سید قطب


[سورۃ القدر] میں اُس رات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط کے ساتھ استقبال کیا۔ یہ ملائِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اُس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت و اہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۲ۭ لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ  (القدر ۹۷:۱-۳) بے شک ہم نے اُسے شب ِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو! شب ِقدر کیا ہے؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں۔ وہ اللہ کے نور کو جو پُرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سُو بکھیر رہی ہیں۔ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ’’بے شک ہم نے اُسے ’شب ِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘

اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملائِ اعلیٰ کے مابین اُن کی آمدورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَـۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝۰ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۝۴ۙۛ ( ۹۷:۴) فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے ربّ کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اُترتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں:

سَلٰمٌ۝۰ۣۛ ہِيَ حَتّٰى مَطْلَــعِ الْفَجْرِ۝۵ۧ  (۹۷:۵) سرتا سر امن وسلامتی (کی رات)! یہ صبح کے طلوع ہونے تک۔

جس رات کا اِس سورت میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورئہ دخان میں اِس طرح ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳ فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۝۰ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ۝۵ۚ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶ۙ (الدخان ۴۴:۳-۶) بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے ربّ کی رحمت کے باعث ہے۔ یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے، جیساکہ سورئہ بقرہ میں ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۝۰ۚ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں فرق کرنے والی واضح تعلیمات ہیں۔

یعنی رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اُس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ ابنِ اسحاق ؒکی روایت ہے کہ سب سے پہلے سورئہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی رمضان المبارک کے مہینے میں نازل ہوئی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کے لیے غارِ حرا میں خلوت گزیں تھے۔

یہ رات کون سی ہے؟ اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی ۲۷ویں شب ہے۔ کچھ اور روایات سے ۲۱ویں شب۔ بعض دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہے اور کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی کوئی ایک رات ہے___ بہرحال زیادہ راجح بات یہ ہے کہ شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے۔

اس رات کا نام لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کیوں ہے؟

’قدر‘ کا ایک مفہوم ہے: ’منصوبہ بندی اور تدبیرِ امر‘۔ دوسرا مفہوم ہے ’قدروقیمت اور مقام‘ اور دونوں ہی مفہوم اس عظیم واقعے ___ قرآن، وحی اور رسالت کے سلسلے میں صحیح ہیں۔ کائنات میں اس سے زیادہ عظیم کوئی واقعہ نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی واقعہ بندوں کی تقدیر اور تدبیرِ امر سے متعلق ہے۔

’’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ قرآن مجید میںاس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی۔ اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیںاور حیاتِ انسانی پر اُن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے  انسانی زندگی پر ڈالے۔

اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے؟‘‘

اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے___ جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں، جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے___ نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبریل علیہ السلام اپنے ربّ کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ سورت اِن اُمور کی تصویر کشی کرتی ہے۔

ہم اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں جس کا مشاہدہ اُس رات زمین نے کیا اور اُس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں، تو ہم واقعتاً ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے؟‘‘ کہہ کر اُس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اُسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔

اِس رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے۔ اس میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔

نوعِ انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت، اس واقعہ __وحی__ کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی، دل کی سلامتی، گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو، جو اسلام نے اسے بخشی تھی___ کھو چکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب وتمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں، اُس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی کثرت ہے اور معاشی وسائل کی بہتات۔

جمیل نُور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور روحوں اور دلوں پر سلامتی کا جو فیضان تھا، وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اس نور اور ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے!

ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا، تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ __ وحیِ آسمانی__ اس میں رُونما ہوا،     اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپؐ نے ہمیں اس بات پر اُبھارا کہ شب ِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔

بخاری اور مسلم میں ہے: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ اور صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی نے شب ِ قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی، اُس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شب ِقدر‘ کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شب ِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور ’احتساب‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اسی صورت میں قلب کے اندر اُس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

تربیت کا اسلامی نظام، عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اُن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے، انھیں واضح کرنے اور انھیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لیے عبادات کو بطور ذریعہ کے استعمال کرتا ہے، تاکہ یہ ایمانی حقائق غوروفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انھیں حرکت بخشنے کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ان حقائق کا صرف نظری علم، عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ کسی اور طریقے سے ہی ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔

شب ِ قدر کی یاد اور اس میںایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت، اِس کامیاب اور بہترین اسلامی نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔ (فی ظلال القرآن)

وہ اسلامی معاشرہ، جو مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ وجود میں آرہا تھا، اس کے لیے کئی اجتماعی احکام سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ فرض عبادات کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کے احکام، سورت میں ایک مجموعے کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور دونوں ’تقویٰ اور خشیت الٰہی ‘ سے مربوط ہیں۔ اجتماعی احکام ہوں یا عبادات کی تفصیلات، دونوں کے ذکر کے بعد تقویٰ کا ذکر یکساں طور پر اور مسلسل آیا ہے۔ نیز یہ دونوں قسم کے احکام آیت ’بر‘ کے بعد، جو ایمانی فکرکے بنیادی اصولوں اور عملی رویے کے بنیادی احکام پر مشتمل ہے، بیان ہوئے ہیں۔

اسی سلسلے کی آیات ۱۷۸ تا ۱۸۸ ہیں۔ ان میں مقتولین کے قصاص اور اس کے سلسلے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ ان میں موت کے وقت وصیت کرنے کا بیان ہے، پھر فریضۂ صوم اور دُعا اوراعتکاف جیسی عبادات کا ذکر ہے، اور آخر میں مالی مقدمات کے سلسلے کے احکام ہیں۔

ان اُمور کا مسلسل ذکر اس دین کی جس حقیقت کی طرف ہمارے ذہن کو متوجہ کرتا ہے، وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس کے اجتماعی احکام، اس کےتشریعی اصول اور اس کی عبادات، سب کے سب اسلام کے عقیدے ہی سے پھوٹتے ہیں۔ سب اس کُلی فکر سے، جو اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے، نکلتے ہیں۔ اور سب اللہ سے تعلق کی ایک رسّی سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان سب کی غایت ایک ہے اور وہ ہے واحد اللہ کی عبادت، جس نے پیدا کیا، جو رزق دیتا ہے، اور جس نے انسانوں کو اپنی اس مملکت ’زمین‘ میں اپنا ’خلیفہ‘ بنایا اور ’خلافت‘ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لائیں، اس کی عبادت بجا لاکر اسی کی طرف متوجہ ہوں، اور اپنی فکر، اپنےاجتماعی احکام اور اپنے قوانین، سب اسی سے حاصل کریں۔

تقویٰ وہ مضبوط رسّی ہے، جو انسانی نفوس کو ظلم و زیادتی سے روکے رکھتی ہے۔ ظلم و زیادتی قتل کے اقدام کی صورت میں ہو، ظلم یا قتل کا بدلہ لینے کی صورت میں۔ یہ تقویٰ کیا ہے؟ دلوں کا احساسِ ذمہ داری، اللہ کے غضب سے بچنے کی فکر اور اس کی رضا اور خوشی کی طلب ہے۔

تقویٰ کے بغیر نہ شریعت قائم ہوسکتی، نہ کوئی قانون کامیابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ پھر اجتماعی قوانین اور ادارے، جو احساسِ ذمہ داری اور خوف اور اجر کے جذبات سے عاری ہوں، فرد کی قوت سے زیادہ قوت کے حامل نہیں ہوسکتے۔

روزے کا مقام اور مقصد

یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دُنیا میں قائم کرنے، اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے، اس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور پختہ عزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ ذریعہ ہے، جہاں بندہ اپنے ربّ سے اطاعت و اختیار کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی تقاضوں کی طلب پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو اس لیے اُٹھاتا ہے، برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں سے اجر حاصل ہو۔

حقیقت میں یہ راہ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے، جس کے چاروں جانب مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں، اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اُٹھتی رہتی ہیں ___ان سے منہ موڑنے اور فطری تقاضوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے اور نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔

روزے کے وہ فوائد اس کے علاوہ ہیں، جو تجربے اور مشاہدے سے جسمانی وظائف میں منکشف ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی میلان یہ ہے کہ عبادت کے سلسلے میں خدائی ہدایات کو حسی و مادی فوائد سے وابستہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان ہدایات میں خدا کی اصل حکمت یہ ہے کہ انسانی وجود کو زمین میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارکیا جائے، اور اُخروی زندگی میں اس کے لیے جو کمال مقدر ہے، اس کے لیے اس کی تربیت کی جائے۔

اس کے باوجود میں اسے پسند نہیں کرتا کہ ان فرائض اور ان خدائی تعلیمات کے جو فوائد مشاہدے میں آئے ہیں ، یا جن کا انکشاف علمِ انسانی سے ہوا ہے ، ان کا انکار کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے جو فرائض متعین کرتا ہے اور جن اُمور کی وہ ہدایت دیتا ہے، ان سب میں اس انسانی وجود کے لیے خدائی تدبیر کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اور ان میں یہ فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہم خدائی احکام کی حکمت کو انسانی علم کے ان انکشافات سے وابستہ نہیں کرسکتے۔ اس انسانی علم کا دائرہ بہرحال محدود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ، جس کے تحت خالق انسانی وجود کی تربیت کر رہا ہے یا جس کے تحت اس کائنات کو پروان چڑھا رہا ہے ___احاطہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ روزے کے احکام کی ابتدا ’’اے ایمان والو!‘‘ کی اس ندا سے کرتا ہے جو اہلِ ایمان کو محبوب ہے۔ اس ندا سے وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا اور انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہرخدائی شریعت میں اہلِ ایمان پر فرض رہا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ اُمید ہے کہ تم خداترس بنو گے۔

اس آیت سے روزے کی عظیم غرض و غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن روزہ کے فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت، اس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے، خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میں تقویٰ کا کیا وزن۔ یہی ان کی منزلِ مقصود تھی، جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے ان کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے ذریعے سے وہ اس منزل کا رُخ کرسکیں: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔

قرآن، اس کے بعد، نفسِ انسانی کو روزہ سے مانوس کرنے کے لیے، واضح کرتا ہے کہ روزے ہمیشہ کے لیے اور عمربھر نہیں رکھنے ہیں، صرف چند دن کے روزے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماروں کو___جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائیں اور مسافروں کو جب تک وہ مقیم نہ ہوجائیں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے، تاکہ وہ دشواری میں نہ پڑیں۔

پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ سفر اور مرض کے علاوہ ہرحال میں روزہ رکھیں، خواہ انھیں تکلیف اور مشقت سے دوچار ہونا پڑے:

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴ (البقرہ ۲:۱۸۴) تم روزہ رکھو، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم علم (وفہم) رکھتے ہو۔

روزہ ہر حالت میں سرتاسر خیر ہے۔ روزہ کے سلسلے میں جو بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ روزہ ارادے کی تربیت، قوتِ برداشت کی تقویت اور راحت و آرام کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کو ترجیح دینے کے لیے ہے، اوریہ سب اُمور اسلامی تربیت میں مطلوب ہیں۔ غیرمریض کے لیے روزے میں صحت کے پہلو سے جو فوائد ہیں، وہ مزیدبرآں ہیں۔ اس لیے خواہ روزہ دار کو تکلیف اور مشقت محسوس ہو، روزہ ہی اس کے لیے بہتر ہے۔

رمضان کی اہمیت

اللہ تعالیٰ تندرست اور مقیم کے لیے اس فریضے کی ادائیگی کو ایک اور پہلو سے بھی مرغوب و محبوب بناتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ رمضان کے روزے ہیں۔ اس مہینے کے روزے جس میں قرآن نازل ہوا۔ وہ قرآن جو اس اُمت کی دائمی و ابدی کتابِ ہدایت ہے، جو اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائی۔ جس نے اسے یہ وجود عطا کیا، جس نے اس کے خوف و ہراس کو امن و امان سے بدل دیا۔ جس نے اسے زمین میں غلبہ و اقتدار بخشا اور جس نے اسے وہ تمام بنیادی عناصر عطا کیے، جن سے وہ ایک اُمت بنی۔ قرآن سے پہلے وہ کچھ بھی نہ تھی اور ان بنیادی عناصر کے بغیر وہ ایک اُمت نہیں رہتی۔ نہ زمین میں اس کا کوئی مقام رہتا اور نہ آسمان میں اس کا کوئی ذکر۔ قرآن کی اس نعمت کا کم سے کم شُکر یہ ہے کہ ہم اس مہینے کے روزے رکھیں جس میں قرآن نازل ہو:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ انسانوں کے لیے سرتاسر ہدایت۔ جس میں راہِ راست کے واضح دلائل اور (حق و باطل کے درمیان) فرق و امتیاز کرنے والی تعلیمات ہیں۔ تو تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے وہ اس (مہینے) کے روزے رکھے۔

دین آسان ہـے!

قرآن اس فریضہ کی ادائیگی کا شوق دلاتے ہوئے اس حکم کے دینے اور رخصتیں عطا کرنے، میں اللہ کی یہ رحمت بیان کرتا ہے:

يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ(البقرہ ۲:۱۸۵) اللہ تمھارے لیےسہولت چاہتا ہے، تمھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

اس عقیدے اور اس دین کے تمام احکام کے سلسلے کا یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ یہ سب احکام آسان ہیں، ان میں کوئی دشواری نہیں۔ ہر باذوق دل یہ بخوبی محسوس کرتا ہے کہ پوری زندگی میں یہ احکام سہولت اور نرمی کے حامل ہیں۔ یہی نہیں، یہ احکام مسلمان فرد پر سہولت اور فراخی کی چھاپ لگادیتے ہیں، جس میں کوئی تکلف اور پیچیدگی نہیں ہوتی۔ نرمی اور فراخی کی اس خصوصیت کے ساتھ تمام ذمہ داریاں، تمام فرائض اورسنجیدہ زندگی کی تمام سرگرمیاں حُسن و خوبی کے ساتھ اس طرح ادا ہوتی ہیں گویا کہ پانی اپنی گزرگاہ میں آسانی کے ساتھ بہہ رہا ہے، یا ایک درخت ہے جو اُوپر کی جانب بڑھتا اور نشوونما پاتا چلا جارہا ہے۔ اور یہ سب کچھ طمانیت ، اعتماد اور اللہ کی رضا و خوشنودی کی فضا میں ہوتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ کی رحمت کا مسلسل شعور رہتا ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے لیے سہولت پیدا کرتا ہے، انھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

روزہ پر شُکر

روزہ درحقیقت ایک ایسی نعمت بھی ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے:

وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵   (البقرہ ۲:۱۸۵) اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اس بات پر کہ اس نے تمھیں ہدایت سے نوازا۔ اور اُمید ہے کہ تم (اس کا) شکر ادا کرو گے۔

اس لیے کہ روزہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان اس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں، جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہلِ ایمان، ہرزمانے سے زیادہ اس ہدایت کی قدر و قیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں  ان کے دل خدا کی نافرمانی سے اور ان کے اعضاء و جوارح گناہ کے ارتکاب سے رُکے ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے   چھو رہے ہوں۔ اور یہ سب اس لیے کہ وہ اس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی عطا پر اس کا شکر ادا کریں، اور روزے کےذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ، جو بظاہر جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے، اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کی غرض اور مقصد مومن کی تربیت ہے، اور اُمت مسلمہ کو اس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے، جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اس رول کی ادائیگی کی حفاظت تقویٰ، اللہ کے نگران و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔

روزے کا عظیم اجر ___ قربِ الٰہی

قبل اس کے کہ روزے کے اوقات، اور روزے میں مختلف چیزوں سے متمتع ہونے اور ان سے باز رہنے کے تفصیلی احکام بیان ہوں، ہم درمیان میں ایک بڑی منفرد آیت پاتے ہیں۔ یہ آیت دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی جاتی ہے۔ اس آیت میں ہم روزے کی مشقت کا پورا اور اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے کا پورا اجر پاتے ہیں۔ یہ جزا کیا ہے؟ اللہ کا قرب، اور اس کا ہماری دُعائوں کو قبول فرمانا۔ اس حقیقت کی تصویرکشی ایسے صاف شفاف اور چمکتے الفاظ سے کی گئی ہے:

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶  (البقرہ ۲:۱۸۶)جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں۔ میں پکارنے والے   کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں۔ تو انھیں چاہیے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے وہ راہِ راست اختیار کرسکیں گے۔

’’میں قریب ہی ہوں! میں پکارنے والے کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں‘‘ ___کتنی نرمی، کتنی شفقت، کتنی محبت، کتنا انس اور کتنا نُور ہے، ان الفاظ میں۔ اس محبت، اس شفقت اور اس قرب کے مقابلے میں روزے کی مشقت کی کیا حیثیت ہے؟ آیت کے ایک ایک لفظ سے یہ محبوب طراوت اور ٹھنڈک ٹپکی پڑتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ میرے بندے نے کہا اور سوال کا جواب براہِ راست خود دیا۔ یہ نہیں فرمایا: ’’ان سے کہو، میں قریب ہوں‘‘۔ اس کے بجائے اللہ کی ذات گرامی نے سوال کرنے پر اپنے بندوں کو خود ہی جواب عطا فرمایا کہ ’’میں قریب ہوں‘‘۔ اسی طرح یہ نہیں فرمایا کہ ’’میں دُعا کو سنتا ہوں‘‘۔ اس کے بجائے قبولیت ِ ِ دُعا کا اعلان کیا کہ ’’میں دُعا کرنے والے کی دُعا کو، جب وہ مجھ سے دُعا کرتا ہے، قبول کرتا ہوں‘‘۔

یہ عظیم الشان آیت مومن کے قلب میں شیریں طراوت، انس و محبت، رضا و طمانیت اور اعتماد و یقین کو انڈیل دیتی ہے، اور اس کے نتیجے میں مومن کی زندگی اطمینان و سکون اور محبت و قربت سے لبریز ہوتی اور مومن کو ایک پُرامن جائے پناہ اور پُرسکون جائے قرار نصیب کرتی ہے۔

اس محبت، اس پُرخلوص قرب اور خدا کی طرف سے قبولیت ِ ِ دُعا کی اس بشارت کے سائے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیںاور اس پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے کہ یہ روش ان کی ہدایت و رُشد اور خیروصلاح کا ذریعہ بنے گی۔

اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے اور اس پر ایمان و یقین رکھنے کا آخری ثمرہ بندوں ہی کے لیے ہے۔ یہ ثمرہ ہے رُشد و ہدایت اور خیروصلاح کا۔ ورنہ اللہ تو اہلِ جہاں اور ان کی عبادت و اطاعت سے بے نیاز ہے۔

اللہ پر ایمان و یقین اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے جو رُشد پیدا ہوتی ہے ، رُشد بس وہی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے نوعِ انسانی کے لیے جو خدائی نظام پسند کیا ہے وہ واحدصحیح، راست اور معتدل نظام ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ جاہلیت و حماقت ہے، جسے نہ کوئی سمجھ دار اور راست رو انسان پسند کرسکتا ہے اور نہ وہ رُشد و ہدایت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اللہ کے یہاں سے بندوں کی دُعائوں کی قبولیت کی اُمیداسی وقت کی جاسکتی ہے، جب کہ بندے اس کی دعوت پر لبیک کہیں، اور راہِ راست پر گامزن ہوں۔ بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ سے دُعا کریں، اور اس کی قبولیت کے سلسلے میں جلدبازی نہ کریں کیونکہ دُعا اپنے وقت پر ہی قبول ہوگی، جسے اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت متعین فرماتا ہے۔

دُعا کی قبولیت

ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت سلمانؓ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے پھیلائے، اور اس سے کسی بھلی چیز کا سوال کرے، اور وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔

ترمذی اور مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

زمین کی پشت پر رہنے والا جو مسلمان بھی اللہ عزوجل سے کوئی دُعا مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس جیسی کسی مصیبت کو آنے سے روک دیتا ہے، جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحم کی دُعا نہ کرے۔

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بندے کی دُعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے، جب تک وہ جلدبازی نہ کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! جلدبازی کیا ہے؟ فرمایا: دُعا کرنے والا کہے کہ میں نے دُعا کی، اور پھر کی، لیکن مجھے نظر نہیں آرہا کہ میری دُعا قبول ہوگی۔ پھر وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

اور روزہ دار کی دُعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے، جیساکہ امام ابوداؤد طیالسیؒ نے اپنی مسند میں اسناد کے ساتھ روایت کیا:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ انھوں نے فرمایا: روزہ دار کے افطار کے وقت اس کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ جب روزہ افطار کرتے تو اپنے اہل و عیال کوبلاتے اور دُعا کرتے۔

اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

روزے دار کی دُعا ، جو وہ افطار کے وقت کرے، رَد نہیں ہوتی۔

اور احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین اشخاص ہیں، جن کی دُعا رد نہیں ہوتی۔ عادل فرماں روا، روزہ دار، جب کہ وہ افطار کرے، اور مظلوم کی دُعا جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بادلوں سے اُوپر اُٹھائے گا۔ اس کی دُعا کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’میری عزّت و جلال کی قسم! میں تیری ضرورمدد کروں گا، خواہ کچھ مدت بعد ہو‘‘۔

اسی لیے روزے کے بیان کے درمیان میں دُعا کا ذکر آیا ہے۔

حرام و ناحق مال کھانـے کی ممانعت

روزہ رکھنے اور روزے کے دوران کھانے پینے سے باز رہنے کے حکم کے زیرسایہ ایک اور قسم کے کھانے کی ممانعت آتی ہے۔ اور وہ ہے’’لوگوں کے مالِ ناحق طور پر کھانا‘‘۔ اس کی شکل یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے، اور قرائن و حالات اور دستاویزوں کے سلسلے میں حاکم کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے، پھر چرب زبانی اور حجت بازی سے اسے دھوکا دیا جائے، تاکہ وہ ان حالات کے مطابق فیصلہ کردے جو اس کے سامنے آئے ہیں، حالانکہ حقیقت واقعی اس کے خلاف ہے۔ یہ ممانعت حدود اللہ کے ذکر اور اللہ سے تقویٰ کی دعوت کے بعد کی گئی، تاکہ خشیت ِ الٰہی کا، جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کے ارتکاب سے انسان کو روکتی ہے، سایہ اور اثر برقرار رہے:

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ آپس میں اپنے مال ناحق طور پر نہ کھائو، نہ انھیں حکام کے پاس لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کرکے ہڑپ کرلو، جانتے بوجھتے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایک ایسے شخص کے سلسلے میں ہے جس کے پاس کسی کا مال ہو مگر اس ضمن میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، پھروہ انکار کردے کہ اس کے پاس کسی کا مال ہے۔ اور وہ حکام کے پاس جاکر مقدمہ بازی کرے، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس پر دوسرے کا حق ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ دوسرے کی حق تلفی کررہا ہے، اور حرام کھارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایک انسان ہوں۔ میرے پاس کوئی شخص مقدمہ لے کر آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ تم میں سے وہ شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور میں (اس کے دلائل سے متاثر ہوکر) اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ تو اگر میں (غلطی سے) کسی مسلمان کا حق دوسرے شخص کو دے دوں، تو یہ اس کے لیے دوزخ کی آگ کا ایک ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسے اُٹھا کرلے جائے یا اسے چھوڑ دے‘‘۔

اس طرح وہ انھیں ان کے اس علم کے حوالے کردیتا ہے، جو وہ اپنے دعوے کی حقیقت و اصلیت کے بارے میں رکھتے ہیں، کیونکہ حاکم کے فیصلے سے نہ حرام حلال ہوتا ہے اور نہ حلال حرام۔ حاکم کے لیے تو لازم ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کرے، اور گناہ اس شخص پر ہوگا جو حیلے بہانے کرکے غلط فیصلہ کرالے۔

اس طرح مقدمہ اور مال و دولت کا معاملہ بھی اللہ کے تقویٰ سے متعلق ہوجاتا ہے، جیساکہ قصاص، وصیت اور روزہ بھی تقویٰ سے متعلق و مربوط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اُمور کامل خدائی نظام کے جسم کے مختلف مربوط اعضاء و اجزاء ہیں اور یہ سب ایک ہی رشتے ’تقویٰ‘ سے مربوط ہیں۔ اس طرح خدائی نظام ایک وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کے اجزاء کو متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے کسی ایک جزو کو ترک کر دینا اور دوسرے جزو پر عمل کرنا، کتابِ الٰہی کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کے انکار کے مترادف ہے اور انجام کے لحاظ سے یہ کفر ہی ہے۔

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۹۶ (اعراف ۷:۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔

یہ اللہ کی سنت جاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے، اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے، تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا اور بلاحساب ان کو دیتا رہتا۔ آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن نے جو اندازِ تعبیر اختیار کیا ہے، اس کے پیش نظر ہم اسے ہرطرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو کسی ایک جنسِ ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے، یعنی ہرقسم اور ہر نوع کی فراوانی۔

اس آیت میں ہم پر ایک عظیم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا تعلق بہ یک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی۔ اس کے اندر انسانی تاریخ کا ایک اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ دُنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے زندگی نے اس اہم عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔

وہ عنصر ہے اللہ پر ایمان اور اس سے تقویٰ۔ یہ عنصر انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ انسانی تاریخ سے بلکہ ایمان باللہ اور تقویٰ وہ چیزیں ہیں ،جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکات نازل فرماتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں، ہمارا شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں، اور اس آیت کے مفہوم و مُدعا کی تصدیق میں لمحہ بھر تردّد بھی نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب۔ اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کے بعد، ہم اللہ کے اس عہد پر غوروفکر کرتے ہیں، کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غوروفکر کرو، اور غوروفکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت اور حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجودہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح و سالم ہے۔ اس شخص کے ذہن میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام اُمور عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔

اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے، جو انسان کے جوہرِانسانیت کو آگے بڑھاتی ہے۔  یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انھیں ایک جہت اور رُخ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانی شخصیت، اللہ کی قوت کی مدد سے اس جہت میں آگے بڑھتی ہے۔ اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے قیام کے لیے جدوجہد کرتی ہے، اور اس کرئہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجتاًاس کرئہ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان زمین کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتا ہے۔ اس طرح کا انسان آخرت کے ساتھ ساتھ، خود اس دُنیا کی عملی زندگی میں بھی کامیاب رہتا ہے۔

اللہ پر پختہ ایمان انسان کو اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تمام غلامیوں سے آزاد صرف اللہ کا غلام انسان ہی اس کرئہ ارض پر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا، جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔

خدا کا خوف ایک دانش مندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسان سرکشی، غرور، بےراہ روی جیسے اخلاقی عیبوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیارکرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کااسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔

ایک صالح انسان کی زندگی توازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ قدم آگے بڑھانے اور پیش آنے والی رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پرمحنت کرتا ہے اور آسمانوں کی طرف نظریں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس ، سرکشی اور حق تلفی سے پاک ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہروقت خوفِ خدا ہوتا ہے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس غالب ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے، اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اُوپر برکاتِ الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ اس کے کام میں خیروبرکت ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح کا سایہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔

وہ برکات جو مومنین اور اہلِ تقویٰ پر سایہ فگن ہوتی ہیں، جو مختلف النوع ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں، لیکن وہ برکات یقینا موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں، ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہرجانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے اور ہرطرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اس سے مراد ہرقسم و نوع کی برکات ہیں۔ ہرشکل و صورت میں ان کا نزول ہوتا ہے۔ بعض برکات ایسی ہیں، جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے تقویٰ کرنا، محض نجی مسئلہ ہے، اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ایسے لوگوں نے دراصل ایمان کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ وہ دیکھیں کہ اللہ کے نزدیک تو ایمان کا عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق موجود ہے، اور اس پر خود اللہ گواہی دے رہا ہے، اور اللہ کی شہادت کافی شہادت ہے اور اللہ اسے ان باتوں سے متعلق کرتا ہے جن کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عملی اور اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اُوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہلِ تقویٰ میں سے ہیں، لیکن ان پر ہرطرف سے رزق کی بارش ہورہی ہے۔ ان کے پاس بے پناہ قوت ہے اور وہ دُنیا میں بااثر ہیں۔ لہٰذا، سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے، وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی؟‘‘

دراصل ایسے لوگوں نے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں لا الٰہ اِلَّا اللہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔ ’یہ‘ غلام ان کے الٰہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے لیے قانون بناتے ہیں، بلکہ ان کے لیے حُسن و قبح کی اقدار بھی تجویز کرتے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں؟ مومن کا تو فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہٹادے جو ان پر مقتدراعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ مومن کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و ربّ نہ بنائے، جو ان پر اپنے قوانین اور اپنا نظام نافذ کرے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی، ان پرآسمان و زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی ،اور ان کے ساتھ ان کے ربّ کا وعدہ سچا تھا، کیونکہ وہ خودسچے تھے۔

رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے: ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَۃِ الْحَسَـنَۃَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ (اعراف ۷:۹۵)’’پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں‘‘۔ ان لوگوں پر جو انعامات ہوتے ہیں وہ دراصل ان کے لیے ابتلا و آزمایش ہے، اور یہ ابتلا، مصیبت کی ابتلا سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

 کفّار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہلِ ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں، ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت ِ الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اُٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مال دار اقوام ایسی ہیں، جو پریشانی اور  عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ بظاہر وہ نہایت ہی امن و امان سے زندگی بسرکرتی ہیں، مگر  ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افرادِ معاشرہ کےدرمیان بے چینی کا دوردورہ ہے، اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسامان کی کثرت مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہرچیز کی فراوانی ہے، لیکن لوگ بدکردار ہیں۔ ان کی خوش حالی ہی ان کے بُرے مستقبل کا پتا دے رہی ہے۔ یہ خوش حالی ان کے لیے انتقامِ الٰہی کا سبب ہے۔

اہلِ ایمان کو جو برکات ملتی ہیں،ان کے کئی رنگ ہیں۔ ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی ذات میں برکت ہوتی ہے، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے، اور اس کے اندر سکون واطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہرطرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جسمانی اور نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو۔

سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔  سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح  کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ادارہ

پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی حقیقت

موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔
تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔
میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھل پھول نکلتے ہیں۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، اورسمندروں میں موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔ اس کی موجیں اچھلتی، کودتی اورجوش مارتی رہتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس ہوتا ہے نہ وہ اسے دکھائی دیتی ہے۔
بسااوقات، جب موت زندگی کے جسم کو ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان ، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گا م زن رہتے ہیں۔ اس طرح روے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے۔ موت کہیں کونے میں دبکی رہتی ہے۔ پھر اسی دوران میں اچانک ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے، جسے وہ اٹھالیتی ہے۔
سورج نکل رہا ہے اور غروب ہو رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اُدھر نکل رہی ہیں___ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی۔ کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی۔ اگر موت، زندگی کو نگل جانے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھیرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت دکھائی دیتی ہے۔ زندۂ جاوید، اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپل نکلتی ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔

دوسرا خیال:طویل زندگی کا راز، مقصد کے لیے جینا

ہم جب صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر، معمولی اور حقیر نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی اس کاآغاز ہوتاہے اور محدود عمر کے اختتام کے ساتھ ہی اس کاخاتمہ۔
لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی مقصدکے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور گہری نظرآتی ہے۔ اس کاآغاز وہاں سے ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنوں میں ہوتاہے، نہ کہ خیالی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
زندگی برسوں کی گنتی کانام نہیں ہے،بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو عقلیت پسندوں کا گروہ وہم اور تصوراتی چیز قرار دیتا ہے، وہ اصل میں ’حقیقت ‘ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت!
اس لیے کہ زندگی انسان کے شعورِ حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔کسی انسان سے اس کا شعورِ حیات چھین لیا جائے تو حقیقت میں وہ زندگی ہی سے محروم ہو جائے گا، اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث اور جھگڑے کی ضرورت نہیں۔
ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا، خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیںگے۔

تیسرا خیال: خیر  کی مضبوطی اور ’شر‘ کی کمزوری

’شر‘کا بیج لہلہاتا ہے، لیکن ’خیر‘ کا بیج پھل دیتا ہے۔ ’شر‘ کا درخت فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں گہری نہیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی پھیلی ہوئی شاخیں ’خیر‘ کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتیں،جب کہ ’خیر‘ کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم ’شر‘ کے درخت کے پُرفریب اور زرق برق مظاہر کی چکاچوند سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور مضبوطی کاجائزہ لیتے ہیں، تو وہ ہمیں بہت کم زور اور خستہ دکھائی دیتا ہے، اور اس میں کوئی حقیقی پاے داری نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ’خیر‘ کادرخت آزمایشوں پر جمارہتا ہے، آندھی اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پُرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور ’شر‘ کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔

چوتھا خیال: خیر کی حوصلہ افزائی کیجیے!

ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر بھی موجود ہے، جوپہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔ بہت سے لوگوں میں، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جن کے بارے میں ابتدا میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے عاری ہیں۔
ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑااظہار کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب بغیر کسی بناوٹ کے معمولی توجہ تو دیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیںگے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیںگے، وہ اگرچہ مقدار میں معمولی اورحقیر ہوگا، لیکن اس کے بدلے میں وہ والہانہ پن سے اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیںگے۔
نفسِ انسانی میں شرکی جڑیںاتنی گہری نہیں ہوتیں،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ پھل کے اس اوپری سخت چھلکے کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر سے شیریں و لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ شیریں پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد ، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔
ابتدا ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں، اور یہ اس سے قریب تر ہوگا جس کی لوگ توقع کرتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی ذات پر اسے برتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں۔

پانچواں خیال: ہمدردی اور محبت کا بیج پروان چڑھایئے!

ہم اپنے دلوں میں اگر محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھالیں، تو اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں، زحمتوں اور بے جا تکلیفوں سے بچالیں گے۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوںگے۔ ہم ان کے دلوں میں خیر کے چھپے خزانوں کو پالیں گے، اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیںگے، جن کی صدق دل سے تعریف وتحسین کرسکیں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، کہ جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمۂ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن افسوس کہ ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے، جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں۔ اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہم دردی کا بیج پروان چڑھے گا، تو ان کی کم زوریوں اورخامیوں کے مواقع پر ہم ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کریںگے اور ان کم زوریوں سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیںگے۔
اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے پہلو بچانے کی پریشانی میں نہیں ڈالیںگے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں میں خیر کے بیج کی نشو ونما اچھی طرح نہیں ہوتی اور ہم دوسروں سے اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ خود ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔
ہم خود کو کتنی طمانینت، راحت اور سکینت پہنچائیںگے، جب دوسروں کو اپنی ہم دردی اور اعتماد کی سوغات پیش کریںگے، تو ہمارے دلوں میں محبت اور خیر کے بیج پروان چڑھیںگے۔

چھٹا خیال:حقیقی عظمت گھل مل کر رہنے میں ہے

ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر، کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقل ان سے زیادہ تیز ہے، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ،بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
 حقیقی عظمت اس میں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں۔ ان کی کم زوری، خامی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں، اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کی گھٹیا حرکتوں پر ان کی مدح وثنا کریں، یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی حقیقی عظمت ہے۔

ساتواں خیال: دوسروں سے تعاون چاہنا ، کوئی عیب نہیں

ہم جب قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اُن لوگوں سے مدد طلب کرنے کی صورت میں بھی نہیں، جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں۔
 اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں سے تعاون لیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں اپنی عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں، یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کے سرہونے میں اُن کی مدد کا بھی دخل تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے اوپر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یا ہم بالفعل کسی پہلو میں  کم زور ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم فی الواقع طاقت ور ہوں، تو ہمیں اس کا ہرگز احساس نہیں ہوگا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتا ہے، جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم طاقت و قوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیںگے، تو دو سر وں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریںگے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی، اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمے داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ یقین کریں کہ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔

آٹھواں خیال: ہمارے افکار کی قبولیت ، مقامِ مسرت ہـے

اگر ہم اپنے افکارو عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ بلاارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہوجاتے ہیںاور ان سے نسبت رکھنے والا انھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔
حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںرُوبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہوجائیں۔
یاد رہے، صرف تاجرہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں، اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجاے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔
 وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکّہ بند’مالک‘ ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔

نواں خیال: ’حقائق‘ اور ’فہم‘ میں  فرق ہـے

’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘___ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔
 پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے،جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوںاور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں:علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جاملتا ہے۔

دسواں خیال: اعلٰی روحانی قوت کا حصول

ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں، بلکہ اس میں انھیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو، جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں، یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔
رہنمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ، جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انھیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم ،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں،یا علم کے نام پر مذہب سے محاذآرا۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں ،یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں،اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔
اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔

گیارھواں خیال: فہم سے بالاتر چیزوں کے بارے میں مناسب رویہ

خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’ نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدروقیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھرجاتاہے۔ اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر___ انتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجزہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ اِدراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزررہاہے۔
انسانی عقل کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم ‘ کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں ، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں،بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔
اسی طرح اس کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

بارھواں خیال: اللہ کی عظمت کااعتراف اور انسان کی قدروقیمت

اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے: ’’انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں ،جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔
جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتاہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔

تیرھواں خیال:غلامی آزادی کے لبادے میں

بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔
ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوںنے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے گزارا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟
دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلندہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے ۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا ، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔

چودھواں خیال: بے عملی کا نظریہ، زندگی نہیں موت ہـے

میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟
اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے ،جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔
پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ،ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔
اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔
نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسااوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کردیاجائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔

پندرھواں خیال : گھٹیا ذریعے سے پاکیزہ مقصد کا حصول درست نہیں

میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟
ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیںگے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔
روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیمیںنہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔
’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے‘‘___ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کاپرتو اپنے ذہن ودماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرناذہنی طور پر ہی ممکن ہے،عمل کی دنیا میں نہیں۔

قرآن کی زبان میں مشاہدِ قیامت سے مراد زندگی بعد موت، محاسبۂ اعمال، جنت اور دوزخ ہے۔ قرآن نے اس دنیا کے بعد جس عالمِ آخرت کا لوگوں سے وعدہ کیا ہے اس کے محض ذکر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے ایک محسوس زندہ و متحرک اور اُبھرتی ہوئی نمایاں شکل میں پیش کرکے اس کی مکمل و مجسم تصویر لوگوں کے سامنے رکھ دی ہے۔ مسلمانوں نے اس عالمِ آخرت میں اپنی زندگیاں پورے احساسات و جذبات کے ساتھ گزار دی ہیں۔ ان کی آنکھوں نے اس کے مناظر کو دیکھا ہے اور ان کے دل و دماغ نے ان سے گہرا تاثر قبول کیا ہے۔ ان کے مشاہدے سے ان کی قلبی کیفیات لحظہ بہ لحظہ بدلتی رہی ہیں۔ کبھی ان کے دلوں پر گھبراہٹ اور کبھی ان کے جسموں پر  کپکپی طاری ہوئی ہے۔ ایک گھڑی ان کے دلوں میں خوف و ہراس اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے، تو دوسرے لمحے وہ لذت آشناے سکون و اطمینان ہوئے ہیں۔ کبھی دوزخ کی آگ کی لپٹوں سے  ان کے جسم جھلس جھلس گئے ہیں اور کبھی نسیمِ بہشت کی تھپ تھپاہٹ سے انھیں راحت و آسودگی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح گویا انھوں نے اس مقررہ دن کی آمد سے قبل ہی اپنے شب و روز اس حیاتِ جاوداں کی روح فرسا سختی اور لذت افزا راحت سے پوری طرح آشنا رہ کر گزارے ہیں۔

یہ عالمِ آخرت بڑا وسیع و عریض ہے۔ اس کی وسعت و کشادگی ایسی ہی ہے جیسی عقیدۂ اسلامی میں وضاحت و صراحت، یعنی موت، موت کے بعد دوبارہ زندگی، پھر جنت و دوزخ۔ وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور عملی زندگی میں نیکی کی روش اختیار کریں گے، ان کے لیے جنت ہوگی جس میں انھیں لازوال ابدی نعمت نصیب ہوگی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو کفر و انکار کی راہ چلیں گے اور  دربارِ الٰہی میں اپنی حاضری کو جھٹلائیں گے، ان کے لیے دوزخ کی آگ ہوگی جو اَبدی عذاب کی ایک شکل ہے۔ نہ وہاں کوئی سفارش کام آئے گی، نہ فدیہ دے کر عذاب سے چھٹکارا ہوگا،نہ باریک تول والی میزانِ عدل میں بال برابر بھی کوئی فرق ہوگا۔ اعمال کا تول پورا پورا ہوگا۔ ہرایک کو اپنے کیے کی پوری جزا ملے گی۔ جو شخص اس دنیا میں ذرّہ بھر نیکی کرے گا وہاں اس کا بدلہ پالے گا، اور جو شخص اس دنیا میں ذرّہ بھر برائی کرے گا وہاں اس کی سزا پالے گا۔ وہ دن ایک ایسا دن ہوگا کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی جگہ بدلہ پائے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی جگہ جزا۔

قرآن کی بیان کردہ یہ کھلی اور واشگاف حقیقت مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی چھاپ ایک ایسے عالَم پر لگی ہوئی ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوئوں پر حاوی، ٹھوس اور جان دار مناظر پر مشتمل ہے۔ یہ مختلف اوضاع اور مختلف پہلوئوں کے حامل معاشروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ قرآن کا اندازِ بیان اتنا جامع اور سحرانگیز ہے کہ جب تعذیب خانوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس عجیب و غریب انداز میں کہ کانوں سے سن کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور قوتِ متخیلہ اس کی تائید کرتی ہے، اور جب راحت بخش قیام گاہوں اور ٹھنڈے اور گھنے سایوں کا ذکر ہوتا ہے تو قوتِ احساس و ادراک پر حالتِ محویت و استغراق طاری ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ قرآن میں اس ادبی فراوانی اور فنی کمال کے لیے صفحات پر صفحات وقف ہوتے چلے جاتے ہیں جن کی حیثیت بالکل منفرد قسم کی ہے۔ دنیا کے ادبی سرمایے میں نہ ان کی کوئی نظیر ہے نہ مثال....

روزِ قیامت اور اس کی ھولناکی

ان مشاہد کا ایک اہم مقصد قیامت کے دن کی ہولناکیوں کی منظرکشی ہے۔ وہ ہولناکیاں کہ جن کی وجہ سے کائنات کا ذرہ ذرہ لرزہ براندام ہوگا۔ نوعِ انسانیت پر عالمِ سراسیمگی طاری ہوگا اور مارے خوف کے وہ کانپ رہی ہوگی۔ قریب قریب کوئی ایک منظر بھی ایسا نہیں جس میں سب زندہ نفوس شامل نہ ہوں۔ خوف و دہشت کی وجہ سے کائنات اور فطرت کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہوگی سواے اس کے کہ اس میں کسی نہ کسی نوع کی زندگی کے آثار موجود ہوں۔ کسی منظر میں نمودار ہونے والے وجود کبھی تو جملہ افراد فطرت ہوتے ہیں اور کبھی یہ پوری نوعِ انسانی کے گوش بر آواز و نگاہ بر انجام، نفوس یا انواع و اقسام کی حیوانی مخلوقات___ اور کبھی میدانِ حشر میں یہ بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی۔ پھر کسی وقت یہ افراد ہستی خاموش فطرت کی شکل میں، کبھی بے زبان حیوان کی صورت میں اور کبھی انسان کی حیثیت میں برابر نمودار ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ o وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ o وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ o وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ o وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ o وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ o وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ o وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ o بِاَیِّ ذَنْبٍم    قُتِلَتْ o وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ o وَاِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ o وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ o وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ o عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ o (التکویر ۸۱:۱-۱۴) جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی حاملہ اُونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی اس وقت ہرشخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

غرضیکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارض و سما، انس و حیوان، خورد و کلاں، جنت و دوزخ سب پر خوف و دہشت کا عالم طاری ہوگا اور سب کے سب گھبراہٹ اور انتظار میں ہوں گے کہ دیکھیے انجام کیا ہونے والا ہے؟

کبھی صرف مظاہر فطرت کے مناظر ہی نگاہوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور ماحول کی ہولناکی پوری فضا میں ہیجان و ارتعاش پیدا کردیتی ہے:

اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ o لَیْسَ لِوَقْعَتِھَاکَاذِبَۃٌ o خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ o اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا o وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا o فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّاo (الواقعہ۵۶: ۱-۶) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یک بارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

  •  انسان کی بے بسی اور وارفتگی: قیامت کے روز خوف و دہشت کے مارے انسان ایسا حواس باختہ ہوگا کہ اسے کسی کی سُدھ نہ رہے گی، حتیٰ کہ اسے اپنے ماں باپ اور اپنے  اہل و عیال تک بھول جائیں گے۔ قرآن نے اس کیفیت کی ایسی عکاسی کی ہے کہ دیکھ کر قلب و روح پر خوف طاری ہوجاتا ہے، جیسے:

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ o وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ o وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ o لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ o (عبس ۸۰:۳۴-۳۷) اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہرشخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ o یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ o (الحج ۲۲:۱-۲) لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، ہرحاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔

  •  مر مٹنے کی حسرت: جب زندگی کا پورا کارنامہ کھلی کتاب کی طرح ہرشخص کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور اتمامِ حجت کے طور پر انبیا کی شہادت ہوجائے گی تو خدا کے نافرمان، سرکش و باغی یہ حسرت کریں گے کہ کاش! زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دھنس جائیں:

فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا o یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِھِمُ الْاَرْضُ ط وَ لَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا o (النساء ۴:۴۱-۴۲) پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیںگے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنھوں نے رسولؐ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔

  •  مظاھرِ قدرت پر ھولناکی کا عالَم: کبھی قیامت کے زبردست ہولناک منظر میں انسانی افراد کے ساتھ ساتھ مظاہرِ قدرت بھی برابر کے شریک نظر آتے ہیں:

اَلْقَارِعَۃُ o مَا الْقَارِعَۃُ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَۃُ o یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ o وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْش o (القارعہ ۱۰۱:۱-۵) عظیم حادثہ! کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟ تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟ وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اُون کی طرح ہوں گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا o اِنَّآ اَرْسَلْنَـآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَـآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا o فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ o السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖ کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۴-۱۸) یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جارہے ہیں۔ تم لوگوں کے پاس ہم نے اسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اس دن کیسے بچ جائو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جارہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے۔

روزِ قیامت اور میدانِ حشر

ان مشاہد کا ایک مقصد جنت و دوزخ سے پہلے میدانِ حشر کی منظرکشی بھی ہے۔ یہاں ہم دیکھیں گے کہ اس وقت انسانوں پر گزرنے والے جاں گسل حالات و کیفیات پیش کرنے کے لیے قرآن میں بہت سے پیرایہ ہاے بیان اختیار کیے گئے ہیں، اور محشر کا پورا سماں کئی پہلوئوں سے نگاہوں کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ کبھی نامۂ اعمال کی پیشی اور حساب کتاب کا منظر اتنا طویل نظر آتا ہے کہ آپ اسے دائمی سمجھنے لگتے ہیں، اور کبھی وہ آنکھ جھپکنے میں اس سُرعت سے گزر جاتا ہے کہ آنکھوں کو سیری تک حاصل نہیں ہوتی۔ کہاں یہ طرزِ انشاء اختیار کیا جائے اور کہاں وہ، اس بات کا تقاضا اور فیصلہ فنی اصولوں کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے جو نفسیاتی اور شعوری بنیادوں پر قائم ہیں۔ نیز اس امر کا تعین کہ کسی منظر کی طوالت یا اختصار کی حدود کیا ہیں یا یہ کہ کہاں جاکر طوالت کو اختصار میں یا اختصار کو طوالت میں بدلنا ہے، میدانِ حشر کی طبعی فضا اور فطرتی ماحول پر موقوف ہے۔ اس طرح یہ اندازِ بیان بھی ایک دینی مقصد کی تکمیل میں بہت مفید و معاون ثابت ہوتا ہے۔

  •  روزِ قیامت ___ مجرمین کی باھمی تکرار: جب کسی منظر کو طوالت کے ساتھ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے تو قرآن اسے یوں پیش کرتا ہے:

وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّاکُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ قَالُوْا لَوْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَھَدَیْنٰکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ o وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo (ابراہیم ۱۴:۲۱-۲۲) اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے تھے کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے۔ اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھا دیتے، اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں، ’’اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور مَیں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا، میرا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمھیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمھاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے‘‘۔

  •  سیاہ بختی پر حسرت و ندامت: ایک دوسرے مقام پر قیامت کے روز آدمی کی سیاہ بختی پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا o یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَنِی وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا o (الفرقان ۲۵:۲۷-۲۹) اور   اس روز ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: ’’کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہاے میری کم بختی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکائے میں آکر مَیں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی‘‘۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا۔

  •  نافرمانیوں کا اِعتراف: پھر انسان کی نافرمانیوں پر اس کا اعتراف ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ o اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ o فِیْ جَنّٰتٍ  یَتَسَآئَ لُوْنَ o عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ o مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ o قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ o وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ o وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ o حَتّٰیٓ اَتٰـنَا الْیَقِیْنُ o (المدثر ۷۴: ۳۸-۴۷) ہرمتنفس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ مجرموں سے پوچھیںگے: ’’تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘‘ وہ کہیں گے: ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے، اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔

الغرض ان تینوں مناظر میں موقع و محل کی مناسبت سے واقعاتِ قیامت کا علیحدہ علیحدہ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پہلے منظر میں قیامت کے روز مجرمین کے باہمی جھگڑے اور مکالمے کی تصویر ہے۔ دوسرے میں اپنی سیاہ بختی اور گمراہی پر حسرت و ندامت، اور تیسرے میں اپنی نافرمانیوں کا طویل اعتراف و اقرار۔ یہاں اندازِ بیان میں طوالت ہے کیونکہ ان میں سے ہرمنظر اور ہر موقف تاثیر و تاثر میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنے کے لیے مہلت اور طوالت کا تقاضا کرتا ہے۔

  •  اعمال کی جزا اور مجرموں کی پھچان:کبھی قرآن کسی منظر کو اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ آنکھ جھپکنے میں نگاہوں کے سامنے نظر آئے اورگزر جائے:

وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ o (الزمر ۳۹:۷۰) اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اس نے عمل کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

فَاِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلاَ یَتَسَائَ لُوْنَ (المومنون ۲۳:۱۰۱) پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیںگے۔

یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیمٰھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاَقْدَامِ o (الرحمٰن ۵۵:۴۱) مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انھیں پیشانی کے بال اور پائوں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔

مختلف مقامات میں موقع و محل کے لحاظ سے اختصار کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ کبھی اختصار کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ مقام سکوت و سکون، رعب و جلال یا عجز و نیاز کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کے ردّ و قبول اور بحث و استدلال کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ کہیں بات میں یک بارگی اور اچانک انقطاع و انفصال مقصود ہوتا ہے۔ بس ایک بات کا ذکر ہوتا ہے کہ اچانک اس کے بعد ساری بحث ختم ہوجاتی ہے۔ اور کبھی مراد چونکہ پوری طرح واضح ہوتی ہے اس لیے مزید کسی بحث و تکرار اور کلام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ان مختلف مقاصد میں سے چند ایک ہیں جو کسی منظر کے اختصار اور دفعتاً نظر آکر بسرعت گزر جانے کا باعث بنتے ہیں۔

قیامت اور عذاب و ثواب

ان مناظر کا ایک مقصد زندگی بعد موت اور حساب و کتاب کے بعد جنت و دوزخ کی عکاسی ہے۔ یہ مناظر کبھی تو جنت و دوزخ دونوں کو مادی شکل میں پیش کرتے ہیں کہ جنھیں قوتِ حاسّہ لمس سے محسوس کرتی ہے، اور کبھی معنوی صورت میں پیش کرتے ہیں جس کا ادراک انسان کا نفسِ ناطقہ ہی کرسکتا ہے، اور کبھی یہ دونوں صورتیں یک جا ہوجاتی ہیں۔

  •  دوزخ میں جسموں کا داغا جانا: چنانچہ ٹھوس مادی شکل میں عذاب کا بیان   اس صورت میں ہوتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o (التوبہ ۹: ۳۴-۳۵) دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اُسی سے اُن لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ ’’یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو‘‘۔

یہاں راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کا حشر چشمِ تصور کے سامنے آگیا ہے۔ وہ مال و دولت جسے وہ دنیا میں سونے چاندی کی شکل میں جمع کرتے رہے تھے آج اسے دوزخ کی آگ میں سرخ کر کے ان کے اعضا و جوارح کو داغا جار ہا ہے اور استہزا یہ کہا جا رہا ہے: ’’لو یہ ہے تمھارا وہ خزانہ جسے تم دنیوی زندگی میں جمع کرتے رہے تھے، آج ذرا اس کا مزا چکھو‘‘۔

  •  دوزخیوں کے سروں پر کہولتا ھوا پانی:ایک دوسرے مقام پر مجسم عذاب کی یوں عکاسی کی گئی ہے:

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُئُ وْسِھِمُ الْحَمِیْمُ o یُصْھَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِھِمْ    وَالْجُلُوْدُ o وَ لَھُمْ مَّقَامِـعُ مِنْ حَدِیْدٍ o کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ o (الحج ۲۲:۱۹-۲۲) یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹے جاچکے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیںگے اور ان کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا۔

منکرین حق کو دوزخ میں برہنہ جسم یوں ڈال دیاگیا ہے کہ اب آتشِ دوزخ ہی ان کے جسم کے گرد لپٹ کر اُن کا لباس بن گئی ہے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی اُنڈیلا جا رہا ہے جو   ان کے دماغ اور قلب و جگر اور امعاء و جلود کو گھلائے جا رہا ہے۔ جب بھی وہ اس ناقابلِ برداشت و روح فرسا تکلیف سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، لوہے کے گُرز مارمار کر انھیں دوبارہ وہیں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اور ان کی خبر لینے والے دوزخ کے کارندے انھیں جھڑک کر یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’اونہوں! اپنے جسم و روح کے جلنے کا مزا یہیں چکھو۔ نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ اُف! کتنا دردناک منظر ہے!

  •  اھلِ جنت کے لیے عیش و بھار: اسی طرح ٹھوس مادی نعمتیں مجسم صورت میں اس طرح بیان کی گئی ہیں:

وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ o فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ o وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ o وَّظِلٍّ مَمْدُوْدٍ o وَّمَآئٍ مَّسْکُوبٍ o وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ o لاَّ مَقْطُوعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ o وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ o اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَائً o فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا o عُرُبًا اَتْرَابًا o لّاِصْحٰبِ الْیَمِیْنِ o (الواقعہ ۵۶: ۲۷-۳۸) اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا! وہ بے خار بیریوں اور تہہ بر تہہ چڑھے ہوئے کیلوں، اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں اور ہردم رواں پانی، اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں، اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔ ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن۔

وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ o جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ o مُتَّکِئِینَ فِیْھَا یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ o وَعِنْدَھُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ o (صٓ۳۸: ۴۹-۵۳) (اب سنو کہ) متقی لوگوں کے لیے یقینا بہترین ٹھکانا ہے ہمیشہ رہنے والی جنتیں، جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کررہے ہوں گے، اور ان کے پاس شرمیلی ہم سن بیویاں ہوںگی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔

سبحان اللہ! کتنا دل کش اور پُربہار منظر ہے۔ اس حیاتِ ناپایدار میں انسان اس سے بہتر عیش و آرام اور اس سے زیادہ پُرلطف و پُربہار زندگی کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ آنکھیں بند کرکے ذرا چشمِ تصور کو وا کیجیے۔ کیا عجب بہار ہے۔ وسیع باغات ہیں جن میں کبھی ختم نہ ہونے والے پھلوں سے لدے ہوئے درخت ہیں جن کے بیچوں بیچ ہردم رواں پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ ان چشموں کے کنارے درختوں کے گھنے ٹھنڈے سایے میں نہایت حسین وجمیل ہم عمر نوجوان اور باحیا بیویوں کی معیت میں اُونچی نشست گاہوں پر گائو تکیے لگائے اہلِ جنت فروکش ہیں، جی بھر کر قسم ہا قسم کے پھلوں اور شراب طہور سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور بار بار طلب کرر ہے ہیں۔ ’’بھئی اور لو! ضیافت کی یہی تو وہ چیزیں ہیں جو آج کے دن تمھیں مہیا کرنے کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا‘‘ جواب میں کہا جاتا ہے ___ یہ ہے جنت کی وہ ابدی نعمت، جس سے انسان کے کام و دہن لذت اندوز ہوں گے اور جسے یہاں محسوس و مجسم شکل میں لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔

غور سے دیکھیں تو جنت و دوزخ دونوں نہایت لطیف و عمیق ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں نہایت لطیف روحانی سایے سے معلوم ہوتے ہیں۔ جن میں نفوسِ انسانی بالکل منفرد شکلیں اختیار کرجاتے ہیں یا یوں کہیے کہ ان کے چہروں پر کوئی عجیب و غریب قسم کی پرچھائیں پڑی ہے۔ قرآن نے اس کیفیت کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:

  •  اھلِ جنت کی باھم دوستی: جنت کی تصویر ان الفاظ میں:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o (مریم ۱۹:۹۶) یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں، عنقریب رحمن  ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ؑاور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

  •  اھلِ دوزخ کی حسرت: اہلِ دوزخ عذابِ دوزخ دیکھ کر مایوسی اور حسرت کا اظہار کریں گے:

اِنَّآ اَنْذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰـلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا o (النباء ۷۸: ۴۰) بے شک ہم نے تو تم کو ایک ایسے عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب ہی آنے والا ہے۔ جس دن ہر ایک آدمی اپنے ان اعمال کو نامۂ اعمال میں لکھا ہوا دیکھ لے گا جو اس نے دنیا میں اپنے ہاتھ سے کیے تھے اور کافر حسرت سے کہے گا: ’’اے کاش! میں مرنے کے بعد ہوگیا ہوتا مٹی!‘‘

وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo (الانعام ۶:۳۰) کاش! وہ منظر   تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا:’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟‘‘ یہ کہیں گے: ’’ہاں! اے ہمارے رب!  یہ حقیقت ہی ہے! ’’وہ فرمائے گا: ’’اچھا! تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو‘‘۔

الغرض ان سب مشاہد میں جنت و دوزخ کا نقشہ انسان کے قلب و ضمیر میں ایک طرح کی بے آمیز مسرت و اطمینان اور محبت، یا بے میل ندامت و رسوائی اور نفرت کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مظاہرِ جنت یا مظاہرِ دوزخ میں باہم امتزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان کا تاثر دوہرا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جنت یا دوزخ کے ٹھوس مادی وجود سے جسمانی راحت و تکلیف کے ساتھ ساتھ روحانی آسودگی اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے۔ جنت و دوزخ کے مظاہر میں یہ رنگ غالب ہے۔(انتخاب: مناظرِقیامت قرآن کی زبان میں، ادارہ تعمیرانسانیت، لاہور، ص ۵۷-۷۷)


 

[سورۃ القدر] میں اُس موعودرات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط اور دعا و ابتہال کے ساتھ استقبال اور ریکارڈ کیا۔ یہ ملائِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اُس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت و اہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا!

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ o (القدر ۹۷:۱-۳) بے شک ہم نے اُسے شب ِ قدر میں نازل کیا ہے! اور تم کیا جانو! شب ِقدر کیا ہے! شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں! وہ اللہ کے نور کو جو پُرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سُو بکھیر رہی ہیں! اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ’’بے شک ہم نے اُسے ’شب ِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘

اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملائِ اعلیٰ کے مابین اُن کی آمدورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ o (۹۷:۴) فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اُترتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں:

سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ o (۹۷:۵) سرتا سر امن وسلامتی (کی رات!) یہ صبح کے طلوع ہونے تک۔

جس رات کا اِس سورت میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورئہ دخان میں اِس طرح ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ o فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ o اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ o رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (الدخان ۴۴:۳-۶) بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کے باعث ہے۔ یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

یہ معروف ہے کہ شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے، جیساکہ سورئہ بقرہ میں ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں فرق کرنے والی واضح تعلیمات ہیں۔

یعنی رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اُس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ سب سے پہلے سورئہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کے لیے غارِ حرا میں خلوت گزیں تھے۔

یہ رات کون سی ہے! اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی ۲۷ویں شب ہے۔ کچھ اور روایات سے ۲۱ویں شب۔ بعض دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہے اور کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی کوئی ایک رات ہے___ بہرحال زیادہ راجح بات یہ ہے کہ شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے۔

اس رات کا نام لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کیوں ہے؟ ’قدر‘ کا ایک مفہوم ہے: ’منصوبہ بندی اور   تدبیرِ امر‘۔ دوسرا مفہوم ہے ’قدروقیمت اور مقام‘ اور دونوں ہی مفہوم اس عظیم واقعے ___ قرآن، وحی اور رسالت کے سلسلے میں صحیح ہیں۔ کائنات میں اس سے زیادہ عظیم کوئی واقعہ نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی واقعہ بندوں کی تقدیر اور تدبیرِ امر سے متعلق ہے۔

’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘ قرآن مجید میںاس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی! اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیںاور حیاتِ انسانی پر اُن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے  انسانی زندگی پر ڈالے۔

اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے‘‘۔ اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے___ جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے___ نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ [یہ] سورت اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویر کشی کرتی ہے۔

آج جب ہم ان طویل صدیوں کے پیچھے سے اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں اور اس عجیب جشنِ نوروز کا تصور کرتے ہیں جس کا مشاہدہ اُس رات زمین نے کیا اور اُس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں تو ہم واقعتا ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے!‘‘ کہہ کر اُس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اُسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔

اِس رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے۔ اس میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔

نوعِ انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت، اس واقعہ ’وحی‘ کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی، دل کی سلامتی، گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو، جو اسلام نے اسے بخشی تھی، کھو چکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب وتمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں، اُس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی افراط ہے اور وسائلِ معاش کی بہتات۔

حسین و جمیل نور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملائِ اعلیٰ سے  ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ارواح و قلوب پر سلامتی کا جو فیضان تھا، وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اس نور اور ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے!

ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ ’ وحیِ آسمانی‘ اس میں رونما ہوا، اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپ نے ہمیں اس بات پر اُبھارا کہ شب ِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ بخاری اور مسلم میں ہے: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ اور صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی نے شب ِ قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی، اُس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شب ِقدر‘ کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شب ِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور ’احتساب‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی  رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اسی صورت میں قلب کے اندر اُس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

تربیت کا اسلامی نظام، عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اُن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے، انھیں واضح کرنے اور انھیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لیے عبادات کو بطور ذریعہ کے استعمال کرتا ہے تاکہ یہ ایمانی حقائق غوروفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انھیں حرکت بخشنے کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ان حقائق کا صرف نظری علم، عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ کسی اور طریقے سے ہی ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔

شب ِ قدر کی یاد اور اس میںایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت، اِس کامیاب اور بہترین اسلامی نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ: سید حامد علی)

 

بعض اتفاقیہ و اقعات یوں لگتے ہیں کہ جیسے وہ ایک محکم تدبیر کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہوں، جیسے وہ کتابِ مسطور اور صفحاتِ تقدیر پر ازل سے ثبت ہوں ___حسن ’البنا‘ اتفاق ہی ہے۔ ان کا لقب ’البنا‘ یعنی معمار تھا لیکن کون کہتاہے کہ یہ ایک اتفاق ہے۔ اس انسان کے حوالے سے یہ لقب ایک عظیم حقیقت ہے۔ تعمیر بلکہ شان دار اور عدیم المثال تعمیر اس شخصیت کا اصل عنوان ہے۔

تاریخ اسلام نے لا تعداد داعی دیکھے ہیں لیکن دعوت وتشہیر ایک چیز ہے اور تعمیر بالکل دوسری۔ ہر داعی معمار نہیں ہوسکتا اور ہر معمار بھی یہ عبقریت اور عظمت نہیں پا سکتا۔ یہ عظیم الشان عمارت جسے ’اخوان المسلمون ‘ کہتے ہیں اسی تعمیر و عبقریت کا ایک مظہر ہے۔ یہ لوگ محض کوئی ایساگروہ نہیں ہیں ، کہ خطیب نے ان کے جذبات کو گرمادیا ہو، ان کے احساسات بیدار کردیے ہوں اور وہ کسی سطحی سوچ کے تحت کسی عارضی ہدف کے گرد جمع ہوگئے ہوں۔ اخوان وہ عمارت ہیں کہ تعمیر کی خوبی و استحکام اس کے ایک ایک زاویے سے اجاگر ہوتی ہے۔ اسرہ جات ، شعبہ جات ،علاقہ جات، تنظیمی مراکز ، تاسیسی مجلس اور مکتب ارشاد، ہر خشت اپنی مثال آپ ہے۔

یہ تو ہوئی اس کی ظاہری شکل و صورت لیکن معمارکی اصل عبقریت صرف ظاہری شکل سے  نہیں،جماعت کے داخلی نظام اور فکرکی ہمہ گیریت سے اجاگر ہوتی ہے۔ پورا نظامِ کامل نہایت  باریک بینی اور محکم انداز سے تشکیل دیا گیا ہے۔ تنظیم وترقی کا اصل شکوہ اس کی روحانی تعمیر سے واضح ہوتا ہے ، جس میں اسرہ جات ، کتیبوں اور شعبہ جات کے افراد باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اکٹھا مطالعہ کرنا ، مشترکہ نماز وعبادات ، مشترکہ احساسات ، مشترکہ ہدایات ، مشترکہ سفر ، مشترکہ تربیت گاہیں اور پھر بالآخر مشترکہ اطاعت اوریکساں سوچ، اس سب کچھ نے دین کی خاطر برپا   اس جماعت کو، دلوں میں پرورش پانے والے ایسے عقیدے اور ایمان کی صورت دے دی ہے، جو احکام و تعلیمات اور تنظیمی ضوابط سے پہلے ہی نفوس کو متحرک کردیتا ہے۔

حسن البنا کی عبقریت اپنے ساتھیوں کی انفرادی اور اجتماعی توانائیوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے سے ظاہر ہوتی تھی۔ انھیں ایسی مسلسل و مفید سرگرمیوں میں کھپادینے میں تھی کہ جن کے بعد وہ اوقات کو فارغ جان کر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں نہ مارتے پھریں۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ صرف لوگوں کے دینی احساسات و جذبات ابھار دینا کافی نہیں ہوتا۔ اگر ایک داعی اپنی ساری سرگرمی اسی ایک نکتے پر مرتکز کردے، تو وہ نوجوانوں کو مخصوص دینی ہوس کا شکار تو کردیتا ہے، لیکن کسی تعمیری سرگرمی میں نہیں کھپاتا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عقیدے کی علمی تاویلات کا مطالعہ کافی نہیں ہوتا۔ اگر داعی صرف انھی میںکھو جائے تو وہ بالآخر تمام روحانی سرچشموں کو خشک کردینے کا ذریعہ بنتاہے۔ وہ اس روحانیت سے محروم رہتا ہے ، جو علمی مطالعے کو حرارت وگداز اور زرخیزی عطا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ صرف وجدان کو اپیل کرنا اور مطالعے کا اہتمام کرنا بھی توانائیوں کا پورا استعمال نہیں ہے۔ عمل کی طاقت، جسمانی توانائی، اکتساب و عطا ، قتال و انفاق___ غرض کتنے پہلو ہیں جو اُدھورے اور تشنہ ٔ تکمیل رہیں گے۔

انھوں نے ان تمام پہلوئوں پر سوچ بچار کی ،یا یوں کہیے کہ انھیں ان تمام پہلوئوں کے احاطے کی توفیق نصیب ہوئی۔ انھوں نے جماعتی دائرے میں شامل ہونے والے ہر مسلمان بھائی کو ان تمام میدانوں میں متحرک کردیا۔ یہ سب جماعتی نظام کی برکات تھیں۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی تمام فطری توانائیوں کو تعمیر وعمل میں کھپا دیا۔ کتیبہ جات ، تربیت گاہیں ، اخوانی تنظیمیں اور کمپنیاں، داعیوں کا نظام ، جہاد اور شہادتی کارروائیوں کے لیے افراد کی تیاری (تاکہ وہ جہاد فلسطین میں عملاً شریک ہوسکیں )۔ غرض ہر پہلو اس نظام کے عظیم و بے مثال ہونے کا عملی ثبوت تھا۔

حسن البنا کی عبقریت کا ایک اور پہلو مختلف النوع شخصیات و نفوس کو اکٹھا کرلینے میں نمایاںہوتا ہے۔ یہ قدسی نفوس مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ مختلف معاشرتی پس منظر رکھتے تھے ، مختلف ذہنی استعداد کے مالک تھے، لیکن سب ایک ہی متناسب لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ یوں جیسے مختلف نغماتی صدائوں سے ایک خوب صورت دھن ترتیب پا جائے ،سب کی ایک ہی پہچان ، سب کا ایک ہی رجحان۔ چوتھائی صدی کے اندر اندر یہ سب مختلف الخیال ،مختلف الاعمارافراد ایک اکائی کی حیثیت اختیار کرگئے۔

اس پورے تناظر میں جائزہ لیں کہ ’البنا‘یعنی معمار کا لقب ایک اتفاقی امر تھا یا یہ کہ یہ سب اس بلند و اعلیٰ امر الٰہی کا پر تو تھا ، جس کی کتابِ مسطور میں،سب کچھ ایک لا متناہی جمال و ترتیب سے لکھا ہوا ہے، خواہ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ اتفاقی امر ہو یا تقدیر کے اعلیٰ ترین مراتب۔

یہ جدوجہداپنے عروج پہ تھی کہ حسن البنا اپنے رب کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔ رب کے حضور حاضری سے انھوں نے اپنی عمارت کی بنیادیں مزیدمستحکم و محفوظ کردیں۔ اللہ نے ان کی شہادت اس طور چاہی کہ عظیم ارادۂ الٰہی کی تکمیل ہوجائے۔ ان کی شہادت تعمیر ہی کا ایک مرحلہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سے عمارت کی بنیادیں مزیدگہری ہوگئیں ، در و دیوار مزید مضبوط ہوئے۔ شہید کے ہزاروں خطاب اور ہزاروں کتابیں بھی اخوان کے دلوں میں تحریک ودعوت کے وہ الائو روشن نہیں کرسکتے تھے جوان کے پاکیزہ خون سے منور ہونے والے چراغوں نے دہکا دیے تھے۔ ان کی بات سچ ثابت ہوئی کہ ہماری باتیں موم سے بنے مجسمے ہیں، یہاں تک کہ جب ہم ان کی خاطر اپنی   جان سے گزر جاتے ہیں تو ان میں روح دوڑنے لگتی ہے اور ان کے لیے حیات جاودانی لکھ دی  جاتی ہے۔

جب بونے ڈکٹیٹر حکمرانوں نے اخوان کو آہن و آتش سے کچلنا چاہا، تب تک وقت   بیت چکاتھا۔ تب حسن البنا کے ہاتھوں اٹھائی گئی بنیادیں منہدم کرنا، کسی کے لیے ممکن نہ رہاتھا۔ اخوان کے شجر طیب کی جڑیں اکھاڑنا کسی کے بس میں نہ رہا تھا۔ اخوان ایک ایسے نظریے اور فکر کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ جبراور آہن و آتش کی یلغار، کبھی افکار و نظریات کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔حسن البنا کی عبقریت سربلند رہی۔ بونے جابر مٹ گئے، اخوان کو دوام نصیب ہوا۔اگرچہ کئی بار ایسا ضرور ہوا، کہ بعض کمزور نفوس و سوسوں کا شکار ہوگئے ،لیکن یہ نفوس خود کوبیمار رکھنے پر مصر تھے لہٰذا ناکام ہوئے۔ وہ یا توسرسبز شجر عظیم سے ،خشک پتوں کی طرح جھڑ گئے، یا بالآخر ان کی بیمار سوچ خود ہی سمٹ کر رہ گئی اور منظم و متحرک صفوں میں کوئی خلل نہ آسکا۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دشمنان اخوان نے شجر عظیم کی کسی ایک شاخ کو یہ گمان کرتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا کہ یہی شاخ اصل شجر ہے، اگر اسے کاٹنے یا اکھاڑنے میں کامیاب ہوگئے تو پورا درخت کٹ جائے گایا اکھڑ جائے گا۔ لیکن جب شاخ پر دبائو عروج پر پہنچا تو وہ کسی ایسی خشک لکڑی کی طرح دشمنوں کے ہاتھ آگئی، جس کے ساتھ نہ کوئی پتا تھا نہ اس میں کوئی تازگی تھی، نہ ثمر اور نہ رونق حیات___ یہی ’معمار‘کی عبقریت تھی جو اس کے اٹھ جانے کے بعد بھی فیض دے رہی تھی۔

آج بھی اخوان کو وہ تمام آزمایشیں گھیرے ہوئے ہیں جو ماضی میں گھیرے ہوئے تھیں۔ لیکن آج وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ، پہلے سے زیادہ مستحکم اور پہلے سے زیادہ منظم ہیں۔ آج وہ  دلوں میں راسخ ایک نظریہ بھی ہیں، تاریخ کا ایک سنہرا باب بھی،روشن مستقبل کے امین بھی ہیں اور ایک طرزِزندگی بھی، اور اس سب کچھ سے زیادہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہیں کہ جسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ وہ شہدا کا خون ہیں کہ جسے کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔

جو بھی اس عمارت کے بارے میں بری نیت رکھتاہے ، وہ یاد رکھے کہ اس سے پہلے ان کے پیش رو شاہ فاروق کی سرکشی جسے برطانیہ وامریکاکی ہلہ شیری بھی حاصل تھی، طغیانی اس عمارت کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ سے نہیں اکھاڑ سکی۔ اس میں کوئی دراڑ نہیں ڈال سکی۔ مستقبل بھی اسی عقیدے و نظریے کا ہوگا جس پر اخوان کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ نصرت اسی معاشرتی نظام کی حلیف ہوگی جو اس راسخ عقیدے سے پھوٹتا ہے۔ آج ہر مسلم سرزمین سے اسی ایک پرچمِ بلند تلے جمع ہونے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، جسے کبھی استعمار نے چاک چاک کردیاتھا۔ استعمار چاہتاتھا کہ اس طرح وطن اسلامی کے ٹکڑے ٹکڑے کردے ۔آج اس مجروح جسم کے تمام زخم مندمل ہونے کی گھڑی  آن پہنچی ہے۔ اب اس جسم کو ایک زندہ و بیدار و توانا وجود نصیب ہونا ہے اور پھر قباے استعمار کو تار تار کرنا ہے۔

وجود و ہستی کا فطری تقاضا ہے کہ اس سلیم فطرت اورعظیم عقیدے کو نصرت نصیب ہو ،  تقسیم و انتشار کا دور گزر چکا۔ اگر اسلامی تحریک اس تاریک دور میں فنا کے گھاٹ نہیں اتاری جاسکی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج بیداری ، انتفاضے اور احیاے اسلام کے دور میں اسے فنا کیاجاسکے۔ آج اسلامی فکراور اخوان المسلمون کا وجود یک جان دوقالب کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ جس طرح تاریخ ان دونوں کو جدانہیں کرسکتی، اسی طرح آج یا آنے والے کل میں بھی کوئی ان دونوں کو  الگ نہیں کرسکتا۔

ماضی میں استعمار نے امت پر ایسے خواب آورنسخے آزمائے جنھیں دین سے منسوب کیاگیاتھا۔ اس ضمن میں اس نے کبھی تو اہل تصوف کو استعمال کیا اور کبھی جامعہ الازہر کو۔ لیکن آج یہ سب کچھ ممکن نہیں رہا۔ اخوان کی مضبوط عمارت فکر اسلامی کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے ___آج کسی اور ادارے یا فرد کے ذریعے اسلامی سوچ کو دھندلایا نہیں جاسکتا۔ آج ازہر بھی طویل اسیری کے بعد استعماری گرفت سے آزاد ہو رہا ہے اور اس کے طلبہ و اساتذہ بھی بڑی تعداد میں اخوان میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک فطر ی عمل ہے اسے یوں ہی ہونا تھا:

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (المجادلہ ۵۸:۲۱)

اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا کہ یقینا میں اور میرے رسول ؐ ہی غالب رہیں گے ، بے شک اللہ قوی و غالب ہے۔

                                               

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۸)

شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔ پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بڑا گہوارہ ہے وہ۔ برعکس اِس کے‘ جن لوگوں نے اپنے رب کی نافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی گزاری‘ اُن کے لیے باغات ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کے پاس سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے۔

شہروں اور ملکوں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت اِس بات کی مظہر ہے کہ وہ نعمتوں سے مالامال اور صاحب ِ مرتبت و اقتدار ہیں۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس سے دلوں میں لامحالہ خلش محسوس ہوتی ہے‘ خصوصاً اہلِ ایمان کے دلوں میں‘ جو تنگ دستی اور محرومی کی مشقت جھیل رہے اور اذیت‘ ظلم و ستم اور جہاد کی زحمتیں اُٹھا رہے ہیں۔ اِس صورت حال سے غافل اور بے خبر عوام کے دل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حق اور اہلِ حق زحمتوں اور مشقتوں سے دوچار ہیں اور اہلِ باطل نہ صرف یہ کہ اِن زحمتوں سے نجات پائے ہوئے ہیں‘ بلکہ خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں (یہ صورتِ حال ان کے لیے فتنہ بن سکتی ہے)۔ پھر اِس صورتِ حال کا اثر خود گمراہ اہلِ باطل کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ ضلالت‘ کبروعناد اور شر اور فساد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

  • جاودانی نعمتیں اور اللّٰہ کا اعزاز: تب دلوں کو چھونے والی یہ آیت آتی ہے:  لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷)’’شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بُرا گہوارہ ہے وہ‘‘۔

تھوڑا سا سامان یا تھوڑا سا فائدہ جو جلد ختم ہوجائے گا‘ اِس کے بعد اُن کا دائمی و ابدی ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا گہوارہ ہے (’مہاد‘ کے معنی بچھونے‘ گہوارے اور آرام کی جگہ کے ہیں۔ اِس میں شدید طنز ہے کہ اُن کے لیے اگر کوئی آرام کی جگہ ہے تو وہ دوزخ ہے۔ مترجم)۔

اس قلیل اور فانی و ناپایدار متاع کے مقابلے میں جنتیں (باغات)‘ ہمیشگی اور اللہ کی جانب سے اعزاز و اکرام ہے: جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (۳:۱۹۸)’’باغات‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کی طرف سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے‘‘۔

جو شخص اُس حصے (متاعِ دنیا) کو ایک پلڑے میں رکھے گا اور اِس حصے (جزاے اُخروی) کو دوسرے پلڑے میںرکھے گا‘ اُسے اِس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ متاعِ دنیا سے کہیں بہتر ہے اور وہ ’اَبرار‘ کے لیے ہے اور اس کے دل میں کوئی شبہہ نہ رہے گا کہ متقین کا پلڑا کفار کے مقابلے میں کہیں جھکا ہواہے۔ ہر صاحب ِ عقل اُسی حصے کو اپنا ناپسندکرے گا‘ جسے ’اولی الالباب‘ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

  • صرف اُخروی وعدہ: تربیت اور اسلامی فکر کی بنیادی قدروں کو بیان کرنے کے موقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے فتح و نصرت کا وعدہ نہیں کر رہا‘ نہ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ اُن کے دشمن مغلوب ہوں گے‘ نہ یہ وعدہ کہ انھیں زمین میں غلبہ حاصل ہوگا۔ وہ اِس دنیا کی اشیا میں سے___ جن کا دوسرے بہت سے مواقع پر وہ اُن سے وعدہ فرماتا ہے اور جنھیں وہ اپنے دوستوں کے لیے‘ اُن کے دشمنوں سے جنگ کے مواقع پر مقدر اور لازم قرار دیتا ہے___  کسی بھی شے کا وعدہ نہیں کرتا۔

وہ یہاں اُن سے صرف ایک شے کا وعدہ کرتا ہے، ’’اُس اجر کا جواللہ کے پاس ہے‘‘۔ یہی اِس دعوت کی اصل اور بنیاد ہے اور اِس عقیدے کی راہ پر چلنے کا‘ اِسی پر انحصار ہے۔ ہر ہدف‘ ہر غایت اور ہرطمع سے کٹ کر صرف اجرِآخرت کے لیے یکسوئی! یہاں تک کہ مومن کو یہ خواہش بھی نہ رہے کہ اِس عقیدے کو غلبہ‘ اللہ کے کلمے کو سربلندی اور اللہ کے دشمنوں کو مغلوبیت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اِس خواہش سے بھی خود کو یکسو کرلیں‘ اپنے معاملے کو بالکلیّہ اللہ کے حوالے کردیں اوراپنے دلوں کو اِس خواہش سے پاک کرلیں (بلاشبہہ مومن سب کچھ رضاے الٰہی اور اجرِآخرت کے لیے کرتا ہے‘ خواہ دنیا میں کچھ بھی نہ پاسکے۔ لیکن حق کے غلبے‘ باطل کی مغلوبیت اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خواہش فطری ہے‘ اِس سے دل کو پاک نہیں کیاجاسکتا اور نہ یہ مطلوب ہے۔مترجم)۔

  • اسلام ھرچیز کی قربانی کا نام: یہ عقیدہ سب کچھ قربان کرنے‘ عہد کو پورا کرنے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔ بغیر اِس کے کہ اِس کے معاوضے میں دنیا کا کوئی سازوسامان مطلوب ہو اور بغیر اس کے کہ اُس کے عوض فتح و نصرت‘ غلبہ‘ تمکن فی الارض اور سربلندی چاہیے ہو___ ان سب کے بجاے ہرچیز صرف آخرت میں چاہنا ہے اور اس کا انتظار کرنا ہے۔

عقیدے کی ذمہ داریوں کو اِس طرح ادا کرنے کے بعد فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور  تمکن فی الارض اور سربلندی بھی نصیب ہوتی ہے‘ مگر یہ اللہ سے معاہدے میں داخل نہیں ہے‘ اور نہ اُس سے کی ہوئی بیعت کا کوئی جز ہے۔ معاہدہ اور بیعت میں دنیا کی کوئی چیز شامل نہیں ہے‘ یہاں تو  ذمہ داریوں کو ادا کرنا‘ عہد کو پورا کرنا‘ سب کچھ قربان کرنا اورآزمایشوں سے گزرناہے‘ اور بس!

مکہ معظمہ میں اِسی پر بیعت اور دعوت کی بنیاد تھی اور اِسی پر اللہ سے بیع و شرا کا معاملہ ہوا تھا اور اللہ نے مسلمانوں کو نصرت‘ تمکن فی الارض اور سربلندی سے اُسی وقت سرفراز کیا اور انھیں زمین کی کنجیاں اور انسانیت کی قیادت اُسی وقت بخشی‘ جب وہ آخرت کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے پوری طرح ایفاے عہد کیا۔

محمد بن کعب قرظی اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہ ؓنے بیعت ِعقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا‘ آپ اپنے رب اوراپنی ذات کے لیے ہم سے جو چاہے عہد لے لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کہ اوس اور خزرج کے نمایندے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کی ہجرت کے لیے بیعت کر رہے تھے) میں اپنے رب کے لیے اِس بات کا عہد لیتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے‘ اور اپنے لیے یہ عہد لیتا ہوں کہ جس طرح تم اپنی جان اور مال کی حفاظت کرو گے‘ اسی طرح میری حفاظت    کرو گے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا‘ ہم یہ سب کچھ کردیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت‘‘___ انھوں (انصارکے ذمہ داروں) نے کہا‘ سودا نفع بخش ہے۔ ہم نہ اِس معاہدے کو خود فسخ کریں گے اور نہ اُسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

جی ہاں‘ جنت‘ اور صرف جنت! فتح و نصرت‘ عزت وحدت‘ قوت‘ تمکن فی الارض‘ قیادت‘ دولت اور خوش حالی‘ یہ سب چیزیں جو اللہ نے انھیں بخشیں اوران کے ہاتھوں میں دیں‘ اُن کا    اللہ تعالیٰ نے تذکرہ نہیں کیا کیونکہ یہ چیزیں معاہدے سے خارج تھیں۔

یہی بات تھی جو اوس اور خزرج کے نقبا نے کہی: ’’سودا نفع بخش ہے‘ ہم اُسے نہ خود فسخ کریں گے‘ نہ آپؐ سے اسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے‘‘۔

  • اُمت کی تربیت: اللہ تعالیٰ نے اِس طرح اُس جماعت کی تربیت کی جس کے سلسلے میں اُس نے طے کر رکھا تھا کہ زمین کی کنجیاں اور قیادت کی زمام اُس کے ہاتھ میں دے گا اور عظیم امانت اُس کے سپرد کرے گا‘ بعد اِس کے کہ وہ اپنی تمام خواہشات و مفادات سے کٹ گئے ہوں۔ یہاں تک کہ اُن خواہشات سے بھی‘ جو اُس دعوت سے متعلق تھیں‘ جس کے وہ حامل تھے‘ اُس نظام سے متعلق تھیں‘ جسے وہ برپا کر رہے تھے‘ اُس عقیدے سے متعلق تھیں‘ جس کے لیے وہ جان دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس امانت کبریٰ کے حامل وہی لوگ ہوسکتے ہیں‘ جن کی‘ اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ اِس صورت میں وہ اللہ کی اطاعت (سِلْم) میں پوری طرح داخل ہوسکتے ہیں۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۲‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ص ۴۹۶-۵۰۰)

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے--- یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

بہتر ہے کہ ہم پہلے یہ واضح کر دیں کہ اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ سے جس ’’ولایت‘‘ کی، اللہ نے ممانعت کی ہے‘ اس کا مفہوم کیا ہے۔ ] وَلِیٌّ ،جس کی جمع اولیاء ہے‘ ولایہٗ سے بناہے۔ ولی کے معنی ہیں‘ دوست‘ محبت کرنے والا‘ مددگار‘ رفیق‘ حلیف‘ سرپرست‘ مطیع‘ذمہ دار‘ صاحب ِ امر۔ اور ولایت کے معنی ہیں‘ دوستی‘ محبت‘ رفاقت‘ سرپرستی‘ مدد‘ تحالف‘ اطاعت۔ مترجم[

اس آیت میں ’’ولایت‘‘سے مراد یہود و نصاریٰ کی مدد‘ اُن کے ساتھ عہدوپیمان اور تحالف ہے۔ اِس لفظ کا یہاں یہ مفہوم نہیں ہے کہ اُن کے دین کے سلسلے میں اُن کی پیروی نہ کی جائے‘ کیونکہ یہ بات بالکل بعید از قیاس ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں‘ جو دین کے معاملے میں یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوں۔ یہ صرف تحالف اور تعاون اور نصرت کی دوستی ہے‘ جس کا معاملہ مسلمانوں پر مشتبہ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ جائز ہے کیونکہ مفادات اور تعلقات کے یہ رشتے عملاً پہلے سے موجود تھے۔ اسلام سے قبل عربوں اوریہود کے مابین تحالف و تعاون کے روابط قائم تھے اور مدینہ میں اسلامی نظام کے قائم ہونے کے ابتدائی دور میں بھی اِس طرح کے معاہدے موجود تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ممنوع قرار دیا اور انھیں توڑنے کا حکم دیا--- یہ اُس وقت‘ جب کہ یہ واضح ہوگیا کہ مدینہ کے مسلمانوں اور یہود کے مابین اِس طرح کے روابط کا برقرار رہنا عملاً ناممکن ہے۔ ]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ آتے ہی اسلامی ریاست قائم کی اور یہود کے مختلف قبیلوں کو‘ جو مدینہ میں پہلے سے رہ رہے تھے ‘ مسلمانوں کا حلیف بنایا۔ یہ اس لیے کہ صلح و جنگ اور امنِ عامہ جیسے امور میں اُن کے اور مسلمانوں کے مابین تعاون ہو اور وہ اسلام کے قریب آسکیں‘ لیکن یہود ان معاہدوں کو مسلسل توڑتے رہے اور مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر مسلمانوں کو جنگ کی آگ میں جھونکتے رہے‘ یہاں تک کہ جب اُن کی اسلام دشمنی حد سے بڑھ گئی اور وہ مسلمانوں کے لیے شدید ترین خطرہ بن گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحالف کے یہ رشتے --- جن کا برقرار رکھنا یہود نے ناممکن بنا دیا تھا--- توڑ  دیے اور انھیں مدینہ سے نکال دیا۔مترجم[

ولایت کا یہ مفہوم قرآنی تعبیرات میں معروف و متعین ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں اور اُن مسلمانوں کے مابین جو ہجرت کر کے دارالاسلام نہیں آئے تھے‘ تعلقات کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَالَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْ ئٍ (الانفال ۸:۷۲) ’’تمھارا اُن سے ولایت کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

اسلامی نظام کا قیام ‘ اسلام کا مقصود

اہل کتاب کے ساتھ اسلام کی نرمی و فراخ دلی ایک شے ہے اور انھیں ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) بنانا بالکل دوسری شے‘ لیکن یہ دونوں باتیں بعض مسلمانوں کے ذہن میں گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں‘ جن کے نفوس پر اس دین کی حقیقت اور دنیا میں اس کا کردار پوری طرح واضح نہیں ہو سکا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اسلام ایک عملی نظام کو برپا کرنے کی تحریک ہے‘ تاکہ اسلامی فکر کے مطابق ایک نظام عملاً وجود میں آکر قائم و غالب ہوسکے۔ یہ اسلامی فکر اپنی فطرت و طبیعت کی رو سے اُن تمام افکار و تصورات سے مختلف ہے‘ جن سے نوعِ انسانی واقف ہے‘ اور اسی لیے مخالف افکار اور طریقہ ہاے زندگی سے اُس کا تصادم ہوتا ہے ‘ جس طرح کہ اس کا تصادم لوگوں کی خواہشاتِ نفس اور خدائی نظامِ زندگی سے انحراف و بغاوت اور فسق و فجور سے ہوتا ہے۔ وہ ان سب سے ایک ایسی جنگ میں مصروف ہوجاتا ہے‘ جس سے بچنے کی کوئی تدبیر اور جس سے کوئی مفرنہیں--- یہ تصادم اور یہ جنگ اس لیے ہے کہ (غلط افکار اور نظام ہاے زندگی کی جگہ) وہ جدید عملی نظام وجود میں آجائے‘ جسے اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مؤثر ایجابی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے۔

جن مسلمانوں کے فکرونظر میں یہ دونوں باتیں گڈمڈ ہوگئی ہیں‘ وہ درحقیقت اسلام اور اسلامی عقیدے کا واضح اور نکھرا ہوا تصور نہیں رکھتے۔ انھیں حق و باطل کی فطرت اور اِس جنگ میں اہل کتاب کے موقف کی فطرت کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ قرآن کی اُن واضح و صریح نصوص سے بھی غافل ہیں‘ جو اس سلسلے میں وارد ہیں--- اہل کتاب کے معاملے میں نرمی و فراخ دلی برتی جائے اور جس مسلم معاشرے میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے حقوق کی ضمانت اور تحفظ ہو‘ اسلام کی اِس دعوت و تعلیم کو وہ اہل کتاب سے دوستی و رفاقت رکھنے کے ساتھ گڈمڈ کرتے ہیں‘ حالانکہ مومن کی دوستی اللہ کے لیے‘ اُس کے رسولؐ کے لیے اور مسلم جماعت کے لیے مخصوص ہے۔وہ قرآن کریم کے اس بیان کو بھی بھولے ہوئے ہیں کہ مسلم جماعت سے جنگ کرنے کے معاملے میں اہل کتاب ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہوتے ہیں۔ یہ اُن کی مستقل اور دائمی صفت ہے۔ وہ مسلمان سے اس کے اسلام کی بنا پر بُغض و عناد رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے صرف اُس وقت راضی ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے دین کو چھوڑ کر اُن کے دین کے پیروہوجائیں۔ ] وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتیّٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (البقرہ ۲:۱۲۰) ’’یہودی اور عیسائی تم سے راضی نہیں ہو سکتے‘ جب تک کہ تم اُن کے دین کے پیرو نہ بن جائو‘‘[۔ وہ اسلام اور مسلم جماعت سے جنگ کرنے پر تلے رہتے ہیں:  قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ج وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُط (اٰل عمران۳:۱۱۸) ’’بُغض اُن کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ شدید تر ہے‘‘۔

بلاشبہہ مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ نرمی و فراخ دلی سے پیش آئیں لیکن اِس کے ساتھ مسلمانوں کو اِس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ تحالف اور دوستی کا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے منفرد و یکتا نظام کو قائم کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کریں گے‘ وہ اہلِ کتاب کے راستے کے ساتھ کبھی یکجا نہ ہوگا۔ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کتنی ہی فراخ دلی اور دوستی کا مظاہرہ کریں‘ اس کا یہ نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ وہ اِس بات کو راضی و خوشی برداشت کرلیں کہ مسلمان اپنے دین پر برقرار رہیں اور اپنے نظام کو دنیا میں غالب کریں۔ ان کے ساتھ فیاضانہ رویے کا یہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں سے جنگ کرنے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار نہ ہوں۔

مسلمانوں کی سادہ لوحی

کتنی بڑی سادہ لوحی اور کتنی بڑی غفلت کی ہے یہ بات کہ ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ کفار و ملحدین کے مقابلے میں دین کو غالب کرنے میں ہمارا اور اہلِ کتاب کا راستہ ایک ہوسکتا ہے ‘ جس پر دونوں گامزن ہوں‘ حالانکہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا معاملہ ہوتا ہے‘ وہ ہمیشہ کفار و ملحدین کے ساتھ ہوتے ہیں۔

ان صاف اور واضح حقائق کو ہم میں سے کچھ سادہ لوح اِس زمانے اور ہرزمانے میں نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ مادّیت و الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم زمین میں اہل کتاب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہم سب مذہب کے ماننے والے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں قرآن کی تصریحات اور تاریخ کے سبق‘ سب کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ آخر وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف مشرکینِ عرب کو اُبھارا اور متحد کیا تھا اور اُن کے معاون و ناصر بنے تھے‘ وہ اہلِ کتاب ہی تو تھے جنھوں نے ۲۰۰ سال تک مسلمانوں کے خلاف شدید صلیبی جنگیںکی تھیں‘ وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنھوں نے اُندلس میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھا کر بیخ و بُن سے اُن کا صفایا کر دیا تھا‘ وہ اہل کتاب ہی تھے جنھوں نے فلسطین سے مسلمان عربوں کو مار مار کر نکالا تھا اور اُن کی جگہ یہود کو لابسایا تھا اور اس معاملے میں انھوں نے الحاد اور مادیت کے ساتھ پورا تعاون کیا تھا‘ یہ اہلِ کتاب ہی ہیں‘ جو حبشہ‘ صومالیہ‘ اریٹیریا اورالجزائر‘ ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیںاور اُن کی جمعیت کو منتشرکر رہے ہیں۔ اور ہاں‘ یہ اہل کتاب ہی تو ہیں جو یوگوسلاویہ‘ چین‘ ترکستان‘ ہندستان اور ہر جگہ مسلمانوں کی جمعیت کو منتشر کرنے اور اُن پر مظالم ڈھانے میں الحاد‘ مادّیت اور بت پرستی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ]اور اب یہ فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے[ ۔

اِس سب کے باوجود ہم میں ایسے لوگ اُبھر کر سامنے آتے ہیں‘ جو قرآن کی قطعی تصریحات و تعلیمات سے مکمل ناواقفیت و دُوری کے باعث یہ خیال کرتے ہیں کہ اِلحادی مادّیت کے خلاف جنگ کرنے میں ہمارے اور اہلِ کتاب کے مابین دوستی اور نصرت و تعاون کے روابط قائم ہوسکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں‘ جو قرآن کو نہیں پڑھتے‘ اور پڑھتے ہیں تو اسلام کی‘ فراخ دلی اور نرمی کی تعلیم--- جو اسلام کی خصوصیت و فطرت ہے--- اُن کے ذہن میں اہل کتاب سے دوستی کی بات کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہے‘ جب کہ اہلِ کتاب کی دوستی سے اسلام نے مسلمانوں کو روکا ہے۔

اسلام اُن کے احساسات وجذبات میں پیوست نہیں ہے‘ نہ اس پہلو سے کہ وہ واحد عقیدہ اور دین ہے‘ جو اللہ کے یہاں مقبول ہے اور جس کے سوا کوئی دین اللہ کے یہاں مقبول نہیں‘ اور نہ اِس پہلو سے کہ وہ ایک ایجابی تحریک ہے‘ جس کا ہدف زمین میں ایک نیا عملی نظام--- اسلامی نظام--- قائم کرنا ہے۔ یہ مقصدآج بھی اہلِ کتاب کی عداوتوں اور مخالفتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے‘ جس طرح کہ کل بنا تھا۔ یہ ایک ایسا موقف ہے‘ جس میں تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی اس سلسلے میں ان کا واحد فطری و طبیعی موقف ہے۔

ہم اِن لوگوں کو قرآنی ہدایت سے اِس غفلت یا اُسے نظرانداز کرنے کی حالت میں رہنے دیتے ہیں اور آگے بڑھ کر خود قرآن کی اِس صریح ہدایت پر غوروخوض کرتے ہیں:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ م بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (المائدہ ۵:۵۱)

اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ’’ولی‘‘ (رفیق اور دوست) نہ بنائو۔ وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

آیت میں ندا کا رخ ابتداً مدینہ کی اولین مسلم جماعت کی طرف ہے لیکن اسی کے ساتھ اُسی دم اُس کا رخ ہر مسلم جماعت کی طرف ہے‘ جو تاقیامت زمین کے کسی بھی حصے میں رہتی ہو۔      فی الحقیقت اِس ندا کا رخ ہر اُس شخص کی طرف ہے‘ جس پر الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی صفت منطبق ہوتی ہو۔

اہلِ ایمان کو اِس بات کی ندا اور دعوت دینے کی اُس وقت ضرورت یہ تھی کہ مدینہ کے کچھ مسلمانوں اور کچھ اہل کتاب --- خصوصاً یہود--- کے مابین قطعِ تعلق پوری طرح اور قطعی طور پر نہ تھا‘ ان کے مابین دوستی‘ تحالف اور معاش اور معاملات کے ‘ نیز پڑوس اور صحبت و رفاقت کے تعلقات پہلے سے موجود تھے۔

اسلام سے قبل عربوں میں سے اہلِ مدینہ اور اہلِ یہود کے مابین خصوصیت سے جو تاریخی‘اقتصادی اور اجتماعی صورتِ حال تھی‘ اس میں یہ سب کچھ ہونا ایک فطری بات تھی۔ اس صورتِ حال کی موجودگی میں یہود کو اِس دین اور اِس دین کے ماننے والوں کے خلاف ہر طرح کی سازشوں کے سلسلے میں اپنا ناپاک رول ادا کرنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل تھے۔یہود کی اِن سازشوں کو قرآن کی بہت سی آیات میں گنایا اور بے نقاب کیاگیا ہے۔

قرآن اس لیے آیا کہ وہ مسلمان کو اُس جنگ کے سلسلے میں‘ جو اُسے اپنے عقیدے اور دین کے تحت لازماً لڑنی ہے‘ ضروری معرفت اور فہم بخشے تاکہ عملی و واقعاتی زندگی میں اُس کا جدید نظام ظہور پذیر ہو سکے‘ اور اس لیے بھی کہ مسلمان کے قلب وضمیر میں اُن لوگوں سے‘ جن کا تعلق مسلم جماعت سے نہیں اور جو اُس کے مخصوص پرچم کے تحت نہیں‘ قطع تعلق اور کامل جدائی کے جذبات پروان چڑھیں۔ اس قطعِ تعلق کے نتیجے میں وہ اخلاقی فیاضی و بردباری‘ جو مسلمان کی دائمی صفت ہے‘ ممنوع قرار نہیں پاتی‘ البتہ وہ دوستی و رفاقت ممنوع ہوجاتی ہے جو مسلمان کے دل میں صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے لیے ہونی چاہیے۔ جنگ کی حقیقت کا یہ ضروری فہم اور (اہل کتاب سے) یہ قطعِ تعلق‘ دونوں‘ ہر ملک اور ہر دور میں مسلمان کے لیے لازمی و ناگزیر ہیں۔

ایک دوسرے کے مددگار

بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے‘ جس کا وقت اور زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اہلِ کتاب کسی بھی ملک اور کسی بھی تاریخ میں اُمت مسلمہ کے رفیق اور دوست نہیں تھے۔ صدیوں پر صدیاں گزر کر اِس قولِ صادق کی سچائی کو ثابت کرتی رہیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی رفاقت و نصرت اختیار کی‘ انھوں نے پوری تاریخ میں‘ زمین کے ہرگوشے میں‘ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہ قاعدہ ایک بار بھی نہیں ٹوٹا‘ زمین پر وہی کچھ واقع ہوتا رہا‘ جسے قرآن نے منفرد واقعے کے طور پر نہیں‘ دائمی صفت کے طور پر بیان کیا تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:  بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ، ’’وہ ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں‘‘۔ یہ جملہ اسمیہ ہے‘یہ محض ایک اندازِ بیان نہیں ہے۔ یہ پیرایۂ بیان اِس لیے اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ یہ اہلِ کتاب کا دائمی اور بنیادی وصف ہے۔

اِس کے بعد اِس بنیادی حقیقت پر قرآن اُس کے لازمی نتیجے کو مرتب کرتا ہے۔ یہود و نصاریٰ جب (مسلمانوں کے خلاف) ایک دوسرے کے دوست ہیں تو جو شخص اُن سے رفاقت و نصرت کا تعلق رکھتا ہے‘ وہ انھی میں کا ایک فرد ہے۔ مسلم صف کا جو فرد اُن سے دوستی و رفاقت اختیار کرتا ہے‘ وہ فی الحقیقت اپنے آپ کو مسلم صف سے سے منقطع کر لیتا ہے اوراِس صف کا‘ جو بنیادی وصف ہے‘ یعنی اسلام‘ اس کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکتا ہے اور دوسری صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہی اِس بنیادی حقیقت کاطبیعی و واقعاتی نتیجہ ہے: وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ،(۵:۵۱) ’’تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا دوست بناتا ہے‘ وہ انھی میں سے ہے‘‘۔

وہ اپنے اوپر‘ اللہ کے دین پر‘ اور مسلم جماعت پر ظلم کرنے والا ہے۔ اُس کے اِس ظلم کے باعث اللہ تعالیٰ اُسے یہود و نصاریٰ کے--- جنھیں اُس نے اپنی دوستی و رفاقت سے نوازا--- زمرے میں داخل فرمائے گا۔ اُس کی راہ نمائی حق کی طرف نہ فرمائے گا اور اُسے مسلمان صف میں واپس نہ لائے گا:  اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵:۵۱) ’’یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

مدینہ کی مسلم جماعت کے لیے یقینا یہ شدید تحذیروتنبیہہ تھی‘ لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں‘ بلاشبہہ یہ شدید تحذیر و تنبیہہ ہے‘ مگر واقعاتی حقیقت کی مکمل آئینہ دار ہے۔ ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان یہود و نصاریٰ سے دوستی اور نصرت و تعاون کی پینگیں بڑھائے--- جب کہ یہود و نصاریٰ (مسلمانوں کے خلاف) باہم رفیق اور ایک دوسرے کے حامی و ناصر ہیں--- اور اس کا ایمان و اسلام برقرار ہے‘ اور وہ اُس مسلم صف کا ایک فرد بنا رہے جس کی دوستی صرف اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہلِ ایمان سے ہوتی ہے۔ یہ متضاد سمتوں میں جانے والے دو راستے ہیں۔

مسلمان کا فیصلہ کُن موقف کامل یقین کے ساتھ یہ ہے کہ اُس کے ‘اور اُن لوگوں کے مابین‘ جو اسلام کے ماسوا دوسرے نظام ہاے زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اسلامی پرچم کے ماسوا دوسرے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں‘ کامل دُوری ہونی چاہیے۔ اگر اِس موقف میں کمزوری رونما ہوتی ہے تو پھر مسلمان کی وسعت و طاقت میں یہ بات نہیں رہے گی کہ وہ اُس عظیم اسلامی تحریک کا کوئی بیش قیمت کام انجام دے سکے‘ جس کا اولین ہدف یہ ہے کہ زمین پر ایک منفرد و یکتا نظام قائم ہو‘ جو دوسرے تمام نظاموں سے یکسرمختلف ہے اور ایسے تصورات پر مبنی ہے جو دوسرے افکار و تصورات سے یکسر مختلف ہیں۔

اسلامی نظام کا قیام ناگزیر ہے

مسلمان کا پختہ یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کُن موقف ہی اسے اِس امر کے لیے آمادہ و مجبور کرتا ہے کہ وہ پُرمشقت گھاٹیوں‘ کمرتوڑ تکالیف‘ شدید مخالفتوں‘ پریشان کُن سازشوں اور بدترین شدائد و آلام کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانوںکے لیے اللہ کے پسند کردہ نظامِ زندگی کو قائم و غالب کرنے کا بارِگراں اٹھائے۔ ان مصائب و شدائد کے ساتھ اِس بارگراں کو اٹھانا اتنا دشوار ہوتا ہے کہ بسااوقات انسان کی وسعت و طاقت اور اُس کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے۔ اگر اِس نظام کو قائم کیے بغیر دوسرے جاہلی نظاموں سے ‘ جو زمین میں قائم ہیں--- خواہ وہ شرک و بت پرستی کے نمایندے ہوں یا اہلِ کتاب کی کج روی و انحراف کے کھلے کھلے الحاد کے--- کام چل سکتا ہو تو اسلامی نظام کے سلسلے میں اتنی مشقتیں جھیلنے سے کیا فائدہ؟ بلکہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی کیا ضرورت؟ جب کہ اہلِ کتاب اور دوسرے کفار و مشرکین کے نظام ہاے حیات اور اسلامی نظام کے مابین تھوڑا سا فرق ہو‘ جس پر مصالحت اور صلح و آشتی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہو۔

جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان قرب پیدا کرنے اور اُن کے ساتھ فراخ دلی و رواداری اختیار کرنے کے نام پر اِن مذاہب کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے قطعِ موالات و نصرت کے رویے‘ اور دونوں کے درمیان قطعی جدائی کی روش کو ختم یا کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ وہ رواداری کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین بس یہی آخری دین ہے۔ رواداری ذاتی و شخصی امور و معاملات میں ہوتی ہے‘ اعتقادی تصورات اور اجتماعی نظام میں نہیں۔ یہ لوگ مسلمان کے قلب و ضمیر میں پیوست اس یقین کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام کے سوا کوئی دین مقبول نہیں۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی شکل میں موجود خدائی نظامِ حیات کو دنیا میں قائم و غالب کرے‘ اِس نظام کے بدل کے طور پر کسی نظام کو قبول نہ کرے‘ اور نہ اس میں کسی ترمیم کا--- خواہ وہ معمولی سی کیوں نہ ہو--- روادار ہو۔ مسلمان کا یہ یقین خود قرآن کا پیدا کردہ ہے‘ قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُقف(اٰل عمران۳:۱۹) دین اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے!

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنہُ ج (اٰل عمران۳:۸۵) اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین اختیار کرنا چاہے‘ اس کا یہ دین ہرگز قبول نہیں ہوگا۔

وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَط (المائدہ ۵:۴۹) اور اُن سے ہوشیار رہو‘ مبادا وہ تمھیں کسی حکم سے‘ جو اللہ نے نازل کیا ہے‘ پھسلا دیں۔

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱)  اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو--- یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں--- تم میں سے جو کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے‘وہ انھی میں سے ہے۔

قرآن کی بات فیصلہ کُن ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُسی کو اپنائے‘ اُسے ڈھلمل یقین رکھنے والوں کی بے یقینی اور یقین و ایمان کو کمزور کرنے کی اُن کی روش سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ: سید حامد علیؒ، ج ۴‘ ص ۴۵۵-۴۶۲)

]غزوہ احد کے موقع پر مسلمان[ جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا کوئی اندیشہ انھیں غزوئہ بدر کی عجیب و غریب فتح کے بعد نہ تھا۔ جب مسلمانوں پر یہ مصیبتیں ٹوٹیں تو وہ چیخ اُٹھے: اَنّٰی ھٰذا ، ’’یہ کیونکر ہوا؟‘‘ آخر ہمارے مسلمان ہوتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ قرآن کریم ]سورہ آل عمران کی ان آیات میں[ مسلمانوں کو اللہ کی سنتوں کی طرف‘ جو اُس کی زمین میں جاری و ساری ہیں‘ متوجہ کرتا ہے۔ وہ اُن اصولوں کو واضح کرتا ہے جن کے مطابق معاملات انجام پاتے ہیں۔ آخر وہ زندگی سے الگ اور نئی کوئی شے تو نہیں ہیں‘ جو قوانین زندگی پر حاکم ہیں‘ وہ بلاتوقف جاری و ساری رہتے ہیں۔ امور ومعاملات اَلل ٹپ رونما نہیں ہوتے‘ وہ اِن قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی اِس توضیح کے نتیجے میں مسلمانوں کو اِن قوانین کا علم ہوا‘وہ ان کے مقاصد سے واقف ہوگئے‘ واقعات و حوادث کے پیچھے اللہ کی حکمت اُن پر منکشف ہو گئی‘ واقعات کے پیچھے جو مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں‘ وہ اُن پر واضح ہو گئے‘ جس نظام کے تحت واقعات رونما ہوتے ہیں‘ اس کے ثبوت اور اس نظام کے پیچھے جو حکمت ِ خداوندی ہے‘ اس کے وجود پر انھیں اطمینان ہوگیا۔ اور اِس راہ کے ماضی میں جو کچھ ہوا تھا‘ اُس کی روشنی میں وہ اپنے سفرکے راستے کو بخوبی دیکھنے لگے۔ وہ یہ بات جان گئے کہ فتح و نصرت اور غلبہ و سربلندی حاصل کرنے کے لیے فتح و نصرت کے اسباب مہیا کیے بغیر--- جن میں اوّلین سبب اطاعت ِ خدا اور رسولؐ ہے--- صرف اپنے مسلمان ہونے پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔

اللہ کی سنتیں‘ جن کی طرف آیات اشارہ کرتی اور مسلمانوں کی نظروں کو ان کی طرف ملتفت کراتی ہیں‘ یہ ہیں: تاریخ کے دوران مکذبین کا انجام‘ اچھے اور بُرے دنوں کی لوگوں میں گردش‘ دلوں کی کیفیات کو کھوٹ سے پاک کرنے کے لیے ابتلا و آزمایش‘ مصائب و شدائد پر صبرواستقامت کی قوت کا امتحان اور ارباب صبرواستقامت کے لیے فتح و نصرت اور مکذبین کے لیے ہلاکت و مغلوبیت کا استحقاق۔

اِن سنتوں کو پیش کرنے کے دوران آیات مشکلات و مصائب کو برداشت کرنے پر اُبھارتی ہیں‘ شدائد و آلام میں مواساۃ و غم خواری کی تلقین کرتی ہیں اور اُن زخموں پر‘ جو صرف انھیں نہیں‘ اُن کے دشمنوں کو بھی پہنچے‘ اُن کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کرتی اور انھیں تسلی دیتی ہیں اور انھیں سمجھاتی ہیں کہ وہ اپنے عقیدے اور مقصد کے لحاظ سے اپنے دشمنوں سے بلند و برتر ہیں‘ راہِ عمل اور طریق زندگی کے پہلو سے اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور پھر کامیابی بالآخر اُن کے لیے ہے اور اہل کفر کے لیے مغلوبیت اور ذلّت و خواری ہے۔

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌلا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ o ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o        (آل عمران ۳:۱۳۷-۱۳۸)

تم سے پہلے سنت ِ (الٰہی) کی بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں توزمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ یہ لوگوں کے لیے بیانِ (حقیقت) ہے اور متقیوں کے لیے ہدایت و نصیحت۔

اللہ کے یہ قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں اور یہ قوانین اللہ کی مشیت ِ مطلقہ کے وضع کردہ ہیں۔ اس لیے جو کچھ کسی اور زمانے میں رونما ہوا‘ ویسا ہی اللہ کی مشیت کے تحت تمھارے زمانے میں بھی واقع ہوگا اور جو کچھ تمھارے جیسے حالات پر منطبق ہوا‘ وہ تمھارے حالات پر بھی منطبق ہوگا۔  فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (۳: ۱۳۷) ’’تو زمین میں چل پھر کر دیکھو‘‘۔ زمین پوری کی پوری ایک وحدت ہے۔ زمین پوری کی پوری انسانی زندگی کی آماج گاہ ہے۔ اور زمین اور اُس میں موجود زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس میں نگاہوں اور بصیرتوں کے لیے بہت کچھ سامانِ عبرت ہے۔ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (۳: ۱۳۷) ’’تو دیکھو کہ مکذبین کا انجام کیا ہوا؟‘‘

اِس انجام کی شہادت زمین میں اُن کے پھیلے ہوئے آثار دیتے ہیں--- یہاں قرآن اِس انجام کی طرف مجمل اشارہ کر رہا ہے تاکہ ایک مجمل فتح تک پہنچا جاسکے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ مکذبین پر کل گزرا‘ ایسے ہی انجام سے آج اور کل مکذبین دوچار ہوں گے۔ یہ اس لیے کہ اُمت مسلمہ کے دل انجام کی طرف سے مطمئن ہوں‘ نیز وہ پھسل کر مکذبین کی طرف جانے سے  بچ سکیں--- اس سنت کے ذکر کے بعدنصیحت و عبرت کا بیان ہے:

ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o  (۳: ۱۳۸)

یہ بیانِ (حقیقت) ہے لوگوں کے لیے اور ہدایت اور نصیحت ہے متقین کے لیے۔

یہ سب انسانوں کے لیے بیان ہے--- اس کے ذریعے ]لیکن ایک ہی گروہ[ ہدایت سے سرفراز ہوگا اور وہ ’’متقین‘‘ کا گروہ ہے۔

صرف ایمان رکھنے والا دل‘ جو ہدایت کے لیے کھلا ہوتا ہے‘ ہدایت دینے والی بات کو قبول کرتا ہے اور نصیحت و موعظت سے خدا ترس دل ہی کو‘ جو اُس کو سُن کر ہل جاتا ہے‘ نفع ہوتا ہے… مجرد علم اور معرفت کچھ نہیں! کتنے ہی لوگ ہیں جو حق کا علم رکھتے اور اس کی معرفت کے حامل ہیں لیکن وہ باطل کے کیچڑ میں لوٹتے رہتے ہیں‘ اپنی خواہشات کی بندگی کی وجہ سے ‘ جس کے ساتھ علم بے سود ہوتا ہے‘ یا ان مصائب و شدائد کے خوف سے جو حق کے علم برداروں اور اربابِ دعوت کا انتظار کرتی ہوتی ہیں۔

غلبہ و سربلندی

اس بیان کے بعد قرآن مسلمانوں کی طرف رخ کرتا ہے اور انھیں تسلی دیتا اور اُن کے لیے ثابت قدمی اور تقویت کا سامان بہم پہنچاتا ہے:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَخْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o  (۳:۱۳۹)

اور تم پست ہمت نہ ہو اور نہ غم کرو --- اور تم ہی غالب و سربلند ہو--- اگر تم مومن ہو!

وَلَا تَھِنُوْا  --- ’’وھن‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں‘ ضعف--- ’’کمزور نہ پڑو‘‘۔  وَلَا تَخْزَنُوْا ’’غم نہ کرو‘‘ یعنی اُن مصیبتوں کے باعث‘ جو تمھیں پہنچیں اور اُن چیزوں کے باعث جو تم نے کھو دیں‘ کمزور نہ پڑو اور غم نہ کرو۔  وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ’’اور تم ہی غالب و سربلند ہو‘‘۔ غالب و سربلند اس لیے کہ تمھارا عقیدہ بلند و برتر ہے‘ تم صرف ایک خدا کو سجدہ کرتے ہو‘ جب کہ تمھارے مخالفین اُس کی کچھ مخلوقات کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تم اس لیے بھی بلندوبرتر ہوکہ تمھارا طریق زندگی بلند و برتر ہے‘ تم اللہ کے وضع کردہ نظامِ زندگی کے مطابق زندگی کا سفر طے کرتے ہو‘ اور وہ اُس نظامِ زندگی کو اختیار کرتے ہیں جو اُس کی مخلوق کا وضع کردہ ہے۔ دنیا میں تمھارا رول بھی سب سے اعلیٰ ہے‘ تم ساری انسانیت کی نگرانی و سرپرستی کے لیے اللہ کے منتخب کردہ اور ساری انسانیت کے لیے ہادی و رہنما ہو‘ جب کہ تمھارے اعدا حق سے بہت دُور‘ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ تم اِس لیے بھی بلندوبرتر ہو کہ زمین کی وراثت--- جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے--- تمھارے لیے ہے‘ اِس کے برعکس تمھارے اعدا کے لیے فنا اورنسیان مقدر ہے (وہ فنا ہو جائیں گے اور بھلا دیے جائیں گے)۔ اِس لیے اگر تم سچ مچ مومن ہو تو تم ہی غالب و بلند ہو اور اگر تم سچ مچ مومن ہو تو نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ تم بھی مصائب و آلام میں مبتلا ہو اور تمھارے ہاتھوں تمھارے اعدا بھی‘ اور جہاد‘ ابتلا اور کھرے اور کھوٹے کے درمیان امتیاز کے بعد انجامِ کار کامیابی تمھارے ہی لیے ہے۔

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۰-۱۴۱)

اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان اَدلتے بدلتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں اور اُسے تم میں سے (حق کے) گواہ بنانے تھے‘--- اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا--- اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہلِ کفر کا زور توڑنا تھا۔

’’اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے‘‘ اس میں اشارہ غزوئہ بدر کی طرف بھی ہو سکتا ہے جس میں اہلِ کفر پٹ گئے تھے اور مسلمان صحیح و سالم رہے تھے اور غزوئہ احد کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ اِس غزوہ کے آغاز میں مسلمانوں کو فتح اور مشرکین کو شکست ہوئی تھی… یہ درحقیقت اُن کے باہمی اختلاف اور حکمِ رسولؐ کی  خلاف ورزی کی پوری پوری سزا تھی۔ اور یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق ہوا‘ جس میں کبھی تخلف ]وعدہ خلافی[ نہیں ہوتا۔ تیراندازوںکی‘ حکمِ رسولؐ کی خلاف ورزی اور اُن کا باہمی اختلاف مالِ غنیمت کی طمع کا نتیجہ تھا‘ جب کہ اللہ نے جہاد کے معرکوں میں فتح و نصرت اُن لوگوں کے لیے مقدر کی ہے جو اُس کی راہ میں جہاد کریں اور اس حقیردنیا کے سازوسامان کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھیں۔

گردشِ ایام

وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (۳:۱۴۹)

اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں‘ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں۔

یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ اچھے اور بُرے دن لوگوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ لوگوں کی نیتوں اور ان کے اعمال کے لحاظ سے اس سنت پر عمل ہوتا ہے۔ حالات میں فراخی ونرمی کے بعد شدت اور شدت کے بعد فراخی و نرمی‘ اِنھی سے لوگوں کے جوہر اور دلوں کی طبیعتوں کا علم ہوتا ہے اور انھی سے اِس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ دلوں میں کس درجہ کھوٹ یا صفائی ہے‘ بے صبری یا صبر ہے‘ اللہ پر بھروسا یا مایوسی ہے اور خود کو اللہ کی قضا وقدر کے حوالے کر دینے کا جذبہ ہے یا سرکشی و نافرمانی کا۔ اُسی وقت مسلمانوں کی صف میں لوگوں کے مابین امتیاز پیدا ہوتا اور مومنین اور منافقین کا انکشاف ہوتا ہے۔ اُسی وقت اِن دونوں گروہوں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے ‘ دلوں کے اندرونی جذبات لوگوں کی دنیا کے سامنے منکشف ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی صف سے خرابی اور اُس ڈھیلے پن کا ازالہ ہوتا ہے ‘ جس سے اُس کے اعضا و افراد میں تنظیم کی کمی رونما ہوتی ہے‘ جب کہ منافق اور مومن باہم خلط ملط ہوں اور الگ الگ پہچانے نہ جاتے ہوں…

گردشِ ایام اور حالات کی شدت و فراخی کا یکے بعد دیگرے آنا ایک ایسی کسوٹی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی اور ایک ایسی میزان ہے جو کبھی زیادتی نہیں کرتی اور اس معاملے میں حالات کی فراخی حالات کی شدت کی طرح ہے۔ کیونکہ کتنے ہی نفوس ہیں جو شدید حالات میں صابر و ثابت قدم رہتے اور اپنے آپ کو تھامتے رہتے ہیں لیکن خوش گوار اور نرم حالات میں وہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو مصیبت میں صبر کا رویہ اختیار کرتا ہے اور خوش حالی و فراخی سے وہ سبک سراور غافل نہیں ہوتا۔ دونوں حالتوں میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ خیراور شر‘ جس سے بھی اُسے سابقہ پیش آتا ہے‘ سب اللہ ہی کے اِذن سے ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اِس اُمت کی تربیت فرما رہا تھا اور ابھی یہ اُمت انسانیت کی قیادت کے لیے تیاری کے اوّلین مرحلے ہی میں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فراخی و نرمی سے آزمانے کے بعد شدید حالات سے اُس کی آزمایش کی اور عجیب و غریب فتح و نصرت کے بعد تلخ شکست کی آزمایش میں ڈالا۔ اگرچہ یہ سب اپنے اسباب کے تحت اور فتح و شکست کے سلسلے میں اللہ کی  سنت ِ جاریہ کے مطابق ہوا لیکن یہ اس لیے ہوا کہ یہ اُمت فتح و شکست کے اسباب سے آگاہ ہوجائے۔ اللہ کی اطاعت ‘ اس پر توکل اور اس کے سہارے کو مضبوطی سے پکڑنے میں آگے بڑھے اور اِس نظام کی طبیعت اور اس کی ذمہ داریوں اور گراں باریوں کو پورے یقین کے ساتھ جان لے۔

حق کی گواہی

سلسلۂ کلام اُمت مسلمہ کے لیے اِس معرکے کے واقعات کے سلسلے میں اللہ کی حکمت کے پہلوؤں اور گردشِ ایام اوراُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں کھوٹے اور کھرے کے درمیان فرق و امتیاز اور سچّے اہل ایمان کی معرفت جیسے امور کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے:

وَیَتَّخِذَ مِنْکُم شُھَدَآئَ ط (۳:۱۴۰)

اور تاکہ اللہ تم میں سے (حق کے) گواہ بنائے!

یہ ایک عجیب اندازِ بیان ہے ‘ جس کا مفہوم بہت عمیق ہے۔ شہدا‘ اللہ کے برگزیدہ ہیں‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین کے درمیان میں سے انھیں منتخب فرماتا ہے اور اپنے لیے خاص کر لیتا ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ان کی شہادت سرے سے کوئی مصیبت اورکوئی خسارے کا سودا نہیں‘ یہ تو اللہ کا انتخاب و اختصاص اور اعزاز و اکرام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے مختص کیا اور انھیں شہادت سے سرفراز فرمایا‘ یہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انھیں خالصتاً اپنا بنا لے اور اپنے قرب کے لیے انھیں مخصوص فرما لے…

جو شخص زبان سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت دیتا ہے‘ اُس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے شہادت دے دی‘ اِلا یہ کہ وہ اُس کے مفہوم اور اس کے تقاضوں کا حق ادا کرے۔ اُس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو ’’الٰہ‘‘ نہ بنائے اور اِس لیے اللہ کے سوا کسی سے شریعت حاصل نہ کرے۔ کیونکہ اُلوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت بندوں کے لیے تشریع و قانون سازی ہے‘ اور عبودیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تمام ہدایات اللہ ہی سے حاصل کی جائیں۔ اِسی طرح اِس کلمے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ سے ہدایات محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہی سے اخذ کی جائیں کیونکہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں‘ اور اللہ سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے اس واسطے کے علاوہ کسی اور واسطے اور ذریعے پر اعتماد نہ کیا جائے۔

اس شہادت کا تقاضا ہے کہ مومن اِس بات کی جدوجہد کرے کہ زمین میں اُلوہیت صرف اللہ کے لیے ہو‘ جیساکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے پہنچایا اور جس نظام کو اللہ نے انسانوں کے لیے پسند کیا اور چاہا اور جسے اللہ کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا‘ وہی دنیا میں غالب اور چھایا ہوا نظام ہو‘ اور لوگ اُسی کی اطاعت کرتے ہوں۔اور بلااستثنا یہی نظام انسانوں کی پوری زندگی میں متصرف ہو۔

جب اس شہادت کا تقاضا یہ ہو کہ مومن اُس کی راہ میں جان دے دے اور وہ جان دے دے تو وہ ’’شہید‘‘ ہے‘ یعنی ایسا گواہ‘ جس سے اللہ نے شہادت طلب کی تو اس نے یہ شہادت ادا کر دی‘ اللہ نے اُسے ’’شہید‘‘ بنایا اور اسے یہ مقامِ بلند عطا فرمایا! یہی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت کا مفہوم و مقتضا ہے‘ نہ یہ کہ رخصتوں‘ ناکارہ پن اور بے عملی کا راستہ اختیار کیا جائے (اور صرف زبان سے کلمے کی شہادت ادا کی جائے)۔

وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o (۳: ۱۴۰)

اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

… یہ اُسی انجام کا تاکیدی بیان ہے جو ظالم مکذبین کا‘ جو اللہ کے مبغوض ہیں‘ انتظار کررہا ہے۔…

تربیت کا عمل

سلسلۂ کلام آگے بڑھتا ہے اور وہ واقعات کے پیچھے چھپی ہوئی اللہ کی حکمت پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ حکمت کیا ہے؟ اُمت مسلمہ کی تربیت۔ کھوٹ سے پاک کر کے اُسے کھرا اور مضبوط بنانا‘ بلند ترین رول کے لیے‘ جو اُس کا ہے اسے تیار کرنا‘ نیز یہ امر کہ اُمت کفار کا زور توڑنے اور انھیں مغلوب کرنے کے لیے خدا کی قضا و قدر کا آلہ بنے اور مکذبین کی ہلاکت کے لیے اُس کی قدرت کا پردہ بنے۔

وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o  (۳:۱۴۱)

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہل کفر کا زور توڑ دینا تھا۔

’’تمحیص‘‘ (نکھارکر پختہ کرنا) کا درجہ کھوٹ کو دُور کرنے اور کھرے اور کھوٹے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے بعد کا ہے۔ یہ ایک عمل ہے‘ جو دل اور ضمیر کی گہرائیوں میں تکمیل پاتا ہے۔ یہ شخصیت کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے اور ان پر روشنی ڈالنے کا عمل ہے تاکہ وہ ہر طرح کی ملاوٹ اور کھوٹ اور عیب سے پاک صاف ہو کر حق پر قائم ہو سکے۔

انسان بسااوقات اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ وہ اپنے پوشیدہ گوشوں‘ اپنے شگافوں اور اپنی کجیوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ وہ بسااوقات اپنی کمزوری اور قوت کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا اور اس کی شخصیت کے اندرون میں جو چیزیں تہ نشین اور مخفی ہیں‘ اُن کا اُسے علم نہیں ہوتا۔ یہ سب چیزیں کسی اُبھارنے والے واقعے ہی سے اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔

شدید اور نرم حالات کی اُلٹ پھیر اور گردشِ ایام کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمحیص (نکھارنے) کا جو عمل اختیار فرماتا ہے‘ اس کے نتیجے میں اہل ایمان اپنی ذات کے مخفی پہلوئوں کو اچھی طرح جان لیتے ہیں جنھیں وہ اِس تلخ کسوٹی--- حوادث‘ تجربات اور عملی مواقف کی کسوٹی پر پرکھے جانے سے قبل جانتے نہیں ہوتے۔

انسان اپنے بارے میں خیال کرتا ہے کہ وہ قوت وشجاعت کا پیکر ہے اور حرص و بخل سے بالکلیہ پاک ہے۔ لیکن عملی تجربے اور عملی واقعات و حوادث سے دوبدو ہونے کی روشنی میں اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے نفس میں ابھی ایسے نقائص موجود ہیں‘ جن کا ازالہ نہیں ہوا اور وہ اِس سطح کی شدتِ حالات کو برداشت کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے‘ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کی اِن سب کمزوریوں کو جان لے تاکہ ازسرنو وہ اُسے تیار کرنے اور ڈھالنے کی جدوجہد کرے۔ اِس حد تک کہ وہ اس سطح کی شدتِ حالات کو انگیزکرسکے‘ جو اِس دعوت کی فطرت کا مقتضا ہے اور ان ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کر سکے جن کا تقاضا یہ عقیدہ کرتاہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسانیت کی قیادت کے لیے اِس اُمت کی تربیت کر رہا تھا اور اُس سے زمین میں ایک خاص کام لینا چاہتا تھا‘ اسی لیے اللہ نے غزوئہ احد کے واقعات و حوادث کے ذریعے اُسے اس حد تک نکھارا اور پختہ کیا تاکہ وہ اُس رول کی--- جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کیا ہے--- سطح تک بلند ہوسکے اور اس کے ہاتھوں اللہ کا منصوبہ--- جو اُس نے اِس اُمت سے وابستہ کیا ہے--- انجام پذیر ہوسکے۔

وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o  (۳:۱۴۱)

اور اُسے اہل کفر کا زور توڑنا تھا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ حق کے ذریعے باطل کا زور توڑ دیتا اور اُسے ختم کر دیتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے‘ جب کہ حق کھل کر سامنے آجائے اور اللہ تعالیٰ کے عملِ تمحیص کے نتیجے میں وہ ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہو جائے۔

جنت کا راستہ

اب ایک استفہامِ انکاری کے ذریعے اللہ تعالیٰ دعوتِ حق ‘ فتح و شکست اور عمل اور جزا کے بارے میں سنت اللہ کو بیان فرماتا اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے تصورات کی تصحیح کرتا ہے۔ وہ واضح فرماتا ہے کہ جنت کاراستہ مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے اور راہِ حق کے مصائب وشدائد پر صبر اختیار کرنا اِس راہ کا توشہ ہے‘ نہ کہ آرزوئیں اور تمنائیں جو مصائب و شدائد اور تمحیص کے عمل کے موقع پر ٹھہر نہ سکیں:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۲-۱۴۳)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ تم جنت میں یوں ہی پہنچ جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا‘ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا--- اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘ اور تم موت کی --- قبل اِس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

استفہام انکاری کے صیغے سے مقصود فکرونظر کی غلطی پر شدت کے ساتھ تنبیہ کرنا ہے۔ فکرونظر کی یہ غلطی کہ انسان زبان سے ’’اسلام لایا‘‘ کے الفاظ دُہرا دے اور سمجھے کہ اب میں موت کے لیے تیار ہوں اور محض اِن الفاظ کی ادایگی سے وہ ایمان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور جنت اور اللہ کی رضا تک پہنچنے کا اہل ہو جائے گا۔ نہیں‘ عملی تجربے اور عملی جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد کرنے اور مصائب سے دوچار ہونے اور پھر جہاد کی تکالیف اور مصائب و آلام سے دوچار ہونے پر صبر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآنِ مجید کے یہ الفاظ بہت معنی خیز ہیں: وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ (۳:۱۴۲) ’’حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا‘‘ اور وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ (۳:۱۴۲) ’’اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘ ، یعنی اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اہل ایمان جہاد کریں‘ دعوتِ حق کی تکالیف پر صبر بھی ضروری ہے۔مسلسل‘ مستمر اور متنوع تکالیف پر --- جو میدان کے جہاد تک محدود نہیں ہیں۔ صبر!  بسااوقات دعوتِ حق کی تکالیف سے--- جن میں صبر مطلوب ہے اور جن سے ایمان کا امتحان ہوتا ہے--- میدان کا جہاد نسبتاً ہلکی تکلیف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تو روزانہ مشقتوں کو جھیلنے کا سلسلہ ہے‘ جو ختم نہیں ہوتا۔ پھر ایمان کے اُفق پر استقامت کی مشقت ہے۔ فکروعمل اور زندگی کے رویے میں ایمان کے مقتضیات پر قائم رہنا ہے‘ اور اِسی دوران اپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے سلسلے میں--- جن سے مومن کو روزانہ کی زندگی میں سابقہ پیش آتا ہے--- انسانی کمزوری پر صبر۔ اُن اوقات میں صبر‘ جب کہ وہ غالب و سربلند ہوجاتا ہے اور ایک فاتح کی طرح اپنا زور دکھاتا ہے۔ راہِ حق کی درازی و دشواری اور موانع کی کثرت پر صبر۔ جدوجہد‘ کرب و بلا اور جنگ کی زحمتوں کے مقابلے میں راحت و آرام کی طرف رغبت اور اُس کے لیے نفس کے اشتیاق کے مقابلے میں صبر۔ اِسی طرح اور بہت سے امورکے مقابلے میں--- جن میں میدان کا جہاد صرف ایک امر ہے--- صبر‘ اور یہ صبر اُس راستے پر چلنے کے دوران ہے‘ جو مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے‘ یعنی جنت کا راستہ۔ وہ جنت جو آرزووں اور لفظی جمع خرچ سے حاصل نہیں ہوتی! (جہاد اور صبر سے حاصل ہوتی ہے)۔

وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۳)

اور تم موت کی --- قبل اس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے‘ تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

اِس طرح قرآن انھیں ایک بار پھر موت کے--- جس سے اُن کا سامنا میدانِ جنگ میں ہوا تھا--- آمنے سامنے لاکر کھڑا کر دیتا ہے۔ اِس سے قبل وہ موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ کلمے کے وزن کے--- جسے زبان ادا کرتی ہے اور عملی حقیقت کے وزن کے--- جو آنکھوں سے نظر آتی ہے--- مابین موازنہ کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ جو بات بھی‘ اُن کی زبان سے نکلے‘ اُس کا خیال رکھیں‘ پھر اُس کے عملی اثرات کا ‘ جو ان کے نفوس پر پڑیں‘ عملی حقیقت کی روشنی میں--- جس سے وہ عملاً دوچار ہوں--- وزن کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ منہ سے نکل کر اُڑ جانے والے الفاظ اور اُونچی اُونچی آرزوئیں انھیں جنت تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔ جنت تو حاصل ہوگی کلمے کو قائم کرنے‘ آرزووں کو عمل کے پیکر میں ڈھالنے‘ حقیقتاً جہاد کرنے اور مصائب و آلام پر صبر کرنے سے اور یہ اِس حد تک کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی دنیا میں عملاً اِن سب امور کو واقع ہوتا دیکھ لے۔

قیادت کے تقاضے

یقینا اللہ سبحانہ وتعالیٰ اِس بات پر قادر تھا کہ اپنے نبی‘ اپنی دعوت‘ اپنے دین اور اپنے نظامِ زندگی کو پہلے ہی لمحے فتح و نصرت سے نواز دیتا‘ بغیر اس کے کہ اہل ایمان کوئی جدوجہد کرتے اور مشقت برداشت کرتے۔ وہ اِس بات پر بھی قادر تھا کہ فرشتے نازل فرما دیتا‘ جو اہل ایمان کے ساتھ مل کر یا اُن کے بغیر جنگ کرتے اور مشرکین کو اسی طرح ہلاک کر دیتے جس طرح کہ انھوں نے قومِ عاد‘ قومِ ثمود اور قومِ لوط کو ہلاک کر دیا تھا۔

مسئلہ فتح و نصرت کا نہیں‘ اُمت ِ مسلمہ کی تربیت کا تھا‘ جو اِس لیے تیار کی جا رہی تھی کہ اسے انسانیت کی قیادت سونپی جائے۔ انسانیت کی ‘ اُس کی تمام کمزوریوں اور نقائص کے ساتھ‘ اس کی تمام خواہشات و جذبات کے ساتھ اور اس کی تمام جاہلیتوں اور کج رویوں کے ساتھ‘ قیادت! اور قیادت بھی‘ حق و رُشد کی قیادت! یہ قیادتِ راشدہ اِس بات کی متقاضی تھی کہ قائدین اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں۔ اِس قیادت کا اوّلین تقاضا ہے کردار کی مضبوطی و صلابت‘ حق پر ثبات و استقامت‘ مصائب و مشکلات پر صبر‘ ] نیز[ انسانی نفوس میں ضعف اور قوت کے مواقع کی معرفت اور لغزشوں کے مواقع اور کج روی و انحراف کے محرکات اور اُن کے علاج کے ذرائع و وسائل سے آگاہی۔ پھر شدید حالات پر صبر کی طرح حالات کی فراخی و سہولت پر بھی صبر۔ اسی طرح حالات کی سہولت و فراخی کے بعد شدید حالات پر صبر‘ جب کہ اُن کا مزا حد درجہ تلخ ہو۔

یہ ہے اللہ تعالیٰ کی‘ اِس اُمت کے لیے تربیت۔ اللہ تعالیٰ اِس تربیت کے ساتھ اِس اُمت کا‘ جب کہ وہ اُسے قیادت کی کنجیاں سونپنے کا اِذن دیتا ہے‘ ہاتھ پکڑ کر اُسے آگے بڑھاتا ہے‘ تاکہ اِس تربیت کے ذریعے اُس عظیم اور پُرمشقت رول کی ادایگی کے لیے‘ جو زمین میں اِس اُمت سے متعلق کیا گیا ہے‘ اِس اُمت کو تیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ رول اُس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے اِس وسیع و عریض دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔

انسانیت کی قیادت کے لیے اُمت مسلمہ کی تیاری کا خدائی منصوبہ مختلف اسباب و وسائل اور مختلف حالات و واقعات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کبھی یہ منصوبہ اِس طرح    بروے کار آتا ہے کہ اُمت مسلمہ کو قطعی اور فیصلہ کُن فتح ہوتی ہے‘ اِس سے وہ خوش خبری پاتی ہے‘ اور اللہ کی مدد کے زیرسایہ اُس کا‘ اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے‘ فتح و نصرت کی لذت کا اُسے تجربہ ہوتا ہے‘ فتح کے نشے کے مقابلے میں وہ صبر کا رویہ اختیار کرتی ہے اور اتراہٹ ‘ خود پسندی اور فخروغرور پر قابو پانے کی‘ اپنی صلاحیت و قوت کا‘ اُسے تجربہ ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسے اِس بات کا بھی تجربہ ہوتا ہے کہ وہ کس درجہ اِس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتی اور تواضع کے ساتھ اُس کے آگے جھکتی ہے۔ اور کبھی خداے تعالیٰ کا یہ منصوبہ اُمت کی شکست اور مصائب و آلام میں اس کے مبتلا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس صورت میں وہ اللہ کا دامن پکڑتی اور اس کی پناہ میں آتی ہے۔ اُسے اپنی ذاتی قوت کی حقیقت اور اپنی کمزوری و ناتوانی کا--- جب خدائی نظامِ زندگی سے ادنیٰ انحراف کرتی ہے--- بخوبی علم ہو جاتا ہے اور اسے شکست کی تلخی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ باطل کے مقابلے میں سربلند رہتی ہے‘ کیونکہ اس کے پاس خالص حق ہے اور اُسے اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں اور ان کے مواقع اور اپنی خواہشات کی دراندازی اور اپنے قدموں کی لغزشوں کے مواقع کا علم ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس بات کی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ اِن سب کمزوریوں اور لغزشوں سے خود کو پاک کرکے اگلے حملے میں شریک ہواور فتح و نصرت اور شکست و ہزیمت‘ دونوں سے اپنے لیے زادِ راہ اور سازوسامان حاصل کر کے لوٹے--- اس طرح اللہ کا منصوبہ‘ اُس کی اٹل سنت کے مطابق ‘ جس میں کبھی تخلّف نہیں ہوتا‘ پورا ہوتا ہے۔

’’کتنی عجیب و غریب ہے قرآنِ مجید کی بیان کردہ یہ حقیقت! غزوئہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ کفر کا زور ختم کر دے گا۔ کیسے؟ اہلِ ایمان کو اپنی کمزوریوں کا علم ہوگا اور وہ اللہ کی توفیق اور رسول کی تربیت کے نتیجے میں پاک صاف اور پختہ تر ہوکرازسرِنو حق کے غلبے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ     اہل ایمان کے ہاتھوں اہل کفر کا زور توڑ دے گا--- غزوئہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مسلسل پورا ہوا‘ یہاں تک کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں مشرکین کا زور بالکل ٹوٹ گیا‘ پورا عرب اسلام کے زیرنگیں ہوگیا اور اس کے بعد ۲۰‘ ۲۵ سال کے عرصے میں قیصروکسریٰ کی عظیم طاقتیں سرنگوں ہو گئیں اور گردوپیش کے بہت سے ممالک پر انھی اہل ایمان کے ہاتھوں اسلام کا پرچم لہرانے لگا‘‘ (مترجم)۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ج ۲‘ ص ۳۳۱-۳۴۴۔ تدوین:  امجد عباسی)

ترجمہ: مولانا حامد علی ؒ

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۱۵)

وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہو‘ جو مال بھی تم خرچ کرو ‘ وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اور تم بھلائی کے جو کام بھی کرو‘ اللہ اُس سے بخوبی واقف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جن حالات و ظروف میں اسلام پروان چڑھا‘ اُن میں انفاق اُمت ِ مسلمہ کے قیام کی ایک بنیادی ضرورت تھی کیونکہ اُمت کو مشکلات و مصائب اور جنگوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پھر انفاق کو ایک اور پہلو سے بھی ملّت کی ضرورت کی حیثیت حاصل تھی۔ اور وہ ہے ملّت کے افراد کی باہمی کفالت اور ان کے فکری و جذباتی امتیازات و تفرقوں کا ازالہ‘ اِس حد تک کہ ملّت کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ وہ جسدِملّت کا ایک عضو ہے جسے یہ جسد نہ کسی شے سے محروم کرتا ہے اور نہ اُس سے کوئی شے بچا کر رکھتا ہے۔ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں فکری و جذباتی طور پر اس چیز کی بہت بڑی قدروقیمت ہے‘ جب کہ افرادِ ملّت کی ضروریات کی تکمیل کی‘ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں عملی قدروقیمت ہے۔

سوال یہ تھا کہ کس طرح کا مال خرچ کریں؟ اس سوال کا جو جواب آیا‘ اُس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انفاق کی نوعیت کیا ہو اور یہ بھی کہ اس کے اولیٰ اور قریب ترین مصارف کون کون سے ہیں: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ’’کہو! تم جو اچھا مال خرچ کرو‘‘۔

اس اندازِ بیان سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے‘ وہ بہتر ہے۔ بہتر ہے‘ دینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ لینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ مسلمانوں کی جماعت کے لیے۔ اور بہتر ہے فی نفسہ۔ کیونکہ وہ ایک پاکیزہ عمل ہے‘ ایک پاکیزہ پیش کش ہے‘ ایک پاکیزہ شے ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ خرچ کرنے والا خرچ کرنے کے لیے اپنے مال میں سے اعلیٰ شے کو تلاش کرے اور اپنی بہترین اشیا میں دوسرے افراد کو شریک کرے کیونکہ انفاق سے دل کی تطہیر اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے وہ منفعت و اعانت ہے۔ اور ڈھونڈ کر اچھے مال کو خرچ کرنے اور دوسروں کے حق میں اُس سے دست بردار ہونے ہی سے دل کی طہارت اور نفس کا تزکیہ حاصل ہوتا اور ایثار و قربانی کا شریفانہ جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

لیکن یہ دوسرا پہلو لازمی نہیں ہے۔ لازمی--- جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے--- یہ ہے کہ خرچ کرنے والا اوسط درجے کی شے خرچ کرے‘ نہ سب سے خراب شے اور نہ سب سے زیادہ گراں شے۔ یہاں اِس پہلو کی طرف اشارہ اس لیے ہے کہ نفس خوشی خوشی اس بات کے لیے تیار ہو اور اُس میں اِس بات کا شوق پیدا ہو کہ وہ بہتر سے بہتر شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے--- جیسا کہ نفوس کے تزکیے اور دلوں کی تیاری و تربیت کے سلسلے میں قرآن کا طریقہ ہے۔

انفاق کی مدّات

انفاق کا طریقہ اور اُس کی مدّاتِ صرف کیا ہیں؟ اِنفاق کی نوعیت کی وضاحت کے بعد یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے:

فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلط

وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے!

یہ الفاظ لوگوں کی مختلف قسموں کو ایک لڑی میں پرو دیتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس سے خرچ کرنے والے کا رشتے اور خاندان کا تعلق ہے‘ کچھ وہ ہیں جن پر انسان کو رحم آنا چاہیے‘چنانچہ اُن سے رحم و کرم کا تعلق ہے اور کچھ سے عقیدے کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانیت کبریٰ کا تعلق ہے۔ اور یہ سب لوگ--- والدین‘ اعزہ‘ یتامیٰ‘ مساکین‘ مسافر--- ایک ہی آیت (بلکہ ایک ہی جملے) میں آجاتے ہیں۔ یہ سب لوگ اجتماعی کفالت کے اُس مضبوط نظم سے وابستہ ہیں جو بنی نوعِ انسان کو اِس مضبوط عقیدے کے دائرے میں حاصل ہے۔

اِس آیت اور قرآن کی دوسری آیات میں مدّاتِ صَرف کی ایک خاص ترتیب ہے‘ جس کی مزید تشریح و تائید بعض احادیث ِ نبویؐ سے ہوتی ہے‘ مثلاً:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: اپنی ذات سے شروع کرو اور پہلے اپنے اُوپر خرچ کرو۔ جب اُس سے بچ رہے تو اپنے اہل و عیال پر۔ اہل و عیال سے بچ رہے تو اپنے رشتے داروں پر۔ اور رشتہ داروں سے بچ رہے تو اِس طرح اوراِس طرح (غیر رشتہ داروں پر) خرچ کرو۔ (مسلم)

اس ترتیب سے نفسِ انسانی کی تربیت و رہنمائی کے لیے اسلام کے سادہ حکیمانہ نظام پر روشنی پڑتی ہے۔ اسلام انسان کو لیتا ہے جیسا کہ وہ اپنی فطرت‘ اپنے طبعی میلانات اور صلاحیتوں کے ساتھ ہے۔اُسے وہاں سے لے کر چلتا ہے‘ جہاں وہ ہے اور جہاں وہ کھڑا ہے۔ اُسے ایک ایک قدم آگے بڑھاتا ہوا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر نرمی‘ سہولت اور آہستہ روی کے ساتھ لے جاتا ہے۔ وہ بلندیوں پر چڑھتا ہے‘ مگر راحت و آرام کے ساتھ۔ وہ اپنی فطرت‘ اپنے میلانات اور اپنی صلاحیتوں کی پکار پر لبیک کہتا ہے اور ساتھ ہی وہ زندگی کو پروان چڑھاتا اور ترقی دیتا ہے۔ اُسے زحمت و مشقت کا احساس نہیں ہوتا۔ اُسے طوق وسلاسل پہنا کر بلندیوں پر کھینچا نہیں جاتا‘ اُس کی قوتوں اور فطری میلانات کو کچلا اور ختم نہیں کیا جاتا‘ اُسے راستے پر زبردستی چلایا نہیں جاتا‘ نہ اُسے اُوپر اُوپر اڑا کر ٹیلوں اور پہاڑوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اسلام اسے لے کر آہستہ روی اور نرمی و سہولت کے ساتھ بلندیوں پر اِس طرح لے جاتا ہے کہ اُس کے قدم زمین پر ہوتے ہیں‘ نظریں آسمان کی طرف‘ دل بلند ترین اُفق کی طرف متوجہ اور روح بلندیوں میں خدا سے واصل۔

اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کا حکم دیا۔ اُس نے اُس کے لیے پاکیزہ رزق حلال کیا اور اُسے اِس بات پر اُبھارا کہ عیش پسندی اور اِتراہٹ اورفخر و غرور سے بچتے ہوئے اُس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدقہ ذاتی ضروریات کی تکمیل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ اور اُوپر کا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے کے ہاتھ (لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔ اور انفاق کی ابتدا اُن لوگوں سے کرو جن کی کفالت کے تم ذمہ دار ہو!‘‘ (بخاری)

ایک اور روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونا لایا اور اس نے کہا‘ اے اللہ کے رسولؐ! سونے کے اِس انڈے کو میں نے ایک کان میں پایا ہے‘ آپؐ اِسے لے لیں‘ یہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ اور میرے پاس اِس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ شخص آپؐ کی داہنی طرف آیا اور اُس نے پھر یہی بات کہی۔ آپؐ نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کی بائیں طرف آیا اور اس نے یہی بات پھر کہی۔آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کے پیٹھ پیچھے سے آیا اور اس نے یہی بات دہرائی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس انڈے کو لے لیا اور اُسے اُس پر پھینک دیا‘ اگر وہ اُسے لگتا تواُسے چوٹ لگتی۔ پھر آپ ؐنے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی تمام مملوکہ اشیا لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے‘ یہ صدقہ ہے! پھر وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ (ابوداؤد)

اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنے خاندان کے قریبی افراد--- اہل و عیال اور والدین سے محبت کرتا ہے۔ اِس لیے اسلام اُسے اُس کی ذات کے بعد ایک قدم آگے بڑھا کر اُن لوگوں کے پاس لے جاتا ہے جن سے وہ محبت رکھتا ہے‘ تاکہ وہ راضی خوشی اُن پر اپنا مال خرچ کرے اور اپنے فطری میلان کی--- جس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ بلکہ حکمت اور خیر ہے--- تکمیل کرسکے۔ اِسی کے ساتھ وہ اس طرح اپنے قریب ترین اعزہ کی کفالت بھی کرتا ہے‘ جو اس کے اعزہ ہونے کے ساتھ امت ِ مسلمہ کے افراد بھی ہیں۔ اگر اُن کو نہ دیا جائے تو وہ محتاج ہوجائیں گے۔ اُن کا اپنے اعزہ سے مدد لینا دُور کے لوگوں سے مدد لینے کے مقابلے میں زیادہ شریفانہ بات ہے۔ علاوہ ازیں اِس عمل سے اولین گھر میں--- جہاں انسان کے اہل و عیال اور والدین رہتے ہیں--- محبت اور سلامتی کا نشوونما ہوگا اور خاندان کے--- جسے اللہ تعالیٰ انسانیت ِ کبریٰ کے لیے پہلی اینٹ بنانا چاہتا ہے--- باہمی روابط میں استحکام ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس قریب ترین دائرے کے بعد انسان اپنے سب ہی عزیزوں سے--- اُن کے قریب یا دُور کے تعلق کے مطابق--- محبت کرتا اور اُن کے لیے حمیّت رکھتا ہے--- اور اس میں کوئی خرابی بھی نہیں--- کیونکہ یہ لوگ بہرحال اُمت ِ مسلمہ کے جسم اور سماج کے اعضا ہیں۔ اسی لیے اسلام قریبی اعزہ کے بعد ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور انسانیت کے فطری رجحانات و میلانات کے ساتھ اِن رشتہ داروں کی طرف رخ کرتا ہے تاکہ اُن لوگوں کی ضروریات کی تکمیل ہو‘ اِن عزیزوں کے ساتھ بھی روابط مستحکم ہوں اور اُمت ِ مسلمہ کا یہ یونٹ قوی یونٹ بن سکے جس کے باہمی تعلقات قوی اور محکم ہوں۔

قریب اور دُور کے اعزہ پر خرچ کرنے کے بعد انسان کے پاس کچھ بچ رہے تو اسلام اس کا ہاتھ پکڑ کر عام انسانیت کے اُن گروہوں کے پاس لے جاتا ہے جن کی ناتوانی یا حالات کی پریشانی کے باعث انسان کے رحم اور تعاون کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ اِن میں سب سے پہلے کم عمر اور ناتواں یتیم بچے آتے ہیں۔ پھر غربا و مساکین ہیں‘ جو تہی دست ہیں اور اُن کے پاس اُن کے ضروری مصارف کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ اپنی عزت کو بچانے کے لیے خاموش رہتے ہیں اور دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ پھر مسافر ہیں‘ جو اگرچہ گھر پر مال و دولت رکھتے تھے مگر اب اس سے دُور اور محروم ہیں--- ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت تھے‘ جو اپنا سب کچھ مکّہ میں چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر آئے تھے--- مذکورہ بالا سب گروہ سماج ہی کے اعضا ہیں‘ اس لیے جو لوگ کچھ مال و دولت رکھتے ہیں‘ اسلام انھیں متوجہ کرتا ہے کہ وہ ان تہی دستوں پر خرچ کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ پہلے ان کے جذبات کو اپیل کرتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور پھر انھیں انفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے تمام اغراض و مقاصد نرمی و سہولت کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا پہلا مقصد یہ تھا کہ خرچ کرنے والے نفوس کا تزکیہ ہو۔ یہ مقصد اس طرح حاصل ہوا کہ انھوں نے جو کچھ دیا اور جو کچھ خرچ کیا‘ راضی خوشی دیا‘ طیب ِ نفس کے ساتھ خرچ کیا ‘کسی تنگی اور کنجوسی کے بغیر خرچ کیا‘ اللہ کی رضا کے لیے‘ اُس کی طرف رخ کرتے ہوئے خرچ کیا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ لوگ اِن ضرورت مندوں کو دیں اور اُن کی ضروریات کی تکمیل اور کفالت کا نظم ہو۔ یہ مقصد بھی حاصل ہوا۔ اسلام کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ تمام افراد کو اِس طرح مربوط و منظم کیا جائے کہ کسی پریشانی اور تنگی کے بغیر وہ ایک دوسرے کے ضامن و کفیل ہوں اور یہ مقصد بھی حاصل ہوا--- اسلام کی قیادت کتنی لطیف قیادت ہے جو سہولت کے ساتھ اپنے سب مقاصد کی تکمیل کر لیتی ہے اور جبر و تشدد اور تصنّع کے بغیر خیر کے سارے پہلو حاصل کر لیتی ہے۔

اس کے بعد اسلام اِس پورے عمل کو اعلیٰ اُفق کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ انسان جو کچھ دے‘ جو کچھ کرے اور دل میں جو نیت اور ارادہ رکھے‘ اُس سب کے سلسلے میں وہ خدا سے تعلق کو اُس کے دل میں اُبھار دیتا ہے:

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o

بھلائی کے جو کام بھی تم کرو گے‘ اللہ اُن سے بخوبی واقف ہے۔

اللہ اُس کے عمل سے واقف ہے‘ عمل کے محرکات سے واقف ہے‘ اس کے پیچھے جو نیت ہے‘ اس سے بھی واقف ہے۔ اس کا عمل ضائع نہ ہوگا! وہ اللہ کے حساب میں ہے جس کے پاس کوئی شے ضائع نہیں ہوتی‘ جو لوگوں پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اُن کو رتی بھر کم کر کے دیتاہے‘ جس کے یہاں ریا اور ملمع کاری کا گزر نہیں۔

اس طرح اسلام کسی سختی اور تصنّع کے بغیر نرمی و سہولت سے دلوں کو اُفق اعلیٰ سے مربوط کر دیتا ہے اور صفاے قلب اور خدا کے لیے یکسوئی اور خلوص کے بلند مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہے وہ نظامِ تربیت جو   علیم وخبیر کا وضع کردہ ہے ۔ اسی پر وہ اپنا نظام قائم کرتا ہے جو انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے لیتا ہے  اور جہاں وہ ہے وہیں سے اُسے لے کر چلتا ہے۔ پھر وہ اُسے اُن بلندیوں تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا اور نہ کبھی پہنچا ہے مگر صرف اُس وقت‘ جب کہ وہ اِس راستے پر اِسی نظام کے تحت  چلا ہے۔(فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۵۴۰-۵۴۵)