اپریل ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اپریل ۲۰۱۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحلِ سمندر کی جانب ایک لشکر بھیجا جس میں ۳۰۰ مسلمان شامل تھے۔ آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓکو ان کا امیر بنایا۔ میں بھی ان ۳۰۰ میں شامل تھا۔ ہم نکل کھڑے ہوئے، ہم راستے میں تھے کہ زادِراہ ختم ہونے کے قریب ہوگیا۔ تب ابوعبیدہ بن جراحؓ نے فوج کو حکم دیا کہ ہرآدمی وہ سب کچھ ایک جگہ لے آئے جو اس کے پاس ہے۔ چنانچہ سب نے اس پر عمل کیا، جس کے نتیجے میں کھجوروں کے دو بورے بھر گئے۔ حضرت ابوعبیدہ ان بوروں میں سے ہر دن ہر فوجی کو ایک کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے یہاں تک کہ وہ دونوں بورے بھی ختم ہوگئے۔ حضرت وھب بن کیسانؓ جو حضرت جابر ؓ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں نے کہا کہ ایک کھجور کیا کام دیتی ہوگی۔ اس پر حضرت جابرؓ نے کہا: ہمیں تو اس کی قدر اس وقت ہوئی جب وہ ایک ملنا بھی بند ہوگئی۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی ہم چلتے رہے یہاں تک کہ سمندر کے ساحل (جو منزل تھی) پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ٹیلے کی طرح ایک مچھلی کنارے پر پڑی ہے۔ اس کو ہم نے ۱۸دن خوب سیر ہوکر کھایا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے اس مچھلی کے دو کانٹوںکو کھڑا کیا (ان میں نیچے سے فاصلہ رکھا، اور اُوپر سے ملا دیا، پھر اُونٹنی پر کجاوے ڈال کر ان دونوں کانٹوں کے بیچ سے گزار ا گیا تو وہ گزر گئی اور کانٹوں کے سروں کے ساتھ نہ ٹکرائی۔ (بخاری، کتاب الشرکۃ)

صحابہ کرامؓ نے جس تنگ حالی میں جہاد کیا، اس کا ایک نمونہ یہ جہادی مہم ہے، کہ ایک کھجور کھا کر دن رات گزارا کرنا اور اس کے ساتھ ہی جہادی مہم کو سر کرنا، آگے بڑھتے چلے جانا اور پیچھے نہ ہٹنا، اور کوئی واویلا نہ کرنا اور کسی قسم کی بے صبری اور افراتفری کا شکار نہ ہونا۔ ایسی حالت میں آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم ہے کہ سب کے پاس جو کچھ ہے وہ اکٹھا کرلیا جاتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی تو کھائے اور کوئی بھوکا رہے۔

آج اگر یہ ہمدردی اور غمگساری ہمارے معاشرے میں آجائے تو بھوک کا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے۔ معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ ہمدردی، غمگساری اور معاشرے کے غم میں ڈوب جانے اور آنسو بہانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر سب لوگ اپنی دولت کو ایک جگہ جمع کرکے اسے ملک و ملّت کے حوالے کر دیں تو بیرونی قرضے بھی یک دم ختم ہوجائیں اور اندرونی معیشت بھی مضبوط و مستحکم ہوجائے اور کوئی بھوکا ننگا نہ رہے۔ بے شک اس کے لیے اپنی ساری دولت سے دست بردار نہ ہوں بلکہ قرضوں کی ادایگی اور عوام کے بھوک اور ننگ دُور کرنے کے لیے جس قدر دولت کی ضرورت ہے اتنی مقدار سے دست بردار ہوجائیں، تب بھی صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے اور بدامنی کی جگہ امن، تنگی کی جگہ آسانی اور پریشانی کی جگہ اطمینان اور سکون کی زندگی میسر آسکتی ہے۔ ایسا کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد نازل ہوسکتی ہے اور ہمیں غیب سے رزق مل سکتا ہے۔ آج کے دور میں قوت کا راز ہی مستحکم معیشت ہے۔ یہ ہمیں قوموں کی برادری میں معزز مقام دلواتی، اور ۲۱ویں صدی امریکا یا چین کے بجاے ہمارے نام ہوجاتی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِم(المائدہ۵:۶۶) ’’اگر یہ لوگ تورات، انجیل اور اسے قائم کرتے جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن پاک ) تو ان پر اُوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے سے بھی رزق برستا‘‘۔گویا اہلِ کتاب تورات کے دور میں تورات اور انجیل کے دور میں انجیل اور قرآن پاک کے دور میں قرآن پاک کو قائم کرلیتے تو ان پر  اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کے تمام دروازے کھل جاتے۔ اس نسخے پر ۵۷ممالک عمل کریں تو    کون سی سوپرپاور ہمارے سامنے ٹھیرتی۔ہم محض اپنی نادانی میں ان پاورز کی ٹھوکروں میں پڑے ہیں، العیاذ باللہ۔ کاش کہ ہم تقویٰ کی روش اختیار کریں اور زمین و آسمان کی برکتوں اور نعمتوں کا مشاہدہ کریں۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے آخرت تو بنتی ہے، دنیا بھی سنور جاتی ہے اور معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ رزق میں فراخی، ذہنوں کو سکون اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی طرف رجوع کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف اپنی رحمت کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے، آج بھی ہوسکتا ہے اور آیندہ بھی حقیقی آسودہ حالی حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستوں میں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے، ہمارا رواج ہے۔ ہم راستوں میں (یعنی راستوں کے کناروں پر) مل بیٹھتے ہیں، مشورے ہوتے ہیں، لہٰذا آپؐ اس کی اجازت مرحمت فرما دیں تو اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم نے راستوں کے کناروں پر بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: راستے کاپہلا حق: نظریں نیچے رکھنا ہے، دوسرا حق: تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، تیسرا حق: سلام کا جواب دینا، اور چوتھا حق بھلائی کی تلقین کرنا اور بُرائی سے روکنا ہے۔ (بخاری، ابواب المظالم والقصاص)

شارع عام کے کنارے پر بیٹھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔ سڑک کے ذریعے آمدورفت بلاروک ٹوک ہونا چاہیے۔ اس لیے راستے کو کم کرنا، تجاوزات کرنا، سڑک کے کنارے ریڑھیاں لگانا، دکانیں اور مکان بنانا اسی صورت میں جائز ہے جب اس سے راستہ گزرنے والوں کے لیے تنگی اور تکلیف پیدا نہ ہوتی ہو۔ اسی طرح معاشرے میں آمدورفت، نشست، بسوں، ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کے دوران اور جلسوں، جلوسوں اور اجتماعات کے دوران نظریں نیچی رکھنا اسلامی تہذیب کا امتیاز ہے۔ اسمبلیوں تجارتی مراکز اور ہالوں میں بے پردگی نہیں ہونی چاہیے۔ مردوں کی نشستیں الگ اور خواتین کی الگ ہونی چاہییں۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دفاتر، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کے لیے بھی اس کے مطابق نظام بنانا چاہیے۔ مغربی تہذیب نے ہمارے معاشروں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بھی مغرب کی طرح مخلوط ہوگیا اور اختلاط مردوزن کی وجہ سے مسلمانوں کی بے راہ روی کے نتیجے میں زندگی سے سکون ختم ہوگیا ہے، اور بندے اللہ تعالیٰ کی بندگی سے غافل ہوگئے ہیں۔ سلام پھیلانے کی جگہ ہم نے ہاتھ سے سلیوٹ کرلینے کو سلام کا بدل بنا دیا ۔ نیکی کا حکم کرنا اور برائی کو روکنا ایک فریضہ ہے جو حکومت، عوام اور علما اور زعما سب کی ذمہ داری ہے، لیکن آج صرف اسے منبر کے ساتھ خاص   کردیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہم اپنا لیں جیسے کہ اس کو اپنا لینے کا حق ہے، تو دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادھار کی ادایگی کا مطالبہ کیا اور سخت رویہ اختیار کیا۔ صحابہؓ نے ارادہ کیا کہ اسے اس کے نازیبا رویے کی سزا  دیں۔ آپؐ ان کے اس ارادے کو بھانپ گئے تو آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ حق دار کو مطالبہ کرنے اور بات کرنے کا حق ہے۔ جس مالیت کا اس نے اُونٹ دیا تھا اتنی ہی مالیت کا اُونٹ تلاش کرکے اسے دے دو۔ صحابہؓ نے اس طرح کا اُونٹ تلاش کیا لیکن نہ ملا۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس مالیت کا اُونٹ تو نہیں مل رہا، اس سے زائد مالیت کا اُونٹ مل رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے ادایگی کرو۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادایگی میں بہتر ہو (بخاری کتاب االاستقراض )

یہ شخص یہودی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت روش اور نازیبا انداز کو برداشت کیا۔ اسے اس کا حق نہ صرف ادا کیا بلکہ اس سے زائد دیا۔ آپؐ نبی، رسول اور حکمران تھے۔ آپؐ ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرتے تھے، خریدوفروخت کرتے، اُدھار لین دین کرتے۔ کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ وہ آپؐ سے مل نہ سکتا تھا، کوئی سیکورٹی اور کوئی دربان آپؐ کے دروازے پر نہ تھا۔ مسجد میں، راستے میں چلتے ہوئے آپؐ سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ کیا آج کی مہذب حکومتیں اس کی مثال پیش کرسکتی ہیں؟ کیا رواداری، خوش اخلاقی کا اس سے بہتر نمونہ کہیں تلاش کیا جاسکتا ہے، اور آج کے معاشرے میں اس نمونے کی کوئی حکمران شخصیت سامنے لائی جاسکتی ہے۔ کوئی مذہبی پیشوا بھی ایسا ہے کہ دوسرے مذہب یا مسلک کا شخص اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے تو پیروکار اسے برداشت کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار تو صحابہؓ تھے۔ کیا انھوں نے آپ ؐ کی صحبت میں کسی کے ساتھ زیادتی کی؟ تب یہ کیسے  ممکن ہے کہ صحابہؓ سے محبت کرنے والا، اہلِ بیتؓ کا پیروکار، ان کی محبت میں لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے بجاے انھیں پامال کرے۔ مسلمانوں میں یہ بات کہاں سے آگئی ہے؟ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ لادین معاشروں سے ان میں در آئی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت کو اپنانا چاہیے اور دنیا کے لیے، اس نمونے کو تازہ کرنا چاہیے جو نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا ہے۔ آج دنیا کو نبیؐ اور اصحابِ نبیؐ کی سیرت کی ضرورت ہے۔ یہی امن و امان اور شرافت کے دوردورہ کی ضامن ہیں۔