[مکمل شعور اور گہری للہیت] نے تزکیے کو ایک مستمر [مستقل جاری]جدوجہد اور ایک مسلسل تگ و دو کی چیز بنا دیا ہے۔ اس میں کوئی وقفہ یا ٹھیرائو نہیں ہے۔ اس سفر میں کوئی موڑ یا مقام ایسا نہیں آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ سکے کہ بس اب یہ آخری منزل آگئی، یہاں پہنچ کے ذرا سستا لینا چاہیے یا یہیں کمر کھول دینی چاہیے۔ یہ ایک خوب سے خوب تر کی جستجو ہے۔ اس خوب سے خوب تر کی جستجو میں نگاہ کو کہیں ٹھیرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جس رفتار سے اعمال و اخلاق اور ظاہروباطن میں جِلا پیدا ہوتا جاتا ہے، اُسی رفتار سے مذاق کی لطافت، حس کی ذکاوت اور آنکھوں کی بصارت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دامن کے پچھلے دھبے دھو کے ابھی فارغ نہیں ہوئے کہ نگہِ باریک بیں کچھ اور دھبے ڈھونڈ کے سامنے رکھ دیتی ہے کہ اب انھیں دھوئے ؎
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھیرتی ہے جاکر نظر کہاں
عملِ تزکیہ کی اِس فطرت نے اس کو نہایت مشکل اور دشوار کام بنا دیا ہے۔ اگر ایک شخص اس کی وسعتوں کو دیکھ کر بالفرض نہ بھی گھبرائے تو بھی یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ تسلسل اُس کی کمرہمت توڑ کے رکھ دے گا۔ لیکن اگر یہ عمل فطری طریقے پر اس تدریج و تربیب کے ساتھ کیا جائے جو اس کے لیے انبیاے علیہم السلام کی تعلیم میں بتایا گیا ہے، تو اس وسعت اور اِس لامتناہیت کے باوجود ایک طالب ِ حق کے لیے اس سے زیادہ لذیذ اور پُرکشش کام کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس کی وسعتوں کو دیکھ کر دل پر ہراس ضرور طاری ہوتا ہے لیکن اس راہ میں ہرقدم پر غیب سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے، وہ رہنمائی اس قدر تسلی بخش ہوتی ہے کہ ہمت برابر بندھی رہتی ہے اور دل بے حوصلہ نہیں ہونے پاتا: وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو ہماری طلب میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولتے ہیں‘‘۔
اس طرح اس راہ کے تسلسلِ سفر سے جو تکان لاحق ہوتی ہے اس کا ازالہ ان نئے نئے حقائق و لطائف کے انکشاف سے ہوتا رہتا ہے جو برابر تازہ زندگی بخشتے رہتے ہیں ع
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
(’تزکیہ نفس‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد۱، رجب، ۱۳۷۲ھ، اپریل ۱۹۵۳ء،ص۱۴-۱۵)