مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

مقامِ قرآن و حدیث

مولانا عبد المالک | مارچ۲۰۰۶ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

مطلوبہ علمی استعداد نہ ہونے کے سبب‘ مطالعۂ قرآن کے دوران بعض قرآنی آیات کے متعلق شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک قاری نے اسی نوعیت کے چند سوالات اٹھائے ہیںجو درج ذیل ہیں:

۱- کیا قرآن میں بیان کیے گئے کسی حکم یا قانون کو جو مکمل اور محکم ہو‘ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہو اور مزید تفصیل طلب نہ ہو‘ حدیث کے ذریعے تبدیل (revise) یا منسوخ (abrogate) کیا جاسکتاہے‘ جب کہ قرآن نے خود اس کو تبدیل یا منسوخ نہ کیا ہو؟

۲- اگلے سوال کے لیے چند آیات کا ذکر ضروری ہے جو کہ یوں ہے: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے من گھڑت احکام و قوانین کو چیلنج کیا ہے جیسے کہ سورئہ آل عمران میں یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کھانا جس کو تم اپنی شریعت کے مطابق حرام سمجھتے ہو‘ اس کے ثبوت میں تم تورات کی کوئی عبارت پیش کرو(۳:۹۳)۔ اسی طرح سورۂ صٰفّٰت میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کے بجاے بیٹیاں پسند کرلی ہیں۔ تمھارے پاس اپنی ان باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے‘ تولائو اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو (۳۷:۱۵۳-۱۵۷)۔ ان آیات کے اسلوب سے ایک قانون یا اصول اخذ کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام احکامِ خداوندی کا ذکر اس کی کتاب میں ہونا لازم ہے اور اس اصول اور قانون کی بنیاد پر ہی اہلِ کتاب سے‘ اپنی خودساختہ شریعت کے ثبوت کے لیے کتاب کی عبارت لانے کے لیے کہا گیا ہے۔ چنانچہ اس اصول کی روشنی میں اگلا سوال یوں ہے کہ کیا شریعت کے ہر قانون اور حکم کا قرآن میں ذکر ہونا لازم ہے؟ اگر لازم ہے تو وہ احکام و قوانین جو آج اسلامی شریعت کا حصہ ہیں کیا انھیں قرآن میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ماوراے شریعت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟

۳- سورۂ فرقان میں فرمایا گیا ہے کہ اے رسولؐ !ہم نے تم کو بشارت دینے اور ڈراوا دینے کے سوا کسی اور کام کے لیے نہیں بھیجا (۲۵:۵۶ )۔ اگر اس آیت کا یہی ترجمہ ہے تو پھر اگر کسی حدیث میں بشارت اور انذار کا پہلو نہ نکلتا ہو تو کیااس حدیث کو اس آیت کی روشنی میں‘ رسولؐ کی طرف منسوب کرنا غلط ہوگا‘ یا بالفاظِ دیگر وہ حدیث موضوع قرار پائے گی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

۴- قرآن میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکفیر اور تکذیب کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی آیات کو محض مصحف میں پڑھ لینا مگر ان کو نہ ماننے اور عمل نہ کرنے کا نام ہی تکفیر و تکذیب ہے۔ اگر یہی بات ہے تو وہ آیات جن کو ہم نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں‘ کیا ہم ان کی تکفیر و تکذیب نہیں کر رہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کون سی تکفیر و تکذیب ہے جس پر سخت وعید کی گئی ہے؟

اس ضمن میں بنیادی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا ہے‘ اسی طرح سے حدیث مبارکہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی دوسری شکل ہے۔ قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن پاک شریعتِ الٰہیہ کا متن ہے اور حدیث مبارکہ اس متن کی تفصیل‘ تشریح اور تکمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہیں‘ وہ جو حکم جس وقت اور جس انداز سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا چاہیں دیتے ہیں‘ کوئی اس سے  بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔

قرآن پاک کے کسی بھی حکم کو حدیث کے ذریعے تبدیل یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک کے حکم کی تبدیلی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ خود قرآن پاک کے ذریعے اسے تبدیل کیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ قرآن پاک کے کسی حکم کو تبدیل یا منسوخ کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول کو قرآن پاک کی شکل میں وحی کریں‘ وہ حدیث کی شکل میں بھی اپنے نبیؐ کو وحی کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی حکمِ قرآنی کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اس پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے کسی حکم کو پہلے حدیث کے ذریعے جاری فرمائیں‘ اس کے بعد اسی حکم کو قرآن پاک میں نازل فرما دیں۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کی درج ذیل آیت:

کُتِبَ عَــلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَـدَکُمُ الْـمَوْتُ اِنْ تَــرَکَ خَــیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ ۲:۱۸۰)

تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو‘ تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔

اور سورۂ نساء کی آیت یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ (۴:۱۱)‘ میں ورثا کے لیے حصصِ وراثت مقرر کردیے گئے ہیں۔

اس آیت کی رو سے ماں باپ اور دوسرے ورثا کے لیے وراثت کے حصص اور صورتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ تب آیتِ وصیت پر کیسے عمل ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسرے ورثا جو وراثت کے حق دار ہیں‘ اُن کے لیے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے اور اس حکم کو حدیث مبارک اَلَا لَاوَصِیَّۃَ لِـوَارِثٍ (مشکوٰۃ‘ کتاب الوصایا،سنو! وارث کے لیے  کوئی وصیت نہیں ہے) سے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب وصیت کا حکم صرف ماں باپ اور ان  قرابت داروں کے لیے باقی ہے جو غیرمسلم ہونے کے سبب وراثت کے حق دار نہ ہوں‘ ان کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ اور فوت ہونے والا اپنے غیروارث قرابت داروں کے لیے ۳/۱ کی حد تک وصیت کرسکتا ہے۔ باقی ۳/۲ حصہ ورثا میں بقدر حصصِ وراثت تقسیم ہوگا۔ ورثا کے حق میں وصیت کا یہ قطعی اور واضح حکمِ قرآنی‘ حدیثِ مذکور سے منسوخ یا تبدیل ہوگیا۔

اسی طرح شروع میں زنا کی مرتکب شادی شدہ خاتون کے لیے گھر میں عمرقید کا حکم تھا‘ یہ حکم آج بھی قرآن پاک میں موجود ہے‘ لیکن منسوخ ہے۔ بعد میں شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا حدیث کے ذریعے نازل ہوئی اور غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑوں کی سزا قرآن پاک میں نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تمھاری وہ عورتیں جو بے حیائی کی مرتکب ہوجائیں‘ ان پر چار مردوں کی گواہی کا مطالبہ کرو‘ اگر چار مرد گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو یہاں تک کہ موت انھیں اٹھا لے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کردے۔ اور وہ مرد اور عورت جو (غیر شادی شدہ ہوں) اور اس جرم کا ارتکاب کریں ان کو جسمانی ایذا دو‘ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی حالت کی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘ کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۵-۱۶)

غیرشادی شدہ جوڑے کے لیے آیت بالا میں مذکور جسمانی ایذا کے حکم کی ۱۰۰کوڑوں کی شکل میں تعیین سورئہ نور میں کردی گئی اور شادی شدہ خاتون کے لیے عمرقید کی سزا‘ حدیث کے ذریعے منسوخ ہوگئی۔ اس کی جگہ رجم کی سزا نازل ہوگئی۔ نسخ کی طرف قرآن پاک کے الفاظ: اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًاo (النساء ۴:۱۵۔یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے) میں اشارہ ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے‘ آپؐ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے‘ اور فرما رہے تھے: مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سبیل پیدا فرما دی۔

غیرشادی شدہ مرد اور عورت زنا میں ملوث ہوں تو ۱۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی (ان کی سزا) ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ۱۰۰ کوڑے اور پتھروں سے سنگسار کرنا (ان کی سزا) ہے۔ (مسلم‘ ج ۲‘ باب حدالزنا‘ ص ۶۵)

بعد میں رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا ختم کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جوڑوں کو رجم کی سزا دی‘ انھیں کوڑے نہیں لگائے۔ اسی طرح غیرشادی شدی خاتون کو صرف کوڑوں کی سزا دی گئی اور غیرشادی شدہ مرد کے لیے کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کی سزا مقرر ہوگئی۔ قرآن پاک کے جن مذکورہ احکام کو حدیث کے ذریعے منسوخ کیا گیا وہ بالکل واضح ہیں اور ان کا مفہوم آسان ہے‘ لیکن حدیثِ رسولؐ کے ذریعے انھیں تبدیل یا منسوخ کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ان احکام پر اِس طرح عمل ہو رہا ہے جس طرح مذکورہ احادیث سے ثابت ہے۔

۲-  اللہ تعالیٰ کا حکم وہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہو‘ چاہے وہ قرآن پاک میں ہو یا حدیث میں ہو۔ اگر کوئی شخص کسی حکم کے شریعت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرے۔ یہ سمجھنا کہ جو حکم قرآن میں ہے وہ شریعت ہے اور جو قرآن میں نہیں ہے وہ شریعت نہیں‘ قطعاً غلط ہے۔ ان آیات سے یہ اصول ثابت نہیں ہوتا جو آپ نے سمجھا ہے بلکہ ان آیات سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص کسی حکم کو تورات کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ تورات سے اس حکم کو ثابت کرے‘ اور اگر کسی حکم کو اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ کسی آسمانی کتاب سے یا عقلی اور نقلی دلیل سے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نسبت کو ثابت کر دے۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو وہ حکمِ الٰہی شمار نہ ہوگا۔

اگر ایک موقع پر یہود سے تورات لانے کا مطالبہ ہے تو خود آپ کی پیش کردہ دوسری آیات میں مشرکین سے کسی بھی دوسری کتاب یاکسی بھی قسم کی دلیل کا مطالبہ ہے اور سورۂ احقاف میں کتاب سے یا اہلِ علم سے کوئی نقلی دلیل لانے کا مطالبہ ہے (الاحقاف ۴۶:۴)۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صرف ’کتاب‘ دلیل نہیں ہے‘ بلکہ کتاب کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں۔ سنت رسولؐاللہ تو ’کتاب اللہ‘ کی بھی مصداق ہے۔ قرآن پاک میں صراحتاً حکم موجود ہے: وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاج (الحشر۵۹:۷۔ جو کچھ تمھیں رسولؐ دے اسے لے لو اور جس چیزسے تم کو روک دے اس سے رک جائو۔)

اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں قرآن دیں تو لے لو اور حدیث دیں تو قبول نہ کرو‘ بلکہ حکم عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں اس کو لینا فرض ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(اے نبی! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (اٰل عمران۳: ۳۱)

یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو قرآن کے سلسلے میں میری اتباع کرو‘ بلکہ مطلقاً اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر صرف قرآن پاک شریعت ہوتا تو پھر اطیعوا القرآن یا اطیعوا اللّٰہ کافی ہوتا۔ اطیعوا الرسول کے حکم کی الگ سے کوئی حاجت نہ ہوتی۔

اگر یہ بات مان لی جائے کہ جو حکم قرآن پاک میں نہیں ہے‘ وہ شریعت نہیں ہے تو پھر پانچ نمازیں اور ان کا طریقہ‘ ان کی رکعتوں کی تعداد‘اوقات کی تحدید میں سے کوئی چیز بھی شریعت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن پاک میں ان میں سے کسی کی تفصیل نہیں ہے بلکہ حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ چیزیں ثابت ہیں۔ قرآن پاک میں زکوٰۃ کا حکم ہے لیکن اس کے نصاب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس طرح حج کے احکام: کہ کب میدانِ عرفات میں پہنچنا ہے‘ وہاں کس وقت تک رہنا ہے‘ ایک آدمی کس وقت حج کو پائے گا اور کس وقت سمجھا جائے گا کہ اس کا حج اس سال فوت ہوگیا ہے۔ یہ ساری تفصیلات احادیث میں مذکور ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک میں صرف چار چیزوں: مُردار‘ خون‘ خنزیر کے گوشت اور نذر لغیراللہ کو حرام قرار دیا گیا ہے‘ تو کیا سانپ‘ بچھو‘ کیڑے مکوڑے‘ درندے اور کتے سب حلال ہوں گے؟ اور کیا ان کی حرمت ماوراے شریعت قرار پائے گی؟ جواب ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ تمام چیزیںحرام ہیں اور شریعت میں ان کا ذکر کردیا گیا ہے۔

اُمت مسلمہ شروع سے نماز‘ روزے‘ حج‘ زکوٰۃ اور حلال و حرام اور زندگی کے دیگر معاملات میں ایک واضح اور مفصل نقشے کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔ یہ تفصیلی نقشہ حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور قطعاً اللہ کی شریعت ہے۔

۳- قرآن پاک کی آیت:اے نبی! تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے (الفرقان ۲۵:۵۶) کا مفہوم آپ نے یہ سمجھا ہے کہ رسول صرف بشارتیں اور ڈراوے دینے کے لیے آیا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر حدیث میں اِنذار اور بشارت کا پہلو ہونا چاہیے ورنہ حدیث موضوع قرار پائے گی۔ آپ نے جو مفہوم سمجھا ہے اس سے تو ساری حدیثیں ہی نہیں بلکہ سارا قرآن بھی نعوذ باللہ موضوع بن جائے گا۔ آپ کے فہم کے مطابق تو ہرآیت قرآنی اور ہر حدیث انذار سے شروع اور بشارت پر ختم ہو ‘تو وہ قرآن کہلانے اور صحیح اور سچی حدیث ہونے کی مصداق ہوگی۔ یہ رویہ اور سوچ قرآن و سنت سے عدمِ واقفیت کی علامت ہے جو کہ درست نہیں۔

آیت کا مطلب یہ نہیں جو آپ نے سمجھا‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ کا کام لوگوں کو بزور منوانا نہیں ہے بلکہ ان کو سمجھانا ہے‘ ان کو احکام کی تعمیل کی صورت میں جنت کی بشارت اور نافرمانی کی صورت میں دوزخ سے ڈرانا ہے۔ یہ معنی نہیں کہ دین کی دعوت‘ اس پر عمل‘ اس کی تنفیذ‘ اور حکمرانی قائم کرنے کے لیے جہاد آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک نے صرف انھی دو صفات کا ذکر نہیں کیا بلکہ شاہد‘ بشیر‘ نذیر‘ داعی الی اللہ اور سراج منیر بھی آپ کے اوصاف ہیں (الاحزاب ۳۳: ۴۵-۴۶)۔ اسی طرح آپ مطاع بھی ہیں کہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے مطاع قرار دیا ہے۔       وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴۔ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے‘ اسی لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بناپر اس کی اطاعت کی جائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا: نہیں‘ اے محمدؐ!تمھارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی معاملات میں حاکم نہ بنائیں۔ پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے پر کسی بھی قسم کی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔ (النساء ۴:۶۵)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَـقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُـوْلِ اللّٰہِ اُسْـوَۃٌ حَـسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱۔ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا۔

’اسوہ‘ اس کو کہا جاتا ہے جس کی پیروی کی جائے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایسی ہے جس کی پیروی کی جائے‘ نہ یہ کہ احکام قرآنی کی حد تک۔ آپ کا یہ کہنا کہ اس وقت جو احکام شریعت قرار پاگئے ہیں وہ قرآن کے مخالف ہیں۔ آپ نے وضاحت نہیں کی کہ قرآن پاک کے مخالف وہ احکام کون سے ہیں‘ پھر آپ نے اس کی مثال بھی نہیں دی۔ اس وقت قرآن و سنت کا نظام ملک میں نافذ نہیں ہے۔ لیکن شریعت صرف قرآن کا نام نہیں بلکہ سنت رسولؐ بھی شریعت کا حصہ ہے‘ اس بات کو تو پاکستان کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ غیرمسلم بھی قرآن و سنت دونوں کو اسلام کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔

۴- آپ نے ان آیات کی کوئی مثال نہیں دی جن کو بقول آپ کے عام مسلمان نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں۔ البتہ میں نے بہت سی آیات بطور مثال پیش کر دی ہیں جن کی تکذیب اس وقت لازم آتی ہے‘ جب آپ کی طرح کی سوچ اختیار کی جائے۔ جو لوگ قرآن پاک کو مانتے ہیں لیکن حدیث رسولؐ کو نہیں مانتے وہ درحقیقت قرآن پاک کے بھی منکر ہیں اور نبی صلی اللہ  علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بھی۔ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں۔ قرآن پاک کے اتباع کے دعوے دار ہیں درآں حالیکہ قرآن پاک میں نبی کی اطاعت کا حکم ہے اور وہ نبی کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے باوجود قرآن پاک کی اطاعت کے دعوے دار ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگ قرآن پاک کے حکم اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا انکار کرکے‘ قرآن پاک اور نبی دونوں کی اطاعت کے دائرے سے نکل جاتے ہیں۔

آپ کے تمام سوالات کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا انکار کیا جائے‘ صرف قرآن پاک کو شریعت قرار دیا جائے۔ آپ کی یہ سوچ قطعاً قرآن پاک کے خلاف ہے۔ اس لیے آپ اپنے ان عقائد اور خیالات پر نظرثانی کریں۔ اس سلسلے میں‘ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ باقاعدہ طریقے سے علم دین حاصل کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک کیا کہتا ہے‘ حدیث رسولؐ کی ہدایات اور احکام کیا ہیں۔ دین کس شکل میں اترا اور کس شکل میں نافذ ہوا۔ جو علوم‘ اسلام کی بدولت ایجاد ہوئے ان کو سیکھیں۔ قرآن فہمی کے جو اصول اہلِ علم نے مرتب کیے ہیں ان سے باخبر ہوجائیں۔ حدیث رسولؐ کی شرعی حیثیت پر جو لٹریچر لکھا گیا ہے اس کا مطالعہ کریں‘ خصوصاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت کا بار بار مطالعہ کریں۔ ان سب علوم و فنون اور اصول استنباط پر عبور حاصل کرنے کے بعد‘ اگر کوئی کمی محسوس ہو تو پھر کسی صاحبِ علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔