[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کا پہلا عظیم الشان کارنامہ انصار و مہاجرین کے درمیان نظامِ مواخات کا قیام تھا۔ اس کے ساتھ ہی مکّے کے اہلِ ایمان کو مدینے (دارالاسلام) کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا، کیوں کہ مدینۂ طیبہ ایک شہری ریاست بن چکا تھا، جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان چند واضح شرائط پر ایک معاہدہ میثاقِ مدینہ طے پاگیا کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا، اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں دونوں فریق متحد ہوکر مدینے کا دفاع کریں گے۔ میثاقِ مدینہ مسلمانوں کے نزدیک اس لیے اہم تھا کہ اس معاہدے کے مطابق قوت و اقتدار کا مرکزی کردار آنحضوؐر کی ذات کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی تاریخ اور یہود حجاز کے طرزِعمل پر ایک نگاہ ڈالی جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ جو معاہدہ کیا، وہ کیوں ضروری تھا، اور اس کے حقیقی اسباب کیا تھے؟]
عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑسکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے اُن کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آکر وہ اپنے بقیہ ابناے ملّت سے بچھڑگئے تھے ، اور دنیا کے یہودی سرے سے اُن کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں، اُن میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہودِ عرب کی تاریخ کا بیش تر انحصار اُن زبانی روایات پر ہے جو اہلِ عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلایا ہوا تھا۔
حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آکرآباد ہوئے تھے۔ اس کا قصّہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسٰی ؑنے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالِقَہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکرفرمانِ نبی کی تعمیل کی، مگر عَمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوب صورت نوجوان تھا، اسے انھوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اُس وقت حضرت موسٰی ؑکا انتقال ہو چکا تھا۔ اُن کے جانشینوں نے اِس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت ِ موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انھوں نے اِس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آکر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے،اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہلِ عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔
دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبلِ مسیح میں ہوئی، جب کہ بابِل کے بادشاہ بُختِ نَصَّر نے بیت المَقدِس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتربتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اُس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القُریٰ، تَیماء اور یثرب میں آباد ہوگئے تھے (فُتوح البُلدان، البلاذُرِی)۔ لیکن اِس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔
درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب سنہ ۷۰ء میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا، اور پھر سنہ ۱۳۲ء میں انھیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اُس دَور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سُودخواری کے ذریعے سے اُن پر قبضہ جما لیا۔ اَیلہ، مَقنا، تبوک، تَیماء، وادی القُریٰ، فَدَک اور خیبر پر اُن کا تسلّط اسی دَور میں قائم ہوا۔ اور بنی قُرَیَظہ، بنی نَضِیر، بنی بَہدَل اور بنی قَینُقَاع بھی اُسی دور میں آکر یثرب پر قابض ہوئے۔
یثرب میں آباد ہونے والے [تین] قبائل میں سے بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ زیادہ ممتاز تھے ، کیونکہ وہ کاہنوں (Cohens یا Priests) کے طبقے میں سے تھے، انھیں یہودیوں میں [بنوقَینُقاع کے مقابلے میں] عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملّت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینے میں آکر آباد ہوئے، اُس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انھوں نے دبا لیا اور عملاً اِس سرسبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد سنہ ۴۵۰ء یا ۴۵۱ء میں یمن کے اُس سیلابِ عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورئہ سبا کے دوسرے رکوع میں [آیا] ہے۔ اِس سیلاب کی وجہ سے قومِ سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غَسّانی شام میں، لَخمی حِیرَہ (عراق) میں، بنی خُزاعہ جدّہ و مکّہ کے درمیان، اور اَوس و خَزرَج یثرب میں جاکر آباد ہوئے۔ یثرب پرچونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے اوّل اوّل اَوس و خَزرَج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چارو ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے، جہاں اُن کو قُوتِ لایمُوت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخرکار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غَسّانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اَوس و خَزرَج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ شہر کے باہر جاکر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینُقاع کی چونکہ اِن دونوں یہودی قبیلوں سے اَن بن تھی، اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اُسے قبیلۂ خَزرَج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اُس کے مقابلے میں بنی نَضِیر و بنی قُرَیَظہ نے قبیلۂ اَوس کی پناہ لی، تاکہ اطرافِ یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے، آغازِ ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خدوخال یہ تھے:
اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کو وہ اُمّی (gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان اُمّیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سردارانِ عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انھیں دین یہود میں داخل کرکے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایاتِ عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہوگئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجاے صرف اپنے کاروبار سے دل چسپی تھی۔ اِسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایۂ فخروناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علما نے تعویذ گنڈوں اور فال گیری اور جادُوگری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا، جس کی وجہ سے عربوں پر اُن کے ’علم‘ اور ’عمل ‘کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپؐ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اوّلین کام کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اَوس اور خَزرَج اور مہاجرین کو ملاکر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا، جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔
اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں] یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن اُمور کی پابندی قبول کی تھی:
اِنَّ عَلَی الْیَہُوْدِ نَفَقَتُہُمْ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ نَفَقَتُہُمْ ، وَ اِنَّ بِیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ حَارَبَ اَہْلَ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ ، وَ اِنَّ بَیْنَھُمْ النُّصْحُ وَالنَّصِیْحَۃُ وَالْبِرُّ دُوْنَ الْاِثْمِ ، وَاِنَّہُ لَمْ یَاثَمْ اِمْرَؤٌ بِحَلِیْفِہٖ ، وَ اِنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُوْمِ، وَ اِنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوا مُحَارِبِیْنَ ، وَ اِنَّ یَثْرَبَ حَرَامٌ جَوْفُھَا لِاَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ …… وَ اِنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ اَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ مِنْ حَدَثٍ اَوْ اِشْتَجَارِ یُخَافُ فَسَادُہُ فَاِنَّ مَرَدَّہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِلٰی مُحَمَّدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ …… وَ اِنَّہُ لَا تُجَارُ قُرَیْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَہَا، وَ اِنَّ بَیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ دَہِمَ یَثْرِبَ - عَلٰی کُلِّ اُنَاسٍ حِصَّتَہُمْ مِنْ جَانِبِھِمْ الَّذِیْ قِبَلَہُمْ (ابن ہشام، ج ۲ ، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)
یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا، حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا۔ اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے ، یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اُس کے مصارف اٹھائیں گے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو، اس کے مقابلے میں شرکاے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔
یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معانِدانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بہ روز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے:
___ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو محض ایک رئیسِ قوم دیکھنا چاہتے تھے جو اُن کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کرکے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے، مگر انھوں نے دیکھا کہ آپؐ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود اُن کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا)، اور معصیت چھوڑ کر اُن احکام الٰہی کی اطاعت کرنے اور اُن اخلاقی حُدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیا بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ اُن کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالم گیر اصولی تحریک اگرچل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔
___دوسرے یہ کہ اَوس و خَزرَج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گردوپیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اِس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اِس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملّت بنتے جا رہے ہیں، انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انھوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی، وہ اب اِس نئے نظام میں نہ چل سکے گی، بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا، جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔
___تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدّن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کر رہے تھے، اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدّباب شامل تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سُود کو بھی آپؐ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے، جس سے انھیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپؐ کی فرماں روائی قائم ہوگئی تو آپؐ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اِس میں ان کو اپنی [معاشی اور سماجی] موت نظر آتی تھی۔
ان وجوہ سے انھوں نے حضوؐر کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپؐ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرّہ برابر تأمُّل نہ تھا۔ وہ آپؐ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے، تاکہ لوگ آپؐ سے بدگمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے، تاکہ وہ اِس دین سے برگشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے، تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے سازباز کرتے تھے۔ ہر اُس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اَوس اور خَزرَج کے لوگ خاص طور پر اُن کے ہدف تھے، جن سے اُن کے مدت ہاے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بُعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ اُن کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے، تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اُخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیاتھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جوں ہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا، وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور عَلانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمھارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمھارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،جلد پنجم،ص ۳۷۰-۳۷۷)
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دعوتِ اسلامی سے یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کا اظہار تو مکی زندگی میں بھی ہوتا رہتا تھا، اور قرآن مجید کی مکی سورتوں میں اس کے شواہد بھی موجود ہیں، لیکن حضوؐر کی مدینہ تشریف آوری پر ایک معاہدے کی پابندی قبول کرلینے کے باوجود، حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے خلاف ان کا عناد ایک تدریج کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آغاز اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا، پھر اس کی شدت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ غزوئہ بدر (سنہ ۲ ہجری) تک پہنچتے پہنچتے ان کا یہ طرزِعمل معاہدے کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔ غزوئہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر جو فتحِ مبین حاصل ہوئی، اس نے انھیں اور زیادہ مشتعل اور بے قابو کردیا اور ان کے بُغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ یہود کی اس کھلی کھلی معاندانہ روش کی بنا پر آگے چل کر حضوؐر نے ان کے تینوں بڑے قبائل (بنوقَینقُاع، بنونَضیر اور بنوقُرَیَظہ) کے خلاف جو سخت اقدامات فرمائے ان کی تفصیل آیندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتابُ اللہ کے خلاف یہود کی دشمنی، ان کا بُغض، ان کی نفرت اور ان کی مُعانِدانہ روش کس درجے کی تھی؟ اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے، قرآن حکیم، خاص طور سے سورۃ البقرہ کے حوالے سے، یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کی ایک جھلک سطورِ ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:
اَوس اور خَزرَج کے نومسلموں (یعنی گروہِ انصار) سے خطاب کرکے فرمایا گیا: اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ م بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ o (اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔)
(الف)نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان [لانے سے پہلے قبائلِ مدینہ اَوس اور خَزرَج کے] لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت،کتاب، ملائکہ ،آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انھوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انھوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھاجائیں گے۔ یہی معلومات تھیںجن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سن کر آپؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب ِآسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُرجوش نومسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مُشتَبہ ہی معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اس بنا پر [سورۂ بقرہ کی متعدد آیات میں] بنی اسرائیل کی تاریخی سرگذشت بیان کرنے کے بعد [یہاں] ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں، ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمھاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہوجائو گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، انھی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین ِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیںاور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔
(ب) [سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں]’ایک گروہ‘ سے مراد [یہود] کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔ ’کلام اللہ‘ سے مراد تورات، زَبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ’تحریف‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیر و تبدل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ___ علماے بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلامِ الٰہی میں کی ہیں۔( تفہیم القرآن ،جلد اوّل، ص ۸۷)
[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر یہودی پیشوائوں کے اندر یہ مرض شدت اختیار کرگیا تھا۔ اسی سورئہ بقرہ کی آیت ۷۶ تا ۱۲۱ میں یہود اور ان کے مذہبی پیشوائوں کی حالت پر جو تبصرہ کیا گیا ہے، اس کے درج ذیل نِکات سے اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، اس کی کتاب اور اس کے دین کے ساتھ کس قسم کا برتائو کر رہے تھے اور اُن کی دینی اور اخلاقی پستی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔]
۱- اللّٰہ کے متعلق ان کا فاسد عقیدہ: [اُن کے علما] وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں، یا جو آیات اورتعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہے، انھیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمھارے رب کے سامنے ان کو تمھارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چھپا لے گئے، تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جملۂ معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔
۲- کلام اللّٰہ میں تحریف اور آمیزش: اُن کے علما--- نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الٰہی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کردیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ [مزید برآں ]ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفسر کی تاویل، ہرمُتکلم کا الٰہیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد، جس نے مجموعۂ کتبِ مقدسہ (بائبل) میں جگہ پا لی، اللہ کا قول (Word of God) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہوگیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہوگئے۔(ایضاً، ص ۸۸-۸۹)
[اس پر فرمایا گیا:] فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ o (پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نَوِشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔(ایضاً)
۳- یھودی عوام کی خوش خیالیاں: [رہے عوام تو ان کا یہ ] حال تھا، علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں، اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھوٹی توقعات پر جی رہے تھے(ایضاً)۔ [ان کے بارے میں فرمایا:] ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جوکتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوئوں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
۴- خود فریبی کی انتھا: [کلامِ الٰہی کے ساتھ یہ معاملہ کرنے اور خوفِ خدا سے بے نیاز ہوجانے کے بعد اُن کی خود فریبی اور جسارت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ بمطابق ارشاد الٰہی] وہ کہتے تھے: دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلاَّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ [اس پر فرمایا گیا:] اِن سے پوچھو: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمھیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکّر میں پڑا رہے گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔(ایضاً، ص ۸۸-۹۰)
یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں، بہرحال چونکہ ہم یہودی ہیں، لہٰذا جہنم کی آگ ہم پر حرام ہے، اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔
۵- کتابُ اللّٰہ پر جزوی ایمان:نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِجنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبردآزما ہو جاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انھیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انھیںچھڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لین دین کو جائز ٹھیرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔(ایضاً، ص ۹۱-۹۲)
[چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:] اَفَـتُؤْمِنُوْنَ بِـبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِـبَعْضٍ، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کُفر کرتے ہو؟ (ایضاً، ص ۹۱)
۶- جبریل علیہ السلام سے یھود کی دشمنی: یہودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل ؑکو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں عذاب کا فرشتہ ہے(ایضاً، ص ۹۶)۔ [فرمایا گیا:] اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل ؑ سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل ؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمھارے قلب پر نازل کیا ہے---اس بنا پر تمھاری گالیاں جبریل ؑ پر نہیں، بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔ [پھر] یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے، لہٰذا تمھاری گالیوں میں تورات بھی حصے دار ہوئی۔۱۰؎
۷- انبیا کے مقابلے میں سرکشی اور سنگ دلی: [سورۂ بقرہ کی آیت ۸۷ میں ان کے ایک سنگین جرم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:] پھر یہ تمھارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ [اس کے بعد اگلی آیت ۸۸ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:] وہ کہتے ہیں: ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پِھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔(ایضاً، ص ۹۲-۹۳)
[گویا اُن کا کہنا یہ ہے کہ] ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمھاری بات کا اثر نہ ہوگا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کردیا جائے۔
۸- کتابُ اللّٰہ اور رسولؐ اللّٰہ کی تکذیب:[آیت ۸۹ میں قرآن کے بارے میں ان کے طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:] اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دُعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔
[پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ] نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دَورشروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ ِبعثتِ محمدیؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی اُمیّد پر جِیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیۂ کلام یہی تھا کہ ’’اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے‘‘۔ اہلِ مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہ یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔
اور یہ جو فرمایا کہ ’وہ اس کو پہچان بھی گئے‘ تواس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت امّ المومنین حضرت صَفِیَّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیرتک آپ ؐسے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، جلد دوم، ص۱۶۵، طبع جدید)
[علماے یہود کی اس بے جا ضد اور انکارِ حق پر تبصرہ کرتے ہوئے آیت ۹۰ میں فرمایا گیا:] خدا کی لعنت اِن منکرین پر! کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلّی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا، لہٰذا اب یہ غضب بالاے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلّت آمیز سزا مقرر ہے۔
[اس ارشادِ الٰہی کے مطابق:] یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو، مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا، جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا، جب اس نے ان سے نہ پوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا، نواز دیا، تو وہ بگڑ بیٹھے۔(ایضاً، ص ۹۳-۹۵)
[اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر، گروہِ یہود، یثرب کے اندر معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک قابلِ لحاظ حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب خیال فرمایا کہ چند شرائط کے ساتھ اُن سے ایک معاہدہ کرلیا جائے۔ نیز درج بالا تفصیل سے یہودِ مدینہ کی مختصر تاریخ، اُن کی اخلاقی اور مذہبی حالت، ان کے قومی نصب العین (آنحضوؐر سے دشمنی)، اسلام سے ان کے تعصّب اور عناد اور بحیثیت مجموعی ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ پر مبنی ان کے منفی رویوں کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔] (انتخاب، ترتیب و تدوین: عبدالوکیل علوی، حفیظ الرحمٰن احسن، رفیع الدین ہاشمی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا ط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o (التغابن ۶۴:۷) منکرین نے بڑے دعوے سے کہا کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے۔ ان سے کہو: ’’نہیں، میرے رب کی قسم! تم ضرور اُٹھائے جائو گے، پھر تمھیں ضرور بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے‘‘۔
یہ بات پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کی جاچکی ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ اس بنا پر کرتے ہیں کہ ان کی خواہشاتِ نفس یہ چاہتی ہیں کہ ان کو دنیا میں برائیاں کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل رہے۔ ان کے لیے کوئی مستقل اخلاقی قانون نہ ہو، نہ کوئی ایسی مستقل قدریں ہوں جن سے انحراف نہ کیا جاسکتا ہو، کیونکہ جو نیکی ہے وہ تو ہرحال میں نیکی ہی رہے گی، اسی طرح جو بدی ہے وہ بھی لازماً اور ہرحال میں بدی ہی رہے گی۔ انسان اس طرح کی قدریں ماننے سے اس لیے انکار کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس کی خواہشاتِ نفس پر پابندیاں لگاتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ زندہ نہیں ہونا ہے۔ یہ بات وہ کسی عقلی دلیل کے ساتھ نہیں کہتا، کیونکہ اگر وہ عقل کی بنیاد پر یہ بات کہتا ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ آپ جب پہلے نہیں تھے تو وجود میں کیسے آگئے؟ جب نہ ہونے کے بعد آپ پیدا ہوگئے تو پھر دوبارہ نہ ہونے کے بعد نہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اگر ناممکن ہوتا تو آپ کا پہلی مرتبہ پیدا ہونا ناممکن ہوتا۔ جب پہلی مرتبہ پیدا ہونا ممکن ہوگیا تو پھر دوبارہ پیدا ہونا کیسے ناممکن ہے۔ چنانچہ اگر آدمی محض عقل پر بھی مدار رکھے تو وہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ناممکن ہے۔ لیکن چونکہ خواہش نفس یہ کہہ رہی ہے کہ اس بات کو ہرگز نہ مانو، کیونکہ اس کے ماننے سے یہ اور یہ پابندیاں تمھارے اُوپر عائد ہوجائیں گی، اس وجہ سے اپنے طور پر وہ جان چھڑانے کے لیے یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ناممکن ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کافروں نے اپنی جگہ یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ دوبارہ نہیں اُٹھائے جائیں گے تو ان کا یہ گمان سراسر باطل ہے۔
زعم کا مطلب ہے اپنی جگہ کسی بات کو سچ سمجھ لینا، جب کہ واقعہ نہ ہو۔ اُردو زبان میں بھی آپ کہتے ہیں تم اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل جائے گی۔ چنانچہ فرمایا: قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ، ان سے کہو کہ تم کیوں نہیں اُٹھائے جائو گے۔ ان سے کہو میرے رب کی قسم! تم ضرور اُٹھائے جائو گے۔ پھر فرمایا: ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ، پھر ضرور تمھیں بتایا جائے گاکہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔
گویا جس چیز سے بچنے کے لیے تم اس کا انکار کر رہے ہو، وہی چیز پیش آکر رہنی ہے۔ تم اس بات سے بچنا چاہتے ہو کہ کوئی تم سے یہ پوچھے کہ تم دنیا میں کیا کرکے آئے ہو، جو مال تم کو دیا گیا تھا اس کو کس طرح استعمال کیا، جو جسم تم کو دیا گیا تھا اس کی طاقتوں کو تم نے کس طرح استعمال کیا، جو قابلیتیں تم کو دی گئی تھیں ان کو کہاں استعمال کیا۔ غرض، ایک ایک چیز کے متعلق تم سے سوال ہونا ہے۔ تم کو یہ بتایا جائے گا کہ تم یہ یہ کچھ کر کے آئے ہو۔ تمھارا پورا نامۂ اعمال تمھارے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ یہ تمھاری زندگی کا کارنامہ ہے___ اور ایسا کرنا خدا کے لیے بالکل آسان ہے۔
تم اپنی جگہ سمجھتے ہو کہ تمھارا دوبارہ زندہ کر کے اُٹھا دینا بڑا مشکل کام ہے، حالانکہ اللہ کے لیے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر مشکل ہوتا تو تمھیں پہلی بار پیدا کرنا مشکل ہوتا۔ جب ایک دفعہ وہ پیدا کرچکا تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیسے مشکل ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو اپنے سامنے بیک وقت جمع کرلینا بھی کچھ مشکل نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ تمھارے سب کے نامہ ہاے اعمال کو لاکر سامنے رکھ دینا، جن میں تمھاری پوری زندگی کا کارنامہ بلاکم و کاست درج ہو، اور جو چیزیں تم بھول بھی گئے ہو گے وہ بھی اس کے اندر موجود ہوں گی۔ یہ سب کچھ تمھارے نزدیک مشکل ہوسکتا ہے مگر اللہ کے لیے نہیں۔ تم اپنی جگہ یہ سمجھ سکتے ہو کہ قیامت تک نہ جانے کتنے ارب کتنے کھرب انسان پیدا ہوچکے ہوں گے، ان سب کے کارنامے کو کون مرتب کرے گا اور کون اسے سامنے لاکر رکھے گا لیکن اللہ کے لیے یہ بالکل آسان ہوگا۔ جو خدا بیک وقت ساری کائنات کو دیکھ رہا ہے اور اس کی تدبیر کر رہا ہے، جو خدا ساری مخلوق کی باتیں ہروقت سُن رہا ہے اور ان کا جواب دے رہا ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے کارنامے کو بیک وقت ان کے سامنے لاکر رکھ دے۔
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنزَلْنَاط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo (۸) پس ایمان لائو اللہ پر، اور اس کے رسولؐ پر، اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
اُوپر کے تمام دلائل پیش کرنے کے بعد یہ کہنا کہ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ، اللہ پر ایمان لائو، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب حقائق یہ ہیں تو اس کے بعد تمھارے لیے سیدھا راستہ یہ ہے کہ اللہ کو اور اس کے رسولؐ کو مان لو اور اس نور پر ایمان لے آئو جو ہم نے نازل کیا ہے۔ یہاں نور سے مراد وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انسان کو دی ہے۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ صرف قرآنِ مجید ہی نور نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور آپؐ کی سنت بھی نور ہے۔ اس طرح زندگی کے تمام معاملات میں آپؐ کی چھوڑی ہوئی ہدایات بھی نور ہیں۔ ان سب چیزوں کے مجموعے کو لفظ نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ہدایت کی وہ روشنی ہے جو کھول کھول کر بتا رہی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اس نور کی پیروی کرو___ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
اس مقام پر یہ مضمون اس جملے پر ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمام دلائل فراہم کردیے ہیں۔ اپنا رسول بھیج کر اپنی تعلیمات پہنچا دی ہیں اور اس کے ساتھ تمھیں دعوت دے دی ہے کہ ہمارے رسولؐ کو مانو اور اس کی تعلیمات کو مانو۔ اب اس کے بعد اگر کوئی نہیں مانتا تو اللہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو وہ صرف یہ کہنے پر نہیں چھوٹ جائے گا کہ صاحب یہ دلائل تو میری عقل میں اُترے ہی نہیں تھے، اس لیے میں نے دین کو نہیں مانا تھا لیکن یہ باتیں وہ صرف انسانوں سے کہہ سکتا ہے، اللہ سے نہیں کہہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس کو کھول کر بتا دے گا کہ تو نے کیوں نہیں مانا تھا۔ آپ لوگوں کے سامنے تو یہ باتیں بنا سکتے ہیں کہ دین حق کی باتیں میرے دماغ میں نہیں اُترتی تھیں لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ آپ کے قبولِ حق سے فرار کے اسباب کیا تھے۔ آپ کی خواہشاتِ نفس اصل رکاوٹ تھیں اور آپ کے تعصبات دراصل اس کو قبول کرنے میں مانع تھے۔ آپ نے یہ سوچا کہ اگر میں نے اس حقیقت کو مان لیا تو کنبہ اور برادری چھوٹ جائے گی، جایداد چھوٹ جائے گی، وراثت سے محروم ہوجائوں گا، اس دین کو قبول کرکے بہت سی تکلیفیں اور مصائب مجھے پیش آسکتے ہیں، تو اس طرح کی بیسیوں رکاوٹیں آدمی کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ تب آدمی حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص انکار کرتا ہے تو یہ کہہ کر کرتا ہے کہ یہ دین تو میری سمجھ ہی میں نہیں آتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کے قبولِ حق سے انکار کے اصل وجوہ سے اچھی طرح باخبر ہے۔ وہ اس روز ان سب باتوں کی حقیقت اس پر کھول کر رکھ دے گا، ایسے دلائل اور شواہد کے ساتھ کہ آدمی ان کی تردید میں زبان نہیں کھول سکے گا۔ دنیا میں تو اس کی سخن سازی چل سکتی ہے لیکن قیامت کے روز خود اس کا اپنا نفس اس کو بتادے گا کہ تو جھوٹا ہے، اور اللہ جس بات کی تجھے خبر دے رہا ہے، وہ برحق ہے۔
یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۹-۱۰) (اس کا پتا تمھیں اُس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ اور جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، اللہ اُس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔
یہ فرمایا کہ ہم نے اپنی آیات پر ایمان لانے کی جو دعوت تم لوگوں کو دی ہے اس کے جواب میں جو رویہ تم اختیار کرو گے ہم اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ظاہری طور پر باخبر ہیں بلکہ اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ کس نیت سے تم نے کیا رویہ اختیار کیا۔
اب اس کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ: یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ، یعنی جب اللہ تعالیٰ تمھیں اکٹھا کیے جانے کے دن میں اکٹھا کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ دن ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے طے کر رکھا ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک جتنے انسان پیدا ہوں گے ان کے تمام اوّلین و آخرین کو بیک وقت اکٹھا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ اسے یوم التغابن کہا گیا ہے۔ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ، وہ تغابن کا دن ہوگا۔
تغابُن عربی قاعدے کے مطابق تَفَاعُل کا صیغہ ہے غَبَن سے، اور غبن کہتے ہیں چُھپی ہوئی خیانت کو، وہ خیانت جو آدمی نے چھپا کر کی ہو۔ آپ اُردو زبان میں بھی غبن کا لفظ قریب قرب اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ تَغَابُن کا مطلب ہے غبن کا کُھل جانا۔ مراد یہ ہے کہ آدمی نے جو کچھ بھی غبن کیا ہے، جو جو کچھ خفیہ خیانت کی ہے وہ کُھل کر ساری سامنے آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو جو قوتیں عطا کی تھیں کہ وہ ان کو اس کی بندگی میں استعمال کرے مگر اس نے ان کے ساتھ غبن کیا۔ اس طرح کہ ان کو اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی میں استعمال کیا۔ شیطان کی خوش نودی کے لیے استعمال کیا، اپنے جیسے انسانوں، حکومتوں، برادریوں اور خاندانوں کی بندگی میں اور ان سے مفادات حاصل کرنے میں استعمال کیا، غرض ایک خدا کی بندگی کو چھوڑ کر ہرایک کی بندگی کرڈالی۔ یہ سارا غبن اس روز کھل جانے والا ہے، اس پر کوئی پردہ پڑا نہیں رہ جائے گا۔ ایک شخص نے اپنے سرمایۂ حیات کو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو اور اپنے مال کو جن جن چیزوں میں invest کیا، اس کی غلطی اس روز کھل جائے گی۔ سب کچھ معلوم ہوجائے گا کہ اس نے یہ ساری سرمایہ کاری کس کام میں کی ہے اور اس کے اندر اس نے کہاں کہاں غلطی کی ہے، کہاں کہاں دھوکا کھایا ہے اور کہاں دھوکا دیا ہے۔
اس کے بعد آیت کے اگلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہرغبن کھل جانے کے بعد انسان دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور اس کے مطابق نیک عمل کیے تو اللہ اس کے ساتھ یہ معاملہ کرے گا کہ:
یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ، اس کی برائیاں اس سے دُور کر دے گا۔ اس کے حساب سے ساقط کر دے گا، اور اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
’’برائیاں دُور کر دے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آدمی سچے دل سے اللہ پر ایمان لایا اور اس ایمان کے ساتھ اپنی پوری کوشش عملِ صالح بجا لانے میں انجام دی، لیکن اس کے بعد بشریت کی کمزوری کی بنا پر اس سے کچھ قصور بھی سرزد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اس سے دُور کردے گا، یعنی ان کی بازپُرس اس سے نہیں کی جائے گی۔ یہ معاملہ اللہ، مومن اور وفادار بندے کے ساتھ کرے گا۔
احادیث میں اس بات کی تفصیل آتی ہے اور قرآنِ مجید میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ بڑی حد تک ایک مومن صالح کی غلطیوں اور خطائوں کا کفارہ اسی دنیا میں وہ تکلیفیں بن جاتی ہیں جو اس کو پیش آتی ہیں۔ ایک کانٹا بھی اس کو چبھا تو اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ معاف کر دیا گیا۔ کوئی صدمہ یا رنج اس کو پہنچا، کسی نے اس کو تکلیف دی، اس کو گالی دی، لیکن اس نے اس پر صبر کیا اور اس کا بدلہ نہیں لیا، تو اس طرح قسم قسم کی جو تکلیفیں اس دنیا میں آدمی کو پہنچتی ہیں، یہ ساری چیزیں اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ آدمی کے وہ گناہ یا قصور اس دنیا میں بھی اس کے نامۂ اعمال سے خارج کردیے جاتے ہیں تاکہ آخرت کی عدالت میں بندے کو لوگوں کے سامنے رسوا بھی نہ کیا جائے اور سزا بھی معاف کر دی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر اس کے حساب میں کچھ بچا رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اسے ویسے ہی معاف فرما دے گا۔ لیکن اللہ جل شانہٗ کا یہ سارا معاملہ اس بندے کے حق میں ہے جو خلوص کے ساتھ ایمان لایا اور اس نے اپنی حد تک کوشش کی کہ اس سے کوئی دانستہ کوتاہی سرزد نہ ہو کیونکہ دانستہ کوتاہی معاف نہیں ہوگی۔ اور جو خطائیں بشری کمزوری کی بنا پر اس سے سرزد ہوئیں اور وہ ان کی معافی مانگنے اور توبہ کرنے سے رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو معاف کر دے گا اور اپنی جنت میں داخل کرے گا، وہ جنت جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ’’جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جنت کی زندگی کبھی ختم ہوجائے گی۔ نہیں، بلکہ وہ ابدی زندگی ہوگی۔ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ’’یہی اصل بڑی کامیابی ہے‘‘۔ یعنی دنیا میں کسی کا جایدادیں بنا لینا، ساری دنیا کا حکمران ہو جانا، یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو، اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اس کو حاصل ہوجائے۔
اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر کیا، اس کی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور وفادار بندہ بننے سے انکار کیا، ان کے بارے میں فرمایا: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (۱۰) ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا، وہ دوزخ میں جانے والے لوگ ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘۔
یہ سب کچھ یوم التغابن کو ہوگا۔ اس روز لوگوں کی ہارجیت کا فیصلہ ہوگا۔ اس روز یہ فیصلہ ہوگا کہ جو لوگ کھرے اور خالص مومن ہیں اور جنھوں نے اپنی حد تک عملِ صالح کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے ان کا ایک انجام ہوگا___ اور جن لوگوں نے کفر اور تکذیب کا راستہ اختیار کیا اُن کا دوسرا انجام ہوگا۔ پہلے لوگ اللہ کی نعمت بھری جنتوں میں داخل ہوں گے اور کامیابی ان کے حصے میں آئے گی، جب کہ دوسری قسم کے لوگ دوزخ میں ڈالے جائیںگے اور ناکامی ان کا مقدر ہوگی۔ العیاذ باللّٰہ!
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ o (۱۱) کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
یہاں سے سورئہ تغابن کا دوسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ اس میں اس صورتِ حال کے بارے میں کلام کیاگیا ہے جس سے اس دور میں مسلمان گزر رہے تھے اور اسی کے مطابق اہلِ ایمان کو اہم ہدایات دی گئی ہیں۔
فرمایا گیا کہ دنیا میں جو تکلیف اورمصیبت کسی پر آتی ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہو یا دوسرے نقصانات کی صورت میں ہو، وہ اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔ اسی طرح اگر کسی قوم پر کوئی آفت آتی ہے یا بحیثیت ِ مجموعی سارے انسانوں پر کوئی آفت ہوتی ہے تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ظہور میں آئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا مالک و خالق ہے اور سارا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کائنات میں کوئی واقعہ بغیر اس کے ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہونے دے، اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک واقعہ جب پیش آجائے تب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میری سلطنت میں فلاں واقعہ پیش آیا ہے۔ نہیں، بلکہ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اس کی منظوری سے ہوتا ہے۔
وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ ط ،ا ور جو شخص بھی اللہ پر ایمان لائے اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ اصل رہنمائی انسان کے دل کی رہنمائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ایمان لانے والے کو صبر کی ہدایت دیتا ہے، اس کی توفیق بخشتا ہے۔ اس کو عدل اور حق پر قائم رہنے کی ہدایت دیتا ہے اور اس کے مطابق اس کو عزم اور ہمت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ وہ اس کو سیدھا راستہ بتاتا ہے کہ تیرے لیے دنیا میں کام کرنے کا صحیح راستہ یہ ہے اور پھر اس کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ سیدھے راستے کو اختیار کرنے میں اسے خواہ کسی قسم کی مشکلات پیش آئیں اس کو اسی راستے پر قائم رہنا ہے۔ یہ ساری ہدایات اللہ تعالیٰ اس شخص کو دیتا ہے جو اس کے اُوپر ایمان لاتا ہے۔ وہ اس کے قلب میں وہ روشنی پیدا کردیتا ہے جس سے وہ اپنا راستہ ٹھیک ٹھیک دیکھ سکے۔ اس کے بعد اس کو توفیق دیتا ہے کہ اس کے سامنے جو حقیقت واضح ہوکر سامنے آچکی ہے، وہ اس کو اختیار کرے اور مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہے۔ یہ سب ہدایتِ قلب کے معنی ہیں۔
اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہ لائے تو اس کے قلب کو کوئی روشنی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا نفس اس کو جدھر لے جاتا ہے اُدھر اُدھر وہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی اسی وقت کرے گا، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرے، اس پر ایمان لائے، اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے اور اس کی رہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے۔
پھر فرمایا: وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ، ’’اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون اس پر سچے دل سے ایمان لایا ہے، کس نے اس پر اعتماد کرکے اس کی طرف رجوع کیا ہے، اور کون اس کی رہنمائی حاصل کرنے کا طالب ہوتا ہے۔ یہاں بحث اس سے نہیں ہے کہ کون زبان سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا، اور اس سے بھی بحث نہیں ہے کہ کس کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہوا ہے کہ وہ مردم شماری میں مسلمان ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اس بات کا علم رکھتا ہے کہ کون واقعی اس پر ایمان لایا ہے، واقعی اس پر اعتماد رکھتا ہے، واقعی اس کی رہنمائی کا طالب ہے۔ کوئی دوسرے تصورات، خیالات اور خواہشات تو اس کے اُوپر غالب نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ محض ایمان کے دعوے سے دھوکا کھانے والا نہیں ہے، وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
پھر یہ ارشاد کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس معنی میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے کیونکہ وہ علم اسی کے پاس ہے جو رہنمائی کرنے کے لیے درکار ہے۔ دوسرا جو کوئی بھی ہو، اس کا علم جزوی ہے اور ناقص ہے۔ وہ ان تمام حقائق سے واقف ہی نہیں ہے جن کا علم آدمی کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ علم صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ وہی جانتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، انصاف کیا ہے اور بے انصافی کیا ہے۔ اس لیے انسان کی صحیح رہنمائی صرف وہی کرسکتا ہے۔ دوسرا کوئی یہ کام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ o اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (۱۲-۱۳) اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسولؐ پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
گذشتہ آیت میں فرمایا گیا تھا کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اسی کے دل کی رہنمائی فرماتا ہے۔ اب اس کے بعد یہ فرمانا کہ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَتو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ آپ نے مان لیا کہ اللہ ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ محض زبان سے مان لینے کے اعتبار سے تو آج کفار بھی مانتے ہیں کہ اللہ ہے اور مشرکین بھی اس بات کو مانتے ہیں۔ اللہ کی ہستی کا انکار تو بہت کم ملحدین اور دہریوں نے کیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو دنیا کی آبادی کی عظیم ترین اکثریت مانتی ہے۔ کروڑوں میں سے صرف چند آدمی ایسے ہوں گے جو اللہ کی ہستی کا انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا محض اللہ کے ہونے کو مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ بات انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے۔ محض یہ مان لینے سے کسی کے قلب کو ہدایت نہیں ملتی۔ ہدایت اُسی شخص کو ملے گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرے۔
اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ صرف یہ نہیں فرمایا کہ اَطِیْعُوا اللّٰہَ جیساکہ اُوپر فرمایا تھا: مَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے، مگر یہاں اللہ کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسولؐ کی اطاعت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے بلکہ اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت بھی لازم ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے جو رہنمائی ملے گی وہ رسولؐ کے واسطے سے ملے گی، براہِ راست نہیں ملے گی۔ اس لیے محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کا بھی مطالبہ ہے، کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے آپ کو معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور کیا نہیں چاہتا۔ وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس کو پسند نہیں کرتا۔ یہ چیزیں آپ کو براہِ راست نہیں بتائی جائیں گی بلکہ اللہ کے رسولؐ کے واسطے سے معلوم ہوں گی، اس لیے واضح طور پر حکم دیا گیا اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔
فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (۱۲) لیکن اگر تم منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسولؐ پر صرف صاف صاف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔
گویا اس کے بعد ساری ذمہ داری تمھاری ہے۔ اگر اللہ کا رسولؐ کسی بات کو پہنچانے میں نعوذباللہ کوتاہی کرے تو رسولؐ کی ذمہ داری ہے لیکن اگر رسولؐ نے بات پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو اس کے بعد رسولؐ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ تم ہدایت قبول کرتے ہو یا نہیں۔ خدا کی ہدایت کا انکار کر کے اگر اس دنیا میں تم ٹھوکریں کھائو تو اس کے ذمہ دار تم ہو۔ کیوں کہ رسولؐ نے تو تمھیں ٹھیک ٹھیک بتا دیا تھا کہ صحیح راستہ کون سا ہے اور غلط راستہ کون سا ہے، حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی طرح آخرت میں خداوند عالم کے حضور پیشی کے وقت بھی ذمہ داری تمھاری ہوگی کیونکہ آخرت میں رسولؐ بتا دے گا کہ میں نے ان کو ٹھیک ٹھیک تعلیمات پہنچا دی تھیں۔ نہ صرف یہ کہ زبان سے پہنچائی تھیں بلکہ اپنی پوری عملی زندگی کے ذریعے سے بھی پہنچا دی تھیں اور اپنے ایک ایک فعل کے ذریعے سے پہنچا دی تھیں۔ اس کے بعد اپنے اعمال کے ذمہ دار تم خود ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم منہ موڑتے ہو تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے، نہ خدا کا کچھ بگاڑو گے، نہ رسولؐ کا کچھ بگاڑو گے بلکہ اپنا ہی کچھ بگاڑو گے۔ اس وقت تمھارا سمجھنا کسی کام نہیں آئے گا۔
اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ط (۱۳) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔
الٰہ کا ترجمہ عام طور پر معبود کر دیا جاتا ہے لیکن الٰہ سے مراد دراصل وہ ہستی ہے جو تمام کائنات کی مالک اور حکمران ہے اور اس بنا پر وہی عبادت کی مستحق ہے۔ گویا ایک تو ہے کس شخص کو معبود بنا لیا جانا، اس معنی میں بھی الٰہ کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ الٰہ نہیں بن جاتا۔ حقیقت میں الٰہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے کیونکہ ساری کائنات کا کلّی اقتدار اور سارے اختیارات بالکل اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ آپ کسی آدمی کے سامنے اس وقت تک نہیں جھکیں گے جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ میرا مفاد اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میرا جینا اور مرنا اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ میری تقدیر بنانے والا ہے۔ اگر آپ کو کسی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ اُس کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور اختیار نہیں ہے تو پھر آپ اس کے سامنے سر کیسے جھکا سکتے ہیں؟
اس لیے قرآن بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرتا ہے کہ جن چیزوں کے آگے تم جھکتے ہو، ان کو اپنا معبود بناتے ہو، جن سے دعائیں مانگتے ہو، ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو، جن کی اطاعت اور بندگی بجا لاتے ہو، ان کے ہاتھ میں سرے سے کچھ ہے ہی نہیں۔ وہ تمھاری تقدیر پر ذرّہ برابر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ اُوپر بیان ہوا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آتی جو اللہ کے اذن کے بغیر آجائے۔ تم بیمار پڑتے ہو تو اس کے اذن سے پڑتے ہو، کوئی دوسرا تمھیں بیمار ڈالنے والا نہیں ہے۔ تم تندرست ہوتے ہو تو اس کے تندرست کرنے سے ہوتے ہو، کوئی دوسرا تمھیں تندرست کرنے والا نہیں ہے۔ تمھیں روزگار ملتا ہے تو اس کے دینے سے ملتا ہے، کوئی دوسرا رزق دینے والا نہیں ہے۔ اسی طرح ان تمام پہلوئوں کو دیکھتے ہوئے جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا واقعتا میرا نفع اور نقصان کرنے کا اختیار رکھتا ہے، تب وہ اس کو الٰہ اور معبود اور آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکاتا ہے۔ اب بعض لوگ اس تصور کے اندر انتشار پیدا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بیماری دینے والا ہے اور کوئی رزق دینے والا اور کوئی اولاد دینے والا ہے۔ کسی علاقے کے فرماں روا کوئی بزرگ ہیں اور کسی دوسرے علاقے کی فرماں روائی کسی اور بزرگ کے سپرد ہے۔ اس وجہ سے وہ ایک ایک آستانے پر جھکتے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک در پر بھیک مانگنے کے لیے پہنچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا الٰہ سرے سے ہے ہی نہیں، یعنی صرف کسی ایک علاقے کے نہیں، ساری کائنات کے پورے اختیارات میرے ہاتھ میں ہیں۔ کسی دوسرے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے کہ کوئی اس کا مستحق ہو کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ پھر اسی بنا پر آگے فرمایا کہ اللہ ہی کے اُوپر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔
اللّٰہ پر توکلّ
وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۳) اور اللہ ہی کے اُوپر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔
’’بھروسا کرنا چاہیے‘‘ کے الفاظ بہت وسیع معنی رکھتے ہیں۔ اس معنی میں بھی بھروسا کرنا چاہیے کہ ہدایت دے گا تو وہ دے گا، کہیں اور سے رہنمائی نہیں ملے گی۔ اس معنی میں بھی بھروسا کرنا چاہیے کہ اگر کہیں سے مصائب و مشکلات میں مدد ملے گی تو اسی سے ملے گی، کوئی دوسرا مدد دینے والا نہیں ہے۔ تمھیں حفاظت کی ضرورت ہوگی تو وہی حفاظت کرے گا، کوئی دوسرا حفاظت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر آپ دنیا میں کامیاب ہوں گے تو اسی کے کرنے سے ہوں گے۔ دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف تمھیں کامیاب کرسکے۔ اسی طرح مومنوں کو ہرلحاظ سے صرف اللہ کے اُوپر اعتماد کرنا چاہیے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پر اعتماد کر کے آدمی ہاتھ پائوں ہلانا اور کوشش کرنا چھوڑ دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی تمام کوششیں جو اس کے کرنے کی ہیں اور جو قانونِ قدرت کے تحت اس پر لازم آتی ہیں، وہ ان کو ضرور بروے کار لائے مگر نتائج کے لیے صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے۔ مثال کے طور پر آپ بیمار پڑتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں لیکن آپ کا اعتماد ڈاکٹر پر نہیں اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہیے۔ اگر اللہ تعالیٰ ڈاکٹر کی دی ہوئی دوا کو آپ کے لیے مفید بنائے گا تو وہ مفید ہوگی۔ ڈاکٹر انسان کے جسم کی اندھیری کوٹھڑی کے اندر بغیر دیکھے بھالے علاج و دوا کے جو تیر چلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ٹھیک نشانے پر بٹھا دے تو آدمی تندرست ہوجاتا ہے، ورنہ سارے تیر ہدف سے پرے جاکر گرتے ہیں۔ خود ڈاکٹر بیمار ہوتے ہیں اور علاج کی ہر سہولت ہونے کے باوجود نہیں بچتے۔ بڑے بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج ہوتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے۔ جب اللہ تعالیٰ علاج کو کارگر اور کامیاب کرے تب کامیابی ہوتی ہے اس لیے صحت و شفا اللہ کے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہی صورت دوسرے سارے معاملات کی ہے۔
انسان کا کام یہ ہے کہ قانونِ فطرت کی رُو سے جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اس کو وہ کرے اور نتیجے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ ایک اور مثال دیکھیے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ایک کاشت کار کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ زمین میں ہل چلائے، بیج بوئے، اس کو پانی دے، اور کھیتی کی دیکھ بھال کرے۔ یہ سارے کام قانونِ فطرت نے اس کے حوالے کیے ہیں۔ وہ یہ کام انجام دے لیکن اس کے بعد اس کا یہ اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے کہ اس کھیت سے فصل وہ پیدا کرے گا۔ کوئی دوسری طاقت یہ کام نہیں کرسکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہوجائے تو وہ ساری کھیتی برباد ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ پانی نہ برسائے تو کھیتی پھل پھول نہیں سکتی۔ بیسیوں طاقتیں ایسی ہیں کہ جب تک وہ موافقت نہ کریں اس وقت تک آپ کی کھیتی سرسبز نہیں ہوسکتی اور پیداوار نہیں دے سکتی۔ تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائے اور کہے کہ میں نے اللہ پر بھروسا کرلیا ہے۔ نہیں، بلکہ اللہ پر اعتماد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خدمت آپ کے سپرد کی ہے اس کو پوری طرح بجا لائیں۔
اب ایک اور رُخ سے دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے سپرد یہ خدمت کی ہے کہ وہ اللہ کے دین کو کامیاب کرنے کے لیے اپنی جان لڑانے کے لیے تیار ہوں اوراس کے لیے جو کچھ تدبیریں ممکن ہیں وہ پوری بروے کار لائیں۔ خدا کی راہ میں لڑنے والی فوج کی پوری تنظیم کریں، اس کو پوری طرح ہتھیار فراہم کریں اور اس کے علاوہ جو جو کام آپ کے کرنے کے ہیں وہ سارے انجام دیں تب فتح دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ آپ کو فتح یاب کرے گا تو آپ فتح مند ہوں گے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح نہ آئے تو آدمی خود اپنی کسی تدبیر سے کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ وہ اپنا کتنا ہی زور لگا لے۔ اس لیے زندگی کے ہر معاملے میں اہلِ ایمان کا توکل اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہیے(جاری)۔(جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (التغابن ۶۴:۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے، اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے، اُسی کی بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے تعریف ہے، اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
یہ سورئہ تغابن کی ابتدائی آیت ہے۔ سورئہ تغابن کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا یہ مکّی ہے یا مدنی، لیکن مفسرین کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس کے مضمون پر غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ہوگی۔ آگے چل کر آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ مدینے کے ابتدائی دَور ہی سے تعلق رکھتی ہے۔
یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ،اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔
کسی جگہ قرآنِ مجید میں سَبَّحَ لِلّٰہِ (اس نے اللہ کی تسبیح کی) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور کسی جگہ فرمایا گیا ہے کہ یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ (وہ تسبیح کرتا ہے اللہ کی)۔ عربی زبان میں مُضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں صیغوں کو ملایا جائے تویہ معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ سَبَّحَ لِلّٰہِ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہی ہے ہر چیز جب سے وہ دنیا میں پائی جاتی ہے، اور یُسَبِّـحُ لِلّٰہِ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور کرتی رہے گی ہر چیز جب تک کہ وہ دنیا موجود ہے۔ گویا جب تک یہ کائنات باقی ہے اس کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہے گی۔
تسبیح کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی شخص تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کے دانے پھرا رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہرچیز زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ اُس چیز کا بنانے والا اور پیدا کرنے والا،اس کو رزق دینے والا اور اس کی پرورش کرنے والا، تمام عیوب اور نقائص اورکمزوریوں سے بالکل پاک ہے۔ وہ بے خطا ہے، بے عیب ہے اور کوئی کمزوری اس کے اندر نہیں ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اس پر گواہی دے رہی ہے۔
لَہُ الْمُلْکٌ’’بادشاہی اس کی ہے‘‘، یعنی اس کائنات میں کوئی دوسرا صاحب ِ اقتدار اور صاحب ِ اختیار موجود نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار ہے تو وہ اس کا اپنا حاصل کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ وہ اس وقت تک مقتدر ہے جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اقتدار اس کے پاس رہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اس کی اپنی ذاتی طاقت نہیں ہے۔ ذاتی اقتدار اور ذاتی قوت و اختیار اللہ کے سوا پوری کائنات میں کسی اور کے پاس نہیں ہے، اکیلا وہی اس کا بادشاہ ہے۔
وَلَہُ الْحَمْدُ ’’اور اسی کے لیے حمد ہے‘‘۔ حمد کے معنی تعریف کے بھی ہیں اور شکر کے بھی۔ دوسرے الفاظ میں وہی تعریف کا مستحق ہے اور وہی شکر کا بھی مستحق ہے اور کسی دوسرے کے پاس ایسا کوئی کمال نہیں ہے جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے۔ کسی کے پاس جو کچھ بھی کمال موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ جو کچھ بھی خوبی کسی کے اندر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ تمام خوبیوں کا تنہا مالک وہی ہے۔ اسی وجہ سے وہی تعریف کا مستحق ہے اور کسی کے پاس کچھ نہیں ہے کہ کوئی نعمت وہ کسی کو دے سکے۔ اگر کوئی نعمت کسی کو دے رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطیے سے دے رہا ہے۔ اس وجہ سے شکریے کا مستحق بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔
وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ’’اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘، یعنی کائنات میں اُس کی قدرت غیرمحدود ہے۔ جو چیز وہ چاہے وہی ہوگی، اور جو چیز وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوگی۔
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُؤْمِنٌ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۲) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تم میںسے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن، اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔
یہ دو فقرے ہیں، ایک یہ ہے کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور دوسرا فقرہ یہ ہے کہ کوئی تم میں سے کافر ہے اور کوئی مومن ہے۔ ان دونوں فقروں کے درمیان ایک بڑا وسیع مضمون ہے جو آدمی غور کرے تو اس کو سمجھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خالق نہیں ہے، وہی ہے جس نے انسان کی تخلیق کی۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے۔ یہ جسم اور اس کی قوتیں، اس کی قابلیت اور عقل و فکر اور دوسری تمام صلاحیتیں اور ساری خوبیاں اور قوتیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو جو ذرائع بھی دنیا میں حاصل ہیں جن سے وہ کام کرتا ہے، وہ تمام چیزیں، یعنی ہوا اور پانی، گرمی اور سردی اور دوسری بے شمار چیزیں جو انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، اور وہ سارا سازوسامان جس کی بدولت آدمی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے، وہ سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص ان چیزوں پر غور کرے تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور دنیا میں اس کا مطیع و فرمان بردار بن کر رہے۔ باوجود اس کے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے واشگاف موجود ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ انسانوں کا ایک بڑا گروہ اس پر ایمان لاتا ہے اور ایک بڑا گروہ کفر کا رویّہ اختیار کرتا ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے: وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ’’ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک شخص کے متعلق یہ دیکھ رہا ہے کہ اپنے خالق کے ساتھ اس کا رویّہ کیا ہے۔ وہ ایک ایک شخص کو دیکھ رہا ہے کہ وہ اپنے خالق کی اطاعت کر رہا ہے یا اس سے منہ موڑ رہاہے۔ اپنے خالق ہی کو اپنا خالق اور اپنا فرماں روا اور حاکم مانتا ہے یا اس کو چھوڑ کر دوسروں کے آگے جھکتا ہے، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دوسروں کی اطاعت کررہا ہے، جب کہ اپنے خالق ہی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس طرح لوگوں کا یہ طرزِعمل اس کی نگاہ میں ہے کہ ایک گروہ وہ ہے جو اطاعت اور ایمان کی راہ اختیار کرتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس سے منہ موڑ کر کفر کی راہ اختیار کرتا ہے۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (۳) اسی نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، تمھاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی، اور اسی کی طرف آخرکار تمھیں پلٹنا ہے۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے۔ اُوپر کے فقرے کے بعد یہ بات فرمانے سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے کہ یہ کائنات باطل پر پیدا نہیں کی گئی بلکہ سراسر حق پر پیدا کی گئی ہے۔ نہ یہ کائنات کھیل کے طور پر پیدا کردی گئی ہے کہ کوئی بچہ ہے جس نے گھروندا بنایا، اس سے کھیلا اور کھیل کر اس کو ختم کر دیا۔ اس کائنات کی یہ حیثیت نہیں ہے۔
اس کائنات کو ایک حکیم نے بنایا ہے اور ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اس کا نظام سراسر حق پر قائم کیا گیا۔ اس کو باطل پر قائم نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کائنات میں رہتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی غلط روش پر چلے اور پھر اس کے بُرے نتائج سے بچ جائے۔ اس میں اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک آدمی صحیح رویّے پر چلے اور وہ اچھے نتائج سے محروم رہ جائے۔اس بنا پر اگر کوئی شخص اس کائنات میں رہتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی بخششوں اور انعامات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفر کی روش اختیار کرے تو اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اس کے بُرے نتائج سے دوچار نہ ہو۔
یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر پیدا کی گئی ہے اور اگر کوئی شخص حق کے خلاف یہاں چلے تو لازماً ٹھوکر کھائے گا۔ آج نہیں تو کل کھائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ حق کے خلاف چلنے والا آخرکار ٹھوکر نہ کھائے اور اس گڑھے میں نہ جا گرے جس سے پھر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص حق کے مطابق چلے، اس کے مطابق کام کرے وہ اگر کبھی ٹھوکر کھابھی جائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ ٹھوکر ہی کھاتارہے گا۔ اس لیے یہ طے ہے کہ اگر کوئی حق کے مطابق چلے گا تو لازماً اس کا انجام بہترین ہوگا۔ اس طرح اس فقرے کے اندر گویا کائنات کی پوری حقیقت آدمی کو سمجھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات باطل پر نہیں بلکہ حق پر استوار کی گئی ہے۔
وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ، اور تمھاری صورتیں بنائیں اور بہترین صورتیں بنائیں۔
صورت کا لفظ محض آدمی کے چہرے مُہرے کے لیے نہیں بولا گیا ہے بلکہ آدمی کی جو پوری بناوٹ ہے اس کا جو پورا جسم ہے، اس کے متعلق فرمایاگیا ہے۔ پھر محض اس کی ظاہری شکل اور بناوٹ ہی نہیں مراد بلکہ اس کے جسم میں جو صلاحیتیں اور قوتیں اور قابلیتیں رکھی گئی ہیں وہ سب اس تصویر کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس طرح ان الفاظ کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری صورت گری کی ہے اور بہترین صورت گری کی ہے، یعنی تم کو ایک موزوں ترین جسم دیا گیا جس کے ساتھ تم اس دنیا میں کام کرنے کے قابل ہوئے ہو۔ ہر وہ کام جو انسان کے کرنے کا ہے! اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کہ تمھیں، مثلاً چھپکلی کا جسم دے دیا جاتا اور اس کے اندر دماغ انسان کا رکھ دیا جاتا اور اس میں وہ صلاحیتیں پیدا کردی جاتیں جو انسان کے دماغ کی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ چھپکلی کے جسم کے اندر رہ کر انسانی دماغ کام نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کسی اور جانور یا حیوان کے جسم میں انسانی دماغ رکھ دیا جاتا تو اس دماغ کی قوتیں اور صلاحیتیں بروے کار نہ آسکتیں۔ چنانچہ دماغ کی صلاحیتوں کے لیے اس کے مطابق موزوں ترین جسم عطا کیا گیا۔ اس کو سروقد کھڑا کیا، اس کو چارٹانگوں پر نہیں بلکہ دو ٹانگوں اور دو پائوں پر چلنے کے قابل بنایا۔ اس کو دو ہاتھ دیے جو بہترین طریقے پر کام کرسکتے ہیں۔ دو پائوں دیے جن پر سیدھے کھڑے ہوکر وہ دو ٹانگوں سے چل سکتا ہے۔ پھر اس کے اندر عقل اور فکر کی، تجربہ کرنے کی اور ان سے سیکھنے اور ترقی کرنے اور نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کی وہ مختلف صلاحیتیں عطا فرمائیں جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو درکار تھیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نظام جس کے اندر تم رہ رہے ہو یہ الل ٹپ نہیں بن گیا ہے۔ یہ تمھارے جسم اور ان کی قابلیتیں آپ سے آپ نہیں بن گئی ہیں بلکہ کوئی خدا ہے جس نے تم کو اس طرح سے ڈیزائن کیا، اس طرح کی قابلیتیں اور صلاحیتیں عطا کیں اور اس کائنات کے اندر تم کو پیدا کیا جو سراسر حق پر بنی ہوئی ہے۔
اس کے بعد جو مزید بات تم کو یاد رکھنا چاہیے وہ یہ ہے: وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ’’اور آخرکار تمھیں لوٹ کر جانا اسی کے پاس ہے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ تم اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیے گئے ہو کہ شُتر بے مہار کی طرح پھرو، جہاں چاہو پھرو اور جس کھیت میں چاہو منہ مار دو اور جس طرح سے چاہو دنیا میں زندگی گزار کر ، مر کر مٹی ہوجائو اور کبھی کسی خدا کے سامنے جاکر تمھیں جواب دہی نہ کرنی ہو۔ جو قابلیتیں تم کو دی گئی تھیں اور جو اختیارات اور جو ذرائع و وسائل تم کو دیے گئے تھے ان کو تم نے کیسے استعمال کیا، ان کے بارے میں تم سے کوئی بازپُرس نہ ہو، ایسا نہیں ہوگا۔
ایک فقیر سے فقیر آدمی کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہ ذرائع دیے ہیں جن کی قیمت کا آدمی اندازہ نہیں کرسکتا۔ ایک ایک چیز جو اس کو عطا کی گئی ہے، ساری کائنات اس کی قیمت نہیں بن سکتی۔ ایک آنکھ کی قیمت یہ پوری کائنات نہیں بن سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے اندر ایک ایک آدمی کو جو اتنے ذرائع اور وسائل عطا کیے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ ان سب کو مار کر مٹی میں ملا کر بس خاک و غبار بنا دے اور ان سے کبھی نہ پوچھے کہ یہ سب کچھ تمھیں دیا گیا تھا تم نے ان کا کیا استعمال کیا۔ اس لیے فرمایا کہ آخرکار تمھیں جانا اسی کے حضور ہے۔ گویا اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہوگی جس میں انسانوں کے بارے میں ان کے اعمال کی بنیاد پر فیصلہ ہوناہے کہ کون جزا کا مستحق ٹھیرتا ہے اور کون سزا کا۔
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۴) زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کہ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، سب اس کو معلوم ہے، اوروہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔
یعنی تم کسی بے خبر خدا کی خدائی میں نہیں رہتے ہو۔ وہ شہِ بے خبر نہیں ہے اور نہ وہ کوئی اندھا راجا ہے کہ جس کی نگری چوپٹ نگری ہو، جس میں تم جس طرح چاہو رہو۔ تم اس خدا کی سلطنت میں رہتے ہو جو تمھاری ایک ایک چیز سے باخبر ہے۔ ایک ایک شخص کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ دل میں کیا سوچ رہا ہے۔ ایک ایک شخص کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اندھیرے میں کیا کر رہا ہے اور اُجالے میں کیا کر رہا ہے۔ وہ اپنی خلوت میں کیا کر رہاہے اور اپنی جلوت میں کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو ذرائع اور وسائل آدمی کو دیے گئے تھے ان سے اس نے کس طرح سے کام لیا اور کس نیت سے لیا۔ چنانچہ وہ محض اس کے ظاہری عمل ہی کو نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ جو محرکات (motives) اس کے افعال کے پیچھے کارفرما ہیں وہ ان سب کو بھی جانتا ہے۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، وہ دلوں میں چھپے ہوئے رازوں تک کو جانتا ہے۔ گویا آدمی اس سے اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتا۔
اس پورے پیراگراف میں جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے۔ انسان کو اس نے پیدا کیا۔ اس نے اس کی صورت گری کی۔ اس کوتمام صلاحیتیں اور قوتیں اور دوسرے ذرائع و وسائل اُسی نے دیے۔ اس کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس دنیا کے بعد آنے والی ایک دوسری زندگی میں آدمی کو جانا اسی کے پاس ہے۔ یہ پورا نقشۂ کائنات، اور اس کائنات کے اندر آدمی کی جو ٹھیک پوزیشن ہے وہ واضح کردی گئی۔ اس طرح آدمی کا اپنے خدا سے جو تعلق، اور اس کی جو صحیح نوعیت ہے وہ ساری کی ساری ان چند فقروں کے اندر واضح طور پر بیان کردی گئی ہے۔
اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَئُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۵) کیا تمھیں اُن لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے اِس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
اُوپر کی آیات میں پہلی چیز یہ بیان کی گئی تھی کہ جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کی حقیقت کیا ہے، اس میں تمھاری حیثیت کیا ہے۔ یہ بتایا گیا کہ یہ کائنات اُس خدا کی سلطنت میں ہے جو تمھارا خالق ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کہ تمھارا خالق وہی ہے اور اس کے بعد کوئی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور کوئی ایمان لاتا ہے، اب یہاں یہ فرمایا گیا کہ کیا تم نے کبھی نہیں سنا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے کفر کیا ہے اُن کا انجام اِسی دنیا میں کیا ہوچکا ہے؟ گویا ایک طرف پہلے کائنات کی حقیقت اور اس کے اندر انسان کی حیثیت واضح کی گئی اور اب دوسری طرف انسانی تاریخ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج جو تم یہاں موجود ہو، تم پہلی دفعہ خودبخود اس زمین پر آگئے ہو اور اس سے پہلے جو انسان اسی زمین پر گزر چکے ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی نہیں ہے کہ پہلے گزرے ہوئے انسانوں کے اعمال کے نتائج تمھارے سامنے نہ ہوں۔ تم تاریخ کے ایک خاص دَور میں پیدا ہوئے ہو، اس سے پہلے بہت سے انسان گزر چکے ہیں۔ تاریخ کے اندر کفر کرنے والوں اور ایمان لانے والوں، دونوں ہی کے حالات موجود ہیں۔ اس کے بعد کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تمھیں اپنی گذشتہ تاریخ کا علم نہیں ہے۔ کفر کرنے والے دنیا میں جس غلط روش پر چلتے رہے اس کا انجام کیا ہوا۔ کیونکہ جس آدمی کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ ایسے کسی خدا کی سلطنت میں ہے جو اس کے ہرفعل اور ارادے تک سے واقف ہے، جس کے سامنے وہ ذمہ دار اور جواب دہ ہے، جس کی گرفت سے بچ کر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتا، ایسا شخص کبھی سیدھے راستے پر نہیں چل سکتا، اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ان حقائق کا انکار کرنے کے بعد ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کے اخلاق نہ بگڑیں، اس کے معاملات نہ بگڑیں اور وہ دنیا میں ظالم اور غلط کار بن کر نہ رہے۔ اس بات کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔
بعض اوقات لوگ ایسا ضرور کرتے ہیں کہ خدا کے دین میں جو اخلاقی تعلیمات دی گئی تھیں ان میں سے کچھ انھوں نے وہاں سے لے لیں اور لا کر مادہ پرستانہ فلسفوں کے ساتھ جوڑ لگا کر اپنا ایک الگ نظامِ زندگی بنا لیا۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مادہ پرستانہ فلسفوں میں اخلاق کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگر مادہ پرستی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ ایک شخص آپ کا مال چُرا کر اس سے اس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہو کہ آپ کو پتا نہ چل سکے، اور کسی پولیس کو بھی پتا نہ چل سکے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ شخص آپ کا مال چرا کر اپنے قبضے میں نہ کرلے۔ مادہ پرستی کے فلسفے میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آدمی ایسی حالت میںچوری کیوں نہ کرے، جب کہ اس کو چوری کا فائدہ ہی پہنچتا ہو اور نقصان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اب اگر آدمی کو چوری سے کوئی چیز فی الواقع بچاسکتی ہے اور ایک مضبوط اخلاقی بنیاد پر قائم رکھ سکتی ہے تو وہ اس کا صرف یہ احساس ہے کہ اُوپر ایک خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس خدا کی گرفت سے وہ نہیں بچ سکتا۔ صرف یہ وہ چیز ہے جو آدمی کو مستقل طور پر دیانت داری پر قائم رکھ سکتی ہے۔ ورنہ مادّہ پرستانہ فلسفے کے ساتھ آدمی کے اندر کسی دیانت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دیانت، آدمی اسی جگہ برتے گا جہاں اس کو اس دیانت کا کوئی فائدہ ہوتا نظر آئے، اور بددیانتی سے اس جگہ بچے گا جہاں اس کو اس دنیا میں بددیانتی کا کوئی نقصان ہوتا ہوا معلوم ہو۔ اسی طرح اور آگے بڑھ کر دیکھیے اگر ایک قوم اتنی طاقت ور ہے کہ دوسری قوم پر حملہ آور ہوکر اس کا مال لوٹ سکتی ہے، اس پر تباہی نازل کرسکتی ہے، اس کے آدمیوں کو قتل کرسکتی ہے اور کہیں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو آکر اس کا ہاتھ پکڑنے والی یااس سے بدلہ لینے والی ہو، تو ایسی ظالم قوم کبھی دوسری قوم پر ظلم کرنے سے باز نہیں رہے گی۔
اس ظالم قوم کو بس اتنا اطمینان چاہیے کہ دوسری قوم کے پاس کوئی بڑا اسلحی سازوسامان نہیں ہے، کوئی بڑا ہوائی بیڑہ نہیں ہے جس سے وہ جوابی حملہ کر کے مجھے کوئی سزا دے سکے، اور کوئی دوسری ایسی بڑی طاقت بھی نہیں ہے جو اس مظلوم قوم کی حمایت کو اُٹھ سکے تو اس کے بعد کوئی چیز اس طاقت کے نشے میں بدمست قوم کو ظالم بننے سے روکنے والی نہیں ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کس طرح اسلحی طاقتوں سے لیس قومیں دوسری قوموں کو تباہ و برباد کرر ہی ہیں___ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ جن لوگوں نے اس سے پہلے کفر کی روش اختیار کرکے دنیا کو ظلم و فساد کی آماج گاہ بنایاہے، کیا ان کا انجام تمھیں معلوم نہیں ہے۔ کبھی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی قوم نے یہ ظالمانہ اخلاق اختیار کیے ہوں اور اس کے بعد آخرکار وہ تباہ نہ ہوئی ہو۔ قوموں کی قومیں اس طرح تباہ ہوئی ہیں کہ آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ آج کوئی یہ بات کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ ثمود کی اولاد ہیں، حالانکہ ان کی کچھ نہ کچھ نسل تو دنیا میں موجود ہوگی۔ اسی طرح آج کوئی اُٹھ کر یہ کہنے والا نہیں ہے کہ ہم قومِ عاد یا قومِ لوطؑ کی اولاد ہیں۔ اور اگر کوئی یہاں یہ کہنے والا ہے کہ ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ تو پھر وہ اس کا نتیجہ بھی دیکھتا ہے کہ فرعون کی اولاد بننے کا کیا انجام ہوتا ہے___ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاتمھیں خبر نہیں ہے کہ جن قوموں نے پہلے کفر اختیار کیا ہے ان کا انجام کیا ہوچکا ہے۔ پھر فرمایا: فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ، ’’یعنی انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھا اور آگے ان کے لیے عذابِ الیم ہے‘‘۔ گویا وہ اس دنیا میں بھی تباہ ہوئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک سزا موجود ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (۶) اِس انجام کے وہ مستحق اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنھوں نے کہا: ’’کیا انسان ہمیں ہدایت دیںگے؟‘‘ اس طرح اُنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے نیاز ہوگیا، اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔
ان منکرینِ حق کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر پیدا کرکے یہ بات انسان پر نہیں چھوڑ دی ہے کہ وہ خود غور کر کے یہ سمجھے کہ مجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور میری حیثیت یہاں اس کے بندے کی ہے۔ درآں حالیکہ آدمی کو اللہ نے اتنی عقل و فکر ضرور دی ہے کہ وہ غور کر کے کم از کم اس نتیجے پر تو پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کا لازماً کوئی نہ کوئی خالق ہے، اور وہ ایک ہی خالق ہونا چاہیے، دس خالق نہیں ہوسکتے ہیں، اور وہ ایسا ہی خالق ہونا چاہیے جو تمام کائنات پر فرماں روائی کر رہا ہو۔ وہ ایسا خالق ہونا چاہیے جو ہرچیز سے واقف ہو اور اس کا علم رکھتا ہو۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو انسان کو عقل دی ہے کہ وہ اس کی مدد سے اپنے رب کو پہچانے لیکن دوسری طرف اس نے انسان کو اس آزمایش میں نہیں ڈالا کہ وہ خود اپنی عقل استعمال کر کے اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے، بلکہ اس کی ہدایت کے لیے اس نے خود مکمل انتظام کر دیا ہے۔ اس نے انسانوں کے اندر انھی میں سے ایسے انسان مبعوث کیے جو آکر اس کو بتائیں کہ یہاں تمھاری حیثیت کیا ہے اور اس کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ یہ انتظام کر کے اس نے انسان کے لیے اس بات کی گنجایش نہیں چھوڑی ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں پڑ جائے، ٹھوکر کھا جائے۔
اللہ کے یہ نیک بندے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ کائنات میں تمھاری یہ پوزیشن ہے، اور آخرکار اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی میں جاکر خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اس نے اس زندگی میں تمھارے لیے کچھ اصول طے کیے ہیں کہ اگر ان پر تم چلو گے توتمھاری یہ زندگی بھی درست ہوگی اور عاقبت بھی درست ہوگی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجے اور بیّنات کے ساتھ بھیجے۔
بَـیّن اس چیز کو کہتے ہیں جو واضح ہو۔ یہ لفظ آپ اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں کہ یہ بات بین ہے، یعنی بالکل واضح ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا۔ بیّنات کیا ہیں؟
پہلی چیز بیّنات میں یہ ہے کہ رسولوں کی اپنی زندگی اور جس اخلاق کی تعلیم لے کر وہ آتے ہیں، ان پر ان کی اپنی عملی زندگی کی گواہی واضح طور پر یہ بتا رہی ہوتی تھی کہ یہ خدا کے رسول ہیں، کوئی بناوٹی لوگ نہیں ہیں۔ بنا ہوا آدمی کبھی نہیں چھپتا۔ وہ درجہ بہ درجہ اس خاص مقام تک پہنچتا ہے جس پر وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ آپ خود اس سرزمین پر یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ ایک آدمی آپ کی آنکھوں کے سامنے رسول بنتا ہے۔ آج ایک دعویٰ کر رہا ہے، کل دوسرا دعویٰ کر رہا ہے اور پرسوں تیسرا دعویٰ کر رہا ہے۔ ایک قدم رکھ کر اس نے دیکھا کہ یہاں قدم ٹکتا ہے تو پھر اس نے ایک اور دعویٰ کر دیا۔ اس طرح بنائوٹی آدمی جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے بنتا ہے۔ جیساکہ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب نے ایک شخص کے بارے میں کہاکہ دوسروں کے متعلق تو نہیں معلوم کہ یہ سیّد ہیں یا نہیں ہیں، لیکن یہ تو کل ہمارے سامنے سیّد بنے ہیں___ تو اس طرح بناوٹی آدمی کبھی چھپتا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جن پاکیزہ انسانوں کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ، ان کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دے رہی ہوتی تھی کہ وہ واقعی اللہ کے رسولؐ ہیں، کوئی بناوٹ ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ جب تک وہ اللہ کی طرف سے رسول مقرر نہیں ہوئے تھے کسی نے کوئی دعویٰ کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا تھا۔ کسی نے ان کی زبان سے وہ مضامین نہیں سنے تھے جو اللہ کے رسولؐ بننے کے بعد انھوں نے سنانے شروع کیے۔ ان کے متعلق کبھی کسی کو یہ گمان نہیں ہوا تھا کہ یہ صاحب کل کچھ بننے والے ہیں۔ البتہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنائے گئے، تب انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں___ اور جو دعویٰ انھوں نے پہلے روز کیا تھا اسی دعوے پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی طرح جو تعلیم انھوں نے اوّل روز پیش کی، اس کے اندر کسی قسم کا ردّ و بدل تک نہیں کیا، البتہ اس تعلیم کے اندر ارتقا اور تکمیل (development) تو لازمی طور پر ہونا ہوتا ہے۔ اوّل قدم پر جو باتیں آپ کو بتائی جائیں گی ان کے اندر مزید تفصیلات اور توضیحات حالات کے تغیر و تبدل اور ارتقا کے مطابق آپ کو دی جاتی رہیں گی۔ لیکن جس بنیاد پر، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، رسالت اور آخرت کے یقین و ایمان پر جس تعلیم کا آغاز انبیا علیہم السلام نے کیا تھا اس میں کبھی کوئی تغیر نہیں ہوا۔ اس طرح اُن کی پوری زندگی اس بات کی شہادت دیتی تھی کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، اور جو تعلیم وہ لے کر آئے، وہ واضح ہدایات پر مبنی تھی، اس میں کوئی اُلجھائو نہیں تھا۔ صاف صاف یہ بتایا گیا تھا کہ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔انھوں نے اپنی تعلیم میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں چھوڑا۔ انھیں بینّات اور روشن دلیل کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پچھلی قوموںکے پاس رسول پر رسول آئے اور بینات لے کر آئے لیکن لوگوں نے ان روشن تعلیمات کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے بجاے رسولوں کو جواب یہ دیا کہ: اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا ’’کیا اب انسان ہمیں ہدایت دیںگے؟‘‘ یعنی انھوں نے نفسِ ہدایت پر بات کرنے کے بجاے انکار کے لیے بیچ کا راستہ اختیار کیا۔ گویا جو چیز لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکتی رہی وہ یہ تھی کہ وہ انسان کو خدا کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، نیز یہ کہ کیا ہم جیسے انسان اُٹھ کر اب ہمیں ہدایت دیں گے؟___ گویا ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہمیں ہدایت دینی ہے تو اس کے لیے خدا خود آئے یا اپنے فرشتوں کو بھیجے۔ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی انسان خدا کا رسول ہو۔
انسان کی گمراہی کی یہ عجیب صورت رہی ہے۔ جب رسول مانا تو کہا کہ یہ بشر نہیں ہے، اور جب بشر سمجھا تو کہا یہ رسولؐ نہیں ہے یعنی یہ پھیر تھا جس میں انسان ہمیشہ مبتلا رہے۔چنانچہ یہ کہنے کے بعد کہ کیا بشر ہماری رہنمائی کریں گے، رسولوں کی تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔
اس بات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط(۶) ’’آخرکار اُنھوں نے انکار کیا، اور نیکیوں کی تعلیم کو ماننے سے منہ موڑا، پھر اللہ بھی ان سے مستغنی ہوگیا‘‘۔ گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی روشن تعلیمات کو نہ مانے، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اُس کو سمجھانے آئیں تو ان سے منہ موڑے، تو اللہ کی کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ اس کے سامنے ہدایت کو لیے لیے پھرے اور خوشامد کرے کہ میرے رسول کی بات مان لو۔ نہیں، بلکہ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکراتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ کے معنی یہ ہیںکہ اللہ ان سے بے نیاز اور مستغنی ہوگیا۔ اس نے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا، کہ جائو جس گڑھے میں گرنا چاہتے ہو، جا کر گرجائو۔
مزید فرمایا: وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ’’اور اللہ غنی ہے اور حمید ہے‘‘۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفتیں بیان کی گئیں:پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غنی ہے، یعنی وہ تمھارا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی کچھ تمھارے بل پر نہیں چل رہی ہے کہ اگر تم نے خدا مانا تو وہ خداہوا، اور نہ مانا تو اس کی خدائی کو کوئی نقصان پہنچ جائے گا۔ نہیں، بلکہ وہ تمھیں جو کچھ سمجھاتا ہے، تمھارے اپنے بھلے کے لیے سمجھاتا ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے۔ اگر تم اس کی پروا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی غنی ہے، اس کو تمھاری بندگی کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ حمید ہے، یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا خود حمید ہے وہ بُری صفات والے انسانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ اسی دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نیک سیرت آدمی کسی بدسیرت آدمی کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتا۔ بدسیرت آدمیوں کے ساتھ بدسیرت آدمی ہی بیٹھا کرتے ہیں۔ اگر نیک سیرت آدمی کبھی اتفاق سے کسی بدسیرت کو نہ سمجھ کر اس کے ساتھ تعلقات استوار بھی کرلے تو جس وقت اس کو معلوم ہوجائے کہ وہ بدسیرت آدمی ہے، وہ اس کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرلے گا، یا کم از کم سمیٹ لے گا۔ پھر جب انسانوں کا حال یہ ہے تو اللہ تعالیٰ سے آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ اگر آپ اپنے اندر بُری صفات کی پرورش کریں تو پھر اللہ کا تقرب بھی آپ کو حاصل ہوجائے۔ اللہ کو پسند وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اندر قابلِ تعریف صفات پیدا کرے کیونکہ وہ خود قابلِ تعریف صفات کا مالک ہے۔ اور پھر آپ اپنی ذات میں محمود ہے۔ کوئی اس کی حمدوثنا نہ بھی کرے تو اس کی شان میںکوئی کمی واقع نہیں ہوجاتی۔ (جاری) (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
قربانی کا مسئلہ متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری پونے چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں آئمۂ اربعہ اور اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیا ہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بیچارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے۔ (مسئلہ قربانی، ص ۴)
اب ذرا اقتصادی اعتراضات کو بھی جانچ لیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اضاعت ِ مال ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے: لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ اور فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اس میں تمھارے لیے بھلائی ہے‘‘ اور ’’اس سے میں خود بھی کھائو اور مانگنے والے غریب اور مانگنے والے سائل کو بھی کھلائو‘‘۔ آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں جنھیں ہفتوں اور مہینوں اچھی قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا اُن کو صدقہ اور ہدی اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی راے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقرعید کے موقع پر اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بند کرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب ہیں جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں اور ہزارہا قصائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اُجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول بلکہ مُضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں؟
پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد و منافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہورہا ہو؟ گویا کہ بنکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد و اخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیوائوں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رُکا پڑا ہے۔ اِدھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کی قومی تنظیم ایسی ہی مکمّل ہے کہ سارے [ملک] کا روپیہ جمع کرکے آپ ہرسال ایک تجارتی بنک کھول سکتے ہیں تو ذرا سی تکلیف گوارا کرکے پہلے ملک بھر کے سینما ہالوں اور قحبہ خانوں اور بدکاری و اسراف کے دوسرے اڈوں پر تو اپنے ایجنٹ مقرر فرمایئے تاکہ مسلمانوں کا جس قدر روپیہ وہاں ضائع ہوتا ہے وہ قومی فنڈ میں وصول ہونا شروع ہوجائے۔ اس طرح آپ ہر سال نہیں ہر روز ایک تجارتی بنک کھول سکیں گے۔
پھر اگر آپ میں کچھ تعمیری قوت ہے تو قربانی کی تخریب کے بجاے آپ اُسے زکوٰۃ کی تعمیر ہی میں کیوں نہیں صرف فرماتے کہ تنہا اسی ایک چیز سے آپ وہ تمام قومی ضروریات پوری کرسکتے ہیں جن کی خاطر قربانی بند کرنے کی تبلیغ آپ نے شروع کی ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوگئی کہ جن جن مذہبی مراسم میں روپیہ صرف ہوتا ہے اُن کو بند کر کے وہ روپیہ قومی اداروں اور تجارتی بنکوں پر صرف ہونا چاہیے، تو معاملہ صرف قربانی ہی پر رُکا نہ رہ جائے گا۔ کل کوئی اور بندۂ خدا اُٹھ کر کہے گا کہ یہ حج، جس پر کروڑوں روپیہ ہر سال خرچ ہور ہا ہے، اور جس کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اِسے بند ہونا چاہیے، اور اس روپے سے تجارتی بنک کھلنے چاہییں! سارا معاملہ اصل میں اقدار ہی کا ہے۔ جب ایک دفعہ معیارِ قدر بدل گیا، پھر آج قربانی بند ہوگی اور کل خواہ آپ نے چاہا یا نہ چاہا، حج کی باری آکر رہے گی۔(تفہیمات، دوم، ص ۲۴۱- ۲۴۲)
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دَور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جا رہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِفکر سے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرِحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہرروز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگاکر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس [سابق سوویت یونین] میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں۔ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہراس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (ایضاً، ص ۲۶۰-۲۶۲)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خوش قسمتی سے آج مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ مرکز اسلام میں حج کے عالم گیر اجتماع کے لیے دنیاے اسلام کے مختلف حصوں سے جو بندگانِ حق آئے ہوئے ہیں ان سے خطاب کروں اور ان کو یہ بتائوں کہ اس زمانے میں مومنین و صادقین اور خصوصاً ان کے نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں کے کرنے کا اصل کام کیا ہے۔ میں اس قیمتی اور نادر موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید ایسا موقع مجھے پھر نہ مل سکے گا، اپنا دل کھول کر آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں، تاکہ آپ لوگ اس وقت کی حقیقی صورتِ حال کو اور اس کے واقعی اسباب کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں اور اس کی اصلاح کے لیے حکمت اور جرأت کے ساتھ وہ تدبیر اختیار کریں جو میرے نزدیک موزوں ترین تدابیر ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے، کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہرگوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا، اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا، ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدہ ومسلک کی علَم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہوجائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو،جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں، زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جو انڈونیشیا اورملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کوئی اور کرشمہ دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کرسکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔
اب اسی مفروضے پر کہ دنیاے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے، ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں، اور جس حال میں یہ ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود، عقلی انحطاط، اخلاقی زوال اور مادی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیاتھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دو چار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے تھے۔ مگر پے درپے شکستیں کھاکھا کر اُن کا حال غلام ملکوں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جواپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتلِ عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلاکر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں، یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہوسکے تو اس سے فارغ ہوکر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبان کو ذریعۂ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیںاور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعۂ تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دیں۔
مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا، خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یااطالوی یا کوئی اور۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف، اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ، اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی، اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دُور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب وتمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوچکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجبِ افتخار بن گیا۔ مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں، ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں، یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعۂ عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمرمسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے، مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس، اُن کے رہن سہن کے طریقے، ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ، ان کی ثقافت کے اطوار، حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اُتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی، الحاد، عصبیتِ جاہلیہ، قوم پرستی، اخلاقی بے قیدی اور فسق وفجور کا پور زہر اپنے اندر جذب کرلیا، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے، اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جولوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں، اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا، اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اُونچے سے اُونچے عہدے ان ہی کوملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں، کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کرسکتے تھے، یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے، اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی، کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا، سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلارہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میںرکھنا ضروری ہے، کیونکہ انھیں نظرانداز کرکے اس وقت کی پوری صورتِ حال کوٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا جاسکتا۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیںتو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہوجائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہورہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑرہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہوکر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہورہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت، جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداً کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیںقائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب اُن کاکام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنالیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں۔ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیش تر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی راے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارف انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپر آتاہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علَم بردار ہوتا ہے۔
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیں مجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علَم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کا کید ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو مَیں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں، وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں اور اس امر کے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہوتو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔
اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے۔ قدیم طرز کی دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اور علم دین کے لحاظ سے ان کے بہترین مددگار بن سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ اُن صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں جو قیادت اور زمامِ کار سنبھالنے کے لیے درکار ہیں۔ یہ صلاحیتیں فی الحال صرف مقدم الذکر گروہ ہی میں پائی جاتی ہیں اور ضرورت ہے کہ اس وقت یہی گروہ آگے بڑھ کر کام کرے۔ ان لوگوں کو جو مشورے میں دے سکتا ہوں وہ مختصراً یہ ہیں:
۱- اسلام کا صحیح فھم: ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں، اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
۲- ذاتی اخلاقی اصلاح: ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتاہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتبار ختم کردیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے، اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے، نہ مخلص مانا جاسکتا ہے، جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتمادکریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہوسکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے اُن پر عامل ہونے کی اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
۳- مغربی تھذیب و فلسفہ پر تنقید: اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کردیں جن کی آج دنیا میں پرستش کی جارہی ہے اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانینِ حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلاسکے اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کو اختیار کر کے نہ صرف ترقی کرسکتی ہے بلکہ دوسروں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا، اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیںگے، اور یہ سپاہی ہرشعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے، تاکہ ایک کثیرتعداداُن لوگوں کی پیدا ہوجائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے، اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
۴- تنظیم : دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہوسکتی۔
۵- عمومی دعوت : اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے، بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں، نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیرموزوں ہیں۔
۶- صبر و حِکمت : انھیں بے صبر ہوکر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کردینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کرلیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہوکر یہ اُمید کی جاتی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہوجائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں، یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
۷- مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب: اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات، حصہ سوم، ص ۳۵۰-۳۶۳)
مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشیداحمد ناسازی طبع کی وجہ سے ’اشارات‘ نہیں لکھ سکے ہیں۔ قارئین سے ان کی صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ (ادارہ)
قرآن کی تلاوت اور نماز قائم کرنا یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلے میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکاتِ بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے....
اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ’’قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف‘‘ (مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے بازپُرس ہو، تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیِ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے، کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کرکے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔(تفہیم القرآن، جلدسوم، ص ۷۰۴-۷۰۵)
[ترتیل قرآن سے مراد یہ ہے کہ] تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلامِ الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمن اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے (بخاری)۔ حضرت اُم سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضوؐر ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مُسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی)۔ دوسری ایک روایت میں حضرت اُم سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضوؐر ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعامانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مُسنداحمد،بخاری)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)
نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا وصفِ لازم ہے، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تو اِس دنیا میں آزاد و خودمختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جوتیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہرنماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔
نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے، مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجاے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعے سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیراثر خفیہ اور علانیہ ہرحال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملے میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اسے جزوِ بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہرکھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھاکر قے کر دینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا۔
ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عمران بن حُصَینؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباسؓ حضوؐر کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا‘‘(ابن ابی حاتم، طبرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضوؐر سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر، بیہقی)۔ ابن مسعودؓ سے حضوؐر کا یہ ارشاد مروی ہے: ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے‘‘۔(ابن جریر، ابن ابی حاتم)
اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصری، قتادہ اور اعمش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفرؒ صادق فرماتے ہیں: ’’جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے‘‘ (رُوح المعانی)۔ (تفہیم القرآن، جلد۳، ص ۷۰۶-۷۰۷)
آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے، اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔
[۶۳] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دُہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اَقدار کے تسلُّط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے، افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہوسکی۔ ہماری درس گاہیں، ہمارے دفاتر، ہمارے بازار، ہماری سوسائٹی، ہمارے گھر، حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب، مغرب کے افکار، مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں، خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق، صداقت، تہذیب، اخلاق، شائستگی، ہرشے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔
سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے،وہی دُنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھاجاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلّد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلُّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بُوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔
مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے، تمام دنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح، نیکی اور بدی، غلط اور صحیح، شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اِضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے، جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا، جب وہ اِکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے اِستعفا دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا، کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
اب اسے بدقسمتی کے سِوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی وہ پانچ چھے سو سال سے دہریت، الحاد، لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی، ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرقِ بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبہ سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اُصولوں سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمانوں کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دوبارہ دنیا کے رہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکّر اور محقِّق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جُستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں، ایک نئی حکمت ِ طبیعی (Natural Science) کی عمارت اُٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ مُلحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اُٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دُنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔(مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، جلد اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص ۲۴۲-۲۴۶)
سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔
یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوئی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکّاری کسی طرح پسند نہیں۔
ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکّاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکّاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسولؐ اللہ بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔
اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں۔ فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔
اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔ یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے، اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّواط وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔
یہ بات بھی رئیس.ُ المنافقین عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، انھیں مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو فاقے کرتے ہوئے آئے تھے۔ تمھی نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک رہنے کے لیے دیے، ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے منہ آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے ان کو نکالو اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو۔ دیکھنا چند روز میں یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔
اس منافق کے اس قول پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ وہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ لوگ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں کوئی ٹھکانہ میسر نہ آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں، بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے یہ سلوک مہاجرین کے ساتھ اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تھا تو پھر احسان کیسا!۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ہر ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے۔ اس کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ دریدہ دہنی بھی کی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ پہنچ کر نعوذباللہ رسولؐ اللہ کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ چونکہ نہایت درجے کے غیرمعمولی متحمل مزاج تھے اس لیے آپ نے اس کی یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد کا فعل اور کیا ہوسکتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اگر ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ کیونکہ باہر کے لوگوں کو تو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان کیسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اور اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا۔ اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔
عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ بات پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے راستے میں مدینہ پہنچنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے تو وہ ہیں، آپ نہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ مدینہ میں آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ بیٹا باپ کے سامنے روک بن کر کھڑا تھا۔ یہ تھا اس کا اخلاصِ ایمانی!
ایمان دراصل اس چیز کا نام ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا، اور نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا، اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ معاملہ دینی حمیت اور غیرت کا ہو، اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، یا بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔ اللہ اور رسولؐ کے مقابلے میں ہرچیز کو قربان کر دیا جائے۔
یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک احمق یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دعوتِ دین کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکّاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے، تو یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی کی اپنے مال اور اولاد کی محبت، خدا اور اس کے دین سے اور حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔
اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اور مشغولیت اتنی بڑھ جائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول اور منہمک ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ مال اور اولاد کا مفاد تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ اتنا مشغول نہ کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔
ایک منافق درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو خدائی ہدایت کے مقابلے میں اپنا دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے۔ وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے کہ وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو اس بات کی بھی پروا نہیں رہتی کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں حق کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی، اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں نہ پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے تو اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ لیکن یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔
کسی کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے اور اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جانے کا سبب ہو۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے بڑی تکلیفیں اُٹھا کر اور ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولاد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا بلکہ اس کے برعکس اس غفلت پیشہ اور غلط کار انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا، یہی لوگ آکر اس کے خلاف گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہی تمھاری بیویاں، اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے، اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور اس کی ہدایت سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جاکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ مزید فرمایا:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔
خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ سب کچھ لگا لگایا ڈوب جائے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھونکنے والا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا ط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت ِعمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
ایک آدمی کا اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ آج اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جائے۔ اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، اور مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا۔ جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں، تو اس کو یہ مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرمایا گیا: وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا طا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔
اَجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی ہو کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا۔ مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہوتا ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کو پرچہ حل کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر چند لمحوں کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ہی اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، اور اس کے لیے جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کے کہنے پر اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ لہٰذا جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت کے اندر اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، اور بظاہر موت کا وقت بھی قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، یا کوئی ایسی بیماری آگئی ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے کوئی نیک عمل کرلوں تو یہ محض اس کی حماقت ہے۔ آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے، وہ چند لمحوں کے لیے بھی ٹل جائے۔ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ایک ایک آدمی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو کتنی کچھ نصیحت کی گئی۔ فقط ایک کتاب ہی پر موقوف نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی کو جو طرح طرح کے حادثات پیش آتے ہیں یا اس کی آنکھوں کے سامنے اس طرح کے واقعات گزرتے ہیں، ان سب میں ایک طرح کی تنبیہہ اور عبرت کا سامان ہوتا ہے، تاکہ آدمی اس سے سبق حاصل کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھارے لیے نصیحت اور یاد دہانی کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے۔ کون سی چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا پھر وہ عین مہلت ختم ہونے کے وقت مزید ملت مانگے، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید مہلت دے۔ وہ لوگوں کی خواہشوں کے مطابق اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
سورئہ منافقون غزوۂ بنی مصطلق کے زمانے میں نازل ہوئی۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس غزوہ سے واپسی کے سفر میں ایک انصاری اور مہاجر کا جھگڑا ہوگیا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ جب لوگ ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہوں، باہم معاملات کرتے ہوں تو اُن کے اندر جھگڑے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی کسی بات پر ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا۔ انصار کے ایک بڑے قبیلے بنوخزرج کا سردار عبداللہ بن اُبی جو اس وقت مدینے کا ایک بڑا قوم پرست (nationalist) لیڈر تھا، اس نے اس موقع پر یہ محسوس کیا کہ مدینے کے انصار اور مہاجرین کے درمیان نفاق ڈالنے اور ان کو لڑانے کا اچھا موقع ہے۔ چونکہ وہ مدینے کا ایک اہم سردار تھا اور سچے دل سے ایمان بھی نہیں لایا تھا، اس لیے اس کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ دوسرے شہر کے لوگ، یعنی مکی مہاجرین اور دوسرے قبیلوں سے آئے ہوئے لوگ مدینے کے اندر آکر بس گئے ہیں اور یہاں اپنے قدم جمارہے ہیں۔ لہٰذا اس نے جب یہ دیکھا کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی اس کے قبیلے کے ایک آدمی سے جھگڑ پڑا ہے، تو اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس نے مدینے کے لوگوں کی عصبیت کو بھڑکانا اور ان کو مہاجرین کے خلاف اُکسانا شروع کردیا۔
قوم پرستی (نیشنلزم) کا جذبہ جب بھی پیدا ہوتا ہے توہر آدمی جو سمجھتا ہو کہ ایک خاص دائرے کے اندر اس کو برتری حاصل ہونی چاہیے وہ اس دائرے کے اندر والوں کو اپنا اور باہر والوں کو غیر سمجھتا ہے۔ جب صورتِ حال یہ پیدا ہوجاتی ہے تو ایک ملک کے اندر ضلع کی عصبیت پیدا ہوتی ہے اور ایک ضلع کے اندر تحصیل کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک تحصیل میں ایک تھانے کی اورایک شہر اور گائوں کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ برادری اور خاندان کی عصبیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن دینی نقطۂ نظر سے یہ وہ چیز ہے جو اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جو اسلام کا مقصود ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جتنے انسان ایک کلمے کے اُوپر جمع ہوجائیں وہ ایک قوم بن جاتے ہیں۔ اس طرح تشکیل پانے والی قوم اور دراصل اُمت تمام دنیا کے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے۔ اس کے برعکس جو دنیاوی نیشنلزم اور قوم پرستی ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے کے آدمیوں کو جمع کرتی ہے، اور باہر والے لوگوں کے بارے میں ان کے اندر عداوت ڈالتی ہے۔ ان کے درمیان مناقشت (مخاصمت) اور کش مکش پیدا کرتی ہے۔
عبداللہ بن اُبی چونکہ قوم پرستانہ ذہن کا آدمی تھا اس لیے وہ اس موقع کی تاک میں تھا کہ مہاجرین کے خلاف انصار کو بھڑکائے اور بالآخر مہاجرین کو مدینہ سے نکالا جاسکے۔ چنانچہ اس نے اس موقع پر انصار کو بھڑکایا۔ اسی ترنگ میں اس نے ایک بڑی نازیبا بات کہی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اہلِ مدینہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ یہ ہمارے منہ آرہے ہیں۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مدینے پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ یہ سورت اسی زمانے میں نازل ہوئی۔اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِِذَا جَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ م وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ o (المنافقون ۶۳:۱) اے نبیؐ، جب یہ منافق تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔
مراد یہ ہے کہ اے نبیؐ! تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ بات تو ان کی جھوٹی نہیں ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ ہم گواہ ہیں کہ تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ جھوٹ ہے۔ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ محض جھوٹ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ اللہ کے رسولؐ تو تم ضرور ہو مگر اُن کی گواہی جھوٹی ہے۔
اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَھُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲) اُنھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے (خود رُکتے ہیں اور) دنیا کو روکتے ہیں۔ کیسی بُری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو آآ کر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، اور مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم تمھاری ہی طرح ایمان لائے ہیں، اس بات کو اُنھوں نے ڈھال بنا لیا ہے۔ ڈھال بنانے کی نوعیت یہ تھی کہ مدینۂ طیبہ کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسلمان ہوگئی تھی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آئی تھی اس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر مدینہ میں بلایا اور اپنا سردار اور فرماں روا بنا لیا، بغیر اس کے کہ حضوؐر زبردستی اپنے آپ کو ان پر مسلط کرتے، انھوں نے برضا و رغبت آپ کی فرماں روائی تسلیم کی اور مان لیا کہ جب آپ اللہ کے رسولؐ ہیں تو فرماں روائی بھی آپؐ کی ہے۔ اس طرح جب حضوؐر کی یہ پوزیشن مدینہ طیبہ میں بن گئی تو جو لوگ مدینہ کے سردار اور بااثر لوگ تھے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر اب ہم نے مقابلہ کیا تو آپس میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے اورچونکہ بہت سے صاحب ِ حیثیت آدمی اور سردار مسلمان بھی ہوگئے ہیں اور نوجوانوںکا بڑا طبقہ بھی مسلمان ہوگیا ہے، اس صورت حال میں اگر غیرمسلم رہتے ہیں تو جو آج تک ہماری چودھراہٹ تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ مسلمان ہوگئے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے اپنے اسلام کو ڈھال بنا لیا۔ اس طرح درحقیقت وہ اپنی پوزیشن بچانا چاہتے تھے اور اسلام کو انھوں نے محض ڈھال کے طور پر سامنے رکھا۔
دوسری چیز یہ تھی کہ جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کو مسلمانوں کے اندر گھسنے کا موقع مل گیا۔ اگر کوئی مسلمان نہ ہو تو وہ مسلمانوں کے اندر گھس کر فساد برپا نہیں کرسکتا۔ ان کے مشوروں میں شریک ہوکر ان کے رازوں سے واقف نہیں ہوسکتا، لیکن اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے پورے مواقع موجود ہوتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات کو بگاڑ سکے۔ ان کے اندر نفاق ڈالنا اور ان کے مشورے میں شریک ہوکر ان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرنا، یہ سارے کام بھی اس طرح کا آدمی کرسکتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا کہ اپنی قسموں کو انھوں نے ڈھال بنالیا ہے اور اس ڈھال کی آڑ میں وہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک شکل یہ تھی کہ وہ بظاہر مسلمانوں کے اندر شامل ہیں لیکن قرآنِ مجید کا کوئی ارشاد ہو یا حضوؐر کا کوئی فعل، وہ اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے تھے تاکہ ان کے اندرایمان راسخ نہ ہوسکے۔
دوسری صورت یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر ایسی خبریں پھیلاتے تھے جن سے مسلمانوں میں انتشار اور کم حوصلگی پیدا ہو۔ دشمنوں کے مقابلے میں یہ خوف پیدا ہوا کہ فلاںقبیلہ تمھارے خلاف مجتمع ہورہا ہے اور وہ اتنی طاقت کے ساتھ تم پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس طرح کی خبریں پھیلا پھیلاکر وہ مسلمانوں کے اندر اضطراب اور بے چینی پیدا کرتے تھے۔ اسی طرح مدافعت کی جو تیاری کی جاتی تھی، وہ اس کے اندر بھی رخنے ڈالنے کی کوششیں کرتے تھے۔ یہ بھی اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک صورت تھی۔
تیسری صورت یہ تھی کہ عرب قبائل کے اندر مسلمانوں کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی خبریں پھیلایا کرتے تھے تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق عداوت اور منافرت پیدا ہو اور وہ اسلام اور رسولؐ اللہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔
یہ مختلف طریقے تھے جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اسلام کے راستے میں سدِّراہ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کی سرتوڑ کوشش یہ تھی کہ یہ کام کسی طرح چلنے نہ پائے۔ اس پر فرمایا گیا: اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲)، یعنی یہ بہت بُرے کرتوت ہیں جو یہ لوگ کررہے ہیں۔
ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لاَ یَفْقَھُوْنَ (۳) یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لاکر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کا صاف صاف انکار کردے تو اس بات کا امکان ہے کہ کسی وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے اور وہ ہدایت قبول کر کے مسلمان ہوجائے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ مکار اور فریبی نہیں ہے، چال باز نہیں ہے۔ اس کے اندر اس طرح کا کھوٹ نہیں ہے کہ وہ بات کو مان بھی رہا ہے لیکن صدق دل سے نہیں مان رہا ہے، بلکہ صرف ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ جس وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے گی تو وہ اپنے قبولِ حق کا اظہار و اعلان کر دے گا۔ لیکن جو آدمی چال بازیاں کرتا ہے، مکاریاں کرتا ہے، فریب دیتا ہے، اس کے اندر سے وہ صلاحیت ختم ہوجاتی ہے کہ وہ سیدھی طرح سے ایمان لے آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اصل میں وہ کافر ہے۔بظاہر ماننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے اور اندر سے مان نہیں رہا ہے۔ ماننے کے بعد وہ کام کر رہا ہے جو نہ ماننے والوں کے کرنے کے ہیں۔ ان حرکتوں کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولِ ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی توفیق سلب ہوجائے تو ان کے اندر یہ صلاحیت باقی نہیں رہتی کہ وہ غوروفکر کرسکیں اور سمجھ بوجھ سے کام لیں۔
اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑ گئی ہے اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگ گیا ہے اس وجہ سے اتنی سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ خدا کی ہدایت کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرکے وہ کیسے فلاح پائیں گے۔اسی ٹیڑھ کی وجہ سے آپ سیدھی بات ان سے کریں گے وہ اس میں سے ٹیڑھ نکال لیں گے۔
وَاِِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ ط وَاِِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ ط کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ط یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ط ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْط قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ ز اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ o (۴) اِنھیں دیکھو تو اِن کے جُثّے تمھیں بڑے شان دار نظر آئیں۔ بولیں تم تو ان کی باتیں سنتے رہ جائو۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کُندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہیں۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو۔ اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر اُلٹے پھرائے جا رہے ہیں۔
اس میں منافقین کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ میں پہلے بتا چکاہوں کہ یہ مدینے کے بڑے بڑے چودھری اور سردار تھے، خوب کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اور چربی بھرے ہوئے ان کے جسم تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ تم ان کو دیکھو تو ان کے جسم بڑے شاندار نظر آئیں گے۔ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑی شخصیت (personality) کے مالک ہیں۔ اگر بات کریں تو ان کی بات سنتے رہ جائو، بڑی چکنی چپڑی باتیں کرنے والے بڑے زبان آور اور بڑی اعلیٰ درجے کی زبان استعمال کرنے والے لوگ ہیں مگر ان ظاہر فریب شخصیتوں کے ساتھ ان کی کیفیت یہ ہے کہ یہ گویا دیوار سے لگی ہوئی لکڑیاں ہیں، اندر سے کھوکھلے لوگ ہیں۔
عرب میں جو بت پوجے جاتے تھے وہ زیادہ تر لکڑی کے ہوتے تھے، پتھر کے بت کم تھے۔ ان بتوں کو بہت شاندار، رنگین اور بڑے بڑے نقش و نگار بناکر طرح طرح کے کپڑے پہناکر دیواروں کے ساتھ لگا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ان منافقوں کی حالت ان بتوں کی سی ہے جو کہ بظاہر بڑے شان دار نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر جان نہیں ہوتی۔یہ دیواروں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے اندر اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ہر آواز کو سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اگر ایک آدمی چوری کر رہا ہوتو ذرا سی آہٹ اور آواز کسی طرف سے آئے تو وہ فوراً بِدکتا ہے کہ میں مارا گیا۔ اسی طرح سے جو آدمی کسی معاشرے میں رہتے ہوئے اس معاشرے کے خلاف کام کر رہا ہے، کسی ریاست میں رہتا ہے اور غیرقانونی افعال میں ملوث ہے، دشمن سے ملا ہوا ہے، یا کسی سازش میں شریک ہے، تو ایسا آدمی اندر سے جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس کا دل اس بات سے باخبر ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں اور جرم کا ارتکاب کر رہا ہوں اس لیے ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ میرا راز فاش ہوجائے اور میری شامت آجائے۔ ایسے آدمی کے اندر ایک عجیب قسم کی بُزدلی موجود ہوتی ہے، اپنے جرم کا احساس موجود ہوتا ہے، اس لیے وہ ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے۔ لہٰذا ہر آواز سے اس کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ میری شامت آئی۔
اس کے برعکس جو آدمی ایمان داری کے ساتھ کام کر رہا ہو، وہ بے خوف اور بے کھٹکے ہوتا ہے۔ وہ آدمی جو کچھ بھی خیالات رکھتا ہو، ان کو کھلم کھلا بیان کرتا ہے، جو کام بھی کرتا ہے، علانیہ کرتا ہے۔ اگر کسی سے لڑائی ہے تو کھلم کھلا لڑائی ہے۔ کسی کے ساتھ دوستی ہے تو ایمان داری کے ساتھ دوستی ہے۔ کسی کا مخالف ہے تو کھلم کھلا مخالف ہے۔ کسی کا موافق ہے تو علانیہ موافق ہے۔ جو بات کرتا ہے اطمینان اور ایمان داری کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک منافق کا رویّہ ایک ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے سے انسان کی طرح ہوتا ہے، وہ اندر سے کمزور ہوتا ہے اس لیے ہر آواز سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ بس اب اس کی شامت آرہی ہے۔
ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ (۴) یہی اصل میں دشمن ہیں، ان سے بچو۔
باہر والے دشمن کے مقابلے میں یہ چھپے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھائو۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا: قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے، یہ کدھر اُلٹے پھرائے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے___ عربی زبان کا محاورہ ہے، یعنی جب کہنا ہو کہ اس کا ستیاناس ہوجائے تو اس موقع پر بولا جاتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ یہ دھوکا کھاکر کدھر جا رہے ہیں۔ یہ بظاہر دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں لیکن دراصل خود دھوکا کھا رہے ہیں اور اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔
وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُئُوْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّونَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ o (۵) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں، اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رُکتے ہیں۔
یہ اشارہ ہے اس واقعے کی طرف کہ عبداللہ بن اُبی نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کی تھی اور اس طرح کی باتیں کی تھیں کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع پر اس نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ اب مدینہ چل کر جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی اطلاع پہنچی اور عبداللہ بن اُبی کو بھی خبر دی گئی کہ رسولؐ اللہ کو اس بات کا پتا چل گیا ہے کہ تم نے کیا باتیں کی ہیں تو انصار کے بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور ان سے اس کی معافی مانگو اور یہ درخواست بھی کرو کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے مغفرت کے لیے دعا کریں، تو اس نے بڑی نفرت سے منہ پھیرا اور اکڑ کر یہ کہا کہ تم لوگوں نے مجھے کہا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائو تو میں ایمان لے آیا، تم نے کہا کہ نماز پڑھو تو میں نماز بھی پڑھنے لگا، تم نے کہا کہ زکوٰۃ دو تو میں نے زکوٰۃ بھی دینی شروع کر دی، اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ تم کہو کہ محمدؐ کو سجدہ کرو تو یہ تو میں کرنے سے رہا۔
گویا اس کے نزدیک اس کا یہ بہت بڑا احسان تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا، جب کہ اس کے قبیلے کے لوگ اس کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ گویا اس کے بقول: پھر یہ کیا کم مہربانی تھی کہ میں لوگوں کے کہنے پر نماز بھی پڑھنے لگا، زکوٰۃ بھی دینے لگا، اور اب تم اتنے بڑے رئیس کو یہ کہہ رہے ہو کہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کرو کہ وہ تمھارے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں ،تو گویا بس اب ان کو سجدہ کرنے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو (تم دیکھتے ہو کہ) یہ بڑے تکبر کے ساتھ منہ پھیرتے ہیں۔ (جاری)۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔
یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوتی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکاری کسی طرح پسند نہیں۔
ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔
اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔
اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔ یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے۔ اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۶۳:۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔
یہ بات بھی عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو بھوکوں مرنے ہوئے آئے تھے اور تم نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک دیے رہنے کے لیے،ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے …… آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے واپس لو، اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو، یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔
اس پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں نہ کوئی ٹھکانہ ملتا اور نہ رزق میسر آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تو پھر احسان کیا۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا خزانوں کا مالک ہے۔
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۶۳:۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
جیساکہ میں بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ بات بھی کہی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ شریف پہنچ کر نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ نہایت درجے کی غیرمعمولی متحمل شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قول سنا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد اور کیا ہوسکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ باہر کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان ایسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی۔ اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا، اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔
عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر مدینہ پہنچنے سے پہلے کی بات ہے۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے وہ ہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ اب اس کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ تھا اخلاص!
ایمان دراصل یہ چیز ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا ہے، نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ آدمی کے اپنے جذبات وابستہ ہیں اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔
یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۶۳:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دین کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے۔ یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی اپنے مال اور اولاد کے مفاد کو خدا اور اس کے دین سے، حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس کی محبت اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اتنی بڑھ جائے اور اس میں اتنا مشغول ہوجائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول ہوتا ہے، اور اس میں اس کی دل چسپی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ مشغول کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔
منافق اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا سے غافل ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے، وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے، مثلاً ایک آدمی ہے جس کو اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو پھر اس بات کی پروا نہیں رہتی کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی فکر کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی طرح حق بات کی حمایت کروں، جس چیز کو زبان سے خود مانتا ہے وہ اس کے متعلق یہ سوچتا ہے کہ اگر میں اس کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی۔ اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں کیوں پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ زیور پہنائے، زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔
اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے، اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم ہو۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے کتنی تکلیفیں اُٹھا کر اور کس قدر ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ باپ بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس اس کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا تو یہی لوگ آکر گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہ اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے۔ اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جانا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۶۳:۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔
خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ صرف لگا لگایا ڈوب جائے، یہ خسارہ ہے۔ ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل سارے کے سارے ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھوکنے والا ہے، اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہے۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
ایک آدمی کے لیے اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ اس وقت اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھولتا ہے، اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، تو مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دے۔ اور اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں۔
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
اجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کے لیے پرچہ حل کرنے کا وقت ہے۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ ایک آدمی کو کسی کام کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو، یہ اَجل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر ایک منٹ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد۔ اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ کوئی تاخیر اس کے اندر نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ تو جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، موت کا وقت قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں کوئی نیک عمل کرلوں جس سے میری عاقبت درست ہوجائے تو اس کی یہ محض حماقت ہے۔ کبھی آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے ایک منٹ کے لیے بھی وہ ٹل جائے۔
وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ کتنا کتنا تم کو سمجھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی کچھ نصیحت کی گئی،فقط ایک کتاب ہی نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ وہ فقط کسی ناصح کی زبان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نصیحت کرنے کے لیے، اس کو عبرت کا سبق دینے کے لیے بساااوقات ایک آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوا اور آن کی آن میں آدمی مر گیا۔ وہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یہ بھی ایک نصیحت ہے۔
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھاری نصیحت کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے؟ اور کیا چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا ہے اور ایسے طریقے اختیار کرتا ہے دنیا بنانے کے لیے جو عاقبت کے لیے تباہ کن ہوں تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید وقت دے۔ وہ کسی کے لیے اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن، امجد عباسی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَـآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o (الجمعۃ ۶۲: ۶-۷) اِن سے کہو، اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّـآؤُہٗ ط (المائدہ ۵:۱۸) یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں۔
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ط (البقرہ ۲:۸۰) اور وہ (یہودی) کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلا.ّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔
آج بھی یہودی اپنے آپ کو خدا کے چہیتے (chosen people) کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی چُنیدہ مخلوق ہیں۔ اسی طرح وہ خود کو children of Godبھی کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی اولاد ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا کہ اگر تمھارا یہ زعم درست ہے کہ صرف تم اللہ کے ولی ہو اور کوئی دوسرا اللہ کی ولایت نہیں پاسکتا ہے اور جو قرب تمھیں اللہ کا حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے تو پھر تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔
موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب ہو، اور وہ بھی تمھیں چاہتا ہے تو پھر تمھیں موت سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ پھر تو تمھیں تمنا کرنی چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے خدا کے ہاں پہنچو تاکہ تم اس کا حقیقی قرب حاصل کرسکو اور اُن انعامات سے بھی محظوظ ہوسکو جو اس نے اپنے چنیدہ بندوں کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ جو آدمی حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے قرب رکھتا ہو اور فی الواقع اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو وہ موت سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں۔ اس کے لیے تو موت ایسی ہے جیسے اس کو وصالِ محبوب کا موقع مل رہا ہو۔ اس لیے یہ فرمایا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر تمھارے اندر موت سے گھبراہٹ کیوں ہے؟موت سے بھاگتے کیوں ہو؟ تمھیں تو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے رب کے پاس پہنچو لیکن اس کے برعکس قرآن کے الفاظ میں ان کا حال یہ ہے کہ: وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ، یعنی یہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے، ان اعمال کی وجہ سے جو وہ اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ اُن کے کرتوتوں کی بنا پر ان کے دلوں میں کبھی موت کی تمنا پیدا نہیں ہوسکتی۔ دوسرے الفاظ میں جو آدمی دنیاپرستی میں مبتلا ہو اور دنیا کے فوائد اور لذتوں کی طلب میں غرق ہو اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو، ایسا آدمی کبھی موت کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ تو موت کے تصور ہی سے بھاگے گا، کجا یہ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرے، کیوں کہ موت اس کے لیے وصالِ محبوب نہیں ہے بلکہ ہجرِ محبوب ہے۔ وہ دنیا کی محبت میں مرا جاتا ہے، وہ وصالِ محبوب کی طرف توجہ اور اس کی تمنا کیسے کرے گا۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o ’’اور اللہ تعالیٰ (ان) ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔
قُلْ اِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (۸) ان سے کہو، جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔ پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
گویا تم موت سے خواہ کتنا ہی بھاگو اور کتنا ہی گھبرائو، اس کو تو اپنے مقررہ وقت پر لازماً آنا ہے، اور تم لازماً اپنے اُس رب کے سامنے پیش ہونے والے ہو جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، اور اپنے جن اعمال کی وجہ سے تم موت سے گھبراتے ہو، وہ سارے اعمال تمھارے رب کے علم میں ہیں۔ وہ تمھارے سارے اعمال تمھارے سامنے لاکر رکھ دے گا۔ اس وقت تمھارا کوئی باطل زعم اور جھوٹا دعویٰ تمھارے کسی کام نہ آئے گا۔ اس وقت تمھاری قسمت کا فیصلہ سراسر تمھارے اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا ط الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم جانو۔
یہاں سے سورئہ جمعہ کا دوسرا رکوع شروع ہو رہا ہے۔ پہلے رکوع میں یہودیوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہلِ عرب کو وحشی اور جاہل سمجھتے ہیں، اُن کو اُمّی کہتے ہیں۔ وہ عام اہلِ عرب کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذباللہ) حقیر سمجھتے تھے۔ ان کے زعمِ باطل میں حضوؐر کو نبوت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پر فرمایا گیا: ہاں، ہم نے اسی قوم کے اندر اپنا نبیؐ مبعوث کیا ہے جو ان کے سامنے کتاب اللہ کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمھارے اس زعمِ باطل کے برعکس کہ عرب کے لوگ جاہل اور غیرمہذب ہیں اور تم حاملِ کتاب ہو لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ تم نے اس کتاب کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، اس لیے تمھاری مثال اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ خبر نہ ہو کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ دوسری طرف تمھارے اخلاق کا حال یہ ہے کہ تم دنیا پر مر مٹتے ہو، موت کے تصور ہی سے گھبراتے ہو اور دعویٰ یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے برگزیدہ اور چُنیدہ لوگ ہو، اور تم اللہ کو بہت محبوب ہو۔
ان کو حقائق کا آئینہ دکھانے کے بعد اب خطاب کا رُخ مسلمانوں کی طرف ہو رہا ہے اور نمازِ جمعہ کے حوالے سے ان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اللہ کی یاد کی طرف دوڑو۔
نماز کے لیے پکارے جانے سے مراد اذان ہے۔ قرآن مجید میں دو مقامات پر اذان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے۔ اس زمانے میں جن الفاظ میں لوگوں کو نماز کے لیے پکارا جاتا تھا اور آج بھی پکارا جاتا ہے، وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان نہیں کیے گئے ہیں، البتہ ان کی طرف دو مقامات پر اشارہ موجود ہے۔ ایک تو یہ مقام ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، اور دوسری جگہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا:
اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ط (المائدہ ۵:۵۸) جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ (اہلِ کتاب اور کفار) اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں۔
گویا قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کے لیے منادی کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسلمانوں کو سکھائے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریعت کے نظام میں کیا مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طریقہ مقرر کرتے ہیں اور قرآن مجید میں اس کا ذکر کر کے اس طریقے کی صحت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ گویا وہ ایک مسلّمہ چیز اور شریعت میں طے شدہ امر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اس کا پورا قصہ احادیث میں موجود ہے، چنانچہ اذان حضوؐر کے حکم سے جاری ہوئی اور اب اس کو شرعی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ وہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فعل نہیں تھا۔
یہ نِدا جس کا ذکر یہاں نمازِ جمعہ کے لیے کیا گیاہے، دوسری اذان ہے جو خطبے کے وقت دی جاتی ہے۔ پہلی اذان حضوؐر کے زمانے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں رائج نہیں تھی۔ اس کو حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانے میں اس لیے رائج کیا کہ مدینے کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور مسجد کے اندر خطبے کے وقت جو اذان دی جاتی تھی وہ پوری آبادی تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس سے لوگ بروقت خبردار ہو جائیں کہ نماز کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے مدینۂ طیبہ کے ایک اُونچے مکان کے اُوپر خطبے سے کافی دیر پہلے اذان دلوانے کا طریقہ مقرر کیا تاکہ پوری آبادی کو بروقت اطلاع ہوجائے کہ نمازِ جمعہ کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہوجائے۔
اس واقعے سے بدعت کے مفہوم پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بدعت ہر اُس چیز کو نہیں کہتے جو نئی نکالی گئی ہو۔ ہر چیز جو پہلے سے شریعت میں موجود نہ ہو اور بعد میں مفادِ اُمت کے لیے رائج کی جائے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔ دراصل بدعت اور سُنت کے درمیان ایک بڑا نازک اور لطیف فرق ہے۔ اگر ایک آدمی شریعت کے قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شریعت کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے کوئی ایسا نیا کام کرے (جو شریعت کے ان مقاصد کو جو شریعت میں اہمیت رکھتے ہیں) پورا کرنے میں مددگار ہوتا ہو تو وہ کام نیا ہونے کے باوجود بدعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی چیز ایسی ہے جو شریعت کے نظام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کی ضد میں پڑتی ہے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کے بجاے اُن مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کو اُٹھا کر مسلمانوں کی زندگی میں رائج کر دیا جائے، تو یہ بدعت ہے۔
دوسرے لفظوں میں ایک چیز شریعت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور ایک چیز مناسبت نہیں رکھتی۔ چنانچہ جو چیز مناسبت نہیں رکھتی، وہ بدعت ہے اور جو چیز مناسبت رکھتی ہے وہ بدعت نہیںہے۔ جمعہ کے وقت پہلی اذان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ حضوؐر کے زمانے میں رائج نہیں تھی اور شیخین حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں کے زمانے میں بھی نہیں تھی۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے اس کو جاری کیا۔ اب یہ بھی معلوم ہے کہ صحابۂ کرام نے اس وجہ سے اس کو قبول کیا اور اس پر اعتراص نہیں کیا، کیونکہ یہ اس مقصد کے خلاف نہیں بلکہ اُس مقصد کو پورا کر رہی تھی، جس مقصد کے لیے اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ آپ یہ کیا بدعت نکال رہے ہیں۔
یہ دوسری اذان ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اور یہ وہ ا ذان ہے جس کے سننے کے بعد پھر خرید و فروخت حرام ہوجاتی ہے۔ پہلی اذان کو سننے کے بعد خرید و فروخت حرام نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا اہتمام اس لیے کیاگیا ہے کہ اگر کوئی اُس کو سن کر غسل کرنا چاہے، یا اپنے کام سمیٹ کر اور وضو کرکے نماز کے لیے چلنا چاہے تو اسے اس کا موقع مل جائے اور وہ اس کے لیے تیار ہوکر نکل سکے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دوسری اذان سن کر، جب کہ خطبہ شروع ہونے والا ہو، اس وقت کوئی کاروبار کرے اور کسی قسم کے دنیوی کام میں لگا رہے تو پھر یہ ایک حرام فعل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ کے وقت کاروبار اور بیع و شراء (خرید وفروخت) کا ممنوع ہوجانا خود جمعہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔
جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف پہنچنے کے بعد شروع کی تھی۔ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے جو ابتدائی کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے جمعہ کی اقامت کا اہتمام شروع فرما دیا۔ پہلے اس دن کو (جس کو اب جمعہ کہتے ہیں) یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ یہ اس کا قدیم نام تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص کیا اور پوری آبادی کے لیے جمع ہوکر باجماعت نماز پڑھنے کا حکم جاری کیا، تو اس وجہ سے اس دن کا نام یوم الجمعہ قرار پا گیا۔
نمازِ جمعہ کی اذان سن کر ’’اللہ کی طرف دوڑو‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ دوسری اذان سن کر بھاگنا شروع کردیں۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ آپ سڑکوں پر بھاگتے ہوئے نماز کے لیے جائیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ نماز کے لیے وقار اور سکینت کے ساتھ جائو۔ پس فَاسْعَوا کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی طرف جانے میں جلدی کرو، تساہل سے کام نہ لو۔ چنانچہ سَعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں ہے، بلکہ اہتمام کرنا ہے، جلدی کرنا ہے تاکہ آدمی دوسرے کاموں میں مشغول رہ کر نماز سے غافل نہ ہوجائے، اس میں دیر نہ کردے۔
ذِکْرُ اللّٰہِ سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز دونوں ہیں___ دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف، یعنی اتنی جلدی کرو کہ خطبہ کے موقع پر پہنچ کر اسے سن سکو۔
احادیث میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت جو شخص خطبے سے پہلے جائے اس کی کیا حیثیت ہے، جو شخص خطبے کے دوران میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے، اور جو خطبہ کے آخر میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھرجب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنا بند کردیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
حکم ہے کہ ہرمسلمان جمعہ کا خطبہ سنے، چنانچہ یہ طے کر دیا گیا کہ جس وقت امام جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے نکل آئے، اس وقت کوئی کام جائز نہیں ہے سواے اس کے کہ آدمی اس کو توجہ سے سنے، حتیٰ کہ آدمی نفل نماز بھی نہ پڑھے اور کسی سے کوئی بات بھی نہ کرے۔ صرف خطبے کی طرف توجہ رکھے ___ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کے لیے جو عبادت مقرر کی گئی ہے اس وقت وہی سب سے اہم ہے۔ اس وقت کوئی دوسری عبادت کرنا، خواہ کتنی ہی بڑے درجے کی ہو، غلط ہوگا۔ چونکہ نمازِ جمعہ کے وقت مقصود یہ ہے کہ خطبہ سنا جائے، اس لیے حکم دیا گیا کہ خطبے کے دوران میں بالکل خاموش رہا جائے۔ کوئی کسی قسم کی آواز نہ نکالے اور اگر کوئی شخص بولے تواس کو زبان سے منع بھی نہ کرے، صرف اشارے سے منع کرے۔ اگر خطبے کے دوران میں کوئی شخص بول رہا ہو اور آپ نے اس کو خاموش رہنے کے لیے کہا تو آپ نے بھی وہی کام کیا جو وہ کر رہا ہے۔ اس وجہ سے خطبے کے موقع پر مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا: وَذَرُوا الْبَیْعَ ،’’اور بیع کو چھوڑ دو‘‘۔ بیع سے مراد محض خریدوفروخت نہیں ہے بلکہ تمام دنیوی کام ہیں۔ لوگوں کی توجہ صرف اس طرف ہونی چاہیے کہ جلدی سے جلدی تیار ہوکر خطبے کے وقت مسجد میں پہنچ جائیں۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ’’یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔
اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ جمعہ فرض ہے مگر کچھ شرائط کے ساتھ۔ ہر آزاد، عاقل و بالغ مرد کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا اور اس کا خطبہ سننا فرض ہے۔ وہ کسی حالت میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا، اِلا.ّ یہ کہ وہ مسافر ہو۔ گویا مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ عورت اور بچے کے اُوپر بھی فرض نہیں ہے۔ مریض پر بھی فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بیمار کی تیمارداری میں لگا ہوا ہو تو اس پر بھی فرض نہیں ہے۔ اپاہج اور معذور پر بھی فرض نہیں ہے، لیکن فرض نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ جاکر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ نہیں، وہ ادا ہوجائے گی اور پھر جمعہ کی جگہ اس کے لیے ظہر کی نماز پڑھنی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح غلام کے اُوپر نمازِ جمعہ فرض نہیں ہے۔ اگر وہ نماز کے لیے نہ جائے تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر نماز کے لیے چلا جائے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔
فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (۱۰) پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔
یہ جو فرمایا کہ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کرنا لازم ہے، یعنی یہ کوئی حکم نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہی لوگ نکلیں اور جاکر اپنا کاروبار شروع کر دیں۔ اس کو لازم نہیں کیا گیا بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ کاروبار پر پابندی صرف جمعہ کی نماز تک تھی۔ اس کے بعد آزادی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا: وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول دو اور احرام سے نکل آئو تو اس کے بعد شکار کرو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولتے ہی پہلا کام آدمی یہ کرے کہ جاکر شکار کرے۔ گویا یہ فرض ہے کہ احرام کھول کر شکار کرو، نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے تم کو حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن اب، جب کہ تم احرام سے نکل آئے ہو تو شکار کرسکتے ہو۔
بعض لوگ اس آیت کو بنیاد بناکر یہ حکم نکالتے ہیں کہ دیکھیے صاحب، جب یہ فرمایا گیا ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کے لیے زمین میں پھیل جائو تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہونا چاہیے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم تو آگیا ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا دن ہے، البتہ جمعہ کے روز چھٹی کرنا جائز نہیں ہے۔ ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ قدیم ترین زمانے سے جو تین الہامی کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان کو ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اپنا مذہبی دن ہفتہ کو قرار دے رکھا ہے اور وہ ہزاروں برسوں سے اس کی پابندی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جب پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ کی ایک سازش کے تحت اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو سب سے پہلے جو کام یہودیوں نے کیے، ان میں سے ایک یہ تھاکہ انھوں نے سبت (ہفتہ) کا دن ہفتہ وار چھٹی کے لیے مقرر کیا۔ اسی طرح انھوں نے عبرانی زبان کو اپنی قومی زبان اور سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیا۔ انبیا اور رسولوں کو ماننے والی جو دوسری قوم ہے، یعنی عیسائی، تو وہ اپنا مذہبی دن اتوار کو مانتے ہیں۔ تیسری قوم جو انبیا اوررسالت کو ماننے والی ہے، یعنی مسلمان، تو اس کا مذہبی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جمعہ کا دن قرار دیا تھا۔ جمعہ کا دن اس لیے رکھا گیا کہ اس روز اہلِ ایمان باقی کاموں سے فارغ اور آزاد رہ کر نہائیں، صفائی کریں، غسل کر کے نماز کے لیے جائیں اور جب نماز سے فارغ ہوکر نکلیں تو شریعت نے آپ کو اجازت دی ہے کہ آپ اپنا کاروبار کرسکتے ہیں، جیساکہ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) کے الفاظ سے احرام کی پابندی ختم ہونے کے بعد شکار کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت کو حکم کے معنوں میں ثابت کرنے سے جمعہ کو چھٹی قرار دینے کی بات تو غلط ہوگئی، البتہ دورِ غلامی میں انگریزوں نے مسلمانوں میں پہلے سے رائج جمعہ کی رخصت کر کے جب اپنے مذہب کے مطابق اتوار کا دن چھٹی کے لیے مخصوص کرلیا تو اب وہ ہمیشہ کے لیے فرض ہو گیا۔
انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر اور خیر سے آزاد ہوجانے کے باوجود یہ حماقت کی باتیں یہاں کی جاتی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں جمعہ ہی ہفتہ وار چھٹی کے دن کے طور پر رائج ہے۔ جب کبھی ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ سواے ترکی کے باقی تمام ملکوں میں جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہوتا ہے اورترکی کا حال آپ کو معلوم ہے کہ وہاں مصطفی کمال نے اپنی قوم کے ساتھ اور مسلمانوں کے مسلّمہ عقاید اور شعائر کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا۔ چنانچہ آج اگر ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل کا دن جمعہ ہونا چاہیے تو اس پر اعتراض بے معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ جمعہ کے روز ان کو اس غرض کے لیے کافی وقت دیا جائے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ نماز کے لیے تیار ہوسکیں۔
دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں یہی شعار رائج رہا ہے، حتیٰ کہ جیسے پہلے اشارہ کیا گیا، انگریزی حکومت کے زمانے میں تمام ہندستان میں اگرچہ اتوار کو چھٹی ہوتی تھی لیکن تمام مسلمان ریاستوں میں چھٹی کا دن جمعہ ہی تھا۔ ریاست بہاولپور، بھوپال اور حیدرآباد دکن میں بھی جمعہ چھٹی کا دن تھا۔ بھوپال اور رام پور جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اس آیت کے الفاظ ’’جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کرو‘‘ سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہونی چاہیے۔
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پائوگے۔
اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر جب تم اپنے کاروبار پر لگو تو اس مصروفیت کے دوران میں اپنے اللہ کو یاد رکھو اور کثرت سے اس کا ذکر کرو۔ جمعہ کے دن تم کو ذکر کے لیے بلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو تھوڑا ساوقت نماز کے لیے مقرر ہے وہ اللہ کے ذکر کے لیے رکھو اور باقی وقت میںتم اللہ سے غافل ہوسکتے ہو۔ نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کے لیے نکلو تو اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ اس وقت بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ پھر اس ذکرسے مرادکوئی خاص قسم کا ذکر نہیں ہے کہ آپ، مثلاً سبحان اللہ، سبحان اللہ ہی پڑھتے رہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، کاروبار بھی کرے تو اللہ کو یاد رکھے۔ ویسے بھی ایک مسلمان کی زبان سے اپنے دن رات کے اوقات میں، الحمدللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کے جو الفاظ نکلتے ہیں، یہ سب اللہ کا ذکر ہی ہے۔ زندگی کے مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے جب آدمی کسی نہ کسی طرح اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کو بھولا نہیں، اس سے غافل نہیں ہوا۔
وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (۱۱) اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
جیساکہ آغاز میں بیان کیا گیا، یہ بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ تشریف آوری کے بعد نمازِ جمعہ کا طریقہ مقرر کیا تو مدینہ میں لوگ ابھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور جمعہ کا طریقہ نیا نیا مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے لوگ ابھی پوری طرح اس کے آداب اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں چونکہ اہلِ مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ دے کر تمام کفارِ عرب سے دشمنی مول لے لی تھی، اس لیے عرب کے لوگوں نے مدینہ کے لوگوں کا ایک طرح سے معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کر رکھا تھا۔ ان سے کاروباری تعلقات کاٹ لیے تھے جس سے مدینہ کے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ مہاجرین جو مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے حصوں سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اُن کی اکثریت اس حال میں آئی تھی کہ اپنے گھربار، مال اسباب سب کچھ چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں نکل آئے تھے اور ان کے لیے کوئی ٹھکانہ یہاں نہیں تھا۔ ان کی معاشی حالت بھی بہت خراب تھی اور مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایسے خستہ حال مہاجرین کے آنے سے، اور یہاں کے لوگوں پر اُن کا بار پڑ جانے سے دونوں کی معاشی حالت پر اس کا بُرا اثر پڑا تھا۔ پیش نظر آیات میں جس واقعے کا ذکر آیا، وہ اسی زمانے میں پیش آیا تھا۔
احادیث میں یہ قصہ اس طرح آیا ہے کہ ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں آیا۔ تجارتی قافلوں کا جو طریقہ اُس زمانے میں رائج تھا وہ یہ تھا کہ جب قافلے والے کسی بستی میں پہنچتے تھے تو ڈھول تاشے بجاتے تھے، اور ان کے ساتھ کچھ حبشی غلام وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ وہ اس ڈھول تاشے کے ساتھ کچھ اُچھل کود کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ اس طرح گویا بستی کے لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ آگیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عین جمعہ کی نماز کے وقت ایک تجارتی قافلہ باہر سے آیا اور اس نے آکر ڈھول تاشے بجانے شروع کیے، تو وہ لوگ جو اس وقت مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے جمع تھے، اپنی پرانی عادت کی بنا پر ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ان کی توجہ اس قافلے کی طرف ہوگئی۔ اس کے ساتھ ان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ جو لوگ جمعہ کے لیے نہیں آئے ہیں، وہ اچھااچھا مال خرید کر لے جائیں گے اور خرید و فروخت کا ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ابھی تک مدینہ میں غیرمسلم بھی موجود تھے۔ یہودی بھی تھے اور منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جس کی بنا پر ان کو یہ پریشانی ہوئی کہ اگر ہم یہاں بیٹھے رہے تو دوسرے لوگ آکر اچھا اچھا مال خرید کر لے جائیں گے۔ دوسری طرف ہم اپنا مال قافلے والوں کے ہاتھ اچھے داموں بیچ بھی نہیں سکیں گے، اس طرح دوہرا نقصان ہوگا۔
دراصل اس زمانے میں تجارتی قافلے اس غرض کے لیے آتے تھے کہ باہر کا مال لاکر مقامی آبادی کے ہاتھ بیچیں اور ان کے ہاں اگر کوئی چیز خریدنی ہے تو خرید کر ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ جو لوگ مسجد میں جمع تھے، وہ بالکل بے ساختہ، عین خطبے کے دوران میں اُٹھ کر مسجد سے باہر نکل گئے اور حضوؐر کھڑے رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف آٹھ آدمی مسجد میں رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف ۱۲ آدمی مسجد میں رہ گئے، اور بعض روایات میں ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۴۰ کی بتائی گئی ہے۔ اگر ۴۰ کی تعداد کو بھی مان لیا جائے تب بھی بڑی اکثریت جو وہاں موجود تھی وہ اُٹھ کر چلی گئی۔ کیونکہ ظاہر بات ہے کہ مدینے میں مسلمانوں کی تعداد محض اتنی کم تو نہیں تھی۔ مہاجرین کے علاوہ انصار کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس لیے صورتِ واقعہ یہی نظر آتی ہے کہ ایک بڑی اکثریت اُٹھ کر چلی گئی اور بہت تھوڑے سے لوگ مسجد میں باقی رہ گئے۔ اب چونکہ یہ ایک اضطراری حرکت تھی اور لوگ بھی غیر تربیت یافتہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اُوپر سخت گرفت نہیں فرمائی بلکہ صرف اس کا ذکر کردینے پر اکتفا کیا۔ اگر کہیں لوگ تربیت یافتہ ہونے کے بعد اور ایک کافی مدت اسلام میں گزار لینے کے بعد اس طرح کی حرکت کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انتہائی شدید گرفت کی جاتی، چونکہ یہ ابتدائی حالت تھی اس وجہ سے اس انداز میں توجہ دلائی گئی ہے، اور یوں ذکر کیا گیا کہ جن لوگوں نے تجارت اور لَہو کو دیکھا، یعنی وہ کھیل تماشا دیکھا جو قافلے والے کرر ہے تھے، اور تجارت کا موقع دیکھا تو حضوؐر کو خطبہ دیتے ہوئے کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر تعلیم و تربیت کے انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی گئی کہ:
قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (اے نبیؐ!) ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس لہو اور کھیل تماشے سے اور اس تجارت سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ تم اس خیال سے کہ رزق حاصل کرنے کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا، اللہ کے رسولؐ کو کھڑے چھوڑ کر قافلے کی طرف نکل بھاگے لیکن یہ نہ سوچا کہ رزق تو اللہ کے پاس ہے،اور بہترین رزق دینے والا وہی ہے۔ اگر یہ موقع نکل بھی جاتا، تو کیا ہوتا، تمھارا رزق تو ختم نہ ہوجاتا۔
اب دیکھیے کہ ان الفاظ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہاں انداز عتاب کا نہیں ہے، غضب اور غصے کا بھی نہیں ہے، بلکہ اس طریقے سے لوگوں کی تربیت فرمائی گئی، کیوں کہ ان سے یہ غلطی اضطرار کی بنا پر، اور تربیت یافتہ نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی تھی۔ محض اسلام کا ابتدائی عہد ہونے کی بناپر ان سے جو قصور ہوا تھا، وہ نعوذ باللہ کوئی ارتداد کا فعل نہیں تھا، یا دین سے بے پروائی کا، یا رسولؐ اللہ کے ساتھ نعوذ باللہ بے احترامی کا برتائو کرنے کا کوئی تصور دُور دُور تک ان کے ذہن میں نہیں تھا، نہ ہوسکتا تھا۔ اگر وہ رسولؐ اللہ سے معاذاللہ بے پروا ہوتے تو صرف چند ماہ قبل (ہجرت کے وقت) وہ اتنا عظیم خطرہ مول ہی کیوں لیتے کہ خود جاکر مکہ سے حضوؐر کو ساتھ لے کر آئے تھے، اور ایسے ایسے پکے عہدوپیمان کیوں کرتے کہ اگر سارا عرب بھی ہمارا دشمن ہوگا اور ہم سے لڑے گا تو ہم آپ کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔
ظاہر بات ہے کہ انصارِ مدینہ کی طرف سے ایسی کوئی کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ کوتاہی سراسر اُن سے اضطراری حالت میں اور تربیت میں کمی کی بنا پر ہوئی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب اور غضب کا اظہار کرنے کے بجاے ان کی بڑی شفقت کے ساتھ تربیت فرمائی اور سمجھایا کہ یہ کام تم سے درست نہیں ہوا۔ تم کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس تجارت اور کھیل کود سے زیادہ بہتر ہے جس کی طرف تم چلے گئے تھے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے کوئی چیز افضل نہیں اور یقین رکھو کہ اللہ ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ o (الجمعۃ ۶۲: ۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے___ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔
سورئہ جمعہ مدنی ہے اور اس کے دو رکوع ہیں۔ پہلے رکوع کے مخاطب یہودی ہیں، جب کہ دوسرے رکوع کے مخاطب مسلمان ہیں۔ دونوں رکوعوں کا زمانۂ نزول مختلف ہے لیکن ایک حکمت کے تحت ان کو ایک ہی سورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ پہلا رکوع فتحِ خیبر (۷ ہجری) کے بعد کسی وقت نازل ہوا، جب کہ دوسرا رکوع ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوا۔
اس سورہ میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی ایک کوتاہی پر گرفت کی گئی ہے جس کا ظہور ان کی طرف سے نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران میں ہوا۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔ نمازِ جمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعدہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قائم کر دی گئی تھی اور جس واقعے کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ بھی ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔
مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد کچھ ابتدائی خطابات ہوئے ہیں جو سورئہ بقرہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ سورئہ بقرہ کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد یہودیوں کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی تھیں۔ بعد کی سورتوں میں بھی یہود کو جگہ جگہ خطاب کیا گیاہے۔ سورئہ جمعہ کے پہلے رکوع کا خطاب، غالباً یہودیوں سے اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے۔ قبائلِ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوششوں میں اپنے بُرے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ ان کا ایک قبیلہ (بنوقریظہ) تو بالکل برباد ہوگیا (اس کے تمام مرد حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق قتل کردیے گئے) اور دوسرے دو قبائل (بنوقینقاع اور بنونضیر) اُجڑ کر دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ خیبر ان کا سب سے بڑا گڑھ تھا جو ۷ہجری میں فتح ہوا اور اس کے بعد اُن کے دوسرے شہر بھی اسلامی حکومت کے زیرنگیں آگئے۔
اس سورت کی یہ شانِ نزول سمجھ لینے سے اس کے پہلے رکوع کا مطلب آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔
فرمایا گیا کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس خدا کی تسبیح جو بادشاہ ہے اور قدوس ہے اور زبردست ہے اور حکیم ہے۔
تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے، خواہ زبانِ حال سے خواہ زبانِ قال سے، اس بات کا اظہار اور اعلان کر رہی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور اس کا پروردگار ہر عیب، نقص، کمزوری اور خطا سے پاک ہے۔ کوئی غلطی اس سے سرزد نہیں ہوتی اور کوئی عیب اور نقص اس کے اندر نہیں ہے___ اور وہ بادشاہِ حقیقی ہے۔ زبردست ہے اور حکیم ہے۔
بادشاہ ہے، یعنی ساری کائنات کا اکیلا فرماں روا ہے اور قُدوس ہے، یعنی تمام کمزوریوں اور عیوب سے بالکل پاک ہے۔ مقدس اور مُنزّہ ہے۔ بادشاہ کے ساتھ جب لفظ قُدوس آتا ہے تو اس میں واضح طور پر یہ مفہوم آتا ہے کہ اس ہستی کو اقتدار اعلیٰ (sovereignty) حاصل ہے۔ اس کو کوئی ایسی کمزوری لاحق نہیں جس کی وجہ سے اس کے اقتدارِ اعلیٰ میں کوئی دخل دیا جاسکتا ہو۔ اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے، یعنی ایسا بادشاہ ہے جو تمام کمزوریاں اور عیوب سے مُنزّہ ہے، دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے، وہ زبردست اور غالب ہے اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، حکمت رکھتا ہے___ ان دونوں چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ بادشاہی اس چیز کا نام ہے کہ جو ہستی بھی بادشاہ ہو، اس کو اپنی رعیت پر کامل اقتدار حاصل ہو۔ کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا یارانہ ہو۔ اس کی زبان قانون ہو۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ کوئی اس کے حکم پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو۔ یہ ہے بادشاہی کا تصور___ موجودہ زمانے میں بھی، جن لوگوں نے پولیٹیکل سائنس (political science) پر لکھا ہے، یہی بات کہی ہے کہ جہاں بھی حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ ہے، بادشاہی پائی جاتی ہے، وہاں لازماً کامل اقتدار ہوگا، ایسا اقتدار جس کے مقابلے میں کسی کو چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو۔
اب آپ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس ہستی کے متعلق بھی اس طرح کے کامل اقتدار کا تصور کیا جائے اس کے بارے میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعتا غلطی سے پاک ہے؟ کیا وہ حقیقتاً بے خطا اور بے عیب ہے؟ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جو بے خطا نہ ہو اور پھر اس کو کامل اقتدار حاصل ہو اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو اور کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو، اس کی زبان سے جو نکلے وہ قانون ہو، کوئی اس کے قانون پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو تو پھر اس سے بڑا ظلم اس کائنات کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ جس کو ایسا اقتدار اعلیٰ حاصل ہو اس کو لازماً مقدس ہونا چاہیے___ اگر وہ مقدس نہیں ہے تو اس کا اقتداراعلیٰ سراسر ظلم کے ہم معنی ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف میں یہ فرماتا ہے کہ وہ الملک القدّوس ہے، بے خطا بادشاہ ہے جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔
عزیز اس کو کہتے ہیں جس کے حکم کو نافذ ہونے سے کوئی دوسری طاقت روک نہ سکتی ہو۔ جو اس کا فیصلہ ہو، لازماً نافذ ہوکر رہے۔ کسی میں یہ طاقت نہ ہو کہ اس کے فیصلے کی مزاحمت کرسکے___ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ اقتدار ایسازبردست ہو کہ اس کی مرضی ہرحال میں نافذ ہوکر رہے اور کسی میں مزاحمت کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس کے ساتھ وہ نادان بھی ہو، تو اس سے بڑا ظلم پھر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ وہ عزیز ہے اور اس کے ساتھ حکیم ہے، زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ اپنے اقتدار کو، اور جو زور اس کو حاصل ہے اس کووہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، کیونکہ بادشاہی کی اصل یہ ہے کہ وہ بے خطا اور بے عیب ہو۔
انسان بادشاہی کے ساتھ بے عیبی کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ جہاں بھی وہ بادشاہی فرض کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ لازماً یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ بالکل بے خطا ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا (king can do no wrong)، حالانکہ بادشاہ غلطی کرتا ہے۔ اس کے باوجود ان کو یہ فرض کرنا پڑا کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ کسی کو بادشاہ بھی مانیں اور یہ بھی مانیں کہ وہ غلطی کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے ایک ظالم کو شاہی کا مالک مان لیا۔ اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ کی یہ دو تعریفیں بیان فرمائی گئیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے اور دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔
اب یہ بات کہ اس سورہ کی یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی ہے، وہ آگے کے مضمون سے واضح ہوتی ہے۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۲-۳)وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود اُنھی میں سے اٹھایا، جو اُنھیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور (اس رسولؐ کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔
فرمایا گیا کہ اللہ نے اُمّیوں کے درمیان انھی میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا۔ یہودی تمام غیریہودی لوگوں کو gentile کہا کرتے تھے۔ عربی زبان میں اسی مفہوم کو اُمّی کا لفظ ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ یہودیوں کے ہاں اس کے معنی یہ تھے کہ سارے عرب جاہل ہیں، وحشی اور ناشائستہ ہیں، غیرمہذب ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مہذب انسانوں کا سا برتائو کیا جائے۔ یہودیوں کا یہ تصور دنیا کے تمام غیریہودی لوگوں کے لیے تھا اور اسی بنا پر ان کا یہ قول تھا کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْل (جسے قرآن مجید نے نقل کیا ہے)، یعنی اُمّیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہم ان کا مال کھائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہودی عدالتوں میں جو قوانین نافذ تھے، ان کے اندر ایک یہودی کے حقوق اور اُمّی کے حقوق الگ الگ رکھے گئے تھے۔ اگر یہودی کسی اُمّی کا مال چرا لے تواس کے لیے قانون اور تھا، اور اگر کوئی اُمّی یہودی کا مال چرا لے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ ایک اُمّی دوسرے اُمّی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ لیکن اگر یہودی، یہودی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اَور تھا۔ یہ ان کے تصورات تھے۔ قرآن میں یہ بات یہودیوں کے اسی طرزِعمل کے بارے میں آئی ہے۔ اسی خودساختہ تفوق کی وجہ سے یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی کیسے ہوسکتے ہیں___ کہاں یہ اُمّی قوم اور کہاں یہ نبوت اور عالم گیر ہدایت کا مقام۔ یہ شخص رسول ہو ہی نہیں سکتا، نہ ہمارے سوا کسی قوم میں رسول آسکتا ہے اور نہ ہمارے سوا کسی قوم میں اللہ کی کتاب آسکتی ہے۔ یہ ان کے غرور کا حال تھا اور اسی غرور کی بناپر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ماننے کو تیار نہیں تھے۔
ان کے اسی زعمِ باطل کو توڑنے کے لیے فرمایاگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے والا اللہ ہے۔ وہ بادشاہ ہے اور عزیز ہے، اس کو یہ اقتدارِاعلیٰ حاصل ہے اور وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ جہاں چاہے اپنا رسول بھیجے اور جس کو چاہے اپنا رسول بنائے۔ تم نہیں مانو گے تو اپنی شامت بلائوگے۔ تم اس کے حکم اور فیصلے کو جھٹلاکر اس کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ وہ قُدوس ہے اور ایسا بادشاہ ہے جو غلطی سے مبّرا ہے۔ اس نے اگر اُمّیوں میں رسول بھیجا ہے تو کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ تم نہیں مان رہے ہو تو تم غلطی کر رہے ہو۔ وہ زبردست ہے اور اس کی مزاحمت تم نہیں کرسکتے۔ جس رسول کو اس نے بھیجا ہے اس کی رسالت چلے گی تمھاری مزاحمت نہیں چلے گی۔ وہ زبردست ہے اور اس کے ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس نے یہ کام حکمت کے ساتھ کیا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں کیا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ اور عزیز ہے۔ اس کے فیصلے کی مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔اور یہ سراسر اس کی حکمت ہے کہ اس نے اُمّیوں کے اندر یہ رسولؐ پیدا کیا ہے۔
اب آگے اس حکمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ رسول بھیجا گیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ یہ قوم اس سے پہلے ضلالت میں پڑی ہوئی تھی مگر ہمارے رسولؐ کی آمد کے بعد تم دیکھ لو کہ اب اس کا کیا حال ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ(۲) ہمارا رسولؐ ان کو اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات سنانے سے مراد یہ ہے کہ وہ انھیں قرآن سنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے، یعنی ان کے دلوں میں اخلاص کی صفت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا بگڑا ہوا تمدّن، ان کی بگڑی ہوئی معاشرت اور ان کی زندگی کا بُرا ہنجار، ان سب چیزوں کو وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے درست کر رہا ہے۔ یہ اُمّی قوم جس ضلالت میں پڑی ہوئی تھی وہ بھی تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے، اور جن لوگوں نے اس نبی سے آیاتِ الٰہی کو سن کر اپنی اصلاح کی اور اس کے تزکیے سے فائدہ اٹھایا وہ بھی تمھارے سامنے ہیں۔ ان کے اخلاق بھی تمھارے سامنے ہیں اور ان کے معاملات بھی تمھارے سامنے ہیں۔ اس طرح ان کا جو تزکیہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کررہے تھے، وہ اندھے کو بھی نظرآرہا تھا۔ اس رسولؐ کی بعثت سے پہلے جاہلیت کی سوسائٹی کی جو کیفیت تھی، اور اس معاشرے میں، جو اَب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے قائم ہورہا تھا، دونوں میں جو فرق واقع ہوا ہے، وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے۔
تزکیہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کے اندر جو برائیاں ہیں ان کو دُور کیا جائے اور جو بھلائیاں ہیں ان کو نشوونما دی جائے۔ اس طرح تزکیہ کا کام دوہرا کام ہے، برائیوں کو دُور کرنا اور بھلائیوں کو ترقی دینا۔ یہ دونوں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آیاتِ الٰہی کی تعلیمات کے مطابق اس وقت علانیہ ہورہے تھے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی۔ صرف یہ بتانا کافی تھا کہ دیکھو ہمارا رسول لوگوں کو فقط آیات الٰہی ہی نہیں سنا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ بھی کر رہا ہے۔
وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (۲) وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
یہاں الکتاب کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ تمام کتب ِ آسمانی کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنی کتابیں آئی ہیں وہ قرآنِ مجید کی زبان میں الکتاب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک ہی کتاب ہے جس کے بہت سے ایڈیشن بہت سی زبانوں میں آتے رہے ہیں۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تعلیم اور ایک ہی ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس طرح لفظ الکتاب کے استعمال سے مقصود یہاں یہودیوں کو یہ بتانا تھا کہ ہمارا رسول کوئی نئی اور نرالی چیز لے کر نہیں آیا ہے بلکہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک جتنی کتب ِآسمانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں، ان سب کا علم وہ اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو دے رہا ہے۔
جو شخص بھی کتب ِ آسمانی سے واقفیت رکھتا ہو وہ بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے، اور آج بھی یہود و نصاریٰ اس بات کو مانتے ہیں، لیکن وہ یہ بات ایک دوسری زبان میں کہتے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اس بات کو مانیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی تعلیم لے کر آئے جو تمام انبیا کی تعلیم تھی، وہ اس کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سب کچھ یہود و نصاریٰ سے چرایا ہے اور اب اسے اپنی طرف سے پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کو نہیں مانتے کہ جو کچھ اسلام میں ہے وہ وہی کچھ ہے کہ جو تمام انبیا علیہم السلام اور تمام کتب ِ آسمانی کی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ یہاں بیان فرمایا گیا کہ یہ اُمّی قوم جس کو کبھی کتب ِ آسمانی کی ہوا نہیں لگی تھی ان کا علم اب اس کو اس نبیؐ کے ذریعے سے حاصل ہو رہاہے۔ اس قوم کے اندر وہی تعلیم پھیل رہی ہے جو ساری کتب ِآسمانی لے کر آئی تھیں۔
اس کے بعد چوتھی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ ہمارا رسولؐ ان لوگوں کو حکمت کی تعلیم دے رہا ہے۔ حکمت کی تعلیم کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم میں یہ دانائی پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی کے معاملات کو چلانے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت آتی ہے وہ تفصیلات (details) میں نہیں آتی، وہ جزئیات کے بجاے کلیات اور اصول پیش کرتی ہے۔ تاہم، بعض بڑے بڑے اہم معاملات میں جزئی احکام اس غرض کے لیے دیتی ہے تاکہ نشاناتِ راہ متعین ہوجائیں۔ اب جو چیز آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کتب ِ آسمانی کی ہدایات سے اصول اور کلیات اور قواعد کو سمجھ کر روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ معاملات کے اُوپر ان کا انطباق کرے اور یہ معلوم کرے کہ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کے مطابق صحیح طرزِعمل کیا ہونا چاہیے، کیا چیز غلط ہے اور کیا چیز صحیح ہے، یہ وہ حکمت ہے جو کسی قوم کو صرف باقاعدہ تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت سے ایک قوم اس قابل ہوسکتی ہے کہ جس وقت بھی اس کے سامنے دنیا کا کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اس کے بارے میں خدا کی کتاب کی ہدایات اور اس کے رسولؐ کی سنت کو سامنے رکھ کر فوراً یہ راے قائم کرلے کہ اس معاملے میں جو کئی مختلف طریق کار ہوسکتے ہیں ان میں سے کون سا طریقِ کار ایسا ہے جو دینِ الٰہی کے مزاج کے مطابق ہے اور کون سا طریق کار اس کے مطابق نہیں ہے۔
یہ وہ حکمت ہے جو اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو سکھائی تھی اور یہ اسی حکمت کا یہ نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اُمّی قوم کے یہ صحابہ کرامؓ جنھوں نے کسی یونی ورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی، کسی کالج میں نہیں گئے تھے، ان میں سے بہت سے تو کتاب خواں بھی نہیں تھے، لیکن یہ لوگ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کے حکمران بنے اور اتنی بڑی سلطنت کے جو عظیم الشان اور ہمہ پہلو مسائل ان کو پیش آئے ان سب کو انھوں نے کتابِ الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق حل کر کے اور چلا کر دکھایا۔ یہ وہی حکمت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے ایک روحِ اسلامی ان کے اندر ایسی اُتار دی تھی کہ جس کی بدولت زندگی کے جو معاملات بھی انھیں پیش آئے انھوں نے بے تکلف ان کا حل معلوم کرلیا۔
اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ اُسی کی حکمت ہے کہ اس نے ایک اُمّی قوم کے اندر اپنے رسولؐ کو بھیجا اور اس رسولؐ سے یہ کام لیا، جب کہ اس اُمّی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑی ہوئی تھی۔ علم و دانش سے بہرہ وَر ہر شخص ایک نظر میں اس قوم کو دیکھ کر یہ معلوم کرسکتا تھا کہ یہ قوم سخت گمراہی میں پڑی ہوئی لیکن اُسی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اس نبی کے ذریعے سے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے ایک مہذب اور غالب و حکمران قوم بنا دیا۔
پھر فرمایا: وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۳) ’’اور جو لوگ ابھی آکر ان سے نہیں ملے ہیں اُن کے لیے بھی اس کو رہنما اور ہادی بناکر بھیجا، اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے‘‘۔ گویا اس امر کا فیصلہ کہ خدا کس شخص کو نبی بنائے، اس پر نظرثانی کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو بدلوا سکے اور وہ حکیم ہے۔ جو کچھ اس نے کیا ہے نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ کیا ہے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (۴) یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
یہ اس حسد کا جواب ہے جو یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ حسد کی بنا پر یہ کہتے تھے کہ جاہل، وحشی اور غیرمہذب قوم کے اندر نبوت اور رسالت کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ تو صرف ہم بنی اسرائیل کے اندر ہونی چاہیے تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں ان کے حسد کا ذکر کیے بغیر فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے، اس کو اختیار ہے جس کو چاہے عطا کردے۔ اس کے فضل کے تم ٹھیکے دار نہیں ہو اور نہ اس پر تمھاری کوئی اجارہ داری ہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵) جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
یہودی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم کتب ِ آسمانی کے حامل ہیں۔ عرب قوم جاہل اور اُمّی ہے، اس کے اندر رسول آنے کا کیا کام ہے۔ اگر رسالت ہوگی تو ہمارے اندر ہوگی۔ ان کے اس فخر کا ان کو جواب دیا گیا کہ تمھارے بقول عرب کے لوگ تو اُمّی ہیں لیکن تم جو حاملِ کتاب بنے ہوئے ہو اور اس پر فخر کرتے ہو، تمھاری حالت تو جاہلوں سے بھی بدتر ہے، تم پر کتاب کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی لیکن تم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔ اس لیے اس وقت تمھاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر محض کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ اس پر کیا چیز لدی ہوئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے پاس کتابِ الٰہی موجود ہو لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتا کہ یہ کتاب اسے کیا ہدایت دیتی ہے، کس چیز سے وہ اس کو روکتی ہے اور کس راستے پر چلانا چاہتی ہے، کس راستے کو وہ انسان کی بربادی کا سبب قرار دیتی ہے اور کس راستے کو وہ فلاح کا راستہ بتاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا کتاب اُٹھائے پھرنا ایسا ہی ہے جیسے گدھا کتاب اُٹھائے پھرتا ہو۔ گدھے پر کتابیں رکھی ہوں تو اس کے اُوپر بوجھ تو ہوگا لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ان کتابوں میں کہا کیاگیا ہے۔ ایسا ہی تمھاراحال ہے کہ تم بوجھ تو اللہ کی کتاب (تورات) کا اُٹھائے پھرتے ہو اور اس پر تمھیں فخر بھی ہے لیکن درحقیقت تم کو اس کتاب سے کچھ حاصل نہیں، تم اس کتاب کے اندر کوئی بصیرت نہیں رکھتے، تمھیں کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ کتاب تم سے کیا چاہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۵) اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ گدھے کی مثال سے بھی بدتر مثال اُن لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور یہی کام اُس وقت یہود کر رہے تھے۔
جب واقعہ یہ ہے کہ جو تورات کی تعلیم تھی اسی کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہی ان کے سامنے پیش کی اور وہ یہ بات خود بھی مانتے تھے کہ یہ آیات تورات کی تعلیم کے مطابق ہیں، پھر بھی انھوں نے ان کو جھٹلایا۔ ایک تو ہے آدمی کا کسی چیز سے ناواقف ہونا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے اندر بصیرت، ایمان اور اخلاص کا ایسا فقدان ہونا کہ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اس کا انکار کردے۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ کتب آسمانی کا منشا کیا ہے،اور یا وہ اتنے خبیث اور بدطینت تھے کہ یہ جان لینے کے بعد کہ یہ رسولؐ وہی بات پیش کر رہا ہے جو ہماری کتابوں میں ہے، اس رسول کو انھوں نے جھٹلایا۔ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آکر، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے سے آئے، وہ باتیں پیش کرے جو قرآن میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ اس کی بات کو جھٹلاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔ گویا ان کا حال یہ تھا کہ جو تعلیمات تورات کے اندر موجود تھیں اور انھیں قرآن میں پیش کیا جا رہا تھا، ان کو انھوں نے جھٹلایا۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ بدترین مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ مزید فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۵)’’اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔
گویا جو شخص جان بوجھ کر، ایمان اور حق اور راستی اور انصاف کے خلاف چلتا ہے وہ ظالم ہے، اور جو لوگ یہ ظلم کریں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت انھی لوگوں کو دیتا ہے جو راہِ راست سے ناواقف ہوں لیکن اخلاص کے ساتھ راہِ راست معلوم کرنا چاہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کے لیے تیار ہوں کہ جب راہِ راست ان کے سامنے واضح ہوجائے تو بلاکسی تعصب کے اس کو قبول کرلیں، کیونکہ ان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ راہِ راست پر چلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک طرف تو راہِ راست پر خود نہ چلے اور دوسری طرف جو شخص اس کے سامنے راہِ راست پیش کرے، اس سے لڑنے کو آئے اور اس کے خلاف لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلائے، اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرے اور ہرطریقے سے اس کے راستے میں کانٹے بچھائے تووہ ظالم ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ بدطینت اور خبیث ہے۔ پھر ایسے آدمی کو راہِ راست دکھانا اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہدایت کو لیے پھرتا رہے۔ ایک شخص جب اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عداوت اور دشمنی پر اُتر آتا ہے، تو اللہ بھی پھر ایسے ظالم کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے بھٹکتا پھرے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیا ؑ اور خلفاے راشدینؓ، اورصلحاے اُمت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے، اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں ہمیشہ اپنے رفقا کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے اور آیندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔ اور فی الجملہ ہماری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و جہد میں رضاے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھرخصوصیت کے ساتھ یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اُٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتنا ہی کمزور ہوگا جتنا، خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔
ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دُنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے، اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دل چسپی میں گہرائی اورگرمجوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا، اورنفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے، اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ خوش حال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا ملک و قوم کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصان اٹھاتا ہے، قید وبند کی سختیاں جھیلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے، اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔ اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں، نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیش نظر ہے، بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اُسی کا کام سمجھ کر ہم نے اسے اختیار کیا ہے، تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آ سکتی ہے تو اسی وقت، جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلاے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں، بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہیے، اورانھیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔
اس معاملے میں ہمارے درمیان دورائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق، الحمد للہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔ البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے؟ ان سوالات کاکوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں جہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان کی منزل مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے کتنا راستہ طے کیا اور اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے، کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں، کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کاتعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا بلکہ اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنo (الانعام۶:۱۶۲) میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵) انھیں نہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے دین خالص کرکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضوؐر کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں:
خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَاتِیَۃِ، کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا۔
اور یہ کہ
اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ اَوْثَقَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ، اپنے ذرائع و وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسا اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو۔
اور یہ کہ
مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ، آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔
پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حدکو پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے اور اللہ کی خاطر ہو، اور نفسانی رغبت و نفرت کی آگ اس کے ساتھ لگی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کرلی:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانِ، جس نے اللہ کے لیے دوستی کی، اور اللہ کے لیے دشمنی کی، اور اللہ کے لیے دیا اوراللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔
پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دُعاے قنوت میں پڑھتے ہیں، اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اللہ کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ انَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ ،نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکُ ط اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنْسْجُدُ وَاِلْیکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخَشْیٰ عَذَابَک اِنَّ عَذَابَکَ الْجِدَّ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق، خدایا، ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا رکھتے ہیں، اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں ‘ کفرانِ نعمت کر نے والے نہیں ہیں۔ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقینا تیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔
پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دُعا میں پائی جاتی ہے جو نبیؐ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ اللہ کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنْبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ حَاکَمْتُ، خدایا! میں تیرا ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اورتیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔
یہ ہے ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔
اس کو پیدا کرنے کی صورت ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الہٰیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے، اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔
رہا اس تعلق کا نشوو نما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔
مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لاکر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے، اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہورہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انھی نسبتوں کو سمجھنے محسوس کرنے، یاد رکھنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب ترہونا موقوف ہے۔ آپ جس قدر ان سے غافل ہوں گے اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہوگا اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے اسی قدر آپ تعلق گہرا اورمضبوط ہوگا۔
اس طرز عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں:
۱- نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسب استطاعت نوافل بھی۔ دیگر یاد رکھیے کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ پڑھنے چاہییں تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو… نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کار یا اور کبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے جونفس مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔
۲- ذکر الٰھی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضوؐر کے تعلیم کردہ اذکار اور دُعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے، اورمعافی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔
۳- روزہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے، اور ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل حقیقت بتاتا ہے۔
۴- انفاق فی سبیل اللّٰہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی، جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسایشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کرکے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ ان اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کرکے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو توآپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوںکا موازنہ کرکے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اوربرے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔
یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے بغیر ہی آپ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے اپنے خدا سے تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے، اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنے اوقات، اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میںجا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اورجذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب اﷲ کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جوآپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں۔ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے، اور اس میں کمی ہور ہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکرمیں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر چلنے سے ملتی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمْ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o (حٰم السجدۃ ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (روداد جماعت اسلامی، ششم)
(کتابچہ دستیاب ہے، ۳۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)