اپریل ۲۰۱۳

فہرست مضامین

بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے مقدمات محض سیاسی انتقام!

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۱۳ | مقالہ خصوصی

۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے الم ناک سانحے کے نتیجے میں بنگلہ دیش تشکیل پایا۔   آج ۴۲برس بعد، یہی بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک خطرناک خونیں ڈرامے کا اسٹیج بن گیا ہے۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے علَم بردار ادارے اودھی کار (Odhikar) نے اپنے ۵مارچ ۲۰۱۳ء کے اعلامیے میں اس تلخ حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے:

اودھی کار بنگلہ دیش کی تاریخ میں قتل و غارت کی انتہائی گھنائونی لہر اور تشددکے واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے تشدد پر قابو پانے کے عذر کی بنا پر ۵فروری اور ۴مارچ ۲۰۱۳ء کے درمیان بلاامتیاز گولی چلائی اور کم سے کم ۹۸ افراد کو جن میں سیاسی کارکن، عورتیں اور بچے اور عام شہری شامل ہیں، مار دیا۔انسانی حقوق کو بڑے پیمانے پر پامال کیا جا رہا ہے۔ جس وقت یہ بیان جاری کیا جارہا ہے، مزید اموات کی خبریں آرہی ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۶۶، زخمی ہونے والوں کی ۳ہزار۸سو ۲۸ اور جیلوں میں محبوس کیے جانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے اور جیساکہ بنگلہ دیش کے ایک ماہرقانون بیرسٹر نذیراحمد نے امریکا اور انگلستان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پولیس کی جانب سے اندھادھند  قتل و غارت، تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی یہ بدترین مثال ہے جس کا کوئی جواز دستور اور قانون میں موجود نہیں۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی قائد خالدہ ضیا نے اپنی ۲مارچ ۲۰۱۳ء کی پریس کانفرنس میں اس اجتماعی قتل (mass killing) کو نسل کُشی (genocide) اور انسانیت کے خلاف جرم (crime against humanity)  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: حکومت جھوٹے مقدمات کا ڈراما رچا کر، سیاسی مخالفین کے قتلِ عام جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔

بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام نے ملک کو اس کی تاریخ کے خطرناک اور خونیں تصادم سے دوچار کردیا ہے اور ملک ہی میں نہیں، پوری دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ حالات کو جس رُخ پر دھکیلا جا رہا ہے، اس کے بڑے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر پوری دیانت کے ساتھ، اصل حقائق اور عالمی حالات کی روشنی میں گفتگو کی جائے، اور حق و انصاف اور عالمی قانون اور روایات کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں حل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ جب مسئلہ انسانی حقوق کا، انسانوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کا، اور علاقے میں امن اور سلامتی کا ہو تو پھر وہ مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے اور اسے کسی ملک کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ بات اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب ۴۲سال کے بعد ایک  طے شدہ مسئلے (settled issue) کے مُردہ جسم میں جان ڈال کر سیاسی انتقام اور نظریاتی کش مکش کو ہوا دی جائے اور ملک کے سکون کو درہم برہم کردیا جائے۔۱؎

۱-            بھارت کے بائیں بازو کے مشہور لبرل مجلہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک ہندو دانش ور نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ان مقدمات اور سزائوں پر ملک گیر اور خون آشام ردعمل کے جو سیاسی اور نظریاتی پہلو ہیں، وہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اور سماجی ارتقا پر بُری طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے ان مقدمات کو غیرمنصفانہ اور حسینہ واجد کے سیاسی انتقام کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق عوامی لیگ اگلے انتخابات کے سلسلے میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے خائف ہے اور جماعت کو انتخابات سے پہلے نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ لیکن اس تناظر میں جو ایک اہم نظریاتی پہلو رُونما ہو رہا ہے اس کی طرف بھی اس نے اپنے اضطراب کا اظہار اس طرح کیا ہے: یہ صورتِ حال ، بنگلہ دیش میں حریف نظریاتی قوتوں ___ سیکولر قوم پرستی اور اسلامی انقلابیت کے درمیان ایک نئے   پُرتشدد تصادم کے مرحلے کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: The Unfinished Revolution in Bangladesh، از Subir Bhaumik، ۲۳ فروری ۲۰۱۳ء، ص ۲۷-۲۸)

جنگی جرائم کے مقدمات کیوں؟

بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۴۲سال بعد یہ خونیں ڈراما کیوں رچایا جارہا ہے؟ جماعت اسلامی بنگلہ دیش مارچ ۱۹۷۹ء سے منظم انداز میں اور اپنے دستور کے مطابق، اپنے جھنڈے اور اپنے انتخابی نشان تلے اور اپنی قیادت کی رہنمائی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس اثنا میں پانچ بار (۱۹۸۶ء، ۱۹۹۱ء، ۱۹۹۶ء، ۲۰۰۱ء، ۲۰۰۸ء)   ملکی انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور پارلیمنٹ میں مؤثر خدمات انجام دیتے ہوئے اپنا کردار   ادا کرچکی ہے، نیز ایک بار حکومت کا حصہ بھی رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء میں جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف عوامی جمہوری مزاحمتی جدوجہد میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی خود عوامی لیگ کی ایک حلیف جماعت کی حیثیت سے پانچ جماعتوں کے اتحاد کا حصہ رہی ہے۔

 آخر اب ایسا کیا واقعہ ہوگیا کہ ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ کی موجودہ حکومت نے نام نہاد International Crimes Tribunal قائم کیا۔ جماعت کے نو قائدین بشمول سابق امیرجماعت، ۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم، امیرجماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور نائب امیرجماعت علامہ دلاور حسین سعیدی اور بی این پی کے دوقائدین پر مقدمہ قائم کیا۔ ۲۰۱۳ء کے آغاز میں علامہ دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت، اور عبدالقادر مُلّا (اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بنگلہ دیش جماعت اسلامی) کو  عمرقید کی سزا سنائی گئی۔معروف اسلامی اسکالر (مولانا) ابوالکلام آزاد (جو ایک زمانے میں  جماعت اسلامی سے وابستہ رہے)اور آج کل ٹیلی ویژن پر قرآن پاک کا درس دینے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں، انھیں بھی، ان کی غیرحاضری میں، سزاے موت سنائی گئی۔پھر حکومت کی سرپرستی میں شاہ باغ سکوائر (چوک) میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر شاہ باغ اجتماع کو منظم کرنے والے گروہ نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا، ہتک آمیز اور بے سروپا الزامات لگائے۔ ایک منصوبے کے تحت کچھ مقامات پر ہندوئوں پر حملے کیے گئے اور    ان کے مندر جلائے گئے۔ ساری شہادتیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ سب عوامی لیگ کے جیالوں نے کیا۔ فطری طور پر ان ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف اسلامی اور جمہوری قوتوں نے بھرپور احتجاج کیا اور حالات نے وہ کروٹ لی جو موجودہ سنگین کیفیت تک پہنچ گئی ہے۔

 الحمدللہ جماعت اسلامی کا، اس کی قیادت کا اور اس کے کارکنوں کا دامن ہر ظلم، قتل و غارت گری، فساد فی الارض، لُوٹ مار اور اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ جماعت نے ہمیشہ مبنی برانصاف ٹرائل کا خیرمقدم کیا ہے اور ۱۹۷۱ء اور اس کے بعد الم ناک واقعات کے بارے میں اس نے یہی کہا ہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء تک متحدہ پاکستان کا دفاع اور اس کی حفاظت اور حمایت اور اس پر بھارتی جارحیت کا مقابلہ ایک الگ چیز ہے اور عام شہریوں پر خواہ ان کا تعلق کسی نسل یا کسی مذہب سے ہو، ظلم اور  زیادتی ایک الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو گڈمڈ کرنا اصولِ انصاف، بین الاقوامی قانون اور خود ملک کے دستور کے خلاف ہے۔

جماعت اسلامی ہمیشہ مبنی بر انصاف ٹرائل کی حامی رہی ہے اور آج بھی ہے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ٹرائل ہراعتبار سے شفاف ہو، مسلّمہ ضابطہ قانون اور انصاف کے تسلیم شدہ عالمی معیارات اور طریق کار کے مطابق ہو۔ ہرشخص کو دفاع کا حق ہو اور بین الاقوامی معیار پر پورے اُترنے والے ججوں کے ذریعے اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں ہو، جیساکہ اقوام متحدہ کے طے کردہ ضابطے کے تحت ہیگ کی International Criminal Court کر رہی ہے۔ لیکن کنگرو کورٹ (بے ضابطہ عدالت، جہاں قانون کی دانستہ غلط تعبیر کی جاتی ہے)کے ذریعے دستور، قانون اور انصاف کے ہر مسلّمہ اصول کو پامال کر کے جو ڈراما رچایا جا رہا ہے، وہ ایک صریح ظلم ہے جسے کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک گھنائونا سیاسی کھیل ہے جس کا مقصد حقیقی جمہوری اور اسلامی قوتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے، جس کا ہدف عوامی لیگ کی مقابل قوتوں کو کمزور کرنا اور انھیں سیاسی میدان سے باہر کرنا ہے، اور جس کے ڈانڈے بنگلہ دیش میں بھارت کے سیاسی عزائم اور عالمی سطح پر اسلامی احیا کی تحریکات کے پَر کاٹنے کے ایجنڈے سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ   بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے عالمی پس منظر اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والے    ان حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جن سے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے اس اندازِحکمرانی کی بنا پر بنگلہ دیش کی آزادی، معاشرت، معیشت اور سیاست سب کو وجودی خطرہ (existential threat) لاحق ہوگیا ہے۔

بدلتا ھوا منظرنامہ اور بنگلہ دیش

اقوامِ عالم کی موجودہ صورت حال پر ایک اجمالی نگاہ دوڑانے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں اور معمولاتِ زندگی کے فیصلے کر رہے ہیں جو سردجنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ بظاہر جنگوں سے تھکا ہارا انسان اب  امن کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظریات کی جنگ کے مقابلے میں میزائل اور ڈرون ٹکنالوجی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلامی احیا ایک عالمی لہر کی صورت اختیار کر رہا ہے اور اسلام کے پھر سے قوت بن جانے کا زمانہ قریب محسوس ہو رہا ہے۔ اس انتہائی بنیادی اور اہم تبدیلی کو محسوس بھی کیا جا رہا ہے اور اُس کے متنوع ممکنہ اثرات و مضمرات کو سامنے رکھ کر مختلف عالمی قوتیں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسلمان عوام کے جذبات اور عزائم ایک سمت میں ہیں اور عالمی استعمار اور لبرل سیکولر قوتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس اہم تبدیلی کے دروازے پر کھڑے اہلِ اسلام کو جگانے والوں کی مساعی کے برگ و بار لانے کا وقت قریب آرہا ہے، وہیں اس کے ساتھ متوازی واقعات بھی رُونما ہورہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اور حُریت کا عنوان اسلامی تحاریک کے جمہوری اظہار سے جھلک رہا ہے، تو دوسری طرف ایک بڑا سامراج اس تبدیلی کو روکنے اور فکری و نظری اُلجھائو پیدا کرنے میں بھی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کی بیدار قیادت کو نئی مشکلات کے بھنور میں ڈالنے، ان کی شخصیت اور کردار کو اخلاقی اعتبار سے چیلنج کرنے اور ان کو اپنے نصب العین کی جانب تیزی سے پیش قدمی سے روکنے کے اقدامات خود مسلم دنیا کے اندر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔ ایسا ہی منظرنامہ آج بنگلہ دیش میں ترتیب دیا جارہا ہے۔

ہم اس حقیقت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور ہمیں بجا طور پر اس پر فخر بھی ہے کہ بنگلہ دیش نہ صرف ہمارا برادر اسلامی ملک ہے بلکہ دنیا میں تیسرا بڑا اسلامی ملک بھی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی ایک تھے۔ ایک جسم کے دو بازو! اس طرح وہ ربع صدی رہے۔ مسلم بنگال کو ہی دیکھ لیجیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آغاز ڈھاکہ میں ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ پاکستان بننے میں، تحریکِ پاکستان کے اُبھرنے اور قوت پکڑنے میں، حتیٰ کہ قراردادِ پاکستان (لاہور ۱۹۴۰ء) اور قرارداد دہلی (۱۹۴۶ء) پیش کرنے والوں میں مسلم بنگال کے مسلم رہنما اے کے ایم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کا کردار ناقابلِ فراموش تاریخی حقائق ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک نمایندہ سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور مسلم لیگ کو منظم کرنے میں بھی باقی ہندستان کی طرح بنگال کے مسلم رہنمائوں اور عوام کی گراں قدر مساعی کا نمایاں اور فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ اس کردار نے روزِاوّل ہی سے برعظیم پاک و ہند میں اسلام اور مسلمانوں کا مضبوط حوالہ بن کر آزادی کے حصول اور ہندو کی غلامی سے نجات کے لیے یہاں کے مسلمانوں کے راستے کشادہ کیے ہیں۔

یہ حقیقت تلخ سہی، تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ دونوں بازو دو الگ الگ ملکوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اس مقام تک جاتے جاتے دونوں طرف کے باشندوں کو انتہائی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ کش مکش سے گزرنا پڑا۔ یہ ایسی جغرافیائی علیحدگی تھی جس میں دونوں بھائیوں کی غلطیاں اور خطاکاریاں اپنی جگہ، لیکن بالآخر ان کو ایک دوسرے سے کاٹ دینے میں بیرونی قوتوں کا کردار  فیصلہ کن تھا۔ مغربی پاکستان کی فوجی قیادتوں کے کچھ عناصر کا کردار بلاشبہہ شرم ناک، ظالمانہ اور عاقبت نااندیشانہ تھا، لیکن بھارت کی سیاسی ریشہ دوانیوں اور جارحانہ فوج کشی سے کیسے صرفِ نظر   کیا جاسکتا ہے؟ بالآخر جو ہونا تھا وہ ہوا، لیکن اس سانحے کے باوجود زندگی نے نئی کروٹ لی۔ جغرافیائی علیحدگی ضرور واقع ہوئی لیکن دو ملکوں کے اس طرح وجود میں آنے کے باوجود، ان کے مابین اسلام کا گہرا رشتہ موجود رہا ہے۔ یہ علیحدگی مشترکہ اقدار اور ایک دوسرے کے لیے تعلق خاطر کو ختم نہ کرسکی اور دونوں نے نئے سفر کے آغاز اور تعلقات کی بحالی کا عزم کیا۔ حالات و واقعات نے اگرچہ بہت گرد اُڑائی اور اپنے پرائے بھی ایسے انداز میں سامنے آئے جو تکلیف دہ اور نامطلوب تھا، لیکن اس زخم کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے باشندوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت موجود رہی اور اب بھی ہے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام میں  پیش پیش رہنے والی سیاسی جماعت، یعنی عوامی لیگ کو مسلسل ایسی پذیرائی نہ مل سکی جو عموماً آزادی کی تحریکوں کے ہراول دستوں کو ملا کرتی ہے۔ یہ جماعت ابتدا میں بھی صاف شفاف انداز میں  پولنگ بوتھ کے ذریعے اکثریت نہ پاسکی اور اب بھی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے اکٹھے ہوجانے سے اقتدار سے باہر ہوجاتی ہے۔ اس میں اس جماعت کی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا حصہ بہت بڑا ہے، نیز اس پر بھارت کا اثرورسوخ جس طرح سایہ فگن رہا اور ہے، وہ بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لیے اضطراب کا باعث رہا ہے۔اس کے باوجود ہم بنگلہ دیش کی آزادی ، خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں۔ وہاں کے سیاست دانوں، عوام اور دانش وروں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے معاملات طے کریں اور اپنے تنازعات کا حل انھی کے فریم ورک میں تلاش کریں۔ یہ حقیقت بھی کسی طرح سے نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ وہاں کی حکومت کو بھی مسلمہ بین الاقوامی اقدار، کنونشنز اور معاہدوں کے مطابق اپنے آئین و قانون کی تشریح کا حق  اسی طرح سے حاصل ہے جس طرح کسی بھی ملک کی آزاد عدلیہ اس کی تعبیر و تشریح کا حق رکھتی ہے۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی : تین اھم پھلو

بنگلہ دیش جماعت اسلامی اپنے آزاد وجود اور خصوصی تشخص کے ساتھ، جنوبی ایشیا میں سرگرمِ عمل جماعت اسلامی کی ہمہ گیر نظریاتی تحریک کا ہی تسلسل ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال، ہر ملک میں جماعت اسلامی کے نام کی مستقل بالذات تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان تمام ممالک میں جماعت اسلامی کے نظریے اور کام میں اصولی مشترکات کے باوجود، ہر ایک کی مخصوص جغرافیائی، قومی اور دستوری انفرادیت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کا نظریاتی کردار بلاشبہہ پاکستان یا جنوبی ایشیا میں کہیں بھی جماعت اسلامی کے کام اور نظریاتی پہچان سے مختلف نہیں ہے۔

یہ تمام تحریکیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پیغام کی قاصد ہیں۔ ان کے لٹریچر میں بھی ایک گونہ اشتراک ہے اور ان کے درمیان بھائی چارہ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہرایک کا نظم، دستور اور قیادت مختلف اور مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنے ملکی حالات، ضروریات اور اہداف کی روشنی میں ہر ایک اپنے پروگرام اور ترجیحات کے مطابق سرگرمِ عمل ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود سیاسی آرا اور پالیسیوں میں ہر ایک آزاد اور اپنے معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔ اس کی اہم ترین مثال مشرق وسطیٰ کی مشہورِ زمانہ خلیجی جنگ (گلف وار) ہے جس کے ہرمرحلے  میں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا موقف پاکستان کی جماعت اسلامی سے مختلف رہا۔ صدام حسین کے ایران پر حملے اور بش اوّل کے عراق پر حملے پر دونوں کا ردعمل مختلف تھا مگر اس سب کے باوجود صرف برعظیم کی اسلامی جماعتوں ہی میں نہیں، دنیا کی تمام ہی اسلامی تحریکات میں نظریاتی اور روحانی طور پر ایک گونہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے کا ثمرہ ہے۔

جب ہم پاکستان میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو تین گہرے اور مضبوط حوالے ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ وہاں رُونما ہونے والے ایسے واقعات پر محاکمہ کریں جو حق و انصاف کے خلاف ہوں، جو مہذب معاشرے کے مسلّمہ اصولوں کو پامال کرنے کا سبب ہوں، جس سے انسان اپنے جائز حقوق سے محروم ہورہے ہوں اور جو عالمی راے عامہ کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کرنے کا باعث ہوں۔ بین الاقوامی اور عالمی سیاسی آداب کی رُو سے یہ صرف ایک استحقاق ہی نہیں، ایک فرض بھی ہے اور خود اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے خیرخواہی کا تقاضا بھی ہے۔ جہاں تک اہلِ پاکستان کا تعلق ہے، ہم تین وجوہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پورے معاملے کے بارے میں اپنی بے لاگ راے کا دلیل اور حقائق کی روشنی میں اظہار کریں اور بنگلہ دیش اور تمام دنیا خصوصیت سے اسلامی دنیا کے ارباب حل و عقد کو اور عامۃ الناس کو حق اور انصاف کے مطابق اپنے اثرات کو استعمال کرنے کی دعوت دیں۔

  •  ان میں سے پہلا حوالہ انسانی حقوق کا ہے۔ انسانیت کی حیثیت پوری دنیا میں ایک ہی ہے۔ یہ مسلّمہ حقیقت ہے۔ اس حیثیت سے وابستہ حقوق ہوں یا فرائض ، ان کی پامالی یا ان سے پہلوتہی پر دوسرے انسان بات کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ ان کمزور اور بے بس انسانوں کے حقوق کے لیے پوری دنیا آواز اُٹھاتی رہتی ہے جن کو دبایا جاتا ہے، استحصال کیا جاتا ہے، انصاف سے بزورِ قوت و اقتدار محروم رکھا جاتا ہے۔ انسانی برادری آواز اُٹھاتی ہے، ہم بھی اس حوالے سے، اسی تناظر میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر فکرمند ہیں، پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں، اور انسانی حقوق کے حوالے سے اس خراب منظرنامے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
  •  دوسرا حوالہ وہ نظریاتی کردار ہے، جس کا تذکرہ ہم نے بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک میں اسلامی تحریکات کے مشترکہ تصورِ دین اور تبدیلی کے نظریات کے حوالے سے کیا ہے۔ نظریے اور اقدار پر مشترکہ سوچ نے ہمیں ایک ایسی لڑی میں پرو دیا ہے کہ ہردانہ پہلے دانے سے اور ہرفرد دوسرے فرد سے تقویت اور حوصلہ پاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف روا رکھا جانے والا سلوک پاکستان میں بھی ہر اس فرد کو مضطرب اور بے چین کیے ہوئے ہے جو اس دین کا پیرو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اضطراب پاکستان ہی میں نہیں، پوری اُمت مسلمہ میں دیکھا جاسکتا ہے اور امامِ کعبہ ہوں یا شیخ الازہر، استاد یوسف القرضاوی ہوں یا ترکی کے صدر عبداللہ گل، ملایشیا کے سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم ہوں یا خود بھارت کی مسلم قیادت، سب مضطرب اور سراپا احتجاج ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ کیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مسلمانوں کو باہمی ہمدردی، محبت اور باہمی شفقت میں تم اسی طرح دیکھو گے کہ وہ ایک جسم کی طرح ہیں کہ جس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کا پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۰۱۱)

ہماری تشویش اور پریشانی کا سبب بہت واضح اور کھلا ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ قیادت کو مخصوص سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے پر قربان کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مخصوص قانون سازی اور مرضی کی عدالتیں بنا کر قائدینِ جماعت کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ یہ آزاد ملک کے اندر قانون کو غلام بنا کر دستور کی سنگین پامالی کا بھی معاملہ ہے جس پر دنیا کے ہرباشعور اور غیرجانب دار فرد کو تشویش ہونی چاہیے اور اسے اپنی آواز حق و انصاف کے لیے بلند بھی کرنی چاہیے۔ ہم بھی اس حوالے سے نہ صرف اس سارے عمل کی شدید مذمت کررہے ہیں بلکہ اقوامِ عالم اور ان کے نمایندوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس ظلم کا راستہ روکنے کے لیے ناانصافی پر آمادہ عوامی لیگ کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرے اور جن معصوم انسانوں کو تعذیب و انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کے حقوق انھیں واپس کرے تاکہ وہ غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔

  • تیسرا اور مضبوط حوالہ پاکستان کا ہے___ ان مقدمات اور سنائی جانے والی سزائوں کا   پس منظر یہ ہے کہ ان رہنمائوں نے ایسے حالات میں متحدہ پاکستان کو بچانے کے لیے آواز اُٹھائی، اور جملہ اخلاقی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کی، جب خود شیخ مجیب الرحمن بھی اپنے خلاف مقدمے میں کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان کے اندر خودمختاری کی بات کرتا ہوں اور متحدہ پاکستان چاہتا ہوں۔۲؎ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے اور اس کے بعد کے واقعات میں کسی بھی تاریخی، عدالتی، اخلاقی حوالے سے یا کسی بھی فورم پر کسی متاثرہ فرد نے نہیں کہا کہ اس کو جماعت اسلامی اور اس کے رہنمائوں کی وجہ سے جان یا مال کا کوئی نقصان اُٹھانا پڑا۔

ہم اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی، ترقی اور خوش حالی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بنگلہ دیش نے گذشتہ برسوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اس کی صنعتی  پیش رفت سے ہمیں دو گونہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نظریے اور ایمان کا رشتہ اب بھی تروتازہ ہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کا کردار ہمارے لیے بھی حوصلے کا سبب ہے کیونکہ ان نوجوانوں نے ایک طرف اسلامی دنیا میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں، دوسری طرف ملایشیا اور انڈونیشیا میں ان کا تعمیری کردار سب تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ یورپ میں اور بالخصوص برطانیہ کی ترقی میں بھی   پیش پیش رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو اپنے قیام کے بعد سے مخصوص علاقائی اور جغرافیائی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پڑوس سے اسے کبھی سکون نہیں مل سکا۔ یہ جغرافیائی یا محض علاقائی حالات کا ہی نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے بھی جاملتے ہیں۔ اس لیے بھی ہم خصوصی طور پر مضطرب ہیں کہ وہاں جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر آواز اُٹھانا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی یہ صورتِ حال گذشتہ کچھ عرصے سے نہایت پریشان کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مسلسل ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن کا نشانہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو بنایا جا رہا ہے۔ ایک نام نہاد اور

۲-            حال ہی میں جناب شیخ مجیب الرحمن کی نامکمل خودنوشت شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے اپنے دو قومی نظریے کے پُرجوش مبلغ ہونے کا فخر سے اعتراف کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان میں شرکت کی داستان بیان کی ہے اور پاکستان کی وحدت اور یک جہتی کا دم بھرا ہے۔ ملاحظہ ہو: The Unfinished Memoirs of Sheikh Mujibur Rehman

                اگست ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کے وکیل صفائی جناب اے کے بروہی نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ اس مقدمے کے وقت تک شیخ مجیب نے پاکستان کے فریم ورک میں صوبائی خودمختاری کی بات کی تھی اور علیحدگی کا کوئی اعلان یا عندیہ نہیں دیا تھا۔

 خود ساختہ انٹرنیشنل ٹریبونل بنا کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جارہے ہیں اور انصاف کے جملہ تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ان رہنمائوں کے حق دفاع کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تک جماعت کے رہنمائوں کو جو سزائیں سنائی گئی ہیں، انھوں نے پورے بنگلہ دیش میں ایک آگ سی لگا دی ہے  کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا دلاور حسین سعیدی اور مولانا عبدالقادر مُلّا۳؎ اصحابِ علم و تقویٰ کا دامن ان الزامات سے پاک ہے، جو ان پر لگائے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف اور صرف ظلم اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کو متعین کرلیا جائے۔ جنگی جرائم کا تعلق ان جرائم سے ہے جو حالت ِ جنگ میں بھی جنگ کے مسلّمہ آداب اور حدود کو پامال کر کے انجام دیے جائیں، اس لیے انھیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دیا جاتا ہے اور ان کو لڑائی کے دوران معروف حدود میںہونے والے قتل اور تباہی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نسل کُشی (genocide) بھی ایک متعین جرم ہے جس میں ایک خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری کو محض اس خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری سے تعلق کی  بناپر ظلم و ستم کا ہدف بنایا جائے، بلاجواز قتل کیا جائے یا تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہتے ہیں اور کسی بھی آزاد اور غیر جانب دار عدالت میں اس الزام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے اس امر کا واضح اعلان کیا ہے

۳-            ستم ظریفی ہے کہ مولانا عبدالقادر مُلّا نے بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے بنگلہ دیش رائفلز میں، جو ایک غیر سرکاری نیم فوجی تنظیم ہے، شرکت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ    ان کے جرائم میں مبتلا ہونے کی کوئی خبر ۱۹۷۱ء کے معاً بعد کے زمانے میں کسی کو نہ تھی اور اب ۴۲سال کے بعد یہ الہام ہوا ہے۔ علامہ دلاور حسین سعیدی بنگلہ دیش کے ایک معتبر عالم دین اور شہرئہ آفاق مقرر اور  مبلّغ ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ان کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ وہ کبھی بھی کسی غیرقانونی یا غیراخلاقی کارروائی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث رہے۔ جماعت اسلامی کی دعوت سے وہ نظریاتی طور پر ۱۹۷۵ء میں روشناس ہوئے اور جماعت کی بحالی کے بعد ۱۹۷۹ء سے اس کے سرگر م رکن رہے اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، بعدازاں جماعت کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

کہ وہ بحیثیت جماعت یا اس کا کوئی ذمہ دار اس نوعیت کے کسی بھی جرم کا مرتکب نہیں ہوا۔ البتہ جس بات کا جماعت نے اعتراف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان پر بھارتی افواج کے حملے اور مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی عسکری اور تخریبی کارروائیوں کے دوران پاکستان کا دفاع کیا اور اس زمانے میں بھی بار بار اس امر کا اعلان کیا کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی  بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جنگی جرائم کے مرتکبین کے حوالے سے جو قوانین بنائے، ان میں     جنگی جرائم اور پاکستان حکومت کا ساتھ دینے والوں میں فرق کیا اور دونوں کے لیے ۱۹۷۲ء میں    دو الگ الگ قانون نافذ کیے۔ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، ان کی سیاسی پوزیشن کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور عوامی لیگ الگ الگ راے رکھتے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں ایسے واقعات اور حادثات کے موقع پر یہ بالکل فطری بات ہے، لیکن سیاسی موقف کے اس اختلاف کو جنگی جرائم سے خلط ملط کرنا قانونی ، سیاسی اور اخلاقی ہراعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک نئی سیاسی حقیقت کے رُونما ہونے سے پہلے اور اس کے بعد کے معاملات کو سیاسی تناظر میں لیا جاتا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صریح ناانصافی ہوگا۔

چند تاریخی حقائق

اس اصولی وضاحت کے بعد چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا بھی ضروری ہے:

  •  قیام پاکستان کی جدوجھد: پاکستان کا قیام برعظیم پاک و ہند کے تمام مسلمانوں کی مشترک جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا اور اس میں مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کا حصہ اتنا ہی اہم اور فیصلہ کن تھا جتنا مغربی پاکستان یا باقی ہندستان کے مسلمانوں کا۔ اصل مسئلہ قیامِ پاکستان کے بعد اس مقصد سے رُوگردانی کے باعث پیدا ہوا جس کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مرتکب ہوئی۔ اس کے نتیجے میں وہ ناانصافیاں رُونما ہوئیں جو بھائیوں کے درمیان دُوری کا سبب بنیں اور اس نے نفرتوں کو جنم دیا۔ سیاسی قیادت کی ناکامی، بیوروکریسی کا کردار اور بار بار کی فوجی مداخلت سب صورتِ حال کو بگاڑنے کا ذریعہ بنے۔ جماعت اسلامی نے اس پورے دور میں اسلام کے نظامِ عدل کے قیام، جمہوری حکمرانی کے فروغ، حقوقِ انسانی کے تحفظ اور تمام انسانوں اور علاقوں کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے دوسری دینی اور سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔  اس سلسلے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اور پروفیسر غلام اعظم، حسین شہیدسہروردی اور شیخ مجیب الرحمن سب ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر سرگرم رہے اور اپنے دوسرے اختلافات کے باوجود مشترکات کی خاطر مل کر جدوجہد کی۔
  • کے انتخابات اور ملکی بحران: دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج نے ایک غیرمعمولی صورت حال پیدا کردی تھی لیکن اس نازک لمحے میں جماعت اسلامی پاکستان کا موقف بہت واضح تھا کہ انتخابات میں جو بھی خامیاں اور کمزوریاں تھیں مگر ان کے نتائج کو قبول کیا جائے، اس نے انھیں ’جمہوریت کی بحالی کا پہلا مرحلہ‘ قرار دیا اور عوامی لیگ کو جسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل ہوئی تھی، اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ نیز یہ بھی کہا کہ اکثریتی جماعت اور دوسری جماعتوں کو مل کر نیا دستور مرتب کرنا چاہیے۔ ۷دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے مولانا مودودی کی صدارت میں متفقہ طور پر جو قرارداد منظور کی، وہ جماعت کی پالیسی کا واضح ترین بیان ہے:

مجلس عاملہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ [انتخابی] بدعنوانیاں خواہ کتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہوں، ملک کے مختلف حصوں میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں، ان کو بہرحال معروف جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ جماعت چونکہ خود جمہوریت کی حامی ہے، اس لیے وہ قطعی طور پر یہ راے رکھتی ہے کہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں، انھیں لازماً کام کرنے اور عوام کو یہ دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کس حد تک ان کی توقعات پوری کرتی ہیں۔ جمہوریت میں کسی انتخاب کا فیصلہ بھی آخری اور ابدی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ملک میں جمہوری طریق کار اپنی صحیح صورت میں جاری رہے،  شہری آزادیاں محفوظ رہیں اور وقتاً فوقتاً انتخابات ہوتے رہیں تو ہر جماعت کے لیے یہ موقع باقی رہے گا کہ عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرسکے، اور عوام کو بھی یہ موقع حاصل رہے گا کہ ایک گروہ کی کارکردگی کا تجربہ کرکے اگر وہ مطمئن نہ ہوں تو دوسرے انتخاب کے وقت دوسرے کسی گروہ کا تجربہ کریں۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۸جنوری ۱۹۷۱ء)

اسی طرح جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے ایک اور قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ  قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے اور دستور سازی کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے:

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، اقتصادی اور امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ مسائل کے حل کا صحیح طریق کار یہی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایاجائے اور منتخب نمایندوں کو دستور سازی کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ موجودہ غیریقینی صورت حال ختم ہو اور انتقالِ اقتدار کے بعد کوئی نمایندہ حکومت ان مسائل کے حل کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ انتخابات کو مکمل ہوئے اب دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر اب دستور سازی کا کام شروع نہ کیا گیا تو اس کام میں روزبروز پیچیدگیاں بڑھنے کا امکان ہے..... بلکہ ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے اور بحالیِ جمہوریت سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ مایوسی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ یہ سیاسی خلا کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے مجلسِ عاملہ صدرِمملکت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلداز جلد بلائیں اور دستور سازی کا   کام مکمل کرانے کی جو ذمہ داری اُنھوں نے اپنے اُوپر لی تھی، اُسے پورا کریں۔  (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۷ فروری ۱۹۷۱ء)

واضح رہے کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کو، انتخابات سے دومہینے قبل، صاف الفاظ میں قوم کو متنبہ کردیا تھا کہ فوج ملک کو ایک نہیں رکھ سکتی۔ اس کے لیے اسلامی جذبے اور عوام کی تائید اور رضامندی ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کی پوزیشن اور کردار کو سمجھنے کے لیے ان حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جہاں جماعت نے پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے آخری لمحے تک کوشش کی، وہیں اس کی کوشش   یہ بھی تھی کہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی میدان میں وہ اقدام کیے جائیں جس سے یہ وحدت قائم    رہ سکے اور مستحکم ہوسکے۔ مولانا مودودی نے اس موقعے پر فرمایا:

میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اس وقت فوج بھی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اس ملک کو ایک ملک رکھ سکے۔ اگر کسی کے اندر عقل ہے تو وہ خود غور کرے کہ اگر خدانخواستہ  مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ جائے تو کیا آج فوجی طاقت کے بل پر اسے مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر رکھا جاسکتا ہے؟ پاکستان کے ان دونوں بازوئوں کو کسی فوج نے ملاکر ایک ملک نہیں بنایا تھا بلکہ اسلامی اخوت اور برادری کے جذبے نے انھیں ملایا تھا، اور آج بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں تو صرف اسی طرح کہ وہی اسلامی برادری کا جذبہ دونوں طرف موجود ہو اور مشرقی پاکستان کے لوگ خود یہ چاہیں یا کم از کم ان کی بہت بڑی مؤثر اکثریت یہ چاہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا اتحاد برقرار رہے، ورنہ علیحدگی پسند اگر خدانخواستہ اس رشتۂ اخوت کو کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں تو محض فوج کی طاقت کے بل بوتے پر آپ مشرقی پاکستان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ ملا رہے۔(افغان پارک، لاہور میں جلسۂ عام سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کا خطاب،  ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء)

  •  حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا تبصرہ: جب دسمبر ۱۹۷۱ء کی بھارت پاکستان جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا تو جماعت اسلامی نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیا اور دونوں ممالک میں الگ الگ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔ ۱۹۷۱ء کے تکلیف دہ اور الم ناک واقعات اور پھر ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک عوامی لیگ کے دورِاقتدار میں ہونے والے مظالم ہماری تاریخ کا تاریک ترین باب ہیں۔ اس زمانے میں قانون اور اخلاق دونوں کی حدود کو بُری طرح پامال کیا گیا۔ جنگ اور بغاوت کے خلاف اقدام کے بھی اپنے آداب اور قوانین ہیں اور جس طرف سے بھی ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، وہ قابلِ مذمت اور لائقِ تعزیر ہے۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تین باتوں کی نشان دہی کی ہے اور اس کی سفارش تھی کہ قانون اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق ان تینوں کے بارے میں کارروائی ہونی چاہیے اور پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کی حکومتوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے:

ا - مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی، بھارت کے ایجنٹوں اور دوسرے عناصر کی طرف سے پاکستان کے حامیوں (جن میں بنگالی اور غیربنگالی دونوں شامل تھے اور خصوصیت سے بہاریوں اور غیربنگالیوں اور پاکستانی افواج اور دوسرے اہل کاروں) کا قتل، ان کے اموال کی لُوٹ مار اور خواتین کی عزت و آبرو کی خلاف ورزی۔

ب-  پاکستانی افواج اور ان کی معاون قوتوں کی طرف قتلِ ناحق، لُوٹ مار اور جنسی زیادتی کے واقعات۔

ج- بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان تمام عناصر پر ظلم و زیادتی اور ان کا قتل اور غارت گری جو کسی جنگی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے لیکن محض عوامی لیگ کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں ان کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

ان تینوں حوالوں سے جو بھی زیادتی کی گئی اور جس نے بھی کی وہ قابلِ گرفت تھی اور قانون اور عدل و انصاف کے معروف اصولوں اور ضوابط کے دائرے میں ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔

جہاں تک جماعت اسلامی اور اس کے کارکنوں کا تعلق ہے، انھوں نے اس ریاست کا ساتھ ضرور دیا جس سے وفاداری کا انھوں نے حلف اُٹھایا تھا مگر وہ کسی غیرقانونی اور غیراخلاقی کارروائی میں شریک نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۷ء سے پہلے ان کے خلاف جنگی جرائم یا کسی دوسری زیادتی کا کوئی واضح الزام نہیں لگایا گیا اور بنگلہ دیش میں جناب مجیب الرحمن کے اقتدار کے زمانے میں احتساب اور جرم و سزا کا جو نظام بھی قائم ہوا، اس میں کوئی ایک کیس بھی جماعت کی قیادت یا اس کے کارکنوں کے خلاف ثابت نہیں ہوا۔ ہم اس سلسلے کے کچھ شواہد ریکارڈ کے لیے پیش کرتے ہیں۔

  •  قیامِ بنگلہ دیش اور احتساب: جناب مجیب الرحمن نے جنوری ۱۹۷۲ء میں دو قانون نافذ کیے: ایک War Crimes Act ،اور دوسرا  Collaboration Order 1972۔ وارکرائمز ایکٹ کے تحت پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور اس سلسلے میں ۱۹۵ فوجیوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ بھارت کی قید سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت نے پاکستانی حکومت اور افواج کے مددگاروں کی حیثیت سے جن لوگوں کو گرفتار  کیا گیا، ان میں سے ۳۷ہزار۴سو ۷۱ پر الزامات عائد کیے گئے مگر مقدمہ صرف ۲ہزار۸سو۴۸ پر چلایا گیا۔ باقی ۳۴ہزار۶سو۲۳ کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملنے کی بنیاد پر مقدمہ دائر نہ کیا جاسکا اور ان کو رہائی مل گئی۔ ان ۲ہزار۸سو۴۸ میں سے بھی جن پر مقدمہ چلایا گیا عدالت نے صرف ۷۵۲ کو سزا دی۔ باقی پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا اور وہ بھی رہا کردیے گئے۔ واضح رہے کہ ان ۲ہزار۸سو۴۸ میں کوئی بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا۔

واضح رہے کہ ان دو قوانین کے تحت کارروائی کے ساتھ ایک تیسرا اقدام بھی کیا گیا اور وہ  بنگلہ دیش کی دستور ساز اسمبلی کے ۱۲؍ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تھی جسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا کام سونپا گیا اور اسے MCA Committee کہا گیا اور عوامی لیگ کے آفس میں اس کا دفتر قائم کیا گیا۔ اس کے ساتھ پاکستانی فوج کے ستم زدہ لوگوں کو زرتلافی (compensation) ادا کرنے کے لیے بھی انتظام کیا گیا اور وزارتِ خزانہ کے سپرد   یہ کام ہوا کہ جس خاندان میں کوئی شخص مارا گیا ہے، ان کو زرِتلافی دیا جائے۔ سرکاری اعداد و شمار جو بعد میں اسمبلی میں پیش کیے گئے، ان کی رُو سے اس پوری کوشش کے نتیجے میں ۷۲ہزار افراد نے کلیم دائر کیے اور تحقیق کے بعد ۵۰ہزار کو زرِتلافی ادا کیا گیا۔ جماعت اسلامی سے ان تمام کا کوئی دُور دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔

گو، سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ۳۰لاکھ افراد کو پاکستانی افواج نے قتل کیا ہے اور ۲لاکھ خواتین کی عصمت دری کی ہے لیکن دو سال پر پھیلی ہوئی ان تمام کارروائیوں میں جو حقائق متحقق (establish) ہوئے ،اُن کی اِن دعووں سے کوئی نسبت نہیں۔۴؎

۴-            بلاشبہہ ایک فردکا بھی خونِ ناحق اور ایک پاک دامن کی عصمت دری پوری انسانیت کے قتل اور بے حُرمتی کے مترادف ہے لیکن حقائق کے بیان میں مبالغے کی حدود کو پامال کرنا بھی ایک جرم ہے۔ اسی طرح صرف ایک گروہ کی زیادتیوں کو نشانہ بنانا اور دوسرے گروہوں نے جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کو نظرانداز کرنا بھی انصاف اوراخلاق دونوں کے منافی ہے۔ جو زیادتیاں بھی ہوئیں وہ شرم ناک اور قابلِ گرفت ہیں لیکن کسی صورت حق و انصاف اور توازن و اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سب کو اس الم ناک، تاریک اور خون آشام دور کے جملہ پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے  دیکھنا ضروری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن نے بھی ان تمام ہی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ بھارت کی ایک    بنگالی ہندو محقق خاتون شرمیلا بوس (جو تحریکِ آزادی کے ہیروسبھاش چندربوس کی نواسی ہے) اپنی کتاب میں تصویر کے دونوں رُخ پیش کرتی ہے، ملاحظہ ہو:

اس پورے احتسابی عمل کا اختتام نسبتاً ایک خوش گوار شکل میں ہوا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندستان کی مشترکہ کوششوں سے ایک معاہدہ ہوا جس پر تینوں ممالک کے وزراے خارجہ، یعنی ڈاکٹر کمال حسین، عزیز احمد اور سورن سنگھ نے اپریل ۱۹۷۴ء میں دستخط کیے۔ اس کے نتیجے میں   بنگلہ دیش نے ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا اور یہ مطلوب جنگی قیدی باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ پاکستان واپس کردیے گئے۔ دوسری قسم کے مطلوبہ افراد جنھیں collaborater کہا گیا تھا، کے بارے میں نومبر ۱۹۷۳ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اُن چند سزا یافتہ افراد کے سوا جن کو بہت ہی سنگین جرائم میں سزا دی گئی تھی۔ بعد میں ان کو بھی معافی دے دی گئی اور اس طرح یہ افراد بھی دو سال کے بعد رہا کردیے گئے۔

پاکستان کی طرف سے بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہوئیں۔ اپریل ۱۹۷۴ء میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے سے زمین ہموار ہوئی۔     اسلامی کانفرنس تنظیم کے دوسرے سربراہی اجلاس (منعقدہ لاہور) میں شیخ مجیب الرحمن نے شرکت کی۔  پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور بالآخر جنوری ۱۹۷۶ء میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ ماضی کے واقعات پر

                پاکستانی فوج کے ایک مشرقی پاکستانی افسر لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق جو ۱۹۷۱ء میں فرار ہوکر مکتی باہنی میں شریک ہوگئے تھے، اور جنھیں بنگلہ دیش کے اعلیٰ ترین اعزاز ’بیر اُتّم‘ (Bir Uttam)سے نوازا گیا تھا اور جنھوں نے سفارت کاری کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، اس کی خودنوشتBangladesh: Untold Facts ایک چشم کشا دستاویز ہے جس میں مکتی باہنی اور مشرقی پاکستان کی جدائی میں بھارت کے کردار کی first person (براہِ راست)تفصیلات دی گئی ہیں، اس کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن ساڑھے تین سالہ دورِحکومت کے مظالم کا نقشہ بھی ذاتی علم کی بنیاد پر کھینچا گیا ہے۔

                بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل جیکب کی کتاب Surrender at Dacca: Birth of a Nation بھی قابلِ مطالعہ ہے جس میں بھارت کے کردار کا مکمل اعتراف موجود ہے۔ واضح رہے کہ اس دور میں پاکستان سے وفادار رہنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، اس کا احوال بڑا دردناک ہے ۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کی کتاب The Waste of Time بھی قابلِ مطالعہ ہے جس کا ترجمہ شکستِ آرزو کراچی سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔

افسوس کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کے سیلاب کے موقعے پر وہاں کا دورہ کیا اور   جنرل ارشاد کے دور میں تعاون کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ محترمہ خالدہ ضیا صاحبہ نے ۹۰ کے عشرے میں پاکستان کا دورہ کیا اور جنرل مشرف نے ۲۰۰۳ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور ایک بار پھر اس تاریک دور پر اپنے افسوس کا اظہار کیا۔

یہ تمام اقدام ۱۹۷۱ء کے واقعات کو دفن کرنے، عام معافی دینے، تعلقات کے ایک نئے باب کو شروع کرنے کے مختلف مراحل تھے۔ انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ یکایک اس پورے عمل کو اُلٹانے (reverse کرنے) کا کھیل بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے کیوں شروع کیا اور ہرحد کو پھلانگ کر سیاسی انتقام اور ملک میں شدید خلفشار کی کیفیت کیوں پیدا کی؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ عام معافی کے بعد ۲۰۱۰ء میںنام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کا قیام اور چُن چُن کر جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کو نشانہ بنانا اور ان لوگوں کو نشانہ بنانا جن کا ۱۹۷۱ء کے خونیں اور شرم ناک واقعات میں کوئی ذاتی کردار نہیں تھا، صرف ظلم ہی نہیں، ایک بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔

انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی حقیقت

 جسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جا رہا ہے، اس کا انٹرنیشنل معیار سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور اس میں کسی بین الاقوامی شرکت سے دُور رکھنے کے لیے ہر دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس ٹریبونل کا چیئرمین وہ جج تھا جو عوامی لیگ کا جیالا تھا اور جس نے اپنے خودساختہ وار کرائمز ٹرائل کا ڈھونگ اپنی جوانی میں رچایا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ ہے کہ خود اس جج کو جو اس وقت کے ٹربیونل کا صدر تھا، مقدمے کے دوران ہی بے وقعت ہوکر استعفا دینا پڑا کیونکہ اکانومسٹ نے اس کے برسلز کے ایک وکیل اور عوامی لیگ کے ایک سرگرم کارکن کے ساتھ ۲۳۰ ای میل اور ۱۷گھنٹے کی ریکارڈ شدہ ٹیلی فون کی گفتگو کا راز فاش کیا جس میں ایک طرف ٹربیونل پر حکومت کے دبائو کا اور ٹربیونل اور پراسکیوشن کے درمیان خفیہ سازباز کے ناقابلِ انکار ثبوت تھے تو دوسری طرف برسلز کے اس جیالے کی طرف سے نہ صرف مقدمے کو چلانے کے بارے میں واضح ہدایات دی گئیں بلکہ مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ہی مقدمے کے فیصلے کا ڈرافٹ بھی بھیج دیا گیا تھا۔ لندن اکانومسٹ نے اپنی ۸دسمبر ۲۰۱۲ء اور ۱۵دسمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعتوں میں یہ سارا کچاچٹھا کھول کر بیان کردیا جس سے ایک تہلکہ مچ گیا اور پہلے انکار اور پھر اقرار کے بعد ٹربیونل کے چیئرمین محمدنظام الحق کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن یہ بھی بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت اور اس کے طریق انصاف کا شاہکار ہے کہ ٹربیونل اسی طرح قائم رہا اور اسی ٹربیونل نے نئے ممبران کے ساتھ جن میں سے کسی ایک نے پورے مقدمے کی مکمل کارروائی سنی تک نہ تھی اور عالمی قانونی اداروں کے اس مطالبے کے باوجود، کہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ نیا ٹربیونل قائم کرے جو ازسرِنو مقدمے کی کارروائی کرے، جنوری، فروری اور مارچ ۲۰۱۳ء میں جماعت کے قائدین کو سزائیں سنائی گئیں۔  پھر عوامی لیگ کے جیالوں کے مطالبے پر قانون میں مؤثر بہ ماضی (retrospective)   کارروائی کی ترمیم کرکے اس ٹربیونل کو یہ اختیار دے دیا جو پہلے سے دی ہوئی سزا میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔

اس ٹربیونل کو یہ ’اعزاز‘ بھی حاصل ہے کہ دنیا میں شاید یہ واحد ٹربیونل ہے جس کے تمام ججوں نے مقدمہ سنے بغیر فیصلے دیے ہیں۔ ٹربیونل کی تشکیل اور موجودہ ہیئت کو ساری دنیا کے  قانون دانوں نے انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا حالات کی سنگینی کے اِدراک کے لیے مددگار ہوگا۔ اکانومسٹ (۱۵دسمبر۲۰۱۲ء) Trying War Crimes in Bangladesh کے عنوان سے لکھتا ہے:

اسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ان معنوں میں انٹرنیشنل نہیں ہے کہ یہ کسی انٹرنیشنل قانون کے تحت قائم کیا گیا ہو..... جرائم کرنے والے نمایاں افراد سب کٹہرے میں نہیں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرچکے ہیں یا پاکستان میں رہ رہے ہیں..... آخری مرحلے پر محمد نظام الحق نے جو اس کے سربراہ جج تھے، ٹربیونل کے جج کی حیثیت سے اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان سے سوالات کیے اور ان کی بنگلہ دیش میں پرائیویٹ ای میل کی اشاعت کی، جس سے ان کے کردار اور عدالتی کارروائی کے بارے میں شبہات پیدا ہوگئے.....یہ تشویش اتنی سنگین ہے کہ صرف اسی بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ انصاف کا سقوط ہو جس سے انفرادی طور پر مدعا علیہ ہی متاثر نہ ہوں بلکہ ٹربیونل کے غلط طریق کار کی وجہ سے بنگلہ دیش جو نقصان اُٹھا چکا ہے، اس میں بھی اضافہ ہو۔ یہ ملک کے زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ ان کو گہرا کردیں گے۔ جو شہادتیں ہم نے دیکھی ہیں، وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عدالتی کارروائی کے ازسرِنو مکمل جائزے کی اب ضرورت ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک ساتھ دیکھا جائے تو جو لوازمہ ہمیں دکھایا گیا ہے وہ جاری کارروائی (due process) کے بارے میں جائز سوالات اُٹھاتا ہے جن کی بنگلہ دیش کی حکومت کو اب مکمل تفتیش کرنی چاہیے۔ یہ تفتیش نظام الحق کے استعفے کے بعد اب ناگزیر ہوگئی ہے۔

مقدمے کی کارروائی کے دوران کوئی بے قاعدگی ایسی نہیں جس کا ارتکاب پوری ڈھٹائی سے نہ کیا گیا ہو۔ استغاثے کو ہرممکن سہولت دی گئی حتیٰ کہ عملاً شہادتیں تک پیش کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور صرف تحریری بیان کو کافی سمجھ لیا گیا تاکہ گواہوں پر جرح نہ کی جاسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بھی گواہ پیش کیا گیا، جرح میں وہ اپنے موقف پر قائم نہ رہ سکا اور سارا پول کھل گیا۔دفاع کے وکلا کو اپنے گواہ پیش کرنے سے روک دیا گیا اور ان مقدمات میں بھی جن میں درجن بھر الزام تھے،    قید لگادی گئی کہ چھے سے زیادہ گواہ پیش نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا سعیدی کے مقدمے میں   جس شخص کے قتل کا ان پر الزام تھا، خود اس کے بھائی نے (دونوں بھائی ہندو تھے) گواہی دی کہ مولانا سعیدی کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کو کمرئہ عدالت کے باہر سے اغوا کرلیا گیا اور ملک کے اور عالمی میڈیا نے لکھا کہ سرکاری ایجنسی کے لوگ اسے اغوا کر کے لے گئے۔ اس کا بیان ٹی وی تک سے نشرہوچکا تھا۔

جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ٹربیونل کے ججوں میں سے کسی ایک نے بھی پورے مقدمے کو سنا ہی نہیں لیکن فیصلہ دینے میں ان کے ضمیر نے کوئی خلش محسوس نہیں کی۔ عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اسے اپنی ۱۳دسمبر کی رپورٹ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے اور اس مطالبے کے ساتھ کیا ہے کہ سعیدی کے مقدمے کو ازسرِنو منعقد کیا جانا ضروری ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہی یہ ہے:Bangladesh: Retrial Needed in Sayeed's Case

دلاور حسین سعیدی کے وار کرائمز ٹرائل میں تین رکنی پینل میں بار بار کی تبدیلیوںکا مطلب ہے کہ منصفانہ مقدمہ اب ممکن نہیں رہا ہے، اور ایک نیا مقدمہ ہونا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہد آزادی میں،  جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی ریاست قائم ہوئی جو لوگ مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں، ان پر عالمی اصولوں کے مطابق بے لاگ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

۱۱دسمبر کو کرائمز ٹربیونل( ICT) کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے جو ۱۹۷۱ء میں کیے گئے فوجی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور دوسرے سنگین جرائم بھی جو پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران ڈھائے گئے تھے، مقدمہ سن رہے تھے، اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان کی ای میل، خط کتابت اور آڈیو ٹیپ شائع کردیے جن سے ایک جج کی حیثیت سے سعیدی کیس اور دوسرے معاملات میں ان کا جانب دارانہ رویہ سامنے آگیا۔اکانومسٹ نے مزید ای میل اور باہمی روابط دسمبر ۲۰۱۲ء کو شائع کیے جن میں اس کا کہنا تھا کہ جج، سرکاری وکلا اور انتظامیہ کے درمیان ملی بھگت ظاہر ہوتی تھی۔

سعیدی کیس میں تین رکنی پینل میں محمد نظام الحق واحد جج تھے، جب کہ مقدمے کے دوران دوسرے ممبر تبدیل ہوگئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پینل کے کسی جج نے بھی مکمل گواہیاں نہیں سنی تھیں۔ سعیدی کے مقدمے میں ۶دسمبر کو بحث مکمل ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ جسٹس محمد الحق کا جو متبادل آیا، جسٹس فضل کبیر، وہ ۱۲دسمبر کو مقرر کیا گیا، جو ایک ایسے مقدمے کے فیصلے میں شرکت کر رہے تھے جس میں انھوں نے سرکاری شہادتوں کا صرف ایک حصہ سنا ہے۔ یہ چیز انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیرپیشہ ورانہ ہوگی، جب کہ کسی مقدمے کا اس طرح فیصلہ لیا جائے جب کہ کسی بھی جج نے اہم گواہوں کو نہ سنا ہو، خاص طور پر ایک ایسے مقدمے میں جس میں ۴۲سال پہلے کی گواہی پیش ہورہی تھی اور پیچیدہ قانونی مسائل موجود تھے۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائرکٹر بریڈ ایڈم نے کہی۔ جب کورٹ کے صدر نے نامناسب باتوں کی وجہ سے استعفا دیا تو صرف ایک جج نے شہادت سنی تھی اور اب وہ جج بھی نہیں رہا۔ عدالت کے لیے اپنی ساکھ ثابت کرنے کے لیے ایک نیا مقدمہ ہی واحد راستہ ہے۔

سعیدی کیس میں مارچ ۲۰۱۰ء میں بننے والے پہلے پینل میں جسٹس محمد نظام الحق، جسٹس فضل کبیر اور جسٹس ذاکراحمد شامل تھے۔ جسٹس کبیر کو ۱۸دسمبر کو جسٹس حق کے استعفے کے بعد سعیدی پینل پر دوبارہ مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے مارچ ۲۰۱۲ء میں سعیدی کیس چھوڑ دیا تھا، جب انھیں آئی سی ٹی کے دوسرے مقدمے کی صدارت کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔ ان کے متبادل جسٹس انوارالحق نے دفاع کی طرف سے اپنا مقدمہ شروع کرنے سے پہلے صرف ایک سرکاری تفتیشی افسر کو سنا۔ اگست کے آخر میں جسٹس احمد نے خرابی صحت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے غیرمتوقع طور پر استعفا دے دیا اور ان کے بجاے جسٹس جہانگیر آئے جنھوں نے صرف دفاع کے گواہوں کو سنا۔ ہیومن رائٹ واچ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ وزیرقانون شفیق احمد اور سرکاری وکیل دونوں نے کہا کہ جسٹس نظام الحق کے استعفے سے سعیدی کے مقدمے کی کارروائی پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ ٹیپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذاکر احمد نے آئی سی ٹی کے عدلیہ میں مداخلت کی۔

ایڈیمز نے کہا کہ پوری دنیا میں عدالتیں زبانی گواہیاں کیوں سنتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکیں کہ ان کے سامنے جو گواہی پیش کی گئی ہے براہِ راست سوالات اور گواہوں کو چیلنج کرنے سے اسے کتنا وزن دیں۔ سعیدی کیس میں تین ججوں میں سے ایک بھی مکمل گواہی پیش کرنے کے دوران حاضر نہ رہا تھا۔ (لیکن اس کے علی الرغم وہ) ایک فیصلہ دے گا جو ملزم کو پھانسی کے تختے تک لے جاسکتا ہے۔ سعیدی ملزم ثابت ہویا نہ ہو، اس کا تعین صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک فیئر ٹرائل ان ججوں کے ذریعے ہو جو تمام شہادتوں کو سنیں۔

بنگلہ دیش کے موجودہ ٹربیونل اور اس کی جانب داری اور مایوس کن کارکردگی کا اعتراف دنیا کے گوشے گوشے میں ہورہا ہے اور ملک میں اور ملک سے باہر مقتدر ادارے اور ماہرین قانون اسے انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن نے اس کے قیام کے وقت ہی سے flawed یعنی قانونی اعتبار سے ناقص قرار دے دیا تھا۔ پھر ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘  نے ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ میں ٹربیونل کے بارے میں شدید اعتراضات کا اظہارکیا۔ خود ڈھاکہ میں سونارگائوں کے ہوٹل میں ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو منعقد ہونے والی بین الاقوامی وکلا کانفرنس نے اس مقدمے اور ٹربیونل کو انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا اور اس کے قانون میں ۱۷ بڑی بڑی خامیوں کی نشان دہی کی۔ بنگلہ دیش کے ایک سابق چیف پبلک پراسکیوشن خندکر محبوب حسین نے جو اس وقت وہاں کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، ان مقدمات کی نیک نیتی (bonafides) کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اگر حق پر ہے تو اسے ان مقدمات میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا چاہیے اور جس طرح اقوام متحدہ نے بوسنیا اور روانڈا کے جنگی جرائم کے مقدمات کو عالمی کریمنل کورٹ کے ذریعے منعقد کیا ہے، اسی طرح ان کو بھی کیا جانا چاہیے۔ ایک سابق سعودی سفارت کار نے، جو بنگلہ دیش میں خدمات انجام دے چکے ہیں، وہاں کے حالات سے واقف ہیں اور آج کل امریکا میں کیلی فورنیا اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں، انھوں نے تمام حالات کا تجزیہ کرکے لکھا ہے کہ:

سعیدی کے پھانسی کے فیصلے نے حتمی طور پر ثابت کردیا ہے کہ کسی شبہے کے بغیر آئی سی ٹی کینگرو کورٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ انصاف کی مکمل نفی کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کے   آئی سی ٹی کے بارے میں انصاف کے نقطۂ نظر سے ہمارا جائزہ سچائی اور معقول وجوہات کی بنا پر ہے نہ کہ جذبات اور سیاست کی بنا پر۔ (’خوف ناک انصاف‘      از پروفیسر محمد ایول، سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی متعدد رپورٹوں میں بنگلہ دیش میں انصاف کے اس قتل پر اپنے احتجاج کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک درجن سے زیادہ رپورٹیں اس بارے میں آچکی ہیں۔ International Centre for Transitional Justice نے بھی اپنی رپورٹ (۱۵مارچ۲۰۱۱ء) میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ورکنگ گزٹ نے ۶فروری ۲۰۱۱ء کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ امریکی سفیر براے Transitional Justice جس کا اصل موضوع ہی جنگی جرائم ہیں، نے اپنی رپورٹ (۶فروری ۲۰۱۲ء)میں ٹربیونل کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔برطانیہ کے مشہور ماہرقانون لارڈ ایوبری، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے قانون کے پروفیسر لارل فلچر اور انگلستان بین الاقوامی کریمنل لا کے ماہر اسٹیون کِے، اور دسیوں یورپی ماہرین قانون نے اس پورے عدالتی عمل کو غیرتسلی بخش اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ تازہ ترین بیان میں خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رپورٹر جبریل اور اقوام متحدہ ہی کے ایک اسپیشل رپورٹر چسٹاف ہینز نے اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گیبربل کا کہنا ہے:

مجھے ان سوالوں پر تشویش ہے جو ’’ججوں کی غیر جانب داری اور ٹربیونل کی سروسز اور انتظامیہ کی آزادی کے بارے میں اُٹھائے گئے ہیں۔نیز ڈیفنس کے وکلا اور گواہوں کے ماحول کے سلسلے میں سامنے آئے ہیں‘‘۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’’ٹربیونل منصفانہ مقدمہ اور ڈیوپراسس کے بنیادی تقاضوں کا احترام کرے‘‘۔

اس سلسلے میں عالمی اضطراب کا تازہ ترین اظہار برطانوی پارلیمنٹ میں نجی پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور اس سے بھی زیادہ یورپین پارلیمنٹ میں ۲۶ممبران پارلیمنٹ کی ایک قرارداد میں   صاف الفاظ میں کیا گیا ہے:

آئی سی ٹی کے عمل میں بیان کی گئی بے قاعدگیاں، مثلاً مبینہ حراساں کرنا، اور گواہوں کو زبردستی اُٹھانا، اس کے ساتھ ہی ججوں، سرکاری وکیلوں اور حکومت کے درمیان غیرقانونی تعاون کے ثبوت، بزور کہتی ہے کہ خاص طور پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں گواہوں کے مؤثر تحفظ کے لیے اقدامات بڑھائیں۔ پارلیمنٹ حکومت ِ بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتی ہے کہ آئی سی ٹی سختی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی عدالتی معیارات کی پابندی کرے ۔ اس حوالے سے وہ آزاد، منصفانہ اور شفاف مقدمے پر زور ڈالتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انصاف کا اہتمام ہو۔ یہ پارلیمنٹ مطالبہ کرتی ہے کہ قانون کے دفاع کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کردے۔ یاد دلاتی ہے کہ ’’انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرے گی‘‘۔

ہم نے عالمی ردعمل کی صرف چند جھلکیاں قارئین کی نذر کی ہیں۔ جو حقائق ہم نے پیش کیے ہیں، ان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے،        وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے خلاف مؤثر احتجاج نہ کرنا اس جرم میں ایک طرح کی شرکت کے مترادف ہے۔

ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیںکہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس ٹربیونل کی ساری خامیوں، ناانصافیوں اور زیادتیوں کے باوجود قانونی لڑائی کا راستہ اختیار کیا اور وہ ہرسطح پر صاف شفاف مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، اس لیے کہ اس کا دامن بے داغ ہے، لیکن اس وقت جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سیاسی انتقام ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت اسلامی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد سے خائف ہے ، اور ان کو ان ناپاک ہتھکنڈوں سے میدان سے ہٹانا چاہتی ہے۔ وہ سیکولر لبرل قوتوں اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کررہی ہے۔ اس ٹرائل کے دوران میں بھارت کے وزیرخارجہ نے خاص طور پر بنگلہ دیش کا دورہ  کیا اور ان مقدمات میں دل چسپی کا اظہار کیا۔سزاے موت کے فیصلے کے اعلان کے بعد بھارت کے صدر صاحب بنفسِ نفیس بنگلہ دیش تشریف لائے اور حکومت کو اشیرباد دی۔ وہ مغربی حکومتیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اِکا دکا واقعات پر آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں، اس صریح ظلم پر خاموش ہیں یا صرف دبے لفظوں میں اور ’اگرمگر‘ کے ساتھ چند جملے کہہ رہی ہیں، اور سب سے زیادہ افسوس ناک رویہ پاکستان کی حکومت اور اس کے بااختیار حلقوں کا ہے جو سفارتی میدان میں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہے۔ ہم کسی سے رحم کی اپیل نہیں کرتے۔ ہم صرف بنگلہ دیش کے مسلمانوں، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کے اس حق کی بات کرتے ہیں کہ وہ انصاف اور صرف انصاف چاہتے ہیں اور انتخابی عمل کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جماعت اور وہاں کے عوام نے احتجاج کا راستہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ حکومت اور عدالت نے انصاف کا دروازہ بند کردیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ فتح ان شاء اللہ  حق ہی کی ہوگی اور یہ آزمایش اسلامی قوتوں کو بالآخر مزید قوت سے اُبھرنے کا موقع دے گی جس طرح دوسرے ممالک میں نظر آرہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون پر کون سے مظالم ہیں جو ۶۰برس تک نہیں ڈھائے گئے مگر ظلم کی قوتیں حق کی آواز کو دبانے میں ناکام رہیں اور آوازئہ حق بلند ہوکر رہا۔ ان شاء اللہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی تو اس امتحان میں ضرور کامیاب ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ہم   اہلِ پاکستان اور دوسرے وہ تمام عناصر جو انسانی حقوق اور انصاف کی بالادستی چاہتے ہیں وہ اس امتحان میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟  یا پھر ان کا شمار تاریخ میں مجرموں کے ساتھ ہوگا؟


کتابچہ دستیاب ہے، ۱۳ روپے، سیکڑے پر خاص رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲