اپریل ۲۰۱۳

فہرست مضامین

مولانا مودودیؒ میری نظروں میں

مولانا امین احسن اصلاحی | اپریل ۲۰۱۳ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے برادرم سلیم منصور خالد کا یہ انٹرویو دیکھ کر مجھے افسوس ہوا کہ اتنی اہم چیز اب تک کیوں نہیں شائع ہوسکی۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے خود میرا تعلق ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انٹرویو کے بارے میں تو میں یہ بات بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس کا لفظ لفظ ان کی شخصیت کا ترجمان ہے۔ میں خود بھی اس موضوع پر ان کے ساتھ براہِ راست ملاقات کرچکا ہوں۔ مولانا محترم اور جماعت اسلامی کے بارے میں اس انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بعینہٖ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں جن کا اظہار مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے میرے ساتھ اپنی ملاقات میں کیا تھا۔ پھر ایسے ہی جذبات کا اظہار ایک ایسی ملاقات میں بھی مولانا اصلاحیؒ نے کیا تھا جس میں محترم چودھری غلام محمد مرحوم اور مَیں شریک تھے۔

مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں بزرگ ہمارے محسنین ہیں، اور ان دونوں ہی سے ہم نے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ ویسے بھی اہلِ حق میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں، ایسا اختلاف شخصی تعلق کو مجروح نہیں کرتا۔ یہ تو صرف راے کا اختلاف اور ترجیحات کا معاملہ ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کے جو احساسات اور جذبات اس انٹرویو میں سامنے آئے ہیں، وہ ان کی شخصیت کے اسی دل نواز پہلو کا آئینہ ہیں ___ پروفیسر خورشید احمد


یہ ہفتہ ۱۱دسمبر ۱۹۷۶ء کی شام تھی، جب میں اپنے عزیز دوست سمیع اللہ بٹ کے ہمراہ مفسرِقرآن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے ملنے ان کے گائوں رحمان آباد (خانقاہ ڈوگراں) پہنچا۔ اس ملاقات کا ایک سبب ، مولانا مودودی اور مولانا امین احسن صاحب کے ایک مشترکہ  کرم فرما کی کچھ ’ہم نصابی سرگرمیاں‘ تھیں۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ گھر سے کچھ فاصلے پر مولانا اصلاحی صاحب اپنے کمرئہ تحقیق میں ہمیں رات بسر کرنے کے لیے لائے۔ مولانا کی میز پر: قرآن، تفسیر، حدیث اور لُغت کی چند جلدیں تھیں، اور مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کی مدھم روشنی۔

مولانا اصلاحی صاحب نے ہمیں بڑی چاہت سے بتایا: ’جب آپ آتے ہیں تو میری اہلیہ بہت خوش ہوتی ہیں، اور اپنی طاقت سے بڑھ کر آپ کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ اُن کی خوشی سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے‘ (یاد رہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد بھی مولانا اصلاحی صاحب کی اہلیہ تادمِ آخر جماعت اسلامی کی رکن رہیں)۔ اگرچہ مولانا عشا کے بعد جلد سو جاتے تھے،   اور پھر نصف شب بیدار ہوکر قرآن کے مفاہیم پر تفکر و تدبر کی وادیوں میں اُتر جاتے تھے لیکن   اُس رات وہ ہمارے پاس کچھ دیر تک بیٹھے رہے ۔

سبب ِ ملاقات کا اُوپر ذکر ہوا، اسی لیے ہماری گفتگو مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور مولانا اصلاحی [م: ۱۵ دسمبر ۱۹۹۷ء] کے تعلقات کے اُتار چڑھائو کے گرد رہی۔ سمیع اللہ صاحب، مولانا اصلاحی کے دروس اور علمی نشستوں کے ۱۹۶۸ء ہی سے لاہور میں خوشہ چین اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے، یوں اُن کا تعلق پُرانا تھا۔ البتہ میری مولانا سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ البتہ تقریباً چار ماہ قبل مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے مجلے محور تعلیم نمبر کی مناسبت اور تحریک سے ان کے تعلق کی نوعیت اور اپنی حسرت کے بارے میں انھیں ایک خط لکھا تھا۔ اس ملاقات میں اس خط کی تحسین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم دنیا میں لوگوں کے خط اکٹھے کرنے نہیں آئے، ویسے بھی مجھے یہ بات مبتذل سی لگتی ہے کہ دوسروں کے خط سنبھالتے پھرو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کا خط اتنے عمدہ جذبات پر مشتمل تھا کہ میں نے اسے سنبھال کر رکھا ہے‘‘___ اس رات اور پھر اگلے روز [۱۲دسمبر] ناشتے کے دوران مولانا اصلاحی صاحب نے جو گفتگو فرمائی، میں نے اس کے تفصیلی  نوٹس محفوظ کرلیے تھے جن میں سے اپنے چند سوالات اور مولانا امین احسن اصلاحی کے جوابات کو  ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے ___ سلیم منصور خالد

مولانا، اگر آپ میری گزارش کو گستاخی پر محمول نہ فرمائیں، تو عرض یہ ہے کہ بعض اوقات افراد پر آپ بڑے سخت الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں، یوں گاہے چوٹ پر لطف آتا ہے اوربسا اوقات جھٹکا سا لگتا ہے؟

  •   دیکھیے، میں بنیادی طورادب کا طالب علم ہوں اور ادب کے ذریعے سے قرآن تک پہنچا ہوں۔ ادب میں تجربے اور مشاہدے کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کے لیے بعض اوقات الفاظ کے روایتی سانچے ساتھ نہیں دیتے، اس لیے غیر معمولی انداز یا روایت سے ہٹ کر کوئی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ بڑے سے بڑا مضمون مختصر الفاظ میں جملے کاروپ اختیار کر لے۔ اس کے لیے کبھی تو مسجع و مقفّٰی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایک یا دو سخت الفاظ بھی مضمون کا احاطہ کر لیتے ہیں۔

آپ کے بعض جملے بڑے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہیں، جیسے ’پڑھے کم، لکھے زیادہ‘ یا ’دیکھنا، پکنے سے پہلے سٹر نہ جانا‘ وغیرہ، اس حکمت و دانش کا ماخذ کیا ہے؟ مطالعہ یامشاہدہ؟

  •   (آہ بھر کر) بھلا ہمارے نصیب میں کہاں یہ حکمت سے لبریز جملے! یہ اور اس طرح کے متعدد جملے مولانا محمدعلی جوہر کی دانش کا مظہر ہیں۔ میں تو بس انھیں دہراتا ہوں۔

جب آپ جماعت اسلامی میں تھے، تو آپ نے مولانا مودودی کے دفاع میں جس مضبوطی، گہرائی اور شدت کے ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے جواب میں مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ لکھا، عبدالرشید محمود گنگوہی صاحب کے جواب میں ’جماعت اسلامی پر الزامات اور ان کا جواب‘ لکھا، ویسا پُرزور اور جارحانہ نثر پارہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب آپ کا شمارمولانا کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ آج جب اتنے برس گزر چکے ہیں، کیا آپ اپنی ان تحریروں، بالخصوص مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے؟ اور یہ کہ کیا آج بھی آپ اس تحریر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟

  •   آپ کے سوال میں دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بے باکی سے یہ سوال پوچھ لیا ہے۔

اس میں آپ نے ایک بات تو یہ کہی ہے کہ میں مولانا مودودی کامخالف ہوں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے نوٹ کر لیجیے کہ میں مولانا مودودی کا مخالف نہیں ہوں، بلکہ ان کے بعض اقدامات اور بعض خیالات سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ چونکہ علمی دنیا میں یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں ہے، اس لیے آپ اس اختلافِ فکر و نظر کو مخالفت کا نام نہ دیجیے۔

واقعہ یہ ہے کہ میں نے سماجی زندگی میں شخصی طور پر مودودی صاحب جیسا وسیع القلب اور نفیس انسان بہت کم دیکھاہے۔ بہرحال وہ ایک انسان ہیں اور اس بشری تقاضے کے تحت ایک دوبار ان کا پیمانۂ صبر چھلک بھی پڑا۔

آپ کوشاید معلوم نہیں ہے کہ جب میں ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے مرکز سے وابستہ ہوا، توسولہ سترہ برس پر پھیلے اُس پورے عرصے میں مودودی صاحب نے میری عزتِ نفس کا حد درجہ خیال رکھا اور اس امر کا بالخصوص اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر ایک اسی بات کو لیجیے ،کہ انھوں نے میرے ماہانہ اعزازیے یا ضرورت کے وظیفے کو کسی رجسٹر میں درج نہیں کیا، اور نہ اُس کی وصولی کے لیے مجھ سے کبھی دستخط لیے، حالانکہ باقی سب ہمہ وقتی کارکنوں کا اعزازیہ لکھا جاتا تھا، براہ راست ناظم مالیات کے ذریعے دیا جاتا تھا اور رسید وصولی پر دستخط بھی لیے جاتے تھے۔ مگر، اس پورے عرصے میں مولانا مودودی نے مجھے براہ راست کبھی رقم نہیں دی، اور یہ خیال رکھا کہ کہیں اس طرح مجھے ان کے زیر احسان ہونے کا احساس نہ ہو، بلکہ وہ ضرورت کے وقت یا متعین اوقات میں یہ رقم اپنی اہلیہ کے ذریعے میری اہلیہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ بات سن کر شایدآج تعجب ہو کہ میں نے بھی پورا عرصہ اپنی اہلیہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کتنا اعزازیہ یا کتنی رقم بھجوائی گئی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ایسی نازبرداری انھوں نے فقط میری ہی کی۔ حالات و واقعات کے تمام اتار چڑھائو کے باوجود، آج تک اس چیز کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کسی کی ایسی ناز برداری تو اس کی بیوی اور اس کے بچے بھی نہیں کر سکتے۔

پھر یہ بھی ہے کہ میری سخت سے سخت تنقید اور کڑے سے کڑے تبصرے کا، انھوں نے مجلس شوریٰ، اجتماع یا انفرادی ملاقات تک میں مجھے کبھی دوبدو جواب نہیں دیا، بلکہ کم سے کم الفاظ اور نرم سے نرم لہجے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ گائوں کی اس خاموش فضا میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگرمیں کسی کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کرتا، اور وہ جواب میں میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تو میرے لیے اس کے ساتھ سلسلۂ کلام تک برقرار رکھنا مشکل اور سماجی تعلق کو نبھانا ناممکن ہو جاتا، لیکن مودودی صاحب نے طویل عرصے تک بڑی ثابت قدمی سے رفاقت اور دوستی کے اس تعلق کو نبھایا۔ لیکن جب میرے سامنے یہ دوراہا آیا کہ: ایسے ناز بردار اور شفیق دوست کا ساتھ دوں یا جس چیز کو درست سمجھتا ہوں اسے منتخب کروں؟ تو لامحالہ میں نے پہلی چیز کی قربانی دی، اور دوسری چیز کا انتخاب کیا۔

اور جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ میں نے مولانا مودودی کے دفاع میں جو تحریر لکھی، اس پر آج میرا کیا موقف ہے؟ تو اس سلسلے میں دو چیزیں ذہن میں رکھیے:

پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جب پے در پے مضامین شائع ہوئے، تو ان خلافِ واقعہ باتوں کا جواب دینے کے لیے کسی کے کہنے یا توجہ دلانے پر نہیں، بلکہ سراسر اپنے ذاتی ارادے سے میں نے وہ دو تین مضامین لکھے، جن کی جانب آپ نے اشارہ کیاہے۔ ایک مضمون تو میں نے اپنے دوست مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے مضمون پر لکھ کر ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے دیا، تو مودودی صاحب اسے بعینہٖ شائع کرنے میں متردّد تھے۔ انھوںنے کہا: ’اِس کی شدتِ بیان کو نرم کرنا پڑے گا‘۔ میں نے کہا: ـ’آپ مدیر ہیں، مناسب حد تک اپنا اختیار استعمال کر لیں‘۔ مودودی صاحب نے میری اس تحریر کو اتنا نرم بنا دیا کہ اس پر میں نے اُنھیں کہا: ’’اب آپ اسے اپنے ہی نام سے شائع کیجیے‘‘۔ لیکن بنیادی مضمون تو بہرحال میرا تھا، اس لیے ادارتی تدوین کے بعد وہ میرے ہی نام سے شائع ہوا۔

اس موقعے پر، یہ حقیقت مجھ پر واضح ہوئی کہ مودودی صاحب اپنے دفاع کے بارے میں نہ تو متفکر ہیں اور نہ اس کے حریص ہیں بلکہ بے نیاز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو اس تحریر پر کئی بار ممنونیت کا اعتراف کرتا، لیکن مولانا مودودی نے مضمون شائع کرنے کے بعد ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ:’آپ نے بہت خوب لکھا‘۔ بس ایک مضمون انھیں ملا اوروہ انھوں نے  شائع کردیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دفاع میں نے مولانا مودودی کا نہیں کیا تھا بلکہ اپنا دفاع کیا تھا۔ وہ تنقید میرے امیر جماعت پر ہوئی تھی۔ دوسروں کے بارے میں تو میں کہہ نہیں سکتا، لیکن جب تک میں جماعت میں رہا ہوں، جماعت کی امارت کے لیے میں نے ہر بار اپنی راے اُنھی کے حق میں دی تھی۔ اس لیے میری غیرت یہ گوارا نہیںکر سکتی تھی کہ میرے امیر پر کوئی بے بنیاد الزام تراشی کرے اور میرا قلم گواہی دینے کے بجاے خاموشی اختیار کیے رہے،اس لیے دراصل یہ میں نے ان کا نہیں بلکہ اپنا دفاع کیا تھا اور آج بھی اپنے اس جواب پر قائم ہوں۔

علاوہ ازیں جب یہ گفتگو اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی تو مولانا امین احسن صاحب نے بڑی وارفتگی سے یہ بلیغ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اب ہر کَہ و مہ مودودی صاحب کے علم کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے اور انھیں ہدفِ تنقید بنا رہا ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں میرے سوا کسی کو ان پر تنقید کا حق نہیں پہنچتا‘‘۔