مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

کتاب نما

| مارچ۲۰۰۶ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قیادت اور ہلاکت اقوام، خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ ۴/۱۱-E‘اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔

کوئی آرٹسٹ تصویر بناتا ہے تو برش ہاتھ میں لے کر ایک ایک نقش بناتا ہے۔ تاآنکہ جب وہ کام ختم کرتا ہے‘ تو سامنے مکمل تصویر آجاتی ہے۔ قوموں کی ہلاکت پر خلیل الرحمن چشتی کی اس تالیف کی یہی کیفیت ہے۔ ۸اکتوبر کے زلزلے نے بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کرکے ہلاکت اور عذابِ الٰہی کے موضوع کو گرم موضوع بنا دیا۔ فاضل مؤلف اس حوالے سے قرآن کی تمام آیات کو سابقہ اقوام کی ہلاکت‘ ہلاکت کے اصول‘ مقاصد ہلاکت‘ طریقۂ ہلاکت‘ ہم کیا کریں‘ قیادت کیا کرے‘ کے عنوانات کے تحت ایک مربوط انداز سے پیش کیا ہے۔ جب بات ختم ہوتی ہے تو موضوع کا ہر رخ قرآنی آیات کی روشنی میں روشن ہوجاتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال قرآن کا ایک اہم موضوع ہے جو عموماً دروس قرآن میں اوجھل رہ جاتا ہے حالاںکہ اس کا اطلاق کرنے سے عبرت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔

یہ کتاب ایک طرف قرآن کا حقیقی فہم پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف فاسق و فاجر اور صالح قیادت کو آئینہ دکھاتی ہے۔

یہ بھی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مغربی تہذیب کے زوال کی علامات پڑھ پڑھ کر اس کی ہلاکت دیکھنے کے منتظر ہیں لیکن غالباً صدیوں کے فیصلے ایک حین (مدت) حیات میں نہیں ہوتے۔ ویسے بھی ہم جو گنتی کرتے ہیں تو اللہ کے ایک دن میں ہمارے ۵۰ہزار دن آجاتے ہیں۔(مسلم سجاد)


تعلیماتِ نبویؐ اور آج کے زندہ مسائل، سید عزیزالرحمن۔ناشر: القلم‘ فرحان ٹیرس‘ ناظم آبادنمبر۲‘ کراچی۔صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب السیرہ عالمی کے نائب مدیر سید عزیز الرحمن کے اُن سیرت ایوارڈ یافتہ سات مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے وفاقی وزارتِ مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے منعقدہ قومی سیرت کانفرنسوں میں بالترتیب ۱۹۹۶ئ‘ ۱۹۹۷ئ‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۲۰۰۰ئ‘ ۲۰۰۲ئ‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں پیش کیے۔ ان کے عنوانات یہ ہیں: ۱- تعمیرشخصیت و فلاح انسانیت‘ اطاعتِ رسولؐ اور سیرت طیبہ کی روشنی میں‘ ۲-استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی سیرتِ طیبہ سے حاصل ہوسکتی ہے‘ ۳- عدمِ برداشت کا قومی اور بین الاقوامی رجحان اور تعلیماتِ نبویؐ،  ۴-بے لاگ احتساب‘ ۵- پاکستان کے لیے مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۶-نئے عالمی نظام کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۷-عصرِحاضر میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان اور اس کا خاتمہ۔

’عدم برداشت کا رجحان‘ میں مصنف نے مختلف مذاہب اور اقوام کی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مخالفین کے سلوک کے متعلق ان مذاہب کی مقدس کتب اور تحریروں سے اقتباسات پیش کیے ہیں‘ مثلاً ہندومت کی تعلیمات کا خلاصہ سوامی دیانند کے الفاظ میں یہ ہے: دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلا دو‘ دشمنوں کے کھیتوں کو اُجاڑ دو‘ گائے‘ بیل اور لوگوں کو بھوکا مار کر ہلاک کر دو جس طرح بلی چوہے کو تڑپا تڑپا کر مارتی ہے ‘ اسی طرح دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر ہلاک کرو۔(ص ۱۸)

ہر موضوع کے تمام ممکنہ پہلوئوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ہرمقالہ اپنی جگہ ایک مختصر کتاب کی مانند ہے۔(محمد الیاس انصاری)


نیازفتح پوری کے مذہبی افکار، پروفیسر ہارون الرشید۔ ناشر: میڈیا گرافکس‘ اے ۹۹۷‘ سیکٹر ۱۱‘ اے‘ نارتھ کراچی۔ صفحات: ۸۷۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

اس مختصر‘ مگر جامع کتاب میں نیاز فتح پوری کی ایک تصنیف من و یزداں کامل کی روشنی میں خدا‘ مذہب‘ عبادات‘ انبیا‘الہامی کتابوں اور تصورِ آخرت کے بارے میں‘ اُن کے افکار و خیالات کا جائزہ زیادہ تر اُنھی کے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ نیاز کے یہ افکار و خیالات‘ پون صدی قبل کے ہیں‘ مگر اُن کی کتابوں اور تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اس لیے‘ مصنف کا خیال ہے کہ جس مادّہ پرست اور دہریہ انسان نے زندگی بھر ملحدانہ افکار کی تبلیغ و اشاعت کی ہو اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی مخالفت ہی نہیں‘ ان کی تضحیک بھی کی ہو‘ اُس کی تردید کرنا‘ ایک دینی اور علمی فرض ادا کرنے کے مترادف ہے۔

  • نیاز فتح پوری کا علمی اور ادبی ’کردار اور کارنامہ‘ اہلِ علم و ادب سے پوشیدہ نہیں۔    پروفیسرہارون الرشید نے بتایا ہے کہ وہ اس قدر ’روشن خیال‘ اور ’عقل و دانش‘ کے پرستار تھے کہ مثلاً:
  • اُن کے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب خود انسانوں کے وضع کردہ ہیں
  • mالہامی کتابیں انسان ہی کے دماغ کا نتیجہ ہیں
  • مذہب یقینا انسان کی ترقی میں حائل ہے
  • روزے ہر سال ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں
  • نمازوں کی صورت میں متواتر سجدوں کا خراج‘ نہیں معلوم‘ کس نعمت کے شکریے کے طور پر ہم سے وصول کیا جاتا ہے۔
  • نیاز فتح پوری مسجد میں جمع ہونے والے نمازیوں کو کسی احاطے میں جمع ہونے والے جانوروں کی مانند قرار دیتے ہیں۔
  • وہ تمام عقائد‘ جن کا تعلق مابعد الموت سے ہے مزعومات و قیاسات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے___ آپ انھیں نیاز کے ذاتی اور شخصی معتقدات کہہ کر نظرانداز نہیں کرسکتے کیوںکہ وہ علی الاعلان ایک لمبے عرصے تک اپنے نظریات کا پرچارکرتے رہے۔ اس زمانے میں جب کچھ اہلِ قلم نے ان کا تعاقب کیا تو نیاز نے معافی مانگی، ’توبہ نامہ‘ شائع کیا مگر ہیراپھیری سے نہیں گئے اور مرغے کی ایک ہی ٹانگ کے مصداق پھر وہی حرکتیں شروع کر دیں۔ نیاز فتح پوری ’ہیرا پھیری‘ کے جزوِ اول (چوری اور سرقے) میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ مولانا مودودی کی ایک تحریر اپنے نام سے شائع کرلی مگر ان کے احتجاج پر دوسری قسط‘ ان کے نام سے چھاپنی پڑی۔ نیاز کے جملہ سرقوں کا احوال کراچی یونی ورسٹی کے جریدہ شمارہ ۲۷ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

نیاز فتح پوری کے ’کمالاتِ فن‘ کی فہرست طویل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے‘ ہر نوع کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کرنے اور نوجوانوں کے جنسی جذبات بھڑکانے کے علاوہ شخصی سطح پر بھی بعض نہایت قبیح حرکات کیں‘ مثلاً قمرزمانی بیگم کا روپ دھار کر آگرہ کے ادیب   شاہ دل گیر کو عشقیہ خطوط لکھے اور اس طرح انھیں تین سال تک بے وقوف بناتے رہے۔تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے بزرگ دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری جن کا شمار ایک بلندپایہ محقق و نقّاد کے طور پر ہوتا ہے وہ کئی برس سے نگار و نیاز کے سالانہ جشن کے ذریعے نیاز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ کتاب نیاز فتح پوری کے اصل چہرے کی فقط ایک جھلک دکھاتی ہے۔ ان کے جملہ ’کارناموں‘ کا تفصیل سے جائزہ لینا باقی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلام اور آزادیِ فکروعمل، سلطان احمد اصلاحی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ ڈی ۳۰۷‘ دعوت نگر‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی-۱۱۰۰۵‘ بھارت۔ صفحات: ۱۳۶۔قیمت: ۲۵ روپے۔

اسلام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے یا ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ آزادیِ فکروعمل کا مخالف ہے۔ مصنف نے نہایت مدلل انداز میں ایسے تمام اعتراضات کا بھرپور اور دل نشیں جواب دیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں عقیدے‘ مذہب‘ عبادت گاہوں کی تعمیرومرمت‘ لباس اور پوشاک‘ غذا اور خوراک‘ تہوار‘ جلسے جلوس‘ تہذیبی تشخص اور تہذیبی انفرادیت‘ تعلیم گاہوں‘ پریس اور میڈیا‘    اظہار راے‘ تبدیلیِ مذہب‘ رہنے سہنے‘ کاروبار اور ملازمت جیسے شعبہ جات میں اسلام کی دی ہوئی آزادیوں کو قرآن و حدیث اور تاریخِ اسلامی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

مصنف اسی آزادی کا موازنہ بھارت سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج دنیا کی ہندستان جیسی مثالی جمہوریت میں بھی یہاں کی مسلمان اقلیت کو غذا اور خوراک کے معاملے میں بھی آزادی اور سہولت میسر نہیں ہے۔ (ص ۶۲-۶۳)

آزادیِ فکروعمل کے حوالے سے پروپیگنڈے کا جواب اس مختصر مگر جامع کتاب میں موجود ہے۔ پاکستان میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمات ایسے ہی موضوعات کو اُچھالتی ہیں۔ یہ مختصر کتاب غیرمسلموں سے ربط ضبط رکھنے والوں اور این جی اوز سے مکالمے کے خواہش مند افراد کے لیے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ (م - ا - ا )


ہدیۃ العروس ، ازدواجی زندگی وخانگی احکام و مسائل‘ تالیف: حافظ مبشرحسین۔ ناشر: مبشراکیڈمی‘ مکان ۱۱‘ گلی ۲۱‘ مکھن پورہ‘ نزد نیوشادباغ‘لاہور۔ صفحات:۴۸۸۔ قیمت: ۳۵۰روپے۔

حافظ مبشرحسین نے بڑی محنت سے ’ازدواجی زندگی‘ کے تمام مسائل اور پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی اس تحقیق میں جدت بھی پائی جاتی ہے۔ بالخصوص انھوں نے میاں بیوی کی عائلی زندگی کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے پائے جانے والے بیش تر اشکالات کا علمی اور شرعی دلائل کی روشنی میں حل پیش کیا ہے۔

مصنف نے وسیع تناظر میں تمام مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ ولی کی اجازت کا مسئلہ‘ مہر کی مقدار‘ غلط رسومات‘ تقریبات شادی میں غیراسلامی اقدار کا رجحان‘ جہیز کا مسئلہ‘ نکاح حلالہ‘ وٹہ سٹہ‘ تعدد ازدواج اور خاندانی منصوبہ بندی تمام ہی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے نتیجے  میں جنم لینے والے مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے دین دار گھرانوں میں اسے مقدس سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے مفید ہوگا۔ بلوغ کے مسائل سے دوچار نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتاب کی طباعت معیاری ہے۔ اس میں بہت سی ایسی معلومات ہیں جو عموماً دستیاب نہیں۔ مصنف اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (عبدالمالک ہاشمی)


۱-بلوچستان: چند پہلو‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ۲- نقوشِ بلوچستان‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ۳-بلوچستان میں تعلیم‘ پروفیسر انوررومان۔ ناشر: ادارہ تصنیف و تحقیق بلوچستان‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۹۷‘ ۱۹۸‘ ۱۵۵۔ قیمت علی الترتیب: ۱۲۰‘۲۵۰‘ ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر اُردو اور فارسی کے نام ور اور اَن تھک مصنف‘ محقق اور ادیب ہیں۔ ان کی عمر کا زیادہ تر حصہ بلوچستان کے مختلف کالجوں میں تدریسی اور انتظامی مصروفیات میں گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز رہی۔ وہ اب تک تصنیف و تالیف اور تحقیق اور ترجمے کی ۱۰۹ چھوٹی بڑی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ ان کے برادر ِبزرگ پروفیسر محمد انور رومان (پ: ۱۹۲۴ئ) بھی ایک مشّاق مصنف اور مترجم ہیں۔ وہ اب تک اُردو اور انگریزی میں ۵۵کتابیں شائع کرچکے ہیں۔

زیرنظر تینوں کتابیں بلوچستان کی مختلف پہلوئوں: تعلیم‘ علم و ادب‘ شاعری‘ بلوچی زبانوں‘ قبائل‘ بعض نام ور شخصیات اور وہاں کی علمی روایات کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ پہلی کتاب میں بلوچستان اور اس کے قبائل کا تعارف‘ اُردو فارسی کی صورتِ حال‘ بلوچستان میں ظفر علی خاں اور لیاقت علی خان جیسے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ دوسری کتاب چند علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں بعض شخصیات (مُلّا محمد حسن براہوی‘ پیرمحمدکاکڑ‘ یوسف عزیز مگسی اور علامہ عبدالعلی اخوندزادہ) پر مضامین شامل ہیں۔ ایک مضمون ’بلوچستان میں ہائیکونگاری‘ ہے۔ تیسری کتاب میں محمد انور رومان نے بلوچستان میں تعلیمی صورت حال سے بحث کی ہے۔ اس میں اعداد و شمار بھی ہیں۔ دیہات میں تعلیم‘کالج‘ اساتذہ‘ طلبہ کے مسائل‘ مکتبی تعلیم‘ یونی ورسٹیوں کا تعارف اور ترقیِ تعلیم کے لیے تجاویز کے ساتھ اعداد و شمار بھی شامل ہیں اور تعلیمی اداروں اور ماہرین تعلیم کی فہرستیں بھی۔ اس طرح یہ بلوچستان میں تعلیم کے موضوع پر ایک جامع مرّقع ہے۔

تینوں کتابیں مل کر بلوچستان کے بارے میں ایک خوش گوار تاثر پیش کرتی ہیں جو اس کی پس ماندگی کے عمومی تاثر سے خاصا مختلف ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں علوم و فنون کی ایک پختہ روایت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ (ر- ہ )


نیل کے ساحل سے لے کر، مصنفہ: ثریا اسمائ۔ ناشر:ادارہ بتول‘ ۱۴-سید پلازہ‘ ۳۰-فیروزپور روڈ‘ لاہور۔ صفحات:۱۷۶۔ قیمت: ۱۲۵روپے

سفرنامہ ایک دل چسپ صنفِ سخن ہے۔ گذشتہ ربع صدی میں لکھے گئے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے ہیں یا پھر ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی تصویریں اور رنگین ساحلوں کے حیاسوز ماحول کی روادادیں۔ زیرنظر سفرنامہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ایک غریب‘ پس ماندہ اور ترقی پذیر افریقی ملک سوڈان کا سفرنامہ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے حالات اور معاشرت ایک تسلسل اور تیزی سے بدل رہے ہیں اور تبدیلی کا یہ سفر نہایت مثبت سمت میں ہے اور اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کے بعد رونما ہونے والی تبدیلی خوش آیند ہے اور نظر بھی آتی ہے۔

سفرنامہ نگار ‘ مدیرہ ماہنامہ بتول کے قلم سے سوڈان پر یہ پہلا بھرپور سفرنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر وحیدقریشی: اس میں سوڈان کی بدلتی ہوئی زندگی کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے… قارئین کے لیے کسی ترقی پذیر ملک کی سرگذشت ایک نئی چیز ہوگی (ص ۱۰)۔ یہ پاکستان کے ان قارئین کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے جو پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات کی فیوض و برکات کے منتظر ہیں اور یہ آس ایک حسرت بنتی جارہی ہے۔ ثریا اسماء نے شادی بیاہ اور دیگر سماجی محفلوں کے علاوہ‘ وہاں کی سماجی تقاریب میں بھی بنفسِ نفیس شرکت کی‘ اندرونِ ملک سفر کیے اور معاشرے میں گھوم پھر کر دیکھا اور مشاہدات کو بلاکم و کاست مگر تجزیاتی سلیقے سے قلم بند کردیا۔

معاشرے میں مساوات اور برابری ہے۔ گھریلو ملازمتیں اور مالکان‘ چھوٹے ملازمین اور افسران میں کوئی اُونچ نیچ کا نظام نہیں۔ شراب پر پابندی ہے۔ کھاناپینا نہایت سادہ اور ذرائع ابلاغ کا کردار قابلِ رشک ہے۔ ۴۰ سال تک کی عمر کے ہر مرد و زن کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔

آبادی میں عورتوں کا تناسب زیادہ ہے اور وہ کثیرتعداد میں معاشرے کی تعمیر میں لگی ہیں۔ عورتوں کی باپردہ فوج بھی موجود ہے۔ مصنفہ نے بجاطور پر تنقید کی ہے کہ سوڈانی عورتیں‘ مردوں سے مصافحہ کرنے اور چہرہ کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے وہاں کی خواتین سے بحثیں بھی کیں۔ سوڈان کی معاشیات پر بھارت کے اثرات کو انھوں نے حیرت ناک اور توجہ طلب قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا یہ تبصرہ بجا ہے: یہ معلومات افزا سفرنامہ ہمیں ظاہری لفظوں سے فقط خارج ہی کی سیر نہیں کراتا‘ بلکہ کہیں کہیں دل کے تاروں کو چھیڑتا اور اپنے اندرون میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے (ص ۹)۔ خوب صورت سرورق‘ عمدہ طباعت اور مضبوط جلد‘ دل کشی میں اضافے کا باعث ہے‘ نیز قیمت بھی مناسب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)