جولائی ۲۰۲۰

فہرست مضامین

جامع عمروؓ بن العاص: فسطاط کا ایک قدیم نسخۂ قرآن

سیّد ظفر احمد | جولائی ۲۰۲۰ | تحقیق و جستجو

۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے جب برمنگھم یونی ورسٹی کا یہ اعلان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنا کہ وہاں پر موجود دو ورقی پارچہ (parchment) قرآنِ عظیم کے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔ بتایا گیا کہ جس جانور کی کھال پر یہ مخطوطہ لکھا گیا وہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں زندہ رہا ہوگا [1]۔ برمنگھم یونی ورسٹی میں اسلامی اور مسیحی علوم کے پروفیسر ایمریطس ڈیوڈ تھامس (David Thomas) کے خیال میں تو ان آیات کے کاتب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہوگا ۔قرآنِ پاک کے اس قدیم نسخہ کی دریافت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلی جس نے مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی [2]۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ___ —پرنٹ اور الیکٹرانک ___ —میں تجزیوں، تبصروں اور انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں نمایاں علمی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔

اس دریافت کی روحِ رواں برمنگھم یونی ورسٹی کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کار البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ہیں، جو بہت مسرت سے کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات کامیڈیا تک پہنچنا میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا [3]۔

یہ نسخہ یونی ورسٹی آف برمنگھم کی کیڈبری ریسرچ لائبریری (Cadbury Research Library) میں گوشۂ مِنگانا برائے نُسَخِ شرقِ اوسط (Mingana Collection of Middle Eastern Manuscripts)میں ۱۹۳۶ء سے موجودتھا۔1 یہ ایک مصحف کا حصہ ہے، جس کا ۱۶؍اوراق پر مشتمل دوسرا جز پیرس میں فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque  nationale de France—BnF) میں ۱۸۳۳ء سے محفوظ ہے[4]۔ اسی وجہ سے قرآنِ مجید کے اس قدیم ترین مصحف کے طویل نام میں پیرس اور برمنگھم شہروں کا ذکر ہے یعنی: ’’پیریسینو برمنگھم یانسس‘‘۔   علمِ تحاریرِ قدیمہ (Paleography)، علمِ تاریخِ فن (art history)، علمِ مصاحف (Codicology) اور علمِ تاریخِ لسانیات (Philology) کے ماہرین ان اوراق سے واقف رہے ہیں۔ لیکن صحیح معنوں میں اس مصحف کو بڑے پیمانے پر شہرت ۲۲ جولائی ۲۰۱۵ء کے بعد سے ملنا شروع ہوئی ۔ اس مصحف کومختصراً MS PaB کہتے ہیں ۔

جامع عمروؓبن العاص

قاہرہ کے جنوب میں واقع فسطاط (Fustat) کی جامع عمروؓبن العاص، ۲۱ھ / ۶۴۲ء میں فاتح مصر حضرت عمرو ؓبن العاص [م:۶ جنوری ۶۶۴ء] نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں قدیم قرآنی مصاحف کا ذخیرہ صدیوں سے موجود تھا جس کی کچھ تفصیل اسلامی روایات کے لٹریچر میں ملتی ہے۔ جرمن سیاح اور محقق اُولرِخ یاسپر زیٹسن (Ulrich Jasper Seetzen :م۱۸۱۱ء)نے جنوری ۱۸۰۹ء میں اس مسجد کی زیارت کی تھی۔ اس کو شمالی جانب ایک چھوٹا کمرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں کثیر تعداد میں قدیم و نادرقرآنی نُسَخ تہ بر تہ رکھے ہوئے تھے۔ اس نے منتظمین سے ان نوادرات کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر اس کو بتایا گیا کہ یہ اشیاء وقف للہ تعالیٰ ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ اس پر زیٹسن نے اس وقت کے فرانس اور اٹلی کے مصر میں مشترکہ قنصل ژاں لوئی اسیلاں دوشیرفيل (Jean-Louis Asselin de Cherville، م:۱۸۲۲ء )کو اس علمی خزانے کی اطلاع دی ا ور اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ دو شرفيل خود بھی ایک مستشرق تھا۔ اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ۱۸۰۶ء سے ۱۸۱۶ء کے دوران جامع عمروؓ سے کثیر تعداد میں نُسَخِ قدیمہ حاصل کرلیے اور ان کو اپنے ساتھ پیرس لے گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ فوت ہوگیا،چنانچہ اس کو خود تو ان کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہوگا،البتہ۱۸۳۳ء میں جب یہ اوراق فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque nationale de France—BnF) نے خرید لیے [4] تب سے یہ قیمتی دستاویزات بہت سی تحقیقات کا موضوع رہی ہیں۔

 جامع عمروؓ سے حاصل ہونے والے نوادرات میں اور بھی کئی ایسے اہم قرآنی نُسَخ ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ مضامین میں اس سلسلے میں ہم مزید کچھ عرض کریں گے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہمارا موضوع مصحف MS PaB ہے، جس کے پیرس والے اوراق کو BnF Arabe 328c (مختصراً BnF328c) اور برمنگھم میں پائے جانے والے دو ورقی نسخہ کو Mingana Islamic Arabic 1572a  (مختصراً Min1572a ) کے نام سے جانا جاتا ہے [5]۔

یہ جان لینا شاید فائدہ سے خالی نہ ہو کہ فسطاط کے خزائن، نو آبادیاتی نظام کے طفیل نہ صرف پیرس اور برمنگھم بلکہ برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، اورسینٹ پیٹرز برگ تک پھیلے ہوئے ہیں [6] ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ مصحف MS PaB کے مزید اوراق دوسرے مراکزِ علم میں موجود ہوں اور جو کسی وقت منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔     

 نسخۂ برمنگھم (Min1572a)

۱۹۳۶ء سے مذکورہ دو ورقی نسخہ برمنگھم یونی ورسٹی کی کیڈبری لائبریری کے گوشۂ مِنگانا میں موجود ہے ۔ یہ فولیو نمبر f.1  اور f.7 تھے۔سات (7) دوسرے اوراق ___—جن کو Min1572b کہا جاتا ہے___کے ساتھ یہ مجلد تھے اور پورے مجموعہ کو MS Mingana 1572 کا نام دیا گیا تھا۔ اس مجلد کے ساتھ  ہاتھ سے لکھے ایک نوٹ پر اس کا زمانہ آٹھویں صدی شمسی لکھا ہوا تھا ۔

 ۲۰۱۱ء میں اطالوی سکالر البا فیڈیلی (Alba Fedeli) نے پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے خاص طور پر برمنگھم یونی ورسٹی کا انتخاب کیا کہ وہاں پر قرآنی مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا اور  ساتھ میں قدیم متون پر کام کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسچول سکالرشپ اینڈ الیکٹرانک ایڈیٹنگ (Institute of Textual Scholarship and Electronic Editing)کی شکل میں ضروری تحقیقی اورتکنیکی مہارت بھی میسر تھیں۔ فیڈیلی مشہور مستشرق سرجو نو یا نوزادہ (Sergio Noja Noseda ) کی شاگرد رہی تھیں اور ان کے ساتھ نُسَخِ قدیمہ پر دس سال تک تحقیق کا تجربہ رکھتی تھیں۔

البافیڈیلی نے جب برمنگھم میں ان دو اوراق کا تفصیلی مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مخطوطہ  خط حجازی2  میں لکھا گیا ہے، جو بہت قدیم نُسَخ ہی میں دیکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس میں ہم شکل حروفِ صحیحہ (consonants) جیسے '’ب‘، ’ت‘، ’ث‘ ' کو ممیز کرنے والےنقاط (diacritics) بہت  کم پائے جاتے ہیں،جب کہ حَرکات یا اعراب (vocalization) تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی سے اندازہ لگایاکہ یہ پارچے ساتویں صدی شمسی کے نصف اول میں لکھے گئے ہوں گے۔ فیڈیلی نے ان اوراق کی عمر معلوم کرنے کے لیے ریڈیو کاربن طریقہ استعمال کرنا چاہا لیکن وسائل آڑے آگئے۔ پھر انھی دنوں برلن اور پیرس کی اکادیمیوں نے بھی ان مخطوطات کی تاریخ جاننے میں دل چسپی کا اظہار کیا کہ یہ ادارے مشہور پراجیکٹ ’قرآنیکا‘ (Coranica) 3 کے تحت قدیم قرآنی نُسَخ پر تحقیق کررہے تھے ۔ چنانچہ کیڈبری لائبریری نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی آثارِ قدیمہ اور تاریخِ فن کی ریسرچ لیبارٹری (Archeology and Art History Research Laboratory) میں واقع ’ریڈیو کاربن ایکسیلیریٹر یونٹ‘ (Radiocarbon Accelerator Research Unit) کی خدمات حاصل کیں، تاکہ اس پارچے کی تاریخ کا تخمینہ لگایا جائے۔

 ۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کو برمنگھم یونی ورسٹی نے اعلان جاری کیا کہ دو اوراق پر مشتمل چرمی نسخہ  ۹۵ء۴ فی صد امکانیت (Probability)کے ساتھ ۵۶۸ء سے ۶۴۵ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا ۔4  یونی ورسٹی کے محققین کے نزدیک یہ نسخہ جنا بِ محمدؐ زندگی کے بہت قریب زمانے میں  لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ ۵۷۰ء تا ۶۳۲ء معروف ہے ۔ پروفیسر ڈیوڈ تھامس کے خیال میں ’برمنگھم مخطوطے‘ کی انشاء ۶۵۰ء سے ۶۵۶ء کے درمیان ہونا عین ممکن ہے، گویا تیسرے خلیفہ عثمانؓ کا زمانہ ۔ متحدہ عرب امارات کی محمدبن راشد المکتوم نالج فاؤنڈیشن کے سربراہ جمال بن حویریب کے خیال میں یہ پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کا جمع کردہ قرآن ہے [8]۔

دُنبہ یا بکرے کی کھال سے بنے پارچہ پر لکھا گیا یہ مخطوطہ دو جڑے ہوئے اوراق (Bifolio) پر مشتمل ہے یعنی چار صفحات۔ اس کی پیمایش تقریباً۳۳ء۳ س مx   ۲۴ء۴ س م ہے، اور ۲۳ سے ۲۵ سطور فی صفحہ ہیں۔ پارچہ پر روشنائی سے ’خطِ حجازی‘ میں سورہ الکہف کی آیات ۱۷-۲۲ فولیو نمبر7r، الکہف۲۳-۳۱  فولیو نمبر7v ، سورہ مریم کی آیات۹۱-۹۸  اور سورہ طٰہٰ کی آیات ۱-۱۲ فولیو نمبر1r اور طٰہ ۱۳-۴۰ فولیو نمبر 1v پرلکھی ہوئی ہیں ۔5  اس طرح کل ۶۳ آیات ہیں، جو ۹۳سطور پر رقم ہیں [9]۔ ان اوراق کی تصاویر اشارہ [12] میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

نسخۂ پیرس (BnF328c)

فانسوا دیراش (François Déroche: پ ۱۹۵۲ء) عالمِ مصاحف (Codicologist) ہیں، جن کی علمی خدمات کے باعث ان کو فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ’لیجن آف آنر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق نسخۂ BnF328c اواخر پہلی صدی ہجر ی یااوائل دوسری صدی میں لکھا گیا ہوگا [13] (ص 74)۔ لیکن جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا، یہ مصحف پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں لکھا گیا تھا اور اس اعتبار سے قرآنِ پاک کا قدیم ترین نسخہ کہا جاسکتا ہے ۔ فولیو ۷۱سے ۷۸ میں جو سات (۷)اوراق ہیں، ان میں سورہ یونس کی آیت ۳۵ سے سورہ ہود کی آیت ۱۱۰تک لکھی ہوئی ہیں۔ پھر فولیو ۷۸ سے ۸۶ تک نو(۹) اوراق میں سورہ طٰہ کی آیت ۹۹ سے لے کر سورۂ مومنون کی آیت ۲۷ تک مرقوم ہیں۔ نسخۂ BnF328c کے ان اوراق کی تصاویر جامع عمروؓ کے دوسرے نُسَخ کے ساتھ ایک ہی جلد بعنوان ۳۲۸ میں دیکھی اور وہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں [14] ۔(جاری)

 حوالہ جات

1.         "Birmnigham Quran manuscript dated among the oldest in the World", University of Birmingham Press Release, 22  July 2015, https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript

            -22-07-15.aspx.

2.         "Oldest Koran fragments found in Birmingham University" July 22, 2015  in https://www.bbc.com/news/business-33436021.

3.         مخطوطات القرآن والفيلولوجيا الرقمية: حوار مع الدكتورة البا فيديلي ،أحمد وسام شاكر,  21 Nov 2016, https://iqsaweb.wordpress.com/2016/11/21.

4.         أحمد وسام شاكر, "' مصحف عثمان' بدارالكتب المصرية: الأصول والتاريخ",

            https://www.quranmss.com.

5.         Codex Arabe 328c – -A Qur'anic Manuscript From 1st Century of Hijra, https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/m1572.

6.         Paleocoran: Studying variant readings and spellings in Egyptian Quranic Manuscripts (7th to 10th century AD) for a better understanding of the history of the Quran, DFG-ANR Project # 264680664, https://paleocoran.eu./

7.         FAQs, https://www.birmingham.ac.uk/facilities/cadbury/birmingham-

            quran-mingana-collection/birmingham-quran/faqs.aspx.

8.         Birmingham's ancient Koran history revealed, Sean Coughlan Education correspondent (https://www.bbc.com/news/business-35151643,  23 December 2015.

9.         Alba Fedeli, Early Qur’ānic Manuscripts, Their Text, and The Alphonse Mingana Papers Held in the Department of Special Collections of The University of Birmingham, PhD thesis, Institute for Textual Scholarship and Electronic Editing, Department of Theology and Religion, College of Arts and Law, University of Birmingham, November 2014.

10.       Coranica—Context for the Text, Research Project

            Berlin-Brandenburg Academy of Science and Humanities

             https://www.coranica.de/front-page-en.

11.       François Déroche, Quran's of the Umayyads, A Preliminary Overview, copyright 2014 by Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands.

12.       https://epapers.bham.ac.uk/116.

13.       François Déroche, Islamic Codicology: An Introduction to the Study of Manuscripts in Arabic Script; Translated by Deke Dusinberre and David Radzinowicz; Edited by Muhammad Isa Waley. London: Al-Furqan Islamic Heritage Foundation, 1427 AH/2006AD.

14.       https://gallica.bnf.fr/ark:/12148/btv1b8415207g/f150.image.

حواشی

1          ا لفانسو مِنگانا  (Alphonso Mingana) عراقی نژاد اشوری النسل سابق کالڈیَن پادری تھا جو برمنگھم  کا رہایشی تھا اور انگلستان آنے کے بعد عیسائیوں کے فرقہ کویکر (Quaker)میں شامل ہوچکا  تھا۔ اس کی ملاقات چاکلیٹ کے مشہور برانڈ کیڈبری کے مالک ایڈورڈ کیڈ بری (Edward Cadbury) سے ہوئی جو خود بھی ایک کویکر تھا اور خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کیڈبری اپنے شہر میں قدیم و نایاب مخطوطات و نوادر پر مشتمل ایک عالمی معیار کا مرکز بنانا چاہتا تھا ۔ اس نے مِنگاناکی مالی طور پر سرپرستی کی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ جا کر اس کی لائبریری کے لیے نایاب مخطوطات حاصل کرے۔ چنانچہ مِنگانا نے مشرقِ وسطیٰ کے تین اسفار کیے اور کیڈ بری لائبریری کے لیے ۳ہزار عربی/سریانی نسخے حاصل کیے۔ بقولِ بعض اس نے مذکورہ نسخہ اپنے سفرِ مصر کے دوران حاصل کیا تھا [5]جبکہ البا فیڈیلی نےصراحت کی ہے کہ مِنگانا نے ۱۹۳۶ء میں اثریات کے ایک تاجر (antiquarian) فان شرلنگ (von Scherling) سے یہ مخطوطات خریدے تھے۔ مِنگانا علمی معاملات میں اگرچہ ایک متنازعہ شخصیت رہا تھا تاہم اس میں کلام نہیں کہ وہ ایک محقق اور کیوریٹر بھی تھا۔ کیڈبری اُس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اپنے مرکز کا نام اس کے پہلے کیوریٹر کے نام پرمِنگانا کلیکشن رکھا۔ یہ کلیکشن ۱۹۹۰ء کے اواخر میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے سیلی اوک کالجز (Selly Oak Colleges)  کا حصہ بن گیا ۔ مِنگانا نے ۱۹۳۷ء میں اپنی وفات تک مشرقِ وسطیٰ سے خریدے گئے ۳ہزار نسخوں کے کیٹلاگ تین جلدوں میں مکمل کرلیے تھے۔ چوتھا کیٹلاگ اس کے جانشینوں نے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا، جس کا نظر ثانی ایڈیشن ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا تھا  [9-7]۔

2          ’خط حجازی‘ کسی معیاری خط کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح  اطالوی عالم میکیلی اماری (Michele Amari، م: ۱۸۸۹ء )نے فرانس کی قومی لائبریری میں قدیم مخطوطاتِ قرآنیہ پر کام کے دوران وضع کی تھی۔ اس نے ابن الندیم کی ’الفہرست‘ سے مکہ و مدینہ کی قدیم خطاطی کے اوصاف کا جائزہ لیا، تو دیکھا کہ وہاں کے خطاط مستطیلی عمودی خط دائیں طرف ترچھا کرکے لکھتے ہیں ، اسی طرح حرف ’الف‘ بھی اپنے قاعدہ کی جانب یعنی دائیں جانب مائل ہوتا ہے۔ اس طرح ، اماری نےاس قسم کی خطاطی کے لیے حجازی اور    آسٹرین عالم جوزف فان کاراباشیک (Joseph von Karabashik، م:۱۹۱۸ء)نے مائل کی اصطلاحات استعمال کیں[3]۔ ضروری نہیں کہ ہر نسخہ جو اس خط میں لکھا ہوا ملے وہ حجاز کا ہی لکھا ہوا ہو۔

3          یہ جرمن -فرانسیسی مشترکہ تحقیقی منصوبہ تھا (۲۰۱۱ء-۲۰۱۴ء) ، جس کے ایک جز کا مقصدقرآنی متن کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے دستاویزی شہادتوں کی جمع و تدوین و اشاعت تھا۔ دوسرا جزء جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی تحقیق ، تدوین اور قرآنی زبان پر ان کے مبینہ اثرات سے متعلق تھا[10]۔

  4        ’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ قدیم تحریروں کی عمر جاننے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اصل میں اس مویشی کی موت کا زمانہ بتاتا ہے جس کی چرم یا کھال سے پارچہ بنایا گیا۔ کچھ علما، بالخصوص فانسوا دیراش، کہتے ہیں کہ اس طریقے کی افادیت کے باوجود فیصلہ کن راے ماہرِ تحاریرِ قدیمہ، ماہرِ تاریخی لسانیات اور مؤرخِ فن ہی کی ہونا چاہیے۔ ریڈیو کاربن سے حاصل کردہ نتائج عموماً تخمینی عمر سے کم کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ جن دستاویزات میں کولوفون (colophon) کے ذریعے قطعی تاریخ معلوم ہوتی ہے، ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ بھی اصل سے کم کی طرف مائل تھی۔ شاید یہ کہنا صحیح ہو کہ اس کے نتائج کی حدود (range) میں سے زیریں نصف کو ترک کردینا چاہیے۔ بالائی حد کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اصل تاریخ میں کچھ برسوں کا اضافہ ممکن ہے۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے دیراش کی کتاب  [11] ص ۳  اور ص۱۱-۱۴

5          ’ r‘ سے مراد ہے ریکٹو (recto) یعنی ورق کا بایاں یا طاق صفحہ ۔ ’و‘ سے مراد فرسو (verso) ہے یعنی دایاں یا جفت صفحہ۔ وہ زبانیں جو بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہیں ان کے اوراق کے ریکٹو اور فرسو صفحات اس کا عکس ہوں گے۔ بعض علماء صفحہ کی علامت کے لیے ' r/v 'کے بجائے ' a/b 'بھی لکھتے ہیں۔