پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | اپریل ۲۰۱۳ | اشارات
اکیسویں صدی میں تحریکاتِ اسلامی کو درپیش مسائل، خطرات اور امکانات کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست جو چیز نظر آتی ہے، وہ سیاسی تبدیلی کے ذریعے نفاذِ عدل ہے۔ اسلام اپنی تمام تعلیمات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ اور معاشرے میں عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے اپنے اعمال کے ذریعے پھیلائے ہوئے فساد کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت و اصلاح کی تعلیمات اور ان کے اُس عملی نمونے کے ذریعے (جو انبیاے کرام علیہم السلام اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے رہتی دنیا تک کے لیے پیش فرمایا) دُور کر کے اس فساد کو معاشرتی توازن، عدل، امن اور رحمت سے بدلنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے تمام انبیاے کرام ؑکی دعوت اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہر طرح کے طاغوتوں کی بندگی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار اور زمین پر اس کا قیام تھا۔
اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چار مختلف مقامات پر قرآن کریم انبیاے کرام ؑکے مقصد اور مشن کو انتہائی جامع الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
اور پھر صاف الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا کہ تلاوتِ کتاب، تزکیۂ نفس، تعلیم، کتاب اور تعلیم حکمت کی اس ہمہ گیر جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلی انسانی معاشرے میں رُونما ہوئی وہ قیام عدل و انصاف ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اور کارِنبوت کا مشن بیان کیا گیا ،ہے وہیں انسانوں اور معاشرے میں تبدیلی کے عمل کی بنیادیں بھی سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل کی بنیاد اللہ کی کتاب اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر ہے اور اس کا عملی راستہ تزکیہ ہے، خواہ تزکیۂ فرد ہو یا تزکیۂ معاشرہ، تزکیۂ مال ہو یا تزکیۂ قیادت۔ فرد اور معاشرے کی صحیح نشوونما اور ارتقا کے لیے اگر کوئی صحیح حکمت عملی ہوسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کی کتاب ہے۔ صرف اسی کتاب کی تعلیم کے ذریعے زندگی میں فکری اور عملی انقلاب ممکن ہے۔
قوت کے استعمال سے یہ تو ممکن ہے کہ بظاہر ایک وقتی تبدیلی آجائے لیکن چہروں کے بدلنے سے کوئی بنیادی فرق واقع نہیں ہوسکتا۔ اصل تبدیلی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آیات کی صحیح تلاوت، ان کا صحیح فہم اور ان کی صحیح تطبیق کے ذریعے تبدیلیِ کردار وعمل سے ہی لائی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اندرون کی تبدیلی اس کی فکر کے زاویے کا درست کرنا، اس کے طرزِحیات کو بدلنا، اس کے معاش کو حلال کا تابع بنانا، اس کی سیاسی فکر کو ذاتی مفاد، نفسا نفسی اور قوت کے نشے سے نکال کر قیامِ عدل، اجتماعی فلاح اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے تابع کرنا ہے جو ایک حادثاتی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مناسب تیاری، مناسب آبیاری، مناسب محنت اور مناسب وقت درکار ہوگا۔
تبدیلیِ قیادت کا تعلق محض برسرِ اقتدار افراد کی معزولی اور ان کی جگہ بس متبادل افراد کے تقرر سے نہیں ہے۔ قیادت کی تبدیلی اور اچھے افراد کو ذمہ داری کے ساتھ مناصب پر لانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ نظام کی تبدیلی اور نظام کی بنیادوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ ایک دیمک لگے ہوئے درخت کی ٹہنیوںمیں تازہ پھل باندھ کر لٹکا دینے سے درخت کی بیماری ختم نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں تازہ پھل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک غیرعادلانہ نظام کو چلانے والے ظالموں کی جگہ دوسرے افراد کے آجانے سے اس وقت تک اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک افراد خود صالح اور باصلاحیت نہ ہوں اور نظام میں مناسب تبدیلیاں بھی کی جائیں۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا تبدیلیِ نظام کے لیے وقتی طور پر مروجہ نظام میں شمولیت اختیار کی جائے یا پہلے نظام کو تبدیل کیا جائے، اور پھر نظام کی تبدیلی کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی جائے؟ اس سوال کو ذہن میں اُٹھاتے وقت عموماً یہ بات محو ہوجاتی ہے کہ کیا نظام خود بخود اپنے آپ کو درست کرلے گا اور پھر دست بستہ تحریک سے عرض کرے گا کہ تشریف لاکر کرسیِ قیادت سنبھال لے۔ دوسری ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ پہلے نظام کو تہس نہس کیا جائے۔ اس کے بعد نیا نظام قائم کیا جائے۔ تاریخ اُمم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی صحت مندتبدیلی آئی ہے تو اس میں ایک سے زیادہ مصالح اور حکمتوں کا دخل رہا ہے، تنہا ایک بے لچک حکمت عملی نے آج تک کوئی دیرپا تبدیلی پیدا نہیں کی۔
انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا نقطۂ آغاز تمام خدائوں کا رد اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان ہی رہا ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زندان کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباواجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی [دین] ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیںہیں۔
اسی حقیقت کو کلمہ طیبہ میں ہرمسلمان ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔ جہاں کہیں بھی نظامِ ظلم پایا جاتا ہے، وہ ان دو صداقتوں سے انحراف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرلیا جائے تو طرزِ زندگی، طریق خشیت، نظامِ سیاست و قانون، غرض زندگی کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرے کے مختلف پہلو، سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت ہوجاتے ہیں۔ اسی کا نام نفاذِ شریعت اور قیامِ نظامِ اسلامی ہے۔
نفاذِ شریعت اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں بعض مواقع پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی جماعت یا تحریک اسلامی سمجھوتے (compromise) کر رہی ہے اور بظاہر اپنے مقصد سے انحراف کر رہی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں پہلے مرحلے ہی میں باطل کو مکمل طور پر بے دخل کرکے حق کو قائم کردیا جائے، جب کہ انسانی معاشرے میں تبدیلی عموماً ایک لمبے عمل کے بعد ہی آتی ہے، اور بعض اوقات طویل عرصے کی جدوجہد اور ہمہ تن توجہ کے باوجود مطلوبہ نتائج دُور دُور نظر نہیں آتے ، جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ تحریک ناکام ہوگئی۔ قرآن کریم اپنے ماننے والوں پر سعی اور کوشش کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ نتائج کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں دے دیتا ہے، تاکہ مایوسی، اور نااُمیدی کو دلوں سے نکالتے ہوئے تحریکی کارکن نتائج سے بے پروا ہوکر اپنے کام میں پوری قوت کے ساتھ لگے رہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً ایسے مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بظاہر ایک کارکن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک اپنے اصل مقصد سے انحراف کر رہی ہے، حالاں کہ قیادت مکمل طور پر یقین رکھتی ہے کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ ایسے تمام حالات میں حکمت ِدین کا تقاضا ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ کیا واقعی اہداف میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے، یا اصل اہداف کے حصول کے لیے حالات کی روشنی میں ایک تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟
تمام تحریکاتِ اسلامی کا مقصد وجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ تحریکات قرآن و سنت رسولؐ سے اخذ کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں اپنی حکمت ِعملی وضع کرتی ہیں اور ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ مسلم دنیا کے تناظر میں خصوصاً مصر اور ترکی میں جو تبدیلی کی لہر آئی ہے وہ تجزیہ و تحلیل کے لیے اہم مواد فراہم کرتی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی دعوت کا بنیادی نکتہ شریعت پر مبنی نظام کا قیام ہے۔ لیکن مصر کے سیاسی، عسکری اور معاشی حالات کے پیش نظر خصوصاً ایک بااثر عیسائی قبطی اقلیت کی موجودگی میں جو تعلیم، تجارت اور سیاست ہر میدان میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور بالخصوص مصر کی امریکا سے ۳۰سالہ گہری وابستگی، اسرائیل کے ساتھ مفاہمت اور فوج کے براہِ راست سیاسی امور میں دخیل رہنے کی روایت کے پیش نظر، کیا تحریکِ اسلامی کے لیے مناسب راستہ یہ تھا کہ وہ باطل، کفر اور ظلم کی روایت کو بیک قلم منسوخ کر کے شریعت پر مبنی نظام کا اعلان کردے یا ایک بتدریج عمل کے ذریعے حالات کے رُخ کو تبدیل کرے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ موجودہ قیادت کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ وہ امریکا سے ٹکرائو نہیں چاہتی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی سیاسی مذاکرات سے دیرپا حل چاہتی ہے، مصر کے لادینی عناصر اور بیرونی قوتیں (بشمول بعض مسلم ممالک) پوری قوت سے موجودہ حکومت کو کمزور اور ناکام بنانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایسے حالات میں تحریکی ترجیحات کیا ہوں گی؟ کیا تحریک کا بیک وقت دس محاذ کھول کر اپنی تمام قوت کا رُخ اُدھر کر دینا حکمت کی بات ہوگی یا حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور اولیات کا تعین کرنے کے بعد آگے چلنا قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہوگا؟
قرآن کریم نے جابجا مثالیں بیان کر کے ہمیں ان اُمور پر غور کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان سے حاصل کردہ علم کے ذریعے، نئے پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے۔
مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عقل کا تقاضا تھا کہ فوری طور پر قبلے کو درست کیا جائے۔ لیکن تقریباً دو سال انتظار کرنے کے بعد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرہ ۲:۱۴۴)، ’’اے نبیؐ! یہ تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجدحرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو‘‘۔
وحی الٰہی کے آتے ہی اس پر عمل کیا گیا اور عین حالت نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اصحابِ رسولؐ نے (جو اس وقت جماعت میں شریک تھے) بغیر کسی ہلڑاور افراتفری اور بغیر کسی حیل و حجت کے اپنا رُخ مکمل مخالف سمت میں پھیر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ آتے ہی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عطا کردہ حکمت دینی کی بناپر قائد تحریک اسلامی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اقدام فوری طور پر کیوں نہیں اُٹھایا اور ۱۶،۱۷ماہ بعد ۲ہجری میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویل قبلہ کے حکم کے آجانے کے بعد یہ اقدام کیوں کیا گیا؟
اس اہم واقعے پر عموماً جس زاویے سے غور کیا جاتا ہے اس کا محوریہی رہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا قیادت و سیادت پر مقرر کیا جانا اور بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم کی قیادت سے مطلق طور پر محروم کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نقطۂ نظر سے یہ تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے کہ اب قیامت تک کے لیے اس دینِ حنیف اور اُس کے لانے والے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تمام انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرار دیا گیا۔ تاہم، غیرمعمولی اہمیت کے حامل اس واقعے میں دینی حکمت عملی کے حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔
پہلی بات جس کا تعین اس واقعے سے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ مکافاتِ عمل ہے۔ جب بنی اسرائیل نے اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا تو ان کی جگہ اُمت مسلمہ کو اقوامِ عالم کی قیادت بطور ایک امانت اور ذمہ داری کے دے دی گئی۔ دوسری بات یہ کہ جس قوم کو قیادت سونپی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس فریضے کی ادایگی کے لیے جواب دہ بھی ہوگی۔ مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کو اپنے تمام ثقافتی، فکری اور روایتی رابطوں کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جس طرح قبلۂ اوّل کی طرف واپسی سے قبل مکہ میں ایمان لانے والوں کا امتحان لیا تھا کہ وہ بیک وقت حرمِ کعبہ اور حرم القدس الشریف کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے، اسی طرح مدینہ آنے کے بعد اطاعت الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ کو جانچنے کے لیے جب یہ کہا گیا کہ اپنا رُخ موڑ دو تو حالت ِ نماز ہی میں سب نے اپنا رُخ موڑ دیا۔ دوسری طرف یہودِ مدینہ اور وہ نومسلم جو ماضی میں یہودیت سے وابستہ تھے، ان کے لیے بھی یہ امتحان تھا کہ اب وہ قبلۂ ابراہیمی ؑ کی طرف رُخ کر رہے تھے، اور حضرت موسٰی ؑکے مرکز دعوت کی جگہ بیت اللہ کو یہ مقام دوبارہ حاصل ہورہا تھا۔ اس امتحان نے یہ واضح کردیا کہ کون صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرحکم کی بلاحیل وحجت اطاعت کرنے پر آمادہ ہے۔
تحریکی حکمت عملی کے نقطۂ نظر سے یہ واقعہ کئی اہم سوالات کی طرف اشارہ کرتا ہے:
پہلا سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر تحویلِ قبلہ تقریباً دو سال کے بعد کیوں ہوا، جب کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ریاستی اختیار کے اظہار کے لیے اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا؟
دوسرا سوال یہ کہ توحید خالص کی دعوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو قیامت تک کے لیے شریعت قرار دینے کے باوجود اس رواداری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ قبلہ جیسی بنیادی چیز کو حکمت اور مصلحت دینی کی بنا پر مؤخر کیا جانا مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟
ان سوالات کو اگر آگے بڑھایا جائے تو ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہوگا کہ کیا کسی بھی مسلم ملک میں تحریکِ اسلامی اپنے اصل ہدف، یعنی رضاے الٰہی اور اقامت ِ دین پر قائم رہتے ہوئے وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر اور دین میں معتبر حکمت اور مصلحت کی بنا پر مؤخر کرسکتی ہے؟ اور راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے عناصر کے ساتھ جو دل سے تحریکِ اسلامی کو پسند نہ کرتے ہوں تعاون و اشتراک کرسکتی ہے؟ اس تناظر میں میثاقِ مدینہ کی حیثیت کیا ہوگی، اور کیا اسے ایک عبوری حکمت عملی سے زیادہ اہمیت دینا درست ہوگا؟ ان سوالات کا براہِ راست تعلق مسلم ممالک میں تحریکاتِ اسلامی کے سیاسی عمل کے ساتھ ہے اور جب تک ان پر کھلے ذہن اور جذبات اور تعصبات سے بلند ہوکر غور نہ کرلیا جائے تحریکاتِ اسلامی بہت سے مغالطوں کا شکار ہوسکتی ہیں اور اس خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کم از کم تحریک کے کارکن بغیر گہری فکر کے محض سطحی مسائل پر غور کرکے تحریک کے لائحہ عمل کے بارے میں شک کا شکار ہوسکتے ہیں، اور اس طرح شیطان ان کو اپنی تحریک سے بدظن کرنے حتیٰ کہ فرار تک اُبھار سکتا ہے۔
یہاں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس طرح مکے میں اوّلین مخاطب مشرکینِ مکّہ تھے، مدینہ منورہ میں اوّلین مخاطب یہود اور ان کے زیراثر اور ان کی روایات سے آگاہ دیگر قبائل کے افراد تھے جو یہود کی طرف رہنمائی کے لیے متوجہ ہوتے تھے۔
قرآن کریم نے ان کو یاد دلایا کہ حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت موسٰی ؑاور حضرت عیسٰی ؑ تک تمام انبیا ؑ کی دعوت کا مرکز توحید تھی۔ اس لیے اسلام کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز ان کے پاس نہیں ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ ان کی اپنی کتب میں جس نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس کے آنے کے بعد اور ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد جو اس کی آمد کے بارے میں خود ان کی روایات میں پائی جاتی ہیں، ان کا اس دینِ حق کا انکار دراصل اپنی کتب سے انحراف و بغاوت ہے، اس لیے انھیں اسلام کے قبول کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح مکہ میں ۱۳سال تک مشرکینِ مکہ کو اس نئی دعوت پر غور کرنے، سمجھنے اور قبول کرنے کا آزادی کے ساتھ موقع دیا گیا، بالکل اسی طرح اب انھیں مہلت دی گئی کہ وہ مکمل آزادیِ راے کے ساتھ اس عرصے میں دعوتِ حق کو آگے بڑھ کر قبول کرسکیں۔
دوسری جانب اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لیے کہ اہلِ کتاب کا اسلام کی حقانیت اور اس کے من جانب اللہ ہونے کا علم رکھنے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرنا، اہلِ ایمان کو پریشان نہ کرے ۔ جو لوگ دنیا کی وقتی منفعت کے بدلے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سودا کرلیتے ہیں، ان کے ذہن مائوف، آنکھیں روشنی سے محروم اور کان سماعت کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں ، ان ہٹ دھرم اہلِ کتاب کی شقاوت قلبی، قبولیت ِ دعوت میں مزاحم ہوتی ہے، اس لیے عموماً قصور دعوتِ حق کا نہیں ان ظالموں کا اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کو غلافوں میں لپیٹ لینے کا ہوتا ہے۔
اس حقیقت ِنفس الامری کے باوجود تقریباً دو سال تک تحویلِ قبلہ کو مؤخر کیا گیا تاکہ اتمامِ حجت ہوسکے۔قرآنِ کریم کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر دعوتِ اسلامی اپنی تمام حقانیت کے باوجود ۷۰ برسوں میں وہ مقصد حاصل نہ کرسکی، جو اس کی دعوت کی بنیاد ہے، یعنی اقامت دین اور حاکمیت ِ الٰہیہ کا قیام تو اس میں حیرت، افسوس اور مایوسی کا کیا سوال! ثانیاً: اگر حکمت ِدینی اور مصلحت ِ دینی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کے اہلِ کتاب کے ساتھ میثاق پر دستخط ہوں تو کیا ایک اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ وقتی اور متعین مدت کے لیے میثاق اور معاہدے کرنا دین کے اصولوں کے منافی ہوسکتا ہے؟
مزید یہ کہ اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کی ادایگی، یعنی شہادت علی الناس کے لیے کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ اس دور کے مؤثر ترین ذرائع کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے جن میں ایوانِ نمایندگان میں پہنچ کر حق کا کلمہ بلند کرنا اور حکومتی ذرائع کے توسط سے دین کی فکر کا پیش کیا جانا مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ شہدا علی الناس بننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام وسائل کا استعمال اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی صداقت کے اظہار کے لیے کیا جائے۔ یہ وہ امانت ہے جسے پہاڑوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن جسے اللہ تعالیٰ اپنے انعام کے طور پر اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ یہ اس کی میراث ہے جو اس کے عابد بندوں کو یہاں اور آخرت میں ملتی ہے۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو قرآن و سنت کے سایے میں اپنے دور کے مطالبات کے پیش نظر آگے بڑھ کر ایسے معاہدے بھی کرنے ہوں گے، جو وقت کی ضرورتوں کی روشنی میں متعین اور محدود اہداف کے حصول کے لیے ہوں اور بالآخر جن کا مقصد دین کا قیام ہو۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کو تنقیدی نگاہ سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوگا اور کسی مداہنت اور اصولوںسے انحراف کیے بغیر، اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے وقتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ یہی دین کا مدعا ہے اور یہی دین کی راست حکمت عملی ہے۔
تحویلِ قبلہ کے حکم کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے منصب ِ امامت سے معزول کیے جانے کا بنیادی سبب ان کا کتمانِ حق تھا [البقرہ۲: ۱۴۰]، اور اُمت مسلمہ کو یہ منصب سونپنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تمام انسانوں پر گواہ بنا دیے جائیں اور وہ حق کی اُس شہادت کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس دی، اقوامِ عالم تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیے جائیں [البقرہ۲: ۱۴۳]۔ اس اہم منصب پر فائز ہونے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ یہود کی تاریخ مسلسل وعدہ خلافی، چکمے دینے اور دوعملی کی ہے، دوبارہ اتمامِ حجت کے لیے تقریباً دوسال یہودِ مدینہ کو یہ بات سمجھنے کا عملی موقع دیا گیا کہ دین اسلام، دین ابراہیمی ہے اور ان کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ جب اتمامِ حجت ہوگئی تو پھر تبدیلیِ قبلہ کے ذریعے یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ اب مسلمان اور یہود ایک اُمت نہیں بن سکتے بلکہ یہ دو الگ الگ ملّتیں ہیں اور دونوں کے قبلے جدا ہیں۔
ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ دعوتی مصالح کے پیش نظر ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے ان افراد اور گروہوں سے بھی سیاسی اتحاد کیا جاسکتا ہے جن کے مقاصد میں کُلی اشتراک نہ ہو۔ یہ حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کے جملہ پہلوئوں میں سے ایک ہے اور نظریاتی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے۔
قرآنِ کریم شہادتِ حق کے تصور کو تفصیل سے ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ایک جانب دین اسلام کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانا شہادتِ حق ہے تو دوسری جانب اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے ایسے افراد کو منتخب کرنا بھی شہادتِ حق کی ایک شکل ہے، جو ذمہ داری اُٹھانے کے اہل ہوں:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo (النساء ۴:۵۸)،مسلمانو،اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔
ایک مسلم معاشرے اور مملکت میں قیادت کے انتخاب کے حوالے سے بھی قرآنی ہدایات دوٹوک اور واضح ہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک منصب یا ذمہ داری کی اہلیت نہیں رکھتا، اسے ووٹ دیتا ہے تو یہ قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور بقول مفتی محمد شفیعؒ گناہِ کبیرہ ہے۔ حق کی شہادت اسی وقت دی جاسکتی ہے جب مختلف مناصب پر وہی لوگ مقرر کیے جائیں جن میں امانت، صدق، شفافیت، عدل، توازن، اللہ کا خوف، اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اُمت مسلمہ کے مفاد کے تحفظ کی فکر پائی جاتی ہو۔
جس طرح اللہ کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اسی طرح انسانوں کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ انھیں امانت کے ساتھ ادا کیا جائے اور ہرمعاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف اور آخری سند اور معیار اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہو۔ اُمت مسلمہ اور خصوصاً پاکستان کا بنیادی مسئلہ نااہل افراد کا ناجائز ذرائع سے حکومت پر قابض ہوجانا ہے۔ تبدیلی کے ذرائع ، ایک سے زائد ہوسکتے ہیں، مگر جو ذریعہ یا ذرائع استعمال کیے جائیں، ان کے لیے شرط صرف ایک ہے کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے راستے کے مطابق ہوں اور فساد فی الارض کا ذریعہ نہ بنیں۔
موجودہ حالات میں دعوتی حکمت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کے حق کو امانت کے احساس کے ساتھ اہل افراد کو قیادت کے منصب پر لانے کے لیے استعمال کریں۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام قیادت کی ناکامیوں اور بے وفائیوں کا گلہ تو کرتے ہیں (اور بجا طور پر کرتے ہیں) لیکن اس امرپر غور نہیں کرتے کہ قیادت کے انتخاب کے وقت خود انھوں نے کہاں تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اگر وہ برادری، تعلّقِ خاطر، سیاسی مفاد پرستی، لالچ، دھونس یا ایسے ہی دوسرے عوامل کے زیراثر ووٹ دیتے ہیں تو پھر قیادت کی غلط کاریوں کی ذمہ داری سے اپنے کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہی تبدیلی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل قیادت سے نجات کا ذریعہ انتخابات میں اس فرد اور جماعت کو ووٹ دینا ہے جس کے نمایندے باصلاحیت ہوں اور صاحب ِ کردار ہوں۔ قیادت کی سب سے ضروری صفات صلاحیت اور صالحیت ہیں۔ یہ دین کا تقاضا ہے اور اچھی سیاست کے فروغ کے لیے سب سے ضروری امر ہے کہ اچھے اور باکردار افراد کو ذمہ داری کے مناصب پر لایا جائے، اور ان کا ایسی جماعت سے وابستہ ہونا بھی ضروری ہے جس کا ریکارڈ قابلِ بھروسا ہو، جس کا ماضی بے داغ ہو، اور جس میں احتساب کا نظام موجود ہو۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ خود بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنے حلقے میں دوسرے تمام ووٹروں کو اس بات کو سمجھانے میں سردھڑ کی بازی لگادیں کہ اصلاح اور تبدیلی کا عمل ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ دین اور اچھی سیاست دونوں کے لیے کم سے کم تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کی واضح ہدایت یہ ہے کہ امامت اور ولایت کی ذمہ داری صرف ان کے سپرد کی جائے جو ایمان، علم، دیانت، عدالت اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل ہوں۔ قیادت کے لیے علم اور جسم یعنی صلاحیت اور قوتِ کار کو ضروری قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑکو قیادت پر فائز کیا تو اس کی یہی وجہ بتائی، فرمایا:
راست بازی، اعلیٰ کردار، حق شناسی اور دامن کے بے داغ ہونے کو ضروری قرار دیا:
انصاف پر قائم رہنا اور سب کے درمیان انصاف سے معاملہ کرنا قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے۔
یہی وہ صفات ہیں جن کو خود پاکستان کے دستور میں سیاسی قیادت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جن کا ذکر دفعہ۶۲ میں ضروری صفات کی حیثیت سے اور دفعہ ۶۳ میں قیادت کو نااہل بنانے والی صفات کے طور پر کیا گیا ہے۔ ان کے چند اہم جملے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں تاکہ ان سے ہر ووٹر کو روشناس کرایا جائے اور انھیں سمجھایا جائے کہ اگر وہ اپنے ملک کے حالات کی اصلاح چاہتے ہیں تو ووٹ دیتے وقت اُمیدوار کو اس کسوٹی پر جانچیں اور اس احساس کے ساتھ اپنے ووٹ کو استعمال کریں کہ وہ ایک امانت ہے جسے صرف امانت دار کو دینا ان کا فرض ہے۔ نیز ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ جسے آپ ووٹ دے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ووٹ کا مستحق ہے، اور ووٹ ایک قسم کا وکالت نامہ ہے کہ آپ اپنی طرف سے ایک شخص کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے اور قوم کے معاملات کو آپ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک انجام دے___ اور آپ کی دنیا اور آخرت میں ان تینوں اعتبار سے ووٹ کے استعمال کے باب میں جواب دہی ہوگی۔
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نہ ہو، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و) وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایمان دار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔
(ز) اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔
(ز) وہ کسی مجاز سماعت عدالت کی طرف سے کسی ایسی راے کی تشہیر کے لیے سزایاب رہ چکا ہو، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو، جو نظریۂ پاکستان یا پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا آزادی کے لیے مضر ہو، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا
(ح) وہ کسی بھی اخلاقی پستی کے جرم میں ملوث ہونے پر سزایافتہ ہو، جس کو کم از کم دوسال سزاے قید صادر کی گئی ہو، تاوقتیکہ اس کو رہا ہوئے پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو، یا
(ن) اس نے کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو ادارے سے اپنے نام سے اپنے خاوند یا بیوی یا اپنے زیرکفالت کسی شخص کے نام سے دوملین روپے یا اس سے زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کیا ہو جو مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے غیرادا شدہ رہے یا اس نے مذکورہ قرضہ معاف کرالیا ہو، یا
(س) اس نے یا اس کے خاوند یا بیوی نے یا اس کے زیرکفالت کسی شخص نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت چھے ماہ سے زیادہ کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زائد رقم کے سرکاری واجبات اور یوٹیلٹی اخراجات بشمول ٹیلی فون، بجلی،گیس اور پانی کے اخراجات ادا نہ کیے ہوں۔
تحریکی کارکنوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دستور کی شق کی روح اور معنی سے متعارف کرائیں اور نئے نظام کے قیام کے لیے آگے بڑھ کر صرف ایسے مخلص افراد کو منتخب کریں جو اپنے وعدوں پر قائم رہنے والے ہوں، جو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں، اور اپنے نفس کے بہکانے میں آنے کو تیار نہ ہوں۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو یہ امر بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ انتخابات ہمارے لیے جہاں نئی اور بہتر قیادت کو برسرِاقتدار لانے کی فیصلہ کن جدوجہد کا اہم ترین پہلو ہیں، وہیں خود عوام کی تعلیم، ان میں سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرنے، ان میں حق و باطل اور خیروشر میں تمیز اور تبدیلی اور اصلاح کے عمل میں شرکت کے لیے باہر نکلنے، راے عامہ کو تیار کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے کا داعیہ پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ یہ ہماری دعوت کا ایک اہم پہلو ہے اور ان شاء اللہ اس سلسلے میں صحیح نیت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا شمار عبادت اور جہاد میں شرکت کے زمرے میں ہوگا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔