اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غورو فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنت ِانبیا ؑبنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑسے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔
اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجاے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلاشبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال برعظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔
یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کردیا جائے گا۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورئہ نور میں فرمایا گیا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔
اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :
وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o (النور ۲۴:۵۵) ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورئہ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:
قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸-۱۲۹) موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
سورئہ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:
وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o (الانعام ۶:۱۳۳)تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔
ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔
اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت
یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative)کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کرلیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جاسکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنادیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہوجاتی ہے ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
بلاشبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اورترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic )عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گوداور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہرلمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔
بلاشبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہرفرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خریدوفروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۱-۱۱۲) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔
سورئہ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میںاحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرام ؑنے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہرہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامت ِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے۔
فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہرادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّــہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ o وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۴-۲۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملت ِ اسلامیہ او رحزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال ؎
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے تقاضوں کے صحیح ادراک اور ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔
اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔
قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کردی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰)اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کرکے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereign نہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں، یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔
اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامت ِبندگی بن جائے۔
خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹرشپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔
خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیاے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت دائود علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کردینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دارالتذکیر ۲۰۰۲ئ) کے صفحات ۱۸ تا ۲۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔
مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ ۲- یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ ۳- یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۴- یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔ ۵- اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔ ۶- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔ ۷- یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ ۸- یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔
اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علماے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصور ِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:
ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ئ، ص ۶۷)
قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ـ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ برعظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔
قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔
ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محـصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکروفحش کو دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔
آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرناہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔
یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ’’ ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔ اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔
آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفروشرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دوٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o (التوبہ ۹:۷۳)’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جاے قرار ہے‘‘۔
شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔ ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط ِمبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ راے بلاشبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔
قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمت ِمسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔
ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دودہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جارہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟
کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔
یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبروتحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کردینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟
اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکات ِاسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علماے پاکستان یا جمعیت علماے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پرعمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔
پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہرطالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہدنامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔
اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خداخوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔
اسلامی ریاست انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میںصرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔
ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصد ِ شریعت جو مقاصد ِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔
اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی راے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہوجائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔
مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتربیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theology اور کہیں Christian Democracy کے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔
یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation State ہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کرکے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Order قائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آچکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔
اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہرغلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے تصور ہی کو غیرضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھاکہ اس اقرار و انکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔
تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بناپر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہرنیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔
اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم [مغرب] ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔(تفہیم القرآن، دوم، ص ۲۶۶-۲۶۷
بنیاد پرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے الفاظ کی معنویت کو جس طرح آج مغرب نے دھندلا دیا ہے، ایسے ہی مکالمہ بین المذاہب، انسان دوستی (humanism)، اعتدال پسندی، امن اور رواداری (tolerance) کے خوش کن الفاظ کو وہ اپنے مفہوم کا لبادہ اُوڑھانے پر مُصر ہے۔ اس طرح اُس نے اہلِ دین کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔ مغالطے کی اس دُھول میں شرک کا رد، حاکمیت الٰہی کا مطالبہ، اپنی تہذیب و ثقافت کے احیا پر مسلمانوں کا اصرار اور یہود و نصاریٰ کی دوستی کے بارے میں ان کی احتیاط کی روش، بدامنی اور شدت پسندی میں اضافے کا سبب قرار پاتے ہیں، جب کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں انسانوں کو اپاہج، عراق میں ۵لاکھ بچوں کو ادویات کی عدم دستیابی کا شکار کرنے والا امریکا اور فکری آزادی کے نام پر فرانسیسی شاتمِ رسولؐ جریدے کی پشت پر کھڑا یورپ اور دیگر ممالک کے ۴۰حکمران رواداری کے ’معلّم‘ قرار پاتے ہیں۔
قرآن اور اسوئہ رسولؐ میں اپنے عقائد و افکار پر غیرمتزلزل یقین اور دوسروں کے جذبات کا لحاظ رکھنے کا جو حسین امتزاج ملتا ہے، اس سے رواداری کے حقیقی مفہوم سے آشنائی حاصل ہوتی ہے اور عصرِحاضر میں اس کے فروغ کی راہیں بھی نظر آتی ہیں۔ اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں رواداری کے تصور کی وسعت اور گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یورپ آج جس رواداری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، وہ محض خیالات کی لیپاپوتی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اسوئہ رسولؐ کی روشنی سے مغرب کی طرف سے رواداری کے فروغ کے نام پر برپا تحریک کے مکروہ عزائم بھی نظر آئیں گے اور یہ بھی کہ مغرب اور ہمارے تصورِ رواداری میں کیا فرق ہے اور اگر اس فرق کو ہم نے نظرانداز کردیا تو پھر ہم خود اپنی روایات و اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مغرب جو لبرلزم اور رواداری کے نام پر ہم سے ہماری اقدار چھیننا چاہتا ہے، خود کس قدر متشدد ہے اس کا اندازہ یورپ میں مسلمان خاتون کے سر پر اسکارف اور مساجد کے میناروں پر عائد ہونے والی پابندی سے لگایا جاسکتا ہے۔ محض اسکارف کی پابندی کرنے والی خاتون کو مقدمے کی سماعت کے دوران عین کمرۂ عدالت میں پولیس کی موجودگی میں قتل کرنا بقول اقبال مغرب کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کا منظر دکھاتا ہے۔ اس لیے ہمیں مغرب سے متاثر ہوئے بغیر رواداری کی ان بنیادوں کو تلاش کرنا ہے جو امنِ عالم کے قیام میں انسانیت کے کام آسکیں اور تمام اقوام کو اُن کی تہذیب وثقافت کے تحفظ کا احساس دلا سکیں، نہ کہ رواداری کے نام پر ان کی اقدار پر ڈاکا مارنے اور کمزور اقوام کی خودداری چھیننے کا سنہری جال ہوں۔
کیا رواداری کا فروغ دو مخالف اور متصادم نظریات کی محض لیپاپوتی سے ممکن ہے؟ اس کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر مخالف نظریات کی موجودگی میں دیگر اقوام کا مل جل کر رہنے کا کیا طریقۂ کار ہو؟یہ وہ سوال ہے جس کا ہمیں جواب تلاش کرنا ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں غلط اور صحیح کی بنیادیں اور ہیں اور اہلِ اسلام کے ہاں اور۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ایک کے ہاں درست ہیں اور دوسرے کے ہاں غلط۔ اگر کچھ باتوں میں اشتراک پایا بھی جاتا ہے، تو بہت سی باتوں میں ٹکرائو بھی ہے۔ ٹکرائوکی صورت میں دونوں سے سازگاری ممکن نہیں۔
رواداری کا مفھوم
رواداری سے مراد کسی انسانی اجتماعیت کا ان باتوں کو جنھیں وہ نظریاتی طور پر اپنے دائرے میں غلط اور ناپسندیدہ سمجھتی ہے، دوسرے انسانوں کو جو انھیں پسند کرتے ہیں، ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں اختیار کرنے کا حق دینا اور ناپسندیدگی کے باوجود برداشت کرنا ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جب تک انسانوں کو ارادہ و عمل کی آزادی ہے، وہ ایک ہی نظامِ فکر کے پابند نہیں ہوسکتے اور جزوی تفصیلات میں تو ان کے درمیان اختلاف کا ہونا ان کے مزاج اور ذوق کے تنوع کے باعث ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی دعوت و تذکیر ہی قرار دیا ہے: فَذَکِّرْ ط اِِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o (الغاشیہ ۸۸:۲۱)، اور ساتھ ہی آپ کو بتایا کہ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں: لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍo (الغاشیہ ۸۸:۲۲) ۔ لہٰذا اس فرمان کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تذکیر اور یاد دہانی میں انتہائی نرمی اختیار کی۔ ایک طرف اہلِ کفر کو لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(الکافرون۱۰۹:۶)کہہ کر ان کے مشرکانہ عقائد سے براء ت و بے زاری کا اعلان کیا تو دوسری طرف لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ۲:۲۵۶) فرما کر انسانیت کے اس حق کو بھی باو رکرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ قبولِ ہدایت کے لیے کسی قسم کے جبر کو پسند نہیں کرتا۔
حق و باطل کے معرکے میں نظریاتی جنگ بہرحال انسانی اذہان کے میدان میں لڑی جائے گی۔ اس لیے باطل کو ختم کرنا اور انسان کو آخری حد تک باطل سے نتھی رہنے سے بچانے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ جیساکہ فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔ یہ اسی لیے فرمایاکہ جذباتِ انسانی کو کم سے کم ٹھیس پہنچا کر ان کے دل جیت لیے جائیں۔ حق اور باطل کا مقابلہ بھی ناگزیر ہے لیکن یہ مقابلہ انسان کی تکریم کے لیے ہے نہ کہ اس کی تذلیل کے لیے۔ انسانوں پر حق کو بہ جبر مسلط کرنے میں انسان کی تکریم ہے اور نہ حق کی، بلکہ ان دونوں کی تکریم اس میں ہے کہ انسان آزادانہ مرضی سے حق کو قبول کرے: فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکھف۱۸:۲۹) ’’اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے ایک ایک مظہر پر ضرب لگائی۔ اہلِ شرک کی کٹ حجتیوں کا مدلل جواب دیا۔ اہلِ کفر کی ایک ایک خامی کو نمایاں کیا لیکن سواے ایک مقام کے اہلِ کفر کو بھی ٰٓیاََیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا۔ بتوں کی کمزوریوں کو نمایاں کیا لیکن آپؐ نے بتوں کی تضحیک و استہزا کو اپنا شعار نہ بنایا، کیونکہ اللہ کا حکم تھا: وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوً م ا بِغَیْرِ عِلْمٍ ط (الانعام۶:۱۰۸)’’اور جن کو یہ کافر اللہ کے مقابلے میں پکارتے ہیں تم انھیں گالیاں مت دو ورنہ وہ بھی اللہ کو بغیر علم کے دشنام دیں گے‘‘۔
تمام انبیا ؑ اپنی قوموں کے شرک اور غلط کاریوں پر جب تنقید کرتے ہیں تو بار بار وہ مخاطبین کو یٰقُوْمِ (اے میری قوم) کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ قرآن نے منافقین کے رذائل کو کھول کھول کر سورئہ بقرہ، سورئہ منافقون، سورئہ احزاب اور دیگر سورتوں میں بیان کیا ہے لیکن ایک مقام پر بھی یاایھاا لمنافقون کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ انھیں اہلِ ایمان کے صیغۂ خطاب میں ہی یاایھا الذین امنوا کے الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی وفات پر اس کے کفن کے لیے اپنی قمیص بھی پیش کردی(بخاری، رقم الحدیث ۵۷۹۵)۔ آپؐ نے ایک یہودی کا جنازہ گزرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ مجلس میں اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ (بخاری، رقم الحدیث، ۱۳۱۲)
قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ نے آپؐ سے سمجھوتا کرنے کے لیے دولت، عورت اور حکومت کی جو پیش کش کی وہ آپؐ کی بلندیِ کردار اور مقاصد ِ جلیلہ کے مقابلے میں انتہائی گھٹیاتھی، لیکن آپؐ نے اپنے مقام و مرتبہ سے فروتر ان باتوں کو نہ صرف صبروتحمل سے سنا بلکہ اپنی بات شروع کرنے سے قبل آپؐ نے اس سے استفسار کیا کہ اے ابوالولید! کیا تم نے اپنی بات مکمل کرلی؟ گویا اس کی بات کو مکمل سننا ضروری سمجھا گیا۔ مزید یہ کہ عتبہ کو اس کی کنیت ابوالولیدسے پکار کر آپؐ نے گویا اُمت کو یہ سبق دیا کہ کافر خواہ کتنی ہی گھٹیا بات کرے، اس کا ادب و احترام تر ک نہیں کیا جائے گا۔
میثاقِ مدینہ کی شرائط میں یہود و مشرکین کی مذہبی آزادیوں کے تحفظ کا شامل کرنا، حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی معاہدات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر ملتا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق کے الفاظ یہ ہیں: لِلْیَھُودِ دِیْنُھُمْ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُھُمْ (یہود کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین)۔ (ڈاکٹر محمد حمیداللہ، The First Written Constitution in the World، ص ۲۴)
مذہبی اختلاف جسے قریش نے ذاتی عناد میں تبدیل کرلیا تھا، جنگ ِ بدر میں قیدیوں سے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اور مخالفین اسلام سے مسلمان بچوں کی تعلیم کی خدمت لینا، رواداری کی عظیم مثال ہے۔ جس جہاد کو آج رواداری کا دشمن باور کرایا جاتا ہے، اللہ کے نزدیک وہی جہاد درحقیقت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ذریعہ ہے: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج۲۲:۴۰) ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں‘‘۔
نجرانی عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق یہ تھی: اَنْ لَا تُھَدَمَ لَھُمْ بِیْعَۃٌ ، وَلَا یُخْرَجَ لَھُمْ قِسٌّ ، وَلَا یُفْتَنُوا عَنْ دِیْنِھِمْ ، مَا لَمْ یُحْدِثُوا حَدَثًا اَوْ یَأکُلُوا الرِّبٰوا ،’’ان کے کسی معبد کو منہدم نہیں کیا جائے گا نہ کسی پادری کو نکالا جائے گا۔ تبدیلی مذہب کے لیے انھیں مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جب تک وہ کوئی نئی بات نہ نکالیں یا سود نہ کھائیں، معاہدہ برقرار رہے گا‘‘۔(سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۶۴۴)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں اہلِ حیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک شق امام ابویوسفؒ نے یہ بیان کی ہے: وَلَا یُمْنَعُوا مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ، وَلَا مِنْ اِخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ یَوْمِ عِیْدِھِمْ ، ’’ان کو کلیسا کی گھنٹیاں بجانے یا اپنی عید کے دن صلیب نکالنے سے منع نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (ابویوسف، کتاب الخراج، ص ۱۵۴)
عہدفاروقی میں عیسائیوں کو ناقوس بجانے کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی گئی، اس کا کچھ اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے: اَنْ یَضْرِبُوْا نَوَاقِیْسَھُمْ فِیْ أَیِّ سَاعَۃٍ شَآؤُوْا مِنْ لَیْلٍ وَنَھَارٍ اِلَّا فِیْ اَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ ’’کہ وہ نمازوں کے اوقات کے ماسوا دن اور رات کے جس پہر میں بھی چاہیں، اپنی گھنٹیاں بجا سکیں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)
امنِ عالم کا قیام اور روے زمین پر آباد افراد و اقوام کو اس قابل بنانا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کی فضا میں سانس لے سکیں، جس میں ہرفرد کو اپنی راے رکھنے کا حق حاصل ہو اور باہمی افہام و تفہیم کا موقع ملے، وقت کی ضرورت ہے تاکہ باہمی میل جول (interaction) کے نتیجے میں اسلام کی حقانیت اور حکمت اہلِ کفر پر واضح ہوسکے۔ باہمی میل جول کا فائدہ ہمیشہ اس نظریاتی تحریک کو ہوتا ہے جس کا نظریہ ذہنوں کو مسخر کرنے اور دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت (potential) رکھتا ہو۔
نجران کے عیسائیوں کا وفد (۹ہجری) مدینہ حاضر ہوا اور آپؐ نے مسجد نبویؐ میں انھیں اپنی رسوم و عبادات ادا کرنے کی اجازت دی (شبلی نعمانی، سیرۃ النبیؐ، ج۲،ص ۵۱) ،اور ایک ایسا منصفانہ اور ہمدردانہ معاہدہ کیا کہ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ لکھتا ہے:
محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] نے بشپوں، پادریوں اور راہبوں کو یہ تحریر دی کہ ان کے گرجاگھروں اور خانقاہوں کی ہر چیز ویسے ہی برقرار رہے گی۔ کوئی بشپ اپنے عہدہ، کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی پادری اپنے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا اور ان کے اختیارات، حقوق میں کسی قسم کا تغیر نہ کیا جائے گا اور جبر وتعدی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ (ولیم میور، Life of Mohammad ،ص ۱۵۸)
فاضل ہندو محقق شری سندر لال جی اپنے مضمون ’آنحضرت کی زندگی‘ میں لکھتا ہے: ’’حکمران کی حیثیت سے محمدصاحب نے غیرمسلموں کو یہاں تک کہ بت پرستوں کو بھی اپنی ریاست کے اندر رہتے ہوئے، اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ مدنی آیت ہے اور محمدصاحب کی پوری زندگی اس آیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے‘‘۔
محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے ایک ایسے مذہب اور روایت کی بنیاد ڈالی جو مغربی تصور کے باوجود تلوار کی ثقافت پر مبنی نہیں تھی،اور جس کا نام اسلام ، امن و سلامتی کی علامت ہے۔(آرم اسٹرانگ ، Muhammad a Western Attempt to Understand Islam،ص ۲۶۶)
برٹرینڈرسل لکھتا ہے: ’’عیسائیت اور ان کے علَم برداروں نے ہمیشہ اسلام اور حضرت محمدؐ کے خلاف باطل پروپیگنڈا جاری رکھا ہے، جب کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمدؐ ایک عظیم انسان اور فقیدالمثال مذہبی رہنما تھے۔ وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو بُردباری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘۔(برٹرینڈرسل، Why I am not Christian، ص ۵۲)
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حضوؐر نہ تو مردم بیزار اور گوشہ نشین ہستی تھے اور نہ شدت پسندی آپؐ کے مزاج کا حصہ تھی۔ آپؐ کی گوشہ نشینی کی زیادہ سے زیادہ مدت وہی ہے جو نزولِ وحی سے قبل آپؐ نے غارِحرامیں اختیار کی۔ نزولِ وحی کے بعد آپؐ کبھی غارِحرا میں زاویہ نشین نہ ہوئے۔اس کے بعد آپ انسانوں کے اندر ان کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ قبل از بعثت آپؐ ایک بھرپور کاروباری زندگی گزار رہے تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مکہ کی مال دار اور کاروباری خاتون حضرت خدیجہؓ آپؐ سے متاثر ہوئیں۔ بعثت سے قبل آپؐ ایک سرگرم سماجی زندگی گزارتے تھے جس کا ثبوت معاہدہ ’حلف الفضول‘ میں آپؐ کی شرکت اور حجراسود کی تنصیب میں آپؐ کی فہم و فراست اور اہلِ مکہ کاآپؐ پر اعتمادہے۔ ایک ایسا شخص جس کی جوانی ایک بھرپور عملی زندگی کا تاثر رکھتی ہے، جب وہ الہامی ہدایت کی روشنی میں لوگوں کو اصلاح و ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے تو یہ بات قابلِ فہم ہے کہ اس کی شخصیت کے سابقہ عمل اور تجربات اس کی دعوتی زندگی میں نظر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسوئہ رسولؐ میں ہمیں اس بات کا اظہار ملتا ہے کہ آپ جہاں ایک طرف ٹھیٹھ عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے وہاں آپؐ معاشرے میں انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ایک عملی انسان تھے۔ ایک عملی انسان میں جہاں اپنے نظریات و عقائد اور زندگی کے تصورات پر کاربند ہونے اور اس کے ابلاغ کی تڑپ ہوتی ہے، وہاں دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرنا بھی اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
بظاہر تو رواداری کی صدا اس طبقے کی طرف سے بلند ہونی چاہیے جو کمزور اور اقلیت میں ہو لیکن امرواقع یہ ہے کہ اس کا پُرزور مطالبہ بالعموم status quo کی حامی قوتوں کی طرف سے ہوتا ہے، جیساکہ اہلِ مکہ نے حضوؐر کے پیغام کی قوتِ تاثیر سے ڈر کر آپ کو سمجھوتے کی میز پر لانے کی کوشش یہ کہہ کر کی: اِئْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ھَذَا اَوْ بَدِّلْـہٗ ، اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئو یا اسے تبدیل کردو، تو اللہ نے حضوؐر سے کہلوایا کہ:قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ ج اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ج (یونس ۱۰:۱۵)’’کہو کہ میرا یہ کام نہیں کہ میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرلوں، میں تو اس وحی کا پابند ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔ غیروں کی خوش نودی کے لیے اگر مسلمان اپنے دین کے اصولوں میں کتربیونت کرتے ہیں تو اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کر ظلم کوئی نہیں۔ وہ اللہ کے ہاں مجرم قرار پائیں گے اور انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل نہ ہوگی: فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۱۷) ’’پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے‘‘۔ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کے معاملے میں کسی لاگ لپیٹ اور مفاہمت خواہانہ رویے (compromising attitude) سے اللہ نے اپنے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ کو منع فرمایا: وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ o (القلم۶۸:۹) ’’یہ کافر تو چاہتے ہیں کہ تم کچھ مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں‘‘۔
مداہنت جس کا ذکر یہاں اللہ نے ناپسندیدگی کے ساتھ کیا ہے، کیا ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت مفسرین کی آرا کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: لَوْ تُرَخِّصْ لَہُمْ فَیُرَخِّصُوْنَ اَوْتَلِیْنُ فِیْ دِیْنِکَ فَیَلِیْنُوْنَ فِیْ دِیْنِھِمْ ’’کچھ تم ان کے لیے ڈھیل نکالو تو پھر یہ تمھارے لیے ڈھیل پیدا کریں یا یہ کہ تم اپنے دین میں نرمی لے آئو تو یہ بھی اپنے دین میں نرمی لے آئیں‘‘۔(تفسیر ابن جریر ،ج ۱۹، ص ۲۸)
امام قرطبیؒ کے مطابق: فَاِنَّ الْاِدِّھَانَ: اَللِّیْنُ وَالْمُصَانِعُ، وَقِیْلَ: مُجَامَلَۃُ الْعَدُوِّ مُمَایَلَتُـہٗ ، وَقِیْلَ: مُقَارَبَۃٌ فِی الْکَلَامِ وَالتَّلْیِیْنُ فِیْ الْقَوْلِ ’’ادھان کا مطلب ہے ڈھیل پیدا کرلینا اور سازگاری چاہنا۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہے مخالف کے ساتھ لحاظ کا رویہ اختیار کرلینا اور میلان باہمی چاہنا۔ دوسرے قول کے مطابق: اس سے مراد کلام میں ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنا اور بات میں ملائمت لے آنا‘‘۔ (تفسیر قرطبی، ج ۹، ص ۲۳۰)
امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: حضرت عبداللہؓ بن عباس سے مروی ہے کہ ’’اللہ کے اس فرمان سے مراد ہے کہ تم ان کے لیے معاملہ کچھ ڈھیلا کرو تو پھر یہ بھی تمھارے لیے ڈھیل پیدا کرلیں گے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر،ج ۴، ص ۴۰۳)
قرآن کے نزدیک کسی بھی عقیدے یا نظریے کو قبول کرنے یا رد کرنے، صحیح کہنے یا غلط کہنے کا اختیار تو انسانوں کو حاصل ہے لیکن یہ اختیار نہ اس عقیدے کے مخالفین کو حاصل ہے اور نہ اس کے ماننے والوں کو کہ وہ اس عقیدہ کی تشریح و تعبیر اس کے اصل مراجع سے ہٹ کر کریں۔ جذبات انسانی کا احترام بجا مگر حق کا احترام اس سے بڑی چیز ہے اور حق کے احترام کی بات کرنا، باطل کے خلاف دعوت و تبلیغ کرنا، رواداری کے خلاف نہیں۔ البتہ یہ رواداری کے خلاف ہے کہ تلوار کے زور پر لوگوں سے کلمہ پڑھوایا جائے۔
اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حسنِ سلوک، نرمی اور رواداری انسانوں کے ساتھ کرنے کا ہمیں حکم ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ۲:۸۳) ’’لوگوں سے بھلی بات کہنا‘‘، چاہے و ہ باطل پر ہی کیوں نہ ہوں لیکن خود باطل نظریات کسی رواداری کا استحقاق نہیں رکھتے کیونکہ ان سے رواداری حق کی بھینٹ دیے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلہ تو حق و باطل پر مبنی نظریات و رجحانات کے درمیان ہوگا لیکن اس کو بہرحال انسانی قلوب و اذہان میں برپا ہونا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حق و باطل کی اس مڈبھیڑ میں اس سرزمین کا نقصان کم سے کم ہو، اور انسانی جذبات کم سے کم برانگیختہ ہوں۔ جیسے ایک ڈاکٹر کی اصل جنگ مرض کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ جنگ اسے مریض کے جسم کے حساس اعضا کے درمیان لڑنا ہوتی ہے۔ وہ کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ محض کسی اذیت کے خوف سے مریض کا علاج ترک نہیں کردیتا۔ گویا کوئی معاملہ بھی، جس میں اللہ اور رسولؐ نے کسی بات کا فیصلہ کردیا ہو، اس میں کسی گروہ کی پسندوناپسند کا خیال رکھنا اسلام کے نزدیک رواداری نہیں۔ البتہ ایسی بات یا موضوع جسے دین نے مباح رکھا ہو یا جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہو، اس میں لوگوں کے رجحانِ طبع، آسانی اور پسند کا لحاظ کرنا اور شدت و غلو اور انتہاپسندی سے بچنا ہی اسوئہ رسولؐ ہے۔
اس موقف کی تائید ایک روایت کرتی ہے جو مداہنت اور رواداری کے درمیان حضوؐر کے متوازن اسوئہ کو نمایاں کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَھُوْدِّیَّۃِ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃِ وَلٰکِنِّیْ بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِـیَّۃِ الْسُّمْحَۃِ ’’مجھے نہ تو یہود کے اندازِ دین داری کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور نہ نصرانی مذہبیت کے ساتھ، مجھے اس موحدانہ طرزِ بندگی کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے جس میں وسعت و آسایش ہے‘‘۔(مسند احمد، رقم ۲۱۶۲۰)
اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْسُّمْحَۃُ’’دین داری کا انداز اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، وہ ٹھیٹھ موحدانہ طرز کی بندگی، جس میں خوب نرمی و میانہ روی ہو‘‘ (بخاری، رقم الحدیث ۳۷، طبرانی، رقم ۷۵۶۲)۔ یہ الفاظ اس طویل حدیث کا حصہ ہیں جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ حبشی لوگ عید کے روز آئے اور انھوں نے مسجد میں ایک رقص نما کھیل پیش کیا۔ تب نبیؐ نے مجھے بھی بلا لیا۔ میں آپ کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر ان کا کھیل دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں نے خود ہی ان کی طرف سے توجہ پھیر لی۔(مسند احمد، مسلم)
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے کہا: اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: لِتَعْلَمَ الیَھُوْدُ اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ اِنِّیْ اُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃٍ سُمْحَۃٍ (مسنداحمد، رقم ۲۳۷۱۰)۔ علامہ البانی نے خُذُوْا یَابَنِی رَفْدَۃ! حَتّٰی تَعْلَمَ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ ’’شاباش حبش کے جوانو! تاکہ عیسائی و یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں بڑی وسعت ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(ناصرالدین البانی: السلسلۃ الصحیحہ)
زمانۂ جاہلیت میں شرک و بت پرستی کو غلط جاننے اور عام بُرائیوں سے دامن کش رہنے والے صاحب ِ عزم انسانوں کو ’حنیف‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے لیے قرآن نے حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حنف یحنف کا مطلب مڑا ہونا بھی ہے اور سیدھا ہونا بھی۔ میلان ختم کرلینا بھی ہے اور میلان پیدا کرلینا بھی۔ ایک طرف سے ٹوٹنا دوسرے سے جڑنا۔ گویا حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی طرف سے بالکل ہٹ کر کسی اور طرف کا ہو لے۔ چنانچہ حنیفیت کا معروف معنی ہے سب معبودوں سے ناتا توڑ کر ایک ہی معبود کا ہو رہنا۔ سمحہ کے معنی ہیں میانہ روی، معقولیت، اعلیٰ ظرفی، وسعت نظر کے ساتھ آسانی و نرمی، رواداری و رحم دلی۔ گویا اسلام مذہبی جکڑبندیوں کا نام نہیں۔ اسلام میں جائز خواہشات کو دبا دینا اور جذبات و احساسات کا قتل جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ہمیں حنیفیہ اور سمحہ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ایک طرف ایسے اصول ہیں جن پر کوئی مفاہمت نہیں، یعنی باطل سے کوئی مفاہمت نہیں، یکسو ہوکر ایک رب کا ہورہنا ہے۔ دوسری طرف دعوت و تربیت، ابلاغ اور قائل کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ دعوتی عمل میں معقولیت، مخاطبین کی سہولت کا خیال ، نہ ماننے والوں سے کسی الجھائو کا شائبہ تک نہ ہونا، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کے شرک بے زار اعلان کے ساتھ ہر ایک کو بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا کی نوید جاںفزا ۔ (مسلم ، رقم ۳۲۶۲ )
اصولی مسائل میں جب خاندان میں آپؐ کے واحد پشتی بان چچا ابوطالب نے بھی سردارانِ قریش کے دبائو اور اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کر ایک موقعے پر آپؐ کو کچھ مفاہمت کی راہ دکھانا چاہی، تو آپؐ کا یہ فرمانا کہ واللہ !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں تو بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آئوں گا۔ آپؐ کے اس اسوہ میں ہمارے لیے یہ رہنمائی موجود ہے کہ دینی اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ عتبہ بن ربیعہ کی طرف سے کلمہ کی دعوت چھوڑنے کے نتیجے میں حکومت و دولت کی پیش کش کو آپؐ کی طرف سے ٹھکرا یا جانا معمولی بات نہیں۔ کوئی دانش ور کہہ سکتا ہے کہ آپؐ پہلے حکومت بنالیتے اور پھر حکومت کی طاقت سے توحید کی دعوت کی ترویج کرتے لیکن آپ نے اصولِ توحید کی تنفیذ کے لیے مشرکانہ سیادت کا بار ِاحسان ہونا گوارا نہ کیا۔
اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ایک مسلمان کا کام دین کو بلاکم و کاست انسانوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب کوئی اللہ کے نازل کردہ دین کو نہیںمانتا تو اس زندگی میں اسے اس کی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ روزِ محشر اللہ نے کرنا ہے، ہم نے نہیں۔ البتہ دنیا میں باطل کے پرستاروں پر ان کی غلطی واضح کرنا اور انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہماری ذمہ داری ہے۔
مسلم مکاتبِِ فکر کے درمیان رواداری
اب تک ہم نے دیگر اقوام و مذاہب کے معاملے میں رواداری کے مفہوم کے تعین کی کوشش کی ہے۔ اب خود مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مختلف مکاتب ِ فکر کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جس رواداری کی ضرورت ہے، اسے سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ آج مسلمانوں میں بہت سے مکاتب فکر ہیں جن میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ کسی کو کسی کی توحید مشکوک نظر آتی ہے تو کوئی کسی دوسرے کو منکرِ رسولؐ قراردیتا ہے۔ عقائد اور معاملات میں کہیں کہیں بڑے انحرافات بھی نظر آتے ہیں۔ ان پر تنقید نہ کرنا بھی اُمت کے مفاد میں نہیں۔ اُمت کو اصل دین پر قائم رکھنے کے لیے اصل دین کا اُجاگر کرتے رہنا ضروری ہے۔ لیکن اس تنقیدوتحقیق کو ایسے اصولوں کا پابند رکھنا ضروری ہے جو ہمیں اسوۂ رسولؐ سے حاصل ہوتے ہیں۔
لوگوں پر کفروشرک کے فتوے لگانا، جب کہ وہ کلمہ گو ہوں، یہ نبویؐ دعوت کا اسلوب نہیں ہے، خصوصاً جب ان پر کوئی دعوتی حجت بھی قائم نہ ہوئی ہو۔ حضوؐر پر تو منافقین کا نفاق واضح تھا، آپؐ نے کبھی کسی منافق کو بھی منافق کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا۔ قرآن میں کسی ایک جگہ بھی یایھا المنافقون کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے حالانکہ قرآن میں جگہ جگہ منافقین کے رذائل بیان ہوئے ہیں۔ جب بھی کسی مسلمان یا مسلمانوں کے کسی گروہ کی خامی حضوؐر کے علم میں آتی تو آپؐ برسرِ منبر اس خرابی پر توجہ ضرور دلاتے لیکن ان افراد کا نام کبھی نہ لیتے تھے۔
اگر کسی امر پر دلیل ملتی ہو اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کی گواہی بھی موجود ہو تو اس کی روشنی میں یہ کہنا کہ یہ کام شرک ہے، یا یہ رویّہ کفر ہے، یہ گناہ ہے یا فسق ہے، اس کے کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی متعین فرد یا گروہ کا نام لے کر اُسے کافرومشرک، بدعتی یا منافق کہنا بہت سے پہلوئوں سے تحقیق و تفتیش کا متقاضی ہے۔ لوگوں کو خدا کا حق بتانے میں پُرحکمت اور مؤثر انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔
جہاں حق بات کے اظہار کی استطاعت و اہلیت نہ ہو یا جہاں باطل کو رد کرنے کی حالات اجازت نہ دیتے ہوں، وہاں وقتی طور پر خاموش رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت موسٰی ؑ جب ۴۰روز بعد بنی اسرائیل کی طرف واپس آئے اور انھیں گئوپرستی میں مبتلا پایا تو انھوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ سے پوچھا: مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا o اَلَّا تَتَّبِعَنِط (طٰہٰ۲۰:۹۲-۹۳) ’’تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ تم میرے طریقے پر عمل نہ کرو‘‘۔ تو حضرت ہارون ؑ نے جواب میں کہا: اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ (طٰہٰ۲۰:۹۴) ’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
حضرت موسٰی ؑ کے بعد قوم نے جو بت پرستی اور سرکشی کی راہ اختیار کی، سورئہ اعراف کے مطابق حضرت ہارون ؑ کو اپنی جان کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں قوم کے انتشار کا خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کی واپسی کے انتظار تک جو مصلحت اختیار کی، قرآن نے اسے ناپسندیدہ قرار نہیں دیا۔
دین کے اجتہادی و فروعی معاملات میں حضوؐر نے مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو نہ صرف برداشت کرنے کی تربیت دی بلکہ اس عمل کو حصولِ فضیلت کا ذریعہ قرار دیا۔ فرمایا: اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَ اِنْ کَانَ مُحِقًّا ’’میں اس شخص کے لیے جنت کے وسط میں گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔(ابی داؤد، رقم ۴۸۰۰)
قوم کے فتنہ و ہیجان میں مبتلا ہونے کے خطرے کے پیش نظر آپ نے اپنے پسندیدہ عمل کو بھی ترک کردیا۔ خانہ کعبہ کی عمارت ادبارِ زمانہ کے باعث ان بنیادوں پر موجود نہ تھی جن پر اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا، حضوؐر ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن فتنہ پیدا ہوجانے کے اندیشے سے ایسا نہ کیا۔ ایک دن حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ کی عمارت انھی بنیادوں پر تعمیرکروں جہاں اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا لیکن اس وجہ سے رُک جاتا ہوں کہ تیری قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۱۴۸۳)
اللہ کے رسولؐ جنھوں نے دعوتِ حق کے بیان میں کبھی سختیوں اور مخالفتوں کی پروا نہ کی اور نہ کسی ملامت کا خوف کھایا، وہ اس بات سے کیوں محتاط ہیں کہ خانہ کعبہ کی نئی تعمیر سے قوم بگڑ جائے گی۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ دین کا اساسی مسئلہ نہ تھا کہ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ کسی بھی ملامت کا خوف نہ کھاتے۔ چونکہ یہ مسئلہ فروعی نوعیت کا تھا اس لیے آپؐ نے لوگوں کے جذبات کا لحاظ کرکے کعبہ کی تعمیرنوپر ترجیح دی۔ گویا مسلمانوں کو یہ راہ دکھائی کہ وہ فروعی معاملات میں آپس میں اُلجھنے سے زیادہ اُمت کے اتحاد کو اہمیت دیں اور باہمی رواداری کا رویّہ اپنائیں۔
اسوئہ رسولؐ میں ہمیں احکامِ شریعت کے فہم و استنباط میں توسّع اور تنوع کی اتنی گنجایش نظر آتی ہے کہ اس میں تعدّد مسالک کا قبول کیا جانا، ہمارے اَسلاف کی شان دار علمی روایت کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ اس ذریعے سے انسان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور تعمیری و تحقیقی عمل کے لیے ایک سازگار ماحول بنانے میں بے حد متوازن آداب و حدود رہنمائی کا کام دے سکتے ہیں۔
بخاری میں ہے کہ حضوؐر نے بنی قریظہ کی طرف ایک دستے کو روانہ کرتے ہوئے نصیحت کی: لَایُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الْعَصْرَ اِلَّا فِیْ بَنِی قُرَیْظَۃَ ’’کوئی بھی شخص بنی قریظہ کی بستی کے سوا نمازِعصر نہ پڑھے‘‘۔ صحابہ کرامؓ ابھی راستے میں تھے کہ انھیں محسوس ہوا کہ وہ نمازِ مغرب سے پہلے کسی طرح بھی بنی قریظہ کی بستی میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس لیے ایک گروہ نے نماز قضا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر کہا کہ نمازِ عصر یہیں ادا کرلینی چاہیے۔ دوسروں نے کہا کہ آپؐ کا حکم بنی قریظہ میں پہنچ کر نمازِ عصر ادا کرنے کا ہے۔
پہلے گروہ نے اس کی تاویل کی کہ آپؐ کا مقصد تھا کہ ہم جلد از جلد وہاں پہنچیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں، جب ہم نمازِعصر کے دورانیے میں وہاں نہیں پہنچ سکتے تو نماز قضا نہ کریں۔ لہٰذا ایک گروہ نے عصر کی نماز راستے میں پڑھی، جب کہ دوسرے گروہ نے منزل پر پہنچنا ضروری سمجھا لیکن ان کی نماز قضا ہوگئی۔ آپ سے اس معاملے کا ذکر کیا گیا تو آپؐ نے کسی کی بھی سرزنش نہ فرمائی: فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْھُمْ (بخاری، رقم ۴۱۱۹)
ایک اور حدیث جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ اور عطائؓ بن یسار ہیں، کے مطابق دوصحابی سفر پر تھے کہ پانی کی عدم دستیابی کے باعث تیمم کرکے نماز ادا کرلی اور پھر مزید سفر پر روانہ ہوگئے۔ ادا کی گئی نماز کا وقت ابھی باقی تھا کہ پانی میسر آگیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ اب ہمارا عذر ختم ہوگیا ہے اور نماز کا وقت بھی باقی ہے، لہٰذا ہمیں وضو کرکے نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔دوسرے نے کہا کہ میں تو نہیں دہرائوں گا کیونکہ جس وقت ہم نے تیمم سے نماز پڑھی تھی اس وقت ہمارا عذر موجود تھا۔ جب بارگاہِ رسالتؐ میں رہنمائی کے طلب گار ہوئے تو جس نے نماز نہیں دُہرائی تھی آپؐ نے اس سے کہا کہ تو سنت کو پاگیا اور تیرے لیے تیری نماز کافی ہوگئی، جب کہ نماز دہرانے والے سے فرمایا کہ تمھارے لیے دہرا اجر ہے۔ (ابوداؤد) گویا آپؐ نے دونوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ میں بھی مختلف علمی ذوق و مزاج اور علمی سطح کے افراد موجود تھے اور حضوؐر نے قرآن و حدیث کے فہم و تعبیر میں ان کے اختلاف کو جائز قرار دیا۔ اس لیے کہ دونوں آرا رکھنے والوں کو قولِ رسولؐ کی حجیت اور اہمیت سے انکار نہیں تھا لیکن پیش آمدہ نئی صورت حال میں آپؐ کے الفاظ کی تفہیم و تعبیر میں اختلاف ہوا۔ اس لیے آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں کی۔
اسوئہ رسولؐ کے اسی پہلو کے پیش نظر اَسلاف میں وہ روادارانہ طرزِعمل دکھائی دیتا ہے جس کا تذکرہ شاہ ولی اللہ کی کتاب الانصاف میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے کہا کہ آپ کے مجموعہ احادیث موطا کی فقہی آرا کا کیوں نہ تمام اُمت کو سرکاری طور پر اس کا پابند کردیا جائے، تو امام مالکؒ نے انھیں یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ امیرالمومنین ایسا نہ کریں۔ مختلف دیار میں محدثین و فقہا پہنچ چکے ہیں جن کے علم و تقویٰ پر وہاں کے لوگوں کا اعتماد قائم ہے۔ آپ زبردستی کرکے ان پر زیادتی کریں گے۔ اسی طرح امام شافعیؒجو نماز ِ فجر میں دعاے قنوت پڑھنے کے قائل تھے۔ جب انھوں نے کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ کے مدرسے میں نمازِ فجر پڑھائی اور دعاے قنوت نہ پڑھی، تو لوگوں نے پوچھا کہ آج آپ نے دعاے قنوت نہیں پڑھی، تو آپ نے فرمایا کہ آج میں ان کے شہر میں ہوں جو ایسا نہیں کرتے۔ لہٰذا میں نے اس کے خلاف کرنا مناسب نہ جانا۔ ( الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ص ۴۱)
آج کے عالمی گائوں (Global Village) ،نئی دنیا میں جس تہذیبی اور ثقافتی کش مکش سے ہمیں واسطہ ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جہاں ایک طرف دین کے ٹھیٹھ اور واضح تصور کو اپنانے کی ضرورت ہے، وہاں داعیانِ دین کے لیے زمانہ شناس ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے زمانے کو سمجھے بغیر اگر ہم نے کوئی اقدام کیا تو اس کمزوری کا فائدہ کفر ہی کو ہوگا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آج بین الاقوامی سطح پر بحث ہورہی ہے، ان کے بارے میں کسی ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک رہنما خطوط متعین کیے جائیں، تاکہ ایک طرف ہم اپنی اقدار و روایات کا تحفظ کرسکیں تو دوسری طرف دیگر اقوام کے سامنے اسلام کا تشخص پیش کرسکیں۔
مقالہ نگار شعبہ علومِ اسلامیہ، گورنمنٹ کالج، ٹاؤن شپ لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ برقی پتا: drakhtarazmi27@gmail.com
ڈاکٹر صلاح سلطان معروف عالم دین، نام وَر مصنف و داعی اور دبنگ مقرر ہیں۔ وہ ۲۰؍اگست ۱۹۵۹ء کو مصر میں پیدا ہوئے۔ مختلف موضوعات پر اب تک ان کی ۶۰ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مسلم دنیا میں اہلِ علم کی قدردانی ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد سے وہ اور ان کا نوجوان بیٹا جنرل سیسی کی قید میں ہیں۔
ڈاکٹرصلاح سلطان کا بنیادی تخصص اسلامی قانون ہے۔ وہ مصر، سعودیہ اور بحرین کی کئی اہم یونی ورسٹیوں میں تدریسی اور انتظامی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مختلف اداروں، اسلامی اور علمی تنظیموں میں بڑے عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ متعدد ٹی وی چینلوں پر دعوتی اور اصلاحی پروگرامات کرچکے ہیں۔ بحرین میں وزارتِ مذہبی اُمور کی اعلیٰ کمیٹی کے مشیر اور مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ اسی طرح قاہرہ یونی ورسٹی اور بحرین یونی ورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن بھی رہے ہیں۔ رابطہ علما جرمنی اور عالمی اتحاد علماء المسلمین کے رکن اور عالمی اتحاد علما کی فلسطین کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی اسیری کا ایک سال پورا ہونے پر ایک تفصیلی خط لکھا ہے۔ ایک ربانی عالم دین، جہد پیہم کا خوگر مخلص کارکن کیسا ہوتا ہے، یہ خط اس کا ایک پرتو ہے۔(ادارہ)
وَ مَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدْ ھَدٰنَا سُبُلَنَا ط وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا ط وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۱۲) اور ہم اللہ پر بھروسا کیوں نہ کریں، اس نے تو ہمیں ہمارے راستے دکھائے، تم ہمیں جو بھی تکلیف دو، ہم تو صبر سے جمے رہیں گے، اور بھروسا کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔
زندگی کے بہت سارے ماہ و سال مہربان رب کے فضل و کرم کے سایے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔ یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔ مسجدوں سے محرومی کہ جہاں میں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔ سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ بیوی اوراولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگرپارے ہیں۔ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔ ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی۔ اہلِ علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کر لگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہنچ گئے۔ صدق و صفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دُور ہوگئی۔ آسمان کی فضائوں میں پرواز کرنے والی، سرسبز و شاداب درختوں کے جمال میں کھو جانے والی، دریا اور سمندر کے صاف و شفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھڑی میں یہ سب کہاں میسر۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے موقعوں سے محرومی۔
جب مَیں جیلروں کی دسترس میں پہنچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ مَیں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قیدتنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ ’’لیمان میں رحمن کا عرفان حاصل ہوا‘‘ اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیاگیا، تو مَیں نے اسے یہ عنوان دیا کہ’’عقرب میں ہم اللہ سے اقرب (زیادہ قریب) ہوگئے‘‘۔ اللہ سے قریب تر ہونے کے لیے شاہِ کلید تو قرآنِ مجید ہے۔ پس مَیں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ مَیں پہلے نماز کی حالت میں قرآنِ مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہِ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھڑی میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر مَیں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجاے، فَفِروا الی اللّٰہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کر کے مہربان رب کے قریب پہنچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا، اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ سے دُور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت و انابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردیے۔
بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی [بارآوری] بن گئی۔ قرآنِ مجید کی اُمیدافزا آیتوں کے سایے میں میرے شب و روز گزرنے لگے، جیسے ’’میرا دوست تو اللہ ہے،جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کو دوست بناتا ہے‘‘(اعراف ۷:۱۹۶)۔ ’’وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا ہے‘‘ (التوبہ ۹:۵۱)۔ ’’پھر اللہ نے ان پرسکینت نازل کی اور جلدحاصل ہونے والی فتح سے نوازا‘‘ (الفتح۴۸:۱۸)۔’’اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا‘‘۔ (طلاق۶۵:۷)
میرے قلب و وجدان میں اعلیٰ و ارفع معانی گھر کرنے لگے، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے کہ ہرحال میں وہ خیر سے مالا مال رہتا ہے۔ یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ جب اسے خوش حالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے باعث ِ خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطا کا یہ جملہ کہ ’’جو اللہ کے انعام و اِکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے، اسے آزمایش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبرجمیل اور قناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں اور مَیں نے بھی کمرکس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیے کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی: قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ قرآنِ مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لیے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآنِ مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھے سال سے زیادہ تھے۔ اسی سال بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر،فقہ، اصولِ فقہ، لغت،ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفے میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔ اس سال جیل کے اندر میں نے قرآنِ مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقے، ایمان، اخلاق اورفقہ کے قواعد، اور فتویٰ و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے ۵۰دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلے نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوب صورت ترین ساعتیں عطا کیں۔ اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق و کردار، سوز و انابت، عجزوانکساری اور علم و بصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ رب ارض و سما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔ میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ انھیں میری اور میرے بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی۔ بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، مگر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے۔ مَیں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمایش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابلِ تعریف وستایش ہے، اور جس پراللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آزمایش کے دوران صلہ بھی بہت دیا۔ میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ میری بیٹی حنا کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینیرخالد کی شادی ہوگئی۔ میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکا کی سب سے اچھی یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی۔ میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی حنا نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی اور میرے خاندان میں حفاظ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جو ظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار ہیں اور جن کے دل شجاعت اور وفا کانشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لیے اس طرح نرم ہے کہ گویا مَیں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لیے اتنی سخت ہے، جیسے تیزدھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے باربار دُعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔ قید ہوتے ہی مَیں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس اُمید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعائوں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے،وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لیے بُرے انجام کی، اور صالحین کے لیے استقامت اور سرخ روئی کی دُعا کروں۔
جیل میں ہرشب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگنا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں۔ اللہ کی قسم جیل سے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا،وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا۔ مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت و تزکیے کے کیمپ، علمِ شریعت کے ورکشاپ، یورپ، امریکا، جاپان، پاکستان، ہندستان، ازبکستان اور دیارِ عرب، غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے، اللہ نے اس سے بھی محروم نہ رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا عمدہ پروگرام اپنے اُوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے۔ جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمایش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجاے صبرجمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انھوں نے میرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا۔ ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے ۲۴۰ دن ہوگئے۔ اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگیا ہے۔ اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوتِ ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ میں کئی بار اس کے منہ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں، آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے لیکن اب بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعائیں سنائی دیتی ہیں۔ میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں اور جب اس منزل سے اُتر کر نیچے آتا ہوں تو منہ میں جانے والا ہرلقمہ تلخ لگتا ہے۔ جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہرکھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں۔ حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روزبروز طاقت ور ہورہا ہے۔ آج محمد اس لیے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطلِ عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو! میرے بیٹو اور میری بیٹیو! میں تمھیں خوش خبری سناتا ہوں کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں۔ اللہ کی قسم! اس سال مَیں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمھارے لیے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی ۱۰ سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجائو اور ہمارے لیے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعائوں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پَر دینا بھی میرا تم پر حق ہے۔ فلسطین اور مسجداقصیٰ کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے۔ اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے۔ یہی میری نظربندی کا سبب ہے۔ میری کتابیں، میرے مضامین، میری تقریریں، میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدادوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ اور صفحات پر موجود ہیں۔ میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو۔ اگر تم میرے ہرپیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہنچاتے ہو ، قریہ قریہ، شہرشہر، تو سمجھو کہ تم میری دعائوں کے دائرے میں داخل ہوجائو گے۔ وہ دعائیں جو ہر روز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں، اپنے ہونہار شاگردوں کے لیے، ان کے لیے جو میرے علم و بصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے، دنیا میں عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو اپنے قول و عمل سے مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔
یاد رکھو! جن ظالموں نے مجھے قید کر کے تم سے دُور کر دیا ہے ، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رُوبرو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میر ی ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمھاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا:
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنَ قَرِیْبًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۵۱)اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب، کہو کہ کیا پتا کہ وہ قریب ہو ۔ (سہ روزہ دعوت، دہلی، ۷دسمبر ۲۰۱۴ئ)
اس وقت دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ آج دنیا میں ایک ارب ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے۹۰کروڑ مسلمان ۵۷ مسلم مملکتوں اور۴۰ کروڑ باقی دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں رہتے ہیں۔ وسط ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور براعظم افریقہ کے بڑے حصے پر مسلم آبادیوں کا ارتکاز ہے، تاہم مسلمان دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد ۳ کروڑ سے زائد اور شمالی امریکا میں ۷۰لاکھ ہے۔ یورپ اور امریکا میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔۵۷ مسلم ممالک دنیا کے ۲۳ فی صد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اہم ترین بری، بحری اور فضائی راستے مسلم دنیا ہی سے گزرتے ہیں۔ مسلم دنیا اور باقی دنیا کا ایک دوسرے پر کافی انحصار ہے۔ مسلم ممالک میں وسائل کی فراوانی ہے لیکن وہ معاشی، اور صنعتی ترقی میں پس ماندہ ہیں۔ ان کے پاس بہت زیادہ مالیاتی وسائل ہیں لیکن ٹکنالوجی، انتظامیات اور پیداوار و ترقی کے جدید طریقوں کے استعمال میں وہ پیچھے ہیں۔ مسلم ممالک کی باہمی تجارت ۱۳فی صد ہے ، جب کہ ۸۷ فی صد تجارت بقیہ دنیا کے ساتھ ہوتی ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے ۵ کا تعلق اعلیٰ ۲۵ کا تعلق وسط سے ہے ، جب کہ بقیہ ممالک کا تعلق نچلے گروہ سے ہے۔۱؎
مسلم دنیا کئی صدیوں تک تسلیم شدہ عالم گیر معاشی قوت کی حیثیت سے غالب رہی۔ معاشرتی برتری اور ٹکنالوجی میں ترقی صدیوں تک مسلم ممالک کا امتیازی نشان رہا ہے۔۲؎ البتہ گذشتہ ۳۰۰ برسوں میں معاشی زوال ہوا ہے اور ان کی معاشی طاقت میں کمی و اقع ہوئی ہے۔ مسلم دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر دوبارہ سنبھلنے کا تصور موجودہ دور میں برسرِکار ہوا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا تنقیدی و فکری کام ہوا ہے کہ کیا خرابی پیدا ہوئی؟ اور مسلم دنیا کیسے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل کرسکتی ہے؟ اس مناسبت سے اپنی اخلاقی اور نظریاتی ساکھ اور بنیاد کی تلاش اس جدوجہد کاایک حصہ ہے۔۳؎
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور امت مسلمہ ایک عالم گیربرادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے، اور یہی ایمان مسلم امہ کی عالم گیر حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ یہی توحید کائنات کی، انسانیت کی اور زندگی کی وحدت (Unity) اور قانون کے آفاقی ہونے پر دلیل ہے۔ اسلام کسی خاص قوم ، لسانی یا علاقائی نسلی گروہ یا کسی خاص سماجی و معاشی طبقے کا دین نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام ایک نیا دین پیش کرنے کا دعوے دار نہیں ہے، بلکہ اس کے مطابق یہ رہنمائی ہے جو خالق نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے تخلیق انسان کے اول روز سے بہم پہنچائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا مذہب (دین) اسلام ہی تھا۔
مسلمان حضرت آدمؑ سے لے کرحضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام کے لغوی معنی ’امن‘اور ’سلامتی‘ کے ہیں۔ یہ اللہ کے واحد معبود ہونے او راس کی بندگی کرنے اور اس کے انبیا ؑپر ایمان لانے کا داعی ہے، جن کی زندگی اعلیٰ ترین نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت کے مطابق انسان کی مکمل سپردگی اور پیروی کا نام ہے۔ اسی طرح شریعت کچھ اقدار، اخلاقیات اور قوانین کے مجموعے کا نام ہے جو اسلامی طرزِ زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔
اسلام، ہر فرد کے اختیار کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ عقیدہ و مذہب کے معاملے میں کسی زورزبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔۴؎ یہ انسانیت کے لیے ثقافتی لحاظ سے اورحقیقی طور پر تکثیریت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اختلاف راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنااسلام کابنیادی اصول ہے۔ اسلام، انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں: ایمان، عبادت، شخصیت اور کردار ،فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہے۔ پھر اسلام غیرمذہبی معاملات کو بھی روحانیت کی مقدس چھتری کے تلے جمع کرتا ہے۔ یہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں لادینی اور دنیاوی پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کرتابلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کواخلاقی و روحانی طور پر باہم مربوط کرتا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر اخلاقی اور نظریاتی فکر ہے، جو عقیدے، رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بالاتر ہوکر انسان کو مخاطب کرتی ہے۔ یہ تکثیریت کو حقیقی اور قابل تکریم سمجھتا ہے۔ امت مسلمہ کے اندر بھی تنوع موجود ہے۔ اسلام کسی مصنوعی اتحاد اور زبردستی کی ہم آہنگی کا قائل نہیں ہے۔ یہ بقاے باہمی اور تعاون کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اسلامی طرزِ زندگی اور تمدن کا ایک اور پہلو، اس کا: مطلق ، کائناتی اور عالم گیر اقدار پر زور دینا ہے۔ یہ کچھ ایسے اداروں کا تعین کرتا ہے، جو اسلام کے مستقل ستون کی حیثیت سے کام کرتے ہیں،اور بدلے ہوئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق لچک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقدار کا تانا بانا انسانی فطرت اور کائنات کے حقائق کے مطابق بنتا ہے اور انسان کو وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ انسان بدلتے حالات کے تناظر میں اپنی اقدار اور اصولوں کا اطلاق کرے۔ اس کے لیے اسلام ایک خودکار نظامِ عمل فراہم کرتا ہے، تاہم انسانی حالات کی جزئی تفصیلات کے ضمن میں جامد قواعد و ضوابط سے احتراز کرتا ہے۔ یہ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی تصور کرتا ہے جو تمام مخلوقات میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ ہرفرد اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان صرف سماجی مشین کا اہم پُرزہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک معاشرہ ، ریاست، قوم اور انسانیت تمام ہی اہم ہیں اور ہرایک اپنا خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، آخرت میں ہر فرد کی جواب دہی انفرادی سطح پر ہی ہوگی۔ اس سے اسلامی نظام کے اندر فرد کی مرکزیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر فرد کو معاشرے اور اس کے اداروں سے وابستہ کرتا ہے اور ان کے درمیان ایک متوازن تعلق قائم کرتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات زندگی سے فرار کا راستہ نہیں دکھاتیں بلکہ بھرپور زندگی گزارنے کے نظریے پر قائم ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو اور سرگرمیاں اخلاقی نظم و ضبط کے ذریعے پاکیزہ زندگی گزارنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ انفرادی تقویٰ اور اجتماعی اخلاقیات مل کر بھرپور زندگی کو فروغ دیتی ہیں، انفرادی اور معاشرتی بہبود میں اضافہ کرتی ہیں اور تمام لوگوں کے لیے فلاح کا باعث بنتی ہیں۔ اسلام میں ’دولت‘ ایک گالی نہیں۔ اگر اخلاقی اقدار اور امکانات کو پیش نظر رکھا جائے تو پیدایش دولت دراصل ایک پسندیدہ قدر ہے۔ ایک اچھی زندگی انسانی جستجو کابڑا ہدف ہے، فلاحِ دنیا اور فلاحِ آخرت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے، اور یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ یہی وہ روحانیت ہے جو دنیاوی زندگی کے تمام پہلوئوں اور سرگرمیوں کو اخلاقی دائرہ کار میں لاکر اس طرح چھا جاتی ہے، کہ وہ انسان کو بیک وقت نہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل بنادیتی ہے،بلکہ ایک ایسامعاشرہ تشکیل دیتی ہے جس میں تمام لوگوں کی خواہشات عادلانہ طریقے پر پوری ہوتی ہیں۔
شخصی آزادی، حقوقِ ملکیت، کاروبار، منڈی کی میکانیت اور دولت کی منصفانہ تقسیم، اسلامی معاشی نظام کے اہم حصے ہیں، تاہم مختلف سطحوں پر بہت سی اخلاقی بندشیں ہیں، مثلاً: انفرادی تحرک، ذاتی رجحان، سماجی طور طریقے، آجر اور اجیر کے رویے اور فرد اور ریاست کے باہمی تعلقات۔ اس نظام میں خاص طورپر نگرانی، رہنمائی اور ضروری قانون سازی کے دائرے میں ریاست اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ آزادی،معاشی مواقع کی فراہمی اور ملکیت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔
اسلام ضروریات کی فراہمی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دیناچاہتا ہے، جس میں معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی ہو۔ اوّلین طور پر ذاتی جدوجہد کے ذریعے اور محنت کا پھل ملنے کے رجحان کی بنیاد پر۔ لیکن ایک ایسے دوستانہ ماحول میں کہ جو لوگ پیچھے رہ جائیں یا ان کا تعلق محروم طبقات سے ہو، ان کی اس طرح سے مدد کی جائے کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں اور معاشرے کے فعال شریک بن جائیں۔ اسلام پیدایش دولت کی ایسی سرگرمیوں پر زور دیتا ہے۔ اس کا ہدف ایسا عادلانہ اور مساویانہ معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔ اسی صورت میں ایسا کیا جانا ممکن ہے کہ جب معاشرہ ایسا طریق کار وضع کرے کہ معاشرے کے محروم طبقات کو مؤثر مدد حاصل ہوسکے۔ یہ خاندان کے ادارے، معاشرے کے دوسرے اداروں اور ریاست کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسلام معاشی طرز عمل میں آزادی کوذمہ داری کے ساتھ اور استعداد کار کو عدل کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ’عدل‘ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ایک سب سے اہم قدر ہے اور انبیاعلیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں بھی ایک مقصد عدل کا قیام ہے (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اللہ کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے انسانوں او رکائنات کے ساتھ عدل پر مبنی تعلق تک وسیع ہے۔
اسلام کے معاشی نظریے کی بنیادی خصوصیات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱- زندگی ایک مربوط اکائی ہے۔ انسان کی شخصیت کی طرح، عوامی ثقافت بھی ناقابل تقسیم ہے۔ پورا سماجی عمل ایک نامیاتی اکائی (organic unity)ہے۔ معاشی زندگی اور نظام کو ہم علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ تخصیص کار اور تقسیم کار بہت اہم سہی، لیکن تمام چیزوں کو آپس میں مربوط ہونا چاہیے، تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وسیع تر اکائی بن سکے۔ معاشی نظریے کی بنیاد: ایمان، زندگی کے بارے میں نظریے اور عوام کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے پر ہے کہ ایک باہم مربوط فکر کے ذریعے ہی انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔
۲- اسلام کا تصورِ جہاں (World View) توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی ہے۔ مرد اور عورت دونوں کی دنیا میں حیثیت اللہ کے خلیفہ (vicegerent) کی ہے۔ اسے اختیار کی آزادی، خواہش، علم اور محدود حد تک حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ اس کے کردار، مقام اور فرضِ منصبی کو استخلاف کہا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کی مرضی کو پورا کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا،عدل قائم کرنا، احسان کو فروغ دینا اور اس کے ذریعے حیات طیبہ کا انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے بلند معیار قائم کرنا۔
امام غزالی علیہ الرحمہ مقاصد شریعت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’شریعت کا مقصد تمام انسانوں کی بھلائی ہے، جو انسان کے ایمان،اس کے نفس، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کے تحفظ سے وابستہ ہے‘‘۔۵؎
۳- ’تقویٰ‘ کے بعد اسلامی نظام کی اہم ترین قدر ’عدل‘ اور اس کے ساتھ ’احسان‘ ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ’عدل‘ سے مراد ہر فرد کو اس کا حق بہم پہنچانا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں فقہا اور مفکرین ’عدل‘ کو اسلامی زندگی، معاشرے کی خاص صفت اور قانونی و سماجی اور معاشی عمل کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیتے ہیں۔
امام ابو یوسفؒ (م:۷۹۸ئ) نے خلیفہ ہارون الرشید (م:۸۰۹ئ)کو معیشت کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے اور نا انصافی کے خاتمے کے نتیجے میں ترقی کی رفتار تیز تر ہوگی‘‘۔ امام ابوالحسن علی الماوردیؒ (م: ۱۰۵۸ئ) نے فرمایا کہ: ’’جامع اور مختلف پہلوؤں سے انصاف کے نتیجے میں یک جہتی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، قانون کی عمل داری ہوتی ہے،ملک ترقی کرتا ہے، دولت بڑھتی ہے، آبادی میں افزایش ہوتی ہے، ملک کی سلامتی مضبوط ہوتی ہے، اور نا انصافی سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں جو دنیا کے لوگوں کے ضمیر اور شعور کو تباہ کرتی ہو‘‘۔ امام ابن تیمیہؒ (م: ۱۳۲۸ئ) عدل کو توحید کا لازمی نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ہر چیز میں انصاف، اور ہر ایک کے لیے انصاف ہر ایک کاحق ہے،اور نا انصافی کسی چیز میں کسی بھی فرد کے لیے کسی طور پر جائز نہیں ہے ،چاہے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم، حتیٰ کہ ایک ظالم شخص کے معاملے میں بھی نہیں‘‘۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ئ) علی الاعلان کہتے ہیں کہ: ’’عدل کے بغیر ترقی جائزنہیں ہے اور ظلم ترقی کا خاتمہ کرتا ہے،اور جایداد میں کمی ناانصافی اور ظلم کا لازمی نتیجہ ہے‘‘۔۶؎ پس، عدل اسلامی نظام کی روح اور سانس کادرجہ رکھتا ہے۔
۴- سماجی تبدیلی اور انسانی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے اسلامی منصوبہ منفرد ہے۔ یہ منصوبہ ایسے طریق کار پر مبنی ہے جو اٹھارھویں صدی کے بعد یورپ اور امریکا میں ابھرنے والے معاشی و سیاسی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔
موجودہ مغرب میںاس کے لیے جو طریق کار، اور حکمت عملی سامنے آئی ہے وہ اس تصور پر مبنی ہے کہ انسانوں میںانقلابی تبدیلی لانے کے لیے سماجی اداروں اور ماحول کو تبدیل کیا جائے۔ اسی لیے ان کے ہاں تمام زور بیرونی ڈھانچے کی تشکیل نو پر ہے۔ اس نظام کی ناکامی کی وجہ انسان کو، مرد ہو یا عورت، ان کے عقائد، محرکات، اقدار اور ذمہ داریوں کو ہدف بنانے کو نظرانداز کرنا ہے۔ یہ تمام انسانوں کے اندر تبدیلی لانے کے عمل کو نظر انداز کرتا ہے اور بیرونی عناصر میں تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، تاہم جس چیز کی ضرورت ہے وہ مکمل تبدیلی اور انقلاب ہے۔ یہ تبدیلی لوگوں کے اندر بھی ہو اور ان کے سماجی و معاشی ماحول میں بھی۔ مسئلہ صرف ڈھانچا جاتی تبدیلی کا نہیں ہے، تاہم ڈھانچا جاتی تبدیلی بھی اپنی جگہ ضروری ہے۔ نقطۂ آغاز انسانوں کے دل و روح، ان کا حقیقت کا ادراک اور زندگی میں خود ان کا مقصد اور مقام ہونا چاہیے۔
سماجی تبدیلی کے لیے اسلامی نقطۂ نظر کے حوالے سے کلیدی نکات حسب ذیل ہیں:
(الف) سماجی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کے عمل کا نتیجہ نہیں ہوتی، اگرچہ زندگی میں بہت سی رکاوٹوں اور بندشوں کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تبدیلی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے تحریک حاصل کرتی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ تبدیلی با مقصد ہونی چاہیے، یعنی آئیڈیل کی طرف پیش قدمی۔
(ب) عوام ہی انقلاب کا فعال کردار ہیں۔ دنیا کی تمام دوسری قوتیں اللہ کے نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی تابع فرمان ہیں۔ اللہ تعالی کی طرف سے کائنات کے لیے جو انتظامات کیے گئے ہیں اور جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ انسان ہی ہے جو خود اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا ذمہ دار ہے۔
(ج) تبدیلی کی ضرورت صرف ماحول ہی میں نہیں ہے بلکہ مردوں اور عورتوں کے دل و روح کے اندر ، ان کے رویوں اور محرکات میں، اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے خارج کی دنیا میں ہے، اس کو مقاصد کی تکمیل کے لیے مجتمع کرنے کے عزم میں موجود ہے۔
(د) زندگی بہت سے باہمی رشتوں کا تانا بانا ہے۔ انقلاب کا مطلب ان رشتوں میں کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ ہے۔ اس لیے یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو۔ تاہم، اسلامی سماجی تبدیلی کے نتیجے میں اس طرح کا ٹکرائو اور عدم توازن اپنی کم از کم سطح پر ہوگا، اور منصوبہ بندی کے ساتھ اور باہم مربوط انداز میں چلائی گئی مہم کے نتیجے میں، توازن کے ایک مقام سے دوسرے اونچے مقام کا حصول اور عدم توازن سے توازن کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے تبدیلی کو متوازن، بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے، نیزجدت اور اختراع کے ساتھ مربوط بھی ہونا چاہیے۔ یہ منفرد اسلامی طریقہ ارتقائی راستے سے انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جائے گا۔
۵- انسانی زندگی میں ذاتی مفاد کا حصول ایک فطری قوتِ محرکہ ہے۔ لیکن ذاتی مفاد کو نیکی اور عدل کے وسیع تر تصور کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ محنت کا صلہ اور کوشش میں ناکامی پر نقصان، انسانی معاشرے اور معیشت کے لیے بہترین فریم ورک فراہم کرتا ہے۔۷؎ اسلام اس کی اہمیت اور اسے معاشی و سماجی کوششوں کا اولین اصول تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام نے جدوجہد کے لیے ایک اخلاقی دائرہ کار بھی تشکیل دیا ہے، جو کچھ اقدار کے اپنانے اور کچھ اقدار سے پرہیز پر مبنی ہے، اور بتاتا ہے کہ کیا چیز درست اور جائز ہے اور کیا چیز اخلاقی، روحانی ، سماجی حوالے سے قابل اعتراض ہے۔ حلال و حرام کا تصور انسان کی تمام جدوجہد کے لیے اخلاقی میزان کا کام کرتا ہے۔ اعتدال اور اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا اس اسکیم کا لازمی جزو ہے۔
صلہ (انعام) کے تصور کو دنیاوی صلے کے ساتھ ساتھ اُخروی صلے کے ساتھ مربوط کرکے اسے وسعت دی گئی ہے۔ ذاتی فائدے کے فطری تصور کو رد کیے بغیر یہ اچھے اور عادلانہ رویے کے لیے ایک مضبوط قوتِ محرکہ ہے۔ ذاتی ملکیت اور ذاتی کاروبار کو ناقابل تنسیخ حقوق اور معاشی سرگرمی کے فطری طریقے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اخلاقی اور قانونی ضابطوں کے ذریعے اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات پختہ کرکے، کہ مال و جایداد اپنی ہر شکل میں مادی، انسانی، مشینی قوت اور دماغی قوت کی صورت میں، انسان کے پاس ایک امانت ہے، مال و جایداد کے تصور کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور یہ ذہن نشین کرا دیا ہے کہ امانت ہونے کی وجہ سے ملکیت کے حقوق اخلاقی حدود کے ساتھ مشروط ہیں اور ان کو مقاصد شریعت کی تکمیل سے مربوط کرتے ہیں۔
۶- معاشی سرگرمی، تعاون اور مقابلے کے عمل کے ذریعے فروغ پاتی ہے۔ منڈی کی سرگرمی، نجی ملکیت، کاروبار کی آزادی، منافع اور صلہ، قوتِ محرکہ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ الہامی ہدایت اور تاریخ کی گواہی اس بات پر شاہد ہے کہ تجارت، اشیا کی پیدایش میںاضافہ، اشیا و خدمات کا لین دین، مناسب منافع کا حصول، طلب و رسد کی قوتوں کے ذریعے قیمتوں کا تعین، منڈی میں لین دین کاتحفظ اور معاہدوں کی تکمیل کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، اسلامی معاشی نظام کے ستون ہیں۔ جدوجہد، اختراع و تخلیق، تقسیم کار، ٹکنالوجی اور مہارتوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ تعاون، ہمدردی، عدل، انفاق اور یک جہتی پر تمام بڑے مسلم مفکرین نے زور دیا ہے۔
ایڈم سمتھ (م: ۱۷۹۰ئ) سے سات صدیاں قبل علامہ شمس الدین سرخسیؒ (م: ۱۰۹۰ئ) لکھتے ہیں: ’’کسان کو اپنے لباس کے لیے جولاہے کے کام کی ضرورت ہے اورجولاہے کو اپنی خوراک اور کپڑوں کے لیے کسان کے کام کی ضرورت ہے… ان میں سے ہر ایک اپنے کام کے ذریعے دوسرے کی مدد کرتا ہے‘‘۔ علامہ سرخسیؒ سے ایک صدی بعد دوسرے عالم جعفردمشقیؒ (م:۱۱۷۵ئ) اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مدت عمر قلیل ہونے کی وجہ سے کوئی فرد بھی تمام صنعتوں میں اپنے آپ کو نہیں کھپا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، تو وہ کسی بھی صنعت میں اپنے آپ کو ماہر نہیں بناسکے گا۔ تمام صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ تعمیر کے لیے بڑھئی کی ضرورت ہے اور بڑھئی کو لوہار کی ضرورت ہے، لوہار کو کان کن کی ضرورت ہے اور تمام صنعتوں کے لیے جگہ اور عمارت کی ضرورت ہے۔ اسی لیے لوگوں کو مجبوراً اپنی ضرورت کے لیے شہروں میں یک جا ہونا پڑتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں‘‘۔
علامہ ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ئ) نے ایڈم سمتھ سے تین صدیاں قبل تقسیمِ کار، معاشی ترقی میں تخصص اور انسانی ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بہت واضح ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکیں۔ انھیں اس مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ضروریات جو کہ افراد کا ایک گروہ مل کر باہمی تعاون سے پوراکرسکتا ہے، ان ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہیں جو وہ انفرادی طور پر پورا کرسکنے کے قابل ہیں‘‘۔ وہ اس بات کی سائنسی وجوہ بیان کرتے ہیں کہ تجارت کے نتیجے میں ترقی کو کیسے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ترقی کاانحصار ستاروں یا سونے چاندی کی کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار معاشی سرگرمی اور تقسیم کار کے اصول پر ہوتا ہے جو بذات خود منڈی کی وسعت اور اوزاروں (مشینوں) پر منحصر ہے ، جب کہ اوزاروں (مشینوں) کے لیے بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ بچت کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ بچت ہے‘‘۔ منڈی کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں میں پھیلائو آتا ہے، آمدنیاں بڑھتی ہیں، سائنس اور ٹکنالوجی میںاضافہ ہوتاہے اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے‘‘۔۸؎
۷- منڈی کی میکا نیت اسلامی معاشی نظریے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں اسلام نے چند بنیادی اقدامات تجویز کیے ہیں، جن کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ منڈیاں، ذاتی مفاد اور نفع اندوزی کی خواہش جیسی صورت حال کو جنم نہ دے دیں، جو سماجی لحاظ سے نقصان دہ ہو اور عدل اور راست بازی (fair play) کے تقاضوں کے خلاف ہو۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں:
اسلام میں سرمایے کے رضاکارانہ اور لازمی انتقال کے ذریعے غربت اور استحصال سے تحفظ کا نظام موجود ہے۔۹؎
حرمت سود کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام سرمایے کے استعمال پر کسی قسم کے صلے کاقائل نہیں۔ اسلام سرمایے کی پیداواریت کو تسلیم کرتا ہے اوراس کی حقیقی پیداواریت کے تناسب سے اس کے صلے کا قائل ہے۔ البتہ جس منصوبے میں سرمایہ لگایا گیا ہے اس کے اصل منافع کے علی الرغم ایک یقینی، مقررہ اور پہلے سے طے شدہ منافع کامخالف ہے۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اصل منافع میں سرمایہ دار اورآجر دونوں حصہ لینے کاحق رکھتے ہیں۔ وہ مقررہ منافع کے بجاے اصل ہونے والے منافع میں سے منافع لیں گے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام قرض کی بنیاد پر معیشت کے قیام کے بجاے شراکت کی بنیادپر، خطرے میں حصے داری اور ذمے داری میں شرکت کی بنیاد پر معیشت کے قیام کاخواہاں ہے۔ اس کے معیشت کے منتظمین اور معاشی و مالیاتی تنظیموں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسلامی اصولوں پر قائم معیشت کارخ زری منافعوں کے بجاے حقیقی طور پر اثاثوں کی تخلیق کی طرف ہوگا۔ بلاشبہہ ایسی معیشت زیادہ مستحکم و زیادہ مادی ترقی کی طرف مائل، زیادہ مبنی بر مساوات اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے شراکتی ہوگی۔
میں یہاں پر علامہ ابن خلدونؒ کے تجویز کردہ سماجی و معاشی تنظیم کے بین الاداراتی متحرک ماڈل کاخلاصہ پیش کروں گا، جو انھوں نے اپنے وقت کے حکمران کو پیش کیا تھا۔ آج کے زمانے میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔وہ کہتے ہیں:
یورپی و امریکی سرمایہ داری کی بین الاقوامی پہنچ ، اور عالم گیر نظام سرمایہ داری ایک حقیقت ہے۔ قضیہ یہ نہیں ہے کہ ان مختلف ممالک اور علاقوں کے درمیان کوئی سنجیدہ اختلافات ہیں جو سرمایہ داری کے راستے پر گامزن خیال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال کرنا بھی غیرحقیقی اور دورازکارہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس چھتری کے نیچے آنے کے خواہش مند ہیں۔ بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی تناظر میں بہت سے یورپی ممالک اور فکری و سیاسی قوتیں غیر مشروط اور مکمل طور پر نظام سرمایہ داری کے تحت آنے پر ناخوش ہوں گی۔ جاپان اس کی ایک مثال ہے۔ مغرب ان کو اپنے کیمپ میں شمار کرتا ہے، جب کہ جاپانی گذشتہ دو عشروں سے اس پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ وہ مغربی اثر سے باہر رہیں۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں شروع ہونے والے معاشی جمود سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے تجربے کے بارے میں شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورت حال کے سایے بڑھتے جارہے ہیں۔ اشتراکیت کے خاتمے کے بعد روس پورے جوش و خروش سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھا۔ لیکن اس باب میں بھی وہ اپنے آپ کو ناکام پاتا ہے۔ چین نے ایک ملک میں دونظام اپنانے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مشرقی ایشیاکی معیشتیں۹۸-۱۹۹۷ء کے بحران کے بعد سے سکڑچکی ہیں اور ان کے خیالات بدل چکے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے اپنے تحفظات ہیں۔ مجموعی تصویر دھندلی اور شکوک پیدا کرنے والی ہے۔
میرے خیال میں عالم گیر معیشت اور معاشرت اتنے شکستہ اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ معیشت کا کوئی ایک ماڈل ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ حقائق کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے غیرمغربی دنیا کے لوگوں کی سوچ اس بات کو لازم کرتی ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ایک سے زائد نظاموں (کثرتی نظاموں) پر مشتمل دنیا کا ایسامنظر پیش کیا جاسکے کہ جس کے نتیجے میں ایسا کھلا معاشرہ وجود میں آئے، جہاں خیالات، ٹکنالوجی، اشیا و خدمات، مالیات اور انسانوں کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ عمل کامیاب بنانا مقصود ہو تو اسے بالکل شفاف اور باہمی برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس کی بنیاد اصلاً مفادات طاقت وری اور بالاتری پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معاملات کو عدل اور راست بازی کی بنیاد پر چلایا جانا چاہیے۔ بالاتری پر مبنی نظام تب تک ہی چل سکتا ہے جب تک طاقت کا توازن خراب نہیں ہوتا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ طاقت کے توازن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۱۱؎ حقیقتاً تاریخ درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ ہم نے اپنی زندگی ہی میں اس طرح کی کئی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ پس، سبق یہی ہے متعلقہ مفکرین اس بات پر غور کریں کہ ایک بالاتر نظام کے بجاے یہ دنیا ایسی حقیقی کثرتی دنیا ہو، جس میں اندرونی تبدیلیوں کے باوجود ، تعاون اور مقابلے کی قوتیں کام کر رہی ہوں۔
میری یہ سوچی سمجھی راے ہے کہ مسلم دنیا کبھی خوشی کے ساتھ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گی۔ بلاشبہہ ہم مفید تعاون کے لیے خیالات و تجربات کے تعامل کے لیے آمادہ ہیں۔ سرمایہ داری میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو عالم گیر ہیں اور وہ دوسرے نظاموں کے اندر بھی موجود ہیں۔ لیکن اس میں بہت کچھ وہ ہے جو خصوصی طور پر اس کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی کی استعماری قوتوں کے ساتھ اس کا تعلق اور موجودہ دور میں صرف واحد سوپرپاور کے ساتھ اس کا تعلق ہونا، غیر مغربی دنیا میں اس کے داخلے کو مشکوک اور غیر متوازن بنادیتا ہے۔ مفادات ، تمنائوں اور اقدار کا فرق، اس کے عالم گیر نظام بننے کی راہ میں نہ صرف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، بلکہ اس نظام کے پسندیدگی کے حوالے سے بہت سے سوالات پیدا کرنے کا سبب ہیں۔
نظام سرمایہ داری دنیا کے مختلف ممالک کے لیے کبھی بھی فائدہ مند نہیں رہا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے تجربات تو بہت تلخ ہیں۔ یورپ اور امریکا میں نظام سرمایہ داری کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں اور دنیا کی آدھی آبادی غربت کا شکار ہے۔ معروف سرمایہ دارانہ ممالک میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ قرضوں کا پہاڑ نہ صرف ترقی پذیر دنیا کے لوگوں کی کمرتوڑ رہا ہے بلکہ پوری دنیا کے لوگ اس سے پریشان ہیں۔ مالیاتی عدم استحکام کا جن بوتل میں بند نہیں کیا جاسکا۔ بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی ناہمواریاں انسانیت کے جسم کا رستا ہوا ناسور ہیں۔ سرمایہ داری کو ابھی اپنا گھر درست کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، قبل اس کے کہ یہ بقیہ انسانیت کی توجہ کا مرکز بن سکے۔
اسی لیے اس تحریر کا مقصد موجودہ یا کلاسیکی سرمایہ داری کے مقدمے پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار عالم گیر نظام کا وژن پیش کرنا ہے۔ نظام سرمایہ داری کو ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہر مفہوم کے لحاظ سے ذمہ دار ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو اخلاقی پہلو معدوم ہیں ان کے ساتھ سرمایہ داری کے مستقبل کے بہتر بننے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے ذمہ دار عالمی نظام کے وژن کی ضرورت ہے، جہاں مختلف اعتقادات اور ثقافتوں پر مبنی دوسرے معاشی متبادلات کے لیے بھی یکساں مواقع موجود ہوں۔
جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے، اسے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان باہمی انحصار کی اہمیت کا ادراک ہے۔ مکالمہ، مشترکہ معاشی کاروبار، بڑھتی ہوئی تجارت، نظریات، اشیا اور انسانوں کا تبادلہ مستقبل کے تعاون کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ عدل کے تقاضے پورے کیے بغیر اور ایسا سیاسی اور انتظامی ڈھانچا تشکیل دیے بغیر دنیا کی ریاستوں، معیشتوں اور لوگوں کے درمیان حقیقی عدل قائم کرنے کی خواہش اور پُرامن، خوش حال اور عالمی انسانی معاشرے کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
ہم نے اسلامی تناظر میں، عالم گیر سرمایہ داری کے چیلنج کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور کچھ ایسے پہلوئوں کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو سرمایہ داری کو بطور چیلنج درپیش ہوں گے۔ اگر سرمایہ داری واقعی ایک ’ذمہ دار نظام‘ (Responsible System) بن جاتا ہے تو بہت سے سماجی و معاشی نظاموں کے باہمی طور پر مل جل کر رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امتحان اس بات میں پوشیدہ ہے کہ نظام سرمایہ داری کس حد تک صرف ایک نظام نہیں بلکہ ایک ذمہ دار عالم گیر نظام بننے کے لیے تیار ہے؟ بصورت دیگر نظام سرمایہ داری یورپ و امریکا کی بالادستی کے لیے ایک وسیلہ بنا رہے گا اور دوسری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو نہیں جیت سکے گا۔ مزید برآں اس کے نتیجے میں مغربی دنیا کے اندر سے بھی پھوٹ اور چیلنجوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم دنیا سیاسی و معاشی طور پر کمزور ہوسکتی ہے، لیکن مسلم مفکرین اور عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ اسلامی معاشی نظام اقدار پر مبنی ہے او راس کے اپنے بنیادی اصول اور ادارے ہیں۔ یہ اپنے نظام کے اندر فطری معیشت کے ایسے اہم عناصر رکھتا ہے، جو اپنی مثال آپ ہیں، مثلاً انفرادی آزادی،حقوق ملکیت، منڈی کی میکانیت، منافع کا محرک اور دولت پیدا کرنے اور وسائل تقسیم اور فرد اور اجتماع کی بہبود کے لیے قانونی اور اداراتی انتظامات۔
اسلامی نظامِ معیشت منفرد تو ہے مگر خود مختار نہیں۔ یہ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب کاایک جزو ہے اور مسلم علاقوں میں ایک ایسے عالم گیر اور کھلے معاشرے کاخواہش مند ہے، جس کا یہ خود بھی ایک حصہ ہو۔ اس سے ایک ایسا عالمی معاشرہ تشکیل پائے گا، جہاں مختلف ثقافتیں اور نظام بقاے باہمی کے اصول پر موجود ہوں۔ اگر سرمایہ داری کی کچھ اہم اقدار اور اسلامی نظام میں کچھ یکسانیت موجود ہے تو دوسری جانب اسلامی عقائد اور ثقافت کے منفرد اصولوں کی بنا پر بہت سے نمایاں اختلافات بھی ہیں۔ اسلامی معاشی نظام اپنی ثقافت اور تہذیب کے تناظر میں روبہ عمل آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ماہرینِ معیشت، نظام سرمایہ داری کی کسی قسم کو اپنی دنیا میں برتر قوت نہیں دیکھنا چاہتے۔ سطحی رعایتیں یا مذہب و ثقافت پر مبنی اقدامات بنیادی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
عالم گیر میدان کش مکش میں مقابلہ کرنے والوں کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تمام مذاہب اور تہذیبوں میں کچھ اقدار یکساں نوعیت کی ہیں، جو باہمی تعلق، تعاون اور میل ملاپ کے لیے بنیاد فراہم کرسکتی ہیں۔ دنیا پر حاوی ہونے کا ایک ہی نظامِ سرمایہ داری کا نظریہ، تکثیریت (Pluralism) پر مبنی ایک ایسی دنیا کی نفی ہے، جو کسی کی بھی بالاتری اور برسرپیکار تہذیبوں کے درمیان ٹکرائو سے آزاد ہو۔ میرے جیسے لوگوں کو جو بات اچھی لگتی ہے اور حوصلہ دیتی ہے، وہ ایک ایسی دنیا کاتصو رہے جس میں تمام شرکا کو یہ اعتماد حاصل ہوکہ وہ اپنی اقدار کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے ایک عالم گیر نظام کے باہم شراکت کار ہیں۔ موجود عالم گیر سرمایہ داری کاالمیہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں رہنے والے لوگوں کااعتماد حاصل کیے بغیر: باہمی اقدار اور رضامندی اور غیر رضامندی کی حدود کے بغیر،ایسی راہوں کو اختیار کیے بغیر جو معاشی ناہمواری کو کم کرسکیں، مفادات اور معاملات میں مطابقت پیدا کرسکیں، اور ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیے بغیر جس کے اپنے ادارے تمام لوگوں کے لیے آزادی، شراکت اور بہبود کو یقینی بناسکیں،بالادستی چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ عالم گیر سرمایہ داری کا بڑا علَم بردار، جارج سوروس اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود اور پرامن،خوش حال اور عادلانہ عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے منڈی کی میکانیت،انفرادی آزادی او رجمہوری اقدار ناگزیر ہیں اور مارکیٹ فنڈامنٹلزم (Market Fundamentalism) معاشی ترقی، مالیاتی وسائل، تکنیکی مہارتوں اور سیاسی قوت میں تفاوت صحت مند عالم گیریت کی راہ میں معاون نہیں بلکہ رکاوٹیں ہیں۔۱۲؎
آزادانہ تجارت بہت اچھی بات ہے، لیکن اسے استحصال کے بجاے شائستہ اور مناسب تجارت بننا چاہیے۔ ترقی ایک بہت پسندیدہ ہدف ہے، لیکن یہ ترقی سب کے لیے ہو۔ دولت خوش حالی کا ذریعہ ضرور ہے، لیکن یہ خوش حالی تمام لوگوں اور علاقوں کے لیے ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر اخلاقی پہلوئوں کی برتری قائم ہو اور استعداد کار کے ساتھ ساتھ عدل کو عالم گیر نظام کابنیادی پتھر بنایا جائے۔
اسلام انسان اور طریق پیداوار دونوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور ان کو متوازن اور ہم آہنگ بناتا ہے۔ اصل مرکزِ توجہ انسان کو بناتا ہے اور ان کی خوش حالی اس کا اصل مقصد ہے۔ ذاتی مفاد، نجی ملکیت اور کاروبار اور محرک منافع کا پوری طرح تحفظ کرتا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت کو سب سے بڑا کردار حاصل ہے۔ اسلام منڈی سے بلند ہوکر تمام سطحوں پر اخلاقی اصولوں،اقدار اور احکام پر توجہ کرتا ہے جو کہ انسانی محرک ،اداروںاور عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فرد اور اجتماع کی بھلائی میں اشیا (Public Goods) میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے ذاتی مفاد کو اعتدال پر لانے کی بھی اسے فکر ہے۔
اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل کے لیے اسلام ایسے سماجی و معاشی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے افراد اور معاشرے کی اخلاقی تربیت و تشکیل اور قانونی اداروں کا قیام عمل میں لاتا ہے۔ انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور معاشی عمل کے لیے لامحدود مواقع کی فراہمی، اخلاقی اقدار، اخلاقی قوانین اور عدالتی و قانونی دائرۂ کار کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ ریاست جابرانہ یا آمرانہ انداز اختیار کیے بغیر اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تمام معاشی سرگرمیاں زندگی کے مقصدِ اعلیٰ کے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ثقافت اور معاشرے کے تناظر میں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے پروفیسر ڈننگ جان کی تین C کے ساتھ۱۳؎ مزید چار C کا اضافہ کرتے ہوئے اور ان کی معنویت کو وسیع تناظر میں پیش کیا جارہا ہے(یعنی حسب ذیل نکات کا پہلا حرف ’C‘ ہے)۔اسلامی نظام کی محرک قوتیں درج ذیل ہیں:
۱- ذمہ داری، لگن (Commitment): ایمان کی بنیاد پر قائم احساس ذمہ داری اور توحید (اللہ کی وحدانیت) پر مبنی تصورِ دنیا (World view) ، انسانیت کی وحدت اور مساوات، اس احساس ذمہ داری میں شرکت، کمیونٹی اور معاشرے کو مضبوط بنانے والی قوت ہے۔
۲- کردار (Character): تمام مردوں اور عورتوں میں جو معاشرے کی تعمیر کے لیے بنیادی اکائیاں ہیں، ایک متوازن شخصیت کا ارتقا اسلام کے تصورِ تقویٰ، یعنی اخلاقی نظم و ضبط، اللہ اور عوام کے سامنے احتساب کے مضبوط احساس کی بنیاد پر۔
۳- تخلیق (Creativity): علم، ذاتی فائدے، تکنیکی جدت اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت، نیز اچھے کاموں میں شرکت اور زندگی میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کا جذبہ۔
۴-مقابلہ، مسابقت (Competetion): آزادی، مواقع، جدوجہد اور مسلسل کوشش کے ذریعے ان مادی اور انسانی وسائل کو بروے کار لاکر ذاتی، معاشرتی، دنیاوی او راخلاقی مقاصد کے لیے مقابلہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن (البقرہ ۲:۱۴۸) خیر اورنیکی کے کاموں میںصحت مندانہ مسابقت کے اصول پر زور دیتا ہے۔
۵- تعاون (Cooperation ): مقابلے کی قوتوں کی تقویت اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے، نقصان پہنچانے والا بننے سے روکنے کے لیے تعاون۔ مقابلہ اور تعاون دونوں مل جل کر اتفاق باہمی، معاشرے اور انسانیت کے لیے اتفاق و اتحاد کا باعث بنتے اور جدت و ترقی کے لامحدود مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مقابلے و تعاون کے لیے جو ادارہ سب سے بنیادی اہمیت اور انفرادیت کا حامل ہے، وہ خاندان ہے۔ مزید برآں معاشرہ مقامی، قومی، علاقائی اور عالم گیر سطح کے اداروں کے ایک جال کے ذریعے ہر انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بین الانسانی رشتوں، اعلیٰ ترین معاشی و سماجی شراکت کاایک ماڈل پیش کریں۔ رسول کریمؐ نے پوری انسانیت کو عیال اللّٰہ (اللہ کا کنبہ) فرمایا۔
۶- شفقت، ھمدردی (Compassion):اسلامی تناظر میں شفقت و ہمدردی اور عدل و احسان کا حسین امتزاج ہے۔ عدل کا مطلب تمام معاملات میں انصاف ہے اور اس سے مراد ہر ایک کو اس کا حق دینا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کااحترام اور ان حقوق کو پورا کرنا ہے۔ ’احسان‘ کا درجہ ’عدل‘ سے بھی اوپر ہے۔ اس سے مراد فیاضی، فضیلت، بہت اچھے طریقے سے کسی کام کو سرانجام دینا، رحم، محبت اور قربانی کے جذبے اور عمل میں ترقی ہے۔ یہاں تک حکم ہے کہ جو انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے اس سے بڑھ کر دوسروں کے لیے پسند کرے۔ یہ برابری کی وہ سطح ہے کہ جس پر باہم معاملات کرنے (reciprocity) سے بھی بڑھ جانا، یعنی دوسروں سے ہم وہ توقع کریں جو وہ ہم سے توقع کرتے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہرشخص دوسرے کی بہتری کے لیے اپنے حقوق کی قربانی دے دے۔ اطالوی ماہرمعاشیات ولفریڈو پاریٹو (م: ۱۹۲۳ئ)کا نظریہ انسانی چنائو (choice) کے اونچے درجے کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یوں ’عدل‘ کے ساتھ ’احسان‘ مل کر اسلام کے حقیقی شفقت کے نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔
۷- بقاے باھمی (Coexistence): اس کا مطلب ہے آزادی، برداشت، باہمی احترام اور مل جل کر رہنے کا عہد۔ یہ صحیح تکثیریت (plurality) ہے جہاں اپنی پسندیدگی کی قربانی دیے بغیر اور صحیح بات کے ساتھ اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہوئے اختلاف (diversty) کو قبول کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے ’تکثیریت‘ دیانت داری کے ساتھ ہو اور اس سے ایسا باہمی میل جول وجود میں آتا ہے جو بغیر کسی کو نیچا دکھائے، برتری جتلائے یا آمرانہ طور پر اپنی بات منوائے۔ یہ نمونہ افراد، گروہوں، قوموں، ریاستوں، علاقوں، آبادیوں، اور مذاہب اور نظریات سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کا فطری نتیجہ مکالمہ ہے نہ کہ زبردستی یا بے جا مداخلت۔ صحیح اختلافات اور تنوع اس فریم ورک کا مقصد ہیں۔ جس میں بہت سی لچک ہوسکتی ہے اور باہمی طور پر اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر کچھ لو اور دو (Give and Take) ہوسکتا ہے۔ بقاے باہمی کا یہ بھی تصور ہے کہ معاشرے میں ایسے مؤثر طریقے ہوں جو آپس میں مل جل کر رہنے اور اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے قابل ہوں اور تمام اختلافات کے باوجود باہم مل کر رہنے کا عہد ہو۔ یہی عدل اور آزادی کے ساتھ امن کا ایک ماڈل ہوسکتا ہے۔
یہ تمام حکمت عملیاں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اسلامی تناظر میں دونوں پالیسیاں بیک وقت اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ایک کو دوسرے کا حصہ بناکر اخلاقی اقدار، زری و مالی ترغیب، مادی انعام اور سزا، ایثار، قربانی،ہمدردی، روایت و رسم ، عوامی آرا، معاشرتی ادارے، قانون اور ریاست تمام اپنا لازمی لیکن محدود کردار ادا کرتے ہیں۔ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین اپنی ذات کے اندر سے نافذ کرنے والے عمل مسلم معاشرے کے بنیادی ستون ہیں۔ صرف جامع اور باہم، زیادہ مربوط طریقے سے ہی ایک عادلانہ و باہم مربوط اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والا معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
آزاد نظریے کے مغربی نمونے میں مرکزی ہدف آزادی ہے اور اس معاشرت کی ہر شے اسی کے گرد گردش کرتی اور اس سے نکلتی ہے۔ اسلامی نظریے میںآزادی ، عدل، یکجہتی اس کے اہم ترین کردار ہیں۔ ’عدل‘ کے معنی توازن اور مطابقت کے بھی ہیں۔ ان تینوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور یہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور ان کے باہم ملنے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانی ذہانت (human genius) حقیقی طور پر بارآور ہوتی ہے۔ یہ چیز اسلامی نظریے کو منفرد بناتی ہے۔
اسلام دوسرے الہامی مذاہب کی طرح ایک اور بہت ہی اہم پہلو کو اپنے طریق کار (strategy) کی کہکشاں میں شامل کرتا ہے ،اور وہ یہ کہ آخری انعام تو آنے والی زندگی میں ملنے والا ہے۔ مادی دولت مندی، سماجی بھلائی، روحانی مسرت اور ہمیشہ کی سلامتی، کامیابی و فلاح کے ماڈل کے متفرق پہلو ہیں۔روحانی اور مادی پہلو ایک ہی تصورِحیات کے دو رُخ ہیں۔ زندگی ایک نامیاتی کل ہے۔ موت زندگی کااختتام نہیں، بلکہ زندگی کے ایک نئے دور کے نقطۂ آغاز کو ظاہر کرتی ہے۔ زندگی اور زندگی بعد الموت ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں۔ دنیا میں انسان کی حیثیت اور ہرمرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ اور کائنات کے ساتھ تعلق بہت منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ بامقصد انسانی منزل کے کلی نظریے میں لادینی (سیکولرازم) اور تقدیس ایک دوسرے میں گم ہوجاتے ہیں۔ ماورا کی حدود انسانی پہنچ میں آ جاتی ہیں۔ یہ چیز نظام کو یکتا (منفرد) بناتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کا کسی دوسرے ’ازم، (Ism) کے ساتھ موازنہ کیا جائے اور اس میں سے کسی اور نظام کو تلاش کیا جائے، تاہم یہ ممکن ہے کہ مختلف ازم اور اسلام اکٹھے رہ سکتے ہیں اور اپنی حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ آپس میں مقابلہ و تعاون کرسکتے ہیں اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے کام کرسکتے ہیں۔
۱- ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۱۵۶-۱۶۰۔
۲- ابراہام ادووچ، The Islamic Middle East 700-1900، ڈارون پریس، ۱۹۸۱ئ، تھامس آرنلڈ، اور الفریڈ گولیوم The Legacy of Islam، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۳۱ئ، ص ۱۰۰-۱۰۶۔
۳- محمدعمر چھاپرا، Islam and the Economic Challenge، دی اسلامک فائونڈیشن،لسٹر، ۱۹۹۲ئ۔ محمدعمرچھاپرا: Future of Economics ، ۲۰۰۰ئ۔ محمدنجات اللہ صدیقی، Muslim Economic Thinking، دی اسلامک فائونڈیشن ، لسٹر، ۱۹۸۱ئ۔ پروفیسر خورشیداحمد، Islamic Approach to Development،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، ۱۹۹۴ئ۔
۴- البقرہ ۲: ۲۵۶، ۲:۳۸،۳۹، مریم ۱۹:۱۳، المائدہ ۵:۴۸۔
۵- ابوحامد الغزالی، المصطفٰی، بحوالہ محمد عمر چھاپرا، Future of Economics، ص۱۱۸۔
۶- محمد عمر چھاپرا، اسلامک اکنامک تھاٹ اینڈ دی نیوگلوبل اکانومی، Islmic Economic Studies، ستمبر ۲۰۰۱ئ، ص ۸۔
۷- لسٹر تھرو، The Future of Capitalism، نکولس بریلی، لندن، ۱۹۸۶ئ، ص ۳۰۔
۸- محمد عمر چھاپرا، اسلامک اکنامک تھاٹ اینڈ دی نیوگلوبل اکانومی، ، ص ۷۔
۹- آغا خان فائونڈیشن، Philanthrophy in Pakistan، ۱۹۸۸ئ، ص ۴۶۔
۱۰- محمدعمر چھاپرا، Future of Economics،ص۱۴۷، ۱۴۸۔
۱۱- پال کینیڈی، The Rise and Fall of Great Power، ۱۹۸۷ئ، ص ۶۸۹۔
۱۲- جارج سوروس، The Crisis of Global Capitalism، ناشر: لٹل برائون کمپنی، لندن، ۱۹۹۸ئ۔
۱۳- ڈننگ جان: The Moral Imperatives of Global Capitalism، پہلا باب۔
جاپان میں مطالعات ِ اسلامی کی روایت بہت قدیم نہیں۔اس سے قبل کہ جاپانی مصنفین مطالعۂ اسلام میں دل چسپی لیتے، جس کی شہادت بیسویں صدی کے آغاز میں ملتی ہے، ہندستانی انقلابی رہنما مولوی برکت اللہ بھوپالیl نے جب اپنی سیاسی سرگرمیوں کے تسلسل میں وطن کو خیرباد کہا اور ہندستان سے نکل کر مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے بیسویں صدی کے اوائل ۱۹۰۹ء میںکچھ عرصے کے لیے جاپان کو اپنا مسکن بنایا تو وہاں مطالعۂ اسلام کا بھی آغاز کیا۔وہ ۱۹۱۴ء تک ٹوکیو میں مقیم رہ کر زبانیں سکھانے والے وہاں کے سرکاری ادارے، جس نے بعد میں ’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کی صورت و حیثیت اختیار کی، اُردوکے استاد کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ اپنے انقلابی خیالات کی تشہیر کے لیے انھوں نے۱۹۱۰ء میں انگریزی میں ایک اخبار Islamic Fraternity بھی جاری کیا، جو ان کے وہاں قیام (۱۹۱۴ئ) تک نکلتارہا۔
جاپانیوں میںاسلام قبول کرنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخر سے شروع ہوچکا تھا، جب پہلے پہل ایک جاپانی صحافی شوتارو نودا (۱۸۶۸ئ-۱۹۰۴ئ) نے ترکی کے اپنے دوسالہ قیام کے دوران ۲۱؍ مئی ۱۸۹۱ء کو اسلام قبول کیا، اور عبدالحلیم نام اختیار کیا۔اس کے کچھ ہی دنوں بعدایک اور جاپانی تاجر توراجیرہ یامادا نے بھی وہیں اسلام قبول کیا [۱]۔
خود جاپانیوں میں اسلام کی تفہیم اور مطالعے کا آغازپہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران ہواجب جاپانی رہنماؤں میں استعماری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی عزائم کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ عالمِ اسلام کے ساتھ ایک اتحاد اور ہم آہنگی خود جاپان کے دفاع کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔اس ’اسلام حکمت عملی‘ کا آغاز اولا ً ۱۹۱۰ء سے ہوا جب ’مشرقِ اعظم‘ کے عنوان سے ٹوکیو کے ’ادارۂ ایشیا پارلیمنٹ ‘(بمثل قومی اسمبلی) سے ایک جریدے کی طباعت کا آغاز ہوا، جو ڈیڑھ سال تک نکلتارہا۔ اس کے مدیر تویاما میتسورو اور اینوکائی سویوشی (اس وقت کے وزیر اعظم) تھے۔
مذکورہ ’اسلام حکمت عملی‘ کا بیرونی سطح پر آغازاسلامی ممالک سے پہلے چین میں ہوا، جہاں ’عظیم ایشیایت‘ کے تصور کے حامیوں نے ’حلقہ ٔ مطالعۂ اسلام ‘قائم کرکے ایسی کوششیں کیں جن کا مقصد چینی مسلمانوں کو چین میں جاپانیوں کی سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کرنا اور ان میں جاپانی مفادات کو توسیع دینا تھا۔اس مقصد کے لیے اس حلقے نے۱۹۲۷ء میں رسالہ دین اسلام جاری کیا جو دوسال تک جاری رہا۔ اس کے مدیر کوامورا کیودو تھے۔کہا جاتا ہے کہ د راصل وہ جاپانی جاسوس تھے جو مسلمانوں میں جاپانی مفادات کے لیے سرگرم رہے [۲]۔
اسی ضمن میں ایک جاپانی سیاسی رہنما شومے اوکاوا خاصے سرگرم ہوئے اور انھوں نے اسلام کو اپنے باقاعدہ مطالعے کا موضوع بنایا۔اسلام کا مطالعہ کرنے کے دوران میں، قرآن کا (اوّلین) ترجمہ بھی کردیا۔اس ترجمے کی بنیاد ایک انگریزی ترجمۂ قرآن پر تھی۔ اسی طرح انھوں نے عالم اسلام کے نام سے جاپانی زبان میںایک رسالے کا اجرا بھی کیا، جو دوسری جنگ ِ عظیم کے اختتام تک نکلتارہا۔
علمی سطح پر اس عرصے میں پروفیسر رے ایچی گامو نے جاپان میں پہلے پہل اسلام کے مطالعے میں دل چسپی لی۔وہ’ ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ سے منسلک تھے اور اُردو زبان کے پروفیسر تھے ۔ انھوں نے جاپان میں اُردو ادب کے مطالعے کو بے حد فروغ دیا ، گلستانِ سعدی اور باغ و بہار کے جاپانی ترجمے کیے۔ پروفیسر گامو نے نہ صرف اُردو ادب کے مطالعے کا ذوق عام کیا بلکہ اپنے طلبہ میں اسلام کے مطالعے کا شوق بھی پیدا کیا۔ان کے شاگردوں میںپروفیسر کان کگایا، پروفیسر سوزوکی تاکیشی اور پروفیسر کرویا ناگی نام وَر اسکالر تھے۔ سوزوکی صاحب نے اُردو و فارسی زبان و ادب کی تعلیم کو بہت وسعت دی اور شعبۂ اُردو کو مستحکم کیا۔ پروفیسر کان کاگایا اُردو کے علاوہ فارسی اور عربی سے بھی خوب واقف ہیں اور اسلام کے مطالعے میں مصروف رہ کر اسلام کے بارے میں مختلف عنوانات کے تحت متعدد تحقیقی مقالات لکھ چکے ہیں۔کرویا ناگی فارسی سے وابستہ ہیں ، جنھوں نے ایک مجلہ انڈو ایران جاری کیا اور ایک مبسوط تحقیقی مقالہ ’ہند میں اسلامی فکر کا ارتقا‘ تحریر کیا اور اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے مطالعے پر اس مقالے کو مرکوز رکھا۔ ان علما کے معاصرین میں ایک اہم نام پروفیسرتوشی ہیکو اِزتسو کا ہے، جنھوں نے قرآن کا ترجمہ جاپانی زبان میں کیا۔ انھوں نے ٹوکیو کی ایک نجی یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کا ایک شعبہ قائم کیا اور اس کے تحت اسلام کے مطالعے اور تحقیق و تصنیف کو فروغ دیا۔مطالعۂ اسلام کے ضمن میں ان کا ایک بڑا کارنامہ ایک ایسی نسل کی تیاری ہے جس نے سارے جاپان کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے منسلک ہو کر اسلام کی تفہیم و تعلیم اور اس کے مطالعے کو فروغ دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور پروفیسر ناکامورا کوجیرو کا ذکر بھی ضروری ہے، جو اِزتسو صاحب کے معاصر ہیں، انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی سے منسلک رہ کر اسلامیات کی تدریس کے ساتھ ساتھ وہاں شعبہ ٔ اسلامیات قائم کیا اور اس کے تحت ایک ’ادارۂ تحقیقات ِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی جو جاپان میں اپنی نوعیت کا اولین ادارہ تھا۔یہاں ایک عالی شان کتب خانہ بھی قائم ہوا جو جاپان میںعلومِ اسلامی کے مطالعے میں بہت معاون ہے۔ اس ادارے سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقی مجلہ بھی شائع ہوتاہے جو مطالعۂ اسلامی کے لیے اور عالمِ اسلام کے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی موضوعات کے لیے مختص ہے۔
ان معروف و ممتاز اساتذہ کے زیر اثر اب جہاں نوجوانوں میں مطالعہ اسلامی کو فروغ ملا ہے ،وہیں دیگر متعدد جامعات میں اسلامیات کے شعبے بھی قائم ہوئے ہیں اور اب چند برسوں سے خاص طور پر کیئیو یونی ورسٹی، ٹوکیو؛ واسیدا یونی ورسٹی، ٹوکیو؛ اور کیوتو یونی ورسٹی، کیوتو، مطالعۂ اسلام کے اہم مراکز کی صورت میں نمایاں ہوئے ہیں، جہاں تدریس کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالمِ اسلام پر مستقل تحقیقات کا ایک تسلسل قائم ہے اور گاہے گاہے کانفرنسوں اور سیمی ناروں کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور جامعات بھی ہیں جہاں اگر اجتماعی نہیں تو انفرادی سطح پر اسلامی تحقیقات کا عمل جاری رہتاہے۔
جاپان کی جملہ جامعات میں کیوتو یونی ورسٹی کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں اسلام اور عالمِ اسلام کے تعلق سے بمقابلہ جاپان کی دوسری جامعات، زیادہ نمایاں علمی و تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہاں پروفیسر کوسوگی یاسوشی کی موجودگی ہے جو ایک لائق پروفیسرہونے کے ساتھ ساتھ نہایت فعّال و مستعداور سرگرم انسان بھی ہیں۔عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ جامعۂ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں اور وہیں دوران قیام مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کیاہے۔اس یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے علاوہ ایک ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ بھی سرگرمِ عمل ہے۔ان اداروں کے تحت مطالعات و تحقیقات ِ اسلامی کو یہاں فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ان سرگرمیوں میں نوجوانوں کی ٹیم نہایت اہم موضوعات پر تحقیق میں مصروف ہے۔۳؎
اسی ٹیم میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں، جن کی تحقیقات کا تعلق جنوبی ایشیا کے موضوعات، خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخی، تہذیبی، فکری اور سیاسی زندگی اور ترجیحاً عہدحاضر سے ہوتاہے۔اس ضمن میںیہ قابلِ لحاظ ہے کہ فکر ِ اسلامی کی نسبت سے تحریکِ احیاے اسلامی، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے اس نوعیت کے تحقیقی مطالعات کا ایک تواتر سے موضوع بن رہے ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر ہیروشی کاگایا نے دراصل مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی پرراست مطالعے کا آغاز کیاتھا۔ان کا مقالہ: Documentation regarding Formation of Jama'at-e Islami. (جاپانی) ’اوساکا یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘کے مجلے: Ryou Tatsen-Kanki ni Okeru Seiji jo Shakai ، ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا تھا۔ اس حوالے سے اگرچہ پروفیسر کرویاناگی نے ابتدا کی تھی اور علامہ محمداقبال اور مولانا مودودی کے افکار کو اپنے مبسوط مطالعے میں خصوصیت سے شامل کیا تھا، لیکن اب اس کو ایک تسلسل پروفیسر سو یامانے کی توجہ اور کاوشوں سے حاصل ہوا ہے۔ یہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں اور بظاہر شعبۂ اُردو میں اُردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں لیکن زبان وادب سے بڑھ کر اب ان کی توجہ اور ترجیحات جنوبی ایشیا کی سیاسی و فکری تاریخ اور عصری مسائل و حالات کے مطالعے و تحقیق تک پھیل گئی ہیں۔
پروفیسر کرویا ناگی کے بعد غالباً پروفیسر سویامانے ہی ہیں جنھوں نے جنوبی ایشیا کی تحریکات ِ اسلامی اور خاص طور پر جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے افکار و خیالات کو نہ صرف خود موضوع بنایا اور متعدد تحقیقی مقالات تحریر کیے، اور اپنے طلبہ میں بھی ان موضوعات کے مطالعے و تحقیق کا ذوق عام کیاہے۔پروفیسر سویامانے نے ایم اے اُردو، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے کیا۔ مجموعی طور پر وہ کئی سال پاکستان، خصوصا ً اسلام آباد اور لاہور میں رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں ان کا قیام سفارت خانے کی ملازمت کے سلسلے میں تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ایک دو مرتبہ لاہور میں ان کی آمد رہتی ہے۔یہاں کے اکابر ِ علم و ادب،کتب خانوں اورعلمی و تحقیقی اداروں سے ان کا تعلق رہتا ہے ۔
پروفیسر سو یامانے نے اب تک درج ِ ذیل مقالات، بہ اعتبار ِ زمانی، جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودی پر تصنیف کیے ہیں:
۱- Syed Abu al A'la Maududi's Islamic Revivalism and the Establishment of Dar al Islam. [۴]۔
۲- Maududi's Islamic Revivalist Movement: A Dynamic Study of Indian Muslim Intellectuals of the 20th Century. جاپانی زبان میں، انگریزی ترجمہ[۵]۔
۳- Legal and Inevitable War in Islam- in Maududi's Al-Jihad fi al Islam. ۔[۶]۔
۴- Horizons of Islam in South Asia: Iqbal and Maududi. [۷] ۔
اس عرصے میں، پروفیسر سویامانے نے تسلسل سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو موضوع بنایا، لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس جانب توجہ دینے والوں میں ایک اسکالر ناکاگاوا یاسوشی بھی ہیں، جن کا مقالہ : Maududi: Islamic National Characteristic Authority تھا، جو اوساکا یونی ورسٹی کے مجلے: Bulletin of Asia Pacific Studies شمارہ ۱۱، ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔ پروفیسر سویامانے اگرچہ اوساکا یونی ورسٹی سے منسلک ہیں، لیکن ان کا علمی رابطہ جاپان بھر کے اُن اسکالرز سے قائم ہے، جو جنوبی ایشیا اور اسلام کے موضوعات پر مطالعات میں مصروف ہیں یا ایسے موضوعات پرتحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ان ذاتی مطالعات کے ساتھ ساتھ اسلام اور پاکستان سے متعلقہ موضوعات پر دیگر نوجوانوں کو بھی راغب کیاہے اور ان کی رہنمائی و معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح اب تک ان کی سرپرستی و حوصلہ افزائی کے نتیجے میں کم از کم دو مبسوط کاوشیں سامنے آچکی ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے کیوتو یونی ورسٹی میں آنسہ سُناگا ایمی کو نے پروفیسر کوسوگی کی نگرانی میں ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ میں پیش کرکے سند حاصل کی ہے۔لیکن اس سے قبل اسی طالبہ نے ایک مبسوط مقالہ، بعنوان: Characteristics of the Quranic Interpretations in the Urdu Language: From Shah Waliullah to Maududi لکھا تھا، جو کیوتو یونی ورسٹی میں پیش کیا تھا، جو G-COE Series، نمبر شمار ۱۲۲ میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں مصنفہ نے جنوبی ایشیا میں تفسیر نویسی کی روایت اور خاص طور پر اُردو میں اس روایت پر ایک تاریخی نظر ڈالتے ہوئے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا قدرے مفصل مطالعہ پیش کیا تھا۔جب کہ یہی موضوع خاصی تفصیل اور دیگر متعلقہ پہلوؤں کے ساتھ اس کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں زیر ِ مطالعہ آیا ہے۔ اس تحقیقی منصوبے کا عنوان تھا: Islamic Revival and Urdu Publication in Pakistan: A Study of Maulana Maududi as a Writer and Thinker. اس مقالے پر اس ریسرچ اسکالر کو ۲۰۱۳ء میں پی ایچ ڈی کی سند تفویض ہوچکی ہے۔یہ جاپان میں اپنی نوعیت اور ضخامت کا اولین کام ہے، جو مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی کے بارے میں جاپان میں سامنے آیاہے۔
یہ مقالہ جاپانی زبان میں لکھا گیاہے اور اس کی کُل ضخامت ۲۰۱صفحات ہے۔مقالے کی مصنفہ نے اسلام اورپاکستان کے تعلق سے جاپان و پاکستان میںمنعقد ہونے والے متعدد سیمی ناروں میں شرکت کرکے ان میں اپنے مقالات بھی پیش کیے ہیں۔ مولانا مودودی کے تعلق سے اس نے اپنے مطالعات کے لیے جاپان کے علاوہ لاہور کے کتب خانوں اور ’عقیل کلیکشن‘سے کراچی اور کیوتو میں خاطر خواہ استفادہ کیا اورایک مقالہ اس نے خاص ’عقیل کلیکشن‘ کے بارے میں کیوتو یونی ورسٹی میں منعقدہ سیمی نار ، مورخہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۳ء میں پیش کیا، جس کا ذکر اگلی سطور میں دیکھا جاسکتاہے۔
دوسرا اہم کام کتابیاتِ مودودی کی ترتیب ہے، جو ایک نوجوان طالبہ سساؤکی نوریکو نے انجام دی ہے[۸]۔ یہ کتابیات اوساکا یونی ورسٹی کے’ گریجویٹ اسکول آف لینگویج اینڈ کلچر‘ میںایم اے کی تکمیل کی غرض سے مقالے کے ایک حصے کے طور پر مرتب و پیش کی گئی تھی۔مقالے کا موضوع تھا: ’’مولانا مودودی کی تصانیف کے مراحل اور ان مراحل میں مولانا مودودی کے افکار کی تنظیم و تشکیل‘‘۔کتابیات :Urdu Works of Abu al A'la Maududi, An Annotated Bibliography کے عنوان سے ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اسے سو یامانے صاحب کی ہدایت و نگرانی کے تحت مرتب کیا گیاہے۔ اس لیے اس میں موضوع کا شعور اورمحنت و سلیقہ اور ترتیب کا سلیقہ،یہ سب دیدنی ہیں۔ اس کتابیات کا انگریزی متن (ترجمہ)بھی نوریکو نے تیار کیا ہے جو مارچ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے۔اس نے اس کتابیات کی تیاری اولا ً اپنی اوساکا یونی ورسٹی کے’ اسکول آف فارن لینگویجز‘کے کتب خانے سے شروع کی ۔پھر کچھ دن لاہور میں رہ کر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی معاونت سے ادارۂ معارف اسلامی (منصورہ) کے کتب خانے سے استفادہ کیا۔ راقم کے کتب خانے (کراچی) سے بھی اسے خاصی مدد ملی ہے ۔آخر میں ’کیوتو یونی ورسٹی‘ کے ’گریجویٹ اسکول آف ایشیا، افریقہ ایریا اسٹڈیز‘ کے کتب خانے میں راقم کے کتب خانے کے ایک بڑے حصے کی ستمبر۲۰۱۲ء میں منتقلی اور وہاں ’عقیل کلیکشن‘ کے طور پر ترتیب کے بعداس طالبہ کووہاں یکسوئی سے اپنے کام کو حتمی شکل دینے کا موقع ملا۔
کتابیات میں اندراج کی تفصیلات سائنسی انداز سے درج کی گئی ہیں۔ترتیب کے لحاظ سے اسے آٹھ زمروں میں تقسیم کیاگیاہے، جو یہ ہیں:۱- قرآن و حدیث (تعداد ۱۰)؛ ۲-وہ تصانیف جنھیں خود مولانا مودودی نے مرتب کیا یا ان کی نگرانی میں مرتب ہوئیں (تعداد۴۹)؛ ۳-کتابچے (تعداد۱۰۲)؛۴-مجموعہ ہائے مکاتیب (تعداد۱۱)؛۵-تراجم از مولانا مودودی (تعداد۴)؛۶-وہ منتشر تحریریں، جنھیں مجموعوں کی صورت میںکسی دوسرے نے مرتب کیا (تعداد۳۸)؛ ۷-مولانا مودودی کی تصانیف سے ماخوذ اقتباسات پر مشتمل کتابیں(تعداد۷۳)؛۸-وہ مضامین، جو مولانا مودودی نے ۱۹۱۸ء اور ۱۹۳۰ء کے دوران لکھے (تعداد۹)۔ان تمام اندراجات کو انفرادی حیثیت میں متعلقہ تمام تفصیلات کے اہتمام سے کہ جن کے توسط سے کتاب کی کُل اشاعتوں کے بارے میں ساری معلومات حاصل ہوسکیں، اسے مرتب کیاگیاہے۔ بیشتر یہ اہتمام بھی کیاگیاہے کہ کس کس کتاب کے متن میں کیا کیا اضافے یا ترامیم شامل ہوتی رہیں۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کی کتابیاتِ مودودی سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔[۹]
اپنے مقالے میں اس طالبہ نے جو جائزہ پیش کیا اس کے مطابق مولانا مودودی پر اس گوشے میں مولانا کی اپنی تصانیف کے علاوہ وہ تصانیف شامل ہیں جو مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی کے بارے میں ہیں اور ساتھ ہی ایسی تصانیف بھی شامل ہیں جن کے موضوعات و مباحث کسی نہ کسی طرح ان دونوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اس جائزے میں ایسی۱۲۶ کتابوں کا حوالہ دیاگیا ہے جو اہم بھی ہیں اور نادر و کمیاب بھی۔ پھر ان میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جنھیں مولانا مودودی کے مخالفین نے ان کے افکار و نظریات کی تردید یا مخالفت میں تحریر کیا، اور ان میں ایسی کتابیں بھی ہیں جو ان کے دفاع میں لکھی گئیں۔
اس طالبہ کے جائزے کے مطابق مولانا مودودی نے اپنے جریدے ترجمان القرآن میںتقریبا ً ۹۰۰ مضامین تحریر کیے تھے، جن سے ۳۰۰ کتابیں مرتب ہوئیں، جن میں۵۰ کتابیں خود مولانا مودودی کی تصانیف کی شکل میںسامنے آئیں، جب کہ ۱۰۰کتابچے اور۱۱۰ مجموعے ان کے عقیدت مندوں نے مرتب و شائع کیے۔اس طالبہ کے مطابق مولانا مودودی کی کتابیں کم از کم ۵۰زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ اس جائزے کے مطابق ’عقیل کلیکشن‘میں موجود کئی کتابیں جاپان کے چند کتب خانوں میں موجود ہیں لیکن اس ذخیرے کی وجہ سے اب جاپان میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ عہد ِ جدید کی اسلامی تحریکات اور افکار کے بارے میں تحقیقی مطالعات کرنے والوں کے لیے بھی بہت آسانیاں فراہم ہوگئی ہیں۔ اس طالبہ کا یہ مقالہ پہلے مذکورہ سیمی نار میں پیش ہوا، پھر کیوتو یونی ورسٹی کے اسلامی علاقائی مطالعے کے مرکز کے مجلے: Kyoto Bulletin of Islamic Area Studies کے شمارہ ۷، مارچ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔
’عقیل کلیکشن‘ کے سلسلے میں منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں مختلف اسکالرز اپنے اپنے دائرۂ موضوعات کے ذیل میں ،جو کچھ ان کو اس ذخیرے سے دستیاب ہورہا ہے اور ان کے متعلقہ مطالعات کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیا کی فکر اسلامی کے تعلق سے شاہ ولی اللہ، علماے دیوبند، جمال الدین افغانی، ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی کے بارے میں اس ذخیرے میں موجود اہم کتابوں کا تعارف کرایا گیاجو ان کے مقالات میں زیر ِ گفتگورہے۔اس ضمن میں سُناگا ایمی کو اور سساؤکی نوری کو نے مولانا مودودی سے متعلق گوشے میں محفوظ ذخیرے کا اپنے اپنے زاویے سے تعارف کرایاہے۔
اس نوعیت کے سیمی ناروںکے تسلسل میں ایک اور تعارفی سیمی نار ، منعقدہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۳ء میں، جو دیگر موضوعات اور دیگر اسکالرز کے مقالات پر مشتمل تھا، سُنا گا ایمی کو نے Material on Maodudi in Aqeel Collection کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔اس تعارف میں جہاں مولانا مودودی کے احوال و آثار اور جماعت اسلامی کی تاسیس جیسے موضوعات کا احاطہ کیاگیا، وہیں اس ذخیرے میں موجود مولانا مودودی کی تصانیف اور متعلقات کا ذکرکیا گیاتھا بالخصوص تفہیم القرآن کی خصوصیات، اہمیت اور اس کے اثرات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس تعارف کے دوران ۳۲ نقشوں اور ۱۲ تصاویر سے مدد لی گئی، جب کہ سات عدد جدولیں، گوشوارے اور ایک بہت جامع اور مفصل کتابیات بھی اس سیمی نار میں پیش کیے جانے والے مقالے کے آخر میں شامل تھی، ان سب کو مصنفہ نے وضاحت کی خاطر اپنی گفتگو اور اس مقالے میں شامل رکھا تھا۔
اس نوعیت اور تسلسل کے حامل مطالعات کا ایک سلسلہ جو جاپان میں شروع ہوا ہے، اور جو ذوق و شوق مطالعات ِ اسلامی کا جاپان کی جامعات میں نظر آرہا ہے، یہ روز افزوں ہے اوراس لیے یقین کیا جاسکتاہے کہ اس میں ہر جہت سے اضافہ ہوتا رہے گا۔
۱- تفصیلات کے لیے: میساوا نوبوؤ اور گوکور اکچاداغ، The First Japanese Muslim Shotaro Noda ( 1868-1904).، مشمولہ: Annals of Japan Association for Middle East Studies. ، شمارہ ۲۳۔ ۲۰۰۷ئ، ص ص۸۵۔۱۰۹
۲- تفصیلات کے لیے: میساوا نوبوؤ Japanese Commercial Museum in Istanbul (1928-1937) ، Annals of Japan Association for Middle East Studies. ، شمارہ ۲۳، ۲۰۰۷ئ، ص ص ۲۳۷۔۲۳۸؛ ونیز شویچی کوبایاشی اور نوبوؤ میساوا، Japanese Islam Policy. ، مشمولہ: Gondai Shakai Kankyu. ، مجلّۂ ٹوکیو یونی ورسٹی، شمارہ ۲، ۲۰۰۸ئِ ۔ ص۹-۲۲
۳- جاپان میں اسلام پر حالیہ مطالعات کی قدرے تفصیل راقم کی ایک تصنیف مشرقِ تاباں: جاپان میں اسلام، پاکستان اور اُردو زبان و ادب کا مطالعہ۔ پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۱۰ء میں دیکھی جاسکتی ہے۔ زیرنظر سطور میں محض اختصار روا رکھا گیاہے۔
۴- مشمولہ: Bulletin of Asia-Pacific Studies. ، جلد XI ، ۲۰۰۱ئ، ص ص ۱۶۷- ۲۱۰
۵- مشمولہ: Ajia Taiheiyo Ronsi ، جلد II ، ۲۰۰۱ئ،
۶- مشمولہ:Kansai Arab-Islam Research Journal ،جلد ۳، ۲۰۰۳ئ، ص ۱۵۱-۱۶۵
۷- مشمولہ: Memoirs of the Research Department of the Toyo Bunko. ، جلد ۶۳، ۲۰۱۰ئ، ص ۱۴۳-۱۷۴ (مذکورہ مقالے کا ترجمہ عالمی ترجمان القرآن ’جنوبی ایشیا میں اسلام کا مستقبل‘، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کے تناظر میں‘ (جون،اگست ۲۰۱۳ئ) میں شائع ہوچکا ہے۔)
۸- یہ کتاب NIHU، National Institute of Humanities کے سلسلۂ مطبوعات: Research Series of South Asia and Islam کے تحت ۲۰۱۳ء میںشائع کی گئی ہے اور یہ اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔
۹- مشمولہ تذکرۂ مودودی ، جلد سوم ۔ ادارۂ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۱۹۹۸ء
مقالہ نگار: سابق صدر شعبہ اُردو، کراچی یونی ورسٹی، کراچی
تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کا مقصد اس ملک میں ’نظام کی تبدیلی‘ ہے، تاکہملک میں قا ئم ظلم، ناانصافی اور حق تلفی پر مبنی یہ نظام ختم ہو اور اس کی جگہ عدل و انصاف اور ادایگی حقوق پر مبنی نظام قائم کیا جاسکے ۔اس عظیم مقصد کے لیے کام کرنا دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔
اس نیک اور عظیم مقصد کی اہمیت کے بارے میں اہل وطن کی اکثریت بے خبر یا بڑی حد تک غافل ہے، بلکہ بھاری اکثریت تو اسے محض ایک سیاسی اور دنیاوی کام سمجھنے کی غلط فہمی میں بھی مبتلا ہے۔اسے اس بات کا کچھ احساس نہیں ہے کہ ظالمانہ نظام کی تبدیلی کا دین سے کس قدر گہرا تعلق ہے۔ نظام عدل کے قیام کو ایک غیر مذہبی فعل اور سیاسی کام قرار دینے کا ایک سبب یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت سے واقف ہی نہیں کہ کرپٹ اور بد دیانت قیادت کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ کن مصائب و آلام میں گھرا رہتا ہے۔
کسی ملک کے رہنے والے لوگوں کی حالت کا انحصاراس بات پر ہوتا ہے کہ اس ملک کے اقتدار پر کس قسم کے لوگ فائز ہیں ۔ اگر ملک کی قیادت صحیح ہاتھوں میں ہو تو ملک کے حالات بہتر ہوں گے لیکن اگر ملک کی قیادت پر نا اہل ،بد دیانت اور بد عنوان لوگ مسلط ہوں تو ملک کے حالات بھی دگر گوں، پریشان کن اور تکلیف دہ صورت حال کا منظر پیش کریں گے۔ وطن عزیز کی زبوں حالی، اس کی معیشت کی بربادی ،اس کا سیاسی انتشار اور اس میں موجود معاشرتی اُونچ نیچ اس ملک کے ان چند خا ندانوں کی وجہ سے ہے جو برسوں سے اس ملک کی قیادت پر قابض ہیں۔ یہ قیادت ان خاندانوں میں مادی اشیا کی طرح نسل در نسل وراثت کے طور پر منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ مفت میں ہاتھ آنے کی وجہ سے قیادت پر فائز یہ طبقہ نا اہل ، بد دیانت ،بد عنوان ،سخت دل ، مفاد پرست اور اپنی ذات اور اپنے طبقے کے مفادات سے اُوپر اٹھ کر دیکھنے کی صلا حیت سے محروم ہو چکا ہے ۔ کیونکہ بغیر محنت کے حاصل ہونے کی وجہ سے ورثا اس نعمت کی قدر نہیں کر پاتے اور وہ سست، نااہل اور مفاد پرست ہو تے چلے جاتے ہیں۔واضح رہے کہ قیا دت وراثت کے طور پر منتقل ہونے والی چیز نہیں بلکہ اہلیت اور صلاحیت کی بنا پر حاصل کی جانے والی شے ہے ۔
موروثی قیادتیں کارکردگی کی بنا پر قیادت پر فائز رہنے کے بجاے دولت،طاقت،تعصبات، دھاندلی اور دیگر غیر قانونی اور غیر اخلاقی سہاروں کوقیادت پر قابض رہنے کا ذریعہ بناتی ہیں۔ وہ اقتدار کو عوام کی فلاح اور سربلندی کے لیے استعمال کرنے کے بجاے اپنی دولت اور طاقت میں اضافے کے لیے استعما ل کرتی ہیں۔ اقتدار کے پجاری اور دولت کی ہوس میں مبتلا اس طبقے کے ہاتھوں جو نظام قائم ہوتا ہے وہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجاے اس طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کا ذریعہ بن جا تا ہے۔ اس طرح اس طبقے کے ہاتھوں معاشرہ فساد ،معیشت ظلم اور سیاست دھوکا بن کر رہ جاتی ہے۔ظلم کے اس بازار میں عوام کے حقیقی خیر خواہوں کو اپنی پہچان کرانے اور عوام کو اپنی خیر خواہی کا یقین دلانے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔برسوں سے حکمران طبقوں کی غلامی یا چاکری کے عادی ہونے کی بنا پر یا مسلسل دھوکے پہ دھوکا کھانے کی بناپر یااپنے جمود اور روایت پرستی کی عادت کی بنا پر عوام اپنے حقیقی خیر خواہوں سے بھی بد گمان ہی رہتے ہیں۔ اس بدگمانی کو پیدا کرنے اور بڑھاوا دینے میں بد عنوان قیادتوں کا حصہ کچھ کم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اہل ، باصلاحیت اور دیانت دار افراد اور گروہوں کو اپنے اثرو رسوخ اور دولت و طاقت کی بنا پر قیادت کے مناصب اور فیصلوں کے مراکز سے دُور کھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، تاکہ ان کی بددیانتی اور نااہلی کا پول نہ کھل جائے۔اس طرح نیک، شریف،دیانت دار اور باصلاحیت لوگ قیادت واختیار سے محروم کرکے بے اثر بنا دیے جاتے ہیں اور معاملات چلانے میں ان کا کردار ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔
پاکستان کے حالات اس منظر کی گواہی پیش کر رہے ہیں۔ یہاں جو طبقہ قیادت پر مسلط ہے وہ مفاد پرست، عوام دشمن،قانون شکن اور خود غرض واقع ہوا ہے ۔اس منظر کو اگر کوئی بدلنا چاہے اور خواہش رکھے کہ ملک میں عدل ،انصاف ،اخلاق اور اصولوں کی بالادستی قائم اورنیکی و شرافت اور دیانت وامانت کا دوردورہ ہو جائے، تو اس کے لیے خدا پرستی کی تلقین ،نیکیوں کا وعظ اور حُسن اخلاق کی ترغیب کافی ہو گی اور نہ فقط دُعاؤں سے یہ مرحلہ سر ہو گا۔ اس کے لیے قیادت کی تبدیلی جیسے سخت مشقت طلب مرحلے سے گزرنا ہو گا۔خواہ یہ تبدیلی اس طبقے کے ذہن کی تبدیلی ہو یا قیادت کے منصب سے اسے اُکھاڑ پھینکنے کا عمل۔
نبی اکرمؐ نے ۱۳سالہ مکی زندگی میں قریشی سرداروں کے ذہن بدلنے کی کوشش کی مگر مردناداں پر کلامِ نرم ونازک بے اثر ثابت ہوا۔ مفت میں ہاتھ آ ئے ہوے مفادات اور مراعات کو ترک کرنے پر آخر کون آسانی سے آمادہ ہو تا ہے ۔ قریشی سرداروں نے اللہ کے آخری رسولؐ کے وعظ و تلقین پر نہ صرف کان نہیں دھرا بلکہ اس عظیم الشان دعوت کی دشمنی میں وہ خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے اور آپؐ اور آپؐکے ساتھیوں کا جینا حرام کر دیا، حتیٰ کہ انھیں مکہ سے نکال کر دم لیا۔ مکی دور کی جدوجہد قریشی سرداروں کو راہِ راست پر تو نہ لاسکی مگر ان کی نوجوان نسل اور عوام میں سے دعوت اصلاحِ نظام کو ایسے مخلص، پختہ کار ، جوان ہمت اور پُرجوش نوجوان مردوخواتین ضرور میسر آگئے جو آگے چل کر قریشی سرداروں کا زور توڑنے اوران کا غرور خاک میں ملا کر دعوت اسلام کے پھیلنے کی راہیں کھولنے کا باعث بن گئے۔اسلامی دعوت کا مدنی دور اللہ سے پھری ہوئی عوام دشمن قیادت کو اکھاڑ پھینکنے کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں رسولِؐ خدا نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کی۔ اپنی ساری طاقت کو اس ریاست میں جمع کیا ۔پھر اس طاقت کے ذریعے ان پر مسلط ہونے والے سرداروں سے انھیں نجات دلائی۔
پاکستان چونکہ اسلامی ریاست ہے اوراس میں نظام بدلنے یا قیادت تبدیل کرنے کے لیے پر امن مواقع میسرہیں، اس لیے یہا ںزیادہ سے زیادہ عوام کو اپنا ہم نوا بنا کر تبدیلی لانے کا طریقہ زیادہ موزوں ہے مگر یہ طریقہ بھی آسان نہیں ہے۔یہ راستہ دراصل اللہ کی تعلیمات سے منہ موڑ کر ،اس سے کیے ہوئے عہد بندگی کو توڑکر بندوں کے رب بن جانے والوں سے بندوں کو آزاد کرانے اور ان کے غصب شدہ حقوق انھیں لوٹانے کا راستہ ہے، جسے ، نظام پر قابض اور عوام کے مالک بن کر ان پر تصرف کرنے کے عادی طبقات ،آسانی سے کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ لیکن ہم چونکہ یہ کام اللہ رب العالمین کا حکم بجا لانے کے لیے کر رہے ہیں، اس لیے اس راستے میں ہمیں اللہ کی تائید اور مدد بھی حاصل ہوگی، اور رسولِؐ اکرم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓکی پُرمشقت زندگیاں ہمارے جذ بوں کو توانا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ لہٰذا یہ مشکل کا م بھی ہمیں پوری تندہی ،ذوق و شوق ،اخلاص ومحبت اور صبر و استقامت سے انجام دینا ہوگا اگرچہ کیسی ہی مشکلات ہماری منزل کھوٹی کرنے کے لیے اس راہ میں حائل ہوں۔اس کے لیے ہمیں پہلے مرحلے میں عوام وخواص میں سے یکساں سوچ اور فکر رکھنے والے افراد کو اکٹھاکرنا ہے۔ پھر معاشرے کے زیادہ سے زیادہ خدا ترس ، دیانت دار اور باصلاحیت افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے انھیں ایک تنظیم میں پرو کر ایک منظم قوت میں ڈھالنا ہے تاکہ اس قوت کو کام میں لا کر اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔اور اس نظام کی باگ ڈور ان ہاتھوں سے لے لی جائے جو برسوں سے اس ظالمانہ نظام کو مسلط رکھ کر عوام کا خون چوس رہے ہیں اور ان کی جگہ عوام دوست، انصاف پرور اور قانون کی حکمرانی کا نظام قائم کرنے والی قیادت کو لایا جائے۔
یہاں یہ بات واضح کر نا بھی ضروری ہے کہ ظالمانہ ،فاسقانہ اور انسانیت کش نظا م تبدیل کرکے ،محروم و مظلوم اور کمزور بنا کر رکھے گئے بے بس انسانوں کو آزادی دلانا ،انھیں ان کے حقوق لوٹانا ،ان کے لیے ترقی کی راہیں کھولنا ،انھیں آسانیاں فراہم کرنا اور ان کی عزت نفس بحال کرکے انھیں بندۂ رب کے منصب جلیل تک پہنچانا،اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے ۔ یہ محض دنیاوی سرگرمی نہیں بلکہ عین دینی تقاضا ہے۔یہ صدقۂ جاریہ ہے۔ اس کام کے نتیجے میں پسے ہوئے عوام آسودہ اور اس کا ذریعہ بننے والے لوگ انعامات خداوندی سے نوازے جائیں گے۔لہٰذا اس کام کو دنیاوی فلاح یا خدمت انسانیت یا بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کا کام سمجھ کر ہی نہیں بلکہ اسے خالص دینی فریضہ سمجھ کرہی انجام دیا جانا چاہیے۔
انسانی زندگی میں قیادت کی اہمیت سے ہر باشعور شخص آگاہ وباخبر ہے ۔قوم کے قائد کی مثال در اصل گا ڑی کی ڈرائیو نگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کے مانند ہوتی ہے ۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت میں چلتی ہے جس سمت ڈرائیور اسے لے جانا چاہتا ہے اور گاڑی میں بیٹھنے والے لوگ اسی سمت میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں جس طرف ڈرائیور گاڑی کو لے کر جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی تمدن ،معاشرہ اور نظام کی گاڑی بھی اسی سمت سفر کر تی ہے جس سمت میں قیادت اسے لے کر جانا چاہتی ہے ۔کیونکہ زمین کے سارے وسائل ،اقتدار کی جملہ طاقت ،افکار و نظریات بنانے اور ڈھالنے کے تمام ذرائع ،افراد کی کردار سازی سے لے کر اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کے تعین تک کے سارے اختیارات قیادت پر فائز طبقے کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔چنانچہ قیادت پر فائز طبقے کی راہنمائی اور حکمرانی میں رہتے ہوے بحیثیت مجمو عی نظام اور معاشرہ اسی سمت چلے گا جس سمت میں قیادت اسے چلانا چاہے گی ۔معاشرے کی قیادت اگر خدا پرست اور انسان دوست لوگوں کے ہا تھ میں ہو گی تو وہ زندگی کے سارے نظام کو خدا پرستی اور انسان پروری کے اصولوں پر چلائے گی ۔ایسا نظام اپنے اندر کے بُرے لوگوں کو بھی اچھا بنا لیتا ہے۔ اس نظام میں اچھائیاں پروان چڑھتی ہیں اوربرائیا ں دب جاتی ہیں ۔لیکن اگر قیادت پر بدعنوان ،مفاد پرست اور نااہل لوگ قابض ہو جائیں تو وہ معاشرے کو ظلم ،نا انصافی اور حق تلفی کے عذاب سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں خیالات و نظریات ، علوم و آداب ،سیاست و معیشت ،تہذیب و معاشرت، اخلاق ومعاملات اور نظام قانون وانصاف، سب کے سب بگڑ جاتے ہیں ۔ایسی بد یانت قیادت کے تحت برائیاں پروان چڑھتی اور بھلائیوں کو سماج میں جگہ بنانے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ایسے نظام میں زمین ظلم و جبر اور بد امنی و فساد سے بھر جاتی ہے۔ وہاں برائیوں کو اپنانا آسان اورنیکیوں کو اپنانا اور پھیلانا تو دُور کی بات ہے ان پر قائم رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اس صورت حال کی مثال عوام کے ہجوم کی حرکت سے دی جاسکتی ہے ۔جس طرح اگر ہجوم ایک سمت میں چل رہا ہو تو کسی بھی فرد کے لیے اس طرف چلنا آسان اور اس کی مخا لف سمت میں چلنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی نظام پر بد دیانت ،نا اہل اور مفاد پرست عناصرقابض ہو کر اسے ایسا انسان دشمن بنا دیتے ہیں کہ اس میں خیر،بھلائی ،انصا ف ،قانون اور حق کو اختیار کرنا مشکل اور خوشامد ،سفارش،رشوت،حق تلفی ،دھاندلی،بھتہ خوری اور بدمعاشی جیسی انسانیت کش خامیوں کو اختیار کرنا بڑا آسان ہوتا ہے ۔ وطن عزیز پاکستان کی موجودہ صورت حال اس مثال کی عملی تصویر ہے۔ وطن عزیز پر قابض اشرافیہ کے پیش نظر ملک کو مستحکم کرنے کے لیے قوم کے ہر ہر فرد کی نشوو نما کے بجاے اپنے طبقے کی نشوونما اور اس کے مفاد کا تحفظ ہے۔ اشرافیہ کے مفاد اور عوام کے مفاد میں تضاد ہے ۔ حکمران طبقے کی بلندی عوام کی پستی میں مضمر ہے اور عوام کی بلندی کے نتیجے میں حکمران اشرافیہ کو اپنی مراعات سے دستبردار ہو کر نیچے آنا پڑتا ہے ۔ اس ملک میں مراعات یافتہ طبقے نے ملکی وسائل پر قبضہ کرکے اس کے حقیقی وارثوں، یعنی عام آدمی کو ان سے محروم کرکے اسے اپنی غلا می میں جکڑا ہوا ہے ۔وہ عوام سے اپنی خدمت لیتے، ان کے حقوق دباتے اور ان کی محنتوں کا استحصا ل کرتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں یہاں قانون کی حکمرانی کا بھرم قائم تھا اور حکمرانوں کی سطح پر معاشی بد عنوانی نہ ہونے کے برابر تھی ۔چنانچہ معاشی پسماندگی کے باوجود ملک میں امن و امان قائم تھا اور عوام کو بھی ذہنی آسودگی میسر تھی ۔مگر پھر حکمران طبقے نے ایسا اندھیر مچایا کہ عا م آدمی غلامی اور بد حالی کی زنجیروں میں جکڑتا چلا گیا اور طبقۂ خواص طاقت ور اور مضبوط ترہوتا رہا ۔اشرافیہ کے ہاتھوں قائم اس استحصالی نظام میں نوکریاں بکنے لگیں، تھانے نیلام ہونے لگے ،ملکی سودوں میں کمیشن اور کک بیکس کا دور دورہ ہو گیا۔دفتروں میں رشوت کا بازار گرم اور عوام کی تذلیل عام ہو گئی۔ ایک دور تھا کہ رشوت خور عوام کی نگاہوں سے چھپتا پھرتا تھا ،اب حکمرانوں کی بد عنوانیوں نے ایسی فضا بدلی کہ حرام ذرائع سے دولت جمع کرنے والے معز زین میں شمار ہونے لگے ، اور رزق حلا ل پر اکتفا اور اصرار کرنے والوں کے لیے با عزت گزارا کر نا بھی مشکل بنا دیا گیا ۔اس طبقے نے اداروں کو کمزور کیا اور قانون کی حفاظت کرنے اور اسے بلاامتیازہر کمزور و طاقت ورپر نافذ کرنے والے اداروں کوقانون توڑنے اور کمزوروں کو دبا کر رکھنے کے کام پرلگا دیا۔
عوام دشمنی اور انسان کشی کا یہ گھناؤنا کام کسی بیرونی دشمن نے نہیں کیا بلکہ راہنمائی کے منصب پر فائز حکمرانی کے مزے لینے والے طبقۂ اشرافیہ نے ہر دور میں خیر خواہ کا رُوپ دھار کر، ہمدردی کا چغا پہن کر،ترقی کے خواب دکھا کراور میرٹ کے وعدے سجا کر یہ سیاہ کارنامہ انجام دیا۔حکمرانوں کی کرپشن اور بددیانتیوں اور قانون شکنیوں نے انصاف ،قانون ، میرٹ حقوق اور اخلاق کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہی مشکل ہو گئی ۔بد عنوانی کے ساتھ چلنا آسان اور اس کی مزاحمت مشکل ہوگئی۔یہ منظر بد عنوانی کے مرکز اور اس کے پھیلنے کے اسباب کو کھول کر رکھ دیتا ہے اور اس سے عربی کے اس مقو لے کے مفہوم کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ الناس علی دین ملوکھم ،یعنی عوام اپنے حکمرانوں کی بنائی ہوئی راہوں پر ہی چلتے ہیں۔ اس معاملے میں حتمی اور سچی بات حدیث میں بیان ہوئی ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کا ذمہ دار ان کے امرا اور علما کو قرار دیا گیا ہے، کیو نکہ قوموں کی قیادت انھی دو طبقات کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔طبقۂ امرا، یعنی سرمایہ دار، جاگیردار اور حکمران قوم کے مالی وسائل،مادی طاقت اور افرادی قوت پر تصرف رکھتے ہیں،جب کہ علما قوم کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کر تے اور اسے ان راہوں پر چلاتے ہیں جن کو وہ اپنے خیال میں ،اپنی قوم کے لیے صحیح سمجھتے ہیں۔
دین اسلام کے دو حصے ہیں: ایک عقیدہ اور دوسرا عمل۔ عمل کے پھر دو حصے ہیں: ایک انفرادی عمل اور دوسرا اجتماعی عمل۔ عقیدہ جب انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اپنے قالب میں ڈھال دیتا ہے تو نظام بن جاتاہے ۔کسی بھی نظریے کی افادیت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ عمل کی شکل اختیار کرکے سامنے آتا ہے ۔اعلیٰ سے اعلیٰ نظریہ اگر عمل کے رُوپ میں نہیں ڈھلتا تو محض سنہری باتیں، پُرکشش وعظ ،دل نشیں ارشادات اور نورانی ملفوظات بن کر رہ جاتا ہے۔ کتابوں میں ایسی باتیں اقوالِ زریں کے طور پر درج ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر لوگ دلی سکون اور ذہنی مسرت و شادمانی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اچھی باتیں اقوال زریں ہی رہتی ہیں جب تک وہ عملی شکل میں ڈھل کر زندگی کا حصہ اور معاشرے کے جز کی شکل اختیار نہ کر لیں۔
دین اسلام محض نظریہ نہیں ہے کہ اعلیٰ اصولوں اور بہترین تصورات کے طور پر اس کے مختلف اجزا کے فضائل بیان کیے جاتے رہیں، بلکہ ایسی آفاقی تعلیمات پر مبنی دین ہے جو عملی شکل میں ڈھل کر ایک نظام بناتا ہے اور اس کی ساری خوبیاں اس نظام کے ذریعے ہی ظاہرہوتی ہیں۔ دورِملوکیت نے دین اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کی اور دور غلامی نے اس کو پختہ کیا کہ اسلامی عقیدہ اختیار کرنے اور عبادات بجا لانے کے بعد اسلام کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کی برکات ظاہر ہی نہیں ہو سکتیں جب تک سیاسی سطح پر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزادی نہ ملے،جب تک معاشی میدان میں وسائل کا رخ عوام کی طرف نہ ہوجائے اور جب تک معاشرتی سطح پر تمام انسان حقوق، اختیارات اور مقام ومرتبے کے اعتبار سے ایک ہی جگہ پر کھڑے نظر نہ آئیں ۔گویاجب تک اسلامی تعلیمات کی کار فرمائی معاشرے کے تمام شعبوں میں نظر نہیں آتی، یا دوسرے لفظوں میں اسلامی نظام قائم نہیں ہوجاتا، تب تک اسلام کی برکات سے مسلمان بھی محروم رہیں گے اور دنیا بھی۔ دنیا اور مسلمانوں کی محرومی کا سبب کوئی اور نہیں مسلمانوں میں پایا جانے والا یہ غلط تصور ہے کہ عقیدے اور عبادات کی ادایگی کے بعد اسلام پرعمل کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔
اسلام نے نظم جماعت کو ضروری اور اطاعت امیر کو لازم ٹھیرایا، کس لیے؟ اس لیے کہ اجتماعی نظام اسلام کے مطابق قائم کیا جائے اور قائم رکھا جائے ۔اسلام میں کسی پر عقیدہ زبردستی مسلط کیا جاسکتا ہے اور نہ طاقت کے زور پر عبادات کی ادایگی کروائی جاسکتی ہے۔ اسلام میں جہاد کے فرض ہونے کی وجہ کیا ہے؟صرف یہ کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اور اپنی آزادی کی حفاظت کرنا ۔اگرملک میں کچھ لوگ طاقت،دولت یا اپنی ذہانت کے زور پر قیادت پر مسلط ہوجائیں اور اللہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے، عوام کواپنا غلام بنا لیں۔ان کے حقوق غصب کر لیں، ان کے وسائل پر قابض ہوجائیں اور انھیں نچلے درجے کا شہری بنا کر ان کی توہین کے مرتکب ہوں، تو بندگان خدا اور مردان کار پراپنی اپنی استطا عت اور اپنے اپنے میدانِ کار میں اسلام کے گرائے گئے اس ستون کی حفاظت کے لیے میدان عمل میں آنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور اسلامی نظام کی حفاظت کے فریضے کی ادایگی کے ذریعے اسلام کا صحیح تعارف دنیا کے سامنے پیش کر کے اللہ کے ہاں سرخرو ٹھیریں۔
وطن عزیز میں جو نظام قائم ہے وہ ظلم کا نظام ہے، جب کہ اسلام سراسر عدل ہے۔ہر انسان پیدایشی طور پر آزاد پیدا ہوا ہے۔ اس کو کسی بھی قسم کی غلامی میں جکڑنا ظلم ہے ۔اس کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ ملے، یہ عدل ہے۔ اس کا استحصال ہو، یہ ظلم ہے ۔معاشرے کے ہر فرد کو برابر کا مقام اور مرتبہ حاصل ہو، یہ عدل ہے ۔معاشرے میں کوئی خان نواب اور وڈیرہ ہو اور کسی کو نچلی ذات کا تصور کیا جائے اور اس کی پہچان افراد و معاشرے کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کا ذریعہ ہو، یہ ظلم ہے۔ افرادِمعاشرہ معاشی وسائل میں سے اپنی ضروریات کے مطابق حصہ پائیں، یہ عدل ہے۔ اگر ایک طبقہ وسائل پر قابض اور عوام دو وقت کی روٹی تک سے محروم ہوں، تو یہ ظلم ہے ۔ حق دار کو اس کا حق اس کی دہلیز پر ملے، یہ عدل ہے ۔ اگر حق پانے کے لیے نسلوں انتظار کرنا پڑے، یہ ظلم ہے۔ مجرم کو بلاامتیازسزا ملے، یہ عدل ہے۔ اگر کمزور سزا پائے اور طاقت ور جرم کرے مگر معزز کہلائے اور سزا پانے کے تصور ہی سے ماورا ٹھیرے، یہ ظلم ہے۔
ہمارے ملک میں یہ ظالمانہ نظام ملک کی قیادت پر قابض حکمران طبقے نے برسوں سے نافذ کیا ہوا ہے ۔اگرچہ یہ طبقہ با اختیار اور بڑا ہوشیار واقع ہوا ہے مگر اس نے ظلم کا نظام قائم رکھا ہے۔اس ظلم سے چھٹکارے اورنظام عدل کے قیام کے ذریعے آسودہ ،پرامن اور خوش حال معاشرے کا خواب نہ صرف محروم و مظلوم اور پست و پس ماندہ بناکر رکھے گئے عوام کے دل کی آواز ہونا چاہیے بلکہ اس کے قیام کے لیے انھیں میدان عمل میں آنا چاہیے۔مگر عوام میں اس قسم کی سرگرمی اور جوش و خروش نظر نہ آنے کا سبب دراصل اسی ظالم ،فاسق اور غاصب قیادت کا اختیار اور اس کی ہوشیاری ہے۔ وہ ایک طرف تو اپنی طاقت اور اختیار کے ذریعے عوام کو اپنے زیر تسلط رکھتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ہوشیاری اور چالاکی کے ذریعے اپنے آپ کو عوام کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا کر پیش کرتے اور انھیں ان کی حقیقی خیر خواہ قیادت کے بارے میں بدگمان اور مایوس رکھتے ہیں۔
اس پس منظر میں اسلام کا نظام عدل قائم کرنے والو ں کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف عوام میں ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ناانصافی اور حق تلفی کا شعور پیدا کرنا،اور ان کے اندرحقوق پانے کی امید اور مقام بلند کی آرزو پروان چڑھانا اور پستی اور محرومی کے خاتمے کا یقین پیدا کرنا ہوگا۔دوسری طرف مسلط کرپٹ قیادت کے کرتوت نما یا ں کرکے متبادل حقیقی اور خیر خواہ قیادت کو عوام کے سامنے پیش کرکے انھیں عملاً اس کی تائید کے لیے تیار کرنا کہ فی الواقع یہی قیادت اسلام کا نظام عدل نافذ کرنے کی اہل ہے۔ اسی قیادت کے زیر سایہ انھیں ان کے حقوق مل سکتے ہیں اور یہی قیادت وطن عزیز میں حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرسکتی ہے ۔ اب یہ اسلام کے لیے کام کرنے والوں کا امتحان ہے کہ وہ کس کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں !
مضمون نگار، شعبۂ اسلامیات ، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان سے وابستہ ہیں
سوال : سیاسی لیڈروں کی پالیسی پر جب تنقید کی جاتی ہے تو ان کو بُرا بھلا بھی کہہ دیا جاتا ہے ۔کیا یہ تنقید غیبت شمار ہوتی ہے؟
جواب: سیاسی لیڈروں پر تنقید اسی حد تک رہنی چاہیے جس حد تک تنقید کی ضرورت ہے۔ ان کی بُرائیاں جو واقعی ہوں، ان سے عوام کو بچانے کے لیے، ان بُرائیوں کو پوری تفصیل سے بیان کرنا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ ان بُرائیوں کو ایسے انداز سے بیان کیا جائے کہ عوام سمجھ جائیں اور ایسے لیڈروں کی پیروی اور ساتھ دینے سے اجتناب کریں۔ حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے، ورنہ جہاں ان کے لیڈر مجرم ہوں گے وہاں وہ بھی ان کے جرم میں شریک شمار ہوں گے۔ دنیا میں اس قسم کے لیڈروں کے پیروکار قیامت میں پچھتائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ایک مرتبہ واپسی کا موقع ملے تاکہ ہم ان سے اعلانِ براء ت کرسکیں۔ (ملاحظہ ہو البقرہ ۲: ۱۶۶، احزاب ۳۳:۶۷-۶۸، الصّٰفات ۳۷:۲۲ - ۴۰)
مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سورئہ حجرات، آیت ۱۲ کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں:’’ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کرکے فقہا اور محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے، جب کہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علما نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں:
۱- ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہراس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کورفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔
۲- اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ اُمید ہو کہ وہ ان بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کچھ کرسکیں گے۔
۳- استفتا کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورتِ واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔
۴- لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں، مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے، یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھا جائے۔
۵- ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آوازبلندکرنا اور اُن کی بُرائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور دیگر بُرائیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلقِ خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔
۶- جو لوگ کسی بُرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جاسکتے ہوں، ان کے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص‘‘۔(تفہیم القرآن،ج ۵،ص ۹۲-۹۳)
اس تشریحی نوٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لادین لوگوں اور پارٹیوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کے نقائص کو واضح کرنا غیبت نہیں ہے۔ البتہ شریعت لادین لوگوں یا کسی بھی گروہ کے نقائص کو واضح کرنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے ایسی زبان استعمال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو اخلاقی حدود کے اندر ہو، سب و شتم اور لعن طعن سے پاک ہو۔(مولانا عبدالمالک)
س : حقوق العباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حقوق اللہ تو خدا چاہے بخش دے لیکن حقوق العباد اگر ادا نہیں کیے گئے تو ان کو متعلقہ شخص ہی سے بخشوانا ہوگا ورنہ بخشے نہیں جائیں گے۔ میری نند میرے پاس رہتی تھی۔ اس کے انتقال کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کی مطلوبہ خدمت نہ کی۔ کھانا کپڑے کا خیال رکھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کمی رہی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ اس کی بخشش اور درجات کی بلندی کی دعا بھی کرتی ہوں۔ تلافی کے لیے کیا کروں؟
ج: حقوق العباد کے بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں معاف نہیں کریں گے جب تک کہ حق دار خود معاف نہ کردے یا حق دار کو اس کا حق ادا نہ کردیا جائے۔ بے شک نند کی خدمت، جب کہ وہ خدمت کی محتاج ہو ،ہر اس قرابت دار پر ہے جو اس کی خدمت کرسکے۔ آپ نے اپنی حد تک جو خدمت کی ہے، کھانا اور لباس کی حد تک خیال رکھا ہے اور باقی حاجات میں حق ادا نہ کرسکنے کا جو احساس ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ اس کی تلافی کی ایک صورت تو یہی ہے جو آپ کر رہی ہیں، یعنی مرحومہ کے لیے دعا۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ آپ اس کی طرف سے کچھ مال صدقہ کریں۔ نند کے ایسے عزیز جو مدد کے محتاج ہوں ان کی مدد بھی اسی کی مدد شمار ہوگی۔ آپ ایسا کر کے اپنے دل کو مطمئن کرسکتی ہیں۔(مولانا عبدالمالک)
س : تصویر کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ جہاں کتا اور شوقیہ تصویر رکھی ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ آج کل موبائل فون سے تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اس کی کوئی ضرورت تو نہیں ہوتی سواے یہ کہ انھیں دیکھ کر ان لمحات کو یاد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بھی تصویر کے زمرے میں آتا ہے؟ اس طرح ہم بے معنی کام کر کے رحمت کے فرشتوں کو بھگانے کے مرتکب ہورہے ہوں۔
ج: ’تصویر‘ موبائل اور کمپیوٹر میں اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک موبائل کو اس کے دیکھنے کے لیے آن نہ کیا جائے۔اسی طرح کمپیوٹر میں تصویر مستور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں تصویر رحمت کے فرشتوں کے گھروں میں داخلے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ موبائل اور کمپیوٹر سے کاغذ پر اُتار کر اسے گھروں کی زیب و زینت بنانا درست نہیں ہے۔کتا گھر کی چوکیداری، شکار اور کھیتوں اور مویشیوں کے لیے رکھنا جائز ہے۔ ان جائز صورتوں میں رحمت کے فرشتے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں۔ شوقیہ اور بلاحاجت و ضرورت کتا رکھنا منع ہے اور ایسے کتے رحمت کے فرشتوں کے داخلے میں رکاوٹ ہیں۔(مولانا عبدالمالک)
انجینیر گلبدین حکمت یارمعروف مجاہد اور حزبِ اسلامی افغانستان (حکمت یار گروپ) کے صدر ہیں۔ اشتراکی سامراج کو شکست دینے اور سوویت یونین کے توڑنے میں ان کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ طالبان کے اقتدار کے بعد انھوں نے کش مکش سے اجتناب کیا اور ان کی توجہ مطالعے اور تصنیف وتالیف کی طرف مبذول رہی (نائن الیون کے بعد حزبِ اسلامی محدود پیمانے پر پھر سرگرمِ عمل ہوگئی)۔ ان کی گوشہ گیری کا ایک ثمر پشتو میں قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے۔ قرآن پلوشی جس کا اُردو ترجمہ پیش نظر ہے۔
اُردو میں تراجم و تشریحاتِ قرآن کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی مگر پشتو میں ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ حکمت یار صاحب نے پشتو میں قرآن کے ’دل کش اور دقیق ترجمے کی کمی کو پورا کرنے‘ کے مشکل کام کا بیڑا اُٹھایا۔ اس ’مشقت طلب کام‘ میں انھوں نے ہرلفظ کے دقیق ترجمے کے ساتھ آیات کی خوب صورت اور دل کش ادبی تراکیب کا بھی خیال رکھاہے۔ قرآنی تراکیب اور آیات کے تین تین ، چارچار متبادل ترجمے دے کر بتایا ہے کہ کون سا ترجمہ دقیق اور بہتر ہے اور کیوں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ممکنہ حد تک ہر لفظ کا نہایت ’امانت داری‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے الفاظ کی تعداد، آیت کے الفاظ کی تعداد کے برابر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں دی گئی فہرست کے مطابق انھوں نے عربی، فارسی اور اُردو کے تقریباً ۵۰تراجم و تشریحات اور کتب ِ لُغت سے استفادہ کیا ہے۔
اس تفسیر سے کہیں کہیں حکمت یار صاحب کے شخصی احوال کا بھی پتا چلتا ہے، مثلاً یہ کہ ۲۰سال قبل کی حفظ کردہ سورہ آلِ عمران نمازِ فجر میں تلاوت کرتے ہیں تو دورانِ تلاوت کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا ہے اور جواب کے لیے بہت سی تفاسیر دیکھتے ہیں۔ تلاوت کے دوران میرے سامنے ہرمرتبہ ’’سورت کے نئے نئے ابعاد اور ابواب کھلتے ہیں‘‘ ( جلداوّل،ص ۲۱۶)۔ اسی طرح ان کے نظریات کا بھی علم ہوتا ہے، مثلاً جہاد کی فرضیت کے قائل ہیں مگر ان کے نزدیک یہ جہاد انفرادی نہیں ایک ’’منظم اور تربیت یافتہ حزب اور جماعت کا کام ہے‘‘ نہ کہ افراد اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کا۔ ایک ایسے حزب کا جو تربیت یافتہ ہوکر کندن بن چکا ہو، جن کا اسلحہ ان کے ایمان کے تابع ہو، نہ کہ ان شدت پسند جذبات و احساسات کے تحت انتقام اور بدلہ لینے لگیں۔ (ایضاً، ص ۴۱۷)
اُردو ترجمہ ڈاکٹر عبدالصمد اور ان کے معاون محمد اسلام علوی کی دل چسپی وکاوش کا نتیجہ ہے۔ حکمت یار بعض مسائل پر دیگر مفسرین کا موقف بیان کرتے ہوئے کہیں ان سے اتفاق اور کہیں اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے سابقہ مفسرین سے استفادہ بھی کیا ہے، مگر وہ کہیں کسی کا نام نہیں لیتے۔ اُردو ترجمے میں تو تفہیم القرآن کا اثر نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبدالصمد نے لکھا ہے کہ میں حکمت یار کی بعض چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا، مثلاً اپنے موقف سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والوں پر سختی سے نکیر یا بعض وقتی اور علاقائی ایشو کو زیربحث لانا (جلداوّل،ص ۴) وغیرہ۔ قرآن کی کرنیں کی چار جلدیں (چہارم تا ہفتم) غالباً تاحال طبع نہیں ہوئیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخ اسلامی سے وابستہ، ڈاکٹر شکیل احمد اوج (یکم جنوری ۱۹۶۰ئ-۱۸ستمبر ۲۰۱۴ئ) عصری تہذیبی مسائل پر غوروفکر کرکے قلم اٹھاتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب تراجم، نسائیات، تعبیرات اور صاحبِ قرآن کے علاوہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا علمی و فکری مجلہ ششماہی التفسیر میں ملتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ اس مجلے کے ۲۳شمارے منصہ شہود پر آئے ہیں۔ زیرنظر خصوصی شمارہ اُردو کے مفسرینِ قرآن اور ان کی تفاسیر سے متعلق ہے۔
مدیر نے اس احساس کے باوجود کہ اکثر مفسرین ایک دوسرے سے جزوی یا کُلی اختلاف رکھتے ہیں، اس بات کو ترجیح دی کہ اب تک ہونے والے تمام تفسیری کام پر نظر ڈالی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مَیں ان تمام حضرات کے تفسیری و تفہیمی کام کو ملت اسلامیہ کا مشترک علمی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کو اس علمی خزانے سے بغیر کسی تعصب کے، استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ اسی طرح قرآن فہمی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ کلامِ الٰہی سے وابستہ ہو جائیں۔
تفاسیر کے تجزیوں کے علاوہ تفسیری مباحث سے متعلق چند مضامین بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ’مولانا احمد رضا خاں بریلوی بحیثیت مترجم قرآن‘ (محمد امین)، ’ساختیاتی لسانیات، فہم معانی کا جدید منہج اور ترجمۂ قرآن پر اس کے اثرات‘ (ڈاکٹر حافظ عبدالقیوم)، ’تفسیر قرآن میں کتب سابقہ سے اخذ و استدلال کے اسالیب‘ (محمد خبیب، ڈاکٹر محمد عبداللہ) اور ’جماعتِ احمدیہ کا تراجمِ قرآنِ مجید اور تعلیم قرآن پر کیے گئے کام کا علمی و تحقیقی جائزہ‘ (محمد عمران، ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر)۔
مجلے کے آخر میں مفتی محمد اعظم سعیدی نے کنزالایمان (مولانا احمد رضا خاں بریلوی) پر پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کے تحقیقی مقالے کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا لب و لہجہ اور اسلوب حددرجہ طنزیہ بلکہ استہزائیہ ہے۔ اگر پروفیسر قادری کا مقالہ ایسا ہی بے کار تھا تو مفتی سعیدی نے اس پر ۱۹صفحات اور اپنے کئی گھنٹے کیوں ضائع کیے؟
اوج مرحوم نے اداریے میں اہل علم کو دعوت دی تھی کہ اگر وہ اپنے کسی پسندیدہ یا کسی غیرمعروف مفسر یا مترجم کی خدماتِ جلیلہ پر لکھنے کے خواہش مند ہوں تو التفسیر کے ایک نئے نمبر کے لیے وہ ان کی تحریر کے منتظر رہیں گے لیکن صدافسوس کہ وہ یہ خواہش لیے خالق حقیقی سے جاملے۔ (خالد ندیم)
مصنف کی یہ کتاب اسلام اور سائنس پر شائع شدہ لٹریچر میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔ ہر حدیث ِ نبویؐ کے تحت نبویؐ حکمت یا علماے اسلام کی حکمت اور پھر انسانی تجربے و مشاہدے سے اس کی توثیق کی گئی ہے، مثلاً: باب اوّل ’حفظانِ صحت کے زریں اصول‘ کے تحت ۴۷ ذیلی عنوانات ہیں۔ ۵۸واں ذیلی عنوان ہے: ’خواتین سے مصافحے کی ممانعت اور اس کی حکمت‘ ۔ حضرت میمونہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے ہم سے (کچھ عورتوں سے) قرآنِ پاک کے بیان کے مطابق بیعت لی۔ پھر ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!آپ ؐ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں فرماتے؟ آپؐ نے فرمایا: میں عورتوںسے مصافحہ نہیں کرتا‘‘۔(موطا امام مالک، حدیث ۲۸۳۵)
زیرنظر حدیث میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو انسانی بدن پر ہونے والی تحقیق میں منکشف ہوئے ہیں۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ انسانی جِلد کی سطح پر اَن گنت ایسے خلیات پائے جاتے ہیں جو لمس کے احساس کو دماغ تک منتقل کرتے ہیں اور دماغ اسے محفوظ کرلیتا ہے۔ یہ خلیات بالکل الیکٹرک سنسرز کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر چھونے کا عمل پُرلطف اور لذت سے لبریز ہو تو دماغ میں اس چھونے والے کی پوری شخصیت کا ایک تصور قائم ہوجاتا ہے اور اس کی طرف پُرکشش میلان ہونے لگتا ہے۔ اگر لمس کا یہ عمل مسلسل ہو تو دماغ پر ایک ہیجان اور تشویش سی چھا جاتی ہے جو بالآخر صنفِ مخالف سے ناروا اختلاط تک لے جاتی ہے۔ (روائع الاعجاز العلمی،ج۱،ص ۵۹-۶۰)
اس تحقیق سے خواہ کوئی اتفاق نہ کرے لیکن انسانی تجربہ و مشاہدہ بہرحال اس صورتِ حال کی توثیق کرتے ہیں اور رسولؐ اللہ کے اس احتراز کی سائنسی توجیہہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسی طرح حفظانِ صحت ، تشخیص امراض، مظاہر قدرت، فلکیات اور جدید ایجادات کے عنوانات کے تحت احادیث اور سائنسی علوم کو زیربحث لایا گیا ہے۔
اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وحی خفی و جلی، یعنی حدیث و قرآن علمِ غیب، انسان کے اعمال اور مادی کائنات کی حقیقت واصلیت پر مبنی ہیں۔ سائنسی علم صرف مادی کائنات کی تشریح و توضیح، تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہے۔ اس کے نزدیک ماوراے مادہ و سائنس کی تعبیر و تشریح کوئی قطعی حقیقت نہیں رکھتی۔ پھر آج کی بیان کردہ حقیقت کل بدل بھی سکتی ہے، لہٰذا سائنس کی تشریح وتوضیح حدودِ مادہ کے اندر تو ’علم‘ کا مقام رکھتی ہے، ورنہ نہیں۔بقول مصنف: سائنس اور وحی کے مابین یہ کوئی نزاعی تحقیق نہیں ہے بلکہ حدیث نبویؐ میں سائنسی استدلال کو واضح کرنے کی ایک ابتدائی کوشش ہے۔ اہلِ فن کے لیے صلاے عام ہے کہ وہ اس میدان میں دادِ تحقیق دیں، تصحیح و اضافہ فرمائیں اور اپنے علمی جواہرپاروں سے اصحابِ ذوق کو فیض یاب کریں۔ (شہزادالحسن چشتی)
تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مصلحین پیدا کیے جنھوں نے انتشار و افتراق میں مبتلا اور بے راہ روی کے شکار مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر ایک دفعہ پھر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صراطِ مستقیم دکھایا۔ انیسویں صدی عیسوی میں جہاں برعظیم پاک و ہند میں تحریک مجاہدین کے بانی سیّداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر مسلمانوں میں حریت و آزادی کی روح پھونکی، وہاں محمد بن علی السنوسی (۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) نے سنوسی تحریک برپا کر کے عالمِ عرب میں بیداری کی لہر پیدا کردی۔
زیرنظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سنوسی تحریک نظریاتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے ایک جامع اور اپنے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ہمہ گیر اور عالم گیر اسلامی تحریک تھی۔ اس تحریک کا مقصد عالمِ اسلام کا مکمل روحانی ارتقا، یعنی اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سنوسی تحریک نے ’زاویوں‘ (خانقاہوں) کا نظام قائم کیا تھا۔ ہر ’زاویہ‘ بالعموم مسجد، سکول، مہمان خانہ، طلبہ کے اقامتی کمروں، مطبخ، تحریک کے وابستگان کی قیام گاہوں کے علاوہ ورکشاپ اور مویشی فارم پر مشتمل ہوتا تھا۔ تحریک کے زیراہتمام ایسے ’زاویوں‘ کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ذکروفکر، درس و تدریس کے ساتھ ان میں ہُنر سکھانے اورعسکری تربیت کا اہتمام بھی ہوتا تھا، تاکہ ان زاویوں کے فارغ التحصیل دعوت و تبلیغ و جہاد کے ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفیل رہیں۔ ان زاویوں کے سربراہ ’شیخ‘ کہلاتے جو زاویے کے انتظام و انصرام کے ساتھ پورے علاقے کے مفتی، مُصلح اور جج کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ اس تحریک نے ایک طرف سیاسی میدان میں اطالوی، فرانسیسی اور برطانوی سامراج کا مقابلہ کیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی بُرائیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور دین و دنیا کی دوئی ختم کرکے معاشرے میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنے کے لیے عظیم جدوجہد کی۔
اس تحریک نے اپنے دورِ عروج میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے ذہن و فکر، دل و دماغ کو متاثر کیا اور سیاسی و اجتماعی طور پر اسلامی تاریخ پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ یوں یہ تحریک بعد میں اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ بن گئی۔ انتہائی اہم موضوع پر اس تحقیقی کتاب کے مطالعے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شان دار تحریک (سنوسی تحریک) عروج کے بعد زوال کا شکار کیوں کر ہوئی؟ مصنف کو یہ تجزیہ پیش کرنا چاہیے تھا۔ مشکل اندازِ بیان اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں قابلِ توجہ ہیں۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
دین کا صحیح فہم حاصل ہونا باری تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن دین پر استقامت اور جذبۂ دینی میں دوام اس سے بھی عظیم الشان نعمت ہے۔ ۱۹۴۱ء میں دین کا درد رکھنے والے ۷۵؍ افراد نے قافلۂ اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن راستے کی دشواریوں، سختیوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت سے لوگ تھک تھک کر رفتہ رفتہ قافلے سے بچھڑتے اور پیچھے رہتے گئے۔ معدودے چند افراد ہی کو تادمِ آخر قافلے سے قدم ملا کر چلنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایسے صاحبانِ عزیمت میں میاں طفیل محمد سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اوّل روز سے کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کا جو عہد کیا تھا، تادمِ واپسیں اس سے سرمواِنحراف نہیں کیا۔ میاں صاحب جب جماعت اسلامی میں شامل ہو رہے تھے تو ایک شان دار کیریئر ان کا منتظر تھا، مگر انھوں نے ایک خندۂ استہزا سے اسے مسترد کر دیا، والد کی شدید ناراضی بھی قبول کرلی (بعدازاں ان کے والد میاں صاحب کے فیصلے سے بے حد خوش تھے اور وفات تک ازراہِ محبت انھی کے پاس مقیم رہے)۔
میاں صاحب کی آپ بیتی مشاہدات کئی برس پہلے پروفیسر سلیم منصور خالد کی توجہ سے شائع ہوئی تھی۔ بعدازاں ان کی شخصیت پر دو ایک کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ زیرنظر کتاب ان کی بیٹی کا اپنے قابلِ فخر والد کو ایک خراجِ عقیدت ہے۔ کتاب کا پورا نام ہے: اہلِ پاکستان کے لیے راہِ نجات، معمارِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی نظر میں۔
میاں صاحب کی وفات پر بہت سے تعزیتی بیانات، مضامین اور کالم چھپے تھے۔ اپنی طویل سیاسی زندگی میں انھوں نے تاریخِ پاکستان کے بعض نازک موقعوں پر حکمرانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کی کوشش کی۔ انھیں خطوط لکھے اور بیانات بھی جاری کیے۔ پروفیسر سمیّہ نے اس کتاب میں میاں صاحب کی ایسی تمام دستیاب تحریریں، خطوط، مصاحبے (انٹرویو) اور بیانات جمع کردیے ہیں جن سے ان کی شخصیت کی کتنی ہی جہتیں واضح ہوتی ہیں اور ان کے افکارو خیالات کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ کتاب میں متعدد تصاویر بھی شامل ہیں۔مؤلفہ کے اپنے دومضامین بھی شامل ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ ترتیب و تدوین اور بہتر ہوسکتی تھی۔(رفیع الدین ہاشمی)
غزل، اُردوشاعری کی ایک توانا صنف ہے جسے کہنے کے لیے اگر گہرا مشاہدہ اور طرزِنگارش مضبوط بنیادیں نہ رکھتا ہو تو غزل کی شکل بنتی ہی نہیں۔ میر، درد اور غالب سے ہوتا ہوا غزل کا سفر موجودہ عہد تک پہنچا تو اس میں گل و بلبل کی باتوں کے ساتھ ساتھ غمِ زندگی کے بکھیڑے بیان کرنے کا سانچا بھی بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اس کوشش میں بالعموم شاعری کی لطافت دم توڑ دیتی ہے۔
تاہم ثمر حسنین نے ۵۴ غزلوں پر مشتمل اپنے اس انتخاب میں جہاں رنگِ تغزل کو محفوظ رکھا ہے، وہیں غمِ ہستی اور آشوبِ عصر کو کامیابی سے ہم قدم بنایا ہے۔ ثمرحسنین کی شاعری میں اچھائی اور بُرائی کی کش مکش کا رنگ نمایاں ہے، لیکن یہ رنگ وعظ کا روپ نہیں دھارتا بلکہ آہستگی سے دل میں سچا پیغام اُتار دیتا ہے۔ اگرچہ اس تبصرے میں اشعار پیش کرنے کی گنجایش بہت کم ہے، تاہم یہ دو مصرعے مجموعی طور پر کلام کے تیور سمجھا سکتے ہیں، جیسے :’’ امیرشہر تو سب سے بڑا بھکاری ہے‘‘، اور ’’لحد پر صرف کتبہ رہ گیا‘‘۔ (سلیم منصور خالد)
oلازوال نصیحتیں ، عاصم نعمانی۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت:۲۶۰ روپے۔[عاصم نعمانی (مولانا محمد سلطان) سیّدمودودی کے معاون خصوصی اور مرکز جماعت اسلامی میں شعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔ اُمت مسلمہ کے شان دار علمی ورثے سے تعمیر سیرت و کردار کے پیش نظر انھوں نے عربی مجموعے الوصایا الخالدہ کا لازوال نصیحتیں کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ اخلاقی و معاشرتی ہدایات پر مشتمل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کے ساتھ ساتھ خلفاے راشدین کے خطابات و نصائح بالخصوص حضرت علیؓ کے ادب پارے اور دیگر مختصر اور جامع اقوال کو یک جا کیا گیا ہے۔ ادارے نے اس کتاب کا نیا اڈیشن اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے، نیز معیاری اسلامی کتب کے تراجم پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ذاتی تزکیہ و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر تذکیر کے لیے مفید انتخاب ہے۔]
o قرآن کا نظا م خاندان، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مادیت اور معاشرتی انحطاط سے خاندان کا ادارہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ خاندان کے تحفظ اور اسلامی خطوط پر تربیت کے لیے اس کتابچے میں خاندانی نظام کے حوالے سے قرآن کی تعلیمات جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ حقوق و فرائض کے علاوہ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت، تین طلاق اور قتلِ اولاد، نیز اولڈ ایج ہوم کی شرعی حیثیت جیسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ خاندان سے متعلق اسلامی تعلیمات پر مصنف کی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔]
o اختلاف، ادب اور محبت ، سیّدثمراحمد۔ ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعات سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۳۵ روپے۔[مذہبی اختلاف کی حقیقت و نوعیت ، اہلِ علم کی روش، اور عصرِحاضر میں مسلمانوں کا رویہ کیسا ہو__ مثالوں اور واقعات سے اختصار کے ساتھ صحیح رویے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اختلافِ راے اُمت کے لیے کیسے رحمت ہے۔ حاصلِ کتاب یہ ہے کہ اختلاف کو ادب اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ مسئلے کو سمجھنے اور عمل کی تحریک پر مبنی ایک مختصر اور مؤثر تحریر۔ مدرسین قرآن و داعیانِ دین کے لیے مفید نکات۔ حوالوں کا اہتمام مزید مطالعے کی ترغیب کا باعث ہوگا۔]
o بوڑھے بادشاہ کی کہانی ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔[ڈائرکٹر ادارہ حافظ محمد ادریس کے قلم سے ’جنت کے پھول سیریز‘ کے تحت بچوں کے لیے بامقصد اور کردار سازی پر مبنی کہانیوں کی اشاعت کا آغاز کیاگیا ہے۔ زیرتبصرہ کہانی بہادر شاہ ظفر اور دیگر پانچ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جنگ ِ آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں اور انگریزوں کے مظالم کا تذکرہ ہے۔ نیز یہ کہ مسلمان کن اسباب کی بناپر زوال کا شکار ہوئے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔]
’قاضیِ شمشیر، پاکستانی سیاست اور مولانا مودودی، (فروری ۲۰۱۵ئ) سلیم منصور خالد صاحب کا اداریہ بڑا جامع اور پاکستان کی موجودہ حکومت کی سیاست کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ مولانا سیدمودودیؒ نے اس دور کے حالات کے بارے میں اپنی تقاریر اور تحریروں میں جو فرمایا، وہ آج حرف بہ حرف پورا ہورہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ملک پاکستان پر کوئی ایسی ناگہانی آفت آجائے جو اس ملک کی بقا میں حائل ہوجائے۔ ملک میں جو ہورہا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔
محترم عبدالغفار عزیز کا مقالہ ’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ، (بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑکٹا ہے) اس شمارے کی جان ہے۔ مقالہ بڑا جامع، معلوماتی اور موضوع کے اعتبار سے بڑا علمی اور قاری کی معلومات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ تمام اسلامی ممالک یک جا ہوکر غیرمسلم حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ ایسے اقدام سے باز آجائیں جو وہ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کے بارے میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ کسی ملک کا مسلمان باشندہ کسی بھی حالت میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
’قاضیِ شمشیر‘ (فروری ۲۰۱۵ئ)کی پُرمعنی اصطلاح صرف سیّد مودودیؒ ہی ایجادکرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ اللہ کے ایسے بندے دنیاے فانی سے رخصت ہوجانے کے باوجود رہنمائی و قیادت کے مقام پر فائز رہتے ہیں۔ حقیقت میں سلیم منصورخالد کی مرتب کردہ یہ تحریر، پوری قوم کی سوچوں کو جھنجھوڑنے والی اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے فکری سرمایہ اور راہِ عمل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات پر، اس سے زیادہ جامع تبصرہ (اور وہ بھی مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں) اور کیا ہوسکتا ہے؟
عبدالغفار عزیز کا ’مقالہ خصوصی‘ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ پر جامع تحریر ہے۔ اس مقالے میں اس حوالے سے عالمی سطح پر قانون سازی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کا جائزہ لینے اور عملی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی قانون سازی کے نتیجے میں آیندہ کوئی ایسی جسارت نہ کرسکے اور دنیا میں فساد نہ کھڑا کیا جاسکے۔ علمی و قانونی حلقوں کو اس حوالے سے عالمی قانون سازی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
تین مقالے شمارہ فروری کی جان ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی تحریرات سے ترتیب دیا ہوا ’قاضیِ شمشیر، پاکستانی سیاست اور مولانا مودودی‘ ملک کے موجودہ حالات میں بروقت رہنمائی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے عبدالغفار عزیز کے مقالے میں موضوع کے تمام پہلوئوں کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ تیسرا مقالہ ’عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات‘ ہے جس میں محترم مدیر نے سرمایہ داری کا جامع تجزیہ کرتے ہوئے جائزہ لیا ہے کہ اس نظام سے انسانیت نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور اکیسویں صدی میں اس کا کیا مستقبل ہے؟
’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ، بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑکٹا ہے‘(فروری ۲۰۱۵ئ) ایک جامع و مدلل تحریر ہے۔ فرانس جو امریکا کا اتحادی بن کر افغانستان میں آیا تھا، مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوکر سب سے پہلے راہِ فرار اختیار کرنے والا ملک ہے۔ اب ’کھسیانی بلّی کھمبانوچے‘ کے مصداق افغانستان میں اپنی شکست و ذلت کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔ شانِ رسالتؐ میں بے ادبی و گستاخی چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے جس ہستی سے رب تعالیٰ نے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کاوعدہ کیا ہو، کوئی اس شان کو گرانا یا کم کرنا چاہے تو یہ اس کی کم عقلی اور حماقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے عملاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ناموسِ رسالتؐ پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ، کیونکہ ایک ہی تو ہستی ہے کہ جسے مسلمان اپنے والدین، اولاد اور تمام انسانیت سے بڑھ کر عزیز جانتے ہیں۔
’غم اور پریشانی سے نجات‘ (فروری ۲۰۱۵ئ) میں لوگ روز مرہ زندگی میں جن مسائل سے دوچار ہیں، ذہنی دبائو اور جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے بارے میں عمدگی سے رہنمائی دی گئی ہے جس سے عزم و حوصلہ ملتا ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ میں ’دینی و سیاسی جدوجہد: چند اصولی پہلو‘ کے تحت ڈاکٹر انیس احمدصاحب نے جدید ذہن جن شبہات سے دوچار ہے کی رہنمائی کرتے ہوئے معتدل راہ کی نشان دہی کی ہے۔
’رسائل و مسائل‘میں ’دینی و سیاسی جدوجہد: چند اصولی پہلو‘ (فروری ۲۰۱۵ئ) کے موضوع پر بہت موزوں اور مدلل جواب دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا رہتا ہے۔ اُمید ہے کہ اس کا مطالعہ ان کی ذہنی اُلجھن دُور کرنے کا باعث ہوگا۔
ایک خاص طبقے کے بعض لوگ کچھ اور ہی نیتوں کے ساتھ اس پیچیدہ صورتِ حالات سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی خواہشِ پنہاں یہ ہے کہ کسی طرح اس ادلا بدلی میں ملک کو دستور کے ساتھ اسلامی اجزا سے محروم کر دیا جائے۔ ہمارے یہ اکابر مسلمان خصوصیت سے ’کتاب وسنت‘ کے الفاظ پر اندر ہی اندر بہت کڑھ رہے ہیں۔ انھی بڑے بڑے مرتبے کے مسلمانوں کا ذہن ہے جو کبھی کراچی ٹائمز اور کبھی پاکستان اسٹینڈرڈ کے اداریوں میں کھولتا ہوا سامنے آتا ہے۔
اپنے ان بھائیوں کو ہم خیرخواہانہ جذبے کے ساتھ متنبہ کرتے ہیں کہ راے عام کے خلاف اس طرح کی سازشیں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گی، بلکہ وہ جتنا کچھ لوگوں سے سلب کرنے کی کوشش کریں گے اُس سے زیادہ اُن کو واپس کرنا پڑے گا۔ وہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر جیسے چاہیں رنگ جما لیں، عوام میں اُن کے رجحانات کی کوئی کھپت نہیں ہے۔ اس کا اندازہ وہ اُس ہمہ گیر ردعمل سے کرسکتے ہیں جو ’سنت‘ پر فرید جعفری صاحب کے حملے کے زیراثر پاکستان کے دونوں خطوں [مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان] میں ظاہر ہو رہا ہے۔ آپ حضرات کا تصورِ اسلام کچھ بھی ہو، اجتماعی نظام تو بہرحال اجتماعی تصور ہی کے تحت چلے گا۔ اگر پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کتاب و سنت کو فکروعمل کی اساس اور زندگی کی ہدایت کا سرچشمہ مانتی ہے تو پاکستان کا دستور تو اکثریت ہی کے ایمان کے مطابق تشکیل پائے گا ، چاہے اُونچے سیاسی شیش محلوں میں زندگی بسر کرنے والے چند افراد کو کتاب و سنت کے الفاظ سے کتنی ہی شرم کیوں نہ محسوس ہو۔ یہ ملک سنت کا انکار کرنے والوں کا ملک نہیں ہے اور یہ ریاست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور عملی کردار کے مخالفین کی ریاست نہیں ہے۔ یاد رکھیے کہ ایک بار ’کتاب وسنت‘ پر پیمان باندھ لینے کے بعد آپ حضرات نے اگر اس پیمان کو واپس لینے کی کوشش کی تو آپ کا اخلاص قطعی طور پر مشتبہ ہوکر رہ جائے گا۔(’اشارات‘ نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۶، جمادی الاخریٰ ۱۳۷۴ھ، مارچ ۱۹۵۵ئ، ص ۷۲)
______________