مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۵

قراردادِ مقاصد کے پس منظر، مفہوم اور مقصود، اس کے متعین کردہ اصولِ حکمرانی اور اس کی تاریخی، سیاسی اور قانونی حیثیت کے چند اہم پہلوئوں کی وضاحت کے بعد ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند گزارشات اس حوالے سے بھی کریں کہ قراردادِ مقاصد ایک ایسا دستوری فرمان (constitutional declaration) ہے، جس کے پیچھے پوری پاکستانی قوم ہے اور جو ۱۹۴۹ء کے بعد سے ہر دستوری دستاویز یا دستور کا حصہ رہی ہے۔ سیکولر طبقوں نے جب بھی ’قراردادِ مقاصد‘ کو ہدف بنانے کی کوئی کوشش کی، ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ اس کے پیچھے جو قومی اجتماع کی قوت ہے، وہ اسے ہر دوسری دستاویز پر فوقیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ صرف دستور کا دیباچہ ہے بلکہ دستور کے قابلِ نفاذ (operational) حصے میں شامل ہے اور اس میں یہ واضح ہدایت موجود ہے کہ اس قرارداد کا عملاً اطلاق ہر معاملے پر ہوگا۔

دستور کی دفعہ ۲-اے کے یہ الفاظ بڑے اہم اور فیصلہ کن ہیں کہ:

اسے یہاں دستور کا لازمی حصہ (substantive part) بنایا جاتا ہے اور اس کے مطابق فوری مؤثر ہوگا۔

یعنی قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اور طے شدہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے اور وہ اپنی ہیئت اور روح کے مطابق مؤثر ہوں گے۔

یہ تصریح قراردادِ مقاصد کے اصول و احکام کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور سے اس طرح متعلق کر رہی ہے کہ اب دستور کو ان کی روشنی میں سمجھا اور نافذ کیا جائے گا۔ اس ضمن میں اگر کہیں کوئی اشکال ہو، تو اس کو مناسب دستوری طریقے سے رفع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سیاسی جماعتوں کا قانون اور قراردادِ مقاصد

قراردادِ مقاصد اور دستور، قانون اور اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات پر قومی اسمبلی میں جولائی ۱۹۶۲ء میں تفصیل سے بحث ہوئی اور پھر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا قانون زیربحث آیا۔ اس میں متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے سیاسی جماعتوں کے لیے اسلامی نظریے کو بحیثیت ’نظریۂ پاکستان‘ شامل کیا اور ضروری قرار دیا کہ ’’ وہ اسلامی نظریے یا پاکستان کی وحدت یا سلامتی کے خلاف نہ ہو‘‘۔ اس بحث میں صدر جنرل محمد ایوب کی کابینہ کے وزیر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے ایوان میں جو بیان دیا تھا، اسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے:

جناب عالی! دستور میں پہلے ہی یہ واضح طور پر لکھا جاچکا ہے کہ اسلام ہماری ریاست کی اساس ہے۔ یہ حقیقی صورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دیباچہ (preamble ) قابلِ نفاذ ہے یا نہیں۔ ایک دیباچہ دستور کی کلید ہوتا ہے۔ یہ دستور کا منشور ہے۔ دستور کے اس مثالی چارٹر (ضابطے) میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک علاقائی ریاست سے ممتاز ایک نظریاتی ریاست ہوگا۔اگر ہمارے نظریۂ حیات کو چیلنج کیا گیا تو ہم اپنے نظریۂ حیات کی برتری ثابت کریں گے۔ ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ ہم اپنے مذہب کے لیے جان دے دیں گے اور اپنے نظریۂ حیات کے لیے بھی جان دے دیں گے.... اگر سیاسی جماعتوں کا اہم ترین … مقصد کسی ایک ملک کی حکومت کو سنبھالنا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کی روح اور مینڈیٹ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔ اگر پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، تو سیاسی جماعتوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ دستور کے بنیادی احکامات (dictates) کے عین مطابق کام کریں۔ (National Assembly of Pakistan Proceedings، ۱۱جولائی ۱۹۶۲ئ، ص ۱۳۵۵-۱۳۵۶)

دیکھیے قراردادِ مقاصد اس وقت صرف دستور کا دیباچہ تھی۔ اس دیباچے کے پورے دستور اور سیاسی نظام کے لیے کیا تقاضے تھے یہ شروع ہی سے واضح تھے۔

سابق چیف جسٹس کارنیلیس کا اعتراف

آیئے، دیکھیں کہ اس سلسلے میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب اے آر کارنیلیس (جو خود رومن کیتھولک تھے مگر پاکستان کے مزاج شناس تھے) کیا کہتے ہیں۔۱۱مارچ ۱۹۶۵ء کو   ایس ایم لا کالج ،کراچی میں دوسری کُل پاکستان لا کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ان کا ارشاد تھا:

عظیم قرارداد مقاصد بھی ہمارے دستور کا حصہ ہے، جو آزادی عطا ہونے کے فوراً بعد کے زمانے میں، دستورسازی کے دوران بہترین ذہنوں کے اتفاق راے کی نمایندگی کرتی ہے۔ قراردادِ مقاصد میں پاکستان کے دنیوی معاملات کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ ان کو جمہوری انداز میں طے (conduct) کیا جائے تاکہ اسلام کے احکام کے مطابق مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنایا جاسکے۔ بنیادی حقوق بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ہیں، جو جمہوری انداز میں معاشرتی عدل، رواداری اور انصاف کے لیے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ ایک جج جو دستور کے دیے ہوئے بنیادی حقوق کی تفصیلی وضاحت (expound) کرتا ہے، اس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ان اعلیٰ ذرائع سے تحریک پائے گا، جو ہمیشہ کے لیے قرآنِ مجید کے الفاظ میں ثبت (inscribe) کردیے گئے ہیں۔ اگرچہ عدالتوں میں بنیادی حقوق کے اطلاق سے متعلق مقدمات میں مسائل و معاملات کی ایک بڑی تعداد بھی زیربحث آتی رہتی ہے، تاہم عدالت کبھی کبھار ہی اس سوال پر اس لحاظ سے غور (adress)کرتی ہے کہ اس قانون کو     اسلام کے اصولوں کے حوالے سے کس طرح سمجھا جائے۔ میں مستقبل میں وہ دن دیکھتا ہوں جب ایک وکیل اپنے مقدمے کے حقائق بیان کرنے کے بعد، ان بنیادی حقوق کا جوہر بیان کرنے کے بعد جو قابلِ اطلاق ہے، وہ عدالت کے سامنے اپنا نقطۂ نظر  رکھے گا کہ متعلقہ آیاتِ قرآنی پر کس طرح اس کا اطلاق کیا جائے۔

پاکستان میں مذہبی شعور کے تحت بنیادی حقوق کا اطلا ق ہونا چاہیے۔ بنیادی حقوق کی وضاحت اور اطلاق اسلام کی اخلاقی اقدار کے مطابق مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے ملکوں میں رائج جمہوری انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں صرف پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں دستور کے تقاضوں کے تحت دنیوی معاملات کو مذہبی شعور کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ (Law and Judiciary in Pakistan  اے آر کارنیلیس، تدوین و ادارت: ڈاکٹر ایس ایچ حیدر، لاہور لا،  ٹائم پبلی کیشنز، لاہور، ص ۶۶-۶۷)

جسٹس اے آر کارنیلیس نے پاکستان کے دستور کے موضوع پر ڈھاکے میں کونسل آف نیشنل انٹگریشن کے اجلاس سے ، ۱۵ جون ۱۹۶۷ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

دستور کا دیباچہ [قراردادِ مقاصد] یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ اسلام کے وضاحت سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصول مکمل طور پر اختیار کیے جانے چاہییں۔ اگر تسلیم شدہ نظام (حکومت) اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی خواہش کو عمل میں نہ لایا جائے تو یہ دستور سے دھوکا ہوگا۔ اس مقصد کو مختصر طور پر     اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک انسانی معاشرے کی تنظیم جس میں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پورا موقع ملے، وہ جمہوریت جہاں مذہب اسلام کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق  ’انصاف سب کے لیے برابر‘ کا اصول رائج ہو۔

اس خطبے کا اختتام جسٹس کارنیلیس نے ان لفظوں میں کیا:

ہمارا دستور ہر چیز کو ایک واحد متحد (unifing) کرنے والے مرکزی اصول کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ایک ایسا متحد کرنے والا اصول، جس کے تحت ہر معاملے میں ہمہ مقتدر طاقت ہے جس کے سامنے حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے دار سے لے کر ایک عام شہری اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کے لیے پلٹے گا۔ ۱۲صدیوں میں  اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں روایت اور ثقافت میں جو ارتقا ہوا ہے، اس کے جواز کے لیے دستور اعتماد دیتا ہے۔ اس یقین پر مبنی انسانی نسل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ زمین پر امن کا ایک اخلاقی نظام تخلیق کیا جائے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام، یعنی مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں کو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اسلام کا اخلاقی نظم و ضبط، انصاف اور سچائی کے بنیادی تصورات پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے امکانات بہت روشن ہیں۔ یہ وہ روح ہے جسے میں دستور کے ضمیر کی حیثیت سے سمجھا ہوں۔ (کتاب مذکورہ، ص۱۷۲-۱۷۴)

جسٹس کارنیلیس نے اس سلسلے میں عدالت کے کردار کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کرتے ہوئے ارشاد کیا ہے:

جب کوئی مقننہ، ایسا قانون منظور کرتی ہے جو بنیادی حقوق کی براہِ راست خلاف ورزی کرتا ہے، وہ قانون دستور کی رُو سے غیرمؤثر (void) ہے، اور عدالتیں رٹ (writ) کی حدود پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ (ایضاً، ص۹۴)

بات صرف بنیادی حقوق تک محدود نہیں۔ جسٹس کارنیلیس بڑی صراحت اور جرأت کے ساتھ کہتے ہیں کہ:

لیکن عوام یہ بھی خواہش کرسکتے ہیں کہ عدالتیں، ان تمام اُمور میں جو وہ سرانجام دیتی ہیں، قانون کا نفاذ قرآن و سنت کے مطابق کریں جیساکہ دستور میں چاہا گیا ہے۔ ہرشخص کو یہ سوال درپیش ہے کہ آیا وہ اپنے فرائض مناسب طور پر ادا کر رہا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ہر وکیل کے ذہن میں بھی ہونا چاہیے، جب وہ کسی خاص معاملے پر دلائل دینے کے لیے کھڑا ہو کہ کیا میں یہ کام دستور کے تقاضوں کے مطابق کر رہا ہوں، یا بلاشبہہ اس مقصد کے مطابق کہ جس کے لیے ملک قائم کیا گیا تھا؟

اور وہ مقصد کیا ہے؟ ایک خدا ترس اور پاکستان کے وفادار غیرمسلم ماہر قانون کی زبان سے سن لیجیے:

یہ ایک حقیقت ہے کہ فقہا اور فلسفی دونوںفلسفے کے سیاسی یا ہیئت کے معاملات میں اعلیٰ ترین سطح پر ان کے نتائج سے کتنے ہی متنبہ کیوں نہ ہوں، شریعت کے حتمی احکامات و اقدامات جو کچھ وہ کہتے ہیں ، کی طرف بار بار پلٹتے ہیں۔ اس کا واضح ہدف یہ ہے کہ ہرشخص کو اپنی زندگی اس طرح گزارنی چاہیے، جس طرح اللہ نے اس کے لیے مقدس کتابوں میں درج کیا ہے۔ پوری قوم کو بھی اپنے تمام معاملات میں یہ ہدایت ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں اس دنیا کے ساتھ بعد کی دنیا میں بھی تحفظ اور سلامتی فراہم ہوجائے گی۔ چنانچہ مجھے یقین ہے کہ ایک مسلم ملک میں زندگی شریعت کے مطابق گزاری جانی چاہیے۔ (ایضاً، ص۳-۳۸۲)

دستوری جدوجھد کے مراحل

قراردادِ مقاصد کے کیا تقاضے ہیں اور دستور کس نظامِ زندگی کا مطالبہ کرتا ہے؟ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ ایک مخصوص طبقے نے ذہنوں کو تذبذب، اور شکوک و شبہات سے آلودہ کرنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی  ہردور میں کوشش کی ہے لیکن بالآخر قوم کے دل کی آواز غالب آکر رہی ہے۔ اس سفر کے چند مراحل پر نگاہ ڈالنے سے اس کش مکش کے خدوخال اور پھر کش مکش سے نکلنے کا راستہ بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے۔

قراردادِ مقاصد ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کی گئی اور دستورسازی کی طرف پہلے قدم کے طور پر اس دن جو کمیٹی یعنی Basic Principles Committee (بنیادی اصولوں کی کمیٹی) قائم ہوئی،  اس کمیٹی نے قراردادِ مقاصد کی روشنی میں کام کرنے کے لیے پہلا کام یہ کیا کہ ’تعلیمات اسلامیہ بورڈ‘ قائم کیا جس کے سربراہ مولانا سیّد سلیمان ندوی تھے، اور یہ بورڈ جید علما پر مشتمل تھا۔ مولانا ظفراحمد انصاری اس کے سیکرٹری تھے۔ ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ کی پہلی رپورٹ ستمبر ۱۹۵۰ء میں پیش ہوئی اور اس میں قراردادِ مقاصد کو ریاست کے رہنما اصول (Directive Principles of State Policy) کے طور پر تجویز کیا گیا۔

اس کے بعد دستور کا جو بھی خاکہ تھا اس میں سرفہرست قراردادِ مقاصد تھی۔ ۱۹۵۶ئ، ۱۹۶۲ء اور پھر ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد دیباچے کے طور پر شامل تھی۔ ریاست کے رہنما اصولوں میں قراردادِ مقاصد کے اصول و احکام کی صراحت تھی اور یہ اصول طے کیا گیا تھا کہ: ’’کوئی قانون سازی قرآن و سنت سے متصادم نہیں کی جاسکے گی اور موجود الوقت تمام قوانین کو بھی ایک معقول مدت میں قرآن و سنت کے مطابق کر دیا جائے گا‘‘۔

جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت میں پہلی اور آخری کوشش قراردادِ مقاصد کو مجروح اور غیرمؤثر کرنے اور دستور سے اسلامی دفعات کو نکالنے یا غیر مؤثر کرنے کی کی گئی۔ انھوں نے ۱۹۶۳ء میں جو دستور ایک آمر کی حیثیت سے ملک پر مسلط کیا، اس میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے نام سے ’اسلامی‘ نکال دیا گیا اور اسے صرف ’جمہوریہ پاکستان‘ بنادیا۔ تاہم قراردادِ مقاصد کو دستور کے دیباچے کے طور پر شامل ضرور کیا مگر اس کا سب سے اہم پہلو، یعنی تمام اُمورِ حکمرانی قرآن و سنت کی حدود میں [یعنی: within the limits prescribed by Him. ] انجام دیے جائیں گے‘‘، حذف کردیا گیا۔ اسی طرح یہ دفعہ کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور قانون سازی کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کے لیے ایک ’کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی‘ ہوگی، کو بھی دستور سے خارج کر دیا گیا۔ صدر موصوف کا خیال تھا کہ وہ ڈنڈے کے زور پر قراردادِ مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات کو غیرمؤثر کردیں گے، لیکن ۱۹۶۲ء کے دستور کے تحت ان کے اپنے طے کردہ نظام کے ذریعے جو اسمبلی وجود میں آئی، اس نے پہلا کام یہی کیا کہ قراردادِ مقاصد اور دستور پر ان چیرہ دستیوں کا نوٹس لیا۔ پہلے ہی سیشن میں ایک قرارداد اس موضوع پر آئی کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کیا جائے اور طویل بحث کے بعد یہ قرارداد منظور ہوگئی۔

پھر حکومت، سیاسی جماعتوں کے بارے میں ایک قانون Political Parties Act کی شکل میں لائی۔ اس قانون کو اس وقت  کے وزیر قانون سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد منیر نے پیش فرمایا۔ اس قانون میں سیاسی جماعتوں کے لیے شرط تھی کہ وہ پاکستان سے وفاداری کا عہد کریں گی، اور کوئی ایسی جماعت وجود میں نہیں آسکے گی، جو پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی کے باب میں معتبر نہ ہو۔ یہ قانون، کمیٹی کے سپرد ہوا، جس نے ترمیم کی کہ وفاداری صرف پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی ہی سے نہیں بلکہ پاکستان کے نظریے (Ideology of Pakistan) سے بھی ہونی چاہیے۔ ایوان میں یہ ترمیم کی گئی کہ آئیڈیالوجی کی وضاحت صاف لفظوں میں کی جائے اور اسے Islmamic Ideology کہا جائے۔ بڑی بحث کے بعد اور وزیرقانون کی بہت سی کہہ مکرنیوں کے بعد ایوان نے طے کیا کہ سیاسی جماعتوں کے قانون میں اسلامی آئیڈیالوجی سے وفاداری لازماً شامل کی جائے گی اور خود وزیرقانون جسٹس (ریٹائرڈ) محمدمنیرصاحب نے کئی راتوں کے غوروفکر کے بعد ایوان میں بیان دیا کہ خیال رہے کہ قانون میں اسلامی آئیڈیالوجی کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

جسٹس (ر) محمد منیرصاحب نے اور دوسرے وزرا نے پہلے بل کو اصل شکل میں منظور کرانے کی کوشش کی تھی لیکن ایوان میں کی جانے والی تقاریر اور ارکان کے موڈ کو دیکھتے ہوئے پسپائی اختیار کی اور بالآخر ’اسلامی نظریے‘ سے وفاداری قانون کا حصہ بنی۔ جسٹس (ر) محمد منیرصاحب کی تقاریر سے دو اقتباس صورتِ حال کو سمجھنے میں بڑے معاون ہوں گے۔

۱۱ جولائی ۱۹۶۲ء کو بحث کا رُخ دیکھ کر انھوں نے فرمایا:

جناب عالی! اصل میں لفظ آئیڈیالوجی موجود نہیں ہے۔ جب میں بل کو ڈرافٹ کر رہا تھا میں نے اس سوال پر غوروخوض کیا کہ آیا لفظ آئیڈیالوجی آنا چاہیے یا نہیں؟ بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ اس لفظ کو……… نہ کروں۔ کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ ان الفاظ، یعنی نظریۂ پاکستان کی تعریف کرنا بہت مشکل ہوجائے گا لیکن سلیکٹ کمیٹی نے اس لفظ کو شامل کردیا ہے اور اب ایک ترمیم لائی گئی ہے کہ الفاظ آئیڈیالوجی آف پاکستان کی تعریف بطور اسلام کی جائے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس بارے میں بے تعلق ہوں کہ لفظ آئیڈیالوجی ہونا چاہیے، یا نکال دینا چاہیے، یا اس کی تعریف بطور اسلام کی جانی چاہیے۔ میں یہ بات ایوان پر چھوڑتا ہوں۔

ایوان نے پورے زور و شور سے ’اسلامی نظریہ‘ کو قانون میں شامل کیا اور پھر جسٹس (ر) محمدمنیرصاحب جنھوں نے پنجاب کے فسادات پر کورٹ آف انکوائری رپورٹ میں اسلام اور اسلامی ریاست کے تصور پر تیر چلائے تھے، ترمیم کے بارے میں ہاں کہنے پر مجبور ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ ۱۵ برس بعد اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں نہ صرف یہ کہ ایک بار پھر اپنی پرانی پوزیشن کا اعادہ کیا بلکہ قائداعظم کے الفاظ تبدیل کرکے انھیں سیکولرزم کا حامی بنا کر پیش کیا۔  ’نظریۂ پاکستان‘ کو جنرل ضیاء کی اختراع قرار دیا اور قراردادِ مقاصد کو قائداعظم کے تصورِ پاکستان کے منافی ارشاد فرمایا۔ لیکن دیکھیے یہاں کیا فرماتے ہیں:

میں نے اس معاملے پر گہرا غوروفکر کیا ہے اور میں یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ آئیڈیالوجی کے الفاظ کو شامل کرنا کسی بھی طرح اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ اقلیتوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی جماعتیں اس شرط کے ساتھ قائم کرسکیںکہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایسے پروپیگنڈا میں تبدیل نہ کردیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں۔ یہ سب ………… پر منحصر ہے کہ وہ لفظ اسلامی چاہتے ہیں یا نہیں۔

ایک رکن اسمبلی جناب محبو ب الحق نے سابق جج صاحب کو یاد دلایا کہ منیر رپورٹ کے ص۲۰۱ پر انھوں نے اس سے مختلف بات کی ہے لیکن اسپیکر نے اعتراض کو رد کر دیا اور کہا کہ وہ ذاتی ریفرنسوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ لیکن تاریخ نے اس منظر کو محفوظ کرلیا۔ بلاشبہہ عزت و ذلت کے باب میں اللہ تعالیٰ کا اپنا قانون ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ اس کے بعد جلد ہی جسٹس (ر) منیرصاحب نے وزارتِ قانون سے دستبرداری اختیار کرلی۔

قرآن و سنت کی روشنی میں تمام قوانین کی تبدیلی کی قرارداد اور سیاسی جماعتوں کے قانون میں ’اسلامی نظریہ‘ کا اضافہ دراصل قراردادِ مقاصد کی اصل روح کا اعادہ تھے اور یہ دونوںجنرل ایوب خان اور ان کے سیکولر حواریوں کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہ تھے۔ فوجی حکمرانی کے تمام تر کروفر کے باوجود انھیں یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی۔ ان تبدیلیوں کے بعد اگلا مرحلہ خود دستور میں ترمیم کے ذریعے قراردادِ مقاصد سے انحراف کے باب میں جو اقدام کیے گئے تھے ان کی اصلاح کا تھا۔ یہ کام بھی قوم کے دبائو میں اسمبلی نے شروع کر دیا اور بالآخر ۱۹۶۲ء کے دستور میں ترامیم کرنے کے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ایوان نے قراردادِ مقاصد کے حدود اللہ کے دائرے میں اختیارات کے استعمال کی شق جسے خارج کردیا تھا، اسے بحال کرایا گیا۔ مملکت کا نام دوبارہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ قرار دیا گیا۔ قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی پر پابندی کی دفعہ کو بھی بحال کیا گیا اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کو بھی ایک دستوری ادارے کے طور پر دوبارہ قائم کیا گیا۔   اس طرح قراردادِ مقاصد پر جو حملہ ہوا تھا اسی اسمبلی نے جو فوجی آمر کی منشا کے مطابق وجود میں آئی تھی اس کو غیر مؤثر کردیا اور سیکولر لابی ہاتھ مَلتی رہ گئی۔

اُوپر کی گزارشات سے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں : ایک یہ کہ قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کے مقاصد کی ترجمان اور پاکستانی قوم کے جذبات، احساسات، عزائم اور تصورات کا مظہر ہے۔  یہ قوم اور ریاست کے درمیان اللہ کو گواہ کر کے ایک معاہدے کی حیثیت رکھتی ہے، اور دستور، حکمران اور تمام ریاستی ادارے بشمول مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اس کے تابع ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں تبدیلی یا اس سے انحراف قوم کے لیے کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ دستور کے لیے اس کی حیثیت ماں کی سی ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قرارداد دستور کی صورت گر ہے، دستور کے تابع نہیں۔ اس کے دیے ہوئے اصول و احکام ہی دستور کا اصل جوہر ہیں اور ان کی تنسیخ یا ترمیم اس قوم کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں جو بھی کوشش ماضی میں ہوئی وہ ناکام رہی اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ گیلپ، پیو (PEW) اور NDI کے زیراہتمام کیے جانے والے تمام ہی عوامی جائزے اس ایک بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی آبادی کی عظیم اکثریت (۸۰ سے ۹۰ فی صد) اُس نظام کے حق میں ہے جس میں شریعت کی بالادستی ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل اپنے دین کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور شریعت ہی ان کے لیے زندگی کی اصل شاہ راہ ہے۔

قراردادِ مقاصد بہارتی قرارداد کا چربہ ؟

فاضل جج جناب ثاقب نثار صاحب نے اپنے اضافی نوٹ میں جہاں بھارت کی دستوری تاریخ اور وہاں کے دستوری ڈھانچے کے تصور کے ارتقا اور موجود دستوری پوزیشن کا بڑی محنت اور بالغ نظری سے جائزہ لیا ہے وہیں قراردادِ مقاصد اور پاکستان کے دستور کے بارے میں کئی ایسی باتیں کہی ہیں جن پر کلام کی ضرورت ہے۔ اختلاف راے زندگی کی بڑی مقدس روایت ہے اور     ہم اختلافی آرا کے احترام کے قائل ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو باتیں حقائق کے منافی ہوں یا حالات کی غلط تعبیر کا ذریعہ بن رہی ہوں، ان پر گفتگو اور احتساب کا عمل روک دیا جائے۔ اصلاحِ احوال کے لیے ایسے اُمور پر بحث و تنقید فکری اور تہذیبی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ہم ان چند اہم اُمور کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے اُٹھائے ہیں اور خود ان کو اور   اہلِ علم کو دعوت دیتے ہیں کہ ان اُمور پر حقائق اور دلائل کی روشنی میں اپنی اپنی راے قائم کریں۔

ان کی یہ بات درست ہے کہ قراردادِ مقاصد اور اس میں بیان کردہ اصول و احکام اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں، جیساکہ وہ اگست ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا تھا، بہت سے تضادا ت تھے۔ ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ دستور میں کئی ترامیم اس کا حلیہ بگاڑنے اور انسانی حقوق اور عدلیہ کے حقوق پر دست درازی کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بنیں۔ پھر ان کی یہ راے بھی درست ہے کہ حالیہ ترامیم جن میں ۱۸ویں ترمیم خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے، تضادات کو کم کرنے اور دستور کو بحیثیت مجموعی بہتر بنانے کا ذریعہ بنی ہیں۔

قراردادِ مقاصد کی تعبیر اور اس کے مقام کے تعین میں گو ہمیں کوئی ابہام نہیں لیکن ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ اس باب میں ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان پر بحث اور مکالمہ ہونا چاہیے لیکن جن اُمور کے بارے میں ہم شدید اضطراب کا شکار ہیں ان میں سرفہرست ان کا یہ دعویٰ ہے کہ قراردادِ مقاصد پاکستان کی اپنی سوچ اور تخلیق نہیں بلکہ اس کا سلسلۂ نسب بھارت کی جنوری ۱۹۴۸ء کی بھارتی قراردادِ مقاصد سے جاملتا ہے جو پنڈت نہرو نے پیش کی تھی ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی قرارداد اپنے عنوان اور مندرجات کے اعتبار سے بھارتی قرارداد کا چربہ ہے۔

بلاشبہہ وہ قراردادِ مقاصد کے پہلے پیراگراف کو جس میں حاکمیت الٰہیہ کا اقرار ہے، تعریف و توصیف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسے بانیانِ پاکستان کے تصور کا عکاس تسلیم کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی حاکمیت کے تصور کو مؤثرانداز میں پیش کرتا ہے، اور اس امر کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں عوام کے کلیدی کردار اور اقتدار کے ایک امانت ہونے کا تصور موجود ہے (پیراگراف ۱۲۳ اور ۱۲۴)۔ لیکن اس اعتراف کے معاً بعد وہ یہ سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ اس ابتدائیے اور اس کے بعد کی دفعات کی حیثیت مساوی نہیں ہے۔ ان ہی کے الفاظ میں ان کے اشکال اور دعویٰ کو دیکھ لیجیے:

تاہم بقیہ قرارداد کو بھی یہی حیثیت دینا واضح طور پر تاریخی ریکارڈ سے بہت دُور تک بہک جانا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی تصوراتی بنیادیں اور مشتملات جو (۱۲ مارچ ۱۹۴۹ئ) کو منظور ہوا، جب کہ قائداعظم رحلت فرما چکے تھے، نہ پاکستان کے لیے منفرد ہیں اور  نہ بلاشبہہ قرارداد کی رسمیات ملک کے اندر…(ص ۱۲۴)

ان کا دعویٰ ہے کہ پنڈت نہرو نے بھارت کی دستور ساز اسمبلی میں جو قراردادِ مقاصد  پیش کی اور جو ۲۰جنوری ۱۹۴۸ء کو وہاں منظور کی گئی وہ پاکستان کی قرارداد کا منبع ہے اور پاکستانی قرارداد کی ہیئت (structure) حتیٰ کہ اس کے مندرجات (content)بھی بھارت کی قرارداد سے مستعار ہیں اور گویا اس کا ہی چربہ ہیں۔

عنوان کا اشتراک اور ہیئت کس طرح دو قراردوں، دو قوانین کو ایک جیسا یا ایک دوسرے کا چربہ بنا دیتے ہیں، ہمارے لیے اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔

پاکستانی اور بہارتی قرارداد کا موازنہ

دستور کا لفظ دنیا کے ۲۰۰ دساتیر میں مشترک ہے۔ سول لا، کریمنل لا، کمرشل لا، نہ معلوم کتنے قوانین ہیں جن کے عنوان، ہیئت اور الفاظ تک سیکڑوں ملکوں کے قوانین میں مشترک ہوتے ہیں لیکن محض اس ظاہری مماثلت سے وہ قانون نہ ایک دوسرے کا چربہ بن جاتے ہیں اور نہ ان کی انفرادیت اس سے متاثر ہوتی ہے بشرطے کہ ان کا اپنا مقصد واضح اور مؤثر ہو۔ دونوں کو ’قراردادِ مقاصد‘ کہنے سے بعد کی قرارداد پہلی قرارداد کا سایہ اور طفیلی کیسے بن گئی؟ ہمارے لیے یہ ایک معما ہے۔ ہاں، مندرجات، اصولوں اور احکام کی بات دوسری ہے اور ان میں مکمل مماثلت شبہات کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے آیئے اپنی توجہ مندرجات پر مرکوز کریں اور دونوں کا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان میں مشترکات کیا ہیں اور کون سی چیزیں ان کو ایک دوسرے سے مختلف اور ممتاز کرتی ہیں:

                ۱-            ہندستانی قراردادِ مقاصد میں آٹھ دفعات ہیں اور پاکستانی قرارداد مقاصد میں ۱۲ دفعات ہیں۔

                ۲-            پاکستانی قرارداد کا آغاز تصورِ کائنات، تصورِ حیات اور حکمرانی کے اصول و آداب کے ایک واضح تصور سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، اقتدار کے امانت ہونے اور اسے عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے مگر اللہ کی دی ہوئی حدود کے دائرے میں استعمال کیے جانے کے محکم اصول کے اثبات سے ہوتا ہے۔ بھارت کی قرارداد میں کسی تصورِ حکمرانی کا کوئی ذکر نہیں۔ وہ سیدھے سیدھے ہندستان کو ایک آزاد، خودمختار ریاست قرار دیتے ہوئے دستورسازی کے لیے ہدایت دیتی ہے۔ مستقبل کے وژن کا کوئی پرتو یا کسی خاص نظریاتی منزل کا کوئی اشارہ اس دیباچے میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اصل دستور میں شامل نہیں کیا گیا اور ایک دوسرا دیباچہ لکھا گیا جیساکہ ہم بعد میں عرض کریں گے۔

                ۳-            پاکستانی قرارداد میں اسلام کو حکمرانی ہی نہیں زندگی کے پورے نظام کے لیے رہنما اصول اور مسلمانوں کو اسلامی نظامِ حیات کی تعلیم اور ان کے مطابق زندگی کی صورت گری کے اہتمام اور اس کے لیے ریاستی وسائل کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کوئی بات ہندستان کی قرارداد میں دُور دُور تک نہیں ہے۔

                ۴-            ایک اور نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستانی قرارداد کی زبان اور انداز اللہ کی حاکمیت کے ساتھ ایک نئے نظام کے قیام کا اعلان کرتا ہے اور یہ نظام عوام کی مرضی اور عزائم کے اظہار کی شکل اختیار کرنے پر قانع نہیں ہوتا بلکہ تبدیلی کے ایک رُخ کو متعین کرتا ہے اور اس سمت میں پیش رفت کے لیے حکمیہ انداز میں (command and direction) اختیار کرتا ہے۔ پوری قرارداد میں اندازِ حاکمانہ ہے کہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کو کیا کرنا ہے۔ ہندستان کی قرارداد روایتی انداز میں دستور میں کچھ چیزوں کو سمونے اور حاصل کرنے تک محدود ہے، جب کہ پاکستان کی قرارداد کا ہرجملہ ایک نئے نظام کے قیام کی دعوت کے ساتھ واضح ہدایت اور حکم کا انداز لیے ہوئے ہے اور تبدیلی کا پیغام دے رہا ہے۔

                ۵-            غیرمسلموں اور اقلیتوں کے سلسلے میں پاکستانی قرارداد میں دو دفعات ہیں، جب کہ ہندستانی قرارداد میں صرف ایک دفعہ ہے۔

                ۶-            پاکستانی قرارداد میں عدلیہ کی آزادی اور اس کے تحفظ کا واضح ذکر ہے، جو ہندستانی قرارداد میں موجود ہی نہیں ہے۔

                ۷-            عوام کے سرچشمۂ اختیار، حکمرانی کا ذریعہ اور نمایندگی کے اصول کا جتنا واضح بیان پاکستانی قرارداد میں ہے وہ ہندستان کی قرارداد میں نہیں۔ پاکستانی قرارداد میں ابتدائیہ ہی میں کہا گیا ہے کہ:’’یہ اختیار جو پاکستان کے عوام استعمال کر یں گے ‘‘۔

                                دوسری دفعہ میں اس پوری قرارداد کو عوام کی آواز قرار دیا گیا ہے، یعنی:’’یہ پاکستان کے عوام کی مرضی (will) ہے کہ ایک نظام…… قائم کیا جائے‘‘۔

پھر تیسری دفعہ میں اس اصول کو ایک محکم قدر (value) کی حیثیت سے طے کردیا گیا ہے کہ:’’جہاں ریاست اپنا اقتدار و اختیار عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘‘۔

عوام کے کردار کے بارے میں یہ تین واضح احکام ہیں۔ ہندستانی قرارداد کا انداز ہی بالکل مختلف ہے۔ اس میں دوسری اور تیسری دفعہ علاقوں اور بائونڈریز کے ذکر سے بھری ہوئی ہیں اور عوام کا ذکر صرف چوتھی دفعہ میں آیا ہے اور وہ بھی اس اعلان کی شکل میں کہ ساری قوت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ منتخب نمایندوں کے ذریعے نظامِ حکومت کے چلانے کا جو واضح اعلان پاکستانی قرارداد میں ہے وہ ہندستانی قرارداد میں نہیں ملتا۔

                ۸-            دو دفعات ایسی ہیں کہ جن میں کچھ لفظی مشابہت پائی جاتی ہے، یعنی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت کے بارے میں۔ لیکن یہ وہ مسائل ہیں جن کے بارے میں دنیا کے تمام دساتیر’یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس‘، ’یوروپین کنونشن آف ہیومن رائٹس‘،   ’بل آف رائٹر‘ سب ہی میں تھوڑے بہت تغیر و تبدل کے ساتھ ایک جیسی اصطلاحات اور الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس نوعیت کی مماثلت کو چوری اور نقالی قرار دینا حق و انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہندستانی قرارداد میں مختلف انسانی حقوق کا ذکر ہے لیکن انسانی حقوق بحیثیت ایک تصور اور مرکزی اور اوّلین concept کے اس میں موجود نہیں ،  جب کہ پاکستانی قرارداد کے الفاظ زیادہ مؤثر اور واضح ہیں اور الفاظ کی ترتیب اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز ہی میں بنیادی حقوق کے جامع تصور کو بیان کیا گیا ہے اور مختلف حقوق کا ذکر بعد میں ہے۔  یہ الفاظ غورطلب ہیں:

جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی بشمول…………

ہندستانی قرارداد میں fundamental rightکی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی اور پاکستانی قرارداد میں including کے لفظ نے بڑی وسعت دے دی ہے۔ جن حقوق کا فرداً فرداً ذکر کیا گیا ہے ان کی ضمانت تو بلاشبہہ دی جارہی ہے مگر حقوق ان کے علاوہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح عدلیہ اور مقننہ دونوں کو حقوقِ انسانی کے ایک وسیع تر تصور کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

کم از کم یہ آٹھ پہلو ایسے ہیں جن کی روشنی میں پاکستانی قرارداد کا ہندوستانی قرارداد سے مختلف ہونا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قرارداد کی اپنی منفرد شخصیت ہے۔ حاکمیت الٰہیہ،   اللہ کی طے کردہ حدود کے اندر انسانی اقتدار کی کارفرمائی، اقتدار کا امانت ہونا، مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لائق بنانے کی دستوری ذمہ داری وہ چیزیں ہیں جو پاکستانی قرارداد کو ایک نظریے کی علَم بردار اور تبدیلی کی واضح سمت کو متعین کرنے والی بنا دیتی ہے۔ ہندستانی قرارداد میں ایسی کوئی چیز نہیں۔

دوسری چیز ایک واضح نئے نظام کے قیام کا تصور اور اس کے لیے حکمی انداز (command and direction) کا رنگ غالب ہے جو ہندستانی قرارداد، اس کی زبان اور انداز میں نہیں پایا جاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں وہاں کی قراردادِ مقاصد کو دستورسازی کے لیے ایک ابتدائی ہدایت تو ضرور سمجھا گیا لیکن اسے بجاطور پر اس لائق نہیں سمجھا گیا کہ نئے ہندستانی دستور میں وہ دستور کے دیباچے کے طور پر شامل کی جائے ، جب کہ پاکستانی قراردادِ مقاصد کی ایک مستقل اہمیت ہے۔ وہ ایک وقتی ہدایت نہیں، ایک مستقل مشعلِ راہ ہے اور اسے دستور کا نہ صرف دیباچہ بنایا گیا ہے بلکہ اس کو بالآخر دستور کا ایک قابلِ نفاذ حصہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ ہندستانی قرارداد اس لیے بھی دستور کے مقدمے کے لیے ناموزوں تھی کہ اس میں فیڈریشن کا جو تصور دیا گیا ہے، دستور کے برعکس ہے۔ قرارداد کی دفعہ تین میں ملک کی مختلف ریاستوں اور یونٹس کے بارے میں یہ اصول بیان کیا گیا تھا کہ:

خودمختار یونٹوں کی حیثیت بشمول residency اختیارات پر قابض ہوگی اور برقرار رکھے گی۔(درگا داس باسو، ایس سی، جلد۱،ص ۳۴)

دستور میں اس اصول کو تبدیل کردیا گیا ہے اور فیڈریشنوں میں شامل ہونے والی یونٹس کے residency powers کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ residency power کو  صوبوں کی جگہ مرکز کو دے دیا گیا۔ اس واضح تضاد کی موجودگی میں اس قرارداد کو دستور کا دیباچہ کیسے بنایا جاسکتا تھا۔ (ملاحظہ ہو: کمنٹری آف دی کونسٹی ٹیوشن آف انڈیا،درگا داس باسو،……… کلکتہ ۱۹۵۵ئ، جلد۱، ص ۳-۴)

بہارتی قراردادِ مقاصد:بہارتی دانش ور کا تبصرہ

پاکستان کی قراردادِ مقاصد کی ’ولدیت‘ ہندستان کی قررداد کی طرف منسوب کرنا تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا اور دونوں قراردادوں کے مختلف مزاج اور کردار سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ ضمناً یہ بھی عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بھارتی قرارداد تو کیا وہاں تو پورے دستور کے بارے میں ہندستان کے اپنے قانونی ماہرین جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ کوئی دوسری ہی داستان سناتے ہیں۔ ہندستانی دستور کا مشہور شارح درگا داس باسو اس سلسلے میں لکھتا ہے کہ:

جس نے دنیا بھر کے تمام معلوم دساتیر کو اچھی طرح کھنگالنے (drain)کے بعد یہ ڈرافٹ تیار کیا۔

باسو کی نگاہ میں ہندستانی دستور کا بڑا ماخذ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء ہے۔ وہ کہتا ہے:

اس لیے دستور کے ۷۵ فی صد کا آغاز تجربے کی روشنی میں کی گئی تبدیلیوں کے ساتھ اسی ایکٹ سے ہوا ہے۔

باسو مزید لکھتا ہے کہ:

نظریاتی حیثیت، یعنی بنیادی حقوق امریکا کے دستور سے اخذ (inspired) کیے گئے ہیں۔ بعد کے دستور میں اضافوں کی دفعات آئرلینڈ سے متاثر ہیں۔ وفاقی حیثیت سے متعلق اُمور کینیڈا کے دستور سے سادہ انداز میں لیے گئے ہیں۔

پنڈت نہرو والی قراردادِ مقاصد اس لائق ہی نہ تھی کہ اسے دستور کا دیباچہ بنایا جائے، اس میں کوئی وژن موجود نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان کے دستور میں جو دیباچہ دیا گیا ہے، اس میں پہلی قراردادِ مقاصد سے ہٹ کر ایک وژن اور نظریہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی اوّلین شکل میں فرانس کے Justice, Liberty and Fraternity کے نعروں کو شامل کیا گیا تھا اور ملک کو sovereign democratic قرار دیا گیا تھا لیکن وژن بھی خام تھا۔ اس لیے نظریاتی حیثیت کو مزید اُجاگر کرنے کے لیے Republic کی ضرورت محسوس ہوئی اور دستور میں ۱۶برس بعد ۱۹۷۶ء میں ۴۲ویں ترمیم کے ذریعے socialist, secular کا اضافہ کیا گیا (جج صاحب نے پیراگراف ۱۲۷ میں جو دیباچہ دیا ہے وہ ترمیم سے پہلے کا ہے)، جب کہ پاکستان میں قراردادِ مقاصد نے ۱۹۴۹ء ہی میں ملک کی نظریاتی حیثیت کو بالکل واضح کردیا تھا اور پاکستان کے پہلے دستور (۱۹۵۶ئ) میں قراردادِ مقاصد دستور کے تاج کے طور پر بطور دیباچہ شامل ہوئی اور ملک نے بڑے اعتماد سے اپنے کو Islamic Republic of Pakistan قرار دیا ہے۔

اس نظریاتی اعلان سے ہندستان کو اپنے سیکولر اور سوشلسٹ ہونے کا خیال آیا اور دیباچے میں ترمیم کر کے sovereign democratic سے پہلے socialist secular کا اضافہ کیا اور قسطوں میں اپنی شناخت کا اظہار کیا۔

قراردادِ مقاصد اور نظریاتی تشخص

محترم جسٹس ثاقب نثار صاحب ہندستان کے دستور کو اس اعتبار سے بھی زیادہ معتبر اور محترم قرار دیتے ہیں کہ اسے ہندستان کی تحریکِ آزادی کے قائدین نے مرتب کیا اور پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے دستور کے بارے میں ان کی تشویش ہے کہ اسے جس قیادت نے مرتب کیا وہ دوسری نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو وہ تقدس حاصل نہیں جو ہندستان کے دستور کو حال ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ قراردادِ مقاصد جسے پاکستان کے بانیان نے مرتب کیا اور قائداعظم کے اقوال اور تحریکِ پاکستان کے دوران جو وعدے انھوں نے مسلم عوام سے کیے تھے  ان کے مطابق مرتب کیا گیا اسے وہ معتبر ماننے میں تردّد محسوس فرماتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد پیش کرتے ہوئے پہلی بات یہی کہی تھی کہ قائداعظم کے تصور کے مطابق پیش کی جارہی ہے۔دوسرے قائدین نے بھی اس کا برملا اظہار کیا خصوصیت سے مولانا شبیراحمد عثمانی نے۔ وہ اس دستور سازاسمبلی میں کہتے ہیں………… سب تحریکِ پاکستان کی روحِ رواں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قراردادِ مقاصد نے بعد کے دساتیر کو بھی معتبر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی قراردادِ مقاصد کے بعد دیباچے میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان کے نظریاتی اور تاریخی تشخص کا عکاس ہے اور پاکستان کو تاریخ تحریکِ پاکستان سے مربوط کرتا ہے:

لہٰذا ہم جمہور پاکستان قادرِ مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پاکستان کی خاطر عوام کی دی ہوئی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدلِ عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی،   اس جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی اَن تھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔

اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کرکے اپنی قومی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں۔

بذریعہ ہذا، قومی اسمبلی میں اپنے نمایندوں کے ذریعے یہ دستور منظور کر کے اسے قانون کا درجہ دیتے ہیں اور اسے اپنا دستور تسلیم کرتے ہیں۔

قراردادِ مقاصد اور اس کے بطورِ تتمہ اس اضافے کا موازنہ ہندستان کی ۱۹۴۸ء کی قراردادِ مقاصد اور ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۷ء کے دستوری دیباچوں سے کریں تو زندگی، سیاست اور حکمرانی کے دو مختلف تصورات (paradigms) کا منظر سامنے آتا ہے۔ ہمارا مسئلہ دستور اور قوم دونوں میں نظریہ اور وژن کے فقدان کا نہیں ہے، نظریہ اور وژن تو موجود ہیں، مسئلہ ان کے مطابق سعی و جہد میں شدید کوتاہی کا ہے۔ نیز ایسی قیادت سے محرومی کا ہے جو اس نظریے کے وفادار ہو، دیانت دار ہو اور باصلاحیت بھی۔

دستور ایک انسانی کاوش ہے اور قراردادِ مقاصد بھی آسمانی صحیفہ نہیں۔ لیکن یہ دونوں اپنی موجودہ شکل میں بڑی حد تک اس تصور اور نقشۂ کار پیش کر رہے ہیں جس پر خلوص اور محنت کے ساتھ عمل کر کے ہم اسلامی فلاحی مستقبل کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ اصلاح اور بہتری کی گنجایش بلاشبہہ موجود ہے اور جس طرح ماضی میں کی جانے والی کئی دستوری ترامیم نے دستور کو زیادہ بہتر دستاویز بنایا ہے، اسی طرح آیندہ بھی ترمیم کا دروازہ کھلا ہے لیکن ترمیم کا مقصد دستور کو قراردادِ مقاصد میں دیے ہوئے مقصد اور وژن سے قریب تر کرنا ہو ، اس کی ہیئت کو تبدیل کرنے اور حلیہ بگاڑنے کا معاملہ نہ ہو۔ قراردادِ مقاصد اور دستور کے اصل محافظ عوام اور تمام ہی دستوری ادارے ہیں۔ذمہ داری کے مناصب پر ہر فرد، صدرِ مملکت  سے لے کر مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان تک، اور ہر سطح کے عدلیہ کے جج صاحبان سے لے کر فوج اور انتظامیہ کے ذمہ داران تک، ہر کسی کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور دستور سے وفاداری کے عہد کوin letter and spirit   (الفاظ اور روح کے مطابق) پورا کرے۔ یہ عہد ہی ہماری منزل اورہماری ذمہ داری کو متعین کردیتا ہے لیکن کیا ہم اس عہد کے تقاضے پورے کر رہے ہیں؟

جاں نثار صحابی حضرت خباب بن الأرتّ نے رات کے پچھلے پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے تابانہ دُعائیں دیکھیں تو تڑپ کر پوچھ ہی لیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آج تو لگتا ہے خصوصی دُعا ہوئی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ ہمیں اس طرح (کسی عذاب) سے ہلاک نہ فرمائے کہ جیسے گذشتہ قومیں ہلاک کی گئیں۔ اللہ نے میری دُعا قبول فرمالی۔ میں نے دُعا کی کہ ہم پر ہمارے دشمن کو غالب نہ رہنے دے۔ اللہ نے میری یہ دُعا قبول فرمالی۔ پھر میں نے اپنے رب سے دُعا کی کہ ہمیں باہم دشمن گروہوں میں نہ تقسیم کردے مگر میری یہ دُعا قبول  نہ کی گئی‘‘۔ رب ذو الجلال کا فیصلہ تھا کہ اس نے ہمیں باہم اختلافات کے ذریعے آزمانا ہے اور    اسے معلوم تھا کہ ہم نے اس آزمایش میں ناکامی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس نے اپنے حبیب کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ یہ حدیث اور ایک دوسرے موقعے پر ارشاد کیا گیا یہ فرمان کہ ’’عنقریب  تم لوگوں پر اقوام عالم یوں جھپٹیں گی جیسے بھوکے کسی دسترخوان کی طرف لپکتے ہیں‘‘ کو دیکھیں تو عالمِ اسلام کا حالیہ نقشہ واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔

ایک طرف گذشتہ ۱۵ سال سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر مکمل   تباہ کاری ہے۔ امریکی سرپرستی میں عالمی فوج کشی تمام قانونی و اخلاقی پابندیوں سے بے نیاز ہے۔ اس ضمن میں گوانتا نامو، ابو غریب اور ڈاکٹر عافیہ کی مثال ہی کافی ہے۔ دوسری طرف تقریباً ہرمسلمان ملک میں فتنوں کا وہ طوفان ہے کہ ایک بند باندھیں ۱۰۰ بند ٹوٹتے ہیں۔ دین، عبادت اور جہاد جیسے مقدس الفاظ کو دہشت اور خوں ریزی کی مہیب علامت بنادیا گیا ہے۔ مسلک اور فرقہ بندی اصلِ دین قرار دی جارہی ہے۔ کتنے ایسے مسلمان ملک ہیں کہ جن کے شہری، شیعہ یا سنی کو صہیونی درندوں سے زیادہ بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ کتنے ایسے ملک ہیں کہ جہاں سفاک جنرل سیسی، درندہ صفت بشار الاسد اور قاتل حسینہ واجد جیسے ننگِ انسانیت حکمران اپنے ہی شہریوںکو پیوند خاک کررہے ہیں۔

تین سالہ معصوم شامی بچے عیلان عبد اللہ کی سمندر میں تیرتی تصویر تو صرف ایک استعارہ ہے۔ ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ کے بعد سے پورا شام خون کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ عیلان عبداللہ کی تصویر شائع ہونے کے بعد یورپ کی طرف بھاگتے تباہ حال شامی مہاجرین کا بھی ایک مختصر سا گوشہ ہی عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بن سکا ہے، وگرنہ اس وقت ایک کروڑ ۲۰لاکھ سے زائد شامی عوام مختلف مہاجرین کیمپوں میں موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہاں اس بات کا اعتراف و اظہار ضرور کرنا چاہیے کہ بعض یورپی ممالک مثلاً جرمنی، کسی حد تک فرانس اور قدرے تردد کے بعد برطانیہ نے ان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولنے کا اور اربوں ڈالر کے بجٹ کا ’اعلان‘ کیا ہے۔ لٹے پٹے مہاجرین سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد ان ممالک میں پہنچے تو لباس و غذا کے سٹال لگاکر ان کا استقبال کیا گیا اور اُمید کی جارہی ہے کہ یہ مہاجرین مستقبل میں بھی وہاں بہتر مواقع حاصل کرسکیں گے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ان چند ہزار مہاجرین کو پناہ ملنا یا نہ ملنا ہی اصل مسئلہ ہے؟ تین سالہ عیلان کی تیرتی لاش سے پہلے اسی بحیرہ روم میں ۲۸۰۰ شامی مہاجرین ڈوب چکے ہیں، ان میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ عالمی برادری اور اس کا فعال میڈیا کیوں اندھا بنارہا؟ ہمارے اپنے بعض وہ عزیز کالم نگار جو جرمنی کی چانسلر کے لیے ’خالہ میرکل! شکریہ‘ کی تختیاں سجا رہے ہیں، ترکی میں پناگزیں ۲۰ لاکھ سے زائد، لبنان اور اُردن میں ۲۵ لاکھ سے زائد اور سعودی عرب میں ۲۵ لاکھ اور خود شام کے اندر بے گھر ۸۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کے بارے میں ایک بھی حرف ہمدردی کیوں تحریر نہیں کرپائے؟ ترکی نے ان مہاجرین سے حسن سلوک کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ تمام سرکاری انتظامات کے علاوہ اس نے اعلان کیا ہے کہ جو شہری ان مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دیں گے، ان کے لیے بجلی پانی کے بلوں اور ٹیکس میں تخفیف کی جائے گی۔ سعودی عرب جہاں ۱۰ لاکھ سے زائد یمنی مہاجرین بھی آچکے ہیں اور جہاں اقامتی ویزوں کا حصول ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، وہاں ان شامی و یمنی مہاجرین کوویزوں کی تجدید اور کفیل کی بندش سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ لیکن کبھی ان کا ذکر خیر تک نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں مسلسل مخالفانہ مہم کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

ترکی یا سعودی عرب کا قصیدہ کہنا مقصود نہیں، لیکن عرض یہ کرنا ہے کہ جب شامی پناہ گزینوں کا ذکر ہو تو صرف یورپی ممالک کے گیت نہ گائے جائیں ان مسلمان ملکوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیجیے جو اس ضمن میں کوئی بھی ادنیٰ کوشش کررہے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر بھی کیا جائے کہ ہنگری، آسٹریا، سلوواکیا اور یونان سمیت متعدد یورپی ریاستوں میں ان مہاجرین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے۔ ہنگری نے ان لٹے پٹے مہاجرین کا راستہ روکنے کے لیے طویل آہنی باڑ قائم کرکے وہاں خونخوار کتے چھوڑ دیے ہیں۔ اسی طرح آسٹریا کی موٹروے پر شامی مہاجرین کی لاشوں سے بھرا ہوا ایک پورا کنٹینر دریافت ہوا اور ان ’انسانیت دوست‘ یورپی ممالک کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سلوواکیا نے بأمر مجبوری مہاجرین کی محدود تعداد وصول کرنے کا  اعلان کیا بھی تو کہا ’’وہ صرف مسیحی مہاجرین کو آنے کی اجازت دیں گے‘‘۔ واشنگٹن پوسٹ سمیت مغربی پریس میں شائع ہونے اور مختصر عوامی احتجاج کے باوجود عملاً یہ پالیسی جاری ہے۔ یہ منظر بھی    بیان کرنا چاہیے کہ کس طرح ہنگری کی ایک خاتون صحافی ان ہانپتے کانپتے مہاجرین کو ’دولتیاں‘  رسید کررہی تھی۔ جب کیمروں کی زد میں آگئی تو اس کے ادارے نے اسے برطرف کردیا، لیکن اگلے ہی روز برطانیہ میں ایک دوسرے ادارے نے ملازمت دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔

دوسری اور بنیادی بات یہ کہ شامی مہاجرین کا مسئلہ گمبھیر اور الم ناک ہونے کے باوجود اصل مسئلہ نہیں ہے۔ نہ آیندہ دو سال کے دوران ہی ایک لاکھ ۲۰ ہزار مہاجرین کو یورپ میں پناہ دینے کے اعلان سے یورپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔ اصل مسئلہ شامی درندے بشار الاسد سے وہاں کے عوام کو نجات دلانا ہے، ۱۹۷۰ء سے جس کا خاندان شام میں اپنے ہر مخالف سے حقِ حیات سلب کررہا ہے۔ امریکی سرپرستی میں یورپی ممالک بھی شامی عوام کے حق میں زبانی جمع خرچ تو خوب کررہے ہیں، لیکن بشار اور جنرل سیسی جیسے قاتلوں کو عوام پر مسلسل مسلط رکھنے میں بھی سہیم ہیں۔ ایک مثال سے ان ملکوں کے زبانی جمع خرچ کا اندازہ لگا لیجیے۔ امریکا نے بشار الاسد سے عوام کو نجات دلانے کے لیے انھیں فوجی تربیت دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ ۱۵ ہزار معتدل فکر رکھنے والے نوجوانوں کو تربیت اور اسلحہ دیا جائے گا۔ گذشتہ ۸ ماہ میں ان ۱۵ ہزار میں سے صرف ۵۴؍افراد کو تربیت دی گئی اور اس پر ۲۳ ملین امریکی ڈالر یعنی ۲ ارب ۴۰ کروڑ روپے خرچ دکھائے گئے۔ ان تربیت یافتہ افراد کے سربراہ عمار الواوی نے ڈیلی ٹیلی گراف کو خصوصی انٹرویو میں یہ اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ اگر اسی رفتار اور اس حساب سے تربیت دی گئی تو ۱۵ہزار افراد کے لیے ۳۸ سال کا عرصہ اور اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔الواوی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ امریکی ذمہ داران نے ہمیں دشمن کے سامنے تنہا چھوڑ دیا۔ اطلاع دینے کے باوجود کوئی امریکی جہاز ہماری مدد کو نہ آیا اور ہمارے پانچ ساتھی مارے گئے، باقیوں کو فرار ہوکر پناہ لینا پڑی۔ اخراجات اور عملی اقدام کی بعینہ یہی صورت داعش کے خلاف اعلان جنگ کی بھی ہے۔ عربی محاورے کے مطابق جَعجَعَۃ وَ لاَ طَحِین، ’’چکی کا شور بہت ہے، آٹا چٹکی بھی نہیں‘‘۔

یہ صرف ایک تجزیہ ہی نہیں، سامنے دکھائی دینے والی اور خود ان کی اپنی دستاویزات سے ثابت حقیقت ہے کہ وہ بشار جیسے درندوں کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں اور مخصوص مسلح تنظیموں کو بھی۔  ان دونوں کے خلاف جنگ کے نام پر پورے خطے کو مسلسل خوں ریزی میں مبتلا کرکے اس کے شکار مسلمان ملکوں کا خون نچوڑنا چاہتے ہیں۔ شام کوایران کا اور یمن کو سعودی عرب کا افغانستان بنانے کی باتیں علانیہ کی جارہی ہیں۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی منکشف ہوجانے والی دستاویزات کے مطابق اس عمل کو ’بھڑوں کے چھتے‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں خونی ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ خطے میں ایسے شدت پسند گروہ پیدا کرنا اور باقی رکھنا شامل ہے، جو اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دیں۔ ان کا خون بہاتے رہیں اور پڑوس میں واقع اسرائیل محفوظ رہے۔ اسی حکمت عملی کی تصدیق صہیونی وزیر دفاع موشے یعلون اور اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ عاموس یدلین نے بھی محدود افراد کے ایک سیمی نار میں کی ہے، جو صہیونی اخبارات میں شائع ہوگئی کہ ’’داعش اسرائیل کے لیے کوئی براہِ راست یا حقیقی خطرہ نہیں۔ اس کی عسکری قوت حماس کی قوت سے آدھی بھی نہیں ہے‘‘۔

زمینی حقائق اور دستاویزی ثبوتوں کے باوجود ہمیں اصل شکوہ امریکا، یورپ یا صہیونی دشمن سے نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ہماری ہی کمزوریوں، حماقتوں اور جرائم کو اپنی مرضی کا رُخ دیتے اور انھیں اپنے مفادات کے تابع بناتے ہیں۔ شام، عراق اور مصر میں جتنا خون خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کا بہایا اور بہا رہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ان کے دشمنوں نے نہیں بہایا۔ شام میں گذشتہ ساڑھے چار برس کے دوران میں ۳ لاکھ سے زائد بے گناہ عوام موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی تیزی سے جاری ہے۔ چند ہفتے قبل دمشق کے پڑوس میں واقع ’دوما‘ پر بشار کے ایک ہی حملے کے نتیجے میں ۳۰۰ افراد شہید ہوگئے۔ الغوطۃ الشرقیۃ پر حملے سے ایک ہی روز ۴۰۰ افراد شہید ہوگئے جن میں ۸۳ بچے اور ۲۰ خواتین بھی شامل تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ایک ہی روز قتل کردیے جانے والوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو گاہے یہ تعداد ہزار سے تجاوز ہوجاتی ہے۔

روسی ریچھ اب اس معرکے میں براہِ راست اتر آیا ہے۔ اس نے نہ صرف بشار الاسد کو بے پناہ اسلحہ دیا ہے بلکہ اپنے اعلیٰ عسکری مہارت رکھنے والی افراد بھی شام بھیجے ہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں بشار افواج کو ’ابوالظہور‘ فوجی ائیرپورٹ پر بڑی ہزیمت اُٹھانا پڑی تو اس پر قبضہ کرنے والوں نے وہاں سے نہ صرف شامی فوجی افسر بلکہ روس اور ایران کے ماہرین بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ خود روسی خبررساں ایجنسی ’گازیٹا رو‘ کے مطابق روسی فوجیوں کو دھوکے سے شام بھیجا گیا ہے۔ ایجنسی کی تحقیق کے مطابق ۱۷؍ اگست کو ان فوجیوں کے لیے احکام جاری ہوئے کہ وہ فوجی بندرگاہ ’نوورو سیسک‘ پہنچیں، وہا ں سے انھیں ایک انتہائی خفیہ کارروائی کے لیے بھیجا جانا ہے۔    وہ اسے یوکرائن جانے کا خفیہ حکم سمجھتے رہے، بعد میں ان پر عقدہ کھلا کہ انھیں شام بھیجا جارہا ہے۔ اب ایسے فوجی جنھیں شام بھیجنے پر قائل کرنا بھی ممکن نہیں تھا اور جو اپنے افسروں سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’’ہم بشار کی خاطر جانیں کیوں دیں؟‘‘ شام میں بھلا کیا کارنامہ انجام دے سکیں گے؟ لیکن روسی صدر پوٹین اس وقت روس کو پھر سے بڑی عالمی قوت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شرق اوسط میں شام اب اس کا آخری ٹھکانا ہے۔ اسے بشار کی پشت پر کھڑا رکھنے میں ایران کا بھی واضح اور بھرپور کردار ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب شام میں بشار الاسد صرف ۲۰ فی صد علاقے میں محصور  رہ گیا ہے روس کا یہ اقدام اس کے لیے مفید ہوسکے گا یا نہیں؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ شام اور عوام کی مزید تباہی اور ہلاکتیں ہوں گی۔

شام ہی نہیں عراق بھی خوف ناک تباہی کے بعد اب ایک نئے آتش فشاں کے دھانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم نوری المالکی اور اس کے وزرا نے نہ صرف ملکی تباہی اور مسلکی منافرت کا ایجنڈا خوف ناک انداز سے آگے بڑھایا، بلکہ لوٹ مار اور کرپشن کے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کے باوجود پہلے کئی ماہ تک اسے دوبارہ وزیراعظم بنوانے کی کوشش کی گئی، اس میں ناکامی کے بعد اسے نائب وزیراعظم بنوادیا گیا۔ لیکن اب خود وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کی حامی شیعہ جماعتیں اس کی کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ اڑھائی ماہ سے ہر جمعے کے روز بہت بڑی تعداد میں عراقی عوام اس کے خلاف مظاہرے کرتے اور کرپٹ ٹولے کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم حیدر العبادی نے مالکی کو ہٹاکر اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ اس ضمن میں بغداد میں ہونے والا ایک قومی اجلاس بالخصوص نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس میں ساری مرکزی عراقی شیعہ قیادت جمع ہوئی اور ان کے ساتھ عراق میں موجود ایرانی جنرل قاسم سلیمانی صاحب بھی علانیہ شریک ہوئے۔ عراقی سیاست کا رخ طے کرنے کے لیے ہونے والے اجلاس میں اہم ایرانی جنرل کی شرکت کی تصاویر نے عراق میں ایرانی نفوذ کے مخالف عناصر کو بھرپور لوازمہ فراہم کیا۔ اگلے ہی ہفتے کربلا میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے بڑے اجتماع میں عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کے نمایندے عبدالہادی کربلائی نے ان کا پیغام سناتے ہوئے ’کرپشن کے خلاف جنگ‘ میں عراقی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔

واشنگٹن میں ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے موضوع پر ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں سی آئی اے کے سربراہ نے کہا تھا ’’عراق اور شام کے عوام اب خود کو اپنے ملک کے نام سے نہیں اپنے قبیلے، مسلک اور علاقے کی بنیاد پر متعارف کرواتے ہیں۔ ان کامزید کہنا تھا ’’میرا خیال ہے کہ آیندہ دو یا تین عشروں میں شرق اوسط کا نقشہ اس کے حالیہ نقشے سے یکسر مختلف ہوگا‘‘۔ نئے شرق اوسط کے پرانے امریکی نقشوں میں خطے کی تقسیم نو ہی نہیں، ان نئی ریاستوں کو باہم متحارب رکھنا بھی شامل ہے۔ گویا عراق میں ایک نئی شیعہ ریاست بنانا ہی مطلوب نہیں، فارسی شیعہ ریاست سے عرب شیعہ ریاست کا تصادم مقصود ہے۔ اللہ کرے کہ عراق میں جاری حالیہ سیاسی کش مکش تقسیم در تقسیم کے اس بیرونی خواب کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنے۔ وگرنہ حالات کا دھارا اس قدر ہولناک ہے کہ ہر آنے والے دن اسی مسلکی جنگ پر تیل چھڑک رہا ہے۔ عراق اور شام سے باہر خلیجی ریاستوں میں بھی آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جن کا انجام کسی صورت مثبت نہیں ہوسکتا۔ کبھی کویت سے ’حزب اللہ کے مسلح خفیہ سیل‘ کا انکشاف ہوتا ہے۔ کبھی بحرین سے اتنی مقدار میں اسلحہ پکڑا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ کے بقول اس سے پورا دارالحکومت تباہ ہوجاتا۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے جاری ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا اور یورپ سے چلنے والے ٹی وی چینلوں کے ذریعے صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ اور اہل بیت کے بارے میں وہ غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے کہ کوئی حلیم سے حلیم مسلمان بھی سن کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔

مصر اور یمن کی صورت حال ایک الگ مفصل جائزے کی محتاج ہے لیکن وہاں بھی موت کا بھوت مسلسل تباہی پھیلا رہا ہے۔ مصر میں اپنے عوام کو بلاتردد قتل کرنے کی خوگر مصری فوج نے گذشتہ دنوں میکسیکو کے ۱۲ سیاح قتل کردیے تو مغرب میں کچھ احتجاج ہوا۔ میکسیکو کی وزیر خارجہ  نے قاہرہ جاکر جنرل سیسی سے تاوان طلب کیا تو اسے بھی زبانی معذرت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ فوج نے ان شہریوں کو دہشت گرد سمجھ کر غلطی سے ماردیا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی بحران چل رہا ہے وگرنہ مصر میں ۴۰ ہزار سے زائد بے گناہ جن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے اور جن میں سے ۲۸۹ افراد اب تک جیلوں کے اندر تشدد اور بیماریوں سے موت کی وادی میں اُتر چکے ہیں، کے حقوق کے بارے میں کسی مغربی یا مشرقی ملک کو ادنیٰ سروکار نہیں ہے۔

یمن میں البتہ کچھ مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پورے ملک پر قابض ہوجانے والے باغی حوثی قبائل کو کئی محاذوں پر واضح شکست کا سامنا ہے۔ یمن کا دوسرا بڑا شہر عدن ان سے مکمل طور پر خالی کروالیا گیا ہے اور تحریک اسلامی یمن کے ایک فعال نوجوان کو اس کا عبوری اختیار سونپا گیا ہے۔ اب دارالحکومت صنعاء کو ان باغیوں سے واگزار کروانے کی کارروائی جاری ہے۔ کاش! یہ باغی پورے ملک پر قبضہ نہ کرتے۔ کاش! سابق ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح ۳۳ سالہ اقتدار پر اکتفاکرتے ہوئے، یمنی عوام سے انتقام لینے کی آگ نہ بھڑکاتا۔ اور کاش! ایران جیسا اہم برادر ملک ان باغیوں کی مدد نہ کرتا۔ لیکن اب تو وہاں پانی سر سے گزر چکا۔ اللہ کرے کہ یمن سمیت تمام ملکوں میں نفرت، انتقام اور تعصب کے بجاے امن، حکمت اور انصاف کا علم اُٹھانے والے آگے بڑھ سکیں۔

اب ایک جانب یہ سب قتل و غارت اور ڈکٹیٹر شپ کی لعنت ہے اور دوسری جانب اُمت کے قبلۂ اول کے خلاف کھلی صہیونی جارحیت عروج پر ہے۔ صہیونی ریاست اب مسجد اقصیٰ پر قبضے کی جانب ایک اور خوف ناک قدم اُٹھا چکی ہے۔ یہ حرم اقصیٰ کو تقسیم کرنے اور وہاں یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مکمل منصوبہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کو اوقات اور جگہ کے اعتبار سے تقسیم کرنے کے اس عمل میں جمعے کے روز فلسطینی مسلمانوں کو محدود تعداد میں مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت ہے، جب کہ ہفتے کا روز مکمل طور پر یہودیوں کے لیے کھلا ہوگا۔ اس کے علاوہ روزانہ صبح ۷ بجے سے ۱۱بجے تک بھی حرم اقصیٰ مسلمانوں کے لیے ممنوعہ اور یہودیوں کے لیے کھلا ہوگا۔ مسلمانوں کے لیے صرف مسجد کے اندر کا علاقہ مخصوص ہوگا، جب کہ حرم کا باقی پورا علاقہ یہودیوں کے لیے ہوگا۔

محصور و مقہور فلسطینی مردوزن مسجد اقصیٰ میں اوقات و اماکن کی اس تقسیم کو روکنے کے لیے گذشتہ کئی ماہ سے مسجد کے اندر معتکف ہوکر بیٹھے ہیں۔ ان معتکفین کو صہیونی قابضین نے دہشت گرد قرار دے دیا ہے اور اب ان ’دہشت گردوں سے مقابلے‘ کے لیے ’صہیونی سورما‘ ان پر حملہ آور ہوتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا سے مزین مسجد اقصیٰ میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کی ناپاک جسارت ہوئی تھی، تو پوری مسلم دنیا میں کہرام مچ گیا تھا۔ او آئی سی کی تنظیم اسی موقعے پر وجود میں آئی تھی۔ لیکن آج ہم ڈکٹیٹرشپ، اس کے مکار سرپرستوں، خوارج کے وحشی وارثوں اور اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے نتیجے میں چرکے سہہ رہے ہیں۔ مسلم دنیا کو معلوم ہی نہیں کہ مسجد اقصیٰ پر کیا بیت گئی۔ آج اگر اُمید ہے تو دشمن کے بارے میں یکسو ان سچے مجاہدین سے ہے، جو اقصیٰ اور اس کے گردونواح میں برسرِ پیکار ہیں۔ ڈھارس ہے تو آغاز میں بیان کی گئی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبول ہوجانے والی اس دُعا سے ہے کہ ’’پروردگار ہمارے دشمنوں کو ہم پر حاوی نہ رہنے دے‘‘۔

ناجائز صہیونی ریاست نے بھی بہرحال معدوم ہوناہے۔ شیخ احمد یاسین کا یہ الہامی جملہ اہل فلسطین کو ہمیشہ فعال رکھتا ہے کہ ’’میں ۲۰۲۷ کے بعد دنیا کے نقشے پر اسرائیل نام کی ریاست کا وجود نہیں دیکھتا۔ اللہ نے اپنے اس شہید بندے کی بات کی لاج رکھ لی تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ اس کے پڑوسی ممالک بالخصوص شام، عراق اور مصر میں بھی جوہری تبدیلی کی پیامبر ہوگی۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے ساتھ بھلائی کی گئی اور اس نے اس کے بدلے میں جزاک اللّٰہ خیرًا (اللہ تجھے جزاے خیر عطا فرمائے)  کہہ دیا تو اس نے اس کے شکریے کا حق ادا کر دیا اور اُونچے درجے کی تعریف کردی۔ (ترمذی)

اسلام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غم گساری اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک مسلمان اگر مال دار ہے، اثرورسوخ کا مالک ہے اور اس نے کسی مسلمان کے ساتھ مالی تعاون کیا ہے یا جائز سفارش کرکے اس کا کام کرا دیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا بدلہ دے۔ ہدیے کے بدلے میں ہدیہ دینے کی ہدایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تھا تو آپؐ بھی اسے ہدیہ پیش کرتے تھے۔ اس حدیث میں تلقین کی گئی ہے کہ اگر ہدیہ پیش کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو ہدیہ دینے والے کو دعا دے دے۔ وہ دعا جزاک اللّٰہ خیرًا ہے۔ اس دعا کے ذریعے آدمی یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں اس کا بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔ اس کا بدلہ اللہ رب العالمین ہی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپس میں اس طرح پیش آنے سے معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔ لوگوں کو سُکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ ہر دور میں انسان کو اس کی ضرورت رہی ہے لیکن موجودہ دور میں جب انسان مختلف حادثات اور فتنوں کی وجہ سے پریشان ہے، اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے سے اس طرح کی ہمدردی سے پیش آتے ہیں تو ان کی تمام پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح کا معاشرہ ہماری ضرورت ہے اور اسے قائم کرنے کی کوشش کرنا ملّی فریضہ ہے۔

o

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی فوت ہوگیا اس حال میں کہ وہ تکبر اور خیانت اور قرض سے بری ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ترمذی)

تکبر، خیانت، لوگوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ متکبر سے لوگ بُغض، عداوت اور نفرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح خیانت کار بھی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ وہ اپنے علم اور ہنر کے باوجود کسی عزت کا مستحق نہیں رہتا۔ خائن لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ جس شخص کا حق مارا جائے گا وہ اپنا حق لینے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہوگا۔ پھر بھی اپنا حق نہ پاسکا تو خائن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوگا۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خیانت ہے۔ سرکاری خزانے پر قابض لوگ اسے عوام تک پہنچانے کے بجاے چوری کرکے بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرتے ہیں، بیرونِ ملک جایدادیں بناتے ہیں جس کے نتیجے میں خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اس وقت ملک کا جتنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا گیا ہے اسے واپس لایا جائے تو ملک کے قرضے بھی ادا ہوجائیں اور ہم قرضے لینے کے بجاے قرضے دینے والے بن جائیں۔

قرض سے بَری ہونے کا ذکراس لیے کیا ہے کہ مقروض ایک دفعہ قرض کے بوجھ تلے دب جائے تو پھر اس سے نکلنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ قرض ادا کرنا بھی چاہتا ہے۔ اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے لیکن پھر بعض اوقات حالات اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس لیے قرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ بھی مانگی ہے۔

تکبر، خیانت آدمی کی دنیا کو خراب کرنے کے ساتھ آخرت کے خراب کردینے کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اِن سے بَری ہوکر فوت ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ قرض بھی ایسی چیز ہے کہ وہ جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے کہ بندے کا حق اگر آدمی ادا   نہ کرسکا تو اس وقت تک جنت میں نہ جاسکے گا جب تک دوسرے کا حق اور قرض ادا نہ کر دے۔

o

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک زمین آباد کی جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا۔(بیہقی، شعب الایمان)

ملک کے عوام کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور انھیں ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے مطابق روزگار فراہم کرنے سے معاشی خوش حالی حاصل ہوتی ہے اور ترقی ملتی ہے۔ حکومت کے پاس عوام کو دینے کا سب سے بڑا سامان زمین ہے جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کردے تو وہ اس زمین کو آباد کریں گے اور ملک کی پیداوار میں اضافہ کریں گے۔ ہمارے ملک میں زمین کا بہت برا رقبہ بنجر پڑا ہے۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کرکے آباد کرنے کے بجاے دوسرے ممالک سے گندم اور دوسری اجناس درآمد کرتی ہے جس کے نتیجے میں کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی ہورہی ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے حاصل کرپاتے ہیں۔ حکومت کو غیرآباد زمین کو آباد کرنے کے لیے اگر حکومتی خزانے سے کسانوں کے ساتھ مالی تعاون بھی کرنا پڑے اور وہ غیرسودی قرضے دے کر زمینوں کو آباد کرائے اور آبادکاروں کو مالکانہ حقوق دے دے تو پورا ملک آباد ہوجائے گا۔ سرسبز وشاداب بھی ہوجائے گا اور غلہ اور پھل بھی وافرہوگا اور ملک خوراک کے شعبے میں خودکفیل ہوجائے گا۔ حکومت اس نسخے کو استعمال کرکے ایک طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گی اور دوسری طرف اپنے عوام کی پریشان حالی کا بھی مداوا کرے گی۔ اپنی آخرت کے ساتھ اپنی دنیا کو بھی سنوارے گی۔

o

حضرت عبداللہ بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰ہزار قرض لیا۔ پھر آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے ادا کر دیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا: بارک اللّٰہ فی اھلک ومالک، اللہ تعالیٰ تیرے گھر اور مال میں برکت عطا فرمائے۔ ساتھ ہی فرمایا: قرض کا بدلہ شکریہ اور قرض کی ادایگی ہے۔(نسائی)

بعض اوقات ذاتی ضرورت کے لیے اور بعض اوقات اجتماعی ضروریات اور ملکی معاملات کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی ضرورت اور ملکی ضروریات دونوں کے لیے قرض لیا ہے اور پھر احسن طریقے پر ادایگی بھی فرما دی اورقرض دینے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا، دعائیں بھی دیں۔ بروقت ادایگی اور احسان شناسی اور قدردانی تعلقات کو بہتر بناتے ہیں اور باہمی تعاون کے سلسلے کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آج کل قرضِ حسن کا سلسلہ انفرادی سطح پر تو اہلِ ایمان میں کچھ نہ کچھ جاری ہے لیکن اجتماعی معاملات میں تو ’سود‘ داخل ہوگیا ہے اور بُری طرح سرایت کرگیا ہے۔ سودی قرضوں کو تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔ بنکنگ سسٹم سودی ہے۔ چندبنک بے شک ایسے ہیں جو شرکت و مضاربت کی بنیاد پر جاری ہیں لیکن ان کا دائرہ محدود ہے۔ وسیع پیمانے پر جو کاروبار ہو رہا ہے وہ سودی ہے، اسی لیے ملکی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ سود کی مثال گھن کی ہے۔ گھن کی طرح وہ مال کو کھا جاتا ہے۔ ہماری معیشت کو گھن کھا گیا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بنکنگ نظام غیرسودی بنیادوں پر جاری کیا جائے جیساکہ دستورِ پاکستان میں اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جب غیرسودی نظام جاری ہوگا تو قرضِ حسن کو بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر فروغ ملے گا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔

o

حضرت سعد بن الاطولؓ سے روایت ہے کہ میرا بھائی فوت ہوگیا اور ۳۰۰ دینار ترکہ چھوڑا اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس رقم کو اُن پر خرچ کروںگا۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا) تو آپؐ نے فرمایا:تمھارا بھائی قرض کے سبب گرفتار ہے۔ اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ اس کے بعد جو بچے ، وہ بچوں پر خرچ کرو تو میں نے اپنے بھائی کے قرض خواہوں کو تلاش کر کے ان کے قرضوں کی ادایگی شروع کر دی اور تمام قرض خواہوں کے قرضے ادا کردیے۔ صرف ایک عورت رہ گئی جو دعویٰ کرتی تھی کہ تیرے بھائی نے میرے دو دینار دینے تھے لیکن اس کے پاس ثبوت کوئی نہ تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: اس عورت کو بھی دو دینار دے دو، یہ سچی ہے۔(مسند احمد)

آدمی جب فوت ہوجائے تو اس کے مال میں سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس کے مال میں سے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ پھر بھی مال بچ گیا تو اس میں سے ۳/۱ تک اس کی وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد باقی مال ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ اسی ضابطے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن اطولؓ کو بھائی کے قرض خواہوں کے قرض ادا کرنے کی تلقین فرمائی جس کو انھوں نے پورا کر دیا۔

حدیث میں واضح کیا گیا کہ جب تک آدمی کا قرض ادا نہ ہو وہ قید ہوگا۔ وہ اپنے باقی اعمال کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوگا تو پھر بھی قرض کے سبب جنت سے روک دیا جائے گا، جنت میںنہیں جاسکے گا۔ قرض ادا ہوگا تو رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں قرض خواہ کے قرض اداکرنے کو اوّلیت دے اور ورثا کو بھی اس کی تلقین کرے اور قرضوں کی تفصیل اور وصیت لکھی ہوئی رکھی ہو اور ورثا کو بتلا دی گئی ہو کہ فلاں جگہ رکھی ہے۔

ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذ ِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت،انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپناضابطۂ حیات بناکر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے۔

  • امامت میں تغیر کی ضرورت: اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندئہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے، اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النھار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
  • امامت میں انقلاب کیسے؟ یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الٰہی غیرمومن اور غیرصالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں، تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔

پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار، ص ۱۵-۱۷)

  • صالح گروہ کی تنظیم: ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زُہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا کے کاروبار اُن بُرے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے آتا ہے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے بھی آراستہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت اور قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔

ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اُسی وقت تک چرچُگ لینے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا گروہ تیار ہوجائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، مالیات، علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رُونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی اس بات کا یقین بھی ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رُونما ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی ہوجائے.... (رُوداد جماعت اسلامی، حصہ دوم،ص ۵۲-۵۳)

  • صالح عنصر کو منظم کرنا:اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے....

ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھاکر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا....

اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میںبے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۵-۳۷)

  •  منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
  •  تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
  •  جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو  رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
  •  اسلامی شعور کی بیداری: [پھر] جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں [مزاحمتی] تحریک کا سامنا کرنا ہوگا۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۳-۲۵)
  • انتخابی حکمتِ عملی: جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کامیاب کرالینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کامیابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی بُرے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہوسکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔

تیسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو، بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اُٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اُٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں ....

حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہوجائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجایش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجایش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کر کے آپ ’اصول پرستی‘کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۵۶-۱۵۸)۔ (ترتیب: امجد عباسی)

حج کے مبارک سفرسے سعادتوں کے ساتھ واپس آنے والے خوش قسمت برادران کے لیے دیدہ و دل فرش راہ! محترم بزرگوار اور عزیز بھائیو! کیا آپ نے حج کو اچھی طرح جانا اور سمجھا بھی؟ اُس سے جو کچھ لینا تھا لیا؟ آپ اپنے ساتھ، اپنے اور دوسروں کے لیے کیا لے کر آئے؟ حج نے آپ سے کچھ باتیں کیں؟ اُس نے کوئی پیغام آپ کو ودیعت کیا؟ یا آپ صرف آبِ زم زم، کھجوریں، جانمازیں اور تسبیحیں لے کر آگئے؟

بہت سے حاجی ہیں جو اگرچہ ہمیشہ حاجی کہلائیں گے، مگر وہ اپنے حج سے دُور ہوتے جاتے ہیں۔ جس دنیا کے مفاد سے وہ کچھ دیر کے لیے الگ ہوئے تھے، وہ پہلے سے زیادہ زور اور پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دبوچ لیتے ہیں۔

اصل میں بات بڑی نازک سی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ: ’’شیطان کو اذان کی آواز سخت ناپسند ہے اور وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اس سے بھاگتا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’وہ جب کسی شخص کو خدا کے سامنے سربسجود دیکھتاہے تو اسے بہت ناگوار ہوتا ہے‘‘۔ خصوصاً حج جیسی عظیم عبادت سے جو شخص گزر کر آرہا ہے، اُس کا نام تو درخواست دینے کے دن سے ہی ابلیسی نظام کی لال کتاب میں درج ہوگیا۔ شیاطین جن سے زیادہ ذمہ داریاں انسانی شیاطین کے سر ہوتی ہیں اور یہ اپنا کام دن رات جاری رکھتے ہیں۔ کچھ محبوب اور عزیز لوگ، کچھ کاروبار کے ساتھی، کچھ دفتروں کے ہم نشین، کچھ گائوں اور محلے کے خیرخواہ، کچھ دنیوی معاملات میں مشورے دینے والے، کچھ دین میں نئے نئے شگوفے نکالنے والے، کچھ قصیدہ خوان، کچھ خوشامدی، کچھ خدمت کیش!

حج کے ثمرات

حج فی الواقع بہت بڑی عبادت ہے اور بہت سی عبادات کی جامع!

حج میں ہجرت کا رنگ بھی شامل ہے، اور جہاد کا اسلوب بھی۔ اس میں ذکر و دعا بھی ہے اور رکوع و سجود بھی۔ مزدلفہ کی رات کی خاموش عبادت بھی اور لاکھوں کے مجمع میں یومِ عرفہ کا خطبہ بھی۔ احرام کی کفن نما پوشش بھی ہے اور عید کا خوش آیند لباس بھی۔ وہاں آنسوئوں کی جھڑیاں بھی ہیں اور مسکراہٹوں کی کلیوں کی لڑیاں بھی۔ آدمی بیک وقت وہاں بے ہمہ بھی ہوتا ہے اور باہمہ بھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تارکِ دنیا بھی ہوتا ہے اور پھر نئی شخصیت کے ساتھ فاتحانہ شان سے دنیا کے دروازے پر دستک بھی دیتا ہے۔بے شمار قبیلے اس کے اپنے بن جاتے ہیں، کتنے ممالک اسے اپنے ملک لگنے لگتے ہیں، مختلف بولیوں میں وہ ایک ہی جیسے معانی جھلملاتے دیکھتا ہے۔ تنگ عصبیتوں اور تالاب جیسی محدود قومیت سے آگے بڑھ کر وحدت کے ایک سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔

حاجی جب اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ میں نے دل سے مان لیا کہ خدا ساری قوتوں سے بڑی قوت ہے، اور اُس کا دین برتر ہے، اور اُس کا قانون سب سے فائق ہے، اُس کا اقتدار سب پر غالب ہے، اور اُس کا حکم ہر طرف جاری و ساری ہے۔ وہ جب لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتا ہے کہ میں آپ کی پکار پر حاضر ہوں اور عمل سے اقرار کرتا ہے کہ جدھر آپ بلائیں گے، اُدھر مجھے حاضر پائیں گے، جدھر سے آپ ہٹائیں گے میں اُدھر سے ہٹ جائوںگا۔ پھر اپنے احرام سے وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے اُس خط پر کھڑا کر دیا ہے جس سے مجھے ایک نہ ایک دن آگے جانا ہے اور زندگی کا حساب پیش کر کے جزاو سزا سے حصہ پانا ہے۔ وہ جب بیت اللہ نامی مکان کا طواف کر رہا ہوتا ہے تو دراصل اُس کی روح خداوند لامکانی کا طواف کر کے یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرا مرکز و محور صرف ذاتِ الٰہی ہے، اُس کی طرف لپکنا، اُسی سے محبت، اُسی کے لیے فدائیت اور اُسی کی اطاعت! وہ جب حجر اسود کا استلام کرتا ہے تو دراصل اپنے رب و الٰہ کے سنگ ِ آستاں کو اُس کے جذبات چوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب مقامِ ملتزم پر کھڑے ہوکر ایمان و بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور اپنے والدین کی مغفرت کی درخواست کرتا ہے تو گویا وہ ایوانِ جاناں کی چوکھٹ کو تھامے ہوئے ہوتا ہے اور بے اختیار روتا ہے۔ وہ صفا و مروہ میں سعی کرتا ہے اور پھر لمبی پیاس کے ماروں کی طرح پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیتا ہے۔ اگر جذبہ صحیح ہو تو یہ آبِ زم زم وجہ شفاء القلوب ہے اور قلوب اگر صحت مند ہوں تو بدن آسانی سے امراض کا شکار نہیں ہوتے۔

حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے احوال و جذبات سے حصہ پانے کے لیے صدیوں پہلے کی تاریخ کو کھینچ لاتا ہے۔ وہ جب عرفات کے بے پایاں ہجوم میں موجود ہوتا ہے تو اُس کے سامنے میدانِ حشر کا سا نقشہ آجاتا ہے۔ وہ قربانی کرتا ہے تو دراصل اس کا استعارہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اسی طرح احکامِ الٰہی کے تحت قربانی کے لیے پیش کردوں گا جس طرح حضرت اسماعیل ؑنے برضا و رغبت پوری شانِ صبر کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ یہاں اسے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ  حضرت اسماعیل ؑمیں جو آدابِ فرزندی ابراہیمی تعلیم و تربیت نے پیدا کیے تھے، وہی اسے اپنی اولاد میں پیدا کرنے ہیں۔ تب اُس کے دل میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس ارشاد کا صحیح مفہوم نقش ہوجاتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔

حج کی دعاؤں کا حاصل

حاجی جب مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرتا ہے تو اس کے کانوں میں باپ بیٹے کی دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ قرآن میں ہے:

اور یاد کرو، ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں سے خود انھی کی قوم سے ایک رسول اُٹھائیو جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔(البقرہ ۲:۱۳۷-۱۳۹)

حاجی اس دعا کی صداے بازگشت سنتے ہوئے یہ نکتہ پا لیتا ہے کہ جس گھر کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ حرم ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہ توحید پر استوار ہوا ہے۔ یہ سچے خدا پرستوں کا ایک مرکز دل و نظر ہے، یہ امن کا ایک سرچشمہ ہے، انسانیت کی پناہ گاہ ہے اور اس کی یہ شان برقرار رکھنا اصلاً اللہ تعالیٰ کے اپنے اہتمام سے ہے، لیکن ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری اُمت محمدیؐ کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کے اس گھر کو طواف،اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے ہرقسم کے شرک کی آلایش اور ہرقسم کے فساد کی رکاوٹ سے پاک رکھیں۔

پھر اس دعا میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ دعا کرنے والوں کو مسلم بنا۔ ایک حاجی کو بھی یہ  جذبہ ان فضائوں سے نچوڑ کر لانا چاہیے کہ وہ مسلم بن کر رہے، وہ خدا کا مطیع فرمان ہو، وہ نہ  بغاوت و سرکشی اختیار کرے، نہ شرک و نفاق کی راہیں نکالے۔ مسلم ہو تو حنیف ہو، یک سُو ہو، ایک ہی رب سے لو لگا لے اور ایک ہی الٰہ کے جلوئوں سے دل کے پنہاں خانے کو روشن کرلے۔

دعا کرنے والوں نے صرف اپنے لیے ہی نعمت ِ اسلام نہیں مانگی، بلکہ اپنی نسل سے بننے والی قوم کے لیے یہ درخواست بھی کی کہ اس کو اپنا مسلم و مطیع بنایئے گا اور اُس کے اندر سے اپنا رسول مبعوث فرما کر ان کو بھی صحیح راہِ عبادت اورطریقۂ اسلام بتایئے گا۔ معلوم ہوا کہ خدا کے رسولؐ کا دامن تھامے بغیر اور اُس کی لائی ہوئی الہامی تعلیم کو قبول کیے بغیر زندگی میں نہ عبادت کا رنگ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ مسلم بن کے جینا ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسولؐ آئے اور خدا کی آیات بندوں تک پہنچائے، ہدایت اُن کو پڑھ کر سنائے، خدا کی کتاب اور حکمت ِ دین کی اُن کو وسیع تر تعلیم دے۔ پھر اُن کی زندگیوں کو فکری و اعتقادی لحاظ سے اور اخلاقی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی سنوارے۔

اب تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم سب مسلمان اس تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ حیات سے سبق لے کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو کیسے اسلامی زندگی بناتے ہیں؟

میرے محترم حجاج بھائیو! یہ فریضہ آپ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ کیا آپ اس فریضے کی ادایگی کے لیے تیار ہیں؟

شیطانوں کو سنگ باری کا سبق

شعائر حج کا ایک اہم موقع وہ ہے جو آپ شیطانوں کو کنکریاں مار رہے تھے۔ کیا اُس وقت آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شیطان بس یہ تین ہیں، جو بُرجیوں کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں؟ آپ کو یہ مغالطہ تو نہیں ہوا کہ شیطان صرف خارج ہی خارج میں ہوسکتا ہے؟ کچھ آپ کو احساس ہوا کہ آپ کے گرد اور آپ کے اندر گھس کر شیاطین ساری عمر شرپسندانہ حرکات کرتے رہے ہیں؟ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی کچھ خواہشیں اور جذبے ہیں، جنھیں ضرورت سے زیادہ اُکسا کر وہ آپ کو ایسی کش مکش میں مبتلا کرتے رہے ہیں جو کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر آدمی کو غلط سمت میں لے جاتی ہے؟ کیا آپ کے تصور میں یہ بات بھی آئی کہ یہاں سے پلٹ کر آپ کا سابقہ پھر انھی شیاطین سے پڑے گا اور آپ کی پھینکی ہوئی کنکریاں اُس وقت تک ان کو سنگسار نہیں کرسکتیں جب تک کہ آپ کچھ کنکریاں اپنے دل و دماغ کے غلط رجحانات پر اور اپنے اعزہ و احباب کی غلط خواہشوں اور نظریات کو بھی نہ ماریں؟

اگر زندگی کی فاسد و مفسد قوتوں کے خلاف خواہ وہ قلبی و ذہنی ہوں یا خارجی، انفرادی ہوں یا اجتماعی، افکار کے میدان میں کام کریں یا اعمال کے دائرے میں___ آپ سنگ باری کا سبق وادیِ محشر سے سیکھ آئے ہیں تو آپ نے حج کی رُوح پالی۔

اصلاحِ معاشرہ کی فکر کیجیے

آپ جس معاشرے کو چھوڑ کر گئے تھے اور جس میں واپس لوٹے ہیں، اس کے احوال پر ذرا غور سے نگاہ ڈالیے۔

یہاں دین سے عملی وابستگی رکھنے والوں اور سچے خدا پرستوں کی بہت کم تعداد پائی جاتی ہے۔ یہاں عظیم معلّمِ توحید حضرت ابراہیم ؑ کے واضح کردہ مسلک کے مطابق ہر طرف سے منہ موڑ کر اور صرف خداے واحد کی عبادت و اطاعت میں لگ جانے والوں اور شرک اور نفاق اور تضاد اور دوعملی و دو رنگی سے پاک افراد آٹے میں نمک کی طرح ہیں۔ اسلامی تقریروں، اسلامی کتابوں، اسلامی تقریبوں، اسلامی میلوں، اسلامی عرسوں، اسلامی جلوسوں، اسلامی مشاعروں، اسلامی یوموں اور اسلامی نعروں کے خوش نما غلافوں کو دیکھ کر ہم سب کی طبیعتیں بہلتی ہیں، مگر غلافوں کو ہٹائیں تو نیچے تو کھلی لادینیت ملتی ہے۔ کہیں بے قید سیکولر زندگی، کہیں مختلف آلایشوں کے ساتھ پائی جانے والی مذہبیت، کہیں تعصب و تخریب کے مارے ہوئے فرقوں کے مناظرانہ محاذ!

مسئلہ صرف وطن عزیز ہی کا نہیں، سارے عالمِ اسلام کی حالت یکساں ہے۔ فرد افراد سے، خاندان خاندانوں سے، سیاسی گروہ سیاسی گروہوں سے، قائدین قائدین سے، مذہبی جتھے دوسرے مذہبی جتھوں سے، جمہور حکمرانوں سے اور حکمران جمہور سے برسرِ کش مکش ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ کوئی روحانیت کے زور سے، کوئی علم کے زور سے، کوئی دولت کے زور سے، کوئی جتھا بندی کے زور سے اور کوئی قانون اور عہدے کے زور سے! نتیجہ ہر سطح پر، ہر دائرے میں معاشرے کی شکست و ریخت ہے۔

آپ کا یہ معاشرہ دولت پرستی اور آسایش پسندی اور معیار پرستی میں اتنی دُور نکل گیا ہے کہ معاشرت کی اکثر و بیش تر پگڈنڈیاں اب حرام کی وادی سے گزرتی ہیں۔ آج رزقِ حلال کا حصول انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔

امتحانات میں، تعلیم گاہوں کے داخلوں میں، ہسپتالوں میں جگہ کے حصول اور پھر عملے کی توجہ اور دوائوں کے حصول میں، مختلف بھرتیوں میں، بھرتیوں کے انٹرویو میں ، تبادلوں اور ترقیوں میں، مواقع مفاد تک رسائی میں، ہر جگہ خیانت کی چوکیاں قائم ہیں۔

آپ کے معاشرے میں بے پردگی کا رجحان بڑھ رہا ہے، فحاشی کے سرچشمے جاری ہیں۔ آپ کے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں، نہایت وحشیانہ تشدد اور سیاسی قتل کے حوادث بار بار ہونے لگے ہیں۔ محافظ امن اداروں کی طرف سے جو تحفظ عوام کو حاصل تھا، روز بروز کم ہو رہا ہے۔ ہر آدمی کو خوف اپنے پنجوں میں دبوچ رہا ہے۔ان حالات میں زندگی کی اُلجھنیں بڑھ گئی ہیں، انسانی رابطوں میں کمی آرہی ہے اور ہر فرد تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس تنہائی کے عالم میں اس کے اعصاب ذہنی اور معاشی بوجھ میں مسلسل اضافے سے چٹخنے لگے ہیں۔ ہرشخص پریشانیوں اور اضطرابات میں گھرا ہوا ہے۔

اب آپ اپنے اس مصیبت زدہ معاشرے پر رحم کھا کر کوشش کیجیے کہ یہاں خداپرستی، رزقِ حلال اور اطمینان قلب کا دور دورہ ہو۔ اس مقصد کے لیے آپ کام کرنے کی راہیں تلاش کریں۔ کچھ نور اگر آپ نے دورانِ حج حرم سے حاصل کیا ہے تو اب قوم کی تاریکیوں میں اسے پھیلانے کی فکر کیجیے۔ کچھ دوڑ دھوپ کیجیے، کچھ تگ و تاز کیجیے، دروازے کھٹکھٹایئے، نیک روحوں کو پکاریئے۔ الحاد اور لادینیت، حرام خوری اور تنگیِ معیشت، بے حجابی اور بدقمارگی کے خلاف ایک محاذ آراستہ کیجیے۔ پاکستان کی وحدت و سالمیت کے مخالفوں اور غایت ِ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ پکڑ لیجیے۔

کیا حج سے حاصل کردہ اسپرٹ آپ کو اس جہادِ عظیم کے لیے نہیں پکارتی؟

انقلابِ آفریں حج کیوں نھیں؟

کتنی عجیب بات ہے کہ کسی قوم کے کئی ہزار افراد ہر سال حج کرکے آتے ہوں اور پھر بھی اس کے اعتقادی اور اخلاقی احوال خراب رہیں۔ اگر ایک ہزار بیدار دل حاجی بھی ہرسال ہمارے معاشرے میں پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہوتے اور ہرسال ایک حاجی ۱۰؍افراد کے سینوں میں ایمانِ باعمل کی شمعیں فروزاں کردیتا تو خداپرست، محبت کیش، وفاشعار لوگوں کی ایسی صفیں کی صفیں تیار ہو جاتیں، جو اسلام کو ایک زندہ قوت میں بدل سکتی تھیں۔

اگر آپ ہمارے ذہنی احوال کو دیکھیں تو ہم میں بے حسی بھی ملے گی، جمود بھی ملے گا،   بے روح اعتقادات ملیں گے، ان پر مناظرانہ بحثیں ملیں گی، رسمیات کی ایک مستقل شریعت ملے گی، شرک و بدعت کے مظاہر ملیں گے۔ اسی طرح معاشی زندگی میں ایک طرفہ فاقہ مستیاں اور دوسری طرف چیرہ دستیاں، ایک طرف بے روزگاری اور دوسری طرف اسراف و تبذیر، ایک طرف مجبوری و بے بسی اور دوسری طرف ظلم و تشدد، دفتری زندگی میں کام چوری اور رشوت، کاروبار میں چو ر بازاری اور ملاوٹ اور گراں فروشی، سماجی طور سے غلاظت و جہالت اور بیماری و بدکاری، امن کے پہلو سے جرائم اور لُوٹ مار۔ آخر اس فضا کو بدلنے کے لیے ہمارے لاکھوں حاجیوں کا حج انقلاب آفریں کیوں نہیں بنتا؟

کلمہ ایک انقلابی نور ہے، اذان انقلابی پکار ہے، نماز روزہ انتہائی انقلاب انگیز عبادتیں ہیں، صدقہ خدائی انقلاب کے علَم برداروں کی توانائی ہے___ اور حج جو بہت سی عبادات کا جامع ہے، وہ تو تاریخ میں بہت عظیم مدوجزر پیدا کرنے والی طاقت ہے۔ تبدیلی نہ کلمے میں آئی ہے، نہ اذان اور نماز میں، نہ روزہ و صدقے میں، اور نہ حج و قربانی میں، البتہ جمود آفریں تبدیلی خود ہمارے اندر آئی ہے۔ زندگی کے تمام خدوخال متحجر ہوگئے ہیں۔ تحریکیت کا سیلابی دریا یخ بستہ ہوگیا ہے۔

مگر یہاں اُجالا کیوں نہیں ہوتا اور ذرّے آفتاب کیوں نہیں بنتے!

  • اس کی وجہ تو یہ ہے کہ حج اور شعائر ِ حج کی حقیقت کا پوری طرح شعور نہیں ہوتا۔ چنانچہ کتنے ہی طائفین حرم ہیں جو واپس آکر پھر وہی کے وہی کام کرنے لگ جاتے ہیں۔
  • دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر حاجی مطمئن ہوکر لوٹتے ہیں کہ اگلے پچھلے گناہ معاف ہوگئے اور اب ان کی روح ٹھیک ٹھاک ہوگئی ہے، لہٰذا وہ دوبارہ اپنی دنیا کی دل فریبیوں میں مگن ہوجاتے ہیں۔
  • تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض حاجیوں میں اپنے متعلق ایک طرح کا احساسِ عظمت و افتخار پیدا ہوجاتا ہے۔ کچھ ان کے گردوپیش کے لوگ اور ان کا گھریلو اور سماجی ماحول بھی ان کے احساسِ افتخار کو پرورش دیتا ہے، حتیٰ کہ بعض لوگ تو مقامِ کبر تک پہنچ جاتے ہیں۔    یہ پندار بعد ِ حج کی برکات کے حصول میں حجاب بن جاتا ہے۔ پھر نہ ان کی ذات میں کوئی تبدیلی آتی ہے، نہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سنوارنے کی فکر کرتے، نہ کاروبار کا نقشہ بدلتے ہیں، نہ عادات و اطوار کے بُرے پہلوئوں کو چھانٹ کر ان کو نئی ترتیب دیتے ہیں۔
  • چوتھی وجہ کچھ لوگوں کی حد تک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ حج کے بعد مکمل طور پر دُنیوی مشاغل کو ترک کر کے جانماز اور تسبیح کو سنبھال لیتے ہیں۔ اُن کی تسبیح اور جانماز کے حلقے کے باہر کی دنیا ایمانی و اَخلاقی طور پر تباہ ہوتی رہے تو وہ بے نیاز رہ کر اپنی عاقبت سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ قوت جو ہرسال حج سے پیدا ہونی چاہیے، وہ اصلاحِ زندگی کے کام کے لیے غیرمؤثر بن جاتی ہے۔

آپ پوری سوچ بچار سے یہ عہد کرکے اپنے ہاں نئی زندگی کا آغاز کریں کہ ایک طرف آپ کو اپنی ساری سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ان تمام چیزوں کو چھانٹ دینا ہے جو خلافِ دین ہیں یا مشتبہ ہیں۔ اپنے نئے مشاغل کا پورا نقشہ ازسرِنو تیار کرنا ہے۔ دوسری طرف آپ کو اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا ہے۔ ایک حاجی کے گھر میں نماز اور قرآن کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ ایک حاجی کے گھر میں پردے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ایک حاجی کے گھر میں نہ حرام مال داخل ہونا چاہیے۔تیسری طرف آپ کو یہ فکر کرنی ہے کہ آپ اپنے محلے، اپنے علاقے یا شعبے، اپنے کاروباری یا دفتری حلقے میں خدا اور رسولؐ کے دین کی دعوت کس طرح پھیلائیں اور اس کام میں کس جماعت یا ادارے یا کن افراد کے ساتھ تعاون کریں۔

حج کے بعد آپ کو دعوتِ دین کا زبردست علَم بردار ہونا چاہیے۔ خدا آپ کو حج کے بعد کی زندگی میں مزید سعادتیں اور برکتیں عنایت فرمائے، آمین!

اُمت مسلمہ کے حقیقی نصب العین کو قرآن کریم نے پانچ بڑی اہم اور واضح اصطلاحات میں بیان فرمایا ہے، یعنی شہادتِ حق، اقامت دین، دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اگر ان تمام اصطلاحات اور ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اظہار پر غور کیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ سب اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ اور قائم کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان سب کا مفہوم اور اقتضاء ایک ہی ہے، یعنی خود اپنے کو اور اللہ کے تمام بندوں کو نیکی کی طرف دعوت دینا، اس کے غلبے کی کوشش کرنا، اور نہ صرف خود برائی سے اجتناب کرنا اور اس کو مٹانا بلکہ اس کے شر سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ یہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

یہ نصب العین وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد اور رنگ، نسل، لسان اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اس کا قیام اُمت پر انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں فرض ہے، یعنی  مسلم اکثریتی صورت حال میں بھی اور کم تعداد کی صورت میں بھی۔ احوال و ظروف اور زمینی حقائق کی روشنی میں اس ذمہ داری کو ادا کیا جائے گا مگر ہردوصورتوں میں یہ یکساں طور پر فرض ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عالمی تناظر میں اس ذمہ داری کی ادایگی صرف مسلم معاشرے تک محدود نہیں۔ اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ حق و صداقت، قیام عدل و انصاف، تحفظ جان و مال، تحفظ عزت اور دینی و مذہبی آزادی کے لیے یہ پابندی نہیں ہے کہ اس پر صرف مسلم اکثریتی تناظر میں عمل ہوگا۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو اسلام نے ہر انسان کو بلا تفریق عطا کیے ہیں۔

قرآن کی دعوت کا مرکزی نکتہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی (طاغوت، ظلم، عدوان) سے نجات دلانا اور انسانوں اور کائنات کے رب کی اطاعت پر آمادہ کرنا ہے۔ اطاعت میں یہ پہلو مضمر ہے کہ یہ شعوری اور ارادی ہے، جبر اور لاچاری کی بنا پر نہیں۔ اس اطاعت اور زندگی میں مرکزیت پیدا کرنے کا دوسرا نام معروف، بھلائی، نیکی، حسنِ عمل، اچھائی اور حق کی دعوت اور قیام ہے۔ اس اخلاقی فریضے کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر قرآن کریم بار بار معروف کے قیام کے حوالے سے تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ ان کا بولنا معروف پر مبنی ہے (قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ، البقرہ ۲: ۲۶۳)۔ ان کی معاشرت معروف طریقے پر ہو (عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، النساء ۴:۱۹) ، حتیٰ کہ ان کی مفارقت بھی معروف کے ساتھ ہو (سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ، البقرہ ۲:۲۳۱)۔ چنانچہ ریاست کے فرائض میں بھی معروف کو مرکزی مقام دیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی جماعت کو اقتدار دے تو وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تمام ریاستی اختیارات کو استعمال کرے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

اسلام جس معاشرے اور ریاست کے قیام میں تمام انسانوں کی فلاح و کامیابی کی خوش خبری دیتا ہے، اس کی بنیاد معروف کے اخلاقی اور قانونی اصول پر ہے۔ اس اصول پر جب بھی اور جہاں بھی عمل کیا جائے گا ظلم و استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری، بدامنی اور خوف کا خاتمہ ہوگا اور معاشرے میں عدل، اخوت، بھائی چارہ، حقوق انسانی کا احترام، نسلی، گروہی، لسانی، علاقائی نفرتوں کا خاتمہ اور انسانوں کے احترام کا باعث ہوگا۔

اس اخلاقی جدوجہد اور معروف کو غالب کرنے کا دوسرا نام اقامتِ دین ہے جو تمام انبیاے کرام ؑکا مشن اور مقصدِحیات رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انبیاے کرام نے تمام انسانوں کو جو دعوت دی وہ صرف ایک قرآنی آیت میں بطور خلاصہ بیان کردی گئی ہے، یعنی اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ    وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ انسانی معاشرہ مسلم اکثریتی ہو یا نہ ہو، طاغوت کی حکمرانی میں زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جس میں طاغوت کی جگہ انسانوں کے خالق و مالک کی بالاتری اور بالادستی ہو، یہی انسانی عقل و تجربے کا مطالبہ ہے۔ معروف کا قیام اور طاغوت کے خاتمے کی جدوجہد ہی اقامت دین کی جدوجہد ہے۔

اگر کسی معاشرے میں ’حقوقِ انسانی‘ کے نام پر غیرفطری جنسی تعلق کو اخلاقاً اور قانوناً درست کہا جا رہا ہو تو ایسے معاشرے کو طاغوتی معاشرہ ہی کہا جائے گا، کیوں کہ جو عمل فطرتِ انسانی اور ہدایت ربانی دونوں کو پامال کرتا ہو اس کو قرآن کریم نے حد سے نکل جانا، اخلاق و قانون کے کناروں کوتوڑ کر معاشرے کو برائی کی لپیٹ میں لے لینے سے تعبیر کیا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں رشوت لینے کو ’حقِ خدمت‘ تصور کرلیا جائے تو یہ معاشرہ بھی طاغوتی معاشرہ ہے کہ اس میں ایک عام انسان اپنا جائز حق بھی بغیر حرام اور ناجائز کام کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر کسی معاشرے میں فرد یا کسی جماعت کی آمریت عوام الناس کی پسند کے منافی اور اخلاق و قانون کے خلاف قانون سازی کرتی ہے تو یہ بھی اس نظام کے طاغوتی ہونے کی دلیل ہے۔

اس طاغوتی، منکر، برائی اور اخلاق و قانون کے منافی معاشرے کی اصلاح اور معاشرہ و ریاست میں قانون کی بالادستی، حقوق انسانی کے قیام اور امن، بھائی چارہ، فروغِ علم، اور جان و مال اور عزت کے تحفظ کی جدوجہد ہی کا دوسرا نام اقامت دین کی جدوجہد ہے۔ گویا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں الہامی اخلاقی اقدار کا نفاذ اور محدود عقل وتجربہ رکھنے والے انسان یا انسانوں کے بنائے ہوئے خودغرضی پر مبنی طریقوں کی جگہ عالم گیر اخلاقی ضابطوں کا نفاذ۔

یہی وہ نصب العین کا شعور اور مقصدِحیات کا صحیح ادراک تھا جس کی بنا پر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی دعوت کو چند نصائح اور تبلیغی کلمات تک محدود نہ رکھا بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انھیں ایسی سلطنت عطا ہو جس کی مثال نہ ہو۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان ؑ کی یہ دعا بیان کرنے کا مقصد واضح ہے کہ اسلام امر بالمعروف کے قیام کے لیے جہاں فرد، خاندان اورمعاشرے کو    ذمہ دارقرار دیتا ہے، وہاں یکساں طور پر ریاستی قوت و اختیار کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کو ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ حضرت یوسف ؑنے مصر کی حکومت کو معاشرتی عدل، امن اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے، اور خالقِ کائنات کی اطاعت میں لانے کے لیے استعمال کیا، اور اسی بنا پر قرآن کریم حضرت دائود ؑکے حوالے سے ہمیں بتلاتا ہے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ مقرر کیے گئے تھے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ہجرت سے پہلے اور طائف کے سفر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس دعا کی شکل میں اظہار کردیا گیا کہ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۰) ’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘۔

یہ خلافت، نیابت یا امارت صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اس کی ہدایات و احکامات کا اجرا کرنے والی قوتِ نافذہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق نہ شخصی آمریت سے ہے نہ موروثی بادشاہت سے، نہ امارتِ استیلاء [جبری حکومت] سے۔ ایک حدیث صحیح نے اس خلافت و امارت کو مسئولیت کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ امارت صفاتی ہے نہ کہ موروثی۔ چنانچہ ایک امیر کو ریاست کے امور میں جواب دہ اور ذمہ دار بنایا گیا اور ایسے ہی ایک صاحب ِ خاندان کو خاندان کے اُمور پر جواب دہ، ذمہ دار اور قابلِ گرفت قرار دیا گیا ۔ گویا جو فرد بھی کسی فرضِ منصبی پر مامور ہوگا، وہ ریاست ہو یا گھر یا کوئی اور ادارہ، اس کی گرفت جواب دہی اور ذمہ داری اس ادارے میں معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی ہوگی۔ اس میں جنس، رنگ، قد اور حیثیت کی قید نہیں ہے۔ شرط صرف کسی منصب پر فائز ہونے کی ہے۔

معروف کے قیام کا نصب العین کماحقہٗ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس کے قیام کی جدوجہد ان تمام پہلوئوں سے کی جائے جن میں فرد، خاندان، معاشی اور ریاستی ادارہ شامل ہیں۔ ریاست کی قوتِ نافذہ اس لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے کہ کسی مقام پر ملکی معیشت، تعلیم، ثقافت، معاشرت، حتیٰ کہ بین الاقوامی مسائل و معاملات کا فیصلہ اگر معروف کی بنا پر ہوگا تو متوازن ترقی اور قیامِ عدل عمل میں آئے گا، اور اگر مسائل و معاملات کو ذاتی پسندو ناپسند، پارٹی کے مفاد کا پابند کیا جائے گا تو معاشرے اور ریاست میں انتشار اور نفسا نفسی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔ اسی بنا پر معروف کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اور معاشرے میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان پر مبنی نظام کا قیام انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر تقاضا ہے۔

معروف پر مبنی ریاست و معاشرے کی پہلی خصوصیت زندگی کے تضادات اور نفاق و شرک کا خاتمہ ہے۔ اسلامی ریاست کی اصل بنیاد توحید ہے، یعنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا کہ کیا اس کام سے خالقِ کائنات خوش ہوگا یا ناراض۔

قرآن و سنت انسانی جان کی حرمت پر بار بار زور دیتے ہیں، یعنی نہ صرف جان کا تحفظ بلکہ ان ذرائع کا دُور کرنا جو انسان کی زندگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں فیکٹریوں کا فضلہ دریائوں میں یا ان سے نکلنے والے غبار شہروں پر ایک دبیز تہہ کی شکل اختیار کرجائیں، اگر گاڑیاں زہریلا دھواں پھیلاتی رہیں تو ایک عام شہری کی زندگی پر اس کا اثر پڑنا ایک یقینی بات ہے۔ توحید کے اطلاق کا مطلب یہ ہوگا کہ معاشرہ اور ریاست اللہ تعالیٰ کے حکم کہ خود کو اپنے ہاتھ سے ہلاک نہ کرو (البقرہ ۲:۱۹۵) کی روشنی میں ایسے قوانین کا وضع کرنا اور نافذ کرنا مسلم معاشرے اور ریاست کا فریضہ ہوگا جو انسانوں کو پاکیزہ فضا فراہم کریں اور وہ دھوئیں اور پانی کی کثافت کی بناپر انجانی بیماریوں کا شکار نہ ہوں، اور نہ اس بنا پر ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کے نتیجے میں  ان کی زندگی مسائل کی آماجگاہ بنے۔ توحید کے اس اطلاق کا اثر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں پر یکساں ہوگا۔ دونوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا حصہ ہے۔

اسلامی ریاست اور معاشرے کے توحید (Allah's sovereignty) پر قائم ہونے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ گو، اسلامی معاشرہ اور ریاست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مامور ہے لیکن اللہ کی شریعت میں دی گئی ضمانتیں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ ریاست یکساں طور پر مسلم و غیرمسلم کی جان، مال، عزت، شہرت، نسبی پہچان اور معقول رویے کے لیے ذمہ دار ہوگی۔ اللہ کے تمام بندے اس معاشرے کے عدل، امن اور متوازن و بابرکت نظام سے مستفید ہوں گے۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کی اصل پہچان معروف کی حکمرانی ہے۔

معروف کی حکمرانی اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب نظم مملکت تنہا کسی فرد کی خواہش، راے، اور فیصلہ کا پابند نہ ہو۔ گویا نہ فوجی آمریت میں نہ بادشاہت اور نہ جمہوری آمریت جس میں کسی  نام نہاد جمہوری ملک کا صدر اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں ۹۷۰ مرتبہ ویٹو کے حق کا استعمال کرسکے۔ ایسے ہی ریاست کسی خاندان کا اجارہ نہ ہو کہ برسہا برس تک باپ کے بعد بیٹی اور پوتا یا بہو یا داماد، اپنے تعلق کی بنیاد پر حکومت کرنے کو اپنا آبائی حق سمجھ بیٹھے۔ ایسے ہی اسلامی ریاست میں کسی ’مذہبی‘ گروہ کی اجارہ داری کہ اسے الہامی طور پر اس منصب پر مامور کیا گیا ہے اور وہ منزہ عن الخطاء ہے، ناممکن ہے، جب کہ عام غلط فہمی برپا کی جاتی ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت ایک theocracy ہے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کا مطلب طالبانائزیشن ہے۔ گو، لغوی طور پر اگر غور کیا جائے تو کسی طالب علم کا بربناے علم و صلاحیت و تجربہ کسی منصب پر فائز ہونا نہ اخلاقی طور پر نہ قانونی طور پر کوئی غلطی کہا جاسکتا ہے، لیکن جو پیغام اس اصطلاح کے استعمال سے دیا جاتا ہے وہ انتہائی منفی اور اسلام کی روح کے منافی ہے، یعنی  حقوقِ نسواں کی پامالی، کوڑوں کا کثرت سے استعمال، ڈاڑھیوں کی پیمایش، تعلیم نسواں کا خاتمہ وغیرہ۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے ان تمام اتہامات میں سے کسی میں بھی ذرّہ برابر صداقت نہیں ہے۔ اسلامی نظام ریاست و معاشرے کی بنیاد ہی لازمی تعلیم و تربیت پر ہے۔ چنانچہ اسلام نے جس معاشرے کو قائم کیا اور جس ریاست کی بنیاد رکھی اس کے سربراہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زوجہ محترمہؓ مدینہ منورہ کے مشہور سات فقہا کی معلّمہ تھیں اور اُمت مسلمہ کی اس ماںؓ کی شاگرد خاتون حدیث اور علمِ حدیث میں محدثین کی معلّمہ تھی۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد اصولِ عدل پر ہے۔ یہاں کوئی فرماں بردار معصوم نہیں ہے۔ ایک خلیفۂ وقت اور ایک عام شہری قانون کی نگاہ میں مساوی ہیں۔

اگر اختصار کے ساتھ اس معاشرے اور ریاست کے خدوخال یا خصوصیات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی اصل توحید اور عدل ہے۔ ان دو آفاقی اصولوں کی بنا پر یہ تمام انسانوں کی بھلائی، معروف کے قیام اور منکر کے خاتمے کے لیے جو نظام تجویز کرتی ہے اس میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے اور نظامِ مملکت کی بنیاد مشاورت یا شوریٰ پر ہے۔ گویا اسلامی نظام نہ صرف اہلِ دانش بلکہ عوام الناس بشمول خواتین کو اپنی راے آزادی کے ساتھ دینے کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ دورِخلافت راشدہ میں جب حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ کا انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو ان کے مقرر کردہ ’الیکشن کمیشن‘ کے ممبران نے مدینہ منورہ کی خواتین سے گھروں پر جاکر ان کی راے دریافت کی اور آخرکار اکثریتی راے کی بنیاد پر نئے خلیفہ کا انتخاب عمل میں آیا۔

اس معاشرے اور ریاست کی بنیاد امانت پر ہے، یعنی ذمہ داریاں ایسے افراد کے حوالے کی جائیں جو امانت اُٹھانے کے مستحق ہوں:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ(النساء ۴:۵۸) ،مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں   اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں تین نکات واضح طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اوّلاً کسی منصب کے لیے انتخاب کرتے وقت ایسے فرد کو منتخب کیا جائے جو اپنے کردار اور صلاحیت و تجربے کی بنیاد پر امین شمار کیا جاتا ہو، یعنی اس میں اس منصب کی صلاحیت بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتا ہو۔ ایک شخص اگر تمام عمر بندوق، توپ، ٹینک، لڑاکا جہاز چلاتا رہا ہو اور اسے اس کے قد، شکل و صورت یا عسکری کامیابی کی بنا پر کسی ملک کی عدلیہ کا یا پارلیمنٹ کا یا صدارت کا منصب دے دیا جائے تو وہ اپنی صلاحیت اور تجربے کا اس منصب پر فائز ہوکر جو استعمال کرے گا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوگا۔ ایسے ہی اگر ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر کو جو جدید و قدیم ادب، فلسفہ یا معاشیات و سیاسیات سے گہری واقفیت رکھتا ہو اور تمام عمر تدریس کے اعلیٰ فرائض ادا کرتا رہا ہو، اس کی اپنے شعبے میں علمی برتری کی بنا پر اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے تو فوج، جنگی حکمت عملی اور ملک کے تحفظ و امن کا جو حال ہوگا وہ کسی پیشین گوئی کا محتاج نہیں ہوسکتا۔

دوسرا نکتہ جو یہاں سمجھایا گیا ہے وہ یہ کہ اگر بالفرض عوام الناس اندھے بھی ہوجائیں اور وہ خود درخواست کریں کہ ایک فوجی ان کا صدر یا عدلیہ کا سربراہ بن جائے، تو وہ شخص کم از کم خود اندھا نہ بنے اور اس فرمایش کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ بھی امانت کے اصول کے منافی ہے۔

تیسری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ کسی ذمہ داری کو دینے یا نہ دینے کی بنیاد نہ  خونی رشتہ ہوگا نہ سسرالی بلکہ صرف اور صرف صلاحیت اور تقویٰ ہوگا۔

اسلامی معاشرہ اوریاست کی ایک اور بنیادی خصوصیت اس کا عصبیتوں سے پاک، قانون کی بالادستی اور روح جمہوریت پر عمل کرنا ہے۔ اسلام جس روح جمہوریت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ  نہ لادینی اباحیت پسند جمہوریت ہے نہ آمرانہ جمہوریت بلکہ یہ ہرشہری کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتی ہے۔ اس میں حاکمیت رب کریم کی اور قوتِ نافذہ اللہ کے اطاعت گزار بندوں کی ہے جو امانت، سچائی، عدل اور انصاف کے اصولوں کو تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے اپنی پالیسی کے ستون بناتے ہیں۔ یہ نظام وہ ہے جس کی بابت قرآن کہتا ہے کہ اگر اسے قائم کیا جائے تو زمین اپنی نعمتیں اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرتا ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔

اُمت مسلمہ کے نصب العین، یعنی امربالمعروف کے لیے فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست بیک وقت اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ یہ کوئی استثنائی عمل نہیں ہے کہ ہر ایک   اپنے دائرے میں کام کر رہا ہو بلکہ یہ ایک متوازی عمل ہے جس میں یہ سب بیک وقت اور باہمی مشاورت و تعاون سے نصب العین کے حصول کے لیے شعوری طور پر ایک ہی سمت میں سفر کرتے ہیں۔ اگر منزل دُور بھی ہو جب بھی اضمحلال، مایوسی اور تھکن کا شکار نہیں ہوتے بلکہ صبروحکمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ قلت تعداد سے اس لیے پریشان نہیں ہوتے کہ رب کریم نے خود یہ اعلان فرما دیا ہے کہ تم میں اگر ۲۰باہمت، باشعور، مستقیم اور صابر افراد ہوں گے تو ۲۰۰ مخالفین پر غالب آئیںگے۔(الانفال ۸:۶۷)۔ چنانچہ برسہا برس کی محنت کے بعد بھی اگر اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کی تعداد بظاہر کم نظر آتی ہو تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ حق ہمیشہ باطل، طاغوت اور ظلم کی کثرت پر بالآخر غالب آتا ہے، البتہ غالب آنے کے لیے بنیادی شرط صبر، یعنی استقامت، عزم و یقین، منزل اور نصب العین کا مکمل شعور ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی ہو تو پھر تعداد کی کثرت بھی مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتی۔ سمندر کا جھاگ کتنا ہی عظیم    نظر آئے کمزور رہتا ہے، اور حق کتنا ہی محدود نظر آئے غالب آکر رہتا ہے۔

عقیدے اور نظریے کے بعد ایک قوم کی پہچان اور اس کی شناخت جس چیز سے عبارت ہے، وہ اس کی زبان اور ادب ہے۔ قومی یک جہتی اور سلامتی اور اس کی ترقی و خوش حالی ہر ایک کا انحصار نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنے اور زبان کے ذریعے فکر وعمل کی راہیں استوار کرنے پر ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ دونوں ہماری قوت کا ذریعہ رہے ہیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، ان کے پیدا کرنے میں نظریہ اور زبان دونوں کے بارے میں ہماری غفلت اور بے وفائی کا  بڑا دخل ہے۔ استعمار کے خلاف جنگ میں ہمارے مضبوط اور مؤثر ترین ہتھیار اسلامی نظریہ اور اُردو زبان ہی تھے، لیکن آزادی کے حصول کے بعد استعمار کی فکری اور تہذیبی ذرّیت نے آہستہ آہستہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی، اس ذرّیت نے نظریے کو کمزورکرنے اور ذہنی اور فکری انتشار پیدا کرنے کے ساتھ پوری چابک دستی سے جو حربہ استعمال کیا، وہ ملک و قوم کو استعماری زبان کی گرفت میں محصور رکھنے کا تھا۔

۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل قومی اتفاق راے کے ساتھ یہ طے کیا گیا تھا کہ قومی زبان اُردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی اور تمام کاروبارِ مملکت قومی زبان میں انجام دیا جائے گا اور یہ عمل زیادہ سے زیادہ ۱۵سال کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ دستور کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ حکم ’shall be‘ کے لفظ کے ساتھ دیا گیا تھا اور ۱۵سال تک انگریزی میں کاروبارِ ریاست چلانے کے معاملے کی محض اجازت اور رخصت ’may be‘ کے لفظ کی شکل میں دی گئی تھی، مگر حکمران قوتوں، خصوصیت سے بیوروکریسی، ایچی سن کالج اور انگلش میڈیم سے نکلنے والی سیاسی قیادت اور انگریزی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے اس پورے عمل کو سبوتاژ کیا اور دستور کے نافذ ہونے کے ۴۲سال بعد بھی قوم انگریزی زبان کی غلامی میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کام کرنے والے تین ججوں پر مشتمل بنچ (جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ)نے ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو ایک تاریخی فیصلے میں قومی زبان کو اس کا اصل کردار دلانے کے لیے جو فیصلہ کیا ہے، وہ بڑا خوش آیند ہے۔ قومی احساسات اورعزائم کا حقیقی ترجمان ہے اور اگر اس پر دیانت اور تندہی سے عمل کیا جائے تو ہماری تاریخ میں ایک روشن اور سنہرے باب کا اضافہ کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلوئوں کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس امر کی بھی نشان دہی کریں کہ اس پر عمل کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستور اور اس میں قومی زبان کے بارے میں طے کردہ پالیسی کو بڑے واضح اور واشگاف انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ دستور نے جو باتیں طے کردی ہیں وہ یہ ہیں:

                الف:         اُردو قومی زبان ہے اور اسے ہی لازمی طور پر تمام حکومتی ، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی دائروں میں اور ہرسطح پر استعمال ہونا چاہیے۔

                ب:           یہ ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دستوری حکم ہے جس پر ۱۵برس کے اندر اندر عمل ہوجاناچاہیے تھا۔

                ج:            انگریزی زبان میں کاروبارِ ریاست چلانے کی اجازت صرف ۱۵سال کے لیے تھی۔ اس طرح ۱۹۸۸ء کے بعد سے دستور کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔

                د:             قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ترقی بھی ایک ضروری امر ہے جس کی طرف خاطرخواہ توجہ کی ضرورت ہے۔

دستور: نظامِ حکومت ، ریاستی انتظامات اور کارروائیوں اور تعلیم کے نظام کے لیے ایک فریم ورک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت کی مناسبت سے دوسری زبانوں، خصوصیت سے انگریزی کی تعلیم اور حسب ِ ضرورت استعمال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگر استعماری حکمرانوں کی زبان کو زبردستی قوم پر مسلط رکھنا دستور کے واضح احکام اور ان کے تقاضوں کے منافی ہے۔

فیصلے کا یہ بڑا ہی روشن پہلو ہے کہ جہاںاس نے انگریزی کی حسب ضرورت تعلیم اور استعمال کو تسلیم کیا ہے، وہیں اس استعماری پالیسی پر بھرپور گرفت کی ہے جس کے تحت یہ غیرملکی زبان ہمارے ملک اور قوم پر مسلط رکھی گئی ہے اور اس سے نجات کو آزادی اور استعماری حاکمیت کے شکنجوں کو توڑنے (de-colonization) کے عمل کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ اس بارے میں جو غفلت اور مجرمانہ کوتاہی ملک کے حکمرانوں اور بااختیار طبقات نے کی ہے، اس پر قوم کی توجہ مبذول کروا کے عدالت ِ عالیہ نے ایک اہم فکری اور تہذیبی خدمت انجام دی ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ دستور کی دو دفعات، یعنی دفعہ ۲۵۱ اور دفعہ ۲۸ قومی اور علاقائی زبانوں کی حیثیت اور ان کے بارے میں قومی پالیسی کو واضح کرتی ہیں اور ان پر بھرپور انداز میں اور بلاتاخیرعمل ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری نگاہ میں فیصلے کا یہ حصہ بڑا اہم ہے کہ عدالت نے اس پالیسی کو واضح کرنے کے ساتھ بڑے صاف الفاظ میں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ ملک میں پوری بے حسی کے ساتھ صرف ان دو دفعات ہی کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی، بلکہ کم از کم تین مزید دفعات کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ سب دفعہ ۵ کی زد میں بھی آتی ہیں کہ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔

عدالت نے متوجہ کیا ہے کہ انگریزی زبان کو قوم اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی کے پورے عمل پر مسلط رکھنے کا نتیجہ ہے کہ قوم ایک مفاد یافتہ طبقے اور اختیارات سے محروم عوام الناس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک عام شہری کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ملک کا قانون کیا ہے، عدالتی فیصلے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، سرکاری نظام کس طرح چل رہا ہے، لیکن یہ سب ایک ایسی زبان میں ہو رہا ہے جس سے عوام کی عظیم اکثریت واقف ہی نہیں اور اس طرح ان کو عملاً کاروبارِ حکمرانی سے نکال  باہر کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دستور کی دفعہ ۱۴ کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ہرشخص کی عزتِ نفس کی ضمانت دیتی ہے۔ دفعہ ۲۵ اور ۲۵-اے کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے جو تمام شہریوں کے درمیان مساوات اور معاملات کی انجام دہی میں یکسانی اوران کے لیے ابتدائی تعلیم لینے میں ان سب کا مطالبہ کرتی ہے۔ عدالت نے یہاں تک کہا ہے اور اس سلسلے میں عدالت ِ عالیہ کے ایک سابقہ مقدمے (PLD 2009 SC 876) کا حوالہ بھی دیا ہے کہ ملک میں جو لاقانونیت اور افراتفری ہے اس میں کہاں تک اس امر کا دخل ہے کہ ملک میں ایک مفاد یافتہ بالاتر طبقہ وجود میں آگیا ہے جو اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اُوپر سے نیچے تک لاقانونیت کا دوردورہ ہے۔ ہماری نگاہ میں قومی زبان، سرکاری معاملات میں غیرملکی زبان کی سفاکانہ حاکمیت کے نتیجے میں قوم: مفاد یافتہ طبقے اور محروم طبقات میں بٹ گئی ہے۔ قومی زبان کے باب میں دستور کے احکامات کی سرکاری سطح پر خلاف ورزی کی نشان دہی بھی اس فیصلے کے بڑا اہم پہلو ہے، جس پر پوری قوم، میڈیا اور پارلیمنٹ کو توجہ دینی چاہیے۔

عدالت نے حکومت، مرکزی اور صوبائی دونوں کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بڑے دُکھ کے ساتھ اس بات کو فیصلے کا حصہ بنایا ہے کہ مقدمے کے دوران بھی حکومتوں کا رویہ غیرذمہ دارانہ اور سہل انگاری کا رہا ہے۔ صرف ۲۰۱۵ء کے سات مہینے میں ۱۴ ایسے مواقع آئے ہیں کہ عدالت کے اصرار کے باوجود حکومت اور اس کے اہل کار کم سے کم معلومات بھی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدالت کو کہنا پڑا کہ: ’’یہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ دفعہ ۲۵۱ کے نفاذ کے لیے الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔

یہ حکمرانوں کے کردار کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے اور ہمارے سیاسی نظام کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔

فیصلے میں تاریخی حقائق کے ساتھ یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ قومی زبان کو سرکاری کاروبار اور تعلیم کے لیے استعمال کرنے میں اصل رکاوٹ حکمرانوں کی غفلت، غیرذمہ داری اور  فرض ناشناسی ہے۔ مشوروں، تجاویز اور منصوبوں کی یا صلاحیت کار کی کمی نہیں ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور مجبوراً عدالت کو مداخلت کرکے ایسے احکام جاری کرنے پڑ رہے ہیں جو دستور کے، خصوصیت سے اس کی دفعہ ۲۵۱ اور ۲۸ کے نفاذ کے لیے ضروری ہیں، دستور اور بنیادی حقوق پر عمل کو مؤثر بنانے کے لیے عدلیہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے کو مجبور پاتی ہے۔

اس تاریخی فیصلے میں عدالت نے نو واضح احکام جاری کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

                ۱-            آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات یعنی ’’اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی و علاقائی زبانوں کے فروغ‘‘ کو بلاغیرضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔

                ۲-            حکومت کی جانب سے اس عدالت کے رُوبرو عہد کرتے ہوئے جولائی ۲۰۱۵ء میں اس حوالے سے عمل درآمد کی جو میعاد مقرر کی گئی ہے، اس کی ہرحال میں پابندی کی جائے۔

                ۳-            قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔

                ۴-            تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے۔

                ۵-            بغیر کسی غیرضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم کرنے والے ادارے (قومی زبان کے استعمال سے متعلق) آرٹیکل ۲۵۱ کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی بنائیں۔

                ۶-            وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔

                ۷-            عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں کا یا ایسے فیصلوں کا جو آرٹیکل ۱۸۹ کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اُردو میں ترجمہ کروایا جائے۔

                ۸-            عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اُردو میں پیش کریں تاکہ عام شہری بھی اس قابل ہوسکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔

                ۹-            اس فیصلے کے اجرا کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہل کار آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔

اس فیصلے کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس نے عوام کا ایک نیا حق تسلیم کرلیا ہے، یعنی یہ کہ اگر قومی زبان کے سرکاری اُمور میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے کسی بھی شہری کا کوئی حق متاثر ہوا ہے یا وہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی وجہ سے خسارے میں رہا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور ہرجانے اور تلافی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس حق کا تسلیم کیا جانا اور تلافی کے لیے دروازہ کھول دینا عدالت عظمیٰ کا بڑا ہی انقلابی اقدام ہے جس کو اب ایک عام شہری بھی استعمال کرسکتا ہے اور اس طرح حکومت پر ایک ایسا دبائو پڑسکتا ہے جو اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔

آخر میں ہم دو باتیں اور عرض کرنا چاہتے ہیں: ایک کا تعلق پارلیمنٹ، سول سوسائٹی، سیاسی اور دینی جماعتوں اور ملک کے نظریے سے وفادار، دانش وروں، اہلِ قلم اور مؤثر افراد سے ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بہت آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے لیکن اس ملک کے دوسرے متعلقہ عناصر (stake holders) کیوں غافل ہیں۔ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کررہی؟ میڈیا اس باب میں کیوں خاموش ہے؟ سیاسی اور دینی جماعتیں کیوں متحرک نہیں؟ قومی زبان کو کاروبارِ مملکت کی حقیقی زبان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بڑا ظلم تو مقتدر قوتوں (بیوروکریسی، سیاست دان، فوجی حکمران) نے بھی کیا ہے جس نے نام تو اُردو زبان کا لیا مگر اس زبان کو جو پوری قوم کی زبان ہے اور جسے ملک کی آبادی کا ۸۰فی صد سے زیادہ حصہ سمجھتا ہے اور رابطے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ۶۰ فی صد سے زیادہ بولنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اسے صرف ۸ فی صد کی زبان بنا کر رکھ دیا اور ایسے تعصبات کو فروغ دیا، جنھوں نے اُردو بحیثیت قومی زبان کے کردار پر منفی اثرات ڈالے۔

کچھ افراد کی مادری زبان ہونے کے باوجود اُردو کسی خاص طبقے کی زبان نہیں بلکہ پاکستان کے تمام لوگوں کی قومی زبان ہے اور اس اعتبار سے اسے اپنا کردار زندگی کے ہرمیدان میں ادا کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اسی سمت میں رہنمائی کرتا ہے۔ حکومت کے معاملات کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اس کے کردار کی فوری فکر کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ مہم محض خواہشات سے سر نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے سب کو سرتوڑ کوشش کرنی ہوگی۔ماضی میں اس عظیم ملّی اور قومی تحریک کی رہنمائی قائداعظم نے کی، جب کہ اسے عملی تحریک بنانے میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی مساعی ہماری قومی تاریخ کا روشن حصہ ہے۔

دوسری بات ہے تو کچھ سخن گسترانہ مگر اس کا اظہار بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ جہاں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے ہمارے سربلند کر دیے ہیں، جس کے لیے ہم عدالت  عظمیٰ کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، وہیں فیصلے ہی میں کیے جانے والے اس اعتراف سے کیسے صرفِ نظر کرلیں کہ اُردو کے اس مقدمے کا آغاز خود عدالت ِ عالیہ میں ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا اور پھر ۲۰۱۲ء میں دوسری پٹیشن آئی، مگر اس اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس اہم ترین معاملے پر فیصلہ کرنے میں ۱۲سال لیے۔ خدا بھلا کرے جسٹس جواد خواجہ اور ان کے بنچ کا کہ انھوں نے اپنے چیف جسٹس ہونے کے ۲۳ دنوں میں جہاں کچھ دوسرے تاریخی فیصلے کیے، وہاں اُردو کے اس مقدمے کو بھی کامیابی سے ہم کنار کیا اور قوم اور ملک کے لیے اپنی زبان میں اپنے معاملات طے کرنے کے اس بند دروازے کو کھول دیا، جس پر مفاد پرست طبقے اور اس کے ہم نوا دانش ور تالے لگائے ہوئے تھے اور بڑی دیدہ دلیری سے ان تالوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ عدالت نے صرف دروازہ کھولا ہے___ اس دروازے سے داخل ہونے اور اسے کھلا رکھنے کی   ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اگر ہم سب بھی متحرک ہوجائیں تو شاید آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق دہلوی کی یہ پیش گوئی ایک نئے رنگ میں پوری ہوسکے گی   ع

کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

بلدیاتی ادارے،عوامی مسائل کے حل کاذریعہ ہوتے ہیں۔لوگوں کو اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل،اپنی دہلیز پر ملتا ہے۔ان کے لیے سڑکیں بنتی ہیںاوران کی گلیاں پختہ ہوتی ہیں۔ان کے لیے پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہوتا ہے اور محلے سے گندے پانی کے نکاس کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان کے معمولی معمولی باہمی تنازعات ،کچہری تھانے کے بجاے محلے کی مصالحتی عدالت میں طے ہوتے ہیں۔پھر یہی ادارے عوامی قیادت کے لیے نرسریوں کا کام دیتے ہیںاور جمہوریت کی تجربہ گاہیں بھی ثابت ہوتے ہیں۔

یہ بھی امر واقعہ ہے کہ بلدیاتی ادارے اور ضلعی حکومتیں محض گلیوں،سڑکوں، شاہراہوں کی تعمیر ومرمت اورفراہمی ونکاسی ِ آب کی اسکیموں کا نام نہیں بلکہ یہ ریاست کی اہم ترین اور مضبوط ترین بنیاد ہیں۔یہ فرد اور ریاست کے درمیان سب سے قریبی اور سب سے مضبوط رابطے کا ذریعہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں وہاں ریاست اور جمہوریت بھی مضبوط ہے۔لہٰذا جو سیاسی جماعتیں بلدیات میں کامیابی ملنے کے بعد عوام کی توقعات پر پورا اترتی ہیں، وہی جماعتیں ملکی انتخابات میں بھی واضح اور شان دار کامیابی حاصل کرتی ہیں ۔

ترکی میں طیب اردوگان کی مسلسل کامیابی کی اصل بنیاد،ان کی بطور میئر استنبول کامیابی ہے۔وہ استنبول کے مئیر بنے تو انھوں نے عوام کی بے مثال خدمت کی ۔استنبول کا دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیرپڑے نظر آتے تھے۔انسانی اسمگلنگ ،   جعلی کرنسی، منشیات ،قبضہ گروپوں اور جوا خانوں سمیت ہر طرح کے مافیا کا شہر پر غلبہ تھا ۔مہنگائی اپنے عروج پر تھی ۔بنیادی خوراک، یعنی روٹی تک،غریب آدمی کی دسترس سے باہر تھی ۔پھر اردوگان اور نجم الدین اربکان کی جماعت کے لوگوں کی انتھک محنت کے نتیجے میں شہر بدلنے لگا۔ صفائی کا نظام درست ہوا۔ ٹریفک پر کنٹرول پایا گیا۔ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بڑھیں۔مافیا کو لگام ڈالی گئی۔سرکاری انتظام میں سستی روٹی کا بندوبست ہوا۔تب طیب اردگان عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔ سیکولر ترکی کے تمام طبقوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اوروہ تین مرتبہ ترکی کے وزیرِ اعظم بنے۔

بلدیاتی اداروں کی اس اہمیت اور افادیت کے باوجود،پاکستان میںکسی بھی جمہوری اور عوامی حکومت نے اپنے دورمیں ان مقامی حکومتوں کے انتخابات کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، بلکہ جتنے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیںوہ آمرانہ فوجی حکومتوں کے دور میںہی ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی آمر بھی اپنے اپنے دور میں بلدیاتی اداروں کا قیام نہ تو عوام سے خیرخواہی کے جذبے کے تحت عمل میں لائے اور نہ انھوں نے ایساجمہوریت کی محبت میں کیا بلکہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا۔

۲۰۰۸ء میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی۔ ۲۰۰۹ء آیا تو بلدیاتی اداروں کی نئی قیادت کے انتخابات کروانے کے بجاے،ان میں ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے گئے۔اس پر بلدیاتی اداروں کی سابقہ قیادت سپریم کورٹ میں چلی گئی۔اسی دوران ا ٹھارھویںآئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو صوبوں کے اختیار میں دے دیاگیا۔صوبائی اسمبلیوںنے سپریم کورٹ کے دباؤ میں ۲۰۱۳ء میںاپنی اپنی مرضی کے ’’لوکل باڈیز ایکٹ‘‘پاس کرلیے۔جس کے خلاف صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی اپوزیشن پارٹیوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پنجاب اوربلوچستان اسمبلی نے  جنرل ضیاء الحق کے رائج کردہ لوکل باڈیز ایکٹ کو کچھ بنیادی ترامیم کے ساتھ اختیار کرلیا ۔اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی نے جنرل پرویز مشرف کے متعارف کروائے ہوئے لوکل باڈیزایکٹ میں کچھ بنیادی ترامیم کیں اور نچلی سطح تک اختیارات کی حقیقی منتقلی کا نظام متعارف کرایا۔صوبہ سندھ نے مذکورہ دونوں فوجی آمروں کے بلدیاتی نظاموں کو یک جا کرکے،ایک ملغوبہ تیار کرلیا۔

صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے انتظامی اختیارات اور مالی وسائل، صوبائی انتظامیہ کی نگرانی میں رکھے ہیں تاکہ بہرصورت اگریہ بلدیاتی ادارے تشکیل پا ہی جائیں تو’اپاہج‘ رہیںاور سارے اختیارات صوبائی انتظامیہ کے پاس ہوں۔ اس کے علاوہ ان انتخابات کے جماعتی؍غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے کو بھی انھوں نے متنازع بنا ئے رکھااورحلقہ بندیاں بھی اپنی اپنی پسند کی کر رکھی ہیں۔پھر مخصوص سیٹوں پر بالواسطہ انتخابات کا معاملہ بھی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ان سول حکومتوں کے یہ سارے اقدامات ،بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ان کے تاخیری حربوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے دباؤ اور صوبائی حکومتوں کی نیم دلی کے درمیان ،الیکشن کمیشن آف پاکستان’سینڈ وچ‘ بنا رہاہے، جب کہ آئینی طور پر انتخابات کا انعقاد اس کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ سپریم کورٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دوسری طرف انتظامی اور مالی معاملات میں یہ حکومتوں کا مرہونِ منت ہے۔ان معاملات میں یہ ابھی خودمختار نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے سپریم کورٹ میں ’سرخروئی‘ کی غرض سے ،۲۰۱۳ء میںبلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا۔جو مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے ۲۰۱۵ء میں مکمل ہوئے ہیں۔اب دو سال بعد، وہاں بلدیاتی اداروں کے برسرِکار ہونے کا مرحلہ آیا ہے تو بلدیاتی اداروں کی نئی قیادت نے،بر ملا اپنی بے اختیاری پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ان اداروں کو اختیار نہیں دینا تو ان کو ختم ہی کر دیا جائے۔یہاں جماعت اسلامی کے جیتنے والے ہر کیٹیگری کے کونسلرز کی تعداد۲۵ ہے۔ایک یوسی چیئرمین بھی اس میں شامل ہے۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میںبھی ۲۰۱۳ء کے لوکل باڈیز ایکٹ نے۲۰۱۵ء میں آخرِکار حتمی شکل اختیار کرلی اور ۳۰۔مئی کو یہاں بھی بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ جس میں    ’ویلج کونسلز‘ اور’ نیبر ہڈکونسلز‘کے کامل، جب کہ ضلع ،تحصیل اور ٹاؤن کونسلز کے صرف کونسلرزکے انتخابات ہوئے۔ ضلع کی سطح پر جماعت کے ۸۷ کونسلرز اور تحصیل سطح پر ۱۳۴کونسلرز منتخب ہوئے ہیں۔ویلیج کونسلز اور نیبر ہڈ کونسلز کے انتخابات کے نتائج،صوبائی نظم ابھی مرتب کر رہا ہے۔ اس کے بعد والے مرحلے میں ضلع ،تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر ناظمین اور نائب ناظمین کے الیکشن ہوئے ہیںتو ان میں جماعت اسلامی کے چار ضلعی ناظم ، تین نائب ضلعی ناظم،۱۳تحصیل ناظم اور ۱۷ نائب تحصیل ناظم منتخب ہوئے ہیں۔نیزاپردیر،لوئردیر،چترال اور بونیرکی مکمل ضلعی اور تحصیل کونسلز میںتو جماعت اسلامی کے پورے پورے پینل کامیاب ہوئے ہیں۔یوں ان چاروں اضلاع اور ان کی تحصیلوںکے بلدیاتی اداروں میں جماعت اسلامی کو واضح برتری حاصل ہے۔

اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میںجو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے ،ان میںبھی کراچی بلدیہ میں جماعت اسلامی کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے عبدالستار افغانی مرحوم دو بار میئر کراچی منتخب ہوئے ۔ان کا یہ انتخاب کراچی کے شہریوں کی طرف سے، ان کی دیانت دار قیادت میں جماعت اسلامی کی کراچی کے لیے خدمات کا اعتراف تھا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے پہلے بلدیاتی دور ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۴ء میں ،جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ،کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ناظم منتخب ہوئے۔ان کے دور میں کراچی میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے۔ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے بین الاقوامی سطح پر معاہدے کیے جو عالمی اداروں کا ان کی قابلیت واہلیت اور امانت ودیانت پر اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اب صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں یہ بلدیاتی انتخابات تین مراحل میں ہورہے ہیں۔ دونوں صوبوں میں پہلے مرحلے کے انتخابات۳۱؍اکتوبر کومنعقد ہوں گے۔دوسرے مرحلے کے انتخابات۱۹ ۔نومبر کو ہونے قرار پائے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات ۳۔دسمبر کو ہوں گے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ۱۰ستمبر کو اسلام آباد میں ،ان انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے نمایندوں سے،ایک مشاورتی اجلاس منعقد کر کے تفصیلات طے کی ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان ہمیشہ کی طرح اب بھی بلدیاتی انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہی ہے۔ہرضلعی نظم اپنے اپنے ضلع کے معروضی حالات کے مطابق کسی بھی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا بناسکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی رابطہ عوام مہم ،اگلے عام انتخابات کے لیے ’ انتخابی مہم‘ کی بنیاد بنے گی۔ اس طرح ان بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی،آیندہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو ایک ’مؤثر پارلیمانی قوت‘ بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی اور جماعت کی دعوت اور پیغام کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا ذریعہ بنے گی، ان شاء اللہ !               

انسان کب سے اس دنیا میں موجود ہے؟ وہ کب سے زندہ ہے؟وہ کون ہے ؟وہ کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جانا ہے ؟اس کے چاروں طرف جو کچھ ہے، اس کی اَصلیت کیا ہے ؟  اس کے ماںباپ بہن بھائی اور دیگر لوگ، جمادات، نباتات،حیوانات، یہ زمین ،چاند،سورج اور ستارے ،یہ کہکشاں، یہ کائنات کیسے وجود میں آئے ؟کیا یہ خود بخود اور اتفاقیہ بن گئے ہیں ؟ یا اِن کو کسی نے بنایا ہے اور اگر کسی نے بنایا ہے تو کیوں بنا یا ہے؟___  انسانی زندگی اور کائنات سے متعلق یہ سوالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے جوابات کے نتیجے میں ہی زندگی کا رُخ متعین ہوتا ہے اور تہذیب و تمدن کے اصول طے پاتے اور بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔

انسانی علم کی حقیقت

انسان قدیم زمانے سے اِن سوالات پر بہت سوچ بچار کرتا ر ہا ہے۔ وہ تخلیقِ کائنات، تخلیقِ حیات او ر خود اپنی تخلیق کے بارے میں اَن گنت نظریات قائم کرتا رہا ، پھر نئی معلومات اور نیاعلم حاصل ہونے پر ان کو چھوڑتا رہا اور نئے نظریے قائم کرتا رہا۔انسانی علم کا دارومدار صر ف حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے مشاہدے،تجربات و تجزیوںپر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اس کے ہی مشاہدے پر مشتمل ہو سکتا ہے، یعنی جوکچھ اس جہاں میںانسان کو نظر آ سکتا ہے یا محسوس ہو سکتا ہے، چاہے براہِ راست یا مختلف آلات کی مدد سے۔ اورجو کچھ حواس سے ماورا ہے، اس کا انسان نہ مشاہدہ کر سکتا ہے، نہ محسوس کرسکتا ہے، نہ اس پرتجربات کر سکتا ہے۔ سائنس کاعلم مادّے اور توانائی جیسی محسوس ہونے والی چیزوںتک محدود ہے۔آج کا انسان بھی آج جو کچھ حاضر و موجود ہے اس کا ہی علم رکھتا ہے اور رکھ سکتا ہے۔جو کچھ کائنات میں اس وقت موجود ہے یا بن رہا ہے، یعنی تخلیق و تشکیل پا رہا ہے اس کا ہی مشاہدہ کر سکتا ہے،اس پر تجربات اورتجزیہ کر سکتا ہے۔تاہم سورج، چاند، ستارے اور اس زمین پر موجود اَن گنت اَنواع و اَقسام کے جانور پہلی مرتبہ کیسے وجود میں آئے؟ اس کے بارے میں علمی وسائنسی بنیادوں پرحتمی طور پر وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔۱؎ انسان قیاس کر سکتا ہے اور پھر اس قیاس کی بنیاد پر کچھ تجربات کر کے ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس بنیاد پر کچھ اصول و ضوابط اور قوانین بناسکتا ہے۔

بیسویں صدی کے اَوائل میں آسمان کا مشاہدہ کرنے والے ایک شخص ’اَڈوِن ہَبِل‘ نے فلک پر موجود اَجرام کوایک دوسرے سے دُور بھاگتے دیکھا، تواس بنیاد پرقیاس کیا گیا کہ ایک ایسا وقت ضرور رہا ہوگا جب یہ ساری کائنات یک جا تھی،ایک نہایت باریک نکتے سے بننا شروع ہوکراب اس قدر پھیل گئی ہے۔۲؎  اس قیاس کو عظیم دھماکے (Big Bang) کا نام دیا گیا۔برسوں تجربات کرکے بڑی مشکل اور مزاحمت کے بعدعلمی و سائنسی دنیا کی عظیم اکثریت نے اِس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا، لیکن یہ امکان اب بھی باقی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔ اَیسا ہی ایک نظریہ اس زمین پر زندگی کی آمد کے بارے میں قیاس کیا گیا تھا کہ حیات کا پہلا سالمہ (molecule) زمین کے ماحول میں بہت سے جواہر اور سالموں کے ازخود مل جانے سے خود بخوداتفاقیہ حادثاتی طور پر تشکیل پاگیا اور اس سے ترقی کرتا ہوا انسان ارتقا کی منزل تک پہنچ گیا۔ پہلے سالمے کے از خود بن جانے کے اس قیاس کو ثابت کرنے کے لیے ’سٹنلے ملّر‘نے ناکام تجربہ کیا۔ ۳؎ اس کے بعدسے اب تک ہزاروں تجربات کیے گئے لیکن اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔

انسانی ارتقا اور سائنسی حقائق

ارتقا کا نظریہ اس پہلے سالمے کی از خود (It self) اتفاقی (by chance) حادثاتی (accidental) پیدایش کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا۔ ایک سادہ ترین یک خَلوی(uni cellular) جان دار سے اِرتقا پاتا ہوا انسان بنا، مگر جب پہلے ’سالمے‘ کا ازخود بن جانے کاثبوت نہ مل سکا اور نہ پہلے زندہ خَلیے(living cell) کا ثبوت ملا کہ کب اور کہاں بنا؟___ انسانی علم تو اب تک یہ بھی نہیں طے کر سکا کہ حیات کی ابتدا کس مرحلے سے ہوئی،ایک خَلیے (cell) سے، DNA سے، RNA سے، امائینو تُرشوں (Amino Acids) سے یا اس سے بھی سادے بنیادی سالموں سے۴؎ ___تو انسان کی ارتقا کے ذریعے آپ سے آپ پیدایش کی بات کیسے کی جا سکتی ہے، جب کہ ایک خَلیے کو بنانے کے لیے کم و بیش ۱۰ لاکھ سالموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ایک دور کی کوڑی ہاتھ لگی ہے کہ جب خلا سے آنے والے پتھروں (Meteoroids) کا تجزیہ کیا گیاتو معلوم ہوا کہ ان میں ایسے سالمے موجود ہیں جو صرف زندہ خَلیوں میں ہوتے ہیں۔یہ وہ سالمے ہیں جن سے زندگی کی ابتدا ہوئی ہے۔کئی شہابِ ثاقب جو خلا سے زمین پر وارد ہوئے ان میں یہ سالمے پائے گئے۔ایسے بھی شہاب ملے جس میں بکٹیریا کی پوری کالونی کے آثار تھے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ان کی عمر کاحساب لگایا گیا تو اِن کی عمرنظامِ شمسی کی عمر سے بھی زیادہ نکلی،یعنی کہ یہ سالمے اور خلیوں کی کالونیاں خلا میں بہت دور کہیں نظامِ شمسی کی پیدایش سے بہت پہلے بنے تھے۔ یہ خلیے نظامِ شمسی کی پیدایش سے پہلے موجود تھے،مگر اب تک جدید تحقیق سے یہ سب تجزیے ثابت نہیں کیے جا سکے ہیں۔۵؎

انسانی فکر کا مخمصہ

آج کے انسان کی بد نصیبی دیکھیے کہ آج کا انسان ،اتنی بہت ساری معلومات کے باوجود ، جو مسلسل تجربات سے پرکھ بھی لی گئی ہیں ، اس سے حاصل ہونے والے صاف صاف اور واضح نتائج کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے کہ آج کا انسان بہت سارے علوم سے واقف ہونے کے باوجود اپنی ہی قائم کی ہوئی ایک بنیادی فکر کا غلام ہے۔ اس نے اس کی ایک یک رنگی عینک  پہن رکھی ہے۔یہ اس کو ہر چیز کا وہی رنگ دکھاتی ہے، جواِس عینک کا رنگ ہے، جو اس نے خود ہی پہن رکھی ہے۔ اسٹیفن ہاکینگ برطانیہ کے ایک سائنس دان ہیں جنھوں نے اپنی کتاب کا نام ہی ’عظیم منصوبہ‘ (The Grand Design)رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ کائنات،پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے بغیربننا شروع ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر کچھ طبعی قوانین(physical laws)تھے جو خودبخود عمل پذیر تھے، جن کی بنیاد پر یہ کائنات آپ سے آپ اور اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر ’عظیم دھماکے‘ سے بننا شروع ہو گئی‘‘ ۔حیرت انگیز! پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’عظیم دھماکے سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، نہ توانائی ،نہ مادّہ، نہ کوئی دھماکا کر نے والا ہی ‘‘۔ گویا اس دھماکے کے لیے نہ بارود تھا ، نہ دیا سلائی، نہ بارود کو دیا سلائی دکھانے والا۔ بس دھماکا ہوگیا،اور کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے لیے ’’کسی خالق(God)کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘‘۔ ’عظیم منصوبہ‘ تو موجود تھا مگر کوئی ’عظیم منصوبہ ساز‘ نہیںتھا، طبعی قوانین تو تھے مگر اس کا کوئی بنانے اورچلانے والا نہیں تھا، قوانین حرکت میں تھے مگر حرکت دینے والا کوئی نہ تھا‘‘۶؎ __کیا یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز، غیر علمی ، غیر منطقی اور غیر سائنسی بات نہیں ہے؟

انسان کھرب ہا کھرب اِحتمالات و اِمکانات کے دقیق و عمیق حساب و کتاب (minute & precise calculations) خود کرتا ہے اور خود ہی رَد کردیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کائنات کو خودبخود بننے کے لیے پہلے ہی سے اس کی منصوبہ بندی ، اس کے ہر ہر مرحلے کی تفصیلات ،اس کے ہر ہر مرحلے کی ترتیب کو مقرر کرنا ضروری تھا، اور ظاہر ہے کہ اتنے دقیق حسابات ، عظیم منصوبے ا ور حسن ترتیب کیا خودبخود بغیر کسی کر نے والے کے ہو سکتے ہیں؟___ ہاں! آج کے تعلیم یافتہ انسان اسی مفروضے پر نہ صرف اَڑے ہوئے ہیں بلکہ اسی کو عین علمی،سائنسی اور عقلی(rational)و منطقی (logical) رویہ سمجھ رہے ہیں۔ گویا جانتے بوجھتے حقیقت سے فرار اختیار کرکے اور آنکھوں کو بندکرکے اندھیرے میںہاتھ پائوں مارنے کو ہی سائنسی و عقلی رویہ کہتے ہیں۔

 اس رویّے کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اِس کا کوئی خالق بھی ہے، اوراس بات پر بھی انھیں شک ہے کہ یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے اور اس کو کبھی ختم بھی ہوجانا ہے۔ہر طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔’عظیم دھماکے‘ کو بھی برسوں تک مان کر نہ دینے کی بھی یہی وجہ تھی۔ اگر دھماکے کو مانتے ہیں تو عدم سے وجود کو ماننا پڑے گا۔ عدم سے وجود کومانیںتو تخلیق کو ماننا پڑے گا،تخلیق کومانیں تو خالق کو ماننا پڑے گا اور خالق کو مانیں تو اس خلّاقیت کا مقصد بھی جاننا ہوگا۔اگر مقصدِ تخلیق معلوم ہو جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک روز خالق کو یہ پوچھنے کا اختیار ہوگا کہ اس نے مقصد کو پورا کیا یا نہیں؟پھر مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے والے کو جزا اور نہ پورا کرنے والے کو سزا دینا ضروری ہوگا، پھراس جزا و سزاکو نافذ کرنے کے لیے ایک نئی زندگی بھی ضروری ہو جائے گی۔یہ وجہ ہے جس کے لیے یہ غیر علمی و غیرسائنسی مفروضہ طے کیا ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہی نہیںہے، یہ ازخود حادثاتی طور پر بن گئی ہے۔مگر ’عظیم دھماکے‘ کو بڑے تردد کے ساتھ ماننے کے بعد یہ لوگ عجیب مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔دھماکے کو ماننے سے   نہ صرف خالق کوماننا ضروری ہوجاتا ہے،بلکہ عدم سے وجود کو ماننے سے، ’ابتدا‘ کو ماننے کے ساتھ ’خاتمہ ‘کو ماننا اور دوسری زندگی کو ماننا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔

غیرعلمی و غیرسائنسی رویّہ

یہ رویہ غیر علمی و غیر سائنسی ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے سائنس دانوں نے انسانی علم ’سائنس‘ کی یہی تعریف کی ہے کہ چاہے مشاہدات ہوں یا تجربات، یا ان کی بنیاد پر بنائے گئے اصول و قوانین، سب قیاس اور مفروضوں کی بنیاد پر انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کی بنیاد پر کوئی   حتمی و یقینی بات نہیں کی جا سکتی ہے ۔ سائنس نہ کسی بات کی تصدیق ہی کر سکتی ہے، نہ تکذیب (falsify)۔ انسانی علم (سائنس ) صرف ممکنہ ٹھوس حقائق کی بات کر سکتا ہے ،مسلّمہ ٹھوس حقائق بتانا اس کے بس میں ہر گز نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ کسی بھی اِحتمال کو سائنسی بنیاد پرنہ مکمل طور پر قبول کرسکتے ہیں نہ رَد۔ اگر آپ حتمی طور پریہ کہیں کہ یہ کائنات کسی کے بنائے بغیر خود بخود بن گئی ہے تو یہ ایک انتہائی غیر سائنسی رویّہ ہی کہلائے گا۔۷؎

کیا آج کے عظیم علم اور دقیق و عمیق حساب و کتاب کے جاننے والے کی اِنتہائی بد بختی و بدنصیبی نہیں ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ کائنات، یہ حیات، یہ انسان کسی کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ یہ خود محض اتفاق سے حادثاتی طور پر اپنے آپ وجود میں آ گئے ہیںاور سادہ ترین زندگی سے ترقی کرتے کرتے انسان تک پہنچے ہیں۔ آپ سے آپ اور اتفاقیہ حادثاتی طور پر بننے کو ثابت کرنے کے لیے مفروضوں کی بنیاد پر عجیب عجیب نظریات پیش کیے جارہے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ کبھی کہتے ہیں کہ ایک ’عظیم دھماکے‘ سے یہ کائنات بنی۔کائنات میںجتنی توانائی تھی جب اس سے سارے ستارے بن چکیں گے، یہ سب ستارے پھٹ کر’سیاہ جوف‘ (Black Holes) میں تبدیل ہو چکیں گے، پھر ان ’سیاہ جوفوں‘ کی توانائی بھی فنا ہو جائے گی، توپھرکائنات واپس عظیم دھماکے سے پہلے کی حالت کی طرف لوٹ جائے گی، پھر ایک نیا عظیم دھماکا ہوگا۔یہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا ہے یوں ہی چلتا رہے گا۔۸؎

 حال ہی میںایک اور نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جیسی ہماری کائنات ہے ایسی بہت ساری کائناتیںہیں جن کے عظیم دھماکے پانی کے بلبلوں کی طرح مسلسل ہو رہے ہیں، کئی بن رہے ہیں اور کئی ختم ہو رہے ہیں۔ گویا اس سے بھی یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور یہ کہ یہ خود بخود اتفاقیہ حادثاتی طور پر بن رہی ہے اور فنا ہورہی ہے۔۹؎

ان کی بد نصیبی دیکھیے کہ یہ لوگ جو بہت محنت کر رہے ہیں،  بہت وقت بلکہ پوری پوری زندگیاں کھپا رہے ہیں،بڑا مال اور صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں۔اس معاملے میںان کی تعریف میں بخل نہیںکیا جا سکتا،ان کو داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ وہ انسان کے بنیادی سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔ ہر قسم کے’انسانی علم ‘کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، زمین کی ایک ایک پرت میں تلاش کر رہے ہیں، ہرمادّے میں، ہر جان دار میں، چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں۔ اربوں کھربوں گنا بڑی کر کے دکھا نے والی خوردبینیں ایجاد کیں، تاکہ جوہر (atom) کے اندراور    زندہ حیاتیاتی خَلیہ(living cell) کے اندرتک دیکھ سکیں۔ دنیا کا چپہ چپہ ہی کیا،اس سوال کے جواب کی تلاش میںآسمانوں اور خلائوں کو نہیں چھوڑا۔ اک اک شہابِ ثاقب کا خوردبینوںسے مطالعہ کر رہے ہیں،اک اک شہابیئے، دُم دار سیارچے (comets) ، سیارے اور ان کے چاندوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ نہ محنت میں کوئی کسر ہے، نہ سرمایہ خرچ کرنے میں بخل، مصنوعی سیارے تک خلا میں بھیج بھیج کر معلومات جمع کر رہے ہیں۔۱۰؎

اصل سوال کیا ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ سرگرداں ہیں؟ سوال وہی ہے کہ یہ ساری کائنات اور انسان کب ،کہاں، کیسے اور کیوں وجود میں آئے؟ہماری ابتدا کیسے ہوئی؟یہ ایک اہم اور بڑاسوال کہ ہم کس مقصد اور کس کام کے لیے تخلیق کیے گئے؟ ہمارا اس کائنات میں کیا کردار ہے؟ کیا ہم پہلی اورآخری مرتبہ پیدا ہوئے ہیں؟کیا ہم مر کر ہمیشہ کے لیے مٹی میں مل جائیں گے   یا ہم کو ایک نئی زندگی دوبارہ عطا کی جائے گی؟۔۱۱؎

صدافسوس کہ ان کی ساری محنتیں اورکوششیں اکارت جارہی ہیں،کیوںکہ یہ لوگ اپنی تحقیقات کی بنیاد ہی غلط ڈالتے ہیں۔ ان کا رویّہ ذرا بھی اِنصاف کے ساتھ غیر جانب دار نہیں ہے ، ان کی فکر انتہائی غیر علمی ، غیر سائنسی، غیر منطقی اور غیر عقلی ہے۔ اگر کسی بات کا کھوج لگانے والاپہلے ہی یہ طے کر لے کہ وہ یہ نتیجہ آئے تو قبول کرے گا ،اس کے خلاف دوسراآئے تورَد کر دے گا۔ پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان کو یقین پر ترجیح دے گا تواس کو اپنی تحقیق میں بھی وہی کچھ نظر آئے گاجو اس کا گمان(presumption)ہوگا۔ وہ اپنی محنت سے حاصل کیے ہوئے صحیح نتائج کو بھی رَد کر کے اپنے علم کے مُردہ خانے میں جمع کر دے گا۔ اگر کوئی شخص ایک رنگ کی عینک لگا کر دنیا کو دیکھے گا تو اس کو ہر چیز کا وہی رنگ نظر آئے گا جو عینک کے شیشوں کا رنگ ہوگا۔کوئی دوسرا رنگ وہ کیسے دیکھ سکے گا؟

پوری دنیا کی جامعات میں ہر مضمون کے ’انسانی علوم‘ میں ڈاکٹریٹ کرنے اور کرانے والوں کی ۹ء ۹۹ فی صد اکثریت نے یہ فرض بلکہ یقین کر رکھا ہے کہ یہ کائنات، یہ زمین، یہ حیات اور انسان اپنے آپ، از خود، اتفاقیہ حادثاتی طور پر وجود میں آگئے ہیں۔ وہ دوسرے کسی اِمکان و اِحتمال پر غورہی نہیں کرنا چاہتے،چاہے وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو۔

یہ سب آپ سے آپ، از خود، اتفاقیہ اورحادثاتی طور پر بن جانے کا احتمال چاہے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، یہ لوگ اس کے علاوہ کسی دوسری بات پر غورکرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔جو اِمکانات اور اِحتمالات نظرآرہے ہیں ان پر غور و فکر کرنے کو غیر علمی، غیر سائنسی اور غیر عقلی بات سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان ساری موجودات کا کوئی خالق بھی ہے یا ہو سکتا ہے۔

کوئی ایسا کام ہونا چاہیے کہ جو ان عقل کے اندھوںکی آنکھیں کھلوا سکے۔ ان کو انصاف پر مبنی غیر جانب دار اورحقیقی و عقلی رویّے کی طرف بلائے۔ان کو اصل علمی،عقلی اور سائنسی طریقے کی طرف مائل کرے اور پھر ان کے قلوب میں اپنے اور ان کے خالق کی جگہ بنائے۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ خالق کو مانیں۔ تاہم یہ تو ہونا چاہیے کہ یہ لوگ اپنی تحقیقات میںاپنے ہی بڑے بڑے سائنس دانوں کی بتائی ہوئی ’سائنس‘ کی اصل تعریف کے مطابق خالص (pure)علمی طریقہ اختیار کریں۔ صاف اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ ہر اِمکان اور اِحتمال کو انصاف کے ساتھ حق کے مطابق برابر کی اہمیت دیں، اوراپنے نتائج کو پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان سے آزادکرکے خود پرکھیں اور پھر کوئی نظریہ قائم کریں۔

حقیقتِ کائنات جاننے کا صحیح رویّہ

انسانی علم ہی کے مطابق یہ کائنات، یہ زندگی اورانسان، کیا صرف اِتفاق سے کسی طاقت ور کے بنائے بغیر خودبخود حادثاتی طور پر وجود میں آ سکتے ہیں؟ دوسری غور طلب بات جس پر غوروفکر ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس جہاں میں جو کچھ ہم کونظر آ رہا ہے، اس کے تخلیق کر نے والے کے اندر کیا صفات،طاقتیں ،صلاحیتیں اور اختیارات ہو ناضروری ہیں جس کے بغیر وہ یہ سب کچھ تخلیق کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر چیزابتدا سے خود تشکیل دے، کسی دوسرے سے کوئی چیز نہ لے، یعنی اس طرح وہ ہر شے کا اکیلا ہی مالک، خالق اور حاکم ہو۔سب قوتیں بھی اسی کی ہوں، سب مادے بھی اسی کے ہوں۔اسی سے تیسری اہم بات یہ نکلتی ہے کہ یہ کسی ایک ہی شخصیت کا کام ہو۔ جس طرح ان ساری تخلیقات کی پہلے سے منصوبہ سازی کی گئی، عظیم منصوبہ (The Grand Design) پہلے سے موجود تھا ، اس کی تخلیق کے ہر ہر مرحلے کی ترتیب پہلے سے مقرر کی گئی ، چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات پہلے سے طے کی گئیں ، پھراس کوبنانا شروع کیا گیا ہے__ اوراب تک اس کو چلایاجارہا ہے، تو اس کی ملکیت میں،اس کے اختیارات میں،اس کی خلاّقیت میں،اس کی طاقتوں و صلاحیتوں میں، جیسا کچھ تنظیم ، ربط اور توازن ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کام میں کسی کم تر سے کم تر ذات کی معمولی سی شرکت بھی اس تخلیق اوراس کی بنیاد پر چلنے والے سارے نظام کو بگاڑ دیتی۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کائنات میں موجود مادّے توانائیاں اور زندگی کی انواع و اقسام کتنی عظیم اور وسیع ہیںتو ہم ان حقائق کو سامنے رکھ کر ان باتوں کی طرف اشارے کرنا چاہتے ہیںکہ اس کا جو بھی مالک اور خالق ہے ، جس نے بھی اس کو تشکیل دیا ہے اور چلا رہاہے،اس کو کن کن طاقتوں اور صلاحیتوں کا حامل ہونا چاہیے۔

انسان کا علم کتنا ہی گہرا اور دقیق ہو ،اس کاعلم’انسانی علم‘ہے،انسان کے حواسِ خمسہ کی طرح ناقص و نا مکمل۔ وہ اپنے ’علم‘ کی بنیاد پر اس بات کوسوچ بچار اور غورو فکرکے ذریعے معلوم ہی نہیں کرسکتاکہ اس کے خالق نے اس کوکس کام کے لیے،کس مقصد سے پیدا کیا ہے ؟اس کا جواب صرف اور صرف اس کا پیدا کرنے والاخالق ہی دے سکتا ہے۔ انسان کے سائنس و فلسفہ سمیت جتنے بھی علوم ہیں ،اس سوال کا جواب،ان کے دائرہِ کار میں شامل ہی نہیں ہے، یعنی اس سوال کا جواب حضرتِ ِانسان کے علم واختیار سے بالکل ہی باہر ہے۔ وہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر لے،کتنا ہی علم حاصل کرلے ،انسان اپنا مقصدِ وجود بتانے سے مکمل طور پرعاجز اور قاصر ہے۔

’عظیم دہماکا ‘ اور حقیقت پسندی

اگر ایک کمرے میں کچھ لکڑیاں،شیشہ،کپڑا اور لوہا پڑا ہو اور اس میں دھماکا ہو جائے، تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کمرے کی ضرورت کی ہر چیز بن جائے اور کمرہ مکمل طور پر سج جائے ۔ اس مثال میں کچھ مادّے تو ہیں، مگرجسے وہ ’عظیم دھماکا‘ کہتے ہیںیہ تو اور بھی عجیب تھا ۔ اس میں پہلے سے نہ کوئی مادّہ تھا، نہ کوئی توانائی تھی، مگرکہتے ہیںکہ یہ دھماکا ایک ایسا ہی عجیب دھماکا تھا ۔ اس دھماکے سے، وقت کاآغاز ہوا، توانائی کا ظہور ہوا، سیکنڈ کے اربویں حصے کے اندر ہی اس کو ذرا دیر کے لیے تھما کربنیادی پس جوہری ذرّات (Basic Sub Atomic Particles)(فرمیونز اور بوسونز، قوارک اور لپٹونزوغیرہ)بنائے گئے۔ان سے پس جوہری ذرّات (پروٹونز ،نیوٹرونز وغیرہ) بنائے گئے۔ پانچ منٹ کے اندر مرکزے بنائے گئے۔ اس کو مرکزہ سازی (Nucleosynthesis) کہتے ہیں۔۱۲؎  

۳ سے ۱۰ لاکھ سال کے انتظار کے بعد جب درجۂ حرارت کم ہوا تو ’جواہر‘ یعنی ایٹمز (atoms) تشکیل پانے کا آغازہوا(ہائیڈروجن،ہیلیئم اور ڈیٹیریئم بنے)۔ پھر اس مادّے سے کائنات بننا شروع ہوئی۔ بڑے بڑے ستاروں میں مزید عناصر کے جواہر بنتے گئے۔ ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ موجودہ پوری کائنات ارتقا پائی۔کہکشاں بنی، نظام شمسی بنا، زمین بنی، زمین پر حیات پیدا ہوئی،نباتات وحیوانات ارتقا پائے اورحضرت ِانسان تشریف لائے۔اس دھماکے کے نتیجے میں جو منظم کائنات بنی اس کے پھیلنے کی رفتار میں، اس کی قوت میں،اس کی کثافت میں، پہلے سے ہی طے کیے گئے اِتنے باریک بین عمیق و دقیق حساب کتاب تھے کہ اس حساب کتاب میں ، اگر اس کے پہلے ہی سیکنڈکے اربویں کھربویں حصے میںبھی ایک کی نسبت اربوں کھربوں کا بھی فرق آجاتا تواس کائنات کا موجودہ شکل تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا۔۱۳؎ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار میں ،اس کی قوت میں، اس کی کثافت میں اگر انتہائی معمولی سی بھی’ کمی‘ واقع ہو جاتی تو اس کائنات کے اجزا آپس میں جڑ جاتے اور پھیل کر موجودہ شکل تک پہنچنا ناممکن ہو جاتا، اور اس کی رفتار میں بہت تھوڑا بھی ’اضافہ‘ ہوجاتا ،تو یہ اَجزاے کائنات فضا میں بکھر جاتے اور پھر ان دونوں صورتوں میں نہ یہ کہکشائیں ہوتیں، نہ ستارے ہوتے ، نہ زمین ہوتی اور نہ زمین پر زندگی ہوتی۔

اس دھماکے کے بعد اس کائنات میں اس کے اجزا کا جو پھیلائو ہو رہا ہے ، اس کا ایک خاص تناسب کشش ثقل سے قائم ہے۔کشش ثقل اس پھیلائو کو روک رہی ہے اور واپس پھر سے مرکز کی طرف لے جانے کے لیے اپنا زور صرف کر رہی ہے۔ انسانوں کے حساب کتاب کے نتائج بتارہے ہیںکہ کشش ثقل کی طاقت زیادہ ہے اور اس کشش کی طاقت کی وجہ سے کائنات کے اس پھیلائو کو نہ صرف یہ کہ رُک جانا چاہیے، بلکہ پھر واپس یک جا ہو نے کی طرف مائل ہونا چاہیے، مگرہو کیا رہا ہے کہ کوئی ’عجیب‘ اور ’نادیدہ قوت‘ ہے جو کشش ثقل کے برعکسAnti Gravity کام کررہی ہے۔۱۴؎ اس کے نتیجے میں کائنات سکڑنے کے بجاے پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور اس پھیلائو کی رفتار میں بھی کمی کے بجاے مسلسل اِضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ کیسی عجیب اور نادیدہ قوت ہے؟ کیا یہ وہی قوت نہیںجو یہ سب کچھ انجام دینے والی ہے! انسان اس سلسلے میںصرف حیرت زدہ ہے۔

مندرجہ بالا نکات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس ’عظیم دھماکے‘ اور اس کے نتیجے میں کائنات کی تخلیق کے لیے، پہلے سے ہر تفصیل کی منصوبہ سازی کی گئی تھی۔ عظیم منصوبہ موجود تھا۔ اس میں پہلے سے نہایت باریک بینی سے اور عمیق حسابات کیے گئے تھے۔ مختلف کاموں کی ترتیب مقررکی گئی تھی۔ اس کے ہر درجے میںبہت ہی نازک توازن قائم کیے گئے تھے۔ اس بات کی گواہی آج کے’ انسانی علم‘ والے یہ سائنس دان بھی دے رہے ہیں  ۱۵؎ ، تو کیا یہ کام کسی نے نہیںکیا تھا؟ خود بخود ،اتفاقاً ، اپنے آپ، حادثاتی طور سے ہوگیا تھا؟ کیا اس کے بنا نے والے کی نظر اپنے منصوبے (design)کے ہرہرمرحلے اور اس کی ہرہر تفصیل پر شروع سے آخر تک ایک ساتھ نہیں تھی؟ کیا اس کے اندازے اور اس کے منصوبوں کے توازن بہت دقیق حسابات کے ساتھ قائم نہیں کیے گئے تھے؟ اور کیا اس میں کہیں کوئی ذرا سی غَلَطی کا اِمکان بھی تھا ؟ یا اس کام میں کوئی ذراسی غلطی بھی ہے ؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا  اس کام کو کرنے کے لیے اس کی طاقت و قدرت بے پایاں نہیں تھی؟ اور کیا وہ ہرچیز،مادّے اور قوت (matter and forces) پر مکمل اختیار نہیں رکھتا تھا؟ کیا ان سب شرائط کو پورا کرنے والے  کے بغیر یہ تخلیقات محض اِتفاق سے خودبخودحادثاتی طور پر ہوجانا ممکن تھا؟

پس ’عظیم دھماکے‘ کی حقیقت یہ ہے کہ ایک قوت ہے جس کے ارادے یا منصوبے کے مطابق، اس کی طاقت اور صلاحیت سے اسی قوت والے’ خالق‘ نے انسان سمیت یہ سب کچھ تخلیق کرنا شروع کیا۔ اس تیزی سے (ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں) کہ یہ انسانوں کو ایک دھماکا  لگا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’عظیم دھماکا‘ نہیں بلکہ عظیم کام (تخلیق) کی ابتدا تھی ، جس کو اس کا خالق ہر لمحے، ہر ہر مرحلے پر مکمل اختیار اور قدرت کے ساتھ انجام دے رہا تھا۔اس عمل کے دوران ہر لمحہ تیزی سے بدلتی حالت کو دیکھ کر انسان کو یہ نرا دھماکا محسوس ہوا ۔

حقیقت پسندی کا اور سائنسی حقائق کا تقاضا کیا یہ نہیں ہے کہ انسان کائنات کے اس ’عظیم منصوبہ ساز‘ (The Grand Designer)، اللہ تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرلے! افسوس کہ  مغربی تہذیب کے علَم بردار اور سیکولر بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کے داعی اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ اس کھلی حقیقت کا اعتراف کرسکیں۔ بقول اقبال:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

قرآنِ مجید خود غوروفکر اور تدبر کی دعوت دے رہا ہے:

وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ o (الذیارات  ۵۱: ۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟

حواشی

 [1]         Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, Bryan 2011, pg:12, New York, USA.  Plenum Publishers, 2004.

[2]          Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe,

                pg: 8 to11 & 171, Maryland, U.S.A. Chroma Graphics, Inc. Largo, Maryland, 2000.  & Fred Heeren, Show Me God, Vol. no 1, pg:69-70, Third Edition, Wheeling, IL, USA. Day Star Publications,1997.

[3]          Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, pg: 6,7 & 12, New York, USA.  Plenum Publishers, 2004.

پروفیسرشہزادالحسن چشتی، انسان کی تخلیق، ص ۱۷-۱۸، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ۲۰۰۷ئ۔

[4]          Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, pg:12, &  Fred Heeren, Show Me God, Vol no. 1, pg:61.

[5]          One Universe, pg167 & The Genetic Code and the Origin of Life, pg:4,5 &9. & Bryan Gaensler, Extreme Cosmos, pg: 29,  Sydney  Australia,  New  South  Publishing, 2011.                               

[6]          Stephen Hawking, The Grand Design, pg13, New York, Bantam Books (Random House, Inc.), 2010.

۷-  ڈاکٹر محمود علی سدنی، فلسفہ ، سائنس اور کائنات، ص۱۱، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۵ء

                Harry Bakalian & others, The Nature of Science, pg:15, First Edition, New Jersey, Prentice Hall,1993.

[8]          Stephen Hawking,The Grand Design, pg13.

[9]          Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg:178.

[10]        Barry Anderson & others, A Guide to Modern Science, pg:220 to 225, Reprint 2002, San Francisco, Weldon Owen Production, 2002.

[11]        Stephen Hawking, A Brief History of Time, pg:ix,xiii & pg:1,

                Reprint 1998, Berkxhire, G.B., Bantam Books,1998.

[12]        Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg: 81,82.

[13]        Fred Heeren, Show Me God, Vol no. 1, pg:69-70.

[14]        Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg: 198 - Maryland, U.S.A.

[15]        Fred Heeren, Show Me God, Vol no 1, pg:69,70.

 

(مصنف کی کتاب: وہ کون ہے؟ سے ماخوذ)

مصر میں فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں اخوان اور دیگر شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان کی مرکزی قیادت کے بیش تر افراد سزاے موت کے مستحق ٹھیرا دیے گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید یہ واحد واقعہ ہو کہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے لیے کوشاں کسی پُرامن سیاسی تنظیم کو اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں وقت کی آمر اور غاصب حکومت کے ہاتھوں تیسری بار اپنی اعلیٰ قیادت سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو۔  فوجی انقلاب کے ہاتھوں ہزاروں کارکن اور شہری وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور متعدد صحافیوں نے جیلوں میں بند ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کی صورت حال اور اعداد و شمار بیان کیے ہیں، وہ مختصراً یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:

  •    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق: ۳جولائی ۲۰۱۳ء سے ۳۰ جون ۲۰۱۵ء تک گرفتاریوں کے ذریعے جیلوں میں ڈالے گئے قیدیوں کی تعداد ۴۱ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ تعداد وزارتِ داخلہ، ملٹری فورسز، اٹارنی جنرل یا عدالت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل تعداد یقینا اس سے زیادہ ہوگی۔
  • ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق قیدیوں کی تعداد ۴۱ہزار ہے اور یہ تعداد صرف جولائی ۲۰۱۳ء تا مئی ۲۰۱۴ء کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کی ہے۔ اس بڑی تعداد کے جیلوں میں پہنچنے کے باعث جیلوں میں گنجایش بہت کم ہوگئی ہے۔
  •   اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ۱۸سال سے کم عمر ۳۲۰۰ بچوں کو فوجی انقلاب کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ۸۰۰ بچے تو بدستور پابند سلاسل ہیں۔ ان میں سے اکثر بچوں پر عقوبت خانوں میں تعذیب و تشدد کی انتہا کی گئی۔

اس فوجی انقلاب کے دو برس پورے ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کو اِعدام وطن (پورے ملک کے لیے پھانسی) کا عنوان دیا گیا اور کہا گیا کہ فوجی انقلاب کے دوسال پورے ہونے تک ۱۱۶۳ قیدیوں کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے سات کی سزا پر عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ ۴۹۶ کی نظرثانی کی اپیل منظور کرلی گئی اور اُن کی سزاے موت دیگر سزائوں میں بدل دی گئی۔ ۲۴۷ کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی سزاے موت ختم ہوگئی اور ۴۱۳ بدستور سزاے موت کے منتظر ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سزاے موت پانے والوں کی یہ تعداد ۱۶۹۳ تھی جو پھانسی کا حکم جاری کرنے کے لیے مفتی اعظم کے پاس بھجوائی گئی تھی۔ البتہ بعد میں اسے کم کر کے ۱۱۶۳ پر لایا گیا جن کے ’مجرموں‘ کو سزاے موت کے پروانے جاری کیے گئے ہیں اُن پر ایک کالعدم جماعت سے تعلق کا الزام تھا۔

سزاے موت کا حکم سننے والوں میں سرفہرست اخوان کی مرکزی قیادت اور معزول کیے گئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی ہیں۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کو پانچ بار سزاے موت سنائی گئی ہے۔ تحلیل شدہ پارلیمان کے صدر محمد سعد الکتاتنی، حزب الحریۃ والعدالۃ کے رہنما محمد بلتاجی، معروف مقرر اور داعی صفوت حجازی اور اخوانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔

سزاے موت کا حکم پانے والوں میں شمالی مصر کا ضلع مُنیا سب سے آگے ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سزاے موت کے قیدی ۱۲۱۱ ہیں۔ اسی طرح ضلع الجیزہ کے ۲۳۳، اور قاہرہ کے ۱۷۸ ہیں۔ سزاے موت کے احکام پر مہر تصدیق کے لیے مفتی اعظم مصر کو پیش کیے گئے ان ناموں میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مساجد کے ائمہ اور خطیب، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین، طلبہ، صحافیوں، انجینیروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین خانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ۲۶۸؍افراد تو جیلوں اور تفتیشی مراکز کے اندر ہی یا تو طبی امداد نہ مل سکنے پر یا تعذیب و تشدد کی بنا پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُن افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کو مظاہروں کے دوران یا دھرنوں کے دوران جبرو تشدد کے ذریعے بھگانے کے عمل میں ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو دورانِ گرفتاری بے پناہ تشدد کے باعث زندگی ہار بیٹھے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱۴۰۶ ہے مگر اس میں رابعہ اور نہضہ کے میدانوں میں دھرنے دینے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے جن کو ملٹری فورسز نے نمازِ فجر کے وقت عین حالت ِ نماز میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور وہ بھی ماہِ مقدس و ماہِ رحمت رمضان المبارک کے ایسے لمحات میں جب عادی مجرموں اور انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے رب کی عام معافی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ رابعہ اور نہضہ کے شہدا کی تعداد ۵ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔

طلبہ کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق جو یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی آزادی و حقوق کے لیے کوشاں ہے، ۳جولائی ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب سے ۱۱فروری ۲۰۱۵ء کے عرصے میں ماوراے قانون ہلاک کیے گئے طلبہ کی تعداد ۲۲۸ ہے۔ ان میں چھے طالبات بھی ہیں۔ ۱۶۴ کو ’ناگزیر وجوہ‘ کی بنا پر لاپتا رکھا گیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء تک گرفتار شدہ طلبہ و طالبات کی تعداد ۳ہزار ۲سو۴۲ ہے۔ ان میں سے ۱۸۹۸ طلبہ و طالبات بدستور گرفتار ہیں۔ ان میں سے ۱۶۰ کو جبری طور پر اعترافِ جرم کرانے کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے کارکن کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ تعداد ہے جو پرانے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل اور موجودہ تعداد تو اس سے بہت زیادہ ہے۔ بیش تر اضلاع میں روزانہ نئی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ اس طرح یہ تعداد ۶۰ ہزار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے مگر اُس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کمی روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پوری ہوجاتی ہے۔

اس کارکن کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدہ افراد کے لیے اپیل کرنے والے وکیلوں کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے۔ ایسے وکلا کی تعداد ۳ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور مزید ۲۸۰ کے بارے میں گرفتاری اور پیشی کے احکام جاری کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس وقت مصر کے اندر عدلیہ کی کوئی بنیاد باقی نہیں ہے۔

جیلوں کے اندر بند اِن قیدیوں کی صورت حال کو اُن کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ پربیان کرتی رہتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی قیدیوں کے مصائب و آلام اور تعذیب و تشدد کے علاوہ مختلف امراض میں مبتلا افراد کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جنوبی قاہرہ میں واقع کئی جیلوں کا مجموعہ عقرب جیل ہے۔ یہ جیل قیدیوں کے لیے کڑی حراست کے اعتبار سے بہت بُری شہرت رکھتی ہے۔ یہ اپنے قیام کے ۲۵ سال سے خوف ناک تعذیب و تشدد کی روایات کے باعث منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ اخوان کے نائب مرشدعام خیرت الشاطر اسی عقرب جیل میں قید ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انھیں ہفتوں دوا نہیں ملتی اور وہ بغیر دوا کے بیماری کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

گذشتہ رمضان کے دوران قیدیوں کو قرآنِ پاک کے نسخوں سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ تلاوتِ قرآن نہ کرسکیں۔ جیل کی بیرکوں کی بجلی بند کردی گئی تاکہ انھیں دورانِ روزہ کوئی آسانی نہ پہنچ پائے۔ اُن کی کلائی گھڑیاں چھین لی گئیں تاکہ اُنھیں سحری و افطاری کے اوقات معلوم نہ ہوسکیں۔ پانی کی فراہمی بند رکھی گئی تاکہ وہ نماز کے لیے وضو نہ کرسکیں۔

قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب کے بعد مصر کی جیلیں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بدترین ذہنی و بدنی تعذیب اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کی اس پامالی کو نہ بند کراسکی ہیں اور نہ کم ہی کرانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ مرکز براے انسانی حقوق کی تعظیم کے ایک محقق   احمد مفرح کا کہنا ہے کہ سیکڑوں لوگ جو طبی امداد کی عدم فراہمی اور غیرمعمولی تشدد کے باعث موت سے دوچار ہوگئے اُن میں اخوان کی مرکزی قیادت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان میں نمایاں نام قومی اسمبلی کی کمیٹی براے قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار فرید اسماعیل کا ہے۔ فرید اسماعیل حالیہ مئی کے مہینے میں قاہرہ کی عقرب جیل کے ہسپتال میں جگر کے مرض میں مبتلا رہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ضلع دمیاط سے رکن قومی اسمبلی محمد الفلاحجی بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر وفات پاگئے۔ گذشتہ برس نومبر میں عین شمس یونی ورسٹی میں امراضِ جلدکے استاد ڈاکٹر طارق الغندور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کو الجماعۃ الاسلامیۃ اسلامی مصر کی مجلس شوریٰ کے صدر عصام دربالہ شدید حراست کی جیل ’طرۃ‘ سے ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ اسی سال ۲۸؍اگست کو اخوان کے ایک رہنما خالد زہران وفات پاگئے    جو تین برس سے جیل کی عقوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو ہسپتال لے جایا گیا مگر تب علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ امن فورسز کے تشدد اور تعذیب کے نتیجے میں کئی وکلا بھی جاں بحق ہوگئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کفرالشیخ ضلع کے سابق گورنر سعدالحسینی اپنی نازک صحت کی بنا پر ہروقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ انھیں ویل چیئر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی حکومت کے وزیر براے اُمورِ نوجواناں اُسامہ یاسین اور حزب الحریۃ والعدالۃ کے صدر ڈاکٹر محمدا لبلتاخی کی صحت کا مسئلہ ہے۔

مرکز براے تعظیم انسانی حقوق کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۵۰۰ قیدی ایسے ہیں جن کی نازک صحت کا تقاضا ہے کہ انھیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ان میں سے کثیرتعداد جان لیوا حالت سے دوچار ہے۔ سماجی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں محکمہ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تنظیموں کے ذریعے قیدیوں کا طبی معائنہ کرائیں۔ انھی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر ان حقوق کی پامالی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔

گرفتاریوں اور قیدوبند کی ان صعوبتوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ہے کہ سیکڑوں بچیوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ مصر میں بچیوں کی گرفتاری اور اسیری   سرخ لائن تصور کی جاتی رہی ہے مگر فوجی انقلاب نے اس سرخ لائن کو بھی پامال کر کے آگے بڑھنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان قیدی بچیوں میں جامعہ ازہر کی طالبات کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس لیے کہ یونی ورسٹی کے صدر اُسامہ العبد نے کئی بار امن فورسز کو یونی ورسٹی میں چھاپہ مارنے اور طالبات کو گرفتار کر نے کی اجازت دی۔

قیدی خواتین میں ۵۰ برس سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ سامیہ شنن کو کرداسہ کے حادثات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں اُن پر پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام عائد کرکے انھیں سزاے موت سنا دی گئی۔ کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے انھیں پکڑا گیا تھا مگر پھر کرداسہ کے حادثات میں ملوث کردیا گیا۔[ماخذ: aljazeera.net]

حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیرابی) ہے۔ قیامت کے روز آواز دی جائے گی: ’’روزے دار کہاں ہیں؟ جب آخری روزہ دار داخل ہوجائے گا، تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی بندہ اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے چہرے کو آگ سے ۷۰ خریف (۲۱۰میل) دُور کردیتا ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، احمد، ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لیے ہے، سواے روزے کے، اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ (احمد، مسلم، نسائی)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: ’’اے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانا کھانے اور اپنی خواہشات پوری کرنے سے روکے رکھا، اس لیے اس کے معاملے میں میری سفارش منظور فرما‘‘۔ اور قرآن کہے گا: ’’اے رب! میں نے رات کے وقت اس شخص کو نیند سے بیدار رکھا، اس لیے اس کے معاملے میں میری سفارش منظور فرما‘‘۔(مسند امام احمد)

روزے کی چار قسمیں ہیں: ۱- فرض یا واجب ۲- نفلی یا مستحب ۳- مکروہ ۴-حرام۔

فرض روزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل نفلی روزوں کا رکھنا سنت ہے:

۱- شوال کے چہے روزے: حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال میں چھے دنوں کے روزے رکھے، گویا اس نے ہمیشہ (یعنی سال بھر) روزے رکھے‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد)

ان روزوں کو عیدالفطر کے اگلے روز (یعنی دو شوال) سے لگاتار بھی رکھا جاسکتا ہے اور پورے ماہِ شوال میں الگ الگ کرکے بھی۔ اس بارے میں اختلاف صرف افضل ہونے میں ہے۔

۲- ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے: حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ چار چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ترک نہ فرماتے تھے: ’’ایک عاشورا (۱۰محرم) کے دن کا روزہ، دوسرے ذی الحجہ کے پہلے عشرے (یعنی پہلی تاریخ سے نو تاریخ تک) کے روزے، تیسرے ہر ماہ میں تین دن کے روزے اور چوتھے فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں‘‘۔ (احمد، نسائی)

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عرفہ کے دن (یعنی ۹ذی الحجہ) کا روزہ دو سالوں کے گناہ کا کفارہ کردیتا ہے، ایک وہ سال جو گزرا اور دوسرا وہ سال جو آیندہ آرہا ہے‘‘ (مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، احمد)۔لیکن عرفہ کے دن کا یہ روزہ اور اس کی یہ تاکید حاجیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ہے (اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے)۔ حاجیوں کے لیے اس روز عرفات کے میدان میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

۳- محرم خصوصاً عاشورا کا روزہ:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز کون سی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: رات کے درمیانی حصے کی نماز۔ پھر سوال کیا گیا کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ کے اس مہینے کے روزے جسے تم محرم کہتے ہو‘‘۔ (احمد، مسلم، ابوداؤد)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اسلام سے پہلے قریش عاشورا (۱۰محرم) کا روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے تو وہاں بھی آپؐ نے یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا‘‘۔ (بخاری، مسلم)

۱۰محرم کے ساتھ ۹ اور ۱۱؍ یا صرف ۹ محرم کا بھی روزہ رکھنا مسنون ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عاشورا کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہود (کے طریقے) کی مخالفت کرو اور (وہ اس طرح کہ) اس سے ایک دن پہلے (بھی) روزہ رکھو اور اس کے ایک دن بعد (بھی) روزہ رکھو‘‘۔ (احمد، بیہقی)

حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیاتو لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اس دن کی تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر اگلا سال آیا اور ہم زندہ ہوئے تو ہم ۹تاریخ کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔ لیکن اگلے سال کے آنے سے پہلے ہی نبیؐ کا انتقال ہوگیا۔(مسلم)

۴- شعبان کے اکثر دنوں کے روزے:نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں کی نسبت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رمضان کے علاوہ نبی اکرمؐ کو کسی مہینے کے پورے دن روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے شعبان کے علاوہ نبی اکرمؐ کو کسی مہینے کے اکثر دن روزے رکھتے نہیں دیکھا‘‘۔(بخاری)

حضرت اُمِ سلمہؓ سے روایت ہے کہ شعبان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے کے پورے روزے نہ رکھتے تھے۔ آپؐ شعبان کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے (یعنی اس کے آخر تک روزے رکھتے رہتے تھے)‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ)

حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسولؐ! (کیا بات ہے کہ) میں آپ کو جتنے دن شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا۔ فرمایا: ’’رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ رب العالمین کی طرف اعمال اُٹھائے جاتے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ سے ہوں‘‘۔ (ابوداؤد)

۵- رجب، ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے روزے: قبیلہ باھلہ کے ایک صحابیؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے اگلے سال پھر حاضر ہوئے اور اس وقت ان کی حالت اور شکل و صورت بدلی ہوئی تھی۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ مجھے نہیں پہچانتے؟فرمایا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں وہی باھلی (یعنی قبیلہ باھلہ کا آدمی) ہوں جو گذشتہ سال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: تو تم بدلے ہوئے کیوں ہو؟ حالانکہ پچھلے سال تمھاری شکل و صورت بہت اچھی تھی۔ انھوں نے کہا: جب سے میں آپؐ کے پاس سے گیا ہوں، میں نے دن کے وقت کبھی کھانا نہیں کھایا۔ صرف رات کو کھانا کھاتا رہا ہوں، یعنی برابر روزے رکھتا رہا ہوں۔ حضوؐر نے فرمایا: تم نے اپنی جان کو یہ عذاب آخر کیوں دیا؟ پھر آپؐ نے فرمایا: صبر کے مہینے (یعنی رمضان) کے روزے رکھو اور پھر ہر مہینے میں ایک روزہ رکھو۔ انھوں نے کہا: زیادہ کر دیجیے اس لیے کہ مجھ میں طاقت ہے۔ فرمایا: دو روزے رکھ لو۔ انھوں نے کہا: زیادہ کردیجیے۔ فرمایا: تین روزے رکھ لو۔ انھوں نے کہا: زیادہ کر دیجیے۔ فرمایا: حُرمت والے مہینوں میں روزے رکھ لو اور چھوڑ دو۔ حُرمت والے مہینوں میں روزے رکھ لو اور چھوڑ دو۔ حُرمت والے مہینوں میں روزے رکھ لو اور چھوڑ دو۔ اور آپؐ نے اپنی تین انگلیوں کو ملایا اور پھر انھیں چھوڑ دیا (یعنی حُرمت والے مہینوں میں بھی لگاتار روزے نہ رکھو، بلکہ تین دن روزہ رکھو اور تین دن میں نہ رکھو)۔(ابوداؤد)

اشہرالحرم میں نفلی روزوں کے صحیح ہونے پر اجماع ہے۔ بعض احادیث میں رجب میں خصوصیت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کی فضیلت آئی ہے، لیکن یہ تمام کی تمام احادیث انتہائی ضعیف ہیں اور اسی لیے امام احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں سے کسی نے ان کو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا۔(الفتح الربانی، ج۱۰،ص ۱۹۶)

۶- ھفتہ اور اتوار کا روزہ: حضرت اُمِ سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ دوسرے دنوں کی نسبت ہفتہ اور اتوار کو زیادہ روزے رکھا کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے: ’’یہ دونوں دن مشرکین (یعنی یہود و نصاریٰ) کی عید ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان کے خلاف عمل کروں‘‘۔(احمد)

۷- پیر اور جمعرات کا روزہ: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ پیر اور جمعرات کا روزہ انتظار کر کے رکھا کرتے تھے۔(احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔ (احمد، ترمذی)

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدایش ہوئی اور مجھ پر وحی آنا شروع ہوئی‘‘۔(احمد، مسلم، ابوداؤد)

۸-  ھر ماہ میں تین دن کے روزے: حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’اگر تم مہینے میں تین روزے رکھو تو ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخوں کے روزے رکھو‘‘۔(احمد)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تھے اور اس سے اگلے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے‘‘۔(ترمذی)

ان احادیث کی بنا پر ہر ماہ تین دن روزے کے مستحب ہونے پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، البتہ ان کے تعیین میں اختلاف ہے۔ (الفتح الربانی، ج۱۰،ص ۲۱۲)

۹- ھر دو دنوں میں سے ایک دن کا روزہ: حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا: ہر مہینے میں تین روزے رکھو۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ اسی طرح آپؐ مجھے زیادہ سے زیادہ دنوں کے روزے کی اجازت دیتے رہے، یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو، اور ایک دن نہ رکھو، اس لیے کہ یہ سب سے افضل روزہ ہے اور یہ میرے بھائی دائود ؑ کا روزہ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

نفلی روزے کی نیت

نفلی روزے کے لیے نیت کے ضروری ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ جمہور ائمہ (جن میں امام ابوحنیفہؒ، شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ شامل ہیں) کے نزدیک نفلی روزے کی نیت کا رات سے ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ دن میں بھی اس کی نیت کی جاسکتی ہے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا: ’’کیا تمھارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔ فرمایا: تب میں روزے سے ہوں‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

اس چیز کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں نہیں ہے کہ دن میں نفلی روزے کی نیت کس وقت تک کی جاسکتی ہے۔ صحابہ اور ائمہ کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے۔  حضرت علیؓ کے نزدیک نفلی روزے کی نیت زوال کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ امام احمدؒ اور دوسرے ائمہ کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعیؒ سے دونوں قسم کی روایات ملتی ہیں۔ امام مالکؒ کے نزدیک نفلی روزے کی نیت دن میں کی ہی نہیں جاسکتی، جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔(الفتح الربانی)

نفلی روزہ دن میں افطار کرنا

اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ جس شخص کا نفلی روزہ ہو، اس کے لیے جائز ہے کہ دن ہی میں اسے افطار کرلے۔ اگرچہ افضل یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا: ’’کیا تمھارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ فرمایا: ’’تب میں روزہ سے ہوں‘‘۔ پھر ایک دوسرے ر وز آپؐ تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہمیں کچھ حیس (ایک کھانے کی چیز جو کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کی جاتی تھی) تحفے میں ملی ہے۔ فرمایا: مجھے دکھائو۔ میں نے تو روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔ اس کے بعد آپ نے وہ حیس کھائی‘‘ (مسلم)۔ امام نسائی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ’’نفلی روزہ رکھنے والے شخص کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنے مال سے صدقہ نکالتا ہے۔ وہ چاہے تو یہ صدقہ دے دے اور چاہے تو اسے روک لے‘‘۔

وہ دن جن کا روزہ رکہنا حرام ھے

۱- عیدالفطر اور عیدالاضحٰی: اس پر اجماع ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، خواہ یہ روزہ نذر کا ہو یا نفلی یا کفّارہ کا یا کوئی اور (نووی بحوالہ الفتح الربانی، ج۱۰، ص ۱۴۱)۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر تو تمھارا (رمضان کے) روزوں سے افطار ہے اور عیدالاضحی کے دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھائو‘‘۔ (بخاری)

۲- ایامِ تشریق: ایامِ تشریق سے مراد عیدالاضحی کے بعد کے تین دن ہیں، یعنی ۱۱؍ ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ۔جمہور صحابہ ، تابعین اور ائمہ کے نزدیک ان تین دنوں میں بھی روزہ رکھنا حرام ہے، خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی یا کفّارہ کا یا کوئی اور۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہؓ کو بھیجا کہ منیٰ میں گھوم کر یہ اعلان کردیں کہ ’’ان دنوں میں (یعنی تشریق کے دنوں میں) روزہ نہ رکھو، اس لیے کہ یہ کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں‘‘ (احمد، دارقطنی)۔(حج میں ایسے شخص کے لیے جسے قربانی کا جانور نہ ملا ہو، تشریق کے دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق اختلاف ہے)۔

۳-شوھر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکہنا: جمہور (جن میں امام مالکؒ، شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ شامل ہیں) کے نزدیک عورت کا اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا حرام ہے۔(الفتح الربانی،ج ۱۰، ص۱۶۷)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر ایک دن بھی روزہ نہ رکھے، سواے رمضان کے۔ (بخاری)

۴-وصال کے روزے: وصال سے مراد یہ ہے کہ اس طرح دن رات مسلسل روزہ رکھا جائے کہ درمیان میں نہ سحری کھائی جائے اور نہ افطاری کی جائے۔ اکثر ائمہ (جن میں امام مالکؒ اور امام شافعیؒ شامل ہیں) کے نزدیک وصال کا روزہ حرام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ بعض اوقات روزے میں وصال فرمایا کرتے تھے، لیکن اپنی اُمت کو حضوؐر نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں جن میں سے اختصار کے خیال سے صرف ایک حدیث نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ’’روزے میں وصال سے بچو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مگر آپؐ خود وصال فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’اس بارے میں تم میری طرح نہیں ہو۔ میں اس طرح رات بسر کرتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔لہٰذا تم اتنا ہی کام کرو، جس کی تم طاقت رکھتے ہو۔(بخاری، مسلم، احمد)

وہ دن جن کا روزہ رکہنا مکروہ ھے

۱-صرف جمعہ کا دن:جمہور (جن میں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور عام محدثین شامل ہیں) کے نزدیک ہفتہ بھر میں صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس سے پہلے کا بھی یا اس کے بعد کا بھی روزہ رکھے، یا کوئی شخص اپنی عادت کے مطابق روزے رکھ رہا ہو اور ان میں جمعہ کا دن آجائے، یا جمعہ کے دن عرفہ یا عاشورا آجائے، تو روزہ مکروہ نہیںہے۔

حضرت ابوایوب حجریؓ سے روایت ہے کہ ایک جمعہ کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم   (ام المومنین) حضرت جویریہؓ کے ہاں تشریف لائے۔ اس دن ان کا روزہ تھا۔ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ پھر دریافت فرمایا: ’’کیا تم کل بھی روزہ رکھو گی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ فرمایا: تو روزہ توڑ لو‘‘۔(بخاری)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ تم اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھو‘‘۔(بخاری، مسلم)

۲-صرف ھفتہ کا دن: جمہور کے نزدیک صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ عبداللہ بن بشرؒ اپنی بہن حضرت صمائؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہفتہ کے دن روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ اس دن کوئی فرض روزہ آجائے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص کھانے کے لیے انگور کی بیل کی ٹہنی یا کسی درخت کی چھال کے سوا کچھ نہ پائے، تو اس کو چبا لے‘‘۔ (ابوداؤد)

۳-شک کا دن:شک کے دن سے مراد ۳۰ شعبان ہے، اس صورت میں کہ ۲۹شعبان کو چاند نظر نہ آئے اور یہ بات قطعی طور پر معلوم نہ ہوسکے کہ کل ۳۰ شعبان ہے یا یکم رمضان؟

شک کے دن رمضان کے روزے کی نیت کرکے روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے شک کے دن روزہ رکھا، اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی‘‘ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)۔لیکن اگر کوئی شخص روزہ رکھ لے اور اگلے دن یہ واضح ہوجائے کہ آج واقعی رمضان ہے، تو جمہو ر (جن میں مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ شامل ہیں) کے نزدیک اگرچہ اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے سے رُکا رہے، لیکن اس کا وہ روزہ رمضان کا روزہ شمار نہ ہوگا اور بعد میں اس کے ذمے اس کی قضا ضروری ہوگی۔(نیل الاوطار)

۴-ھمیشہ روزہ رکہنا:حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ’’جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا (اللہ کرے)، وہ کبھی روزہ نہ رکھے‘‘۔ (بخاری)

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ!وہ شخص کیسا ہے (یعنی اس کا عمل کہاں تک درست ہے) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا؟‘‘ فرمایا: ’’وہ کبھی نہ روزہ رکھے اور نہ افطار کرے (یعنی آپؐ نے اس کے لیے یہ بددعا فرمائی) ، یا آپؐ نے فرمایا: اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، احمد)

حضرت ابوموسٰیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس پر اس طرح جہنم تنگ کردی گئی اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو بھینچا‘‘۔ (احمد)

ان احادیث کی بنا پر ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت پر سب کا اتفاق ہے۔ جمہور (جن میں ائمہ اربعہ شامل ہیں) کے نزدیک یہ ممانعت صرف اس شخص کے لیے ہے، جو اس طرح سال بھر روزہ رکھے کہ عیدین اور تشریق کے دنوں میں بھی روزے کے بغیر نہ رہے، یا یہ کہ وہ لگاتار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو یا لگاتار روزہ رکھ کر دوسرے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرتا ہو۔ جو شخص   ان چیزوں سے بچ کر ہمیشہ روزہ رکھے، اس کے لیے ایسا کرنا مستحب ہے، کیونکہ بعض صحابہ کو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے پے درپے روزہ رکھنے کی اجازت دی تھی۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمیؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں ایک ایسا آدمی ہوں، جو پے درپے روزے رکھتا ہوں۔ کیا میں سفر میں بھی روزہ رکھوں؟ فرمایا: اگر تم چاہو، تو رکھو اور اگر نہ چاہو تو نہ رکھو‘‘۔ (بخاری)۔ (بحوالہ فقہ السنہ ، انتخاب: ارشاد الرحمن)

 

خرم مراد: حیات و خدمات کا نیا ایڈیشن زیرترتیب ہے۔ جن افراد نے اُن کے ساتھ مختصر یا طویل عرصہ کے لیے کام کیا ہو، یا کسی وجہ سے رابطہ ہوا ہو یا رابطہ رہا ہو، اُن سے کوئی یادگار ملاقات ہوئی ہو، اس کی یاد یں اُن کے پاس امانت ہے۔ نئی نسل کو منتقل کرنے کے لیے اُن کی یادیں قلم بند فرما دیں۔ جزاھم اللّٰہ

نگارشات ہمیں ۲۰؍اکتوبر تک ذیل کے پتے پر پہنچ جائیں۔دسمبر ۲۰۱۵ء میں آپ کے ہاتھوں میں نیا ایڈیشن ہوگا،ان شاء اللہ !

مسلم سجاد

منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- فون: 042-35252211

manshurat@gmail.com, manshurat@hotmail.com

ترجمان القرآن الکریم: ترجمانی و مختصر تفہیم،مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترتیب و تدوین: احمد ابوسعید۔ چنار پبلی کیشنز، سری نگر(ہند)۔ صفحات: ۱۳۲۰، ہدیہ: ۳۸۰ بھارتی روپے۔

دنیا کی شاید ہی کوئی قابلِ ذکر زبان ہو، جس میں اللہ کی آخری ہدایت کی کتاب، قرآنِ مجید کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ اُردو میں بھی متعدد تراجم موجود ہیں، مگر مولانا مودودی نے اس کتاب کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ اس کی اُردو زبان میں ’ترجمانی‘ کی اور چھے جلدوں میں اس کی ایک مبسوط تفسیر بھی لکھی۔

مولانا کی تفہیم القرآن مع مختصر حواشی ، ایک جلد میں بھی دست یاب ہے۔پیش نظر کتاب ترجمان القرآن الکریم میں احمد ابوسعید صاحب نے کوشش کی ہے کہ ہر آیت کے مقابل اس کی ترجمانی بھی پڑھی جاسکے۔ آیت بہ آیت ترجمانی کے لیے موجودہ مرتب نے مولانا مودودی کے ترجمے کو بڑی حد تک برقرار رکھتے ہوئے بعض جملوں کی ساخت میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی کی ہے (النساء ۴:۱۶۰-۱۶۱)، لیکن عبارت و الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، تاہم جملوں کی ساخت کی تبدیلی سے تعقید رفع ہو جاتی ہے، اور عبارت زیادہ صاف ہوجاتی ہے۔ التزام کیا گیا ہے کہ ’ترجمانی‘ کی سطر، آیت کے مقابل ہو۔ ہرصفحہ نئی آیت سے شروع ہوتا ہے۔ عربی متن والے ہرصفحے کے ذیلی حاشیے میں بعض عربی الفاظ کے اُردو معانی بھی دے دیے گئے ہیں۔ مولانا مودودی کے ترجمے کے اصل الفاظ کے ساتھ بعض جملوں کی ہیئت اس طرح تبدیل کی گئی ہے کہ عام مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔

رسم الخط میں ایک اچھی تبدیلی یہ ہے کہ اُردو میں ذاتِ الٰہی کے لیے ’اللہ‘ لکھا جاتا ہے۔ مرتب نے التزام کیا ہے کہ املا ’اللہ‘ ہو ۔ ’خدا‘ کی جگہ بھی ’اللہ‘ یا ’رب‘ کا استعمال کیا گیا ہے اور  ’خوفِ خدا‘ اور ’خدا ترسی‘ کی جگہ ’تقویٰ‘ ہی کا لفظ رکھا گیا ہے۔مرتب کہتے ہیں مولانا مودودی یقینا میری اس سعی کو پسند فرماتے، تاہم ہم مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی، اشاعت ۱۹۷۳ء ، لاہور کے اصل نسخے کے مطابق من و عن نقل کرنے کی مقدور بھر سعی کی گئی ہے۔

پیش نظر ترجمان القرآن الکریم نہایت خوب صورت اور صاف عربی متن اور اُردو خطاطی کے ساتھ اچھے کاغذ پر خوب صورتی کے ساتھ طبع ہوا ہے جس پر مرتب اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


 وقت کی قدر کیجیے، علامہ یوسف القرضاوی، مترجم: مولانا عبدالحلیم فلاحی۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ صفحات:۱۳۵۔ قیمت:۲۲۰روپے۔

یہ الوقت فی حیاۃ مسلم کا اُردو ترجمہ ہے۔مؤلف نے وقت کی اہمیت کے حوالے سے کتاب کے مقدمے میں ایک انتہائی اہم تاریخی حقیقت بیان کی ہے: ’’دورانِ مطالعہ میں نے دیکھا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بڑھی ہوئی تھی۔ حرص کے سبب ان کے لیے علم نافع، عملِ صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا‘‘۔مزید یہ کہ ’’میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح سے اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں اور اپنی عمریں لُٹا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اس سلسلے میں بے وقوفی سے گزر کر مدہوشی کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ آج وہ قافلۂ انسانیت کے پچھلے حصے میں دھکیل دیے گئے ہیں حالانکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ اسی قافلے کی زمامِ کار ان کے ہاتھ میں تھی‘‘۔ (ص۱۰)

کتاب میں: قرآن و سنت میں وقت کی اہمیت، وقت کے بارے میں مسلمانوں کی ذمہ داری، مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگانی کا نظام، انسان کا وقت ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان، وقت کو برباد کرنے والی آفات سے آگاہی اور ضیاعِ وقت کے اسباب کو قرآن و حدیث کے جامع حوالوں کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وقت کی قدر کرنے کے لیے ۲۴گھنٹوں کا قابلِ عمل منصوبہ سامنے آتا ہے۔ وقت کے بہتر استعمال اور تربیت کے لیے اس عمدہ کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہوگا۔(شہزاد الحسن چشتی)


کم عمری کی شادی، عبدالرحمن بن سعد الشثری، ترجمہ: پروفیسر حافظ عبدالجبار۔ ناشر: مکتبہ بیت الاسلام،  رحمن مارکیٹ ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۳۸۔ قیمت:درج نہیں۔

کتاب میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا گیا ہے: قرآن و حدیث کی روشنی میں کم عمری کی شادی، کم عمری کی شادی پر صحابہ و تابعین کا عمل اور صحابہ کرام اور علما کا اس کے جواز پر اجماع پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب پر حافظ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کا مقدمہ جامع تحریر ہے: ’’مخصوص طبقہ جو کم عمری کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس حد تک آزاد خیال ہیں کہ ہم جنس پرستی کو جائزقرار دیتے ہیں اور اسکولوں کی سطح پر جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں‘‘۔

کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے کم سنی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا، جس کے بعد سندھ اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف قرارداد پاس کی گئی۔ قرارداد کے مطابق دلھا اور دلھن کے والدین کو ایسی شادی کرنے کی صورت میں تین سال کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ دوسری طرف  انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یونان، اسکاٹ لینڈ، آسٹریا، بلغاریہ، کروشیا اور چیک ری پبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر ۱۶برس، جب کہ ڈنمارک، ایستونیا، لتھوانیا، جارجیا میں شادی کی عمر کم از کم ۱۵ برس ہے۔ اسی طرح جنوبی امریکا کے ممالک بولیویا اور یوراگائے میں شادی کی عمر کم از کم ۱۴برس ہے۔ ویٹی کن سے شائع ہونے والے کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز کے مطابق لڑکا ۱۶برس اور لڑکی ۱۴ برس میں شادی کرسکتے ہیں۔پاکستان میں خصوصاً وکلا، قانون دان، پارلیمنٹرین کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔(شہزاد الحسن چشتی)


آہ بے تاثیر ہے…! عبداللہ طارق سہیل۔ ملنے کا پتا: کتاب سرائے، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۴۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

آج کل اکثر اخباری کالموں کا علمی معیار،اتنا بلند نہیں کہ انھیں مستقل کتابوں کا حصہ بنایا جائے، لیکن عبداللہ طارق سہیل کا نام اس لحاظ سے بھی لائقِ توجہ ہے کہ یہ قلم کار صرف صحافی ہی نہیں بلکہ راست فکر، پختہ ذہن کے حامل دانش ور بھی ہیں۔ ان کی تحریریں علمی حقائق، ثقہ روایات اور معیاری تنقید و تبصرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔

زیرنظر کتاب، ان کے ۲۶ مارچ ۲۰۰۷ء سے ۹دسمبر ۲۰۱۱ء تک کے عرصے میں روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے۔ ان کالموں میں ملکی، قومی اور عالمِ اسلام کے مسائل زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور مشرقی ممالک کے جاگیردارانہ نظام کی تباہ کاریوں کو زیربحث لاکر اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال واضح کیے ہیں۔

کالم نگار کو عربی، انگریزی اور اُردو ادب سے خاص لگائو ہے۔ ان کی تحریر ادب، تاریخ، سیاسیات اور عصری معلومات سے معمور ہوتی ہے۔ انھیں عوامی مسائل کے حل سے دل چسپی ہے بالخصوص غربت، بے روزگاری، جہالت اور تشدد کے واقعات ان کی توجہات کا مرکز بنتے ہیں۔ قدیم و جدید تاریخی پس منظر میں مصنف نے واقعات و حوادث کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ (ظفرحجازی)


وہ جو بیچتے تھے دواے دل، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ ناشر: دارالنعیم ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۴۱۸۰۵-۰۳۰۱۔ صفحات: ۶۵۶۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بھارت کے ممتاز عالم دین ہیں۔ علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ عموماً علماے کرام ادیب نہیں ہوتے لیکن ان تحریروں میں مولانا ایک بلندپایہ ادیب کی حیثیت سے نظر آتے ہیں اور قاری علم و ادب اور دینی و ملّی خدمات سے متعلق اہم شخصیات کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے ساتھ ادب کی چاشنی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ایک کیفیت سے گزر جاتا ہے۔ اس کتاب میں ۴۵ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ پہلے باب: ’بہارِ نادیدہ‘ میں وہ ہیں جن کو مصنف نے دیکھا نہ سنا جیسے مولانا قاسم نانوتوی، سرسیّداحمد خاں، ڈاکٹر محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی اور دیگر۔ دوسرے باب: ’دیدہ و شنیدہ‘ میں وہ نام وَر ہستیاں جنھیں مصنف نے دیکھا اور سنا جیسے قاری محمد طیب، ابوالحسن علی ندوی، مجاہدالاسلام قاسمی وغیرہ۔ تیسرے باب: ’مشفق اساتذہ اور محسن احباب‘ میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں والدین اور ایک خاندانی بزرگ کا تذکرہ ہے۔

مصنف نے وضاحت کردی ہے کہ منصوبے کے تحت فہرست بناکر نہیں لکھا گیا ہے بلکہ کسی کی وفات پر، یا اجراے کتب کے موقع پر لکھی گئی تحریریں ہیں۔ مصنف نے ہرہرشخصیت کے عنوان میں شعر دیا ہے جیسے عبدالماجد دریابادی کے لیے: ’ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے‘ ،’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور‘، اور ڈاکٹر حمیداللہ کے لیے: ’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیںہم___ کتاب کا مطالعہ بیسویں صدی میں پاک و ہند میں جو علمی، ادبی ، سیاسی سرگرمی رہی ہے اس سے بخوبی آگاہی دیتا ہے۔

مصنف کے اندازِ بیان کی جھلک دکھانے کے لیے علامہ اقبال کے بارے میں ابتدائی سطریں نقل ہیں:’’ یورپ دیدہ مگر کعبہ رسیدہ، دماغ فلسفی، دل صوفی، رازی کے پیچ و تاب سے بھی واقف، رومی کے سوز و گداز سے بھی آشنا، گفتار میں جوش، کردار میں ہوش، اسلوبِ شاعرانہ، طبیعت واعظانہ، شاعر مگر عارض و گیسو کے قصوں سے نفور، صوفی مگر مجاہدانہ جرأتوں سے معمور، علومِ جدیدہ کا شہسوار مگر ایمان و یقین سے سرشار، خود یورپ کے الحاد خانہ میں، دل حجاز کے خدا خانہ میں۔ اسی مجموعے کو اقبال کہا جاتا ہے  ع  خیرہ نہ کرسکا، مجھے جلوئہ دانش فرنگ / سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘۔ کتاب آپ ہاتھ میں لیں گے تو پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ (مسلم سجاد)


مکاتیب رفیع الدین ہاشمی بنام عبدالعزیزساحر،مرتب:ظفرحسین ظفر۔ناشر:الفتح پبلی کیشنز ۲۹۲-اے،گلی نمبراے،لین نمبر۵، گلریزہاؤسنگ سکیم۲،راولپنڈی۔ فون:۵۱۷۷۴۱۳-۰۳۲۲ صفحات:۱۸۴۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

یہ کتاب ڈاکٹرہاشمی کے ۱۴۹ خطوط پر مشتمل ہے، جب کہ مکتوب الیہ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ان کے شاگرد ہیں۔ساحر صاحب ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے اورکچھ تساہل کا شکار تھے۔ مکتوب نگار نے یہ خط وقتاًفوقتاًانھیں متحرک کرنے اور تحقیقی کام کوآگے بڑھانے اورجلد سے جلد ختم کرنے کے لیے لکھے۔ کوئی خط ایک سطر پر ،کوئی دوپراورکوئی تین،چارسطروں پر مشتمل ہے۔  یوں یہ تمام خط ایجاز و اختصار کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں ایک استاد کااندازتربیت بھی جلوہ گر ہے۔خطوں کاایک اور نمایاں پہلو ڈاکٹر ہاشمی کی حِسّ لطافت بھی ہے۔ کہیں کہیں ہلکا مزاح ہے اورظرافت کے عمدہ نمونے بھی نظر آتے ہیں۔مرتب نے خطوں پرحواشی بھی لکھے ہیں جن سے عام قاری کے لیے متن کی تفہیم واضح اورروشن ہوجاتی ہے۔(قاسم محموداحمد)


تعارف کتب

o  تاجدار مدینہؐ کی شہزادیاں، سلام اللہ صدیقی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۴۲۴۴۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔[نبی کریمؐ کی چار صاحب زادیوں (حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُمِ کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ) کے اس مختصر مطالعۂ سیرت میں جہاں رسول اکرمؐ کی اپنی صاحبزادیوں سے محبت، ان کی تربیت کا احوال درج ہے، وہاں صاحبزادیوں میں دین کے لیے تڑپ اور راہِ خدا میں جس طرح سے قربانیاں پیش کیں اور ظلم و جبر سہا اس کا احوال بھی ہے۔ نیز سیرتِ رسولؐ اور اسلامی معاشرت کے مختلف گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کے لیے ایک مفید کتاب۔]

o  خواتین کا مقام اور ذمہ داریاں ،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۵ روپے۔[جماعت اسلامی کی تاسیس کے زمانے سے خواتین بھی دعوتِ دین کی جدوجہد میں برابر شریکِ کار ہیں۔ اس کتابچے میں مولانا مودودی، قاضی حسین احمد اور محترم سراج الحق کی تقاریر کے حصوں کو یک جا کر کے، خواتین کی جدوجہد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔]

o  میرے درد کو جو زباں ملے، تالیف: آئی یوجرال۔ ملنے کا پتا: ۱۱۴-ڈی، ایف-۱، کشمیرپوائنٹ،میرپور، آزاد کشمیر۔ فون: ۵۶۳۸۷۵۰-۰۳۱۱۔ صفحات:۱۷۴۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔[بزرگ صحافی انعام اللہ جرال (آئی یو جرال)کا یہ حاصلِ مطالعہ ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت انسانی رویوں کی اصلاح، تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے قرآن و حدیث، سیرت، تاریخ اور معروف کتب سے اقتباسات، دل چسپ واقعات اور حکایات پیش کی ہیں۔ الحاد کے رد اور مغربی تہذیب سے متاثر جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے ڈاکٹرغلام جیلانی برق کی تحریروں سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک راہِ نجات رجوع الی اللہ اور خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بحالی میں ہے۔]

عبدالغافر صلاح، لاہور

’آئین، عدلیہ اور قرآن و سنت کی بالادستی‘ (ستمبر ۲۰۱۵ئ) پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی باکمال تحریروں میں شامل ہونے کے لائق ہے۔ موضوع کا بہترین انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں کسی فرد یا ادارے نے ایسا تجزیہ نہ کیا ہوگا۔ ’عرب دنیا: بھارتی سفارتی و عسکری یلغار‘ میں بھارتی ریشہ دوانیوں کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے اور عرب ممالک کی پالیسی بھی سامنے آگئی۔ بہت بروقت شذرہ لکھا گیا۔ ’اُردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟‘ بہت اچھا اور بروقت مضمون ہے۔ تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ ہوگیا اور عملی راہ نمائی بھی دی گئی ہے۔ طارق مہنا کی رُودادِ اسیری  چشم کشا ہے، اور مغرب کے انصاف اور انسانی حقوق کے دعوئوں کی حقیقت کھول کر رکھ دیتی ہے۔ عالمِ اسلام کے مسائل کا کماحقہ احاطہ نہیں ہورہا۔ مصر، لیبیا، الجزائر، سوڈان اور شام کے مسائل منتظر توجہ ہیں۔ مسلم اقلیتیں بھی تذکرے کا حق رکھتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ یہ فرضِ کفایہ کون ادا کرے گا؟


عنایت الرحمٰن، نیویارک

ماہِ ستمبر کے شمارے میں ’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت ’کارخانہ ہستی کا مشاہدہ‘ مولانا مودودی کی یہ تحریر ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم دنیاوی کاموں میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم میں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہا۔


عبدالرشید عراقی ،گوجرانوالہ

مولانا سیّد مودودی کی ایک نایاب و غیرمطبوعہ کتاب ’فتوحاتِ آصفی‘ اب تک طباعت سے کیوں محروم ہے۔ اس مقالے کے مطالعے سے مولانا مرحوم کے ذوقِ مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب اگر اشاعت کے مرحلے سے گزر جائے تو ایک عظیم علمی خدمت ہوگی۔

جنرل حمیدگل مرحوم ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے قول و فعل، گفتار و کردار میں تضاد نہیں تھا۔ بڑے جہاں دیدہ اور بے لوث اور محبت کرنے والے تھے۔ پروفیسر خورشیداحمد کی تحریر سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو سامنے آئے۔

ماہِ ستمبر کا ترجمان اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے علم اور معلومات کا تنوع سمیٹے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے مضمون ’فتوحاتِ آصفی‘ (ص ۴۸) پر لکھا ہے کہ تاج، مسلم اور الجمعیۃ میں جو کچھ انھوں نے (مولانا مودودی) بحیثیت مدیر لکھا، ان کی تفصیلات معلوم و مرتب نہیں، جب کہ ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور کے تحت چار کتابیں (صداے رستاخیز، بانگِ سحر، جلوہ نور اور آفتاب تازہ) شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے ان کتب میں الجمعیۃ دہلی میں شائع ہونے والے اداریوں اور مضامین کو مرتب کیا ہے۔ کیا یہ کتابیں ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے علم میں نہیں آسکیں؟


ڈاکٹر طاہر سراج، ساہیوال

نئے ماہ کے آغاز ہی سے ترجمان کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ ابتدائی چند دنوں میں اس کا مطالعہ کر کے اس کے مختلف مضامین دیگر احباب کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر مطالعہ کرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ماہِ ستمبر کا شمارہ بھی لاجواب ہے۔ تمام مضامین علم میں اضافہ اور عمل کے لیے جذبے کاباعث ہیں۔تاہم ڈاکٹر حسیب احمد کا مضمون ’اُردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟‘ وقت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے نفاذِ اُردو کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے اور اس کے لیے قابلِ عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ ہمارے ملک میں ’نفاذِ اُردو‘ تحریک کامیاب ہوگی ان شاء اللہ۔ ملک بھر میں نفاذِ اُردو کی اہمیت کو محسوس کرنے والے احباب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشترکہ کوشش کرنی چاہیے۔

دین میں جبر!

قرآنِ مجید کی تاویل و تعبیر کا صحیح طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں، پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ اور ترکیب (construction) پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق (context) میں رکھ کر دیکھیں.... اب میں آیت [لا اکراہ فی الدین] کو لیتا ہوں، جسے آپ نے مثال کے طور پر لیا ہے۔ اُس میں کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ عربی زبان کے لحاظ سے ’دین میں‘ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک ’دین کو قبول کرنے یا اختیار کرنے کے معاملے میں‘ دوسرے ’دین کے نظام میں‘۔ ان دو تعبیروں میں سے کون سی تعبیر قابلِ ترجیح ہے؟ اس کا فیصلہ محض اس آیت کے الفاظ سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے آپ کو سیاق و سباق کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات.... کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ .... اس سیاق و سباق میں صاف طور پر یہ معنی [ہیں] کہ اللہ کے متعلق مذکورہ بالا عقیدہ کسی سے زبردستی نہیں منوایا جائے گا، صحیح عقیدے کو غلط عقائد کے مقابلے میں پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے، اب جو کوئی غلط عقائد کو چھوڑ کر اللہ کو اُس طرح مان لے جس طرح بتایا گیا ہے، وہ خود فائدہ اُٹھائے گا اور جو ماننے سے انکار کرے وہ آپ ہی نقصان میں رہے گا۔  اس کے بعد آپ پورے قرآن پر ایک نگاہ ڈالیے [تو] آپ دیکھیں گے کہ متعدد جرائم کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں، بہت سی اخلاقی خرابیوں کو دبانے کا حکم دیا گیا ہے، بہت سی چیزوں کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے.... اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسولؐ اور اصحابِ امرکی اطاعت کریں۔ ان سب احکام کو نافذ (enforce) کرنے کے لیے بہرحال قوتِ جابرہ (coercive power) کا استعمال ناگزیر ہے، خواہ وہ ریاست کی طاقت ہو یا سوسائٹی کے اخلاقی دبائو کی طاقت۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘ کہنے سے قرآن کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی میں سرے سے جابرانہ قوت کے استعمال کا کوئی مقام ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین اسلام کو قبول کرنے کے معاملے میں جبر کا کوئی کام نہیں، جو قبول کرنا چاہے وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے اور جو قبول نہ کرنا چاہے، اسے کوئی زبردستی ایمان لانے پر مجبور نہ کرے گا۔(’ایک امریکن پروفیسر کے نام‘ ، سیّدمودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۴۵، صفر ۱۳۷۵ھ ، اکتوبر ۱۹۵۵ئ، ص۴۵-۴۷)

______________