا باعثِ برکت و ثواب ہے لیکن یہ مقامات تلاوت کے لیے نہیں بلکہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ۲- گاڑی تیل سے چلتی ہے اور انسان تھپکی سے‘ اچھے کام پر شاباش نہ دینا پرلے درجے کی کنجوسی ہے۔ ۳- یورپ برہنہ ٹانگیں دیکھ کر مطمئن ہوتا ہے‘ جب کہ اسکارف دیکھ کر ہراساں ہوجاتا ہے۔ ہم مرد کو اِن ڈور گیم‘ جب کہ عورت کو اوپن ایئر تھیٹر بنانا چاہتے ہیں۔
زنبیلکی تحریروں میں فکر اور معانی کی کئی پرتیں موجود ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ اس کا حاصل کیا ہے؟ کامیابی اور ناکامی کے اصل معانی کیا ہیں؟ وطن عزیز میں مستقل اور دیرپا پالیسیاں کیوں وضع نہیں ہوتیں؟ مصنف نے ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ زنبیل کے سامنے نہ صرف پاکستانی معاشرہ ہے بلکہ اُمت مسلمہ کے لیے بھی درد و تڑپ موجود ہے۔(محمد ایوب للّٰہ)
مسلم کمرشل بنک کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ۱۹۹۶ء سے عرفان الحق صاحب نے جہلم میں ہرجمعرات کو محفل درس کا آغاز کیا جس کے ذریعے مخلوق خدا کو اپنے خالق سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام کی تعلیمات کو زندگی سے متعلق کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ یہی ریکارڈ شدہ گفتگو خوب صورت مجلد کتابوں کی شکل میں اعلیٰ معیار پر پیش کی گئی ہے۔ اللّٰہ الصمد میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ شمع اُجالا جس نے کیا سیرت رسولؐ کے مختلف گوشوں اور آپؐ کی اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ منشور حق خطبہ حجۃ الوداع کے مختلف پہلوئوں کو ۲۲ موضوعات کے تحت مفصل بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے تذکیر ہوتی ہے اور دین کی تعلیمات صحیح تناظر میں سامنے آتی ہیں۔ (م - س )
’پاکستان کی خارجہ پالیسی‘ ، ’سنت رسولؐ کی توہین‘ ، ’ڈور سے قتل‘ اور ’افغانستان: امریکی سرپرستی میں بھارتی نفوذ‘ (اپریل ۲۰۰۶ئ) وہ مضامین ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد خون کھول اُٹھتا ہے۔لکھنے والوں نے تو قوم کی رہنمائی اور حکمرانوں کی آنکھوں پر بندھی پٹی اُتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب تمام دینی قوتوں‘ محب وطن حلقوں پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ آنے والے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی اجتماعی طور پر کوشش کریں۔
’پاکستان کی خارجہ پالیسی (اپریل ۲۰۰۶ئ) میں موجودہ قیادت کو اپنی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھنے کا جو صدق دلانہ مشورہ دیا گیا ہے اسے حُسنِ ظن میں ہی شمار کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ موجودہ قیادت (اُوپرسے نیچے تک) ایک غلط کار نظام کی تابع فرمان ہے‘ اُس سے کسی کارِخیر کی توقع عبث ہے۔
’سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم نمایندگی‘ (فروری ۲۰۰۶ئ) اور اس پر سٹیو سیلر کا تبصرہ کہ تحریکِ آزادیِ نسواں کا ایجنڈا (فیمی نسٹ ایجنڈا) واضح ہے‘ اور وہ ہے حد سے بڑھا ہوا‘ مرد مخالف معاشرہ تشکیل دینا‘ بڑا چشم کشا ہے۔اسی پس منظر میں فیمی نسٹ تحریک کے ہراول ملک فرانس کے بارے میں یاسمینہ صالحہ کامضمون: ’فرانس: خواتین میں گھروں کی طرف واپسی کا رجحان‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ) بڑا بروقت اور معنی خیز ہے۔ گویا آخرالذکر کا جواب ہے مشرقی اٹلانٹک کی طرف سے مغربی اٹلانٹک کو کہ اب عورتیں یہ مانگتی ہیں اور ان کا انجینیرنگ اور سائنس میں کم نمایندگی پانا کوئی غیرمتوقع امر نہیں ہے۔ یہ صنف نازک کا فطری رجحان ہے۔
’دارالکفرکی پارلیمنٹ کی رکنیت‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ)کے بارے میں ڈاکٹر انیس احمد کے جواب اور ’فقہ الاقلیات ‘(فقہ اسلامی کا ایک نیا باب) از محی الدین غازی میں اس نوعیّت کے دیگر پیچیدہ مسائل کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کے دلائل وزنی اور قابلِ غور ہیں۔
’شیطانی کارٹون: تہذیبی کروسیڈ‘ اور ’فیصلہ کن مسئلہ نبوت محمدیؐ، (مارچ ۲۰۰۶ئ) دونوں مضامین میں اُمت مسلمہ کی تبلیغی ذمہ داریوں پر زور دیا گیا ہے۔ آپ نے سچ کہا کہ ’اصل سہارا اللہ کا ہے‘ مگر اللہ کے سہارے پر کھویا ہوا اعتمادکیسے بحال ہو؟ حبِّ دنیا کے مرض کا کیا علاج کیا جائے؟ فرانس کی خواتین کے متعلق یاسمینہ صالحہ کے مضمون سے دل مزید پریشان ہوگیا کہ غیرمسلم خواتین کو تو منزل کا نشان مل رہا ہے لیکن مسلمان خواتین اپنی اقدار سے دُور ہوتی جارہی ہیں‘ اور اظہارذات ان کا فلسفۂ حیات بنتا جارہا ہے۔
’فقہ الاقلیات‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں مسلم اقلیتوں کے مسائل کے پیش نظر ایک نئی فقہ کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اسلام دشمنی میں ملّت واحدہ کی مانند متحد ہے اور مغرب کے موجودہ اقدامات کی وجہ سے مسلمان حراساں ہیں‘ اور وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں اور راہیں مسدود ہو رہی ہیں۔ عملاً مسلمان مغلوب اور زیردست ہیں۔ مغرب سے صرف تعلیم‘ٹکنالوجی لیں‘ تجارت کریں اور دعوت کا فریضہ انجام دیں نہ کہ مستقل سکونت اختیار کر کے نظامِ باطل کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں‘ اور اپنی آیندہ نسلوں کو مغربی تہذیب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
ترجمان میں عالمی موضوعات زیادہ ہوتے جا رہے ہیں‘ قومی موضوعات پر توجہ کی ضرورت ہے۔
ترجمان القرآن میں ’سنابل العلم‘ اور ’خیرخواہ‘ کے نام سے جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ بلاشبہہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مشعلِ راہ ہے۔ اگر ان کو کتابی شکل دی جائے تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔
گذشتہ دنوں ایک ایسی صاحبِ خیر شخصیت سے ملاقات کا موقع ملا جو معروف دنیاوی لحاظ سے نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں‘ یعنی بہترین بنگلہ ‘ کاریں‘ خدام وغیرہ۔ انھوں نے بتایا کہ میرے والد مجھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ کاروبار میں بنکوں کا سود ترک کردو۔ میں کہتا تھا: ابا جان اس کے بغیر کاروبار کیسے ہوسکتا ہے؟ انتقال سے چند روز پہلے انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب تک میں نصیحت کرتا تھا‘ اب وصیت کرتا ہوں کہ بنکوں سے سودی کاروبار چھوڑ دو۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ اس پر عمل کروں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر عمل کیا اور آپ یقین کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی سال میں اتنا دیا جتنا میں نے گذشتہ ۲۰سال میں کمایا تھا۔ قرآن نے سود کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ میں اس کے حرف حرف پر یقین رکھتا ہوں۔ کاش! سب لوگ خصوصاً وہ لوگ جو معیشت چلانے کے ذمہ دار ہیں سود ترک کرنے کا حقیقی فیصلہ کریں‘ اور پھر اس کی برکات سے سارے معاشرے اور عام شہریوں کے بہرہ مند ہونے کا نظارہ کریں۔
مولاناآزاد قلم کے شہسوار‘ اُردو کے بلندپایہ ادیب اور فن خطابت کے ساحر ہونے کی وجہ سے آغاز شباب ہی میں ۱۰ کروڑ دلوں پر حکومت کرچکے ہیں۔ مگر ’کانگریسی سیاست‘ میں اپنی پوری شخصیت دے دینے کے بعد ’احیاے دین کا کام تو چھوٹا ہی تھا، ’مسلمان قوم‘ بھی ان سے بگڑگئی۔ اس ٹریجڈی کے پس منظر میں بزمی صاحب نے مولانا کی بلندپایہ شخصیت پر یہ مقالہ لکھا ہے۔ اس مقالے کو انھوں نے لکھنا تو تنقید و تبصرے کی نیت سے چاہا تھا‘ مگرکرگئے قصیدہ گوئی‘ اور قصیدے کے خطوط پر جو سیرت نگاری ہو وہ لٹریچر میں کسی مفید چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔ ان کے مقالے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بزمی صاحب کبھی تو مسلمانوںسے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ: (۱) موصوف کی قابلیتوں کی وجہ سے قوم ان پر اعتماد کرے اور ان کے پیچھے چلے۔ کبھی یہ کہ (۲) وہ مولانا پر ترس کھائے اور ان کی لغزشوں کو نظرانداز کردے ‘اور کبھی یہ کہ (۳) ان کی سیاست کو ناپسند بھی کرتی ہو تو ان کی تذلیل نہ کرے۔ شاید وہ یہ تینوں باتیں ہی کہنا چاہتے ہیں مگر اپیل کے پہلے جز سے عقل عام کبھی اتفاق نہیں کرسکتی۔ لیڈرشپ کے لیے محض ذہنی بلندی اور کردار کی مضبوطی ہی دیکھنے کی چیز نہیں ہے‘ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ذہن اور کردار کس نصب العین کی خدمت میں مصروف ہیں‘ اور یہ ظاہر ہے کہ مولانا نہ تو مسلم قوم کے موجودہ نصب العین کا ساتھ دے رہے ہیں‘ نہ اسلام کے مقصد اعلیٰ ہی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس حال میں ’نہ مسلم قوم پرست‘ ان کی قیادت سے راضی ہوسکتے‘ نہ خداپرست مسلمان مطمئن! اپیل کا دوسرا جز بھی بے معنی ہے۔ اجتماعی تحریکوں کے معاملے میں یہ چاہنا کہ لوگ کسی بڑے آدمی کا لحاظ کرکے اس کی غلطیوں پر ترس کھائیں‘ ایک مضحکہ انگیز مطالبہ ہے۔ البتہ تیسرے جز کے ساتھ ہم پورے زورسے متفق ہیں اور مولانا کی توہین و تذلیل کرنے والوںکا رویہ ہرگز پسند نہیں کرتے۔ جس کی قیادت بھی ناپسندیدہ ہو اُس کی پورے زور سے تردید کیجیے اور اس کے اصولوں کے خلاف معقول طریقوں سے شدید جنگ لڑیئے‘ مگر اس اصولی جنگ کے لیے گالی اور خفیف الحرکتی کے اسلحے کا استعمال کسی طرح روا نہیں ہے۔[مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ابوسعید بزمی پر تبصرہ]۔(’مطبوعات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۲۸، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۶۵ھ، مئی ۱۹۴۶ئ، ص ۶۴)