مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۱۸

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہماری تاریخ کا ایک نہایت سنہری اور تابناک دن ہے ۔ اس روز  برعظیم پاک و ہندکے مسلمانوں نے قائداعظم محمدعلی جناح کی پُرعزم قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ایسا ملک کہ جہاں وہ اپنے دین و ایمان، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے نظامِ قانون و اخلاق، اپنی روایات، اپنے سیاسی عزائم اور مفادات کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔

برعظیم کے مسلمان برطانوی استعمار کے غلبے سے پہلے آٹھ نو سو سال تک ہندستان کی حکمران قوت تھے۔ برطانوی دورِ اقتدار میں اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کی حفاظت کے لیے انھوں نے مختلف محاذوں پر جدوجہد کی، اور سامراج سے آزادی کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا لیکن اس جدوجہد میں ایک تلخ حقیقت نے ان کی سوچ اور ان کے سیاسی اہداف کو یکسر بدلنے پر مجبور کردیا۔

تب ہندستان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک چوتھائی تھی اور عددی اعتبار سے اکثریت ہندوئوں کو حاصل تھی۔ مسلمانوں کی کوشش تھی کہ وہ اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کو محفوظ اور مستحکم رکھتے ہوئے اکثریت کے ساتھ مل کر محض ایک قومی ریاست (Nation State) نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کریں، جس میں ہرقوم اپنے نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی تشخص کو مستحکم کرسکے اور اس طرح ایک کثیر قومی ریاست (Pluralistic State) اور کثیرثقافتی ریاست (Multi-cultural State) کا نیا نمونہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے لیکن نصف صدی پر پھیلی ہوئی بھرپور سیاسی جدوجہد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندو قوم کسی ایسے تصور کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

یہ وہ پس منظرتھا جس میں مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو فکری، سیاسی اور عملی ہرسطح پر پیش کیا اور اس کے فطری تقاضے کے طور پر مسلمان قوم کے لیے بحیثیت قوم حق خود ارادیت کو تسلیم کرا کے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا عزم کیا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر وہ اپنے لیے ایک الگ آزاد ملک کے حصول کا راستہ اختیار نہیں کرتے جہاں وہ اپنے نظریے، عقیدے، تہذیب اور سیاسی اور معاشی مفادات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرسکیں، تو اس کا صاف نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ انگریز کی غلامی سے نجات پاکر ہندوئوں کی غلامی کا شکار ہوجائیں گے۔ مغربی جمہوریت اور اس میں عددی اکثریت کے فیصلہ کن کردار کا یہ منطقی نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو اسلامی قومیت کی بنیاد پر برعظیم کے ان علاقوں میں، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، ان کی آزاد ریاست کے قیام کی منزل کا اعلان کیا گیا۔ یہی تھا وہ تاریخی لمحہ، جب ہندستان کی تحریک ِ آزادی میں مسلمانوں نے اپنے جداگانہ کردار کو ایک واضح اور متعین رُخ دے دیا۔

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہونے والی اس قرارداد میں لفظ ’پاکستان‘ نہیں تھا، صرف الگ ریاست کا تصور تھا۔ البتہ اگلے ہی سال مسلم لیگ کے دستور میں آزاد مسلم ملک ’پاکستان‘ کے حصول کو سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہرسطح پر، شب و روز پاکستان کے وژن کو نکھارنے اور اس پر برعظیم کے مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کی جدوجہد برپا کی گئی۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۴۶ء کے مرکزی اور صوبائی سطح کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مرکز اور صوبوں میں فقیدالمثال کامیابی حاصل ہوئی۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب مسلمان ارکان کا کنونشن دلّی میں منعقد ہوا، اور اس کی قرارداد اور حلف نامے میں اس تصور کو اور بھی وضاحت سے پیش کیا گیا۔

اس طرح صرف سات سال کی جدوجہد میں، ایسی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں اور  اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو (جو ۲۷رمضان المبارک تھا) مسلمانوں کی آزاد ریاست اور ۲۰ویں صدی میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی پہلی ریاست قائم ہوئی۔ دشمنوں کا خیال تھا کہ یہ ملک چند ہی سال میں اپنا وجود کھو دے گا اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ساری مشکلات اور آزمایشوں کے باوجود اور بہت سے نشیب و فراز کے ساتھ پاکستان کے استحکام کا سامان کیا۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو  سقوطِ مشرقی پاکستان، سانحہ بڑا دل خراش تھا، جو اللہ کی طرف سے ایک تازیانہ اور تنبیہہ بھی تھا،  لیکن اس کے علی الرغم برعظیم میں ایک نہیں دو مسلمان ملک پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے اپنے انداز میں قائم و دائم ہیں اور ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

تحریکِ پاکستان کا وژن

۲۳مارچ جہاں یومِ تشکر ہے، وہیں یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ ہم دیانت داری سے حالات کا جائزہ لیں۔ جہاں اپنی کامیابیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں، وہیں اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا بھی جائزہ لیں اور اصلاحِ احوال کے لیے نقشۂ کار بنائیں اور اس کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کریں، تاکہ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی اور پاکستان کی شکل میں ایک آزاد اور اسلامی ملک کے قیام کے لیے قربانیاں دیں، اس کا حق ادا کرسکیں۔ یہاں ہم خصوصیت سے ان کروڑوں مسلمانوں کے جذبات، احساسات اور احسانات کو یاد کرنا چاہتے ہیں، جو یہ جانتے تھے کہ وہ ہندستان ہی میں رہ جائیں گے اور ایک مدت تک اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ اگر ہم پاکستان کو ایک طاقت ور اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو وہ صرف اہلِ پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے خطّے کے لیے ایک رحمت اور ایک مثبت قوت ہوگا۔ یہی وہ وژن تھا جو اقبال اور قائداعظم نے پیش کیا تھا، اور جس نے برعظیم کےمسلمانوں کو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں سب کچھ لٹا دینے کے عزم و ہمت سے سرفراز کیا تھا۔

قائداعظم نے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء پنجاب یونی ورسٹی لاہور کے اسٹیڈیم میں خطاب فرماتے ہوئے صاف الفاظ میں قوم کو حصولِ آزادی کے اصل مقصد کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی تھی:

ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینےکے لیے آمادہ ہوگا۔

اور یہی بات آپ نے ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سول، بحری اور فضائی افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی:

قیامِ پاکستان، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، آج اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کا معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا، بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح سانس لے سکیں، جسے ہم اپنی صواب دید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔

دیکھیے ،پاکستان کا وژن قائداعظم کی نگاہ میں کتنا واضح ہے۔ یہی وژن پوری تحریک ِ پاکستان کی روحِ رواں تھا۔ اسی منزل کے حصول کے لیے برعظیم کے تمام مسلمان، وہ بھی جن کو پاکستان کی نعمت ملنی تھی اور وہ بھی جو ہندستان میں جانے تھے اور جنھیں مستقبل میں مصائب کا شکار ہونا تھا، وہ سب ایک اعلیٰ وژن کی خاطر اس جدوجہد میں سب سے آگے تھے۔ پچھلے ۷۰سال پر مَیں نگاہ ڈالتا ہوں تو جہاں اللہ کے انعامات پر دل احساسِ تشکر سے لبریز ہے ، وہیں اپنی قیادتوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں پر دل خون کے آنسو بھی روتا ہے۔

میں بڑے دُکھ سے یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی تاریخ اور اپنے شرکاے سفر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی تاریخ، اس کے بنیادی محرکات، تصورِ مملکت اور ملکی اور عالمی کردار کا حق ادا نہیں کیا، بلکہ اپنے ذاتی، گروہی اور علاقائی مفادات کی خاطر ملک اور عوام دونوں کے باب میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے اپنی نئی نسلوں کو اپنی تاریخ اور تحریک ِ آزادی کے مقاصد کا صحیح شعور نہیں دیا اور ہمارے حکمرانوں نے الا ماشاء اللہ ملک کی تعمیروترقی اور عوام کی خدمت اور خوش حالی کے باب میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔

 حقیقت یہ ہے کہ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو دیے ہیں، اگر ان کو ٹھیک ٹھیک استعمال کیا جاتا تو پاکستان آج دُنیا کے لیے ایک مثال ہوتا اور قیادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا۔ اس اعتراف کے ساتھ، اس احساس بلکہ یقین کا ادراک بھی ضروری ہے کہ آج بھی جو مواقع حاصل ہیں، وہ بے پناہ ہیں اور ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اگر آیندہ کے لیے   صحیح لائحۂ عمل مرتب کیا جائے اور مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو آگے لایا جائے، تو چند برسوں میں صورتِ حال بدل سکتی ہے اور ان شاء اللہ بدلے گی۔ چند مہینوں میں ملک نئے انتخابات کی طرف جارہا ہے اور یہ ایک تاریخی موقع ہے ،جب قوم اپنے اصل مشن کے حصول کے لیے نئی قیادت اور نئے پروگرام کے تحت نئے سفر کا آغاز کرسکتی ہے۔

۲۳مارچ ۲۰۱۸ء کا یہی پیغام ہے کہ اگر مارچ ۱۹۴۰ء میں ظلمت کی گہرائیوں کے باوجود منزل کے صحیح شعور اور اس کے بارے میں یکسوئی کے ساتھ قومی عزم اور منظم جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے صرف سات سال میں پاکستان حاصل کیا جاسکتا ہے، تو آج ۲۱کروڑ انسانوں کو بیدار اور منظم کر کے قدرتی وسائل سے مالا مال اور ایٹمی صلاحیت اور جدید ٹکنالوجی سے آراستہ یہ مملکت ایک نئی تاریخ کیوں رقم نہیں کرسکتی؟ مشکلات خواہ کتنی ہی ہوں لیکن ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ صحیح مقاصد کے لیے منظم اور مؤثر جدوجہد کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے اور بظاہر ناممکن کو ممکن ہی نہیں بناتا، بلکہ مشکل کو آسان کردیتا ہے:

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۶ۭ (الم نشرح ۹۴:۵-۶) پس حقیقت یہ ہےکہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے

ہرلمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی سے گہرا تعلق اور عشق کی حد تک وابستگی میری زندگی کی سب سے قیمتی متاع اور اس تاریخ ساز جدوجہد میں گذشتہ ۷۰، ۷۵ سال کی شرکت کی یادیں اور کیفیات سرمایۂ حیات ہیں۔ ۱۲،۱۳سال کی عمر میں شعوری طور پر تحریکِ پاکستان سے وابستگی اور قائداعظم سے گھر کے ماحول میں احترام اور والد ِ محترم کی مسلم لیگ میں دہلی کی قیادت سے قربت اور اجلاسوں میں شرکت کے نتیجے میں گہرا تعلق پیدا ہوا۔ پھر عملاً اینگلوعربک ہائر سیکنڈری سکول کی بزمِ ادب کے پلیٹ فارم سے تحریک ِ پاکستان میں شرکت اختیار کی۔ ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں قائداعظم کے ارشاد کی تعمیل میں دومہینے تعلیم سے بس واجبی تعلق رکھا اور سارا وقت الیکشن کی مہم میں صرف کیا۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی ہمارے علاقے سے مسلم لیگ کے نمایندہ تھے، جو عظیم اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ الحمدللہ، اس دور کے سارے نشیب و فراز کا مَیں گواہ ہی نہیں، ایک ادنیٰ سا کردار بھی ہوں اور اس امر کی شہادت دے سکتا ہوں کہ تحریک ِ پاکستان کی پوری جدوجہد آزادی، اسلام کی سربلندی اور مسلمان قوم کے لیے اس کا اصل مقام حاصل کرنے سے عبارت تھی۔

۱۹۴۶ء کا مسلم لیگ کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا کنونشن ہمارے ہی اسکول کے سبزہ زار میں منعقد ہوا تھا، اور مَیں اور میرے بڑے بھائی اس میں رضاکار کے طور پر شریک تھے۔ مئی ۱۹۴۷ء کو امپریل ہوٹل، دلی میں ہونے والے مسلم لیگ کے کنونشن میں میرے والد محترم بحیثیت منتخب کونسلر شریک تھے اور ہم بھائی ،کارکنوں کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ پھر میں نے ہندو مسلم فسادات کے سارے مناظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ قرول باغ دہلی میں اپنا بھرا پُرا گھر لٹتا دیکھا ہے اور تن کے کپڑوں میں جان بچانے کے لیے باڑہ ہندواڑ کے مسلم علاقے میں پناہ لینے کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ پھر باڑہ ہندواڑکی وہ رات بھی مَیں کیسے بھول سکتا ہوں، جس میں بلوائیوں سے جان بچانے کے لیے ایک رات میں چار جگہیں ہمیں تبدیل کرنی پڑیں اور بالآخر ہمایوں کے قلعے میں مہاجر کیمپ میں پناہ لینی پڑی، جہاں ایک ماہ سے زیادہ زمین پر سوئے اور خیمے میں زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا۔ باڑہ ہندواڑ کی ایک رات کی یہ تلخ یادیں کیسے بھول سکتا ہوں کہ جن تنگ گلیوں میں ہم ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لے رہے تھے، تو پاس کے گھروں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور انسانی چربی کے جلنے کی بُو دل و دماغ کو مائوف کر رہی تھی اور موت کے سایے ہر طرف منڈلاتے نظر آرہے تھے۔ مَیں ان تمام مراحل سے گزرا ہوں اور ان کا شاہد ہوں، لیکن الحمدللہ ایک لمحے کے لیے بھی تحریک ِ پاکستان کی صداقت اور کامیابی کے لیے کوئی شبہہ نہیں ہوا۔ بالآخر ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک آزاد وطن کی نعمت سے مالا مال کیا۔

میں نے ’اشارات‘ میں آج پہلی بار ترجمان کی ادارت سے وابستگی کے بائیسویں برس، ذاتی نوعیت کی یہ باتیں صفحۂ قرطاس پر مرتسم کی ہیں اور ۲۳مارچ کے مبارک موقعے پر لکھی ہیں لیکن اس کا محرک وہ بہت سی تحریریں، بیانات اور تبصرے ہیں،جو کچھ دانش ور اور سیاست دان تحریک ِ پاکستان کی ’ناکامی‘ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اوہام و خدشات کے باب میں پوری دیدہ دلیری سے بیان فرما رہے ہیں اور جنھیں میڈیا پوری قوت سے اُچھال رہا ہے۔  مَیں اپنی صحت کی خرابی، بینائی کی مشکلات اور ذاتی مجبوریوں کے باعث وطن سے دُور ہوں، لیکن دل مستقلاً پاکستان میں اٹکا ہوا ہے اور الحمدللہ پاکستان کے روشن مستقبل کے بارے میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں ہوا۔ مَیں جہاں زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں، وہیں اللہ پر بھروسے اور حق کے غلبے کے یقین میں کبھی کوئی لرزش محسوس نہیں کرتا۔ اللہ نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے اور اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ مالک کائنات کا ارشاد ہے:  لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ  ط(الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘‘ اور لَا تَحْزَنْ  اِنَّ  اللہَ مَعَنَا ج  (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، اس نے الحمدللہ مجھے اس یقین سے مالا مال کیا ہے۔ کفر، ظلم اور فساد کی قوتیں ان شاء اللہ شکست سے دوچار ہوں گی اور حق کو بالآخر فتح ہوگی۔ البتہ اس کے لیے اصل ضرورت منزل کے صحیح شعور، اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان اور اعتماد اور مقصد کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے مطابق صبرواستقامت کے ساتھ مؤثر جدوجہد کی ہے۔ بندہ اگر ان کا قرارواقعی اہتمام کرے، تو پھر ربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے:

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

مزید ارشاد ہوتا ہے:

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)اور اعلان کرو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تبدیلی، اصلاح اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو راستہ مقرر فرمایا ہے، اس کو بہت صاف الفاظ میں ہمیں سمجھا بھی دیا ہے کہ:

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ۧ  يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۱۰  تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱ۙ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۲ۙ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا ۝۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۳ (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُو ر کو پورا پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے، جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو  وہ تجارت، جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور اَبدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا، یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح، اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

اللہ تعالیٰ کی ان آیات کا سبق ہمارے لیے یہ ہے کہ:

  1. اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں کہ حالات بالآخر بدل کر رہتے ہیں۔ اللہ، کوشش اور جدوجہد اور وہ بھی صحیح جذبے، صحیح نیت، صحیح حکمت عملی، صحیح تدابیر اور صبرواستقامت کے ساتھ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
  2. کش مکش ہی سے تبدیلی اور ترقی کا راستہ نکلتا ہے۔
  3.  آخری کامیابی حق ہی کو حاصل ہوگی ___ البتہ نشیب و فراز اس کا لازمی مرحلہ ہیں۔
  4. اصل قوت ایمان، اللہ کی مدد، اللہ کے دین کی صحیح تفہیم اور اس کے قیام کی مؤثر کوشش، ایمان، عمل صالح، امربالمعروف، نہی عن المنکر اور جان و مال سے مسلسل جدوجہد اس کا راستہ ہیں۔
  5. نظر آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے اور بالآخر دُنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوکر رہے گی۔

تحریک ِ پاکستان کی کامیابی اور تاریخِ پاکستان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے آئینے میں بھی اللہ کے اس قانون اور سنت کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ ہماری نگاہ مثبت اور منفی ہر دو پہلوئوں پر ہونی چاہیے اور دیانت داری کے ساتھ زمینی حقائق کے صحیح ادراک اور مطلوبہ مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی اور مؤثر لائحۂ عمل کی تیاری اور اس پر صبرواستقامت کے ساتھ عمل ہی اصلاح اور تبدیلی اور بالآخر کامیابی کا صحیح راستہ ہے۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

اس بنیادی یاد دہانی اور تذکیر کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ نہایت اختصارکے ساتھ ان چند مثبت اور منفی پہلوئوں کی طرف اشارہ کردیں، جو اس وقت اہمیت کے حامل ہیں:

  • پاکستان کا قیام ایک عظیم نعمت اور تاریخی کامیابی ہے اور اس کی حفاظت، ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے پیہم جدوجہد ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ایک طبقہ اس سلسلے میں جو ذہنی انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مؤثر جواب اور اصل تاریخی حقائق اور قومی مقاصد کے باب میں یکسوئی پیدا کرنے کے لیے اصلاحِ احوال ضروری ہے، جس کی فکر ہمیں کرنی چاہیے۔
  • قیادت اور عوام، افراد اور اداروں، ہرسطح پر خیر اور شر اور روشن مثالیں اور بدترین نمونے ہماری زندگی کی حقیقت ہیں لیکن تمام کمزوریوں کے باوجود آج بھی ملک اور معاشرے میں بڑا خیر ہے اور اس خیر کو مضبوط تر کرنے کی جدوجہد سے مستقبل کو روشن کیا جاسکتا ہے۔ مایوسی اور غفلت ہمارے بدترین دشمن اور راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اُمید، مشن اور اہداف کا صحیح ادراک اور اَن تھک کوشش ہی کامیابی کا راستہ ہیں اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔
  • جمہوری قوتوں اور آمریت میں کش مکش:گذشتہ ۷۰برسوں کی تاریخ، جمہوری قوتوں اور آمریت کے علَم برداروں کے درمیان کش مکش اور سمجھوتوں کی تاریخ ہے۔ لیکن اگر دُنیا کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں اور خود مسلم دنیا کے حالات کو سامنے رکھا جائے، تو یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ آمرانہ قوتیں یہاں اپنے غلبے کو دوام نہیں دے سکیں اور جمہوری قوتیں اپنی بے شمار کمزوریوں کے باوجود آمریت کی گرفت سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آمرانہ قوتیں گو بار بار پسپائی اختیار کرتی رہی ہیں، لیکن یکسر میدان سے باہر نہیں ہوئیں۔ یہی حال جمہوری قوتوں کا ہے کہ بار بار مواقع ملنے کے باوجود وہ کماحقہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکیں۔

فوج اور عدلیہ، عوام کے لیے معتبر ترین ادارے ہونے کے باوجود اپنے اپنے دائرے میں بھی صرف جزوی طور پر کامیاب ہوسکے ہیں اور جب بھی دوسرے دائروں میں انھوں نے مداخلت کی ہے، تو کچھ جزوی مثبت نتائج کے ساتھ، واقعہ یہ ہے کہ کہیں زیادہ بڑے نقصانات کا   وہ باعث ہوئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے بھی بار بار کے تجربات کے باوجود قوم کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بالعموم دستور، مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو اوّلیت دی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو بہت بڑی نعمت ہمیں حاصل رہی ہے، وہ قرارداد مقاصد اور ۱۹۷۳ء کا دستور ہے، جو ایک قومی اور اجتماعی معاہدے (National and Social Contract) کی شکل میں ملک و قوم کی کشتی کے لیے لنگر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دستور وہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس پر دیانت اور تدبر سے کام کرکے ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو آج درپیش ہیں۔

موجودہ انتشار اور تنائو کی صورتِ حال سے نکلنے کا مؤثر ترین راستہ دستور کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک مناسب ترتیب سے اصلاحِ احوال کے لیے قومی سطح کی جدوجہد ہے، جسے باہم مشاورت سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ، عدلیہ اور قومی عساکر پر مشتمل اداروں کے درمیان تصادم کی جو فضا بنتی جارہی ہے، وہ ہماری نگاہ میں قومی نقطۂ نظر سے بہت پریشان کن بلکہ انتہا درجے کی خطرناک صورت ہے۔ اسے مزید ہوا دینا، جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں، فوجی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا، ہر ایک کا کردار بہت اہم ہے۔ دستور، جمہوریت کے آداب اور روایات اور تاریخ، سب کا سبق یہ ہے کہ تصادم کے راستے کو بند کیا جائے اور مل بیٹھ کر موجودہ تنائو کی صورتِ حال سے نکلا جائے۔

بدقسمتی سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ اور فوج دونوں کو جس طرح ہدف بنایا ہے، اس نے حالات کو بڑے خطرناک رُخ پر ڈال دیا ہے۔ عمل اور ردِعمل، حالات کو بگاڑ تو سکتے ہیں، انھیں سنوار نہیں سکتے ، جب کہ وقت کی ضرورت آگ پر تیل چھڑکنا نہیں، اسے بجھانا ہے۔ اَنا کی پرستش مزید تباہی کا راستہ ہے اور یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ سیاسی قیادت، تمام پارلیمانی جماعتیں، عدلیہ، وکلا برادری، سول سوسائٹی کے نمایندے، میڈیا اور فوج کے  ذمہ داروں پر لازم ہے کہ حالات کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام معاملات کو دستور میں دیے ہوئے خطوط کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کیا بات ہوگی کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی احتجاج میں واک آؤٹ کرے، اور ملک کے وزیراعظم صاحب سینیٹ کے چیئرمین کی تضحیک کریں۔ ’ن‘ لیگ کے ’تاحیات رہبر‘ کی صاحب زادی اور مشیر، عدالت عظمیٰ اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف روز اعلانِ جنگ کریں اور فوج کے سربراہ کو مجبوراً صحافیوں کو بریفنگ دینا پڑے اور ملک کا چیف جسٹس روز بیان دے اور وضاحتیں کرے:

بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جو زبان وہ روزانہ استعمال کر رہےہیں، وہ جلتی پر تیل کا کام تو انجام دے سکتی ہے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت اس میں نظر نہیں آتی۔ جب تک دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں نہیں آیا تھا، اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی تھیں لیکن اب اس کے قیام میں آجانے کے بعد فوری اور اہم چیلنج اس کے سامنے یہ ہے کہ وہ ملک کو فوری طور پر اس بحران سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام کرے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور ملک و قوم انتخابات کے ذریعے صحت مند تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔

مسلم لیگ (ن) کا سانحہ یہ ہے کہ وہ ایک دستوری اور قانونی معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اداروں اور سیاسی قوتوں کو تصادم کی طرف لے جارہی ہے۔ وہ بیک وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہےاور اپنے پونے پانچ سالہ دورِاقتدار میں اپنی کارکردگی کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے غیرحقیقی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عدل اور سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذآرائی سے سیاسی فاصلے طے کرنا چاہتی ہے ۔ یہ ان کی قیادت کی خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ انتخاب میں ایسی دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ دستور کا تیاپانچا کرنے کی قوت حاصل کرپائے، اور شخصی آمریت کا وہ خواب جو محترم نواز شریف ۲۳سال سے دیکھ رہے ہیں، وہ پورا ہوسکے۔

ہم صاف الفاظ میں انتباہ کرنا چاہتے ہیں کہ سیاست میں فوجی مداخلت نے نہ ماضی میں کوئی قومی خدمت انجام دی ہے، نہ آیندہ دے سکتی ہے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور ملک کی سول حکومت کی تائید اور معاونت ہے۔ بلاشبہہ قومی سلامتی، دفاع اور ملک کے مفادات کے سلسلے میں فوج کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور باہم مشاورت سے ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ہی صحیح سیاسی اور دستوری طریق کار ہے۔ اسی طرح اگر قانون سازی، پالیسی سازی، اچھی حکومت و انتظامی صلاحیت ِ کار، پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے، تو قانون کا احترام، انصاف کا قیام اور دستور کی حفاظت اور تعبیر اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری اور استحقاق ہے۔ اس باب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے بڑی واضح رہنمائی دی ہے اور اعلیٰ عدالتوں کی تعبیرات کی روشنی میں اختیارات میں تحدیدو توازن (check and balance) کا ایک واضح نقشہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں عدالتی فعالیت (Judicial activeness) اور عدالتی احتیاط (Judical restraint) دونوں کاایک مقام ہے، جس کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن، ایک دوسرے کے دائرے میں کھلی یا دھمکی (Overt and Covert)، مداخلت ِ دستور اور قومی مفاد دونوں کے احکام اور روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہی معاملہ مسلح افواج اور قومی سلامتی کے معاملات کا ہے۔ اس وقت اس سلسلے میں اگر  ’بگٹٹ آزادی‘ (free for all ) کی کیفیت نہ بھی ہو، تو ایک دوسرے کے پائوں پر پائوں رکھ کر راستہ روکنے کی کیفیت تو نظر آتی ہے، جس کی اصلاح باہم مشورے سے ضروری ہے۔ جس ملک میں نظامِ حکومت تحریری دستور کی بنیاد پر قائم ہو، وہاں بالادستی صرف دستور کو حاصل ہوسکتی ہے اور باقی سب دستور کی تابع اکائیاں (Creatures) ہوتی ہیںاور انھیں دستور ہی جائز حق (legitimacy) دیتا ہے،اور دستور کے دائرے ہی میں وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرسکتے ہیں۔ دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دستور کی تعبیر کرے اور ایسی قانون سازی ، پالیسی سازی کو خلافِ دستور قرار دے، جو دستور کے انسانی حقوق کی دفعات سے متصادم ہوں، یا وہ جو قرآن وسنت کے احکام کے منافی ہوں۔ عوام کے ووٹ کے تقدس اور بالادستی کے نام پر دستور اور قانون سے کوئی بالادست نہیں ہوسکتا۔

دفعہ ۶۲ اور ۶۳پر تنقید کی حقیقت :دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ نے یہ اصول طے کر دیا ہے کہ جہاں پارلیمنٹ اور حکومت عوام کے ووٹ سے وجود میں آئے گی، وہیں محض ووٹ کی طاقت سے ان دفعات پر پورا نہ اُترنے والا شخص نہ پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے اور نہ رکن رہ سکتا ہے۔ اور یہ اصول جمہوری دُنیا میں بھی ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ ووٹ لینے والا قانون سے بالاتر مخلوق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وہ قانون کی گرفت میں آنے کے بعد اپنی اہلیت کھو دیتا ہے تو محض ووٹ کی قوت سے اسے قیادت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔

دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کے بارے میں یہ بات بھی بے معنی ہے کہ یہ صدر جنرل محمدضیاء الحق کی داخل کردہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ دفعات ۱۹۷۳ء کے اصل دستور میں موجود تھیں، البتہ ان میں بعد میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں، جن میں اہم تبدیلیاں آٹھویں، سترھویں اور اٹھارھویں ترامیم کے ذریعے ہوئی ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جو آخری شکل ان دفعات کو دی گئی ہے، وہ پارلیمنٹ کی متفقہ تجاویز کی بنیاد پر ہیں اور اب ان کی ملکیت (ownership) کا اعزاز جنرل ضیاء مرحوم سے ہٹ کر پارلیمنٹ اور قوم کو منتقل ہوچکا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کے سلسلے میں جو باتیں ایک نام نہاد سیکولر طبقہ ایک مدت سے اُگل رہا ہے اور اب اس میں مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور دانش ور، جو کل تک اس کے مؤید تھے، وہ بھی شریک ہوگئے ہیں، ایک بہت سطحی اور افسوس ناک غوغا آرائی ہے۔ علمِ سیاست ہی نہیں بلکہ مینجمنٹ اور حکمرانی کا ہر طالب علم واقف ہے کہ ہر سیاسی نظام ہی میں نہیں بلکہ چھوٹی اور بڑی  کاروباری قیادت تک کے لیے امانت، دیانت اور صداقت بنیادی صفات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلامی نظام میں تو یہ اوّلین شرائط ہیں، لیکن دنیا کے ہر نظام میں دیانت(Honesty)، اعلیٰ کردار (Integrity) اور معاملہ فہمی (Prudence) لازمی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔

مشہور مصنف سر آئیور جیننگ[Ivor Jennings ، م: ۱۹۶۵ء] نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب Cabinet Government میں لکھا ہے کہ:’’ ایک وزیر اور وزیراعظم کی اوّلین اور ناقابلِ سمجھوتا خصوصیت اس کا اعلیٰ کردار (Integrity) ہے۔ اگرچہ صلاحیت کے باب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، جس کی تلافی مشیر اور معاونین کے ذریعے ہوسکتی ہے لیکن اگر صداقت اور دیانت کے باب میں قیادت مطلوبہ معیار سے فروتر ہے تو اس کا کوئی متباد ل نہیں ہوسکتا‘‘۔

دفعہ ۶۲ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

کیمبرج  ڈکشنری Honesty کی تعریف یہ کرتی ہے:

سچا یا اعتماد کے قابل، جس کے بارے میں یہ امکان نہ ہو کہ وہ چوری کرےگا، دھوکا دے گا یا جھوٹ بولے گا۔

اسی طرح کولن انگلش ڈکشنری کے بقول:

اگر آپ کسی کو ایمان دار قرار دیتے ہیں تو آپ کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے دھوکا دہی نہیں کرتے اور نہ قانون کو توڑتے ہیں۔

ہفنگٹن پوسٹ (Huffington Post )کے الفاظ میں:

اخلاقیات میں اخلاقی بلندی (integrity) سے مراد دیانت داری، راست بازی، سچائی اور اعمال کی درستی ہوتے ہیں۔

اسی طرح Integrity کی تعریف لغت کی رُو سے یہ ثابت ہوتی ہے:

اخلاقی اصولوں پر سختی سے عامل، اخلاقی کردار کی درستی اور مضبوطی، دیانت داری۔

انتظامیات (مینجمنٹ) کی کتب میں یہ اصول اور معیار بیان کیا گیا ہے کہ:

اخلاقی بلندی (Integrity) بنیادی اقدار میں سے ایک ہے، جن کی آجر کو اپنے اجیر میں، ملازم رکھتے ہیں، تلاش ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے، جو اپنے کام میں ٹھوس اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ آج حکمرانی کے منصب پر فائز رہنے والوں کی طرف سے دستور کی  دفعہ۶۲ اور ۶۳ نکالنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہاں مسلم لیگ کی وہ قیادت اور اس کے ہم نوا کالم نگار جو طرح طرح کی گُل افشانیاں کر رہے ہیں اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں،   وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سینیٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر (رولز آف بزنس) اصول و ضوابط بنائے ہیں اور جن پر ضیاء الحق مرحوم کا کوئی سایہ بھی کبھی نہیں پڑا، ان میں بھی مذکورہ دفعات موجود ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔

ضابطہ اے-۲۲۶ کی تشریح سینیٹ آف پاکستان کے رولز کے ضمیمے میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:

اپنے پارلیمانی اور سرکاری فرائض کی انجام دہی میں، ارکان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ چال چلن یا طرزِعمل کے درج ذیل اصولوں کی پابندی کریں گے، جن کی نشان دہی اخلاقیات کی کمیٹی نے کی ہے۔ ان ا صولوںکو اس وقت مدنظر رکھا جائے گا جب ضابطے کے حصہ پنجم میں دیے گئے طرزِعمل کے اصولوں کی خلاف ورزی کے الزامات کی  تحقیق و تعیین مقصود ہوگی۔

  • احتساب / جواب دہی: ارکان اپنے فیصلوں اور اعمال کے لیے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔
  • دیانت داری:سرکاری عہدوں پر فائز افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے سرکاری فرائض سے اگر ان کے کوئی ذاتی مفادات وابستہ ہوں تو ان کا سرعام اعلان کریں، اور اس صورت میں پیدا ہونے والے تصادم کو ایسے طریقے سے حل کرنے کے لیے اقدامات کریں کہ جس سے عوام کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔
  • اخلاقی بلندی :عوامی/ سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو افراد یا انجمنوں کے مالی طور پر یا کسی اور لحاظ سے اس طریق پر رہینِ منّت نہیں ہونا چاہیے، جس سے ان کے سرکاری فرائض کی بجاآوری پر اثر پڑسکتا ہو۔
  • معروضیت: عوامی/ سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو سرکاری اُمور سرانجام دیتے ہوئے، جس میں سرکاری عہدوں پر لوگوں کو متعین کرنا، ٹھیکے دینا، یا انعامات اور فوائد کے افراد کی سفارش کرنا شامل ہے، انتخاب کے لیے فیصلے میرٹ پر اور ضوابط اور قوانین کے مطابق کرنے چاہییں۔
  • بـے غرضی:سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو فیصلے محض مفادِ عامہ کو سامنے رکھ کر کرنے چاہییں۔ ان کو یہ فیصلے مالی یا دیگر مادی مفادات کے حصول کے لیے نہیں کرنے چاہییں۔
  • شفافیت اور کھلا پن /  صراحت :ارکان کو اپنے کیے گئے تمام فیصلوں اور اُٹھائے گئے تمام اقدامات میں ہرممکن حد تک کھلا اور شفاف ہونا چاہیے۔

ان بقراطوں کے سامنے ہم یہ سوال رکھتے ہیں کہ: دستور کی دفعات ۶۲، ۶۳ کا مطالبہ وفاقِ پاکستان کی علامت ایوانِ بالا کے ان اُمورِ کار سے کچھ مختلف ہے؟ اور اگر کوئی رکن ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے،تب بھی کیا وہ ووٹ کی عظمت اور عزّت کے نام پر پارلیمنٹ کا رکن رہ سکتا ہے؟

غلط بیانی، دستاویز میں جعل سازی، جھوٹی گواہی، کتمانِ حق، یعنی سچی بات کو چھپانا، وہ اخلاقی اور سماجی بُرائیاں ہیں جو انسان کو ناقابلِ اعتبار بنا دیتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ فرد ان کے ارتکاب کے بعد سیاسی ذمہ داری کی اہلیت کھو دیتا ہے۔ یہ اسلام کا بھی ایک معیاری اصول ہے   اور دُنیا کے دوسرے تمام نظاموں ، خصوصیت سے پارلیمنٹ اور حکومت کے مناصب کے باب میں اس احترام کا بنیادی تقاضا ہے۔ دنیا کے بعض دستوری اور قانونی نظاموں میں جھوٹی گواہی، غلط بیانی اور حقائق چھپانا ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور اگرکوئی منتخب نمایندہ یا عہدے دار اس جرم، جیسے Perjury (نقضِ عہد، جھوٹی گواہی) کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو اسے نہ صرف عہدے سے فارغ کردیا جاتا ہے بلکہ سزا بھی دی جاتی ہے۔

Webster ڈکشنری کی رُو سےPerjury کی تعریف یہ ہے:

(قانونی اہمیت کے حامل معاملے کے بارے میں) جان بوجھ کر دروغ گوئی کا عمل یا جرم، جب کہ (ایسا کرنے والا) حلف اُٹھا کر بیان دینے کی وجہ سے یا (حلف اُٹھائے بغیر) صدق دلانہ بیان دینے کی وجہ سے یا کسی سرکاری طور پر جاری اعلامیہ کے تحت اس بات کا پابند ہو کہ وہ جو کہہ رہا ہے ، تحریر کررہا ہے، یا جس کا وہ دعویٰ کر رہا ہے، درست اور سچ ہے۔

’Perjury ‘ برطانیہ میں کامن لا کا حصہ ہے اور امریکی قانون میں بھی ایک جرم ہے   جس کی مختلف حلقوں میں اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں مختلف سزائیں ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں یہ سزائیں ایک سے پانچ سال تک قید اور جرمانے پر مشتمل ہیں۔

جہاں تک اسلامی قانون کا تعلق ہے، اسلامی ریاست میں امیر، قاضی اور عُمال کے لیے عادل اور صالح ہونا بنیادی اور لازمی شرط ہے۔ کسی بھی معاملے میں خواہ اس کا تعلق شادی بیاہ، طلاق، وصیت سے ہو یا کاروباری معاملات سے، گواہ کے لیے عادل ہونا لازمی شرط ہے۔ جھوٹی گواہی پر حضرت عمرؓ نے ۴۰کوڑوں کی سزا بھی دی ہے اور جھوٹے گواہ کو آیندہ گواہی کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ہی نہیں ہر مہذب معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی،  اخلاقی اور معاشرتی جرائم ہیں۔ علم الرجال کے اصولوں کے مطابق اگرکسی راوی سے کسی معمولی سے معاملے میں بھی خلافِ واقعہ روش کی کوئی جھلک نظر آئی ہے تو اس سے روایت قبول نہیں کی گئی ہے۔

اس امر پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ محض اپنی ذات کو بچانے کے لیے اسلام کے مسلّمہ اصول اور دستور کی واضح دفعات کا مذاق اُڑایا جا رہاہے اور انھیں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ وہ افراد جو دیانت و امانت اور صدق و صفا کے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں، وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن سکیں۔ اس سے بڑا ظلم جمہوریت اور عوام کے ووٹ پر کیا کیا جاسکتا ہے کہ ووٹ لینے والے کو ہرقانون و دستور اور بنیادی اخلاقی اصولوں سے بالا کر دیا جائے اور محض اس بنا پر چوںکہ اسے ووٹ حاصل ہوتے ہیں، اس کے لیے یہ جرم اور قانون شکنی جائز ہوجائے۔ جس طرح ووٹ جمہوریت کا ستون ہے، اسی طرح قانون کا احترام، قانون کی نگاہ میں سب کی برابری، دستور اور قانون کے مطابق سب کا احتساب، جمہوریت کے فروغ اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری شرط ہے۔ پاکستان کا مستقبل، جمہوریت کا فروغ اور عوام کی فلاح و بہبود کا انحصار دستور کے احترام، قانون کی بالادستی اور سچائی، دیانت، عدل و انصاف اورعوام کی خدمت اور خوش حالی کے لیے تمام وسائل کے استعمال اور سردھڑ کی بازی لگا دینے میں ہے۔ اقبال کا یہ ارشاد ہمارے لیے رہنما اصو ل ہونا چاہیے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

مسلمانوں کو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مسائل و حالات سے واقف رہنے کاپورا اہتمام کریں۔ یہاں تک کہ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اُمور سے واقف نہ ہو اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں کے مصائب کے بارے میں جانیں اور جو ممکن ہو اس سے دریغ نہ کریں۔ملک شام سے وابستگی کا حکم بھی ہے۔ حدیث میں حکم ہے: عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ (صحیح ابن حبان، مناقب الصحابۃ، حدیث ۷۴۱۳) یعنی شام سے تمھارا خصوصی تعلق ہونا چاہیے۔ پھر شام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یَجْتَبِی اِلَیْہَا خِیْرَتُہٗ مِنْ عِبَادِہِ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث ۲۱۳۷) یعنی اللہ کے بہترین بندے اس سرزمین کے لیے چنے جاتے ہیں۔آج اگر احساس کی شدت موجود ہے تو ہزاروں کلومیٹر کی دُوری سے مظلومین شام کا یہ نوحۂ غم جو کبھی بیوہ کی زبان سے اور کبھی یتیم کی زبان سے یا کسی غم نصیب کی صد ابن کر بلند ہوتا ہے، ہمارے کانوں تک پہنچ سکتا ہے۔

شام بحیرہ روم کی مشرقی کنارے پر واقع ایک بے حد خوب صورت اور شاداب ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان اور شمال میں ترکی ہے اور مشرق میں عراق ہے اور جنوب میں اُردن واقع ہے۔ یہ ۲کروڑ کی آبادی کا ملک ہے۔ اس میں ۹۰ فی صدسے زیادہ مسلمان ہیں۔ غالب اکثریت سنیوں کی ہے۔ یہاں خلیجی ملکوں کی طرح دولت کی فراوانی نہیں ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں میں شرافت ہے اور دل جوئی اور دل نوازی بھی۔

۱۹۷۱ء میں حافظ الاسد نے شام کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اسد علوی تھا اور فوج میں ملازم۔ چوںکہ فوج میں علویوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اس لیے اس نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دینی ذہن رکھنے والوںاور اخوان کو کچلنا شروع کیا۔ ۲۰۰۰ء میں اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد تخت اقتدار پر بیٹھا اور اس نے باپ سے زیادہ ظلم کیے۔ کسی کو تحریر وتقریر کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سیرت النبیؐ کے جلسے بھی بندمکانوں میں منعقد ہوتے تھے۔ بشار الاسد کے مظالم کے خلاف ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ ء کوشام میں مظاہرے شروع ہوئے،جن کو اس نے کچل دیا۔پھر پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور طاقت سے ان پُرامن مظاہروں کوروکنے کی وجہ سے بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ملک کی سرزمین کا ۸۰ فی صد حصہ بشار کے قبضے سے نکل کر ’باغیوں‘ کے قبضے میں چلا گیا، جن کی قیادت کرنے والوں میں دینی ذہن کے لوگ اور اخوان المسلمون کے لیڈر تھے۔

بشار کے ہٹنے کے بعد اخوان کا برسرِاقتدار آنا اسرائیل کے لیے شہ مات کے مترادف تھا۔ چنانچہ مذاکرات کی میز سے ان چہروں کو ہٹایا گیا جن پر دینی رنگ تھا۔ لہٰذا دینی ذہن کے مجاہدین نے جبہۃ النتصرۃ، جیش الاسلام اور فیلق الشام وغیرہ کے نام سے اپنی تنظیمیں قائم کرکے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور پھراسرائیل، ر وس اور امریکا دونوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا، جب کہ شامی فوج کے نشانے پر وہ پہلے سے تھیں۔ ان جماعتوں نے نام نہاد مذاکرات سے خود کو الگ رکھا اور مذاکرات کا منصوبہ بنانے والوں نے بھی ان سے زیادہ دل چسپی نہیں لی۔

آج شامی مسلمانوں کی تکلیف اور غم سے سارے مسلمان غم زدہ ہیں۔ دنیا میں بہت سے خطۂ ارض ہیں جہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن پھر یہ قتل وغارت گری ایک دن رُک جاتی ہے، البتہ ایک سرزمین ایسی ہے جہاں خوں ریزی رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔ دن،ہفتے، مہینے اور برس گزر جاتے ہیں لیکن خون کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔ قاتل کا دست سفاک قتل سے بازنہیں آتا ہے۔ پہلے درعا، پھر دیر الزور، پھر حلب اور اب غوطہ دمشق۔ پہلے بھی جان بچانے کے لیے لوگ سمندروں میں کود گئے تھے اور کشتیاں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ ایلان کردی جیسے بچوں کی لاشیں انسانیت کو پکارتی رہیں ،اور حلب میں ملبے کے نیچے دبا ہوا بچہ احمد اپنی معصومیت کے ساتھ آوازیں دیتا رہا ۔پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ معصوم بچے مارے گئے۔ اب پھر وہی شام ہے ، وہی شب ِخون ہے اور وہی خون آشامی ہے۔غوطہ میں ظلم وتشدد کے طوفان سے ہرشخص لہولہان ہے۔ سکونتی عمارتیں مسمار ہو گئی ہیں، مسجدیں شہید ہوگئی ہیں، اسپتال منہدم ہوگئے ہیں۔ اس بار غوطہ میں خون کی ندی میں مظلوم شامی مسلمان غوطہ زن ہیں۔ شام کے کماندار ناوک فگن ہیں اور حاکمِ شام کے فوجی کھلے آسمان سے بمباری کرکے سیکڑوںمعصوم انسانوں کی زندگی کا چراغ بجھارہے ہیں۔ یہ سلسلہ۲۰۱۱ء سے شروع ہوا جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ گذشتہ چند روز کے اندر غوطہ میں ۱۸۰۰ اشخاص کی زندگی کا چراغ گل ہوچکا ہے۔ ۸لاکھ افراد شام میں ظالم بشار الاسد اور اس کے حلیفوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ ۴۰لاکھ سے زیادہ ہجرت کرچکے ہیں۔ اب تک لاکھوں زندگیاں ایک حکمران کی ضد اور رعونت کے آگے قربان ہوچکی ہیں اور لاکھوں انسان اپنا گھر بار، اپنی تجارت اور ملازمت چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ اب نہ ان کا کوئی گھر ہے، نہ دَر ہے۔بس سر کے اُوپر خیموں کا سائبان ہے جو پڑوسی ملک ترکی نے اپنے یہاںمہیا کردیا ہے۔

دنیا میںبدی اور خباثت کی ایک بڑی علامت بشار الاسد ہے، جس کی فوج ہر طرف ملک میں رقص بسمل کا تماشا دکھا کر اب غوطہ میں عمارت شکن اور زمین شگاف بمباری میں مصروف ہے۔ جس میں ہر روز سیکڑوں مرد اور عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔ دھماکوں اور شل باری سے زمین پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بموں کا دھواں آسمان تک بلند ہورہا ہے۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہورہی ہیں۔غوطہ ایک ملبے سے تبدیل ہورہا ہے اور اس کے بڑے حصے پر اب شامی فوج کا قبضہ ہے۔روسی مشیرکار بھی بشار کی رہنمائی اور کمک کے لیے بر سرِ موقع موجود ہیں۔دنیا میں مختلف تنظیمیں اس ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کررہی ہیں لیکن مسلم دُنیا کی طرف سے احتجاج کی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ہے، جیسے شامی ان کے بھائی نہ ہوں دشمن ہوں۔ اقوام متحدہ نے ایک ماہ کی جنگ بلندی کی قرار داد منظورکی ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہ دارد۔ بعض طاقتیں روس سے مداخلت کی اپیل کررہی ہیں۔

شام اس وقت ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے اعضا کٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں اور اس کے جسم کو مثلہ کرنے میں تمام چھوٹی بڑی طاقتیں شریک ہیں۔شام کے مزاحمتی گروپ جس میں اسلام پسند بھی شامل ہیں، اس کو توڑنے میں سب متحد ہیں۔ حلب ہو یا درعا، حمص ہو یا دیر، الزور ہو یا غوطہ، ہر جگہ زمین خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔سقوط شام پر عرب اسلامی دنیا میں سکوت  طاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان عرب مسلم ملکوں پر مرگِ غیرت اور مرگِ حمیت اورمرگِ دوام طاری ہے۔ اگر شام میں آبادی بجاے مسلمانوں کے عیسائیوں پر مشتمل ہوتی اور ان کے ساتھ یہ  خوں ریزی اور خون آشامی کا معاملہ ہوتا تو دنیا چیخ اُٹھتی۔ شام کی جنگ کے تمام فریق، مسلمان مجاہدین مزاحمتی گروپ اور ترکی کو چھوڑ کر،سب خوش ہیں کہ اسلام کا نام لیے بغیر مسلمانوں کے جسم کی تکابوٹی کی جارہی ہے،اور ان بڑی طاقتوں کوخوب معلوم ہے کہ پڑوس کے عرب ملک بے طاقت اور بے حیثیت ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ عشرت کدوں میں داد عیش دینے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔

شام وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ظلم وستم کے بہت سے خونیں پنجے پیوست ہیں۔ داعش کو ختم کرنے کے نام پر روس اور امریکا دونوں مسلسل شہری علاقوں پر بم باری کرکے عمارتوں کو منہدم کرتے رہے ہیں۔ مسجدوںاور اسپتالوں تک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان دونوں آقائوں کی فضائی سرپرستی میں بشار الاسد کی فوج فتح کا جھنڈا بلند کرتی رہی ہے۔ یہ سب طاقتیں مل کر خون کی ہولی کھیلتی رہی ہیں۔بالکل ابتدا میں جب یہ بیرونی طاقتیں میدان میں نہیں کودی تھیں، شام کے مجاہدین نے جنھیں ’باغی‘ کہا جاتا ہے، ملک کے ۸۰ فی صدی علاقوں پر زمینی قبضہ کرلیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پورے ملک شام پر ان کا قبضہ اب چند روز کی بات ہے۔ یہ اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت بات تھی اور اسرائیل کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا تھا۔۔ بشار الاسد کے ظالمانہ رویے کے باوجود دنیا کی طاقتیں اسی پیکرِ ظلم حاکم کو برسرِاقتدار دیکھنا چاہتی ہیں اور ایران کے نزدیک بشار کا اقتدار خواہ وہ کیسا ہی بُرا ہو، سُنّی اقتدار سے بہتر ہے۔

شام میں جن لوگوںکے ہاتھ میں انقلاب کی قیادت تھی ان کی ذہنی اور فکری وابستگی اخوان المسلمون کے ساتھ تھی اور خلیج کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انھیں لفظ اخوان کے ’الف‘ سے بھی ڈر لگتا ہے، اور اسی لیے انھوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں بڑی طاقتوںکی پوری مدد کی۔ خلیجی حاکموں کے بعض کفش بردار مفتی حضرات اخوان پر اور ان  تمام علما پر جو اخوان کے طرف دار تھے دہشت گردی کا الزام لگاتے رہے۔علم دین اور افتا کی ایسی رُسوائی چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوگی۔

مصر ہو یا تیونس، لیبیا ہو یا شام، ہر جگہ انقلابات کی اصل وجہ وہ شدید ظلم ہے جو ان ملکوں میں حاکم اپنے عوام پر ڈھاتے تھے اور کسی کو شکایت کرنے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آزادیِ تحریر وتقریردنیا میں تمام ملکوں میں ہر انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کی جمہوریت کے نقطۂ نظر سے بھی اور اسلامی شریعت کے اعتبار سے بھی شکایت، احتجاج اور تنقید ہرشہری کا بنیادی حق ہے، لیکن شام میںاور بہت سے ملکوں میں انسانیت کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون رائج ہے۔ وہاں ہر طاقت ور حکمران کمزور پر ظلم کرنے کا عادی ہے۔

بعض دانش وروں کا کہنا ہے کہ دینی ذہن اور تحریک کے لوگوں کوشام میں اور کئی ملکوں میں شکست کا سامنا ہوا، کیوںکہ جب تک طاقت کا توازن نہ ہو اور حکومت سے مقابلے کی طاقت نہ ہو، انقلاب کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بشار کی ظالمانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے شام میں کامیابی کی دہلیز تک پہنچ گئے تھے، مگر یہ بیرونی طاقتیں تھیں جو بشارحکومت کی کمک پر آگئیں۔ حزب اللہ کے رضاکار، بشار حکومت کو بچانے کے لیے شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے سامنے آگئے۔ اس پر بھی انقلاب بردار مجاہدین اور باغیوں کا پلڑا بھاری ہورہا تھا۔ اب شامی حکومت نے روس کو دعوت دی کہ وہ آئے اور گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دے۔ روس ایک عالمی طاقت ہے، اسے اپنے روایتی حلیف شام کی مدد بھی کرنی تھی اور افغانستان میں شکست کا بدلہ بھی لینا تھا، اور ملک شام میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت بھی کرنی تھی۔

’داعش‘ کے نام پر روس نے شام کی مزاحمتی فوج پر خوب بمباری کی اور یہ مزاحمتی فوج وہ ہے جو بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔روسی طیارے آسمان سے مجاہدین اور مزاحمتی فوج پر جنھیں ’فری سیریین آرمی‘ بھی کہا جاتا ہے آگ برسانے لگے اور پھر حلب انقلابیوں یا باغیوں یا ’فری سیریین آرمی‘ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ شام میں جو جنگ کا منظرنامہ ہے وہ چھوٹے پیمانے پر عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے۔ یہاں روس بھی بشار کی حمایت میں بمباری کر رہا ہے اور داعش سے کہیں زیادہ مزاحمتی گروپ کو نشانہ بنارہا ہے، اور امریکا نے بھی اپنی فضائی فوج ملک کی ویرانی میں اضافہ کرنے کے لیے لگا دی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شام میں آزادی اور انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والوں نے بشار الاسد سے شکست کھائی ہے۔ انھوں نے تو بشار الاسد کو زمین کے بڑے حصے سے بے دخل کردیا تھا۔ انھوں نے دراصل روس اور امریکا اور حزب اللہ کی متحدہ فوج سے شکست کھائی ہے۔ محدود پیمانے پر ترکی کی فوجی مداخلت بھی سرحد پر کردوں پر کنٹرول کرنے کے لیے موجود ہے۔ یہ کرد وہ ہیں جو ترکی میں بھی خلفشار پیدا کرتے ہیں اور امریکا کی ہمدردیاں کردوں کے ساتھ ہیں۔ مرنے والے سب شام کے مسلمان ہیں۔ رات دن مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہےاور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سقوطِ شام پر اسلامی عرب دنیا میں مرگِ دوام اور سکوت کی کیفیت ہے۔

مسلم دنیا کے خلاف عالمی سازش ہے۔ مغربی ملکوں نے مسلم ملکوںکو اپنا آلۂ کار بنایا ہے۔ خلیجی ملکوں کی مدد سے جمہوری اور دستوری حکومت کا مصرمیں تختہ اُلٹا گیا۔ سعودی عرب کے ذریعے قطر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے لیے ہندستان کو فضائی راہ داری بھی دے دی ہے اور پھر’معتدل اسلام‘ کا نعرہ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کا جال کس قدر جکڑچکا ہے اس پورے خطے کو! ایک زمانے میں یہاں پر اخوان المسلمون کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوا کرتے تھے اوراب اخوان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کہ امریکی آقا یہی چاہتے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوںکا درد ترکی کو ضرور ہے، لیکن امریکا نے ترکی میں انقلاب کی سازش کرکے طیب اردگان کو محتاط کردیا ہے۔ شام اس کے لیے پل صراط ہے اور اسے سنبھل کرکے چلنا ہے اور اس نے اپنی جنگ کرد ملیشیا تک محدود رکھی ہے۔ تاہم، اس نے لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دے کر نیکی اور شرافت اور وسیع القلبی اوردینی حمیت کا سب سے بڑا ثبوت فراہم کیا ہے۔

شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود عملی طور پر بم باری جاری ہے۔آزادانہ انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کا وقت کب آئے گا، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ امریکا کی فوجی مداخلت بھی روس کی جارحیت کو روک نہیں سکی ہے۔ترکی کی زیادہ پیش قدمی ایران کے لیے دعوت مبازرت بن جائے گی۔ بظاہرابھی اُفق پر اندھیرا ہے۔ سفینہ ساحلِ نجات تک کب پہنچے گا،کسی کونہیں معلوم۔ جب ہر ’ناخدا‘ سے اُمید کا سر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تب غیب سے خدا کی کارسازی کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ(ھود۱۱:۱۰۷) ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۝۰ۭ (الفتح۴۸:۴) ’’آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں‘‘۔

شعبان المعظّم قمری کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے رکھے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان فرماتے ہیں:

قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَھْرًا مِنَ الشُّھُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ  وَ رَمَضَانَ وَ ھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُرْفَعَ عَمَلِیْ وَاَنَـاصَائِمٌ (سنن النسائی، کتاب الصیام، حدیث: ۲۶۲۴) میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے کے اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ پس میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت  میں ہوں۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کے پورے مہینے میں اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے کسی ایک دن کو مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔

اُم المو منین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں:

مَا رَایْتُ النَّبِیَّ یَصُوْمُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ الَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ (ترمذی ، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسو ل اللہ ، باب ماجاء فی وصال شعبان برمضان، حدیث: ۷۰۰) میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللہِ  یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ: لَا یُفْطِرُ وَ یُفْطِرُ  حَتّٰی نَقُوْلَ:  لَا  یَصُوْمُ ،    فَمَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اَلَّا رَمَضَانَ وَ مَا رَأَ یْتُہُ اَکْثَرَ صِیَاماً مِنْہُ فِیْ شَعْبَان (بخاری ، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: ۱۸۸۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے آپؐ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے، اور آپ ؐ روزے چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ؐ کبھی روزہ نہ رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

ان احادیث سے ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ تاہم، پورے شعبان کے روزے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص تھے، جب کہ امت کو نصف شعبان کے بعد عمومی طور پر روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ وہ افراد اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایامِ بیض یا پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے ہوں یا گذشتہ رمضان کے قضا روزے رکھنا چاہتے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ )

شعبان اور شب برا ٔ ت

 نصف شعبان کی رات عمومی طور پر شب ِ برأ ت کے نا م سے منائی جاتی ہے جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ نیز اس کی فضیلت کے بارے میں کسی روایت میںبھی لیلۃ البرأت کا نام نہیں ملتا۔ برأ ت کے لفظی معنی اظہار بیزاری کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں فرمایا:

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ (التوبہ ۹:۱) اعلانِ برأت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے۔

اس آیت مبارکہ میں برأ ت کا لفظ مشرکین مکہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے۔ بالفرض اس لفظ کو اس رات کی وجۂ تسمیہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کس سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اور اس کا نصف شعبان کی رات سے کیا تعلق ہے ؟

  • نصف شعبان کی رات اور نزولِ قرآن : بعض لوگ نصف شعبان کی رات کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے سورۃ الدّخان کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳  فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ (الدخان ـ۴۴:۳-۴)ہم نے اِسے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیوں کہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد نصف شعبان کی رات ہی ہے یا اس سے مراد کوئی اوررات ہے؟ لیلۃ مبارکۃ کے بارے میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا اور مبارک رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ  (القدر۹۷:۱ ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا‘‘۔ اور یہ لیلۃ القدر رمضان کی رات تھی جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۵ ) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ، ص۴۰۸)

ابن کثیر ؒ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃالقدر ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات۔ کیوںکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا اور لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات کا نام ہے۔ نیز لیلۃا لقدر ہی وہ رات ہے جس میں تمام امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بھی لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبادہ بن صامت ؓنے بیان کیا کہ آپؐ اس لیے نکلے کہ ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں کے لڑنے سے بھول گیا اور شاید تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اس کو ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹ میں تلاش کرو‘‘۔ (بخاری)

اُم المو منین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ’’ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کرو‘‘۔ ( بخاری )

سورۃ الدّخان کی آیات کی تفسیر اور صحیح احادیث مبارکہ لیلۃ القدر کے رمضان میں ہونے کی وضاحت کے بعد یہ دعویٰ درست نہیں کہ لیلۃ القدر نصف شعبان کی رات ہے یا لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکۃ دو مختلف راتیں ہیں۔

  • نصف شعبان کی رات اور عبادات: نصف شعبان کی رات کے حوالے سے بعض عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے جو شرعاً ثابت نہیں ہیں۔ یہ عبادات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد کی ایجاد ہیں۔ صحابہ کرام ؓ امت کے بہترین لوگ تھے۔ اگر اس طرح کی عبادات پسندیدہ ہوتیں تو وہ ان کو اپنانے میں پہل کرتے۔

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’ نصف شعبان کی رات میں اہل شام کے تابعین میں سے   خالد بن معدان ، مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ بڑی محنت سے عبادت کرتے تھے۔ انھی تابعین سے لوگوں نے اس رات کی تعظیم اور فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جن میں بصرہ کے کچھ    عبادت گزار تھے، مگر علماے حجاز کی اکثریت نے اس کا انکار کیا۔ جن میں امام مالک ، عطاء ابن ابی ملیکہ اور دیگر فقہاے مدینہ شامل تھے۔ سب ہی نے اسے بدعت کہا‘‘۔

عبادات کے لیے مخصوص دنوں اور راتوں کا ذکر واضح طور پر قرآن اور احادیث میں ملتا ہے۔ مثلاً محرم الحرام میں یومِ عاشورہ ، عشرہ ذوالحجہ ، یومِ عرفہ، یوم النحر ، ایام تشریق ، ماہ رمضان ، لیلۃ القدر ، یوم جمعہ، ایام بیض، یعنی ہر قمری مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ وغیرہ مگر شب براء ت کی عبادت کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔

  • اَلصَّلاَ ۃُ الْاَلْفِیَۃُ : نصف شعبان کی رات کی جانے والی ایک عبادت اَلصَّلَاۃُ الْاَلْفِیَۃُ ہے۔یہ سورکعت نماز ہے اور ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح سورۃ الاخلاص کی کل تعداد ایک ہزار مرتبہ ہو جاتی ہے۔

برعظیم پاک وہند میں اس نماز کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ غروب آفتاب سے کچھ پہلے ہی مساجد میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ فرض نمازیں ادا نہ کرنے والے بھی یہ نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ اس رات کی برکت سے ان کے سابقہ تمام گناہ اور خطائیں معاف ہو جائیں گی اور ان کی عمر، کاروبار اور رزق میں برکت ہو جائے گی۔ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کوئی مخصوص نماز نہیں پڑھی اور نہ خلفاے راشدینؓ ہی نے اور نہ ائمہ دین امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام لیث ؒ میں سے کسی نے اسے قبول کیا ہے۔

اس بارے میں جو روایات منقول ہیں بالاتفاق تمام اہل علم اور محدثین کے نزدیک موضوع ہیں۔ اس کی ابتدا کے بارے میں علامہ مقدسی ؒ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہاں بیت المقدس میں نہ صلوٰۃ الرّغائب  (جو رجب کے مہینے میں پہلے جمعہ کو ادا کی جاتی ہے ) کا رواج تھا،      نہ صلوٰۃِ شعبان کا۔ صلوٰۃ شعبان کا رواج ہمارے ہاں سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ۴۴۸ھ میں ایک شخص ’ابن ابی الحمراء ‘ نابلس سے بیت المقدس آیا۔ وہ بہت اچھا قرآن پڑھتا تھا۔ وہ شعبان کی پندرھویں تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا۔ اس کی حسنِ قراء ت سے متاثر ہو کر ایک شخص اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا، پھر ایک اور پھر ایک اور، اس طرح کافی لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ دوسرے سال بھی پندرھویں شعبان کی شب آیا اور حسب سابق لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر سال بہ سال اسی طرح ہوتا رہا اور یہ بدعت زور پکڑ گئی، بلکہ گھر گھر پہنچ گئی اور اب تک جاری ہے‘‘۔

مُلّا علی قاری صَلَاۃُ الْاَلْفِیَہُ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کے روزے کی فضیلت میں مجھے کوئی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ملی۔ (تحفۃ الاحوذی، ج۳، ص ۵۰۵)

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اضافے اصل دین میں ہوتے رہتے ہیں اور فتہ رفتہ دین کا حصہ بن جاتے ہیں ، یوں دین اسلام کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

  • سلامی روزہ: استقبالِ رمضان کے طور پر ، سلامی روزہ شعبان کے آخر میں رکھا  جاتا ہے۔ یہ روزہ نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا اور نہ کسی اور کو رکھنے کا حکم دیا۔    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو اس کے بعد روزہ نہ رکھو‘‘۔ (ترمذی )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کوئی شخص روزہ نہ رکھے، البتہ وہ شخص جو اپنے معمول کے مطابق روزے رکھتا آ رہا ہے وہ رکھ سکتا ہے‘‘ (بخاری ) ۔یعنی کسی کا فرض روزہ رہتا ہو تو وہ رکھ لے یا وہ شخص جو پیر یا جمعرات کے مسنون روزے رکھتا ہے اور وہ دن رمضان سے پہلے آ رہے ہوں تو ایسا شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔

  • مخصوص اذکار و حلقے: نصف شعبان کی رات لوگ مسجدوں میں حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور ہرحلقے کا ایک ذمہ دار ہوتا ہے ۔ دیگر افراد ذکر اور تلاوت میں اس کی اقتداء کرتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ یا دوسرے اذکار کو خاص طرز اور ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔یہ خود ساختہ اعمال ہیں جن کی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔

نصف شعبان کی رات اور مختلف رسومات

  • قبرستان جانا: نصف شعبان کی رات کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع کے قبرستان تشریف لے گئے اور دلیل کے طورپر مندرجہ ذیل روایت پیش کی جاتی ہے:

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے پاس ہوتی تو آخرِ رات میں بقیع (قبرستان ) کی طرف نکلتے اور کہتے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُوْمِنِیْنَ وَاَتَـاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ غَدًا مُؤَ جَّلُوْنَ وَاِنَّـا اِنْ  شَا ءَ   اللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ  لِاَھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ  ( مسلم ، کتاب الجنائز، باب ما یُقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا ، حدیث ۱۶۷۱) سلام ہو  تم پر اے گھر والو مومنو! جس کل کا تم سے وعدہ تھا کہ تمھارے پاس آنے والا ہے،  وہ تمھارے پاس آ چکا اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ !  بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نصف شعبان کی رات کو خاص طور پر قبرستان جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ آپؐ اپنے معمول کے مطابق قبرستان گئے تھے۔

  • قبر پر لکڑی گاڑنا: قبر پر لکڑی گاڑ کر مُردے کے حسب حال کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس سے باتیں کی جاتیں ہیں، دعائیں اور گریہ وزاری کی جاتی ہے ۔ ان اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • روحوں کی واپسی: بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خاندان کی میّتوں کی روحیں  اس رات اپنے گھر آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ان کے لیے کیا پکایا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مٹھائیاں، حلوے اور دیگر اشیا بنانے کا اہتمام کرتے ہیں اور انھیں گھروں میں مخصوص مقامات پر رکھا جاتا ہے تا کہ میّت کی روح وہاں آ کر خوش ہو۔ اس طرح گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ یہ من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ کیونکہ قرآن اور سنت کے مطابق نیک روحیں عِلّیین میں اوربری روحیں سِجّین میں ہوتی ہیں۔ان روحوں کا یہ حصار توڑ کر دنیامیں آ جانا گویا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے:

وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ (المومنون۲۳: ۱۰۰ ) اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے، دوسری زندگی کے دن تک۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک شبِ برأ ت کے موقعے پر ختم کی رسم ادا نہ کی جائے تو میت کا شمار مردہ میں نہیں ہوتا اور اس کی روح معلق رہتی ہے۔ یہ بھی ایک غلط عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں نہیں ملتا۔

  • مُردوں کی عید: بعض لوگ نصف شعبان کو مُردوں کی عید کہتے ہیں۔ ان کے مطابق عید الفطر زندوں کی عید، جب کہ شبِ براء ت مُردوں کی عید ہے۔ اگر کوئی مر جائے تو شبِ برأ ت کی فاتحہ دلائے بغیر کوئی خوشی کا دن نہیں منایا جا سکتا ۔ یہ بھی ایک من گھڑت بات ہے۔
  • حلوہ پکانا: نصف شعبان کے دن حلوہ پکا کر تقسیم کرنا بھی ایک ضروری امر بن چکا ہے اور اس فعل میں عوام کی اتنی بڑی تعداد شامل ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جنگ ِ اُحد میں شہید ہوئے تو ان کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا۔ حالا ں کہ جنگ ِ اُحد شوال میں ہوئی اور حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع میں دانت شہید کیے اور انھوں نے حلوہ کھایا۔ اس روایت میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس طرح کی بے بنیادباتوں کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔

  • چراغاں و آتش بازی: گھروں ، چھتوں، مسجدوں، درختوں اور قبرستانوں وغیرہ پر چراغاں کرنا، قندیلیں روشن کرنا، پٹاخے چھوڑنا، آتش بازی کرنا اور پوری رات اس کھیل تماشے کے ساتھ جاگ کر گزارنا، نصف شعبان کی رات میں ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ ہندوئوں کی دیوالی ، مجوسیوں کی آتش پرستی کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلم اقوام کی مشابہت سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ  مِنْھُمْ (سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس، باب فی بس الشّھرۃ، حدیث ۳۵۳۰) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھی میں سے ہے۔

ضعیف روایات

نصف شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ نہایت ضعیف ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طور درست نہیں، مثلاً :

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ماہِ رمضان کے بعد کس ماہ میں روزہ رکھنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ماہِ رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ ۔ پھر دریافت کیا کہ کس ماہ میں صدقہ وخیرات کرنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ماہِ رمضان میں صدقہ کرنا۔

امام ابن الجوزی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا کیوںکہ اس کا ایک راوی صدقہ بن موسیٰ درست نہیں۔ ابن حبان نے کہا کہ صدقہ جب روایت کرتا ہے تو حدیثوں کو الٹ دیتا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے کہا کہ محدثین کے نزدیک صدقہ ، قوی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ روایت ابو ہریرہؓ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں بیان ہے کہ ماہِ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا ہے۔

  • اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ    علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا۔ میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ ؐ بقیع میں ہیں۔ مجھے دیکھ کر    نبی اکرم ؐنے فرمایا: کیا تو اس بات کا خوف کھاتی ہے کہ تجھ پر اللہ اور اس کا رسولؐ ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے سمجھا کہ آپ ؐ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان کی نصف شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔

امام ترمذی ؒ نے کہا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کو ہم حجاج کی سند سے جانتے ہیں اور میں نے امام بخاری ؒ سے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام دارقطنی ؒ نے کہا: یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے اور اس کی سند مضطرب ہے اور غیر ثابت ہے۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

موضوع روایات

بہت سی روایات تو ’موضوع‘، یعنی من گھڑت ہیں جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی گناہ ہے۔

  • رجب اللہ کا مہینہ ہے، اور شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔

حافظ ابوالفضل بن ناصرؒ نے اس کے ایک راوی ابو بکر نقاش کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دجال اور حدیث گھڑنے والا ہے۔ ابن وحیہؒ ، علامہ ابن الجوزیؒ ، علامہ صغانیؒ اور علامہ سیوطیؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

  • اے علیؓ ! جو شخص نصف شعبان کو سو رکعت نماز پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھے۔ اے علیؓ ! کوئی بندہ نہیں ہے جو ان نمازوں کو پڑھے مگر اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت اور ضرورت کو جو وہ اس رات مانگے پوری کر دیتا ہے۔

علامہ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے موضوع ہونے میں مجھے کوئی شک وتردد نہیں ہے اور اس حدیث کے تینوں طُرقُ (طریقوں) میں مجہول اور انتہائی درجے کے ضعیف راوی ہیں۔ علامہ ابن القیم ؒ، علامہ سیوطیؒ اور علامہ شوکانی ؒنے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔

جو شخص نصف شعبان کو بارہ رکعت نماز پڑھے جس میں ہر رکعت میں( قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ )  تیس بار پڑھے تو وہ نماز مکمل کرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے گا۔

علامہ ابن القیمؒ، علامہ سیوطی ؒاور علامہ ابن الجوزی ؒنے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں ایک پوری جماعت مجہول لوگوں کی ہے۔

  • حضرت علیؓ بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہو تو تم اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے بعد آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی ہے مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں! کوئی ہے روزی کا خواستگار کہ میں اسے روزی دوں! کوئی ہے مصائب کا گرفتار کہ میں اسے عافیت دوں اور کوئی ہے ___اور کوئی ہے ___یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔

علامہ بوصیریؒ کے مطابق اس کے راویوں میں ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ ہے، جس کے بارے میں امام احمد ؒ، ابن معینؒ اور حافظ ابن حجرؒ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔

خلاصۂ بحث : ان روایات کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جشنِ شبِ برأ ت اور اس میں کی جانے والی عبادات کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام عبادات کا اصل مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہے۔ ہمیں بالکل اختیار نہیں کہ ہم خود سے دین میں ، کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا طریقے سے متعین کر لیں، جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں نہیں دیا۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم اللہ کے دین کو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو نامکمل سمجھنے کی عظیم غلطی کر رہے ہیں اور ایک بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک )۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۱ (الشعراء ۴۲: ۲۱) پھر میں تمھارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ جس وقت، طریقے ، تعداد اور انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی، یاکرنے کا حکم دیا ہے، ہم ان کو اسی طرح ادا کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱(الحجرات ۴۹: ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کُلُ مُحْدَثَۃٍ  بِدْعَۃٌ  وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ (النسائی ، کتاب صلوٰۃ العیدین، کیف الخطبۃ، حدیث ۱۷۶۷) ہر نیا کام (دین میں داخل کرنا) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے والی ہے۔

عبادات میں آپ ؐ کے طریقے کی من وعن پیروی میں ہی ہماری دین ودنیا کی کامیابی اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج     وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج    وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ   اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ (الحشر۵۹: ۷)جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

ایسی بہت سی غیر تحقیق شدہ باتیں ہمارے دین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اکثر جہالت ، لا علمی یا نادانی کے سبب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جانتے بوجھتے غلو کرتے ہوئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ان سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار (بخاری ، کتاب العلم، باب اِثم من کذب علی النبی، حدیث:۱۰۶)  جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصل دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

گذشتہ ماہ [۵ ]رمضان [۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء ] کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت میں بس رہے تھے ، ہم علا مہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبۂ انگریزی [اسلامیہ کالج لاہور] کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدرِ شعبہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔

ساڑھے چار بج چکے تھے۔ سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ہم ایمپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے، جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رُخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہا آیا، جہاں یہ سڑک میوروڈسے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر  رُک گئے۔ اس ڈیوڑھی کی تین محرابیں جن میں اندلسی اور گاتھک انداز تعمیر کی جھلک ملی ہوئی ہے، اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پاے طبیعت کو رعب ووقار کے بجاے حسن ولطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارا پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میںسے نکلا۔ اس نے جاکر  علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کو کہا۔

برآمدے سے گزرتے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان بہت سادہ اور تکلف وتصنع سے پاک تھا۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خواب گاہ ہے۔ اس خواب گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا کہ ہم جب آتے تھے، علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے، مگر اکثر لیٹے ہوئے پاتے تھے۔

آج ڈرائنگ روم میں داخل [ہوئے]… ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوںنے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کاجواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کون صاحب ہیں ؟‘‘

یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت وعنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیل گرما کے بعد اگرچہ چند مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا، پھر بھی ڈاکٹرصاحب کا سوال میری سمجھ میں نہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا: ’’جی میں ہوں،حمید احمد خاں___سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹرصاحب نے معمول کے مطابق اپنی اس لمبی استادانہ ’ہوں!‘  سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لا تعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میںنے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب ! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیںـ؟‘‘

’’پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں‘‘۔

’’نظر نہیں آتا !‘‘ یہ الفاظ میںنے حیرت اور اضطراب کے عالم میں دہرائے۔

  • ڈاکٹر [محمد اقبال] صاحب:’’ہاں، جب آپ لوگ کمرے میں داخل ہوئے ہیںتو میں آپ کو دیکھ نہیں سکا۔ اب تھوڑی دیر گزرنے پر آپ کی صورتیں کچھ دھندلی سی نظر آ رہی ہیں___ کہتے ہیں کہ senile cataract (موتیا بند ) اتر آیا ہے‘‘۔

ڈاکٹر سعید اللہ : ’’ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ senile cataract اُتر آنے کا خطرہ ہے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب: ’’جی ہاں،عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے، مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو، جن کی عمر سو سال سے کچھ اوپر ہوئی ، ۸۰ برس کی عمر میں اترا تھا‘‘۔

میں: ــ’’اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’اب اس کا آپریشن ہو گا، لیکن جب تک یہ پک نہ جائے آپریشن نہیں ہوسکتا ۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں، پانچ سال لگ جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھنا بالکل موقوف ہے۔ کیوں کہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بے کار تھی‘‘۔

’’شروع سے بے کار تھی!‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسّف اور دلی کرب بھی شامل تھا۔

  • ڈاکٹر صاحب: ’’ جی ہاں، دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جو نکیں لگوائی تھیں، تا ہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے  دیکھ لیا کرتا تھا۔ اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجاے سوچتا ہوں، جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں۔ (پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ ‘ تکیے سے سر اٹھا کر ) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے، میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے‘‘۔

سوا پانچ بجے علی بخش نے آ کر [غلام رسول ] مہر صاحب اور [عبدالمجید] سالک صاحب کے آنے کی اطلاع کی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے آس پاس دوکرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنؤ میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور [آل انڈیا] مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران [اخبار]  انقلاب کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مہر صاحب سے پوچھا کہ اب [پنجاب کے وزیراعظم]سر سکندر حیات خاں [م: ۱۹۴۲ء]کے کیا ارادے ہیں؟ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب اپنی پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا گویا انھیں شبہہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحب historian [مؤرخ] ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا : ’’تاریخ انگلستان میں کبھی ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسے Keeper of the king's Conscience  [بادشاہ کا ضمیر بردار] کہتے تھے۔ مہر صاحب  Keeper of the king's Conscience  [وزیر اعظم کے ضمیر بردار] ہیں‘‘۔

اسی اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہاکہ افطار کے لیے سنگترے ، کھجوریں،کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں ، جو کچھ ہوسکے، لے آئے۔ [نماز کے بعد] قادیان کی سیاسیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دنوں امیر جماعت قادیان نے اعلان کیا تھا کہ: ’کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سے جس جماعت نے ہمارے حقوق تسلیم کیے، ہم اسی کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔

  • ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ: ’اگر قادیانی کانگریس [انڈین نیشنل] کے ساتھ شامل ہوگئے تو اس مسئلے کے متعلق [اخبار] انقلاب کی روش کیا ہو گی ؟‘

 مہر صاحب نے ، جو گفتگو کے بیش تر حصے میں خاموش رہے تھے، اس موقعے پر بھی  سکوت اختیار کیا، لیکن [عبدالمجید]سالک صاحب نے ذرا تفصیل سے اس بات کی شرح کی کہ ایسی صورت حال میں انقلاب کا مسلک کیا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اسی سلسلے میں ایک پر لطف فقرہ کہہ گئے، جو یہ تھا: ’’ہاں،مرزا بشیر الدین محمود کو تو کانگریس اور لیگ سے (سربہ مہر ) ٹنڈر مطلوب ہیں!‘‘

ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے [میرزا اسداللہ خاں ]  غالب [م: ۱۸۶۹ء]اور [میرزا عبدالقادر] بیدل [م: ۱۷۲۱ء]کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی راے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں ۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف dynamic [حرکی ] ہے اور غالب کا static [سکونی ] ۔ ‘‘

  • ڈاکٹر صاحب:  Inclined to be static (مائل بہ سکون )‘‘۔

میں : ’’ جی ہاں ۔ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب:’’بیدل کے کلام میں خصوصیت سے حرکت پر زور ہے، یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب خرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینا ن وسکون سے الفت ہے۔ بیدل نے ایک شعر کہا ہے جس میں ’خرام می کاشت‘{ FR 644 } کی ترکیب استعمال کی ہے، گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیںلیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعار ہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انار کلی [لاہور] میں رہتا تھا ، میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیاہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ [م: ۱۶۲۴ء]سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (ڈاکٹر صاحب نے dynamic and optimistic فرمایا) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (یہاں ڈاکٹر صاحب نے pessimistic and static  کے الفاظ استعمال کیے)۔ اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقۂ ارادت زیادہ تر ہندستان تک محدود ہے مگر ہندستان سے باہر ، افغانستان ، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے۔ سیاسیات، فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی [م: ۱۶۹۷ء]کو دیکھیے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموں میں وہ زیادہ ہردل عزیز ہے۔ ہندستان میں ناصر علی سرہندی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں‘‘۔

میں: ’’اس کے کلام کے حرکی{ FR 645 }  عنصر کی وجہ سے ؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) ’’میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے۔ ‘‘

سعید اللہ : ’’ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوںـ؟‘‘

اس موقعے پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ{ FR 647 } کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ہاں، جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے‘‘ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت وبرخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرتاً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا: ’’ آج کل ہندستان کے نیشنل اینتھم [قومی ترانے]کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے۔ آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا راے ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: نیشنل اینتھم تو اس صورت میں کہیں کہ کوئی ’نیشن‘ہو۔ جب سرے سے ’نیشن ‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے، تو نیشنل اینتھم ، کہا ں ہو سکتا ہے؟ میری تو یہ راے ہے کہ ہندستان کو کسی نیشنل اینتھم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

سعید اللہ : ’’بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تویہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے ) ’’ آپ ہندوئوں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں! ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے ، کہیں گرمی نہیں ملے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوئوں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھی  بعض بعض حصوں میں‘‘۔

عبدالواحد : ’’مگر ہندستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے‘‘۔

  • ڈاکٹر صاحب:’’میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے‘‘۔ 

عبدالواحد : ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد وحال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے۔ وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو یک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’ان لوگوں نے وجد وحال کو ایک cult (رواج ) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے جوش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انھیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی effeminacy (نسائیت/زنانہ پن ) کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ۔ effeminacy سے مراد ہے surplus emotion (اضافی جذبات ) ۔ ایران اور ہندستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے، اور حال انھی جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیہ کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے۔

’’یہاں لاہور میں ہمارے (دوست ) حاجی رحیم بخش{ FR 646 } کے مکان پر ایک زمانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا، حاجی صاحب ان کے مریدتھے ۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی۔ مہرصوبہ اور ان کے مرید جمع تھے۔ حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔ میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہرصاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا: سنا ہے آپ حال کو نہیں مانتے ؟ میں نے کہا: مجھے حال کی کیفیت سے تو انکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا؟ ‘ وہ بولا: آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب وحال کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے، مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے، آپ اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: بے شک اس پر حال کی کیفیت طاری ہے، مگر اس ’حال‘ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ’حال‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا: ’وہ کیا؟‘ میں نے کہا: ’یہ بات اپنے پیرصاحب سے جاکر پوچھ لو، وہ بتائیں گے۔ اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں، آپ ہی کہہ دیجیے۔ میں نے اس سے کہا کہ   صحابہؓ کے حال میں اور تمھارے حال میں یہ فرق ہے کہ ا نھیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں !‘‘ (اس لطیفے پر ہم لوگ دل کھول کر ہنسے)۔

  • ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے ، وہیں کی موسیقی انھوںنے قبول کرلی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی ، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون باد شاہوں کے بت بھی تھے جن میں power (قوت وہیبت ) کی ایک ایسی شان تھی، جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت وجلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔
  1. ’’اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اسی خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قوا شل ہوتے گئے ، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ ’قصر زہرا‘ دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے ، مسجد قرطبہ مہذب دیوئوں کا، مگر ’الحمرا‘ محض مہذب انسانوں کا !‘‘
  2. پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلۂ کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی، دیوار پر ھوالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا : ’’ یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو! ‘‘
  3. اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندستان کی اسلامی عمارت کا ذکر ہوتا رہا ۔ تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی ۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میںبھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے، جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے‘‘۔

سعید اللہ : ’’دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

  • ڈاکٹر صاحب: ’’وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘

ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔

اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا، جنھیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول  ہم سے کہا : ’’اچھا، چلتے ہیں آپ ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ (اسلامیہ کالج لاہور کے ’حلقۂ نقدونظر‘ کے اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۷ء کو پڑھا گیا اور محمود نظامی کے مرتبہ مجموعے: ملفوظات، ناشر: لالہ نرائن دت سہگل، لاہور، س   ن میں شامل ہوا۔طبع دوم بہ عنوان: ملفوظاتِ اقبال، [۱۹۴۹ء] میں کتاب کا نام بدل دیا۔ ازاں بعد اقبال کی شخصیت اور شاعری، از حمیداحمد خاں، بزمِ اقبال، لاہور، طبع دوم، ۱۹۸۳ء)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیا ل کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

اللہ، ربِ مہربان ہمیں خود کو اوراپنے اہل خانہ کو دوزخ کی شدید آگ سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں۔ وہ آگ جس پر مقرر فرشتوں کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی نرمی نہ ہوگی۔ کسی کی فریاد اور آہ وبکا ان پر کوئی اثر نہ کرے گی۔ وہ دوزخ جس کی آگ دنیا کی آگ سے ستّر گنا زیادہ شدید ہو گی۔

جہاں شدید تپش اور جلن ہو گی لیکن پینے کو ٹھنڈا پانی نہ ہو گا، بلکہ جلتے ہوئے زخموں سے نکلنے والی پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا، اللہ کی پناہ!

جہاں کھانے کو ایسا زہریلا اور کانٹے دار درخت ’تھوہر‘ ہو گا کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’اگر دوزخ کے’ تھوہر‘ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپک پڑے تو یہا ں رہنے والوں کا جینا دو بھر ہو جائے ۔پھر ان پر کیا بیتے گی جن کی غذا ہی ’تھوہر‘ ہو گی‘‘۔ (ترمذی )

کیا ہمیں معلوم ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے اعمال کون کون سے ہیں؟

کیا ہم نے ان سے خود اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے ؟

ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کو ایک کانٹے کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بچہ بیمار ہو تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ بھی پھیلا دیتی ہے، اور سب ملنے والوں سے کہتی پھرتی ہے کہ میرے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس کی سکول کی تعلیم کے لیے سخت پریشان ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی پر بچے کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس کی صحت ، کاروبار اور دیگر مادی ضروریات کے لیے وظیفے کرتی ہے اور کراتی ہے۔ الغرض اپنے بچے کی دنیوی ضروریات کے لیے ایک ماں نہ اپنا آرام دیکھتی ہے، نہ دن اور رات کا چین۔

لیکن کتنی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ فکر ہو کہ بچے جنت کے باغوں کے پھول بن رہے ہیں یا دوزخ کا ایندھن بننے جارہے ہیں؟

اور کتنی تحریکی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ تڑپ ہو کہ ان کے بچے ان کے نصب العین کے وارث بنیں اور اقامت دین کی تحریک کے باعمل ومتحرک داعی بنیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’ہم راعی ہیں اور ہم سے ہماری رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔

اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دنیا میں بھی ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کے امتحانی سوالات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک غیر تحریکی اور کم شعور رکھنے والی ماں کا حساب کچھ اور طرح کا ہوگا، اور زندگی کا مقصد سمجھ کر اس کو عملاً اپنانے والی ماں کا بحیثیت راعی ذمہ داریوں کا حساب فرق ہوگا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سے آسان حساب لے اور نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین !

ایک خصوصی قلیل المیعاد منصوبہ بنائیں اور بہت ساری خصوصی دعائیں کریں تا کہ ہم    روزِ قیامت کے اس منظر کو دیکھنے سے بچ سکیں کہ خدا نخواستہ ہمارے اہل وعیال میں سے کسی کو فرشتے طوق اور زنجیریں پہنا کر دوزخ کی طرف کھینچ رہے ہوں، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا۔

اس وقت ہماری زندگیاں تین طرح کی معاشرت کا ملغوبہ ہیں:

  • کچھ اسلامی شعائر پر مبنی طرزِ زندگی
  • جاہلیتِ قدیمہ اور خاندانی رسومات
  • جدید تعلیم اور مغربی معاشرت تیزی سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ خصوصاً معاشرتی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ دین داری ’انتہا پسندی‘ ٹھیری ہے۔ شرافت، حیا، عزت کے سکّے کھوٹے ہورہے ہیں۔ سادگی ، کفایت شعاری کی جگہ مادیت پرستی اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

اصل اور خالص اسلام خال خال نظر آتا ہے۔ دین کا فہم اور زندگی کا شعورو مقصد رکھنے والی ایک ماں کو نہ صرف ماحول کے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانا ہے، بلکہ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ  وہ اصلاحِ معاشرہ اور فروغ دین کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے، تا کہ اللہ کی زمین شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو سکے اور اللہ کے بندے اللہ کی جانب رجوع کر کے دوزخ سے بچ سکیں۔

اور ایسی مائیں بگاڑ کے اس دور میں یقینا انقلاب برپا کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ ۔ شرط یہ ہے کہ دل میں تڑپ پیدا ہو جائے اور اتنی حرارت پیدا ہو جو انھیں متحرک کر دے۔

کرنا کیا چاہیے ؟___اس کے لیے لائحہ عمل پیش ہے!

l والدین کا کردار :رب کائنات کے فرمان کے مطابق پہلا حکم ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ(التحریم ۶۶:۶)اے ایمان والو ! اپنے آپ کو بچائو۔

سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے نا سمجھی کی عمر میں بھی   جاے نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے  گھٹی میں گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:

  • ہمارا ایمان کس درجے کا ہے ؟
  • فکر آخرت کتنی ہے ؟
  • اپنے انجام سے کتنے  خوف زدہ رہتے ہیں؟
  • حب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے ؟
  • عبادات کی کیفیت کیا ہے ؟
  • نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں ؟
  • قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے ؟
  • دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے ؟
  • بچوں اور اہل خاندان سے معاملات کیسے ہیں ؟
  • میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں ؟

یقینا جھوٹ بولنے والی ، غیبتیں کرنے والی ماں کی اولاد کا حسن خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ!)

ماں کا لبا س حیا دار ہو گا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہو گا تو اولاد بھی ویسی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ !

اسی طرح تمام معاملات میں احساس ذمہ داری ماں کے اندر کتنا ہے ؟___وہ کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے والی ہے یا ذمہ داریوں میں ڈنڈی مارنے والی ہے ؟___ الغرض ماں اور باپ وہ سانچے ہیں جن کے مطابق اولاد ڈھلتی ہے اور اس کا بہترین پیمانہ خود رب کائنات نے تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ خاندان کی تشکیل سے لے کر موت تک تقویٰ کا حکم دیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء۴:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۔

یہ تقویٰ ایک پیمانہ ہے۔ برعظیم کے ایک معروف عالمِ دین سے کسی نے اولاد کی نافرمانی کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا :اپنی زندگی کو دیکھو !تم اللہ کے کتنے فرماں بردار ہو ؟ گویا اولاد کی صالحیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اللہ کے اطاعت گزار اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ ان شاءاللہ رحیم وکریم اللہ اولاد کو ضائع نہیں کرے گا (اِلا یہ کہ کوئی آزمایش مطلوب ہو) ۔

l گھر کا ماحول: والدین کے کردار کے بعد بچوں پر اثر انداز ہونے والی دوسری چیز گھر کا ماحول ہے۔ جہاں ماحول غیر اسلامی ہو ، گھر میں رات دن فحش فلمیں اور ٹی وی ڈرامے چلتے ہوں، جہاں لڑائی جھگڑا رہتا ہو، مخلوط معاشرت ہو، اسراف وتبذیر ہو، طرزِ زندگی اسلام کے بجاے مادیت پرستی کا علَم بردار ہو، گھر کی پاکیزہ معاشرت کے بجاے مصنوعی سجاوٹ وبناوٹ پر زیادہ زور ہو، وہاں بچوں کا صالح بن کر اُٹھنا دشوار ہے۔ لہٰذا، والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کے دنیا میں آنے سے قبل اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں۔

عمومی زندگی سے لے کر خصوصی تقریبات تک سب پر اللہ کا رنگ غالب ہو تو بچوں پر بھی یہ ہی رنگ چڑھے گا۔ ان شاء اللہ !

صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ز(البقرہ ۲:۱۳۸) اللہ کا رنگ، اور   اللہ کے رنگ سے اچھا اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔

کاش! ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ یہی بہترین رنگ ہے، بہترین ماحول ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی اسی میں عافیت ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہمارا سونا جاگنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا،    اُوڑھنا بچھونا، سجاوٹ بناوٹ ، سب کچھ درست ہو جائے۔ تقریبات میں ہندووانہ تہذیب کی بجاے اللہ کا رنگ غالب آ جائے، اور لباس ، وضع قطع یہودو نصاریٰ جیسی بنانے کے بجاے جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا خاتونِ جنت جیسی بنا کر ہمیں سکون واطمینان حاصل ہو، تو بھلا خاندان پر اسلامی سوچ کیوں نہ غالب ہو گی!

یقینا ، جس گھر میں توحید کا بول بالا ہوتا ہے ، وہ شرک اور بدعات سے بچ جاتا ہے۔ اس گھر کے بچوں پر مفاد پرست اور علماے سوء کی تعلیمات اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ان شاء اللہ !

جو مائیں جنوں اور چڑیلوں کی کہانیاں سنانے کے بجاے اپنے بچوں کو قصص الانبیا ؑسناتی ہیں، ان کا آئیڈیل انبیا علیہم السلام ہی بنتے ہیں۔

جو مائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رول ماڈل بناتی ہیں، وہ ان کی زندگی کے خدوخال سے اپنے بچوں کو گفتگو میں، کھانے پر، اُٹھتے بیٹھتے آگاہ کرتی رہتی ہیں، تو بچے اس ماحول میں خود کو پروان چڑھاتے ہیں۔

تاہم، اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور میں بچوں کی رہنمائی ضروری ہے:

بنیادی تعلیمات راسخ کرنا

l توحید:بچوں میں توحید راسخ کرنے کی شعوری اور انتہائی کوشش کرنا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ ’شرک‘ وہ گناہ ہے جو معا ف نہ ہو گا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج (النساء ۴:۴۸)اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔

 شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے:

اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (المائدہ۵ :۷۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔

موجودہ دور کے خطرات اور شرور میں ’دین کے نام پر بے دینی کے سود اگروں ‘ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً میڈیا کی وجہ سے بے حیائی کے ساتھ ساتھ بدعات اور شرک کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا بہت چھوٹی عمر میں کلمہ طیبہ کا مفہوم بچوں کے ذہن میں پختہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے انھی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے ، یعنی قرآن اور سنت رسولؐ۔

لہٰذا ،اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ان بنیادوں سے وابستگی کتنی ہے ؟ ان کی تعلیم وتدریس کا کیا بندوبست ہے ؟ بچے قرآن وحدیث کو کتنا سمجھتے ہیں ؟ کتنے بچے قرآن پاک کا ترجمہ سمجھتے ہیں؟ اور تفسیر کی شد بد ھ رکھتے ہیں ؟ اور اس کے لیے کتنی محنت کی جاتی ہے ؟ اس کا ایجنڈا بنانا اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے نصاب طے کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے ۔

  • نبی کریم ؐکی محبت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بچوں کے اندر پیدا کرنا___ اتنی محبت، اتنی محبت، کہ جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے ورنہ تو ایمان ہی مکمل نہیں۔ چھوٹے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین انداز میں کہانی کی صورت میں قسط وار سنائی جائے، اور بڑے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرایا جائے۔
  • فکرِ آخرت:آخرت پر مضبوط ایمان اور فکر آخرت ہی شرور سے بھری اس دنیا میں گناہوں اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ بچوں کے اندر جنت کا شوق ، دوزخ کا ڈر مؤثر طریقے سے پیدا کیا جائے۔ اس طرح کہ بچے جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی تیاری میں لگ جائیں۔

میڈیا کے بگاڑ کے اس دور میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ والدین پاس موجود ہوں یا نہ ہوں، بچے کو یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو یہ فکر بہترین محاسب ہے۔ ان شاء اللہ !

  • صحابہ کرامؓ بطور مثال: بدلتی ہوئی قدروں اور اس زوال پذیر معاشرت میں، جب بھانڈ، گویے اور کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل بنا دیے گئے ہیں، ان کی سوچ اور تخیل کو درست رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین کردار بطور مثال ان کے سامنے پیش کرنے ضروری ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیات ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست تربیت کردہ مثالی انسان تھے۔ عشقِ رسولؐ سے بچوں کو سرشار کرنے کے بعد، اس عشق کے تقاضے پورے کرنے والوں کی عملی تصاویر اور نمونے، آج کے ہیروز کے ساتھ تقابل کر کے اصل روح کے ساتھ بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بچپن میں کہانیوں کی صورت میں اور بعد میں لٹریچر اور سٹڈی سرکلز کی صورت میں تاکہ وہ اپنے تصور میں طے کرلیں کہ ’بڑا ہو کر کیا بنوں گا۔‘اور پھر ان کو ویسا بننے میں پوری مدد ومعاونت فراہم کی جائے۔
  • عبادات:خصوصاً نماز کی عادت پختہ کرنا۔ ابتدائی عمر سے تقریباً سولہ سال کی عمر تک بچوں کی نماز کے معاملے میں نگرانی اور یاددہانی کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد الحمد اللہ بچے پختہ عادات اپنا لیتے ہیں۔ اس دوران محض ’نماز پڑھو‘ کی گردان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ’نماز مومن کی معراج‘ بناکر بچوں کے قلب وروح کے اندر اتاری جائے اور ہر دکھ درد، مشکل کا علاج بذریعہ نماز سکھایا جائے۔ نیز اس کا دین کا ستون ہونا دلائل سے ثابت کیا جائے۔ پھر نماز نہ پڑھنے پر حکمِ رسولؐ کے مطابق کچھ نہ کچھ سختی ضروری ہے، تا کہ انھیں احساس ہو کہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
  • شیطانی حربے:شیطان ، اس کے چکر ، اس کا وسواس الخناس ہونا، اس کے حربے قرآن وسنت کی روشنی میں بچوں کو بتائے جائیں۔ قدم قدم پر اسے باور کرایا جائے کہ وہ سوچے  کہ کس کے راستے پر چل رہا ہے ، اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر یا شیطان کے ؟ حلال وحرام کی حدود، معروف ومنکر کے بدلتے تصورات (مثلاً موسیقی، تصاویر وغیرہ کا معاملہ )، اخلاق وکردار ، میڈیا میں درست یا غلط، تمام امور میں واضح رہنمائی دینا ضروری ہے۔
  • مادیت پرستی سے بچانا:شیطان کا بہت بڑا وار مادیت کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ؐ نے خبر دار کیا تھا :’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہوجائو گے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی ۔ پھر تم اسے چاہنے لگو گے جیسے انھوں نے اسے چاہا۔ پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے جیسے انھوں نے کیا۔ پھر یہ د نیا کی فراوانی اور اس کی طرف بے انتہا رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی جیسے اس نے تم سے پہلوں کو کیا۔‘‘ (متفق علیہ)

اسی کو’ وہن‘ بھی کہا گیا اور یہ مال ودولت کی دوڑہی ہے جس نے دنیا کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ فساد ، قتل وغارت گری عام ہو گئی ہے، اور ساہو کاروں او ر سرمایہ داروں کی گندی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال بٹورنے کی خاطر دنیا کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔

لہٰذا صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا سادہ اور غریبانہ طرزِ زندگی واضح کرنا، غنٰی کے معنی بتانا اور برکات کے حصول کے طریقے سکھانا، قناعت اختیار کرنے پر رغبت دلانا، یہ سب مائوں کے کام ہیں ( بشرطیکہ مائیں خود سادگی اور قناعت کے راستے پر چل رہی ہوں۔ )

  • اخلاق و معاملات: بچوں کے اخلاق پر چھوٹی عمر ہی سے نظر رکھنا ضروری ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ ؓ سناتے ہوئے ان کے بہترین اور آئیڈیل اخلاق کو واضح کرنا اور بچوں کے لیے اس کے حصول کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ اس وقت جب ہمارا معاشرہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے بہت حد تک عاری ہے، بچوں کا بہترین اخلاق پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب والدین اس کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ طہارت ، صفائی،  بہترین شہری کی صفات پیدا کرنا، قانون کی پاس داری کا جذبہ بیدار کرنا، ملک وملت سے محبت اور امت کے ’جسدواحد ‘ ہونے کا تصور پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

حیا، ایمان اور اخلاق کا اہم ترین جز ہے۔ ’حیا ‘ پر ہی شیطان نے کاری وار کرکے   ہماری قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دینے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ بچوں کے اندر حیا پیدا کرنا ضروری ہے ۔ نماز کی عمر کو پہنچیں تو مکمل لباس کی عادت بن جانی چاہیے۔ لڑکے پانچ سال کی عمر کے بعد نیکر اور لڑکیاں چھوٹی آستین اور جانگیہ نہ پہنیں۔ بچیوں کو نماز کی عمر سے دوپٹے اور اسکارف کی عادت ڈالی جائے۔ مائیں بھی اپنے طرزِ عمل پر ضرور نظر ڈالیں کہ گھروں میں مکمل لباس میں ملبوس ہوتی ہیں یا دروازے پر گھنٹی بجے تو دوپٹہ ڈھونڈنے دوڑتی ہیں۔

 ’لباس التقویٰ ‘ کی تشریح مائوں کو بھی آتی ہو اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ اس حدیث کو یاد رکھیں کہ ’عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو ہزاروں میل سے آتی ہو گی‘‘۔ پتلا، چست اور نامکمل لباس، سبھی یہاں مراد ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ’لباس کے احکام ‘ گھر کے اندر کے لیے ہوتے ہیں، باہر کے لیے حجاب کے احکا م ہیں۔ قرون اولیٰ میں یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی عورت بغیر حجاب کے محض لباس پہن کر باہر جائے گی۔ شیطان کی اس چال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ عورتیں گھروں میں ایسا لباس پہن سکتی ہیں جو ساتر نہ ہو۔ یاد رکھیں غیر ساتر لباس میں نماز قبول نہیں ہوتی ۔ اس لیے پتلے کپـڑوں میں پڑھی گئی نماز یں ضائع ہو جائیں گی۔ لہٰذا، اپنے بچوں کو دوزخ سے بچانے اور جنت میں داخل کرا نے کے لیے بے حیائی وبے حجابی سے بچانا اشد ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لباس کا حیا دار ہونا بھی ضرور ی ہے۔

  • تعلیم و تربیت:تعلیم کا قبلہ درست رکھنا، ’اصل علم ‘ کا مفہوم سمجھنا اور اس کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر ضروری ہے۔ یاد رکھیں ! تعلیم کے نام پر اس وقت ’تجارت ‘ ہے اور ’سوداگری‘۔ یہ سودا گر ایمان کے بدلے مال کما رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے نسلیں تباہ کر دی ہیں۔

 بقول مولانا مودودی ؒ : ’’یہ تعلیم گاہیں نہیں ، قتل گاہیں ہیں‘‘۔ اس تعلیم نے آکر ہماری نسلوں کو مکمل کافر نہیں بنایا تو مسلمان بھی کم ہی چھوڑا ہے۔ صحابہ کرامؓ کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مسلمان ـ’قرآن ‘ کے معنی تو نہ جانتے ہوںگے لیکن اوکسفرڈ اور ہارورڈ کی کتابیں گھول کر پیتے ہوں گے اور فرنگی علوم کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہوں گے ۔ افسوس کہ’ تعلیم کے تیزاب‘ نے ہماری نوجوان نسل کے ایمان کو جلاکر بھسم کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

یہ والدین ہی کا فرض ہے کہ وہ ’تعلیمی ادارے ‘ کے انتخاب میں اللہ کے نور کی روشنی سے دیکھیں اور ایسے ادارے کا انتخاب کریں، جو عصری علوم سے بہرہ ور تو کرے لیکن ’ایمان کی قیمت ‘ پر نہیں۔ اور اگر اسکول میں وہ تعلیم نہیں، جو بچوں کو ان کا مقصد زندگی سمجھا کر اس کی ادایگی کے لیے تیار کر سکے تو اس کا بندوبست گھر میں کرنا ہو گا، جیسے فزکس اور کیمسٹری کے لیے ٹیوٹر رکھا جاتا ہے۔ ’قرآ ن وحدیث ‘ کے لیے بدرجۂ اولیٰ استاد کا بندوبست کرنا اور ترجمہ وتفسیر باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنا والدین کا فرضِ عین ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام غالب آ جائے اور سکولوں کا قبلہ درست ہو جائے ، ان شاء اللہ!

  •  شادی بیاہ: بہوکی تلاش میں آج کل ’مال دار حوریں‘ تلاش کی جاتی ہیں اور داماد کی تلاش میں بڑے قدوجسامت کے ساتھ ساتھ ’موٹی آسامی‘ ۔ اس معاملے میں دین کی ترتیب کو بالکل اُلٹ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے ، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ اور تُو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر۔ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخرت میں تجھ کو ندامت ہو گی )‘‘۔ (متفق علیہ )

اگر دین دار والدین کا معیار بھی دوسروں جیسا ہی ہو گا، تو اس ترتیب کو درست کون کرے گا؟ دین سب سے پہلے ہے، حسن ونسب اور دولت اس کے بعد۔ تحریکی شادیوں کو رواج دیا جائے تو ان شاء اللہ، تحریکی خاندان وجود میں آئیں گے۔ اللہ کا حکم ہوا تو نسل در نسل دین کا کا م جاری رہے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی کتنی پیاری دعا ہے :

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص(البقرہ ۲: ۱۲۸) ’اے رب ! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان )بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری فرماںبردار ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے اُمت مسلمہ کی تمنا کرتے ہیں۔ سوچ کی بلندی دیکھیے! اگلی نسلوں کی فکر کرنا انبیا ؑ کی سنت ہے۔ نسلوں کی تعمیر کی پہلی اینٹ وہ ’رشتہ ‘ ہے جو ہم اپنے بچوں کے لیے چنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین شادی اسے قرار دیا گیا ہے ’جو کم خرچ ہو‘۔  اس کی فکر کرنا، اسراف وتبذیر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا ، تقریبات میں ’رضاے الٰہی ‘ مد نظر رکھنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معاملے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مجبوری بنا کر اللہ کے حکم سے رُوگردانی کرنا مومنین کا شیوہ نہیں ہے۔

  •  خاندان کا استحکام: مسلمانوں کا مستحکم خا ندانی نظام اس وقت دشمنانِ دین کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اور اس پر چاروں اطراف سے شیطانی قوتیں حملہ آور ہیں۔ خاندان کے استحکام کے لیے جہاں مائوں کو خود اچھی ساس اور بہو بننا ہے وہیں اپنے بیٹوں کو اچھا ’قوّام ‘ بنانے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ ان کے اندر خودی اور عزت و احترام کو بیدار کرنا ہے۔ لیکن ’جاہل مرد‘ بننے سے بچانا یقینا ایک سمجھ دار ماں کا ہدف ہونا چاہیے اور لڑکوں کی تربیت اس ضمن میں لڑکیوں سے زیادہ اہم ہے۔ اچھا شوہر کیسا ہوتا ہے؟ یہ تعلیم اسکول نے نہیں ، والدین نے دینی ہے۔

اسی طرح لڑکیوں میں ’صالحات اور قانتات ‘ کی روح پیدا کرنی ہے۔ اچھی بیوی اور بہو کی صفات اُجاگر کرنا ، محبت کے خمیر میں اس کے اخلاق کو پروان چڑھانا،محنت ومشقت کا عادی بنانا ، قربانی اور صبر وحوصلہ کی صفات پیدا کرنا، یہ سب ہو گا تو خاندان مستحکم ہو گا (یاد رہے کہ اپنے بچوں میں ’تقویٰ ‘ جو کہ خاندان کے استحکام کی بنیاد ہے، پیدا کرنے کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں)۔

گھر کے بزرگوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا برتائو، ان کی خدمت اور آرام کا خیال رکھنا، جو مائیں سکھائیں گی کل کو ان کے بچے بھی ان کی خدمت کر رہے ہوں گے، اور ’حیات طیبہ ‘ بسر کرنے والے خاندان وجود میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ !

خاندان کو درپیش تمام خطرات سے مائوں کا آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی تدابیر کرنا اور ان پر محنت سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ سسرال میں پیش آنے والے مسائل سے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کا اسلام کی روشنی میںحل دینا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے اس ضمن میں حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ شرح طلاق میں اضافہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ مائوں کی نا سمجھی بھی ہے۔ بہو کی جائز معاملات میں بھی حمایت نہیں کرتیں اور بیٹیوں کی ناجائز مطالبات میں بھی لڑائی مول لے کر غلط رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کے گھر بسانے اور خاندان کو مستحکم بنانے میں ماں کی ’دین داری اور سمجھ داری ‘ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

  • شہداء علی الناس: ہر مسلمان بہ حیثیت ’مسلمان ‘ شہادت حق ادا کرنے کے منصب پر فائز ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک  ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔

والدین بچوں کو جیسے دُنیا میں رزق کمانے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور دنیا کے دیگر فرائض ادا کرنے کے لیے محنت سے تیار کرتے ہیں، اس ذمہ داری کے لیے تیار کرنا بھی ان کا فرض ہے اور اس کا حساب بھی روز قیامت ان سے لیا جائے گا۔ وہ والدین جو خود ’مقصد زندگی ‘ سمجھ چکے ہیں اور یہ فرض ادا کر رہے ہیں، ان میں اس ذمہ داری کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے ؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے:

  • بچوں کے اندر اقامت دین کی ذمہ داری کی فکر بیدار کرنا۔
  • تحریک سے جوڑنے کے طریقے سوچنا ۔
  • ہم عمر تحریکی ساتھیوں سے ملانا اور اجتماعیت میں شامل کرنا۔
  • تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرانا اور اس کے لیے مشق اور تیاری کرانا۔
  • تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں اس فریضے کو فراموش نہ کرنا۔

یہ فرضِ منصبی ہے، اس مقصد کے لیے :

  • چھوٹے بچوں کو مائیں پروگرام میں اپنے ساتھ رکھیں۔
  • گھروں میں تحریکی رسائل جاری کروائیں۔
  • اور متعلقہ کتب پر سٹڈی سرکل اور ڈسکشن فور مز رکھیں۔
  • قرآن پاک اگر اپنی روح کے ساتھ بچوں کو پڑھا دیا جاے تو نا ممکن ہے کہ بچے اپنے فرض سے غافل رہ جائیں۔
  • دین کے لیے قربانی کا تصور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر دیا جائے۔
  • بچوں کو آسایشوں سے بچا کر ان میں سخت کوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقینا ایک تحریکی ماں کے بچے ایسے نخرے والے نہیں ہو سکتے کہ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں لباس نہیں پہننا اور فلاں بستر کے بغیر سو نہیں سکتا وغیرہ ۔

تکمیل تربیت : یقینا بچوں کی تربیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی :

  • جب تک معاشرہ تربیت یافتہ نہ ہو جائے جہاں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔
  • وہ تعلیمی ادارے درست نہ ہو جائیں جہاں اسے تعلیم حاصل کرنی ہے۔
  • میڈیا کا قبلہ درست نہ ہو جائے اور وہ بگاڑ کے بجاے اصلاح کا فریضہ انجام دینے لگ جائے۔
  • جب تک سودی نظام سے نجات نہ مل جائے جو اخلاقِ فاسد پیدا کر رہا ہو، اور رزقِ حرام قبولیت حق میں مانع ہو رہا ہو۔
  • یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ رب العالمین کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ’اسلام ‘ غالب نہیں آ جاتا۔
  • دین غالب نہیں آ سکتا جب تک ہم سب اور ہمارے بچے مل کر اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور اس فرض کو ادا کرنے میںتن من دھن لگا نہیں دیتے ۔

کیا ہم اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہے ہیں ؟

دُعا ہے کہ: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا  ’’اے اللہ! ہمارا حساب آسان کرنا‘‘۔

دعائیں 

مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ج وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًا O (الکہف ۱۸:۱۷) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی ومرشد (رفیق: سیدھی راہ دکھانے والا) نہیں پا سکتے ۔ 

لہٰذا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراس کی رحمت کے بغیر ملنی مشکل ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں موجود ہیں، جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں۔ ان کا بکثرت اہتمام ضروری ہے۔ یہ دعائیں ہمارے سامنے اولاد کی تربیت کا معیار بھی رکھ دیتی ہیں اور دل کی تڑپ کو اُجاگر بھی کرتی ہیں، مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کی دعا جس کا پیچھے تذکرہ کیا گیا ۔ یہ اولاد کو ایسی امت میں دیکھنے کی تڑپ ہے جو خود ہی مسلمان نہ ہو بلکہ دنیا کو بھی مسلمان بنانے کا ہدف رکھتی ہو۔

اسی طرح سورۂ فرقان (۲۵:۷۴)میں دعا سکھائی گئی کہ :

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ  اِمَامًا  O

گویا ’اولاد صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہ ہو‘، ’متقین‘ کی بھی امامت کرے، یعنی ’نیکوں میں سب سے نیک ‘اور’امام ‘ ___ امامت کرنے والا ، رہنمائی کرنے والا۔ امام رول ماڈل ہوتا ہے، جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، جس کی اقتداکرتے ہیں۔ گویا اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ ہمارے بچے انسانیت کی رہنمائی کرنے والے ’قائدین ‘ ہوں، اور دنیا ان کے پیچھے چلنے والی ہو، اور تمام دنیا کے لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ’متقین کے امام ‘ ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے جو ہمیں دکھا دیا گیا ۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے لیے متقین کا امام بننے کے لیے دعائیں اور صلوٰۃ حاجت ، ان کی اصلاح کے لیے ، ان کا فرضِ منصبی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے، ہمارے معمول میں شامل ہونی چاہیے۔ بے شک رب کریم ہے اور ستّر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ ماں جب دردِ دل سے دعا کرتی ہے تو قبول ہوتی ہے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا  ط  اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ O (البقرہ ۲:۱۲۷)

اور جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں، اس کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔

 انقلابی تحریکوں کے لیے ان کے اصول و مبادی جہاں ان کو ایک پہچان مہیا کرتے ہیں، وہاں ان کا تحریکی شعور اور مزاج بھی ترقی و بقا کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک کوئی بھی ہو، اگر اس سے وابستہ افراد اُس تحریک کے رنگ میں نہ رنگ جائیں، اس تحریک کی فکر میں نہ ڈوب جائیں اور اگر اپنے مزاج کو اس تحریک کے مزاج سے ہم آہنگ نہ کر دیں، تو وہ تحریک اپنی انقلابی روح کھو دیتی ہے اور صرف افراد کا ایک مجمو عہ بن کے رہ جاتی ہے۔ پھر تحریکی شعور و مزاج سے عاری افراد کی عادات و اَطوار اس تحریک پر مسلط ہوکر اس کی سمت تبدیل کردیتے ہیں۔

انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی ذہنیت ایک لازمی بنیاد ہے ۔ اگرتحریک اپنے افراد میں انقلابی ذہنیت کو اجاگر کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ ایک انقلابی تحریک کے منصب سے نیچے اُتر آتی ہے۔ انقلابی سوچ افراد کی حُریت فکر کو دبا کر پیدا نہیں کی جاسکتی۔ انقلابی سوچ افراد کو اندھی تقلید پر آمادہ کرکے پیدا نہیں کی جاسکتی، بلکہ انقلابی ذہنیت ایک ایسی فضا میں پیدا ہوتی ہے، جہاں افراد کی ’تجزیاتی سوچ‘(Critical Thinking ) کی حس کو بیدار کیا جائے۔ جہاں تحریک افراد کا اور ان کے کام کا احتساب کر سکے ا ور جہاں افراد تحریک اور اس کے کام کا احتساب کر سکیں۔ ’تجزیاتی سوچ‘ کو دبانے کا کام ہر دور میں اس قوت نے انجام دیا ہے، جو پہلے سے موجود روایتی نظام ( Status Quo )کو قائم رکھنے کے حق میں رہی ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ  ’تجزیاتی فکر‘ سے ہی انقلاب کی راہ کھلتی ہے۔ اس لیے انقلاب کو روکنے کے لیے ’تجزیاتی فکر‘ کو دبانا بہت ضروری بن جاتا ہے۔

تحریک کے ہر فرد کو اس بات کی تمیز رکھنا ہوگی کہ اس کا کردار کیا ہے؟ جب تک وہ اپنے  آپ کو نہیں پہچانتا، اپنی صلاحیتوں کو نہیں جانتا، وہ تحریک کے لیے صحیح کام نہیں کر سکتا۔ خودشناس افراد تحریک کااثاثہ ہوتے ہیں۔ جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو سب سے پہلے مولانا مودودی ؒ نے ایک ایک رکن جماعت کو الگ الگ بلا کر اس سے دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت میں کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔ کام کی نوعیت کے حساب سے ارکان جماعت کے الگ الگ گروپ بنائے گئے، تاکہ تخصیصی (specialized) انداز میں تحریک کے کام کو انجام دیا جائے۔

اس کے برعکس ایک متردّد [reluctant] کارکن تحریک کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتا کیوںکہ اس کی شخصیت میں ابہام اسے کام کرنے سے روکتا اور دوسروں کو شک میں دھکیلتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ابہام دو صورتوں سے وجود میں آتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ خود شناس نہیں ہوتا، اس لیے تحریک شناس بھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ غیر تحریکی فکر، شعور اور ماحول نے اس کے اندر گھر کر لیا ہوتا ہے۔ وہ ( تحریک کے حوالے سے)غیر فکری اور غیر شعوری اثرات کو لے کر تحریک میں شامل ہوتا ہے۔اگر تحریک اس کے ابہام کو دور کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہاں پر تحریک کو اپنا اوراپنے  تربیتی نظام کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ تحریک اپنے کارکنان کو منجمد اور بے جان نہیں چھوڑ سکتی ، بلکہ وہ انھیں حرکت دیتی ہے ، نئی سوچ اور نئی فکر دیتی ہے ، نئی زندگی اور بلند مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔

تحریک اپنے افراد کی سوچ سے کٹ کر علاحدہ نہیں رہ سکتی ۔تحریک کو چاہیے کہ افراد کو اس ابہام سے آزاد کر دے کہ جب تک انقلابی قافلہ اپنے ہمراہیوں کو فکری آزادی نہیں دلاتا، وہ انقلاب پرور نہیں کہلاسکتا۔ محکومی اور آزادی کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا۔ محکوم کوئی اس وقت بنتا ہے جب کوئی دوسرا حاکم بن جاتا ہے، یعنی کسی کے حاکم بننے سے کوئی محکوم بن جاتاہے، مگر آزادی کا مزاج ایسا بالکل بھی نہیں۔کوئی کسی اور کے آزاد ہونے سے آزاد نہیں بنتا اور نہ کسی اور کے آزاد کرنے سے آزاد بنتا ہے ،بلکہ فکری آزادی خود کو آزاد کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

ایک انقلابی تحریک اپنے کارکنان کو جمود کا درس نہیں دے سکتی، ان کی حرکت کو قید کر کے انھیں منجمد نہیں بنا سکتی۔ اُ ن کے دماغ پر گرفت کر کے انھیں مفلوج نہیں بنا سکتی۔ تحریک متحرک افراد سے ہی قائم رہتی ہے۔ ’تجزیاتی فکر‘ کے اُبھرنے سے تحریک میں حرکت جاری رہتی ہے اور اگر اس ’تجزیاتی فکر‘کو کچل دیا جائے، تو تحریک ایک منجمد تنظیم یا روایتی قبیلے میں تبدیل ہوکے رہ جاتی ہے۔ بقولِ اقبالؒ: ’سبق شاہین بچوں کو دے رہا ہے خاک بازی کا‘ ___ایسا کرنا تحریک کے عین مقاصد کے خلاف بھی ہے اور حکمت کے بھی۔

ایک انقلابی تحریک کے لیے یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اس کا تنظیمی و تحریکی ڈھانچا اور طریق کار حریف کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے طریق کار سے مختلف ہو۔ اگر یہاں بھی وہی کچھ ہو جو مدِّمقابل کے ہاں ہے، تو پھرجو کچھ ہوگا، وہ محض ہاتھوں کی تبدیلی ہوگا، انقلابی یا جوہری تبدیلی نہیں پیدا ہوسکے گی۔ اس لیے تحریک کو چاہیے کہ حالات بھی بدلیں اور ہاتھ بھی۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی گئی تحریک میں یہ بات ہمیں بدرجۂ اتم دیکھنے کو ملتی ہے۔ حضوؐرنے اپنی تحریک کو الگ بنیادوں پر قائم کیا۔ وہاں کالے اور گورے کی تمیز نہیں رہتی، وہاں کوئی غلام اور کوئی آقا نہیں رہتا، وہاں ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہو جاتے ہیں، وہاں انسانوں کی کھوئی ہوئی انسانیت کے بارے میں فکرمندی ہے، وہاں انسانیت کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی ہے، وہاں حلال و حرام کے قیود ہیں ، وہاں عبادات، ریاضت اور فقر کی ایک انوکھی ہم آہنگی کو پیدا کیا جاتا ہے، وہاں سوال پوچھے جاتے ہیں اور تلخ سوال بھی، لیکن حضوؐر کسی کی تلخی سے دل برداشتہ نہیں ہوتے بلکہ اطمینان سے سوالات سنتے ہیں اور جوابات دیتے ہیں، وہاں بدر کے فیصلہ کن معرکے میں الخبابؓ بن المنذر بن الجموح، حضوؐر سے جاننے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ حضوؐر کا انتخاب کردہ مقام اﷲ کا نازل کردہ ہے یا کہ یہ آپؐ کی ذاتی راے ہے؟ وہاں فارس کے سلمانؓ وقت کے پیغمبر ؐ کو مدینہ منورہ کے بچائو اور دفاع کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ ایسی تحریک جہاں خلفا سے سوال کیا جاسکتا ہے، جہاں ایک چپٹی ناک والی عورت حضرت عمرؓ کے اجتہاد پر سوال کھڑا کر سکتی ہے، جہاں پیغمبر کوئی داروغا نہیں بنتا، جہاں شورائی نظام ہو اور جہاں احتسابِ عمل کا اصول واضح ہو___ یہ سب کچھ اس لیے کیوںکہ یہ تحریک بنیادی طور پر تبدیلی چاہتی تھی۔ ایسی تبدیلی جس میں زندگی کے شعبہ جات ہی نہیں خود زندگی ہی بدل جائے۔

تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ جن نعروں کو بلند کرتی ہو، جن اصولوں کی تبلیغ کرتی ہو، وہ تحریک کے اندر بھی عملاً موجود ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو تحریک کی دعوت موثر نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی نعرہ دراصل کچھ حروف کا مرکب ہوتا ہے ۔ نعرہ حرکت دیتا ہے ،عمل پر ابھارتا ہے اور تو اور تحریک کے عمل کی عکاسی کرتاہے۔ اس لیے یہ حروف دراصل عمل اور خیال، یعنی آئیڈیا لوجی کو ظاہر کرتے ہے۔ عمل اگر خیال سے خالی رہ جائے تو قابلِ قبول نہیں۔ اگر خیال اور عمل میں مطابقت نہ ہو تو یہ رویہ منافقت میں شمار ہوتا ہے، اور انقلابی تحریکوں میں ایسے رویے کا گزر موت ہے۔ جمہوریت کا پرچار کرنے والے اگر لوگوں کی زبانوں کو بند کروا دیں ، اظہار راے پر پابندی لگا دیں، قلموں پر زنجیریں گرادیں، حقوق سلب کر دیں، تو یہ کھلی منافقت کہلائے گی ۔ اسی طرح نظامِ قسط و عدل کی علَم بردار تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر یہ نظام عدل عملاً جاری و ساری ہو۔ اگر عدل و قسط نابود ہو تو تحریک کا اس حالت میں منزلِ مقصود تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

یہاں ایک اہم بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ تحریکوں سے وابستہ افراد کو عملِ صحیح اور محض ’خام فعالیت‘ (Activism ) کے درمیان حساس فرق کو قائم رکھنا ہوگا اور یہ یاد رکھنا ہو گا کہ  خام فعالیت سے انقلابات نہ آئے ہیں اور نہ آسکتے ہیں۔ انقلاب اگر آتا ہے تو عملِ صحیح سے ہی آتا ہے۔ عملِ صحیح یہ ہے کہ اگر انقلاب نہیں آتا ہے تو اس کے اسباب کو تلاش کیا جائے، وجوہ کو ڈھونڈا جائے، تاکہ انھیں تلاش کرکے ان کےسدباب کی کوششیں کی جائیں۔ یہ کوششیں صرف تحریک کے قائدین کا خصوصی حق نہیں، بلکہ ہر کارکن اس کام کو انجام دے اور کوئی بھی اپنے ارکان کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو یہ تحریک کا عروج نہیں بلکہ زوال ہو گا۔ اسی طرح کارکنوں کی سنجیدہ سوچ ہی قائدین کو سنجیدہ بنا سکتی ہے۔ قائد کارکنوں سے ہوتا ہے اور کارکن قائد سے۔ قائد کی سوچ کارکنان سے پروان چڑھتی ہے اور کارکنوں کی قائد سے۔ اگر قائد کارکنان کے ساتھ مل کر نہیں سوچتے تو ان کی پالیسیاںکامیاب نہیں ہوسکتیں۔ کوئی بھی قائد، کارکنوں کی صلاحیتوں کو ، ان کے شعور کو ، ان کی فہم و فراست کو ، ان کے علم و تجربے کو صرف   اس بنا پر نظر انداز نہیں کر سکتا کہ وہ صرف ایک عام کارکن ہے، بلکہ وہ ـ’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘ کی صدا کو اپنے شعور میں اتار کر ہر کارکن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے، ان کی بات کو سنے ،ان کی تجاویز کو پرکھے، اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھے کہ اگر کارکن قربانیاں پیش کرسکتا ہے تو اس کی راے کیوں نہیں وزن رکھ سکتی!

۴ مارچ ۲۰۱۸ء کو جنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیاں میں ایک اور خونی کھیل میں دوعسکریت پسندوںکے علاوہ چار بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کوبھارتی فوجی اہل کاروںنے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا۔مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کے مطابق اس روز جب لوگ مغرب کی نماز ادا کرکے مسجد سے باہر آرہے تھے، توکچھ ہی دیر بعد شوپیاں سے ۶ کلو میٹر دُور ترکہ وانگام روڑ پرپہنوپنجورہ نامی گاؤںکے نزدیک مسافر گاڑیوں کی تلاشی لینے والے مقامی بھارتی فوجی کیمپ سے وابستہ ۴۴راشٹریہ رائفلز کے اہل کاروں نے ایک سوفٹ گاڑی زیر نمبر JK04D 7353پر اندھا دھند فائرنگ کی اور تین بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔عوامی ذرائع کے مطابق گاڑی پر فائرنگ سے قبل جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں ایک عسکریت پسند جان بحق ہوگیا۔

بھارتی فوج نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ میں ایک جنگجوعامر احمد ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیاں جان بحق ہوگیا۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد آرمی نے ایک اورمتضاد بیان میں کہا کہ اس واقعے میں جنگجو ؤںکے ساتھ موجود تین مقامی نوجوان بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جن کی شناخت سہیل احمد وگے ولد خالد احمد وگے (عمر۲۲ سال) ساکن پنجورہ،شاہد احمد خان ولد بشیر احمد خان (عمر ۲۳ سال) ساکن ملک گنڈ، اور شاہ نواز احمد وگے ولدعلی محمد وگے (عمر۲۳ سال) ساکن مولو کے طور پر ہوئی۔بھارتی فوج کے بیان کے مطابق یہ تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے ساتھ گاڑی میں سوار تھے اور اُنھوں نے بھارتی فوج پر مبینہ طور پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں یہ چاروں جاں بحق ہوگئے۔فوج کے بقول تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے لیے کام کررہے تھے۔

مقامی لوگوں نے آرمی کی اس پوری کہانی کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے تینوں نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں مار دیا ہے اور اُنھیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ۔ مقامی لوگوں کی دلیل کو اس بات سے بھی تقویت حاصل ہورہی ہے کہ اگلے دن، یعنی۵مارچ کی صبح کو اس سانحے کی جگہ سے کچھ ہی دُوری پرموجودویگن سے ایک اورنوجوان گوہر احمد لون ولد عبدالرشید لون (عمر۲۴سال) ساکن مولو کی لاش برآمد ہوئی۔بالفرض مان بھی لیا جائے کہ پہلے تین نوجوان جنگجوئوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے تو پھر دوسری گاڑی میں سوارگوہر احمد لون کو کیوں نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا؟حالاںکہ بھارتی فوج کی کہانی میں پہلے سے ہی تضاداور جھول پایا جاتا ہے۔جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اُس کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر فوج کے ذرائع سے مختلف نیوز ایجنسیوں نے جو خبر شائع کی، اُس میں ایک عسکریت پسند کے شہیدہونے کی اطلاع دی گئی اور ساتھ میں اُس کی تصویربھی عام کردی گئی جس میںاُس کی لاش وردی پوشوں کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ دکھائی دے رہی تھی۔ اگر وہ اُسی گاڑی میں سوار ہوتا جس میں یہ تین معصوم نوجوان تھے تو پھر اُن کی خبر پہلے مرحلے میں نشر کیوں نہیں کی گئی؟

دراصل حقیقت یہ ہے کہ حسب روایت بھارتی فوج،کشمیری جنگجوئوں کے ساتھ جھڑپ ہونے اور اُن کے شہید ہوجانے کے بعدآپے سے باہر ہوگئی اور اُنھوں نے شاہراہ پر چلنے والی گاڑیوں کو بے تحاشا انداز میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کی زد میں دونوں گاڑیاں آگئیں جن میں یہ تین نوجوان اور دوسری گاڑی میں ایک اور نوجوان گوہر احمد لون تھا اور یہ چاروں اَدھ کھلے پھول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرجھا گئے۔ اس سانحے کے حوالے سے فوج نے بیس گھنٹوں کے اندر تین بار متضاد بیانات جاری کیے۔ اگلے دن جب گوہر احمد کی لاش برآمد ہوئی تو فوجی ترجمان نے گذشتہ دوبیانات کے بالکل ہی متضاد تیسرا بیان جاری کردیا، جس میں بتایا گیا کہ فوجی ناکے کی جانب دوتیز رفتار گاڑیاں آرہی تھیں، جنھیں رُکنے کے لیے کہا گیا۔ گاڑیاں رُکنے کے بجاے اُن میںسوار جنگجوؤں نے فوج پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں ایک جنگجو اور اُس کے چار اعانت کار جان بحق ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کا یہ بیان صحیح ہے تو گذشتہ دو بیان کیوں دیے گئے ؟ عام لوگ اور عینی شاہدین کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں جو جھڑپ جنگجوؤں کے درمیان ہوئی ہے اُس میں صرف ایک جنگجو جان بحق ہوا تھا۔ اس لیے پہلے مرحلے پر وہی کہا گیا جو ہوا تھا، لیکن بعد میں فوج نے  جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر جوگھناؤنا کھیل کھیلا اُس پر پردہ پوشی کے لیے متضاد بیانات جاری کیے گئے۔حالاںکہ بھارتی فوج کو کشمیر میں عام لوگوں کو مارنے کے لیے نہ صرف نئ دہلی سےاشیرواد حاصل ہے بلکہ اُن کی جانب سے کشمیریوں کے تئیں جارحانہ اور قاتلانہ رویے پر اُنھیں تمغے اور ایوارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ بھارت میں موجود بی جے پی حکومت عام کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کو کھلے عام نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کیا جاتا ہے۔

جن گھرانوں کے چشم و چراغ اس سانحے میں بھارتی فوج نے گل کر دیے ہیں، اُنھوں مظلوموں نے بھارتی فوج کے تمام تر دعوؤں کو جھٹلا کر اُن کی کہانی کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ شہیدسہیل احمد وگے کے بھائی محمد عباس وگے نے بھارتی فوجی دعوے کی نفی کرتے ہوئے ایک مقامی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’میں نے سہیل کو شام ۲۴:۷ بجے فون کیا تو   اُس نے مجھ سے کہا کہ وہ ماں کو بہن کے گھر چھوڑ نے نزدیکی گاؤں پہلی پورہ پہنچ چکا ہے۔اُس کے صرف آدھے گھنٹے بعد ہم نے یہ المناک خبر سنی کہ فوج نے سہیل کو وہاں سے واپس آتے ہوئے راستے میں مار دیا ۔‘‘اسی طرح شاہداحمد خان کے والد بشیر احمد نے کہا کہ:’’میرا بیٹا بارھویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ نماز پڑھنے نکلا تھا۔ اُسے جرم بے گناہی میں مار دیا گیا‘‘۔جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا وہاں کے عام لوگوں نے بھی فوج پر الزام عائد کیا کہ اُنھوں نے جھڑپ کے دس منٹ بعد جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر چار بے گناہ نوجوانوں کو جان سے مار دیا۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ، پلوامہ اور کولگام ضلع میں عوامی غم و غصہ بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ یہاں وردی پوش اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے حد سے تجاوز کررہے ہیں۔ نہتے اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی جیسے اُنھیں کھلی چھٹی حاصل ہے۔جنوبی کشمیر میں رواں سال میں اب تک ۳۰ سے زائد عام اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوج نے گولیوں کا شکاربناکرشہید کردیا ہے، اور بھارتی فوج کی نہتے عوام کے خلاف نہ رُکنے والی کارروائی میںسیکڑوں افراد سال کے پہلے دو مہینوں میں جسمانی طور پر مضروب ہوچکے ہیں۔

ماہِ جنوری میں ایسے ہی ایک سانحے میں بھارتی فوج آر آرکے اہل کاروں نے اِسی ضلع میں  تین نوجوانوں کوجرمِ بے گناہی میں گولی مار کر جاں بحق کردیا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بعد میںمقامی پولیس نے جب اس سانحے میں ملوث بھارتی فوج کے میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایف آئی آر پرمزید کارروائی کرنے پر روک لگا دی اور جموں و کشمیر گورنمنٹ سے اس سلسلے میںجواب طلبی کی۔ اس سے پہلے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی حکومت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس سانحے کی تحقیقات کرکے ملوث اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ لیکن جب ۵مارچ کو ریاستی کٹھ پتلی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا تو اُنھوں نے عوامی مفادات اور جان و مال کے تحفظ کی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتادیا کہ میجر آدتیہ کا نام ایف آئی آر میں شروع سے درج ہی نہیں تھا۔گویا عوام کو گمراہ کیا جارہا تھا، وقتی طور پر اُن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی داؤ کھیلا گیا کہ میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔یہاں ہر قتل عام میں ملوث اہل کاروں کو بچانے کے لیے پہلے ہی سے ریاستی کٹھ پتلی حکومت تیار ہوتی ہے۔

یہ المناک صورتِ حال گذشتہ سال میجر گوگوئی کے کیس میں بھی دیکھنے کو ملی، جس نے بیروہ بڈگام میں فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے انسانی حقوق کی سر عام بے حرمتی کی۔  اُن کے خلاف ریاست میں قائم ہند نوازسرکار نے کافی بیان بازی کی تھی، لیکن جب قانون کی بات آئی تو اُنھیں سزا دینے کے بجاے فوج نے اُنھیں ترقی سے نوازا۔ ہندستان میں اُن کے نام کی T-Shirts تیار کی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ بِگ گئیں۔ اُنھیں ہندستانی میڈیا اور سیاست دانوں نے ہیروکے طور پیش کیا۔ کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو جب تمغوں سے نوازا جارہا ہو، جب اُن کی حمایت میں میڈیا یک طرفہ اور جانب داری پر مبنی رپورٹیں شائع کرتا ہو، جب پٹواری اور مقامی پولیس تھانے کے اہل کاروں سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ مقامی سرکاری عہدے داراور سیاست دان تک اُنھیں بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی رپورٹ تیار کرنے میں پیش پیش ہوں، تو بھلاکیوں کر وردی پوش عام شہری ہلاکتوں سے باز رہیں گے!جب فوج کو دشمن کی طرح عوام کے رُو برو کھڑا کیا جائے، جب کسی بھی شخص کی جان لینے کے لیے سنگ باز، تخریب کار، او جی ڈبلیو، احتجاجی، پاکستانی حمایت یافتہ جیسی اصطلاحوں کو جواز بنایا جانے لگے تو بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے ، جس کے ذریعے سے یہاں پر کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے راہیں آسان کی جارہی ہیں۔بھارتی فوج اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے فرقہ پرست ذہنیت کو بری طرح سے حاوی کیا جارہا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا یہاں یہ سلسلہ بھلا کیسے رُک سکتا ہے، بلکہ کشمیری عوام کے لیے آنے والا زمانہ مزید پریشان کن اور پُرتشدد ثابت ہوسکتا ہے۔۲۰۱۶ء سے برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد سے عام کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ آئے روز وادی کے اطراف و اکناف میں کسی نہ کسی ماں کی کوکھ اُجاڑ ی جاتی ہے، کوئی نہ کوئی نونہال اور معصوم نوجوان زندگی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔

کشمیریوں کی نسل کشی کی ان کھلے عام وارداتوں کی پشت پناہی نہ صرف سرینگر ودلی میں قائم حکومتیں کررہی ہیں بلکہ ایسا کرنے کے لیے یہاں پر موجود دس لاکھ فوج اور نیم فوجی دستوں کو آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ(’افسپا‘-AFSPA)کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ سابق بھارتی فوجی سربراہ نے’افسپا‘ کو مقدس کتاب سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کو ریاست جموں وکشمیر میں لازمی قرار دیا ہے۔ اس قانون کی رو سے فوج کے خلاف ہوم منسٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ وقتی حالات سے نبٹنے کے لیے یہاں کی حکومتیں تحقیقات وغیرہ کا خوب ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں، لیکن عملی طور پر یہ سب فضول کاوشیں ہی ثابت ہوتی ہیں۔اس لیے یہ بات عیاں ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی اور سنگین قسم کے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تب تک کوئی روک نہیں لگ سکے گی، جب تک عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں۔

عالمی طاقتوں کی جانب داری اور مفاد پرستی کا تو کوئی گلہ نہیں، البتہ مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ عالمِ اسلام اگر چاہے تو احسن طریقے سے ہندستانی حکومت پر دباؤ بڑھا کر ہندستانی حکمرانوں کو مسئلۂ کشمیر کے مستقل حل پر راضی کرسکتا ہے، لیکن ملت کے یہ حکمران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں بھارتی حکمرانوں کی خوب آو بھگت کررہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور اُن کی خوشنودی کے لیے سرزمینِ عرب میں ۱۵۰۰سال بعد مندر اور بُت کدے بنانے کے لیے زمین تک فراہم کرتے ہیں۔ گویا ہرجانب سے دلی سرکار کو اطمینان حاصل ہوچکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ وہ کررہے ہیں، اس کے لیے اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ اسی طرح ہند نواز سیاست دان کشمیریوں کی بھلائی کی خوب باتیں کرتے ہیں، وہ شہری ہلاکتوں پر بیان بازیاں بھی کرتے ہیں لیکن اُن کی اوّلین ترجیح اقتدار حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اقتدار میں آکر وہ انسانی لاشوں پر چل کر دلی کے مفادات کی آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کا ضمیر اُنھیں ذرا بھی احساس نہیں دلاتا کہ جن لوگوں کے ووٹ سے وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اُنھی لوگوں کے قتل عام پر وہ نہ صرف مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں بلکہ اُن کے قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے مقامی وکیل کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔

۱۶مارچ کو بھارت کو ’ہندوتوا‘ ریاست بنانے والی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کشمیر میں آزادی پسندعوام سے نبٹنے کے لیے ’طاقت‘ کی ضرورت ہے۔ فوج کو طاقت کا کھلا استعمال کرنے کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔ اسی طرح کا ایک بیان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی دیا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت آئے روز اِس طرح کی اشتعال انگیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔مختصر یہ کہ کشمیر ی عوام بھارتی فوجیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ دنیا کشمیریوں کے قتل عام اور نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ پاکستان جسے کشمیری قوم نے ہمیشہ اپنے محسن کی حیثیت سے دیکھا ہے،اپنا فریضہ کماحقہ انجام نہیں دے رہا۔

بار بار اور نہ رکنے والی عام اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مار دینے کی کارروائیوں کا تذکرہ سن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔اپنے نونہالوں کی لاشیں دیکھ دیکھ کر ذہنی طور پر مفلوج بنتے جارہے ہیں۔ یہاں شادی کی باراتوں سے زیادہ جنازے اُٹھتے ہیں، یہاںاجتماعی خوشیوں کی تقریب کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ ماتمی مجالس اور تعزیتی تقریبات آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسانیت بے حس ہوچکی ہو اور اہلِ کشمیر کے قتل عام سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ ایسے میں آخری سہارا اللہ رب کائنات کا ہی ہے۔اس لیے اب ہماری تمام تر اُمیدیںاپنے رب ہی سے وابستہ ہیں ۔ اُس کی مدد کا اس قوم کو پورا یقین ہے اور ہمارا یہی یقین ہماری کمزور قوم کو پہاڑ جیسے دشمن کے سامنے پورے عزم کے ساتھ کھڑا رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

وہ کون سا ظلم ہے جو گذشتہ سات سال کے دوران میں بشار الاسد اور اس کے حواریوں نے نہ ڈھایا ہو۔ شام اور اس کے عوام کو اپنے نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنالیا گیا ہے۔ صرف روس وہاں اب تک اپنے ۱۲۰ نئے ہتھیاروں کا تجربہ کرچکا ہے۔ ان تجربات کے بعد وہ اس بات پر   فخر کرتا ہے کہ عالمی منڈی میں ان ہتھیاروں کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال امریکا اور اس کے حلیفوں کا ہے۔ شام کے ایک ایک شہر اور ایک ایک بستی کو کھنڈرات میں بدلا جاچکا ہے۔ شہید ہوجانے والے عوام کی تعداد ۸ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ترک صدر طیب ایردوان کے بقول یہ تعداد ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے۔ ایک جانب یہ سب مظالم اور دوسری جانب ملاحظہ فرمایئے کہ بے گناہ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا جلاد ابن جلاد، بشار الاسد اُمت مسلمہ کے حقیقی دشمن اسرائیل کے سامنے کیسے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔

۱۶مارچ ۲۰۱۸ء،یعنی شامی عوام پر مظالم کے سات سال پورے ہونے کے اگلے روز، صہیونی ذرائع ابلاغ نے ایک خوف ناک انکشاف کیا۔ صہیونی حکومت نے اعلان کیا کہ شام نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا۔ لیکن آج سے دس سال اور سات ماہ پہلے، یعنی ۵ستمبر۲۰۰۷ء کو اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں ملیا میٹ کردیا۔ کسی ملک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردینا بھلا کوئی اتنا معمولی واقعہ تھا کہ کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے؟ لیکن ذرا اس وقت (۵ ستمبر۲۰۰۷ء) کو شامی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری نیوز ایجنسی سانا کی   خبر کا متن ملاحظہ کیجیے: ’’گذشتہ رات مخالف فضائیہ نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ ہماری فضائیہ نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے انھیں واپسی پر مجبور کردیا۔ اس دوران انھوں نے اپنے ہمراہ لایا جانے والا گولہ بارود ہماری سرزمین پر پھینک دیا، لیکن اس سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا‘‘۔ جواب میں اسرائیلی حکومت نے بھی مختصر بیان جاری کیا: ’’ہم ایسی خبروں اور بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کرتے‘‘۔

یہ سارا ماجرا آخر ہے کیا؟ تقریباً پونے گیارہ سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی تفصیلات اس سے پردہ اُٹھاتی ہیں۔ ان کے مطابق اس پوری کاروائی کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء سے ہوا جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کے ایجنٹ، شام کے ایٹمی راز چرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انھیں یہ راز ایک یورپی ملک آسٹریا میں ایٹمی توانائی کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں شریک، شامی ایٹمی پروگرام کے انچارج ابراہیم عثمان کے کمپیوٹر سے اپنی پوری تفصیلات اور تصاویر کے ساتھ ملے تھے۔ اسرائیلی ذمہ داران کے بقول: ’’ہمیں خدشات تو تھے لیکن ہم اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمیں اس پروگرام کی کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی تھیں۔ تصدیق ہوجانے کے بعد ۱۸؍اپریل۲۰۰۷ء کو موساد کے سربراہ مائیرداگان نے   امریکی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ان تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں تباہ کردے۔ صدر جارج بش نے اپنے عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے طویل مشاورت کے بعد جون میں  ہمیں جواب دیا کہ امریکا یہ حملہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد ہم نے خود حملے کا منصوبہ بنایا۔ ۵اور ۶ستمبر کی درمیانی شب۳۰:۱۰  بجے ہمارے آٹھ جنگی جہاز ’رامون‘ اور ’حٹسریم‘ نامی دو مختلف جنگی ہوائی اڈوں سے شام کی مخالف سمت میں اُڑے۔ قبرص کے قریب پہنچ کر ان جہازوں نے اچانک اپنا رُخ موڑا اور شام کی حدود میں گھس گئے۔ دیر الزور کے قریب واقع ان تنصیبات پر ۱۷ٹن بارود برساتے ہوئے یہ تسلی کرلی گئی کہ یہاں پائی جانے والی ہر چیز تباہ ہوگئی ہے۔ چار گھنٹے کی اس ساری کارروائی کے بعد رات۳۰:۲  بجے یہ تمام جہاز بخیریت اپنے اڈوں پر واپس اُتر گئے‘‘۔

اسرائیلی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں خطرہ تھا کہ اس کاروائی کے ردعمل میںشام کوئی جوابی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہم نے فوج کو چوکنا رہنے کے احکام دیے ہوئے تھے۔ شام نے جواب دینے کے بجاے یہ ساری کارروائی وقوع پزیر ہونے ہی سے انکار کردیا تو ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ ہم نے بھی اپنی اس بڑی کامیابی کا دعویٰ کرنے اور باتصویر ثبوت نشر کرنے کے بجاے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو شامی حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کی خاطر ہی کوئی جوابی کارروائی کرنا پڑسکتی تھی۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ تھا۔ تقریبا گیارہ برس کے بعد بشار الاسد کی اصل ’بہادری‘ سے پردہ اُٹھادیا گیا ہے تواب اولمرٹ بھی اس کی پوری تفصیل اپنی آیندہ کتاب میں شامل کررہا ہے۔ اس کی وزیرخارجہ سیپی لیفنی نے بھی اسرائیلی ریڈیو پر تفصیلی انٹرویو دیا ہے اور اس وقت کے عسکری ذمہ داران بھی اپنے اپنے کارنامے بیان کررہے ہیں۔

اس ضمن میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ تقریباً گیارہ سال بعد اب آخر اس پوری ہوش رُبا داستان سے پردہ اُٹھایا کیوں گیا؟ صہیونی وزیر سیکورٹی اویگدور لیبر مین کا بیان اس سوال کا جواب دے دیتا ہے: ’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات کی تباہی ہمارے ہر دشمن کے لیے ایک واضح پیغام ہے، جو آج بھی اسی طرح مؤثر ہے‘‘۔ صہیونی وزیر انٹیلی جنس یسرائیل کاٹس کا بیان زیادہ واضح ہے۔ وہ اپنی ٹویٹ (Tweet ) میں کہتا ہے:’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا جرأت مندانہ اقدام اس بات کا واضح پیغام ہے کہ اسرائیل ایران سمیت کسی بھی ایسے ملک کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دے گا جو ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ ایران ہی نہیں یہ دھمکی ہر اہم مسلمان ملک کے لیے یکساں سنگین ہے۔ متعدد بار اسرائیلی بیانات میں پاکستان کا نام بھی لیا جاچکا ہے۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں سے پہلے کہوٹہ پر بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائیوں کی کوششوں کی خبریں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

یہ خوف ناک انکشافات، زہریلے بیانات اور تلخ حقائق درحقیقت آج کی مسلم دنیا کا مرثیہ کہہ رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر قابض ناجائز ریاست پوری دیدہ دلیری سے اپنا ایک کے بعد دوسرا ہدف حاصل کرتی چلی جارہی ہے۔ دنیا کی سب بڑی طاقتوں کی مکمل سرپرستی تو پہلے ہی حاصل تھی، اب خود مسلم دنیا بھی اس کے وضع کردہ منصوبوں کی تکمیل میں جتی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ ۱۲سال سے جاری غزہ کا محاصرہ مزید سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فلسطینی رہنمائوں پر قاتلانہ حملوں کے ڈرامے رچا کر اس کا سارا ملبہ غزہ کے بے بس عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔عراق اور شام میں خاک و خون کے نئے دریا بہائے جارہے ہیں۔ یمن میں باغی حوثی قبائل کے ذریعے بھڑکائی جانے والی جنگ اب ایک قاتل دلدل کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مصر، لیبیا اور تیونس کے بعد ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشیں بھی عروج پر ہیں۔ مصر سے جاری ہونے والے اس بیان نے ہر باشعور مسلمان کے دل پر آرے چلادیے ہیں کہ ’’اس وقت ہمارے اصل دشمن تین ہیں۔ نئے عثمانی حکمران (یعنی موجودہ ترک حکومت)، ایران، اور دہشت گرد تنظیمیں جن میں سرفہرست الاخوان المسلمون ہے‘‘۔ گویا قبلہء اول پر قابض، لاکھوں فلسطینیوں کے قاتل اور مسلم دنیا کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے والا اسرائیل اب دشمن ہی نہیں رہا۔

ایران کی پالیسیاں یقینا تکلیف دہ ہیں۔ اسلامی انقلاب کے دعوے دار اب خطے میں شیعہ امپائر قائم کرنے کے کھلے دعوے کررہے ہیں۔ باقی سب باتیں چھوڑ بھی دی جائیں، تب بھی بشار الاسد کے قیامت خیز جرائم میں اس کی برابر کی شرکت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں ایرانی سپریم لیڈر اور اصل حکمران آیۃ اللہ خامنہ ای کے دست راست علی اکبر ولایتی کا یہ بیان کہ: ’’اگر ایران کی مدد اور عملاً شرکت نہ ہوتی تو بشار الاسد حکومت چند ہفتے سے زیادہ نہ نکال پاتی‘‘ زخموں پر مزید نمک پاشی کررہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ نتیجہ نکالنا ہرگز درست نہ ہوگا کہ مسلم ممالک اپنے اصل دشمن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہیں۔ آج اگر اسرائیلی ذمہ داران گیارہ سال قبل کیے جانے والے اپنے جرائم اور جارحیت کو ایک کارنامے کی صورت میں بیان کرتے ہوئے مزید دھمکیاں دے رہے ہیں، تو ایران ہی نہیں سب مسلم ملکوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں۔ ایران اگر شامی درندے کی پشتیبانی کرتا چلا آرہا ہے تو اب بھی موقع ہے کہ وہ اس ساری پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ آج بھی وقت ہے کہ تمام مذہبی یا علاقائی جنگوں کی آگ بجھاتے ہوئے ایران، ترکی، پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام اہم مسلم ممالک مل کر اپنے مستقبل کا تحفظ یقینی بنائیں۔

عِفرین میں ترکی کی پیش رفت:

اس ضمن میں ترکی کا کردار مؤثر ترین ہوسکتا ہے۔ ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر عِفرین اور اس کے گردو نواح میں چند ہفتوں کے اندر اس نے ایک بڑی کامیابی رقم کی ہے۔ صہیونی ریاست کے تحفظ اور وسیع تر اسرائیل کے قیام کے لیے برسرِ پیکار عالمی قوتیں خطے کی بندر بانٹ کے لیے جو مختلف چالیں چل رہی ہیں، ان میں سے ایک کارڈ لسانی تعصبات اُجاگر کرنا بھی ہے۔ عراق میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوشش کے بعد، اب شام میں بھی اسی زہریلے پودے کی آب یاری کی جارہی ہے۔ عفرین اور گردونواح میں بڑی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ امریکی امداد سے ان کرد عناصر کو مسلح کرد تنظیموں PKK  اور PYK  کے گرد اکٹھا کیا جانے لگا۔ وہاں اسلحے کے انبار بھی جمع ہونے لگے اور پوری آبادی کو یرغمال بناکر ترکی کے اندر بھی کارروائیاں کی جانے لگیں۔ ترکی نے ان تنظیموں اور ان کے عالمی سرپرستوں کو  کئی بار خبردار کرنے کے بعد بشارالاسد کا ساتھ چھوڑ کر آنے والوں کی تشکیل کردہ ’آزاد شامی فوج‘ (Free Syrian Army) کے ساتھ مل کر ۲۰ جنوری ۲۰۱۸ء سے وہاں ’شاخ زیتون‘ کے نام سے بڑی فوجی کارروائی شروع کردی۔ امریکا سمیت کئی ممالک نے ترکی کی اس کارروائی کے خلاف مہمات چلائیں، لیکن اس نے انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا اور بالآخر ۱۸ مارچ کو عفرین کے پورے علاقے سے ان عناصر کا قلع قمع کردیا۔

اس پوری کارروائی کے نتیجے میں ترک سرحد پر مسلسل سنگین صورت اختیار کرنے والے خطرے کا ازالہ بھی ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا کے سامنے دو بالکل مختلف کردار بھی نمایاں ہوئے۔ ایک کردار بشار الاسد اور اس کا ساتھ دینے والی روسی و ایرانی افواج کا تھا جو دسمبر۲۰۱۶ء میں حلب میں سامنے آیا۔ حلب فتح کرتے ہوئے پورا شہر ملبے اور تباہی کے ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا۔بے گناہ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیے گئے تھے۔ شہر ’فتح‘ کرنے کے بعد وہاں کے باقی ماندہ باسی بھی بے خانماں کرکے شہر سے نکال دیے گئے۔ لیکن اب عِفرین میں ترک اور آزاد شامی فوج کو کامیابی ملی تو اکا دُکا عمارتوں کے علاوہ پورا شہر صحیح سالم تھا۔ دہشت گرد عناصر نکلتے نکلتے بھی وہاں لاتعداد بارودی سرنگیں نصب کرگئے تھے۔ نتیجتاً کئی مزید عمارتیں بھی تباہ ہوگئیں، لیکن ان بارودی سرنگوں کے خاتمے کے بعد وہاں بھی لُٹے پٹے شہریوں کی قطاریں دکھائی دیں۔ یہ قطاریں شہر سے فرار ہونے والوں کی نہیں، واپس آنے والوں کی تھیں۔ درجنوں شامی اور ترک رفاہی اداروں نے شہر کے مختلف حصوں میں پکا پکایا کھانا تقسیم کرنے کے مراکز قائم کردیے ہیں اور عوام بڑی تعداد میں واپس آکر اپنا اپنا گھر بار آباد کرنے کی کوششیںکرنے لگے ہیں۔

عِفرین میں اس ترک کارروائی نے گذشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ کا پردہ بھی چاک کردیا۔ ایک تو اس پہلو سے کہ عفرین میں پائے جانے والے ان سب دہشت گردوں کے پاس جو جدید اسلحہ بڑی مقدار میں پکڑا گیا وہ امریکا ہی کا فراہم کردہ تھا (شاید اسی لیے ان کے خلاف کارروائی سے روکا جارہا تھا)۔ دوسرے یہ کہ ترکی نے اپنی سرحدوں کے دونوں طرف جہاں بھی فوجی کارروائی کی وہ چند روز میں دہشت گردوں کے خاتمے پر مکمل ہوئی۔ عِفرین میں ۲۰ جنوری کو کارروائی شروع ہوئی اور۵۶ روز بعد ۱۸ مارچ کو مکمل ہوگئی۔ اہم سوال یہ سامنے آیا کہ آخر دہشت گردی کے خلاف جاری یہ امریکی جنگ کیسی ہے کہ سالہا سال جاری رہنے کے بعد بھی وہاں نہ صرف دہشت گرد اور ان کی دہشت گردی باقی رہتی ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے؟ ترک صدر طیب ایردوان نے ۲۵مارچ کو یہ بیان دہرایا ہے کہ ترکی کے خلاف سازشیں بند نہ ہوئیں تو ہم عِفرین کے بعد اپنی یہ کارروائیاں ملحقہ شہر منبج اور دیگر شہروں میں بھی جاری رکھیں گے۔ یقینا اب تک اس پالیسی نے مشکلات کے باوجود ترکی کو سرخرو کیا ہے۔ لیکن یہ کارروائیاں دودھاری تلوار ہیں۔ پہلے کی طرح اس کا مفید استعمال رہا، تو ترکی کو درپیش خطرات کا قلع قمع کرے گی۔ البتہ یہ خطرہ بھی درپیش رہے گا کہ کہیں خدانخواستہ ترکی کو بھی شام اور یمن میں جاری جنگ کی طرح کسی ایسی جنگ میں نہ اُلجھا دیا جائے کہ پھر اس سے باہر آنا سوہانِ روح بن جائے۔

اہلِ شام کا عزم:

۲۰مارچ کو استنبول میں الاخوان المسلمون شام کے سربراہ محمدحکمت ولید سے پوری صورتِ حال پر مفصل گفتگو ہوئی۔ ۷۴ سالہ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر محمد حکمت شام کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ۷۰کی دہائی سے اسد خاندان کے مظالم کا شکار رہی۔ عِفرین میں حاصل کامیابی اور الغُوطۃ الشرقیۃ میں جاری بدترین بمباری کا تجزیہ بھی کیا گیا۔ میں نے سوال کیا کہ آخر الغوطۃ الشرقیۃ میں تباہی کی حالیہ لہر کا اصل سبب ہے کیا؟ دکھی دل سے کہنے لگے: ’’بشار اور ان کے حلیفوں کا کہنا ہے کہ وہاں مسلح دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے‘‘۔ پھر بتانے لگے کہ ’الغُوطۃ‘ کے نام سے یہ علاقہ دمشق کے گردونواح میں واقع ہے جو مغربی اور مشرقی غوطہ  کہلاتا ہے۔ صرف مشرقی علاقے میں کئی قصبے اور دیہات واقع ہیں، جن کی کل آبادی ۲۰ لاکھ کے قریب تھی۔ گذشتہ سات برس کی بمباری کی وجہ سے اب یہ تعداد چار لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ بشار کی حالیہ بمباری جس مسلح دھڑے کے نام پر کی جارہی ہے، اس کا نام جبہۃ النصرۃ ہے جو یہاں القاعدہ کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ حقیقت تمام اطراف کو معلوم ہے کہ مشرقی غُوطہ میں موجود یہ گروہ صرف ۲۴۰؍ افراد پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی فوج چاہتی تو بآسانی اور کسی بڑے جانی نقصان اور تباہی کے بغیر ان پر قابو پاسکتی تھی، لیکن ہرآنے والا دن یہ ثابت کررہا ہے کہ ان کا خاتمہ نہیں، اس پورے علاقے کی مکمل تباہی مقصود ہے۔ غُوطہ کا یہ علاقہ بشار الاسد کے محل سے صرف ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بشار اور ایران کے نفوذ کے علاوہ یہاں روس اور امریکا کے نفوذ کا مقابلہ بھی ہورہا ہے۔ خطے کی تقسیم اور اپنے مستقل قیام کی خاطر دونوں فریق مختلف مشکوک اور سفاک مسلح گروہوں کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں اور شامی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے بشار الاسد کو بھی۔ بالآخر   اس پوری جنگ کا ہدف اسرائیل کا تحفظ اور اس کی سرحدوں میں توسیع ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے میں مسلم ملکوں کی باقی ماندہ قوت خاک میں ملاتے ہوئے ،ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔

اخوان کے سربراہ سے ملاقات کے بعد ترکی اور شام کی سرحد پر واقع مختلف مہاجر کیمپوں اور یتیم خانوں میں جانا ہوا تو پھولوں جیسے بچوں کی معصومیت نے خون کے آنسو رُلادیے۔ ان بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو اور ان بے سہارا خواتین کی جگہ اپنی خواتین کو رکھ کر دیکھیں، تو پتّہ پانی ہونے لگتا ہے۔ لیکن معصوم بچوں کی آنکھوں میں روشن قندیلیں اُمید کی شمع روشن کرتی ہیں۔ چوتھی کلاس کے ایک طالب علم کے ساتھ بیٹھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں پر یہ سب آزمایش کیوں آئی ہے؟ فوراً اپنے شامی لہجے میں بولا: مشان بشار، بِدَّو یبرُک علی الکرسی أحرق البلد کلہ بس بیروح قریب ھو واللی معہ، بشار کی وجہ سے، وہ کسی اُونٹ کی طرح کرسی سے چمٹے رہنا چاہتا ہے۔ اس نے سارا ملک راکھ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسے اور جو اس کے ساتھ ہیں بہرحال یہاں سے جانا ہے۔ میرے ذہن میں بشار کے حامیوں کا نعرہ گونجا جو انھوں نے سات سال پہلے لگایا تھا کہ: الاسد الی الأبد والانحرق البلد اسد تا ابد  ، وگرنہ سارا ملک بھسم کر دیں گے۔  اللہ عزیز و قدیر نے ان ظالموں کی رسی دراز کی ہوئی ہے، لیکن انھیں خبردار کرتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ بھی سنا دیا ہے کہ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ   (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

ارون دھتی راے نے خبردار کیا ہے کہ :Fascism,s firm footprint has appeared in India. Let us mark the date spring 2002 [ہندستان میں فسطائیت کا مضبوط نقشِ قدم ظاہر ہو چکا ہے جس کی تاریخ [بھارتی] گجرات میں ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی سے طے کی جانی چاہیے۔]

اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک میں فسطائیت کے عروج کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد، ہندستان میں فسطائیت کو پروان چڑھانے کے لیے پورے ماحول کو دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تقریباً چھے سو سالہ مسلمانوں کی حکومت ، ڈیڑھ سو سالہ انگریزی سامراجیت (جسے بھارتی فسطائی طاقتیں ، عیسائی حکومت بنا کر پیش کرتی ہیں )،۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے دوران نسلی فسادات کا ایک طویل سلسلہ، بھارت اور پاکستان کا ایک نیو کلیر طاقت کی حیثیت سے موجود ہونا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ وجدل اور دشمنی ، ہندستان میں تقریباً ۲۰کروڑ مسلمانوں پر اپنی آبادی میں اضافے (Population explosion) کا الزام، عیسائیوں کی تقریباً ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام، مسئلہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پر ایک تحریک کا وجود القاعدہ اور داعش، جیسی خوف ناک تنظیموں کا خطرہ اور سب سے بڑھ کر عالمی سطح پر’ اسلام فوبیا‘ کی موجودگی___ یہ ایسے اسباب وعوامل ہیں، جو اس ملک میں فسطائیت کی پرورش کے لیے معاون قرار دیے جارہے ہیں، اور جن کا استعمال ’ہندوتوا‘ پر مبنی جماعتیں اپنے مقاصد وعزائم کی تکمیل کے لیے کر رہی ہیں۔

خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہندستان میں نسل پرست فسطائی طاقتوں اور خوش حال اور درمیانی کاروباری گھرانوں میں زبردست تال میل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لہٰذا ، ذرائع ابلاغ جن پر کاروباری گھرانوں کو تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہے، وہ فسطائی نظریات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر پورے ہندستان میں ایک خوف ناک دشمنی کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ ایک خاص قسم کا ’قومی ضمیر ‘ (National Conscience )تیار ہو چکا ہے۔ جس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں پر زیادتیوں کے لیے ایک قسم کی ’عمومی قبولیت‘ (Mass approval ) نظر آتی ہے۔ دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے صریحاً جھوٹے الزام میں جس طرح محمد اخلاق کا بے رحمی سے قتل کیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوںمیں گوشت کا کاروبار کرنے والوں اور مویشی سپلائی کرنے والوں پر جس طرح زیاتیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس ہسٹیریائی ماحول کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

دوسری طرف عیسائیوں کے اداروں اور ان کے اہل کاروں پر حملے تیز تر ہو گئے ہیں۔ محروم طبقات، مثلاً دَلت، قبائلی لوگوں اور عورتوں پر بھی فسطائی نظریات کے تحت ظلم وزیادتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے اوائل میں حیدر آباد سینٹرل یونی ورسٹی میں ایک دَلت طالب علم روہیت ویمولا کی خود کشی بھی اس امر کا ثبوت ہے۔ یہ تمام باتیں اشارہ کرتی ہیںکہ ہندستان میں فسطائیت کا خطرہ حقیقی ہے جس کی دستک اور لہر تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

فسطائیت کے عروج کے عوامل:

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ فسطائیت کے عروج کے عوامل بھارت میں کس حد تک موجود ہیں اور فسطائی تحریک کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اہم نکات پر نظر ضروری ہے، جو درج ذیل ہیں:

پروپیگنڈا فسطائیت کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ لہٰذا فسطائی طاقتوں کو پروپیگنڈا کرنے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ان کے پاس ایسے منظم کارکنان ہونے چاہییں، جو کسی بھی جھوٹ یا ادھوری سچائی کو لوگوں میں سچ بنا کر پیش کریں اور سراسیمگی، خوف وہراس کا ماحول پیدا کریں۔ نازی جرمنی میں وزیر براے پروپیگنڈا جوذف گویبلز (Joseph Goebbls) کہا کرتا تھا: If you repeat a lie often enough, it becomes the truth (اگر تم کسی جھوٹ کو بار بار بولو تو وہ سچ بن جاتا ہے)۔

ہندستان میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کے پاس ایسے بے شمار کارکنان موجود ہیں، جو اقلیتوں، محروم طبقات، مسلم دینی اور سوشلسٹ سیکولر جماعتوں ، امن پسند ہندوئوں کے خلاف پروپیگنڈا میں مہارت رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں گہرے اثرونفوذ کے باعث جو پوری طرح چھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ: ’’یہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مجرم ہیں، کیوں کہ یہ مسلمان ’ہم پانچ ہمارے پچیس ‘ پر یقین رکھتے ہیں‘‘___یہ پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے مگر اس پر ملک کی ایک بڑی آبادی یقین رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ ایک مسلمان چارشادیاں کرتا ہے اور ایک بیوی سے اس کے گن کر پانچ بچے پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ایک مسلمان مرد کی فیملی ۲۵؍ افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’’مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو بہت جلد وہ ہندستان میں اکثریت میں آجائیں گے‘‘۔

حالاں کہ اس پروپیگنڈے کو عام عقلی بنیادوں (common sense ) پر ہی مسترد کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر مسلمانوں میں عورتوں اور مردوں کی شرح برابر بھی مان لی جائے تو ایک مرد کو شادی کے لیے ایک عورت اپنی قوم سے مل جائے گی، لیکن بقیہ تین عورتیں دوسری قوموں سے حاصل کرنی پڑیں گی۔ تاہم، مردم شماری بتاتی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کم ہے۔ ایسی صورت میں دوسری قوموں کے کم از کم ۵۰ فی صد لوگ غیرشادی شدہ رہ جائیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ سامنے کے حقائق بھی ذرائع ابلاغ یا دانش ور پیش نہیں کرتے اور مسلمانوں کو ’لَو جہاد‘ کے الزام میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی ’گھر واپسی‘[یعنی دوبارہ ہندو بنانے] کی کوشش کی جاتی ہے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر تنیکا سرکار صاحبہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے، ۲۰۰۲ء میں گجرات نسل کشی کے دوران میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ کیا ہے۔ تنیکا سرکار کے مطابق : ’’مسلمان مردوں میں بھرپور جنسی توانائی اور مسلمان عورتوں کی زرخیزی سے متعلق ایک گہرا افسانوی نوعیت کا جنسی جنون (obsession)پیدا کیا اور پھیلایا گیا ہے، جو مسلمانوں کی آبادی سے متعلق خوف وہراس اور   ردِعمل میں انتقام اور خونخواہی [revenge] کے جذبے کو جنم دیتا ہے ۔ گجرات نسل کشی کے دوران عورتوں پر ہونے والے ایک ہی نوعیت کے وحشیانہ مظالم (pattern of cruelty)کو  پیش کرتے ہوئے تنیکا سرکار کہتی ہیںکہ: ’’فسادات میں انتہاپسند ہندو بلوائیوں کا شکار ہونے والی مظلوم مسلمان عورتوں کے جسم جنسی تشدد کے لامحدود نشانات کی آماج گاہ تھے، جس پر نت نئی قسم کی اذیتوں کے گھائو دیکھے جاسکتے تھے۔ ان عورتوں کے جملہ جنسی اعضا خاص قسم کی وحشت کے ساتھ نشانہ بنائے گئے اور ان کے مولود یا نومولود بچوں نے ان درد ناک اذیتوں کو اپنی مائوں کے ساتھ جھیلا ۔ ان کی مائوں کو ان کے سامنے مارا گیا اور بچوں کو مائوں کے سامنے اذیتوں اور سفاکیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا۔

پروفیسر تینکا سرکار کہتی ہیں کہ: ’’اجتماعی تشدد کے تجزیے میں زنا بالجبر کو کسی قوم کی اجتماعی رسوائی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ گجرات پریس نے ۸۰ ہندو عورتوں کے قتل کی یہ ایک من گھڑت کہانی پھیلائی کہ ’سامبر متی ایکسپریس‘ میں قتل سے پہلے ان ہندو عورتوں کی آبروریزی کی گئی۔ یہ ایک ایسا بے معنی پروپیگنڈا تھا، جس نے مسلمان عورتوں کے خلاف ظلم کی شدت کو بڑھاوا دیا ۔ طوفان گزرجانے کے بعد اس کہانی کو خود گجرات پولیس نے بھی سرے سے من گھڑت اور جعلی قرار دیا‘‘۔ (مگر اب اس کا کیا فائدہ تھا؟)

رابرٹ اوپیکسٹن نے لکھا ہے کہ فسطائی طاقتوں کو ایک ’وحشت ناک دشمن‘ (Demonized  Enemy) کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے خلاف اپنے کارکنان اور مقلدین کو منظم ہونے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن یقینا دشمن کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہر کلچر   اپنے اپنے قومی دشمن خود طے کرتا ہے۔ 

پیکسٹن کے مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں گولوا لکر کے نزدیک ’اندرونی دشمن‘ (مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ ) کا ہوّا کھڑا کرنے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دنوں خاص طور پر سوشل میڈیا پہ    خود بھارت کے قومی رہنمائوں گاندھی، نہرو وغیرہ کو ہدف ملامت بنایا جارہا ہے اور اس کے مقابلے میں صبر اور عدل کی بات کرنے والے بھلے لوگوں کو بھارتی اکثریتی عوام کا مخالف بلکہ دشمن بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اور یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔

جہاں تک تخیلاتی ’وحشت ناک دشمن‘ کا تعلق ہے، تو مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا جاری ہے۔ سنگھ پریوار جس میں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل ، درگا واہنی، اور اس طرح کی تقریباً ساٹھ جماعتیں شامل ہیں، وہ سب اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زبر دست پروپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ وشوا ہندو پریشد نے احمدآباد اور مضافات میں مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا اشتہار جاری کیا ہے، جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:

وشواہندو پریشد، ستیم شیوم سندرم

جاگو! اٹھو! سوچو!ملک بچائو! مذہب بچائو!

معاشی بائیکاٹ ہی واحد مؤثر ذریعہ ہے۔ ملک دشمن عناصر، ہندوئوں سے کمائی ہوئی دولت کا استعمال ہمیں برباد کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ ہتھیار خریدتے ہیں اور ہماری عورتوں اور بچیوں کی عصمتیں لوٹتے ہیں۔ ان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کا طریقہ ہے، ایک معاشی عدمِ تعاون کی تحریک ۔

آئو عہد کرو:

  1. آج کے بعد میں کسی مسلمان کی دکان سے کچھ نہیں خریدوں گا اور نہ انھیں کچھ بیچوں گا۔
  2. ان ملک دشمن لوگوں کے ہوٹلوں اور گیراجوں کا استعمال نہیں کروں گا۔
  3. اپنی گاڑیاں صرف ہندو گیراجوں میں دوںگا، ایک سوئی سے سونا تک۔
  4. میں مسلمانوں کے ذریعے بنائی ہوئی اشیا نہیں خریدوں گا اور نہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں انھیں بیچوں گا۔
  5. ان فلموں کا بائیکاٹ کرو، جن میں مسلمان ہیرو اور ہیروین کام کرتے ہیں۔
  6. مسلمانو ں کے دفاتر میں کام مت کرو اور نہ انھیں اپنے یہاں کام دو۔
  7. اپنے تجارتی مراکز میں نہ انھیں جگہ خریدنے دو اور نہ اپنی رہایشی کالونیوں میں انھیں جگہ دو۔
  8. ووٹ ضرور دو ،لیکن صرف اسے جو ہندو راشٹر کی حفاظت کرے۔
  9. ہوشیار رہو! اسکولوں ، کالجوں اور ملازمت گاہوں پر ہماری بہنیں اور بیٹیاں مسلمانوں کی محبت کے جال سے محفوظ رہیں۔
  10. میں کسی مسلمان استاد سے کوئی تعلیم کبھی نہیں لوں گا۔

اس طرح کا معاشی بائیکاٹ ان عناسر پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گا۔ یہ ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دے گا۔ اس کے بعد ان کے لیے اس ملک کے کسی بھی کونے میں رہنا دشوار ہو جائے گا۔ دوستو! اس معاشی بائیکاٹ کو آج ہی سے شروع کر دو۔ اس کے بعد کوئی مسلمان ہمارے سامنے سر نہیں اُٹھائے گا۔ کیا آپ نے یہ اشتہار پڑھا ہے؟ اس کی دس کاپیاں بنا کر ہمارے بھائیوں میں تقسیم کرو۔ جو لوگ اسے نافذ اور تقسیم نہ کریں ان پر ہنومان جی کا قہر اور رام چندر جی کا عتاب نازل ہو۔

جئے شری شری رام، ایک سچا ہندو وطن پرست 

عیسائی رفاہی اور تعلیمی اداروں کے خلاف یہ تنظیمیں زبردست پروپیگنڈے کا جال بچھاتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر عیسائیوں کے ادارے اور ان کے مشنری کارکنان، سنگھ کے نشانے پر رہتے ہیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں عیسائی مشنری کارکنان کو اپنے مشنری کاموں میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۱۹۹۹ ء میں اڑیسہ کے منوہر پور گائوں (ضلع کیونجھر Keonjhar) میں آسٹریلیا کے عیسائی مشنری گراہم اسٹینسن کو، جوکوڑھ کے مریضوں کے درمیان خصوصی طور پر کام کرتے تھے اور جو اڑیسہ کے قبائلی علاقوں میں کافی مقبول تھے، انھیں ان کے دوبچوں کے ساتھ بجرنگ دل کے ورکرز نے داراسنگھ کی قیادت میں زندہ جلا دیا۔ ۲۰۰۸ء میں اڑیسہ کے ہی کندھمال میں عیسائیوں پر اکثریت نواز ہندوئوں نے قہر برپا کیا اور کئی عیسائیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عیسائی عورتوں کی بے دریغ آبروریزی، چرچوں کو جلانے وغیرہ جیسے روح فرسا مناظر دیکھنے میں آئے۔ 

’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے ایک جارحانہ اکثریت پسند قوم پرستی کو پروان چڑھانا اور پھر ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنا جس میں ’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف زیادتیوں اور مظالم کے لیے عوامی تائید (Mass approval )حاصل ہو جائے، فسطائی طاقتوں کا اہم مقصد ہوتا ہے۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندستانی معاشرہ ایک خاص قسم کا شعور رکھنے والے گروہ کو بھی جنم دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کی تعداد شروع میں بہت کم تھی، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ گروہ اقلیتوں پر مظالم کو بڑھاوا دیتا ہے اور ایسے وحشیانہ مظالم ڈھانے والوں کو تحفظ دے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء میں مسلمانوں پر جو زیادتیاں ہوئیں اس کی مثال مہذب دنیامیں بہت کم ملتی ہے۔ مثال کے طور پر وشوا ہندو پریشد کا اشتہار جس پر اس تنظیم کے گجرات کے جنرل سکریٹری چینو بھائی پٹیل کے دستخط ہیں، کھلے عام تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس اشتہار میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ’’ہم مسلمانوں کی اسی طرح ختم کر دیں گے جس طرح بابری مسجد کو ‘‘۔ اس کے بعد ایک انتہا درجے کی فحش (vulgar)نظم درج ہے۔

’دہشت گردی‘ کا نام لے کر مسلمانوں کی گرفتاریاں، اسلام اور تشدد کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا، اور یہ کہنا کہ: ’اگر سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں تو سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں‘۔ زعفرانی دہشت گردی کو مسلم دہشت گردی کا ردعمل بتانا وغیرہ بھی فسطائی طاقتوں کی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ چوں کہ فسطائی طاقتوں کو ہرلمحے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی حقیقی دشمن نہیں ہے تو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک دشمن ایجاد کر لینا ضروری ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس ، مالیگائوں بم دھماکوں، مکہ مسجد اور اجمیر شریف بم دھماکوں میں زعفرانی دہشت گردوں کی شمولیت اور گرفتاریاں ثابت کر چکی ہیں کہ ان تمام بم دھماکوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان معصوم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بارے میںملک کی خفیہ ایجنسیاں اور ریاستی پولیس من گھڑت کہانیاں بنا کر ایک پوری قوم کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کر رہی تھیں۔

عجیب با ت یہ ہے کہ ناندیر اور کانپور میں بجرنگ دل کے پارٹی دفاتر اور لیڈروں کے گھروں سے خودکار آتشیں اسلحہ جات اور دھماکہ خیز مواد کا ذخیرہ پکڑا گیا۔ وہاں ٹوپیاں اور نقلی داڑھیاں بھی پائی گئیں، لیکن ذرائع ابلاغ نے ا س پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر ہیمنت کرکرے جیسا قابل اور ایمان دار افسر نہ ہوتا تو شاید زعفرانی دہشت گردی بدستور مسلمانوں کے سر ہی منڈھی جاتی رہتی۔

اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت کے داخلہ سکریڑی جی کے پیلانی نے کہا تھاکہ: ’’زعفرانی دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن ملک میں اس کا دائرہ محدود ہے‘‘۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دہلی میں ہونے والی ریاستی پولیس سربراہان ، خفیہ ایجنسیوں وغیرہ کی میٹنگ میں زعفرانی دہشت گردی سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی۔ چدمبرم کے بعد وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز سنیل کمار شنڈے نے کہا کہ جے پی اور آر ایس ایس اپنے ٹریننگ کیمپوں میں ’ہندو دہشت گردی‘ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

فسطائی طاقتیں تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ پراپنا مکمل کنٹرول رکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سماجی علوم اور بطور خاص تاریخ کے نصاب پر زبردست توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ہندستان میں جاری Saffronisation of Education (تعلیم کی زعفرانیت، یعنی ہندو انتہاپسندانہ تعلیم) کا منصوبہ اس لیے بہت ہی اہم ہے۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں سینئر لیڈر اور وزیر براے فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ نے راجیہ سبھا میں بی جے پی کی قیادت میں چلنے والی نصابی کتابوں میں تبدیلی کی تحریک کو ’طالبانی تعلیم‘ کہا تھا۔ جس پر بی جے پی نے واویلا کھڑا کیا اور ارجن سنگھ سے الفاظ واپس لینے کو کہا۔ لیکن بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف (راجیہ سبھا میں ) بیٹھے ہوئے ممبران فسطائی بھی ہیں اور طالبانی بھی۔

ہندستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ رہتی ہے۔ چوں کہ پاکستان ایک ہمسایہ مسلم ملک ہے، اس لیے فسطائی طاقتوں کو ہندستانی مسلمانوں کا رشتہ پاکستان سے جوڑ کر اکثریت کی نگاہوں میں ملک کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر مسلمانوں کے بعض غیر ذمہ دار لیڈر اور ٹیلی ویژن پر بلائے جانے والے کم عقل دانش ور پوری کر دیتے ہیں۔

فسطائی طاقتوں کو اس دن پوری کامیابی حاصل ہو جاتی ہے، جب وہ اکثریت میں اقلیت کا خوف بٹھا کر اسے خود اقلیت کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ میڈیا کنٹرول کے ذریعے اور مختلف دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد سے سنگھ پر یوار نے ہندو اکثریت کے ایک بڑے طبقے کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ وہ اقلیتوں کی طرح سوچنے لگے ہیںاور انھیں مسلمانوں اور عیسائوں سے اس ملک میں ’ہندومت کو خطرہ ‘ درپیش لگنے لگا ہے۔ زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اس پروپیگنڈ ا سے صرف عام لوگ متاثر نہیں ہیں بلکہ نیوز روم میں بیٹھے ہوئے افراد ، یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ اور سرکاری افسران ، عدالتوں میں بیٹھے جج اور وزراے حکومت، بہت سارے لوگ اس منفی نظریے پر یقین کرنے لگے ہیں۔ تاہم، اس پروپیگنڈا کو چیلنج کرنے والے لوگ بھی مختلف اداروں اور معاشرے میں موجود ہیں۔

ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندستان میں فسطائیت نے دستک دے دی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں مدمقابل جماعتوں کی شکست اور ووٹوں کا انتشار ایک تشویش ناک صورتِ حال سامنے لایا۔ حکومت میں ایسے افراد کا شامل ہونا جن کے اوپر نسل پرستی اور اقلیتوں کے قتلِ عام کا الزام ہے، وزراے حکومت کے بیانات جو خوف ناک حد تک غیرذمہ دارانہ ہیں۔ مسلم مکُت ’بھارت ‘کی تحریک کا اعلان کرنا اور عدالتی فعالیت کا خاموش رہنا، گئورکھشا آندولن کے نعروں کے جلو میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنا، سیاسی سطح پر حزبِ اختلاف کا کمزور ہونا لمحۂ فکریہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطرے کی گھنٹی بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ جرمنی اور اٹلی میں فسطائی طاقتوں کے عروج کا تاریخی شعور رکھتے ہوئے اور ان ممالک کے انجام کو دیکھتے ہوئے بھارت کے دانش ور اور لیڈرحضرات، عوام کو فسطائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے آگاہ کر کے ہوشیار اور بیدار کریں۔

ان تمام باتوں کے باوجود اُمید کی کرن نظر آتی ہے۔ ہندستان کا معاشرہ ایک تکثیری معاشرے کی تاریخ رکھتا ہے۔ جہاں مختلف مذاہب ، زبان، ثقافت اور ذاتوںکے لوگ رہتے چلے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہندو اکثریت میں ایک بہت بڑا طبقہ قتل اور خون کی سیاست کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ اعزازات کی واپسی کی تحریک اس بات کا ثبوت ہے ۔ پھر دلتوں، آدی واسیوں، پس ماندہ طبقات، جیسی سماجی تحریکیں فسطائی طاقتوں کو قدم قدم پر روکتی رہتی ہیں۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے بھی حفاظتی اقدامات کے لیے کئی صورتوں میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہندستان میں فسطائی طاقتیں بہت آسانی سے ملک اور سماج پر پوری طرح حاوی نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جانب اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان طاقتوں کے عروج کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ لیکن اگر اقلیتیں دوسرے محروم طبقات، مثلاً دَلت، پس ماندہ، اور قبائل کے ساتھ مل کر پُرامن مگر منظم جدوجہد کریں، تو فسطائیت کے اس طوفان کو روک سکتی ہیں۔ (مکمل)

حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔

ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔

فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔

جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)

عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)

۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)

فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)

فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)

جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو    اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔ گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔

خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)

اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)

تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم --- کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)

فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:

  1. وزیرِ اعظم کی تشکیل کردہ بین الوزارتی کمیٹی ’’ویب سائٹس پر چوکس نظر رکھے گی اور قابلِ اعتراض مواد کے فتنۂ شہود پر آنے کی صورت میں فوری ایکشن لے گی‘‘۔
  2. آئی سی ٹی ڈویژن کے کرائسز سیل ایسے مواد کا سراغ لگانے اور متعلقہ ویب سائٹس URL کی بلا تاخیر بندش میں کوتاہی یا غفلت کے خلاف سخت قانونی اقدام کیا جائے۔
  3. حکومت اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں جذبے سے اٹھائے ، تا کہ بین الاقوامی سطح پر قانون سازی ہو سکے۔
  4. اس مسئلے کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں بھی اجاگر کیا جائے۔
  5. غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹس کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے۔ (ایضاً،ص۱۹۹-۲۰۰)

فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)

فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔

فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :

میں نہ زاہد ، نہ مجاہد،  نہ مفسر ، نہ حکیم

میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی

کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے

آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی

’ناموسِ رسالت ؐ  ، جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے ، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصوّر کی جائے گی۔ (ناموسِ رسالت ؐ : اعلٰی عدالتی فیصلہ، از جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، مرتب : سلیم منصور خالد۔ ناشر:منشورات منصورہ لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۳۴۸۔ قیمت:۴۸۰ روپے )

اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی شناخت

سوال :

  1. کیا اسلامی ریاست کوئی ایسا قانون وضع کرسکتی ہے کہ جس سے کسی غیرمسلم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ بطورِ مسلم تصور اور شناخت کیا جائے؟
  2. کیا اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس امر کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطورِ مسلم ظاہر یا پیش کریں؟
  3. اگرکوئی غیرمسلم، اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائے تو اس کا یہ فعل کس تعریف میں آئے گا؟
  4. اگر درج بالا سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ریاست کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
  5. کیا اسلامی ریاست کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہو، اور اس حوالے سے ایک مؤثر اور جامع طریق کار وضع کرے؟
  6. کیا کسی شہری کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں معلوم کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ضمن میں آتا ہے؟

جواب :

اسلامی ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے انسانی حقوق کی ضمانت دے اور رنگ، نسل، علاقہ یا مذہب کی بنیاد پر ان کے درمیان کوئی تفریق روا نہ رکھے۔ چنانچہ اس کی حدود میں رہنے والے غیرمسلم بھی اپنے تمام بنیادی انسانی حقو ق سے بہرہ ور ہوتے ہوئے اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے اور انھیں اپنی شناخت کو چھپانے کی ضرورت نہ ہوگی کہ اپنا نام، لباس یا ظاہری ہیئت مسلمانوں جیسی کرکے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کریں، بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کو مسلمانوں کی شکل و شباہت اختیار کرنے سے روکے گی، تاکہ وہ بعض ان پابندیوں سے آزاد رہ سکیں جو مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں اور جن کی خلاف ورزی کی صورت میں مسلمان تنبیہہ اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔

اس بنیادی اور اصولی بات کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:

  1. اسلامی ریاست کوئی ایسا قانون وضع کرسکتی ہے، جس میں اس بات سے روکا گیا ہو کہ کسی غیرمسلم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلم تصور اور شناخت کیا جائے اور اس کی شناخت مسلمان کی ہو۔
  2. اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو بہ طور مسلم ظاہر یا پیش کریں۔
  3. اگر کوئی غیرمسلم اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائے، تو اس کا یہ فعل ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کی تعریف میں آئے گا۔
  4. اگر اسلامی ریاست میں غیرمسلم یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو ریاست اس کی تنبیہہ و تعزیر کے لیے قانون وضع کرسکتی ہے۔
  5. اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں مکمل طور سے آگاہ ہو اور اس کے لیے مؤثر اور جامع ضابطۂ کار وضع کرے۔
  6. کسی شہری کے مذہب اور مذہبی عقائد کے بارے میں معلوم کرنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے، البتہ مذہب کی بنیاد پر اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا غلط ہے۔

اس موضوع پر فقہی اور قانونی تفصیلات کے لیے کتب ِ فقہ کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ہماری کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق میں ذمیوں سے متعلق بحث میں اس طرف بنیادی اشارے کیے گئے ہیں۔ (مولانا  سیّد جلال الدین عمری، نئی دہلی)

سوالات کے جوابات علی الترتیب درج ذیل ہیں:

  1. حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسا قانون وضع کرے جو غیرمسلم کو بلاواسطہ یا بالواسطہ، بطورِ مسلم پیش کرنے سے روکے۔ قرآنِ پاک اور احادیث نبویؐ اس قانون کی اساس پر واضح طور پر دلالت کرتے ہیں۔
  2.  اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو بطورِ مسلم ظاہر کریں، کیوں کہ یہ دھوکا ہے اور اسلام دھوکا دہی کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دیتا۔
  3. اگر غیرمسلم اپنے آپ کو مسلم کے لبادے میں چھپائیں، تو یہ فعل ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کے دائرے میں آئے گا اور اس پر انھیں تعزیری سزا دی جائے گی، جو عدالت کی صواب دید پر ہوگی۔ چاہیے یہ کہ عدالتوں کی سہولت کے لیے قانون بنا دیا جائے جس میں تعزیری سزا ’بدنی‘ اور قید متعین کردی جائے۔
  4. ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں محکمۂ پولیس کو چوکس رکھے اور مجرموں کو گرفت میں لانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔
  5. اس سلسلے میں حکومت مؤثر قانونی تدابیر اختیار کرے، جس سے وہ تمام شہریوں کے مذہب سے آگاہی حاصل کرتی رہے۔
  6. کسی شہری کے مذہب کے بارے میں معلوم کرنا بنیادی حقوق کاتقاضا ہے، اس لیے کہ بعض حقوق کا تعین مذہب کی بنیاد پر ہوگا، واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک،لاہور)

مشکل حالات میں زکوٰۃ و صدقات کا دینی تعلیم پر خرچ

سوال :

یورپ کے جس ملک میں ، مَیں رہ رہی ہوں وہاں مسلمانوں کو ریاستی، سماجی اور حکومتی سطح پر بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ خصوصاً مسلمان خواتین اور طالبات کو بڑی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔مسلمانوں کی نئی نسل میں طالبات اور نوجوان لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے وہاں باقاعدہ رجسٹرڈ ادارہ قائم کیا گیا ہے، لیکن مالی وسائل کی فراہمی کے لیے سخت دشواری درپیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جملہ احتیاطوں کے ساتھ ہم زکوٰۃ و صدقات کو مذکورہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے کے لیے جمع اور خرچ کرسکتے ہیں؟

جواب :

آپ نے یورپ کے جس ملک میں درپیش تکلیف دہ حالات کے بارے میں دریافت کیا ہے اس کا حال معلوم کرکے سخت دُکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ایمان اور استقامت کی دولت عطا فرمائے۔

عرض یہ ہے کہ آپ کے اُس ملک کے مخصوص حالات میں ، وہاں مسلم بچیوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت پرعام عطیات اور صدقات نافلہ خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم، زکوٰۃ کا الگ سے حساب رکھا جائے، تاکہ اس سے وہی بچے استفادہ کرسکیں، جو معاشی اعتبار سے کم زور اور زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔(مولانا عبدالمالک)

کھانے کا ایک ادب

سوال :

ایک حدیث کامفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصّےکیے جائیں: ایک کھانے کے لیے، دوسرا پینے کے لیے، تیسرا خالی رکھاجائے۔ آج کل ڈاکٹر حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ  اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیں؟

جواب :

حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَامَلأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرّاً مِّنْ بَطْنٍ، بِحَسبِ ابْنِ آدَمَ اُکَیْلاَتٌ یَقُمْنَ صُلْبَہ‘، فَاِنْ کَانَ لَا مُحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہ وَثُلُثٌ لِنَفْسِہ (ترمذی: ۲۳۸۰، ابن ماجۃ:۳۳۴۹، صحیح ابن حبان:۵۲۱۳)کسی آدمی نے پیٹ سے برابرتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔

علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل  میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیثِ نبویؐ میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پُری سے روکا گیاہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیار خوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کااس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتاہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھانا کھائے۔

کھانا کھانے کے دوران یا اس سے فارغ ہوتے ہی فوراً پانی پینا طبی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ معدہ سے ایسے افرازات (secretions)خارج ہوتے ہیں جو ہضمِ غذا میں معاون ہوتے ہیں۔ کھانا معدے میںپہنچتاہے تو وہ افرازات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کھانا درست طریقے سے جلد ہضم ہوتاہے۔ کھانے کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانی پی لینے سے ان افرازات کی تاثیر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے نصف گھنٹے کے بعد پانی پیاجائے۔

مذکورہ بالاحدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیاگیاہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبّی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔(مولانا رضی الاسلام  ندوی)

قرآن، اسلامی ریاست اور مولانا مودودیؒ

سوال :

مولانا مودودی ؒ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ  [یوسف۱۲:۶۷]اور دوسری آیات سے حاکمیت الٰہیہ کا جو سیاسی نظریہ پیش کیا ہے، یہ درست نہیں ۔ وہ تمام آیات جن سے مولانا مودودی استدلال کرتے ہیں ان سے تکوینی نظام مراد ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور یہ ہر شخص کی نجی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی اس مذہب کو تسلیم کرے ۔

جواب :

مولانا مودوی ؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  نے عالمِ اسلام میں جو فکری انقلاب برپا کیا ہے، اس پر اب عالم اسلام کے علما اور مفکرین کا اجماع ہو گیا ہے۔اسلام کی اس تعبیر سے اہل مغرب بہت پریشان ہیں ۔ وہ عالم اسلام کے بعض فکری منحرفین سے ایسی کتابیں اور مقالات لکھواتے ہیں، کہ جن سے مولانا مودودی کی جانب سے تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظریے اور اسلامی جمہوری انقلاب کے نظریے اور اسلامی جہاد کے نظریے کی نفی ہوجائے۔ 

یہاں پر سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نظریہ کوئی مولانا مودودی کا ذاتی حیثیت میں وضع کردہ نظریہ نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے چند آیات کی صرف لغوی تشریح کردی ہو۔ مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات کی تشریح کی پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلافت راشدہ کے قیام کی تمام عملیات کھڑی ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تصریحات بھی اس کے لیے شاہد عادل ہیں ۔ مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان کے علاوہ انھوں نے اپنی کتاب سیرت سرور عالمؐ میں بھی استدلال کیا ہے اور قرآن کی   بے شمار تعبیرات اور سنت کی لا تعداد تصریحات سے بھی دلائل و نظائر کو پیش کیا ہے ۔ ان میں سے اہم تصریحات یہ ہیں:

  1. مثلاً اگر آپ سورۂ قصص آیت ۵ کامطالعہ کریں: وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ (القصص ۲۸:۵)’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور ان ہی کو وارث بنائیں‘‘۔اگر مذہب کے اندر امامت کا کوئی دخل نہیں ہے تو اللہ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا، یہ کہنا کہ جب لوگ ایمان قبول کریں گے تو خود بخود اسلامی نظام قائم ہو جائے گا محض تکلف ہے۔اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ ہمارا ارادہ اور حکم یہ تھا کہ غریب عوام کی امامت قائم ہواور پیغمبروں نے اس پر عمل کیا۔
  2. اسی طرح سورئہ مائدہ آیات ۴۴ تا ۵۰ کا بغور مطالعہ کریں ۔ تمام اولوالعزم پیغمبروںؑ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نظام عدل قائم کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں۔ پھر سخت تنبیہ کی گئی کہ اگر تم عدل نہیں کرو گے تو تم ظالم ہو گے ، فاسق ہوگے اور کافر ہو گے۔ اس سے تکوینی احکام مراد نہیں کہ تم بارشیں بر سائو اور زلزلے برپا کرو ۔ ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ کیا قرآن میں حضرت دائود علیہ السلام کے نظام عدل اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور حکومت کے قصے آخر ویسے ہی تو بیان نہیں کیے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے تمام انبیاؑ دعوت اور کام کے اعتبار سے ’سیاسی لوگ‘ تھے اور احادیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ  (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر فی بنی اسرائیل، حدیث: ۳۲۸۶) بنی اسرائیل کے سیاسی امام بھی انبیاء تھے)۔ تعجب ہوتاہے کہ ان منحرفین کو کس طرح یہ غیرعقلی شبہہ لاحق ہو گیا ۔ کیا انھوں نے سیرتِ رسولؐ اور سیرت انبیا علیہم السلام نہیں پڑھیں؟

  3. اس میں شک نہیں کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے اور اس نے مسجد کی تعمیر اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اسلام مسجد تک محدود ہے بلکہ اسلام نے تو پوری زمین کو مسجد بنایا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسجد جہاد کا سنٹر ہوگا اور فرمایا کہ مسجد کی خدمت کرنے کا ثواب تو ہے، لیکن یہ خدمت بہرحال اقامت ِ دین کے لیے زندگی بھر کی ہمہ پہلو جدوجہد سے بڑا درجہ نہیں رکھتی ۔ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسلامی جہاد اور انقلاب کی راہ میں اگر تجارت اور مالی سر گرمیاں حائل ہوں یا تمھاری قومیت حائل ہو تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرو۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سب سے پہلے نظریۂ جہاد پر قلم اٹھا یا اوریہ بتایا کہ جہاد اسلامی انقلاب کا اصل ستون ہے ۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاد سے بھی پہلے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کا کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اسلام سے حکومت کا باب نکال کر کچھ اور منہاج بنانا چاہتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے ایک بڑے حصے کو منسوخ کر رہے ہیں اور سنت اور سیرتِ رسولؐ  اور سیرتِ صحابہؓ سے صریح انکار کرتے ہیں۔

  4. اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیات ۱۰ تا ۱۷ پر غوروفکر کی دعوت دے رہا ہوں۔ ان کا خلاصہ (مفہوم) یہ ہے کہ ہم نے ایک کتاب اتاری جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے۔ ہم نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور ان میں انسانوں کی تخلیق اور ان کا عروج و زوال محض کائناتی اور تکوینی کھیل تماشا کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہاں حق و باطل کی ایک کش مکش ہے ۔ ہم حق کو باطل پر ایک بم کی طرح پھینکتے جو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور جس سے ظالم اقوام کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں اور ہم نے ان کے نظام کی جگہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ آیات خالص اقوام کے عروج و زوال اور عادلانہ نظام کے بارے میں ہیں ۔ سائنسی اعتبار سے تو یہ کائنات پہلے سے عادلانہ اصولوں پر چلتی ہے ۔ کوئی ستارہ دوسرے پر ظلم نہیں کرتا ۔ سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ یوں تکوینی اعتبار سے کائنات پوری ہم آہنگی سے چلتی ہے۔

  5. پورے قرآن کریم اور سنت رسولؐ میں تذکیر و تبشیر کے ساتھ جرائم اور ان کی سزائوں کا ذکر بھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت میں جرم و سزا کا تصور نہیں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو پھر اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کیں ہیں ؟ میں نے مصرکے فقیہ ڈاکٹر عبد العزیز عامر کی ایک کتاب مولانا مودودی کی ہدایت پر ترجمہ کی تھی ۔ اس کے حصہ اول پر مولانا مودودی ؒ نے خود نظرثانی کی۔ یہ کتاب اسلام کا قانونِ جرم و سزا  کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔جو لوگ اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں ، سول کوڈ،کریمینل کوڈ اور معاشی نظام، مثلاً حرمت سود کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ وہ سرے سے اسلام سے وابستگی کا انکار کر دیں، اللہ ہمیں ہدایت دے کیوںکہ ہم بدیہیات کا انکار کرتے ہیں۔

  6. سورۃ الفرقان کی آخری آیات ۶۳ تا ۷۷  میں عباد الرحمٰن، یعنی نبی آخر الزماںؐ اور  صحابۂ کرامؓ کا جو پروگرام دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کن خصوصیات کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان آیات کے آخر میں ان کی یہ دعا نقل فرمائی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاکہ(ہمیں ایسی متقی سوسائٹی کا امام بنا) ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر معاشرہ متقی نہ ہو اور وہ اصلاح نہ چاہتا ہو تو صرف حکمران ڈنڈے کے زور سے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ قیامت میں ایسے پیغمبر بھی آئیں گے، جن کے ساتھ ایک ایک امتی ہو گا۔ اس آیت میں امامت و خلافت کے قیام کی صراحت ہے اور یہ نص صریح ہے ۔

مولانا مودودیؒ کا ساتھ چھوڑنے اور جماعت اسلامی سے نکلنے والے بعض حضرات ابہام پیدا کرتے آئے ہیں اور اس اعتبار سے موجودہ لبرل حضرات اور امام بخاری کے دور کے جھَمِیَّہ ایک ہی فکر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مفادات تو لیتے ہیں، مگر معاشرے سے قطع تعلق نہیں کرسکتے ۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔(مولانا سیّد   معروف    شاہ     شیرازی)

پیشاب کرتے وقت احتیاط نہ کرنے پر عذاب

سوال :

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی ہے ، جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا : ان دونوں پر عذاب ہورہاہے ۔ ان میں سے ایک چغلی کرتا تھا اوردوسرا پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا ۔ پھر آپؐ نے ایک درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبروں پر لگادیے اورفرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی ، امید ہے کہ ان دونوں پر عذاب میں تخفیف ہوجائےگی۔

حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ دونوں عذاب پانے والے کون تھے؟ یہ مومن تھے یا کافر؟ اور یہ کس زمانے کا واقعہ ہے اورکہاں کا ہے؟ اگروہ کافر تھے تو صرف انہی دونوں کا موں پر عذاب کیوں؟ وہ تو ایمان ہی سے محروم تھے اور اس سے بڑی سزا اور عذاب کے مستحق تھے۔ اگر مومن تھے تو بھی صرف انہی اعمال پر عذاب کا ذکر کیوں؟ انہوںنے ممکن ہے ، دوسرےگناہ بھی کیے ہوں، پھر حدیث میں ان پر سزا کا ذکرکیوں نہیں ہے؟ امید ہے ، میرے ان اشکالات کو دور فرمائیں گے۔

جواب :

  آپ نے جوحدیث نقل کی ہے اس میں ان دو اشخاص کے نام مذکور نہیں ہیں جن پر عذاب ہورہا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہری ٹہنی لگادینے سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوگئی۔ بہترہے  کہ ان کے بارے میں تفصیل جاننے کی کوشش نہ کی جائےکہ وہ صحابہ کرام تھے یا منافق تھے؟ یا کافر تھے؟ حدیث میں جوابہام ہے اسے باقی رکھا جائے اورجو بات کہی گئی ہے اس پرتوجہ دی جائے کہ ان کاموں ( چغلی اور پیشاب کرنے میں عدم احتیاط) سے بچا جائے جن کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے۔

 یہ حدیث بخاری(۲۱۶) ، مسلم(۱۱۱) ، ترمذی(۷۰)، ابوداؤد(۲۰)، نسائی(۳۱)، ابن ماجہ (۳۷۴)، دارمی (۷۳۹) اورمسند احمد0 (۱۹۸۰) وغیرہ میں آئی ہے ۔ شارح بخاری علامہ ابن حجرؒ نے اس کی شرح میں لکھا ہے : ’’ ان دونوں اشخاص کے نام حدیث میں مذکور نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ راویوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ۔ انہوںنے اچھا ہی کیا ، اس لیے کسی معاملے میں کسی شخص کی مذمت کا پہلو نکلتا ہوتو اس کا نام جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ ابن حجرؒ نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں ۔ بعض ان دونوں کوکافر بتاتے ہیں ، بعض مسلمان۔ اس سلسلے  میں انہوںنے متعدد روایات کا حوالہ دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے رجوع کیجئے فتح الباری  شرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ بیروت، ۱/۳۲۰۔۳۲۱۔

صحیفہ(مکاتیب نمبر حصہ دوم)،جنوری ۲۰۱۷ء تا جون ۲۰۱۷ء۔مدیر: افضل حق قرشی ۔ناشر:  مجلس ترقی ادب ،۲- کلب روڈ لاہور۔ ۵۴۰۰۰۔ صفحات:۵۷۹۔قیمت:۵۸۰ روپے۔

’مکتوب ‘ دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب میں بھی ایک مسلّمہ صنف ِنثر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور یہ اس لیے کہ اردو میں مکاتیب ِ مشاہیر کا ذخیرہ مطبوعہ صورت میں روز افزوں ہے ۔ مجلس ترقی ادب لاہور نے اپنے مجلے صحیفہ کے مکاتیب نمبر حصہ اوّل کے بعد، دوسرا نسبتاً ضخیم تر مجموعہ شائع کیا ہے۔(حصہ اوّل پر تبصرہ  در ترجمان :اگست ۲۰۱۷ء )

زیر نظر شمارے میں مدیر کے مطابق چار سو سے زائد مکاتیب شامل ہیں۔ یہ سبھی مکتوب نویس ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ امیر مینائی، اصغر گونڈوی، ڈاکٹر حمید اللہ، سیّد سلیمان ندوی، یاس یگانہ چنگیزی، غلام رسول مہر، عبدالعزیز خالد،مولانا محمدمنظور نعمانی، مشفق خواجہ ، نصراللہ خاں عزیز، عنایت اللہ مشرقی، حکیم محمد سعید، نیّر واسطی وغیرہ۔مکاتیب کی نوعیت اور موضوعات میں خاصا تنوع ہے: زبان وبیان ،محاورہ، لُغت الفاظ کی صحت اور ان کا استعمال، تحقیقی نکات، علمی وادبی مسائل، تاریخی وسماجی موضوعات اور ان سے متعلق استفسارات اور ان کے جوابات۔

یہ خطوط مکتوب نویسوں کی شخصی دل چسپیوں اور ان کے مخصوص اسلوب کے آئینہ دارہیں، اور ان سے پتا چلتا ہے کہ اگلے وقتوں کے بزرگوں کا اسلوب کیا تھا۔ عبدالمجید قریشی کے ۱۴۹ خطوط میں سیرت کمیٹی پٹی کی تاریخ کے حوالے سے، ان خطوں کے مرتب (ڈاکٹر محمد ارشد) لکھتے ہیں: سیرت کمیٹی پٹی کا اہم ترین کارنامہ یہی ہے کہ اس نے یوم میلاد النبی ؐ کو ملکی وبین الاقوامی سطح پرمنانے کی طرح ڈالی اور اسے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کی اشاعت کا ذریعہ بنایا۔ سیرت کمیٹی کے ترجمان اخبار ایمان نے دینی تعلیمات کی اشاعت کے ساتھ مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا (ص ۵۳)۔ lحکیم محمد سعید نے ۱۹۸۶ء میں لکھا: میرا دل بڑا دُکھا ہوا ہے ۔ جغرافیائی حدوں کے اندر اور باہر میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کی سنگینی کو صاحبانِ فکرو نظر نہیں دیکھ رہے اور محسوس نہیں کر رہے ہیں (ص۳۱۸) ۔

  • پروفیسر خورشید احمد کے نام ڈاکٹر حمیداللہ کے نو خط شامل ہیں۔ خورشید صاحب نے اقبال ریویو کے لیے ڈاکٹر حمیداللہ سے مضمون کی درخواست کی تھی۔ جواباً انھوں نے اقبال کے بارے میں لکھا: مجھے شخصی طور پر ناصحِ بے عمل سے کچھ زیادہ طبعی لگائو نہیں ہوتا ۔(ص۳۳۹)

ادب کے تاریخ نویسوں کے لیے ان خطوں کی حیثیت قیمتی لوازمے کی ہے اور زمانۂ حال کے محقق طلبہ اور طالبات کے لیے یہ خطوط ایک نصیحت ِ غیر مترقبہ ہیں۔ مجلہ آیندہ شمارے (سر سید نمبر ) کے بعد مکاتیب نمبر جلد سوم بھی شائع کرے گا۔ اس کے لیے غیر مطبوعہ خطوں کی فراہمی کی اپیل کی گئی ہے۔ (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی )


ماہ نامہ پکارِ ملّت (ذرائع ابلاغ نمبر)، مدیرہ: مناہل ایمن۔ ملنے کا پتا: مرکز طالبات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۱۴۱۶۹۰۳-۰۳۳۲۔ صفحات: ۱۷۸۔ قیمت: (اشاعت ِ خاص) ۹۰ روپے۔

ذرائع ابلاغ کی اہمیت ہمیشہ ہی مسلّمہ رہی ہے ، تاہم الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مختلف چینلوںکی آمد اور سوشل میڈیا نے اس کی اہمیت کو جہاں دوچند کردیا ہے، وہاں ذہن سازی اور معاشرے پر اس کے اثرات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اسی اہمیت کے پیش نظر پکارِ ملّت نے جو اسلامی جمعیت طالبات پاکستان کا ترجمان ہے، اشاعت ِ خاص کا اہتمام کیا ہے۔ میڈیا کی اہمیت و اثرات، آزادیِ اظہار، ثقافتی یلغار کے جائزے کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کے درست استعمال، دعوتِ دین کے تقاضے اور میڈیا پالیسی کو زیربحث لایا گیا ہے۔ میڈیا کی معروف شخصیات، ڈرامے اور فلم سے وابستہ افراد جنھوں نے شوبز کی دُنیا کو خیرباد کہہ دیا ہے،    ان کے تاثرات اور میڈیا کے کردار و اثرات پر قلمی مذاکرہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ افسانوں، دل چسپ مضامین کے علاوہ گوشۂ شعروسخن بھی ہے۔ ایک اہم موضوع پر فکروعمل کی رہنمائی کے ساتھ قابلِ ستایش کاوش ہے۔(ادارہ)


 

پروفیسر عبدالقدیر سلیم ، کراچی

پروفیسر خورشیداحمد کا تحقیقی مقالہ ’استعماری حکمت عملی اور راہِ انقلاب‘(مارچ ۲۰۱۷ء) ایک منفرد نوعیت کا نثرپارہ ہے: ’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند‘۔ جس پر صاحب ِ مقالہ کو مبارک باد! میری ابتدائی تعلیم و تربیت استعماری نظام میں ہوئی، لیکن یہ کیسی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج اپنے آزاد وطن کے نظام کی نسبت وہ اچھا لگتا ہے اور شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ بار بار یاد آتا ہے۔ ریل سے لے کر محکمہ ڈاک تک اور نظام عدل و احتساب سے لے کر تعلیمی نظم و ضبط تک، ہرعمارت کی اینٹیں اُکھڑی پڑی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا آزاد معاشرہ کیوں بہتر نہ بن سکا؟


ڈاکٹر عبدالرزاق ، جہلم

’استعماری حکمت عملی اور راہِ انقلاب‘ (مارچ ۲۰۱۸ء)میں محترم پروفیسر خورشیداحمد نے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کی چند جھلکیاں پیش کرکے پاکستانی قوم ، بالخصوص نوجوانوں پر بہت بڑا احسان کیا۔ ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’جمہوریت، مسلم دنیا اور تحریک ِ اسلامی‘ میں تبدیلیِ نظام کے سلسلے میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان کا خاکہ تیار کرنے اور پھر اس میں رنگ بھرنے کا کام تحریک ِ اسلامی ہی کرسکتی ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی ایک نظامِ تعلیم کا خاکہ تیار کر کے اسے بہتر بنانے کے لیے مشتہر کرے۔ ان دونوں تحریروں کو کتابچے کی صورت میں شائع کرکے عوام الناس بالخصوص تعلیمی اداروں میں پہنچایا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے چہرے آسکیں۔


یاسر علی ، فیصل آباد  / عبدالقادر، لاہور

صفدر علی چودھری مرحوم پر تعزیتی مضمون پڑھ کر طبیعت اداس بھی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا کہ اس عہد میں تحریک ِ اسلامی کیسے کیسے قیمتی انسانوں کی رفاقت میں اقامت ِ دین کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اپنے مقالے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تحریک ِ آزادی کے لیے ہندوئوں، سکھوں اور کمیونسٹوں تک کی قربانیوں کا اعتراف کرکے وسعت ِ قلبی اور وسعت ِ نظری کا باب کھولا ہے۔


احمد نواز سلطان ، ملتان

ڈاکٹر مصطفےٰ السباعی کا مکالمہ اگرچہ نصف صدی پہلے کا ہے، لیکن اس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ حالات کا دھارا کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ مغربی تہذیبی گراوٹ اور مسلمانوں کے ہاں بے عملی کے آثار جوں کے توں ہیں۔ تبدیلی کیسے آئے گی؟ کا جواب ہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ ذمہ داری ادا کریں۔


طاہرہ نوشین  ، کوئٹہ

ہمیشہ کی طرح ترجمان معلومات اور رہنمائی لیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر محب الحق نے بھارتی فسطائی لہر کو بڑی خوبی سے بے نقاب کیا ہے۔ ادارہ ترجمان کو ہم ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں کہ گذشتہ پورے سال میں مسئلۂ کشمیر پر نہایت قیمتی مضامین بڑے تسلسل سے شائع کیے۔ خصوصاً افتخار گیلانی کی تحریریں بہت معلومات افزا، جامع اور گہری تفصیلات لیے ہوئے ہیں۔


پروفیسر عبدالحق ، اسلام آباد

ملک خدا بخش بُچہ مرحوم کا خطبہ تقسیمِ اسناد (فروری ۲۰۱۸ء) نہایت فکرانگیزاور ایمان افروز ہے۔ یہ تحریر اس قابل ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہوکر ہمارے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کے لیے مشعلِ راہ بنے۔اسی طرح ڈاکٹر نازنین سعادت کی تحریر نے طلاق سے پیدا شدہ صورتِ حال پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔


مجیب شاہ خان ، لاہور

 ’آپ بھی کچھ لکھیے!‘(جنوری ۲۰۱۸ء) میں لکھنے والوں کے لیے ہمت افزائی کی گئی ہے، اور اچھے اور معیاری مضامین لکھنے کے لیے مفید مشورے دیے گئے ہیں۔


محمد حسنین اوساوالا ، کراچی

عالمی ترجمان القرآن کا شمارہ بابت جنوری ۲۰۱۸ء کا مطالعہ کیا۔ پورا شمارہ ہی ویسے تو نہایت اہم ہوتا ہے۔ سیّد سعادت اللہ حسینی صاحب کا مضمون ’تصورِ اقامت ِ دین پر چند اعتراضات؟‘ اپنی مثال آپ تھا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا مضمون ’آ پ بھی کچھ لکھیے!‘ تو ایسا لگتا ہے ان کی دل کی آواز ہے۔ اسلوب سادہ اور دل نشین، پیرایہ پُرکشش۔ایک محقق کی یہ عملی تجاویز بہت کارگر ثابت ہوں گی۔

ایک گزارش یہ ہے کہ ترجمان میں گوشہ مخصوص کرتے ہوئے یا پھر ایک سلسلے کا آغاز کیا جائے جس میں تحریکی ادیبوں کا تعارف اور ان کی تصانیف کا احاطہ ہوجائے، جیسے نعیم صدیقی ، ماہر القادری، آبادشاہ پوری، نصراللہ خاں عزیز اور نسیم حجازی کا لٹریچر تحریکی جذبہ رکھتا ہے۔ ان عظیم اہلِ قلم کے متعلق ہماری نئی نسل نہیں جانتی کہ کس نگری کے باسی تھے؟ غلام رسول مہر بہت قیمتی تاریخی اثاثہ چھوڑ گئے۔ ایسے کئی افراد ہیں جن کو متعارف کرانا ازبس ضروری ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو اس خلا کو پُر کرنے کے لیے دوسرے غیرتحریکی ادیبوں کی طرف رجحان بڑھ جائے گا۔


 

قرآن تین اصولی ہدایات دیتا ہے:اوّل یہ کہ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ  ، ’’اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل الذکر سے پوچھ لو‘‘ (النحل، رکوع۶،الانبیاء، رکوع۱)۔ اس آیت میں ’اہل الذکر‘کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔ ’ذکر‘ کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں مخصوص طور پر اُس سبق کے لیے استعمال ہوا ہے جو  اللہ اور اس کے رسولؑ نے کسی اُمت کو دیا ہو، اور ’اہل الذکر‘ صرف وہ لوگ ہیں، جنھیں یہ سبق یاد ہو۔ اس لفظ سے محض علم (knowledge) مراد نہیں لیا جاسکتا، بلکہ اس کا اطلاق لازماً علمِ کتاب و سنت ہی پر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرے میں مرجعیت کا مقام اُن لوگوں کو حاصل ہونا چاہیے، جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتے ہوں اور اُس طریقے سے باخبر ہوں جس پر چلنے کی تعلیم اللہ کے رسولؐ نے دی ہے۔

دوم یہ کہ وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ  ۝۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ۝۰ۭ [النساء۴:۸۳] ’’اور جب کبھی امن یا خوف سے تعلق رکھنے والا کوئی اہم معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں، حالاں کہ اگروہ اس کو رسولؐ تک اور اپنے اُولی الامر تک پہنچاتے تو اس کی کنہ جان لیتے، وہ لوگ جو ان کے درمیان اس کی کنہ نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے کو پیش آنےوالے اہم معاملات میں، خواہ وہ امن کی حالت سے تعلق رکھتے ہوں یا جنگ کی حالت سے، غیراندیش ناک نوعیت کے ہوں یا اندیش ناک نوعیت کے، ان میں صرف وہی لوگ مرجع ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اُولی الامر ہوں، یعنی جن پر اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو، اور جو’استنباط‘ کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور کتاب اللہ و طریقِ رسولؐ اللہ سے بھی دریافت کرسکتے ہوں کہ اس طرح کی صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔ یہ آیت اجتماعی مہمات اور معاشرے کے لیے عام اہل الذکر کے بجاے ان لوگوں کو مرجع قرار دیتی ہے جو اُولی الامر ہوں۔

سوم یہ کہ اَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ، ’’ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے‘‘۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا آخری فیصلہ کس طرح ہونا چاہیے۔

ان تین اصولوں کی عملی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی میں عموماً جو مسائل پیش آئیں ان میں وہ ’اہل الذکر‘ سے رجوع کریں۔ رہے مملکت اور معاشرے کے لیے اہمیت رکھنے والے مسائل، تو وہ اُولی الامر کے سامنے لائے جائیں، اور وہ باہمی مشاورت سے یہ تحقیق کرنے کی کوشش کریں کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ کی رُو سے کیا چیز زیادہ سے زیادہ قرین حق و صواب ہے۔(’رسائل و مسائل ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۱، رجب ۱۳۷۷ھ/اپریل ۱۹۵۸ء،ص ۴۴-۴۵)

دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔

اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔

ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:

  • مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
  • اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
  • یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)