ادھر کئی دن سے میں مصر کی صورتِ حال سے بہت بے چین بلکہ غمگین تھا۔ ایسے میں کل رات جب میں ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا تو اچانک میں نے ہمارے دوست اور بھائی جناب راشدالغنوشی صاحب کو دیکھا جو کسی ہوائی جہاز میں بیٹھے کسی صاحبہ کو، جن کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، انٹرویو دیتے ہوئے نظر آئے۔ خوداعتمادی سے بھرپور ان کا چمکتا ہوا چہرہ تروتازہ محسوس ہو رہا تھا اور وہ بالکل مطمئن نظرآرہے تھے۔
۷فروری ۲۰۱۳ء کو انھوں نے تیونسی ٹریڈ یونین کے لیڈر شکری بلعید صاحب کو رحمۃ اللہ کہہ کر یاد کیا اور کہا کہ ان کا قتل ایک سازش کی کڑی ہے جس میں، ان سے پہلے، ایک مسلم لیڈر کو قتل کیا جاچکا ہے اور کچھ دوسرے بھی قتل ہوئے ہیں تاکہ تیونس کے لوگوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ تیونس کے حالات قابو میں ہیں اور امن و امان برقرار ہے۔ خیال رہے کہ جب الغنوشی صاحب کوئی چار سال پہلے صدرآباد تشریف لائے تھے تو مجھے ایک ہی دن میں دو مقامات پر ان کے خطابات کے ترجمے کا موقع ملا تھا۔ اس وجہ سے بھی کہ تیونس میں ایک شہر الکاف ہے، میں ان کے زیادہ قریب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے انھیں اور ان کی پارٹی النہضۃ کو تیونس میں کامیابی عطا فرمائے، آمین!
اس منظر کو دیکھنے سے کچھ ہی دیر پہلے میں تیونس کی النہضۃ پارٹی کے زبردست مظاہرے کو دیکھ چکا تھا جو شکری بلعید کے جنازے میں جمِ غفیر کی شرکت کے جواب میں یہ ثابت کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ تیونس میں طاقت ور ترین پارٹی النہضۃ ہی ہے۔ اس مظاہرے میں جو بینرز اور پلے کارڈ اُٹھائے گئے تھے اور نعرے لگائے جارہے تھے وہ یہ تھے کہ اسلام پسندوں کی پارٹی النہضۃ ہر حال میں حکومت کرتی رہے گی کیونکہ وہ ایک منتخب پارٹی ہے خواہ کوئی پسند کرے یا ناپسند کرے۔اس کے علاوہ اس میں فرانس کے وزیرداخلہ سے تیونس کے معاملات میں عدمِ مداخلت کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے النہضۃ کی حکومت کو غیر جمہوری حکومت کہا تھا!!
فرانس، اس کی حکومت اور خصوصاً اس کا وزیرخارجہ پہلے لمحے سے النہضۃ کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں۔ اب وزیرداخلہ صاحب بول پڑے ہیں۔ ان کو دبنگ جواب کی ضرورت تھی۔ کل کے لاکھوں کے مظاہرے میں شریک لوگوں نے صاف صاف دبنے سے انکار کردیا۔ یہی مطلوب بھی تھا۔
آج کل فرانس میں سوشلسٹ حکومت ہے جو ٹریڈ یونینوں کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ سوشلسٹ کا مطلب دہریے ہونا ہے۔ شاید بلعید صاحب کمیونسٹ یا سوشلسٹ یا دہریے رجحانات کے حامل تھے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کا جنازہ مسجد میں نمازِ جنازہ کے بعد نکلا نہیں بلکہ دارالثقافۃ سے نکلا۔ جنازے میں شریک ہونے والے حضرات نے خود قبرستان میں توڑپھوڑ کی جو مسلمان ہرگز نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دہریوں، کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا جلوسِ جنازہ تھا جس نے دفن کے بعد پورے شہر میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کا طوفان کھڑا کیا۔
یہی کچھ صورتِ حال مصر میں ہے اور شاید کچھ زیادہ ہے کیونکہ یہاں ٹرینوں کو روکا جا رہا ہے، میٹرو (سب وے،Subway) کو کئی بار جلایا گیا، راستے روکے جارہے ہیں، مجرموں کو جیلوں سے رہا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ قصرِصدارت میں گھسنے اور اسے آگ لگانے اور صدرمرسی کے گھر میں، جو مشرقی صوبے میں واقع ہے، داخل ہونے کی بار بار کوششیں کی گئی ہیں۔(صنعا، ۱۰ فروری ۲۰۱۳ء)
مسیحی، یعنی مغربی تہذیب کے علَم بردار انسانی اقدار کے بڑے علَم بردار بنتے ہیں۔ امریکا بہادر دنیا بھر کے ملکوں میں حقوقِ انسانی کی صورت حال پر رپورٹیں جاری کرتا ہے مگر خود اپنی رپورٹ جاری نہیں کرتا۔ افغانستان، عراق، ابوغریب، گوانتانامو اور اب دنیا کے ۷۰/۸۰ ممالک میں ان کے تعذیب خانے ہیں۔ ہم اپنے برطانوی آقائوں کو بہت مہذب سمجھتے ہیں۔ ان کے جیسے کپڑے پہن کر مہذب نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سینوں پر ایسے ایسے جملے لگائے پھرتے ہیں کہ معنوں کی طرف ذہن جائے تو پیشانیاں عرق آلود ہوجائیں۔ ہم نے تاریخ بھلا دی ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی جسے غدر بھی کہا جاتا ہے، کے بعد ان حکمرانوں نے ہم مسلمانوں کو کچلنے کے لیے کس کس طرح کے مظالم کیے۔ قطاروں میں پھانسیاں دی گئیں اور مخبری کرنے والوں کو اور کتے نہلانے والوں کو دادو دہش سے ایسا نوازا کہ آزادی کے بعد ہمارے سینوں پر سوار ہیں۔ محمود احمد غازی صاحب نے ’مسیحیت کے عالمی عزائم‘ (مارچ ۲۰۱۳ء)کی کیا خوب تصویر کھینچی ہے!
میری نانی ڈھاکہ میں رہتی ہیں۔ کل انھوں نے فون پر بتایا کہ کل یہاں پاکستان کے مشہور کالم نگار حامدمیر، عاصمہ جہانگیر (جن کا نام نگران وزیراعظم کے لیے بھی لیا گیا )اور کچھ اور افراد ملا کر گیارہ دانش وروں نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو خوب سنا، ماشاء اللہ۔ واپس آکر یہاں انھوں نے یہ کہا کہ حسینہ واجد نے بتایا کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگانا چاہتی ہیں تو حامدمیر اور عاصمہ جہانگیر دونوں نے اس کی مخالفت کی۔ ہم سادہ لوگ یہ سمجھیں کہ انھوں نے شاید جماعت کے حق میں بات کی ہے، حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ انھوں نے حسینہ واجد کو خیرخواہانہ مشورہ دیا کہ پابندی سے جماعت اسلامی کرش نہیں کی جاسکے گی۔ دوسری تدبیریں کرو! ہماری آستینوں میں کیسے کیسے سانپ اور سپنیاں پل رہی ہیں!