خرم مراد | مارچ۲۰۰۶ | مقالہ خصوصی
آج ___ جب کہ مغرب‘ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے‘ اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کر رہا ہے‘ اور جو کچھ پیش قدمی اس وقت کرنا ممکن ہیں‘ وہ بھی کر رہا ہے___ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گرد یہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے؟ اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کس ایشو اور کس مسئلے کو حاصل ہے؟
شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنھیں اس بات کا ادراک ہو‘ یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں‘ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمدیؐ کی صداقت کا ایشواور مسئلہ ہے: ’’کیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے رسول ہیں؟‘‘
غارحرا میں پہلی وحی آنے کے بعد‘ روز اول سے یہی سوال نزاع و جدل کا اصل موضوع تھا‘ اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت بھی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے‘ اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا‘ آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کش مکش تو ازلی و ابدی ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
مغرب کے معاشی ‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کا مسئلہ بھی یقینا اہم ہے‘ تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اسی لیے مغربی قیادت نے عالمِ اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے‘ مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنایا ہے اور شرق اوسط میں فوجی اڈوں کا جال بچھا لیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کر رہا ہے‘ یا جن سے سرتابی کا شبہہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے تنازعات تو امریکا‘ یورپ‘ جاپان‘ چین اور روس کے درمیان بھی ہیں‘ ان کی بنا پر ان کے درمیان مستقل دشمنی اور ایک دوسرے کی بربادی کے مشورے اور منصوبے نہیں۔ دراصل مسئلہ مفادات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقوں میں واقع ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں‘ اور آپؐ کے دین کے لیے مرنے کو زندگی سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔
تہذیبی ایشوز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے‘ عورتوں کے مقام‘ ان کی خوداختیاری (empowerment) اور آزادی (liberation) پر اصرار ہے‘ اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دبائو ہے اور جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں‘ جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ’تحائف‘ کی مستحق۔
ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں‘ بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کر رہے ہیں‘ جس کی تشکیل و ترکیب اور ترتیب و تکوین‘ رسالت محمدیؐ کے دم سے ہے۔
مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے‘ مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی‘ معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشرعشیر بھی نہیں۔ اہل مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم و سزا کی تشکیل اسلام کے مطابق کریں‘ حجاب اختیار کریں یا حدود نافذ کریں‘ تو بھی مغربی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ اس بات کی مسلسل رٹ لگائے جا رہا ہے: ’’اسلام کا احیا اور مسلمان___ (اس کے الفاظ میں فنڈامنٹلزم یا بنیاد پرستی)___ دراصل مغرب کی تہذیب‘ اس کے طرززندگی‘ اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘___ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدیؐ کی وجہ سے!
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدبیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
الحذر آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں
عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں‘ تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیاے اسلام کے علم بردار ہیں‘ وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک اور احساس نہیں رکھتے۔ اسی لیے رسالت محمدیؐ کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں‘ جو ہونا چاہیے۔ حالاںکہ تہذیبی جنگ‘ دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے‘ آج بھی اسی محبت سے ایمان‘ اتحاد اور قوتِ عمل سرشار ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدیؐ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے‘ افسوس صد افسوس کہ وہ نہیں کیا جا رہا۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہوا ہے‘ اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و ہدف ذات محمدیؐ اور رسالت محمدیؐ کو بنایا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اچانک صحراے عرب سے نمودار ہوئے‘ اور پلک جھپکتے میں انھوں نے شام‘ فلسطین‘ مصر‘ لیبیا‘ تیونس اور الجیریا ___ جو عیسائیت کے گڑھ تھے___ کی زمام کار سنبھال لی۔ نہ صرف انھیں اپنے انتظام میں لیا‘ بلکہ آبادیوں کی آبادیاںبہ رضا و رغبت‘ رسالت محمدیؐ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں‘ ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا‘ اور مسیحی پادریوں کی ہزار بددعائوں‘ خواہشوں اور ان کے حکمرانوں کی عملی کوششوں کے باوجود‘ وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔
وہ متحیر‘ شکست خوردہ اور غیظ و غضب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی (سیدنا مسیح کی ابنیت/ولدیت اور مصلوبیت) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین اسلام میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سے خاص مختلف نہ تھی‘ بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیرمعمولی واقعے کی توجیہہ کیا اور کیسے کریں؟ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں؟
ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے ’’فتنے (نعوذ باللہ) کی جڑ‘ اور ان کی ساری مصیبت کا سبب‘ محمدؐ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شکست کا راز حضوؐر پر ایمان و یقین اور آپؐ کی ذات سے والہانہ محبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ: (نعوذ باللہ) حضوؐر کا دعواے رسالت درست نہیں تھا اور قرآن آپؐ کی تصنیف کردہ کتاب ہے‘ وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر‘ اور اپنے مضامین و اسلوب اور بے ربطی و تکرار کی وجہ سے کلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یا کوئی سنجیدہ‘ علمی مہم بھی نہ تھی۔ مغرب کا دورِ ظلمت (dark ages) ہو یا ازمنۂ وسطیٰ (medieval ages) یا روشن خیالی (enlightenment)‘ ان کے ہاں اس مقصد کے لیے حضوؐر کے کردار پر انتہائی رکیک الزامات گھڑے گئے اور غلیظ الزامات لگائے گئے۔ آپؐ کی زندگی کے ہر واقعے کو بدترین معنی پہنائے گئے اور اسے مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار‘ خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے‘ اور لوٹ مار اور دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ کا لالچ دے کر‘ آپؐ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے‘ اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی جانب سے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کہ اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے‘ یا آگے نقل کریں گے ‘ وہ دل پر انتہائی جبر کر کے‘ اس لیے کہ نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ انھیں نقل کرتے ہوئے ہمارا قلم کانپتا اور روح لرزہ براندام ہوتی ہے‘ مگر صرف اس لیے یہ جسارت کر رہے ہیں کہ مسئلے کو سمجھنا ممکن ہو اور خود قرآن نے بھی مخالفین کے الزامات نقل کیے ہیں۔
سینٹ جان آف دمشق [م: ۷۵۳ئ]‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ [م: ۷۲۰ئ] سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اسلام سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’بنی اسماعیل کی اولاد میں‘ محمدؐ کے نام سے [معاذاللہ] جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انھوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کر کے پیش کردی اور لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتابِ مقدس نازل ہورہی ہے۔ عیسٰی ؑ اور موسٰی ؑکی طرح‘ وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے‘ نہ کوئی معجزہ۔۱؎
انھی خطوط پر‘ خلیفہ مامون کے ایک درباری [ابن اسحاق- م: ۸۷۰ئ] نے عبدالمسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کر کے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا: ’محمد کس طرح سچے نبی ہوسکتے ہیں‘ جب کہ آپ نے خوں ریزی کی‘ اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ کتاب الٰہی کس طرح ہو سکتا ہے؟‘
سینٹ جان آف دمشق اور عبدالمسیح الکندی کے الرسالہنے‘بیسویں صدی کے آغاز تک‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہلِ یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی میں الرسالہکالاطینی ترجمہ اسپین میں شائع ہوا‘ پندرہویں صدی میں سوئٹزرلینڈ میں‘ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں سر ولیم میور [م: ۱۹۰۵ئ] نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپی دانش وروں نے رسالت محمدیؐ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ وہ بنیادی طور پر مسیح الکندی اور سینٹ جان آف دمشق ہی کی اس یاوہ گوئی کو دہراتے رہتے ہیں: ۱- قرآن‘ یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر وضع کیا گیا‘ متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے۔ ۲-اخلاقی الزامات ۳- سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکروفریب کی کارروائیاں‘ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔
ان چیزوں کو نقل کرنا‘ اس لیے ضروری تھا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ آج جب ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور اب اہلِ مغرب کا مسلمانوں سے روز کا ربط ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں سائنٹی فک اندازفکر‘ علمیت اور غیر جانب داری کے نعرے بھی ہیں‘ بلکہ ہمدردانہ اور منصفانہ معاملے کے دعوے بھی___ لیکن اہلِ یورپ کی روش اور سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں میں پروفیسر منٹگمری واٹ‘ کینتھ کریگ اور ویٹی کن [اٹلی میں واقع رومن کیتھولک چرچ کا ہیڈکوارٹر‘ جسے ۱۹۲۹ء سے ریاست کا درجہ حاصل ہے] کی سوچ اور روش میں بھی‘ جو ڈائیلاگ‘ مکالمے‘ فیاضی اور مراعات کی روش کے دعوے دار ہیں‘ ان کے ہاں تال اور سُربدلے ہیں‘ مگر راگ وہی ہیں۔ بظاہر ان کے الفاظ ’مہذب‘ ہوگئے ہیں لیکن الزامات وہی ہیں‘ دشنام طرازی بھی وہی ہے‘ مگر ’تہذیب‘ کے جامے میں ہے۔ زبان اور تعبیرات وہ ہیں جو آج کے زمانے میں قابلِ قبول ہوں‘ مگر تہہ میں بات وہی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔
اب ان توجیہات کی جگہ ایسے نفسیاتی‘ سماجی‘ معاشی اور سیاسی عوامل نے لے لی ہے‘ جن سے جدید ذہن زیادہ آشنا ہے۔ مثلاً راڈنسن ‘ سگمنڈ فرائڈ [م: ۱۹۳۹ئ] کی رہنمائی میں‘ حضوؐر کی نفسیاتی تحلیل کرتا ہے۔ پروفیسرمنٹگمری واٹ‘ سوشیالوجی(سماجیات) کے اوزار سے لیس‘ اس سرچشمے کا سراغ عرب کی ریگستانی اور بدویانہ زندگی میں‘ جاہلیت کی خرابیوں میں‘ مکہ میں عیسائی اور یہودی تعلیمات و اثرات میں‘ اور اہل عرب کی سیاسی ضرورت میں پاتا ہے۔ کینتھ کریگ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’رسالت نے کہاں جنم لیا؟‘‘ اور خود جواب دیتا ہے: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جستجو اور آرزو میں کہ عرب متحد ہوں‘ اور اس یقین میں‘ کہ ایک کتاب الٰہی ہی‘ ایک عربی قرآن ہی‘ ان کو اتحاد و تشخص دے سکتا ہے‘‘۔ یہ ایقان کیوں کر پیدا ہوا: ’’عیسائیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر‘ کہ وہ بھی اہل کتاب تھے‘‘۔
پھر کوئی بھی ’’ہمدردانہ‘‘ تحریر ایسی نہیں‘ جو (نعوذ باللہ) وحی الٰہی میں خارجی مداخلت ثابت کرنے کے لیے شیطانی ہفوات کے واقعے‘ سیاسی مفاد اور دنیاداری کے ثبوت کے لیے نخلہ کے واقعے [رجب ۲ھ]‘ خون آشامی کی شہادت کے طور پر بنوقریظہ کے قتل کے واقعے [شوال ۵ ہجری] اور اخلاقی سطح کو زیربحث لانے کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کے واقعے سے خالی ہو۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے‘ وہ ان کے سخت دشمن اور رسالت کے منکر تھے۔ جو آپؐ کے خلاف ہجو کہتے پھرتے تھے‘ وہ بھی اخلاق سے اتنے عاری نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اخلاقی الزامات لگائیں۔ اگرچہ‘ جاہلیت عرب کا انکار‘ جاہلیت جدیدہ کے انکار رسالت سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہی الزامات‘ وہی اعتراضات نعوذباللہ: شاعر ہیں‘ جن آگئے ہیں‘ جادوگر ہیں‘ خود کلام گھڑتے ہیں‘ اور اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وغیرہ۔ یہ کہ:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا ٓاِفْکُنِ افْتَرٰئـہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَج فَقَدْ جَآئُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا o وَقَالُــوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا o (الفرقان ۲۵:۴-۵) ایک جھوٹ ہے جو انھوں نے گھڑ لیا ہے‘ اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انھوں نے لکھ لیا ہے‘ اور یہ ان کو صبح و شام لکھوائے جاتے ہیں۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ط لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ o (النحل ۱۶:۱۰۳) کہتے ہیں کہ ان کو تو یہ سب کچھ ایک آدمی سکھاتا ہے‘ لیکن یہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ عربی مبین ہے۔
کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ o (الذاریات ۵۱:۵۲-۵۳) یوں ہی ہوتا رہا ہے‘ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے؟ نہیں‘ بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔
اس بات کو نارمن ڈینیل (Norman Daniel) نے یوں لکھا ہے: ’’ہم انتہائی غیرجانب دار اسکالر کی تحریر بھی پڑھیں‘ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم عیسائیت نے (اسلام اور محمد) کے بارے میں کیا انداز فکروگفتگو اختیار کیا تھا۔ وہ انداز ہمیشہ ہر اس مغربی ذہن کا لازمی جزو رہا ہے‘ اور آج بھی ہے‘ جو اس موضوع پر سوچتا اور بات کرتا ہے۔۲؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ قرآن مجید اور رسالت کے خلاف عیسائیت اور اہلِ مغرب کی اس شدید دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟
چند تاریخی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں‘ ان پر اسلام کی صورت میں جو تباہ کن آفت نازل ہوئی تھی‘ اس کی حیرت انگیز قوت و شوکت اور غلبے کا راز رسالت محمدیؐ پر ایمان اور حضوؐر کی ذات سے محبت و وابستگی میں مضمر تھا۔ اس سے مقابلے کا راستہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ قوت اور زندگی کے اس منبعے کو ختم کیا جائے۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضوؐر کو نعوذ باللہ جھوٹا نبی‘ قرآن کو آپؐ کی خودساختہ تصنیف‘ اور آپؐ کے کردار کو غیرمعیاری ثابت کیا جائے‘ خواہ اس جھوٹ کے لیے تہذیب و معقولیت کی ہر حد پھلانگنا پڑے۔
دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا حریف ایک ہی ہو سکتا ہے: وہ ہے اسلام۔ اس سے مغرب کا تصادم ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک آئیڈیا ہے‘ آج کی دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد آئیڈیا۔ یہ آئیڈیا انسانی تجربے اور مشاہدے سے ماورا حق کے وجود پر یقین کا مدعی ہے! اس کے نزدیک یہ‘ وہ حق ہے جو ۱۴ سو سال پہلے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا‘ اور قرآن کی صورت میں محفوظ و موجود ہے۔ ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں۔ اسی لیے اہلِ یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں۔ انھیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے‘ جو غالباً ’سرد‘ نہ رہے گی۔
اسی لیے آج بھی رسالت محمدیؐ، مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جہاں موقع ملے‘ ذات گرامیؐ پر بھی گندگی ڈالنے سے اجتناب نہیں‘ لیکن اب یہ کام بالعموم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے گنتی کے چند سلمان رشدی [بھارتی نژاد شاتم رسول] اور تسلیمہ نسرین [بنگالی نژاد دریدہ دہن] قسم کے لوگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اپنا اسلوب بدل دیا گیا ہے۔ اب کچھ لوگ حضوؐر کو پیغمبر تسلیم کرنے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن تورات کے اسرائیلی انبیا کی طرح کا پیغمبر۔ کچھ لوگ وحی کی حقیقت اور نوعیت ہی کو ___ مکالمہ ___ اور مفاہمت کے نام پر___ بدلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کچھ سینٹ پال [م: ۶۴ئ] کی طرح کے ’’مصلح‘‘ کے ورود [از قسم‘ مرزا غلام احمد قادیانی۔ م:۱۹۰۸ئ] کے متمنی ہیں جو اسلامی شریعت سے نجات دے۔
کچھ چاہتے ہیں کہ قرآن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے: ایک حصہ‘ عقائد و اخلاق کی تعلیم پر مبنی‘ اس کو کلامِ الٰہی مان لیا جائے۔ دوسرا حصہ‘ زندگی بسر کرنے کے ضوابط پر مشتمل‘ ان کو حضوؐر کی تصنیف قرار دیا جائے‘ جو قابلِ تغیروتبدل ہے۔ اسی ذیل میں کچھ ’دُور اندیش‘ عناصر کسی دینی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے‘ لیکن وہ انسانی حقوق‘ عورت کے مقام اور جمہوریت کے نام پر وہ چیزیں دل ودماغ میں اتار رہے ہیں‘ اور اُمت محمدیؐ کی زندگی اور عمل کو ایسے سانچے میں ڈھال رہے ہیں‘ جو رسالت پر ایمان اور ناقابل تغیر و تبدل حق پر یقین کو خودبخود بے معنی اور غیر مؤثر کرکے رکھ دے۔
ہفت روزہ اکانومسٹ‘ لندن نے صحیح لفظوں میں اعتراف کیا: ’’آج رسالت محمدیؐ پر یقین و ایمان ہی مغربی تہذیب کے لیے واحد حریف اور سب سے بڑا خطرہ ہے‘ اور یہی ایمان مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ‘‘۔
۱- مغربی تہذیب اور جدیدیت (modernism) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ انسان اب بالغ ہوچکا ہے۔ کسی ماوراے انسان وجود یا ذریعے سے علم اور رہنمائی لینے کا محتاج نہیں۔ وہ مستغنی ہے‘ خصوصاً خدا اور وحی جیسے ان ذرائع و تصورات سے‘ جن کو اس نے اپنے عہدطفولیت میں اپنے سہارے اور تسلی کے لیے گھڑ لیا تھا۔ رسالت محمدیؐ اس کے برعکس‘ یہ علم اور یقین بخشتی ہے کہ خالق کا وجود حقیقی ہے۔ وہ علوم کا رشتہ بھی اس کے نام سے جوڑتی ہے‘ زندگی کا بھی۔ وہی خالق حقیقی کھانا بھی کھلاتا ہے‘ شفا بھی بخشتا ہے‘ اختیار و قدرت بھی صرف اس کو حاصل ہے‘ زندگی بسر کرنے کا صحیح راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے اس کا محتاج‘ فقیر اور غلام و بندہ ہے۔
۲- مغربی تہذیب کے فلسفہ علم (epistemology) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ علم کا ذریعہ صرف: انسانی حواس اور عقل ہے‘ تجربہ و مشاہدہ ہے‘ سائنسی طریقہ ہے مگر یہ سارا علم بھی ظنی ہے جو آج صحیح ہے وہ کل غلط ہو سکتا ہے‘ بلکہ غلط ثابت ہونے کا امکان نہ ہو تو وہ علم ہے ہی نہیں‘ ایک عقیدہ ہے۔ قطعی اور یقینی علم کے نام کی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی‘ جو معیار حق ہو‘ جس کے آگے لوگ سرتسلیم خم کریں‘ جس کے لیے کوئی کسی سے مطالبہ کرسکے کہ اس کو مانو اور اس پر چلو۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ اس شعور سے معمور کرتی ہے کہ علم یقینی کا وجود ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی اور حضوؐر کی رسالت ہے۔ زبردستی کسی پر نہیں کی جا سکتی‘ لیکن جو مان لیں انھیں اس علم کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہیے‘ جہاں اختیار ہو‘ وہاں اس علم کے مطابق چلنا اور چلانا چاہیے۔ مغرب نے حق اور باطل کے الفاظ کو متروک بنا دیا ہے‘ اور ان کا استعمال تہذیب و فیشن کے خلاف۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے لیے یہ الفاظ آج بھی سچائی اور زندگی سے بھرپور ہیں‘ اور ہمیشہ رہیں گے۔
۳- مغرب کے نزدیک اخلاق و اقدار ہوں یا قوانین و ضوابط‘ ہر چیز مفید ہے یا مضر‘ جیسا اپنا اپنا احساس اور نقطۂ نظر ہو۔ حقیقت کا انحصار دیکھنے والوں کی پوزیشن پر ہے۔ چنانچہ ہرچیز اضافی (relative) طور پر صحیح یا غلط ہوتی ہے‘ کوئی چیز فی نفسہٖ حق اور باطل نہیں ہو سکتی۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک ان چیزوں کی جو حقیقت وحی نے طے کر دی ہے‘ اسے کسی کی راے‘ پسند و ناپسند یا تجربے و دلیل سے بدلا نہیں جا سکتا: لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج [الانعام ۶:۳۴] ’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے‘‘۔
۴- مغربی تہذیب کے نزدیک علوم غیبی ___ اللہ‘ فرشتے‘ وحی‘ زندگی بعد موت کے نام کی کوئی چیز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک‘ زندگی کے معنی و مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علوم غیبی ہی سے ہوسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حقائق___ جن کی تعلیم رسالت محمدیؐ نے دی ہے___ جیتے جاگتے حقائق ہیں: یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ[البقرہ ۲:۳] ’’وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
۵- دنیا اور دنیا کی زندگی سے رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کو اتنی ہی گہری اور بھرپور دل چسپی ہے جتنی اہلِ مغرب کو۔ لیکن مغرب کی دل چسپی کا ہدف یہیں دنیا میں انسان کی خوشی‘ راحت‘ لذت اور زندگی کی کیفیت و معیار ہے‘ کہ وہی مقصود ہیں۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کی دل چسپی دنیا میں اہلِ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں اپنی بھلائی کے لیے ہے۔ اس کے نتیجے میں دو بالکل مختلف قسم کی شخصیتیں اور معاشرے وجود میں آتے ہیں: لاَ یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِط [الحشر ۵۹:۲۰] ’’دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے‘‘۔
آج کے تہذیبی معرکے میں رسالت محمدیؐ کے مسئلے کو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے‘ اس کا پورا ادراک ان سب کو ہونا چاہیے‘ جو دین سے محبت رکھتے ہیں‘ جو غلبۂ دین کی تمنا رکھتے ہیں یا اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس ادراک کی روشنی میں انھیں اپنی ترجیحات پر بھی نظر ڈالنا چاہیے‘ اور حکمت عملی پر بھی۔ اس لیے:
۱- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ ہمارا یہ زمانہ اگرچہ عہد نبویؐ سے ۱۴ صدیوں کے فاصلے پر ہے‘ اور ہم جن تمدنی حالات میں اسلامی زندگی اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ اس عہد سے بہت مختلف ہیں‘ لیکن یہ ہے اسی عہد نبویؐ کا حصہ اور تسلسل۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی طرف نہیں‘ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں‘ اور آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے‘ اس لیے آپؐ ہماری اکیسویں صدی کے لیے بھی اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے لیے تھے‘ اور آج کے سارے انسان اسی طرح آپؐ کی ’’قوم‘‘ ہیں اور آپؐ کے مخاطب‘ جس طرح اس وقت کا اہلِ عرب اور ساری دنیا والے تھے۔ اس سیدھی سادی بات کے دُور رس مضمرات ہیں۔ چنانچہ آج کے زمانے اور لوگوں تک آپؐ کی رسالت کی دعوت اس طرح پہنچنا اور پہنچانا ان کا حق ہے جس طرح آپؐ نے پہنچائی۔
۲- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ بہ حیثیت رسولؐ اللہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیوںکہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب موجود ہے‘ آپؐ کی سیرت اور اسوہ موجود ہے‘ آپؐ کا دین موجود ہے‘ اور ان امانتوں کی حامل‘ آپؐ کی اُمت موجود ہے۔ گویا اپنی رسالت کی طرف دعوت دینے کا جو مشن بہ حیثیت رسول آپؐ نے ادا کیا‘ اب اسے ادا کرنے کے لیے اُمت ذمہ دار ہے۔
۳- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ رسول کی موجودگی میں دعوت اور اسلام و جاہلیت کے درمیان جو تہذیبی کش مکش برپا ہوتی ہے‘ اس میں رسالت کی طرف دعوت کو اوّلین اور فیصلہ کن مقام حاصل ہوتا ہے۔ درجے کے لحاظ سے‘ ایمان باللہ‘ اسلامی زندگی کا مرکز اور روح ہے‘ اسے سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے‘ رسالت کا مدعا وہی ہے۔ لیکن ترتیب کے لحاظ سے ایمان بالرسالت کی حیثیت اولین اور فیصلہ کن ہے۔ انسان‘ محمد کو اللہ کا رسولؐ مانتا ہے‘ تب ہی وہ اللہ اور ہر دوسری چیز تک پہنچتا ہے۔ ایمان باللہ‘ وہی حق اور معتبر ہے جس کی تعلیم حضوؐر نے دی‘ اور اس لیے ہے کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قرآن اسی لیے بلاشک و شبہہ کلامِ الٰہی ہے کہ رسالت محمدیؐ ہر شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ حلال و حرام‘ واجبات و منہیات اور عذاب و ثواب کے لیے کوئی عقلی یا تجربی دلیل‘ سند ناطق نہیں سواے حکم نبویؐ کے۔ پھر عمل کے لحاظ سے تو ایمان و اتباع رسالت‘ عین اطاعتِ الٰہی اور قربِ الٰہی کے مترادف ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ [النسائ۴:۸۰۔جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔] اور : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ [اٰل عمرٰن ۳:۳۱۔ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا۔]
۴- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دعوت و جہاد میں رسالت کی طرف دعوت کو یہی مقام حاصل ہو۔ اس کے بغیر اللہ کا اقرار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ کجا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی سماجی اقدار پر اتفاق و اقرار۔ ورنہ یہودی توحید الٰہی کا عقیدہ رکھتے تھے‘ عیسائیوں کو موحد ہونے کا دعویٰ تھا‘ اور ان کی عبادات و اخلاقی فضائل کی تعریف خود قرآن نے فرمائی ہے۔ مگر وہ مغضوب اور ضال ٹھیرے کہ ایمان بالرسالت سے انکاری تھے۔
۵- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایمان بالرسالت اس معنی میں بھی فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت‘ نجات اور غلبے کا وعدہ‘ ان لوگوں سے ہے جو رسول مبعوث پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں‘ تن من دھن سے اس کے پیچھے چلیں‘ اور اس کے مددگار بنیں: وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ o وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o (الصافات ۳۷:۱۷۱-۱۷۳) ’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔
۶- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ازل سے جو معرکہ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی کے درمیان برپا ہے‘ اور جو آج اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی جنگ کی صورت اختیار کررہا ہے‘ وہ دراصل انسانوں کے دل اور زندگیاں جیتنے کا معرکہ ہے۔ دل فتح ہوں گے تو غلبۂ دین حاصل ہوگا۔ قوت سے زمین فتح ہوسکتی ہے‘ اموال فتح ہوسکتے ہیں‘ سیاسی اقتدار پر قبضہ ہوسکتا ہے‘ مگر زندگیاں فتح نہیں ہو سکتیں اور دلوں پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ دلیل سے موافقت اور حمایت حاصل ہو سکتی ہے‘ مگر یکسوئی‘ لگن اور جاں بازی اور سرفروشی نہیں۔ دل جیتنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ لوگ رسالت محمدیؐ کی صداقت پر ایمان لے آئیں‘ آپؐ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دیں‘ اپنے دل آپؐ کی محبت سے بھرلیں‘ آپؐ کے آستانے پر سر رکھ لیں‘ آپؐ کی اطاعت و محبت اور آپؐ پر اعتماد و یقین سے سرشار ہو کر آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ پہلے بھی لوگ اور دل اسی طرح فتح ہوئے تھے‘ تہذیبی جنگ اسی طرح جیتی گئی تھی‘ آج بھی اسی طرح فتح ہوگی‘ اور اسی طرح جنگ جیتی جا سکے گی۔
۷- اس بات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔ یقینا ہمیں اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنا چاہیے‘ ہمیں بتانا چاہیے کہ سودی معیشت انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہے‘ اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی و خاندانی نظام میں کیا محاسن ہیں‘ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں کی حیثیت زمین کو نرم و ہموار اور فضا کو سازگار بنانے کی سی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ مان بھی لیں‘ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایمان نہ لائیں‘ تو تہذیبی جنگ میں کامیابی کی راہ ہموار نہ ہوگی۔ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کی تعریف کرتے ہیں‘ اس کے آرٹ اور فنِ تعمیر کی داد دیتے ہیں‘ اس کی روحانیت اور تصوف کے ثناخواں ہیں‘ لیکن وہ محمد رسولؐ اللہ کو اللہ کا رسول مان کر آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ رسالت کے مشن کے اعوان و انصار نہیں بن سکتے۔
۸- اسی طرح اگر ہم یہ ثابت بھی کر دیں اور ہمیں یہ ثابت ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن اس مشق کے محدود نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے___ کہ اسلام میں بھی جمہوریت ہے۔ اسلام دوسروں سے بڑھ کر حقوقِ انسانی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا ہے جو آج تک مغرب نے بھی نہیں دیا ہے۔ اسلامی حدود ظالمانہ نہیں بلکہ منصفانہ اور زیادہ رحم دلانہ ہیں‘ تو اس سے بھی دلوں کے جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوں گے۔ اس کے لیے عقلی اتفاق سے زیادہ رسولؐ پر اعتماد و محبت درکار ہے۔
چنانچہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم دعوت الی الرسالت کو اپنے ایجنڈے پر سرفہرست مقام دیں۔
نواے او بہ ہر دل سازگار است
کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست
امام مسلم [م: ۸۷۰ئ] روایت درج کرتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا: ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے‘ اس اُمت میں سے جو میرے بارے میں سنے‘ یہودی ہو یا عیسائی‘ پھر وہ جو میں لایا ہوں اس پر ایمان لائے بغیر مرجائے‘ وہ آگ میں جائے گا‘___ امام محی الدین نوویؒ [م: ۶۷۶ھ] کہتے ہیںکہ اس اُمت سے مراد ایک داعی اُمت ہے‘ یعنی آپؐ کی رسالت سے لے کر قیامت تک تمام اہلِ زمین کے لیے۔ لیکن امام غزالیؒ [م: ۱۱۱۱ئ] بڑی اہم بحث اٹھاتے ہیں: ’سننے‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف کانوں سے نام سن لینا؟___ نہیں‘ وہ کہتے ہیں‘ اس سے حضوؐر کی زندگی اور پیغام کے بارے میں اس طرح سننا مراد ہے‘ جو دل و دماغ کے ماننے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ جن پر سنانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ زیادہ آگ کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آج تو نہ ماننے والوں کی عظیم اکثریت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی سنا ہے‘ سنا ہے تو سرسری طور پر یا مخالفانہ انداز میں۔ جن لوگوں کو کماحقہٗ سنایا گیا ہے‘ وہ بھی براے نام ہیں۔ پھر اربوں انسانوں کے اپنے رسول اور آخری رسول پر ایمان نہ لانے کے لیے مسئول‘ ذمہ دار اور جواب دہ کون ہے؟ کیا ہم نہیں؟
جس طرح حضوؐر نے ایک ایک ملک میں اپنے ایلچی بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائدمسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں آپؐ کے ایلچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اسوئہ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراج منیر سے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔
یہ ایک قرض ہے جو ہم سب پر ہے‘ اور ہم میں ہر ایک کو اسے ادا کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ [ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۶ئ]
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۳ روپے (۲۰۰ روپے سیکڑہ)۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
1- Encounters and Clashes: Islam and Christianity in History, Rome, 1990.
۲- نارمن ڈینیل: Islam and The West: The Making of Image ‘ناشر: ایڈنبرگ یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۶۰ئ‘ ص ۳۰۱