اس کا رونا تو اب فضول ہے کہ ہمارا ملک عربوں کے ابرکرم سے گویا محروم رہا اور اس بدقسمت سرزمین کے حصے میں درہ خیبر سے آنے والے ایسے فاتح آئے‘ جن کی زبان ترکی یا فارسی تھی اور جن کا اسلامی تصور خود واضح اور صاف نہیں تھا۔ ظاہر ہے‘ ایسے بادشاہوں اور کشور کشائوں کی سرپرستی میں عربی زبان کس طرح پروان چڑھ سکتی تھی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ آغاز اسلام سے شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۱۴ھ - ۱۱۷۶ھ) سے پہلے تک شمالی ہند میں عربی کے دو چار اچھے لکھنے والے بھی نہیں ملتے۔ شمالی ہند کے مایۂ ناز شاعر آزاد بلگرامی تک کا یہ عالم ہے کہ ان کی شاعری خالص عجمی اور ہندی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ گجرات و سندھ کے علاقوں سے صَرف نظر کرلیجیے‘ تو کیا دین‘ کیا زبان‘ ہرلحاظ سے شمالی ہند میں گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
یہ ایک ٹھوس تاریخی حقیقت ہے۔ خواہ ارباب ’غنیمت‘ اور ملوکیت پرستوں کو اس سے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ لیکن ہماری اور آپ کی آرزوئوں سے حقیقتیں نہیں بدل سکتیں‘ اورنہ اسلامی دستور و آئین میں ایسے بادشاہوں کے لیے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔ پر افسوس یہ ہے کہ ہندستان میں عربی زبان کی یہ بے بسی اب بھی دُور نہیں ہوئی اور ۵۰‘ ۶۰ سال سے صحیح زبان کی ترویج و تعلیم کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں‘ مگر اب تک خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ اصحابِ درس ہیں‘ جو اب تک ارسطو کی سڑی ہوئی ہڈیوں پر فاتحہ خوانی کو ’علم‘ سمجھے بیٹھے ہیں اور ان کے ذہن میں کسی طرح یہ حقیقت اُتر نہیں پاتی کہ کتاب عزیز اور دین کے فہم کے لیے یونانی خرافات سے زیادہ علم عربیت کی ضرورت ہے…
جدید مصر میں ایک روشناس ادیب کامل کیلانی نے حکایات الاطفال کے نام سے بچوں کے ازخود مطالعے کے لیے ریڈروں کا ایک سلسلہ تالیف کیا ہے--- [علی میاں] نے کامل کیلانی کا پورا چربہ اُتارا ہے--- اور [مصنف] نے انبیا کے قصے منتخب کیے ہیں۔ زیرتبصرہ کتابچے میں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت یوسف ؑ کے قصے ہیں۔ مصنف عربی زبان کا بڑا ستھرا اور اچھا مذاق رکھتے ہیں۔ ایسا اچھا مذاق کہ شاید ہندستان میں کم لوگوں کو نصیب ہو۔ اس لیے کتاب میں کسی قسم کی عجمیت‘ ہندیت یا رکاکت دخل انداز نہیں ہوسکی (قصص النبیین للاطفال‘ مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی پر تبصرہ) ۔ (’مطبوعات‘ مسعود عالم ندوی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۸‘ عدد ۴‘ ربیع الثانی ۱۳۶۵ھ‘ مارچ ۱۹۴۶ئ‘ ص ۶۲-۶۳)