ضبط ِگریہ تو ہے پر دل پہ جو اِک چوٹ سی ہے
قطرے آنسو کے ٹپک پڑتے ہیں دو چار ہنوز
جس طرح دن ایک حقیقت ہے، اسی طرح رات بھی ایک حقیقت ہے۔ روشنی اور تاریکی، سپید و سیاہ ، سکون و اضطراب، بہا ر و خزاں، شیریں و تلخ، یہ سبھی زندگی کے حقائق ہیں، اور قافلۂ زندگی ان تمام مراحل سےدوچار رہتا ہے۔ زندگی نام ہی نشیب وفراز سے گزرنے کا ہے۔
کارخانۂ قدرتِ حق ایک صورت کو دوسری صورت سے بدلنے میں ہمہ وقت مصروف ہے اور انسان کا اصل امتحان اسی دھوپ چھائوں کے درمیان رازِ حیات کی تلاش و جستجو میں ہے۔ گردشِ لیل و نہار کی اصل اہمیت یہی ہے کہ یہ جانا جائے کہ ہر تبدیلی کے مقابلے میں انسان کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ آیا وہ بھی ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ ہوا کے رُخ کی سمت میں اُڑنا شروع ہوجاتاہے، یا اپنے نہ بدلنے والے مقاصد ِ حیات کی خدمت کے لیے نیا عزم اور نیا راستہ تلاش کرنے کی جستجو میں مصروف ہو جاتاہے۔
ہرتبدیلی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرورِ ایّام کی ہر کروٹ کارزارِ زندگی میں کچھ نئے میدانوں کا اضافہ کرتی ہے۔ لیل و نہار کی ہر گردش ایک نئی آزمایش کا باب کھولتی ہے۔ اصل اہمیت زمانے کی اس گردش کی نہیں، بلکہ اس ردعمل کی ہے جو اس کے نتیجے میں رُونما ہوتا ہے اور انسان کے بلند عزم یا پست ہمتی کا پتا اسی ردعمل سے چلتا ہے۔ گردش لیل و نہار کے اس پہلو کا مطالعہ ہدایت ربّانی کی روشنی میں کیا جائے تو بڑے اہم، سبق آموز اور ہوش ربا پہلو نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔
O
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ (لقمٰن۳۱:۲۹) کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟
روشن دن کا رات کی آغوش میں دم توڑ دینا اور پھر تاریک رات کے بطن سے روشنی ٔ سحر کا رُونما ہونا ربِّ جلیل و کریم کی قدرت اور اس کے اقتدار کی دلیل ہے اور سوچنے سمجھنے والوں کے لیے ایک نشانی بھی۔ یہ کائنات کے قوانین اور زمانے کی گردش کی آئینہ دار ہے اور خود انسانی زندگی اور معاملات کے لیے اس میں عبرت ، بصیرت اور رہنمائی کے بے شمار پہلو اور اسباق پوشیدہ ہیں:
يُقَلِّبُ اللہُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۴۴ (النور ۲۴:۴۴) رات اور دن کا اُلٹ پھیر وہی [اللہ] کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے، آنکھوں والوں کے لیے۔
قرآن کا یہ خاص اسلوب ہے کہ وہ ایک معلوم و محسوس چیز کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ایسی چیز جو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے، جو ہمارے لیے اتنی واضح اور بیّن ہے کہ ہم اس پر سے یونہی گزر جاتے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم کائنات کی ان نشانیوں پر سے یونہی نہ گزر جائیں، بلکہ ایک لمحہ توقف کر کے ان پر غور کریں اور دیکھیں کہ تفکّر و تدبر کے بے شمارگوشے وہ اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ دن اور رات کی آمدورفت، جو ہمارے لیے بس ایک روز مرّہ کی سی حیثیت اختیار کرچکی ہے،کوئی بے معنی شے نہیں ہے۔ اس کے دامن میں عبرت و معرفت کے دفتر پنہاں ہیں۔ قرآن پاک اس نگاہ کوبیدار کرنا چاہتا ہے، جو گردش لیل و نہار کے پیچھے کام کرنے والی قوتوں کو دیکھ اور سمجھ سکے اور انسان اس علم و بصیرت کی روشنی میں ایک دانش مندانہ رویہ اختیار کرسکے۔
’’رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کو لانا بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ رات میں دن ظاہر کردے یا دن میں رات نمودار کردے، یا ان کی آمدوشد میں منٹ یا سیکنڈ کا فرق ہی پیدا کردے۔ فرمایا کہ ان تمام باتوں کے اندر، اہلِ نظر کے لیے بڑا سامانِ عبرت ہے۔ ’عبرۃ‘ کا مفہوم ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک عبور کر جانا [بھی]ہے، یعنی جو لوگ وہ نظر رکھتے ہیں، جو ظاہر کے اندر باطن اور جزئیات کے اندر کلیات کو دیکھنے والی ہے، ان کو اِن مشاہدات کے بعد اس بات میں ذرا بھی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ یہ کائنات ایک خداے حکیم و قدیر کی بنائی ہوئی ہے، جو اس ساری کائنات پر یکّہ و تنہا حاکم و متصرف ہے۔ اس وجہ سے تنہا وہی حق دار ہے کہ اس کی عبادت و اطاعت کی جائے۔ یہ امرملحوظ رہے کہ ’عبرۃ‘ انسانیت کا اصلی جوہر ہے۔ اگر یہ جوہر کسی کے اندر نہیں ہے تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہے، اور جو آنکھ ظاہر کے اندر باطن نہ دیکھ سکے وہ کور ہے۔(تدبر قرآن، ج۵، ص ۴۲۱)
قطرے میں دجلہ کھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدئہ بینا نہ ہوا
’’گردش لیل و نہار کے نظام پر غوروفکر، قرآنِ مجید کا ایک اہم موضوع ہے۔ رات اور دن کے بدلنے کا یہ نظام مسلسل چل رہا ہے اور اس کے اندر ایک لمحے کا تغیّر و تبدل رُونما نہیں ہوا ہے۔ اس سے وہ ناموسِ کائنات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے، جو اس کائنات میں کارفرما ہے۔ اس ناموسِ کائنات پر غوروفکر سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس باریکی کے ساتھ اس نظام کو چلا رہا ہے۔ قرآنِ کریم اپنے مؤثر اندازِ بیان کے ساتھ ان مناظر کے ان اثرات کو تازہ کردیتا ہے، جو بالعموم مانوس ہونے کی وجہ سے انسانی ذہن اور یادداشت سے مٹ گئے ہوتے ہیں۔مگر آیاتِ قرآنی کے مطالعے کے بعد انسان ان مناظر کو ایک نئے احساس کے ساتھ دیکھتا ہے اور ہربار ان سے بالکل نیا تاثر لیتا ہے۔ ذرا یہ بات ذہن میں لایئے کہ اگر انسان گردش لیل و نہار کو پہلی مرتبہ دیکھے تو اس کا تاثر کیا ہو؟ لیکن انسانی احساس اور اِدراک، دن اور رات کی گردش کے مناظر کو دیکھتے دیکھتے بجھ سا گیا ہے، حالاں کہ رات اور دن کے اس نظام نے اپنی خوب صورتی اور انوکھے پن میں کسی چیز کی کمی نہیں پیدا ہونے دی۔ درحقیقت جب انسان اس کائنات پر سے غافلوں کی طرح گزر جاتا ہے تو وہ زندگی کی ایک بڑی مسرت اور خوشی کو گنوا دیتا ہے، اس طرح اس کائنات کی حقیقی خوب صورتی اس کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ جاتی ہے۔ قرآن عظیم کا یہ کمال ہے کہ وہ ہماری بجھی ہوئی حِس کو تازہ کردیتا ہے، اور ہمارے چھپے ہوئے شعور اور خوابیدہ احساسات کو تجدید و توانائی بخشتا ہے۔ ہمارا سرد مہر دل پُرجوش اور ہمارا کُند وجدان تیز تر ہوجاتا ہے۔ پھر ہم کائنات کو یوں دیکھنے لگتے ہیں کہ گویا ہم نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔ پھر ہم اس کائنات کے مظاہر پر غور کرتے ہیں۔ پھر ہمیں نظر آنے لگتا ہے کہ دست ِ قدرت ہرجگہ کام کر رہا ہے۔ ہمارےماحول کی ہرچیز میں اسی خالق و مالک کی صنعت کاری ہے اور اس کائنات کی ہرچیز میں اسی پروردگار کے نشانات روشن ہیں، اور ہمارے لیے عبرتیں ہی عبرتیں ہیں___اللہ تعالیٰ ہم پر یہ کتنا بڑا احسان فرماتا ہے کہ جیسے ہی ہم اس کائنات کے مناظر میں سے کسی منظر پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں ایک حیاتِ تازہ مل جاتی ہے۔ ہمیں اس کائنات کی ہرچیز کے بارے میں ایک نیا احساس اور ایسی مسرت ملتی ہے کہ گویا ہم اس منظر کو پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ اگر حساس نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ کائنات بہت ہی خوب صورت ہے اور ہماری فطرت، فطرتِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ فی الحقیقت ہماری فطرت اس سرچشمے سے پھوٹی ہے، جس سے اس کائنات نے وجود پایا۔ جب ہم اس کائنات کی روح سے پیوست ہوجاتے ہیں، تو ہمیں عجیب اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔ خوشی، محبت اور طمانیت ملتی ہے، بالکل اسی طرح ، جیسے کوئی شخص براہِ راست اپنے محبوب سے مل جائے۔
’’اس کائنات کی گہری معرفت کے نتیجے میں، ہمیں اس میں اللہ کا نُور نظر آتا ہے اور یہی ہے مفہوم اللہ کے نور سماوات والارض ہونے کا۔ جب ہم اپنے وجود، اپنے نفس اور اس کائنات کا گہرا مشاہدہ کرتے ہیں، تو اس میں ہرجگہ، ہرسمت اللہ کا نُور نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ ہم اس کائنات کے روز مرہ مناظر کو ذرا گہرے غوروفکر کے ساتھ دیکھیں۔ قرآن دعوت دیتا ہے کہ: اُن مظاہر اور مناظر پر سے غافل لوگوں کی طرح نہ گزر جائو آنکھیں بند کرکے، کیوں کہ اس دنیا میں تمھارا یہ سفر نہایت بامقصد ہے۔ یہاں سے کچھ لے کر جائو، لیکن افسوس: انسان ہیں کہ خالی ہاتھ جارہے ہیں‘‘۔(فی ظلال القرآن، ترجمہ: معروف شاہ شیرازی، ج۴، ص۹۲۲، ۹۲۳)
وَہُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۶۲ (الفرقان ۲۵:۶۲) وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہراس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکرگزار ہونا چاہے۔
اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۸۶ (النمل ۲۷:۸۶) کیا ان کو سجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اس میں بہت سی نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے، جو ایمان لاتے تھے۔
ان آیات پر غور کرنے سے جہاں گردش لیل و نہار کی طبیعی اور اخلاقی حکمتوں کا علم ہوتا ہے۔ وہیں ہمیں غوروفکر کا ایک اسلوب بھی ملتا ہے، جس کے ذریعے ہم صرف دن اور رات ہی کی گردش نہیں، بلکہ گزرتے ہوئے زمانے کے برسوں، مہینوں، دنوں حتیٰ کہ لمحوں کی ہر کروٹ پر بصیرت کی نگاہ ڈال سکتے ہیں۔ اس سے عبرت کے درس حاصل کرسکتے ہیں اور حال و مستقبل کی تعمیر کے لیے روشنی اور رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
رات صرف تاریک نہیں ہوتی ، بلکہ قدرت کے اس نظام میں اس کا بھی بڑا اہم وظیفہ ہے۔ اور دن صرف روشن ہی نہیں ہوتا، اس روشنی کے پہلو بہ پہلو بہت سے سایے بھی ہوتے ہیں، جو کچھ حلقوں کو سورج کی روشنی کے باوجود دامِ سیاہ میں گرفتار رکھتے ہیں، اور کچھ انسانوں کے لیے کمرِہمت کسنے کی دعوت اور گوشۂ آرام طلبی کو مسترد کرنے کی پکار بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم جہاں ان حقائق زندگی سے ہمیں بلند تر اخلاقی حقائق کو سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، وہیں ہمیں یہ تعلیم بھی دے رہا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے زندگی کے چند در چند پہلوئوں اور زمانے کی ہر گردش پر نگاہ ڈالیں اور ان اخلاقی حقائق کو سمجھیں، جو سطح بین نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہتے ہیں۔
O
دن اور رات اور ماہ و سال کی یہ گردش ہمیں اس حقیقت کا احساس بھی دلاتی ہے کہ تبدیلی اور تغیّر محض کوئی ماضی کے واقعات یا اتفاقی حادثات نہیں ہیں، بلکہ فطرت کا ایک قانون ہیں۔
’ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں‘۔ زندگی نام ہی تبدیلیوں کا ہے۔ یہ تبدیلیاں خوش آیند بھی ہوسکتی ہیں، ناپسندیدہ بھی۔ بلندی کی سمت میں بھی ہوسکتی ہیں اور پستی کی طرف بھی۔ ان سے روشنیوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور تاریکیوں میں بڑھوتری بھی۔ یہ تعمیر کی راہ ہموار کرنے والی بھی ہوسکتی ہیں اور اس راہ میں کانٹے بکھیرنے والی بھی۔لیکن جس کی نگاہ زندگی کے حقائق پر ہے، وہ ان میں سے کسی تبدیلی پر بھی قناعت کرکے نہیں بیٹھ جاتا۔ نہ ’خیر‘ کی سمت میں کوئی کامیابی اس میں غلط بھروسا، غرّہ یا غفلت پیدا کرتی ہے اور نہ ’شر‘ کے کسی جھونکے کا وقتی غلبہ اس میں مایوسی، ہمت شکنی اور بے کیفی کا کہرام برپا کرتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ شمع کی لَو جتنی تیز ہوگی اور روشنی کا ہالہ جتنا بڑھے گا، تاریکیوں سے مقابلے کا میدان بھی اتنا ہی وسیع سے وسیع تر ہوجائے گا۔{ FR 1133 } اور حق و باطل کی کشمکش کا دائرہ بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں ذرا سی غفلت بھی بے پناہ گھاٹے اور نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کبھی ایسے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، جو ناخوش گوار اور ناموافق ہیں، تو اسے یہ یقین رہتا ہے کہ اس ناخوش گوار حالت کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ قابلِ تغیّر ہے اور اسے بدلنے کی کوشش ہی ایک صاحب ِ بصیرت کے لیے کرنے کا کام ہے۔ وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوتا اور وقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا ۔ وہ کسی ایک تبدیلی کو بھی مستقل اور دائمی نہیں سمجھتا، بلکہ تاریخ کی طول طویل شاہراہ پر نگاہ ڈال کر صاف صاف نشانِ منز ل دیکھ لیتا ہے۔
وقت، تاریخ اور زمانے کے تغیّرات کا یہ شعور انسان کے لیے بڑا قیمتی سرمایہ ہے اور شب و روز کی گردش کا ہرلمحہ اسی کا درس دیتا ہے۔ اگر یہ احساس نہ ہو تو انسان نہ کامیابیوں میں علم اور برداشت کا مظاہرہ کرسکے اور نہ ناکامیوں میں صبر اور وقار کا اظہار۔ نہ فتح مندیاں اس کا دماغ خراب کردیں اور نہ شکستیں اس کا کلیجہ پھاڑ دیں۔ نہ اچھے حال میں وہ راہِ اعتدال پر قائم رہ سکے اور نہ بُرے حال میں وہ خودشکنی و خودکُشی کی راہ پر دوڑ پڑے۔ اسی گردشِ ایام پر غوروفکر انسان میں شعورِ زمان (Time Consciousness)پیدا کرتا ہے اور اسے یہ سکھاتا ہے کہ وہ محض ایک لمحہ حال (Moment in Time)میں زندگی نہ گزارے بلکہ پورے جادئہ وقت (Time Stream) کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اسلام صبر، قناعت، شکر اور مجاہدے کی جن اقدار کا درس دیتا ہے، ان کو صرف اسی ذہنی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے اوراسی فضا میں ان پر عمل ہوسکتا ہے۔
O
قرآنِ پاک میں رات کی آمد کو ایک ایسا واقعہ قرار دیا گیا ہے، جس سے ذہن کو فوری طور پر اس خالقِ لیل و نہار کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں ہر شے ہے اور جس کی مرضی کے بغیر زمانے کی سطح پر کوئی جنبش نہیں ہوتی:
وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۳۷ۙ (یٰسین۳۶:۳۷) اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ، ہم اس کے اُوپر سے دن ہٹادیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
قدرتِ الٰہی سے روشن زمین و آسمان پر تاریکی کا پردہ غالب آجاتا ہے اور انسان نیچے، اُوپر، دائیں بائیں غرض ہر سمت میں تاریکی ہی تاریکی کو غالب پاتا ہے۔
انسان اس تاریکی سے نیند کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ دوسری آیت ِ قرآنی انسان کو اس کے ربّ کی قدرت اور اس کے اقتدار و اختیار کا احساس دلاتی ہے:
وَہُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْہِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى۰ۚ ثُمَّ اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۶۰ۧ (الانعام ۶:۶۰) وہی ہے جو رات کو تمھاری روحیں قبض کرتاہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمھیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہو۔آخرکار اسی کی طرف تمھاری واپسی ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو؟
ان قرآنی آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رات اور دن کی یہ گردش اس ابدی سچائی جاننے اور پہچاننے کی دعوت دیتی ہے کہ اس کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے، اُسے سمجھا جائے اور جن مقاصد کے لیے وہ رفتارِ زمانہ میں یہ تبدیلیاں کر رہا ہے، ان کو پورا کرنے کی سعی کی جائے۔ رات محض تاریکی کا ایک پردہ نہیں، دراصل یہ ایک مہلت ہے جو اس ہستی کی طرف سے انسان کو ملتی ہے، جس کے ہاتھ میں انسانوں کی جان ہے، جس میں وہ ہمیں کاروبارِ حیات سے کھینچ کر اس حالت میں لے آتا ہے،کہ جس میں محنت اور جدوجہد کے دوران صرف کی ہوئی قوت کو بحال کیا جائے اور پھر دوبارہ کاروبارِ عالم کی طرف انسانوں کو بھیج دیا جائے۔ اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُـبَاتًا وَّجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا۴۷ (الفرقان ۲۵:۴۷)وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت اور دن کو جی اُٹھنے کا وقت بنایا۔
۱- یہ گردش لیل و نہار بے مقصد نہیں ہے۔ اس کو سطحی نظر سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اس کے ذریعے انسان ان مقاصد کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کرے، جن کی خاطر حکیم مطلق نے دن اور رات، روشنی اور تاریکی کا یہ نظام بنایا ہے۔
۲- اس کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ انسان کی کام اور آرام کی فطری ضرورتیں پوری ہوں۔ انسان کے جسم و جان کے یہ تقاضے ہیں کہ ان میں جدوجہد اور راحت و آرام کے درمیان ایک فطری توازن قائم ہو۔ لیکن یہ آرام محض براے آرام نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ کارگہِ حیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے انسان اپنے آپ کو تیار کرے۔ وہ آرام، جس کے بعد انسان نئی طلوع ہوتی صبح کے تقاضوںکو پورا کرنے کے لیے نہیں اُٹھتا اور جو نئی جدوجہد پر منتج نہیں ہوتی، وہ راحت اور آرام نیند کا آرام نہیں، موت کی علامت تھا۔ خالق کا عطاکردہ آرام دراصل وہ آرام ہے ،جو جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ اگر انسان اس کو نظرانداز کردے، تو وہ اپنے مقصد کو کھو دیتا ہے اور اس کی سرحدیں موت سے جاملتی ہیں۔ یہ رات کا ایک حرکی تصور (dynamic view) ہے جو قرآن سے ملتا ہے، اور جس کی بناپر صبح و شام اوردن اور رات انسان کی عملی زندگی کے لیے علامتیں (symbols) بن جاتے ہیں۔ پھر ان علامتوں کی مدد سے انسان زندگی کے وسیع میدان میں بے شمار چیزوں کو سمجھ سکتا ہے اور انھیں ان کے صحیح پس منظر میں ان کے ٹھیک ٹھیک مقام پر رکھ کر ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار کرسکتا ہے۔
۳- قرآن ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ زندگی کے ان واقعات سے اپنے ذہن کو ان کے پسِ پشت کارفرما قوتوں پر غوروفکر کی طرف راغب کریں اور صرف مادی اور طبیعی پہلوئوں ہی پر غور نہ کریں بلکہ ان کے اخلاقی پہلوئوں پر بھی توجہ صرف کریں۔ پھر اسبابِ حیات ہی کو انتہاے زندگی نہ سمجھ لیں، بلکہ ان اسباب کے ذریعے مسبب الاسباب تک پہنچیں اور اس کے دامنِ رحمت کے سایے کی طلب میں بے چین و بے قرار ہوکر، اس کی مرضی جاننے اور اس پر چلنے کی دیوانہ وار کوشش کریں۔لاریب، وقت کی ہر کروٹ اور زمانے کی ہر جنبش کے پیچھے اس کی حکمت ِ بالغہ کام کر رہی ہے۔ عقل مند وہ انسان ہے، جو اس حکمت کو پانے کی جستجو کرتا ہے اور اپنے ربّ سے اپنا تعلق استوار کرتا ہے۔
O
ایک گروہ وہ ہے جسے روشنی سے نفرت ہے اور جو تاریکی کا پرستار ہے۔ دن کے اُجالے میں بھی یہ تاریکیوں ہی کی تلاش میں مصروف رہتا ہے اور رات کی چادر کے جلد از جلد پھیل جانے کی آرزو کرتا ہے۔ رات کی آمد اس کی تمنائوں کی بہار ہوتی ہے۔ اس کی ساری سرگرمیاں شب کے اندھیروں میںفروغ پاتی ہیں۔ انسانی معاشرے میں جس فساد کو پھیلاکر یہ گروہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ اندھیروں کے پردے ہی میں برپا کیے جاسکتے ہیں۔ جرائم کے ارتکاب اور سازشوں کے جال پھیلانے سے لے کر، دوسروں کے مال، جان اور عزّت و آبرو پر حملہ کرنے کے لیے رات کی تاریکی اس گروہ کو بہترین مو اقع فراہم کرتی ہے ۔ اس لیے یہ اس کی تمنا کرتا ہے اور اسی کے لیے یہ رات کو استعمال کرتاہے۔ انسانی معاشرے پر جب اندھیرا چھاتا ہے تو یہ گروہ سرگرمِ عمل ہوتا ہے اور صبح کی روشنی جب اُفق کو پُرنور کردیتی ہے، تو یہ اپنی پناہ گاہوں میں جا چھپتا ہے۔ جس رات کو مالک نے آرام کے لیے بنایا تھا، یہ گروہ اسے انسانوں کے لیے حرام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور فساد فی الارض کا باعث ہوتا ہے۔ زمین میں فساد نام ہے اللہ کے دیے ہوئے احکام کو توڑنے اور اس کی جگہ دوسرے طریقوں کو رائج کرنے کا:
اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۷) ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔
اہلِ کفر اور اہلِ فساد کی یہی روش ہے اور رات ان کو بالکل بے نقاب کردیتی ہے۔ جس طرح چمگادڑ اندھیرے میں ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح یہ شیطانی گروہ بھی اندھیرے کے دوران میدان میں آتا ہے اور معاشرے کا صاحب ِ بصیرت گروہ اس کو دیکھ بھی لیتا ہے اور اس کے مقابلے میں مدافعت اور جان،مال اور آبرو کی حفاظت کا بندوبست بھی کرتا ہے۔
انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے، جس نے نُورِ ہدایت سے اکتساب کیا ہے۔ اس کے لیے رات ’لباس‘ اور ’سکینت‘ ہے۔ وہ اس سے نئی قوتِ کار حاصل کرتا ہے۔ تاریکی کا کوئی پرتو اس کے روشن دل ودماغ پر نہیں پڑتا۔ وہ اس موقعے کو جسم کے آرام اور روح کی غذا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ ایسی نیند سے اجتناب کرتا ہے جو غفلت کا رنگ لیے ہو،اور جو چوروں اور نقب زنوں کا سہارا ہو۔ وہ رات کی تاریکیوں میں اپنی، اپنے اہلِ خانہ اور اپنے معاشرے کی حفاظت کا بندوبست کرتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک فوج رات کے وقت دشمن کے شب خون کی مدافعت کے لیے سامان کرتی ہے۔ ایسے چوکنّے اور ہوشیار لوگ ہی ان خطرات سے محفوظ رہتے ہیں، جو فسادپرست عناصر سے ان کو لاحق ہیں اور جن کے لیے رات ان عناصر کو موقع فراہم کرتی ہے۔ پھر یہ گروہ آرام تو ضرور کرتا ہے لیکن مزید کام کے لیے تیار ہونے کی خاطر، اس کا آرام بے مقصد نہیں ہوتا، بامقصد ہوتا ہے۔ اس کا مقصد کبھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ رات کی تاریکی میں دل زندہ چراغ کی طرح روشن رہتا ہےاور اندھیروں کو کبھی غالب نہیں ہونے دیتا۔
یہ گروہ رات کو صرف جسم کے آرام ہی کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ روح کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صرف کرتا ہے۔ جس طرح جسم آرام اور نیند کا مطالبہ کرتا ہے،اسی طرح روح محاسبہ، عبادات اوردُعا کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ جسم کا تقاضا ہے تو یہ روح کی غذا ہے۔ خدا پرست انسانوں کا یہ گروہ رات کو آرام کے لیے بھی استعمال کرتا ہے اور محاسبہ، عبادت اور دُعا کے لیے بھی:
قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا۲ۙ نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا۳ۙ اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۴ۭ اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۵ اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۶ۭ (المزمل۷۳: ۲تا ۶) (اے محمدؐ) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو یا کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو ٹھیرٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔درحقیقت رات کا اُٹھنا، نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور (قرآن) ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
محاسبے اور دُعا کے لیے بھی یہ بہترین وقت ہے، جیساکہ متعدد احادیث ِ مبارکہ میں آتا ہے کہ اس وقت بندے اور رب کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی اور دینے والا سب کچھ دینے کے لیے سب سے زیادہ آمادہ ہوتا ہے اور پکارتا ہے:’ہے کوئی مانگنے والا؟‘ سمجھ دار وہ ہے جو رات کو ان کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پھر رات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور شب کے پردوں کے باوجود نُور غالب رہتا ہے:
اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ(البقرہ ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے، اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔
O
رات کا طول بھی اپنے اندر غوروفکر کے چند پہلو رکھتا ہے۔ ہر رات برابر کی طویل نہیں ہوتی ۔ ایک ہی سال میں رُونما ہونے والی ہر رات دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ محض ایک طبیعی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ اس امرواقعہ کی معنویت کے پہلو بے شمار ہیں۔
اسی طرح رات کی گراں باری ہرہر فرد کے لیے مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ جو اپنے مقصد کو سمجھتا ہے اور اس کے لیے خلوص اور توکّل کے ساتھ مصروفِ کار ہے، وہ نہ رات سے گھبراتا ہےاور نہ رات کے اندھیروں سے خوف کھاتا ہے۔ اس کا کام اپنا چراغ روشن رکھنا ہے۔ وہ چراغ جو پہاڑی کا چراغ ثابت ہوتا ہے اور دُور دُور تک اندھیروں کا سینہ چیر کر رہ نوردوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن، جس کی نگاہ اپنے اصل سے ہٹ گئی ہو، اس کے لیے ہر رات پہاڑ ہوجاتی ہے، جسے صبح کرنا ’لانا ہے جوئے شِیر کا!‘
دراصل رات کے اصل طول کے احساس کا انحصار انسان کے وجدان اور رویے پر ہے۔ بات شاعری کی نہیں لیکن ’شب ِ ہجر‘ اور ’شب ِ وصل‘ میں جو فرق ہے، وہ ساعتوں کے طول کا نہیں احساس کی کیفیت اور شدت کا ہے۔ اس لیے جس کی نگاہ ایک انمٹ مقصد پر ہو اور جس کا کام اللہ کے دین کو قائم کرنا ہو (جو ایک مسلمان کا مقصد وجود ہے) اس کے لیے دن اور رات میں کوئی فرق نہیں۔ سرما کی رات ہو یا گرما کی، خزاں کی شب ہو یا بہار کی۔ اسے اپنا کام انجام دینا ہے۔ رات اس کے لیے جو معنویت رکھتی ہے، اس کی پیمایش ساعتوں اور لمحوں سے نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے لیے تو: ’جاوداں ، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ کی سی سرشاری چاہیے۔
O
قرآنِ پاک میں دن اور را ت کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے، اس میں ایک بڑا معنی خیز پہلو یہ ہے کہ دن سے رات اور رات سے دن کے رُونما ہونے کا منظر ۔ ہر رات کو ایک دن ختم ہونا ہے۔ کامیاب ہیں وہ خوش نصیب، جو رات کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ صبحِ نو کے لیے تیاری کریں:
یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
جس طرح بیماری سے انسان کو صحت کی ضرورت و عظمت کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح رات بھی دن کے نُور کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے احساس کو تیز تر کرنے کا ذریعہ ہے۔ جس نے رات سے یہ سبق سیکھ لیا، اس کی رات احساس سے محروم انسانوں کے ’دن‘ سے ہزار گنا بہتر ہے:
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی
اسی طرح انسان اپنی طرف سے اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن کبھی کبھی اس کے یہ کام ضائع ہو جاتے ہیں اور بارآور ثابت نہیں ہوتے۔لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس ضیاع کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بچا کر رکھنے کی بھی کوشش کرے۔
قرآنِ مجید میں اعمال کے ضائع ہونے کے لیے ’حبط ِ عمل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم ہے: برباد ہونا، اکارت جانا،بیکار جانا،باطل ہونا، ایک قسم کی نباتات کھانے سے پیٹ پھول جانا۔ قرآن مجید میں حبطِ عمل کی ترکیب ان ۱۶آیات میں استعمال ہوئی ہے: بقرہ:۲۱۷، آل عمران:۲۲، مائدہ: ۵ و ۵۳، انعام: ۸۸، اعراف: ۱۴۷، توبہ: ۶۹، ھود:۱۶، کہف:۱۰۵، احزاب:۱۹، الزمر: ۶۵، محمد:۹ و ۲۸و ۳۲، الحجرات:۲۔
یٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ط لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ط وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ز (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو ! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کامینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔
یہاں چٹان کے اوپر کی مٹی کی مثال دی گئی ہے،جوبخلاف زرخیز مٹی کے ناکارہ ہوتی ہے۔اور بجاے کھیتی اگانے کے خود ہی بہہ جاتی ہے۔ اس مثال میں نیکی ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نیکی کی نیت غلط تھی۔
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاۗءُ ښ فَاَصَابَهَآ اِعْصَارٌ فِيْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ O (البقرہ ۲:۲۶۴) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو ، نہروں سے سیراب ، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرہ ۲:۲۶۶)پھر تمھارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جاگری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔
اس بظاہر بہت بڑی نیکی (مسجد کی تعمیر)کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ، اس کوکرنےکی نیت ہی فاسد تھی۔
اس دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ مل سکتاہے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور اگر ملے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورا ہو ۔ آخرت میں بدلے کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ جیسا عمل ،ویسی جزا۔ ایک برائی کا بدلہ ایک برائی اور ایک نیکی کا بدلہ دس اچھائیاں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے اصول بھی ہیں:
ضائع ہو جانے والے اعمال
یہ پانچ طرح کے اعمال ہیں:
۱- دنیا کے کارنامے جو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں۔
۲- بظاہر نیکیاں___ اگر ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہواور ان کو کرنے والا کھلےکفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو۔
۳- بظاہر نیکیاں ،جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے،۔لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے یا اس نیت میں ملاوٹ ہوتی ہے۔
۴- ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو۔
۵- نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔
ان سب ضائع ہونے والے اعمال اور ان کی وجوہات کو تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں۔
دنیا کے کارنامےجو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں ۔تہذ یبی مظاہر،تمدن کی ترقیاں، تعمیرات، محلات، ایجادات،صنعتیں،کارخانے، سلطنتیں، عالی شان تعلیمی و مالی ادارے، جامعات و تجربہ گاہیں، علوم کے ذخیرے (بشمول ڈگریاں،نظریات ،فلسفے)، فنون،عجائب گھر۔
ان کارناموں کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب صرف دنیا ہی کے لیے کیا گیا تھا،خواہ غیر مسلم نے کیا ہو یا نام نہاد مسلم نے ( ایک مسلم خلافت فی الارض کی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے اللہ وآخرت کومدنظر رکھتے ہوئے یہی کام کرے گا تو یہی کام ثمر آور درخت ہیں)۔
مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف دنیا کے لیے کیے گئے کیونکہ ان کو کرنے والے درج ذیل صفات کے حامل تھے: آیات کا کفر،تکذیب اور مذاق اڑانا، آخرت کا کفر و تکذیب، رسول کا مذاق اڑانا۔
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبَطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۡ (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ )جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا O اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا O ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا O (الکہف۱۸:۱۰۳-۱۰۶) اے نبیؐ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا(ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انھوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (اعراف۷:۱۴۷) ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ ’’جیسا کریں ویسا بھریں؟‘‘
اس کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث پڑھنے سے پہلے ، ہرمسلمان کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفر، شرک ، نفاق اور فسق ایک کلمہ گو میں بھی دَر آتا ہے۔قرآن میں کافروں،مشرکین ،منافقین اور فاسقین کی صفات تفصیل سے بتائی ہیں ۔ان کا بڑا مقصد یہ ہے کہ مومن اور مسلم ان صفات سے بچیں۔ ہمارا روزمرہ زندگی کا مشاہدہ بھی ہے کہ یہ صفات مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کفر، شرک ،نفاق اور فسق کی صفات کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ کیوںکہ ان سے حبطِ عمل ہوسکتاہے۔
مندرجہ ذیل آیات میں کافر/ مشرک/ منافق/ فاسق کا ذکر کر کےاورکہیں ان کی صفات کے ذکر کے بعد حبطِ عمل بتایا گیا ہے۔وہ صفات یہ ہیں: اللہ کی نازل کردہ تعلیم سے کراہت /اللہ کے راستے سے کراہت/اللہ کی ناراضگی والے راستے کی پیروی،استکبار،سرکشی میں حد سے گزرنا، صد عن سبیل اللہ، یعنی دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا۔ نفاق(برائی کا حکم،بھلائی سے روکنا، خیر سے روکنا، اللہ کو بھولنا، دنیا کے مزے لوٹ کر، بحثیں کرنا۔)انبیاکاقتل اور ان سے جھگڑا کرنا، مصلحین سے دشمنی رکھنا۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ (محمد۴۷:۸) رہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے ۔
سورئہ نور (۳۹-۴۰) میں بھی سراب کی طرح عمل بے معنی رہنے کی وجہ کفر بتائی ہے۔
سورئہ ابراہیم(۱۴:۱۸) میں اعمال راکھ کی طرح اڑنے ،کی وجہ رب سے کفر بتائی گئی ہے:
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ O (الزمر۳۹:۶۵) یہ بات تمھیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیوںکہ تمھاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیا کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ (محمد ۴۷:۹) کیوں کہ انھوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ O (اٰل عمرٰن۳: ۲۱-۲۲) جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جو خلق خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اُٹھیں ، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور اُن کا مددگار کوئی نہیں ہے۔
كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۭ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ O (التوبہ۹:۶۹)تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمھارے پیش روؤں کے تھے ۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے ۔ پھر انھوں نے دنیا میں اپنے حصہ کے مزے لوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انھوں نے لُوٹے تھے ، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے ، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں۔
سورئہ فرقان (۲۱ تا ۲۳) میں اعمال غبار کی طرح اڑنے کی وجہ آخرت کا انکار، استکبار، سرکشی میں حد سے گزر جانا،بتایا ہے۔
سورئہ آل عمران (۱۱۷) میں پالے والی ہواکے کھیتی پر چلنے کی طرح، اعمال کے ضائع ہونے کی وجہ ،ظلم بتائی ہے۔
سورئہ توبہ (آیت ۱۰۹) میں اوپر درج کی گئی قرآنی امثال میں، کھوکھلی بے ثبات کگر پر بننے والی عمارت گرنے کی مثال، مسجد ضرار کے لیے دی گئی ہے جو کہ منافقین نے مدینہ میں بنائی تھی۔ نفاق کے ساتھ ،مسجد کی تعمیر جیسا مقدس کام بھی مقدس نہیں رہتا اور رائیگاں چلا جاتا ہے۔
عدیؓ بن حاتم طائی سے روایت ہے کہ میں نے رسول ؐاللہ سے پوچھامیرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتے تھے،انھیں کچھ ملے گا،یعنی اجر؟آپؐ نے جواب دیاکہ تمھارے والد کی جو نیت تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔(احمد)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہےکہ انھوں نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ !ابن جدعان بڑی مہمان نوازی اور بڑی صلہ رحمی کرتاتھااور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتاتھا۔ ان کاموں کااسے فائدہ ہوگا؟فرمایا، نہیں۔اس نے کسی دن یہ نہیں کہامیرے پروردگار! قیامت میں میری خطاؤں سے درگزر کرنا۔(مسلم،حاکم)
وہ کام جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔
انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے، اور کسب کی مقدرت نہ ہونا کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۴ )
اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہو جانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔
اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ‘ مسجد حرام کی دیکھ بھال’ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔
حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہ)
ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن سے مناسبت نہیں رکھتا۔
وضو کے بغیر نماز اور غلول سے صدقہ قبول نہیں۔(ابوداؤد)
دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کوکسلمندی سے کیا جائے ،یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔
سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ نمازیوں کے لیے ہی تباہی کی وعید ہے۔ سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔
اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، ابو مسعود)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہےمگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟۔انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی۔پوچھا گیا کیسے یا امیر المومنین؟فرمایا: اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا:انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ لاحاصل رہ کرصرف بھوک اور قیامِ لیل بے معنی ہو کر صرف جاگنا بن سکتا ہے۔(ابن ماجہ، ابو ہریرہ)
زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھنے کا ذکر ہے۔(التوبہ۹:۹۸)
جنید بغدادی کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
کپڑے پہن کر ننگی رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عبایے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔
نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللھم انی اسئلک علما نافعا و رزقا طیبا و عملا متقبلا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نفع بخش علم،پاکیزہ روزی اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا،اے ہمارے رب ،ہم سے قبول فرمالے۔(البقرہ۲:۱۲۷)
علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔
۵-نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی negative marking سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ O وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۭ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘۔ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔
'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بناء پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)
باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔
اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
حضرت کعب بن مالک کےواقعہ سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔
بنی اسرائیل کے علماء نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھانا،پینا اور بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘
کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمۂ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو غبار بنا دے گا۔حضرت ثوبان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔
رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی جلد میں سے ہوں گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)
عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے (جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔(جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)
حضرت ابوالدرداءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے جزیہ کی زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)
حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔
قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)
حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)
مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہی ہیں۔
مندرجہ بالا احادیث کو دیکھتے ہوئےعلما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی) البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (البقرہ ۲:۲۱۷)
تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو ۔اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کے بعد ارتداد یا ایمان کے منافی روش کا خطرہ ہے۔
تفسیر:اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔( تفہیم القرآن)
مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم ۴میں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم ۵ پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعود)
نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)
یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل
(نعیم صدیقی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپؐ رمضان کے استقبال کے لیے لوگوں کے ذہن تیا ر کرتے تھے، تاکہ رمضان سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے جو خاص اس مقصد کے لیے، آپؐ نے رمضان کی آمد سے پہلے خطاب فرمائے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے دیا ہے اور جس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ہیں۔ فرمایا: ’’تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘‘۔اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ روزے کے فیوض اور برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقعے سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔
رمضان سے پوری طرح استفادے اور اس کی خیروبرکت کا واقعی مستحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کے لیے ذہن و فکر اور قلب و روح کو پوری طرح تیار کرلے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کی پہلی رات چھانے سے پہلے انسان اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے بھی معاف کرائے اور اللہ کے بندوں سے بھی۔ وہ سنجیدگی سے سوچے کہ وہ خدا کے حقوق ادا کرنے میں کیا کیا کوتاہیاں کر رہا ہے، کن کن نافرمانیوں میں مبتلا رہا ہے اور اس کی زندگی کے بہترین اوقات کن خرافات میں گزرتے رہے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کرے اور اللہ سے پختہ عہد کرے کہ: ’’پروردگار، جو کچھ ہوچکا ،سو ہوچکا۔ اب یہ تیرا بندہ تیرا وفادار رہے گا اور نافرمانیوں سے دامن پاک رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو رمضان کے دنوں میں ان کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی رمضان میں حساب لگاکر اداکرنے کا ارادہ کرلے۔ قدرے تکلیف اُٹھا کر جتنی ادا کرسکتا ہو ادا کرے، جو رہ جائے اللہ سے عہد کرے کہ رمضان کے بعد اہتمام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بندوں کے حقوق کی ادایگی میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو، کسی کو ناحق ستایا ہو، یا کسی کا دل دکھایا ہو، یا کسی کا نقصان کیا ہو تو یہ ان سب سے معافی طلب کرے اور جب تک یہ لوگ معاف نہ کریں، اطمینان کا سانس نہ لے۔ اس لیے کہ بندوں کے حقوق جب تک بندے خود معاف نہ کردیں اللہ معاف نہیں کرتا۔
اصلاحِ حال کے معاملے میں عام طورپر ایک اور کوتاہی بھی عام ہے، وہ یہ کہ جب بھی انسان پر نیکی کے جذبات چھانے اور نیکیاں کرنے کا داعیہ اُبھرتا ہے، تو ادھر نگاہ نہیں جاتی کہ وہ کن کن بڑے اور چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہے،بلکہ اس کا ذہن کچھ نوافل و اذکار اور صدقات و خیرات کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور آدمی یہ سب کر کے اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس نے دین دارانہ زندگی اپنالی ہے اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اذکار و نوافل اور صدقات و خیرات کا اہتمام کرنے سے پہلے سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے، کہ وہ دیکھے کہ کن کن گناہوں میں وہ مبتلا ہے؟ کبیرہ گناہوں سے مخلصانہ توبہ کرے اور اللہ سے پختہ عہد کرے کہ آیندہ ان گناہوں کو جانتے بوجھتے کبھی نہیں دُہرائے گا۔ صغیرہ گناہوں سے بھی توبہ کرے۔ اگرچہ صغیرہ گناہ تو اللہ تعالیٰ نیکیوں کی برکت سے معاف کردیتا ہے، مگر کبیرہ گناہ وہ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔ کبیرہ گناہ توبہ ہی کے ذریعے معاف ہوتے ہیں اور یہ توبہ ہی بندے کا وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ انتہائی خوش ہوتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ: ایک شخص ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اُونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہو ا تھا۔ ایک جگہ وہ سستانے کے لیے رُکا تو اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کھلی تو اُونٹ غائب، وہ اِدھر اُدھر دوڑا، اُونٹ کو تلاش کیا مگر اُونٹ کا کچھ پتا نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پیناسب کچھ اُونٹ پر لدا ہوا تھا اور اُونٹ غائب ہے۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اُونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! خوشی کی انتہا میں اُلٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اُونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔(مسلم)
رمضان سے واقعی فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ رمضان آنے سے پہلے ہی توبہ کرلے، تمام گناہوں سے رُک جائے اور اللہ سے سچا معاہدہ کرے کہ اب وہ کبھی ان گناہوں کی دلدل کے قریب نہ جائے گا۔ توبہ کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیےکہ انسان سارے گناہوں سے توبہ کرلے، خواہ وہ چھوٹے گناہ ہوں یا بڑے۔ یہ انداز صحیح نہیں ہے کہ کچھ گناہوں سے تو توبہ کرلے اور کچھ کے سلسلے میں اللہ سے معاملہ کرنے بیٹھ جائے کہ فلاں فلاں گناہ کچھ عرصہ اور کرتا رہوں گا یا صرف رمضان تک ان سے باز رہنے اور ان کو ملتوی رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ یہ آدھی پونی توبہ پسندیدہ توبہ نہیں ہے۔ اللہ بندے سے کہتا ہے کہ میں سارے گناہ معاف کردوں گا تو پھر اللہ کی معافی کو کچھ گناہوں کے حق میں اس لیے ملتوی رکھنا کہ ان سے ابھی اور لذت اندوز ہونے کی خواہش ہے۔ حقیقت میں یہ توبہ کی صحیح اسپرٹ نہیں ہے۔ سارے ہی گناہوں سے توبہ کرکے انسان کو چاہیے کہ خود کو اللہ کے حوالے کردے۔ اللہ کس پیار بھرے انداز میں اپنے بندے کو اپنے دربار میں معافی نامہ داخل کرنے کے لیے بلا تا ہے۔ قرآن میں ہے:
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۵۳ (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دیجیے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ بے شک اللہ تمھارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔
اللہ تو کہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کردوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے، تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔
توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں:
توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان المبارک کاشایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے فائدہ اُٹھانے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکارصاف کرنا، اینٹ روڑے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑ جھنکار سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی توقع پوری نہیں کرسکتے اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے، تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیے۔ تب ہی توقع کیجیے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔
اس پہلی شرط کو پورا کرنے کے بعد آپ اس لائق ہیں کہ اب رمضان کا استقبال کریں اور یہ آرزو کریں کہ رمضان کے فیوض و برکات سے اللہ تعالیٰ آپ کا دامن بھردے، اور پھر آپ اس تلقین، تشویق اور ترغیب کے واقعی مخاطب ہیں، جو اللہ کے سچے اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبوں میں رمضان کی آمد کے مواقع پر دی ہے۔ آپ ان خطبات کے مخاطب بھی ہیں اور آپ کا یہ حق بھی ہے کہ آپ رمضان کی برکتوں سے مالا مال ہونے کے لیے سعی و جہد کریں۔
ذہنی تیاری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ رمضان کے سارے روزوں سے فیض یاب ہوں۔ کوئی ایک روزہ اور کسی ایک شب کی تراویح بھی آپ سے چھوٹ نہ جائے۔ اس لیے کہ رمضان کی کسی عبادت کے فیض سے محروم ہونے کے بعد اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِّنْ رَمضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضَ عَنْہُ صَوْمُ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَ اِنْ صَامَہٗ (بخاری، ابی ہریرہ ، ترمذی، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسولؐ اللہ، باب ماجاء فی الافطار متعمداً، حدیث ۶۸۷) جس شخص نے رمضان کا کوئی ایک روزہ بھی کسی عُذر اور بیماری کے بغیر چھوڑ دیا، تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی، خواہ وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے۔
اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ رمضان کا صحیح صحیح حساب لگانے کے لیے شعبان کی تاریخیں محفوظ رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرو۔ آپؐ نے اُمت کو بھی یہ تاکید فرمائی اور خود بھی آپؐ کا یہی عمل مبارک تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ اَحْصُوْا ھِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمْضَانَ (ترمذی،ابواب الصوم عن رسولؐ اللہ، باب ماجاء فی احصاء ھلال شعبان لرمضان ، حدیث ۶۵۵) فرمایا اللہ کے رسولؐ نے، شعبان کا چاند معلوم کرنے کا اہتمام رکھو، رمضان کی صحیح تاریخ معلوم کرنے کی خاطر۔
اور حضرت عائشہؓ کی شہادت ہے کہ آپؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ یَتَحَفَّظُ مَنْ شَعْبَانَ مَالَا یَتَحَفَّظُ مِنْ غَیْرِہٖ ثُمَّ یَصُوْمُ لِرُوْیَتِہٖ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْہِ عَدَّ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا ثُمَّ صَامَہٗ (ابوداؤد، کتاب الصوم، باب اذا أغمی الشھر، حدیث: ۱۹۹۳) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے کہ کسی اور مہینے کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ پھر جب چاند نظر آجاتا تو روزہ رکھنے لگتے اوراگر بدلی چھائی رہتی تو پھر شعبان کے ۳۰دن پورے کرتے۔
اس ابتدائی اہتمام اور ذہنی تیاری کے بعد رمضان کی جن عبادتوں میں آپ دل کی لگن اور کامل شوق کے ساتھ لگیں گے، ان میں سب سے اہم روزہ ہے۔ روزہ فرض ہے اور اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ قرآن و سنت نے بھی اس کو فرض اور رکن قرار دیا ہے، اور اُمت کا بھی اس پر اجماع اور تعامل ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو! روزہ تم پر فرض کردیا گیا، جس طرح ان اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں۔
كُتِبَ کے معنی ہیں: ’لکھ دیا گیا‘۔ یہ لفظ ’فرض کر دینے‘ کے معنی میں آتا ہے۔ یہ خطاب آپ ہی سے ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ ایمان لانے والے ہیں۔ روزہ ایمان والوں پر ہی فرض کیا گیا ہے اور ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس فرض کا پورا پورا حق ادا کریں۔ پھر یہ روزہ صرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہی پر فرض نہیں کیا گیا، بلکہ قرآن کے فرمان کے مطابق پچھلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے اور کسی اُمت کا نظام عبادت روزے سے خالی نہیں رہا ہے۔ قرآن کے اس اندازِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ہراُمت کے نظامِ عبادت میں روزہ لازماً شامل رہا ہے۔ روزے کا مقصود کیا ہے؟ اس کو بھی قرآن نے اسی آیت میں بیان کر دیا ہے:
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرہ ۲:۱۸۳) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
یعنی یہ کہ روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ انسان حرام چیزوں سے اجتناب کرے بلکہ بے زاری دکھائے اور حلال چیزوں کو نہ صرف اختیارکرے بلکہ جائز اور حلال چیزوں کا حریص ہو۔ اللہ کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری میں اسے لذت محسوس ہو، اور اللہ کی نافرمانی اور منکرات سے اس کا اندرون بے زار اور متنفر ہو۔ یہ کیفیت اور یہ جوہر ایمان پیدا کرنے میں روزہ اس قدر مؤثر اور کامیاب ہے کہ کوئی بھی دوسری عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی شہادت کے مطابق روزہ ہراُمت کے نظامِ عبادت میں لازمی جز کی حیثیت سے شامل رہا ہے۔
اب ،جب کہ ہم پر رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ۔ اگر ہم اپنے روزوں سے واقعی جوہرِ تقویٰ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو ہمیں چند چیزوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے:
o پہلی چیز یہ کہ ہم حلال روزی حاصل کریں۔ حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔ سود، دھوکا، فریب اور حرام چیزوں سے قطعی اجتناب کریں۔ حرام روزی کے ساتھ کوئی بھی عبادت قبول نہیں اور کوئی بھی عمل، عمل صالح نہیں۔
oدوسرے یہ کہ ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں، زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ غیبت، چغلی، بدکلامی وغیرہ سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیں اور اگر کوئی ہمارے ساتھ سخت کلامی کرے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو، تو ہم اس سے کہہ دیں کہ ہم روزے سے ہیں اور روزہ رکھ کر ہم یہ حرکات نہیں کرسکتے۔ ان حرکات سے زندگی کو پاک کرنے کے لیے ہی تو مَیں روزہ کا اہتمام کر رہا ہوں۔ مَیں روزہ رکھ کر یہ کیسے کرسکتا ہوں۔
oتیسرے یہ کہ اگر ہمارے ذمےکسی کا کوئی مالی حق ہے یا کسی کا کوئی حق ہم نے دبا رکھا ہے، یا کسی پر کوئی زیادتی کی ہے یا کسی کا ہم پر کوئی قرضہ ہے، تو اوّلین فرصت میں صاحب ِ معاملہ کا حق ادا کردیں اور اگر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اس سے مل کر معاملہ ضرور صاف کرلیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حق تو معاف کردیتا ہے، لیکن بندے کا حق اسی وقت معاف کرتا ہے جب بندہ خود معاف کردیتا ہے۔
رمضان المبارک کی دوسری اہم عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔ قرآن کو رمضان سے خصوصی مناسبت بھی ہے۔ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا ہے:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۱ۚۖ (القدر۹۷:۱) ہم نے اسی کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے۔
اور یہ لیلۃ القدر یقینا رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی ہے ۔ اس لیے کہ دوسری جگہ خود قرآن میں ارشاد ہے کہ:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۳) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ یہ ارشادات قطعی شہادت ہیں، اس حقیقت کے کہ قرآن مجید رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔
ایک اہم مناسبت قرآن اور رمضان میں یہ بھی ہے کہ روزہ انسان میں جوہرِ تقویٰ پیدا کرتا ہے اور یہی جوہرِ تقویٰ انسان کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ قرآنِ پاک سے ہدایت پائے۔ ارشاد ہے:
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرہ ۲:۲) یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔
قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت،قرأت اور قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی باعث ِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کسی ایسے حافظ و قاری کے پیچھے قرآن سنیں جو نمازِ تراویح کے بعد قرآن کے پڑھے ہوئے حصے کے بارے میں آپ کو کچھ بتا بھی سکے،اور خود بھی دن میں ترجمے سے قرآن پڑھنے کا اہتمام کریں۔ اگر اللہ کے فضل و کرم سے آپ عربی جانتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ ختم تراویح کے علاوہ بطور خود بھی تدبر اور غوروفکر کے ساتھ ایک بار قرآنِ پاک کا مطالعہ ضرور کریں۔
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بھی سنّت ہے۔ یہ سنّت مؤکدہ کفایہ ہے۔ کچھ لوگ ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر بستی کا کوئی آدمی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گناہ گا ر ہوتے ہیں۔ یہ اعتکاف پورے دس دن کا ہوتا ہے اور اگر ۲۹ کا چاند ہوجائے تو نودن کا رہ جاتا ہے۔ اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ رمضان کے پورے آخری عشرے میں آدمی اللہ کا ہورہے اور مسجد میں آکر پڑجائے۔ ذکروفکر، تسبیح و تہلیل، نماز و تلاوت، قرآن اور دینی کتب کا مطالعہ وغیرہ ہی اس کا مشغلہ ہو۔ اور ایک اہم عبادت صدقۂ فطر بھی ہے جو نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جانا چاہیے۔
مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے جو بہترین نعمتیں ملی ہیں، ان میں سے ایک عظیم نعمت رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے۔ یہ مہینہ خیروبرکت اور اللہ کی رحمتوں کا خزانہ لیے ہوئے ہرسال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے اور بخشش و مغفرت کے پروانوں کو دُنیا بھر میں رحمت کا خزانہ تقسیم کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے، جو ہم سب کے لیے اسوہ، آئیڈیل اور نمونہ ہیں، عملی طور پر اس ماہِ مبارک کو جس طرح گزار کر دکھایا ہے وہی مبارک طریقہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے اور اسی پر ان سارے فضائل کا ایک مسلمان مستحق ہوسکتا ہے، جن سے احادیث کا دامن بھرا پڑا ہے۔
o جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو آپؐ کا جذبۂ شوق بڑھ جاتا تھا۔ اللہ سے دُعائیں شروع کر دیتے تھے کہ: ’’اے اللہ! ہمیں رمضان المبارک تک زندہ رکھ‘‘۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ یہ دُعا پڑھا کرتے :اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمضَانَ ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے‘‘۔(طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد، ۳/۳۴۰ :۴۷۷۴)
o رمضان کے چاند کی رویت میں کہیں غیریقینی پن نہ ہونے پائے، اس لیے شعبان کے چاند کے لیے ہی بڑی کوششیں اور تگ و دو کرتے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیتے تھے کہ: ’’رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کی بھی خوب چھان بین کی جائے؟‘‘ (ترمذی: ۶۸۷)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: اللہ کے رسولؐ شعبان کے مہینے میں (دنوں کے گننے کا) جتنا اہتمام کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے مہینے میں نہیں کرتے تھے۔(ابوداؤد:۲۳۲۵)
oرسولؐ اللہ رمضان کے استقبال ، اس کی آمد پر اپنی خوشی کے اظہار اور قبل از وقت اس کی تیاری کے لیے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: ’’(رمضان کے علاوہ) میں نے شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں اللہ کے رسولؐ کو کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔(بخاری: ۱۹۶۹، مسلم:۱۱۵۶)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خوشی کے اس موقعے پر: ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ ہرقیدی کو آزاد کرتے تھے اور ہر سائل (مانگنے والے) کو اپنے جود و کرم سے نوازتے تھے‘‘۔(شعب الایمان للبیہقی: ۳۶۳۳)
oشعبان کے مہینے میں اور خاص طور پر اس کی آخری رات میں اور رمضان کے شروع کے دنوں میں اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے رمضان کی اہمیت پر خطبے ارشاد فرماتے، اس کے فضائل بیان کرتے اور اس پُررحمت مہینے کی قدر کرنے پر اُبھارتے،تاکہ پہلے سے وہ اس کے انتظار میں رہیں اور پوری طرح یکسو ہوکر اس مبارک مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہوں۔ مثال کے طور پر کبھی فرماتے: ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کیے جاتے ہیں‘‘ (بخاری:۱۸۹۸)۔کبھی یہ الفاظ ارشاد فرماتے: ’’رحمت کے دروازے کھولے جاتےہیں‘‘۔(مسلم:۱۰۷۹)
ارشاد فرمایا: ’’ابن آدم کے ہرعمل میں اس کی نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں، البتہ روزے کا معاملہ اس سے کچھ مختلف ہے، اس لیے کہ وہ تو (صرف) میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بندہ اپنی شہوتوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو صرف میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو طرح کی خوشیاں ہیں: ایک خوشی تو افطاری کے موقعے پر ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے موقعے پر ہوگی۔ روزہ دار کے لیے چاہیے کہ وہ بے ہودہ باتوں سے اور چیخنے چلّانے سے پرہیز کرے بلکہ اگر کوئی گالی دے یا حملہ کرے تو صاف کہہ دے کہ میں تو روزے سےہوں‘‘۔(بخاری :۱۹۰۴ ، مسلم :۱۱۵۱)
ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے، اے خیر کے چاہنے والے! آگے بڑھ، اور اے بُرائی کے چاہنے والے! باز آجا، اور اللہ کے نزدیک جہنّم سے رہائی حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں اور یہ سلسلہ ہررات چلتا رہتا ہے‘‘ (ترمذی: ۱۳۹۵)۔ ’’اور اس مہینے میں اللہ کے لیے ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کے خیرسے محروم رہا وہ حقیقی محروم ہے‘‘۔(مسند احمد، ۲/۲۳۰ ، نسائی، ۴/۱۲۹)
ایک طویل خطبہ جو شعبان کی آخری رات میں دیا تھا، اس کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہورہا ہے، جو بڑا بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں نمازوں کو سنت قرا دیا ہے۔ جو شخص کسی بھی خیر کے کام کے ذریعے اس مہینے میں اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی دوسرے مہینے میں اس نے کسی فرض کو انجام دے دیا ہو۔اور اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرنے والے کی مثال دوسرے مہینوں میں ستّر فرائض کے ادا کرنے والے کی طرح ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ بھائی چارگی کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے‘‘…(شعب الایمان للبیہقی:۳۶۰۸)
رمضان کے مہینے میں روزے کی ابتدا آپؐ سحری سے کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہوا کرتی ہے‘‘ (بخاری: ۱۹۲۳، مسلم:۱۰۹۵) ۔کبھی فرماتے: ’’سحری کے کھانے کے ذریعے دن کے روزے میں طاقت حاصل کرلیا کرو‘‘ (حاکم، ۱/۴۳۵) ۔ کبھی اس طرح ترغیب دیتے: ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان: ۳۴۶۷)۔ سحری کے کھانے کو برکت والا کھانا قرار دیتے تھے (ابوداؤد: ۲۳۴۴)۔ اور کھجور کو سحری کے لیے بہتر سمجھتے (ابوداؤد:۲۳۴۵) ۔ خود بھی عام طور پر سحری میں کھجور اور پانی ہی پر اکتفا فرماتے اور تنہا سحری کرنے کے بجاے اپنے ساتھیوں کو بھی عام طور پر اس کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے (احمد:۱۳۰۶ ، ابوداؤد:۲۳۴۴)، اور سحری بالکل آخری وقت میں کرتے۔
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں: ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سحری کی۔ پھر مسجد چلے گئے اور فوراً جماعت کھڑی ہوگئی۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: ان دونوں (سحری اور نماز) کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا؟‘‘ فرمایا: ’’اتنی دیر کا فاصلہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتوں کی تلاوت کرسکتا ہے‘‘۔(احمد: ۲۱۹۱۸)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم افطار کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ: ’’غروب کے بعد فوراً افطار کیا جائے اس میں تاخیر بالکل نہ کی جائے‘‘۔ فرماتے تھے: ’’لوگ جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، خیر (اچھی حالت) پر رہیں گے (بخاری: ۱۹۵۷ ، مسلم:۱۰۹۸)۔ وقت ہونے کے بعد افطار میں مزید تاخیر کو یہود و نصاریٰ کی عادت قرار دیتے تھے (ابوداؤد:۲۳۵۳)۔ افطار میں کھجور کو پسند فرماتے اور کہتے تھے کہ اس میں برکت ہوتی ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو پھر پانی کو ترجیح دیتے، اس لیے کہ یہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے (ابوداؤد: ۲۳۵۵و ترمذی:۶۷۸)۔ افطار کے وقت یہ دُعا پڑھا کرتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ (ابوداؤد:۲۳۵۸) ’’اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا‘‘۔ پھر یہ دُعا بھی پڑھا کرتے: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّهُ (ابوداؤد: ۲۳۵۷، نسائی :۳۳۲۹) ’’پیاس بجھ گئی اور رگیں تر ہوگئیں، اگر اللہ چاہے تو یقینا اجر ثابت ہوگا (بدلہ مل کر رہے گا)‘‘ اپنے دوستوں کے یہاں بھی کبھی افطار کیا کرتے اور اس وقت یہ دُعا پڑھتے: اَفطَرَ عِندَکُم الصَّائِمُونَ وَ اَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَنَزَلَتْ عَلِیکُمُ الملائِکَۃُ (دارمی:۱۷۷۲) ’’تمھارے یہاں روزہ دار افطار کیا کریں اور نیک لوگ تمھارا کھانا کھایا کریں اور فرشتوں کا آپ پر نزول ہوا کرے‘‘۔ اور روزہ افطار کرانے کی خاص طور پر ترغیب دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی غازی (اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے) کے لیے وسائل مہیا کیے تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے (ترمذی:۸۰۷، نسائی :۳۳۳۱، والحدیث صحیح کما قالہ الالبانی فی تخریج المشکوٰۃ، ۱/۶۲۱)۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہر آدمی کے پاس کہاں اتنا مال ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی افطار کرا سکے‘‘۔ اس پر ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ ہراس شخص کو عطا فرماتا ہے، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی پر افطار کرائے‘‘۔(شعب الایمان للبیہقی:۳۶۰۸)
رمضان کے مہینے میں اور دنوں کے مقابلے میں آپؐ کی عباداتی مشغولیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور صدقہ و خیرات میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، اور خاص بات یہ ہوتی کہ آپؐ ،حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کا دورہ بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں: اللہ کے رسولؐ خیر کے معاملے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے اور رمضان میں آپؐ کی سخاوت اور بڑھ جاتی تھی اور رمضان کی ہر رات میں جبریل ؑ سے آپؐ کی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ ،قرآنِ کریم انھیں سنایا کرتے تھے۔ اور جب جبریل ؑ سے ملاقات ہوتی تھی تو سخاوت کے معاملے میں آپؐ تیزچلنے والی ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے‘‘( مسلم: ۲۳۰۸)۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے کی حفاظت کی بھی بڑی فکر کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے روزہ دار اہلِ ایمان کو بے ہودہ باتوں، فحاشی، گالی گلوچ، جھوٹ اور لڑائی جھگڑے سے حتی الامکان دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’جو دروغ گوئی اور اس کے مطابق عمل کرنے سے باز نہیں رہتا، تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کے ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘(بخاری:۱۹۰۳)۔ ایک موقعے پر ارشاد فرمایا:’’روزہ ڈھا ل ہے جب تک کہ اس کو توڑ نہ دیا جائے‘‘ (دارمی:۱۷۳۲)۔ اسی طرح آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’کتنے روزہ دار ایسے ہیں، جن کو ان کے روزے کے بدلے سواے بھوکا رہنے کے اور کوئی فائدہ نہیں، اور کتنے رات میں کھڑے ہونے والے (قیام اللیل میں) ایسے ہیں جن کو ان کے قیام کے بدلے میں سواے رات جاگنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘ (الحاکم، ۱/۴۳۱)۔ اور کبھی روزہ بھاری پڑجاتا اور برداشت کی طاقت جواب دے دیتی تو سکون و آرام کے لیے سر پر پانی بھی بہا لیتے تھے (ابوداؤد:۲۳۶۵)، یعنی روزہ کی حالت میں غسل وغیرہ بھی کیا کرتے تھے۔
رمضان کی راتوں کو آپؐ بہت غنیمت سمجھتے تھے۔ اکثر حصہ قیام اللیل میں گزارتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی مشہور روایت ہے: ’’جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور احتساب (ثواب و فضائل کے استحضار) کے ساتھ کھڑا رہا (نمازیں پڑھتا رہا) اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے‘‘(ابوداؤد:۲۳۸۷)۔ جوہستی اپنے ساتھیوں کو اس طرح سے شوق دلاتی رہی ہو، خود ان کا معمول کیا رہا ہوگا؟! اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ آپؐ کا غیر رمضان میں بھی قیام اللیل کا معمول تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ رمضان کے ابتدائی دو عشروں (۲۰ دن) اور آخری عشرے کی راتوں کے معمولات میں بڑا فرق تھا۔ ابتدائی دو عشروں میں آرام بھی کیا کرتے تھے اور اپنے اہلِ خانہ کے جائز حقو ق بھی ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے: ’’اللہ کے رسولؐ ابتدائی بیس راتوں میں سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے، لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو پھر آپؐ کی عبادت بڑھ جاتی اور کمر کَس لیتے‘‘ (بخاری:۱۹۰۱)۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ! آخری عشرہ میں اتنی کوشش (عبادت) کیا کرتے تھے جتنی اور دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے‘‘(مسلم،ص ۱۱۷۵)۔ دوسری جگہ انھی سے روایت نقل ہے:’’جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا آپؐ کمر کس لیتے اور راتوں کو زندہ کرتے (جاگتے) اور اپنے گھر والوں کو جگاتے(بخاری: ۲۰۲۴ ، مسلم:۱۱۷۴)۔ اور آخری عشرہ میں کبھی کبھی قیام اللیل (تراویح) میں جماعت کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ البتہ اس کی پابندی نہیں کیا کرتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں اُمت پر فرض نہ کی جائے۔ (بخاری:۷۳۱)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی سال رمضان میں اعتکاف ممکن نہ ہوتا تو دوسرے سال اس کی قضا کرلیا کرتے تھے(ابوداؤد:۲۴۶۳ و ترمذی:۸۰۳)۔ اعتکاف کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ لیلۃ القدر جو ایک بابرکت رات ہے اور ہزار مہینوں سے بھی خیروبرکت میں افضل ہے، اس کو تلاش کیا جائے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ اللہ کے رسولؐ نے رمضان کے عشرہ اولیٰ میں اعتکاف کیا۔ پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا (یہ اعتکاف آپؐ نے مسجدمیں ایک) ترکی گنبد میں جو آپؐ کے لیے مسجد میں بنایا گیا تھا ، کیا تھا۔ پھر ایک دن آپؐ نے اس میں سے اپنا سر باہر نکالا اور فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف اس رات (لیلۃ القدر) کی تلاش میں کیا تھا۔ پھر میں نے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ رات آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جن لوگوں نے بھی میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرلیں۔ (بخاری:۲۰۱۸، مسلم :۱۱۶۷)
جب آپؐ اعتکاف کے لیے بیٹھتے تو آپؐ کے لیے مخصوص حجرہ مسجد میں بنایا جاتا، جس کا تذکرہ قبہ ترکیہ کے الفاظ کے ساتھ اُوپر والی روایت میں کیا گیا ہے تاکہ یکسو ہوکر اللہ کی طرف متوجہ رہیں، اِدھر اُدھر کی باتوں، لوگوں سے ملاقات اور دیگر مشغولیات میں وقت ضائع نہ ہونے پائے۔ جب آپؐ اعتکاف کے لیے مسجد میں داخل ہوتے تو فجر کی نماز کے بعد اپنے معتکف (مخصوص حجرے) میں داخل ہوجاتے (بخاری:۲۰۳۳، مسلم:۱۱۷۳)۔ آپؐ کا بچھونا یا پلنگ اسطوانہ توبہ کے پیچھے لگایا جاتا (ابن ماجہ:۱۷۷۴)۔ حالت ِ اعتکاف میں بغیر کسی انسانی ضرورت (کھانا، پینا اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہونا) کے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے (بخاری:۲۰۲۹)۔ یعنی اعتکاف کی حالت میں آدمی عام دنوں کی طرح خارجی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ مریض کی عیادت اور جنازے وغیرہ میں شرکت بھی نہیں کرسکتا، تو اعتکاف کی صورت میں بیٹھے بیٹھے سارے خیر کے کاموں کے اجر سے وہ نوازا جاتا ہے۔رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے اشد ضروری اُمور پر مختصر گفتگو بھی کرلیا کرتے تھے (دارمی:۱۷۸۰) اور ضرورت پر سر کی مالش، بالوں میں کنگھی اور سر دھونے وغیرہ کی خدمت بھی لیا کرتے تھے۔(بخاری:۲۰۲۹)
اعتکاف کے زمانے میں سب سے زیادہ فکر لیلۃ القدر کی ہوا کرتی تھی۔ اسی کی تلاش میں راتوں کو جاگا کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی اس کے سلسلے میں تاکید کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو‘‘ (بخاری:۲۰۱۷، مسلم:۱۱۶۹)۔ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ آپؐ سے دریافت کیا:’’اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہوجائے تو اس میں کیا کہا کروں؟‘‘ (یعنی کون سی دُعا کا ورد کروں؟) فرمایا: ’’تم اس کا ورد کیا کرو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (ترمذی: ۳۵۱۳ حدیث صحیح)، یعنی اے اللہ! تو سرتاپا عفو و درگزر والا ہے اور عفو و درگزر کوپسند فرماتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی عفوو درگز کا معاملہ فرما ‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں سفر بھی کیا کرتے تھے اور سفر میں کبھی روزہ رکھتے اور کبھی افطار بھی کرتے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے: ’’اللہ کے رسولؐ نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا‘‘ (بخاری:۱۹۴۸)۔لیکن جب روزہ رکھنے سے طبیعت میں کمزوری لاحق ہوجاتی اور اس کی وجہ سے صحت پر بُرا اثر پڑنے کا امکان ہوتا اور روزہ ناقابلِ برداشت ہوجاتا تو پھر خود بھی روزہ توڑ دیتے اور ساتھیوں کو بھی روزہ توڑنے کی ترغیب دیتے اور اگر اس سلسلے میں کوئی نافرمانی کرتا تو پوری سختی سے اس کو تنبیہ بھی فرماتے۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ فتح مکہ کے موقع پر رمضان کے مہینے میں نکلے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔ جب ’کراع الغمیم‘نامی علاقے میں پہنچے تو روزے میں پیاس کی شدت حددرجہ بڑھ گئی۔ آپؐ نے ایک پیالے میں پانی منگوایا اور اس کو اُوپر اُٹھایا تاکہ شریکِ سفر لوگ بھی اس کو دیکھیں۔ پھر اس کو نوش فرمایا۔ بعد میں آپؐ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ اب بھی روزے سے ہیں۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں‘‘ (مسلم:۱۱۱۴)۔عام طور پر رمضان کے مہینوں میں سفر کے سلسلے میں جو روایتیں آپؐ کے متعلق نقل کی جاتی ہیں وہ جہاد ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ہم اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جہاد کے لیے اس وقت نکلے جب رمضان کی ۱۶راتیں گزر چکی تھیں‘‘ (مسلم:۱۱۱۶)۔ فتح مکہ کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ واقعہ رمضان کےمہینے میں پیش آیا جیساکہ پیچھے روایت میں اس کی صراحت گزر چکی ہے۔ اسی طرح غزوئہ بدر کے متعلق بھی مشہور یہی ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۵۱۶۷)
صحت اور بیماری یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں،اور اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاہے بیماری انسان کو بے بس اور مجبور کرسکتی ہے۔ عام مہینوں کی طرح رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں بھی بیماری اپنا راستہ تلاش کرسکتی ہے اور جب بیماری ہوگی تو علاج بھی ناگزیر ہے۔ یہی طریقہ ہمیں اللہ کے رسولؐ کی حیاتِ مقدس میں بھی واضح طورپر نظر آتا ہے کہ آپؐ رمضان کے مہینے میں بھی ضرورت پر علاج معالجے سے کام لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ ارشاد فرماتے: ’’اللہ کے رسولؐ نے احرام کی حالت میں بھی پچھنا لگوایا اور روزے کی حالت میں بھی پچھنا لگوایا‘‘ (بخاری:۱۹۳۸، مسلم:۱۲۰۲) اور دوسروں کو بھی اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ’’ایک آدمی نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میری آنکھوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ کیا میں روزے کی حالت میں سُرمہ لگا سکتا ہوں؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا:ہاں‘‘۔(ترمذی: ۷۲۶)
اگرچہ آپؐ کی حیاتِ پاک میں،رمضان کے دوران زندگی گزارنے کی بے شما ر تفصیلات موجود ہیں، تاہم یہاں پر چند اُمور کا انتخاب پیش کیا ہے تاکہ ہم رمضان گزارتے وقت ، ہر ہر قدم پر یہ محسوس کریں کہ ہم کو سنت پاک پر کس طرح عمل کرنا ہے۔
ماہِ رمضان گزارنے والوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک وہ جس کے لیے اس مہینے اور سال کے دوسرے مہینوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ ناکام ونامراد شخص ہے۔ دوسرا وہ جو عابد ہے، صرف عبادت کرتا ہے۔ اس کو رمضان کا ثواب تو ملتا ہے، لیکن رمضان کا مہینہ گزرتے ہی اس کا جوش و خروش ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی پہلی والی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ تیسرا وہ جو حضورِ قلب کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اس مہینے کو غنیمت جان کر اس دوران زیادہ سے زیادہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے، اور اس کی پچھلی اور بعد والی زندگی میں نمایاں فرق پیدا ہوتاہے۔ تیسری قسم کے یہی لوگ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی صحابہ کرامؓ تھے۔ رمضان کے دوران انھی بزرگ ہستیوں کے معمولات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
صحابہ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے معمولات کو ترتیب دینے کے لیے اپنے اوقاتِ کار مرتب کرتے تھے اور اپنا وقت ضائع ہونے نہیں دیتے تھے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہو سکے لایعنی باتوں سے محفوظ رہو‘‘۔ اس روایت کے راوی طلیق جب روزے سے ہوتے تو اپنے گھر سے صرف نماز کے لیے نکلتے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:۸۹۷۰)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’جب تم روزہ رکھو تو تمھارے کان، تمھاری آنکھیں اور تمھاری زبان جھوٹ اور گناہوں سے روزہ رکھیں۔ خادم کو تکلیف دینے سے باز رہو، اور تمھارے روزے کے دن تم پر وقار اور سیکنت ہو۔تم اپنے روزے اور اپنے افطار کے دن کو یکساں مت بنائو‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۸۹۷۳)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’روزہ صرف کھانے پینے سے نہیں ہے، بلکہ روزہ جھوٹ ، باطل اور لغو قسم کھانے سے بھی ہے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۸۷۵)۔ اسی طرح کی بات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (ایضاً: ۸۹۷۷)
ابن ابی شیبہ نے ابو المتوکل سے روایت کیا ہے کہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ اور آپ کے ساتھی جب روزہ رکھتے تو مسجد میں بیٹھتے‘‘ (النہایۃ فی غریب الحدیث : دیکھا جائے ، مادہ:ذرب ) ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتی تھی، خصوصاً آخری عشرے میں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اصحابِ صفہ کو کھانا پیش کرتے تھے۔ یہ مسلمانوں میں سے معاشی لحاظ سے کمزور لوگ تھے جو مسجد نبوی میں بسیرا کرتے تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جب رمضان آیا تو ہم صفہ میں تھے۔ ہم نے روزہ رکھا، جب ہم افطار کرتے تو ہم میں سے ایک شخص کے پاس ایک آدمی آتا اور اپنے ساتھ لے جا کر رات کا کھانا کھلاتا ‘‘ ۔ (حلیۃ الاولیاء ۳/۲۲، دلائل النبوۃ للبیہقی ۶/۱۲۹، تاریخ دمشق : ۱۶/ ۴۵۷)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، وفود اور مہمانوں کے لیے کھانا پکایا کرتے تھے۔ علقمہ بن سفیان بن عبداللہ ثقفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’ہم وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ آپؐ نے ہمارے لیے مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دو خیمے لگوائے تھے۔ بلال ہمارے پاس افطار لے کر آتے تو ہم پوچھتے : ’’بلال، کیا رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے افطار کیا ؟‘‘وہ کہتے :’’ہاں، میں تمھارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں افطار کرنے کے بعد ہی آیا ہوں اور ہم بھی کھاتے ، اور بلال ہمارے پاس سحری بھی لے کر آتے تھے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، ۶۴۰۰)
عبداللہ بن رباح روایت کرتے ہیں: ’’چند وفود حضرت معاویہؓ کے پاس آئے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہم میں سے بعض لوگ تھوڑا کھانا بناتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کثرت سے ہمیں اپنے کجاوے میں بلاتے تھے۔ پھر میری ملاقات حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ عشاء کے وقت ہوئی۔ میں نے کہا: آج رات میرے پاس دعوت ہے۔ انھوں نے کہا: آپ مجھ پر سبقت لے گئے۔ میں نے کہا : جی ہاں، پھر میں نے لوگوں کو دعوت دی‘‘۔(مسلم :۳/ ۱۴۰۵، حدیث: ۱۷۸۰)
طاؤسؒ سے یہ روایت نقل ہے کہ: ’’میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے سحری میں مجھے اپنے پاس کھانے کے لیے بلایا ، تو اسی دوران لوگوں کا شورغل سن کر دریافت کیا: یہ کیا ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا: لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں‘‘ (مختصر قیام اللیل، ۹۷) ۔دراصل لوگ اجتماعی سحری کے بعد نکل رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ کبھی آپ کے شاگرد سحری کھایا کرتے تھے، چاہے تھوڑا بہت کچھ بھی پاس ہوتا، اور وہ سحری تاخیر سے کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن مطر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’میں عبداللہ کے پاس ان کے گھر آیا، تو انھوں نے اپنی سحری میں سے بچا ہوا کھانا نکالا ، تو ہم نے آپ کے ساتھ سحری کھائی۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم نکلے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی ‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۰۲۴)
صِلہ بن زُفر کہتے ہیں: ’’میں نے حذیفہ کے ساتھ سحری کھائی ، پھر ہم مسجد چلے گئے، دورکعت فجر کی سنت پڑھی، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم نے نماز پڑھی‘‘۔ (نسائی: ۲۱۵۳،۲۱۵۴)
ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے کہ ’’ہم رمضان میں ابن عباسؒ کے ساتھ افطار کیا کرتے تھے۔ جب شام ہوتی تو اپنے ایک ربیب کو گھر کی چھت پر چڑھنے کا کہتے۔ جب سورج غروب ہوتا تو وہ اذان دیتا۔ آپ بھی کھاتے اور ہم کو بھی کھلاتے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوتے تو نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ، تو ہم بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۰۳۶)
ابن الاثیر نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کی ہے: جب رمضان کا مہینہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ رات کا کھانا ایک دن حسنؓ کے پاس، ایک دن حسینؓ کے پاس اور ایک دن عبداللہ بن جعفرؓ کے پاس کرنے لگے(اسد الغابہ ۳/۶۱۵)۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کا بڑا اپنے گھر والوں کا اکرام کرے، اپنی محبت کا اظہار کرے اور ان سے ملاقات کو جائے۔
صحابہ کرامؓ رمضان میں قرآن کی تلاوت کثرت سے کرتے، بلکہ بعض صحابہؓ تو اس کے لیے فارغ ہی ہورہتے ،اور اسی کو اپنا مشغلہ بنا دیتے۔
مروزی نے قاسم سے روایت کیا ہے: ’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پورا قرآن ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک ختم کرتے تھے، اور رمضان میں ہر تین دن میں ایک ختم کرتے، اور دن میں بہت ہی کم قرآن ختم کرنے پر مدد لیتے تھے‘‘۔ ( مختصر قیام اللیل، والسنن الکبری للبیہقی ۲/۳۹۶، المعجم الکبیر:۸۷۰۶، ص ۹/۱۴۲، حلیۃ الاولیاء :۷ /۱۶۶)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ معمول تھا کہ وہ رمضان میں دن کے شروع حصے میں قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تو سو جاتیں ۔ (لطائف المعارف، ص۱۷۱ )
رمضان میں تلاوت قرآن کے سلسلے میںسلف کے طریقے کی مناسبت سے ایک اقتباس پیش ہے: ’’ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان میں تلاوتِ قرآن سے سلف کے شدید تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: بعض سلف رمضان کے قیام اللیل میں ہر تین رات میں ایک ختم کرتے تھے، اور بعض سات راتوں میں ایک۔ ان میں سے قتادہ بھی ہیں، اور بعض دس راتوں میں ایک ، جن میں سے ابو رجا ء عُطاردی ہیں‘‘۔
سلف رمضان کے مہینے میں نماز میں اور نماز کے علاوہ بھی قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ نخعی اہتمام کے ساتھ مہینے میں تین راتوں میں ایک بار ختم کرتے تھے۔ قتادہ ہمیشہ سات دنوں میں ایک بار ختم کرتے تھے، اور رمضان کی ہر تین راتوں میں ایک بار تلاوتِ قرآن ختم کرتے۔ قتادہ رمضان میں کثرت سے قرآن پڑھتے تھے۔ زہری کا یہ معمول تھا کہ جب رمضان آتا تو کہتے: یہ تلاوتِ قرآن اورکھانا کھلانے کا مہینہ ہے۔
ابن الحکم کہتے ہیں: جب رمضان آتا تومالک بن انس ذخیرئہ حدیث پر غوروفکر اور اہل علم کے ساتھ بیٹھنے کے بجاے پوری طرح قرآن کریم کی تلاوت کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
سفیان کہتے ہیں: زید یامی کا یہ معمول تھا کہ جب رمضان آتا تو مصاحف کو لاتے اور اپنے ساتھیوں کو اپنے پاس جمع کرتے۔ تین سے کم دنوں میں تلاوتِ قرآن مکمل کرنے سے جو منع کیا گیا ہے، اس کاتعلق پابندی سے ہے، البتہ افضل اوقات میں، مثلاً رمضان کے مہینے میں اور خصوصاً ان راتوں میں جن میں شبِ قدر کی تلاش کی جاتی ہے، یا افضل مقامات پر، مثال کے طور پر مکہ مکرمہ تو ان اوقات اور جگہوں کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ قرآن کی تلاوت مستحب ہے۔ یہ احمد، اسحاق وغیرہ ائمہ کا قول ہے۔ (لطائف المعارف،ص ۱۷۱-۱۷۲)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے، اپنے قیام میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک تہائی ، نصف یا رات کا اکثر حصہ تلاوت ِ قرآن ، نماز، اور ذکر واذکار واستغفار میں لگاتے تھے۔
عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمروبن حزم سے روایت ہے کہ: میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کو کھانا لانے میں جلدی کا کہتے کہ کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے‘‘۔ (موطا امام مالک: ۱/۱۱۶، فضائل الاوقات للبیہقی : ۱۲۹، ص۲۸۰)
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی رات کو چار حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ عام طور پر آدھی رات نماز میں جاگتے تھے، اور ہر چار رکعت کے درمیان وضو کی مقدار تک آرام کرتے۔ مروزی نے حسن بصریؒ سے روایت کیا ہے: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی رضی اللہ عنہ کو رمضان میں لوگوں کی امامت کا حکم دیا تو انھوں نے امامت کی۔ وہ ایک چوتھائی رات سوتے اور دو چوتھائی رات نماز پڑھتے ، اور ایک تہائی رات باقی رہنے پر اپنی سحری اور ضرورتوں کے لیے واپس چلے جاتے …‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ،ص ۹۶)
حسن بصریؒ کہتے ہیں: ’’لوگ عمر بن خطابؓ اور عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں رمضان میں عشاء کی نماز رات کے ابتدائی ایک چوتھائی حصے میں پڑھتے، دوسرے ایک تہائی میں قیام کرتے، پھر ایک چوتھائی میں سوتے، اور اس کے بعد پھر نماز پڑھتے‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی، ص ۹۷)
بیہقی وغیرہ نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے، اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طویل قیام کی وجہ سے اپنے عصا پر ٹیک لگاتے تھے ‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی ، ۲/۴۹۶، مختصر قیام اللیل ، ۹۶)
عبدالرحمٰن بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’میں نے رمضان میں لوگوں کو پایا کہ وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے، تا کہ اس سے سہارا لیں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۷۷۶۰، ص۵/۲۲۲)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قراء ت طویل کرتے تھے اور بیس رکعت پڑھتے تھے۔ مروزی نے زید بن وہب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے : ’’عبداللہ بن مسعودؓ ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے ہوئے اس وقت واپس جاتے، جب کہ ابھی رات باقی رہتی ‘‘۔ اعمش کہتے ہیں: ’’وہ ۲۰رکعت پڑھتے تھے اور تین رکعت وتر‘‘۔ عطا کہتے ہیں: ’’میں نے ان (صحابہ ) کو رمضان میں ۲۰رکعت اور تین رکعت وتر پڑھتے ہوئے پایا ‘‘۔ (مختصر قیام اللیل، ص ۹۵ )
آخری عشرے میں عبادت میں صحابہ کرامؓ کی جدوجہد بے انتہا بڑھ جاتی تھی۔ خود بھی عبادت میں مصروف ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی رات کو جگاتے ۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ مجاہد سے ہے: ’’عمر آخری عشرے میںاپنے گھر والوں کو جگاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۶۳۸، ص۶/ ۲۷۴)
ترمذی نے عینیہ بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا ہے کہ، مجھے میرے والد نے بتایا: ابوبکرہ کے پاس شبِ قدر کا تذکرہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں اس کو آخری عشرے میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی وجہ سے تلاش کروں گا، کیوں کہ میں نے آپؐ کوفرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اس کو باقی نو دنوں میں، یا سات دنوں میں، یا پانچ دنوں میں یا تین آخری راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ ابو بکرہ ۲۰رمضان تک تو سال کے دوسرے دنوں کی طرح نماز پڑھتے، لیکن جب آخری عشرہ آتا تو جد وجہد کرتے ‘‘۔ (ترمذی ، ۷۹۴،ص۲/ ۱۵۱، مصنف ابن ابی شیبۃ، ۹۶۴۰، ص۶/ ۲۷۴۔ ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔)
ابو عثمانؒ سے روایت ہے: ’’میں ابو ہریرہؓ کے پاس سات دن مہمان رہا۔ وہ ، بیوی اور ان کا خادم رات کو ایک ایک تہائی باری باری جاگتے تھے۔ ایک نماز پڑھتا پھر دوسرے کو جگادیتا‘‘۔ (بخاری، ۵۱۲۵، ص۵/۲۰۷۳ )
سحری میں صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ تاخیر سے کرتے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سحری ختم کرنے اور فجر کی اذان میں ۵۰سے ۶۰ آیتوں کا فصل رہتا۔ اگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو گھونٹ پانی ضرور پیتے، کیوں کہ سحری اس امت کی خصوصیت ہے۔
افطار میں صحابہؓ کا معمول یہ تھا کہ مغرب کی اذان ہوتے ہی کھجور کھا لیتے ، کھجور نہ ملتی تو پانی سے افطار کرتے ، یا جو بھی میسر آتا اس سے پہلی فرصت میں افطار کرتے ، اور افطار کے وقت مسنون دعائوں کا اہتمام کرتے ۔
اس مبارک مہینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سخاوت عروج پر ہوتی۔ عام معمول یہ ہوتا کہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ خود بھوکے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کی اس صفت کی تعریف قرآن مجید میں کی ہے ، خصوصاًجب عید کا دن ہوتا تو صدقہ فطر کے علاوہ بھی فقرا میں اپنا مال تقسیم کرتے تا کہ کوئی بھی اس دن کی خوشی سے محروم نہ رہے۔
رمضا ن المبارک اسلامی سال کا ایک عظیم اور جلیل القدر مہینہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شہر عظیم اور شہر مبارک کہاہے۔اگر اس ماہِ مبارک کو اصول دین کے مطابق کامل شعور ، جذبۂ اخلاص اور اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق گزارا جائے تو یقینا انسان کی زندگی کے لیے یہ ایک مہینہ بڑی تبدیلی اور انقلاب لانے کے لیے کافی ہے۔عربی میں روزے کو ’صوم‘ کہتے ہیں، ’صیام‘ اس کی جمع ہے۔ ’صوم‘ کے لغوی معنی ہیں:’رکنا‘ اور ’چپ رہنا‘۔ شریعت میں روزہ اس بات کا نام ہے کہ انسان روزے کی نیت کرکے طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور بعض دوسری معیّنہ خواہشات کو پورا کرنے سے رُکا رہے۔ حالتِ روزہ میں دن بھر بندۂ خدا بھوک کی شدّت، پیاس کی تیزی اور ہیجان کو قابو میں رکھتے ہوئے خواہشات کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ مؤذّن کے بلانے پر نہ صرف یہ کہ نمازِ فرض و سنّت ادا کرتاہے بلکہ تراویح جیسی طویل نماز بھی پڑھتا ہے۔ پورے ۲۹یا ۳۰دن اسے خلافِ معمول رات کے آخری حصّے میں سحری کے لیے اُٹھنا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کا جسم عیش و عشرت اورسکون و راحت کا دل دادہ ہونے کے بجاے مشقّت اورجفاکشی کا عادی ہوجاتاہے ۔ رمضان المبارک جس جفا کشی اور مشقّت سے انسان کو گزار کر جن بڑے مقاصد اور خصوصیات کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہ تقویٰ کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
یہ ماہِ مبارک، نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ ، جہاد کا مہینہ بھی ہے۔ اسی مہینہ میں اسلام وکفر، حق و باطل کے کئی فیصلہ کن معرکے وقوع پذیر ہوئے۔غلبۂ حق کی مہم کا آغاز اسی ماہِ مبارک میں پیش آیا، جسے ہم ’یوم الفرقان‘ کے نام سے جانتے ہیں اور جس کا انجام عظیم الشان فتح مکّہ پر ہوا۔ اللہ کے رسولؐ نے ۹سالہ جہاد سے پُر زندگی کے ۸رمضان معرکوں میں یا پھر ان کی تیاریوں میں گزارے۔ صرف ایک رمضان ایسا گزرا جو امن وامان کے ساتھ گزرا۔اللہ کے رسول ؐنے اسلامی تاریخ کا پہلا ۳۰؍افراد کا گشتی دستہ حضرت امیر حمزہ ؓ کی قیادت میں ابو جہل اور اس کے ۳۰۰؍افراد جو مدینہ کے خلاف روانہ ہوئے تھے،ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا۔ یہ دستہ بھی آپؐ نے رمضان میں ہی روانہ کیا تھا۔
جس معرکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس موجود رہے اس کو ’غزوہ‘ کہتے ہیں اور جہاں خود تشریف نہ لے گئے ہوں بلکہ صرف لشکر بھیجا ہو اسے ’سرایا یا بعث‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امام المجاہدین حضرت محمد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ اپنی عسکری زندگی میں بھی افضل و کامل تھے۔ ایک جنگی مدبّر اور بہترین فاتح کی حیثیت سے بھی اپنی نظیر آپ تھے۔ سیرتِ نبویؐ کے لکھنے والے رسولؐ اللہ کے جنگی کارناموں اور حربی معرکوں کو یا تو بہت اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں یا اپنے بیان کو اس طرح الجھا کر لکھتے ہیں کہ حضوؐر کی زندگی کے اس پہلو کو سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض مؤرخین حضوؐر کی فتوحات کو اس طرح پیش کرتے ہیں، گویا وہ محض معجزات کا نتیجہ تھے۔
میدانِ جہاد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رہبر قرآنی تعلیمات تھیں۔آپؐ کی عسکری زندگی کا آغاز مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے پر ہوتا ہے، جہاں آپؐ نے سلطنت کی بنیاد رکھی اور مختلف طریقوں سے اسے مستحکم کیا۔ دفاعی انتظام کے علاوہ وادیِ یثرب کے مختلف قبائل سے خاص کر یہودیوں سے عہد نامے کرکے ایک چھوٹی سی ریاست کو اندرونی استحکام بخشا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسولؐ اللہ اس امن کی فضا میں وسائل عسکری فراہم کرنے اور وطن کادفاع مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اخلاقی تربیت تو مدتوں سے جاری تھی، اب فن سپہ گری کی ٹریننگ دینے کا موقع بھی دستیاب ہوگیا۔ اسلامی اصول جنگ اور ان کے مقاصد بھی اچھی طرح ذہن نشین کردیے گئے۔ نظم و ضبط اور سالار کے تحت کام کرنے کی تربیت بھی دی گئی اور جلد ہی انفرادی تربیت کے دور میں پہنچ گئی۔ شروع شروع کی اجتماعی تربیت جس کو آج کل کی زبان میں اجتماعی یا میدانی تربیت کہا جاتا ہے، اُن چھوٹی بڑی مہموں اور چھوٹے غزوات پر مشمل تھی، جو غزوۂ بدر سے پہلے پیش آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود ۲۸ معرکوں کی قیادت فرمائی، اور یہ لڑائیاں ہجرت کے بعد کے سات برسوں میں ہوئیں۔ حیاتِ طیبہؐ میں پہلا غزوۂ بدر جو ۲ہجری میں واقع ہوا اور غزوۂ تبوک کفر و ایمان کی آویزش کا آخری حصّہ تھا۔جو ۸ ہجری میں واقع ہوا۔
آپؐ دعا کے الفاظ پر غور کریں، آپؐ نے فتح و نصرت کی دعا نہیں مانگی۔ آپؐ کو نہ تو مملکت کی ضرورت و خواہش تھی اور نہ دولت و حشم کی۔ آپؐ کے پیشِ نظر تو اللہ کی ’عبادت‘ تھی۔ عبد اپنے مالک کا حکم مانا کرتاہے۔ اللہ کی عبادت کے معنی اللہ کے احکام ماننے اور اللہ کے احکام کے مطابق معاشرہ قائم کرنے کے ہیں۔اس دعا کا مفہوم صرف یہ تھاکہ’’اے اللہ، اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت تادمِ آخر کے اصول پر لڑتے ہوئے ختم ہوگئی، تو پھر تیرے نازل کردہ احکام کو مانتے ہوئے حکومت کرنے والا معاشرہ کہیںباقی نہ رہے گا‘‘۔
اصل طاقت ایمان کی ہوتی ہے نہ کہ افراد کی۔ ۷۰کفار قتل ہوئے اور ۷۰ہی گرفتار کرکے جنگی قیدی بنالیے گئے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’ اور (اُس وقت کو) یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمھیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بے جان و مال نہ کر دیں)، تو اُس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تمھیں تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (اُس کا) شکر کرو ‘‘۔( الانفال ۸:۲۶)
جنگوں کی پوری تاریخ میںچشم فلک نے ایسے مد مقابل نہ دیکھے ہوںگے جو خون کے رشتوں میں منسلک ہوں۔ حسب ، نسب اور رنگ و نسل ایک ہو۔ زبان ایک جیسی ہو مگر امتیاز ِ خیر و شر نے خون کو خون سے جدا کردیا۔ رشتوں کی کوئی وقعت نہ رہی اور نہ خون کی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تمام محبتوں اور نسبتوں پر حاوی ہوگئی۔باپ بیٹا، بھائی بھائی اور خسرداماد آمنے سامنے آگئے۔ مقاصد نے اختلاف پیدا کیا اور تلوار نے فیصلہ کردیا۔
اس مختصر سے مضمون میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معرکوں کا ذکر ممکن نہیں، یہاں پر ان معرکوں کو پیش کیا جارہا ہے جن کا تعلق ماہِ رمضان المبارک سے ہے۔
دفاعی خندق کا کھودنا عرب کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی جنگی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غزوۂ خندق کی کھدائی عین وسط رمضان میں شروع ہوئی تھی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رمضان المبارک میں غزوۂ خندق میں خندق کھودنا ایک کٹھن کام تھا۔ دشمنوں کا لشکر جرار اچانک حملہ آور ہوا تھامگر تین ہزار مسلمانوں نے کمالِ جرأت سے بیس دن میں گہرا اور چوڑا نالا کھود ڈالا۔ صحابہ ؓ مٹی کھودتے تھے، پیٹھ پر لاد کر باہر پھینکتے تھے اور مل کر یہ اشعار پڑھتے: ’’ہم ہیں جنھو ں نے محمد رسولؐ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، جب تک جان میںجان ہے ہم اللہ کی راہ میں لڑتے رہیںگے‘‘۔ مشرکین جب اپنی طاقت کے نشے میں چور اور قتل و غارت کے خواب دیکھتے ہوئے اس خندق کے قریب پہنچے تو ان کے ہوش اُڑ گئے۔ آہستہ آہستہ طویل محاصرے سے دشمن قبائل میںجھگڑے اُٹھے اور ایک ایک کرکے واپس جانے لگے اور آخری دنوں میں طوفان آیا ، جس نے ر ہے سہے قبائل کا مورال گرا دیا اور وہ بھی محاصرہ اُٹھانے اور پسپا ہونے پر مجبور ہوگئے ۔
سورۂ احزاب میں آیت۱۲ میں بیان کیا گیا ہے کہ تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ جنگ کی ابتدا سے اختتام تک اللہ کے رسولؐ کا یہ حال تھا کہ ہرمشقّت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اُسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ نہ صرف شریک رہے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصّہ لیا۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ رمضان کے روزوں اور بھوک و پیاس کی شدید تکلیفوں کو اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ جب ہمارے رہبر و رہنما اور آئیڈیل کا یہ معاملہ تھا تو آج ہماری ہی ملّت کے نوجوانوں، بڑوں اور بوڑھوںکا معاملہ دیکھیے مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے روزے نہ رکھنے کا جواز نکالتے ہوئے ذرا سی شرم نہیں محسوس کرتے۔
مدینہ واپسی کے بعد کفّار کاایک وفد مدینہ طیبہ آیا تاکہ تجدید ہوسکے، لیکن جس رب نے صلح کا حکم دیا ہے، اسی کی طرف سے خیانت و بدعہدی کے بعد معاہدہ سے دست برداری کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ فتح مکّہ کے ضمن میں ۱۰ ہزار جانبازوں کا قافلہ حضوؐر کی قیادت میںنکلا۔ وہ جو لات و ہبل جن کی قسمیں مکّہ میں کھائی جاتی تھیں سرنگوں ہوگئے۔ محض حضرت خالد بن ولیدؓ کے قافلے سے کفّار کے ایک دستے کی ذرا سی مڈبھیڑ ہوئی، ورنہ یہ عظیم انقلاب بغیر نکسیر پھوٹے تکمیل پذیر ہوگیا۔ یہ اتفاق نہیں بلکہ مشیت ِ الٰہی تھی کہ جنگِ بدر کے وقت ۱۷رمضان تھا لیکن اب یہ ۲ہجری نہیں ۸ ہجری ، فتح مکّہ اور ۱۰رمضان تھا۔
دُشمن کو اصلی حقیقت پرپردہ ڈال کر بظاہر ایسا پیش کرنا کہ وہ مرعوب ہوجائے۔ آپؐ نے فتح مکّہ کے وقت ایسا ہی حکم دیا کہ ہرمسلمان فوجی پڑاؤ پر الگ الگ آگ روشن کرے، لاتعداد الاؤ سے اہل مکّہ کو اچانک علم ہوا کہ مسلمانوں کا لشکر جرّار بہت ہی بڑی تعداد میںمکّہ کے قریب آپہنچا ہے۔ دُور سے ۱۰ہزار چولہوں کی آگ روشن دیکھ کر قریش کے ہوش اُڑ گئے۔
یہی نہیں بلکہ بعد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۰رمضان المبارک کو روہڑی کے مقام پر راجا داہر کی شکست اورمحمدبن قاسم ؒ کی شکل میں اسلام کی فتح نے برصغیر میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ ابنِ قاسم نے اس خطے میں اسلام کے جو بیج بوئے ان سے آخر کار شجرِ طیبہ کی شکل میں ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا۔ طارق بن زیادؒ کا اسپین کو فتح کرنے کا معرکہ بھی رمضان المبارک میںپیش آیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا یروشلم پر قبضہ بھی اسی ماہِ مبارک کی برکات ہے۔ ۱۹۷۳ء میں اسی مہینے میں مصر نے صحراے سینا کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروایا۔۱۹۸۷ء تا ۱۹۹۳ء میں فلسطین کے پہلے انتفاضہ کا آغازبھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔اور بھی کئی بڑے معرکے اور جنگیں ہیں جو اسی مہینے میں شروع ہوئے
اخوان سے میرا ربط اور امام حسن البناؒ سے میری ملاقات بڑا دل چسپ واقعہ ہے۔ اس ملاقات کی ابتدا کو سن کر ہی آپ انتہا تک کی تفصیل سمجھ سکتے ہیں۔میں نے جب وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو شبین القناطر میں اپنا دفتر کھول لیا۔ میری رہایش تلمسانی فارم سے ۱۱کلومیٹر دُور تھی۔ میں گھر سے دفتر آنے اور واپس جانے کے لیے بس اور ریل گاڑی میں سفر کیا کرتا تھا۔ گھر پر میرا مشغلہ مرغ بانی تھا۔ اس فارم میں، مَیں نے جو مرغی خانہ کھول رکھا تھا، اس میں ساتھ ہی ساتھ انواع و اقسام کے کبوتر اور خرگوش بھی پال رکھے تھے۔ اسی فارم میں میری رہایش گاہ اور ایک پھلواری بھی تھی۔
۱۹۳۳ء کے اوائل کی بات ہے کہ یہ جمعۃ المبارک تھا۔ مَیں اس وقت پھولوں کے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا کہ فارم کے چوکیدار نے آکر بتایا: ’’دو اَپ ٹو ڈیٹ قسم کے افراد ملنے آئے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے اہل و عیال کو زنان خانے میں جانے کا اشارہ کیا اور چوکیدار سے کہا کہ مہمانوں کو اندر لے آئے۔ دونوں جوان اندر آئے اور تعارف کرایا۔ ایک تو عزت محمد حسن تھے اور دوسرے محمد عبدالعال۔ اول الذکر شبین القناطر کے مذبح خانے میں ملازم تھے اور آخر الذکر ڈیلٹا ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر۔ مہمانوں کے استقبال اور مدارات میں کچھ وقت گزرا۔ قہوہ پی چکے تو عزت محمد حسن نے خاموشی توڑتے ہوئے پوچھا: ’’آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟‘‘ یہ سوال مجھے عجیب سا لگا۔ میں نے اسے دخل در معقولات سمجھا، مگر لطیف انداز میں جواب دیا: ’’میں یہاں چوزے پالتا ہوں‘‘۔
میرے مزاحیہ جواب سے مہمانوں کے اعصاب پر کوئی غیرمعمولی اثر نہ ہوا، بلکہ اس جواب کو سن کر عزت محمد حسن نے کہا: ’’آپ جیسے نوجوانوں کے لیے چوزے پالنے سے زیادہ اہم کام منتظر ہیں‘‘۔ میں ابھی تک گفتگو کو سنجیدگی کے بجاے مزاح ہی کے موڈ میں لے رہا تھا۔ سو،مَیں نے اسی انداز میں سوال جڑ دیا: ’’وہ کیا چیز ہے جو چوزوں سے زیادہ میری توجہ کی مستحق ہے؟‘‘ مہمان کا سنجیدگی میں ڈوبا ہوا جواب تھا: ’’آپ کی توجہ کے مستحق مسلمان ہیں، جو اپنے دین سے دُور چلے گئے ہیں ۔ اس غفلت نے انھیں اتنا بے وقعت کر دیا ہے کہ ان کے اپنے وطن میں بھی ان کا کوئی وزن اور ذرہ بھر عزت نہیں رہی اور اقوامِ عالم کے درمیان توان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔
مہمانوں نے بتایا کہ: ’’آپ اس میدان میں تنہا نہیں ہیں بلکہ آپ جیسے نوجوانوں کی ایک تنظیم بن چکی ہے اور ایک عظیم شخصیت حسن البنا تنظیم کے رہنما اور مرشدعام ہیں‘‘۔ کچھ دنوں کے بعد وہ نوجوان میرے دفتر میں تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ حسن البنا سے میری ملاقات کا پروگرام بن چکا ہے۔ مرشدعام قاہرہ میں شارع الیکنیہ پرخیامیہ کے علاقے میں عبداللہ بک محلے میں رہتے تھے۔
ٹھیک وقت ِ مقررہ پر مَیں مرشدعام کے دروازے پر پہنچ گیا۔ میں نے چرخی دار کنڈلی گھمائی اور بڑا دروازہ کھل گیا۔ پھر میں نے دستک دی اور جواب میں ایک آواز سنی: ’’کون؟‘‘ میں نے کہا: ’’عمرتلمسانی ایڈووکیٹ از شبین القناطر‘‘۔ پس وہ شخص اُوپر کے کمرے سے نیچے اُترا اور میرا استقبال کیا۔ پھر بیرونی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے جو دائیں جانب کا کمرہ تھا، اس کا دروازہ کھولا۔ میں میزبان کے پیچھے اس کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ مجھے بالکل پتا نہ چلا کہ کمرے کے اندر کیا ہے۔ میزبان نے کمرے کی اکلوتی کھڑکی کھولی تو اندر روشنی آئی اور میں نے دیکھا کہ وہ کمرہ نہایت سادہ اور چھوٹا سا دفتر تھا، جس میں چند کرسیاں پڑی تھیں جو روایتی انداز میں خشک تیلیوں سے بنائی گئی تھیں۔ ان کرسیوں پر کچھ گردوغبار تھا۔ میزبان ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور مجھے دوسری کرسی بیٹھنے کے لیے پیش کی۔ قیمتی سوٹ کےساتھ اس کرسی پر بیٹھنا مجھے کچھ ناگوار سا گزرا، مگر میں نے جیب سے رومال نکالا اور کرسی پر ڈال کر بیٹھ گیا۔میزبان مجھے غور سے دیکھ رہا تھا او ر اس کے لبوں پر پیار بھرا تبسم رقصاں تھا۔
میں نے خیال کیا کہ مرشدعام میری اس حرکت پر شاید متعجب تھے۔ یہاں دو مختلف راستے تھے۔ بھلا وہ شخص جو اپنی فیشن پرستی اور خوش لباسی کا اتنا اہتمام کرتا تھا، دعوتِ حق کے کٹھن راستوں پر چل سکے گا؟کہاں ظاہری ٹیپ ٹاپ اور کہاں جہاد فی سبیل اللہ کے تقاضے؟ دعوتِ حق کا فریضہ تو زندگی میں مشکلات اور ابتلا لے کر آتا ہے۔اس میں تو عیش و عشرت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں اور تنہائی کے دُکھ سہنے پڑتے ہیں۔
میری ظاہری پُرشکوہ ہیئت کے باوجود مرشدعام کے چہرے پر کوئی مرعوبیت نہ تھی۔ عام لوگ ہوتے تو مجھےدیکھتے ہی دعوتِ حق کے فریضے کے لیے فوراً غیرموزوں قرار دے دیتے ، مگر مرشدعام نے بڑے انہماک سے میرے سامنے اپنا پیغام اور پروگرام پیش کرنا شروع کیا۔ ان کا پیغام کیا تھا، اوّل و آخر یہی تھا کہ: ’’شریعت حقہ کا مکمل نفاذ اور اس مقصد کے لیے عوام الناس کی شعوری تیاری، لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو واشگاف کردینا کہ کوئی خیر اور بھلائی سواے اس کے حاصل نہیں ہوسکتی کہ شریعت ربّانی کو مکمل طور پر اپنے انفرادی اور اجتماعی اُمور میں لاگو کیا جائے‘‘۔
حسن البنا نے مختصر سے وقت میں بڑے مؤثر انداز سے دعوت پیش کی اور اس سارے کلام کو میں نے پورے غور سے سنا۔ ان کی گفتگو کے دوران ایک بار بھی میں نے قطع کلامی نہ کی۔ جب وہ اپنی پوری بات بیان کرچکے تو مجھ سے پوچھا :’’کیا آپ کا اطمینان ہوگیا؟‘‘ قبل اس کے کہ میں زبان کھولتا، فرمانے لگے: ’’دیکھیے، ابھی جواب نہ دیجیے۔ آپ کے پاس پورے ایک ہفتے کی مہلت ہے۔ غوروفکر کریں، اپنے دل کو ٹٹولیں اور اس کی راے لے لیں۔ میں آپ کو پکنک کی اور سیرسپاٹے کی دعوت نہیں دے رہا۔ جس بات کی طرف بلا رہا ہوں، وہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اگر آپ کا دل مطمئن ہوجائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو شرحِ صدر عطا فرما دے تو بسم اللہ! اگلے ہفتے بیعت کے لیے آجایئے۔ اور اگر آپ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ پائیں تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں۔ میرے لیے اتنا ہی کافی اور اطمینان بخش ہے کہ آپ اخوان المسلمون کے خیرخواہ اور دوست بن جائیں‘‘۔
جس ایمان افروز مجلس میں بیٹھنے اور جس بے نظیر گفتگو سے مستفید ہونے کی سعادت مجھے ملی تھی، اس کے بعد بھلا کون بیعت کرنے میں لمحہ بھر کے لیے بھی تاخیر کرتا!مگر چوں کہ مرشد کا حکم تھا، اس لیے میں چلا گیا اور حسب ہدایت ایک ہفتے بعد وقت ِ مقررہ پر واپس آیا۔ اللہ پر توکّل کیا اور حسن البنا کے ہاتھ بیعت کرلی۔ یہ بیعت میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ مجھے اخوان المسلمون کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ کام کرنے کا اعزازحاصل ہوا ہے۔ اس بیعت کے بعد جب سے میں نے راہِ حق میں قدم اُٹھائے تو امتحان و آزمایش کی چکّیوں سے مجھے گزرنا پڑا۔ یہ سب مرحلے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس امتحان و آزمایش سے میرا واحد مقصود اپنے ربّ کے ہاں اجر پانے کی اُمید ہے۔ میری دُعا ہے کہ یہ سب کچھ خالصتاً لوجہ اللہ شمار ہو اور وہی انعام دے۔
میری دلی تمنا ہے کہ آج کا نوجوان مسلم اس بوڑھے (تلمسانی) سے، جو اپنی زندگی کی ۸۰بہاریں پوری کرنے کو ہے، یہ سبق سیکھ لے کہ اللہ نے امتحان و ابتلا میں سے جو مقدر کیا ہے اسے صبر، وقار اور بُردباری سے برداشت کیا جائے اور خالق کی رضا پر ہرحال میں راضی رہا جائے۔
اللہ کے کسی فیصلے اور قضا و قدر پر ذرہ برابر بھی شکوہ اور ناراضی ظاہر نہ ہو۔ میری یہ بھی آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ میرے شاملِ حال رہے اور جب مَیں دنیا سے رخت ِ سفر باندھوں تو اللہ کے سپاہی کی حیثیت سے جائوں۔ میری یہ آرزو ہے کہ میری اُمید صرف اللہ سے وابستہ رہے، اور اس کے سچے وعدوں کا مجھے ایسا یقینِ کامل حاصل ہو، جو میرے روئیں روئیں میں موجزن ہوجائے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ مقام نصیب ہوجائے کہ میں اپنے مولا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں یا اپنے ہاتھوں سے چھو سکوں۔ بے شک کامیابی و عافیت کا مستحق اللہ تعالیٰ نے اہلِ تقویٰ ہی کو بنایا ہے۔ میں اللہ سے دُعا مانگتا ہوں کہ مجھے اور سارے اخوان المسلمون کو تقویٰ کی زینت بخشے اور ہمیں اپنی نصرت اور مدد کا اہل اور مستحق بنائے‘‘۔
امام حسن البنا کے ساتھ میں نے اپنی پہلی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ہم میں سے ہرایک، جو امام سے ملا اس بات سےواقف ہے کہ شہید نے ہم سے پہلی ملاقات میں سارے حقائق کھول کر بیان کردیے۔ انھوں نے ہمیں سبز باغ نہیں دکھائے تھے۔ اُنھوں نے کبھی ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس راستے پر قدم رکھتے ہی دُنیا ہمارے استقبال کو دوڑے گی یا لوگ ہمیں پھولوں کے ہار پہنائیں گے یا زندگی کی نعمتیں اور آسایشیں ہماری منتظر ہوں گی؟ نہیں، بلکہ اُنھوں نے ہمیں متنبہ کر دیا تھا کہ: ’’دعوت حق کا راستہ کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ یہ کٹھن وادیوں کا سفر ہے۔ یہ دارورَسن کی راہ ہے۔ جو اس دعوت کو قبول کرے، اسے خوب سمجھ لینا چاہیے اور علیٰ وجہ البصیرت قدم اُٹھانا چاہیے۔ پھر جب آزمایش کی چکّی گھومنے لگے تو کسی کو ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ صبر کا دامن تھام کر ڈٹ جانا ہوگا‘‘۔ مرشدعام نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا بلکہ اُس کو راہ کے تقاضوں سے اوّل روز ہی سے خبردار کرتے رہے۔
پھر جب اس قافلے کے ساتھی کمرہمت باندھ کر چلنے لگے، تو اللہ نے ان کے دلوں میں باہمی محبت پیدا کردی۔ ان کا قلبی تعلق ایک دوسرے سے اتنا گہرا ہے کہ لوگ اس پر حیران ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی کہنے والے نے یہ بھی کہا: ’’اگر کوئی اخوانی اسکندریہ میں چھینک مارے تو اسوان کے اخوان اسے سن لیتے ہیں‘‘۔ اور مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا باہمی تعلق ایسا مضبوط ہے کہ یورپ میں رہنے والا کوئی اخوانی کسی چیز کی تمنا کرے اور کینیڈا میں رہنے والے اخوانی کو پتا چلے کہ وہ اسے پورا کرسکتا ہے، تو بے مانگے وہ اس کی تمنا پوری کردے۔ اس میں شرط صرف ایک ہی ہے کہ ایسی تمنا اللہ کی اطاعت کے دائرے میں ہو، اس سے باہر نہ ہو‘‘۔
۲- اسلام میں شراب، خنزیر، مُردار، خون ، اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغیراللہ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا ہے، جس طرح زنا ، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہوجائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے، کیوں کہ ان حُرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے۔ مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے، شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کردے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہوجائے، شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکا زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رخصت نہیں دیتی۔ کیوں کہ یہ بُرائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی بُرائی سے شدید تر ہیں۔
۳- راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوںمیں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین بُرائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتوں اور بعض حالات میں اس کے وجوب [لازم ہونے] تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور اَزدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہوجائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے، تو ان کا بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے درپے ہو، اوروہ غریب کہیں چھپاہوا ہو، تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن ، شعبان ۱۳۷۷ھ/مئی ۱۹۵۸ء، جلد۵۰،عدد۲، ص ۱۱۷- ۱۱۸)
چند روز قبل بھارتی صوبہ گجرات کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر سنجیو بھٹ نے برقی پیغام میں سوال کرتے ہوئے، زیادتی کا شکار پاکستان کی معصوم بچی زینب اور مقبوضہ کشمیر کی آصفہ پر ہونے والی اس درندگی کے واقعے پر ردعمل کا موازنہ کیا اور کہا تھا:’’کیا بھارت ناکام ریاست کی طرف لڑھک رہاہے کہ پاکستان نے تو یک آواز ہو کر زینب کو انصاف دلا کر ہی دم لیا، حتیٰ کہ فاسٹ ٹریک کورٹ نے ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی‘‘۔
اس کے مقابلے میں انصاف تو دور کی بات،ہندو انتہا پسندوں بشمول سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگرس کے لیڈروں نے جموں میں بھارت کے قومی پرچم لے کر، ملزموں کے حق میں جلوس نکالے۔ حد تو یہ تھی کہ مقامی وکیلوں کی تنظیموں نے نہ صرف ملزموں کی حمایت کر کے جموں بند کروایا بلکہ کھٹوعہ کی عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے چارج شیٹ ہی دائر نہیں ہونے دی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آٹھ سالہ آصفہ مسلمان خانہ بدوش گوجر بکر وال قبیلے کی بیٹی تھی اور ملزم ہندو ڈوگرہ راجپوت تھے، جنھوں نے ۱۰۰ سال تک کشمیر پر حکومت کی ہے اور اسی جاگیر دارانہ ذہنیت سے نہیں نکل رہے۔ سنجیو بھٹ نے آخر میں لکھا: ’بھارت ناکارہ یا ناکام ریاست بننے تو نہیں جا رہا ہے ؟‘
یہ بچی ۱۰ جنوری ۲۰۱۸ءکی دوپہر گھر سے گھوڑوں کو چرانے کے لیے نکلی تھی اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹ پائی۔ گھر والوں نے جب ہیرانگر پولیس سے لڑکی کے غائب ہونے کی شکایت درج کروائی تو پولیس نے لڑکی کو تلاش کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ پھر ایک ہفتے بعد ۱۷جنوری کو جنگل میںاس معصوم کی لاش ملی۔ میڈیکل رپورٹ میں پتا چلا کہ لڑکی کے ساتھ کئی بار، کئی دنوں تک گینگ ریپ کیا گیا اور آخر پتھروں سے مار مارکر قتل کر دیا گیا۔ خاصی لیت ولعل کے بعد جموں وکشمیر کی محبوبہ مفتی حکومت نے ۲۳ جنوری کو یہ کیس ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کو سونپ دیا، جس نے اس گھنائونے جرم اور قتل میں سات افراد کو گرفتار کیا جن میں ایک اسپیشل پولیس افسر (ایس پی او) دیپک کھجوریا، پولیس آفسر سر یندر کمار ، رسانا گائوں کا پرویش کمار، اسسٹنٹ انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹبل تلک راج ، سابق ریونیو افسر سانجی رام، اس کا بیٹا وشال اور چچا زاد بھائی شامل ہیں۔
’ہندو ایکتا منچ‘ کے پلیٹ فارم سے صوبائی حکومت میں شامل بی جے پی کے دو وزیروں لال سنگھ اور چندر پراکاش گنگا، نیز وزیر اعظم نریندرا مودی کی وزارتی ٹیم میںشامل جیتندر سنگھ نے ان تین ماہ کے دوران اس ایشو کو لے کر جموں وکشمیر پولیس کی تفتیش پر ’عدم اعتماد‘ ظاہر کر کے ’کشمیر بنام جموں ‘ کا ہوّا کھڑا کیا اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک وزیر نے تو ڈوگرہ فرقہ کی حمایت کا حوالہ دے کر ملزموں کی پشت پناہی کر کے اس کو ’’کشمیری مسلمانوں کی طرف سے رچی سازش قرار دیا‘‘، کیوںکہ کرائم برانچ کی جس سات رکنی ٹیم نے اس کیس کی تفتیش کی اس میں دو کشمیری مسلمان تھے۔ ان سیاسی رہنمائوں کے علاوہ جموں بار ایسوسی ایشن نے بھی ایسا واویلا مچایا۔ لگتا تھا کی کشمیر کے ان گنت کیسوں کی طرح یہ بھی فائلوں میں گم ہو جائے گا۔
لیکن بھلا ہو ان کشمیر ی صحافیوں کا ، خاص طورپر نذیر مسعودی ، ظفر اقبال اور مفتی اصلاح کا جو متواتر رپورٹنگ کرتے رہے اور پھر مزمل جلیل، انورادھا بھسین ، ندھی رازدان اور دیپکا راجوات ایڈووکیٹ کا، کہ جن کی اَن تھک محنت کی وجہ سے نہ صرف بھارت کی سول سوسائٹی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گئی، بلکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر بھی دبائو رکھا۔ جس کے نتیجے میں دو وزرا کو مستعفی ہونا پڑا اور انھوں نے نام لے کر کشمیری صحافیوں اور کشمیری میڈیا کو غنڈا بھی قرار دیا۔ ان کی یہ دشنام طرازی ان صحافیوں کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس سے قبل جب جنوری میں سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ طالب حسین نے آصفہ کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھائی تھی تو اس کو پہلے گرفتار کرلیا گیا۔
جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی ) اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے درمیان وسیع اختلافات ہونے کے باعث تضادات اپنی انتہا پر تھے، لیکن اس دوران دہلی اور ہندو انتہا پسندوں کہ شہ پر اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچا دکھانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں، چاہے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ (کشمیرکی خصوصی پوزیشن ) ختم کرنے کا مطالبہ ہو یا کشمیر کے قلب میں مخصوص ہندو بستیاں بسانے کا معاملہ ۔ پھر بی جے پی اور اس کے لیڈر اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے مسلم آبادی کے سینوں میں خنجر گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
پچھلے کئی برسوں سے جموں خطے میں جنگلاتی اراضی سے قبضہ چھڑانے کی آڑ میں مسلمانوں کو جبراً اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی، گول گجرال، سدھر ا، ریکا، گروڑا، اور اس کے گرد ونواح سے ہٹایا گیا ہے۔ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر، جنگلاتی اراضی پر ہی قائم ہے۔ یہاں پر صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب ، مسلمانوں کو اس خطے سے بے دخل کرنا ہے، جہاں پر وہ پچھلے ۶۰ برسوں سے بس رہے ہیں۔
پورے جموں کی آبادی دیکھیے: مسلمان ۲۹ فی صد ، دلت ۲۰فی صد ، اور برہمن ۲۳ فی صد ہیں، جب کہ کشمیر پر دوبارہ حکمرانی کے خواب دیکھنے والی ڈوگرہ، راجپوت قوم آبادی کا محض ۱۲ فی صد ہیں۔ ویشیہ یا بنیا قوم ۵ فی صد ہے اور سکھ ۷ فی صد کے آس پاس ہیں اور جموں کے دو حصوں میں آبادی کی تقسیم اس طرح ہے:
ادھم پور ، ڈوڈہ، پارلیمانی حلقہجموں،
پونچھ، پارلیمانی حلقہ
مسلمان
۲۸
۳۱
برہمن
۲۱
۲۵
راجپوت
۱۲
۱۲
شیڈول کاسٹ[دلت]
۲۲
۱۸
سکھ
۶
-
ویشیہ
۶
۵
دیگر
۵
۹
معصوم آصفہ کو قتل کرنے اور اس پر درندگی کا مظاہرہ کرنے اور پردہ ڈالنے کا گھنائونا فعل دراصل اس سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے کہ مقامی مسلمانوں میں خوف ودہشت پیدا کر کے ان کو ہجرت پر مجبور کرایا جائے۔ ۲۰۰۶ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے فارسٹ رائٹس ایکٹ (Forest Rights Act 2006) پاس کیا تھا، مگر بی جے پی اور کانگریس جموں کے لیڈر مل کر اس کو ریاست میں نافذ نہیں کرنے دینا چاہتے ہیں۔ یہاں پر وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا حوالہ دیتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ کے قانون کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا ہے، مگر جب پارلیمنٹ فوجی اور سیکورٹی قوانین پاس کرتی ہے تو یہی رہنما بغیر کسی بحث ومباحثے کے، اسے ریاست میں لاگو کرتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان غریب اور بے کس مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کی آباد کاری اور وادی میں پنڈتوں کی علیحدہ کالونیوں کے قیام کے لیے خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔
جموں خطے کے موجودہ حالات وکوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کاخدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نومبر ۱۹۴۷ء کا بد ترین خونیں واقعہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے ، جیسا کہ کابینہ سے مستعفی رکن چودھری لال سنگھ نے پچھلے سال ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد دلایا تھا۔ اس خطے کے دو مسلم اکثریتی علاقے وادی چناب ، جس میں ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑ کے اضلاع شامل ہیں اور پیر پنچال جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل ہیں، ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک منصوبہ بند طریقے سے راجوڑی، کشتواڑ، بھدر واہ کے دیہاتی علاقوں میں فرقہ جاتی منافرت کا ما حول پیدا کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے طاقت ور لیڈر اندریش کمار تو تقریباً اس خطے میں ہمہ وقت ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں، جو ’سمجھوتہ ایکسپریس کیس‘ کے سلسلے میں پوچھ گچھ سے گزر چکے ہیں۔ ڈوڈہ میں پچھلے سال ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے کارکنوں نے اپنی روایتی خاکی نیکر، سفید قمیص اور سیاہ ٹوپی، جسے ’گنویش ‘ کہا جاتا ہے، میں ملبوس ہوکر مارچ کیا۔ اس موقعے پر اسلحہ اور تلواروں کو کھلے عام لہرانے کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو انگیخت کرنے والی نعرہ بازی بھی کی گئی ۔
عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر دو عشرے قبل جموں سے، وادی چناب اور پیرپنچال میں ہندو دیہاتوں کو ویلج ڈیفینس کمیٹی کا نام دے کر مسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب بھی آئے دن دیہاتوں میں گھس کر مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ یہ فورس نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کو جواب دہ، اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیاہے۔ اس فورس کے ذریعے ، اغوا، تاوان ، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں، اور ظاہر ہے کہ خمیازہ صرف مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے، تا کہ آیندہ کسی وقت ۱۹۴۷ء کے سانحے کو دہرا کر اس خوف زدہ آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور اور جموں کو مسلم آبادی سے خالی کرایا جائے۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات آتش چنار میں لکھا ہے: ’’جموں میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے بعد مہاراجا ہری سنگھ اور مہارانی تارا دیوی کی نظریں وادی چناب پر لگی ہوئی تھیں، مگر کرنل عدالت خان اور اس کی ملیشیا نے بہادری اور دانشمندی سے وہاں آگ کے شعلے بجھا دیے۔ جب کشمیری مسلمان اس دورِ پُرآشوب میں پنڈتوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا رہے تھے، تو مہاراجا جموں میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ سرینگر سے بھاگ کر جب وہ سفر کی تکان اُتارنے کے لیے شاہراہ کے کنارے رام بن کے قریب ایک ریسٹ ہائوس میں پہنچا ، تو بدقسمتی سے چائے پیش کرنے والا بیرا مسلمان تھا اور اس کے سر پر رومی ٹوپی تھی جسے دیکھ کر اس نے چائے پینے سے ہی انکار کردیا۔ شیخ عبداللہ کو جب انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا جا چکا تھا تو اس نے مہاراجا کے اعزہ واقارب اور سری نگر میں موجود چند سکھ خاندانوں کو جموں پہنچانے کے لیے جنوبی کشمیر کے بائیس تانگہ بانوں کو آمادہ کیا، مگر واپسی پر نگروٹہ کے مقام پر ہندو انتہا پسند ٹولی نے ان کے تانگے چھین کر انھیں بے دردی سے قتل کر ڈالا‘‘۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت جو گاندھی کی تعلیمات کو استعمال کر کے بھارت کو دنیا بھر میں ایک ’اعتدال پسند‘ اور ’امن پسند ملک ‘ کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے کو اسی گاندھی کا ایک قول یاد رکھنا چاہیے: ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوارا بن سکتا ہے۔یہاں کے بہادر لوگ ظلم وستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کر سکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ ہندستان مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہو گا جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔ اگر ہندستان کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا تو ساری دنیا میں اس کی تصویر مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔
بقول شیخ محمد عبداللہ ،گاندھی نے کہا تھا: ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اور بس !
یہاں بھارت سے ۴۹چوٹی کے سابق اعلیٰ افسروں [جن میں مسلمان صرف تین ہیں]کا مشترکہ خط پیش ہے۔ یہ خط انھوں نے کٹھوعہ (جموں) اور اناؤ (یوپی) میں جنسی زیادتی کے ہولناک اور گھنائونے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی بے حسی کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو لکھا۔ اس خط کے تین پہلو ہیں: lپہلا یہ کہ بدترین جبری ماحول، نام نہاد جمہوریت اور برہمنی فسطائیت کے باوجود ایسے باضمیر لوگ موجودہ ہیں، جو اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے ہم آواز کھڑے ہیں۔
ہم سرکاری خدمات سے سبک دوش افسروں کا ایک گروپ ہیں، جو ’انڈین دستور‘ میں موجود سیکولر اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ (decline)پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گذشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان آوازوں کے ہم آواز ہیں، جو سرکاری نظام کی سرپرستی میں نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوف ناک ماحول کے خلاف اُٹھ رہی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، نہ کسی سیاسی نظریے کے پیروکار ہیں، سواے ان قدروں کے جو ہمارے آئین میں موجود ہیں۔
آپ نے بھی چوں کہ آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، اس لیے ہم امید رکھتے تھے کہ آپ کی حکومت اور وہ سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان سے باخبر ہونے کی کوشش کریں گے ، اس پھیلتی سڑاند کو روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے اور سب کو اعتماد دلائیں گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کے حوالے سے بے خوف رہیں۔ مگر افسوس کہ یہ اُمید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجاے، کٹھوعہ اور اناؤ کے حادثات میں پائی جانے والی ناقابل بیان دہشت اہلِ وطن کو یہ بتاتی ہے کہ [آپ کی] حکومت اپنے بنیادی فرائض سرانجام دینے میں بالکل ناکام رہی ہے۔
ایک ایسا ملک کہ جس کو اپنی اخلاقی، روحانی اور ثقافتی وراثت پر بڑا ناز رہا ہے اور جس نے مدتوں تک اپنی تہذیبی رواداری اور ہمدردی جیسی قدروں کو سنبھال کر رکھا، افسوس کہ اسے برقرار رکھنے میں ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ’ہندوؤں کی عظمت قائم کرنے‘ کے نام پر ایک انسان کے حق میں، جب کہ دوسرے انسانوں کے لیے جانوروں جیسی بےرحمی پالنے کی روش اپنانے کا ہرلمحہ ہماری انسانیت کو شرمسارکر رہا ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی سے وحشیانہ طور پر جنسی درندگی اور قتل کا اندوہ ناک واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیر ہے، جس میں ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کا رد عمل ناکافی اور مُردنی و بے حسی لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی کی کرن نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں۔
ہماری شرمندگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی، جو ابھی حکومتی و ریاستی مشینری میں خدمات انجام دے رہے ہیں، بالخصوص وہ جو اضلاع میں کام کر رہے ہیں اور قانونی طور پر دلتوں (شیڈیول کاسٹ) اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں، وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم کرنے کے لیے نہیں لکھ رہے ہیں، بلکہ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصّے کا اظہار کرنے کے لیے، معاشرے کی خوف ناک تقسیم اور نفرت کو بڑھاوا دینے کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کے بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں نے ہمارے سیاسی قواعد میں، ہماری ثقافتی و سماجی زندگی اور روز مرہ میں شامل کر دیا ہے۔
یہی ہے نفرت کی وہ آگ اور اسی کے نتیجے میں کٹھوعہ اور اناؤ جیسے گھنائونے واقعات کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوعہ میں، ’سنگھ پریوار‘ کے ذریعے پُرجوش اکثریت کی جارحیت اور ان کی بداخلاقی نے نسل پرست وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ ان کی بداخلاقی کوان سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہے گی، جنھوں نے خود ہندو مسلم تفریق کو گہرا کر کے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اپنی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسے مافیا اور غنڈوں کے سہارے پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کو طول دینے کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ان کے کارندوں کو ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی آزادی حاصل ہوئی ہے اور انھیں اپنی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لیے شہ ملی ہے۔
لیکن، اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات، [جموں کی] ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ فیملی کے بجاے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب اور گل سڑچکا ہے۔ انائو کے شرم ناک واقعے پر یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا، جب عدالت نے اس کو مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا فعل ہے، جس سے [یوپی] حکومت کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں اندوہ ناک واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے ہیں، وزیراعظم! جہاں آپ کی پارٹی حکمراں ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری اور آپ کے مرکزی کنٹرول کی وجہ سے، اس خوف ناک صورتِ حال کے لیے کسی اور سے زیادہ آپ ہی کو ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
ان واقعات کی سچائی تسلیم کرنے اور متاثرین کے آنسو پونچھنے کے بجاے آپ مسلسل خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب ملک اور غیرممالک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا کہ جس کو آپ کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار تو کیا ہے، مگر آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا نسلی فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے، نہ آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل دینے کا عزم کیا ہے کہ جن کے زیرسایہ نسل پرستانہ فسطائیت پھلتی پھولتی ہے۔
ہم محض ڈانٹ، پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جب کہ ’سنگھ پریوار‘ کی سرپرستی میں پلنے والے رنگ دار کارندے،نسل پرستانہ نفرت کی ہانڈی کو لگاتار اُبال رہے ہیں۔وزیر اعظم صاحب، یہ دوحادثے محض معمولی جرائم نہیں ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ جس سے ہماری سماجی چادر کے داغ دُھل جائیں گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں گے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے گی بلکہ یہ ہمارے وجود پر اُمڈ آنے والے بحران کا ایک موڑ ہے۔ اس میں [آپ کی] حکومت کا رد عمل طے کرے گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر ٹوٹ پڑنے والے بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ فوری طور پر ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :
ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، مگر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور کچھ تو بھروسا ملے گا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پُرامید ہیں۔ [The Deccan Chronicle، حیدرآباد، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، The Outllook India، نئی دہلی، ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء، اُردو ترجمہ: سلیم منصور خالد]
۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کے خونیں برسوں کے بعد ۲۰۱۸ء میں یہ اُمیدیں باندھی جارہی تھیں کہ امسال مقبوضہ کشمیر میں کشت و خون اور انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ رُک جائے گا، لیکن گذشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی پہلے ہی تین ماہ کے دوران مظلوم کشمیریوں کی تمام تر اُمیدوں، تمناؤں اور آرزوؤں پرپانی پھیر دیا گیا۔ ریاست میں موجود ۱۰لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘ کی صورت میں حاصل شدہ خصوصی قوانین کی آڑ لیے، بے تحاشا اندا ز میں کشمیریوں کی نوجوان نسل کا لہو بہاتے رہے اور انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کو باجواز بنانے کے لیے، ملوث ایجنسیاں ناقابل قبول بہانے گھڑتی رہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۸ء سے لے کر ۱۱؍اپریل تک ۲۹ عام اور نہتے کشمیری نوجوانوں کو مختلف جگہوں پر گولیوں کا نشانہ بناکرشہید کردیا گیا۔ اس دوران ۴۸ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جنھوں نے مجبوراً ظلم وجبر کے خلاف ہتھیار اُٹھالیے ہیں۔۱۲پولیس اہلکاروں اور ۱۳بھارتی فوجیوں سمیت سال کے پہلے سو دن میں ۱۰۲؍انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں۔
تازہ ترین خونیں ’سانحہ کھڈونی‘ کولگام میں پیش آیا، جہاں۱۱؍اپریل کو فوج کے ساتھ ایک معرکہ آرائی میں اگر چہ عسکریت پسند محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے، تاہم بھارتی فوجی اہلکاروں نے مختلف جگہوں پر عام اور نہتے احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ کر کے چار معصوم نوجوانوں کو جاں بحق اور ۶۵دیگر افراد کو زخمی کردیا۔ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت نازک ہے اور وہ مختلف ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کش مکش میں ہیں۔ کھڈونی کے اس خوں ریز معرکے میں فوج کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں مظاہرین کو اندھا دھند انداز سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحے میں جن نوجوانوں کی شہادت ہوئی، اُن میںشرجیل احمد شیخ ولد عبدالحمید شیخ ساکن کھڈونی(عمر ۲۸سال) ، بلال احمد تانترے و لد نذیر احمد تانترے ساکن کجر (عمر۱۶سال)، فیصل الائی ولد غلام رسول الائی ساکن ملہورہ شوپیان(عمر۱۴سال) اور اعجاز احمد پالہ ساکن تل خان بجبہاڑہ شامل ہیں۔اہالیانِ کشمیرکی بدقسمتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ۲۸سال کی عمر کا شرجیل احمد جنھیں اپنے گھر کے صحن میں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا ،کی صرف چار روز بعد ۱۵؍اپریل کو شادی ہونے والی تھی اور اس کے والدین نے شادی کی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں ، دعوت نامے بھی تقسیم ہوچکے تھے۔ والدین خوشیوں کے انتظار میں دن گن رہے تھے کہ اُن کے بیٹے کو خون میں نہلا دیا گیا۔ جن والدین نے اپنے بیٹے کے دلہا بننے کے خواب سجا رکھے تھے، اُنھیں اُن کی لاش کا بناؤ سنگھار کرنا پڑا۔ ماہِ جبین کو ایک طرح سے رخصتی سے قبل ہی بیوہ بنادیا ۔
۱۴برس کے نوعمر فیصل الائی کو جب صبح سویرے فوجی محاصرے اور تصادم کی اطلاع ملی تووہ فوراً گھر سے نکلے اور روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں سے کہا: ’’آپ میری آخری رسومات کی تیاریاں کریں‘‘۔ پھر دوپہر سے قبل ہی اُن کی لاش گھر پہنچ گئی۔عام شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ریاستی پولیس چیف نے مرحومین ہی کو اپنی موت کا ذمہ دار اور ’مجرم‘ ٹھیرایا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ کشمیر میں جولائی ۲۰۱۶ء حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعدسے نوجوانوں میں ایک نیا چلن شروع ہواہے۔ جوں ہی کسی بھی عسکری تنظیم سے وابستہ کوئی بھی ہتھیار بند نوجوان بھارتی فوج کے محاصرے میں آجاتا ہے، تو آس پاس کے درجنوں دیہات کے لوگ، بالخصوص نوجوان ’انکاونٹر‘ (تصادم) والی جگہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ہزاروں بھارتی فوجیوں کے محاصرے میں ایک یا دو عسکریت پسندوں کو محاصرے سے نکالنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ، یہ اُن ہتھیار بند کشمیری نوجوانوں کے ساتھ یک جہتی کا کھلم کھلا اظہار بھی ہوتا ہے۔ پوری آبادی گنتی کے مجاہدین کے لیے دیوانہ وار اپنی جان خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بھارتی فوجی افسران اور ادارے اس نئے رجحان سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ علانیہ کہہ چکے ہیں کہ ’انکاونٹر‘ والی جگہ پر جوبھی فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ گویا عملاً بھارتی تربیت یافتہ ریگولر آرمی کے سامنے نہتے کشمیری سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یکم اپریل کو شوپیان ، اسلام آباد اور گاندربل میں ۱۷کشمیری نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دینے کے سانحے سے ابھی اہالیانِ کشمیر سنبھل نہ پائے تھے کہ ضلع کولگام میں ایک اور مقتل گاہ سجا دی گئی۔ یکم اپریل کے ان خونیں تصادموں میںبھارتی فوج نے یاور احمد ایتوولد عبدالمجیدا یتو ساکن صف نگری، عبید شفیع ملہ ولد محمد شفیع ملہ ساکن ترنج زینہ پورہ، زبیر احمد تُرے ولد بشیر احمد ساکن شوپیان خاص، نازم نذیر ڈار ولد نذیر احمد ساکن ار پورہ ناگہ بل ، رئیس احمد ٹھوکر ولد علی محمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ملک ولد غلام نبی ساکن پنجورہ، عادل احمد ٹھوکر ولد عبدالغنی ساکن ہومہونہ ، غیاث الاسلام ولد بشیر احمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ٹھوکر ولد عبدالمجید ساکن پڈر پورہ، عاقب اقبال ملک ولد محمداقبال ساکن رنگت دمحال ہانجی پورہ، اعتماد احمد ملک ولد فیاض احمد ملک ساکن امشی پورہ، رؤف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دہرنہ ڈورو اور سمیر احمد لون ولد غلام نبی ساکن ہیلو امام، زبیر احمد بٹ ساکن گوپال پورہ کولگام، مشتاق احمد ٹھوکر ساکن درگڈ سگن، محمد اقبال ساکن خاری پورہ شوپیان اور معراج الدین ساکن اوکے کولگام اور گوہر احمدراتھرساکن کنگن گاندربل کو تین مختلف مقامات پر ایک ہی دن میں شہید کردیا۔ان تمام شہدا کی عمر ۱۶سال سے ۳۰ سال کے درمیان تھی۔
ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر جو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس میں ’امن و قانون‘ کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے روز کشمیرکے طول و عرض میں بالعموم اور جنوبی کشمیر میں بالخصوص کریک ڈاون، تلاشی کارروائیاں اور چھاپے مارے جاتے ہیں۔ شہر سرینگر میں جگہ جگہ ناکے اور بندشیںلگائی جاتی ہیں ، نوجوانوں کی گرفتاریاں تو روز کا معمول بن چکا ہے۔عام شہریوں کو مسلسل خوف و دہشت کے ماحول میں سانس لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ شہری ہلاکتوں کے بعد بے بس عوام اپنی ناراضی کا اظہار ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے سے کرتے ہیں۔ طلبہ و طالبات، اسکولوں او رکالجوں میں پُرامن طریقے پر جب اپنا احتجاج درج کرنے نکلتے ہیں تو پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر درندوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حالاںکہ پُرامن احتجاج دُنیا کا تسلیم شدہ جمہوری حق ہے۔ لیکن یہاں احتجاج کو اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور احتجاجی لوگوں کو دشمن قرار دے کر اُن پر طاقت کے وہ تمام حربے ا ور ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں جودشمن ملک کی فوج کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔عام لوگ جن سیاست دانوں کی بات سنتے اور مانتے ہیں اُن لیڈران کی سرگرمیوں پر ۲۰۰۸ء سے مکمل طور پر قدغن عائد ہے۔
حریت کانفرنس جو حقیقی معنوں میں عوامی جذبات کی نمایندگی کرتی ہے، اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کو یا تو جیلوں میں بند کردیا گیا ہے، یا پھر اُنھیںاپنے گھروں تک محدودرکھاگیا ہے۔بزرگ قائد محترم سیّد علی گیلانی۲۰۱۰ء سے اپنے گھر کے اندر قید ہیں۔ اُنھیں نماز جمعہ جیسے دینی فریضہ کو ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ان حالات سے نوجوان مشتعل ہوکر آخری چارۂ کار کے طور پر یا تو ہتھیار اُٹھالیتے ہیں یا پھر ان میں سنگ باری کرنے اور انکاونٹر والی جگہوں پر جاکر فوج کے محاصروں کو توڑنے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں نوجوانوں کے اس بڑھتے ہوئے جنون اور سنگ باری کے رحجان کے تانے بانے نہ جانے کہاں کہاں جوڑتے ہوئے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب پاکستانی فنڈنگ سے ہوتا ہے اور کبھی سرحدپار کی مختلف تنظیموں کے ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد کو جوڑا جاتا ہے۔ آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں پرکیا کیا حربے استعمال نہیں کیے گئے؟ ان پر جیلوں میں ہولناک تشدد کیا گیا۔لیکن آئے روزسنگ باری کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔کشمیری نوجوان گولیوں کی پروا نہیں کرتے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں کے اس شدید رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اُنھیں جمہوری طریقوںپر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور جب اُن کے جذبات کی نمایندگی کرنے والے سیاست دانوں کو اُن کے درمیان نہیں آنے دیا جاتا، تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق، اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے یہ نوجوان دوسرے طریقے استعمال کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ یہ نوجوان کوئی ان پڑھ، جاہل اور گنوار نہیں ہیں، جو اکیسویں صدی کے اس دور میں مرعوبیت کا شکار ہوکر گھٹن کی زندگی قبول کرلیں گے۔ یہ وہ نسل ہے جو میڈیائی دور میں رہتی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نوجوان نسل سے جڑی ہوئی ہے،جنھیں اپنے حقوق اور زندہ رہنے کا حاصل شدہ حق معلوم ہے۔ بھلا یہ کیسے بندوق کے سایے میں جینے پر راضی ہوسکتے ہیں؟ منفی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے بھلے ہی کشمیریوں کی اس نئی نسل کو شدت پسند، سرحد پار سے اُکسائے اور دہشت گرد،ہی ثابت کرنے کی کیوں نہ بھونڈی کوشش کی جائے، لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ: یہ سب ریاستی دہشت گردی کا شکار بنائے جا چکے ہیں، اِن کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے، اِنھیں اپنے مفادات اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جاچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیریوں کی یہ نسلیں اس قدر جری اور نڈر بن چکی ہیں کہ یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں، اور یہ نوخیز نوجوان گولیوں کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتے۔
یکم اپریل کو اسلام آباد کے ڈورو علاقے میں جو کم سن عسکریت پسند رؤف احمد ٹھوکرفورسز کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوگیا ، تو دوران انکاونٹر آخری لمحات میں انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کہا: ’’ فوج مجھے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہہ رہی ہے لیکن میں ہر حال میں ذلت کی زندگی پر عزت کی شہادت کو ترجیح دوں گا‘‘۔ انھوں نے اپنے والد سے درخواست کی: ’’اباجان، میری نمازِ جنازہ کی امامت خود کرنا‘‘۔ اُن کے والد جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے رکن اور علاقے کے پُرخلوص داعیانِ دین میں سرِفہرست ہیں۔والدین بھی کیسے حوصلہ مند کہ اُن کی ماں اپنے بیٹے کو ہمت اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتی ہیں :’’ بیٹے میرے دودھ کی لاج رکھنا، کسی بھی حال میں بھارتی فوج کے سامنے کمزور نہ پڑنا۔ آپ کی شہادت سے ہماری دنیا عزت اور اُخروی کامیابی کی ضامن بن جائے گی‘‘۔ یوں یہ نوعمر رؤف احمد رات بھر کی لڑائی میں جام شہادت نوش کرگیا۔
ایک اور جنگجو نوجوان اعتماد احمد ملک، جو ایک ریسرچ اسکالر تھے، اور اُنھوں نے کئی اکیڈمک ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے، انھوں نے بھی اسی روز، دوران لڑائی آخری بار اپنے والدگرامی کو فون کرتے ہوئے اپنی ثابت قدمی کی دعا کے لیے درخواست کی۔ جواب میں اُن کے والد نے اپنے اس لاڈلے بیٹے سے کہا کہ :’’بیٹا پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگنا، کل جب میں آپ کی لاش کو دیکھوں تو مجھے گولی آپ کے سینے میں دکھنی چاہیے‘‘۔ اسماعیل ؑ کی یاد تازہ کرنے والے اس بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ: ’’ابو! آپ اگر مجھ سے راضی ہیں تو میرا اللہ بھی مجھ سے راضی ہوگا۔ آپ اطمینان رکھیں میں ان شاء اللہ سینے پر ہی گولیاں کھاؤں گا۔‘‘ اگلے دن جب ہزاروں لوگوں کے جلوس میں اس معصوم مجاہد کی لاش کو اُن کے گھر لے جایا گیا تو والد نے سب سے پہلے اپنے لاڈلے بیٹے کا سینہ دیکھا اور تشکر سے لبریز لہجے میں بلندآواز سے کہا: ’الحمد للہ‘۔ کیوںکہ اُن کے بیٹے نے لڑتے ہوئے گولیاں اپنے سینے پر ہی لی تھیں۔اپنے مجاہد بیٹوں کے ساتھ آخری مرتبہ فون پر ہونے والی یہ یہ گفتگوئیں سوشل میڈیا پر وائرل [عام] ہوگئیں ہیں اور نوجوان ان آڈیو کلپس کو عقیدت کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ اس چیز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل جس جدوجہد میں مگن ہے، وہ اس کے لیے ذہنی اور فکری طور پر کس حد تک جذبۂ آزادی سے سرشار (motivated ) ہے۔
کشمیر کے اہلِ دانش طبقے کے لیے یہ صورتِ حال کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ ہماری نسلیں زندگی پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں۔ بھلا کوئی قوم کیسے یہ گوارا کرے گی کہ اُس کی باصلاحیت نوجوان نسل گاجر مولی کی طرح کٹتی رہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمارے یہ نونہال خطرناک راہ پر گامزن ہورہے ہیں؟ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسیاں ہماری نوجوان نسل کو مایوسیوں میں دھکیل رہی ہیں۔ اُنھیں اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے جب چاروں طرف اندھیرا چھایا دکھائی دیتا ہے اور اُنھیں جب یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی بات سننے اور اُن کے حقوق کی بازیابی کے لیے کسی بھی طرح نئی دہلی تیار نہیں ہے، تو ایسے میں وہ خطرناک راہوں کے مسافر بن جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریک کے دوران جلسے اور جلوسوں میں عوام از خود فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کی حفاظت کیا کرتے تھے ۔جب بھی کسی کیمپ یا پختہ فوجی مورچے [بینکر] کے قریب سے جلوس گزرتا تھا، تواحتجاج میں شامل رضاکار پہلے ہی کیمپ کے سمت کھڑے ہوکر جلوس کو پُر امن طریقے سے آگے بڑھا دیتے تھے۔ لیکن بعد کے برسوں میں جب پُرامن عوامی احتجاجوں پر سختیاں کی گئی، طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا،تو یہی نوجوان جو شہری ہلاکتوں کے باوجود ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کے عوامی احتجاج میں پُر امن رہا کرتے تھے، وہ ۲۰۱۶ء میں ظلم و زیادتیوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے بھارتی حکمرانوںکویہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ کشمیرکی گلیوں میں طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کا خواب اس طرح کبھی سچ ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس طرز عمل سے ہر آنے والا دن بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔
۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءکی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران آزادی پسند لیڈران کا مورال گرانے کے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ سرکاری سطح پر پروپیگنڈاکے ذریعے ایشو بنایا گیا، وہ ابتر حالات کی وجہ سے یہاں نظامِ تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات تھے۔ ایجی ٹیشن کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کے بند رہنے سے بچوں کا تعلیمی کیرئیر برباد ہونے کی باتیں کی گئیں، حالانکہ ان برسوں میں ہڑتالی کال کے بجاے کرفیواور بندشوں کے باعث زیادہ تر دنوں میں تعلیمی ادارے بند رہے تھے۔اب ۲۰۱۸ء سے ایک اورطریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے ،کہ جوں ہی کہیں حالات خراب ہوجاتے ہیں، کسی جگہ بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے ، تو حکومت فوراً تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ گذشتہ برس وزیر تعلیم نے ایک مرتبہ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اسکولوں میں تدریسی عمل جاری رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ، حالانکہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم سرکار اور متعلقہ فورسز ایجنسیوں کا جاری کردہ ہوتا ہے۔گذشتہ برس کے دوران بھی حکومت کی خراب پالیسی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی ہی وجہ سے سال کے اکثر دنوں میںکشمیر کے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل متاثر رہا۔ رواں سال میں بھی سرمائی تعطیلات کے بعد، جب سے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، زیادہ تر دنوں میں سرکاری احکامات کے نتیجے میں تدریسی عمل ٹھپ رہا۔
۱۱؍اپریل ۲۰۱۸ء کو شوپیاں سانحہ کے پس منظر میں کئی دنوں بعد تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا، لیکن جوں ہی کولگام میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی خبریں موصول ہوئیں ، طلبہ کو زبردستی تعلیمی اداروں سے بھگا دیا گیا، حتیٰ کہ سرینگر کے زنانہ تعلیمی اداروں سے طالبات کو بھگانے کے لیے پولیس اُن کے پیچھے ایسے پڑگئی، جیسے وہ بچیاں انسان ہی نہیں۔ جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میںتعلیمی سال مسلسل ضائع کیے جارہے ہیںاور اس کشمیر دشمن پالیسی کے دور رس مضر اثرات بہرحال آنے والے وقت میں ظاہر ہوں گے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ اس لیے کیا جارہا ہے، تاکہ کشمیریوں کی نسلیں تعلیم سے محروم ہوجائیں۔ناخواندگی کے اس بڑھاوے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔عام شہریوں پر ظلم و زیادتیاں نہ ہوتیں، نوجوانوں کی نسل کشی نہ ہوتی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں نہ ہوتیں تو طلبہ اور طالبات سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور نہ ہوتے۔ دنیا بھر میں ظلم و زیادتیوں پر طلبہ کے احتجاج کا چلن عام ہے۔ یہاں کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ زیادتیوں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر پُرامن احتجاج کریں۔ اگر طلبہ کو اپنا احتجاج کرنے کا حق دیا جاتا تو وہ اپنی ناراضی کے اظہار کے بعد کلاسوں میں جاتے اور تدریسی عمل میں مصروف ہوجاتے۔ لیکن اُن کے جمع ہونے سے قبل ہی پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلبہ بھی مشتعل ہوجاتے ہیں اور اس طرح بہانہ بناکر حکومت تعلیمی اداروں کو بند کر کے اہل کشمیر کی نئی نسل کے معاشی و معاشرتی مستقبل اور کیرئیر کو تباہ کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔
صوبہ جموں (کٹھوعہ ضلع) میں ۱۰جنوری ۲۰۱۸ء کو آٹھ سال کی ایک معصوم بچی آصفہ کے لاپتا ہونے اور پھرایک ہفتے کے بعد اس کی لاش جنگل سے برآمد ہونے کی واردات نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا کی۔عوامی دباؤ پر جب ریاستی پولیس کی خصوصی کرائم برانچ نے تحقیقات کے بعدکورٹ میں رپورٹ پیش کی تو اس سانحے کی رُوداد نے پوری انسانیت کو شرمسار کردیا۔ جموں کے بی جے پی سے وابستہ فرقہ پرست لوگوں نے کٹھوعہ کے رسانہ علاقے سے گجر طبقے سے وابستہ مسلمانوں کو بھگانے کے لیے ایک سازش تیار کی۔ یہ سازش مندر کے نگران کی سربراہی میں ترتیب دی گئی۔ علاقے کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے آٹھ سال کی معصوم آصفہ کو اغوا کیا گیا، اسے سات روز تک مندر میں قید رکھا گیا، اس دوران چار درندہ صفت ہندو فرقہ پرست اس معصوم مسلم لڑکی کی عزت تار تار کرتے رہے، اور ساتویں دن آصفہ کو قتل کردیا گیا۔ قتل کرنے سے قبل سازش میں شامل ایک پولیس اہلکار اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ: قتل سے قبل میں آخری بار اس کی عصمت تار تار کرنا چاہتا ہوں، اور وہ اپنا منہ کالا کرکے اس معصوم کلی کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ پھر دوسرا شخص یہ یقین کرنے کے لیے کہ آصفہ واقعی مرگئی ہے؟ اس کے سر پر پتھر کے پے در پے وار کرتا ہے۔جب پولیس ان ملزمان کو گرفتار کرتی ہے تو اُنھیں رہائی دلانے کے لیے بی جے پی سے وابستہ دو لیڈران ایک ریلی نکالتے ہیں، جس میں کھلے عام جموں کے مسلمانوں کو دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء جیسے حالات کے لیے تیار رہیں۔ جموں اور کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن سے وابستہ وکیل کرائم برانچ کوعدالت میں چالان پیش کرنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ بارایسوسی ایشن جموں تین روز تک کورٹ کا بائیکاٹ کرتی ہے اور جموں کا کاروبار زندگی بند کرنے کی کال دیتی ہے۔ یوں بی جے پی سے وابستہ برہمن عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث اپنے کارکنوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیر سویر یہ درندے آزاد ہوکر پھر سے مسلم دشمنی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں گے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں پہاڑ کے سامنے چیونٹی کھڑی ہے۔ کشمیری، ہندستانی طاقت، ظلم او رجبر کا نہتے ہوکر بھی مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، البتہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر مغرور بھارت کا کچھ ہونے والا نہیں۔ پاکستان، مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے، مگر ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی اس ۷۰ سالہ غلامی میں کئی مواقعے ایسے آئے جب آزادی کی منزل بالکل قریب تھی لیکن پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور بے عملی نے اُن سنہری موقعوں کو گنوادیا۔اس وقت بھی پاکستانی حکومت زبانی جمع خرچ کررہی ہے۔ کشمیرکمیٹی کے سربراہ چند بیانات اور حکومت یومِ یک جہتی کے اعلان سے آگے کچھ بھی نہیں کرپاتی ہے۔ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور ابلاغی مدد کرنا اور اُن کی آزادی کو یقینی بنانا پاکستانی حکومت، عوام اور اداروں کی دینی اور قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ اگر پاکستانی حکمران اس نازک ترین موقعے پر بھی کشمیر کے تئیں سردمہری کا اظہار کریں گے، تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پاکستانی سبز ہلالی پرچم کی حفاظت کشمیری نوجوان کررہے ہیں۔ یہاں کے شہدا کا کفن پاکستانی پرچم بن رہا ہے۔ نظریہ پاکستان اور پاکستانی پرچم کی حفاظت کشمیری نونہال اپنا خون دے کررہے ہیں اور اگرپھربھی پاکستانی ریاست اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا نہیں کرے گی، تو اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی عوام اور وہاں کے اداروں کو کشمیر پالیسی کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غوو فکر کرنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جامع مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، مگر پانی کے مسائل پر گذشتہ دنوں ’سندھ طاس مشترکہ کمیشن‘ کا نئی دہلی میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے چند روز قبل بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نیتن گڈکری نے ہریانہ کے کسانوں کو پانی کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا: ’’اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر راوی، بیاس اور ستلج دریائوں کے پانی کو بھارت میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے گا ‘‘۔
دو سال قبل بھارت نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پاکستان کی طرف جانے والے دریائی پانی کی تقسیم کے معاملے پر خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: ’’پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ ۱۹۶۰ء میں طے شدہ ’سندھ طاس آبی معاہدہ‘ ماضی میں کئی جنگوں اور انتہائی کشیدگی کے باوجود سانس لے رہا ہے، اس کی ازسرِنو تشریح کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ اس معاہدے کی رُو سے بھارتی پنجاب سے بہہ کر پاکستان جانے والے دریائوں: بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا، اور کشمیر سے بہنے والے دریا، یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ضروریات کے لیے وقف کردیے گئے تھے۔ ایسے منصوبے جن سے ان دریائوں کی روانی میں خلل نہ پڑے، اس کی اجازت معاہدے میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
۱۹۵۰ء سے قبل پانی کے حصول کے حوالے سے پاکستان خاصی بہتر حالت میں تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق فی کس ۵۲۶۰ کیوبک میٹر پانی پاکستان میں دستیاب تھا، جو ۲۰۱۳ء میں گھٹ کر فی کس ۹۶۴کیوبک میٹر تک رہ گیا۔ یعنی صرف ۶۶برسوں کے اندر اندر ہی پانی کی دولت سے مالامال یہ ملک شدید آبی قلت کے زمرے میں آگیا۔ اس کی وجوہ آبادی میں اضافہ، غیر حکیمانہ منصوبہ بندی، پانی کے وسائل کا بے دریغ استعمال، قلیل سرمایہ کاری، موجودہ ذخیروں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی بروقت صفائی میں کوتاہی اور اندازے سے بڑھ کر سلٹنگ، کے علاوہ ریاست جموں و کشمیر میں پانی کے مرکزی مآخذ پر ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ وادیِ کشمیر کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس سال برف کی صرف ایک ہلکی سی تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ موسمِ سرما میں معمول کی سطح سے نہایت ہی کم برف باری کا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے، جسے کشمیر کے نشیبی علاقوں بشمول پاکستان کے کسانوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے۔ کشمیر کے ندی نالوں میں اس سال پانی کی سطح بہت ہی کم ہوچکی ہے۔ بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر کے محکمہ آب پاشی نے حال ہی میں ایک باضابطہ ایڈوائزری جاری کر کے شمالی کشمیر کے کسانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’اس سال دھان کی کاشت کے لیے محکمہ پانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا‘‘۔اس لیے کسان ’’دھان کی جگہ کوئی اور متبادل فصل اُگائیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ سندھ طاس کمیشن کی میٹنگ میں یہ ایڈوائزری پاکستان کوبھی دی گئی ہوگی۔ محکمہ آب پاشی کے چیف انجینیر شاہ نواز احمد کے بقول: ’’دریاے جہلم میں پانی کی سطح ریکارڈ لیول تک گرچکی ہے۔ سری نگر کے پاس سنگم کے مقام پر جہاں دریا کی سطح اس وقت چھے فٹ ہونی چاہیے تھی، محض ۱ء۴ فٹ ہے۔ ضلع کپواڑہ کے ندی نالوں میں ۱۰ فی صد پانی کی کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔
وادیِ کشمیر میںآنے والے مہینوں میں خشک سالی کا پاکستان کے کسانوں پر اثرانداز ہونا لازمی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے مراکز، یعنی جموں و کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے ۶۰برسوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سری نگر کے نواح میں بڑی نمبل، میرگنڈ، شالہ بوگ، ہوکرسر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہوچکے ہیں۔ ان کے بیش تر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، اس پر اب ایک پُررونق شاپنگ مال کھڑا ہے۔ کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالہ نہیں ہے، جس میں پچھلے ۷۰برسوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چندسال قبل ایکشن ایڈ کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ: ’’اکثر جگہ پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہائو فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ کوہِ ہمالیہ میں گلیشیروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دُنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی اور جنگی فضا کے باعث ان پر سرکاری رازداری کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق محدود ہوجاتی ہے۔ چین کے علاقے تبت، نیپال، بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور اتراکھنڈ، نیز جموں و کشمیر وغیرہ، جو ہمالیائی خطے میں آتے ہیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق ۱۵ہزار گلیشیرزہیں،جو دُنیا کے عظیم دریائی سلسلوں، میکانگ، برہم پترا، گنگا اور سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ۳۱۳۶ گلیشیر کشمیر کے کوہساروں کی پناہ میں ہیں۔ بھارت میں دریاے گنگا اور اس کے گلیشیرز کو بچانے کے لیے بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پُرعزم ہیں ۔
دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ: ’سندھ طاس‘ گلیشیرز کی حفاظت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاترائوں کے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے ایک کھرب ۲۰ ارب روپے مختص کیے۔ ۲۰۰۸ء میں اتراکھنڈمیں بی جے پی حکومت نے دریاے گنگا کے منبع پر ہندوئوں کے مقدس استھان گومکھ گلیشیر کو بچانے کے لیے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کردیں، جس کی رُو سے اب ہر روز صرف ۲۵۰یاتری اور سیاح گومکھ کا درشن کرپاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہرسال روزانہ تقریباً ۲۰ہزار یاتری کشمیر میں سندھ طاس ندیوں کے منبع کولاہی اور تھجواسن گلیشیر کو روندتے ہیں۔
۵۰سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً ۸ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا، وہ آج گھٹ کر صرف ۴ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال پہاڑی سلسلے میں تو شاید ہی کوئی گلیشیر باقی بچا ہے۔ اسی طرح اب بی جے پی حکومت ایک اور روایت قائم کرکے پیرپنچال کے پہاڑوں میں واقع ’کوثر ناگ‘ کی یاترا کی بھی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پھر ایک گروہ تو آزاد کشمیر میں واقع شاردا کو بھی اس یاترا سرکٹ میں شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفاف اور آلودگی سے پاک ’کوثر ناگ‘ پانی کا چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریاے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض عاقبت نااندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوموں، نیز حکومت نے ’امرناتھ یاترا‘ کی طرح ’کوثر ناگ‘ یاترا چلانے کا اعلان کر ڈالا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ: ’’اگر امرناتھ کے مقدس گپھا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔ لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے دہلی حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی سے امرناتھ بھیج رہی ہے۔ نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کو ایک ماہ اور زائرین کی تعداد ایک لاکھ تک محدود کی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دی اور اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔ آیندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا ، اب ایک مذہبی سبھا کے بجاے ’ہندوتوا‘ غلبے کا پرچم اُٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے۔ کولہائی گلیشیر ۱۱ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلومیٹر تک سکڑ گیا ہے اور چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہوگا۔ ’امرناتھ گپھا‘ اسی گلیشیر کی کوکھ میں واقع ہے۔
ایک اور حیرت ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پچھلے ۳۰برسوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پراجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت اور تحفظ پر غوروخوض ہوا ہے۔ سوپور اور بانڈی پورہ کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقوں کے کسانوں کے لیے یہ ایک طرح کا واٹر بنک ہے۔ جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریاے جہلم پوری طرح وولر میں جذب ہوجاتا ہے، اور سوپور کے نواح میں ایک بار پھر سے تازہ دم ہوکر بارہ مولا سے ہوتے ہوئے، اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ بھارتی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمایش ۱۸۹ مربع کلومیٹر درج ہے، ’سروے آف انڈیا‘ کے نقشے میں اس کا رقبہ ۵۸ء۷ مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے اور کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمایش ۱۳۰مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں ۶۰مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یا زرعی زمین ہے۔ ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول: ’’اس کا رقبہ اب صرف ۲۴مربع کلومیٹر تک محیط ہے‘‘۔ سیٹلائٹ تصاویر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی ہے۔ پانی اور ماحولیاتی بربادی کی اس تصویر سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش کن صورت پیدا ہوسکتی ہے، مگر اور بھی زیادہ حیرت ناک صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ابھی تک قدرتی وسائل کی حفاظت کی سمت میں بات چیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ چارسال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی، اور اس کے بعد گہری نیند کا سماں ہے۔
کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں اور کارخانوں کو ملتا ہے، اور انھی کی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔ اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظوں کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔ دونوں ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ’سندھ طاس معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی خاطر باہم مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔ کشمیر کے بعد اس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے۔ اس خطے میں ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرے گی اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ ضیاع ہوگا۔ اس لیے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہےکہ اتنے اہم معاملے پر بھارت اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطرخواہ دل چسپی کیوں نہیں لی جارہی؟ دونوں ممالک کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ’سندھ طاس آبی معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر کوئی پاے دار نظامِ کار وضع کریں، تاکہ کنٹرول لائن کے دونوںطرف رہنے والوںکو سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچایا جاسکے، جب کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت جیسے اُمور بین الاقوامی سفارتی گفت و شنید کا لازمی جز بن چکے ہیں۔
آج پوری دنیا میں بے چینی، بے قراری، انتشار اور نفسیاتی عوارض روز افزوں ہیں۔ پوری دنیا جنگوں کا جہنم زار ہے۔ گھر ہوں یا خاندان، دفاتر ہوں یا کاروبار، سیاسی جماعتیں ہوں یا اقوام، کھینچا تانی کے مناظر چھائے نظر آتے ہیں۔ عالمی سطح پر جنگوں میں درندگی ، انسانی اقدار کی تباہی کسی بھی ذی حس، ذی شعور کے ہوش گم کر دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں پہنچنے والے دُکھ اور اذیتیں ناقابل بیان، ناقابلِ یقین ہیں۔ خُودکُشی کرنے والے محض معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور نہیں، بلکہ بڑی تعداد تو معاشی اور سائنسی سطح پر نہایت ترقی یافتہ ممالک (جاپان، امریکا) کے لوگوں کی ہے، جو مال، دولت ، شہرت ، تعلیم کی بلندترین سطح پر پہنچ کر بھی اپنی ذات کی داخلی دُنیا کے خلا کے ہاتھوں اپنی جان لے لیتے ہیں۔ کتوں، بلیوں، مچھلیوں ، بندروں کے حقوق کے غم میں گھلنے والے تو بہت سے لوگ اور ادارے پائے جاتے ہیں، لیکن انسانوں کو خوفناک کیمیائی بموں سے تباہ کرنے، وحشیانہ قتل عام کرنے اور بستیاں جلانے والے ہاتھوں کو روکنے والے کہیں نظر نہیں آتے، بلکہ عالمی قیادت، ویٹو کلب یا جی سیون (G7)یک جا ہو کر درندگی کی پشت پناہی کی منصوبہ بندی کرتی ہے!
اس تمہید میں پائے جانے والے ہوش ربا منظرنامے کی وجہ عورت ہے! ٹھہریے! یہ نہ کہیے کہ عورت کو ہر معاملے میں موردِ الزام ٹھیرانا اپنی جگہ بڑا ظلم ہے، مگر بقول اقبال:
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
دراصل عصرِحاضر کی عورت خود ایک کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ ہوس پرست مردوں اور عالمی حیا باختگی کے سوداگروں نے گذشتہ دو صدیوں سے انسانیت کو اُس عورت سے بتدریج محروم کیا ہے، جو ’مادرِ انسانیت‘ تھی۔ آج بن ماں کے سسک سسک اور ٹھوکریں کھا کھا کر پلتے انسانوں کی تشنہ، ناپختہ، کج رو اور نفسیاتی بیماریوں کی ماری شخصیت کے ہاتھوں دنیا ابتر ہوئی پڑی ہے۔ انسانی بچہ سب سے زیادہ محنت، توجہ، بے پناہ محبت اور شفقت کا محتاج ہوتا ہے۔ اسے برائلر چوزوں کی طرح بلبوں کی روشنی، مصنوعی خوراک اور ٹیکوں کے ذریعے پال پوس کر چھوڑ دینا شرفِ انسانیت کی نفی ہے۔ صاحب ِکردار اور اعلیٰ اقدار کا فرد تیار کرنے کے لیے بے پناہ عرق ریزی، خون جگر ، صبر و ایثار درکار ہوتا ہے۔ مضبوط محفوظ گھر کی چاردیواری میں ہمہ گیرو ہمہ پہلو محبت، دل داری گھونٹ گھونٹ اندر اُتارنے کی ضرورت ہوتی ہے ___ پاکیزہ گفتگو، مہذب آوازوں ، اخلاق و کردار کی مہک ننھے بچے کے کانوں اور مساموں تک میں جگہ بناتی ہے۔ آنکھیں پاکیزہ مناظر سے روشنی پاتی ہیں۔ لقمۂ حلال جزوِ بدن بنتا ہے۔ گردوپیش میں موجود ہر انسانی رشتہ پوری یکسوئی اور یک رنگی سے بچے کو پروان چڑھانے میں ہم آہنگ ہو، اخلاق و کردار کی آکسیجن فراواں ہو، تو انسان پرورش پاتے ہیں۔ دم گھونٹ دینے والی مسموم فضاؤں، کان کے پردے پھاڑتی موسیقی کی تانوں، تیز جھگڑالو آوازوں کے ہنگاموں اور نفسانی خواہشات کے بگولوں میں انسان کا بچہ نہیں پل سکتا۔ مہذب، شائستہ، نرم خو، متوازن اور مضبوط کردار کے انسانوں کی دنیا پروان نہیں چڑھ سکتی۔
معاشروں کی رہبری کرنے اور روشنی کا مینار بننے والے انسانوں کی جو فراوانی مسلم تاریخ کا قابلِ فخر سرمایہ ہے___ اس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس کام کا آغاز وحی الٰہی کی روشنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جاںفشانی اور دل سوزی سے ہوا تھا، اسے اُمت کی ماؤں نے تھام کر شخصیت سازی کی ذمہ داری اُٹھائی تھی۔ جس کے لیے اسلام نے عورت کو بے پناہ تحفظ، تقدس اور احترام دیا تھا۔ اس کے قدموں تلے جنت رکھی تھی ’ شرف میں مشت ثریا سے بڑھ کے خاک اس کی!‘ انسانی صفات سے لہلہاتی سرسبزوشاداب فصل جو صحابہ و صحابیات (رضوان اللہ علیہم) کی صورت میں اُٹھی تھی، اس نے رہتی دنیا تک کے لیے سیرت سازی کا نمونہ فراہم کیا تھا۔ مسلم گھرانے بچے کی اٹھان، تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے گہوارے بن گئے تھے۔ گئے گزرے اَدوار میں بھی یکایک کوئی تراشا ہوا ہیرا سامنے آتا اور منظر بدل جاتا ۔ مال و دولت کی فراوانی میں ڈوبتے اُبھرتے بنواُمیہ کے دورِ بادشاہت میں عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھتے ہیں اور ہوائیں فضائیں اس کردار کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہیں۔ کبھی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسے رجال، اُمت کی تقدیر بدلنے کو میسر آجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر آبادی سے اسی نبویؐ فارمولے کے تحت انسان سازی بروے کار آتی رہی اور بہار کے مناظر لہلہا اٹھتے رہے۔ یہ تو دورِ حاضر کی بدنصیبی ہے کہ دنیا بھر میں بلاشرکت غیرے اقتدار و اختیار ایسے گروہوں اور مافیا کے ہاتھ آگیا کہ جس کے بعد انسان بنانے کی فیکٹریوں پر تالے پڑ گئے۔ جان لیجیے اس فیکٹری کی کارپرداز ہستی (عورت) ہر جگہ موجود ہے۔ چوراہے پر ٹریفک کنٹرول کرنے، دکان پر سوداگری کرنے، ٹیلی ویژن سکرین پر دل لبھانے، سیاست کی گدی پر جوڑ توڑ کرنے اور جنگی جہازوں سے چھلانگ لگانے تک! کیا ان مقامات پر عورت موجود نہیں ___ ؟ مگر قرار اور وقار سے ٹِک کر انسان سازی جیسی اعلیٰ و ارفع، نفع بخش اور اہم ترین ذمہ داری سے طویل رخصت پر غائب ہے! خود بھی بے در، بے گھر ، بے سکون اور انسانی معاشرے بھی تباہی کا شکار!
یہ طوفان مغرب میں تباہی لاکر آج آخری انتہا پر پہنچ چکا ہے اور عورت بند گلی میں بے دست و پا۔ مغربی مرد نے عورت کو اتنا عریاں، اتنا سستا، اتنا فراواں اور ہر جگہ ٹکے بھاؤ میسر کر دیا ہے کہ اب خود مرد کا دل بھی اس سے بے زار ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر جا سر چڑھی اور برابری کی دعوے دار، ’مردانہ وار عورت‘ اپنی کشش کھو چکی ہے۔ ان معاشروں میں نسوانی عورت موجود نہیں۔ دراصل آج وہاں مردوں پر ہی مشتمل آبادیاں ہیں، تمام کی تمام حقیقی مردوں اور مصنوعی مردوں سے آباد! پیدایشی مرد اور مردانہ لباس میں ملبوس مردانہ عورت یا پھر اعصاب شکن فاحشہ، برہنہ عورت! معاشرہ اپنا حسن، رنگ روپ، مروت ، ایثار، تحمل ، برداشت، شفقت اور رافت کھو چکا ہے۔ معاشرے کا ایک خوب صورت منظر ننھے منے بچے ہوا کرتے ہیں۔ جو اُداس اور تھکے ماحول میں راحت، زندگی اور اُمید بھر دیتے ہیں___ چہچہاتے، کھلکھلاتے، بھاگتے، دوڑتے اور کلکاریاں بھرتے بچّے، مگر آج ان کی جگہ سارے منظر پر باقاعدہ پالتو کتّے چھا چکے ہیں: غراتے، بھونکتے، دُم ہلاتے، رال ٹپکاتے! ’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!‘ اس رنگ میں کتّے بھنگ ملاچکے ہیں اور تصویر کائنات، انسانیت کے بہتے خون سے لہولہان ہو چکی ہے۔ جا بجا انسانوں کی جلی ہوئی، بموں سے چیتھڑا بنی لاشیں پڑی ہیں!
گورے مردوں نے عورت کو جس سفر پر ڈالا تھا، اس میں وہ مامتا کے مقام سے نکل کر مردکی سفلی ہوس میں رگیدی ’کمفرٹ گرل‘ اور ’سپائس گرل‘ بننے کے راستے پر چل نکلی۔ یوں نام نہاد مغربی معاشروں نے انسانیت کے منہ پر کالک ملی۔ عالمی جنگوں میں صرف کروڑوں انسانی جانوں کا خون ہی نہیں کیا بلکہ عورت کو بھی بے طرح پامال کیا۔ عورت کو صنعتی انقلاب کے بعد معاشی دوڑ میں لاکھڑا کیا۔ گھر کو خود کار بنانے کے لیے ایجادات ، مصنوعات کے ڈھیر لگا دیے اور تمام گھریلو اُمور کی انجام دہی مشینی بنا دی۔ دوسری جانب خود عورت کو گھر اور بچوں سے باہر کی دنیا میں پیسہ کمانے، اور ساتھ ساتھ ضمنی طور پر دل لبھانے والی مشین بنا دیا۔ بازاروں میں فروزن سبزیاں ، پکے ہوئے کھانے، چٹنیاں، ڈبل روٹیاں، برگر وغیرہ سب ارزاں ہوئے۔کپڑے اور برتن دھونے کی مشینیں عورت کی نذر کیں اور دل نواز آواز میں پکارا: ’’بس، اب تم گھر سے نکل آؤ۔ میرے ساتھ رہو، جدھر نظر اٹھاؤں، تمھارے وجود کا رنگ آنکھوں کو رونق بخشے۔ خوراک کے ذائقے کی کمی برداشت کر لوں گا، مگر تم گھر کی قید سے نکلو اور میرے ساتھ رہو___ ترقی اور آزادی، حقوق اور مساوات کے پُرفریب نعروں پہ آزادیِ نسواں کی تحریک پروان چڑھی اور پھریرے لہراتی پوری دنیا پر چڑھ دوڑی:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
مغرب کے بعض اربابِ نظر بھی بہت چیخے چلائے تھے، لیکن ’دقیانوسیت‘ کی پھبتی کَس کر انھیں نکّو بنا دیا گیا، اور جدیدیت کی رنگینیوں کی جگمگاہٹوں نے ذہن ماؤف کر ڈالے۔ مرد و زن کو یکساں تعلیم و تربیت دی۔ فنونِ لطیفہ کے نام پر تہذیب کی بدترین کثافتوں کی دلدل میں عورت کو دھکیل دیا۔ مردانہ وار تعلیم کی مصروفیت اور مرد سے مسابقت کے شوق نے ماں، ممتا اور بچے کے لطیف جذبات کو کچل کر رکھ دیا۔اولاد کی فطری خواہش کو سر اُٹھانے سے پہلے کچل دیا گیا۔ اسقاطِ حمل کی سہولتیں فراواں ہوئیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کی ایجادات و مصنوعات نے انسانیت کش سامان فراہم کیے۔ ایک مسئلہ مخلوط تعلیم اور ہمہ گیر اختلاط سے حرام بچوں کی آمد کا تھا، جسے روکنے کو کم عمری میں جنسی تعلیم او ر تعلیمی اداروں میں فیملی پلاننگ کی ضروریات کی فراہمی کا بندوبست ہوا۔ ان ’حفاظتی‘ اقدامات کے لیے ادارے بنے، اور ’ڈے کیئر‘ کی آیاؤں نے پرائے بچے پالنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ سوسال کے اندر اندر نانیاں، دادیاں ملازمتوں اور پھر اپنی دوستیاں نبھانے میں یوں بے پناہ مصروف ہوئیں کہ بچے کرائے پر پلنے لگے۔ اگلی نسل میں بچے بھی کرائے پر پیدا ہونے لگے۔ بچے پیدا کرکے دینے کی نوکری بھی ایجاد ہو گئی۔ کھیل کے میدانوں میں ’شانہ بشانہ‘ نے رہی سہی نسوانیت بھی ختم کر دی۔ اب عورت نسوانیت، حیا، لطافت، تحمل، صبر، عمیق جذبات اور قدرت کی ودیعت کردہ پرورش اولاد کی خاطر جذباتیت کھوچکی۔
یہ مرد نُما قسم کی مخنث عورت، فطری کشش کھو کر مدمقابل مخلوق بن چکی۔ اس کے سر چڑھے پن کے ہاتھوں وضع ہونے والی قانون سازیاں، شادی کے مقدس بندھن کو مرد کے استحصال کا ایک آلہ قرار دے چکی۔ مرد طلاق دیتا ہے تو عمر بھر کی پونجی گنوا بیٹھتا ہے۔ شوہر کو بلااجازت قربت کا حق بھی نہ رہا اور اس مقصد کے لیے خوف ناک اصطلاحیں وجود میں لائی گئیں۔ عورت عشوے، غمزے اور حیا کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے اشتہاری جنس کا ایک آلہ بن کر رہ گئی۔ قصاب کی دکان پر لٹکے گوشت کی مانندعورت کے جسم کا ہرہرحصہ بکتا یا صنعتی اشیا کی فروخت کا حوالہ بن چکا تھا۔ کہیں سالم اور کہیں شانے، دستی، پائے، ران کے دام الگ الگ وصول کرتی، بل بورڈوں پر چڑھی، فلم اور فیشن کو تارے دکھاتی عورت اپنے ٹیلنٹ اور آزادی کا اظہار کررہی ہے۔ایسی حیا باختہ عورتوں کا نام ’ستارہ‘ (Star)اور بڑی ’شخصیت یا فنکارہ‘ (Celebrity) قرار پایا۔ دوسری طرف عورت ہی سے بیزاری شروع ہو گئی کہ کھلونے کی طرح کھیل لیا، پھینک دیا اور طبیعت کو اُکتاہٹ ہونے لگی۔ مرد نے عورت پر تین حرف بھیج کر بحرِمُردار سے ملعون تہذیب نکالی اور اس سے اخذ کیا: مرد سے مرد کی شادی اور ضد میں عورت کی عورت سے شادی۔ یہ قانون بن گئے۔ شکست خوردہ مذہبیت کے بے آباد، مگر سجے سجائے چرچوں سے بھی اجازت مل گئی! پھر مردوزن نے حقیقی کتے، کتیوں اور جانوروں سے شادی کرنے کے ’جرأت مندانہ‘ قدم اُٹھائے۔ جاپان اور یورپ میں بڑی بڑی گڑیاؤں (ڈمیوں) سے شادی اور ان اشیا کے جگمگاتے اسٹور۔ بچوں کے لیے اگر بہت جی چاہا تو نامعلوم والدین کے بچے لے لیے۔
درحقیقت نسوانیت کی اسی موت نے خود انسانیت کو موت کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا ہے۔ عورت ایک برہنگی زدہ، کریہہ منظرنامے کے کردار کی مانند پھر رہی ہے۔ لاکھوں فحش سائٹس، مکروہ ترین ایجادات کا حصہ ہیں اور اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ ماں کے ہاتھ سے پکے اور خوشبودار مہکتے غذائیت سے بھرپور کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ بھی موت ہی کی سوداگری ہے۔(ہمارے ہاں اسی کلچر پر مرمٹنےکا جادو سر چڑ ھ کر بول رہا ہے، اور بازاری کھانوں میں اب گدھے کا گوشت، مردار مرغیاں اور کیا کچھ مزید نہیں کھایا کھلایا جا رہا۔)
آج یہ ساری بدنصیبی، گلوبل ویلج کے بن ماں کے پلے بدمست چودھریوں کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔ اور اب تو سعودی عرب بھی کھل کھیل کر ’زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے‘ کی شاہراہ پر آن کھڑا ہورہا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں پاگل پن کی بدحواسیاں۔ توبہ توبہ! عورت پر بے حیائی، بے حجابی مسلط کرنا ’انسداددہشت گردی‘ (Counter Terrorism) کا تیر بہدف نسخہ قرار پایا۔ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو دھتکارتے امریکیوں کی رضا اور خوش نودی کی خاطر سندھ پولیس نے (CTD) سیمی نار منعقد کرکے ۴۰ یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کو اکٹھا کیا۔ مل بیٹھنے اور سرجوڑنے کے بعد توپوں کے سارے دہانے اسلام ، دروسِ قرآن، دینی تربیت، حجاب، نقاب، داڑھی پر گولہ باری کے لیے کھول دیے۔ اِکا دکا میزائل نوجوان طلبہ و طالبات کو ایمان اور حیا سے روکنے کے اقدامات اور فرامین کی صورت صادر فرمائے۔ ’لبرل ترقی پسندانہ‘ رویوں اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرنے کا حکم جاری ہوا۔ پہلے ہی تعلیم او ر تعلّم کا گلا گھونٹ کر یونی ورسٹیاں اور کالج رنگ و خوشبو میں غرق، عشق عاشقی اور عیاشی پروان چڑھانے کے اداروں میں ڈھل رہے ہیں۔ جا بجا طالبات جنسی ہراسانی کے عذاب میں مبتلا ہیں، خود اپنے اساتذہ کے ہاتھوں!ہم کیسے بدنصیب ہیں کہ بگٹٹ انھی راہوں پر آج دین ایمان سے منسوب اپنی شناخت بھلائے دوڑے چلے جا رہے ہیں کہ جن راہوں پر چل کر مغربی ممالک تباہ ہوئے ہیں۔ طلاق کی شرح ہمارے ہاں بھی خوف ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔ عورت دیوانہ وار تلاش معاش میں بھاگی دوڑی چلی جارہی ہے اور بچے رُل رہے ہیں۔ ایسے میں کردار سازی کہاں___ ! بچے سسک سسک کر عدالتوں میں خلع طلاق کے کیسوں میں جدا ہوتے۔ ماں باپ کو دیکھتے اور چیخ چیخ کر پکارتے ہیں:
’گھر‘ توڑنے والے دیکھ کے چل ، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’نیک بندے ایک ایک کرکے دنیا سے گزرتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ کچرے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا جیسے کھجور یا جو کا کچرا۔ اللہ اس بات کی پروا نہ کرے گا کہ انھیں کس وادی میں ہلاک کرے‘۔ آج دُنیا اس کچرے کا ڈھیر بنی نظر آتی ہے۔ اسے کچرادان بنانے میں جہاں نیکوکاروں کے اٹھ جانے بلکہ لاتعلقی کا حصہ ہے، وہیں پر دنیا کو اس حال تک پہنچانے میں عورت کی بے قراری اور بے وقعتی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اس کا علاج ___ ؟ وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی! اپنی ماؤں میں سیّدہ مریمؑ ، سیّدہ ہاجرہؑ ، سیّدہ خدیجہؓ، سیّدہ فاطمہؓ جیسا پاکیزہ مامتا بھرا اسوہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔ یہی حج اور عمروں کا حاصل ہے۔ یہی ہمارا رول ماڈل ہے۔ قوم ماں کی گود سے پل کر نکلتی ہے:
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
اولاد کو فتنۂ دجال کی آندھیوں سے بچانے کے لیے پروں کے نیچے چھپا کر پالیے۔ کم تر معیارِ زندگی پر برتر معیارِ بندگی کو شعار بنائیے۔ میڈیا کے مسموم و مذموم اثرات سے بچائیے۔ قرآن و سنت ر گ و پے میں اتارئیے۔ پورے اعتماد سے مومنین و مومنات، قانتین و قانتات بنا کر پالیے۔ معترضین دیوانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی بات پر کان نہ دھریے! کہاں اسلام کی حیادار، عفت مآب محفوظ پاکیزہ عورت! اور کہاں مغربی معاشروں کی رگیدی بے وقعت عورت، بھوکی نگاہوں کے داغوں بھری چیچک زدہ عورت ؎ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک
سوال : ۱-رمضان کے کچھ روزے کسی شرعی عذر کی بنا پر قضا ہوگئے۔ کیا شوال کے چھے مسنون روزے رکھنے سے پہلے رمضان کے قضا روزوں کی ادایگی کی جائے یا قضا روزوں کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے جائیں؟اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ شوال میں قضا روزے ادا کر رہا ہوں اور ماہِ شوال کے مسنون روزوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یہ خیال رہے کہ عبادات میں نیت بہت ضروری ہے، اس لیے فرض عبادت کو نفل عبادت سے ملایا نہیں جاسکتا، مثلاً دو رکعت فرض نماز میں فرض ہی کی نیت کی جائے گی، نفل کی نہیں۔کیا روزے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے؟
۲-اگر کسی شرعی عذر کے باعث کسی خاتون کے ذمے کئی ماہ کے روزے ہوں اور ان کی ادایگی کے لیے کوشاں بھی ہو، لیکن وہ شوال اور ذوالحجہ کے نفلی روزوںکا ثواب بھی لینا چاہے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟رمضان کے قضا روزے اگر تسلسل کے ساتھ رکھنا مشکل ہو، اور کوئی خاتون یہ معمول بنالے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر اپنے ذمے فرض روزوں کو ادا کرے گی، تو کیا ان دو دنوں کی نسبت سے اس کو سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا؟
۱-شرعی عذر کی بنا پر ماہِ رمضان کے جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان کی فوری قضا لازم نہیں، اگرچہ مستحسن یہی ہے کہ جلد رکھ کر اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرلی جائے، کیونکہ انسان کو زندگی کے اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں۔ پھر یہ کہ نیکیوں کے حصول میں پہل کرنے اور عجلت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ(۲:۱۴۸)۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ روزے فوری نہ رکھے جاسکیں تو تاخیر سے گناہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے (جیسے شوال کے چھے روزے وغیرہ) بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ کا قول ہے: ’ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور میں وہ شعبان ہی میں رکھ پاتی تھی‘۔ حافظ ابن حجر اس کی شرح میں کہتے ہیں: ’اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی مجبوری اور عذر کی بناپر یا اس کے بغیر بھی آیندہ رمضان تک روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے‘۔ (فتح الباری، ج۴، ص ۲۳۹، حدیث: ۱۹۵۰)
۲- اصل تو یہ ہے کہ عبادات کو الگ الگ ادا کیا جائے، لیکن اگر ایک عمل سے دو طرح کی عبادات کی ادایگی کی بیک وقت نیت کی جائے، تو اس بارے میں فقہا کی راے مختلف ہے۔ حنفی فقہا کے ہاں ایک ہی عمل میں فرض اور نفل عبادت کو جمع نہیں کیا جاسکتا، البتہ دو نفل عبادات کی نیت ایک عمل میں کی جاسکتی ہے، جیسے اگر کسی نے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد اور ساتھ ہی فجر کی سنت کی نیت سے پڑھا ہے تو دونوں ادا ہوجائیں گی۔ شافعی فقہا کے نزدیک فرض نماز اور تحیۃ المسجد ایک ہی نیت سے ایک ہی عمل میں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عبادت مقصود بالذات نہ ہو تو اسے دوسری عبادت کے ضمن میں ادا کیا اور دونوں کو ایک ہی عمل میں جمع کیا جاسکتا ہے، جیسے مذکورہ مثال میں تحیۃ المسجد مقصود بالذات نہیں، بلکہ اصل مقصد اس وقت اور مقام کو نماز کے عمل سے معمور کرنا ہے۔ اس لیے وہ دوسری مقصود بالذات عبادت کے ضمن میں ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں عبادتیں اور اعمال مقصود بالذات قسم کے ہوں تو انھیں ایک ہی عمل میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے نزدیک، اگر ان اقوال کو سامنے رکھا جائے تو پیر اور جمعرات، نیز شوال کے چھے روزوں کی بھی یہی صورت بنتی ہے کہ وہ (بقول شافعیہ) مقصود بالذات کی قبیل سے نہیں بلکہ مقصد ان ایام اور اوقات کو روزے سے آباد کرنا ہے۔ اس لیے اگر قضا روزے انھی دنوں میں رکھے جائیں تو اُمید ہے کہ قضا روزوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر پیر اور جمعرات اور شوال کے روزوں کی فضیلت بھی ان شاء اللہ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی شانِ کریمی و فیاضی سے یہی اُمید رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندے کے ساتھ اس کی نیت و ارادے، تڑپ اور لگن کے مطابق برتائو کرتا ہے۔(مولاناعبدالحی ابڑو)
آخرت کی جواب دہی کے احساس سے سرشار ہرمسلمان مرد اور خاتون، بڑا اور چھوٹا یہ چاہتا ہے کہ میں اس فانی دُنیا میں اس طرح زندگی گزاروں کہ آنے والے کل میں، اللہ کے پسندیدہ فرد کی حیثیت سے نامۂ اعمال پیش کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے ایک مفتی سے لے کر ایک عام مسلمان تک یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی منشا جانے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روشنی لے۔ یہ کوشش دینی سوال و جواب اور فتاویٰ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
زیرنظر انسائی کلوپیڈیائی کتاب ۲۰ویں صدی کے دوران عرب اور غیرعرب دُنیا میں رہنمائی کا بڑے پیمانے پر فریضہ انجام دے چکی ہے، جسے پڑھنا اور اپنے پاس رکھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سیّدسابق جیسے معروف فقیہہ اور مدبّر (جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۷فروری ۲۰۰۰ء) الازہر یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ دورِ طالب علمی ہی سے الاخوان المسلمون کے جاں نثاروں کے ہم قدم بن گئے۔ اخوان کے ہزاروں پروانوں کی فقہی تربیت کے لیے السیّد سابق نے اس عظیم کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری سنبھالی اور بڑی خوبی و کامیابی سے اسے مدون کیا۔
سیّد سابق نے اس ذخیرئہ رہنمائی میں مختلف فقہی مکاتب ِ فکر کے علمی افادات کو ہرذہنی تحفظ سے بالاتر رہ کر پڑھا اور کتاب و سنّت کی روشنی میں پرکھا۔ پھراس مطالعہ و تحقیق اور دینِ اسلام کی حکمت کو بڑی آسانی اور عام فہم زبان میں ڈھال دیا۔
زیرنظر کتاب کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ۲۰ویں صدی میں علمِ حدیث کے ماہر ناصرالدین البانی ؒ نے اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہترین کتاب بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکبیرمحسن نے بڑی محنت سے اس کا رواں اور شُستہ اُردو ترجمہ کیا ہے، اور محمد سرورعاصم مدیر مکتبہ اسلامیہ لاہور نے بڑی محبت اور خوب صورتی سے اسے زیورِطباعت سے آراستہ کیا ہے۔
یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ِ ذوق اس کتا ب کا استقبال کرے گا۔ یہ کتاب اَب تک انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم زبانوں کے علاوہ اُردو میں بھی دو تین مختلف مترجمین کی توجہ اور ترجمانی کا مرکز بن چکی ہے۔(س م خ)
یہ کتاب پاکستان کے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کی یادداشتوں پر مشتمل دستاویز ہے۔ ایسی دستاویز کہ جو بے ساختگی اور سادہ بیانی کا نمونہ ہے، جو اپنے آپ کو پڑھواتی اور قاری کو ساتھ چھوڑنے نہیں دیتی۔ اس کا تصویری حصہ خود تاریخ ہے۔ یہ ٹھیرا کتاب کا ایک پہلو۔
اس کتاب کا دوسرا پہلو عبرت ناک،سبق آموز اور صدمہ انگیز ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں ہیرو تو کوئی نہیں، البتہ دو’ولن‘ موجود ہیں: پہلے ’ولن‘ محمد نواز شریف وغیرہ ہیں، جنھیں وعدہ خلافی، طوطا چشمی، کینہ پروری اور ضدی پن کا مجسم نمونے کے طور پر مصنف نے ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ دوسرے ’ولن‘ خود صاحب ِ تصنیف ہیں۔ یہی دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی میدان میں مصروف چودھری برادران (شجاعت حسین اور پرویز الٰہی) محض پیغام رسانی کا بوجھ اُٹھانے اور بار بار صدمے برداشت کرنے، مگر غالباً جم کر کھڑا نہ ہونے والی شخصیات رہی ہیں (تاہم، چودھری پرویز الٰہی کا صوبۂ پنجاب میں دورِ حکومت (۲۰۰۳ء-۲۰۰۷ء)، رفاہِ عامہ کے متعدد کاموں کے حوالے سے یادگار رہے گا)۔
پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۲کروڑ عوام کا انتہائی نازک دوراہے پر کھڑا ملک ِپاکستان، آمریت اور ’جمہوریت‘ کے دونوں اَدوار میں کسی صورت جمہور عوام کے نمایندوں کی منشا و مرضی کے مطابق نہیں چلتا آرہا، بلکہ دو،تین یا محض چار افراد اس قوم کی قسمت اور بدقسمتی کا فیصلہ کرتے اور کاروبارِ ریاست کو من موجی انداز سے چلاتے ہیں، جب کہ حکومت کے نام سے منسوب ٹولے میں باقی سبھی افراد قوال کے ہم نوا سازندے یا پھر ہم آواز صدا کار ہوتے ہیں، اور عوام بے بسی و بے چارگی کی تصویر۔ صد افسوس! (س م خ)
مدیر ترجمان القرآن نے ’پاکستان کو درپیش چیلنج اور قومی لائحہ عمل‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) میں نہ صرف دانش ورانہ گہرائی سے مسائل کی تشخیص کی ہے اور مسائل کا حل بتایا ہے، بلکہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی فطرت میں چھپی خرابیوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ خاص طور پر مقتدر سیاست دانوں، عدلیہ اور فوج کو بڑے متوازن انداز میں اصلاحِ احوال کا پیغام دیا ہے۔ کاش! ہمارے اہلِ قلم اسی دیانت اور سچائی سے قوم کی رہنمائی کریں۔
’علّامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) واقعی پروفیسر حمید احمد مرحوم کا ایک تحفہ ہے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اصحابِ علم کس انداز سے بڑی بڑی اُلجھی گتھیوں کو کس پیارے انداز سے کھولتے اور سائل کی تشفی و تسلی کرتے ہیں۔ اس وسعت ِ نظر اور وسعت ِ پیش کش پر ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔
محترمہ زبیدہ عزیز کا مضمون : ’شعبان: فضیلت، عبادات، رسومات ‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) میں قرآن و سنت کے تحت بدعات اور غلط روایات سے بچنے کا سامان فراہم ہوا ہے۔ تاہم ’’بہت سی روایات تو موضوع یعنی من گھڑت ہیں‘‘ (ص ۳۳) جیسے غیرمحتاط جملے کے بجاے یہ لکھنا کافی تھا: ’’بعض روایات ’موضوع‘ ہیں‘‘۔ حدیث کے معاملے میں کمزور بات یا جملے سے فساد کا دروازہ کھلتا ہے، اجتناب ضروری ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ جبیں کا مضمون: ’بچے اُمت کا سرمایہ، مگر کیسے؟‘(اپریل ۲۰۱۸ء) میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک بہترین پروگرام دیا گیا ہے۔ جس میں بچوں کی تربیت کے نہ صرف اہم نکات سمجھائے گئے ہیں بلکہ والدین کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔اسی طرح پروفیسر عبدالقدیر سلیم کا مطالعہ کتاب: ’ناموسِ رسالتؐ، اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘ ، کا کتابی صورت میں مرتب ہونا بہت بڑا احسان ہے۔
پروفیسر حمید احمد خان کا مضمون ’علّامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ پڑھا تو شدت سے د ل میں ایک آرزو جاگی کہ کاش مجھے بھی کسی شام علّامہ اقبال کی کسی محفل میں بیٹھنا نصیب ہوا ہوتا۔ کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ، جو علّامہ اقبال کے ہاں جاتے اور حکمت و دانش سے جھولیاں بھر کر اُٹھتے۔ اس محفل میں علّامہ کے کہے یہ جملے قارئین تازہ کرلیں: l’’ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے، کہیں گرمی نہیں ملے گی‘‘۔ l’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں…‘‘۔ l’’صحابہؓ کے ’حال‘ اور تمھارے ’حال‘ میں یہ فرق ہے کہ انھیں میدانِ جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں‘‘۔ l’’مسجد (مسجد قوۃ الاسلام) کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل (نماز ادا کرنے کی خواہش) ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں‘‘۔
ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۱۸ء) ’رسائل و مسائل‘ میں لکھا ہے کہ آج کل ڈاکٹر حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں۔ مَیں ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی فزیالوجی یا میڈیسن کی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی نہیں ہے۔
شام کے المیے پر عبدالغفار عزیز اور محسن عثمانی صاحبان کے مضامین خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ایس احمد پیرزادہ نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں حالات کو موقعے کے گواہ کی حیثیت سے بیان کرکے دُکھ اور درد کی ٹیسیں منتقل کی ہیں، جب کہ ڈاکٹر محمد محب الحق نے بھارتی فسطائی چہرے سے نقاب اُلٹ دیا ۔
بھارت ’برہمنی فسطائیت‘ کا دہکتا ہوا الائو ہے۔ اس الائو کے چند شعلوں کو ڈاکٹر محمد محب الحق نے بڑے دلیرانہ اور مدلل انداز سے بیان کیا ہے۔ اس مضمون کی دونوں قسطوں کو یک جا شائع کرکے پھیلانا اور عربی میں ترجمہ کر کے ان عربوں تک پہنچانا چاہیے، جو فاشسٹ مودی کی نازبرداری میں بچھے جارہے ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد کا تحقیقی اور تجزیاتی مقالۂ خصوصی : ’استعماری حکمت عملی اور راہِ انقلاب‘ (مارچ ۲۰۱۸ء) یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ سو پچاس سال پہلے کی تاریخ سے بھی ہماری نئی نسل بے خبر بلکہ لاتعلق ہے۔ پروفیسر صاحب نے بڑے ہی مختصر الفاظ میں دو سو سالہ تاریخ کا اس انداز سے احاطہ کیا ہے کہ مقصد ِ تحریر نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا، اور مقصد ِ تحریر بھی کیا ہے؟ سچ کی گواہی۔
چودھری صفدر علی مرحوم کے بارے میں مضمون (مارچ ۲۰۱۸ء) نے اس حسرت کو کئی درجے بڑھا دیا کہ ہم ایسے قیمتی افراد کی صحبتوں سے محروم رہتے ہیں، اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو اُداس کر جاتے ہیں۔
نظری حیثیت سے تو ہر صحیح اصول قائم کرنے کے لیے اور ہر غلط چیز ترک کرنے اور مٹا دینے کے لائق ہے ، لیکن عملی زندگی میں خیروشر کی کش مکش کے درمیان انسان کو بہت سے مواقع پر ایسے حالات سے بھی سابقہ پیش آجاتا ہے، جن میں ایک چھوٹی بھلائی پر اصرار کرنے سے ایک بڑی بھلائی کا نقصان ہوتا ہے ، یا ایک چھوٹی بُرائی ترک کرنے سے ایک بڑی بُرائی لازم آتی ہے۔ ایسے مواقع پر شریعت ِ اسلامیہ میں جو حکمت معتبر ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ بڑی بُرائی سے بچنے کے لیے چھوٹی بُرائی کو گوارا کیا جائے،اور چھوٹی بھلائی کی خاطر بڑی بھلائی کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس معاملے میں مَیں صرف عقل کو کسوٹی بنانے کا قائل نہیں ہوں کہ آدمی جب چاہے عملی ضروریات کی بنا پر اسلام کے اصول و قواعد اور احکام میں سے جس کی بندش سے چاہے نکل جائے۔ میں اس حکمت کا قائل ہوں، جو خود اسلام کے دیے ہوئے معیار سے جانچ کر یہ دیکھتی ہے کہ کس چیز کی خاطر کس چیز کو کہاں اور کس حد تک قربان کرنا ناگزیر ہے۔ اس کی مثالیں اگر قرآن، حدیث،آثارِ صحابہ اور فقہا و محدثین کی تصریحات میں تلاش کی جائیں تو ان کا شمار مشکل ہوگا۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کروں گا:
۱- اسلام میں توحید کے اقرار کی جیسی کچھ اہمیت ہے ، کسی جاننے والے سے پوشیدہ نہیں۔ یہ حق پرستی کا اوّلین تقاضا اور ہر مومن سے دین کا سب سے پہلا مطالبہ ہے۔ نظری حیثیت سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں قطعاً کسی لچک کی گنجایش نہ ہونی چاہیے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ چاہے اس کے گلے پر چھری رکھ دی جائے اور خواہ اس کی بوٹیاں کاٹ ڈالی جائیں، وہ توحید کے اقرار و اعلان سے ہرگز نہ پھرے۔ مگر قرآن ایسے حالات میں، جب کہ ایک شخص کو ظالموں سے جان کا خطرہ لاحق ہوجائے، یا اسے ناقابلِ برداشت اذیت دی جائے، کلمۂ کفر کہہ کر بچ جانے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ دل میں عقیدۂ توحید پر قائم رہے: مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ (النحل ۱۶:۱۰۶) [جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو، اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر ہے)]۔ یہ چاہے عزیمت کا مقام نہ ہو مگر رخصت کا مقام ضرور ہے، اور یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نگاہ میں مسلمان کی جان کی قیمت اقرارِ توحید سے زیادہ ہے، حتیٰ کہ اگر ان دونوں میں سے ایک کو قربان کر نا ناگزیر ہوجائے، تو شریعت اقرارِ توحید کی قربانی گوارا کرسکتی ہے، لیکن کیا جان بچانے کے لیے کفر کی تبلیغ بھی کی جاسکتی ہے؟ کسی دوسرے مسلمان کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے؟ اسلامی حکومت کے خلاف جاسوسی کی خدمت بھی انجام دی جاسکتی ہے؟ اس کا جواب لازماً نفی میں ہے، کیوں کہ یہ اپنی جان کی قربانی کی بہ نسبت بہت زیادہ قیمتی چیزوں کی قربانی ہوگی جس کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جاسکتی۔ [بقیہ دیکھیے ص۷۱ پر]
۲- اسلام میں شراب، خنزیر، مُردار، خون ، اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغیراللہ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا ہے، جس طرح زنا ، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہوجائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے، کیوں کہ ان حُرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے۔ مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے، شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کردے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہوجائے، شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکا زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رخصت نہیں دیتی۔ کیوں کہ یہ بُرائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی بُرائی سے شدید تر ہیں۔
۳- راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوںمیں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین بُرائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتوں اور بعض حالات میں اس کے وجوب [لازم ہونے] تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور اَزدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہوجائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے، تو ان کا بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے درپے ہو، اوروہ غریب کہیں چھپاہوا ہو، تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن ، شعبان ۱۳۷۷ھ/مئی ۱۹۵۸ء، جلد۵۰،عدد۲، ص ۱۱۷- ۱۱۸)
دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔
اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔
ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:
(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)