مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

حماس کی کامیابی

عبد الغفار عزیز | مارچ۲۰۰۶ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۴۲ سالہ اسماعیل عبدالسلام احمد ھنیہ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’میں شیخ المجاہدین احمد یاسین کے ہمراہ ابوراس کے علاقے میں ڈاکٹر مروان بھائی کے ہاں دعوت پہ گیا۔ ہم دوپہر کے کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ اچانک اسرائیلی فضائیہ کے ایف-۱۶ جہاز فضا میں نمودار ہوئے اور ہم پر بم باری شروع کر دی۔ اس حملے کے بعد ہر طرف گردوغبار کی دبیز چادر تن گئی‘ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ غبار چھٹا تو معلوم ہوا کہ جس گھر میں ہم تھے اس کے اوپر کی منزلیں تباہ ہوگئی ہیں‘ اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب اور اہلِ خانہ محفوظ رہے‘‘۔

کسے معلوم تھا کہ اس واقعے کے اڑھائی سال بعد یہی اسماعیل ھنیہ فلسطینی اتھارٹی کے منتخب وزیراعظم ہوں گے۔ تحریکِ حماس کو حاصل فلسطینی عوام کی بھاری حمایت پوری دنیا کو نظر آجائے گی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل خالد المشعل (جو خود بھی سنگین قاتلانہ حملے کا شکار ہوچکے ہیں) کی قیادت میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کا مرہونِ منت ہوجائے گا۔

دنیا انگشت بدنداں ہے کہ جو یہودی لابی سوپرپاور امریکا سمیت پورے عالم پر اثرانداز ہونے کا زعم رکھتی ہے‘ جس کے پاس جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے انبار ہیں‘ جس کی قیادت وحشیانہ حد تک مظالم ڈھانا اپنا حق دفاع سمجھتی ہے‘ جس پر ہمیشہ امریکی سرپرستی کی چھتری تنی رہتی ہے اور ڈالروں کا دبیز غالیچہ بچھا رہتا ہے‘ دنیابھر کے ذرائع ابلاغ اس کی مٹھی میں ہیں اور بہترین پالیسی ساز ہمیشہ جس کا دم بھرتے ہیں‘ وہ کیوںکر اپنی ناک کے نیچے وقوع پذیر ’حادثۂ عظیم‘ کو نہ روک سکی۔حماس کی جیت کے بعد اسرائیلی بائیں بازو کی ’میرٹس‘ پارٹی کا بانی یوسی سریڈ چلّا اُٹھا: ’’ان لوگوں نے یاسرعرفات سے جنگ کی‘ اسے تنہا کردیا اور اب ہمیں اس کے بجاے حماس کے ’دہشت گردوں‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘‘۔ اسی پارٹی کی پارلیمانی لیڈر زہافا غلئون نے بیان دیا: ’’ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حماس کی جیت ہم سب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کا بحران حل کرنے میں شریک تمام فریقوں نے فلسطینیوں سے بدسلوکیاں کیں ‘ان پر اجتماعی پابندیاں عائد کیں‘ان کی حکومت سے ناممکن العمل مطالبات کیے‘ یہاں تک کہ فلسطینی عوام مایوس ہوگئے‘اور انھوں نے حماس کو اپنا نمایندہ مان لیا۔ مجھے کوئی امید نہیں کہ مستقبل قریب میں حماس اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلیاں کرے گی‘‘۔ یوسی نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کے بعد قبضہ کیے جانے والے تمام فلسطینی علاقے خالی کرکے ان کا انتظام چار رکنی کمیٹی (یعنی امریکا‘ روس‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ) کے سپرد کردینا چاہیے۔

حماس کی جیت کا تجزیہ اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ شاید دنیا کے ہر لکھاری‘ تجزیہ نگار‘ سیاست دان اور پالیسی ساز نے لیا ہے لیکن ایک بات جس پر تمام غیرمتعصب جائزہ لینے والوں کا اجماع ہوگا‘ وہ یہ ہے کہ حماس کی جیت میں سب سے زیادہ حصہ تحریکِ حماس کی بے تحاشا قربانیوں‘ صبر اور جہدِمسلسل کا ہے۔ حماس نے ۱۹۸۷ء میں اپنی باقاعدہ تشکیل کے بعد ہی نہیں سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کے وجود سے بھی پہلے انگریزی تسلط کے عہد سے ہی اپنا جہاد شروع کر دیا تھا۔ اب تحریکِ حماس کے بازوے شمشیرزن کا نام ہی عزالدین القسّام سے منسوب ہے جنھوں نے ۱۹۲۵ء میں پانچ پانچ افراد پر مشتمل جہادی گروپ تشکیل دے کر انھیں انگریزوں سے آزادی کی خاطر فیصلہ کن معرکے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا‘ لیکن ایک قبل از وقت معرکے میں گھِر گئے اور ۲۰نومبر ۱۹۳۵ء کو جامِ شہادت نوش کرگئے۔ چلتے چلتے یہ سلسلہ شیخ احمد یاسین اور چند روز کی ایمان تک پہنچا کہ جس کا سینہ اس کی والدہ کی آغوش میں دشمن کی ایک گولی نے چھیددیا تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود حماس کی قیادت ہی نہیں اس کی خواتین‘ اس کے بوڑھوں اور بچوں نے بھی  جہاد اور شہادت و قربانی کے راستے سے ہٹنا قبول نہ کیا۔ ۱۳۲ ارکان پر مشتمل حالیہ پارلیمنٹ میں ان شہادتوں کے امین ۷۶ ہیرے منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں نہ صرف گرم سرد چشیدہ بوڑھے اور   مَسیں بھیگتے نوجوان ہیں بلکہ اپنے بڑھاپے کے سہارے بیٹوں اور رونق حیات شوہروں کو شہادت کی راہ پر رخصت کرنے والی خواتین بھی ہیں۔ ان میں سے شاید ہر فرد ہی گوہرنایاب ہوگا لیکن بعض ہستیاں افتخارِ انسانیت ہیں جیسے اُم نضال جن کا ذکر آگے آئے گا۔

حماس نے اپنے صبروثبات کا مظاہرہ صرف الیکشن کی منزل تک پہنچنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس سیاسی معرکے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے جہاد کو بھی تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے کامل حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔ حماس کے ترجمان اور نومنتخب رکن پارلیمنٹ مشیرالمصری کے الفاظ میں: ’’حماس کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالے گی‘ کسی صورت جہاد اور مزاحمت کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دے گی اور کسی صورت اپنے عسکری بازو سے دست بردار نہیں ہوگی‘‘۔ خالدالمشعل نے بھی قاہرہ پہنچنے پر یہی الفاظ دہرائے کہ ’’فلسطینی عوام کے غصب شدہ حقوق کے حصول‘ القدس کی آزادی‘ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور تمام قیدیوں کی رہائی تک ہم کسی صورت اپنی مزاحمت اور جہاد سے دست بردار نہیں ہوں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کی جیت اور تشکیلِ حکومت سے اسرائیلی اور امریکی قیادت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وہ مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ ’’حماس کی حکومت بنی تو ہم مالی امداد بند کردیں گے‘‘۔ سعودی عرب اور ایران کو  خبردار کر رہے ہیں کہ اگر تم نے امداد دی تو تمھیں بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ شارون کے بسترمرگ پر نشانِ عبرت بن جانے کے بعد عارضی طور پر وزارتِ عظمیٰ سنبھالے ہوئے ایہود اولمرٹ اور اس کا وزیردفاع شاؤول موفاز چنگھاڑتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر حماس نے خودکش حملے جاری رکھے‘ اسرائیلی آبادی پر القسّام راکٹ برسائے گئے اور حماس نے اپنے مجاہدین کو لگام نہ دی تو اسے  جان لینا چاہیے کہ اس کے ذمہ داران کا وزرا یا ارکانِ پارلیمنٹ بن جانا ان کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ وہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہم اسے اپنی ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنانے میں ایک لمحے کا تردد نہیں کریں گے‘‘۔(الشرق الاوسط‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۶ئ)

حماس کے سربراہ خالد المشعل نے ۸ فروری کو دورئہ قاہرہ کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ: ’’انتخابات میں حماس کی شرکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب جہاد و مزاحمت کے مرحلے سے نکل کر اقتدار و سیاست کے خانے میں آگئی ہے۔ ہم نے جمہوری عمل میں صرف اس لیے حصہ لیا ہے تاکہ ہم اندر سے بھی اپنے گھر کی اصلاح کرسکیں‘کرپشن کا خاتمہ کرسکیں اور داخلی امن و امان کی صورت بہتر کرسکیں‘ لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری تحریک اسرائیلی قبضے کے خلاف قائم ہوئی ہے اور جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ ہم مزاحمت کا حق باقی رکھتے ہیں‘‘۔ انھوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’تمھارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے نکل جائو یا پھر ایک طویل معرکے کے لیے تیار ہوجائو جس میں کامیابی اللہ کے حکم سے ہماری ہی ہوگی‘‘۔

انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد حماس کو زیادہ کڑی آزمایش کا سامنا ہے۔ اسرائیلی افواج و تسلط کا مقابلہ تو وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں‘ لیکن اب انھیں فلسطینی عوام کی نمایندہ حکومت (جس کا کوئی آزاد ملک نہیں) کے طور پر پوری عالمی برادری سے بھی معاملہ کرنا ہے‘ فلسطینی اتھارٹی کے اُس صدر سے نباہ کرنا ہے جو امریکا و اسرائیل کے پسندیدہ ہیں‘فلسطینی لُغت سے جہاد اور مسلح جدوجہد کا لفظ نکالنا چاہتے ہیں اور جنھوں نے موجودہ پارلیمنٹ کے افتتاحی خطاب میں بھی باصرار کہا ہے کہ ’’ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات‘ بہتر تعلقات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات طے کریں گے‘ نئی حکومت کو بھی اسرائیل کے ساتھ ہمارے معاہدات کی روشنی میں ہی آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔

حماس کے سامنے اصل اور گمبھیر چیلنج فلسطینی حکومت کے اندر پائی جانے والی کرپشن کا سدباب‘ حق زندگی سے محروم فلسطینی عوام کی ممکنہ حد تک خدمت اور ایک فعال‘ شفاف‘ مؤثر اور امانت دار نظامِ حکومت تشکیل دینا ہے۔امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے آنے والی رپورٹوں اور بیانات سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ‘ وہ حماس کے اس پورے تجربے کوناکام کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کی خاطرفلسطینی حکومت کو ملنے والی مالی امداد بند کریں گے‘ فلسطینیوں پر مزید پابندیاں عائد کریں گے‘ الفتح اور دیگر تنظیموں کے ساتھ حماس کے اختلافات کو ہوا دیں گے اور مسلم حکومتوں کی طرف سے حماس کو مدد کی بجاے دبائو ڈلوائیں گے اور پھر حماس کے خلاف بالخصوص اور اسلامی تحریکوں کے خلاف بالعموم یہ پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ یہ لوگ ریاست چلانے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر اسی آڑ میں دوبارہ انتخابات کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے جس میں حماس مخالف تمام عناصر مجتمع ہوں اور اس طرح پرانی ڈگر پر نئی فلسطینی حکومت قائم کر دی جائے۔ لیکن حماس کی قیادت مکمل اطمینان سے سرشار ہے۔ مالی پابندیوں کی بات آتی ہے تو حماس کا ترجمان کہتا ہے: ’’رزق امریکا یا یورپ کے ہاتھ میں نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنے بندوں کے درمیان کامل حکمت سے تصرف کرتا ہے۔ ہمارے عوام نے ۲۵جنوری کے انتخابات میں اسلام کے حق میں راے دی ہے اوراسلام کی نعمت  عطا کرنے والا رب انھیں رسوا نہیں کرے گا‘ بلکہ وہاں وہاں سے رزق دے گا جہاں ان کا گمان بھی نہیں پہنچا ہوگا‘‘۔

اس سوال کا فنی اعتبار سے اور حقائق پر مبنی جواب دیتے ہوئے ورلڈ بنک کے ایک سابق فلسطینی مشیر رامی عبدہٗ نے لکھا ہے کہ: ’’امریکا جس مالی مدد کو بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے وہ عملاً گذشتہ سال ستمبر سے موقوف ہے۔ اُس وقت فلسطینی انتظامیہ نے اپنی سیکورٹی فورسز کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا تھا جس سے اس مد میں خرچ ہونے والی ۵۷ ملین ڈالر کی رقم ۸۰ ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ اس پر امریکا اور یورپ کی طرف سے ملنے والی امداد بند کر دی گئی۔ رامی عبدہٗ نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد کا ۶۵ فی صد حصہ تو صرف عرب لیگ کی دو مدات ’القدس فنڈ‘ اور ’الاقصیٰ فنڈ‘ سے حاصل ہوتا ہے‘ جب کہ امریکا کی طرف سے ملنے والی مدد صرف ۱۰ فی صد بنتی ہے اور یہ امداد بھی مختلف این جی اوز کی وساطت سے دی جاتی تھی اور اصرار کیا جاتا تھا کہ اسے صرف ’ترویج جمہوریت پروگرام‘ اور ’مساوات مردوزن‘ جیسے غیرترقیاتی اخراجات میں صرف کیا جائے۔

رامی عبدہٗ نے انکشاف کیا کہ امریکا کی طرف سے‘ فلسطینی اتھارٹی کو اس کی تاسیس سے لے کر اب تک جتنی امداد دی گئی ہے‘ وہ صرف ایک سال میں اس کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک جو مدد ایک ہاتھ سے دیتے ہیں‘ وہ دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں‘ کیونکہ وہ ان کے بدلے مشیروں اور ماہرین کے نام پر اپنے لوگوں کی فوج ہم پر مسلط کردیتے ہیں‘ ان کی بھاری بھرکم تنخواہیں یہ مدد ہڑپ کرجاتی ہیں۔ رامی عبدہٗ کا کہنا ہے‘ کہ مفادات کے وسیع جال کے باعث یورپی ممالک کے لیے امداد کا یہ سلسلہ بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن پھر بھی فلسطینی اتھارٹی کو ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

رامی نے فلسطین کے بارے میں ورلڈ بنک کے علاقائی ڈائرکٹر نایجل رور بورٹ کی رپورٹ میں سے بھی ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’فلسطینیوں کو دی جانے والی کوئی مالی امداد‘ تب تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتی‘ جب تک یہاں پائی جانے والی بدعنوانی کا خاتمہ اور قانونی اصلاحات نہیں کی جاتیں‘‘۔

انتخابی نتائج آجانے کے بعد فلسطینی اٹارنی جنرل نے خود اس کرپشن کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے ۵۰ سودوں میں ۷۰۰ ملین ڈالر کی کرپشن کے ثبوت پیش کیے جن میں سے صرف ایک سودے میں ۳۰۰ ملین ڈالر کی بدعنوانی کی گئی تھی۔ تجزیہ نگار اس اچانک اعتراف پر بھی حیران تھے کہ آخر نتائج آنے کے چند روز میں یہ ساری تحقیقات کیوں کر مکمل ہوگئیں؟ لیکن پھر عقدہ کھلا کہ وہ چاہتے تھے کہ حماس کے آنے اور اس وقت بدعنوانی کے اسکینڈل سامنے آنے سے بہتر ہے کہ   خود ہی اس کا اعلان کر دیا جائے۔

اپنے مستقبل کے بارے میں حماس کی قیادت کے اطمینان کا ایک بڑا سبب یہی مالی بدعنوانیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اگر صرف حکومتی سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی ہی کو روکنے میں کامیاب ہوگئے‘ تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے اوران شاء اللہ فلسطینی عوام کو مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔

حماس کی حکومت کو درپیش ایک مسئلہ اختیارات کے تعین اور الفتح کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ اس بارے میں حماس کا مختصر مطالبہ یہ ہے کہ صدر محمود عباس (ابومازن) ہمیں صرف وہ اختیارات دے دیں جو وہ خود وزیراعظم کی حیثیت سے صدر یاسرعرفات سے طلب کیا کرتے تھے۔ رہی الفتح تنظیم تو ہم پوری فلسطینی قوم کو ایک ہی کشتی کا سوار سمجھتے ہیں اور پوری قوم کی تمام تر مزاحمت فلسطین پر قابض صہیونی افواج ہی کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ہم الفتح کو بھی حکومت میں شامل کرکے قومی حکومت تشکیل دینے کو ترجیح دیں گے۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے مبارک باد دینے کے لیے آنے والے وفود کو مخاطب ہوتے ہوئے انھیں شیخ احمد یاسین کی یہی بات یاد دلائی کہ ’’اپنے فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ہماری پالیسی ہمیشہ وہی رہے گی جو قرآن کریم نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے فرزندِصالح کی پالیسی بیان کی کہ لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَا بِبَاسِطٍ یَدِیَ لَاقْتُلَکَ(المائدہ۵:۲۸) ’’اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تب بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے ہرگز اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔ اسماعیل ھنیہ نے اقتصادی پابندیوں اور اپنے اصولوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کی قسم! ہم فلسطینی زیتون کے تیل اور چٹنی پر گزارا کرلیں گے‘ لیکن آزادیِ فلسطین کے بارے میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ مالک الملک رب ذوالجلال ہے‘ کوئی دنیاوی قوت نہیں‘‘۔

ایمان کی یہی حرارت و حلاوت ہمیں دیگر ارکانِ پارلیمنٹ اور قائدین و کارکنانِ حماس کی زندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس فلسطینی باوقار و ضعیف خاتون اُم نضال کا حوالہ ابھی گزرا ہے وہ تین شہدا کی ماں ہے۔ فلسطین میں انھیں فلسطینی خنساء کا نام دیا جاتا ہے۔ ان سے ملنے والے اکثر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان سے ملتے ہوئے زبان گنگ اور الفاظ و حروف غائب ہوجاتے ہیں۔ بس ایک نورانی ہالہ ہوتا ہے اور مخاطب اس میں کھو جاتا ہے۔ وہ بھی بھاری اکثریت سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔ انھوں نے ایک ایک کرکے اپنے تین بیٹوں کے سر شہادت کا سہرا باندھنے کے علاوہ سال ہا سال تک اپنے سب بچوںکی اسیری کا عذاب بھی برداشت کیا ہے۔ ان اسیرانِ اقصیٰ میں سے وہ خاص طور پر اپنے بیٹے وسام کا ذکر کرتی ہیں جس کی اسیری کے دوران ہی اس کے والدفوت ہوگئے‘ اس کے بھائی شہید ہوگئے اور وہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔

اپنے بیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اُم نضال کہتی ہیں: ’’اللہ کے فضل سے میرے سب بیٹے جہاد میں شریک ہیں۔ میرا بیٹا نضال اور اس کے ساتھی ہمارے گھر ہی میں ’القسّام

  • ‘ میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نضال وہ پہلا فلسطینی مجاہد تھا جس نے غلیل اور پتھر سے شروع ہونے والی تحریکِ انتفاضہ میں پہلا خودساختہ میزائل فائر کیا اور الحمدللہ اس کے بعد البتّار اور الیاسین میزائل بھی تیار ہوئے۔ اس دوران کئی نوجوان شہید بھی ہوئے‘ لیکن پھر بالآخر مقامی طور پر آسانی سے دستیاب‘ سستے لوازمے ہی سے میزائل تیار ہونے لگے‘ جنھوں نے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ ہم اپنی انھی جہادی خدمات کو لے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے‘ شہید بیٹوں سے وہاں جی بھر کے ملاقاتیں ہوں گی۔ ایسے میں ان کی جدائی پر حُزن کیسا؟ رونا پکارنا کیسا؟ اس راہ میں تردد کیسا؟ ہم دنیا کی تنگیوں اور آزمایشوں ہی میں کیوں الجھ کر رہ جائیں۔ ہم کیوں سمجھیں کہ یہ زندگی صرف مال و اولاد اور تفریح و آرام سے عبارت ہے؟

جب میرے بیٹے محمد کو اطلاع دی گئی کہ کارروائی کے لیے اس کا نام چُنا گیا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔ میں نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ تمھاری کارروائی کامیاب ہوگی حالانکہ یہ اسرائیلی عسکری اکیڈمی کے اندر ہونا تھی اور بے حد مشکل تھی۔ میرا بیٹا گھر سے نکلا تو میں نے خود کو دعائوں اور نوافل کے لیے وقف کرلیا تاکہ وہ کامیاب ہوجائے۔

اللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کی آرزو اور ہماری دعائیں پوری ہوئیں۔ محمد فرحات نے آدھ گھنٹے تک دشمن پر گولیاں برسائیں اور ۱۰ فوجی قتل کیے( جن میں اکیڈمی کا سربراہ بھی شامل تھا) اور ۳۰زخمی کیے۔ یہودی فوجیوں کا گمان تھا کہ یہ کارروائی فردِواحد نے نہیں پورے گروپ نے کی ہے۔ مجھے خبرملی تو ایک بار دل غم میں ڈوب گیا‘ لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالا اور اللہ نے ہماری شہادت قبول کرلی۔ اس سب کچھ کے باوجود اُم نضال کا اصرار ہے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ ایک بڑے فریضے اور اعلیٰ مقصد کی خاطر‘ چھوٹی سی قربانی ہے‘ اور وہ دیگر فلسطینی خواتین ہی کی طرح ایک خاتون ہیں جو آزادیِ اقصیٰ کے لیے ہر قربانی کو ہیچ سمجھتی ہیں۔

اُم نضال جیسے ارکان پرمشتمل فلسطینی پارلیمنٹ یقینا اسرائیل و امریکا کے لیے ایک بڑا کڑوا گھونٹ ہے جو اسے بہرصورت برداشت کرنا ہوگا۔ اور پارلیمنٹ میں ان قدسی نفوس کا وجود‘     ان تمام خدشات کا خاتمہ کرتا ہے کہ شاید حماس بھی حکومت کی خاطر سودے بازی کرلے ‘ جہاد کو   پس پشت ڈال دے یا اپنے اصل ہدف‘ آزادیِ اقصیٰ کو دل و نگاہ سے اوجھل کردے یا یہ کہ کہیں میدانِ جہاد کی خوگر حماس حکومت چلانے میں ناکام نہ ہوجائے۔ مالی و سیاسی مشکلات اس کی راہ کھوٹی نہ کردیں۔ اُمت کے لیے یہ وقت مخلصانہ دعائیں کرنے کا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حماس کے مقدمے کو ہرجگہ پیش کرتے رہنا چاہیے‘ نیز آزادیِ اقصیٰ کے جہاد میں مالی تعاون بھی پیش کرنا ہے خواہ یہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو۔