مضامین کی فہرست


جون ۲۰۱۴

اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فرداً فرداً اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوں جو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت ِ الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔

وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں۔ وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں۔ اسلام کا نظامِ فکرونظریۂ حیات ان کی رَگ رَگ میں ایسا پیوستہ ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر اُن میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو، اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان واعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہلِ ایمان سے الگ ہوجائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کارفرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہمدردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدتِ روح اور وحدتِ عمل ہو۔ وہ قیادت اور اقتدار کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہوجائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہوکر رہ جائیں اور وہ اس مقصد ِعظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے، یعنی دین کا سہارا ہے جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔

ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن روزے کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانے سے اسلام کا رُکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہان تک نفسِ روزے کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزولاینفک ہی رہا۔ تمام انبیا علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔

اس سے یہ بات خودبخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریقِ تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔

زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رُکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکنِ صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظامِ تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کَسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں۔ یہ غیرمعمولی نظامِ تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفسِ انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے ، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔

روزے کے اثرات

روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوعِ سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک پورے دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصداً حلق سے اُتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضاے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حُرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحے پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہوجاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حُرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینے تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے ۳۰دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کرلی جائے تو ہر اس چیز سے رُک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔

احساسِ بندگی

اس نظامِ تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقے سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنادینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خودمختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender) کردے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جاں ہے، اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔

دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوندعالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریے کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امرواقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجے کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیامِ بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپرڈال دینی چاہیے۔ اپنی آزادی و خودمختاری کے غلط اِدعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہوجانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلے میں وہی رویّہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلے میں ہونا لازم ہے۔

یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلے میں خودمختار اور غیرجواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے، اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو  اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساسِ بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دُنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت ِ کفر سے نکل کر حالت ِ اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے، اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہردم تازہ، ہروقت زندہ اور ہر آن کارفرما رہے ۔ کیونکہ اس احساسِ شعور کے دل سے دُور ہوتے ہی خود مختاری و غیرذمہ داری کا رویّہ عود کرآتا ہے، اور  کفر کی وہ حالت پیدا ہوجاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔

جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلیں مقصد انسان کے اندر ’اسلام‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے ، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اس کو تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی ۱۱مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اُوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل ۱۲،۱۲؍۱۳،۱۳گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رُکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں اور اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہروقت طاری ہے۔ اس پورے ایک مہینے کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر غائب ہوجاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطے کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔

اطاعتِ امر

احساسِ بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرے۔

ان دونوں چیزوں میں ایسا فطری اور منطقی تعلق ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے، نہ ان کے درمیان کبھی تناقض (inconsistency) کے لیے گنجایش نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اطاعت دراصل نتیجہ ہی اعترافِ خداوندی کا ہے۔ آپ کسی کی اطاعت کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی خداوندی نہ مان لیں، اور جب حقیقت میں کسی کی خداوندی آپ مان چکے ہیں، تو اس کی بندگی و اطاعت سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتے۔ انسان نہ اتنا احمق ہے کہ خواہ مخواہ کسی کا حکم مانتا چلا جائے درآں حالے کہ اس کے حقِ حکمرانی کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اور نہ انسان میں اتنی جرأت موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنے قلب و روح میں جسے حاکمِ ذی اقتدار سمجھتا ہو، اور جسے نافع و ضار اور پروردگار مانتا ہو، اس کی اطاعت سے منہ موڑ جائے۔ بس درحقیقت خداوندی کے اعتراف اور بندگی و طاعت کے عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے، اور یہ عین عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہر پہلو سے کامل توافق ہو۔

آقائی و خداوندی میں توحید لامحالہ بندگی و طاعت میں توحید پر منتج ہوگی، اور آقائی و خداوندی میں شرک کا نتیجہ لازماً بندگی و اطاعت میں شرک ہوگا۔ آپ ایک کو خدا سمجھیں گے تو ایک ہی کی بندگی بھی کریں گے۔ دس کی خداوندی تسلیم کریں گے تو بندگی و طاعت کا رُخ بھی ان دسوں کی طرح پھرے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ خداوندی دس کی تسلیم کر رہے ہوں اور اطاعت ایک کی کریں۔

ذاتِ خداوندی کا تعین لامحالہ سمت ِ بندگی کے تعین پر منتج ہوگا۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ خداوند ایک کومانیں اور اطاعت دوسرے کی کریں۔ تعارض کا امکان زبانی اعتراف اور واقعی بندگی میں تو ضرور ممکن ہے، مگر قلب و روح کے حقیقی احساس و شعور اور جوارح کے عمل میں ہرگز ممکن نہیں۔ کوئی عقل اس چیز کا تصور نہیں کرسکتی کہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہے ہیں اس کے بجاے آپ کی بندگی کا رُخ کسی ایسی ہستی کی طرف پھر سکتا ہے جس کا بندہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو نہ سمجھتے ہوں۔ بخلاف اس کے عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس طرف بھی آپ کی بندگی کا رُخ پھر رہا ہے اُسی کی خداوندی کا نقش دراصل آپ کے ذہن پر مرتسم ہے، خواہ زبان سے آپ اس کے سوا کسی اورکی خداوندی کا اظہار کررہے ہوں۔

خداوندی کے اعتراف اور بندگی کے احساس میں کمی بیشی لازماً اطاعت ِامر کی کمی بیشی پر منتج ہوگی۔ کسی کے خدا ہونے اور اپنے بندہ ہونے کا احساس آپ کے دل میں جتنا زیادہ شدید ہوگا اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اس کی اطاعت کریں گے، اور اس احساس میں جتنی کمزوری ہوگی اتنی اطاعت میں کمی واقع ہوجائے گی، حتیٰ کہ اگر یہ احساس بالکل نہ ہو تو اطاعت بھی بالکل نہ ہوگی۔

ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف، واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا مدّعا اللہ کی خداوندی کا اقرار کرانے اور اس کے سوا ہر ایک کی خداوندی کا انکار کرا دینے سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرے۔ جب وہ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ [آگاہ رہو اللہ ہی کے لیے ہے اطاعت ِ خالص۔الزمر۳۹:۳] کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اطاعت خالصاً و مخلصاً صرف اللہ کے لیے ہے، کسی دوسری مستقل بالذات اطاعت کی آمیزش کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ جب وہ کہتا ہے کہ:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ۹۸:۵) اور نہیں حکم دیے گئے سواے اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین۔

تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرنے پر انسان مامور ہے اور اس کی بندگی کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے کی اطاعت مخلوط نہ کرے۔ جب وہ کہتا ہے کہ:

قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال ۸:۳۹) لڑتے رہو اُن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔

تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی اطاعت پوری کی پوری اللہ ہی کے لیے وقف ہے اور ہر اس طاقت سے مسلمان کی جنگ ہے جو اس اطاعت میں حصہ بٹانا چاہتی ہو۔ جس کا مطالبہ یہ ہو کہ مسلمان خداوندعالم کے ساتھ اس کی اطاعت بھی کرے، یا خداوندعالم کے بجاے صرف اسی کی اطاعت کرے۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط (الفتح۴۸: ۲۸) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کردے اسے سارے دین پر۔

تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو، اطاعت اور بندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور سارے پہلوئوں کے ساتھ اطاعت ِ الٰہی کے نیچے آجائے، جس کی فرماں برداری بھی ہو، خداوندعالم کی اجازت کے تحت ہو، اور جس فرماں برداری کے لیے وہاں سے حکم یا سند ِ جواز نہ ملے اس کا بند کاٹ ڈالا جائے، یہ اس دین حق اور اس ہدایت کا تقاضا ہے جو اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔

اس تقاضے کے مطابق خواہ انسان کے ماں باپ ہوں، خواہ خاندان اور سوسائٹی ہو، خواہ قوم اور حکومت ہو، خواہ امیر یا لیڈر ہو، خواہ علما اور مشائخ ہوں، خواہ وہ شخص یا ادارہ ہو جس کی انسان ملازمت کرکے پیٹ پالتا ہے، اور خواہ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشات ہوں، کسی کی اطاعت بھی خداوندعالم کی اصلی اور بنیای اطاعت کی قید سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اس کی خداوندی کا اقرار کرچکا اور جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کو خالص کرلیا، وہ جس کی اطاعت بھی کرے گا، اللہ ہی کی اطاعت کے تحت رہ کر کرے گا۔ جس حد تک جس کی بات ماننے کی وہاں سے اجازت ہوگی اسی حد تک مانے گا، اور جہاں اجازت کی حد ختم ہوجائے گی وہاں وہ ہرایک کا باغی اور صرف اللہ کا فرماں بردار نکلے گا۔

روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت ِ خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اُسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے ، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اُسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہرانسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑسکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیّت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھاجاتی ہے اور ۷۲۰گھنٹے کی طویل مشق و تمرین سے روزے دار کے دل پر کالنقش فی الحجر یہ سکّہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے ، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے، اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔

اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰ دن تک روزانہ ۱۲،۱۲؍ ۱۴،۱۴ گھنٹے تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے، تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔

اطاعت ِ امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہراُس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو، روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہو اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ، ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلاگیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ:

من لم یدع قول الزور والعمل بہٖ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ (بخاری، کتاب الصوم) جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔

جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اورپھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوئے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماؤکم من قائم لیس لہ من قیامہ الاسھر(سنن الدارمی) کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

یہی بات ہے جس کو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔

یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنینؓ! آپؓ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا: تو ایسے موقعے پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے۔ حضرت ابی ؓ نے کہا: بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔

زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط ، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات (temptations) ، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھِرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت ِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا، یہی تقویٰ ہے، اور یہی تقویٰ  پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوّی دوا ہے جس کے اندر خداترسی و راست رَوی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے، مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے ، اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعت ِ امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے، تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی ۱۱مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج، ثواب اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہوکر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے، تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنہ بعشر امثالھا الٰی سبع مائۃ ضعف قال اللّٰہ تعالٰی الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ(متفق علیہ) آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰ گنی سے ۷۰۰ گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔

یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حد و حساب ہے۔ آدمی اُس سے تقویٰ حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجے سے لے کر اُوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنے تک وہ جاسکتا ہے بلکہ بلانہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ وقبول پر منحصر ہے کہ روزے سے تقویٰ حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے۔ اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہوجائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ ۱؎کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔

تعمیرِسیرت

یہ تقویٰ ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیرکٹر اسلام ہرمسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقویٰ کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل و وضع بنالینا، چند مشہور و نمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے، بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآنِ مجید انسانی طرزِخیال و طرزِعمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:

ایک قسم وہ ہے جس میں انسان:

  1. دنیوی طاقتوں کے ماسوا کسی بالاتر اقتدار کو اپنے اُوپر نگران نہیں سمجھتا، اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے کسی فوق البشر حاکم کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے۔
  2. دنیوی زندگی ہی کو زندگی، دنیوی فائدے ہی کو فائدہ اور دنیوی نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس بنا پر کسی طریقے کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف دنیوی فائدے اور نقصان ہی کے لحاظ سے کرتا ہے۔
  3. مادی فائدوں کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی فضائل کو بے وقعت سمجھتا ہے، اور مادی نقصانات کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی نقصانات کو ہلکا خیال کرتا ہے۔
  4. کسی مستقل اخلاقی دستور کی پابندی نہیں کرتا، بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے خود ہی اخلاقی اصول وضع کرتا ہے اور دوسرے موقعے پر خود ہی ان کو بدل دیتا ہے۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان:

  1. اپنے آپ کو ایک ایسے بالاتر حکمران کا تابع اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے جو   عالم الغیب والشہادت ہے، اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے ایک روز اپنی دنیوی زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دینا ہوگا۔
  2. دُنیوی زندگی کو اصل حیاتِ انسانی کا صرف ایک ابتدائی مرحلہ سمجھتا ہے اور ان فوائد و نقصانات کو جو اس مرحلے میں ظاہر ہوتے ہیں عارضی اور دھوکا دینے والے نتائج خیال کرتا ہے، اور اپنے طرزِ عمل کا فیصلہ ان مستقل فائدوں اور نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے جو آخرت کی پایدار زندگی میں ظاہر ہوں گے۔
  3. مادی فائدوں کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی فضائل کو زیادہ قیمتی سمجھتا ہے، اور مادی نقصانات کی بہ نسبت اخلاقی و روحانی نقصانات کو شدید تر خیال کرتا ہے۔
  4. ایک ایسے مستقل اخلاقی دستور کی پابندی کرتا ہے جس میں اپنی اغراض و مصالح کے لحاظ سے اس کو ترمیم و تنسیخ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔

ان میں سے پہلی قسم کے طرزِخیال و طرزِعمل کا جامع نام قرآن نے فجور۱؎ رکھا ہے، اور دوسرے طرزِ خیال و عمل کو وہ تقویٰ ۲؎ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میں تقویٰ کی ظاہری اشکال تو کہیں نظر آسکتی ہیں مگر تقویٰ کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقویٰ کے فکری اجزا میں سے کسی جُز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقویٰ کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے۔ دنیا کے ہرمعاملے اور ہرمسئلے کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہرموقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔

ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہلِ فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی، اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں، اس کے اخلاقیات میں، اس کے معاشیات میں، اس کے نظامِ تعلیم و تربیت میں، اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویے میں، غرض اس کی ہرچیز میں فجور کی روح کارفرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر    نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کردیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصولوں پرچلے گا۔

اسی طرح تقویٰ بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہلِ تقویٰ کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے رہنما ہوتے ہیں، تو اس کے پورے اجتماعی رویے میں ہرحیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرزِعمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کردیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پایدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہرحال میں اصولِ حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی مدِّمقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ، بلکہ اُوپر جو خدا موجود ہے و ہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔

اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’فجور‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کردینا چاہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے، تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔  اس کام کے لیے وہ نوعِ انسانی میں سے ان لوگوں کو چُن چُن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحانِ طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رجحان (Bent of Mind) رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔

اسے دراصل ضرورت ان لوگوںکی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جن کو قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود اُن کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس، کسی عدالت اور کسی راے عام کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہرحال میںا نھیں دیکھ رہی ہے، جنھیں خوف ہو کہ ایک عدالت کے سامنے بہرحال انھیں جانا ہے، جو دنیوی منافع کے بندے، ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوندعالم کے دیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصولِ اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو، جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایانِ کار بندگیِ حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیِ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میں معاملہ برعکس ہو۔

پھر اس کو جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ بے حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی ان کو اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یکسوئی ہو کہ ہرقسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا توکّل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیرطلب اور دُور رس نتائج کے لیے خداوندعالم پر بھروسا کرسکیں، خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے    اس کے لیے ایسے ہی قابلِ اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔

تقویٰ کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پایداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائوپیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے، تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو، مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض، مثلاً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہو گے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہروقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ راے عام اپنے دبائو سے اس کو اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اس کو روکنے والا کوئی نہیں، اور اس بات کا حساب لینا تو کسی راے عام، یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضاے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔

ایسی حالت میں جو شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے، غور کیجیے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات اُبھرتی ہیں:

  1. اس کو خداوندعالم کی ہستی کا، اس کے عالم الغیب ہونے کا، اس کے قادرمطلق ہونے کا، اور اس کے سامنے اپنے محکوم اور جواب دہ ہونے کا کامل یقین ہے، اور اس پوری مدت میں، جب کہ وہ روزے سے رہا ہے اس کے یقین میں ذرا تزلزل نہیں آیا۔
  2. اس کو آخرت پر، اس کے حساب کتاب پر اور اس کی جزا اور سزا پر پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین بھی کم از کم ان ۱۲،۱۴ گھنٹوں میں برابر غیرمتزلزل رہا ہے، جب کہ وہ اپنے روزے کی شرائط پر قائم رہا۔
  3. اس کے اندر خود اپنے فرض کا احساس ہے۔ وہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے۔ وہ اپنی نیت کا خود محتسب ہے، اپنے دل کے حال پر خود نگرانی کرتا ہے۔ خارج میں قانون شکنی یا گناہ کا صدور ہونے سے پہلے جب نفس کی اندرونی تہوں میں اس کی خواہش پیدا ہوتی ہے اسی وقت وہ اپنی قوتِ ارادی سے اس کا استیصال کردیتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ  پابندیِ قانون کے لیے خارج میں کسی دبائو کا وہ محتاج نہیں ہے۔
  4. مادیت اور اخلاق و روحانیت کے درمیان انتخاب کا جب اسے موقع دیا گیا تو اس نے اخلاق و روحانیت کو انتخاب کیا۔ دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی۔ اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان و تکلیف کو اس نے گوارا کیا، اور آخرت کے نفعے کی خاطر دنیوی مضرت کو قبول کرلیا۔
  5. وہ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ اپنی سہولت دیکھ کر اچھے موسم، مناسب وقت اور فرصت کے زمانے میں روزہ رکھے، بلکہ جو وقت قانون میں مقرر کردیا گیا ہے اسی وقت روزہ رکھنے پر وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے خواہ موسم کیسا ہی سخت ہو، حالات کیسے ہی ناسازگار ہوں اور اس کی ذاتی مصلحتوں کے لحاظ سے اس وقت روزہ رکھنا کتنا ہی نقصان دہ ہو۔
  6. اس میں صبر، استقامت، تحمل، یکسوئی، توکّل اور دنیوی ترغیبات و تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اس حد تک موجود ہے کہ رضاے الٰہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کیا گیا ہے۔ اس کام کے دوران میں وہ رضاکارانہ اپنی خواہشاتِ نفس کو روکتا ہے۔ سخت گرمی کی حالت میں پیاس سے حلق چٹخا جا رہا ہے، برفاب سامنے موجود ہے، آسانی سے پی سکتا ہے، مگر نہیں پیتا۔ بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر     نہیں کھاتا۔ جوان میاں بیوی ہیں، خواہشِ نفس زور کرتی ہے، چاہیں تو اس طرح  قضاے شہوت کرسکتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چلے، مگر نہیں کرتے۔ ممکن الحصول فائدوں سے یہ صرفِ نظر، اور ممکن الاحتراز نقصانات کی یہ پذیرائی اور خود اپنے منتخب کیے ہوئے  طریقِ حق پر ثابت قدمی کسی ایسے نفعے کی اُمید پر نہیں ہے جو اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہونے والا ہو، بلکہ ایسے مقصد کے لیے ہے جس کے متعلق پہلے ہی نوٹس دے دیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اس کے حاصل ہونے کی اُمید ہی نہ رکھو۔

یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں اُبھرنی شروع ہوتی ہیں۔ جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب ۳۰دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے، اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی ۳۰،۳۰ روزے ہرسال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلّت میں پیوست ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یکسر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقویٰ کے راستے پڑجائے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریقِ تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کے بجاے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۶۴-۹۲)

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپؐ نے فرمایا:لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ مبارک مہینہ، وہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جس نے اس میں بھلائی کا نفلی کام کیا گویا اس نے ایک فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا گویا اس نے دوسرے مہینے میں ۷۰فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور غم خواری کا مہینہ ہے اور وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا، یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہوگا اور اس کی گردن آگ سے آزاد ہوگی اور اسے روزے دار کے روزے کے مثل اجر بھی ملے گا بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر آدمی کے پاس افطار کے لیے سامان نہیں ہوتا جس سے روزے دار کو روزہ افطار کرائے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس آدمی کو بھی دیتے ہیں جو دودھ کے گھونٹ پر اور پانی کے گھونٹ پر افطار کرائے، اور جس نے روزے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔ جس نے اس مہینے میں اپنے مملوک کے کام میں تخفیف کی اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور دوزخ کی آگ سے اسے آزاد کردے گا۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بطورِ خاص خطاب فرمانا، اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسے   عبادت گزار گروہ کو رمضان میں عبادت پر اُکسانا اور انھیں ترغیب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے مسلمان تو بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اس ماہِ مبارک کو اپنے لیے غنیمت جانیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت اور ہدایات کے جتنے پہلو تھے وہ اپنے اس خطاب میں ارشاد فرما دیے۔لیلۃ القدر کا تذکرہ، پھر نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ۷۰ فرضوں کے برابر اجر، صبر کا مہینہ ، غم خواری کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ خلقِ خدا کے ساتھ احسان اور ان سے بوجھ کی تخفیف کا اجر، افطار کا اجر، رحمت کا مہینہ، مغفرت کا مہینہ، آگ سے آزادی کا مہینہ، یہ سب فضائل آپؐ نے بیان فرما دیے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی آگے بڑھ کر عبادت میں منہمک نہ ہو اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے تو وہ بہت بڑا بدنصیب ہوگا۔ اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم الشان وعظ کو حرزِ جاں بنا لینا چاہیے اور قربِ الٰہی کے حصول پر کمرکَس لینی چاہیے۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں جنت کے دروازے کی جگہ رحمت کے دروازے کے الفاظ آئے ہیں۔ (بخاری، مسلم)

رمضان المبارک میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔ اسی سبب سے رمضان المبارک کے مہینے کو رب تعالیٰ کی بندگی کے لیے تربیت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے میں اہلِ ایمان قرآن پاک کے نظام کو اپنی زندگیوں کا جزو بنانے کے لیے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس تربیت کا محور نفسانی خواہشات کو    اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کرنا ہے۔ نفس کھانے پینے اور جنسی خواہش کو پورا کرنے پر اُکساتا ہے تو ایک مومن اپنے نفس کی ان خواہشات کو پورا کرنے کے بجاے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ وہ صبح کے طلوع ہونے کے بعد سے لے کر غروبِ شمس تک اپنی خواہشات کو روکتا ہے اور غروبِ آفتاب کے بعد سے سحری تک ان جائز خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ پورا مہینہ ایسا کرکے وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کے لیے تیار کرتا ہے۔ جو اہلِ ایمان اس نسخے کو اپناتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ان کاموں کو آسان کردیتا ہے، جو شیطان کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو شیطان کے حوالے کرنے     کے بجاے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے حوالے کرتے ہیں اور دین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔   اللہ تعالیٰ انھیں شیطان کے شر سے محفوظ فرماتے ہیں، شیطانوں کو ان کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے وہ نیکیاں کماتے اور بُرائیوں سے بچتے ہیں اور ان کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جنت کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ شیطان کو بیڑیاں ان کی طرف جاتے وقت پہنا دی جاتی ہیں جو  اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف ہیں اور شیطان کے دشمن ہیں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے، وہ شیطان اور شیطانی نظاموں کے اسیر ہیں، ان کے لیے شیطان رمضان المبارک میں بھی اسی طرح آزاد ہوتے ہیں جس طرح ہرمہینے میں آزاد ہوتے ہیں۔ پھر جو لوگ رمضان المبارک میں دن کو روزے رکھتے ہیں اور رات کو تراویح میں قرآن پاک سنتے ہیں، یہ صرف رمضان المبارک میں نہیں بلکہ بعد میں بھی نیکی کو اپنا معمول بناتے ہیں اور بُرائی سے اجتناب کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنے اور معاشرے پر نافذ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے نفس کا تزکیہ اور اصلاح ہوجاتی ہے جو رمضان المبارک کے بعد ۱۱ مہینے انھیں کام دیتی ہے۔ اس طرح وہ پورا سال اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو یاد کرتے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ تزکیۂ نفس کا    یہ قرآنی نسخہ ہرخاص و عام کے لیے ہے۔ یہ نسخہ صحابہ کرامؓ اور تابعین، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین اور اولیاے کرام نے استعمال کیا اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور تزکیۂ نفس کی اس بلندی پر فائز ہوئے جس پر بعد میں آنے والوں میں سے صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو تزکیۂ نفس اور قرب الٰہی کے اس نسخے کو استعمال کریں۔ آج لوگوں نے ولایت، تزکیۂ نفس اور قربِ الٰہی کے لیے جو نسخے اپنے پاس سے ایجاد کیے ہیں وہ بے کار اور غیرمؤثر بلکہ مضر ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے نسخے کے مقابلے میں وضع کیے گئے ہیں۔ اگر اس طرح کے لوگوں کی سیرتوں کو دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے اور شیطان کی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے ہرعمل کا ثواب ۱۰گنا سے ۷۰۰ گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر روزہ میرے لیے ہے اور  میں خود اس کی جزا دوں گا۔ وہ اپنی چاہت اور کھانے کو میری خاطر چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی روزے کے افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزے دار کے منہ کی ’بو‘ اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں نہ کرے اور شوروشغب سے بھی احتراز کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، مسلم)

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ ایک نیکی کا کم از کم بدلہ ۱۰ گنا دیتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عنایت فرماتے ہیں۔ بعض افراد کو ان کے اخلاص اور خشوع و خضوع کی بدولت ۷۰۰ گنا بلکہ  اس سے زیادہ بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ روزے دار اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے اور اس کے منہ کی بو بھی اللہ تعالیٰ کو کستوری اور مشک سے زیادہ پسند ہے۔ روزہ دنیا میں گناہوں سے بچانے اور شیطان کے وار سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور آخرت میں دوزخ سے بچائو کا ذریعہ ہے۔ اس لیے روزے دار کو گناہوں اور لڑائی جھگڑوں سے بچنا چاہیے تاکہ روزے میں کوئی نقص نہ پیدا ہو۔ روزے میں بھوک اور پیاس کے سبب طبیعت میں خشکی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات آدمی کو لوگوں کی باتوں پر غصہ بھی آجاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ خاص لڑائی جھگڑے سے روکا ہے۔ روزہ داروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کو بطورِ خاص ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور اس معاملے میں اپنے نفس کو طیش میں آنے سے پوری طرح روکنے پر متوجہ رہنا اور اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ رمضان المبارک اس لحاظ سے امن و امان کا معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ جو لوگ لڑائی جھگڑوں اور قتل و قتال میں مصروف ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں ان کا روزہ بے معنی ہے اور شیطان کا دھوکا ہے۔ وہ شیطان کی پیروی بھی کر رہے ہوتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا روزہ بھوک پیاس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو جھوٹی بات کو نہیں چھوڑتا، جھوٹ پر عمل سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے ایمانی جذبے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے گناہوں کی بخشش کردی گئی، جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی جذبہ اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہوں کی بخشش کردی گئی اور جس نے لیلۃ القدر میں ایمانی جذبے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کردی جائے گی۔ (بخاری، مسلم)

روزہ ایک عظیم عبادت اور دین کے ان ستونوں میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے جن پر اس کی پوری عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک بہت ہی عظیم الشان انعام ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی  شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

اللہ کے اس انعام کا ایک پہلو ایسا ہے جو اسے عبادات اور احکام ِالہی میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس کا گواہ اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔نماز عماد الدین ہے مگر وہ دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال و اظہارپر مشتمل ہے جن کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں ، تنہائی میں، حتیٰ کہ گھر کی چار دیواری میں ادا کی جانے والی نماز بھی دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکتی۔ حج تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایک اجتماع ہے ہی۔ اس طرح زکوٰۃ اگر مکمل اخفا کے ساتھ ادا کی جائے تب بھی کم از کم ایک شخص، یعنی اس کا وصول کرنے والا تو اس راز میں شریک ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص سب کے ساتھ سحری کرے اور سب کے ساتھ افطار کرے، تب بھی تنہائی میں اس کے کھانے پینے سے احتراز کرنے کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لیے روزے کے تمام اجتماعی آداب کا احترام کرے لیکن تنہائی میں کھا پی لے، تو دنیا کی کوئی آنکھ  اس کے روزے پر شک نہیں کرے گی، البتہ اللہ اس کی حرکات سے بخوبی واقف ہوگا۔

روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا گواہ ہے۔ اس طرح بندے کے رب سے تعلق کا یہ پہلو روزے کی امتیازی شان ہے ___کہ جلوت اور خلوت سب اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ اپنے تمام اجتماعی پہلوؤں کے باوجود صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے یہ مژدہ بھی سنا دیا ہے کہ صرف وہ اس کا اصل اجر دینے کا ذمہ دار ہے۔ گویا روزہ بندے اور رب کے بلاواسطہ تعلق کا عنوان ہے اور صرف رب کا بندہ بن جانے کی علامت ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو اسے اسلام کی روح اور اس کے اصل جوہر کا مظہر بناتی ہے ۔

صرف اللہ کا بندہ بننے اور اس کی رضا کے لیے بھوک پیاس اور شہوت کی جائز ذرائع سے تسکین سے بھی اجتناب، انسان کو تقویٰ کی اس نعمت سے مالا مال کرتا ہے جو دنیا اورآخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے، اور جو انسان میں وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے، جو اسے اللہ کی ہدایت سے    فیض یاب ہونے میں ممد و معاو ن ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے جن کو اہل قرار دیا ہے وہ اصحا بِ تقویٰ ہی ہیں (البقرہ ۲:۲)۔ روزہ انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کرتا ہے جو اسے ہدایت ربانی سے مستفید ہونے اور اس کا علَم بردار بننے کے لائق بنا تا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے ایمان لانے والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکے‘‘۔ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے اور روزے اور قرآن کا تعلق ایک جان اور دو قالب جیسا ہے۔ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَــیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ(البقرہ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔

ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز غار حرا میں ہوا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل عبادت فرماتے اور روزے رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب تورات سے نوازا گیا تو ان ایام میں آپ بھی روزے کا اہتمام فرما رہے تھے۔ روزہ اور قرآن کا یہی نا قابلِ انقطاع تعلق ہے جس کا تجربہ اور جس کی شہادت امت مسلمہ ماہِ رمضان میں قرآن سے تعلق کی تجدید کرکے کرتی ہے۔ اس طرح روزہ ہماری زندگیوں میں ہدایت ربانی کوحرز جان بنانے کا ذریعہ ا ور وسیلہ بن جاتا ہے__ یہ اللہ کا عظیم ترین انعام نہیں تو اور کیا ہے؟

اس انعام الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور محض روایتاً  یا مسلم معاشرے کے ایک معمول کے طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ اور اس کے مقاصد اور آداب کے پورے اِدراک اور اہتمام کے ساتھ روزہ رکھا جائے، نیز رمضان میں حاصل کی جانے والی تربیت کی روشنی میں سال کے باقی ایام گزارے جائیں۔ جس طرح چارجنگ کے بعد گاڑی کی بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے، اسی طرح انسانی جسم اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور قرآن سے تجدیدعہد، انسانی جسم وجان کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور پھر باقی ۱۱مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے ___ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہو سکتا ہے؟

بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے تین پہلو ہیں: پہلا اور سب سے اہم رب کو پہچاننا ، اس سے عہد وفا باندھنا، ہر لمحے اس عہد کا ادراک رکھنا اور ہر دوسری غلامی اور وفا داری سے نجات پا کر صرف اللہ ، اپنے خالق اور مالک کا بندہ بن جانا ہے۔ دوسرا پہلو فرد کی اپنی ذات کی تربیت ، تزکیہ اور ترقی ہے تا کہ وہ اپنے رب کے انسانِ مطلوب سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کر سکے۔ اس کے لیے نمونہ اللہ کے پیارے رسولؐ کا اسوۂ مبارکہ اور سنت ِمطہرہ ہے۔ اپنی ذات کی مسلسل اصلاح اور صفاتِ محمودہ کے رنگ میں اپنے کو رنگنے اور صفاتِ مذمومہ سے بچنے کی مسلسل کوشش اصلاحِ ذات اور بندگیِ رب کا اولیں اور مستقل تقاضا ہے۔ اس تعلق کا تیسر اپہلو دنیا اور اس کے رہنے والوں سے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اللہ کی ہدایت ہی یہ رہنمائی بھی دیتی ہے کہ دوسرے انسانوں، معاشرہ، ریاست، انسانیت اور کائنات ، ہرایک سے کس طرح معاملہ کیا جائے تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو، اور حق و انصاف کے قیام کے ذریعے انسانوں کی زندگی خیر و فلاح کا نمونہ بن جائے۔

اسلام ان تینوں جہتوں کے باب میں صحیح تعلق اور صحیح رویے کا نام ہے۔ یہ سب اللہ کی بندگی کے ایک ہی دائرے کا حصہ ہیں اور کسی بھی جہت کو نظرانداز کرنا یا عبدیت کے دائرے سے باہر تصور کرنا شرک، بغاوت اور طاغوت کا بندہ بننے کے مترادف ہے۔ روزہ ان تینوں میدانوں میں بیک وقت بندہ کا تعلق اپنے رب سے جوڑنے اور اس تعلق کی روشنی میں زندگی کے ہر دائرے اور پہلو کو  ہدایت الٰہی کے مطابق گزارنے اور نور ربانی سے منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمت ِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کومخصوص اہمیت دی گئی ، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔

رمضان المبارک: تین اھم واقعات

رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یک سر تبدیل کردی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارئہ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہو۔لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔

  • نزولِ قرآن:

واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیات ِ انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوںسے نجات دلائی۔لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔

  • غزوۂ بدر:

یہ واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم برداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہییں۔اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہاے افکار سے چھٹکارا پایااور دلایا جانا چاہیے۔اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہرشخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے ۔لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو،فی الوقت اس کی ضرورت وطنِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔

  • فتح مکہ :

 فتح مبین:تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رُو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔   یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑے نہیںبلکہ مزیدوہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ اُن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال ،اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہییں جن کے نتیجے میںاللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔

یکسو ھو جائیے!

آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیںاور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دُور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اورمیسر آجائیں۔لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام توانھی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشت،نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے ۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔وہ کامل پروگرام کیا ہے؟اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقعے پر ہم یہ بتاتے چلیںکہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارانظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!

داعی حق بن جائیے!

انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہرسطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں،یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔لیکن یہ عمل انھی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا  تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الی الخیرکی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم داعیِ حق بن جائیں۔لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پُرجوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطۂ نظر قبول کر لے۔لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔داعیِ حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کار ِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے ،اسے احسن طریقے سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ اپنے مخاطب ہی کوبراہِ راست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجے میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نہیں کر سکتے۔لہٰذارمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا۔

پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا تواستقبال کریں رمضان المبارک کا اپنے قول سے، اپنے عمل سے ، اسلامی نظریۂ حیات کو عام کرکے، اور  ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔استقبال کریں رمضان المبارک کا اِس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں، اور استقبال کریں رمضان المبارک کا کہ یہ استقبال امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریمؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنانفل قرار دیا ہے(یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دaل کی خوشی سے بطور خودکرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میںفرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینے میں کسی نے ۷۰ فرض ادا کیے۔اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘(بیہقی فی شعبان الایمان)۔پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔پھریہی استقبال ہے اوریہی استفادہ !

اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں

نبوت و رسالت انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین احسان ہے۔ یہی وہ واحد محفوظ اور قطعی ذریعۂ ہدایت ہے جس کی بنا پر انبیاے کرام دو ٹوک انداز میں بتاتے رہے کہ ایک اللہ کی عبادت ہی انسانیت کا مقصد اور راہ نجات ہے۔ تمام انبیاے کرام کی دعوت ایک رہی۔ خاتم النبیین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا: مَا یُقَالُ لَکَ اِِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ (حم السجدہ ۴۱:۴۳) ’’اے نبیؐ! تم کو جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کو نہ کہی جا چکی ہو۔‘‘

نزولِ قرآنِ مجید کے ابتدائی دور میں توحید، آخرت اور حضرت محمدؐ کی نبوت و رسالت کے دلائل پر خصوصی ارتکاز رہا۔ نبوت محمدیؐ پر لوگوں نے جس جس نوعیت کے اعتراضات وارد کیے ان کا جواب بھرپور اور قطعی اندازمیںدیا گیا۔ معترضین نے نزولِ قرآن کو جنات و جنون کا اثر اور شعر و شاعری کا نتیجہ کہا اور حضرت محمدؐ کا خود ساختہ کلام قرار دیا (نعوذباللہ)۔ کلامِ الٰہی قرآنِ مجید نے ان تمام باتوں کو ایسی شدت اور قطعیت کے ساتھ مسترد کیا کہ انبیا اور رسل کی صداقت پر اس سے بڑی کوئی شہادت نہیں ہو سکتی۔ ایسی آیات میں جہاں نبی کریم ؐ کی نبوت و رسالت کو برحق قرار دیا گیا وہاں نبوت کے ابلاغ کی ذمہ داری کی ادایگی میں آپؐ کی عصمت و عفت اور امانت و دیانت کو بھی پورے زور سے بیان کیا گیا۔یہ مضمون سورۂ شوریٰ (۴۲:۲۴) اورسورۂ حاقہ(۶۹:۳۸ -۵۲) میں بیان ہوا ہے۔

 نزولِ قرآن کی غرض یہ بیان کی گئی کہ نبی کریمؐ انسانوں کو تاریکی اور ظلمت سے نکال کر روشنی میں لائیں گے۔ فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِ ط وَاِِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (الحدید۵۷:۹) ’’وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے‘‘۔

نبی کریمؐ کو یہ حکم بھی ملا کہ اس وحی شدہ قرآن کو مضبوطی سے اختیار کرنا اور اس کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا آپؐ کی ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری کی جواب دہی بھی ایک روزآپؐ  کو اور آپؐ  کی قوم کو کرنا ہو گی۔ فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَـیْکَ ج اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمo وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَo (الزخرف۴۳: ۴۳-۴۴) ’’تم بہرحال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناتم سیدھے راستے پر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔‘‘

وحی پر قائم رہنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے احکام کے ساتھ ہی اس کے ابلاغ کا حکم بھی پوری تاکید کے ساتھ دیا گیا: یٰـٓـاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ۵:۶۷) ’’اے پیغمبرؐ ،جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔

ابلاغ کا حکم اور اس کی نبویؐ تعمیل:

دوسری وحی میں سورۃ المدثر کی ابتدائی ۷آیات نازل ہوئیں۔ ان میں رسول کریم ؐکو تبلیغ دین کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم بہت مختصر مگر نہایت   جامع الفاظ میں تھا۔ فرمایا: یٰٓاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo (المدثر ۷۴:۱-۳)’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘۔ رسول کریمؐ نے ابلاغِ وحی کے اس حکم کی تعمیل میں جدوجہد کا آغاز فرمایا تو پھر اس راہ کی مشکلات کو دیکھانہ ذاتی ضروریات کا خیال رکھا۔انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیغمبرانہ زندگی کے ۲۳ برس میں سے پہلے تین برس خفیہ اور پس پردہ دعوتی جدوجہد میں گزرے۔ چوتھے سال سے نبوت کے دسویں سال تک مکہ میں کھلی اور علانیہ دعوت و تبلیغ کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ دسویں سالِ نبوت سے تیرھویں سالِ نبوت، یعنی ہجرتِ مدینہ تک مکہ سے باہر دعوت کے اِبلاغ اور پھیلائو کے لیے کاوش جاری رہی۔ پھر ہجرت سے وصالِ نبویؐ تک پورے ۱۰ سال بین الاقوامی سطح پر دعوت دین کا سلسلہ جاری رہا جس میں بیش تر عرصہ جہادی سرگرمیوں پر مبنی جدوجہد میں گزرا۔

علانیہ دعوت کا حکم اور قوم کا ردّعمل:

تین سال تک تبلیغ کا کام خفیہ اور انفرادی رہا۔ اس کے بعد آپ کو مکلف بنایا گیا کہ قوم کو کھلم کھلا دین کی دعوت دیں۔ ان کے باطل سے ٹکرائیں اور ان کے بتوں کی حقیقت واشگاف کریں۔ اظہارِ دعوت کا پہلا حکم وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کے الفاظ میں دیا گیا۔ اس پر عمل کے لیے آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر آواز لگائی اور جب تمام لوگ جمع ہو گئے تو دعوت پیش کی۔ یہی وہ موقع ہے جب ابولہب نے آپؐ  کو بدزبانی کا نشانہ بنایا۔

اس کے بعد قریش فوراً رسولؐ اللہ کی راہ روکنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ آپؐ پر تشدد بھی روا رکھا جانے لگا۔ علانیہ دعوت کے بعد حج کا موسم قریش کے لیے اپنے اندر خطرناکی لیے ہوئے تھا۔ لہٰذا انھوں نے حجاج کو اس دعوت سے دور رکھنے کے لیے مشاورت کی اور آپؐ  کے خلاف متفقہ راے یہ قائم کی گئی کہ آپؐ  کو(معاذاللہ) مجنون قرار دیا جائے۔ اس نام سے آپؐ  کو براہِ راست بھی پکارا گیا اور زائرین کعبہ کو بھی یہی فریب دینے کی کوشش کی گئی۔ ہنسی، ٹھٹھا، تحقیر، استہزا اور تکذیب کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ گالیوں تک کا آپؐ  کو نشانہ بنایا گیا۔ آپؐ  کی تعلیمات کو    مسخ کرنا، شکوک و شبہات پیدا کرنا، جھوٹا پروپیگنڈا کرنا، تعلیمات سے لے کر شخصیت تک کو واہیات قسم کے اعتراضات کا نشانہ بنانا قریش کا معمول تھا۔ ان اوچھی حرکات کے ساتھ ساتھ سودے بازی کی کوشش بھی جاری رہی۔ جب یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا تو ظلم و جور کا باب کھل گیا۔

اس مقصد کے لیے قریش جمع ہوئے اور ۲۵ سردارانِ قریش نے باہمی مشورے اور غور و خوض کے بعد رسولؐ اللہ اور آپؐ  کے صحابہؓ کو ظلم و ستم سے دوچار کرنے کی قرارداد منظور کی۔ پھر اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کا عزمِ صمیم کیا گیا۔ بالآخر قریش نے ایک لمبے صبر کے بعد آپؐ  کو تشدد سے دوچار کرنا شروع کر دیا۔ ابولہب بازاروں اور اجتماعات میں آپؐ  کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور نہ صرف آپؐ  کی تکذیب کرتا بلکہ آپؐ  کو پتھر بھی مارتا جس سے آپؐ  کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتیں۔ آپ ؐکو گھر کے اندر بھی اطمینان سے نہ رہنے دیا گیا۔ آپؐ  کے گھر میں گندگی پھینکی گئی۔ آپؐ  کے اوپر اُونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپؐ  پر براہِ راست طعن کیا گیا۔ آپؐ  کو خانہ کعبہ میں نماز کی ادایگی سے روکا گیا اور اس حرم کے اندر آپؐ  پر تشدد کیا گیا جہاں انسان تو کجا، حیوانوں اور جانوروں کو ایذا دینا بھی گناہ ہے۔ ہر چیز کو وہاں ’امان‘ حاصل ہوتی ہے۔

تشدد اور عقوبت کی اس خوف ناک کیفیت میں بھی رسول کریمؐ نے حرم شریف میں قریش کے ایک بہت بڑے مجمعے میں سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی اور دعوتِ دین کی ذمہ داری کو ہر حال میں ادا کرنے کا درس پیش فرمایا۔ جب قریش نے جسمانی تعذیب و تشدد اور زبانی پروپیگنڈے اور حربوں کو آزما لیا اور دیکھا کہ یہ دعوت رُکنے کے بجاے پھیل رہی ہے، تو انھوں نے اس بات کا عہدو پیمان کیا کہ بنی ہاشم کا مکمل مقاطعہ کر دیا جائے۔ پھر شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کی محصوری کے یہ تین سال اس کیفیت میں گزرے کہ محصورین کو بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ تین سال کے بعد قادرِ مطلق نے انھی قریش کے ذریعے یہ قرارداد بھی پاس کرائی کہ اس مقاطعے کی دستاویز کو چاک کر دیا جائے۔

اس روح فرسا عہد سے جب محصورین کو نجات ملی تو رسولِ کریم ؐ نے حسب معمول اپنی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ اس موقعے پر قریش کا وفد ایک بار پھر حضرت ابوطالب کے پاس آیا اور رسولؐ اللہ کو اس کام سے روکنے کا ان سے مطالبہ کیا۔ آپؐ  نے قریش سے کہا کہ میں تم سے صرف ایک بات کہتا ہوں، مان لو گے تو عرب و عجم تمھاری ملکیت ہوں گے۔ قریش نے سوچا کہ صرف ایک بات اور وہ بھی اس قدر مفید! اسے کیسے مسترد کریں؟ آخر کار ابوجہل نے کہا: بتائو وہ بات کیا ہے، ایسی ایک بات کیا، دس باتیں بھی کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپؐ  نے فرمایا: لاالٰہ الا اللہ کہو اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہو اسے چھوڑ دو۔اس پر قریش نے ایک بار پھر عہد کیا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ کردے۔ سورۂ صٓ(۳۸:۱تا ۷) میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

 اگر کوئی شخص اس تشدد کی انتہا اور جنگ کی شدت کا تصورکرنا چاہے، جو قریش نے اس تن تنہا رسولؐ کے خلاف برپا کر رکھی تھی تو اس کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ وہ ابو لہب، جو رسولؐ اللہ کا بدترین دشمن تھا، ایک دن اس کا ضمیر بھی اس تشدد کو دیکھ کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ محمد ؐکو پناہ دے گا اور آپؐ  کے دشمنوں سے آپؐ  کی حفاظت کرے گا!! لیکن رسولؐ اللہ اسے اس کی پناہ واپس لوٹا دیتے ہیں اور خود تنہا کھڑے قربانی پیش کرتے جاتے ہیں۔

رسولؐ اللہ نے مکہ سے باہر نکل کر طائف میں ’ثقیف‘ کی طرف رُخ کیا اور انھیں اللہ کی طرف بلایا تو علاقے کے اشراف نے آپؐ  کو گھیرے میں لے لیا، اور یہ توآپؐ  کے مکی حریفوں سے بھی زیادہ کمینے ثابت ہوئے۔ اِنھوں نے اپنے احمقوں اور اوباشوں کو اُکسایا، حتیٰ کہ مہمان کی عزت اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے کی مقدس ترین عربی خصلت کو بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ انھوں نے ان اوباشوں کو آپؐ  کے پیچھے لگا دیا اور وہ آپؐ  کو پتھر مارنے لگے…

رسولؐ اللہ کے سفر طائف کا وہ منظر ہر داعی دین کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے جب آپؐ  ایک باغ میں داخل ہو کر اس کی دیوار کی اوٹ لے کر ان احمقوں اور اوباشوں سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپؐ  کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے اور آپؐ  دعا فرما رہے ہیں، اور بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پتھروں سے بچائو کے لیے ڈھال بنائے ہوئے ہیں۔

دعوت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی وابستگی:

دعوت کے ساتھ رسولؐ اللہ کا یہ کیسا تعلق اور وابستگی تھی کہ جہاںبھی جاتے تن تنہا دعوت پیش کرتے تو شدائد آپؐ  کا استقبال کرتے۔ ان حالات میں دنیاوی اسباب میں سے کوئی چیز ایسی نہیںتھی جو آپؐ  کی ہمت کو سہارا دیتی اور آپؐ  کی ڈھارس بندھاتی لیکن آپؐ  پھر بھی بھرپور عزم کے ساتھ ان حالات کا سامنا کرتے رہے۔ رسولؐ اللہ جب طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹے تو مایوسی اور شکست خوردگی کا احساس نہیں تھا، ناکامی کا خیال نہیںتھا بلکہ پُرامیدی کی ایک گہری کیفیت تھی جس نے آپؐ  کو ڈھانپ رکھا تھااور  اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کا ایک بھرپور جذبہ تھا جوآپؐ  کے اندر موجزن تھا!

آپؐ  ایک ایک قبیلے کے پاس جا کر دعوت پیش کرتے۔ ایک روز قبیلہ کندہ کے پاس جاتے ہیں، ایک روز قبیلہ بنی حنیفہ کے پاس اور اگلے روز قبیلہ بنی عامر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ہر قبیلے کے پاس پہنچتے ہیں اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ قبائل کے پاس جب آپؐ  تشریف لے جاتے تو ابولہب آپؐ  کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا کہ اس کی بات نہ ماننا! یہ تمھیں گمراہی کی طرف بلا رہا ہے!

نبوت کے گیارھویں سال موسم حج میں دعوتِ اسلامی کی رفتارِ کار میں ایک عجیب تبدیلی آئی۔ مکہ میں کھلی تبلیغ کی تو جارہی تھی مگر وہ آسان اور خطرے سے خالی نہ تھی۔ اسی لیے رسولؐ اللہ حجاج کو رات کی تاریکی میں ملتے اور انھیں اسلام پیش کرتے۔ ایک رات آپؐ  حضرت ابوبکرؓکے ہمراہ باہر نکلے۔ بنو ذہل و بنو شیبان کو دعوت دی، مگر انھوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر یثرب کی چھے سعادت مند روحوں سے ملاقات ہو گئی۔ یہ خزرج کے جوان تھے ۔ آپؐ  نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ حضور نبی کریمؐ کی شبانہ مساعی کا ثمر تھیں۔ آپؐ  نے رات کی تاریکی میں مکہ سے دور باہر جا کر رؤساے یثرب کو اسلام پیش کیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ بیعت عمل میں آئی۔ یہی واقعہ ہجرت مدینہ کی تمہید ثابت ہوا اور آپؐ  بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

انسانیت کی نجات کا بے مثال جذبہ:

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ میری اور تمھاری مثال اس آگ جلانے والے جیسی ہے جو آگ جلائے تو پتنگے اور حشرات آکر اس میں گرنے لگیں اور وہ آدمی ان کو آگ سے بچانے میں کوشاں ہو۔   میں (بھی) تمھیں کپڑوں (دامن) سے پکڑ پکڑ کر آگ سے دور کھینچتا ہوں لیکن تم دامن چھڑا چھڑا کر  میرے ہاتھ سے نکلے جاتے ہو۔‘‘ (احمد، مسلم)

انسانیت کو دائرہ ایمان میں لے آنے اور جہنم سے بچانے کے لیے نبی کریمؐ کی خواہش اس حد تک غیر معمولی تھی کہ اس فکرمندی سے آپ ؐ کی صحت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ظاہر ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی ٰاثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکہف ۱۸:۶) ’’ اچھا، تو اے نبی ؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ  کو ان ہدایات سے نوازا گیا جن میں یہ وضاحت تھی کہ نبی اور رسول کی ذمہ داری دعوت حق کا ابلاغ (انذارو تبشیر)ہے۔ اس دعوت کو کون مانتا اور کون نہیں مانتا اور کیوں نہیں مانتا؟ نبی اور رسول سے اس بات کی جواب دہی نہیں ہو گی اور نہ نبی اور رسول کے دائرۂ اختیار میں ہے کہ وہ جس کے ایمان لے آنے کی خواہش اور آرزو کرے وہ ایمان لے آئے اور ہدایت یافتہ ہو جائے۔ نبی کی ذمہ داری صرف اور صرف، دعوت حق کی تبلیغ، تذکیر، اور انذار و تبشیر کی ہے۔چنانچہ نبی کریم ؐ کی اس فکر مندی کے پیش نظرآپ ؐ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا :

 اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج (القصص ۲۸:۵۶) اے نبیؐ!تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَo(یوسف ۱۲:۱۰۳) تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔

بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:

 وَ مَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ج وَ مَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍo(الانعام ۶: ۱۰۷) تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ وار ہو۔

دوسری جگہ فرمایا: فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُo (الرعد ۱۳:۴۰)’’بہرحال تمھارا کام صرف پیغام دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے‘‘۔ فَذَکِّرْ اِِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍo(الغاشیۃ ۸۸:۲۱:۲۲) ’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو ! تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ اِِنَّـآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ج فَمَنِ اہْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا ج وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍo (الزمر ۳۹:۴۱) ’’(اے نبیؐ) ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہو گا، تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو‘‘۔

اس مضمون کی متعدد آیات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ ابلاغ دعوت کے معاملے میں بے حد فکر مند رہتے تھے۔ آپؐ  کی شب و روز کی مصروفیات میں ابلاغِ حق کی ذمہ داری کو  کمال درجے میں ادا کرنے کی جدوجہد سامنے آتی ہے۔ مکی زندگی میں خفیہ اور علانیہ دعوت الی اللہ کی انجام دہی، قومی اور قبائلی سطح کی خصوصی تقریبات میں رہنمائوں، سرداروں اور دانشوروں سے خطاب، مکہ کے اندر اور حدود مکہ سے باہر آپؐ  نے اپنے مشن کی تکمیل اور حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے حیرت انگیز جدوجہد فرمائی۔

انسانیت کی سلامتی پر نظر:

مکی عہد میں مسلمانوں اور خود رسول کریمؐ کو سخت عقوبتوں اورایذائوں سے مسلسل دو چار رکھا گیا لیکن دعوتِ دین کا کام رسولؐ اللہ نے برابر جاری رکھا۔ آخری تنبیہ کے طور پر جب قریش کے وفد نے آپؐ کے چچا ابو طالب سے دو ٹوک بات کر دی تو آپؐ  نے جواب میں جو الفاظ ادا فرمائے وہ اس ذمہ داری کی ادایگی کے لیے آپ ؐ کی عزیمت و استقامت کی بے نظیر دلیل ہیں۔ طائف کا سفر آپؐ  کی ظاہری بے سروسامانی مگر حق کی دعوت کو  قریہ قریہ پہنچانے کے لیے آپؐ کی تڑپ کی نشان دہی کرتا ہے۔آپؐ  کے سفر طائف کی روداد دین کے ہرداعی اور تحریک کے ہر کارکن کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ آپ ؐکی جدوجہد کا مکی عہد جب اختتام کو پہنچا تو یہ محض ۱۳ برس کی مدت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ یہ ظلم وجور اور تعذیب و تشدد کی المناک تاریخ کا ایک موڑ تھا۔ اس تاریخ کی المناکی اس قدر شدید تھی کہ حاملین دعوت کو داعی اعظمؐ نے اذن ہجرت دے دیا۔

ہجرت کے بعد مدنی دور نبوت بھی معمول کی انسانی زندگی سے نا آشنا ہی رہا۔ قریش کی دیرینہ رقابت، نفرت اور عداوت نے حاملین ایمان کا تعاقب یہاں بھی نہ چھوڑا اورنبی کریمؐ اور آپؐ  کے رفقا کو کش مکش اور تصادم میں مسلسل الجھائے رکھا۔ براہِ راست یا بالواسطہ اس تصادم کی تمام تر تاریخ میں آپؐ  نے اپنی توجہ اور جدوجہد کا پورا ارتکاز دعوت پر رکھا۔ حتی الامکان تصادم سے گریز کیا۔ حالت جنگ میںبھی دشمن کے اظہارِ ایمان کو قانونی طورپر قابل قبول قرار دیا۔ آپ ؐ نے دشمن کے ساتھ ایسے معاہدے بھی کیے جو بظاہر اہل ایمان کے لیے شکست دکھائی دیتے تھے۔ دشمن کے ساتھ مکالمے، مذاکرات اور معاہدات میں ہمیشہ نرم گوشہ رہے اور یہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں  بلکہ انسانیت کو فتنہ و فساد سے بچانے اور اللہ کے دین کی طرف لانے کی غرض سے کیا۔ اپنے  اصحاب و رفقا اور اہل ایمان و اسلام کی تعلیم و تربیت میں بھی ہمیشہ سختی اور شدت سے گریز کیا اور نرمی، ملائمت اورامید و رجا کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔ تعلیم و تبلیغ اور انذاروتبشیر سے ہی کام لیا اور   دل ودماغ کی طاقتوں کی بیداری کے ذریعے فرد اور معاشرے کو بدلنے کی سعی فرمائی۔ آنِ واحد میں تبدیلی لے آنے کے بجاے رفتہ رفتہ اور تدریج کے ساتھ اصلاح احوال کا کارنامہ انجام دیا۔ مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت حالات اور ماحول میں بھی ناامیدی اور مایوسی کو قریب نہ آنے دیا۔ فتح مکہ کے موقعے پر ایسے تمام دیرینہ دشمنان اسلام کو بھی معاف فرما دیاجن کی گردن اڑانے کا حکم جاری فرمایا جاچکا تھا اور یہ سب ان لوگوں کے اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے ہوا۔ مملکتوں کے سربراہان کو مکتوبات اور نمایندوں کے ذریعے اسلام کی دعوت پیش کی۔ کسی قبیلے، قوم اور ملک کے خلاف جنگی اقدام کرنے سے پہلے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کی حجت تمام فرمائی۔ مخاطب دشمن نے اسلام قبول کر لیا تو اس کو خندہ روئی سے گلے لگایا اور اگر انکار کیا تو تباہ و برباد، نیست و نابود اور تہس نہس کر ڈالنے کی ذہنیت اور حکمت عملی کے تحت اس سے جنگ نہیں کی، بلکہ  عین حالت جنگ میں بھی دشمن کے قبولِ اسلام کا داعیہ دل میں موجود رہا اور ہر ممکن طریقے سے انسانیت کو بچانے کی خواہش دامن گیر رہی۔

ابلاغِ دعوت کی مسلح و غیر مسلح کش مکش میں ہمیشہ انسانیت کی سلامتی اور اسے اللہ کی بندگی میں لے آنے کا داعیہ غالب رہا۔ دعوتِ دین پیش کرنے کے لیے ہر خفیہ و علانیہ سرگرمی کو حسب موقع جاری رکھا۔ طائف کا سفر سرزمین مکہ کے بنجر ہونے کی طرف اشارہ تھا مگر اہل طائف نے بھی مکہ سے اپنی ذہنی قربت کا ثبوت دیا اور جس بدترین سلوک سے آپؐ  سفر طائف میں دوچار ہوئے، اس پر رب رحیم و کریم نے بھی غضب ناکی کا اظہار فرمایا۔ پہاڑوں کے فرشتے نے اسی موقعے پر عرض کیا تھا کہ آپؐ  چاہیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں! اس پر نبیؐ نے فرمایا:  نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیرائے گی(بخاری) ۔ اس موقعے پر رسولؐ اللہ نے جو دعا فرمائی وہ دعاے مستضعفین (کمزوروں کی دعا) کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کا ایک ایک لفظ انسانی ناتوانی کا اظہار ہے مگر رب سے امید اور اس سے عافیت طلبی کا بے نظیر شاہکار ہے۔ اس دعا کے اندر مایوسی و ناامیدی اور منکرین دعوت کی ہلاکت و بربادی کی دعا کا قطعاً اظہار نہیں ہے۔

’’اُٹھو اور خبردار کرو‘‘

کا حق ادا کردیا: دعوتِ نبویؐ کا آغاز دوسری وحی کے ان الفاظ سے ہواتھا: یٰٓـاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo(المدثر ۷۴:۱،۲)’’ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو‘‘___ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کے لیے اٹھنے کا یہ حکم ملا تو پھر رسول اللہ میدان عمل میں تن تنہا کھڑے ہو گئے۔ انسانیت پر ڈالا جانے والا بوجھ زمین و آسمان اور دشت و جبل نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور خوف و دہشت کے مارے سہم گئے تھے۔ اس بوجھ کو انسان نے اٹھالیا اور وہ اس کے انجام سے لاعلم تھا لیکن انسانیت کے محسن انبیاے کرام نے اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی ذمہ داری کا حق ادا کر کے انسانیت کے اس شرف و اعزاز کو نقش دوام بنادیا۔ ہادی عالم جناب محمد رسولؐ اللہ نے تو اس ذمہ داری کے حق کی ادایگی کا لازوال اور بے نظیر کارنامہ انجام دیا۔ آپؐ  نے قُمْ فَاَنْذِرْ(اٹھو اور خبردار کرو) کا حکم سنا اور پھر مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں ۲۰ سے زائد برس گزار دیے اور اس دوران آپؐ  کو کوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکا۔

سیرت رسول ؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسولؐ اللہ نے زندگی بھر دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنے کی سعی فرمائی اور اپنے آخری اور عالم گیر خطاب خطبہ حجۃ الوداع میں حاضرین سے یہ شہادت لی کہ ’’تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم کیا کہو گے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ  نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔ یہ سن کر آپؐ  نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ! (ابن ہشام)

آج کے داعی کی ضرورت:

دعوتِ الی اللہ کا حق ادا کرنے کے لیے ہر دور کے داعی کو اسی بصیرت، ہمت، صبر، استقامت اور عزم و عزیمت کی ضرورت رہی ہے اور عہد حاضر کے کارکنانِ دعوت کو بھی آج اسی چیز کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ سیرت رسولؐ کے ایک ایک ورق میں ملتا ہے۔ اُمت مسلمہ ’خیراُمت‘ ہونے کی بنا پر اس دعوت کے ابلاغ کی پابند ہے۔ دعوت اپنے اثرات اور نتائج سے مشروط نہیں ہوتی بلکہ سیرت کی روشنی سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ داعی اور کارکن اثرات و نتائج کو اللہ کا اختیار سمجھ کر اپنی ذمہ داری ادا کیے جاتا ہے۔ وہ صرف اس بات کا پابند ہے کہ دعوت کہاں تک پہنچائی اور اس کا حق کس حد تک ادا کیا۔ اس سے آگے اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔

آج دین کی دعوت کو اُسی سوز جگر کے ساتھ انسانیت تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو دعوت کے نبویؐ طریق کار میں نظر آتا ہے۔ ایک داعی کی جدوجہد کا اصل مقصد اللہ کے دین کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ دعوتی حلقوں کو اس بات کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ دین کی دعوت کا ابلاغ کس حد تک ہو سکا۔ اصل، صحیح اور خالص دین سے معاشرے کی بہت بڑی تعداد ناواقف ہے۔ آبا و اجداد سے چلی آنے والی رسوم و روایات آج بھی قوم کی اکثریت کا دین ہے۔ کہیں جہالت اس کا سبب ہے اور کہیں دین کا ناقص اور غیر صحیح تصور و فہم اس کا باعث ہے۔ معاشرے کو بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر اسے اصل دین سے آشنا کرنے کے لیے ابلاغ دین کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم ؐکا دین تعبیرات و تشریحات کے انباروں تلے گم ہے۔ محمد رسولؐ اللہ کی شریعت کا مصدرِ اول قرآنِ مجید ابھی تک مجموعی طور پر مسلم معاشرے کی سنجیدہ توجہ کا منتظر ہے۔ دعوتی حلقوں میں قرآنِ مجید کے براہِ راست فہم کو اپنی مساعی کا محور بنانے کی ضرورت ہے۔ قرآنِ مجید کا راست فہم داعی کے لیے راستے کی بے شمار مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر حکمت سے لبریز کوئی کتاب نہیں اور راستے کا اس سے بہتر کوئی رہنما نہیں۔ یہ کتاب داعی اعظم حضرت محمدؐکو ۲۳ برس تک مسلسل دین کا پیغام بھی بتاتی رہی اور ابلاغِ دین کا طریق کار بھی واضح کرتی رہی۔ سیرت النبیؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہی دین ہے اور یہی طریق دین، یہی دعوت ہے اور یہی اسلوبِ دعوت!! اس سے بے نیاز ہو کر کوئی شخص داعی نہیں بن سکتا اور اس سے ہٹ کر کوئی راستہ منزل پر نہیں پہنچا سکتا۔

بہت کم لوگوں نے براہِ راست سیرت النبیؐ کا مطالعہ اس طرز پر کیا ہو گا کہ نبی کریمؐ کو  دعوتِ دین کی جدوجہد کے دوران کیسے مراحل پیش آئے اور آپؐ  کا ردّعمل اور حکمت عملی ان مراحل میں کیا رہی۔ صیامِ رمضان، مناسک حج اور مسائل عیدین کی طرح قرآن و سیرت ایسا موضوع نہیں ہے جس کی یاد سال کے بعد تازہ ہوتی ہو، بلکہ یہ مسلمان کی زندگی کا دائمی نصاب اور مستقل موضوعِ درس ہے۔ اسے سالانہ بنیادوں پر بڑے سے بڑے پروگراموں، تقریبات اور جلسے جلوس کی صورت میں منعقد کر کے نہ اس کا حق ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ یہ طریقۂ یاد رسولؐ اللہ کے شایانِ شان ہے۔ ہردینی کارکن کو خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اُس نے زندگی میں ایک بار مکمل قرآنِ حکیم کا مطالعہ شعوری طور پر اس سے ہدایت پانے کی غرض سے کیا ہے؟ کیا اس نے نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کا رہنما بنانے کے لیے سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا ہے؟

 حقیقت ِ حال اور مستقبل

عالمی سطح پر گذشتہ نصف صدی سے عمرانی علوم (سوشل سائنسز) کی جانب تدریسی اور تحقیقی میدانوں میں انحطاط کا رحجان محسوس کیا جا رہا ہے۔ بظاہر اس کا سبب طلبہ اور حکومتوں کا ٹیکنالوجیکل مضامین میں دل چسپی لینا اور جامعات میں انجینیرنگ، کمپیوٹر سائنس، بیالوجیکل اور فزیکل سائنسز میں داخلوں اور سہولیات پر زیادہ توجہ دینا نظر آتا ہے۔ اس رحجان کا اثر عمرانی علوم کے شعبوں میں داخلوں میں کمی اور اطلاقی علوم میں داخلوں میں کثرت کے ساتھ طلبہ اور طالبات کے تناسب میں بھی نظر آتا ہے۔ عموماً میڈیکل کالجوں اور ڈینٹل کالجوں میں طالبات کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ یہ تناسب اکثر ۶۰،۷۰ فی صد طالبات اور تقریباً ۳۰، ۴۰ فی صد طلبہ کی تعداد کی شکل میں کم از کم اسلام آباد کی جامعات میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

بالعموم عمرانی علوم کو طلبہ اور والدین وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے یہ مستحق ہیں۔ ان علوم میں تاریخ، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات اور اسلامی علوم وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ وہ طلبہ جو  اطلاقی علوم (Applied Sciences) میںداخلے نہ حاصل کر سکیں عموماً عمرانی علوم میں داخلہ لے کر  عمرانیات، نفسیات، معاشیات، سیاسیات یا اداراتی علوم میں ایم اے کرنے کے بعد عام طور پر تدریس سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ڈگری کالجوں میں اپنے مضمون کو جیسا کہ انھوں نے اپنے اساتذہ سے پڑھا تھا، پڑھا کر ایک پُرسکون زندگی گزارنے پر قناعت کرتے ہیں۔ عمرانی علوم پڑھانے والے اساتذہ میں سے بہت کم افراد ایسے ہیں جو ان علوم کے فکری اور نظریاتی ارتقا سے واقفیت اور اس پورے عمل پر گہری نگاہ رکھتے ہوں۔ اکثر اساتذہ کا ہدف کورس کی کتاب میں درج اصطلاحات و مضامین کی کچھ وضاحت اور ان میں پیش کیے گئے تصورات کو طلبہ تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ بہت کم اساتذہ ایسے پائے جاتے ہیں جو کورس کی مقررہ کتابوں کے علاوہ تحقیقی مضامین اور تازہ طبع ہونے والی کتب سے استفادہ کرتے ہوں یا طلبہ کو ان کی طرف متوجہ کرتے ہوں۔ نتیجتاً عمرانی علوم علمی حیثیت سے جس مقام پر کھڑے ہوں انھیں وہیں پر رہنے دیا جاتا ہے، جب کہ فزکس، کیمسٹری اور دیگر سائنسز کے بارے میں جدید تحقیقات، کم از کم ایم ایس اور ایم فِل کی سطح پر ضرور علم میں لائی جاتی ہیں۔ جدید علمی تحقیقات سے کما حقہ واقفیت اور ان کے تجزیہ و تحلیل کے بعد ہی ان علوم میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ۱۰ برسوں میں ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے جامعات کی زمرہ بندی اور اساتذہ کی ترقی کے حوالے سے جو علمی پیمانے بنا کر نافذ کیے ہیں     اس کے نتیجے میں کم از کم عالمی جرائد میں پاکستانی اساتذہ کے مضامین کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف تعداد کے لحاظ سے بلکہ اپنے اعلیٰ معیار کی بنا پر    ان مضامین سے نئی ایجادات میں بہت مدد ملے گی۔ اس خوش آیند پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے  اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ جو عمرانی علوم اور اطلاقی علوم ہماری جامعات میں پڑھائے جا رہے ہیں وہ کس حد تک قومی تعلیمی مقاصد و اہداف پر پورے اُترتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند گزارشات اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں:

مغربی عمرانی علوم کی فکری اساس

تاریخی طور پر عمرانی علوم یا Social Sciences اور Behavioral Sciences کی اصطلاحات متبادل طور پر استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ انھیں Human Sciences بھی کہا جاتا ہے جو شاید زیادہ جامع اصطلاح کہی جا سکتی ہے۔ اصطلاح کی افضلیت سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے پاکستان میں جو عمرانی علوم پڑھائے جا رہے ہیں یہ انگریز کے دورِ غلامی سے آج تک ایک تسلسل کی شکل میں یورپی جامعات میں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل پڑھائے جانے والے مضامین کا ایک چربہ ہیں، حتیٰ کہ نصابی کتب بھی جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ ۵۰برسوں میں یورپ اور امریکا میں ان علوم میں جو اضافے اور تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں ہماری جامعات  ان سے بڑی حد تک بے خبر انھی کتب اور تصورات کو ہمارے طلبہ کو پڑھا رہی ہیں جو انگریز کے دورِغلامی میں ہم پر لادینی نظامِ تعلیم میں نافذ کی گئی تھیں۔

جنوب مشرقی ایشیا کی بعض جامعات میں عمرانی علوم کے اِس پہلو پر علمی مکالمہ جاری ہے۔ پاکستان کے تناظر میں عمرانی علوم کے فکری اور نظریاتی پہلو پر تنقیدی نگاہ ڈالنا بہت ضروری ہے۔

عمرانی علوم کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے انسانوں کے باہمی تعلقات اور معاشی، سیاسی، قانونی، ثقافتی، تعلیمی اور عائلی تعلقات سے بحث کرتے ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی طرزِ عمل (behavior) کا جائزہ لیتے ہیں اور نہ صرف اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے بارے میں تبدیلی اور ممکنہ ردعمل سے بھی مطلع کرتے ہیں۔ چنانچہ علمِ معاشیات نہ صرف انسان کے معاشی ذرائع پیداوار، تقسیم وسائل بلکہ دولت اور وسائل کے پیداواری عمل میں لگائے جانے اور حصولِ منفعت کے حوالے سے اندازے قائم کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور انسان کے معاشی طرزِ عمل کی سمت کا تعین کرنے میں موجودہ معلومات کی بنیاد پر مستقبل کے نقشے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسے ہی علمِ عمرانیات (سماجیات) کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے بنیادی ادارہ، خاندان اور اس سے متعلقہ قانونی، اخلاقی اور دیگر پہلوئوں سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انسان کس طرح معاشرے سے متاثر ہوتا ہے، معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے اور اس کے ترقی کرنے یا زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ قانون اور تعلیم کا کردار معاشرے میں کیا ہے اور اخلاقی اقدار کیسے وجود میں آتی ہیں۔

جہاں تک سوشل سائنسز یا عمرانی علوم کے طریقِ تحقیق کا تعلق ہے اس کا ماخذ بھی یورپ میں استعمال کیے جانے والے تجربی طریقے (Empirical Methods) ہیں۔ چنانچہ معاشیات ہو یا عمرانیات جو پیمانے ترقی(Progress, Development) کو ناپنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی فکری بنیاد یورپی تصورِ حیات (World View) ہی فراہم کرتا ہے۔ اگر سماجی ترقی کا اندازہ کرنا ہو تو یورپی تصورِ حیات میں جو معیارِ زندگی (Quality of Life)، گھر کی مکانیت اور اس میں سہولیات کا ہونا، سڑکوں، بجلی اور ذاتی سواری کا ہونا، اوسط عمر، خاندان میں افراد کی تعداد، غرض وہ بہت سے پہلو جنھیں تجربی طور پر اعدادو شمار میں لایا جا سکتا ہے وہی ترقی، کامیابی اور ڈویلپمنٹ کے اشاریے (Indicators) قرار دیے جاتے ہیں۔

اس وضاحت سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور عالمِ اسلام میں جو عمرانی علوم، عمرانیات یا معاشیات پڑھائے جاتے ہیں اور جس کی بنیاد پر کسی ملک یا معاشرے کو  ترقی یافتہ، کسی کو پس ماندہ اور کسی کو زیرِ ترقی کہا جاتا ہے ، ان سب کو ناپنے کے پیمانے ان ممالک کے اپنے حالات، تصورِ حیات، معاشرتی روایات، اقدارِ حیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد و ماخذ مغربی تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن ہیں۔

بعض حضرات اس تاثر کا اظہار کرتے ہیں کہ عمرانی علوم کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خاص ثقافت سے، یہ تو معاشرے میں پائے جانے والے حقائق کا عکس ہوتے ہیں۔ حقیقت واقعہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ تصورِ معاشرہ کا مفہوم آسان زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں جو انسان پایا جاتا ہے اس کا تصورِ حیات، تصورِ کامیابی، تصورِ فلاح اور تصورِکائنات اور تصورِ الٰہ یا رب کیا ہے؟ کوئی بھی معاشرہ اُس تصورِ حیات کا عکس ہوتا ہے جو اس میں پائے جانے والے انسان اختیار کرتے ہیں۔ مغربی علومِ عمرانی فرد، معاشرے اور ریاست کے بارے میں اور بالخصوص الٰہ، رب اور کائنات کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں وہی ان کے معاشرے کو تشخص فراہم کرتا ہے، چنانچہ مغرب میں عمرانی علوم کو جن بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے ان میں انسان ہی کائنات کا مرکز قرار پاتا ہے۔ انسانی خوشی، تسکینِ خواہش اور رضامندی ہر معاشرتی عمل کی بنیاد تسلیم کی جاتی ہے۔

فلسفیانہ اصطلاحات میں مغربی تہذیب و ثقافت کی بنیاد Individualism (انفرادیت پسندی)، Hedonism (حصولِ لذت)، Materialism (مادہ پرستی) اور Relativist Ethics (اضافی اخلاقیات) پر قائم ہے۔ چنانچہ ایک فرد طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کے لیے کتنی دولت کمائے اور اپنی نجی زندگی میں کن چیزوں کو جائز اور کن کو ناجائز قرار دے۔ گویا خاندانی تعلق ہو یا کاروباری، ملازمت ہو یا کاشت کاری، دوستی ہو یا دشمنی، وراثت کا معاملہ ہو یا سیاسی اقتدار، ہرانسانی فیصلے کی بنیاد انسان کا اپنا ذاتی مفاد، دولت، لذت یا تسکین فیصلہ کن مقام کی حامل اقدار ہیں اور انسان کو کسی بیرونی غیرجانب دار، مفادات سے بالاتر ہستی کی ہدایت کی ضرورت نہیں۔

مغربی سوشل سائنسز کے تمام شعبے اس بنیادی تصورِ حیات و کائنات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ عمرانیات کا پہلا کُلیہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے کیوں کہ وہ انسانوں کے ساتھ گروہ کی شکل میں مل جل کر رہتا ہے۔ یہاں جو بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور ایک لادینی افادیت پرست (Utilitarian) تصور کو اسلام کے عالمی اخلاقی تصور سے ممتاز کرتی ہے وہ  مغربی علوم عمرانی میں انسان کا بنیادی طور پر حیوان ہونا ہے، جب کہ اسلامی تصورِ حیات اللہ تعالیٰ کو  خالق و حاکمِ کائنات اور انسان کو اس کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور انسان کا وجود محض حیوانی نہیں بلکہ حیوانی پہلو کے ساتھ اس کی اصل شناخت اس کا روحانی، ملکوتی اور اخلاقی وجود ہے جو اسے استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا اہل بناتا ہے اور دنیا کے سارے وسائل کے صحیح تصرف کو اس کی جولان گاہ بنا دیتا ہے۔

مغربی سوشل سائنسز کی آغوش میں تربیت پانے والا ذہن آغاز سے ہی اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ انسانی نفسیات کی بنیاد اس کی انا، لذت، قوت اور قبضہ کرنے کی جبلّت (Instinct) ہے اس لیے وہ ہمیشہ ان محرکات کی بنا پر کام کرے گا۔ یہ وہی اصول ہیں جو، بصد معذرت، چوہوں پر تجربات کرکے حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر انسانوں پر لاگو کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کا دائرہ انسان کو دو پائوں پر چلنے والے بڑے چوہے میں تبدیل کر دیتا ہے جو پنیر (cheese) کی خوشبو پر بھول بھلیوں سے تیزی سے گزرتا ہوا آخر جا کر پنیر کو کتر لیتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ اور دیگر ماہرین نفسیات انسان کی زندگی کے تقریباً تین چوتھائی اعمال اور فیصلوں کو اس کے لاشعور اور تحت الشعور کا کارنامہ سمجھتے ہیں، جب کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام کاموں کو شعوری اور ارادی عمل (نیت، ارادہ) سے وابستہ قرار دیتا ہے۔ اس طرح تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق عمرانی علوم کے ہر ہر شعبے میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مسلم دانشور کا اصل مسئلہ اس کی وہ فکری اور ذہنی مرعوبیت ہے جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی عمرانی علوم کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اب وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہے تو بآسانی نہیں نکل سکتا۔ وہ گندے تالاب کی مچھلی کی طرح اپنے اردگرد کے بُرے ماحول میں فرحت محسوس کرتا ہے کیوں کہ اسے ابھی تک تازہ اور صحت مند پانی میں تیرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

نصف صدی قبل الجزائری مفکر مالک بن نبی نے اس صورتِ حال کو محض ایک لفظ میں یوں بیان کیا تھا کہ Colonizibility یعنی محکومانہ ذہنیت سیاسی اور تہذیبی محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اسی بات کو FANON نے Neo-Colonialism کی اصطلاح سے واضح کرنا چاہا۔ دراصل ہمارے علومِ عمرانی مغربی لادینی (Secular) جمہوریت، انفرادیت پسندی (Individualism)، مادیت (Materialism) اور لذتیت (Hedonism) کے ارکان اربعہ پر ایمان بالغیب لاتے ہوئے ان مفروضوں کو انسانی فکر اور معاشرے کی تخلیق و ارتقا کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ہر وہ فکر جو ان مفروضوں سے ٹکراتی ہے اسے قدامت اور روایت پرستی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے دانش ور بھی انھی تصورات کی تشہیر کرتے ہیں اور کبھی اس دامِ خیال سے باہر نکل کر ان تصورات پر تنقیدی نظر نہیں ڈالتے۔

کسی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار اس کے تصورِ حیات کی عظمت پر ہوتا ہے اور اس تصورِ حیات کا عکس علوم میں نظر آتا ہے۔ ہمارے سماجی علوم کی تشکیلِ جدید ہماری اپنی اخلاقی اقدار پر کرنے کے لیے ہمیں مغربی فکر کی اندھی تقلید سے نکل کر اسلام کی آفاقی اقدار کی بنیاد پر تصورِ علم اور اصنافِ علم کو نئے سرے سے مدون کرنا ہو گا تاکہ ہر شعبۂ علم سے وابستہ محقق کائنات اور خالق کائنات کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح اور ایک اخلاقی معاشرے، اخلاقی معیشت، اخلاقی سیاست اور اخلاقی ثقافت کی تعمیر کرسکے۔

مغربی معاشرہ ہو یا معیشت و سیاست و اخلاق، ہر ہر شعبے میں جو ترقی ایک نگاہِ ظاہر بین کو نظر آتی ہے اس کی اصل یہی چار اصول ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا۔ معاشرے کے قیام کا آغاز خاندان کی اکائی سے ہوتا ہے۔ مغربی عمرانیات اور سماجیات میں خاندان کی تعریف اور اس پر ایمان بالغیب لانے کے نتیجے میں خود ہمارے معاشرے میں اکیسویں صدی میں خاندان کی تعریف یہی کی جاتی ہے کہ شوہر بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچے۔ اسی بنیادی اکائی کی بنیاد پر ایک خاندان کی معاشرتی اور معاشی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے ایک فرد اپنے مستقبل کا نقشہ ذہن میں بناتا ہے، یعنی اگر وہ چاہتا ہے کہ اپنا مکان خود تعمیر کرے تو اس میں اس کا ماسٹر بیڈ روم ہو گا اور ان’دوبچوں‘ کے لیے ایک کمرہ تاکہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنی فکر کریں اور جو کمرہ ان کے استعمال میں تھا وہ یہ معمر ماں باپ کسی اور مصرف میں لا سکیں۔ اس مکان میں دادا دادی یا نانا نانی یا بچوں کی پھوپھی یا خالہ یا کسی بھی عزیز کے لیے تصوراتی طور پر کوئی جاے رہایش نہیں پائی جاتی۔ اس تصور کی بنیاد پر گھروں اور شہروں کی منصوبہ بندی ( Town Planning) کی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں پانی کی فراہمی، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر قرب و جوار میں کسی باغ کا بنایا جانا متوقع تعداد کے لحاظ سے بچوں کے اسکول، ہسپتال یا بازار کا تعین کیا جاتا ہے۔

گویا بنیادی مفروضہ اگر یہ ہو کہ ایک ’خوش حال‘ گھرانہ صرف وہ ہے جہاں حد سے حد ایک یا دو بچے پائے جائیں تو یہ انفرادی بلکہ اجتماعی فیصلہ جن محرکات پر مبنی ہوتا ہے وہ بقیہ تین ارکان، یعنی لذتیت، مادیت اور دنیویت (غیرمذہبی سوچ) ایک فرد کو اپنے فیصلوں میں خودمختار سمجھتے ہوئے اخلاق کو انفرادی پسند کا تابع بنا دیتے ہیں، اور وہ حد سے حد دو بچوں والے ’خوش حال گھرانے‘ کے خودساختہ تصور میں گم رہتا ہے۔ اگر صرف سماجیات اور معاشرے کے نقطۂ نظر سے اس مثال پر غور  کیا جائے تو محض دو نسلوں میں اس ’خوش حال‘ گھرانے میں پیدا ہونے والے  یہ دو بچے اگر لڑکے تھے تو جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو بذات خود بہن کے وجود سے آگاہ نہیں ہوتے اور ان کی اولاد ساری عمر کسی پھوپھی کا تصور نہیں کر سکتی۔

اگر یہ پیدا ہونے والے بچے دو لڑکیاں ہیں تو یہ خود بھائی کے وجود سے غیرآگاہ اور ان کی اولاد کسی ماموں سے مکمل طور پر ناآشنا رہتی ہے۔ اگر ان دو میں سے ایک لڑکا ہو ایک لڑکی ہو تو لڑکے کی اولاد چچا یا تایا کے رشتہ سے ناآشنا اور لڑکی کی اولاد خالہ کے تصور سے لا علم رہتی ہے۔    یہ لاعلمی محض نظری نہیں کہی جا سکتی یہ اسلامی شریعت میں ’قطع رحمی‘ کی تعریف میں آ سکتی ہے۔     یہ رشتوں کا توڑنا اور دفن کر دینا جو تہذیب و ثقافت پیدا کرے گا وہ محض فرد کے گرد گھومے گی۔ اس میں اجتماعیت نہیں پائی جائے گی اور جب اجتماعیت نہیں ہو گی تو معاشرت اور معاشرے کی بنیادی اکائی ہی ختم ہو جائے گی۔ گویا مغربی لادینی عمرانیات اور سماجیات کا یہ بظاہر ’معصوم‘ نعرہ کہ خاندان کا مطلب کیا ہے اورجسے___ بلا تخصیص تمام معاشرتی علوم کی کتب میں، پاکستان ہو یا دیگر مسلم ممالک ___ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، اور جس عمرانیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی ایک شخص یونی ورسٹی میں استاد بنتا ہے وہ اسی تصورِ خاندان اور معاشرے کی بنیاد پر تمام تحقیق اور ملک کی معیشت، سیاست اور دفاع کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

اس لیے یہ سمجھنا کہ عمرانی علوم محض تفریح طبع کے لیے ہوتے ہیں اور اطلاقی علوم ہی ترقی کی طرف لے جاتے ہیں، ایک لاعلمی پر مبنی تصور ہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک روز مرہ کی مثال سامنے رکھ کر یہ بات واضح کی ہے کہ کس طرح مغربی لادینی اور انفرادیت پسند تصورِ خاندان ایک تہذیب کُش فکر ہونے کی بنا پر انسانی ثقافت کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر انسانی معاشرے سے معاشرتی اقدار کو خارج کر دیا جائے اور خاندان جو رشتوں سے وابستہ ہوتا ہے ان رشتوں ہی کو انسانی یاد داشت سے نکال دیا جائے تو تہذیب کس بنیاد پر آگے بڑھے گی؟ آج مسلم دنیا میں مغربی لادینی علوم عمرانی کے بنیادی تصورات پر اندھا ایمان لانے کے نتیجے میں جو خاندانی انتشار، اضمحلال اور زوال پیدا ہو رہا ہے اس کے اسباب بڑے واضح ہیں لیکن ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ماہرین تعلیم اور منصوبہ بندی کو اپنے ذہن کو مغربی استعماری (Colonial) فکر کے جال سے نکالنا ہو گا۔ مغربی عینک سے ہر فکر کا مطالعہ کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا اور ایک علمی ماہیت قلبی (Epistemic Paradigm Shift) سے گزرنا ہو گا۔ گویا بنیادی اصطلاحات جن پر علوم عمران کو قائم کیا گیا ہے خود ان فکری بنیادوں کی جگہ متبادل فکری بنیاد پر علوم عمرانی کی تشکیلِ جدید کرنا ہو گی۔

اس تشکیلِ جدید کو اسلام کے تصورِ رب اور اس کے عالم گیر اخلاقی اصولوں پر قائم کرنا ہو گا تاکہ نئے علوم عمرانی ہرہر شعبے میں توحید، عدل، امانت و خلافت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بنیادی الہامی اصولوں کی روشنی میں معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ ، ادب،  تہذیب و ثقافت، غرض ہرہرشعبۂ علم میں اُس علم کے مقاصد، مناہج و اہداف اور ان کے حصول کے اخلاقی طریقوںپر عمل کرسکیں۔

اگریہ کام نہیں کیا گیا تو مغربی لادینی علوم عمرانی بشمول تصورِ جمہوریت، ہمیں غیر محسوس طور پر غلامی میں گرفتار رکھے گا اور ہم گندے پانی کی مچھلی کی طرح اپنے ماحول کے پاک صاف، ترقی یافتہ اور معیارِ زندگی میں مسلسل اضافے کے خام تصورات میں محو خواب رہیں گے۔

ترقی کی بنیاد جب تک ایک ملت کی تہذیبی اقدار، تصورِ حیات اور تصور ِ فلاح نہیں ہو گا، اگر وہ کوئی مادی ترقی کر بھی لے، اس کے ہا ں سڑکیں اور پل تعمیر ہو جائیں ، بڑے بڑے بازار  بن جائیں، سات ستاروں والے ہوٹل تعمیر ہو جائیں، جب بھی وہ ملت مفلسی کا شکار رہے گی۔    یہ مفلسی فکر میں بھی ہو گی، رشتوں کے احترام میں بھی ہو گی اور انسانیت کے احترام میں بھی۔     یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اگر ایک ملت انسانیت میں مفلسی کا شکار ہو تو پھر اس کی ٹکنالوجی میں ترقی اس کو تباہی سے نہیں بچا سکتی۔

ماضی کی اقوام جن کا تذکرہ قرآن کریم میں پایا جاتا ہے، جو پہاڑوں کو تراش کر محلات بناتے تھے، جو اہرامِ مصر جیسے حیران کن تعمیراتی کارنامے بغیر کسی ’مغربی ٹکنالوجی‘ کے انجام دے  سکتے تھے، ان سب اقوام نے جب الہامی ہدایت و اقدار کو چھوڑ کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ خود مقامِ ربوبیت پر فائز ہیں یا دوسرے الفاظ میں وہ یک قطبی طاقت ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا، (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی)، تو پھر ان کی تمام مادی قوت انھیں تباہی سے نہیں بچا سکی۔ آج ان کی ترقی کے قصے تاریخ کے صفحات میں دفن ہیں۔ روم و ایران اور یونان دیو مالائوں سے زیادہ اہم مقام نہیں رکھتے۔

مسلم ماہرین علوم عمرانی کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ کس طرح مغربی لادینی تصورِ علم سے اپنے آپ کو آزاد کریں اور علومِ عمرانی کی تشکیل وحی الٰہی، توحید، عدل، امانت، خلافت، عالم گیر اسلامی اخلاقی تعلیمات، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد پر رکھ کر ایک نئی روایت ِعلم کی تدوین توحید کی بنیاد پر کریں جو انسانیت کے لیے رحمت و ترقی کا زینہ بن سکے۔

توحید کی بنیاد پر علوم ِعمرانی اور اخلاقی علوم کی تدوین جدید کے لیے ضروری ہو گا کہ ان کی اساس قرآنِ کریم کے فراہم کردہ تصورِ علم یا Epistimology پر ہو، یعنی وحی الٰہی اور ہدایت ربانی سے جو علم حاصل ہو وہ علم کی اعلیٰ ترین اور حقیقی شکل قرار پائے اور تجرباتی، حسّی یا جبلّی ذرائع علم اس کے تابع ہوں۔ قرآن کریم ہر صفحے پر انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ و تحلیل کی دعوت دیتا ہے اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل، معروف اور حقوق کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس بنا پر وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے مطلق علم اور حواس خمسہ اور انسانی عقل کے ذریعے تخلیقِ علم میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ انسانی عقل اور وحی الٰہی کے باہمی تعامل سے اطلاقی علم وجود میں آتے ہیں۔ ایسے ہی وحی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے علومِ عمرانی میں حاکمیت الٰہی اور حقوق العباد کو مرکزی مقام ملتا ہے۔ اس طرح جو علم پیدا ہوتا ہے وہ نہ صرف انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے بلکہ وہ انسانیت کے وسیع تر مفاد، قیامِ امن اور قیامِ عدل کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے۔ آج بلا کسی تاخیر کے اس تخلیقی عمل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت عادلانہ معاشرے اور سیاسی استحکام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ (بہ شکریہ: ــمغرب اور اسلام، شمارہ نمبر ۴۰، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد )

ماہرین اقتصادیات کی تعریف کے مطابق ٹیکس ایک لازمی فریضہ ہے جس کا حکومت کو اداکرنا اس شخص پر واجب ہے جس پر وہ عائد کیا جائے۔ یہ ٹیکس اس شخص کی قدرتِ ادایگی کے پیش نظر عائد کیا جاتا ہے، خواہ اس کو ان خدمات کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں جو حکومتی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے ہونے والی مجموعی آمدنی کو جہاں حکومت کے عام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں ان کے ذریعے بعض ان اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی اہداف و اغراض کو حاصل کیا جاتا ہے جو حکومت کے پیش نظر ہوتے ہیں۔۱؎

زکوٰۃ جیساکہ اس کی تعریف علماے شریعت نے کی ہے، ایک ایسا فریضہ ہے جس کو اللہ نے مسلمانوں کے مال و دولت میں ان کے لیے واجب قرار دیا ہے جن کو اللہ کی کتاب میں فقرا، مساکین اور دیگر مستحقین زکوٰۃ کے نام سے یاد کیا گیا ہے تاکہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جاسکے، اللہ سے تقرب حاصل ہو اور مال اور نفس کا تزکیہ ہوسکے۔

زکٰوۃ اور ٹیکس میں ھم آھنگی کا پہلو

اُوپر بیان کردہ دونوں تعریفوں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ اور ٹیکس میں جہاں اختلاف کے بعض پہلو ہیں، وہیں ان دونوں میں اتفاق اور ہم آہنگی کے بھی بعض پہلو پائے جاتے ہیں۔ ان پہلوئوں کا تذکرہ حسب ذیل ہے:

  1. جبر اور لزوم کا وہ پہلو جس کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا ہے ، زکوٰۃ میں بھی پایا جاتا ہے اگر ایک مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کے باوجود اس کو ادا نہ کرے۔یہ جبر اور لزوم اس وقت اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے جب اس کو ہتھیار کی قوت کے ساتھ اس شخص سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کی ادایگی سے انکار کرتا ہے اور اس کے خلاف تلوار کو میان سے نکال لیتا ہے، نیز جو اس کے واجب ہونے سے انکار کرے اور صاحب ِ قوت بھی ہو۔[یہ اشارہ ہے سیدنا ابوبکرؓ  کا مانعینِ زکوٰۃسے جنگ کرنے اور ان سے تلوار کی نوک پر زکوٰۃ وصول کرنے کی طرف۔مترجم]
  2. علاوہ ازیں ٹیکس کسی عام ادارے کو ادا کیا جاتا ہے جیساکہ مرکزی حکومت یا مقامی حکومت۔۲؎ یہی کچھ حال زکوٰۃ کا بھی ہے جو حکومت کو اس ادارے کے ذریعے ادا کی جاتی ہے جس کو قرآن نے الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا (اس کے لیے کام کرنے والے) کا نام دیا ہے۔
  3.  ٹیکس کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ اس میں خواص___ یعنی خاص خاص افراد___ کی رعایت نہیں کی جاتی۔ ٹیکس ادا کرنے والا ایک خاص معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کی مختلف سرگرمیوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان اپنی زکوٰۃ کسی خاص شخصی فائدے کے لیے ادا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اس وجہ سے ادا کرتا ہے کہ وہ اس مسلمان معاشرے کا ایک فرد ہے جس کی حمایت، کفالت اور اخوت سے وہ بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرے کے دیگر افراد کی مدد کرے اور ان کو فقر اور عجز کی حالت میں اور زندگی کی مصیبتوں کے مقابلے میں امن و امان مہیا کرے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے عام نفع کے منصوبوں میں اپنا حصہ ادا کرے جس کے ذریعے اُمت مسلمہ کا کلمہ اُونچا ہوتا ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اس کو ادایگی زکوٰۃ سے کوئی شخصی نفع پہنچتا ہے یا نہیں ۔
  4.  اگرچہ ٹیکس کے جدید رجحان کے اعتبار سے ٹیکس کے مالی فوائد کے علاوہ کچھ اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی ہدف بھی ہیں لیکن زکوٰۃ کے بھی بعض ایسے پہلو ہیں جو اپنے دائرے میں اس سے زیادہ وسیع ہیںاور ان کا اُفق (horison) زیادہ وسیع اور اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ ان مذکورہ پہلوئوں اور ان کے علاوہ دیگر پہلوئوں میں فرد اور معاشرے پر ان کے دُوررس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔[تفصیلات کے لیے دیکھیے اس کتاب کا باب: ’زکوٰۃ کے اہداف‘ ۔مترجم]

زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کا پھلو

زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کے پہلو تو بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم اُمور کا ذکر ہم مندرجہ ذیل سطور میں کرتے ہیں:

اسم اور عنوان میں فرق:

پہلے ہی مرحلے میں زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق ان کے عنوان، ان کی دلالت اور اس کے اثرات سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ لفظ ’زکوٰۃ‘ اپنے لغوی معنوں میں طہارت، نشوونما اور برکت پر دلالت کرتا ہے۔

شریعت ِ اسلامی کا اس لفظ کو اس حصے کی تعبیر کے لیے اختیار کرنا جو اس کے مال و دولت میں فرض کیا ہے اور جو فقرا اور دیگر مستحقین کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس لفظ کے اثرات نفسِ انسانی پر بڑے اچھے پڑتے ہیں برعکس ان اثرات کے جو لفظ ’ٹیکس‘ سے پڑتے ہیں۔

ٹیکس کا لفظ بنا ہے جرمانہ لگانے سے یا پیداوار میں سے ایک حصہ وصول کرنے سے۔ عربی زبان میں ’ضُرِبَ علیہ‘ سے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرہ۲:۶۱) (ان پر، یعنی یہود پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی)۔ کہتے ہیں: ضرب علیہم ضریبۃ البیع (اس پر سیلز ٹیکس عائدکیا)۔اس زاویۂ نگاہ سے لوگ ضریبہ(ٹیکس) کو ایک جرمانہ اور ایک بڑا بوجھ تصور کرتے ہیں۔   رہا لفظ ’زکوٰۃ‘ تو وہ اپنے پہلو میں پاکیزگی، نشوونمااور برکت کے معنوں کو سموئے ہوئے ہونے کی وجہ سے، یہ اثر چھوڑتا ہے کہ جو مال و دولت وہ سمیٹ سمیٹ کر جمع کر رہا ہے یا اس سے لطف اندوز ہورہا ہے اور اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کر رہا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے، تو وہ مال و دولت اس وقت تک خبیث اور ناپاک رہیںگے جب تک ان کو زکوٰۃ کے ذریعے پاک و صاف نہیں کیا جائے گا۔

یہ لفظ یہ اثر بھی چھوڑتا ہے کہ جو مال زکوٰۃ نکالنے سے بظاہر کم ہوجاتا ہے اگر اس کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ حقیقت میں پاک ہوکر بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو پروان چڑھاتا ہے‘‘۔۳؎ اور وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ (سبا ۳۴:۳۹)،  تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو وہ، یعنی اللہ اس کی جگہ نیا رزق دیتا ہے۔۴؎

یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکیزگی، نشوونما اور برکت صرف مال میں نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کے اندر اپنے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ لینے والے میں بھی اور زکوٰۃ دینے والے میں بھی۔ زکوٰۃ وصول کرنے والے کا نفس، معاشی بھلائی کی وجہ سے حسد اور بُغض سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس کے اور اس کے خاندان کے لیے مالی آسودگی فراہم ہوجاتی ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ دینے والے کا تعلق ہے تو اس کا نفس بخل اور کنجوسی سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اس میں، اس کے اہل و عیال میں اور مال میں برکت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے مال و دولت میں سے زکوٰۃ وصول کرو جس کے ذریعے تم ان کو پاک کرتے ہو اور ان کے نفس کا تزکیہ کرتے ہو‘‘۔

کیفیت اور رُخ میں فرق: 

زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں پر فرض کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جاسکے اور اس ہستی مبارک سے قرب حاصل ہو۔ رہا ٹیکس تو وہ ایک خالص تمدنی پابندی ہے جو عبادت اور قربت کے سارے معنوں سے یکسر خالی ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ میں ادایگی کے لیے ’نیت‘ شرط ہے تاکہ وہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے، کیونکہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر ادا نہیں ہوتی ہے۔ انما الاعمال بالنیات ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) ’’اور انھیں حکم نہیں دیا گیا الا یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں (اپنی نیتوں) کو اس کی اطاعت کے لیے خالص کرکے‘‘۔

اسی وجہ سے زکوٰۃ کا ذکر فقہ کی کتابوں میں عبادات کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت میں ان دونوں کو، یعنی نماز اور زکوٰۃ کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن نے ۲۰ سے زائد جگہوں پر مکّی اور مدنی سورتوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ رہی سنت تو اس میں ان مقامات کی گنتی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حدیث جبریل ؑ اور حدیث: بنی الاسلام علی خمس ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث ہیں جن میں زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے۔ یہ اسلام کی چار عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ اور اس وجہ سے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے اور ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس سبب سے یہ صرف مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ وسعت ِ داماں کی حامل شریعت نے اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ ایک مالی عبادت کو غیرمسلموں پر فرض کرے جو شعائر اسلام میں سے ہے۔ یہ ٹیکس کے برعکس ہے جو مسلم اور غیرمسلم دونوں پر فرض کیا جاتا ہے اگر ان میں اُسے ادا کرنے کی طاقت اور قدرت ہو۔

نصاب اور مقدار کے تعین میں فرق:

زکوٰۃ ایک ایسا حق و حصہ ہے جس کو شارع نے بذاتِ خود مقرر کیا ہے۔ اسی نے ہرقسم کے مال کا نصاب مقرر کیا ہے۔ اسی نے ان مقداروں کا تعین کیا ہے جو ۵ فی صد سے لے کر ۱۰ فی صد تک اور ڈھائی فی صد واجب الادا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان میں تبدیلی یا کمی بیشی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو خطاکار قرار دیا ہے جو عصرِحاضر کی اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں کی بنا پر ان میں زیادتی کرنا چاہتے ہیں (دیکھیے فقہ الزکوٰۃ، ص ۲۴۴-۲۴۶)۔ اس کے برخلاف ٹیکس اپنے نصاب، مقدار، شرح اور دیگر اُمور میں حکومت کی صواب دید پر منحصرہوتا ہے، اور ان کے تعین کا فیصلہ صاحب ِ اقتدار حضرات کرتے ہیں بلکہ ان کا نفاذ یا خاتمہ حکومت کے فیصلے پر منحصر ہوتا ہے اگر وہ اس کی حاجت محسوس کرے۔

باقی اور دائم رھنے کے لحاظ سے  فرق:

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰۃ ایک باقی رہنے والا اور دائمی فریضہ ہے، جب تک کہ زمین پر اسلام اور مسلمان باقی ہیں۔ اس کو نہ تو ظالم کا ظلم باطل قرار دے سکتا ہے اور نہ عادل کا عدل۔ اس کا حال نماز جیسا ہے جو اسلام کا ستون ہے، جب کہ یہ اسلام کا خزانہ ہے۔ رہا ٹیکس تو نہ اس کی کیفیت کو دوام حاصل ہے نہ مقدار ہی اس کی دائمی ہے اور نہ اس کے وجوب کی کم از کم حد کو بقا حاصل ہے۔ ہرحکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی شرح میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکے یا اس کو اہلِ حل و عقد (یعنی قانون ساز اداروں) کی پشت پناہی حاصل ہو، بلکہ ٹیکس کا باقی رہنا بجاے خود ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ یہ حاجت کے  تابع ہے اور حاجت کے خاتمے سے اس کا خاتمہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔

خرچ کی مدات میں فرق:

زکوٰۃ کے استعمال کی وہ خاص مدات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں مقرر کردیا ہے اور ان کی وضاحت رسولؐ اللہ نے اپنے قول اور فعل سے کی ہے۔ خرچ کی یہ مدات اتنی واضح ہیں کہ ایک مسلمان بذاتِ خود انھیں جان سکتا ہے اور اپنی زکوٰۃ ان میں صرف (خرچ) کرسکتا ہے اگر اُسے ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ یہ مداتِ خرچ انسانی اور اسلامی نوعیت کی حامل ہیں۔ جہاں تک ٹیکسوں کا تعلق ہے تو ان کو عام حکومتی اخراجات پر خرچ کیا جاتا ہے اور ان کا تعین حکومت کے مقتدر ادارے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا موازنہ حکومت کے عام موازنے سے ایک الگ اور مستقل بالذات چیز ہے جس کے صرف کرنے کے راستے نسبتاً محدود اور متعین ہیں، اور جن کو قرآن کریم نے خرچ کرنے کے لیے متعین کرکے کہا: فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ  (التوبہ ۹:۶۰) ’’اللہ کی طرف سے فرض کیے ہوئے‘‘۔

حکومت سے تعلق میں فرق:

یہیں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ٹیکس کی ادایگی کا معاملہ ٹیکس ادا کرنے والے اور حکومت کے درمیان ہوتا ہے۔ حکومت ہی اس کو مقرر کرتی ہے، وہی اس کا مطالبہ کرتی ہے اور وہی اس کی واجب الادا شرح کا تعین کرتی ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں اس کو کم کرنا ہوتا ہے اور وہی اس کے کسی جز سے خاص حالات میں دست بردار ہوسکتی ہے۔ کسی خاص سبب کی وجہ سے یا ہمیشہ کے لیے بلکہ اُسی کے ہاتھ میں اس کو منسوخ قرار دینا ہوتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سارے ہی ٹیکسوں کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اگر ٹیکس کا شعبہ مطالبے میں لاپروائی سے کام لے یا تاخیر کرے تو ٹیکس ادا کرنے والے کو موردِ الزام نہیں قرار دیا جاتا ہے اور اس سے کسی چیز، یعنی جرمانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس زکوٰۃ کا معاملہ مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے۔ اس کے رب نے اُسے مال عطا کیا ہے اور اس نے اُسے زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھیرایا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کرسکے اور اس کی خوش نودی حاصل کرسکے۔ اُسی نے اس کی مقدار کا تعین کیا اور اُس نے اس کے خرچ کی مدات کا تعین بھی کیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حکومت، یعنی اسلامی حکومت پائی نہ جاتی ہو جو زکوٰۃ جمع کر کے اُسے مستحقین میں  تقسیم کرسکتی ہو، تو ایک مسلمان کا دین اس پر یہ امر فرض کرتا ہے کہ وہ اس کو اس کے مستحقین پر  تقسیم کرے، کیونکہ زکوٰۃ کسی حال میں اس پر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ وہ اس معاملے میں نماز کی طرح ہے۔ اگر ایک مسلمان ایسی جگہ پر ہو جہاں نہ تو مسجد ہی پائی جاتی اور نہ امامت کرنے کے لیے کوئی امام ہی موجود ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز جہاں بھی ہوسکے پڑھے، اپنے گھر میں یا کسی اور مقام پر۔ کیونکہ زمین ایک مسلمان کے لیے مسجد کا حکم رکھتی ہے (جہاں چاہے نماز ادا کرے) اور کسی حال میں بھی نماز نہ چھوڑے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ نماز کی طرح ہی ہے۔ اس وجہ سے ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرے ، یہ اُمید کرتے ہوئے کہ    اللہ تعالیٰ اس کو اس کی جانب سے قبول فرمائے گا اور اس کو واپس نہیں لوٹائے گا۔ یہ امر مستحب ہے کہ وہ اپنے رب سے قبولِ زکوٰۃ کے لیے اس قسم کی دعا کرے: اللھم اجعلھا اجراً ولا تجعلھا مغرماً (اے اللہ! اُسے باعث ِ ثواب و اجر بنا اور باعث ِ عذاب نہ بنا)۔

یہی سبب ہے جس کی بنا پر ایک مسلمان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اس کی ادایگی سے بھاگتا نہیں ہے جیساکہ عموماً دیکھا گیا کہ لوگ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتے اور جی چراتے ہیں۔ اگر وہ بھاگتے نہیں ہیں تو اُسے جبر کی وجہ سے یا پھر کراہیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ سے بھی زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اس رغبت کے سبب جو اللہ کے ہاں پائی جاتی ہے اور تاکہ اس کا ثواب اور اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو جیساکہ عہدنبویؐ میں اور آپؐ کے بعد کے اَدوار میں ہوتا رہا ہے۔

اھداف اور مقاصد میں فرق:

زکوٰۃ کے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی مقاصد اُفق پر چمکتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکس اتنی بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر اور عاجز ہے۔ اس کے اہداف کے بارے میں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا وہ قول کافی ہے جو اس کی کتاب میں وارد ہوا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے اموال میں سے وہ زکوٰۃ لو جو ان کو پاک کرتی اور ان کے (نفوس کا) تزکیہ کرتی ہے اور ان کے لیے دعا کرو، بے شک تمھاری دعا (ان کے لیے) باعث ِ تسکین ہوتی ہے‘‘۔ نبیؐ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے حق میں اس کی ذات اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے، اور یہ وہ بات ہے جو ہر زکوٰۃ وصول کرنے والے کو کہنی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کے اسوئہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بلکہ بعض فقہا نے اسے واجب قرار دیا ہے کیونکہ آیت نے اس کا حکم دیا ہے اور بظاہر ایسا ہی صحیح دکھائی دیتا ہے۔

رہا ٹیکس، تو وہ ان اُونچے اہداف کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں اُٹھاتا ہے بلکہ کئی صدیوں تک مالیات کے ماہرین اس بات سے انکار ہی کرتے رہے کہ ٹیکس کا مقصد حکومت کے خزانے بھرنے کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اسی موقف کو ’غیر جانب دار تصور‘ کا نام دیا گیا مگر جب افکار میں تبدیلی آئی اور اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی حالات میں تغیر پیدا ہوا تو ’غیرجانب دار‘ نظریے کے حامیوں کو شکست ہوئی اور وہ لوگ نمودار ہوئے جو اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ ٹیکسوں کو متعین اقتصادی اور اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا چاہیے، جیساکہ خرچ کی ہمت افزائی یا بچت کی ہمت افزائی یا تعیشاتی اشیا پر خرچ کرنے میں کمی اور (طبقات کے درمیان) پائے جانے والے فرق کا ازالہ وغیرہ۔ یہ سب اس کے اصلی ہدف کے پہلو بہ پہلو ہیں جو ایک مالی ہدف ہے۔ اس کے علی الرغم ٹیکسوں کو عائد کرنے والے اور عوامی مالیات کے ماہرین اور ان کے مفکرین ٹیکسوں کو ان کے مادی دائرے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے جو اس کے دائرے سے زیادہ  وسیع و عریض ہوتا۔ وہ دائرہ روحانی اور اخلاقی اہداف کا دائرہ ہے جس پر زکوٰۃ نے توجہ مرکوز کی ہے۔

فرض کیے جانے کا نظری فرق:

سب سے نمایاں فرق جو زکوٰۃ اور ٹیکس میں پایا جاتا ہے وہ اس بنیاد میں ہے جس پر زکوٰۃ اور ٹیکس کی عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں۔ جہاں تک قانونی یا نظری بنیاد کا تعلق ہے ٹیکس کے فرض کیے جانے میں، ان نظریات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ رہی زکوٰۃ تو اس کی بنیاد واضح ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے۔ ہم ان کی وضاحت ان چار نظریات کی روشنی میں کریں گے جن کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتے ہیں۔ [ان نظریات پر بحث الشیخ القرضاوی نے دوسری فصل: ’زکوٰۃ اور ٹیکس فرض کیے جانے کی نظریاتی بنیادیں‘ میں کی ہے۔ مترجم]

 زکٰوۃ عبادت بھی :

ٹیکس بہی:یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زکوٰۃ بیک وقت عبادت بھی ہے اور ٹیکس بھی۔ ٹیکس اس وجہ سے کہ وہ ایک معلوم مالی حق ہے جس کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔ اگر اس کو خوش دلی اور اطاعت کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو حکومت اس کو بالجبر وصول کرتی ہے، اس سے حاصل شدہ رقم کو ان اہداف کے حصول میں خرچ کرتی ہے جو معاشرے کی خیر و فلاح کا باعث ہوتے ہیں۔

زکوٰۃ سب سے پہلے عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس کے ادا کرنے سے ایک مسلمان اللہ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور جب وہ اُسے ادا کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسلام کے ایک رکن کو ادا کیا اور ایمان کے بہت سے شعبوں میں سے ایک شعبے کوپورا کیا۔ اس کے ذریعے وہ اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے۔ یہیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ادا کرنا اطاعت اور صلاح کے کاموں میں سے ہے اور اس کو ادا نہ کرنا صریح فسق (نافرمانی) اور کھلی ناشکری ہے۔ وہ ایک ایسا فریضہ ہے جو وصول کرنے والے کے نہ آنے یا تاخیر سے آنے سے ساقط نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ حاکم کی لاپروائی سے یا کئی برس گزرنے سے ہی ساقط ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس کی طرح نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کہنے سے فرض ہوجائے اور حکومت کے طلب نہ کرنے سے ساقط ہوجائے۔

یہاں ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علما اس حقیقت کو پاچکے تھے اوراس کی طرف انھوں نے توجہ بھی دلائی تھی کہ زکوٰۃ ان دونوں معنوں کو محیط ہے، یعنی ٹیکس کے معنی اور زکوٰۃ کے مفہوم کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ انھوں نے لفظ ٹیکس کے ذریعے اس کی تعبیر نہیں کی ہے کیونکہ لفظ ٹیکس ایک جدید اصطلاح ہے۔ وہ اس کے مفہوم کو لفظ ’حق‘ سے تعبیر کرتے تھے جو   مال داروں کے اموال میں فقرا اور مساکین کے لیے واجب الادا ہوتا ہے(دیکھیے بدایۃ المجتہد لابن رشد،ج۱، ص ۲۳۷، مطبعۃ الاستقامۃ)۔ یا وہ اس کو صلۃ الرحم، یعنی انسان ہونے کے ناتے یا مسلمان ہونے کی وجہ سے (اس کو فرض قرار دیتے ہیں) اس میں عبادت کے پہلو کے ساتھ۔

اس سلسلے میں واضح ترین معنیٰ الروض النضیر  کے مصنف نے بعض علما کے حوالے سے زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کی حکمت کے بارے میں بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’مال داروں کے مال و دولت کی تاکید اس کے وجوب کے ساتھ کی جاسکے۔ اللہ نے معاونت اور اتحاد و تعاون کا جو حکم دیا ہے اس میں مال داروں کے نفوس کا ابتلا اور امتحان ہے جو انسانی نفوس پر شاق گزرتے ہیں جیساکہ عبادات کو فرض کر کے ان کے جسموں کو ابتلا اور امتحان میں مبتلا کیا۔ یوں یہ صلۃ الرحم کا ذریعہ بنی اور اس میں عبادت کا پہلو بھی آگیا ہے۔ عبادت کے پہلو کی وجہ سے اس میں نیت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس میں نافرمانی اور معصیت جیسی دیگر چیزوں کو شریک کرنا ناجائز ہے۔ اس میں  صلۃ الرحم کے پائے جانے کی بنا پر اس میں کسی کو نائب یا وکیل بنانا جائز ہے اور اس میں جبر کا استعمال جائز ہے۔ جب امام کسی سے بالجبر اُسے وصول کرے تو وہ ادا کرنے والے کی طرف سے نیابت اور وکالت کی نیت کے تحت ہوتا ہے۔ اس کو میت کے مال میں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ خواہ میت نے اس کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اس میں صلۃ الرحم کا عنصر غالب ہے، اس لیے اس میں فقرا کے لیے زیادہ منفعت کی رعایت کرنے کا حکم ہے اور یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا اس جیسے لوگوں کے اموال میں بھی واجب ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا اصل مقصد مواساۃ ہے، اس لیے اُسے صرف بڑی مقدار کے مال میں واجب کیا گیا ہے جس کو نصاب کہتے ہیں۔ اُسے صرف قابلِ نمو (growthable) اموال میں فرض کیا گیا ہے۔ یہ اموال عین (یعنی سونا چاندی) نقد [چونکہ   سونا چاندی کے اس وقت سکّے ہوا کرتے تھے۔ مترجم] اموالِ تجارت، مویشی، زرعی پیداوار ہیں۔ شرع نے ان اموال میں وہ نصاب مقرر کیا ہے، جس کا ان میں سے ہرقسم یا مواساۃ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ان میں واجب ہونے کی مقدار کو محنت اور زرعی ضروریات کے لحاظ سے مقرر کیا۔ اس لیے بارش یا اس جیسی چیز سے سیراب ہونے والی فصلوں پر ۱۰ فی صد فرض کیا اور جن فصلوں کو جانوروں یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس کا نصف، یعنی ۵ فی صد (دیکھیے: الروض النضیر، ج۲، ص۳۸۹، مطبعۃ السعادۃ۔ یہ دراصل امام زید بن علی زین العابدین بن حسین بن علی کی کتاب المجموع الفقہ الکبیر کی چار جلدوں میں شرح ہے)۔

____________________________________________________________

حواشی

  1. مبادی علم المالیہ از ڈاکٹر محمد فواد ابراہیم، ج۱،ص ۲۷۱۔ اس تعریف کو انھوں نے ٹیکس کے مزاج اور اس کے اہداف پر بحث کے بعد بطور خلاصہ پیش کیا ہے۔مترجم
  2. اس شرط کا ذکر انھوں نے محض اس لیے کیا ہے کہ ٹیکس کی تعریف کے ضمن میں اس چیز سے دامن کشی کرنے کے لیے جو یورپ میں عہدوسطیٰ میں وقوع پذیر ہوا کرتی تھی جب کسان زمین کے مالکوں کو ٹیکس ادا کیا کرتے تھے۔مترجم
  3. یہاں غور طلب لفظ ’مٹھ مارنا‘ ہے جو نشوونما کی ضد ہے، یعنی اس کا خاتمہ کرنا۔ آج سود کی کارگزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ اسپین میں بے روزگاری ۲۷ فی صد ہوگئی ہے۔ یہی حال قبرص، ہالینڈ، یونان، پرتگال وغیرہ کا ہے۔ یہ سب کچھ سودی مٹھ مار کا نتیجہ ہے۔مترجم
  4. سود حاصل کرنے کے لیے سودخوار خرچ کرنے کے بجاے بچت کی سوچتے ہیں۔ اس سے پیسے کا بہائو پیداواری چیزوں /سرگرمیوں کے بجاے بنکوں میں پیسہ جمع کرانے کی طرف ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی چاول یا گیہوں خریدتا ہے تو کسان کو چاول اور گیہوں پیدا کرنے پر اُبھارتا ہے۔ یوں پیسہ گردش کرکے کئی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھولتا ہے۔ مترجم

یورپ اور امریکا میں عیسائیوں کی کم ہوتی، اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے کو سرسری انداز سے دیکھنے والے حضرات، ان مسلم دانش وروں پر جو اس کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں، طنزیہ فقرے کستے ہیں کہ: ’’مسلمان تو بس اسی بات پر خوش ہوئے جارہے ہیں کہ مغرب اور دنیا بھر میں ان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے‘‘۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بات اتنی سرسری سی بھی نہیں ہے۔ آبادی کے اُتارچڑھائو، اور توازن و عدم توازن کے تہذیبی و تمدنی اثرات ہوتے ہیں۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر کسی دیگر مذہب کے اضافۂ آبادی سے مغربی ملک میں ان کی اپنی مقامی و دیرینہ آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہاں کی معاشرت، مذہب ، طرزِ تعمیر، کاروبار، اور تعلیم و سیاست وغیرہ سب پر نمایاں اثرات چھوڑتی ہے۔ جیساکہ ہم یورپ کے بعض علاقوں میں آج نمایاں طور پر دیکھ رہے ہیں کہ وہاں حیران کن طور پر مسجدوں کے مینار، حجاب و نقاب اور اُردوو عربی الفاظ ۵۰ اور ۶۰ کے عشروں کے مقابلے میں بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

عدم توازن کی ابتدا:

یورپ میں صنعتی احیا کے بعد سے معاشرے کی اخلاقی و دینی قدروں میں جو زوال تیزی کے ساتھ رُونماہوا تھا، اس میں معاش کے بعد سب سے مرکزی توجہ ’عورت‘ ہی پردی گئی تھی۔ اس دور کی عام گھریلو عیسائی عورت کو راہِ راست سے ہٹاکر محض بازار کی جنس بنائے جانے کی ہمہ گیر مہم کے پیچھے جو قوتیں تھیں، ان میں ’یہودی‘ سرفہرست تھے۔ حقیقت   یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ ’آبادی گھٹائو اور عیش کرو‘ کا نعرہ کارفرما تھا۔ اس مقصد کے لیے ترغیب، رنگینی، انعامات،تحریص، دھونس اور دھمکی کے تمام حربے استعمال کیے۔ دُوراندیشی کی صفت سے محروم عورت بہرحال اس دامِ ہم رنگ میں پھنستی چلی گئی۔ نہ صرف یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلی، بلکہ لباس کو بھی مختصر کیا، نہ صرف یہ کہ تمام عشوہ و ادا سے خود کو لیس کیا، بلکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں بچوں کو جنم دینے سے بھی وہ کترانے لگی۔ مادّہ پرست (یا مادَہ پرست) عناصر نے اس کا وہ سب سے بڑا جذبہ بھی بالآخر اس سے سلب کرلیا جس کی وجہ سے خالقِ کائنات نے اسے تمام مخلوقِ انسانی پر فضیلت عطا کی تھی، یعنی اس کا ’جذبۂ مادری‘ ۔

کم از کم دو سو برس پہلے اُٹھنے والی ’آبادی کم کرو‘ کی اس مہم پر کم اور زیادہ مسلسل عمل کرتے رہنے کے باعث مغرب کی صورتِ حال اب یہ ہوچکی ہے کہ پورے براعظم یورپ، اور براعظم  شمالی امریکا میں مقامی عیسائی آبادی آج نمایاں ترین قلت کا شکار ہو رہی ہے جسے دیکھ کر  ان کے ماہرین، اپنے ہی آباواجداد کے اس فلسفیانہ نعرے پر سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔

وہ بجا طور پر سوچ رہے ہیں کہ آج اگر ان کی آبادی کی صورتِ حال اس قدر پریشان کن ہے تو مزید تین چار عشروں کے بعد، یعنی ۲۰۵۰ء یا ۲۰۶۰ء تک پہنچ کر تو ان کے اکثر بڑے شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے اور ان کی حیثیت اپنے ہی شہروں میں ’اقلیت‘ کی شکل اختیار کرلے گی۔

ماضی کی مغربی آبادی کی خصوصیات کا مطالعہ اگر کسی نے کیا ہو تو اسے نظر آئے گا کہ آج سے محض سوسال پہلے تک مغربی گھرانوں، حتیٰ کہ خود بادشاہوں تک کے ہاں بھی آٹھ آٹھ اور دس دس اولادیں ہوا کرتی تھیں۔ ملکہ وکٹوریا برطانیہ (۱۸۹۱ء-۱۹۰۱ء) کے نو بچے تھے، جب کہ اس کے بیٹے جارج پنجم کے ہاں چھے بیٹے تھے ۔

لیکن بُرا ہو اس تصورِ مساوات، اور نام نہاد آزادیِ نسواں کی تحریک کا، جس نے مغرب کی عقلوں پر گذشتہ دوسو برسوں سے آج تک پردہ ڈال رکھا ہے۔ کسی قوم کی بربادی میں اس سے بڑاعامل اور کیا ہوگا کہ اس کی پوری کی پوری آبادی کی عقلوں پر محض چند سرغنہ ماہر افراد قبضہ کر کے بیٹھ جائیں اور اسے ہربات صرف اپنے ہی نقطۂ نظر سے سوچنے پر مجبور کردیں۔ سارے مغرب میں صورتِ حال آج یہی ہے۔ اگرچہ تمام عیسائی قوم قلت ِ آبادی کے شدید مسئلے سے دوچار ہے، لیکن افسوس کہ اب اس کی اصلاح بھی نہیں کی جاسکتی۔

مغربی آبادی کی تازہ ترین صورت حال

صورتِ حال کی بہتر تفہیم کی خاطر گھٹتی ہوئی اس آبادی کی چند مثالیں رسائل و جرائد سے اخذ کر کے ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ اعداد و شمار آگاہ کرتے ہیں کہ:

  • اب سے بیس سال کے اندر اندر تک ۳۰ تا ۴۰ فی صد یورپی شہر مسلمان ہوچکے ہوں گے۔ (اوریانہ فلاسی، اطالوی صحافی، بحوالہ روزنامہ ڈان، کراچی ، ۱۳مارچ ۲۰۰۵ء)
  • l ۲۰۴۰ء تک برطانیہ میں عیسائی آبادی ۷۲ فی صد سے گھٹ کر محض ۳۲ فی صد تک رہ جائے گی۔ (روزنامہ نوائے وقت، کراچی ، ۶ستمبر ۲۰۰۵ء)
  • موجودہ صدی کے اختتام یعنی ۲۰۹۹-۲۰۹۰ء تک یورپ ایک مسلم اکثریتی علاقہ    بن جائے گا (برنارڈ لوئس، نوائے وقت، ۱۹جون ۲۰۰۵ء)
  • گلاسگو یونی ورسٹی میں ’رلیجیس اسٹڈیز‘ کی پروفیسر ’’نکول بورگ‘‘ کا کہنا ہے کہ: ’’وہ گلاسگو برطانیہ کے علاقے میں ایسے تنہا۲۰۰؍ افراد کو جانتی ہے جنھوں نے عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کیا ہے‘‘۔ (نوائے وقت، کراچی، ۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  • برطانوی پالیسی ساز ادارے ’کرسچئین ریسرچ‘ کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۳ء تک برطانیہ کے ۴ہزار چرچ بند ہوجائیں گے۔ (نوائے وقت،کراچی، ۱۵مارچ ۲۰۰۷ء)
  • برطانیہ کے صرف ایک شہر برمنگھم میں ۱۶۵؍ مراکز ایسے ہیں جہاں یا تو مسجدیں پائی جاتی ہیں، یا وہاں نماز کے لیے جگہیں (Prayer Area)مخصوص ہیں۔
  • نائن الیون کے بعد امریکا میں مساجد کے قیام میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۰ء تک امریکی ریاستوں میں مساجد کی تعداد ۱۲۰۹ تھی، جب کہ ۲۰۱۱ء تک وہ ۲۲۰۶ تک پہنچ چکی تھی اور صرف نیویارک شہر میں ۲۰۱۱ء تک مساجد کی تعداد ۱۹۲ تھی (روزنامہ جنگ کراچی ،۲مارچ ۲۰۱۰ء)۔ اُدھر خود ویٹی کن (روم) سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ زیادہ شرحِ پیدایش اور قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں کی تعداد پاپاے روم کے ماننے والے کیتھولک عیسائیوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ساڑھے چھے ارب کی عالمی آبادی میں کیتھولک عیسائیوں کی تعداد ۴ء۱۷ فی صد ہے ، جب کہ مسلمانوں کی تعداد ۲ء۱۹ فی صد ہے۔ (بحوالہ جنگ، کراچی، ۳۱ مارچ ۲۰۰۸ء)

اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تحلیل ہوتی ہوئی مغربی، اور اضافہ پاتی ہوئی مسلم آبادی کے اثرات مغربی دنیا پر کیا پڑ رہے ہیں؟

مغربی دنیا پر اثرات:

حقائق اور اعداد و شمار آگاہ کر رہے ہیں کہ آبادی کے اس اُلٹ پھیر کے نتیجے میں یورپی ممالک کے قوانین میں مسلمانوں کے لیے گنجایشیں نکالی گئی ہیں۔  ان کی تہذیب میں مسلم تہذیب نے راستے بنائے ہیں، اذانوں اور مسجدوں کی کثرت ہوئی ہے، حجاب،پردہ اور داڑھی ہر جگہ نمایاں نظر آنے لگے ہیں۔ مدارس اور دارالعلوموں کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ رمضان کے روزے اور تراویح کا چلن وسیع ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلوں پر مسلم علما، اسکالرز اور دیگر اہم شخصیتیں پیش ہونے لگی ہیں۔ ان کے لیے خصوصی پروگرام نشر کیے جانے لگے ہیں۔ ان کی سرکاری کابینائوں میں مسلم وزرا کا تقرر بھی ہونے لگا ہے۔ مذکورہ تبدیلیوں میں سے چند ایک کا ذکر اب ہم یہاں علیحدہ سے بھی کریں گے۔

حلال خوراک:

مغربی دنیا میں چونکہ حلال خوراک کا تصور نہیں ہے ، اس لیے وہاں منتقل ہونے والے مسلمان تاحیات سبزی اور انڈوں پر گزارا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے اِکّا دکّا حلال ذبیحوں اور طعام گاہوں کا رواج شروع ہوا، جس کے بعد اب حال یہ ہے کہ حلال کھانے اور ذبیحے والا گوشت وہاں پہلے کی نسبت زیادہ آسانی سے دستیاب ہے۔

مستندحلال فوڈز کے ادارے بھی قائم ہونے لگے ہیں۔ اس طرز کے ادارے نہ صرف   یہ کہ اسلامی دنیا میں قائم ہیں بلکہ خود یورپی ممالک اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ حلال خوراک کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ ان مصنوعات کی عالمی صنعت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ایک خبر کے مطابق عالمی منڈی میں حلال خوراک کا حجم دو کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے (جنگ، کراچی ۲۷ ؍اپریل۲۰۱۴ء)۔ ادھر جرمنی میں ’حلال کنٹرول‘ کمپنی گذشتہ چودہ برسوں سے کام کر رہی ہے، جو پورے یورپ میں مختلف مصنوعات کے حلال اور اسلامی معیار کے مطابق ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ ’فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا‘ کے مطابق امریکا میں حلال مصنوعات کی قومی منڈی کی مالیت ۲۰؍ارب ڈالر ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۶مارچ ۲۰۱۴ء)

غیر سودی بنکاری:

روایتی اور استحصال پسندانہ سودی بنکاری نے دنیا بھر کے لوگوں کو جو معاشی و ذہنی نقصان پہنچایا ہے، اس کے نتائج سے وہ چیخ اُٹھے ہیں۔ اس کا متبادل صرف اسلامی غیرسودی بنکاری ہی تھا، جسے پہلے پہل بعض عرب ممالک نے، اور بعدازاں پاکستان اور ملیشیا وغیرہ نے بھی اختیار کیا۔ تاہم اب حال یہ ہے کہ خود مغربی بنکوں نے بھی عرصہ دراز سے اسے اپنے ہاں رواج دیا ہوا ہے۔ اکثر بڑے بنکوں نے مسلم اور مقامی سرمایہ کاروں کی سہولت کی خاطر غیرسودی شعبے قائم کردیے ہیں جن کی سربراہی مسلم دنیا کے معروف اسکالر کر رہے ہیں۔

فروری ۲۰۱۴ء تک کی رپورٹ کے مطابق ۵۸ (مسلم و غیرمسلم) ممالک میں ۴۰۰ اسلامی مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں تکافل کمپنیاں شامل نہیں ہیں۔ دوسری طرف موجودہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بیان دیا ہے کہ: ان کا ملک اسلامی بنکاری کو      خوش آمدید کہنے میں فخر محسوس کرے گا۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء)

حجاب اور داڑھی کا رواج:

مغربی دنیا داڑھی اور پردے سے جس قدر ’وحشت زدہ‘ رہتی تھی، اسی قدر وہاں ان کا رواج بڑھ رہا ہے۔ مسلم دنیا سے مغرب کی جانب نقل مکانی کی شرح جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، پردے اور حجاب پر جمی رہنے والی خواتین، اور داڑھی رکھنے پر اصرار کرنے والے مرد بھی اس برہنہ معاشرے میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ نوائے وقت کراچی کی ایک خبر (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) کے مطابق پیرس کے ایک نواحی علاقے ’بیلیولی‘ میں متعدد مسلم خواتین پردے میں دکھائی دیتی ہیں، جس سے یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ یورپ کے مسلمان تارکینِ وطن کے باعث وہاں مسلم کلچر کو ’غلبہ‘ حاصل ہو رہا ہے۔ مصری خاتون مروۃ الشربینی شہید پر جرمنی میں عین عدالتی کارروائی کے دوران جو اپنے شوہر کے ساتھ نقاب میں گواہی دے رہی تھی کہ   ایک گورے جنونی نے حملہ کر کے اسے شہید اور اس کے شوہر کو زخمی کردیا تھا۔

ایک اور خبر کے مطابق لندن میں ایک جج نے مسلم ’نقاب پوش‘ خاتون کی گواہی قبول کرلی۔ خاتون نے کہا کہ وہ عدالت میں سب کے سامنے اپنا نقاب نہیں اُٹھا سکتی کیونکہ اس کا مذہب اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ جواب میں عدالت نے کہا کہ وہ اس کے عقائد کا تحفظ کرے گی اور اس کا چہرہ محض بند کمرے ہی میں دیکھے گی، تاکہ فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہو۔ (جنگ، کراچی، ۱۷ستمبر ۲۰۱۳ء)

قوانین میں لچک:

ایک خبر کے مطابق ریاست نیویارک میں مسلم پولیس افسروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خبر کے مطابق دونوں محکموں کے پولیس افسران میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو نماز، روزے اور حج و عمرے کی ادایگی کے لیے علانیہ چھٹیاں کرتے ہیں، جب کہ بعض پولیس افسران باقاعدہ روزے رکھ کر بھی اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ (۳جولائی ۲۰۱۳ء) کے امریکا میں متعین نمایندے کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک پولیس نے ایک کتابچہ تیار کیا ہے جس کا نام ہی Commanders Guidelines for Ramzan ہے اور اس میں غیرمسلم پولیس افسروں کی تفہیم کے لیے مسلمانوں کی ادایگیِ عبادت کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔

اسی طرح پروٹسٹنٹ چرچ آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ: برطانیہ کے چند علاقوں میں اسلامی قوانین کو شامل نہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ برطانوی اسکالر ڈاکٹر رووِن نے راے دی ہے کہ اسلامی شریعت کے کچھ حصے اختیار کرنے سے برطانیہ میں سماجی ارتباط میں مدد ملے گی۔ (روزنامہ جسارت اور اُمت، کراچی، ۹فروری ۲۰۰۸ء)

حکومتوں پر مقامی دباؤ:

مغربی ممالک میں مسلم آبادی کے مناسب اضافے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ممالک کی حکومت پر مناسب سیاسی و مذہبی دبائو ڈال سکتے ہیں، جب کہ حکومت بھی اس اثر کو محسوس کرسکتی ہے۔ امریکا میں یہودی اپنی اس حیثیت سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دبائو ڈال کر اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینے کی بیرونی ممالک کی حکمت عملی مسلم دشمنی کے علاوہ اس کی کم و بیش ایک ارب کی آبادی کا رُعب بھی ہے جس کے باعث انھیں وہاں ایک عظیم مارکیٹ دستیاب ہوتی ہے۔

عبایا کا فروغ:

مسلم دنیا میں خواتین کے عبایا کو جس قدر فروغ حاصل ہو رہا ہے، مغربی فیشن ڈیزائنر بھی عبایا کی مارکیٹنگ کے لیے ازخود ڈیزائننگ اور نمایش کر رہے ہیں، جس سے عبایا اور اسکارف کو خود بخود عالمی شہرت اور طلب حاصل ہورہی ہے۔ سلمیٰ نامی ایک عالمی فیشن ڈیزائنر خاتون بیان کرتی ہیں کہ عربی ملبوسات و عبایا، مغربی خواتین میں بھی راہ بنانے لگے ہیں۔ (روزنامہ جنگ، اپریل ۲۰۱۴ء)

اسلامی دعوت کا فروغ:

مغربی ممالک میں چونکہ تحریر و تقریر کی خاصی آزادی ہے۔ اس لیے وہاں کے دعوتی اور جوشیلے نوجوان مرد و خواتین اب کھلے عام سڑکوں اور بازاروں میں  اسٹال لگاکر Islam - The Religion of Today کے نمایاں بیج لگاکر مسیحیوں، ہندوئوں اور یہودیوں کو انفرادی طور پر دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس انگریزی ترجمہ شدہ خوب صورت قرآنِ مجید ہوتے ہیں جو وہ اپنے مخاطبین کو بلامعاوضہ ہدیہ کرتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے  نومسلم مقامی افراد بھی اپنی تحریروں، تقریروں ، کانفرنسوں اور ٹی وی مذاکروں کے ذریعے دعوتِ دین کے کام کو فروغ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض جوشیلے مقامی خواتین و حضرات  تو کھلے عام یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہم خود اپنے ملک میں بھی ’شریعت‘ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بیان کرنا بھی یہاں ضروری ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہی کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ اب ان کی قومی زبانوں میں اُردو اور عربی الفاظ بھی داخل کیے جانے لگے ہیں، مثلاً جہاد، اُمہ، رمضان، اُخوت وغیرہ۔ فرید زکریا اپنی کتاب ’امریکا کے بعد کی دنیا‘ میں آگاہ کرتے ہیں کہ امریکا کی ایجادات میں بے پناہ اضافہ اس وجہ سے بھی ہو رہا ہے کہ غیرملکی آبادی (بشمول مسلمان) وہاں کثرت سے پائی جاتی ہے (ص۱۸۳)۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں پینٹاگون، ناسا اور خود امریکی افواج میں بھی مسلم ماہرین اپنی خدمات انجام دیتے نظر آرہے ہیں۔

مغرب میں مسلم اثرات و دعوت کے بڑھتے ہوئے ان اثرات کی ایک بڑی وجہ وہاں پائی جانے والی تحریر و تقریر کی آزادی، اور عمومی رواداری و برداشت کا عنصر ہے ، تاہم کچھ حکمتیں اللہ تعالیٰ کی اپنی بھی ہیں۔ مغربی دنیا چاہے یا نہ چاہے، اسلام تو ان کے شہروں اور ملکوں میں بالادست ہوکر ہی رہے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اسلام کا ظہورِ ثانی بھی اب خود انھی کے اپنے ممالک سے ہو۔

’’ایف ایس سی کے امتحان میں قومی سطح پر میری چھٹی پوزیشن تھی۔ ایم بی بی ایس کے امتحان میں ہر سال میں ملک بھر میں اول آتا رہا۔ پھر میرا شمار اپنے شعبے میں ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا۔ جامعہ الازہر کے میڈیکل کالج میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ میں نے اپنی نگرانی میں ایک کلینک قائم کیا جو ملک کے بہترین طبی مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ پھر دو ماہ کے عرصے میں مجھ پر ملک کے ۲۵؍ اضلاع میں ۲۵ خطرناک مقدمات قائم کردیے گئے۔ مقدمات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں ملک کا ایک معروف اور قابل ڈاکٹر نہیں کسی خطرناک مافیا کا سرغنہ ہوں .... آپ لوگوں نے میرا کلینک جلا کر راکھ کردیا… کالج میں زیر تعلیم میری بیٹی اسما کو قتل کردیا .. میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا ... میری اہلیہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں...... لیکن جج صاحب! آپ کا خیال ہے کہ میں عدالت کے کٹہرے میں قیدیوں کا لباس پہنے اپنے دفاع میں کوئی دلیل پیش کروں گا..... رب ذوالجلال کی قسم! میرے لیے پھانسی کے پھندے پر جھول جانا یا ان تمام الزامات سے بری الذمہ ہوجانا یکساں حیثیت رکھتا ہے ..... جج صاحب ! میں آج یہاں صرف اس لیے کھڑا ہوں کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیندہ نسلیں تک جان لیں کہ کون حق پر تھا اور اہل حق کے ساتھ کھڑا تھا، اور کون باطل پر تھا اور اہل باطل کی صف میں کھڑا تھا‘‘۔

یہ الفاظ اخوان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر محمد البلتاجی کے ہیں جو انھوں نے چند روز قبل جیل سے ایک عدالتی پنجرے میں لائے جانے پر جج کے سامنے کھڑے ہوکر کہے۔ ڈاکٹر بلتاجی کو معلوم تھا کہ یہی عدالتیں چند منٹ کی کارروائیوں کے بعد سیکڑوں افراد کو سزاے موت سنا رہی ہیں۔ خودان کے خلاف کسی بھی وقت اور کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ لیکن لگتا تھا کہ جج بھی سکتے میں آگیا ہو ... ہر دیکھنے اور سننے والے نے تبصرہ کیا: ’’لگتا ہے جج کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ملزم ان پر فرد جرم عائد کررہا ہے‘‘۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ اخوان کے تمام گرفتار شدگان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل اسی جرأت و عزیمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ۱۱ ماہ کا عرصہ گزر گیا، خونی فوجی انقلاب مسلسل خوں ریزی کررہا ہے، لیکن اس پورے عرصے کا کوئی ایک دن... جی ہاں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب ملک کے طول و عرض میں مصری عوام سراپا احتجاج  نہ ہوں۔ ۸ ہزار سے زائد شہدا اور ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار شدگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ابھی جمعہ ۲۳ مئی کو پانچ مزید بے گناہ شہید ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جمعے کو بھی آٹھ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ دوران ہفتہ بھی شہدا کا قافلہ مسلسل گامزن رہتا ہے۔

حیرت ناک بات یہ ہے کہ شہدا کی اس روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد سے عوام میں خوف یا مایوسی نہیں، ان کے عزم و استقامت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذرا عین الشمس یونی ورسٹی کے طالب علم محمد ایمن کا پیغام پڑھیے، جو اس کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس کا آخری پیغام ثابت ہوا۔ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں تمھیں جنت کی طرف لے جا کر رہوں گا۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ اکیلے اکیلے جنت میں چلے جائیں گے..؟ ہرگز نہیں ... ہم ان کے شانہ بشانہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوں گے تاکہ انھیں بھی معلوم ہوجائے کہ انھوں نے اپنے پیچھے حقیقی مردانِ کار چھوڑے ہیں‘‘۔ ۷مئی کی رات ۵۵:۸ پر اس کا یہ پیغام  نشر ہوا اور کچھ ہی دیر میں وہ شہدا کی صف میں شامل ہوگیا۔ تصویر دیکھیں تو مصریوں کا روایتی جمال آنکھوں اور چہرے سے واضح چھلک رہا ہے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ ۲۳مئی کو پھر ایسا ہی واقعہ سامنے آتا ہے۔ یونی ورسٹی کا طالب علم ابراہیم عبد الحمید ٹویٹر پر اپنا پیغام لکھتا ہے: النصر الحقیقی ھو الشہادۃ’’حقیقی فتح، شہادت ہے‘‘ ،اور پھر یہی آخری پیغام چہرے پر سجائے رب کے دربار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اِکا دکا نہیں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں اور اللہ کے عطا کردہ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے جاری، جنرل سیسی مخالف تحریک کی آب و تاب میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔

دوسری جانب دیکھیں تو جلاد سیسی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ صرف قتل و غارت ہی نہیں اب وہ خود کو منتخب صدر کی حیثیت سے ملک و قوم پر تھوپنا چاہتا ہے۔ جنرل سیسی نے ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کے خونی انقلاب کے بعد درجنوں بار کہا کہ ’’وہ اقتدار نہیں چاہتے‘‘، ’’صدارت کا اُمیدوار نہیں ہوں‘‘، ’’فوج سیاست سے بالاتر رہے گی‘‘ لیکن پھر ’’عوام کے پُرزور اصرار‘‘ پر انھوں نے فوج کی سربراہی اپنے ایک قریبی رشتے دار کے سپرد کرتے ہوئے وردی اتاری اور صدارتی اُمیدوار بن بیٹھے۔صدر جنرل سیسی کی مہم شروع ہوتے ہی، عوام کی طرف سے ایسی نفرت کا اظہار کیا گیا کہ کوئی صاحب ِغیرت ہوتا، تو اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیتا۔ عوام نے ایک ایسا ناقابل بیان نعرہ ایجاد کیا کہ جس میں نفرت کی شدت بھی تھی اور استہزا کی انتہا بھی۔ ’’انتخبوا...... کو منتخب کرو‘‘کا یہ نعرہ اتنا معروف ہوا کہ اس میں سے گالی نما لفظ نکال کر بھی اگر کہیں صرف اتنا ہی لکھا ہوتا ہے کہ ’’...... کو منتخب کرو‘‘ تو یہ بدنما لفظ بھی خود ہی ادا سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی آبادی ۸ کروڑ ہے اور اس میں سے یقینا ایک حصہ بالخصوص مسیحی آبادی سیسی کا ساتھ دے رہی ہے، لیکن غیر مصری عوام نے بھی یہ نعرہ ایک دوسرے سے شیئر کیا۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ’’..... کو ووٹ دو‘‘ کا یہ نعرہ سوشل میڈیا پر ساڑھے ۹ کروڑ سے زائد افراد نے ارسال کیا۔

انتخابی ڈرامے کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے متعدد صدارتی اُمیدوار میدان میں اتارنے کے لیے کئی جتن کیے گئے۔ لیکن جہاں صدر محمد مرسی کے انتخاب کے وقت ۱۳؍ اہم قومی شخصیات میدان میں تھیں، حالیہ انتخابی ڈرامے میں سو پاپڑبیلنے کے بعد بھی صرف ایک اُمیدوار حمدِین صبَّاحی کو میدان میں لایا جاسکا۔ حمدِین صبَّاحی گذشتہ اصل انتخاب میں بھی صدارتی اُمیدوار تھے اور بائیں بازو کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انتخاب کے دوسرے مرحلے میں انھوں نے بھی فوج کے اُمیدوار جنرل شفیق کی بھرپور مدد کی تھی۔ خود جنرل شفیق جو حسنی مبارک کے زوال کے بعد سے آج تک ابوظبی میں مقیم ہیں، کی طرف سے بھی نہ صرف صدارتی اُمیدوار بننے سے معذرت کی گئی بلکہ    انھوں نے جنرل سیسی کی مخالفت کرتے ہوئے بیانات بھی دیے۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس نے فوج کو متنازع بنادیا ہے‘‘ اور ’’میں ایسے انتخاب میں کیوں حصہ لوں کہ جس کے نتائج پہلے سے معلوم ہیں‘‘۔

خود جنرل سیسی نے بھی ایک ایسی انوکھی انتخابی مہم چلائی ہے کہ خود مسلسل روپوش ہیں۔ پوری مہم کے دوران میں ایک بار بھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔ ایک بھی ریلی، جلسے یا اجتماع سے خطاب نہیں کیا۔ ہاں، ذرائع ابلاغ اور اشتہار بازی کے ذریعے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی.وی چینل کے ذریعے اپنے دو پسندیدہ صحافیوں کو چار گھنٹے طویل انٹرویو دیا۔ صحافیوں کے اس جوڑے میں سے بھی جب مرد اینکر پرسن نے تھوڑا سا تیکھا سوال کرنے کی کوشش کی، تو جنرل صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے۔ کہنے لگے کہ ’’میں تمھیں یہ سوال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا‘‘۔ جنرل سیسی کے ۱۱ ماہ کے دور اقتدار میں دو درجن کے قریب صحافیوں کا قتل دیکھ لینے والا یہ ’چہیتا‘ صحافی بھی فوراً چاپلوسانہ دائرے میں واپس چلا گیا۔ جنرل سیسی کو عوام میں اپنی ’مقبولیت‘ کا ہی ادراک نہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عافیت زیر زمین چھپے رہنے ہی میں ہے۔ خود یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ ’’مجھے بھی انور سادات کی طرح قتل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے باوجود بھی غرور و تکبر کا یہ عالم ہے کہ اسی چار گھنٹے کے اکلوتے انٹرویو میں دعویٰ کرڈالا کہ ’’میں اخوان کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالوں گا‘‘.... ’’میں انھیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں گا‘‘۔ یہ متکبرانہ، فرعونی دھمکیاں سننے والے اکثر لوگ بے اختیار کہہ اُٹھے کہ جنرل سیسی نے خود اپنے خلاف حجت تمام کر ڈالی۔ رہیں دھمکیاں تو فرعون نے بھی اپنے اقتدار کے منکر اہلِ ایمان سے کہا تھا ’’میں تمھیں پھانسی چڑھا دوں گا‘‘۔ ’’اُلٹی سمت سے تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا‘‘۔ اہل ایمان کا جواب اس وقت بھی یہی تھا اور آج بھی یہی کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ ۲۰: ۷۲) ’’تم جو فیصلہ کرنا چاہو کرلو، یہ تو اسی حیات دنیا کی فیصلے ہیں‘‘۔ پھر رب ذو الجلال نے ابدی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لَا یَحْیٰی(طٰہٰ ۲۰: ۷۴) ’’ جو اپنے رب کے حضور مجرم بن کر آئے گا، اس کے لیے ایسی جہنم ہے جس میں نہ اسے موت آئے گی اور نہ وہ جی ہی پائے گا‘‘۔

جنرل سیسی اور مصری فوج کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران عجیب وغریب شعبدے بھی سامنے آئے۔ مقصد تو تھا سیسی اور فوج کا تاثر بہتر بنانا، لیکن بالآخر یہ انھی پر اوندھے آن پڑے۔ مثلاً کہا گیا: ـ’’فوج کے تحقیقی یونٹ نے ایڈز اور ہیپاٹائیٹس سی کا علاج دریافت کر لیا ہے‘‘ لیکن جب اس کی تفصیل سامنے آئی تو ایسا مضحکہ خیز دعویٰ کرنے والے خود ہی جھینپ کر رہ گئے۔ عذابِ الٰہی کا درجہ رکھنے والی اس خوف ناک بیماری کا علاج یہ بتایا گیا کہ ’’بیمار کے کچھ خلیے حاصل کر کے، کباب میں رکھ کر خود اسی بیمار کو کھلا دیے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ۱۶روز میں ایڈز / ہیپاٹائیٹس سی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔

ہر مسئلے کا حل فراہم کرنے والے جنرل سیسی نے بدسے بدتر ہوتے بجلی کے بحران کا بھی یہ نادر حل دریافت کیا کہ پورے ملک سے پرانے بلب اور ٹیوب لائٹیں تبدیل کر کے نئی لگادی جائیں‘‘۔ صحافی نے حیرت سے ان کا جملہ دہرایا تو جنرل صاحب گویا ہوئے: ’’یہ علمی باتیں ہیں صرف تجربے سے سمجھ میں آسکتی ہیں‘‘۔ اپنی انتخابی مہم میں سیسی صاحب نے اس عبقری علاج پر ایک اور ردّا چڑھاتے ہوئے ۳کروڑ’ انرجی سیور ‘بلب مفت تقسیم کیے ہیں۔ ظاہر ہے قومی مفاد میں اس کے لیے درکار کروڑوں ڈالر قومی خزانے ہی سے حاصل کیے گئے۔ انتخابی مہم تو محض ایک اتفاق ہے۔

قتل وغارت ، خون کے دریا، اقتدار کا فرعونی تصوراور اجتماعی عقل و شعور کا مذاق اڑانے کے باوجود صدارتی انتخابات کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ تادم تحریر بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں نے ووٹ ڈال دیے ہیںاور دیگ کا یہی دانہ انتخابی نتائج کی تفصیل بتا رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں کی ۴ فی صد تعداد نے ووٹ ڈالا (صدر محمد مرسی کے انتخاب میں یہ تناسب ۴۴ فی صد تھا)۔ ان ۴ فی صد میں سے ۵ء۹۵فی صد ووٹروں نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کیا۔ اب سارا ابلاغیاتی زور ۴ فی صد پر نہیں ۵ء۹۵فی صد پر ہے۔ اپنے پیش رو مصری فوجی صدور کی طرح جنرل سیسی بھی ’بھاری اکثریت‘ سے صدر بننے کا دعویٰ کرے گا، لیکن مصری عوام سے پہلے خود جیتنے والے کا دل گواہی دے رہا ہوگا کہ یہ صرف ایک فریب ہے، دھوکا ہے۔   حقیقت یہی ہے کہ مصری عوام کی غالب اکثریت نے اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی انتخابات میں اخوان اور صدر محمد مرسی کو ہی منتخب کیا ہے۔

جنرل سیسی کی خود فریبی سے بھی بڑا سانحہ ہے کہ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کی علَم بردار عالمی برادری بھی اس دھوکادہی میں اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہی امریکی انتظامیہ جو تھائی لینڈ میں تازہ فوجی انقلاب کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر رہی ہے، جنرل سیسی کی تمام قتل و غارت پر آنکھیں موندے، اس کے فراڈ انتخابات کو تسلیم کررہی ہے۔ جمعرات ۲۲مئی کو جب وزیرخارجہ جان کیری نے سخت بیان دیا کہ ’’انھیں تھائی فوجی انقلاب سے سخت مایوسی ہوئی ہے اور اس فوجی انقلاب کا کوئی جواز نہیں‘‘ تو خود امریکا میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ تھائی اور مصری فوجی انقلاب میں کیا جوہری فرق ہے؟ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار نے بھی سوال اُٹھایا کہ: ’’جس کیری نے اپنے دورئہ پاکستان کے دوران مصری خونیں فوجی انقلاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاکھوں مصری عوام فوجی مداخلت چاہتے تھے۔ آج مصر میں فوجی اقتدار نہیں حقیقتاً ایک سول حکومت ہے جو ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے اقدامات کر رہی ہے‘‘، وہ کیری آج کس منہ سے تھائی فوجی انقلاب کی مخالفت کر رہا ہے؟ اس ساری تنقید کے باوجود امریکا سمیت اکثر عالمی طاقتیں اور ان کے گماشتے سیسی اقتدار کو منتخب حکومت قرار دینے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔

’حمام کے سب ننگوں‘ کی طرح اسی علاقائی انتخابی، عسکری، انقلابی ماحول میں شام کا جلاد حکمران بشارالاسد بھی ایک نام نہاد انتخاب کروا رہا ہے۔ ماہِ جون ہی میں وہ بھی ایک بار پھر منتخب صدر ہونے کا دعویٰ دہرائے گا اور بظاہر اس کی مخالفت کرنے والے ممالک بھی اس کا اقتدار اسی طرح جاری و ساری رکھنے سے اتفاق کریں گے۔

مصر کے مغربی پڑوسی لیبیا میں بھی ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر نے ملک کے   دوسرے بڑے شہر بنغازی سے فوجی انقلاب کا آغاز کردیا ہے۔ جنرل مفتر کرنل قذافی کا ساتھی تھا۔ شاہ ادریس کے خلاف قذافی انقلاب میں وہ اس کا ساتھی تھا۔ پھر قذافی سے اختلافات ہوگئے تو امریکا فرار ہوگیا۔ امریکی ریاست ورجینیا میں طویل عرصہ مقیم رہا اور اب امریکی شہریت رکھتا ہے۔ قذافی کے خاتمے اور پھر طویل ہوتی ہوئی قبائلی چپقلش کے بعد اچانک جنرل مفتر کا ظہور ہوا ہے۔ لیبیا میں متعین خاتون امریکی سفیر نے اگرچہ اس کے انقلاب اور بغاوت سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن اس طرح کہ سب اس تعلق کو جان بھی لیں۔ مفتر نے بھی عالمی برادری اور اس کی لے پالک صہیونی ریاست کو پیغام دینے کے لیے کہا ہے: ’’ملک سے اسلام پسندوں بالخصوص اخوان کا خاتمہ کردوں گا‘‘۔

اخوان کے زیرحراست مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ایک عدالتی حاضری کے دوران بیان دیتے ہوئے عالمی دوغلے پن کا اصل سبب بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۲۰۱۳ء میں ایک اسرائیلی فکری مرکز (تھنک ٹینک) نے اپنی مفصل رپورٹ میں کہا تھا: ’’الاخوان المسلمون اسرائیل کے سخت ترین دشمن ہیں‘‘۔ یہی وہ ہمارا بنیادی جرم ہے جس کی سزا دی جارہی ہے۔ لیکن ہم اسے اپنا بنیادی اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہم وہ اکلوتی جماعت ہیں کہ جس نے ۱۹۴۸ء میں قبلۂ اوّل پر قبضہ کرنے والی صہیونی افواج کے خلاف جہاد کیا۔ لیکن مرشدعام نے ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ آزادیِ مسجد اقصیٰ کے اس مقدس جہاد کے علاوہ ہم نے نہ کبھی کسی کے خلاف قوت استعمال کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایک آزاد ملک میں قوت کا استعمال کسی بھی طور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخوان کی ۸۶سالہ تاریخ میں ہم پر مسلسل ظلم ڈھائے گئے، ہمارے کارکنان کو دی جانے والی ساری سزائوں کو جمع کریں تو یہ ۱۵ہزار سال کی مدت بنتی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نے    پُرامن جدوجہد جاری رکھی ہے اور جاری رکھیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت اخوان کے ۲۳ہزار قیدیوں میں ۲۵۷۴ انجینیر ہیں، ۱۲۳۲ ڈاکٹر ہیں اور ۹۲۲۱ طلبہ ہیں، جن میں سے ۵۳۴۲ کا تعلق جامعہ الازہر کے مختلف کالجوں سے ہے۔ حقوقِ نسواں کے سب دعوے دار جانتے ہیں کہ ان میں سے ۷۰۴ خواتین اور ۶۸۹بچوں پر کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو یہ ظلم دکھائی نہیں دیتا۔

خود ۷۱ سالہ مرشد عام جن کا شمار عالمِ عرب کے ۱۰۰ بہترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے، بھی طویل عرصہ جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ اس وقت بھی انھیں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے باصرار کہا کہ ’’ہم کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے ہمارے ۲۸دفاتر جلاکر اور ہزاروں کارکنان کو شہید کرکے الزام بھی ہمارے سر لگائے جارہے ہیں لیکن ہم وہ اہلِ ایمان ہیں جنھیں یقین ہے کہ اصل عدالت اللہ کی عدالت ہے اور اصل فیصلہ بھی وہیں ہونا ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ رب ذوالجلال دنیا میں بھی یقینا انصاف کرے گا اور آخرت میں بھی‘‘۔

جنرل سیسی کے مظالم، انتخابی ڈرامے اور مرشدعام کے عدالتی بیان کا مطالعہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی بار بار یاد آرہی ہے کہ مَنْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُسْلِمٍ بِشَطْرِ کَلِمْۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ : آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ، ’’جس نے کسی مسلمان کا قتل کرنے میں آدھی زبان سے بھی قاتل کی مدد کی، وہ قیامت کے روز اس عالم میں رب العزت سے ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) لکھا ہوگا: اپنے رب کی رحمت سے مایوس‘‘۔

نائیجیریا مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے دھماکوں، اغوااور دیگر جرائم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا شکار بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ جان سے ہاتھ دھونے والے یہ افراد مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور عیسائی بھی۔ گذشتہ اپریل میں دارالحکومت ابوجا کے نواح میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ۲۰۰ سے زائد شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بعد ۲۲۳ طالبات کا اغوا عمل میں آیا جس کی ذمہ داری وہاں کی تشدد پسند تنظیم ’بوکوحرام‘ نے قبول کی ہے۔

’بوکوحرام‘ کا مفہوم ’ہوسا‘ قبائل کی زبان میں ہے:’’مغربی تعلیم حرام ہے‘‘۔ یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں ملک کے شمال میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوے دار ہے۔ قانونی طور پر یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق کھو بیٹھی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نائیجیریا کے شمال میں بورنو کے علاقے میں ایک دینی مدرس اور عالم محمد یوسف کی قیادت میں یہ تنظیم قائم ہوئی۔ ’بوکوحرام‘ ایک پُرامن اور اصلاحی تنظیم تھی۔ اس کا مطالبہ ملک پر مسلط صلیبی حکومت کی مغرب زدگی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کے قائدین نے دین و سیاست کا درست فہم نہ رکھنے کے باعث مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس طرح انھوں نے صلیبی حکومت کو نائیجیریا کی اسلامی بستیوں اور شہروں میں قتل و غارت کے درجنوں مواقع فراہم کردیے۔ ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے اور ہزاروں اسیر بنا کر پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیے گئے۔

تنظیم کے قیام کے کچھ عرصے بعد یہ خبریں ملنے لگیں کہ بعض مغربی ممالک اس تنظیم کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ یہ تحریک چھوٹے چھوٹے گروپوں کے بجاے ایک بڑی اور مؤثر تنظیم بن جائے۔ یہ تنظیم دراصل اُن طلبہ نے تشکیل دی تھی جو مغربی نظامِ تعلیم کو اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ ان کے ساتھ بعض نام نہاد بہی خواہ بھی بیرونی ممالک سے ساتھ  مل گئے تھے۔ تنظیم نے اپنی پُرامن شناخت کو اُس وقت بالاے طاق رکھ دیا جب ۲۰۰۹ء میں اس کے رہنما محمد یوسف کو ملک کی امن فورسز نے ایک مسلح تصادم میں گرفتار کرلیا اور بعدازاں قتل کرکے میڈیا پر اعلان کیا کہ حکومت نے امن فورسز کے ذریعے ’بوکوحرام‘ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔

’بوکوحرام‘ کا دنیا کی مشہور ریڈیکل تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں، خصوصاً القاعدہ کے ساتھ تو کبھی کوئی رابطے دریافت نہیں ہوسکے۔ دراصل معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات اور نائیجیریا کے اندر تیل کی دولت سے وابستہ ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ترک صحافی ابراہیم قرہ گل نے اس موضوع پر ’’پینٹاگان کا خفیہ منصوبہ ___ عنقریب کہاں کہاں تصادم رُونما ہوں گے‘‘ کے عنوان سے تجزیہ کیا تھا۔ یہ تحریر عراق پر امریکی حملے کے بعد لکھی گئی۔ انھوں نے اُس وقت نائیجیریا کو تصادم کا اگلا مرکز قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ یہ بحران کئی سال سے مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا، حتیٰ کہ ملک تقسیم ہوکر رہے گا۔ قرہ گل نے طالبات کے موجودہ اغوا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بوکوحرام‘ اس ناپاک جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اس منظرنامے کا مزید طویل ہونا ملکی وسائل کو تقسیم کے عمل سے گزارنا ہے، یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم برپا کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جائے گا۔

تیل کی دولت نائیجیریا کے شہریوں کے لیے یقینی طور پر بے پناہ اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بین الاقوامی تسلط اور انتشارپسندی کا باعث بھی ہے۔ اس سے ملک کے اندر سیاسی اور علاقائی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ وزیرمالیات ندیدی عثمان کہتی ہیں کہ پٹرول نے ہمیں بے کار بنادیا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو یہ سیکھا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے عقل اور محنت سے کام لوں ، جب کہ پٹرول کے دور کی موجودہ نسل اس امر کا اہتمام نہیں کرتی، حتیٰ کہ سوچتی تک نہیں۔ نائیجیریا کے  سابق صدر ’اوباسانچو‘ نے بذاتِ خود انھی خیالات کا اظہار ۲۰۰۳ء میں ایک بڑے عوامی جلسے میں  کیا تھا کہ: ہمیں گیس اور پٹرول نے اندھا کردیا ہے اور ہماری روایات و اقدار سے دُور دھکیل دیا ہے، بلکہ ہمیں ان سے وحشت ہوتی ہے اور ہم اس معاملے میں سخت دل ہوگئے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع ممالک خصوصاً نائیجیریا کے اندر پٹرول کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔ یہ خطہ ۶۰ لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا کرتا ہے۔ اس طرح  یہ ایندھن کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کو  عدم استحکام سے دوچار رکھا جاتا ہے۔ ادھر نائیجیریا اُن ممالک میں سرفہرست ہے جو امریکا کو تیل برآمد کرتے ہیں۔ نائیجیریاکا تیل امریکا کے لیے پانچواں بڑا مرکز قرار پاتا ہے کیونکہ یہاں سے اُسے ۱۵لاکھ بیرل تیل روزانہ مہیا ہوتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک بھی امریکا کے ساتھ نائیجیریا سے تیل حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ دونوں کے مفادات ’اتحاد و اتفاق‘ کی سطح پر نہیں ہیں بلکہ برطانیہ سمجھتا ہے کہ وہ طویل عرصہ نائیجیریا پر قابض رہا ہے، لہٰذا اس کا حق فائق ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُسے یہ امر بھی فائدہ پہنچاتا ہے کہ نائیجیریا دولت ِ مشترکہ کا رکن بھی ہے۔ برطانیہ کی قدیم ترین کمپنی ’کان شیل‘ بھی نائیجیریا کے ان علاقوں میں ایک عرصے سے موجود ہے جہاں تیل کے کنویں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ اپنی ضرورت کا ۱۰ فی صد تیل نائیجیریا سے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اس خطے کو اہمیت دیتا ہے اور پُرامن تعاون کا خواہش مند بھی ہے اور اس کے لیے کوشاں بھی۔

اس منظرنامے کو پیش نظر رکھیں تو اغواشدہ طالبات کی رہائی کے لیے عالمی واویلے کی   حقیقت سمجھ آتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کی بیوی نے ’یومِ ماں‘ کے موقع پر ان طالبات کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو بہت زیادہ اُچھالا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی اس معاملے میں تمام تر حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ ’بوکوحرام‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اظہار کیا۔ برطانیہ اور اسرائیل نے بھی اس معاملے میں اپنی اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ معروف مصری کالم نگار ڈاکٹر حلمی القاعود نے لکھاہے: محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے شرپسند اس وقت نائیجیریا کی ان طالبات کی رہائی کو بہانہ بناکر نائیجیریا کے اندر اپنے  براہِ راست داخلے کی تیاری میں ہیں۔وہ اپنی افواج کی موجودگی کو لامحدود عرصے تک وہاں یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سب نے طالبات کو رہا کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی محافظوں کو شام، برما، فلسطین، مصر اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق پامال ہوتے بھی دکھائی دینے چاہییں جہاں یہ حقوق ہیں تو انسانی مگر مسلمانوں کے لیے نہیں!

سوال : 

موجودہ دور میں مردوں کی دوسری شادی (پہلی بیوی کی موجودگی میں) کے معاملے میں مَیں نے جتنا غور کیا ہے تو یوں لگتا ہے کہ اگرچہ شریعت نے مرد کو یہ اختیار دیا ہے لیکن عملاً یہ اختیار پہلی بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان بہت اچھی ذہنی ہم آہنگی بھی ہو، اور خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہوں، اس کے باوجود شوہر یا تو اپنی فطری خواہش کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہو، یا پھر کسی ایسی بے سہارا خاتون کو سہارا دینے کے لیے کرنا چاہتا ہو جو کہ خود بھی ایک دین دار اور خوفِ خدا رکھنے والی خاتون ہو، مگر پہلی بیوی اس بات کو پسند نہ کرے اور ایسے میں مرد بیوی کی ناراضی اورگھر میں ناچاقی کے ڈر سے اپنے ارادے سے باز رہے، تو کیا بیوی گناہ گار ہوگی کہ اس نے اللہ کے عطا کردہ اختیار کو استعمال کرنے سے روک دیا؟

اس معاملے میں دوسری رکاوٹ ہمارا معیارِزندگی ہے۔ عورتیں اپنے شوہروں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ بالکل علیحدہ گھر کا انتظام کریں مگر ہماری ضروریات اور لوازمات اس قدر    بڑھ چکے ہیں کہ آج کے ا س مہنگائی کے دور میں عملاً یہ ممکن نہیں رہا۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس کا بار اُٹھا سکتے ہیں۔ اگر دونوں بیویوں کو ایک ہی گھر میں رکھا جائے تو کیا   یہ اسلامی معاشرت کا ایک اچھا نمونہ کہلانے کے قابل ہوگا یا اس کے برخلاف؟

میں اپنی بات کو عمومیت سے ہٹا کر خاص اپنے معاملے کو آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتی ہوں۔ میری عمر ۳۶سال ہے، شادی کو ۱۱سال ہوئے ہیں اور چھے بچے ہیں۔ دعوتِ دین کی جدوجہد سے وابستہ ہونے کی حیثیت سے مَیں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ ہم خواتین کا اصل کام یہ ہے کہ ہم عملاً اسلامی معاشرت کو اپنے گھروں میں زندہ کریں۔ کیونکہ خواتین کا اصل میدان تہذیبی اور معاشرتی میدان ہے۔

پھر میں نے یہ سوچا کہ اسلام تو دینِ فطرت ہے۔ تعددِ ازدواج مرد کی فطرت سے  قریب تر ہوگااس لیے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ پھر شریعت میں انفرادی مصلحت پر اجتماعی مصلحت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس اجازت کی بدولت معاشرے کی بہت سی  بے سہارا خواتین کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف پہلی بیوی کے لیے یہ بات اگر اتنی ناگوار ہے تو شاید قصور شریعت کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے مزاج کا ہے۔ شریعت کے احکام تو فطرت پر ہیں مگر ہمارا نفس شاید فطرت کے خلاف استوار ہوچکا ہے۔

میرے قریبی حلقے میں بعض ایسی خواتین ہیں جو یا تو بیوہ ہوگئیں یا انھیں طلاق دے دی گئی ہے۔ بہت سوچ بچار اور بارہا استخارے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنے شوہر کی دوسری شادی مکمل رضامندی کے ساتھ کرا دوں۔ میرے شوہر نے بھی میرے اُوپر چھوڑاہے کہ آپ راضی ہوں تو میں دوسری شادی کروں گا۔ عقلی طور پر بہت سے دلائل میں اس فیصلے کے حق میں جمع کرچکی ہوں مگر جذباتی طور پر تمام دوسری عورتوں کی طرح میں بھی اسے ایک نہایت مشکل مرحلہ سمجھتی ہوں۔ اگر میں اپنے شوہر کو اس سے روک دوں یا خوش دلی سے آمادہ نہ ہوں، تو پوری زندگی مجھے یہ احساس رہے گا کہ میں شریعت کی مصلحتوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوں۔

بہت سوچ کر مَیں نے ایک باعلم اور عمر رسیدہ تحریکی خاتون سے مشورہ کیا جنھوں نے میری راے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ: یہ تو تم خود اپنے آپ کو آزمایش میں ڈال رہی ہو۔ اللہ کو یہ مطلوب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ خود کو مشکل میں ڈالے اور نہ تو یہ کوئی عزیمت کا راستہ ہے، نہ کسی متروک اسلامی روایت کا احیا ہی ہے۔ بالکل غلط سوچ ہے تمھاری۔ جب مرد تمھارا شوہر اس ضمن میں زبردستی نہیں کر رہا تو اپنی زندگی میں تلخی نہ بھرو۔

اس بات پر میں مطمئن نہ ہوسکی۔ ایک طرف اپنی اس بہن کے بارے میں سوچتی ہوں جو بے سہارا ہے اور وہ حدیث ذہن میں آتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی ہر اینٹ دوسری کو تقویت دیتی ہے۔ دوسری طرف مجھے معلوم ہے کہ میرے شوہر کی بھی خواہش ہے لیکن وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ تیسری طرف یہ بھی دیکھتی ہوں کہ میرے شوہر کو اللہ تعالیٰ نے معاملہ فہمی، وسعت ظرف اور عدل جیسی خوبیاں عطا کی ہیں۔ پھر جب کسی قدر اپنے دل کی تنگی کو رکاوٹ بنتا محسوس کرتی ہوں تو اپنے فہم کے مطابق مجھے یہی  سمجھ میں آتا ہے کہ مجھے بہرحال اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ شاید یہی عزیمت ہے اور دوسری صورت میں، مَیں رخصت کو اختیار کروں گی۔ عزیمت کو اختیار کرنے کے لیے مجھے اپنی کمزوریوں کو دُور کرنا چاہیے اور اللہ پر توکّل کرنا چاہیے۔

جواب :

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس گئے گزرے دور میں بھی تحریکِ اسلامی سے وابستہ خواتین کو ایسے حساس معاملات میں جن میں خود ان کے جذبات اور حقوق متاثر ہوتے ہوں، اپنی ذات سے بلند ہوکر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور رب کریم کی نافرمانی سے بچنے کی خواہش انھیں زیادہ عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریکِ اسلامی سے وابستہ اور دیگر خواتین کو بھی اپنی ذاتی پسند، سہولت اور خواہش سے بلند ہوکر قرآن وسنت پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سوال :

میں تین اہم پہلو غور طلب ہیں: اوّل اسلام کے معاشرتی اور عائلی نظام میں بنیادی اکائی یک زوجگی کی ہے یا تعدُّد کی اور اس حوالے سے سنت مطہرہ سے کیا اصول و ہدایت ملتی ہے؟ دوم: اسلامی معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے؟ سوم: یہ کہ اگر ایک شادی شدہ شخص جو اپنی بیوی سے مطمئن ہو، اللہ نے اسے اولاد بھی دی ہو ، ذہنی اور فکری سکون بھی اسے حاصل ہو لیکن وہ مزید نکاح کا خواہاں ہو، تو کیا اس کا قرآن کی دی ہوئی ’اجازت‘ کا استعمال کرنا اس کا اپنے ساتھ، اپنی بیوی اور اولاد کے ساتھ عدل کا رویہ ہوگا؟

جواب :

ضمنی طور پر یہ پہلو بھی غور کا مطالبہ کرتا ہے کہ اگر ایک شخص نکاح ثانی کا خواہاں ہو اور اس کے پاس مالی وسائل نہ ہوں یا موجود ہوں تو کیا محض وسائل کی موجودگی اسے ایک ’شرعی‘ اجازت کو استعمال کی اجازت دیتی ہے، یا اُس کے مقابلے میں وہ افراد جو ابھی تک شادی شدہ نہ ہوں انھیں ترجیحی بنیاد پر ایسی خواتین کو اپنانا چاہیے؟

قرآنِ کریم نے ایک عمومی اصول جو تمام اہلِ ایمان کے لیے بیان فرمایا ہے وہ اپنی بساط سے زیادہ بوجھ کا نہ اُٹھانا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے عبداللہ! کیا میں نے یہ ٹھیک سنا ہے کہ تم مستقل روزے رکھتے ہو اور رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یارسولؐ اللہ۔ آپ ؐ نے فرمایا: اچھا اب ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو بھی اور نہ بھی رکھو اور راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری آنکھوں کا بھی تم پر ایک حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے۔ تمھارے پاس ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر ایک حق ہے‘‘۔(متفق علیہ)

ظاہر ہے تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے میں جتنا اضافہ کیا جائے، وہ ایک فرد کے اپنے نقطۂ نظر سے مطلوب و محبوب چیز ہوگی، لیکن ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ کوئی تقویٰ کا حامل ہوسکتا ہے اور نہ تقویٰ کی صحیح تعلیم دینے والا۔ آپؐ ایک فرد اور اس کے متعلقات کے حقوق میں جس توازن و اعتدال کا حکم دے رہے ہیں وہ محض روزے تک محدود نہیں ہوگا۔ اس متفق علیہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے لیکن نفلی روزہ، فرض کا مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں غیرشادی شدہ شخص کا نکاح کرنا ایمان کی تکمیل کا ذریعہ اور سنت ِ رسولؐ کی اتباع ہے۔ فقہی طور پر اگر ایک غیرشادی شدہ شخص اس سنت کا انکار کرتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں وہ آپؐ کی اُمت سے خارج ہوسکتا ہے، لیکن جو اس فرض کو ادا کر کے صاحب ِ اولاد اور صاحب ِ سکون ہو، اس کا دوسری یا تیسری شادی کرنا نہ واجب ہے اور نہ اللہ کے ہاں جواب دہی کا باعث۔ جس نے اس واجب پر عمل کرلیا، اس کے لیے دوسری شادی وجوب میں شامل نہیں ہوگی اور نتیجتاً دوسرے نکاح کے نہ کرنے سے نہ وہ کسی معصیت کا ارتکاب کرے گا، نہ کسی حق کو پامال کرے گا بلکہ وہ اپنے، اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے حقوق کے صحیح طور پر ادا کرنے کی اولیت (priority) کو برقرار رکھ کر زیادہ اجر کا مستحق ہوگا۔

مزید یہ کہ قرآن کے اصول لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ط  (البقرہ۲:۲۸۶) کی وضاحت اُوپر درج کی گئی حدیث سے جس طرح ہوتی ہے اس کی روشنی میں اس معاملے پر  غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ محض شوہر کی خواہش کا نہیں ہے بلکہ شوہر پر واجب اُن حقوق کا ہے، جن کی اوّلیت ایک ایسے کام کے کرنے سے جو اس پر واجب نہیں ہے متاثر ہوتی ہے اور اس مصلحت کی بناپر اس کا خود کو یہ سمجھاکر مطمئن کرنا کہ وہ دوسری شادی اجتماعی مفاد کی بنا پر کرلے، درست نہیں ہوگا۔ ہاں، اس صورتِ حال میں وہ افراد جو ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں ان پر فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسی نیک اور صالح خواتین کو اپنے عقد میں لیں جو بیوہ یا مطلقہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا عقد حضرت خدیجہؓ سے ہوا جو بیوہ تھیں اور تمام زندگی آپؐ کی نگاہ میں انتہائی محترم اور محبوب شخصیت رہیں اور ان کی حیاتِ مبارکہ میں آپ نے اِس اجازت پر غور نہیں فرمایا۔

اس پس منظر میں سوال کے پہلے پہلو پر غور کیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ سورئہ نساء میں چار کی حد تک اجازت کا سیاق و سباق عموم کا نہیں بلکہ حالت ِ اضطرار سے قریب تر ہے۔ چنانچہ  اصلاً زور اسی بات پر ہے کہ ایک کے ساتھ نکاح ہو اور اس کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا جائے۔ یہ عدل محض مادی معاملات میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں نفسیاتی، دینی اور روحانی تعلق کے ساتھ تمام معاشرتی پہلوئوں سے عدل شامل ہے۔ اسی بناپر فرمایا گیا کہ اگر ایسا عدل کرسکو تو دوسرے نکاح کا خیال کرو ورنہ ایک ہی پر، اپنی تمام خواہش کے باوجود قانع رہو۔

اگر دیکھا جائے تو ایک شوہر کو پہلے نکاح سے حاصل ہونے والے فوائد میں جہاں فطری تسکین شامل ہے، وہاں نفسیاتی اور دینی طور پر جو تعلق استوار ہوجاتا ہے وہ یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی اعتماد، قلب و نظر کا سکون، مادی پیمانوں سے ناپا نہیں جاسکتا۔ اسی لیے اس رشتے کو قرآنِ کریم نے اللہ تعالیٰ کی ایک آیت قرار دیا ہے۔ دوسری شادی اس قیمتی فطری تعلق کو بگاڑنے کا ایک ممکنہ ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے اس سے قطع نظر کہ پہلی بیوی دوسری شادی کی شکل میں   خوش ہوتی ہے یا ناراض، عائلی زندگی کے اسلامی مقاصد دوسری شادی سے ٹکراتے ہیں۔

دوسرا اہم پہلو مطلقہ یا بیوہ صالح مسلم خواتین کے معاشرتی مقام کا ہے۔ بعض علاقوں میں دیگر مذاہب کے زیراثر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہوگیا کہ بیوہ کی عظمت تمام زندگی اپنے شوہر سے وفاداری کے طور پر شادی نہ کرنے میں ہے۔ یہ ایک خالص غیراسلامی تصور ہے۔ اسلام اس تصور کو رد کرتا ہے اور یہ سنت ِ رسولؐ سے ثابت ہے۔ اسی بناپر سیّداحمد شہیدؒ نے اپنے بھائی کی بیوہ سے نکاح کرکے اس غیراسلامی تصور کی اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اس لیے بیوہ کا عقد ثانی کرنا یا مطلقہ کا عقد ثانی کرنا اسلام کے معاشرتی نظام کے مقاصد سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص پہلے سے شادی شدہ ہو وہی ایسی خواتین کا سہارا بنے بلکہ اسلام کا مدعا یہ نظر آتا ہے کہ معاشرے کے جو افراد غیرشادی شدہ ہوں انھیں اس طرف متوجہ کیا جائے اور اس طرح کے رشتوں کی ہمت افزائی کی جائے۔

جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا تعدد ازدواج کی یہ تعبیر کہ ایک سے زائد شادی کرنا مرد کی فطرت سے قریب ہے، ایک قیاس اور تعبیر کا معاملہ ہے۔ شریعت کا مدعا ایسا نظر نہیں آتا۔ کسی کام کی اجازت ایک استثنا بھی ہوسکتی ہے اور عموم بھی۔سورئہ نساء کی آیت پر غور کیا جائے تو اس اجازت میں عموم نہیں پایا جاتا بلکہ استثنائی اور اضطراری کیفیت کی طرف رجحان نظر آتا ہے تاکہ ہر دور میں بدلتے حالات میں قرآنی قانون سازی پر یکساں عمل کیا جاسکے۔ آپ نے جو صورت حال تحریر فرمائی ہے اس میں محض ’خواہش‘معقول بنیاد نہیں بن سکتی بلکہ اگر ایسی ’خواہش‘ ہے تو موجودہ بیوی سے ہی اس کا پورا کرنا دین کا مدعا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ عائلی زندگی بجاے خود ایک اجتماعی عمل ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی مصلحت کے فلسفے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بے سہارا خواتین کے عقد کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوشش لازماً کرنی چاہیے لیکن جیساکہ اُوپر عرض کیا گیاایک مسئلے کے حل کرنے کی غرض سے ایک خاندان کے نظام کو، اس کے سکون کو اور بیوی اور اولاد کے حقوق کو نہ ثانوی حیثیت دی جاسکتی ہے اور نہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔کسی شادی شدہ خاتون کا وقتی طور پر یہ سمجھنا کہ وہ اپنے جذبات کو تھوڑی بہت محنت سے اور اسے ’عزیمت‘ سمجھتے ہوئے بخوشی گھر کے معاملات میں شراکت گوارا کرلے گی، اپنے آپ کو محض خوش فہمی میں رکھنا ہے۔ رہا استخارے کا معاملہ تو استخارہ ان تمام معاملات میں کرنا سنت ہے جہاں بظاہر ایک معقول حل نظر نہ آرہا ہو لیکن جن معاملات میں عقل اور تجربہ، دونوں ایک معاملے میں متفق ہوں وہاں استخارہ غیرضروری ہے۔

گھروں میں اسلامی طرزِ معاشرت کی جیتی جاگتی تصویر کے لیے شوہر کا دوسری شادی کرنا نہ شرطِ اوّل ہے نہ شرطِ ثانی۔ البتہ بے سہارا خواتین کے عقد کے لیے کوشش ایک دینی فریضہ ہے۔ کیا آج ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار افراد موجود نہیں ہیں، جو بڑی عمر تک وسائل نہ ہونے کی بناپر شادی مؤخر کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو صاحب اس مسئلے کے حل کے لیے    دل چسپی رکھتے ہیں وہ ایک ایسے مرد کو وہ تمام وسائل فراہم کردیں جو اس کو نکاح کرنے کے لیے درکار ہوں اور اس طرح وہ بے سہارا خاتون اور وسائل کی کمی کے سبب شادی سے محروم رہنے والا ایک مسلمان، دونوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔

اپنے آپ کو جان بوجھ کر آزمایش میں ڈالنا دین کا مدعا ہے نہ عقل کا مطالبہ۔ اس کے باوجود ایک باشعور مسلم خاتون کا بے سہارا مسلم خواتین کی مدد کے لیے اپنی خاندانی زندگی کو آزمایش سے دوچار کرنا ایک قابلِ قدر جذبہ تو ہے لیکن اسے شریعت کا مطالبہ تصور کرنا درست نہیں۔

اصولی بات یہ ہے کہ اسلام نے دوسری شادی کی نہ ترغیب دی ہے اور نہ مخالفت کی ہے اور نہ واضح حوصلہ شکنی کی ہے۔ بس اس کا دروازہ کھلا رکھا ہے تاکہ حقیقی ضرورت کی صورت میں استفادے کا موقع موجود رہے۔ فیصلہ فرد کو اپنے ضمیر اور دینی اور خاندانی زندگی کے استحکام کے مصالح کو سامنے رکھ کر کرنے کا اختیار دیا ہے۔ البتہ یہ انتباہ واضح الفاظ میں کردیا ہے کہ انصاف ہرصورت میں شرطِ لازم ہے۔ ایسے نازک اُمور کو جذبات یا عزیمت اور گناہ کے تخیلاتی احساسات کے تحت طے کرنا شریعت اور عقل دونوں کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ البتہ جو اجتماعی مسئلہ اس سوال کا باعث بناہے، وہ اپنی جگہ اہم ہے اور اس کا حل فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح اور تربیت ہی میں مضمر ہے،واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)

_______________

ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران  روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں  مع آسان ترجمہ مفت تقسیم کی جارہی ہیں۔ خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے 15روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے 55روپے کے ڈاک ٹکٹ درج ذیل پتے پر روانہ کریں:

ڈاکٹر ممتاز عمر، T-473، کورنگی نمبر 2، کراچی-74900

First Principles of Islamic Economics ،[معاشیاتِ اسلام کے ابتدائی اصول]، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، تدوین: پروفیسر خورشیداحمد، ترجمہ: احمد امام شفق ہاشمی۔ ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، سٹریٹ نمبر۸، سیکٹر ۳/۶-ایف،اسلام آباد۔ فون:۳-۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۲۹۰۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کیا۔ ان کی تحریر یں قرآن و حدیث، اسلامی افکار اور جدید و قدیم لٹریچر کے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ آج کے دور کا اہم ترین موضوع ’معاشیات‘ اور ’اسلامی معاشیات‘ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے علما کی تحریروں میں تو نظر آتاہے، لیکن علامہ ابن خلدون ؒ کے بعد کے اَدوار میں مغرب کے اسکالروں کی تحریریں ہی نظر آتی ہیں۔ مسلمان علما نے اس موضوع پر بہت کم لکھا۔

سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر لکھا اور لکھنے کا حق ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے رفقا نے اس موضوع پر خوب لکھا۔ آج اس موضوع پر ہزاروں کتابیں، کتابچے اور مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے اس موضوع پر ۱۹۳۰ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک مولانا کی تحریروں کو پروفیسر خورشیداحمد نے معاشیاتِ اسلام کے قالب میں ڈھالا اور   اس کتاب کی تدوین کی۔ بعدازاں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ لاہور سے شائع ہوا۔

First Principles of Islamic Economics ،معاشیاتِ اسلام کاایک جدید اور جامع ترجمہ ہے۔ احمد امام شفق ہاشمی نے خوب صورت اور جامع انگریزی میں یہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں اسلامی معاشیات کے تقریباً تمام ہی نظری مباحث موجود ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے دورِجدید کے تناظر میں قرآن و سنت کی روشنی میں معاشی مسائل پر بحث بھی کی ہے اور جدید ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے فلاح کے اسلامی تصور کی وضاحت بھی کی ہے اور دیگر معاشی نظاموں سے موازنہ بھی، خصوصاً نظامِ سرمایہ داری سے۔ قرآن پاک کی معاشی تعلیمات کا نچوڑ بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے معاشی فلسفے پر بحث بھی کی ہے۔ اسلامی معاشی نظام کے مقاصد کے ساتھ معاشی زندگی کے اسلامی اصول بھی بیان کیے ہیں۔ اسلامی معاشی نظام کے اہم خدوخال بیان کرتے ہوئے زمین کی ملکیت کے اسلامی تصور، سود کی حُرمت اور اس کے دلائل، زکوٰۃ کا نظریہ اور عملی اطلاق کی صورتیں، سماجی انصاف (Social Justice) کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ دورِ جدید کے مسائل متعلقہ محنت و مزدور، انشورنس اور قیمتوں کے تعین (price control)کے بارے میں اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں۔ دورِ جدید میں اسلامی معاشی قوانین کی تشکیل جدید پر بحث سے اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔

یقینا یہ کتاب انگریزی دان طبقے ، جامعات کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ محققین کی لائبریری میں ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہوگی۔سرورق جاذبِ نظر ہے۔(ڈاکٹر میاںمحمد اکرم)


عزیزِ جہاں،قاضی حسین احمدؒ، مرتب: جمال عبداللہ عثمان۔ ناشر:ادارہ فکروعمل، مکان ۲۷۷،  ناظم الدین روڈ، اسلام آباد۔ فون: ۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ صفحات: ۳۸۷۔ قیمت: ۷۸۰، مجلد: ۱۲۰۰ روپے۔

’’قاضی حسین احمد تاریخِ پاکستان کے بڑے آدمیوں میں سے تھے‘‘۔ ممکن ہے اس جملے پر بعض لوگ چونکیں اور انھیں اس بیان کو تسلیم کرنے میں کچھ تامّل ہو اور وہ سوال کریں: وہ کیوں  ایک بڑے آدمی تھے؟

اس کی متعدد وجوہ ہیں: وہ ایک بڑی دینی اور سیاسی پارٹی (جماعت اسلامی) کے سربراہ تھے۔ ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے قیامِ پاکستان کے مقاصد اور نصب العین (لاالٰہ الا اللہ کا نفاذ، بصورتِ اسلامی شریعت) کو تروتازہ رکھا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ، کہ جس نے دوسری پارٹیوں کی طرح وسائلِ پاکستان کولوٹ کر،اپنی جیبوں میں منتقل نہیں کیا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے پاکستان کی بقا اور تحفظ کے لیے عملاً سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور اس پر اپنے نوجوانوں کی جانیں تک نچھاور کردیں۔ پھر قاضی حسین احمد کو ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی وراثت میں نہیں ملی تھی، بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بناپر اپنی جماعت کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔ ان کا شمار اس لیے بھی بڑے آدمیوں میں ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیاست دانوں کی طرح، پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے باوجود مادی وسائل اور پلاٹ جمع نہیں کیے تھے اور وہ کسی بنک کے نادہندہ بھی نہیں تھے۔ جب پاکستان کے دفاع کی بات کی جائے گی تو پاکستان کے ساحلوں تک پہنچنے کے عزائم رکھنے والے سرخ ریچھ کو افغانستان کی سرحد پر روکنے اور پھر وہیں سے اس کا    منہ پھیرنے کی منصوبہ بندی میں بھی قاضی صاحب نے بہت بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

زیرنظر کتاب عزیزجہاں، قاضی حسین احمدؒ اسی بڑے آدمی کو خراجِ تحسین کی ایک صورت ہے۔ یہ اُن چھوٹے بڑے مضامین کا مجموعہ ہے جو قاضی صاحب کی وفات کے بعد لکھے گئے، اخبارات اور رسائل میں چھپے اور بعض تقاریب میں بھی پڑھے گئے اور بعض مکالمے   ٹیلی ویژن پر بھی ہوئے۔ لکھنے والوں میں مرحوم کے اہلِ خانہ، عالمی رہنما اور قائدین، جماعتی رفقا، ملکی، سیاسی و دینی قائدین اور اہلِ علم و قلم شامل ہیں۔ حکومتوں کے عہدے دار، سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، اسلامی تحریکوں کے قائد، صحافی، ادیب، حتیٰ کہ قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین نے بھی قاضی صاحب کی نیک نفسی، اعتدال، درویشی اور بے لوثی کی تعریف و تحسین کی ہے۔ بلاشبہہ قاضی حسین احمد کی زندگی سعادت کی زندگی تھی اور ان کا رخصت ہوجانا غمگین کردینے والا تھا۔ انھوں نے اپنے کردار اور اخلاق سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور کروڑوں دلوں میں   اپنے لیے جگہ بنائی۔ زیرنظر کتاب بتاتی ہے کہ دلوں میں جگہ کیسے بنائی جاتی ہے!

بظاہر یہ کتاب متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، مگر یہ ایک بڑے شخص کی داستانِ حیات ہے۔ قاضی حسین احمد نے صرف جماعت اسلامی ہی کی قیادت نہیں کی، بلکہ آگے بڑھ کر مسلم دنیا اور عالمی اسلامی تحریکوں کو درپیش بڑے بڑے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں (افغانستان، کشمیر، بوسنیا، فلسطین، چیچنیا وغیرہ) کے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اور حتی المقدور طرح طرح سے ان کی مدد کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ انقلابی نظریات رکھتے تھے اور جماعت کے اجتماعی مزاج میں کچھ تبدیلیوں کے محرک بھی تھے۔یہ ایک بحث کا موضوع ہے مگر اس میں شبہہ نہیں کہ قاضی صاحب کے دورِ امارت میں اوّل تا آخر جماعت کا مقصد اور نصب العین اور لائحۂ عمل کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔

’عزیزِ جہاں‘ کی ترکیب الطاف گوہر نے سیّدمودودی کے لیے استعمال کی تھی، مگر    قاضی حسین احمد کے لیے بھی یہ بالکل درست اور صحیح ترکیب ہے، کیوں کہ وہ سیّدمودودی کے جا نشین تھے۔ جمال عبداللہ عثمان نے کتاب کو مرتب کیا اور شاہد اعوان (انڈسٹری، اسلام آباد) نے قابلِ رشک ذوقِ جمال سے اسے ڈیزائن کر کے شائع کیا ہے۔ کتاب کا معیارِ کتابت و طباعت لائقِ تحسین ہے۔ اس میں شامل بہت سی رنگین تصاویر میں بہت سی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعبیرات، پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ ناشر: فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ کراچی۔ فون:۹۹۲۶۱۶۵۵-۰۲۱۔صفحات:۳۵۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

قرآنِ مجید کی ہدایت کسی ایک عہد تک محدود نہیں بلکہ یہ ہردور کے انسانوں کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید کی منصوص تعلیمات بغیر کسی تبدیلی کے ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ نص میں تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ہر دور کی متغیر تہذیب سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے قرآنی نصوص کی تعبیر و تفسیر کا کام جاری رہا۔ اس تفسیری و تشریحی کام نے ہر دور میں بدلے ہوئے حالات کے باوصف قرآنی ہدایات سے روشنی حاصل کی اور قرآن پر عمل کے لیے راہیں نکالیں۔ یہی کاوش تنقیح و تحقیق اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ فقہاے اسلام کا طرئہ امتیاز بنی۔

زیرتبصرہ کتاب کے بعض مضامین میں مصنف نے مختلف مباحث پر قرآنی نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور بعض عنوانات کے تحت انھوں نے اپنے افکارونظریات بھی پیش کیے ہیں۔ جن عنوانات پر انھوں نے اپنی راے پیش کی ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ہدایت و ضلالت میں انتخاب کی آزادی، تعبیرنصوص میں قدیم اور جدید منہج، قوم، اُمت اور ملّت کے قرآنی اطلاقات اور ہماری شناخت، کیا غیرمذاہب کے تمام پیروکار باطل پرست ہیں؟ عذابِ الٰہی اور فطری حوادث کے مابین فرق، نفاذِ شریعت کے قرآنی اصول، قتلِ عمد میں قصاص و دیت، حقیقت ربا اور اس کی اطلاقی نوعیت، امام اعظم کی قرآن فہمی کے چند نظائر، موت و حیات کا قرآنی و مغربی تصور، مسئلہ نسخ اور شاہ ولی اللہ دہلوی۔ تمام مضامین میں قرآنی فکر ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے اور تنقیح و تفہیم سے کام لیا گیا ہے۔

بعض مباحث میں علما کے نقطۂ نظر کا اختلاف موجود ہے۔ مصنف نے ایسے مباحث کو واضح کر کے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے، مثلاً ایمان اور عمل کے تلازم کی بحث (ص۲۷)۔ بعض علما ایمان اور عقیدے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک عمل کے بغیر عقیدہ متحقق نہیں ہوتا۔ مصنف نے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ مشینی ذبیحے پر بھی علما نے اپنی آرا پیش کی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں الیکٹرک شاک سے جانور کو بے ہوش کرکے ذبح کیا جارہا ہے۔ مصنف کے خیال میں اس طرح جانور کا خون پوری طرح خارج نہیں ہوتا۔ قرآن کا نقطۂ نظر    یہ ہے کہ ذبح میں جانور کے خون کا مکمل اخراج اور تکبیر ضروری ہے۔

مصنف نے’نصوص‘ کی تعبیر کے حوالے سے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں میں جب سے مسلکی تعبیر کی ترویج ہوئی تب سے اختلاف راے نے تشدد کی صورت اختیار کرلی۔ بعدازاں یہی تشدد منافرت میں بدل گیا۔ مسلکی تعبیر میں غلو سے اختلافات کا بازار گرم ہوا تو یہ ملّت اسلامیہ کے انتشار اور اس کے زوال کا باعث بنا۔ مصنف نے قدیم و جدید مناہج تعبیر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تعبیرنصوص کے لیے روایت و درایت کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ مصنف کی آرا سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، یہ اختلاف، راے کا اختلاف ہوگا، اسے کسی مسلکی تنگ نظری یا متجددین کی آزاد خیالی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کاوش بہرحال آج کے حالات میں ایک نئی آواز ہے جس میں قرآنی بصیرت اور خدمت کا جذبہ شامل ہے۔

مصنف کو احساس ہے کہ وہ مشکل پسندی کا شکار ہیں، تاہم وہ مطمئن ہیں کہ صحافتی زبان اور علمی زبان دو مختلف اسلوبِ بیان کی حامل ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ خداداد بصیرت سے کام لے کر قرآنی معارف و بصائر سے اُردوخواں طبقے کو مستفید کرتے رہیں گے۔(ظفرحجازی)


قتل بہ جذبۂ رحم (نوعیت مسئلہ اور اسلامی نقطۂ نظر)، ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب ایک انتہائی حساس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص پیدایشی طور پر کسی مہلک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو یا پھر عمر کے کسی حصے میں وہ مسلسل مہلک بیماری کا شکار ہوجائے اور اس کے شفایاب ہونے کی کوئی ممکنہ صورت نہ نظر آئے، یہاں تک کہ اس کی مثل مثلِ مُردہ کے ہوجاتی ہے کہ اپنا کوئی کام وہ خود نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری ضرورتوں کی تکمیل اس کے قریب ترین رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ مریض یا تو مکمل بے حس اور بے حرکت ہو، جیسے کومے یا برین ہیمرج اور فالج کی مخصوص حالتیں ہوسکتی ہیں، یا پھر شدت تکلیف سے مسلسل کراہ رہا ہو اور ایڑیاں رگڑ رہا ہو۔ ایسے میں کسی مناسب تدبیر کے ذریعے یا پھر اس کے علاج معالجے کو روک کر اسے موت کی آغوش میں پہنچاناقتل بہ جذبۂ رحم کہلاتا جے جسے علمِ طب کی اصطلاح میں Euthanasia کہا جاتا ہے یا پھر انگریزی میں Mercy Killing سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کی عموماً تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ۱-رضاکارانہ ۲- غیررضاکارانہ۳- نادانستہ۔اسی طرح قتل بہ جذبۂ رحم کے لیے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی نے مذکورہ موضوع کا واقعی حق ادا کردیا ہے۔ زیرنظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کے ساتھ ساتھ باب سوم میں خودکشی کا تصور اور اسلام میں اس کا حکم، اور باب چہارم میں مریض، معالج اور اقربا کے حقوق و ذمہ داریاں بھی بیان کی گئی ہیں۔  آخر میں اسلام کا شرعی نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ مریض کی موت کے لیے ایسا اقدام حرام ہے،     نیز اس ضمن میں علما کی آرا اور فقہی اداروں کا موقف اور ضمنی مباحث بھی پیش کیے گئے ہیں۔ غرض یہ کتاب اپنے موضوع کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔(حافظ ساجد انور)


تذکارِ بُگویہ  (جلد سوم)، صاحب زادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی۔ ناشر: مجلس مرکزیہ حزب الانصار، جامع مسجد بگویہ بھیرہ، ضلع سرگودھا۔ فون: ۶۶۹۰۸۴۷-۰۴۸۔ صفحات:۸۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔

تذکارِ بُگویہ کی جلد اوّل و دوم پر ترجمان (نومبر۲۰۱۱ء) میں تبصرہ شائع ہوچکا ہے۔ اب جلد سوم(خطوط، حالات اور خدمات ۱۸۸۳ء-۲۰۱۰ء) منظرعام پر آئی ہے۔

 بھیرہ کے خانوادۂ بُگوی کے علما اور اکابر کی علمی، دینی، سیاسی اور تحقیقی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ ۱۰۰ سال پہلے برپا ہونے والی تحریکوں (خلافت اور ترکِ موالات) میں ضلع سرگودھا کے علما کے کردار اور جدوجہد کو مصنف نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔ خواجہ ضیاء الدین سیالوی نے گھر میں مستورات کا تیارکردہ دیسی کھدّر کا لباس پہنا اور اسے رواج دیا۔ مریدوں کو تلقین کی کہ سرکاری ملازمت ترک کر دیں۔ مولانا ظہوراحمد بگوی نے ڈیڑھ سال تک سی کلاس میں قید ِ بامشقت کاٹی۔

ماہ نامہ شمس الاسلام ، بھیرہ کے حوالے سے بھی کتاب میں مختلف النوع لوازمہ یک جا کیا گیا ہے۔ زیرنظر جلد میں سیکڑوںخطوط بھی شامل ہیں، جن پر حواشی و تعلیقات کے ساتھ مکتوب نگاروں کے مختصر حالات اور تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات کے جاں نثاروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خطوط میں ایک پورے عہد کی تاریخ موجود ہے۔ ان سے علما کی ذہنی قابلیت، بعض کا ادب اور شاعری سے لگائو، اُمورِ شریعت میں ان کا تفقّہ، ان کی دینی غیرت اور آزادی کی تحریکوں میں ان کی دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مختلف مکاتب ِ فکر کے علما بیش تر معاملات میں یک سو تھے اور ان میں رواداری اور برداشت زیادہ تھی۔ تاریخ، سیاسیات، اور اسلامیات کے طالب علموں کے لیے اس کتاب میں بہت قیمتی لوازمہ موجود ہے۔خطوں کی تعداد ۶۸۰ اور سکین شدہ (scanned) خطوں اور دستاویزات کی تعداد ۳۰۰کے لگ بھگ ہے۔ مؤلف نے کمالِ محنت اور تحقیق سے لوازمہ جمع کر کے مرتب کیا ہے۔ قلمی رجسٹروں اور دستاویزات سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سکین شدہ دستاویزات کی موضوع وار فہرست اور آخر میں ان کے عکس شامل کردیے ہیں۔اس سے قارئین اور تحقیق کاروں کے لیے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی، مرتب: ڈاکٹر خالد ندیم۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے،    گلی نمبر۵-اے، لین نمبر۵، گل ریز ہائوسنگ اسکیم-۲، راولپنڈی۔ فون: ۵۱۹۲۵۴۳-۰۳۰۰۔ صفحات:۵۲۶۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

ادبی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی خدمات اور عظمت کے اعتراف میں ارمغان پیش کرنے کی روایت دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے ۱۹۵۵ء میں اپنے استاد ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی خدمت میں مجموعۂ مقالات پیش کیا۔ اُس وقت سے اب تک اُردو میں تقریباً دو درجن ارمغان پیش کیے جاچکے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر بھارت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ارمغان عموماً کسی ادارے یا مجلس کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے۔ زیرنظر ارمغان ڈاکٹر ہاشمی کو ۲۰ نام وَر اساتذہ اور علما (اسکالرز) پر مشتمل ایک ’مجلس سپاس‘ نے پیش کیا ہے جس کے سربراہ سرگودھا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی بنیادی شناخت ایک معلم اور محقق کی ہے۔

زیرنظر ارمغان چھے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ اقبال و اقبالیات پر ممتاز دانش وروں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے حصے میں ملکی و غیرملکی ممتاز محققین کے تحقیقی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ پانچویں اور چھٹے حصے میں ہاشمی صاحب کے سوانحی حالات اور ادبی سرگرمیوں اور تحقیقی کارناموں کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی علمی دل چسپیوں کی مناسبت سے (اقبالیات، مودودیات، اسلام، اُردو تحقیق و تنقید، تاریخ پر ۲۵ مقالات شاملِ اشاعت ہیں۔ ارمغان کی روایت یہی ہے۔ یہ مقالات چار زبانوں (اُردو، انگریزی، ترکی ، فارسی) میں ہیں۔ لکھنے والوں میں پاکستان، بھارت، ایران اور ترکی اور جاپان کے نام وَر اساتذہ شامل ہیں۔یاد رہے کہ ان کی زیرنگرانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے ۳۰ سے زائد اور ایم اے کے ۴۴ سے زائد تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں۔

یہ کتاب کئی حوالوں سے اُردو میں ارمغانِ علمی کی روایت میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ہاشمی صاحب مزاجاً کم آمیز، شہرت سے گریز پا، گوشہ نشین اور کام میں مگن آدمی ہیں۔ ان کے بہت سے اور باصلاحیت شاگردان موجود ہیں(ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر محمدایوب صابر، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر راشد حمید، ڈاکٹر زاہدمنیرعامر، ڈاکٹر اختر النساء، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ارشد محمود خان اور ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم وغیرہ)لیکن یہ سعادت ڈاکٹر خالدندیم کے حصے میں آئی اور انھوں نے محبت، محنت اور جاں کاہی سے یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعارف کتب

  • استقبالِ رمضان ، ترتیب و تالیف: پروفیسر ڈاکٹر محمد مجیب اللہ شیخ منصوری۔ ناشر: مکتبہ المستجاب، رحمن ٹائون، پھلیلی، حیدرآباد۔ فون: ۲۷۵۸۹۹۷-۰۳۳۳۔ صفحات: ۱۸۵۔ ہدیہ: ۱۲۰ روپے۔ [نبی اکرمؐ رمضان کی آمد کے موقعے پر اس ماہِ مبارک کی عظمت، اہمیت، فصائل اور برکات سے آگاہ کرنے کے لیے مختصر اور طویل خطبے ارشاد فرماتے تھے۔ ان میں جامع خطبہ حضرت سلمان فارسیؓ نے روایت کیا ہے۔ استقبالِ رمضان اس جامع خطبے کا مفصل بیان ہے۔ رمضان کی فضیلت،مقصد، حکمت، تزکیہ و تربیت، حصولِ تقویٰ، قیامِ لیل،    نمازِ تراویح اور دیگر پہلوئوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جامعیت اور اختصار سے بیان کیا ہے۔ رمضان میں نبی اکرمؐ کے معمولات کا تذکرہ بھی ہے اور روزوں کے مسائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ 
  • ماہنامہ سوچنے کی باتیں ، مدیر: انواراحمد ۔ ملنے کا پتا: ۸شیخ سٹریٹ نمبر۶۸، اسلام پورہ، لاہور۔ فون:۳۷۱۵۸۷۷۵۲-۰۴۲۔ ای میل:huroofgf@gmail.com،قیمت: بلامعاوضہ۔[ یہ مجلہ حلقہ مطالعہ اسلام کے تحت شائع ہوتا ہے۔ مولانا مودودی اور دیگر اکابر تحریک اسلامی کی رہنما تحریروں کے علاوہ دین کی بنیادی تعلیمات، تزکیہ و تربیت، مغرب اور اسلام کے درمیان کش مکش جیسے موضوعات پر تحریریں شائع کی جاتی ہیں۔ اشاعت ِ دین اور شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بلامعاوضہ ارسال کیا جاتا ہے۔ ]

راجا محمد ظہور ،  چیچہ وطنی

ماہِ مئی کا شمارہ اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ اس مہینے میں نومنتخب امیرجماعت کا حلف ہوا ۔ اس موقعے پر پروفیسرخورشیداحمد صاحب نے اشارات: ’جماعت اسلامی: انتخابِ امیر اور ہمارے اہداف‘ میں تحریکِ اسلامی کی تاریخ اور بانیِ جماعت کی تحریروں کی روشنی میں جماعت کے نظریے، دعوت اور اہداف کو بخوبی اُجاگر کیا۔


عبدالرحمٰن ، لاہور

’۶۰سال پہلے‘ کے تحت قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۴۷ء کی تقریر کے حوالے سے سیکولر حلقے کو قائداعظم کے فرمودات سے بھرپور جواب دیا گیا ہے۔ ’کریمیا پر روسی قبضہ اور یوکرائن‘ کے مسئلے پر کریمیا کا تاریخی پس منظر اور کش مکش پر تفصیل سے معلومات دی گئی ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال کے بارے میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ سیدقطب شہیدؒ کی تحریر: ’یہی شاہراہ ہے!‘ اُمت مسلمہ آج جن مظالم اور مصائب سے دوچار ہے، اس تناظر میںجہاں کامیابی کے حقیقی معیار کی طرف رہنمائی دیتی ہے وہاں عزم و حوصلہ اور ولولۂ تازہ کا ساماں بھی ہے۔


محمد لطیف ،بہاول پور

ڈاکٹر انیس احمد کا مقالہ ’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل، مئی ۲۰۱۴ء) جامع اور فکرانگیز ہے۔ مقالے کے دوسرے حصے میں دستورِ پاکستان کے تحت جدوجہد کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس ضمن میں دستور کی دفعات ۶۲ اور ۶۳ بہت اہم ہیں۔ کیا ان دفعات کو مؤثر بنانے کے لیے کوششیں ہورہی ہیں؟


یوسف صدیقی ، چشتیاں

’بڑھتی ہوئی معاشرتی بے حسی‘(مئی۲۰۱۴ء) اپنے موضوع پر فکرانگیز اور جھنجھوڑنے والی تحریر ہے۔    اس وقت ریاستی سرپرستی میں فحاشی و عریانی کا سیلاب معاشرے بالخصوص نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ میڈیا کا کردار اس کے فروغ میں نمایاں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ایک طرف اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو     وسیع پیمانے پر عام کیا جائے اور بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کے انسداد کے لیے راے عامہ کو منظم کیا جائے۔ دوسری طرف مظلوم اور بے بس عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت داد رسی کی بھی ضرورت ہے۔


محمد یاسر ، لاہور

نااُمیدی کے دور میں ترجمان اُمید اور حوصلے کی کرن ہے۔ ’اولاد کی تربیت محبت سے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) کے مطالعے سے بچوں کی تربیت کے ایسے پہلو سامنے آئے جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔


 

رواداری ؟

اس فتنۂ عظیم [قادیانیت] سے جو لوگ ’رواداری‘ برتنے کا ہمیں مشورہ دے رہے ہیں     وہ صرف یہی نہیں کہ رواداری کے معنی اور اس کے حدود نہیں جانتے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام سے ناآشنا ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بڑی نیک نیتی مگر بڑی نادانی و بے فکری کے ساتھ مسلم ملّت کی قبر کھودنا چاہتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حق میں تو ان کی یہ غلطی قطعی طور پر ہلاکت کا پیغام ہے اور اِس ریاست کا کوئی بڑے سے بڑا بدخواہ بھی اس کے ساتھ وہ بدخواہی نہیں کرسکتا جو یہ رواداری کے پیغمبر کر رہے ہیں۔

یہ ملک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش سے بنا ہے اور اسی وقت تک یہ ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے قائم ہے جب تک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش اس کی پشت پناہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں، جہاں زبان ایک ہے، نسل ایک ہے، اور جغرافی حیثیت سے قومی وطن یک جا ہے، مسلمانوں کو اپنی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسری بنیادیں بھی مل سکتی ہیں۔ مگر پاکستان جس میں نہ نسل ایک، نہ زبان ایک، اور جغرافی حیثیت سے جس کے دو ٹکڑے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہیں، یہاں قومیت کی کوئی دوسری بنیادی تلاش کرنے والا اور اس کو ممکن سمجھنے والا صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو لاطائل خیالات کی دنیا میں رہتا ہو اور جسے عملی سیاست کی ہوا تک نہ لگی ہو۔ یہاں مسلمانوں کے لیے بناے وحدت اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے، اور اسلام میں بھی صرف ایک ختم نبوت وہ چیز ہے جو اس وقت عملاً بناے وحدت بنی ہوئی ہے۔ اس بنیاد کو رواداری کی مقدس دیوی کے آستانے پر بھینٹ چڑھا دیجیے، پھر دیکھیے کہ کون سی طاقت اِس عمارت کو مسمار ہونے سے بچاسکتی ہے۔ آج   اِس اجراے سلسلۂ نبوت کے اثرات زیادہ تر پنجاب تک محدود ہیں، اس لیے اس کے پورے کرشمے ہماری قومی قیادت کو نظر نہیں آتے۔ مگر جب یہ فتنہ اپنی تبلیغ سے دوسرے صوبوں تک پھیل جائے گا تب ان عقلاے روزگار کو رواداری کے معنی اچھی طرح معلوم ہوجائیں گے۔ (’مولانا مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں تیسرا بیان‘، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۳، رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ،جون ۱۹۵۴ء، ص۲۲-۲۳)