’کوئلوں پر مُہر‘(فروری ۲۰۰۶ئ) ذہنوں کو صاف کرنے کے لیے بہترین تحریر ہے۔ ’امریکی جمہوریت کا اصل روپ‘ (فروری ۲۰۰۶ئ)میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے اپنے خصوصی اسلوب میں دلائل اور خود امریکی دانش وروں کے خیالات سے ثابت کیا کہ موجودہ امریکی حکومت کس آمریت بلکہ بدترین آمریت کے راستے پر چل رہی ہے‘ جب کہ دنیا میں جمہوریت کا پرچار کیا جارہا ہے۔
ترجمان القرآن میں مضامین تو ایک سے بڑھ کر ایک شائع ہوتے ہیں لیکن ان کے قارئین کا حلقہ اس قدر وسیع نہیں ہے جتنا کہ یہ مضامین تقاضا کرتے ہیں۔ ویسے بھی ایسے مضامین راے عامہ کی اصلاح اور سیاسی اور دینی رہنمائی میں بہت موثر ہوسکتے ہیں۔ ’مغرب کا اندیشۂ جہاد اور جہاد‘ اور’ سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم نمایندگی‘ (فروری ۲۰۰۶ئ) وسیع تر اشاعت کے متقاضی مضامین ہیں۔
فروری کے شمارے کے تمام مضامین وقت کی ضرورت‘ تشنگان اُمت کی پیاس بجھانے اور ایمان تازہ کرنے والے ہیں۔ محترم محمد وقاص کا مضمون ’تزکیہ:ایک ہمہ پہلو اور ہمہ گیر عمل‘محترم قاضی حسین احمد کے ’۲۰۰۶ئ: دعوت کا سال‘ میں پیش کیے گئے چار نکات میں سے پہلے نکتے: تطہیر افکار کی تشریح و توضیح اور تفصیل ہے۔ ایک سہو یہ ہوا ہے کہ تزکیہ کا مادہ زک ۃ لکھا ہے(ص ۴۱)۔ یہ قطعاً غلط ہے‘ بلکہ اس کا مادہ زک و ہے۔ اس مادے سے قرآن مجید میں ۵۸کلمات آئے ہیں‘ اسما ۳۸ اور افعال ۲۰ ہیں۔
ترجمان القرآن کے تمام مضامین بالخصوص ’اشارات ‘نہایت ہی معلوماتی اور اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ ہرمہینے کی یکم تاریخ سے رسالے کا انتظار رہتا ہے۔ خالدہ مسلم کا دردبھرا خط (فروری ۲۰۰۶ئ) دنیابھر کے مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ کاش! مسلمان ملکوں کے حکمران اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ مغرب کی اتباع میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
’کشمیر- خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) حالات و واقعات کے تناظر میں نہ صرف وقت کی پکار اور جیتی جاگتی تصویر ہے‘ بلکہ خوابِ خرگوش میں مبتلا حکمرانوں کو جگانے اور عوام کی فکری رہنمائی اور متحرک کرنے کا موثر ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ اربابِ اختیار خودپسندی‘ روشن خیالی اور اندھادھند امریکی تابع داری کا جوا اُتار پھینکیں اور بھارت کی وقت گزاری اور منافقانہ پالیسی کو سمجھ جائیں۔
’امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر اندازہ ہوا کہ عیسائی کس طرح عیسائیت پھیلا رہے ہیں‘ اور اس کے مقابلے میں ہم اسلام کی اشاعت کے لیے کس سرگرمی اور جذبے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں تو عیسائیوں سے بڑھ کر سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ ہمارے کتنے ادارے یا تنظیمیں ہیں جو عیسائیوں میں اسلام پھیلا رہی ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام پھیلانے میں مصروف ہیں!
’آیت الکرسی کا مطالعہ‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) اثرانگیز اور نُدرت لیے ہوئے ہے۔ دیگر قرآنی آیات جن کا آغاز اللہ سے ہے کی روشنی میں آیت الکرسی گُلِ سرسبد کی طرح ہے۔ یہ کاوش القُرآن یُفَسّرُ بَعْضُہٗ بَعُضَہ کی عمدہ مثال ہے۔
’دوران نماز متن یا ترجمۂ قرآن دیکھ کر پڑھنا‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) کے مسئلے کا ایک درمیانی حل یہ بھی ہے کہ چار رکعات تراویح میں قرآن حکیم کا جتنا حصہ پڑھا جاتا ہو‘ پہلے قرآن سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ اور مختصراً تشریح و توضیح کرلی جائے اور بعد میں اس حصے کو تراویح میں سن لیا جائے۔ اس طرح سامعین کی ترجمے اور مضامین و مفاہیم سے ذہنی مناسبت بھی قائم رہتی ہے اور قیام اللیل کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔
احسن مستقیمی ‘ لکھنؤ (بھارت)
’قیادت کا معیار مطلوب‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں جس سلیقے سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے اقتباسات کا انتخاب اور جتنے عمدہ طور پر انھیں ترتیب دیا گیا ہے وہ قابلِ رشک و تحسین ہے۔ واقعتا تحریک اسلامی کے پیش نظر قیادت کا مطلوبہ معیار غیرمعمولی ہے۔ یہ تحریر قائدین و کارکنان کے لیے رہنمائی و آئینہ ہے اور غوروخوض کا سامان بھی۔
محمود احمدی نژاد کے خیالات مجاہد کی اذاں ہیں۔ متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے الخدمت فائونڈیشن کی خدمات کا جائزہ اپنی جگہ‘ لیکن ان دنوں متاثرین جن مشکلات سے دوچار ہیں‘ اس کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔ انھیں وہ توجہ نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے۔
’اشارات‘ برمحل اور موقع کی مناسبت سے اچھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ’تزکیہ و تربیت‘ کے عنوان سے امام غزالیؒ، شاہ ولی ؒاللہ، اشرف علی تھانویؒ، مجدد الف ثانی ؒ، شاہ عبدالقادر جیلانیؒ اور ان جیسے دیگراَئمۂ تصوف کی کتب میں سے اقتباسات دیے جائیں تو تزکیہ و تربیت کا حق ایک حد تک ترجمان ادا کرسکے گا۔
ارض پاکستان کو اسلام کی عظمت سے محروم کرنے کے لیے ‘ اہل مغرب طرح طرح کے کھیل کھیل رہے ہیں‘ جب کہ اسلام کا اپنا مخصوص کلچر اور ثقافت ہے۔ شرم و حیا اور پردہ اہم ترین بنیادی قدر ہے مگر افسوس صد افسوس! مغرب کی اندھی تقلید میں بے غیرتی و بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے۔ مخلوط میراتھن ریس‘ نوجوان نسل سے شرم وحیا ختم کرنے کی ایک گھنائونی سازش ہے۔ یہ ترقی نہیںتباہی کا راستہ ہے۔ دلی دکھ ہوتا ہے جب حکومت فحاشی و بے حیائی اور اسلامی شعائر کے خلاف اس پروگرام میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ قومی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے قومی وسائل بے دردی سے ضائع کیے جاتے ہیں‘ اور اگر اس بے حیائی کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے‘ مزاحمت کرتا ہے تو اس جرم میں بے گناہ شہریوں کو ریاستی تشدد‘ لاٹھی چارج‘ جھوٹے مقدمات اور جیلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر ہم قوم کو کہاں لے جارہے ہیں؟ حالیہ زلزلے سے پل بھر میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے اور ہنستے بستے شہر زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اس عذاب الٰہی سے کیا عبرت حاصل کی؟
شادی کے موقع پر ولیمہ کی دعوت محض ایک رسم و رواج نہیں ہے‘ بلکہ اس کی ایک شرعی حیثیت ہے۔ افسوس ہے کہ سپریم کورٹ نے ولیمہ کے موقع پر کھانے کی ممانعت کا حکم جاری کرتے ہوئے اس کا لحاظ نہ رکھا۔ عموماً لوگ مہر کی ادایگی میں کوتاہی کرتے ہیں‘ جب کہ رسولؐ اللہ کے اپنے عمل اور سنت سے ثابت ہے کہ مہرشادی کے وقت ہی لڑکی کے حوالے کردینا چاہیے۔ اس پر ہمارے یہاں عام طور سے عمل نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں لڑکیوں پر بڑا ظلم کیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد شوہر ان سے مہر معاف کرالیتا ہے یا حیل و حجت سے مہر ادا نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ شریعت کے اس حکم پر لوگوں سے عمل کرائے۔
آج اُمت مسلمہ کو جس ذلت و خواری کا سامنا ہے‘ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان ملکوں میں سودی نظام کا جاری رہنا اور اللہ اور رسولؐ سے کھلی بغاوت ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاسود بنک کاری نظام کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں۔ ویب سائٹ www.realislamicbanking.com پر ایسے بلاسود بنک کاری نظام کی تفصیل مہیا کی گئی ہے جو فوری طور پر بلاکسی اتھل پتھل کے موجودہ سودی بنک کاری نظام کی جگہ لے سکتا ہے۔
۲۷ جنوری سے ۴ فروری ۲۰۰۶ء تک پرگتی میدان‘ دہلی کے ۱۷ویں عالمی کتاب میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی وسعت کا اندازہ ایک عام پاکستانی بغیر دیکھے شاید نہیں کرسکتا۔ ۹‘ ۱۰ دن پورے بھی لگائے جائیں تو ہراسٹال پر پیش کی جانے والی کتب پر نظر ڈالنا بھی ممکن نہیں۔ ۲‘۴ پاکستانی ناشرین کے اسٹال جن میں ہمارا منشورات کا بھی تھا‘ ۱۴نمبر ہال میں تھے لیکن ہال نمبر۵ سے جہاں بھارت کے اُردو پبلشرز تھے اتنا فاصلہ تھا کہ آنا جانا آسان نہ تھا‘ گاڑیاں چلتی تھیں۔
ایک ادارہ نیشنل کونسل فار پرموشن آف اُردو لینگویج پورے ملک کے مختلف شہروں میں اُردو کتابوں کے میلے لگاتا رہتا ہے۔ سال بھر سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مغربی بنگال میں شوق کتب کچھ زیادہ ہی ہے۔ کلکتہ کے ۱۵ روزہ کتاب میلہ میں روزانہ ایک ایک لاکھ آدمی آتا ہے‘ اتوار کو ۴ لاکھ تک آتے ہیں۔ بنگلور کے عبدالرقیب صاحب نے بتایا کہ جنوب میں تامل زبان میں کتاب میلے کی اپنی روایت ہے۔ انھوں نے مجھے خرم مراد کے بعض تامل تراجم بھی دکھائے۔ اندازہ ہوا کہ کتاب کا گاہک موجود ہے‘ اس لیے یہ سارا کاروبار چلتا ہے۔ اس میلے سے ہم نے خود جلوس کے جلوس باہر نکلتے دیکھے۔ لڑکے‘ لڑکیاں‘ بزرگ‘ پورے پورے خاندان‘ سب واپسی پر تھیلوں سے لدے ہوئے تھے۔ رخصت ہونے سے پہلے ہی ہمیں ایک دوسرے بک فیئر کا دعوت نامہ انڈیا بک ٹریڈ پرموشن کی طرف سے ملا جس کے اسٹال کی بکنگ صرف ۴۶ ہزار روپے میں تھی! سائیکل رکشہ غربت اور استحصال کی علامت کے طور پر دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ جس نے بھی پاکستان سے اسے ختم کیا‘ ہم پر بڑا احسان کیا۔